غلام علی کو گورنر پختونخواہ لگانے پر مولانا عصام الدین کا مولانا فضل الرحمن کو چھوڑنے کا اعلان - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

غلام علی کو گورنر پختونخواہ لگانے پر مولانا عصام الدین کا مولانا فضل الرحمن کو چھوڑنے کا اعلان

غلام علی کو گورنر پختونخواہ لگانے پر مولانا عصام الدین کا مولانا فضل الرحمن کو چھوڑنے کا اعلان اخبار: نوشتہ دیوار

غلام علی کو گورنر پختونخواہ لگانے پر مولانا عصام الدین کا مولانا فضل الرحمن کو چھوڑنے کا اعلان

ہمارا جمعیت علماء اسلام نے یہ ذہن بنایا تھا کہ بندوں کی غلامی چھوڑ کر اللہ کی غلامی کرنی ہے۔ آج ہمارے ذہن کو اس طرف مائل کیا جارہا ہے کہ ہم غلاموں کی غلامی کریں۔

جس کو گورنر شپ دی اس میں اور کوئی کمال نہیں ، صرف یہ ہے کہ وہ جو کماتا ہے اس میں مولانا کا حصہ ہے۔ اس وجہ سے اپنی بیٹی دی آگے لیکر آیا حالانکہ پشاور کے علماء مخالف تھے

جمعیت علماء اسلام جنوبی وزیرستان اور ضلع ٹانک کے معروف رہنما عالم دین مولانا عصام الدین محسود نے کثیر تعداد میں قومی مشیران کے ساتھ مولانا فضل الرحمن کی جماعت کو خیر باد کہہ دیا ہے ۔ جن میں نامور شخصیات ملک محمد ہاشم خان، ملک سیف الرحمن، حاجی کرامت خان، ملک نعیم جان، ملک گل کرام خان، ملک عبد الحمید خان، ملک رحمت اللہ (رام تل)،ملک سلطان خان، حاجی محمد اقبال خان، نور محمد برکی، ملک بہرام خان، دارو خان، حاجی شاہ محمود خان، ملک فیض اللہ خان اور ڈاکٹر عبد المجید خان وغیرہ شامل ہیں۔ قوم شمن خیل ، لاتعداد عبدالائی، منزائی وغیرہ محسود قوم کی اکثریت نے مولانا عصام الدین کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے مولانا عصام الدین محسودنے دکھ بھرے لہجے میں40سالہ رفاقت کو چھوڑنے کی مجبوری پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا:

