The intention of fasting in Ramadan and the intention of the funeral prayer is fabricated by the incompetent jurists and is wrong Arabic. - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

The intention of fasting in Ramadan and the intention of the funeral prayer is fabricated by the incompetent jurists and is wrong Arabic.

The intention of fasting in Ramadan and the intention of the funeral prayer is fabricated by the incompetent jurists and is wrong Arabic. اخبار: نوشتہ دیوار

رمضان کے روزے کی نیت اور نماز جناہ کی نیت نالائق فقہاء کی غلط عربی ہے۔

جب مجھے جامعہ العلوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹان کراچی میں تحریری امتحان اور جائزہ ( انٹرویو کے بعد ) داخلہ ملنے کا مژدہ سنایا گیا تو خوشی کی انتہا نہ رہی۔ بڑی تعداد میں ”درجہ اولی ”کیلئے طلبہ نے داخلے کا امتحان دیا ، صرف(150 )طلبہ کامیاب قرار پائے۔میرے ہم نام 2عتیق الرحمن اور بھی تھے۔(50، 50، 50)کی تعداد میں تین فریق الف، ب اور ج تھے۔ کامیاب طلبہ میںوزیرستان کے مفتی زین العابدین لسوندی بھی شامل تھے۔ جامعہ کے مہتمم مفتی احمدالرحمن(mufti ahmed rehman) نے اپنی پہلی افتتاحی تقریر میں فرمایا کہ ” دنیا کو دنیا کے راستے سے حاصل کرنا کوئی بری بات نہیں ہے لیکن دین کے راستے سے دنیا حاصل کرنا بہت بری بات ہے۔ جس کا مقصد دین نہیں دنیا ہو،وہ یہاں سے چھوڑ کر چلاجائے۔ یہ ادارہ دین کی خدمت کیلئے ہے، دنیا کو حاصل کرنے کیلئے نہیں ہے”۔
اس تقریر میں ایک درد اور پیغام تھا کہ اگر دنیا کی کشتیاں جلاکر آئے ہو تو ٹھیک ہے اور آئندہ زندگی بھر کیلئے یہ عہدوپیمان کیا ہے کہ دنیا سے کچھ بھی حاصل نہیں کرناہے۔ شہرت،دولت، سیاست، حکومت، اقتدارمیں شراکت داری اور دنیاداری کا کوئی روپ اختیار کرنا ہے تو اپنا بستر گول کرکے یہاں سے جا۔ دنیا کو دنیا کی راہ سے حاصل کرنا عار نہیں لیکن دین کے بہروپ میں دنیا کو حاصل کرنا بہت مذموم ہے۔ڈاکٹر صاحب بذاتِ خوداس کی ایک عمدہ تصویر تھے۔
سوادِ اعظم اہلسنت کے اکابر مولانا زکریا انوار(molana zakria anwar) العلوم فیڈرل بی ایریا کراچی جو مولانااعظم طارق(molana azam tariq) جرنیل سپاہ صحابہ کے سوتیلے باپ تھے اور مولانا اسفندیار خان و مولانا سلیم اللہ خان میں لڑائی ہوئی تھی۔ پیسہ کھانے کے الزامات جنگ اخبار کی زینت بنے تھے۔اہل تشیع پر فتوی بھی مولانا سلیم اللہ خان نے پہلے خود ہی لگایا اور پھر اعظم طارق کو وقت بدلنے پر فتوے سے الٹے پاں پھر کر آنکھیں پھیر دیں۔ اس میں دارالعلوم کراچی کے مفتی تقی عثمانی(mufti taqqi usmani) وغیرہ شامل نہیں تھے۔
