پوسٹ تلاش کریں

سیاسی جماعتیں اپنی غلطیوں پر کم از کم معافی تومانگ لیں۔ سہیل وڑائچ

سیاسی جماعتیں اپنی غلطیوں پر کم از کم معافی تومانگ لیں۔ سہیل وڑائچ اخبار: نوشتہ دیوار

سیاسی جماعتیں اپنی غلطیوں پر کم از کم معافی تومانگ لیں۔ سہیل وڑائچ

جماعت اسلامی ضیاء الحق کیBٹیم اور نواز شریف فوجی گاڑی میں بیٹھ کر مخالف کو کچل رہا ہے

بہت شکریہ میںآج صبح لاہور سے آیا ہوں آپ اہل کراچی کیلئے سلام محبت لے کے آیا ہوں اور مجھے خوشی ہے کہ کراچی بدل گیا مجھے یاد ہے کہ میں کراچی آتا تھا تویہ وائلنس میں پوچھتا تھا کون کرتا ہے وہ کہتے تھے یہ پتہ نہیں کون کرتا ہے ہمیں پتہ نہیں چلتا ۔ تو بات یہ ہے کہ شکر ہے کچھ انہیں پتہ چلا ہے کراچی کے لوگوں کو کہ وائلنس کون کرتا ہے اور کہاں سے ہوتی ہے۔ جب کتاب کی لانچنگ ہوتی ہے تو ہم کہتے ہیں یہ آج شادی کی تقریب ہے مظہر عباس لاڑا ہیںیہ انکی شادی کی تقریب ہے۔ کتاب کو میں بہت اہم سمجھتا ہوں اور میں سمجھتا ہوں ۔میری تقریر کے دو حصے ہیں ویسے تو ایک ہی تھا صحافت لیکن چونکہ سیاست کی بات چھڑی ہے تو وہ میں دو منٹ کے لیے مؤخرکر کے پہلے صحافت پہ بات کر لیتا ہوں۔ مظہر عباس آئیڈیل صحافی دنیائے صحافت میں کسی بھی مکتبہ فکر کو دیکھ لیں مظہر عباس آئیڈیل صحافی کی تعریف پر پورا اترتے ہیں۔ وہ صدارتی محل میں ہوں یا وزیراعظم کے ہم نشین یا لیاری کی غریب بستیوں میں انکے اندر کا صحافی ہر وقت جاگتا رہتا ہے۔ وہ نہ حکمرانوں کے دبدبے سے متاثر ہوئے اور نہ ہی جابروں کی دھمکیوں سے وہ اپنی دھن میں وہی کہتے ہیں جو انہیں کہنا چاہیے۔ انہیں اپنے قلم اور اپنی زبان پر مکمل کنٹرول ہے۔ وہ نہ کسی کی مخالفت میں حدیں پار کرتے ہیں نہ کسی کی حمایت میں چاپلوسی اور خوشامد اختیارکرتے ہیں۔ مظہر عباس زمانہ طالب علمی سے بائیں بازو کی نظریاتی سیاست میں متحرک رہے۔ بائیں بازو سے منسلک رہنے والے لوگ لازمی طور پر صاحب مطالعہ ہوتے ہیں ان کا دنیا کا ویژن بڑا واضح اور عوام دوست ہوتا ہے مظہر عباس انہی خوبیوں سے مزین ہو کر میدان صحافت میں اترے وہ عملی صحافت میں آئے تو اس وقت کراچی پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا ہار تھا ایک طرف ضیاء آمریت کے ظلم کا شکار پیپلز پارٹی تھی تو دوسری طرف اردو بولنے والوں کی محرومیوں کی نمائندہMQMتھی۔ مظہر عباس اس مشکل وقت میں دونوں مخالف جماعتوں میں ہمیشہ محترم رہے حالانکہ وہ دونوں پر تنقیداور غلطیوں کی نشاندہی بھی کرتے رہے۔ انہیں لٹریچر کا تڑکا لگا ہے۔ انہیں ساری بڑی اردو شاعری ازبر ہے فیض کا ذکر ہو یا جوش کا ہندوستان کے اندر لٹریری رجحانات ہوں یا پاکستان میں شائع ہونے والی نئی کتابیں مظہر عباس اپڈیٹڈ ہوتے ہیں۔ مظہر عباس کا سینہ رازوں سے بھرا ہوا ہے وقت آگیا کہ وہ مرتضی بھٹو کے قتل ،بے نظیر سے گفتگو اور ایم کیو ایم کی اندرونی کہانیوں اور لڑائیوں کو لکھیں تاکہ پاکستان کی سیاسی تاریخ مکمل ہو سکے ۔