حضرت داؤدؑ کی خلافت اور حضرت سلیمانؑ کی عدالت
اکتوبر 26, 2018
حضرت داؤد علیہ السلام کو اللہ نے زمین میں خلافت کا موقع ، خطابت کا ملکہ اور نبوت ورسالت سے سرفراز فرمایا۔ پاکستان قربانیوں کے بعد نہیں بناتھابلکہ پاکستان بننے کے بعد لوگوں کو تعصب، مفادپرستی اور منافرت کی وجہ سے قربان کیا گیا تھا۔ علامہ اقبال اور قائداعظم محمد علی جناح نے انگریز ریاست کے خلاف کبھی ایک سکینڈ کی جیل نہیں کاٹی اور نہ ہی انگریز حکمران کے خلاف لڑنے والوں کا کوئی مقدمہ لڑا ، جب انگریز نے یہاں سے جانے کا فیصلہ کیا اور ووٹ کی طاقت سے برصغیر پاک وہند میں تقسیم ہونے کا فیصلہ ہوا پھر لوگوں کو قربانیوں کا سامنا کرنا پڑا اور آج بدقسمتی سے ملک وقوم کیلئے قربانیاں دینے کی غلط رٹ لگائی جارہی ہے۔
علامہ اقبال نے پنجاب اسمبلی میں کہاتھا کہ ’’ حکومت کا لباس صرف انگریز پر چست آتا ہے، مسلمان اور ہندو دونوں حکمرانی کے قابل نہیں ‘‘۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ للکار للکار کر پکار پکارکر کہتا کہ ’’ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں بہت بڑا فاصلہ ہے۔ بنگلہ دیش کو الگ مملکت بننے دو، پورا پنجاب لے لو۔ کشمیر کا مسئلہ حل کرو، انگریز نے تفریق ڈالو اور حکومت کرو کی جس پالیسی کے تحت یہاں حکومت کی تھی مسئلہ کشمیر پر پھر دونوں ملکوں پاکستان وبھارت میں تفریق ڈال کر دوبارہ حکومت کرنے کیلئے راستہ ہموار کریگا‘‘۔ قلندر ہر چہ گوئید دیدہ گوئید آج وہ نقشہ سامنے آرہا ہے جس کو عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے کھینچا تھا، جن کی زندگی کا بڑا سفر انگریز کیخلاف جدوجہد میں گزرا۔ آدھی زندگی جیل، آدھی ریل میں گزاری۔ جو بہترین خطیب تھے، قوم انکی بات سمجھ لیتی تھی۔ اللہ نے قرآن میں فرمایا: ’’ ہم نے کسی رسول کو نہیں بھیجا مگر اس کی قوم کی زبان سے تاکہ انکے سامنے حقیقت واضح کردے‘‘۔آج بھی قوم کوانگریزی سمجھ نہیں آتی۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ اور انکے ساتھیوں کیساتھ انگریز نے بھی اتنی زیادتی نہیں کی جتنی ہماری ریاست نے کی تھی۔ پاکستان بننے سے پہلے ختم نبوت زندہ باد کے نعرے پر پابندی نہیں تھی مگر پاکستان بن گیا تو ختم نبوت کے نعرے پر پابندی لگ گئی۔ ریاستی ٹاؤٹ طبقے سید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ کو مسلمان نہیں سمجھتے تھے ،قادیانیوں کی مخالفت پاکستان اور اسلام کی مخالفت سمجھتے تھے۔ عمران خان کے جعلی کزن ڈاکٹر طاہر القادری نہیں حقیقی کزن مولانا عبدالستار خان نیازیؒ نے تحریک ختم نبوت میں شمولیت کی وجہ سے ریاستی مظالم کے خوف سے اپنی داڑھی بھی مونڈ ڈالی تھی۔ آج تک بہت سے لوگ عدل وانصاف، سیاست ،اسلام اور انسانیت کی جنگ لڑرہے ہیں۔
حضرت داؤد علیہ السلام نے دو قوموں کے درمیان فیصلہ کیا۔ ایک قوم کے جانوروں نے دوسرے کی فصل کو نقصان پہنچایا تھا۔ دونوں کی قیمت برابرہی تھی۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے انصاف کے تقاضوں پر عمل کرتے ہوئے جانوروں کو فصل والوں کے حوالہ کرنے کا حکم دیا۔حضرت سلیمان علیہ السلام نے کہا کہ یہ فیصلہ غلط ہے، اس طرح ایک قوم بالکل محروم ہوجائے گی۔ پھر یہ اپنا گزر بسر کس طرح کرینگے؟۔ چوریاں، ڈکیتیاں اور بے ایمانیاں کرینگے ، ملک کا امن وامان غارت ہوجائیگا۔ انکے بچے بھوک سے مرینگے تویہ معاشرے سے بھی اسکا انتقام لیں گے!۔ حضرت داؤد علیہ السلام کی سمجھ میں بات آگئی، یہ نہیں دیکھا کہ مجھ سے چھوٹے ہیں بلکہ بات مان لی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے فیصلہ کیا کہ جب تک فصل اپنی جگہ پر نہیں آتی ہے جانور والے اس کھیت میں محنت مزدوری کریں اور جانور فصل والوں کے حوالے ہونگے، جس کے دودھ، اون اور گوبر کا وہ فائدہ اٹھائیں گے۔ پھر جب فصل اپنی جگہ پر آجائے تو فصل اپنے مالکوں اور جانوروں کو انکے اپنے مالکوں کے حوالے کیا جائیگا۔ اس فیصلے کیوجہ سے قرآن میں اللہ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو زیادہ سمجھدار قرار دیا ہے۔
