پوسٹ تلاش کریں

مشرق سے دجال نکلے گا جس کے مقابلے میں امام حسن علیہ السلام کی اولاد سے سید گیلانی ہوگا! علامہ طالب جوہری

مشرق سے دجال نکلے گا جس کے مقابلے میں امام حسن علیہ السلام کی اولاد سے سید گیلانی ہوگا! علامہ طالب جوہری اخبار: نوشتہ دیوار

مشرق سے دجال نکلے گا جس کے مقابلے میں امام حسن علیہ السلام کی اولاد سے سید گیلانی ہوگا! علامہ طالب جوہری

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

لغت میں خراسان مشرق کو کہتے ہیںاور عرب سے افغانستان،ایران،پاکستان مشرق کی جانب ہیں۔احادیث صحیحہ میںخراسان سے مہدی نکلنے کا بھی ذکر ہے اور دجال کے نکلنے کا بھی ذکر ہے!

جب دہشتگردوں نے ہمارے گھر پر حملہ کرکے13افراد کو شہید کیا تھا تو مولانا فضل الرحمن نے تعزیت کیلئے آمد کے موقع پر طالبان کو خراسان کادجال قرار دیا لیکن میڈیا نے خبرسنسر کردی تھی

امریکی صدر جوبائیڈن نے اسلام اور مہدی مخفی کا عید الفطر کی مناسبت سے ایک تقریب میں ذکر کیا تو انگریزی، عربی ، اردو سوشل میڈیا میں پذیرائی مل گئی۔ شیعہ عالم دین علامہ یاسر نقوی نے کہا کہ ”امریکی صدر تک نے مہدیٔ غائب کا ذکر کیا۔ جوبائیڈن نے کہا کہ گھرمیں تقابلِ ادیان کی کتابیں ہیں۔ ایک پروفیسر نے اسلامی تعلیم سے آگاہ کیا اور خفیہ مہدی کا زیادہ معلوم نہیں ۔ کافر نے فطری امام کا نام لیا اور سنی تعصب سے مہدی غائب کا ذکر نہیں کرتے ۔ اختلاف اپنی جگہ لیکن غیر متعصبانہ علمی حقائق کا تذکرہ کرنا چاہیے”۔ عربی عالم نے کہا کہ” خفی مہدی سے غیرفطری غائب امام مراد نہیں بلکہ سنی امام مہدی مراد ہیں جوانسانوں اور جنات شیاطین کی نظروں سے مخفی ہیں”۔ شیخ محی الدین ابن عربی کے اشعار کی تشریح کرتے ہوئے عربی عالم نے کہا کہ ” مہدی کا عوام کی نظروں سے اوجھل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ”لوگ واضح اسلامی احکام کو نہیں سمجھیں گے”۔
میرا عزیز پیر سید زبیرشاہ امریکیوں کا گائیڈ تھا۔ اسامہ بن لادن کیلئے کانیگرم جنوبی وزیرستان بھی امریکی ٹیم لایا تھا۔ سوات میں اس کی طالبان کے ہاتھوں گرفتار ی کی خبر آئی اور ساتھ میں ایک سومرو صحافی بھی تھا جو تاجر کے بھیس میں امریکہ کیلئے جاسوسی کررہے تھے۔ میڈیا پر گرفتاری کی خبر چلتے ہی تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان حاجی عمر نے کہا کہ فوری طور پر چھوڑ دیں گے۔ جس سے امریکہ اورTTPکے تعلق کی مضبوطی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ میرے ایک اور عزیز نے بتایا کہ وہ زبیرشاہ کیساتھ اسلام آباد میں امریکہ کے کسی بنگلے نما آفس میں گیا اور وہاں اس نے ہمارے نقش انقلاب کو دیکھا تھا جس میں گیارہ افراد کی تصاویر تھیں اور بارویں کا چہرہ مخفی تھا۔ شیعہ نے بارہ اماموں کا نقشہ بنایا ہوگا۔ صدر جوبائیڈن نے مخفی امام کا ذکر شاید اسی حوالے سے کیاہوگا۔
پانچ ہزار سال سے زیادہ عرصہ تک حضرت عیسیٰ اور حضرت خضر کی زندگی کا تصور ہے تو کیا حرج ہے کہ شیعہ کے امام کو ہزارسال سے غائب مانا جائے؟ ۔ میں نے اپنی کتابوں میں سنی وشیعہ کتابوں سے بہت واضح دلائل دئیے کہ مہدی آخری امیر سے پہلے گیارہ ائمہ اہل بیت حکومت کریں گے اور ان پر امت متفق بھی ہو گی۔ عیسیٰ کا نزول ، مہدی کی آمداوردجال کا خروج ہوگاتو پتہ چل جائیگا کہ شیعہ یاسنی مؤقف درست ہے؟۔ پہلے اتحادو اتفاق اور وحدت کی راہ ہموار کرنا ضروری ہے ۔ایک دوسرے کے دلائل سننا ،سمجھنا اور ان کو عملی جامہ پہنانا ہوگا۔ فرقہ وارانہ انتشار، قتل وغارتگری اور ایکدوسرے کیلئے عدم برداشت کا رویہ کسی کیلئے بھی کوئی فائدہ مند نہیں۔شیعہ کہتے ہیں کہ” خلافت راشدہ کے دور میں حضرت علی کی مظلومیت کا یہ عالم تھا کہ آخرکا ر مدینہ چھوڑ کر کوفہ منتقل ہونا پڑا۔ امام حسن نے مجبوری میں امیرمعاویہ کیلئے منصب چھوڑ دیا اور امام حسین کوشہیدکیا گیا اور باقی ائمہ اہل بیت نے خاموشی اختیار کرلی اور آخری غائب ہوگئے ”تو جب پہلے گیارہ نے کچھ نہ کیا تو بارویں امام سے امید کون لگائے گا؟۔اسلئے امام خمینی نے انتظار کی گھڑیاں ختم کرکے انقلاب برپا کردیا۔ حالانکہ شیعہ حدیث میں تھا کہ ”ہمارے قائم سے پہلے جس نے خروج کیا وہ ایسے طاہر کا بچہ ہوگا جو دوسروں کے ہاتھ میں کھیل رہا ہوگا”۔ فاطمی خلافت بھی آغاخانیوں اور بوہریوں کے آباء واجداد نے قائم کی تھی لیکن شیعہ امامیہ ان کے خلاف تھے۔ امامیہ شیعہ امام کا لفظ بارہ ائمہ کے علاوہ کسی کیلئے جائز نہیں سمجھتے تھے۔ مسجد کے امام کو پیش نماز کہتے ہیں۔ایرانی انقلاب شیعہ مسلک سے بہت بڑاانحراف بھی تھا ۔بقیہ صفحہ3نمبر2

بقیہ… علامہ طالب جوہری اورکئی دجال و امام مہدی
علامہ طالب جوہری کی کتاب ” ظہور مہدی” میں قیام قائم سے پہلے کئی قیام قائم کا ذکر ہے۔ ایک روایت ہے کہ مشرق سے دجال کے مقابلے میں قائم قیام کریگا جو حسن کی اولاد سے ہوگا۔ کسی روایت میں حسین کی اولادہے لیکن زیادہ روایات میں حسن کی اولاد کا ذکر ہے ،جس سے” سید گیلانی” مراد ہیں۔ علماء کرام علامہ طالب جوہری کی1987ء میں لکھی ہوئی کتاب میں مشرق کے دجال ، حسن کی اولاد میں سیدگیلانی کے حوالے سے معلومات مسلمانوں کے سامنے کھل کر بتادیں۔ بنو امیہ، بنوعباس اور خلافت عثمانیہ میں موروثی خلافت کا تصور تھا تو فاطمی خلافت اور بارہ ائمہ اہلبیت کا جواز بھی تھا۔ ا
امام ابوحنیفہ کے نزدیک غسل کے تین فرائض تھے ۔ کلی کرنا، ناک میں پانی ڈالنا، پورے جسم پر پانی بہانا۔ امام شافعی کے نزدیک کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنافرض نہیں۔ جبکہ امام مالک کے نزدیک مل مل کر دھونا بھی فرض ہے۔ الغرض کسی بھی فرض پر تینوں کا اتفاق نہیں ہے۔ امام جعفر صادق فرائض کا یہ اجتہاد اور اختلافات کو نہیں مانتے تھے لیکن کسی تسلی بخش جواب سے ان لوگوں کو قائل بھی نہیں کرسکے تھے ۔ جب اہلبیت کے ائمہ کا سلسلہ نہیں رہا تو شیعہ نے بھی اجتہادکا سلسلہ شروع کیا جو اہل تشیع میں آپس کے بھی اختلاف کا باعث بن گیا۔
قرآن میں اللہ نے جنابت سے غسل کا حکم دیا ۔دوسری جگہ پر وضو کے بعد فرمایا کہ ”اگر تم جنبی ہو تو پھر اچھی طرح سے طہارت حاصل کرلو”۔ وضو کے مقابلے میںنہانا یا غسل کرنا ہی اچھی طرح سے طہارت حاصل کرنا ہے۔ قرآن کو نظر انداز کیا گیا تو لایعنی فرائض کے اجتہادی اختلافات پیداکئے گئے۔
حنفی شافعی اختلاف اجتہاد تک محدود نہیں بلکہ احناف کے نزدیک قرآن سے نام نہادمتصادم خبر واحد کی صحیح حدیث معتبر نہیں اور خبر واحد کی قرآنی آیت معتبر ہے۔ جبکہ شافعی کے نزدیک قرآن سے باہر کی آیات پر اعتقاد رکھنا کفر ہے جو معتبر نہیں۔ خبر واحد کی حدیث معتبر ہے اور اس کو قرآن سے متصادم قرار دینا غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اور اساتذہ کرام کی تعلیم اور مرشد کی تربیت سے اللہ نے یہ قابلیت دی ہے کہ امت مسلمہ کو تضادات سے نکال سکتا ہوں۔ اگر علماء کرام اور مشائخ عظام نے موقع دیا تو بے دین طبقہ بھی مذہب کے بنیادی اور معاشرتی مسائل کو عالم انسانیت کیلئے بڑا پیکیج سمجھ کر قبول کریں گے اور اسی سے اسلام کی نشاة ثانیہ بھی ہوگی۔
قل ہل یستوی الذین یعلمون والذین لایعلمون لایستون ”کہہ دیجئے کہ کیا برابر ہوسکتے ہیں علم والے اور جو علم نہیں رکھتے؟۔ وہ برابر نہیںہیں”۔
