مجھے یہ نہیں معلوم تھا کہ ریاست چھچھوری بھی ہوتی ہے۔ وسعت اللہ خان
فروری 7, 2024
مجھے یہ نہیں معلوم تھا کہ ریاست چھچھوری بھی ہوتی ہے۔ وسعت اللہ خان
1970الیکشن کے نتائج سے سلیکٹر نے یہ سبق سیکھ لیا ہے کہ کتنی آزادی دینی ہے وسعت اللہ
سب سے پہلے یہ ڈسکلیمر دینا چاہتا ہوں نرا صحافی ہوں میرا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں اور9مئی کے واقعات کی شدید مذمت کرتا ہوں۔ مظہر کے بارے میں عاصمہ اور ایک اور مقررہ نے کہا کہ انکی رپورٹنگ، اصول پسندی اوراس کی وجہ سے لفافے میں گولیاں بھر کے بھیجی گئیں۔ تو بھائی جب آپ لفافہ قبول نہیں کرو گے تو لفافے میں اور کیا آئے گا؟۔ یہ بھی کہا گیا کہ متوازن جرنلسٹ، غیر جانبدار جنرلسٹ ہیں میرے حساب سے جرنلسٹ کا متوازن اور غیر جانبدار ہونا یہ خوبی نہیں یہ عیب ہے۔ آپ کیسے متوازن ہو سکتے ہیں جب لوگ غیر متوازن ہوں۔ آپ کیسے غیر جانبدار ہو سکتے ہیں جب زیادتی ہو رہی ہو۔ آپ کو جانبدار ہونا پڑتا ہے اس کیلئے جس کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔ اسلئے اچھی بات یہ ہوگی کہ اگر آپ نہ متوازن ہوں نہ غیر جانبدار ہوں۔ غیر جانبدار ویسٹرن میڈیا ہے اگر غزہ ہو ورنہ وہ بھی غیر جانبدار نہیں ہوتا ہے اور پاکستان میں ایسے بہت سے ایشوز ہیں کہ میرے خیال میں وہاں صحافی کا غیر جانبدار ہونا جانبدار ہونے سے بھی زیادہ برا ہے ۔ اس میں نو گو ایریاز ہیں، انسانی حقوق کے بے شمار ایشوز ہیں، ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں ، اگر کوئی تعلق نہیں تو پھر ہمارا صحافت سے بھی کوئی تعلق نہیں سیدھی سی بات ہے ۔ سیاست ہمیشہ سے اس ملک میں100میٹر کی بجائے ایک ہرڈل دوڑ رہی ہے اور ہر دفعہ رکاوٹیں جو ہیں وہ بدل دی جاتی ہیں۔ ایبڈو لگا دیا جاتا ہے اس کے بعد ایمرجنسی لگا دی جاتی ہے اگر ایبڈو سے کام نہیں چل رہا ہے تو پہلے احتساب ہوگا پھر انتخاب ہوگا وہ چھلنی لگا دی جاتی ہے۔ اس سے کام نہ چلے تو پھر58-2Bآ جاتی ہے اس سے بھی کام نہ چلے تو62،63کے تحت جو سب سے کاذب آدمی ہے وہ میرے بارے میں فیصلہ کرتا ہے کہ میں صادق اور امین ہوں یا نہیں ۔ اس سے کام نہیں چلتا تو کہتے ہیں کہ جی ووٹر تو خیرجاہل ہیں لیکن کینڈیڈیٹ کو تو کم از کم جاہل نہیں ہونا چاہیے ۔ تو پھر ایسے ایسے گریجویٹ سامنے آتے ہیں2002میں کے بعد وہ شرط خود بخود کہیں غائب ہو جاتی ہے۔ اس سے کام نہیں چلتا تو نیب کی چھلنی میں چھن کے جاؤ گے تو ہم تمہارے ساتھ بات کریں گے اس سے کام نہیں چلتا ہے تو کہتے ہیں ٹھیک ہے آپ الیکشن میں حصہ لے لیں لیکن انتخابی نشان نہیں دیں گے۔ اس سے بھی اگر کام نہ چلے تو مجھے بتایا گیا ہے کہ بحیرہ عرب میں ایسی10،15شارکیں ہیں جو27تاریخ کو ٹھیک ساڑھے چار بجے انٹرنیٹ کی تار کاٹ دیتی ہیں۔
