پوسٹ تلاش کریں

عورت کو خلع کا حق نہ ملنے کے وہ بہت خطرناک نتائج جن کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا (پارٹ 4)

عورت کو خلع کا حق نہ ملنے کے وہ بہت خطرناک نتائج جن کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا (پارٹ 4) اخبار: نوشتہ دیوار

عورت کو خلع کا حق نہ ملنے کے وہ بہت خطرناک نتائج جن کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا (پارٹ 4)

البقرہ232اور اس کی تحریف میں عورت کی اذیتیں؟

اللہ نے فرمایا:اور جب تم نے طلاق دی عورتوں کو ، پس وہ پورا کرچکیں اپنی عدت تو اب ان کو مت روکو کہ وہ اپنے شوہروں سے نکاح کریں جب وہ آپس میں معروف طریقے سے راضی ہوں۔ یہ نصیحت اس کو کی جاتی ہے تم میں سے جو اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور آخرت کے دن پر اور اس میں تمہارے واسطے زیادہ تزکیہ اور زیادہ طہارت ہے۔ اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ (البقرہ :آیت232)
اس آیت میں یہ بھی واضح کردیا کہ اگر طلاق کے بعد ایک اچھی خاصی مدت گزر چکی ہو اور عورت کو اپنے شوہر کے پاس جانا ہو تو اللہ کی طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں ہے اور دوسرے لوگ بھی اس میں کوئی رکاوٹ کا کردار ادا نہ کریں۔ آج اگر یہ مہم چل جائے تو بہت سارے جوڑوں ، ان کے بچوں ، خاندانوں اور معاشروں کی زندگی میں زبردست انقلاب برپا ہوجائے گا۔ اور اسی میں معاشرے کیلئے تزکیہ بھی ہے اور پاکیزگی بھی۔ لیکن یہ ان کیلئے ہے جو اللہ اور آخرت پر ایمان بھی رکھتے ہوں۔ عورتوں کو جس کی وجہ سے اذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ تمام معاملات ایک ایک کرکے اللہ نے حل کردئیے ہیں۔
سورہ بقرہ کی آیت233میں میاں بیوی کی جدائی کے احکام ہیں۔ جس میں بچوں کے خرچے کی ذمہ داری باپ پر ڈالی گئی ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ ”ماں کو اس کے بچے کی وجہ سے ضرر نہ پہنچائی جائے اور نہ باپ کو بچے کی وجہ سے ضرر پہنچائی جائے”۔ اور جو ذمہ داری بچے کے خرچے کی باپ پر ہے اسکے وارث پر بھی اس کے مثل ہے۔ افسوس کہ قرآن میں ذمہ داریوں کا ذکر ہے اور مذہبی طبقے کی وجہ سے عدالتوں میں لڑائی ہوتی ہے اور باپ کو بچے کا مالک قرار دے کر ماں کو محروم کردیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ سراسر غلط ہے۔ بچہ کسی کی ملکیت نہیں ہوتا۔ تعلیم و تربیت ، رضاعت اور خرچے کے لحاظ سے ماں باپ پر جو ذمہ داریاں ہوتی ہیں وہ بھی عیاں ہیں اور جب بچہ بڑا بنتا ہے تو اس کی ذمہ داری والدین کو سنبھالنا ہوتی ہے۔ ایک طرف عورت کو طلاق دیکر اس کے تمام مالی حقوق سے اس کو محروم کردیا جاتا ہے دوسری طرف اس کا لخت جگر بھی اس سے چھین لیا جاتا ہے۔