قائد اعظم نے ٹیکنوکریٹ کی حکومت بنائی تھی، ہندو وزیر قانون اور قادیانی وزیر خارجہ تھا. عبد القدوس بلوچ
جنوری 31, 2018
نوشتہ دیوار کے کالم نگار عبدالقدوس بلوچ نے کہاہے کہ اسٹیبلیشمنٹ نے کوئی دوسرا قصور نہیں کیا ، سول و ملٹری بیوروکریسی نے جنگ کی تو جنرل ایوب خان نے سول بیوروکریسی سے اقتدار چھین لیا۔ پھر پیپلزپارٹی کے ذوالفقار علی بھٹو کو جنم دیا۔بھٹو کو ختم کرنے کیلئے محمد خان جونیجو اور نوازشریف کو جنرل ضیاء الحق نے جنم دیا۔ قائداعظم محمد علی جناح نے کانگریس سے اپنی سیاست کا آغاز کیا تھا، اپنی کابینہ میں ہندو وزیرقانون و قادیانی سر ظفر اللہ کو وزیرخارجہ بنا دیا تھا۔یہ لوگ فوجی قیادت کی پیدوار نہ تھے۔ نوازشریف و شہباز شریف جنرل ضیاء الحق کی پیدوار ہیں۔ اب جمہوریت و ڈکٹیٹرشپ کے درمیان میں ہیں۔ مرد اور عورت کے درمیان میں ہجڑہ ہوتاہے، ہجڑے کو تالی بجانے کے علاوہ کچھ نہ آتا ہو تو حج میں ٹھوکر لگنے پر بھی وہ تالی بجاتاہے۔ منافقوں کیلئے فرمایاکہ وہ ادھر کے ہیں نہ ادھر کے، درمیان میں متذبذب رہتے ہیں۔زینب کے قاتل پرBetven شہباز شریف کا تالی بجانا عادت سے مجبوری تھی،محترم غوث بخش بزنجو بابائے جمہوریت کہلاتے تھے، فوج کا گودی بچہ بننے اور ناجائز رقم بٹورنے کے بعد سیاسی کھدڑا لیڈر بنے تو یہ قوم کی بہت بڑی بدقسمتی ہے۔
بلوچستان میں نواب ثناء اللہ زہری کی ناکامی تھی، جمہوری نظام چلانا سیاسی کارکنوں کا کام ہے نوابوں کا نہیں۔ عبدالمالک بلوچ ایک سیاسی کارکن تھے اسلئے کامیابی سے حکومت کی۔ محمد خان اچکزئی کے پیچھے بھی محمود خان اچکزئی کا ہاتھ ہے، ان کے والد عبدالصمد خان شہید بلوچستان کے گاندھی اور سیاسی کارکن و رہنما اور قائدتھے۔ اب یہ سیاسی خانوادہ خانزادہ بن چکاہے مگر سیاسی کارکن نہیں رہاہے۔ ایم پی اے عبدالمجید اچکزئی نے کس طرح رمضان کی شام کو کھلے عام پولیس اہلکار کو شراب میں ٹن مار دیا اور پھر فرار ہوگیا۔ کیمرے کی آنکھ نہ پکڑتی تو پولیس کے ہاتھ بھی نہ آتا۔ غلطی پر انسان کا شرمندہ ہونا ایک فطری بات تھی لیکن عبدالمجید اچکزئی پر ضمانت ملنے کے بعد جس بے شرمی اور بے غیرتی کیساتھ پھولوں کی بارش برسائی گئی کوئی سیاسی کارکن تو بہت دور کی بات ہے کسی انسان کا غیرتمند بچہ یہ نہیں کرسکتاتھا محمود خان اچکزئی سے قومی اسمبلی میں پوچھ لیا جائے کہ پٹھانوں کی یہ روایت ہوسکتی ہے؟۔ ڈیوٹی پر شہید اہلکار کی بیوہ اور بچوں پر پھول نچاور کرنے سے کیا گزری ہوگی؟۔ اس نے کیا فتح کیا تھا جس کی خوشی میں اس پر پھول برسائے جارہے تھے؟۔ اگر خورشید شاہ اپوزیشن لیڈر ایک سید کا خون ہے تو جس طرح سے شہبازشریف کی طرف سے تالی بجانے کے عمل پر اسمبلی میں وہ مذمت کررہا تھا،یہی مذمت پھول نچاور کرنے کے عمل پر بھی وہ ضرور کرکے دکھائے۔ محمود خان اچکزئی سے معافی منگوائے۔
سیاسی خانوادے اور پارٹیاں بدل بدل کر سیاسی لوٹے تو بہت بدنام ہوچکے ہیں۔ نگران سیٹ اپ کیلئے پنجاب میں خیبر پختونخواہ سے کوئی شخصیات گورنر اور وزیراعلیٰ کے عہدوں پر فائز کی جائیں ، اس طرح بلوچستان، سندھ اور پختوخواہ میں دیگر صوبوں سے ماہر ، باضمیر اور باغیرت افراد کے ہاتھوں میں کچھ دنوں کیلئے حکومتوں کو سپرد کیا جائے تاکہ عوام کو دکھایا جائے کہ حکومت کس طرح سے ہوتی ہے۔ رعایت اور انتقام نہیں بھرپور عدل وانصاف سے عوام کی عزت نفس کو بحال کیا جائے۔ جہاں جہاں بدمعاش و بدکار طبقات خواتین کیساتھ زیادتی کے مرتکب ہوں ، ظلم وزیادتی مسلط کی گئی ہو اورشریف لوگوں کا جینا دوبھر ہو وہاں قانون کے شکنجے سے ان کو ایسا سبق سکھایا جائے کہ عوام کو احساس ہوجائے کہ حکمران مسیحا ہوتا ہے طاقتور قوتوں کا دلال نہیں ہوتا۔ جب سب سے بڑی سیاسی جماعت اور برسر اقتدار ن لیگ کا یہ حال ہو کہ ٹی وی کے ٹاک شوز سے لیکر پارلیمنٹ اور قطری خط تک جھوٹ ہی جھوٹ بولتے ہوں ، سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے فیصلے کو بھی اپنے خلاف سازش قرار دیتے ہوں تو یہ جمہوریت اور قانون کی بالادستی نہیں بلکہ بدترین قسم کی انارکی کا ماحول ہے۔ جمہوریت ایک آزاد ماحول میں آزادی سے رائے دہی کا نام ہے، یہاں تو گدھے کو بھی کھڑا کردیا جائے تو بھوکے بھوک مٹانے کیلئے پیسوں اور مفادات کیلئے بک جاتے ہیں۔
میڈیا ہاوس اور صحافی بھی کرایہ پر دستیاب ہیں۔سیاست خدمت نہیں ایک منافع بخش کاروبار ہے۔عوام بڑے عذاب میں مبتلا ء ہیں، لوگوں کی جان، مال اور عزتیں محفوظ نہیں ہیں اور سیاستدانوں کو اپنے کاروبار کی پڑی ہوئی ہے۔ جمہوریت سے عوام کو غلامی سے نکالا جاتاہے اور یہاں جمہوریت کے نام پر مافیا کا کردار ادا کرنے اور عوام کو غلام بنانیوالے جمہوریت کے چمپئین بنے ہوئے ہیں ۔ اب قوم کو بچانے کا وقت آگیا ہے۔
لوگوں کی راۓ