یہاں پر بڑے ماشااللہ سارے لوگ جتنے سٹیج پہ بیٹھے ہیں محترم ہیں لیکن شروع کرتے ہیں زبیر صاحب نے آ کر جمہوریت کی بات کی لیکن یہ بھول گئے کہ ان کے والد محترم جنرل غلام عمر وہ پاکستان کو جو آج اس جگہ کھڑا ہے فوج کے کردار کی وجہ سے اس میں وہ پلر تھے جنہوں نے سب سے پہلے پیپلز پارٹی، عوامی لیگ اور اس وقت کے عوامی نمائندوں کے خلاف سازشیں کیں پیسے بانٹیں اور ان کا ثبوت موجود ہے۔ پہلے تو انہیں ان سے برأت کا اعلان کرنا چاہیے کہ یہ غلط تھا پھر جمہوریت آئے گی ناں۔ بھئی آپ ہی نے تو جمہوریت کا بیڑا غرق کیا اور آپ ہی کہہ رہے ہیں کہ جناب جمہوریت ہونی چاہیے۔ جماعت اسلامی ماشااللہ جمہوریت کی بات کررہی ہے۔ اوبھائی آپ تو مارشل لاء کیBٹیم اور جنرل ضیاء الحق کے ساتھی،افغان جہاد کے سب سے بڑے علمبردار تھے۔ پاکستان کو تباہ کرنے میں آپ کے نظریات کا کردار تھا۔ کم از کم یہ تو کہیں کہ یار ہم نے ماضی میں بڑی غلطیاں کی ہیں آپ کون سے الیکشن کراتے ہیں۔ مجلس شوریٰ نام دیتی ہے جیسے ایران میں ہوتا ہے تو ان ناموں کو آپ ووٹ دیتے ہیں یہ کون سا الیکشن ہے۔ زبیر صاحب آپ کے والدجنرل غلام عمر کابھی پاکستانی سیاست کو گندا کرنے میں، سیاسی جماعتوں کو نقصان پہنچانے میں بہت بڑا کردار تھا، جنرل یحییٰ خان کے ایڈوائزر تھے اور انہوں نے پیسے بانٹے سیاست دانوں میں۔ تو آپ کو بھی ان کے غیر جمہوری کردار سے برأت کا اعلان کرنا چاہے۔ جناب فاروق ستار اورMQMسے گزارش یہ ہے کہ کراچی سب سے پڑھا لکھا شہر ،سارے آپ لوگ پڑھے لکھے کیا کرتے رہے ہیں ؟۔ الطاف بھائی کے کہنے پہ وائلنس کو سپورٹ کرتے رہے ،لوگوں کو مارنے کو سپورٹ کرتے رہے ان کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے آپ کو کچھ خیال نہیں آیا کہ آپ میںکوئی تعلیم، کوئی عقل ہے کچھ خیال نہیں آیا ؟۔ تو بھائی آپ بھی کم از کم شرمندہ تو ہوں۔ زبیر صاحب سے مسلم لیگ ن کے آپ گورنر رہے ہیں تو سن لیں۔ بھئی گزارش یہ ہے کہ جو کام عمران خان نے2018میں کیا اس دفعہ آپ وہ کر رہے ہیں۔ بھئی وہ اسٹیبلشمنٹ کی گاڑی میں بیٹھ کے آیا تھا اور سب کو روند کے انہوں نے اس کو وزیراعظم بنا دیا اب آپ یہ کر رہے ہیں تو بھائی کیسے جمہوریت آئے گی؟۔ آپ سارے تو استعمال ہوتے ہیں۔ اگر تنقید کرتے ہیں تو سب نے میڈیا پہ پابندیاں لگائی ہیں۔ بھئی آپ بھی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں۔ پیپلز پارٹی، بھئی آپنے دو لیڈرشپ کی قربانیاں دیں بڑی بات ہے واحد پارٹی ہے جس نے اپنے لیڈرشپ کی قربانی دی لیکن اب آپ کیا کر رہے ہیں اب آپ تو فوج کے سیکنڈ کیا، تھرڈ کمانڈ کے سامنے بھی جھک کے آپ سیاست کر رہے ہیں۔ کیا یہ عوامی سیاست ہے ؟۔ آپ اس سے محروم طبقات کو فائدہ دیں گے؟۔ تو بھائی بنیادی بات یہ ہے کہ ہم تو آپ سیاست دانوں کے ہمیشہ خیر خواہ رہے میں نے اپنی زندگی بھر کسی سیاست دان پر کبھی الزام نہیں لگایا کبھی کوئی اس کا سکینڈل نہیں کیا کیونکہ میں سیاست دانوں کی عزت کرتا ہوں لیکن سیاسی جماعتوں کا کیا یہی کردار ہونا چاہیے ہمارے معاشرے میں؟۔ کیا یہی جمہوری کردار ہے؟۔ ہرگز نہیں! مظہر عباس اور میں اس کو نہیں مانتے۔ اور ہم نہیں مانیں گے تھینک یو ویری مچ۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ فروری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