ٹانک شہر میں مولانا عبد الحق ، قاضی عطاء اللہ اور مولانا فتح خان جمعیت علماء اسلام کی خدمت کررہے تھے۔ جب1983میں مولانا فضل الرحمن نے جمعیت علماء اسلام کی خدمت کو اپنے ہاتھ میں لیا ۔ مولانا عبید اللہ انور، مولانا عبد اللہ درخواستی پیچھے ہٹے ۔ مولانا فضل الرحمن آگے آئے تو چونکہ ہماری جوانی تھی ۔ ہم نے ساتھ دیا ، ہر محاذ پر بہت قربانیاں بھی دیں۔ اس نے ہمارا ذہن یہ بنایا تھا کہ لنخرج العباد من عبادة العباد الیٰ عبادة رب العباد ہمارا جمعیت نے یہ ذہن بنایا تھا کہ بندوں کی غلامی چھوڑ کر اللہ کی غلامی کرنی ہے۔ آج ہمارے ذہن کو اس طرف مائل کیا جارہا ہے کہ ہم غلاموں کی غلامی کریں۔ ان لوگوں کی غلامی جن کا اپنا ذہنی میلان غلامی کا ہے ۔ مجھے جو دکھ درد پہنچا، اس کا میں مکمل اظہار نہیں کرسکتا اسلئے کہ میرا دل بہت کمزور ہے۔ آج جب میں جمعیت کو چھوڑ رہا ہوں تو میرے لئے کوئی خوشی کی بات اور اچھا دن نہیں۔ آج جیسا میں مرچکا اور ختم ہوچکا ہوں۔ پارٹی کی آپ40سال خدمت کرو اور اس کو خیر باد کہو تو یہ بہت بڑی بات ہے۔KPKکی لیڈر شپ اوراختیارات مولانا نے ایک ایسے آدمی کو دئیے جو میری موجودگی میں تین مرتبہ مجلس عمومی کے اجلاس سے کرپشن اور بدنامی کی بنیاد پر نکالا گیا۔ اس کو میٹنگ میں آنے سے منع کرتے تھے۔ آج اس کو خیبر پختونخواہ کا گورنر لگایا۔KPKمیں جتنے پرانے علماء کرام اور قربانیوں کے لوگ ہیں سب کو چھوڑ دیا۔ رشتے دار بیٹی کے سسر کو گورنری دی۔ میں جمعیت علماء اسلام کی بنیادی رکنیت سے استعفیٰ دیتا ہوں۔ مجھ پر بھاری، تکلیف دہ ہے اسلئے کہ یہ جھنڈا میرے باپ نے بھی گھمایا ۔ مفتی محمود کے وقت میں میرے والد قبائل کی ساتوں ایجنسی کے صدر تھے۔ اس جمعیت کی بنیاد وزیرستان میں میں نے رکھی ۔ سراروغہ میں انصار الاسلام سے جمعیت کو منتقل کیا پھر کل قبائل جمعیت بھی الحمد للہ میری کوششوں سے وجود میں آئی تھی۔ بڑے جلسوںاور پروگرام کا اہتمام میرے گھر سے ہوتا تھا۔ وہ نظریہ جو مولانا نے متعارف کرایا تھا اسکے خلاف مولانا خود چل پڑے۔ اسلئے اپنی سیاسی وابستگی سے دستبرداری کا اعلان کرتا ہوں اور مستقبل کیلئے میں اپنی قوم اور عوام کی رائے سے قدم اٹھاؤں گا۔ میرا گلہ ہے کہ مولانا صاحب بہت سارے علماء نے آپ کیساتھ بڑی قربانیاں دیں ۔ جنکے باپ دادا جمعیت میں بوڑھے اور فوت ہوگئے۔DIخان کو دیکھیں! مولانا علاؤ الدین ، مفتی عبد القدوس اور کلاچی کے قاضی عبد الکریم یہ جتنے علمی گھرانے تھے مولانا فضل الرحمن کی کوشش سے جمعیت کی قیادت سے نکلے بلکہ انکے نام کو مٹانے کی کوشش کی۔ ٹانک میں مولانا قاضی عطاء اللہ، مولانا عبد الحق مولانا فتح خان، مولانا عبد الرؤف کی جماعت کیلئے قربانیاں تھیں۔ ان کی اولاد کو کسی شمار و قطار میں نہیں سمجھتا بلکہ ان کی بے عزتی کی کوشش کرتا ہے۔ میں ڈرتا تھا کہ میری بے عزتی نہ ہوجائے۔KPKمیںمولانا جمعیت کو وراثت میں تبدیل کرچکا ۔ ڈی آئی خان میں اس کی خاندانی ، بنوں میں اکرم درانی اور پشاور میں غلام علی کی بالادستی ہے۔ علماء کو چاہیے کہ آج اٹھ جائیں اور اپنے آپ کا خود پوچھ لیں اگر وہ پوچھیں نہ تو ان کیلئے یہ وقت نقصان دہ ہوگا۔ اللہ کرے کہ جمعیت علماء اسلام کے اکابرین اس طرح سوچنے پر مجبور ہوجائیں کہ وہ کس طرف جارہے ہیں؟۔ کس کیساتھ جارہے ہیں؟ اور کس لئے جارہے ہیں؟۔
صوبے کے علماء سے مطالبہ ہے کہ اٹھ جاؤ اور اپنا اختیار اپنے ہاتھ میں لو ۔ آج جمعیت سرمایہ داروں کے ہاتھ میں گئی۔ میں نے اس دن استعفیٰ دیا تھا جس پر امیر اور جنرل سیکریٹری گواہ ہیں کہ جس دن ساؤتھ وزیرستان محسود ایریا سروکئی تحصیل اور لدھا تحصیل کے میئر کے نام آگئے تو اس دن میں نے دستخط کردئیے اور کہا کہ اسکے بعد مولانا صاحب میں کابینہ میں ساتھ نہیں ہوں گا۔ اس نے کہا کہ کیوں؟ ۔ میں نے کہا اسلئے کہ محسود ایریا کے لوگ جمعیت علماء اسلام کو مفت میں ووٹ دیتے تھے۔ آپ نے سرمایہ داروں کوآ گے کردیا اور ان کو ٹکٹ دیا۔ مولانا صاحب نہیں چاہتا کہ کوئی غریب عالم بھی آگے آئے۔ حالانکہ علماء کی اکثریت ہے اور اب بھی پوچھ سکتے ہیں کہ میئر کیلئے اکثریت علماء کے حق میں تھی کہ ٹکٹ علماء کو ملیں لیکن جب بات مولانا تک پہنچی تو مولانا سرمایہ دار کے حق میں فیصلہ کرتا تھا۔ اس طرح مولانا صالح شاہ کے بیٹے کو ٹکٹ دیا۔ اس دن بھی آپ لوگوں نے مجھے داد دی تھی اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو کامیابی عطا فرمائے۔ اس کے علاوہ کی باتیں اور اپنے مستقبل کا فیصلہ اپنے دوستوں کے ساتھ مشورہ کروں گا۔ اگر سیاست کیلئے دل چاہا تو جماعتیں بہت ہیںاور اگر نہیں چاہا تو بھی اپنے لئے لائحہ عمل بناؤں گا۔ جمعیت موروثی جماعت بن گئی، علماء کی جماعت نہیں ، ان پڑھ لوگوں میں بھی صرف مالداروں کو اہمیت دی جاتی ہے۔ میں جماعت کیلئے یہ گناہ سمجھتا ہوں اور اسکے بعد میں شامل نہ ہوں گا، و آخر دعوانا ان الحمد للہ ۔
سوال: مولانا صاحب یہ بتاؤ کہ گورنری کیلئے جمعیت علماء اسلام سے کوئی مشاورت ہوئی تھی؟۔ یا ایسے ہی نامزد کردیا؟۔ اور لوگوں نے اتفاق کرلیا؟۔
جواب: مولانا ہر بات میں مشاورت کرتا ہے لیکن پہلے کارکنوں کا یہ ایسا ذہن بناتا ہے جو اس کا اپنا ہوتا ہے۔ اگرچہ ایک رسمی مشاورت ہوتی ہے۔
سائل: مطلب ہے کہ پہلے سے کسی ایک کیلئے ذہن بنایا ہوتا ہے۔
جواب: ہاں بالکل! جس کیلئے مولانا چاہتے ہیں اسی کو لاتے ہیں۔
سوال: کیا یہ بات جماعت کی مرکزی اور صوبائی سطح پر پہلے بھی آپ نے کبھی اٹھائی ہے کہ ہمیں یہ شکایات ہیں؟ یا پہلی مرتبہ یہاں بیان کررہے ہیں؟ ۔
جواب: میں نے بالکل پہلے بھی کی ہے لیکن جو لوگ ان کے گھر سے باہر کے تھے تو وہ کہتے تھے کہ اگر ہم نے یہ بات کی تو ہمیں عہدوں سے ہٹادے گا۔ عصام الدین صاحب یہ مہربانی کرو کہ چند سال مجھے اس عہدے پر رہنے دو۔ اگر آپ مخالفت کرو تو پھر آپ کی جگہ جماعت میں نہیں ہے۔
سوال: جس طرح پاکستان میں گرما گرمی بہت تیزی کے ساتھ جاری ہے ایسے میں بنیادی رکنیت سے آپ کا مستعفی ہونا تو کیا کسی سیاسی جماعت میں کوئی جانے کا فیصلہ کیا ہے؟۔ یا پھر آپ خاموش رہیں گے؟۔
جواب: اگر میرے مفاد کی بات ہوتی تو غلام علی کو میں بہت عرصہ سے جانتا ہوں جب وہ کونسلر بھی نہ تھا پھر میں استعفیٰ نہ دیتا بلکہ گورنر سے مفادات اٹھاتا۔ لیکن الحمد للہ کہ میں نے پہلے بھی کبھی جماعت میں مفادات نہیں اٹھائے ہیں۔ اور نہ آئندہ کسی اور پارٹی سے میرے مفادات کا خیال ہے۔ ہر بندے کا حق ہے کہ سیاست کرے لیکن وہ اپنے لئے اس پارٹی کو چنے گا کہ جس میں میرے دوستوں ، میری قوم کے لوگوں اور میرے علاقے کے لوگوں کو پسند ہواور اس میں میری عزت ہو، بے عزتی نہ ہو۔ میں جمعیت فضل الرحمن کو چھوڑ رہا ہوں تو مجھے اپنی عزت کا خطرہ ہے۔ یہ تین چار سال سے جو ہورہا ہے کہ انہوں نے مجھے اپنا سرپرست بنایا ہے تو میں نے جو کچھ بھی دیکھا، اس کو سر عام بیان نہیں کرسکتا۔ میں نے40سال گزارے اسلئے میں وہ باتیں نہیں کرسکتا کہ کیوں جماعت کو خیر باد کہہ دیا۔ لیکنKPKکے گورنر سے مجھے یقینی طور پربہت تکلیف پہنچی۔ اسلئے میں نے آج نو دس بجے ہنگامی فیصلہ کیا کہ آج تمام علماء ، پرانے دوستوں کو نظر انداز کرکے سسرالی رشتہ دار کو گورنری دی تو کیا کوئی اس کی اہلیت نہیں رکھتا تھا؟۔ میں نے بتایا کہ ہمارے وقت میں اس کو تین دفعہ اجلاس سے نکال دیا گیا تھا۔ بس یہ میرے لئے برداشت کے قابل بات نہیں تھی۔
سوال: اس نے تو ایم پی اے کا ٹکٹ بھی بغیر داڑھی والے کودیا ہے جو جماعتی فرد نہ تھا۔ اسی طرح گلستان بھی ایساتھا اور… بیٹنی بھی ۔
جواب: ہاں اسکا رویہ یہی ہے جوMPAاسکےMNAکا خرچہ برداشت کرتا ہے اسی کو ٹکٹ دیتا تھا۔ جو علماء ، کارکن خرچہ نہیں اٹھاسکتے تو ٹکٹ نہیں دیتا تھا۔ گلستان اور جس کو ابھی ٹکٹ دیا ہے وہ صرف اسلئے دیا کہ وہ خرچہ اٹھاتا ہے۔
سائل: یعنی جو مالی طور پر مولانا کے خرچے کو اٹھاسکتا ہے جماعتی طور پر نہیں!
جواب: ہاں بالکل۔ جماعت برائے نام معاملہ ہے ۔ آپ کا جماعت سے کوئی تعلق نہ ہو تو ٹکٹ بھی مل جائیگا جب دولت ہو تو۔ اگر دولت نہ ہو تو پھر آپ کی کوئی حیثیت نہیں۔ میرے گھر مولانا فضل الرحمن اورمولانا عطاء الرحمن نے بہت راتیںگزاری ہیں۔ جماعت کا کوئی لیڈر نہیں جس نے اس بیٹھک میں رات نہ گزاری ہو۔ یہ جماعت اولیاء اللہ کی جماعت تھی اور اچھے لوگوں کی جماعت تھی۔ مولانا حسین احمد مدنی، مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا احمد علی لاہوری اور یہ مفتی محمود کی جماعت ہے۔ اس جماعت کو اس طرف نہ لے جاؤ جس میں علماء کی بے قدری ہو اور سرمایہ دار کی عزت ہو۔ اللہ ہم پر رحم کرے اور ہماری جمعیت علماء کے پرانے ساتھیوں کو یہ فکر دے کہ آخر ہم کس طرف جارہے ہیں۔
سوال: جب جمعیت علماء اسلام کے مرکزی شوریٰ نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ ان سرمایہ داروں کو بھی جماعت میں شامل کریں گے اور ٹکٹ دیں گے تو پھر ؟ ۔
جواب: سرمایہ دارں میں جو لوگ جماعت کیلئے قربانی دیتے ہیں ان کو بھی ٹکٹ دینے کا حق پہنچتا ہے ایسا نہیں کہ کوئی سرمایہ دار ہے اور وہ جماعت میں نہیں آسکتا ہے۔ جماعت میں بہت سرمایہ دار لوگ ہیں ان کی قربانیاں ہیں۔ وہ بچپن سے جماعت کیلئے قربانیاں دیتے آئے ہیںاور ان کی داڑھیاں نہیں ہیں لیکن ان کا نظریہ جمعیت علماء اسلام کا ہے۔ البتہ اگر کوئی ایسا ہے کہ جسکا تعلق جماعت سے ہے لیکن کردار جماعت کیخلاف ہے تو اس کی مخالفت ہم کرتے تھے۔ ہمارا مقصد یہ نہیں کہ سرمایہ دار کو ٹکٹ نہ دیا جائے مگر اقرباء پروری نہ ہو جس کو گورنر شپ دی اس میں اور کوئی کمال نہیں ، صرف یہ کمال ہے کہ وہ جو بھی کماتا ہے اس میں مولانا کا حصہ ہوتا ہے۔ اس وجہ سے اپنی بیٹی دی اور آگے لیکر آگیا حالانکہ پشاور کے علماء مخالف تھے اور یہ غلام علی پشاور نہیں دیر کا ہے ۔
سوال: جب جمعیت علماء اسلام سے مولانا محمد خان شیرانی اور مولانا گل نصیب خان وغیرہ کو نکال دیا گیا کہ یہ اپنے ذاتی مفادات کیلئے لگے ہوئے ہیں تو کیا اس وقت آپ مولانا فضل الرحمن اور جمعیت کے فیصلے سے متفق تھے؟۔
جواب: مجھ پر کوئی یہ ثابت نہیں کرے گا کہ میں نے کبھی مولانا شیرانی اور مولانا گل نصیب خان کی مخالفت کی ہو۔ بلکہ میں کسی بھی عالم کی مخالفت کرنے کا قائل نہیں ہوں۔ شیرانی صاحب کی جو قربانیاں جماعت کیلئے ہیں وہ مولانا فضل الرحمن نے آنکھوں سے بھی نہیں دیکھی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے جو کیا ،اپنی لیڈر شپ کیلئے کیا اور مولانا شیرانی نے جو قربانیاں دیں وہ جماعت کیلئے دی ہیں کسی اور کیلئے نہیں دی ہیں۔ اس نے ہر موقع پر مولانا شیرانی کے خلاف جماعت کو استعمال کیا ہے اور میں اس میں بھی اس کے ساتھ متفق نہیں تھا۔ اگر میری کوئی آئی ڈ ی دیکھ لے تو میرا اس میں اس وقت بھی بیان موجود ہے کہ جو جماعت نے ان لوگوں کو نکالنے کا فیصلہ کیا ہے یہ بہت دلخراش ہے۔ اس کو آپ دیکھ لیں میرا مؤقف اس وقت بھی یہ تھا کہ ان علماء کو جماعت سے نکالنا درست نہیں ۔ یہ اختیار بھی غلط ہے کہ اتنے بڑے بڑے علماء کو جماعت سے نکالو۔ مجھے آج کے اس احتجاج سے یہ امید ہے کہ آئندہ الیکشن میں علماء اپنے لئے کچھ سوچیں گے۔