60،60سال کے بعد بھی بیٹا اپنی ماں سے جدائی کے بعد ملتا نظر آتا ہے۔ریاستی جبر و تشدد کا رونا رونے والامعاشرہ حق بجانب ہے لیکن معاشرتی نظام پر کوئی توجہ دینے والا نہیں ہے۔ جب باپ اپنے بچوں کو ان کی ماں سے دور کرنے کی سزا دے سکتے ہیں تو پھر ریاستی نظام سے شکوہ کرنا بنتا ہے ؟۔لیکن اس کے اوپر کوئی توجہ بھی دے گا؟۔ یہ مشکل ہے۔
سورہ بقرہ کی ان تمام آیات میں جتنا بڑا سبق معاشرے کو دیا گیا ہے وہ سب کچھ تلپٹ کردیا گیا ہے اور اس میں احادیث صحیحہ کو بالکل غلط انداز میں پیش کرکے مسائل بگاڑے گئے ہیں۔ اگر ان کو صحیح پیش کیا جائے تو خواتین پرہی نہیں مسلمان معاشرے پر بھی اس کے بہت دور رس اثرات پڑیں گے۔
ان آیات کا خلاصہ سورہ طلاق کی پہلی دو آیات میں بھی طلاق کے حوالے سے موجود ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے نبی ! جب تم لوگ عورتوں کو چھوڑو تو ان کو عدت تک کیلئے چھوڑ دو۔ اور عدت کا احاطہ کرکے شمار کرو۔ اور اللہ سے ڈرو جو تمہارا رب ہے۔ ان کو مت نکالو ان کے گھروں سے اور نہ وہ خود نکلیں مگر جب کھلی فحاشی کا ارتکاب کریں۔ اور یہ اللہ کی حدود ہیں اور جو اللہ کی حدود سے تجاوز کرے تو اس نے اپنے نفس کے ساتھ ظلم کیا۔ تمہیں خبر نہیں شاید اللہ اس اختلاف کے بعد موافقت کی کوئی صورت پیدا کرلے۔ اور جب وہ پہنچے اپنی عدت کو تو ان کو معروف طریقے سے رکھ لو یا معروف طریقے سے الگ کردو۔ اور گواہ بنادو اپنے میں سے دو عادل افراد کو۔ اور گواہی دو اللہ کیلئے۔ یہی ہے جس کے ذریعے سے نصیحت کی جاتی ہے اس کو جو ایمان رکھتا ہے اللہ اور آخرت کے دن پر اور جو اللہ سے ڈرا تو وہ اس کیلئے نکلنے کا راستہ بنادے گا۔ (سورہ طلاق:آیت1،2)۔
حضرت رکانہ کے والد نے رکانہ کی ماں کو طلاق دی اور پھر دوسری عورت سے شادی کی۔ اس عورت نے نبی ۖ سے شکایت کی کہ اس کے پاس بال کی طرح چیز ہے۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ رکانہ کے بچے اس سے کس قدر مشابہ ہیں۔ اس عورت کو طلاق دینے کا فرمایا اور پھر رکانہ کی ماں سے رجوع کرنے کا پوچھا۔ انہوں نے کہا کہ وہ تو 3طلاق دے چکا ہے۔ نبی ۖ نے فرمایا: مجھے معلوم ہے اور پھر سورہ طلاق کی ابتدائی آیات تلاوت فرمائیں۔ (ابوداؤد شریف)۔ طلاق کے حوالے سے فقہاء نے اپنی کتابوں میں اتنا گند بھرا ہے کہ اگر ایک طرف قرآن و احادیث کا واضح نقشہ ہو اور دوسری طرف اس گند کو عوام کے سامنے پیش کیا جائے تو خطرہ ہے کہ وہ مشتعل ہوکر مساجد اور مدارس میں علماء و مفتیان پر پل پڑیں گے۔ ہماری علماء و مفتیان سے گزارش ہے کہ قرآن و سنت کی طرف جلد از جلد لوٹ آئیں۔