ڈاکٹر عبدالرزاق سکند(doctor abdul razaq sikandar)ر استاذ محترم عربی کے بہت ماہر تھے۔ ہمارے قدیم فقہا و محدثین عجم نے عربی زبان کو اس طرح سیکھ لیا تھا جس طرح غیر اہل زبان اردو یا کوئی بھی غیرمادری زبان سیکھ کر اس کی ریڑھ لگاتے ہیں۔ وبصوم غد نویت من شہر رمضان ” اور میں کل کے روزے کی نیت کرتا ہوں، رمضان کے مہینے سے”۔ یہ وہ عربی ہے جو نالائق علما نے ایجاد کی ہوئی ہے۔ استاذ محترم ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر نے اس قدیم عربی زبان سے اعراض کرتے ہوئے زمانے میں ایک نئے اسلوب کا آغاز کرکے ہمارے اندر عربی کی نئی روح پھونک دی۔ جب جمعیت علما اسلام کی طرف سے لاکھوں افراد کا اجتماع تھا جس میں امام حرم نے بھی شرکت کی تھی تو ایک طرف شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی نے عربی میں تمہیدی کلمات اور دوسری طرف ڈاکٹر صاحب نے عربی میں تمہیدی کلمات کہے تھے،دونوں کی عربی سن کر کوئی بھی شخص اس بات تک پہنچ سکتا ہے کہ دیسی عربی اور اصل عربی میں کتنا زیادہ فرق ہے؟۔
حامد میر نے کہا تھا کہ ” مشہور گالی کا فیس بک وغیرہ پر نوٹس اسلئے نہیں لیا تھا کہ ایب میں تیری پھینڑ دی سری کا ترجمہ ہیڈ آف یوورسسٹر کیا جاتا ہے اور یہ کوئی گالی نہیں ہے”۔ میڈیا کے کارندوں کو جو لوگ گالیاں دیتے ہیں تو ان کو اہمیت بھی زیادہ دی جاتی ہے۔ ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر سے کبھی میڈیا نے پوچھنے کی زحمت کی ہے کہ ”بینکوں میں اسلام کے نام پر سودی نظام کا جواز ہے؟”۔
قاری اللہ دادصاحب (qari allahdad)نے بتایاکہ” ایک تاجر نے افسوس کا اظہار کیا کہ علما نے سود کے جواز پر مفتی محمدتقی عثمانی کیخلاف آواز نہیں اٹھائی ”۔ علما و مفتیان کا متفقہ فیصلہ جامعہ بنوری ٹان سے شائع ہوا تھا تو میڈیا قصور وارہے!۔
میڈیا نے وفاق المدارس پاکستان کے سابق صدر مولانا سلیم اللہ خان(molana saleemullah khan) اور پھر صدر وفاق المدارس پاکستان ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر سے سوال پوچھنے کی کبھی زحمت کی ہے کہ اسلام کے نام پر سودی بینکاری پر تمہارا کیا مقف ہے؟۔ میڈیا مفتی عبدالقوی ، مفتی عزیز الرحمن اورمفتی تقی عثمانی کے کرداروفتوے کو اہمیت دیتا ہے لیکن ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر کی زندگی اور وفات کو نہیں مگر کیوں یہ سب کچھ ہورہاہے؟۔ یاد رکھو!یہ دجالی میڈیا ہے جو خیر کی اشاعت میں کام نہیں آتاہے ۔
اگر دنیا میں اسلام اور علما حق کا کردار نہ ہوتا تو مفتی عزیزالرحمن کے اسیکنڈل سے آج مسلمانوں اور دنیا کو کوئی نفرت بھی نہ ہوتی۔ مغرب میں ہم جنس پرستی عورت کی عورت سے شادی اور مرد کی مرد سے شادی قانونا درست قرار دی گئی۔ جس اسلام، علما کرام اور مذاہب عالم کی برکت سے برائی کی دنیا میں تمیز موجود ہے ،اگر لوگ اسکے پیچھے ہاتھ دھوکے پڑجائیں تو پھر اخلاقیات کا کوئی معیار دنیا میں قائم نہیں رہے گا۔ جس بنیاد پر مفتی عزیز الرحمن کے کردار کو بہت ہی برا کہا جا رہاہے اگر وہ بنیاد ہی نہ رہے تو پھر برائی کے تصورات بھی ختم ہونگے۔
کتنے افسوس کی بات تھی کہ مفتی عزیز الرحمن کو وفاق المدارس پاکستان کا صدر کہا گیا،جس کی وجہ سے وفاق المدارس کی شوری نے اجلاس منعقد کرکے واضح کیا کہ ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر کی صدارت پر اطمینان کاا ظہار کیا گیا اور مزید دوسری مدت کیلئے بھی ان کا انتخاب کیا گیا ہے۔
