نثار عثمانی نے صحافت میں سکھایا کہ وقت پر سچ بولا جائے۔ مظہر عباس - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

نثار عثمانی نے صحافت میں سکھایا کہ وقت پر سچ بولا جائے۔ مظہر عباس

نثار عثمانی نے صحافت میں سکھایا کہ وقت پر سچ بولا جائے۔ مظہر عباس اخبار: نوشتہ دیوار

نثار عثمانی نے صحافت میں سکھایا کہ وقت پر سچ بولا جائے۔ مظہر عباس

جنرل حمید گل نے بتایا کہ1988میں جرنیلوں کو خطرہ تھا کہ بینظیر دو تہائی اکثریت لے گی

میں رضا ربانی، سہیل وڑائچ،زبیر صاحب کا ڈاکٹر ریاض شیخ ،وسعت اللہ خان، احمد شاہ اورآپ سب کا بے انتہا شکر گزار ہوں ۔ابھی میں سہیل صاحب سے بھی یہی کہہ رہا تھا کہ مجھے امید نہیں تھی کہ کسی کتاب کے لانچنگ میں ہال بھرا بھی رہ سکتا ہے۔ تو سہیل صاحب نے کہا کہ آپ کو اپنی مقبولیت کا اندازہ ہی نہیں ہے۔ کتاب کا عنوان ”سلیکٹر سے سلیکٹڈ” تک یہ الفاظ ہماری سیاست میں نایاب تھے لیکن چند سالوں میں اس میں اضافہ ہو گیا اور جب یہ الفاظ آئے تو اس کی ایک خاص وجہ تھی اس کے بعد امپائر کی اصطلاح بھی آئی وکٹ کے دونوں طرف کھیلنا یہ اصطلاح بھی آئی اور کرکٹ کی تمام اصطلاحیں آئیں کیونکہ کرکٹر سیاست میں آگیا۔ جس کا ابھی اکرم ذکر کر رہے تھے اکرم قائم خانی سے اتنی پرانی دوستی اور اتنی گہری دوستی ہے کہ جب یہ انڈر گراؤنڈ تھے تو انہوں نے اپنا نام مظہر عباس رکھ لیا تھا۔ میں نے کہا یار آپ مجھے بتا تو دیتے کہ آپ نے یہ نام رکھا۔ تو انہوں نے کہاآپ یقین جانیں کہ جب واپس آیا ہوں اور مرتضی بھٹو اگر زندہ ہوتے تو وہ مجھے اکرم قائم خانی سے نہیں مظہر عباس کے نام سے پہچانتے ۔ بہت حسرت تھی جب ہم سٹوڈنٹ لائف میں تھے کہ اس ملک میں جمہوریت پائیدار ہو مضبوط ہو طاقتور ہو ۔ہم نے آزادی صحافت کیلئے نثار عثمانی، پیکر نقوی جیسے لوگوں کو اسٹرگل کرتے دیکھا تھا کہ جب وہ اپنے گھر سے گرفتاری دیتے تھے عثمانی صاحب کا ذکر کروں گا جن سے میں نے بہت کچھ سیکھا ۔وہ کہتے تھے کہ سچ وہ ہے جو وقت پر بولا جائے اور انہوں نے حاکم وقت کے سامنے بھی وقت پر سچ بولا تو وہ جب جا رہے تھے جیل گرفتاری کے لیے تو ان کی جو بیوی کی آنکھیں کمزور تھیں اور جب وہ جیل سے واپس آئے تو صرف ان کی آواز سے وہ ان کو پہچان سکیں۔ جب وہ جیل گئے تو جیلر سے کہا کہ دیکھو مجھے قیدیوں کا لباس لا کے دو اور مجھے بتا ؤکہ مشقت کیسے کرنی ہے؟۔ تو جیلر نے کہا عثمانی صاحب آپ لوگ بڑے کازکیلئے اسٹرگل کر رہے ہیں آپ کیوں مجھے شرمندہ کرتے ہیں۔ یہ تو ہوتا رہتا ہے۔ انہوں نے کہا نہیں مجھے قید با مشقت ہوئی ہے لہٰذا مجھے تمہیں مشقت کا بھی بتانا ہے اور قیدی کا لباس بھی لا کر دینا ہے۔ یہ وہ پلرز تھے جن کو دیکھتے ہوئے ہم نے صحافت کا آغاز کیا۔ پیکر نقوی رات کو بسوں میں جاتے تھے کیونکہ لانڈھی کورنگی میں رہا کرتے تھے اتنی دیر سے جاتے تھے کہ بسوں کا ٹائم ختم ہو جاتا تھا تو وہ وہیں سو جاتے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو صحافت کی آبرو تھے اور یہ لوگ آزادی صحافت کیلئے اسلئے سٹرگل کر رہے تھے کہ یہ سمجھتے تھے اور ہم بھی سمجھتے تھے کہ آزادی جمہوریت آزادی صحافت کے بغیر ممکن نہیں۔ تو جس ملک میں آج تک جمہوریت نہیں آئی ہو اس ملک میں آزادی صحافت کیسے آ سکتی ہے؟۔ سلیکٹرز کون رہے ہمارے ملک میں1954میں جگتو فرنٹ نے دو تہائی اکثریت حاصل کی اور مغربی پاکستان کی لیڈرشپ نے اسے قبول نہیں کیا اس حکومت کو برطرف کردیا گیا۔ اس ملک کا پہلا سلیکٹر ایوب خان تھا جنہوں نے اپنے ہی آپ کو سلیکٹ کیا۔ اور یہ پھر تسلسل چلتا رہا کبھی سلیکٹرز اپنے آپ کو سلیکٹ کرتے تھے تو کبھی اپنی سلیکشن ٹیم کو سلیکٹ کرتے تھے ۔اور اگر کوئی قابل قبول نہیں ہے تو وہ ملک توڑنے کی بھی پرواہ نہیں کرتے تھے اور بالآخر ہم نے دیکھا کہ آدھا ملک الگ ہو گیا تو اس کتاب کا عنوان یہی ہے کہ اس ملک کے سلیکٹرز یہاں سیاسی جماعتیں بناتے ہیں سیاسی جماعتیں توڑتے ہیں حکومتیں بناتے ہیں حکومتیں توڑتے ہیں۔ کبھی کوئی بدعنوان ہو جاتا ہے اور پھر وہی اہل ہو جاتا ہے ، اسی وجہ سے اس ملک میں جمہوریت مضبوط نہیں ہوئی۔ اس کتاب کو لانے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کیونکہ اب الیکشن ہونے والے ہیں 8فروری کو، کہنے کو الیکشن ہے لیکن یہاں بیٹھے ہال میں تقریبا ہر آدمی کو پتہ ہے کہ سلیکشن ہونے جا رہا ہے۔ تو جس واقعے کا احمد شاہ نے ذکر کیا ہم وہی حسرت لیے وہی ڈریم لے کے چلے تھے ۔گاؤں دیہاتوں میں گئے لوگوں سے بیٹھ کے بات کی نوابشاہ ، لاڑکانہ، ملتان ، رحیم یار خان ،فیصل آباد تو میں نے کہا کہ بائی روڈ چلیں کیونکہ11سال کے بعد اس ملک میں جمہوریت آرہی ہے اور پھر ہم لاہور پہنچے لاہور پہنچے تو بے نظیر بھٹو نے مجھ سے کہا کہ کیا سچویشن ہے؟۔ میں نے کہا وہاں تو سب ہار رہے ہیں۔ کہنے لگیں تمہارا کیا مطلب ہے؟۔ میں نے کہا جتوئی، پیر پگاڑا ، سلطان چانڈیو سب ہار رہے ہیں۔ اس نے کہا کیسے ہو سکتا ہے پیر پگاڑا ہار جائے۔ میں نے کہا کیونکہ اس کے پیر ہم سے کہہ رہے ہیں کہ یہ ووٹ بھٹو کا ووٹ ہے ظاہر ہے بھٹو کو پھانسی ہوئی تھی88میں۔ میں نے کہا جتوئی کے گاؤں دیہات میں ٹریکٹر چلانے والے کے ٹریکٹر پر پیپلز پارٹی کا جھنڈا لگا ہوا تھا اس نے کہا ہم نے سائیں سے کہہ دیا یہ ووٹ بھٹو کا ووٹ ہے۔ ادھر جب ہم پہنچے تو ہم نے دیکھا وہاں سب سے پہلے اسلامی جمہوری اتحاد کا جلسہ ہو رہا تھا واحد وہ جلسہ تھا جس میں پریزیڈنٹ فورٹ اور بیگم نصرت بھٹو کے ڈانس کی تصویریں سپیشل ہیلی کاپٹر سے گروائی گئی تھیں۔ وہاں مجھے پھر اندازہ ہوا کہ یہ الیکشن نہیں ہو رہا۔ کچھ سالوں بعد جنرل حمید گل سے انٹرویو کیا اور جنرل حمید گل سے میں نے پوچھا کہ آئی جی آئی کیوں بنائی آپ نے؟۔ تو اس نے کہا مظہر صاحب86میں جب بے نظیر آئی تھی تو فوج کے کئی جنرل پریشان ہو گئے تھے کہنے لگے کہ یہ تو بہت خوفناک صورتحال ہے یہ تو دو تہائی اکثریت لے جائے گی تو ہم نے الیکشن کو مینج کیا اور آئی جی آئی بنائی۔88میںIJIبنتی ہے90میں اصغر خان کیس سامنے آتا ہے93میں ایک جنرل صاحب سب کو بٹھا کے پریزیڈنٹ اور پرائم منسٹر ریزائن کرتا ہے اور یہ سلسلہ آج تک چل رہا ہے۔ ایک مضمون میں میں نے لکھا کہ جب تک سلیکٹرز عوام نہیں ہوں گے اس وقت تک اس ملک میں الیکٹڈ لوگ نہیں آئیں گے جس دن عوام سلیکٹرز بن گئے اس دن الیکشن کو ہم سب مان لیں گے۔ تو میری کتاب کا محور یہی ہے کہ ہمیں انتظار کرنا چاہیے ایک اچھے الیکشن کا یہ نہیں کہ ہمیں ووٹ نہیں دینا چاہیے ہمیں ووٹ دینا چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ سلیکشن کو ہم الیکشن میں تبدیل کر دیں جس دن عوام نے سلیکشن کو الیکشن میں تبدیل کر دیا تو صحیح معنوں میں اس ملک میں جمہوریت آجائے گی اس ملک میں جمہوریت صحیح معنوں میں آگئی تو آزادی صحافت کا وہ مشن بھی مکمل ہو جائے گا جو نثار عثمانی ایم اے شکور صاحب نے شروع کیا تھا۔ آج ہی ابھی جب ہم آ رہے تھے تو یہ خبر آئی کہ65یوٹیوبرز کو بشمول407جنرلسٹ ان کو نوٹسFIAنے دیے ۔ پرنٹ پر پریشر ہے الیکٹرانک میڈیا پہ پریشر ہے ڈیجیٹل میڈیا پہ پریشر ہے۔ ایسے میں اس ملک کا وزیراعظم کیسے یہ کہہ سکتا ہے کہ اس ملک میں آزادی اظہار ہے۔ تو میرے خیال میں میں یہاں لوگوں سے اسی لیے میں نے اسے ایک ابتدائیہ کے طور پہ پیش کیا اتنے پرانے پرانے ہمارے سیاسی کارکن آئے ہوئے ہیں جنہوں نے جیلیں کاٹ لی ہیں جنہوں نے شاہی قلعہ کاٹا جنہوں نے ٹارچر برداشت کیا ایک خواب کے لیے اور آج بھی وہ خواب خواب ہی ہے ہم جس جگہ کھڑے ہیں آرٹس کونسل میں اوربڑے سال لگے اس آرٹس کونسل کو بنانے میں اور اب اتنا وائبرنٹ ہے کہ میں نے ابھی احمد شاہ سے کہا کہ ایسا بنے گا پاکستان تو چلے گا پاکستان بہت بہت شکریہ

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ فروری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