بشریٰ بی بی کو عدت میں نکاح پر عدالتی سزا کا مسئلہ

قرآن و سنت میں عدت کے حوالے سے جو بھرپور وضاحتیں ہیں افسوس کہ مدارس کا نصاب اس میں ہدایت سے زیادہ گمراہی پھیلارہا ہے۔ قرآن میں سب سے پہلی عدت ایلاء یا ناراضگی کی صورت میں ہے۔ جس میں طلاق کی وضاحت نہ ہو۔ آیت226البقرہ میں بالکل واضح ہے اور یہی وہ عدت ہے جس کی وجہ سے دورِ جاہلیت میں بھی خواتین کو بڑی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور آج بھی خواتین اس سے دوچار ہیں۔ اگر طلاق کا اظہار شوہر نہیں کرتا تو ساری زندگی عورت اس کے انتظار میں بیٹھی نہیں رہے گی بلکہ4ماہ اس کی عدت قرآن میں واضح ہے۔ پھر طلاق واضح الفاظ میں دینے کی وضاحت آیت228میں واضح ہے۔ جس میں طہرو حیض کے3ادوار ہیں ۔ اور حیض نہ آتا ہو یا اس میں ارتیاب یعنی شک کمی و زیادتی کا مسئلہ ہو تو پھر عدت3ماہ ہے۔ عورت کو ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دی جائے تو اس کی کوئی عدت نہیں ہے۔ بیوہ کی عدت4ماہ10دن ہے۔ سورہ بقرہ آیت234۔ عورت کو حمل ہو تو طلاق کی صورت میں عدت بچے کی پیدائش ہے۔
احادیث صحیح میں خلع کی عدت ایک حیض یا ایک ماہ ہے۔ بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور مانیکا نے آخری بیان میں بھی کہا کہ مجھ سے طلاق مانگی اور یہی خلع ہے۔ اس تحریری طلاق کے بعد بشریٰ بی بی کی عدت ایک ماہ یا ایک حیض بنتی تھی۔ ڈیڑھ مہینے کے بعد عمران خان سے نکاح کیا تھا اور اس کا نکاح بالکل درست تھا۔ حنفی مسلک والے خلع کی حدیث کو بالکل غلط طریقے سے رد کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بیوہ کی عدت ٹھوس4ماہ10دن رکھی ہے جس کا تقاضہ یہ تھا کہ بیوہ کو حمل ہو یا نہ ہو مگر اس کی عدت4مہینے10دن ہی ہو۔ احادیث کے اندر بیوہ کو اختیار دیا گیا ہے کہ اگر اس کے بچے کی پیدائش4ماہ10دن سے پہلے ہو تو بھی اس کی عدت پوری ہے۔ چونکہ عدت یاانتظار عورت ہی نے کرنا ہوتا ہے اسلئے ان کی ترجیحات کو حنفی مسلک نے حدیث کے مطابق ترجیح دی ہے۔ لیکن دوسری طرف خلع کی حدیث کو حنفی مسلک والے نہیں مانتے تو یہ ان کی بہت بڑی غلطی ہے۔ جس کی وجہ سے نہ صرف حدیث پر بلکہ حنفی مسلک پر بھی زد پڑتی ہے۔ اسلئے کہ لونڈی و غلام کے مسئلے پر عدت اور طلاق میں قرآن کے مقابلے میں حنفی مسلک کو احادیث پر ہی بھروسہ کرنا پڑتا ہے۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ عدت کی اصل بنیاد بچے کی پیدائش ہے تو یہ بالکل لغو بکواس ہے۔ پھر بیوہ کیلئے4ماہ10دن اور طلاق شدہ کیلئے3ماہ یا3حیض کا تصور بھی نہیں رہتا ہے۔ البتہ قرآن میں یہ واضح ہے کہ طلاق میں عورت پر عدت کا حق شوہر کا بنتا ہے۔ اس کی وجہ اصل میں وہی ہے کہ طلاق کی صورت میں شوہر کو مالی خمیازہ بھی بھگتنا پڑتا ہے اور عورت کی بھی جدائی چاہت نہیں ہوتی اور دونوں کا مفاد بھی اسی میں ہے کہ زیادہ مدت تک انتظار کیا جائے۔ جب گھر بار اور شوہر کی طرف سے بھی تمام منقولہ و غیر منقولہ جائیداد کی عورت مالک بنتی ہے تو عدت طلاق و عدت وفات کا دورانیہ بھی زیادہ ہے۔ دوسری طرف خلع میں جب عورت کچھ مالی معاملات سے دستبردار ہوتی ہے تو اس کی عدت ایک حیض یا ایک ماہ بھی کافی ہے اسلئے بشریٰ بی بی کی سزا کا کوئی حق نہیں بنتاہے۔
اگر اسلامی تعلیم کے مطابق عورت کو خلع اور طلاق میں شوہر کی طرف سے دی ہوئی مالی چیزوں کا مالک بنادیا جاتا تو مغربی اور ترقی یافتہ دنیا بھی اس کی پیروی کرتی۔ عورت صنف نازک ہے اور اس کو مرد کے مقابلے میں برابر کے نہیں زیادہ حقوق دئیے گئے ہیں۔ لیکن یہ حقوق ان کو ملتے نہیں ہیں۔ مشترکہ گھر کی مالک بیوی ہوتی ہے۔ جو سورہ طلاق میں بھی واضح ہے کہ ان کو ان کے گھروں سے مت نکالو۔ اور نبی ۖ کے وصال کے بعد ازواج مطہرات کے حجرے بھی ان کے ذاتی تھے اور ان کی اجازت سے حضرت ابوبکر و حضرت عمر وہاں مدفون ہوئے ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ نے حضرت حسن کو بھی تدفین کی اجازت دی تھی لیکن مروان نے آپ کو دفن نہیں ہونے دیا تھا۔ باغ فدک پر حضرت فاطمہ کے حوالے سے معاملے کا ذکر ہے لیکن حجروں میں اولاد کی وراثت کے حق کی کوئی بات نہیں تھی۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ عمران خان کو جمائمہ کی جائیداد میں حصہ مل رہا تھا مگرعمران خان کی جائیداد میں جمائمہ کا کوئی حصہ نہیں تھا اور نہ ریحام خان کا تھا۔ ریاست مدینہ کی رٹ لگانے سے مدینے کی ریاست قائم نہیں ہوگی بلکہ قرآن و سنت پر عمل کرنے سے مدینے کی ریاست قائم ہوگی۔ یہ صرف بشریٰ بی بی کا مسئلہ نہیں بلکہ پونے2ارب مسلمانوں کا مسئلہ ہے اور صرف ریاست کو ٹھیک کرنے کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ گمراہی کے اڈے مدارس کو بھی ٹھیک کرنا ہے۔