__تبصرہ__

سوسالہ تاریخ میں جمعیت علماء اسلام کو چند خاندانوں تک محدود کرنے کی کوششوں اور اکابر کی جانب سے مختلف ادوار میں اصلاح کی طویل جدوجہدکے
نشیب وفراز
حالات وواقعات کے زبانی اندرونی حقائق پہلی مرتبہ کارکنوں کے لئے منظر عام پرلانے والی کتاب ، جس کو پڑھنے کے بعد ہر کارکن جمعیت علماء اسلام کی دوبارہ احیاء کی مخلصانہ مساعی کا دست وبازو بننے کا آرزو مند ہوگا۔
مصنف :محمد اسماعیل الحسنی (بلوچ)
ناشر: دارالبصیرة کوئٹہ۔ تاریخ اشاعت2022صفحات720
فون :03217888483تعداد:1100قیمت850
انتساب : جمعےة علماء اسلام کے ان بے لوث اکابرین اور بے غرض کارکنوں کے نام جو مختلف ادوار میں اپنی ہی جماعت میں مظلوم اور معتوب ٹھہریں۔
مختصر تبصرہ:ازنوشتۂ دیوار:کتاب پر مولانا گل نصیب خان کی تقریظ ہے۔ مولانا محمد اسماعیل الحسنی نے دار العلوم دیوبند کا ایک انقلابی نظریہ اور دوسرا سرمایہ دارانہ استحصالی نظریہ پر بہت گرانقدر موادپیش کیا ہے۔ مولانا محمد خان شیرانی و مولانا فضل الرحمن ، مولانا غلام غوث ہزاروی و مفتی محمود کی چپقلش پر تحقیق ہے۔
محمد اسماعیل الحسنی ”لیفٹیننٹ گورنر سر جیمس کی دار العلوم آمد اور مہتمم کو اعزاز” کے عنوان سے لکھتے ہیں : شمس العلماء مولانا محمد احمد (مہتمم دار العلوم دیوبند) انگریز کے وفادار اور بہی خواہ تھے۔ اسکے بدلے میں انہیں خصوصی سند ، زمین، وظیفہ اور حیدر آباد دکن میں ایک عالیشان ملازمت بطور احسان عنایت کئے گئے بحکم ھل جزاء الاحسان الا الاحسان شمس العلماء نے بھی انکے احسان کا نقد بدلہ مولانا عبید اللہ سندھی کے دیوبند سے اخراج اور شیخ الہند کو گرفتار کرواکر ادا کیا تھا بانیان دیوبند کی اولاد غیرت دینی و حمیت ملی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انگریز گورنر کو سپاسنامہ پیش کرکے دار العلوم کی لائبریری میں خوشامدانہ جذبات کا اظہار کررہے تھے۔ گورنر انکے چہروں پر نظر حقارت ڈال رہے تھے۔ صفحہ81

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