بعض شیعہ دوٹوک کہتے ہیں کہ علی سے لڑنے والا مسلمان نہیں ہوسکتا، حضرت حسن کو جس نے صلح پر مجبور کیا وہ مسلمان نہیں تھا اور حضرت حسین کو جنہوں نے شہید کردیا وہ مسلمان نہیں تھے۔ اہل بیت کے مخالف دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ جو لوگ شیعہ سنی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی بات کرتے ہیں تو ان پر وہ برستے ہیں کہ تم بھی حق چھپانے کے مرتکب ہورہے ہو اور بقول عمران خان کے نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے۔
شیعہ گمراہی کی وجہ حفظ مراتب کا لحاظ نہ رکھنا ہے۔ علامہ شہنشاہ حسین نقوی نے ایک شیعہ سے کہا کہ تم نے غلط کہا کہ نبی کریم ۖ عرش پر گئے تو علی سے ملاقات ہوگئی ۔ یہ شرک ہے اور ہم مشرک نہیں۔ یہ کہو کہ عرش پر رسول سے اللہ نے علی کے لہجے میں بات کی۔ جس پر اہل محفل نے خوب داد بھی دیدی۔ اگر مان گئے کہ حدود کو پامال کررہے ہیں تو یہ خوش آئند ہے۔ سنیوں کا خطیب کہتا ہے ”جب نبیۖ معراج پر گئے ، جبریل نے کہا کہ اسکے بعد میں نہیں جاسکتا ، میرے پر جل جائیں گے۔ براق آگے جانے کو تیار نہ تھا تو سید عبدالقادر جیلانی غوث پاک نے حضورۖ کو اپنا کندھا پیش کردیا اور نبیۖ غوث پاک کے کندھے پر اللہ سے ملنے عرش پر گئے تھے”۔
جب قرآن میں اتنی بڑی رعایت لکھ دی گئی کہ ان الذین اٰمنوا والذین ھادوا والنصٰرٰی والصّٰبئین من امن باللہ والیوم الاٰخر وعمل صالحًافلھم اجرھم عند ربھم ولا خوف علیھم ولاھم یحزنونO
”بیشک جو لوگ مسلمان ہیں، جو لوگ یہودی ہیں اور نصاریٰ ہیں اور الصابئین ہیں جو بھی اللہ پر ایمان لائے اور آخرت کے دن پر اور اچھے عمل کئے تو ان کیلئے اجر ہے اور ان پر نہ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے”۔ (البقرہ آیت62)
یہ آیت اور اس طرح کی دوسری آیات اسلامی نظام کو دنیا میں غلبہ دلانے اور قابلِ قبول بنانے کیلئے بنیادی اہمیت رکھتی ہیں۔صائبین حضرت نوح کی امت ہندو ہیںجو مشرکین مکہ سے زیادہ گئے گزرے تھے جو خود کو دین ابراہیمی پر سمجھتے تھے۔
صحابہ کرام ، تابعیناور تبع تابعین میں تیسری صدی ہجری تک تقلید کی کوئی روایت نہیں تھی۔ چوتھی صدی ہجری میں تقلید ایک شرعی فریضہ بن گیا۔ حضرت شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید نے تقلید کو چوتھی صدی ہجری کی بدعت قرار دیا۔ ان کی کتاب کے اردو ترجمہ ”بدعت کی حقیقت” پر علامہ سید محمد یوسف بنوری نے تائیدی تقریظ لکھ دی ہے۔ شاہ اسماعیل شہید نے بدعت کی دوقسمیں اعتقادی بدعت اور عملی بدعت لکھیں کہ اعتقادی منافق کافر اور عملی منافق مسلمان ہے جس میں منافق کی علامات ہوں۔ حدیث میں مذمت اعتقادی بدعتی کی ہے۔ عملی بدعتی کی اس طرح مذمت نہیں اور تقلید عملی بدعت ہے۔
اکابر دیوبند نے شاہ اسماعیل شہید کی تائید کی لیکن جب مولانا احمد رضا خان بریلوی نے حرمین کے علماء کا فتویٰ لگوا دیا کہ ”یہ لوگ تقلید کو بدعت سمجھتے ہیں ” تو علماء دیوبند نے اس کو جھوٹ قرار دیتے ہوئے کتاب لکھ ڈالی کہ وہ حنفی مسلک کے مقلد اور چاروں مسالک کو برحق مانتے ہیں اور چاروں تصوف کے سلسلوں کو مانتے ہیں اور خود چشتی مشرب والے ہیں۔
تقلید کی ضرورت اسلئے پیش آئی کہ جب غسل وغیرہ کے فرائض میں اختلا ف ہوا تو پھر کسی ایک کی تقلید کرنی تھی۔ اجتہاد کی صلاحیت سے محروم طبقے پر تقلید فرض کردی گئی ۔ بریلوی عالم دین مولانا امجد علی نے اپنی کتاب ”بہار شریعت” میں لکھا ہے کہ ”یہ اجتہادی فرائض ہیں۔ دلیل کیساتھ اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن دلیل کے بغیر ان کو تسلیم نہ کرنا گمراہی ہے”۔ دلیل کے ساتھ ان فرائض کو ختم کرنے کا فرض کس نے ادا کرنا ہے؟۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی نے کہا کہ ” ہمارے پاس اتنا علم نہیں کہ یہ فیصلہ کرسکیں کہ کس کی بات درست اور کس کی غلط ہے۔ امام مہدی آئیں گے تو صائب رائے کو بتائیں گے ، ان کی بات حق ہوگی اور ان کے مخالف کی بات باطل ہوگی”۔ اہل تشیع بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ائمہ اہل بیت کی بات ٹھیک اور ان کے مخالفین کی بات غلط تھی۔ اہل تشیع اور مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی کی بات میں عقیدے کا اختلاف نہیں شخصیات کا اختلاف ہے لیکن دونوں میں زمینی حقائق کا بڑا فرق ہے۔