میرا جو بیک گرانڈ ہے وہ انٹرنیشنل ریلیشنز کا ہے مظہر جانتا ہے۔ میں نے جو ہسٹری پڑھی ہے سٹیٹس کی اس میںویلفیئر سٹیٹس پڑھی ہیں۔ فاشسٹ اسٹیٹ بھی ہوتی ہے، ہائبرڈ سٹیٹ بھی ہوتی ہے لیکن پہلی دفعہ مجھے یہ پتہ چل رہا ہے کہ چھچوری ریاست بھی ہو سکتی ہے جو چلمن سے لگی ہوئی ہے سامنے بھی نہیں آرہی ہے سیدھا سیدھا کہہ دو یار تو یہ کام نہیں کر سکتا اس میں کیا قباحت ہے ماضی میں آپ یہ کر چکے ہیں۔ اب آپ کو جو ہے نین تارہ بن کے گھونگٹ نکال کے وہی حرکتیں کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ سیدھا سیدھا سامنے آئیں ہم نے پہلے بھی صبر کیا ہم آگے بھی صبر کر لیں گے۔ ہم میں کچھ اور خوبی ہو نہ ہو لیکن صبر کی خوبی تو بڑی مثالی ہے ہم نے ایک ایک چیز کو جو ہے ایک ایک تجربے کو برداشت کر لیا ہے ہم نے تو ایسے سیاست دان بھی برداشت کر لیے ہیں جن کے لیے ایک کی مصیبت دوسرے کے لیے سنہری موقع بن جاتی ہے اور وہ یہ سوچے بغیر کہ کل وہ بھی اس شکنجے میں آ جائیں گے وہ بقول فراز کے کہ
بس اس قدر تھا کہ دربار سے بلاوا تھا گدا گرانے سخن کے ہجوم سامنے تھے
رول انکے چینج ہوتے ہیں پھرآخر میں مجبور دلہن بن کے وہ سائن کر دیتے ہیں جو کاغذ سامنے پڑا ہو۔ یہ جو جسے ہم کہتے ہیں اسٹیبلشمنٹ یا عسکری قیادت یا ہائبرڈ سسٹم یا طالع آزما کچھ بھی کہہ لیں۔ یہ درست ہے کہ70کے الیکشن نسبتاً پہلی دفعہ ون مین ون ووٹ کا مزہ چکھ رہے تھے عوام بھی اور حکمران بھی تو دونوں کو نہیں پتہ تھا کہ کیا کرنا ہے تو انہوں نے بھول پن میں جو ان کے دل میں آیا کہ جی یہ اچھا ہے اس کو ووٹ دے دیا۔ جب گڑبڑ ہو گئی تو اس کا تو وہ کچھ نہیں کر سکتے تھے تیر کمان سے نکل چکا تھا انہوں نے کہا آئندہ یہ نہیں ہونے دیں گے۔ ایوب خان بالکل درست تھا ان لوگوں کو ووٹ دینے کی بالکل تمیز نہیں ہے اسی لیے بیسک ڈیموکریسی کی لیبارٹری سے ان لوگوں کو گزارنے کی کوشش کی لیکن ان کو ککھ عقل نہیں آئی ۔ لہٰذا ہم ان کو فیصلہ کرنے دیں گے بیلٹ ڈالنے کی حد تک لیکن جو اصل فیصلہ ہے وہ ہم ہمیشہ شام کو پانچ بجے پولنگ کے خاتمے کے بعد کریں گے۔ تو یہ فارمولا موٹا موٹا سا طے ہو گیا اور انکو شاید کسی نے یہ مقولہ بھی بتا دیا ہو کہ کتنے ووٹ پڑے اس کی اہمیت نہیں ہوتی، کتنے گنے گئے اس کی اہمیت ہوتی ہے تو یہ کم و بیش آپ کو فارمولا۔ اس میں یہ ہے کہ کبھی91،93،97،2002،2008،2013،2018اور2024کبھی نمک تیز ہو جاتا ہے مرچ ہلکی کر دیتے ہیں کبھی مرچ اور نمک جو ہے تیز کرنا پڑتا ہے وہ حالات کے حساب سے جو ہے وہ دیکھ لیا جاتا ہے۔ تو اس دفعہ بھی یہی ہوگا اور ایک اور چیز جو سیکھی گئی تھی70کے الیکشن کے نتائج سے کہ اب کسی کو کھلا ہاتھ نہیں دینا ہے۔ بھٹو صاحب نے بہت تنگ کیا تھا انہیں شروع شروع میں تو اب جو ہے جو بھی بنے گا اس کے ساتھ چھوٹے چھوٹے مقناطیس لگا دیے جائیں گے علاقائی پارٹیوں کی شکل میں چھوٹی قومی پارٹیوں کی شکل میں مذہبی تنظیموں کی شکل میں اور وہ مقناطیس جو ہیں وہ بیلنس آف پاور جو ہیں وہ قائم رکھیں گے۔ کسی نے کہا تھا کہ ہماری جو ہیں دو ایکسپورٹس ہیں ایک تو کپاس ہے اور دوسری ہے ہائی براڈولرجی تو اب دیکھتے ہیں کہ آگے کیا ہوتا ہے سہیل وڑائچ نے آپ کی کتاب میں جو لکھا ہے تبصرہ اس میں انہوں نے لکھا ہے کہ مظہر عباس کا سینہ رازوں سے بھرا ہوا ہے اب وقت آگیا ہے کہ وہ مرتضی بھٹو کے قتل، بے نظیر بھٹو سے ملاقاتوں اورMQMکی اندرونی کہانیوں اور لڑائیوں کا احوال بھی لکھیں۔ ابھی جب سہیل وڑائچ صاحب آئیں گے یہ دیکھیں میں نہیں کہہ رہا عوام تک بات پہنچ گئی ہے جو میں نے بغیر تبصرے کے آپ کو بتا دی تو سر ابھی انہیں کتابیں لکھنے دیں ۔ ایک زمانے میں جو ہے ایک لطیفہ بھی تھا بلکہ فاروق ستار صاحب کی مناسبت سے ہی وہ مشہور ہوا تھا اب چونکہ2015میں یہ اس لیے میں سنا سکتا ہوں وہ یہ تھا اچھا لطیفہ لطیفہ ہوتا ہے یعنی تردید مت کیجیے گا کہ یہ حقیقت تھی حقیقت نہیں تھی یہ لطیفہ ہے کہ جی فاروق ستار صاحب نے اعلان کیا ہے کہ وہ مسلم لیگ نون میں شامل ہو رہے ہیں ان کی نماز جنازہ کل سہ پہر ساڑھے چار بجے ادا کی جائے گی آئی ایم سوری یہ اس زمانے میں تھا تو یہاں جو چیزیں ہیں وہ اس طرح چلتی ہیں یہ جو آپ کو دیوانے نظر آتے ہیں بظاہر ہو سکتا ہے یہ دیوانے نہ ہوں ہو سکتا ہے آپ کو یہ دیوانے بنانے کے لیے دیوانے بنائے گئے ہوں۔ تو یہ ساری چیزیں جو ہیں یہ پیش نظر رہنی چاہئیں اور8فروری کوآپ بھرپور انداز میں ووٹ دیجئے اور9مئی کے واقعات کی مذمت کرتے رہئے۔
اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ فروری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
لوگوں کی راۓ