قوم قائداعظم کی کوئی بات نہ سمجھ سکی سوائے اسکے کہ’’ مصیبت میں ہیں اور مسلمان مصیبت میں گھبرایا نہیں کرتے‘‘۔ یہ مصیبت بھی تقسیم کی وجہ سے ہی دیکھنے کو ملی تھی۔ جسکے ذمہ دار بھی قائداعظم خود ہی تھے۔ قرآن میں ہی اللہ نے حضرت داؤد علیہ السلام کی طرف 99بیویاں ہونے کے باوجود ایک مجاہد حضرت اوریا کی بیگم سے شادی کی خواہش رکھنے پر تنبیہ فرمائی تھی۔ لی نعجۃ ولہ تسع وتسعوں نعجۃ ’’ میرے پاس ایک دنبی ہے اور اسکے پاس 99دنبیاں ہیں‘‘۔ جس پر تنبیہ کے بعد حضرت داؤد علیہ السلام کو بات سمجھ میں آگئی اور اللہ سے توبہ کی اور اللہ نے معاف کردیا۔ قرآن میں الفاظ ہیں فغفرلہ مولوی حضرات کو حلالہ پر اس وقت اللہ تعالیٰ معاف کریگا جب وہ تنبیہ کے بعد توبہ کرینگے ورنہ تو غفرلہ کا کوئی تک نہیں بنے گا۔ ہمارے حکمران طبقے نے انگریز کی وراثت سے یہ بیماری لی تھی کہ مثبت اور جائز تنقید بھی بغاوت سمجھتے تھے، پھر اصلاح کیسے ہوتی؟۔ بھٹو کی طرف سے سرمایہ داروں کے خلاف راتوں رات کریک ڈاؤن ہوا تھا اور سب کو ملک چھوڑنے اور بھاگنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ متبادل روزگار بھی نہیں دیا گیا اور پھر حکمرانوں نے اپنا سرمایہ بھی بیرونِ ملک منتقل کرنے میں عافیت محسوس کی۔ کوٹہ سسٹم کیوجہ سے نالائق لوگ نظام کا حصہ بن گئے اور میرٹ والے لوگوں کا روز گار چھن گیا۔ جس سے ملک اور قوم کا بیڑا قائدِ عوام نے غرق کردیا تھا۔
مؤمن ایک سوراخ سے دودفعہ نہیں ڈسا جاسکتا۔ فوج نے نواز شریف اور بینظیر بھٹو کو بار بار مواقع دئیے اور اب عمران خان کی شکل میں ڈرامہ جاری ہے۔ عمران خان 1991ء میں کرکٹ کھیل رہا تھا تو مجھے قبائلی FCR کے تحت ایک سال قیدبامشقت کی سزا اسلئے دی گئی تھی کہ نظام بدلنے کی بات کر رہا تھا ۔
حضرت داؤد علیہ السلام کے پاس دو خواتین نے ایک بچے پر اپنا مقدمہ پیش کیا، دونوں کی بات سن کر ایک کے حق میں آپؑ نے فیصلہ دیا۔ حضرت سلیمان ؑ نے کہا کہ میں ان کا فیصلہ کروں گا۔ دونوں کی بات سن کر حکم جاری کیا کہ میں کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکا ہوں اسلئے بچے کو دوٹکڑے کرکے آدھا ایک کو اور آدھا دوسری کو دیا جائے۔ جس کو بچہ پہلے مل چکا تھا، وہ کہہ رہی تھی کہ مجھے یہ فیصلہ منظورہے۔ دوسری نے چیخ کرکہا کہ میں نے جھوٹ بولا تھا۔ میں اپنے دعوے سے دستبردار ہوں یہ بچہ اسی کا ہے۔ حضرت سلیمانؑ نے پھر بچہ اسی کے حوالے کیا ۔ نوازشریف سے پارلیمنٹ کی تقریر کی وضاحت طلب کی جاتی تو بھڑکیاں مارنے کی صلاحیت بھی نہ رہتی ، عدلیہ کو توہین عدالت کے کیس بھی نہ کرنے پڑتے اور عوام کو حقائق کا بھی پتہ چل جاتا۔ نظام انصاف سے بھی دیر اور بے راہ روی کی شکایت نہ رہتی۔
ایک سکھ کڑک سنگھ نے اپنے سردار سے کہا کہ مجھے جج لگواؤ، سردار نے کہا کہ تمہاری تعلیم نہیں ، اس نے کہا کہ تعلیم سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سردار نے اس کو جج لگوادیا۔ قتل کا ایک مقدمہ سامنے آیا، قاتلوں نے کہا کہ چھرے سے مارنے کا ارادہ نہیں تھا۔۔۔،کڑک سنگھ نے کہا کہ تم نے کیسے قتل کیا، اس سے بحث نہیں ۔ چاروں کو اسی وقت لٹکانے کا حکم دیا اور پوچھا کہ یہ پانچواں کون ہے تو بتایاگیا کہ یہ ان کا وکیل ہے، کڑک سنگھ نے کہا کہ یہ بھی ان کے ساتھ ہے، اس کو بھی ٹانگو۔
پیدا ہوا وکیل تو شیطان نے کہا لوآج میں بھی صاحب اولاد ہوگیا
لوگوں کی راۓ