حقائق سے مفتی رفیع عثمانی کی بات درست ہے۔ مہدی کے دور میں دین اجنبی ہوگا اور مہدی اجنبیت کا پردہ اٹھائے گا جبکہ صحابہ کرام کے دور میں دین اجنبی نہیں تھا بلکہ اولی الامر کے امور کے اختلاف کا مسئلہ تھا۔ حضرت یوسف کو بھائیوں نے غائب کردیا تو یہ اعتقاد واقتدار کا نہیں بلکہ حسد کا مسئلہ تھا۔
اولی الامر سے قرآن میں اختلاف کی گنجائش ہے اور اولی الامر کی حیثیت سے نبی ۖ نے اپنے ساتھ اختلاف کا جواز رکھا تھا ،اللہ نے قرآن میں اس گنجائش کی تائید فرمائی ہے۔
ایک عورت نے نبی ۖ سے اپنے شوہر کے بارے میں مجادلہ کیا تو اللہ نے سورہ مجادلہ میں عورت کی تائید فرمائی۔ شیعہ نبیۖ سے اختلاف کی گنجائش کا اعتقاد رکھتے ہیںمگر حضرت علی کیلئے اس اختلاف کی گنجائش نہیں رکھتے اور یہ چھوٹی موٹی گمراہی نہیں بلکہ فقد ضل ضلالا بعیدًاہے۔ نبیۖ سے اختلاف کی قرآن نے گنجائش دی ہو اور حضرت علی سے شیعہ اختلاف کی گنجائش نہ رکھتے ہوں تو شیعہ کو دعوتِ فکر دیتے ہیں کہ اس پر وہ کیا زورِ خطابت اور داد تحسین اپنے گمراہ لوگوں سے حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں یا حق کی بات کہہ کر جوتے کھانے سے ڈرتے ہیں؟۔ یہ ان پر چھوڑدیتے ہیں۔
غزوہ بدر کے قیدیوں پر عمر و سعد نے مشورہ دیا کہ ہر ایک اپنے قریبی رشتہ دار کو تہہ تیغ کردے تو علی ، ابوبکر، عثمان اور دیگر کا مشورہ تھا کہ فدیہ لیکر چھوڑ دیا جائے۔ نبی ۖ نے اکثریت کی رائے پر فیصلہ کیا تواللہ نے فرمایا کہ ” نبی کیلئے مناسب نہیں کہ اسکے پاس قیدی ہوں یہاں تک کہ خوب خون بہادیتے اور تم دنیا چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے”۔ اس شیعہ خطیبوں کو اپنی عوام کے سامنے سانپ سونگھ جاتا ہے۔ اگر عمر کی جگہ علی نے مشورہ دیا ہوتا تو کتوں کی طرح لمبی لمبی زبانیں نکال کر صحابہ کرام کے خلاف بھونکنا شروع کرتے کہ تمہاری بات نبی ۖ نے مان لی تو اللہ نے مسترد کردیا۔ تم دنیا کے طلبار گار اور اللہ آخرت چاہتا ہے۔ جیب گرم ہونے کی توقع نہیں تو پھر آیات کی وضاحت بھی اپنے عوام کے سامنے نہیں کرتے ہیں۔
شیعہ افغانستان اور پاکستان میں مسلم اقلیت ہیں لیکن کچھ لوگ ان کو کافر بنانے کے پیچھے پڑگئے ۔ ان کی قتل و غارتگری پر ہمیں رحم آتا ہے لیکن فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے والے شیعہ خطیبوں کو ان مظلوموں پر کوئی رحم نہیں آتا ہے ،اسلئے تسلسل کیساتھ اہل سنت کے جذبات بھڑکاتے ہوئے اپنامفاد حاصل کرتے ہیں اور شیعوں کو قتل کروانے میں مدد دیتے ہیں۔
علامہ مجلسی کی کتاب ”بحار الانوار” کے حوالے سے ایک ویڈیو یوٹیوب پر دیکھی جس کا خلاصہ ہے کہ ” انگریز نے بحرین کا بادشاہ ایک متعصب ناصبی کو بنایا تھا جو اہل بیت اور شیعوں کا سخت دشمن تھا اور اس کا وزیر اس سے بھی زیادہ سخت دشمن تھا۔ ایک انار لایا گیا جس پر کلمہ اور ابوبکر وعمر اور عثمان خلیفہ رسول اللہ لکھا ہوا تھا۔ بادشاہ حیران ہوگیا اور وزیر نے کہا کہ شیعہ بڑے گمراہ ہیں ، یہ بھی نہیں مانیں گے۔ ان کا علاج یہ ہے کہ اس کا کوئی معقول جواب دیں ۔ یا پھر تین باتوں میں سے ایک پر عمل کا اختیار ہمیں دیں۔ 1: اپنا مسلک چھوڑ کر سنی بن جائیں۔ 2: کافر بن کر جزیہ دیں۔ 3: انکے مردوں کو قتل، عورتوں کو لونڈی بنائیں گے اور ان کے اموال غنیمت جان کر تقسیم کریں گے۔
جب شیعہ کے سامنے یہ تجاویز پیش کی گئیں تو انہوں نے چند دنوں کی مہلت مانگ لی۔ شیعوں نے نیک وتقویٰ داروں کو جمع کیا اور10افراد کا انتخاب کیا۔ ان میں سے پھر 3افراد چن لئے۔ پہلے ایک کو صحراء میں بھیجا کہ رات کو امام مہدی سے مدد طلب کرو۔ اس نے پوری رات عبادت اور آہ وزاری میں گزاردی مگرمایوس لوٹ آیا۔ پھر دوسرے نے بھی رات گزار دی مگر نتیجہ نہیں نکلا۔ پھر تیسرے نے امام کو اپنی مشکل میں پکارا تو امام نے جواب دیا اور کہا کہ بادشاہ سے کہو کہ وزیر کے گھر پر اس سوال کا جواب دیں گے۔ وزیر کے گھر میں فلاں کمرے کو دیکھو، وہاں اس جگہ چھپا ہوا ایک سانچہ مل جائے گا جو انار کو اس کے ابتدائی دنوں میں پہنایا جاتا ہے اور جب انار بڑا ہوتا ہے تو اس کی یہ شکل نکل آتی ہے۔ جب بادشاہ نے موقع دیا اور یہ راز کھل گیا تو اس نے شیعوں کا کلمہ پڑھ لیا اور شیعہ بن گیا۔
کوئٹہ میں ہزارہ برداری اور افغانستان وپاکستان میں آج بھی شیعہ حضرات کیلئے بڑے خطرات ہیں اور متفقہ لائحہ عمل کی سب کو ضرورت ہے۔ مختلف مواقع پر حضرت خضر کی بات سے بھی استفادہ لیا جاتا ہے۔ ہمارے کلاس فیلو مفتی منیر احمد اخون مفتی اعظم امریکہ نے بھی خضر سے چند سکے پانے کا ویڈیو میں ذکر کیا ہے اور مفتی زرولی خان سے بھی کوئی تذکرہ فرمایاہے۔
جب قرآن میں اللہ نے ایک شرعی مسئلے پر نبیۖ کے مقابلے میں ایک عورت کی تائید فرمائی ۔ قیدیوں سے فدیہ لینے پر نبیۖ اور صحابہ کی اکثریت کے مقابلے میں عمر و سعد کی تائید فرمائی تو کیا علی نبیۖ سے زیادہ تھے؟۔ حضرت ہارون نے بنی اسرائیل کو شرک کرتے دیکھ کر نہیں روکا تو حضرت موسیٰ نے ان کو سر اور داڑھی سے پکڑلیا کہ منع کیوں نہ کیا؟۔ حضرت ہارون نے عرض کیا کہ میری وجاہت نہیں کہ منع کرنے سے منع ہوتے۔ بلکہ یہ دوگروہ میں تقسیم ہوکر لڑنے لگ جاتے ۔ایک گروہ بات مان لیتا اور دوسرے کو بھی زبردستی سے منواتا۔ پھر آپ کہتے کہ بنی اسرائیل میں تفریق کیوں ڈالی ؟۔ حضرت موسیٰ نے شرک کو بڑی نافرمانی سمجھ لیا اور حضرت ہارون نے ان میں تفریق وانتشار کو شرک سے زیادہ بڑی برائی سمجھا تھا۔
امت مسلمہ کی بدقسمتی یہی ہے کہ ایک طرف شرک کا مسئلہ بنتا ہے تو دوسری طرف تفریق وانتشار کا۔ علامہ شہنشاہ حسین نقوی نے اپنے ساتھی کو شرک سے منع کیا لیکن اگر کوئی ایسا شخص یہی کام کرتا جس کی اتنی وجاہت نہ ہوتی تو انتشار پھیل جاتا۔ یہودی نے علی سے پوچھا کہ نبیۖ کے وصال کے بعد تمہارا خلافت پر جھگڑا ہوا؟۔ حضرت علی نے فرمایا کہ ”خلافت فروعی مسئلہ تھا، دریائے نیل سے پیر خشک نہ تھے تو تم نے حضرت موسیٰ کے ہوتے ہوئے سامری کے بچھڑے کواپنا معبود بنالیا”۔
شیعہ آپس کے مسائل خوش اسلوبی سے حل کرتے ہیں تو علی نے زیادہ خوش اسلوبی کیساتھ مسائل حل کئے تھے۔ امام بارگاہوں پر قبضے اور خطابت پر پیسے بٹورنے میں ایکدوسرے سے بغض و عناد رکھنے والے صحابہ کو اپنے او پر قیاس کرتے ہیں۔ حضرت علی کی اولادمیں بارہ ائمہ اہل بیت کو اقتدار ملے گا۔ پہلے بارہ ائمہ اہل بیت کسی درجے کسی سے کم نہ تھے۔ بنی فاطمہ کو اقتدار ملا تو حجراسود خانہ کعبہ سے اٹھالے گئے تھے۔ اگر ان بارہ افراد کو اقتدار ملتا تو بعض معاملات میں ان سے اختلاف کی گنجائش ہوتی اسلئے کہ قرآن میں رسول اللہۖ کے بھی واقعات ہیں۔ سورۂ مجادلہ کا واقعہ، قیدیوں پر فدیہ لینے کا واقعہ، ایک نابینا ابن مکتوم کی آمد پر چین بہ جبیں ہونے کا واقعہ، غزوہ احد میں سخت انتقام لینے کا واقعہ، کل کسی بات کا وعدہ کرنے پر انشاء اللہ نہ کہنے کا واقعہ۔ اس طرح حضرت علی اور ائمہ اہلبیت کے بھی واقعات ہوتے لیکن اقتدار کا موقع نہ ملا۔ جنت ملتی ہے تو بنی آدم کیلئے کوئی نہ کوئی واقعہ جنت سے نکلنے کا ذریعہ بنتا ہے اوریہ عبودیت کا تقاضہ ہے جو الٰہ نہیں اور نہ بن سکتے ہیں۔
اماں عائشہ صدیقہ پر بہتان لگا تو کم صحابہ نے قرآن کے مطابق کہا کہ ”یہ بہتان عظیم ہے”۔ حضرت علی کا کردار شیعہ نے اس پر واضح نہ کیا۔ کیا آیات کا انکار ہے؟۔ اتؤمنون ببعض الکتاب وتکفرون ببعض الکتاب ”کیا تم بعض کتاب کو مانتے ہواور بعض کو نہیں مانتے ہو؟”۔ اتلبسون الحق بالباطل وتکتمون الحق انتم تعلمون ”کیا تم حق کو باطل کیساتھ خلط ملط کرتے ہواور حق کو چھپاتے ہو اور تم جانتے بھی ہو”۔( القرآن)
حضرت عثمان کی شہادت کی جھوٹی خبر پر صلح حدیبیہ سے پہلے آیات نازل ہوئیں۔ نبیۖ نے بدلہ کیلئے بیعت لی، اس وقت لڑنا نہیں تھا بلکہ لڑنا اس وقت تھا جب حضرت عثمان کو باغیوں نے مسندِ خلافت پر شہید کردینا تھا۔ اس بیعت سے پیچھے ہٹنے کے لوازمات بھی اللہ نے بیان فرمائے۔ حضرت حسن و حسین نے دوازے پر پہرہ دیا اور سوتیلے بھائی محمد بن ابی ابکر نے گھر میں کود کر حضرت عثمان کو داڑھی سے پکڑا۔ پالا علی نے اور بیٹا ابوبکر کا تھا۔اس تضاد کا حل کس کے پاس ہے؟۔
ہارون کی داڑھی میںہاتھ ڈالنے پر موسیٰ کو تبرا ، گالی گلوچ اور سب وشتم کا نشانہ نہیں بناتے تو محمد بن ابی بکرکی تربیت پر حضرت علی پر بھی سب وشتم نہیں ہونا چاہیے تھا اور شیعہ خود بھی تشریح نہیں کرسکتے کہ یہ کیا ماجراء تھا کہ حضرت حسن وحسین نے پہرہ دیاتو سوتیلے بھائی نے کاروائی ڈالی تھی؟۔ جس طرح سگے اور سوتیلے بھائی بٹ گئے اسی طرح علی کے قریبی پرانے اور نئے ساتھیوں نے حضرت علی کے خلاف جنگ کا محاذ کھول دیا۔ خوارج پہلے شیعانِ علی تھے۔ امام حسن کے ساتھی ورشتہ داروں نے دھوکہ دیکر صلح پر مجبور کیا تو حضرت حسین کہاں تھے؟۔ تاریخ کی سچی جھوٹی باتوں کو اس طرح نہیں لیا جائے کہ قرآن وسنت اور مسلمانوں کا اجماعی معاملہ اور اجتماعی کردار ختم ہوجائے۔
مولانا اشرف علی تھانوی اور مولانا احمدرضا خان بریلوی نے لکھاکہ” اگر شوہر کہے کہ تجھے3طلاق تو3طلاقیں واقع ہوگئیں۔ دوگواہ نہ ہوں تب بھی بیوی حرام ہے۔ شوہر اپنی بات سے مکر جائے تب بھی بیوی حرام ہے لیکن اگرمکرگیا تو عورت کو2گواہ لانے پڑیں گے۔ اگر عورت کے پاس2گواہ نہ ہوئے تو بیوی اسکے نکاح میں رہے گی اور بیوی کو چاہیے کہ ہر قیمت پر خلع لے لیکن اگر شوہر خلع دینے پر راضی نہیں تو بیوی نکاح میں حرام کاری پر مجبور ہوگی اور مباشرت میں لذت نہیں اٹھائے ورنہ تو گناہگار ہوگی”۔ اس بکواس کا کون دفاع کرسکتا ہے؟۔ مجھے یقین ہے کہ بریلوی دیوبندی فقہ کی بنیاد اس سے دھڑام سے گر جائے گی اور وہ اس پر بہت خوش بھی ہوں گے۔ کیونکہ وہ اختلاف کی گنجائش اور غلطی کااصولی عقیدہ رکھتے ہیں۔
شیعہ کے نزدیک طہر میں طلاق کے صیغے ادا کرنے پر2گواہ بنانے ہونگے۔ پھر دوسرے طہر میں طلاق کے صیغے اور2گواہ بنانے ہونگے۔ پھر تیسرے طہر میں طلاق کے صیغے اور2گواہ بنانے ہونگے۔ پھر یہ طلاق ایسی ہوگی کہ اسکے بعد عورت پہلے شوہر کیلئے حلال نہیں ہوگی جب تک کہ وہ دوسرے سے نکاح نہ کرلے۔ بظاہر شیعہ کا مسئلہ فطرت ،اسلام اور انسانیت کے قریب لگتا ہے لیکن اگر مدلل انداز میں ثابت کیا جائے کہ انسانیت، اسلام اور فطرت کے یہ خلاف ہے تو شیعہ دلائل سمجھ کر مشکل سے اپنا مسلک چھوڑ نے کا اعلان کرینگے۔ کیونکہ تقلید کی روش نے اجتہادی غلطیو ں پر یقین کا سبق نہیں دیا اور انہوں نے اس کو اپنے عقیدے کیساتھ منسلک کردیا ہے۔
سورۂ طلاق کی پہلی آیت میں عدت کے مطابق تین مراحل میں عملی طلاق دینے کاحکم ہے۔ جہاں الفاظ اور صیغوں پر گواہ مقرر کرنے کی بات نہیں۔دوسری آیت میں عدت کی تکمیل پر معروف طریقے سے رجوع یا معروف طریقے سے الگ کرنے اور اپنے میں سے2عادل گواہ بنانے کا حکم ہے۔ شیعہ نے سنی کے مقابلے میں طلاق کا مسئلہ زیادہ سخت کیا لیکن اس کا قرآن وسنت سے کوئی تعلق نہیں ۔ کیونکہ قرآن میں فیصلہ کن مرحلے کے بعد بالکل آخر میں گواہوں کی بات ہے ۔شیعہ کے کسی امام معصوم کی طرف مسلک کی نسبت ہوئی تو ان کیلئے یہ اس سے انحراف اور قرآن وسنت وفطرت کی طرف آنے میں بڑی مشکل پیش آئے گی مگرپھر وہ آئیں گے ضرور،انشاء اللہ۔
حضرت عمر نے اکٹھی3طلاق پر رجوع نہ کرنے کا حکم اسلئے جاری کیا کہ جب بیوی راضی نہ ہو تو ایک طلاق کے بعد بھی رجوع نہیں ہوسکتا۔ قرآن میں سورۂ بقرہ کی آیت228اوردیگر آیات میں رجوع کیلئے صلح، معروف طریقہ اور باہمی رضامندی کی بار بار وضاحت ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ عورت راضی ہوتو عدت کے اندر، عدت کی تکمیل پر اور عدت کی تکمیل کے کافی عرصہ بعدبھی رجوع کی گنجائش کھلے الفاظ میں واضح ہے اور جب عورت راضی نہ ہو تو کسی طلاق کے بعد بھی اللہ نے کسی آیت میں بھی رجوع کی کوئی گنجائش نہیں ۔ قرآن کے فطری مؤقف کے مطابق حضرت عمر نے ٹھیک فیصلہ کیا تھا اور ائمہ اربعہ نے ٹھیک فتویٰ دیا تھا کہ عورت کی طرف سے صلح نہ ہونے کی شرط پر اکٹھی تین طلاق پر رجوع کی گنجائش نہیں۔
اجتہاد خلفاء راشدین میں اختلاف کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت علینے ”حرام ”کا لفظ کہنے پرتین طلاق کا فتویٰ دیا تھا اور حضرت عمر نے ایک طلاق کا ۔ قرآن کے منافی یہ لوگ اپنی طرف سے حلال وحرام کے فتوے کیسے دیتے؟۔ صحابہ کرام اور خاص طور پر خلفاء راشدین کی طرف اتنے بڑے اختلاف کی نسبت گمراہ کن ہے۔ حنفی مسلک کے مطابق ضعیف روایات کی بھی تطبیق ہونی چاہیے ، اس اختلاف میں تطبیق ہے۔ حضرت عمر سے فتویٰ پوچھا گیا تو بیوی رجوع کیلئے راضی تھی اسلئے قرآن کے مطابق رجوع کا فتویٰ دیااور حضرت علی نے دیکھا کہ بیوی رجوع کیلئے راضی نہیں تو قرآن کے مطابق فتویٰ دیا تھا۔
خلع اور طلاق میں عورت کے حقوق میں کمی وبیشی کا مسئلہ ہے اسلئے جب عورت طلاق کا دعویٰ کرے اور شوہر اس کا انکار کردے تو فیصلہ حلف اور گواہی پر ہوگا۔ عورت گواہ پیش کرے تو طلاق کے حقوق ملیں گے اور عورت کے پاس گواہ نہ ہوں اور شوہر حلف اٹھالے تو عورت کو خلع کے حقوق ملیں گے۔
اگر شوہر تین طلاق دے اور پھر عورت صلح کیلئے راضی نہ ہو اور ایک طلاق رجعی قرار دیا جائے تو یہ قرآن کی واضح آیات کے بالکل منافی اور خواتین کے حقوق پر بہت بڑا ڈاکا ہوگا اسلئے کہ اس نے اپنے شوہر سے جان چھڑانی ہے اور قرآن نے اسکو صلح نہ کرنے کا اختیار دیا ہوا ہے اور مولوی اس کو ایک طلاق رجعی کہہ کر عورت کے بالکل واضح حق کو غصب کررہاہے۔
دو مرتبہ طلاق رجعی کا حق بھی قرآن نے نہیں دیا ہے اسلئے کہ شوہر ایک طلاق کے بعد عدت کے آخر میں رجوع کرلے گا اور پھر طلاق کے بعد عدت کے آخر میں رجوع کرلے گااور پھر تیسری طلاق دے گا تو عورت کو تین عدتوں تک انتظار پر مجبور کرنے کا قانونی حق رکھے گا۔ اللہ نے عورت کو ایک عدت کا پابند بنایا ہے اور مولوی نے اپنے مذہب سے اس کو تین عدتوں پر مجبور کرنے کا شوہروں کو ناجائز حق دے رکھاہے۔ اگر اکٹھی تین طلاق کو ایک رجعی طلاق قرار دیا جائے تو اس سے نہ صرف عورت کے حقوق کی زبردستی حق تلفی ہوتی ہے بلکہ دوسرے بھی لامحدود اور ناقابل حل مسائل کے انبار کھڑے ہوجاتے ہیں۔
ہم نے اپنی کتابوں1:” ابر رحمت”۔2:”تین طلاق کی درست تعبیر”۔3:” تین طلاق سے رجوع کا خوشگوار حل ”۔4:”عورت کے حق” میں بہت تفصیل کیساتھ بہترین انداز میں یہ مسائل تشفی بخش طریقے سے سمجھائے ہیں اور اپنے ماہنامہ اخبار کے بہت مضامین میں بار بار امت مسلمہ کی جان ان غلط کہانیوں سے چھڑانے کی کوشش کی ہے جس کی تائید دیوبندی ، بریلوی اور اہلحدیث کے علاوہ شیعہ علماء نے بھی کی ہے۔
یہاں پر اہل تشیع اور اہل سنت کے اتحاد واتفاق اور وحدت کی غرض سے کچھ احادیث وروایات کا تذکرہ کردیتا ہوں اسلئے کہ کافی عرصہ سے اس موضوع پر دلائل نہیں دئیے ہیں جس کی وجہ سے اہل تشیع کے بعض علامہ صاحبان امت کو لڑارہے ہیں۔
اہل تشیع نے اپنی کتاب میں لکھا: ” یہ روایت مشہور ہے کہ وہ امت کیسے ہلاک ہوسکتی ہے جس کی ابتداء میں ،مَیں ہوں اور بیچ میں مہدی اور آخر میں عیسیٰ ”۔ قحطانی نے کہا ہے کہ ہم کلام کو اس بات پر محمول کرسکتے ہیں بایں طور پر کہ اس مہدی سے مراد مہدی عباسی مراد لیں نہ کہ اسے مہدی آخر زمان ” ۔ (الصراط السوی فی احوال المہدی ص357) مہدی عباسی کی وجہ سے یہ امت ہلاکت سے نہیں بچی تھی اسلئے کوئی ایسا فرد مراد لینا ہوگا جو امت کو ہلاکت سے بچانے کا ذریعہ ہو۔ امت کی ہلاکت جب درمیانہ زمانے سے شروع ہو تو اہل بیت کو نبیۖ نے کشتی نوح قرار دیا ہے۔ درمیانہ زمانے کے مہدی کا تعلق اہل بیت سے ہی ہوگا۔ علامہ طالب جوہری نے مشرق کے دجال کے مقابلے پر امام حسن کی اولاد سے سید گیلانی مراد لیا ہے تو عباسی مہدی سے سید گیلانی اہل تشیع کیلئے زیادہ قابل قبول ہونا چاہیے ۔درمیانہ زمانے کے امام مہدی کے مقابلے میں کج رو جماعت ہوگی۔
رسول اللہ ۖ نے فرمایا: خوشخبری سناؤ۔ خوشخبری سناؤ۔ میری امت کی مثال بارش کی طرح ہے یہ پتہ نہیں کہ آخری دور والے زیادہ کامیاب ہونگے یا پہلے دور والے؟۔ یا اس کی مثال ایک باغ کی طرح ہے کہ ایک سال اس کا پھل ایک جماعت والے کھائیں اور دوسرے سال اس کا پھل دوسری جماعت کے افراد کھائیں۔ شاید کہ آخری جماعت کی چوڑائی اور گہرائی زیادہ ہو ۔ اور حسن انتظام زیادہ اچھا ہو۔ پس وہ کیسے ہلاک ہوسکتی ہے جسکا اول میں ہوں، اسکا درمیان مہدی اور مسیح اسکا آخر ہے؟ لیکن درمیانہ زمانے میں ایک کج رو جماعت ہوگی وہ میرے طریقے پر نہیں اور مَیں اس کے طریقے پر نہیں ہوں۔ ( مشکوٰة باب ثواب ہذہ الامة ) مولانا فضل الرحمن نے خراسانی دجال کا لشکرTTPکو قرار دیا تھا ۔جسکے سرپرست تبلیغی جماعت والے تھے اوران کی روپ میں چھپ کاروائی بھی کرتے تھے۔
اہل تشیع نے لکھا ہے کہ ” جس روایت میں مہدی کے بعد چھ افراد اولاد حسن اور پانچ افراد اولاد حسین کا ذکر ہے کہ مہدی کے بعد وہ مالک زمین اور بادشاہ ہوں گے ۔ یہ غلط واہیات ہے اور احادیث صحیحہ کا مخالف ہے ۔ مہدی آخر میں آئیں گے اور عیسیٰ ان کی اقتداء کرینگے ۔ لہٰذا ان کے بعد کسی اور بادشاہ کا آنا خلاف فرض ہے”۔( الصراط السوی فی احوال المہدی357)
اگر درمیانہ زمانے کے مہدی کے بعد گیارہ افراد اہل بیت کی حکومت مان لی جائے جس پر امت کا اتفاق ہو تو پھر شیعہ سنی کیلئے ان کو اور اپنی مستند کتابوں کو قبول کرنا کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔
اصل بات یہ ہے کہ قرآن کے واضح احکام سے علم حاصل ہوتا ہے اور علم گمراہی اور ہٹ دھرمی سے بچنے کا زبردست ذریعہ ہے اور شیعہ سنی، بریلوی دیوبندی ، حنفی اہل حدیث پہلے اس کی طرف توجہ کریں اور معاشرے کو اس جہالت سے نکالنے میں اپنا بہترین کردار ادا کریں تو طالوت کی طرح اقتداربھی مل جائیگا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv
اخبار نوشتہ دیوار کراچی۔ خصوصی شمارہ مئی 2022

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

بیداری کسی عنوان کے بغیر اور شیطان پر ایک حملہ
مشرق سے دجال نکلے گا جس کے مقابلے میں امام حسن علیہ السلام کی اولاد سے سید گیلانی ہوگا! علامہ طالب جوہری
حقیقی جمہوری اسلام اور اسلامی جمہوری پاکستان کے نام سے تاریخ ، شخصیات ، پارٹیاںاور موجودہ سیاسی حالات :حقائق کے تناظرمیں