مدارس عربیہ میں عربی کے معیار کو بھی جدید خطوط کے مطابق بہت بہتربنانا ہوگا۔ روزے اور جنازے کی نیت سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے علما اور فقہا کس قدر غیرمعیاری عربی بناتے تھے۔ ایک عربی عالم کی تقریر کا ہندوستان میں مولانا ابوالکلام آزاد نے ترجمہ کرنا تھا۔ جب مولانا آزاد اس مجلس میں کچھ تقریر سن کر چلے گئے تو انتظامیہ کی سانس اٹک گئی کہ اب کیا ہوگا۔ پھر اس عربی عالم کی تقریر کے ختم کرنے سے پہلے مولانا آزاد پہنچ گئے تو سانس میں سانس میں آئی۔ جب تقریر ختم ہوئی تو مولانا آزاد نے اس عربی عالم کا مدعا اس سے بھی زیادہ بہتر انداز میں بیان کیا۔ جس پر مولانا سے پوچھا گیا کہ آپ تو موجود نہیں تھے ، پھر کیسے یہ ترجمانی کرلی؟۔ مولانا آزاد نے کہا کہ مقرر کے شروع اور آخر سے یہ اخذ کرلیا کہ بیچ میں کیا کہا ہوگا۔ مولاناآزاد کی ماں عربی تھی اور حرمین شریفین میں بچپن گزارا تھا اور اردو بعد میں ہندوستان آنے کے بعد سیکھ لی تھی۔
بڑاالمیہ ہے کہ فن کے ماہرسے فائدہ نہیں اٹھاتے ۔ ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر مدارس کو عربی لہجے میں ڈھال سکتے تھے۔ اگر نمازجنازہ یا روزے کی نیت کاکسی عربی سے ذکر کیا جائے تو ہنس ہنس کراسکے پیٹ میںدرد اٹھے گا۔ وبصوم غد نویت من شھر رمضان کا کوئی تک نہیں بنتا ۔وا حرف عطف دو جملوں کو ملانے کیلئے آتا ہے اور جملے کے شروع میں وا قسم کیلئے آتا ہے۔ اس طرح ب حرف جر بھی اس جملے میں بلاضرورت غلط استعمال ہوا اور شروع میں یہ بھی قسم کیلئے آتا ہے۔ نویت صوم الغد ھذاشھر رمضان سادہ جملہ یہی ہوسکتا تھا۔ جس میں کم ازکم عربی تو درست ہوتی۔ اردو میں کہ میں اس میت کی نماز جنازہ کی ادائیگی کی نیت کرتا ہوں تو عربی میں لفظ بہ لفظ ترجمے کیلئے الفاظ کی ضرورت نہیں کیونکہ عربی کا لفظ پورا جملہ ہوتا ہے۔ نویت صلو علی ھذا المیت لیکن نماز جنازہ کی نیت میں لایعنی لغو ڈھول پیٹنا سکھایا گیا ۔ نیت الفاظ کی ادائیگی نہیں دل کا ارادہ ہوتا ہے۔ عربی سکھانی ہوتو درست عربی جملہ ہونا چاہیے۔ عربی آتی نہ ہو تو نیت کا پتہ ہی نہ ہوگااور یہ انوکھی بدعت ہے۔ ان ھذا لشئی عجاب
بخاری کی پہلی حدیث ہے کہ نبیۖ نے فرمایا کہ ” اعمال کا دارومدار نیت پر ہے”۔ نمازپنج وقتہ، نمازجنازہ کی نیت کیلئے کوئی مسنون حدیث نہیں ہے، یہ بعد کی ایجاد ہے اور تبلیغی جماعت نے کمال کردیا کہ تصحیح نیت کے نام پرنیت کی حقیقت کا مقصد بھی بدل دیا۔ علامہ بدرالدین عینی اور امام ابن ہمام نے بھی حلالہ کی لعنت کی ترویج کیلئے نیت بدلنے سے معاملے کی تبدیلی ایجاد کردی تھی۔ www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

آج قرآن اورحدیث کی تطبیق سے تمام مکاتبِ فکرکے علماء کرام بفضل تعالیٰ متفق ہوسکتے ہیں!
رسول ۖ کی عظمت کا بڑ اعتراف
جامعہ بنوری ٹاؤن کے بانی کا بہت مثالی تقویٰ