پوسٹ تلاش کریں

2:برابری اور مساوات کی بنیاد پرعزتوں کی حفاظت

2:برابری اور مساوات کی بنیاد پرعزتوں کی حفاظت اخبار: نوشتہ دیوار

عالمی اسلامی جمہوری منشور کے اہم نکات
2:برابری اور مساوات کی بنیاد پرعزتوں کی حفاظت
اللہ نے فرمایا کہ ’’اور اللہ کیلئے عزت ہے اور اسکے رسول ﷺکیلئے ہے اور مؤمنوں کیلئے ہے‘‘۔ آیت کا مقصد ہے کہ دنیاوی رعب ودبدبہ، اسباب اور چاپلوسی کو عزت سمجھنے والے حقیقت کی آنکھیں کھولیں۔ ایک خاتون نے رسول اللہﷺ سے مجادلہ کیا جس کا ذکر سورۂ مجادلہ میں ہے تو رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی قراردیکر توہین رسالت کا حکم اللہ نے جاری نہیں کیا جیسا کہ انگریز نے توہین عدالت کیلئے رائج کررکھاہے بلکہ اللہ نے خاتونؓ کے احتجاج کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت بخش دیا۔ جب رسول اللہﷺ نے اپنی لونڈی حضرت ام المؤمنین ماریہ قبطیہؓ سے حرمت کی قسم کھالی تو اللہ تعالیٰ نے سورۂ تحریم میں فرمایا کہ ’’ جس کو اللہ نے تمہارے لئے حلال کیا ہے، اس کواپنے اوپر کیوں حرام کررہے ہو ،اپنی ازواج کی مرضی تلاش کرنے کیلئے؟‘‘۔ نبیﷺ نے قیامت تک اس تعلیم وتربیت کو اپنے لئے انسلٹ (توہین) قرار نہیں دیا۔ بہت بڑی بد نصیبی ہے کہ ہم ایمان، علم اور تربیت کے فقدان کی وجہ سے معمولی معمولی باتوں کو توہین سمجھ کر ناراض ہوجاتے ہیں۔ خود ساختہ عزتوں کے پجاریوں کیلئے یہ ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ نبیﷺ نے بدر ی قیدیوں پر فدیہ لینے کا فیصلہ کیا تو اللہ نے صحابہ کو ڈانٹ پلائی، پھر اُحد کی شکست کا سخت بدلہ لینے کا فیصلہ کیا تو بھی اللہ نے منع فرمایا بلکہ معاف کرنے کا حکم بھی دیا۔ رئیس المنافقین ابن ابی کا جنازہ پڑھایا تو اللہ نے منع فرمایا۔ منافقین نے دھوکہ سے70قاریوں کو شہید کیا تو نبیﷺ نے اپنے دست مبارک انکے خلاف دعا کیلئے اٹھائے، جس پر اللہ نے منع فرمادیا۔ الغرض عدل اور اعتدال کیلئے قدم قدم پر رہنمائی سے اللہ نے نبی کریم ﷺ اور صحابہؓ کواعلیٰ ترین مقام ومنزلت سے نوازا۔لیکن ہمارے ہاں لوگ اپنی خواہشات کے پجاری ہیں۔
واقعات غلط پیش کرنے سے اسلام اجنبی اور بیگانہ بن گیا۔ اسلام کی حقیقت دنیا کے سامنے آجائے تو دنیا اس طرح اسلامی حکومت کے قیام پر متفق ہوگی جیسے کوئی خاتون اپنے لئے کسی شوہر کا انتخاب کرکے اپنا حق مہر بھی معاف کردیتی ہے اور شوہر خوشی خوشی اس کو کھا بھی سکتاہے۔ جب دنیا میں اسلامی نظام کی حقیقت کا راز کھل جائیگا تو کارٹونوں کے توہین آمیز خاکوں اور سوشل میڈیا کے ذریعے سے دل کی بھڑاس نکالنے کے بجائے ساری دنیا کا ایک ایک فرد بلاتفریق رنگ ونسل اور مذہب ونظریہ نبیﷺ کی عظمت کو سلام کریگا۔ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی خبر قرآن وسنت میں ہے ۔ عالمی اسلامی خلافت کا قیام عمل میں آئے تو یہی وہ مقام محمود ہوگا جس کا وعدہ اللہ نے نبیﷺ سے کیا ہے۔ جس کی دعا ہر آذان کے بعد تسلسل کیساتھ مانگی جارہی ہے اور اس پر بڑا اجروثواب ہے۔ مولانا عبیداللہ سندھیؒ نے اپنی تفسیر ’’المقام محمود‘‘ میں سورۂ قدر کے ضمن میں پنجاب، سندھ، کشمیر، بلوچستان ، فرنٹئیر اور افغانستان میں بسنے والی تمام قوموں کو اسلام کی نشاۃ ثانیہ میں امامت کیلئے حقدار قراردیا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ مسلک حنفی کے ذریعے قرآنی تعلیم کو ترجیحی بنیادوں پر اٹھائیں گے تو اہل تشیع بھی اس کو قبول کرلیں گے ، کیونکہ امام ابوحنیفہؒ ائمہ اہلبیت ؒ کے شاگرد تھے اور مولانا سندھیؒ نے حضرت شاہ ولی اللہؒ کی فکر کو بنیاد بنایا تھا۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ کا سب سے بڑا کارنامہ قرآن کا ترجمہ تھا۔ میرے بھائی پیرنثار احمد شاہ نے مفتی اعظم پاکستان مفتی محمودؒ کو خواب میں دیکھا تو پوچھا کہ میری لائبریری میں کونسی کتاب سب سے اچھی ہے ؟۔ مفتی محمود صاحبؒ نے قرآن اٹھاکر کہا کہ ’’یہ‘‘۔ کاش حقائق سامنے آجائیں۔
جان کے بدلے جان کی طرح عزت میں امتیاز نہیں ۔ کسی پاکدامن پرزنا کا بہتان بڑی ہتکِ عزت ہے۔ سورۂ نور میں زنا کی سزا 100 بہتان کی 80کوڑے ہیں۔ حضرت عائشہؓ پر بہتان لگا تو یہ سزا مقرر کردی۔ اسلامی انقلاب کیلئے یہ آیت کافی ہے۔ کہاں اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کا مقام اور کہاں حکمران طبقے کی عورتیں؟۔ آصف زرداری الطاف حسین اور نوازشریف سے اتحاد اپنی اور ان کی بیٹیوں کا نام لیکر کرتا ہے۔ معمولی بات پر اربوں روپے میں ہتک عزت کا دعویٰ ہوتاہے اور غریب کی عزت ٹکے کی بھی نہیں جنکے نام پر سیاست ہوتی ہے ، ان کی عزتوں کو لوٹا بھی جاتا ہے تو مجرموں کو تحفظ ملتاہے۔ اسلئے کہ طاقتور کے ذریعے سے سیاستدان نے ووٹ اور نوٹ حاصل کرنے ہوتے ہیں۔
100کوڑوں سے بے حیائی کا خاتمہ، 80کوڑوں سے بہتانوں کا تدارک ہے۔ قیمت لگے تو عزت عزت نہیں بلکہ برائے فروخت فحش اداکاروں کا فریم ورک ہے۔ غریب آدمی کیلئے 10لاکھ کیا10ہزار بھی بڑی سزا اسلئے ہے کہ یہ اس کی ماہانہ تنخواہ ہے جس سے گھر کا چولہا جلتا ہے، دن کا روزہ رکھ سکتاہے لیکن مہینے کا فاقہ اسکے بچے برداشت نہیں کرسکتے ہیں۔ امیر کیلئے 10 لاکھ، 10کروڑ اور 10ارب بھی بڑی سزا نہیں ۔ جبکہ کوڑوں کی سزا سب کیلئے برابر ہے۔تعلیمی اداروں کا کام صرف تعلیم نہیں تربیت بھی ہے۔ تادیبی کاروائی کے نام پر کیڈٹ کالجوں میں سخت سے سخت سزاؤں پر پابندی لگائی جائے لیکن جب عدالت میں بڑے لیڈر معذرت اور غیر مشروط معافی مانگ لیں تو اس سے قوم کی تربیت نہ ہوگی، سخت غلطی کرنے پر مرغا بناکر چھترول کیا جائے اور عوام کی ایک جماعت کو اس پر گواہ بھی بنایا جائے جس کیلئے میڈیا بہتر پلیٹ فارم ہے تو قوم کو سیکھنے کیلئے بہت کچھ ملے گا۔ آصف زرداری نے اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دی، عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری نے پارلیمنٹ کے دروازے کو توڑا، پی ٹی وی پر حملہ کیا، پولیس افسر کی پٹائی لگائی اور نوازشریف نے پارلیمنٹ میں قوم کے سامنے جھوٹ بکا اور سپریم کورٹ کے ججوں نے اسلئے نا اہل قراردیا کہ بیچارے اسکی نااہلیت کا فیصلہ کرنے پر مجبور ہوئے تو بڑے لیڈروں کو قوم کے سامنے مرغا بنانے سے قیامت نہ ٹوٹے گی بلکہ قوم غلطیوں پر سزا کھانے سے بہت کچھ سیکھے گی۔ خورشید شاہ نے پارلیمنٹ میں درست کہا کہ وزیروں کو غیر حاضری پر کھڑا رکھ کر سزا دی جائے، جس کی حکومتی رکن نے تائید کرنے کے باوجود یہ جواب دیا کہ ’’ٹانگ کا درد ختم نہ ہوگا بلکہ ٹانگ درد کی عادی بن جائے گی‘‘۔کیا فوج پارلیمنٹ کو ڈسپلن سکھائے گی؟۔ غریب بیچارہ شک کی بنیاد پر تشدد کا نشانہ بنتا ہے، قید و بند کی زندگی گزارتا ہے اور لیڈری چمکانے والے جرائم پیشہ عناصر آزاد پھرتے ہیں،اس سے قوم کی تربیت نہ ہوگی،بڑوں کو جرم پرسزا دینی ہوگی۔انگریز گیا مگر اسکا نظام نہ گیا، اسلام میں اہلیت کا تصور تھا، انگریز میرٹ کا لحاظ رکھتا ہوگا مگر ہمارے ہاں رشوت اور اقرباء پروری نے میرٹ کا خاتمہ کردیا۔ مجرم کو انگریز A کلاس B کلاس Cکلاس غلامانہ ذہنیت کی وجہ سے دیتاتھا، یہی اسٹیٹس کو ہے،عمران خان انگریز کی مثال دیکر اسٹیٹس کوختم کرناچاہتاہے۔
جب بہتان لگانے پر عملی سزاؤں سے بالکل برابری اور مساوات کا تصور قائم ہوگا تو عوام کے اندر خود اعتمادی کا تصور اُجاگر ہوگا۔ غریب بھی سمجھے گا کہ معاشرے میں ہماری بھی کوئی عزت ہے۔ بڑے لوگوں کو سرِ عام سزا دی جائے تو جھوٹ اور بہتانوں کا طوفان تھم سکے گا، نام نہادسیاسی رہنماؤں نے انتہائی منافقانہ وکالت سے قوم کا بیڑہ غرق کردیاہے اور اس سے قوم کا مستقبل تاریکی کی اتھاہ گہرائیوں کی طرف جارہاہے۔ پیشہ ور غنڈوں کے ذریعے خوف وہراس اوراچھے لوگوں کو غنڈہ گردی پر لگادینا زیادہ برا ہے۔ عیسائی جمعدار پاکدامن خاتوں کی عزت کسی بڑے عالم، مفتی اور حکمران کی بیوی، بیٹی ، ماں اور بہن سے کم نہیں۔ مسلمان اس سے نکاح کرسکتاہے اور اس پر بہتان کی سزا اُم المؤمنین نبیﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ صدیقہؓپر بہتان جتنی ہے جو خلیفۂ اول ابوبکرؓ کی صاحبزادی تھیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے بہتان پر قریبی رشتہ دار حضرت مسطحؓ سے آئندہ مالی تعاون نہ کرنے کی قسم کھائی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم میں سے جو اولی الفضل یعنی مالدار ہیں، ان کیلئے مناسب نہیں کہ غریبوں سے دست کش رہنے کی قسم کھائیں۔ اپنے احسان کا سلسلہ جاری رکھیں۔
غلام احمد پرویز نے حدیث کے واقعے کا انکار کرکے اسلامی مساوات کی نفی اورانگریز کی غلامانہ بیوروکریسی کی عکاسی کی اور فرقہ وارانہ منافرت کا بیج بویا کہ’’ یہ شیعہ عجم کی سازش تھی کہ حضرت عائشہؓ پر بہتان کا واقعہ گھڑ لیا، یہ کسی عام خاتون کا واقعہ تھا۔ حضرت عائشہؓ پر بہتان لگایا جاتا تو اذیت رسولؐ کے مرتکب واجب القتل ہوتے‘‘۔سول بیورو کریسی میں موجود اکثریت نے پرویز کا فلسفہ قبول کیاکہ افسر وماتحت کی عزت برابر نہیں تو اُمّ المؤمنین حضرت عائشہؓ پر بہتان کو عام خاتون کے برابر کیسے قرار دیا جائے؟۔ ان کی میم صاحبہ غریب کی بچیوں پر ظلم وتشدد کی انتہاء کردیں اور غریب کی بچی کو آہ کرنے کی جرأت اور سسکی لینے کی اجازت بھی نہ ہو تو وہ اسلامی مساوات کا نظام علماء اور غریب غرباء کے سامنے کیسے قبول کریں گے؟۔ درباری علماء تو درباری ہوتے ہیں مگر علماء حق کو صداقت کا علم بلند کرتے ہوئے اسلامی مساوات کا نعرہ بلند کرنا ہوگا۔ پھر دیکھوگے کہ اسلامی لبادے میں منافقت کرنیوالا اسلام کی مخالفت کریگا اور جن کو ملحد وبے دین،کمیونسٹ اور سیکولر کہا جاتاہے وہی اسلامی مساوات کا جھنڈا بلند کرنے میں اسلامی تحریک کے بالکل شانہ بشانہ ہونگے۔
اسلام کی غیر فطری تشریح کی گئی ۔ بہتان لگانے والے چار سے زیادہ ہوں تب بھی ان کو سزا دی جائے گی۔ حضرت عائشہؓ پر بہتان لگانے والوں میں سر فہرست عبداللہ بن ابی رئیس المنافقین تھا لیکن مشہور شاعر حضرت حسّانؓ ، مسطحؓ، حمنہؓ اور زیدؓ بن عارفہ بھی اس میں شامل تھے جن کو 80،80کوڑوں کی سزائیں دی گئیں۔ سزا میں مخلص صحابہؓ اور منافقؓ برابر تھے۔ بہتان میں عدد پورا کرنے کو ثبوت نہیں قرار دیا جاسکتا۔ سزا میں اصل بات یہ ہے کہ مجرم سے جرم سرزد ہوجائے۔ رسول اللہ ﷺ سے خاتون نے شکایت کردی کہ اس کیساتھ فلاں نے زبردستی سے زنا کیا تو رسول ﷺ نے اس کو پکڑ نے اور سنگسار کرنے کا حکم دیا۔ یہ نہیں کیا کہ اس مظلوم خاتون سے گواہ مانگے ہوں اور چار گواہ پیش نہ کرسکنے پر اُلٹا اس کو بہتان کے 80کوڑے مارنے کا حکم جاری کیا ہو۔ اسلام اور فطرت سے جاہلوں نے ’’الٹاچور کوتوال کو ڈانٹے ‘‘ کی قانون سازی کی ہے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ’’ دریا کے کنارے کتا بھی پیاس سے مرجائے تو میرا مواخذہ ہوگا‘‘۔ اور یہاں روز روز کسی حواء کی بیٹی جبری زیادتی سے اپنی عزت کھو بیٹھتی ہے ، شنوائی تو دور کی بات ہے ان کو بہتان کی سزا بھی نام نہاد اسلامی قانونِ شہادت کے نام پر کھانی پڑتی ہے۔ قرآن میں خواتین کیساتھ زیادتی کرنے پر قتل کی وضاحت ہے کہ اللہ کی سنت پہلے سے رہی ہے کہ فاینما ثقفوا فقتلوا تقیلا ’’جہاں بھی پائے گئے قتل کئے گئے‘‘۔ نبیﷺ نے اس پر عمل بھی کیا ۔عورت سے زبردستی کی زیادتی کوئی غیرت مند قوم برداشت نہیں کرسکتی ۔بد قسمتی سے حقائق کے برعکس نام نہاد اسلامی قوانین بنائے گئے اسلئے تو سپریم کورٹ کو شریعت کورٹ پر ترجیح دی گئی ہے۔ ججوں نے بھی موجودہ قوانین اور اصلاحات پر بالکل عدم اعتماد کا اظہار کرنا شروع کردیا ۔فللہ الحمد والشکر جل جلالہ عم نوالہ وصل وسلم علی حبیبہ
مذہبی جماعتیں دینی علوم سے جاہل ہیں، کسی کی آلۂ کار بن چکی ہیں اور طاقتور کے مقابلہ میں غریب کیلئے کھڑا ہونا اپنے مفاد کے خلاف سمجھتی ہیں اسلئے علماء حق اور عام لوگوں کو غریب کے حقوق کیلئے اسلامی مساوات کا نعرہ لگانا ہوگا۔ اس نعرے میں غیر مسلم اقلیت یا اکثریت کیخلاف کوئی تعصب نہیں، انسانی فطرت کے مطابق یہ وہ مساوات ہے جس پر پوری دنیا کے انسان بلاتفریق مذہب، رنگ، نسل اور علاقہ سب کے سب متفق ہوسکتے ہیں بلکہ دنیا بھر کے لاچار ، مظلوم اور بے بس طبقے ہی نہیں سب ہی کے دل وروح کی آواز ہے جسکی گونج پاکستان سے اُٹھ کر مشرق مغرب اور شمال جنوب کے تمام برِ اعظموں میں یکساں مقبولیت کے ساتھ سنائی دیگی اور یہی شیطان کی سازشوں کو مکڑی کے جالوں کی طرح اُڑادیگی۔حقائق سامنے لائے جائیں تو اسلامی خلافت کیلئے کوئی رکاوٹ نہ ہوگی۔
اُٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی اندازہے مشرق ومغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز