پاکستان کی ریاست و سیاست میں خطرہ440وولٹ کے خدشات پیدا ہوگئے ۔ - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

پاکستان کی ریاست و سیاست میں خطرہ440وولٹ کے خدشات پیدا ہوگئے ۔

پاکستان کی ریاست و سیاست میں خطرہ440وولٹ کے خدشات پیدا ہوگئے ۔ اخبار: نوشتہ دیوار

پاکستان کی ریاست و سیاست میں خطرہ440وولٹ کے خدشات پیدا ہوگئے ۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

تحریک انصاف بمقابلہ امریکہ ، شہبازحکومت یا اسٹیبلشمنٹ؟ ۔ عمران خان کو سیاسی شہید بناکر زندہ کرنیوالے کون ، کون اور کون ہیں؟
جو صحافی حضرات عمران ریاض خان گوگی اور سمیع ابراہیم وغیرہ کل تک تحریک انصاف اور پاک فوج کی حمایت کررہے تھے آج وہ ان کو لڑانے کے زبردست کرتب دکھارہے ہیں

پاکستان انتہائی خطرناک موڑ پر کھڑا ہے۔ جب اسرائیلی وزیرنے دوبئی کا دورہ کیا اور باچاخان مرکز پشاور میںANPکے نمائندے اور مولانا فضل الرحمن نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ مولانا فضل الرحمن نے روایتی سخت مؤقف کا اظہار کرکے دوبئی کے حکمران کو بے حیثیت کٹھ پتلی قرار دیا اور اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے قائداعظم محمد علی جناح کے مؤقف کو امت مسلمہ کی نمائندگی قرار دیا تھالیکن صحافی عمران خان عرف گیلا تیتر بلکہ گوگی خان نے مولانا فضل الرحمن پر اسرائیل کو تسلیم کرنے اور دوبئی میں چندہ بند ہونے کے خدشے پر اتنا دروغ گوئی سے کام لیا تھا کہ انسان سوچ بھی نہیں سکتا کہ کوئی اتنا جھوٹ بھی بول سکتا ہے؟ سوشل میڈیا پروقارملک بھی کھلم کھلا بہت کچھ کہتا ہے اور اس نے یہ جھوٹی خبر دی کہ کراچی میں مرغی کے گوشت کی قیمت ہزارروپے فی کلو ہے، عمران ریاض خان نے ایک مرتبہ آرمی چیف جنرل باجوہ پرکسی مافیا کی پشت پناہی کا بتایا اور پھر معافی مانگ لی لیکن بشری بی بی کی فرنٹ مین فرح گوگی پر کوئی رپورٹ نہیں دی۔ کٹھ پتلی صحافیوں اور سیاستدانوں نے ہمیشہ جھوٹ اور بدتمیزی سے اخلاقیات کا جنازہ نکالنے میں بڑا کردار ادا کیا اورآج پوری قوم اور وہ پاک فوج اس کی سزا بھگت رہی ہے۔جو پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگاکراپنے مخالفین کو ہرقسم کی تنقید،تضحیک اور جھوٹے پروپیگنڈے کا نشانہ بناتے تھے اور سستی شہرت کماتے اور مفادات اُٹھاتے تھے۔اس میں شک نہیں کہ یہ جمہوریت کا تحفہ ہے کہ ملک وقوم پر ایسی حکومت مسلط ہوگئی ہے جس طرح جنگلی جانورپہلے کوئی شکار کرکے کھالیتے ہیں۔ پھر باقی ماندہ پر لگڑ بگڑ جھپٹتے ہیں اور آخرکار گدھ کا نصیب جاگ جاتاہے اور یہ لگڑبگڑ اور گدھ شرم بھی نہیں کھاتے ہیں۔ بقیہ صفحہ3نمبر1

بقیہ… خطرہ440کے خدشات
صحافی عمران خان، سمیع ابراہیم اور صابر شاکروغیرہ نے ہمیشہ پاک فوج اور عمران خان کی تائید میں صحافت کی بجائے کٹھ پتلی کا کردار ادا کیا ہے۔ سمیع ابراہیم نے فواد چوہدری سے ایک بڑا زبردست مکا بھی کھایا تھا جس کی وجہ سے اس کے چشمے بھی بدل گئے تھے۔ سابق وزیراعظم عمران خان کم ازکم فواد چوہدری سے معافی طلب کرنے کی بات کرتا تو بھی مناسب ہوتا لیکن جب سمیع ابراہیم کو اپنے چہرے پرمکا کھانے کی پرواہ نہیں ہے تووہ دوسروں کی عزت اور ان کو نقصان پہنچنے کا کیا غم کھا سکتا ہے؟۔
عمران احمد خان نیازی نے میانوالی سے حقیقی آزادی کے نام سے تحریک شروع کردی لیکن کیا وزیراعظم بننے کے باوجود بھی اسٹیبلشمنٹ کا غلام تھا؟۔ عوام کی عرصہ دراز سے یہ خواہش رہی ہے کہ عالمی ومقامی اسٹیبلشمنٹ کی غلامی سے حقیقی آزادی ملنی چاہیے اسلئے عمران خان کی بھرپور تائید ہورہی ہے۔ شدت پسندی ، انتہاء پسندی اور دہشت گردی کو پروان چڑھانے میں امریکہ مخالف پالیسی کا بڑا ہاتھ رہاہے جس میں لوگوں کیساتھ ڈبل پارٹ ہوتا تھا۔ ایک طرف اسٹیبلشمنٹ اور اس کے حواری خود امریکہ سرکار کی پالیسیوں پر عمل در آمد کرتے تھے اور دوسری طرف اپنے مخالفین کو نشانہ بناتے تھے کہ یہ امریکی ایجنٹ ہیں۔
محمود خان اچکزئی،مولانا فضل الرحمن ،محسن داوڑ، منظور پشتین،سردار اختر مینگل اور عمران خان کے بیانیہ میں اب کوئی فرق نہیں رہا کہ ہماری ریاست نے ڈالروں کی خاطر افغان جنگ لڑی اور اس خطے کے امن کو تباہی کے کنارے پر پہنچادیا۔ پیپلزپارٹی، ن لیگ اور تحریک انصاف نے اپنی مدتِ ملازمت میں امریکہ اور اپنی اسٹیبلشمنٹ کیساتھ مل جل کر وہی کیا جس کی توقع ایک تابعدار ملازم سے ہونی چاہیے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے امریکہ کی نام نہاد جمہوریت کو دھچکا پہنچایا۔ عمران خان نے پاکستان کی نام نہاد جمہوریت کا بھانڈہ پھوڑ دیا اور مودی سرکار بھارت کی جمہوریت کا بیڑہ غرق کرنے میںلگی ہوئی ہے۔
پاک فوج کے ترجمان نے واضح کیا کہ 75سالوں سے عوام کی خواہش تھی کہ فوج نیوٹرل ہوجائے تو اب دوسال سے ہم نیوٹرل ہیں۔ عمران خان قصائی نیوٹرل فوج کو جانور کہتا ہے اور بکرے کو چھرا نظر آتا ہے تو اپنی خیر مناتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ فوج کو نیوٹرل رہنا چاہیے تھا اور اگر پہلے نہیں تھی تو اس کی ذمہ داری موجودہ فوج پر نہیں ڈالنی چاہیے۔ عمران خان کہتا ہے کہ جب امریکہ نے سمجھ لیا کہ میں پاکستان کو نیوٹرل رکھنا چاہتا ہوں تو مجھے ہٹادیا گیا۔ اگر عالمی سطح پر نیوٹرل رہنے سے عمران خان جانور نہیں بنتا تو نیوٹرل فوج کو بھی جانور کہنا درست نہیں۔ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ اورسابقہDGISIجنرل فیض حمید کو نوازشریف نے بھی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ ن لیگ کے وکلاء وغیرہ نے” یہ جو دہشت گردی ہے اسکے پیچھے وردی ہے” کے نعرے لگائے تھے۔ حالانکہ ان کا نعرہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ ”یہ جو سیاست گردی ہے اسکے پیچھے وردی ہے”۔ نوازشریف لندن میں بیٹھا تھا اسلئے کھل کر بات کی ۔ عمران خان نے اشارہ دیا تھا کہ اگر مجھے باہر کردیا گیا تو زیادہ خطرناک ہوجاؤں گا لیکن وہ میر جعفر اور میر صادق نوازشریف اور زرداری کو کہتا تھا اور اس سے مراد وہ لیتا تھا جس کازبان پر نام نہیں لے سکتا تھا۔ اسلئے کہ کٹھ پتلی صحافی مارکہ غنڈوں کے بیچ میں رضیہ پھنس گئی تھی۔
بجلی میں خطرہ440وولٹ یہ ہے کہ جب220،220وولٹ دو تاروں کے ٹچ ہونے کا خدشہ ہوتا ہے تو اس سے بڑی تباہی مچ جاتی ہے۔ انسان کے بچنے کے امکانات نہیں رہتے۔ گھروں میں فریج، پنکھے، بلب وغیرہ سب کچھ جل جاتے ہیں لیکن جب ایک220وولٹ کا مثبت تار اور دوسرا منفی تار ہو تو پھر بجلی کا نظام بہترین چلتاہے۔ جمہوری نظام میں حکومت اور اپوزیشن کا کردار بھی مثبت اور منفی دونوں پہلو کا ہو توبہترین چلتا ہے ۔جب اسٹیبلشمنٹ اور تحریک انصاف میںدراڑ پیدا ہوگئی اور دونوں کی حمایت کرنے والے صحافیوں نے دونوں طرف کی سپلائی جاری رکھی تو اس سے خطرہ440کا خدشہ پیداہوگیا۔
امریکہ نے ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں افغان جہاد کیلئے بنیاد رکھ دی تھی لیکن بھٹو نے روس کے ذریعے اسٹیل مل کی بھی بنیاد رکھی اور اسلامی سوشل ازم کا نعرہ بھی لگایا۔ پھر جنرل ضیاء الحق اورISIچیف اختر عبدالرحمن نے اس کی تکمیل کردی۔ کرائے کے مجاہدین کا داد اامریکہ تھا اور نانیCIAتھی۔ کرائے کاباپ جنرل ضیاء الحق اور ماں جماعت اسلامی تھی۔ پھر بے نظیر بھٹو اور نصیراللہ بابر کے ذریعے طالبان لائے گئے۔ پھر اسامہ بن لادن اور طالبان کے خلاف امریکہ آنے لگا تو کرائے کے مجاہدین کا سوتیلا باپ مولانا فضل الرحمن بن گیا۔ غیرجماعتی انتخابات سے اسلامی جمہوری اتحاد اور پیپلزپارٹی ومسلم لیگ کے درمیان اپنی اپنی باری کا سلسلہ پرویزمشرف کے دور سے پہلے بھی تھا اور پھر بعد میں بھی بن گیا اور پھر تحریک انصاف کو لایا گیا اور اب پھر باریوں کا چرچاہے۔ عمران خان کباب میں ہڈی ہے۔ جس طرح ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی تیسری بیگم کی علیحدگی کا چرچہ ہے اسی طرح وسعت اللہ خان کے بقول دو بیویوں کے بعد تیسری سے اسٹبیلشمنٹ کی لڑائی کا سلسلہ اب عروج پر پہنچ رہاہے۔ یہ جمہوریت نہیں بلکہ خاندانی قسم کے مسائل میں عوام کو الجھایا جارہاہے۔ خوفناک تصاد م کا بھی خطرہ ہے اور عزت سادات بھی گئی کا مسئلہ نظر آتا ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