عورت کے حق مہر کی مقدار اور حق طلاق کا مسئلہ

اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ آیت234میں بیوہ کی عدت کو واضح کیا اور اس میں عدت کے بعد بیوہ کو اپنی مرضی کا مالک قرار دیا۔ اگر وہ چاہے تو قیامت اور جنت تک اسی وفات شدہ شوہر کے ساتھ اس کا نکاح باقی رہے گا۔ اور اگر وہ چاہے تو دوسرے شخص کی طرف سے بھی نکاح کی دعوت قبول کرسکتی ہے۔ آیت235میں اللہ تعالیٰ نے عدت کے دوران اشارہ کنایہ سے نکاح کا پیغام بیوہ کو دینے کی اجازت دی ہے لیکن پکا وعدہ کرنے سے منع کیا ہے۔ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر مذہبی طبقات نے جہالت کی بھرمار سے پتہ نہیں کیا کیا بکواسات کئے ہیں۔ اس کی وجہ قرآن و سنت کے موٹر وے کو چھوڑ کر فقہی علماء کا بھول بھلیوں میں خود بھی گمراہ ہونا ہے اور دوسروں کو بھی گمراہی میں ڈالنا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اور تم پر کوئی حرج نہیں ہے کہ اگر تم عورتوں کو چھونے سے پہلے طلاق دے دو۔ اور ان کا حق مہر مقرر کرو تو ان کو رقم دو مالدار اپنی قدرت اور غریب اپنی قدرت کے مطابق۔ معروف متاع ۔ اچھوں پر حق ہے اور اگر تم نے چھونے سے قبل طلاق دی اور ان کا حق مہر مقرر کیا تو مقرر آدھا حق مہر تم پر فرض ہے۔ مگر یہ کہ عورتیں درگزر کریں یا جن کے ہاتھ میں نکاح کا گرہ ہے وہ درگزر کریں۔ اگر مرد درگزر کریں تو یہ تقویٰ کے قریب ہے اور آپس میں ایک دوسرے پر فضل نہ بھولو۔ بیشک اللہ تمہارا عمل دیکھتا ہے۔ (البقرہ: آیت236،237)۔اس آیت میں یہ واضح ہے کہ حق مہر شوہر پر وسعت کے مطابق فرض ہے اور ہاتھ لگانے سے پہلے بھی طلاق دے تو آدھا حق مہر دینا فرض ہے۔ لیکن اگر عورت آدھے میں سے کچھ چھوڑنا چاہتی ہو یا جس کے ہاتھ میں نکاح کا گرہ ہے وہ چھوڑنا چاہتا ہو تو اس کی گنجائش ہے لیکن تقویٰ کے قریب یہ ہے کہ مرد اپنی طرف سے رعایت کرے۔ چونکہ عورت خلع نہیں لے رہی ہے اورمرد طلاق دے رہا ہے اسلئے نکاح کا گرہ بھی اس کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ اور بنیادی بات یہ ہے کہ دونوں میں سے کون مالی قربانی دے تو مرد کی طرف سے مالی قربانی کو تقویٰ کے زیادہ قریب قرار دیا گیا ہے۔ اس آیت سے عجیب و غریب نتیجہ یہ اخذ کیا گیا ہے کہ طلاق دینا صرف مرد کا حق ہے اور عورت کا خلع لینے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ حالانکہ یہ بہت فضول اور لغو دلیل ہے۔ جبکہ سورہ نساء آیت21میں نکاح کی نسبت عورت کی طرف کی گئی ہے۔ جہاں مرد سے کہا گیا ہے کہ اس پر بہتان لگاکر محروم کرنے کا سوچنا بھی غلط ہے۔ یہاں بھی یہی ترغیب دی گئی ہے کہ غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے رعایت لینے کے بجائے عورت کو رعایت دو جبکہ طلاق بھی تم ہی تو دے رہے ہوناں!۔
ایک عورت نکاح کرنا چاہتی تھی تو اس نے خود کو نبی ۖ کے سامنے پیش کردیا۔ نبی ۖ نے اس سے نکاح کرنے میں اپنے لئے کوئی دلچسپی نہیں لی تو ایک صحابی نے کہا کہ یا رسول اللہ ۖ! مجھے اس کی ضرورت ہے۔ نبی ۖ نے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس مال ہے؟۔ اس نے کہا کہ نہیں۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ جاؤ اگرچہ گھر میں کوئی لوہے کی انگوٹھی کیوں نہ ہو۔ اس کے پاس وہ بھی نہیں نکلی تو نبی ۖ نے قرآنی سورتوں کو یاد کرانے کی ذمہ داری اس کو سونپ دی۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس کچھ نہیں تھا تو آپ کے سسر نبی نے بکریاں چرانے کے عوض اپنی ایک بیٹی سے نکاح کا مہر مقرر کردیا۔ اس دور میں بکریاں چرانے سے جتنا معاوضہ8سال میں بنتا تھا اور عورت کی جگہ نوکری کرنا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف سے حق مہر تھا۔ چونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی رہائش اور کھانے پینے کا خرچہ بھی اسی گھر میں تھا اس لئے حق مہر بھی ٹھیک ٹھاک رکھ دیا۔ جبکہ اس صحابی نے اپنی گھر والی کی رہائش و خرچہ اٹھانا تھا اسلئے تعلیم کی ذمہ داری سونپ دی۔ اس سے فقہاء نے غلط نتیجہ اخذ کیا ہے کہ لوہے کی انگوٹھی کے برابر حق مہر بھی کافی ہے۔ حالانکہ اس کے پاس لوہے کی انگوٹھی بھی نہیں تھی اور ہوتی تو یہ اس کی وسعت کے مطابق کل سرمایہ تھا۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا کہ اے نبی ! یہ تیرا ہی خاصہ ہے کہ اگر کوئی عورت خود کو ھبہ کرنا چاہے کسی اور کی یہ خاصیت نہیں ہے۔ تاکہ قیامت تک مذہبی طبقات کو سنت نبوی سے دلیل پکڑ کر عورتیں ھبہ کرنے کا حیلہ نظر نہ آئے۔ اگر فقہاء اور محدثین کی کتابوں کو کھنگالا جائے تو انسانیت حیران ہوگی کہ جس فقیہ کے نزدیک جتنی کم از کم مقدار میں چور کا ہاتھ کٹ سکتا ہے اتنی کم از کم مقدار ایک عورت کے حق مہر کی ہے۔ کسی کے نزدیک10درہم، کسی کے نزدیک1چونی، کسی کے نزدیک 1پیسہ۔ حالانکہ چور کے ہاتھ سے تشبیہ دینا افسوسناک ہے۔ ایک شخص کی دیت100اونٹ ہے اور ایک ہاتھ کی دیت50اونٹ ہے۔ ”چور جتنی مقدار میں ایک عضو سے محروم ہوتا ہے اتنے حق مہر میں عورت کے عضو کا شوہر مالک بن جاتا ہے”۔( کشف الباری :مولانا سلیم اللہ خان)۔

(نوٹ: عورت کے حقوق پر مارچ2024کاشمارہ ضرب حق کی ویب سائٹ پر مکمل پڑھیں۔)
اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ مارچ۔ عورت مارچ2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

 

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز