پوسٹ تلاش کریں

حقیقی جمہوریت اور نظام خلافت بحال کرنے کی پاکستان سے اہم تجویز

حقیقی جمہوریت اور نظام خلافت بحال کرنے کی پاکستان سے اہم تجویز اخبار: نوشتہ دیوار

حقیقی جمہوریت اور نظام خلافت بحال کرنے کی پاکستان سے اہم تجویز

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

اہلسنت کے نزدیک امام کا تقرر مسلمانوں پر فرض ہے ، اگر امام مقرر نہیں کیا تو ساری امت گناہ گار اور جاہلیت کی موت مرے گی۔پاکستان صدر مملکت کی جگہ ایک امام مقرر کرکے یہ مشکل حل کرے
نبی ۖنے صرف توحید کی تعلیم نہیںدی بلکہ انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکالنے کیلئے غیرسودی نظام بھی دیاتھا۔ پاکستان کی ریاستIMFکی لونڈی اور مزارعین جاگیرداروں کے غلام ہیں
منشور کا بنیادی نکتہ مقامی اور بین الاقوامی سودی نظام سے مملکتِ خداد پاکستان کی ریاست اور پوری قوم کی جان چھڑانا اور غلامانہ عدالتی قوانین سے چھٹکار اہو تاکہ بغاوت کا نام نشان نہ ہو
پاکستان اسلام کے نام بنا اور آئین کی بنیاد قرآن وسنت ہے۔ سود کی آیت نازل ہوئی تونبیۖ نے مزارعت کوسود قرار دیا۔ امام ابوحنیفہ، مالک، شافعی اور ابن حنبل کے نزدیک زمین کو مزارعت پر دینا سود ہے۔ اسلام بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر اللہ کا غلام بناتا ہے۔ رسول اللہ ۖ نے مسلمانوں اور بنی آدم کو غلامی سے چھٹکارے کیلئے محض عقیدۂ توحید نہیں سکھایا بلکہ غلامانہ نظام سے نکالنے کیلئے صالح نظام دیا۔ عقیدہ و نظام میںجبر مسلط نہ کیا۔ کسی نے مال کی دعا کرائی اور مالدار بن گیا۔ نبیۖ کو زکوٰة دینے سے انکار کیاتوپھر نبیۖ نے زکوٰة کیلئے قتال نہیں کیا۔ حضرت ابوبکر نے زکوٰة پر قتال کا فیصلہ کیا توحضرت عمر نے اتفاق نہ کیا لیکن خلیفہ کی اطاعت کرنی پڑی ۔ خالد بن ولید نے مالک بن نویرہ کے قتل کے بعد اس کی بیوہ سے عدت میں شادی کی۔ عمر نے کہا کہ” اس کوسنگسار کیا جائے”۔ ابوبکرنے تنبیہ پر اکتفاء کیا۔ چاروں فقہی امام متفق ہیں کہ ” زکوٰة نہ دینے پر قتال نہیں ”۔افغان طالبان نے نماز کا جبر چھوڑ کر قرآن وسنت پر عمل کیا ۔فقہ اور ملا عمر کے غلط طرزِ عمل سے رجوع بھی اسلامی انقلاب ہے۔
مسلم اُمہ کیلئے حضرت ابوبکر کی سیرت حجت ہے اور نہ ہی حضرت علی کی بلکہ رسول اللہ ۖ کی سیرت حجت ہے۔ قرآن میں اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کا حکم ہے اور رسول ۖ کی اطاعت کو اللہ کی اطاعت قرار دیا گیا۔ اولی الامر سے اختلاف کی گنجائش ہے۔ رسول اللہ ۖ اولی الامر تھے اور ایسی وصیت لکھوانا چاہ رہے تھے کہ جسکے بعد امت گمراہ نہ ہو تو حدیث قرطاس کی حضرت عمر نے مخالفت کی کہ ” ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے”۔ نبی کریم ۖ نے اپنی بات مسلط نہ فرمائی اور یہی قیامت تک سب مسلمانوںکیلئے بہترین نمونہ ہے۔
قرآن کے احکام کی عملی شکل نبیۖ کی سنت ہے۔ نماز اللہ کا حکم اور اس کو عملی جامہ پہنانا سنت ہے۔ حدیث قرطاس میںاولی الامر سے اختلاف تھا اور قرآن سے انحراف جائز نہیں۔ ”جس نے رسول کی اطاعت کی تو بیشک اس نے اللہ کی اطاعت کی ”۔ حدیث قرطاس قرآن اور نہ ہی اس پر عمل کرنا سنت تھا۔
بدر ی قیدیوں پر حضرت عمر و سعد کی رائے خون بہانے کی تھی۔ ابوبکر و دیگر صحابہ کی رائے فدیہ لیکر معافی کی تھی۔ نبیۖ نے عمر کی رائے کو نوح اور ابوبکر کی رائے کو ابراہیم کی رائے سے تشبیہ دی فرمایاکہ مجھے ابراہیم کی رائے پسند ہے اور اسی پر فیصلہ دیا۔ اللہ نے ابراہیم کو رحم کی دعا سے منع کیا اور نوح کی کافروں کیخلاف دعا کو قبول کیا۔ نوح کی دعا کا مظہر قرآن میں آیا کہ ” نبیۖ کیلئے مناسب نہ تھا کہ جب آپکے پاس قیدی ہوں حتیٰ کہ خوب خون بہالیتے۔ تم دنیا چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے اور اگر اللہ پہلے سے تمہارے لئے لکھ نہ چکا ہوتا تو تمہیں سخت عذاب دیتا” (القرآن)۔ نبیۖ نے فرمایا کہ مجھے اللہ نے وہ عذاب دکھادیا جس سے عمر وسعد کے علاوہ کوئی نہ بچتا۔ نبیۖ نے علی کی بہن ام ہانی کے مشرک شوہر کوفتح مکہ میں پناہ دی ،علی نے قتل کرنا چاہا تھا۔ اسکا مشرک شوہر چھوڑ کر گیا تونبیۖ نے ام ہانی کو نکاح کاپیغام دیا۔انکار ہوا تواللہ نے وحی نازل کی کہ ”ہم نے تمہارے لئے ان چچا وماموں کی بیٹیوں کو آپ کیلئے حلال کیا جنہوں آپ کیساتھ ہجرت کی”۔ جس سے واضح ہے کہ نبی ۖ کا ہر قول اور فعل اللہ کی وحی ہرگز بھی نہ تھا۔اُم ہانی اولین مسلمانوں میں تھیں۔ معراج کا واقعہ انکے گھر میں ہوا۔اگریہ ابوبکر، عمر یا عثمان کی بہن ہوتی توشیعہ منطقی نتائج نکال نعوذ باللہ زانیہ، مشرکہ اور خبیثہ کی آیات کاثبوت دیتے۔
آئین میں قرآن وسنت سے عوام ، مقتدر اور مذہبی طبقے بہرہ مندنہیں۔ بدری صحابہ کے بڑے فضائل ہیں۔ ابوبکر ، عثمان اور علی و صحابہ کے بھی بڑے فضائل ہیں۔ رحمت للعالمین ۖ کی ہستی ہیں۔ جمہور کی رائے میں نیت کا کتنا خلوص اور ایمان کی کیسی چاشنی ہوگی؟ مگر قرآن وسنت میں عجیب وغریب قسم کی وضاحت ہے کہ تم دنیا چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے اور پھر دنیا کی چاہت پر المناک عذاب کی خبر آیت میں موجود ہے اور دوسری طرف عمر اور سعد کی رائے صائب قرار پائی۔
ان آیات کے بعد قیامت تک کوئی عقلمند انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ قرآن اللہ کی کتاب نہیں، نبیۖ کی تصنیف ہے۔ ان آیات اور سیرت رسول ۖ میں قیامت تک کیلئے بڑا سبق یہ ہے کہ اگر چہ فیصلہ جمہوری بنیاد پر کیا جائے مگریہ ملحوظِ خاطر رہے کہ بڑی ہستیوں اور اکثریت کے باوجود اقلیت کی رائے کو حقیر نہیں سمجھاجائے۔ اسلامی جمہوریت کی یہی روح ہے ۔
جب فرد واحد یا اکثریت دوسروں کی نیت پر شک کرے اور خود کو ناگزیر قرار دے تویہ نمرودیت اورفرعونیت ہے۔ صحابہ نے تعلیم و تربیت اللہ سے وحی کی روشنی میں رسولِ خدا ۖ کی ذات اقدس سے پائی تھی۔ فتنوں کا دور ہے ۔ہماری کیا اوقات ہے؟۔ قرآن وسنت سے رہنمائی لیکر ہر نماز کی ہر رکعت میں حمد وثناء کے بعداللہ کی عبدیت اورمحتاجی کا اظہار کریں اور صراط مستقیم کی ہدایت مانگیں، ایسے لوگوں کا رستہ جن پر اللہ نے انعام فرمایا جس کے بعد ان پر نہ غضب ہوا اور نہ وہ گمراہ ہوئے۔ الفاتحہ کی سات آیات بار بار دھرائی جاتی ہیں۔
سود کی حرمت کے بعد نبیۖ نے زمین کو مزارعت کے بجائے مفت میں دینے کی تقلین فرمائی تو کسی پر جبرو زبردستی نہیں تھی، صحابہ کرام نے اس پر عمل کیا۔ محنت کشوں کی جان میں جان آگئی اور ان میں قوت خرید پیدا ہوگئی تو مدینہ شہر تجارت کا بہت مشہور بڑا مرکز بن گیا۔ مہاجر صحابی حضرت عبدالرحمن بن عوف نے فرمایا کہ ”مٹی میں ہاتھ ڈالتا تو سونا بن جاتا”۔ اس نظام کی برکت سے غیر آباد زمینیں آباد ہونا شروع ہوگئیںاور غلہ واناج کی فراوانی سے حجاز ِپاک کی زمین مالا مال ہوگئی۔
انگریز قابض تھا تو نوابوں، خانوں اور بے غیرت پیروں کومقبوضہ زمینیں دیدیں۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اطہرمن اللہ نے صحافی مہر بخاری سے پہلے کہا تھا کہ ”کرپشن کو تین اداروں سول بیوروکریسی، فوج اور عدلیہ نے اپنے لئے لیگل کردیا اورانسٹیٹیوٹ کا حصہ بنادیا۔ جب2کروڑ کا پلاٹ 10لاکھ میں لیا جائے تو یہ ایک کروڑ 90لاکھ سیدھی کرپشن ہے اور اس میں بھی شہید ہونے والے فوجی سپاہیوں،سول جج اور سیکشن افسر اور اس سے نیچے لیول والوں کو کچھ نہیں ملتا ہے بلکہ جرنیلوں، بڑے گریڈ کے افسروں اور بڑے درجے کے ججوں کو سب کچھ ملتا ہے۔ اور اب جب میڈیا تو تھوڑا مضبوط ہوگیا ہے تو اس کو بھی حصہ دار بنادیا ہے لیکن اس میں شہید ہونے والے کیمرہ مینوں، رپوٹروں کوبھی کچھ نہیں ملتا ہے”۔
جاگیردارانہ نظام لونڈی وغلام بنانے کا بنیادی ادارہ تھا۔ جاگیرداروں کے نسل در نسل مزارعین غلام اور لونڈیاں بنتے تھے اور جن مزارعین کے بچوں اور بچیوں کو مزارعت سے اُٹھاکر منڈی میں فروخت کیا جاتا تھا تو اس پر ان کو ایسی خوشی ہوتی تھی جیسے پسماندہ ممالک سے افراد جب ترقی یافتہ ممالک میں محنت مزدوری کیلئے پہنچ جاتے ہیں۔ آج مزارعین جاگیرداروں کے غلام اور ہماری ریاستIMFکی لونڈی بن چکی ہے۔ عوام کی حیثیت خرکار کیمپوں میں اغواء مزدوروں کی طرح رہ گئی ہے۔
قرآن میں اللہ نے مسلمانوں سے وہ غلمان ایکدوسرے کو ہدیہ میں دینے کی پیش گوئی فرمائی کہ جو خوش ہونگے اور اس بات کا اظہار کرینگے کہ سخت گرم ہواؤں کی مشکلات سے زندگی کی سہولیات ملنے پر اللہ کا شکرادا کرتے ہیں اور صحابہ کرام سے لیکر محمود غزنوی کے غلام ایاز تک مسلمانوں کا کردار دنیا کیلئے باعثِ افتخار ہے۔ ہم نے مرکزیت کو چھوڑ کر گروہ بندی، فرقہ واریت اورفقہی مسالک میں مکڑی کے جالوں کی طرح بھول بھلیاں بنالی ہیں۔ جن کو قرآن وسنت کے واضح احکامات سے ملیامیٹ کرکے صاف کرنے میں بالکل بھی دیر نہیں لگے گی۔
جب حکمران طبقے نے خلافت کو اپنی لونڈی اور اسلام کے احکامات کو مسخ کرنا شروع کیا تو مذہبی طبقات نے جواز بخش دیا اور اسلام اجنبیت کے اندھے کنویں میں گرنا شروع ہوگیاتھا۔ اور اس حال پر پہنچادیاگیا کہ دین، علم اور ایمان تک رسائی عوام وخواص کیلئے ثریا کی حدکو چھونے کے مترادف ہے۔ نبیۖ نے سورۂ جمعہ کی آیت واٰخرین منھم لما یلحقوا بھم ”اور ان میں سے آخر والے جو ابھی ان پہلوں تک نہیں پہنچے ہیں”کی تفسیر میں فرمایا کہ اگر دین، علم اور ایمان ثریا پر پہنچ جائے تو پھربھی فارس میں سے ایک شخص یا چند افراد اس تک پہنچ جائیںگے ”۔ ( بخاری ومسلم )کسی روایت میں دین کا ذکر آیا ہے ، کسی میں علم اور کسی میں ایمان کا ذکرہے۔ دین ، ایمان ، علم ایک ہی چیز کے تین نام ہیں۔ علم کے نہ ہونے سے دین بگڑ جاتا ہے اور دین کے بگڑنے سے ایمان بگڑجاتا ہے۔
قرآن واحادیث میں امت مسلمہ کے دو حصے ہیں ۔ پہلا حصہ اول سے لیکر درمیان تک کا زمانہ ہے ۔دوسرا حصہ درمیان سے لیکر آخر تک کا زمانہ ہے۔ سورة الحدید میں کفلین دو حصے واضح ہیں۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ وہ امت کیسے ہلاک ہوسکتی ہے جس کے اول میں میں ہوں، درمیان میں مہدی اور آخر میں عیسیٰ لیکن درمیانے زمانے میں ایک کج رو جماعت ہوگی وہ میرے طریقے پر نہیں اور میں اس کے طریقے پر نہیں۔
پہلے حصے میں اول سے خلافت راشدہ ، بنوامیہ، بنوعباس کی امارت ، سلطنت عثمانیہ کی بادشاہت اور 1924ء سے لیکر موجودہ دور تک جبری حکومتوں کا دور ہے۔ جب تک یہاں سے دوبارہ خلافت علی منہاج النبوة کی پیش گوئی پوری نہ ہوجائے اس وقت تک پہلا حصہ رہے گا۔ جب خلافت علی منہاج النبوة قائم ہوجائے تو پھر مہدی اول امیر امت سے یہ سلسلہ حضرت عیسیٰ تک رہے گا۔ صحابہ کرام کیلئے قرآن واحادیث میں بڑی خوشخبریاں ہیں اور دوجماعتوں کیلئے بھی خوشخبری ہے۔ ایک جو ہندوستان سے جہاد کرے گی اور دوسری جو حضرت عیسیٰ کیساتھ ہوگی۔ ہندوستان سے جہاد کرنے والی جماعت منہاج النبوة کی خلافت قائم کرے گی اور یہ سلسلہ حضرت عیسیٰ تک چلے گا۔ جس کی حدیث کے اندر خوشخبریاں اور نشاندہی موجود ہے۔
دوسرے حصے میں بارہ اہل بیت کے امام ہیں جن پر منتشر اُمت متفق ہوجائے گی۔ امام خمینی نے اسلامی انقلاب برپا کیا مگر امت کا انتشار بڑھ گیا۔ پھر افغانستان سے ملاعمر کی قیادت میں اسلامی انقلاب برپا کیا گیا لیکن امت مسلمہ متفق نہ ہوسکی۔
امام کی تقرری کا فریضہ
شیعہ معتبر عالم دین علامہ طالب جوہری نے کہا کہ ” شیعہ مہدی کے انتظار میں ہیں، ہمارا عقیدہ ہے کہ پہلے گیارہ امام بھی ہم نے مقرر نہیں کئے، اللہ کی طرف سے آئے تھے۔ شیعہ کا انتظار میں بیٹھنا بنتا ہے لیکن ہمارے بھائی سنی کیوں انتظار میں بیٹھ گئے؟ ان کا عقیدہ ہے کہ امام کا مقرر کرنا مخلوق کا کام ہے۔ جب اتنے سارے امام پہلے بنالئے اور ان پر اتفاق رائے بنالی تو ایک اور مہدی پر بھی اتفاق رائے بنالو۔ ہم تو اپنے عقیدے کی وجہ سے منتظر ہیں لیکن تمہارا انتظار تو بنتا ہی نہیں ہے”۔
شیعہ مسجد کے امام کو پیش نماز کہتے ہیں۔ انکے نزدیک بارہ ائمہ اہل بیت کے سوا کوئی امام نہیں لیکن خمینی نے انقلاب برپا کردیا تو اپنے عقیدے کے منافی ان کوایک امام تسلیم کرلیا۔
جنرل ضیاء الحق دور میں بریلوی مکتب کے مولانا سید محمد جمال الدین کاظمی نے تمام مشہور مدارس سے فتویٰ پوچھاتھا کہ ”اہل سنت کے نزدیک امت پر ایک امام کا مقرر کرنا فرض ہے تو شریعت میں اس کا کیا حکم ہے”۔ دیوبندی اور دیگر معروف مدارس نے کوئی خاطر خواہ جواب نہیں دیا تھا لیکن بریلوی مکتب کے معروف عالم دین علامہ عطاء محمد بندیالوی نے تفصیل سے فتویٰ دیا تھا کہ ” امام کا تقرر ایک شرعی فریضہ ہے۔ ایک قریشی امام کے بغیر جنرل ضیاء الحق کی موت بھی اسی طرح جاہلیت کی موت ہوگی جیسے مسلم امہ کی موت جاہلیت کی موت ہوگی۔ احادیث کے الفاظ ایسے ہیں اسلئے مجبوری میں یہ فتویٰ دے رہاہوں اور احادیث سے کوئی بھی ناراض نہ ہوگا”۔
جو احادیث خلافت اور جماعت کے حوالے سے ہیں ان کو مولانا فضل الرحمن نے اپنی جمعیت علماء اسلام پر فٹ کیا تھا۔ جب مولانا فضل الرحمن نے میرے سکول کبیر پبلک اکیڈمی کا افتتاح کیا اورکہا کہ ” اس خاندان کے بزرگوں کی خدمات ہیں اور اس میں عتیق جیسا اہل علم ہے ”اور ساتھ میں فتویٰ بھی جڑ دیا کہ جمعیت علماء اسلام جماعت ہے۔ من شَذ شُذ( جو پھسل گیا وہ آگ میں گیا)۔ میں نے جواب میں ” اسلام اور اقتدار” نامی کتاب لکھ دی۔ جس میں ثابت کیا کہ احادیث کی وعید کسی گروہ سے الگ ہونے کیلئے نہیں بلکہ اس سے خلافت کو قائم رکھنے والی جماعت مراد ہے۔ عاقل کیلئے اشارہ کافی ہے۔ پھر مولانا فضل الرحمن کی جماعت نے انقلابی جہدوجد کا آغاز اور انتخابی سیاست چھوڑنے کا اعلان کردیا لیکن اسٹیبلشمنٹ نے اس راستے پر ان کو چلنے سے ڈرا دھمکا کربالکل روک دیا تھا۔
تحریک انصاف حکومت کو گرانے کا کریڈٹ مولانا فضل الرحمن کو جاتا ہے اسلئے کہ تسلسل کیساتھ محنت کی۔ اپوزیشن نے PDMکا مشترکہ سربراہ بنالیا تھا۔ پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ ن اور سبھی اس کو صدر مملکت بنانے پرمتفق ہوتے تو بھی اسٹیبلشمنٹ نے اجازت نہیں دینی تھی اسلئے کہ مولانا فضل الرحمن کی جڑیں اس سے پختہ ہوجاتیں۔ جنرل ضیاء الحق سے لیکر جنرل قمر جاوید باجوہ تک جتنے آرمی چیف آئے ہیں ان کو مضبوط ہونے کی بنیاد پر نہیں بلکہ کمزور ہونے کی وجہ سے یہ منصب سپردکیا گیا ہے۔جب طاقتور عہدہ اور طاقتور شخصیت اکٹھے ہوجائیں توپھر اس سے مشکلات کے اندیشے بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔
مدینہ کے انصار طاقتور تھے اسلئے ان کو خلافت کا منصب سپرد کرنے کی کھل کرمخالفت ہوئی۔ حضرت ابوبکرنے خلافت کا منصب سنبھالا تو کمزور قبیلے سے تعلق تھا۔ حضرت ابوسفیان نے حضرت علی کو پیشکش کی کہ” اگر آپ کہو تو مدینہ کو پیدل اور سوار جوانوں سے بھردوں۔ ابوبکر سے منصب چھین کر آپ کو بٹھا دیں۔ کیا بنی ہاشم مرگئے کہ ان کے ہوتے ہوئے بنی تمیم کا ایک شخص اس منصب پر بیٹھ گیا؟ ”۔ علی نے پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے فرمایا کہ کیا اسلام قبول کرنے سے پہلے کم دشمنی کی کہ پھر ان باتوں میں لگ گئے”۔ یہ قدرت کی حکمت تھی کہ سب سے مضبوط اور شریف خاندان کے فرد کو خلافت راشدہ کے آخر میں خلافت مل گئی ۔ ابوبکر، عمر ، عثمان کے بعد علی نے خلافت کا منصب سنبھالا تو علی کے بعد حسن اور حسین کی فضیلت کے مقابلے میں کس میں ہمت تھی ؟۔ لیکن پھر دست قدرت نے حسن سے صلح اور حسین سے شہادت کا کام لیا۔ پہلے بنوامیہ آئے اور پھر بنوعباس آئے۔ بنی امیہ سے زیادہ بنو عباس نے اہل بیت پر مظالم کا سلسلہ جاری رکھا ہوا تھا۔ بنی فاطمہ نے بھی ایک حصے پر خلافت قائم کی تھی لیکن لاڈلے حجراسود کو بھی خانہ کعبہ سے نکال کر لے اُڑے تھے۔آغا خانی اور بوہری اس سلسلے کی کڑیاں ہیں جن سے اہل تشیع کے فرقہ امامیہ والے اہل سنت کے مقابلے میں بہت زیادہ نفرت بھی کرتے ہیں۔
بریلوی مکتب میں حسینی اور یزیدی کی جنگ چھڑ گئی ۔ ایک طرف بے گناہ بے خطاء معاویہ معاویہ کے نعرے لگانے والے مولانا الیاس قادری ہیں جن کو شاید مدینہ میں شاہی خاندان نے مرکز بنانے کی اجازت دی۔ دوسری طرف حسینی بریلوی ہیں۔ مفتی فضل احمد چشتی اور تحریک لبیک پاکستان کے درمیان بھی جنگ چھڑ گئی ۔ علامہ فضل چشتی نے بریلوی مکتب کے مفتی احمد یار خان کی کتاب کا حوالہ دیاہے کہ ” جب امیرمعاویہ نے قسطنطنیہ کا لشکر یزید کی قیادت میں بھیجا تو حضرت حسین نے یزید کی قیادت میں جہاد کیا اورنمازیں بھی پڑھی ہیں”۔
اس سے پہلے کہ تفرقہ بازی اور مسلک پرستی سے فرقے آخری حدتک لڑجائیں، ایکدوسرے کیخلاف آگ بھڑکانے کا سلسلہ جاری رکھ کر مسلم امہ کا وجود ہی جھلس جائے۔ ایسے علمی نکات کی طرف آئیں کہ مسلم اُمہ شیروشکر ہوجائے۔ جب یزید سمیت جسکے دور میں کربلا کا سانحہ ہوا، مختلف ادوار میں حضرت ابوبکر سے لیکر سلطان عبدالحمید تک مسلم امہ میں مختلف خلفاء رہے ہیں تو آج ایک خلیفہ مقرر کرنا زیادہ اچھنبے کی بات نہیں ۔ داعش نے دولت اسلامیہ عراق وشام قائم کی تو مغربی ممالک سے بھی بہت سارے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں نے شمولیت اختیار کی تھی۔ عراق وشام کے علاوہ پوری دنیا میں بھی اس نے کھلبلی مچا دی تھی۔داعش خراسان اور داعش برصغیروپاک وہند سے آج بھی اس خطے کو بڑے خطرات کا سامنا ہے۔
ایک مرتبہ میجر جنرل ظہیر الاسلام عباسی کو خلیفہ بنانے کیلئے ”خلافت آپریشن” کا منصوبہ بنایا گیامگر اتفاق سے پکڑکر ناکام بنادیاگیا۔ تحریک خلافت کی وجہ سے پاکستان بنامگر سول و ملٹری بیوروکریسی والے کہتے ہیں کہ ہم نسلوں سے ملکی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اب لوگوں میں ایک دوسرے کیخلاف شدید نفرت پائی جاتی ہے اور اسکا سب سے زیادہ ذمہ دارہمارا سب سے بڑاطاقتور طبقہ ہے۔ غریب غربت کی آخری حد تک پہنچ گیا ہے اور ہرخوشہ گندم کو جلانے میں دیر نہیں لگائے گا۔
اگر پاکستان کے اصحاب حل وعقد اور مقتدر طبقات متفق ہوجائیں کہ دنیا کیلئے امام کا تقرر کرنا ہے اور صدر مملکت کی جگہ امام کا تقرر کردیں تو پاکستان کا نظام بدلنے میں بہت جلد مدد ملے گی۔ ہماری پارلیمنٹ نے عدالت کے وہ قوانین بھی نہیں بدلے جو انگریز نے ہمیں قابو کرنے کیلئے بنائے۔ حکمران جب مخالف پربغاوت کا مقدمہ بنانا چاہے تو اسکے الفاظ اور نیت کو بہانہ بناکر اس کی آزادی کو سلب کرتا ہے۔ حکمران اپنے مخالف پر ان دفعات کے تحت مقدمات قائم کرکے جیل میں بھیج دیتے ہیں۔ اس سے ریاست مستحکم نہیں ہوتی بلکہ مزید کمزور بنتی ہے۔
قائداعظم نے اپنی سیاست کا آغاز کانگریس سے کیا اور مقصد یہ تھا کہ ہندوستانی عوام کو انگریز نے غلام رکھنے کیلئے ان انسانی حقوق سے محروم رکھا ہے جو برطانوی شہریو ں کو حاصل ہیں۔ پھر انہوں نے اپنی سیاست کا میدان مسلم لیگ کو بنادیا لیکن افسوس ہے کہ پاکستان بننے کے 75سال بعد مسلمانوں کی جان ان غلامانہ قوانین سے آج تک نہیں چھوٹ سکی ہے۔
جب متحدہ مجلس عمل کی بھاری اکثریت سے خیبر پختونخواہ میں حکومت تھی تو مولانا فضل الرحمن اور ہماری ریاست طالبان کے سامنے سرنڈر تھے۔ اسلام آباد میں افسر سرکاری نمبر پلیٹ لگانے سے ڈرتا تھا۔ جب ANP اور پیپلزپارٹی کی پختونخواہ اور مرکز میں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی تب بھی تحریک طالبان سوات کی شرعی عدالتوں کو قبول کرنا پڑا۔ جب وزیرستان اور سوات آپریشن ہوئے تو بھی طالبان نے ریاست کا ناک میں دَم کررکھا تھا۔ پھر پختونخواہ میں تحریک انصاف اور مرکز میں ن لیگ کی حکومت تھی اور ضرب عضب آپریشن تھا توآرمی پبلک سکول پشاور کا سانحہ ہوگیا۔ آج قبائل اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ چل نکلا ہے۔ پہلے افغانستان میں امریکہ تھا اور قبائل میں ڈرون حملے جاری تھے اور آج امریکہ ونیٹو بھی نہیں اور ڈرون کا مسئلہ بھی نہیں۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت ہے اور عوام میں ایک مضبوط بیانیہ چل رہاہے کہ ہماری فوج نے ہمیشہ پیسوں کی خاطر اس خطے کو تباہ کیا ہے اور طالبان دہشت گردوں کو بھی اپنے مفادات کی خاطر استعمال کیا ہے۔
اسلام آباد میں PTMکے دھرنے سے شروع ہونے والے نعرے ” یہ جو دہشتگردی ہے اسکے پیچھے وردی ہے۔”نے پنجاب، سندھ اور بلوچستان کو بھی خیبر پختونخواہ کیساتھ لپیٹ میں لے لیا۔ ن لیگ اور وکلاء کے جلسوں میں بھی ان نعروں کی گونج رہی ہے۔ قوم پرستوں سے لیکر ریاست پرست عمران خان تک ایک ہی بیانیہ ہے کہ یہاں فوج نے ڈالروں کیلئے روس کے خلاف امریکی جہاد کی افغان جنگ لڑی۔ پھر طالبان کے خلاف امریکہ سے ڈالر لیکر اس خطے کو تباہ کیا۔ افغان سفیر ملا ضعیف اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو حوالے کرنے سے بھی شرم نہیں آئی۔ نیوٹرل وہ مالخورجانورہے جو ڈالر کے شوق میں ہر طرح کے اخلاقی ، قانونی اور شرعی اقدار کو پامال کرنے میں دیر نہیں لگاتا ہے۔نہ صرف غلام ہے بلکہ دوسروں کو بھی غلام بناتاہے۔
یہ جو دہشتگردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے کا نعرہ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس گلزاراحمد خان کے بینچ میں بھی گونجا تھا اسلئے کہ وزیراعظم عمران خان کو حکم دیا تھا کہ آرمی پبلک سکول پشاور کا اتنا بڑا سانحہ ہوگیا تو اس میں اندر کے لوگ جب تک ملوث نہ ہوں اتنا بڑا واقعہ نہیں ہوسکتا۔ سپاہیوں اور چوکیداروں کو سزا ئیں دی گئیں۔ دفاع پر اتنازیادہ بجٹ خرچ ہوتا ہے۔ اس وقت کے آرمی چیف اور ISIچیف کو بھی پیش کیا جائے۔ ذمہ داری کی تھی تو کیس میں شامل تفتیش کیوں نہیں کیا گیا؟۔
پہلے PDMسے فوج کی قیادت کے خلاف آوازیں آتی تھیں تو عمران خان ڈھال بنتا تھا اور اب عمران خان بول رہا ہے تو حکومت ڈھال بنتی ہے۔ یہ سب جھوٹ کا سیاسی عمل ہے اور سچ وہی ہے کہ جب خراسان کی طرف سے ایک لشکر تشکیل دیا جائے اور امام کے تقرر تک جہاد کا نعرہ بلند کیا جائے۔ پھر سیاسی جماعتیں دُم دبا کر بھاگ جائیں گی اور ریاست میں بھی دم خم نہیں ہوگا اسلئے کہ امریکی ڈالر بھی نہیں ملیں گے تو جنگ کس طرح سے لڑی جاسکے گی؟۔کیا ہم اس وقت کا انتظار کریں؟۔
اگر وہاں تک معاملہ پہنچنے سے پہلے پاکستانی قیادت امام کی تقرری کا فیصلہ کرلے تو اس خطے میں افغانستان اور ایران کو اس سے بہت ریلیف مل جائیگا۔ شرعی امیر کا تقرر دہشتگردی کی راہ میں رکاوٹ بن جائیگا۔ جس طرح لوگ شریعت کا حکم سمجھ کر جب بیوی کو تین طلاق دیتے ہیں تو عدت تک انتظار ہوتا ہے۔ پھر حلالہ کی لعنت کرواتے ہیں اور پھرازدواجی تعلق قائم کرتے ہیں۔ جو شریعت انسان کو بے غیرتی کی اس انتہاء پر مجبور کرسکتی ہے اس کیلئے دہشتگردی میں قربانی دینا کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ امام کا تقر ر ہوگا تو پھر شریعت کے نام پر حلالہ کی جہالت سمیت دہشتگردی کی جہالت سے بھی نکالنے میں کوئی دیر نہیں لگے گی۔
ریاست ، حکومت ، معاشرت کی سطح پر جتنا گند بھرا ہوا ہے ، اس میں مذہبی جہالت کسی سے کم نہیں ۔ اگر سب مل کر صرف اور صرف پاک فوج کو موردِ الزام ٹھہرائیں گے تو یہ غلط ہے۔ جب تک آرمی پبلک سکول پشاور کا واقعہ نہ ہواتھا تو دہشتگردوں کے خلاف فوجی عدالتیں بھی ہم نے قائم نہیں کی تھیں اور موجودہ عدالتوں کا حال یہ ہے کہ اسلامی جمہوری اتحاد کو ISI پیسہ دیکر اقتدار میں لائی ۔ بینظیر بھٹو کا اقتدار اسلئے چلتا کردیا تھا کہ IMFسے پاکستان میں پہلی مرتبہ قرضہ 1989ء میں لیا گیا۔ زرداری کے گھوڑے مربے کھاتے ۔ پھر نوازشریف کی حکومت کرپشن کی بنیاد پر ختم کی گئی۔ پھر بینظیر بھٹو اقتدار میں آئی تو نوازشریف پر لندن A.1فیلڈ کے فلیٹ کی خریداری FIA کے تمام ریکارڈ کیساتھ ثابت کردی۔ IMFسے قرضہ لینے کا سلسلہ دونوں نے جاری رکھا ہوا تھا۔ پھر مرتضیٰ بھٹو اپنے گھر کے سامنے پولیس مقابلہ میں ماراگیا اور بینظیر بھٹو کی حکومت بھی ختم کی گئی۔ زرداری کو بھی جیل میں ڈال دیا گیا اور نوازشریف کو دوتہائی اکثریت سے لایا گیا۔ پھر زرداری پرسوئس اکاؤنٹ اور سرے محل کے مقدمات چلائے گئے۔ دونوں نے IMF سے خوب قرضے لئے اور بیرون ملک خوب پیسہ منتقل کیا تھا۔ حبیب جالب نے جب اشعار میں کہا تھا کہ ” ہربلاول ہے ہزاروں کا مقروض پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے” تو بینظیر بھٹو کو بڑا غصہ آیا لیکن بیرسٹر چوہدری اعتزاز احسن نے جھوٹی وکالت کی کہ ”محترمہ جالب نے تو آپ کی تعریف کی ہے”۔
پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا تو اسکے ریفرینڈم کی حمایت عمران خان کر رہا تھا۔ پرویزمشرف نے 2004ء سے 2008ء تک IMFکا قرضہ واپس کردیا تھا لیکن پھر 6ارب ڈالر IMFسے قرضہ لیا تھا۔ پرویزمشرف کے دور میں لندن A,1فیلڈ کے فلیٹ پر عدالت نے نوازشریف کو قید اور 14 کروڑ روپے جرمانے کی سزا سنائی۔ پھر سعودی عرب جلاوطنی سے معاملات ختم ہوگئے۔ براڈ شیٹ کے کیس سے پتہ چلتا ہے کہ پرویزمشرف نے آفتاب شیرپاؤ اور فیصل صالح حیات کے کیس کس طرح معاف کرکے پیٹریاٹ گروپ بنوایا؟۔ اور براڈ شیٹ میں میجر جنرل R امجد شعیب دفاعی تجزیہ نگار نے کس طرح قوم کا پیسہ ضائع کیا؟۔اگر پیپلزپارٹی چاہتی تو ق لیگ کو موقع دینے کے بجائے مولانافضل الرحمن کو وزیراعظم بنانے میں کردار ادا کرتی اسلئے کہ نوازشریف اور عمران خان نے بھی مولانا فضل الرحمن کا ساتھ دیا تھا اور ظفراللہ جمالی صرف ایک ووٹ کی برتری سے وزیراعظم بن گئے تھے ۔ اگر MQMچاہتی تو بھی جمالی اور ق لیگ کو اقتدار سے محروم کیا جاسکتا تھا۔ لیکن مولانا فضل الرحمن کو اسٹیبلشمنٹ نے اقتدار کی دہلیز تک نہیں چھوڑا اور سیاسی جماعتوں نے بھی اس کیلئے راستہ ہموار ہونے کے باوجود معاف نہیں کیا ہے۔
جب پرویزمشرف کے بعد پھر پیپلزپارٹی اور ن لیگ نے باری باری اقتدار حاصل کیا تو یوسف رضاگیلانی کو اسلئے نااہل کردیا گیا کہ اس نے زرداری کیخلاف خط لکھنے سے انکار کیا۔ پھر نوازشریف دور میں پانامہ کا معاملہ سامنے آیا تو پارلیمنٹ میں نوازشریف نے تحریری بیان پڑھ کر سنایا کہ ”اللہ کے فضل و کرم سے 2005ء میں میں نے سعودی عرب کی وسیع اراضی اور دوبئی مل بیچ کر 2006ء میں لندنA,1فیلڈ کے فلیٹ خریدے۔ جسکے تمام دستاویزی ثبوت بھی میرے پاس موجود ہیں اور عدالت میں طلب کے وقت دکھا سکتا ہوں”۔
سوال اٹھائے گئے کہ اونٹوں سے اتنے پیسے منتقل کئے گئے یا کونسا طریقہ تھا ؟۔ منی ٹریل بتاؤ۔ عدالت نے طلب کیا توپھر قطری خط سامنے آیا اور پھر اس میں نقائص کی وجہ سے اس کا بھی انکار کردیا۔ عدالت جھوٹ کے ان پلندوں کو نہیں پکڑ سکتی تھی اسلئے کہ پہلے بھی اپیل کی ڈیٹ گزرنے کے باوجودعدالت کی طرف سے نہ صرف نوازشریف کیلئے دروازے کھولے گئے تھے بلکہ گزشتہ کیس، جرمانہ اور قید کی سزا میں کلیئر کردیا گیا تھا۔
جس عدالت میں کھلی کرپشن کے کیس نہ پکڑے جائیں تو وہ دہشت گردوں کو پکڑنے اور سزائیں سنانے کیلئے کہاں سے اپنے اندر اتنی صلاحیت پیدا کرتے؟۔ جب آرمی پبلک سکول پشاور کے واقعہ کے بعد فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں آیا تو پھر دہشت گردی سے اس ملک کی جان چھوٹ گئی تھی اور اس سے پہلے GHQپر قبضہ سے لیکر مہران ایئربیس پر حملہ تک کیا کیا نہیں ہوا تھا؟۔ جس شخص جنرل راحیل شریف کو یہ کریڈٹ جانا چاہیے تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جرأت مندانہ اقدامات اٹھائے،اسی کو عدالت میں طلب کرنے کا کیا فائدہ تھا؟۔ اور جس نے دہشت گردی کو جڑ سے ختم کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا ،اسی آرمی چیف جنرل قمر جاویدباجوہ کیخلاف دہشت گردی کی ترویج کے نعرے لگنا بہت بری بات ہے۔ دہشت گردی کی کاروکاری میں پوری قوم کا منہ بھی کالا تھا اور جہاں ہر گھر میں دہشتگردی کی خوف وہراس سے حمایت کی جاتی تھی وہ تو جانتے تھے کہ دہشتگرد کس قماش کے لوگ ہیں؟۔ حکیم اللہ محسود کے گاؤں کوٹ کائی جنوبی وزیرستان میں انتہائی شریف انسان ملک خاندان اور اس کی فیملی کو شہید کیا گیا۔ جس میں ایک حافظہ قرآن بچی بھی تھی۔ قاری حسین اور حکیم اللہ بدقماش قسم کے افراد تھے۔ جب ان کو بیت اللہ محسود نے ہمارے واقعہ کے قصاص میں قتل کرنے کا پروگرام بنایا تھا تو انہوں نے کہا کہ ”ہم نے تیرے حکم سے بے گناہ خاندان ملک اور اس کی فیملی کو قتل کیا تھا اسکے بدلے میں تم بھی پھر قتل کیلئے تیار ہوجاؤ”۔ فوج کا اس وقت وزیرستان میں کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ اگر محسود قوم چاہتی تو دہشتگردوں کو ٹھکانے لگانا مشکل نہیں تھا لیکن اس وقت لوگوں کی ہمدردیاں طالبان کیساتھ تھیں اور ان پر خوف طاری تھا۔
میں قاتلانہ حملے میں بال بال بچ گیا تو میرے گھر والوں اور عزیز واقارب نے طالبان کو سپورٹ کا سلسلہ جاری رکھا ۔ ہمارا واقعہ ہوا تب بھی میرے ماموں کے گھر سے پاک فوج نے دہشتگردوں کی پک اپ پکڑ کر بارود سے اڑادی تھی ۔ جب مساجد، گھروں اور مذہبی جماعتوں سے لیکر سیکولر سیاسی لیڈروں تک سب طالبان کی حمایت کرتے تھے تو صرف فوج کو نشانہ بنانا زیادتی ہے۔ عدل و انصاف کا معاشرہ قائم کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ امام کے تقرر سے مرکزی خیال ایک ہوگا۔ قوم اتحاد واتفاق اور وحدت کے راستے پر گامزن ہوگی اور جس میں کوئی برائی ہوگی تو اس کو دور کرنے کیلئے باقاعدہ حکم جاری کیا جائے گا اور امر بامعروف اور نہی عن المنکر کا حق ادا ہوگا۔
داعش کا مطلب دولت اسلامیہ عراق وشام سے امامت کی تقرری کا فریضہ ادا نہیں ہوتا اور افغانستان کا امیرالمؤمنین بھی اپنے ملک تک محدود ہے ۔ پاکستان کا امیر المؤمنین دنیا کیلئے ہوگا، فلسطین وشام ، عراق وسعودیہ ، بھارت وامریکہ اور دنیا بھر کے مسلم وغیر مسلم ممالک کے مسلمانوں کیلئے تاکہ پوری دنیا کے مسلمان اس گناہ سے بچ جائیں جس میں وہ امام زمانہ کا تقرر نہ کرنے کی وجہ سے مبتلاء ہیں۔ جب شیعوں کا امام مہدی غائب یا سنیوں کا مہدی موعود تشریف لائے توعیسیٰ علیہ السلام کا نزول اور دجال اکبر کا خروج بھی ہوگا۔ مسلمانوں کا امام ان کی آمد سے پہلے اتحادواتفاق اور وحدت کا کارنامہ انجام دے چکا ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ ان کی آمد سے پہلے گیارہ اور ایسے افراد بھی آئیں جن پر امت مسلمہ متحدو متفق ہوجائے۔
اگرقرآن وسنت کے احکام کی ایسی تشریح امام کریں جس پر بریلوی، دیوبندی ، اہلحدیث ، جماعت اسلامی، اہل تشیع اور جماعة المسلمین وغیرہ دنیا کے سب فرقے اور مسالک متحدومتفق ہوجائیں اور غیر مسلم بھی دینِ فطرت اسلام کی طرف راغب ہوجائیں تو مسلمانوں کی تمام مساجد میں اسلام کی فطری تعلیم کو بھی عام کیا جائے گا۔ پاکستان کے تمام ادارے فوج، عدالت، پولیس، سول بیورکریسی اور پارلیمنٹ فعال اور اپنے دائرۂ کار میں کردار ادا کریں گے تو دنیا بھر کیلئے پاکستان بہترین نمونہ بن جائے گا اور دیگر ممالک میں بھی اصلاح کا معاملہ شروع ہوگا۔
پاکستان مسلم قومیت کی بنیاد پر بنا۔ نبیۖ کو اللہ کی بارگاہ میں مسلمانوں سے شکایت ہوگی وقال الرسول یاربی ان قومی اتخذوا ہذا لقراٰن مھجورًا ” اور رسول کہیں گے کہ اے میرے ربّ! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا”۔ ہندوستان کے مسلمان آزادی سے پہلے اس بات پر لڑرہے تھے کہ قوم مذہب سے بنتی ہے یا وطن سے؟۔ علامہ اقبال نے دیوبند کے مولانا حسین احمد مدنی کے بارے میں کہا کہ ” وہ کہتاہے کہ قوم وطن سے بنتی ہے یہ کیا بولہبیہے؟” پھر ڈاکٹرا سرار احمد نے کہا کہ ” مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے کہا کہ مسلمان پہلے ایک قوم نہیں تھے لیکن اب قوم بن گئے ہیں”۔
امام کا تقرر کرکے جمہوری خلافت کا نظام بڑا ناگزیرہوچکا ہے ورنہ خطرات اور فتنہ وفساد کی لپیٹ میں سب آجائیں گے۔
حقیقی جمہوریت کے قیام کا تصور
جماعت اسلامی کے امیر سیدمنور حسن سے سلیم صافی نے اگلوایا کہ ” طالبان کے مقابلے میں امریکی فوجی شہید نہیں تو پھر امریکہ کے اتحادی پاکستانی شہید ہیں؟”۔ سید منور حسن نے کہا کہ ” یہ سوال تو آپ سے پوچھتا ہوں کہ پھر وہ شہید ہوسکتے ہیں لیکن آخر کہہ دیا کہ ظاہر ہے کہ امریکہ کے اتحادی ہمارے فوجی بھی شہید نہیں ہیں”۔ اس پر جماعت اسلامی والوں نے ایک طرف سلیم صافی کو تنقید کا نشانہ بنایا اور دوسری طرف منورحسن کو امارت سے اتار دیا۔ جب اسلامی جمہوری اتحاد ISIنے ہی بنوائی تھی جس کے صدر غلام مصطفی جتوئی تھے جو پیپلزپارٹی کے بھگوڑے اورIJI کی دیگر جماعتوں مسلم لیگ جونیجو یا مسلم نواز سمیت سب کیلئے گھوڑے تھے۔ اس وقت نوازشریف کی حیثیت پنجاب کے کھوتے سے زیادہ نہیں تھی۔ یہ ساری پود جماعتیں اور شخصیات عوام پر تھوپی گئی ہیں۔ فوج کے پیچھے ہٹنے اور سیاست میں مداخلت نہ کرنے کا خیرمقدم کرنا چاہیے لیکن جب وزیراعظم کی سکیورٹی فوجی اہلکار کے ذمہ ہوگی جو جلاد کی طرح پشت پر کھڑا رہے گا تو فوج کی اس سے زیادہ مداخلت کیا ہوسکتی ہے؟۔ نوازشریف کو111بریگیڈ نے غائب کردیا تھا۔ عمران خان استعفیٰ نہ دینے کیلئے ڈٹا ہوا تھا کہ BBCنے خبر بریک کردی کہ عمران خان کو چھترمارکر جانے پر مجبور کیا گیا۔
وزیراعظم اور ملک کی تمام اندرونی سکیورٹی سول پولیس کو دینی چاہیے اور جس طرح ARYکے اینکروں پر نامعلوم لوگ FIRکا اندراج کرچکے ہیں، یہ سول سپرمیسی کی دلیل نہیں ہے اور دوسری طرف جب تک پاک فوج سے مدد نہیں لی جائے تو فوج کی پالی ہوئی پارٹیاںاور مذہب وسیاست کے نام پرایسی شخصیات ہیں جن کو پولیس قابو نہیں کرسکتی ہے اور جب تک ہم حقیقی جمہوریت کا قیام عمل میں نہ لائیں توفوج ضرورت ہوگی۔
پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کیلئے سب سے پہلے ان اپنی موروثی پارٹیوں اور شخصیت پرستی سے جان چھڑانی ہوگی۔ جن خاندانوں کی بنیاد پر پارٹیاں چلتی ہیں ان پر پابندی لگانی چاہیے کہ وہ کسی طاقتور عہدے کیلئے پرائیوٹ اور سرکاری سطح پر اہل نہیں ہوں گے۔ سزایافتہ مریم نواز اور نوازشریف کو سرکاری پروٹوکول مل رہاہے اور وزیراعظم شہباز کے عدالت کو مطلوب صاحبزادے ترکی کے سرکاری دورے کا لطف اٹھارہے ہیں۔
عدالتی فیصلے نے لوٹا کریسی ختم کردی یا پارٹی کے ارکان پر اعتماد نہیں ہوسکتاہے؟۔ جب نوازشریف نے حکم دیا تو قمر باجوہ کی توسیع پر بھی ن لیگ مجبور ہوگئی۔ اور پھر نام لیکر ساری خرابی کا بھی جنرل قمر جاویدباجوہ کوہی ذمہ دار قرار دیتا رہا۔ایسی پارٹی شلوار ہے یا پاجامہ ؟۔ اس کا تعین کرنا بھی بہت مشکل ہے۔
بلوچستان میں جمعیت علماء اسلام اکثریتی جماعت بن کر بلدیاتی انتخابات میں سامنے آئی ہے اور ا س سے پہلے پختونخواہ میں بھی آئی تھی۔ حامد میر کے پروگرام میں ڈاکٹرخالدسومرو کے بیٹے کے سامنے انصار عباسی نے مولانا فضل الرحمن کو GHQ کی طرف سے زمینیں الاٹ کرنے کا صرف الزام نہیں لگایا بلکہ دستاویزی ثبوت اور زمینوں کے الاٹ نمبر بھی دئیے تھے۔ مردان کے سپین جماعت کے خطیب بریلوی ہیں اور کس کے کہنے پر جمعیت علماء اسلام میں شامل ہوئے ہیں؟۔ جس طرح بلوچستان میں اتنی تعداد میں آزاد ارکان پاس ہوئے ہیں کہ اگر تمام پارٹیوں کو ملایا جائے تب بھی آزاد ارکان کی تعداد ان سے زیادہ ہے۔ اسی طرح آئندہ انتخابات میں پارٹیوں سے زیادہ آزاد ارکان پارلیمنٹ پر راج کرسکتے ہیں جس کی پیشگی اطلاع کا سیاسی تجریہ آصف علی زرداری نے چند ماہ پہلے دیا ہے۔
آزاد ارکان ایک منشور کے تحت ایک انتخابی نشان سے حصہ لیں اور منشور میں تمام سرکاری جائیداد پر سیاسی پارٹیوں و دیگر اداروں کے ناجائز قبضوں اور اپنے نام پر الاٹ کرنے کو ختم کیا جائے اور جائز زمینوں کو مالکان خود کاشت کریں یا پھر مزارعین کو مفت فراہم کریں۔ وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ ”کیا ہم عمران خان کے کوئی مزارع ہیں”۔ جب جاوید ہاشمی نے ن لیگ چھوڑی تھی تو بھی یہ کہا تھا کہ ”ہم نوازشریف کے مزارع نہیں ہیں”۔ مزارع کا لفظ سندھ وپنجاب اور پاکستان میں غلام کی طرح استعمال ہوتا ہے۔ جب مزارع کو مفت میں زمین ملے گی تو کاشتکار سب سے معزز لفظ بن جائیگا ۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔اناج امپورٹ نہیں ایکسپورٹ ہوگی تویہ ملک فوری طور پر اتنی ترقی کرے گا کہ IMFکے قرضوں سے جان چھوٹ جائے گی۔ جب اسلامی قوانین کا نفاذ ہوگا تو پھر مریم نواز اور پنجاب کے ایک مزارع کی بیٹی کی عزت قانون کی نظر میں ایک ہوگی۔ مذہبی اور سیاسی طبقات سورۂ نور کے ذکر سے بھی مرتے ہیں جہاں نبیۖ کی زوجہ پاک حضرت اماں عائشہ صدیقہ پر بہتا ن لگانے کی سزا80کوڑے ہے اور عام عورت پر بہتان لگانے کی بھی 80کوڑے کی سزا ہے۔ جبکہ یہاں کسی کی عزت اربوں میں ہے اور کسی کی کوڑی برابر نہیں۔ کسی کیلئے10کروڑ بھی مشکل سزا نہیں اور کسی کیلئے دس ہزار بھی بڑی سزا ہے اسلئے کہ امیر وغریب کے پیسے برابر نہیںہیں۔ لیکن 80، 80کوڑوں کی سزا میر وغریب کیلئے برابر ہے۔
جب مزارع آزاد ہوگا تو اس کا ووٹ بھی آزادہوگا ، اس کی عزت بھی آزاد ہوگی ، وہ تعلیم ، صحت اور معاشرے کی تمام سرگرمیوں میں برابر حصہ لے گا وہ کسی کی خیرات زکوٰة سے نہیں پلے گا بلکہ دوسرے لوگ اسکے عشر سے پلیں گے۔اسکا ہاتھ نیچے والا نہیں اوپر والا ہوگا۔ اس سے مزدور کی دیہاڑی بھی جاندار بن جائے گی اور دکاندار بھی اس محنت کشوں میں دنیاوی طاقتور ہونے سے خوشحال بن جائیگا۔ روس وچین اور دنیا میں مزدور ومحنت کش لوگوں سے ہمدردیاں رکھنے اورکارل مارکس کے نظریات والے اسلام کے شیدائی بن جائیں گے۔ قدر زائدکی درست تعبیر اسلامی نظام میں نظر آئے گی۔ جن لوگوں نے امام ابوحنیفہ اور دیگر فقہ کے تمام ائمہ سے انحراف کرکے مزارعت کا سودی نظام جائز قرار دیا ہے وہ دوسرے مسائل میں بھی حقیقی اسلام کی طرف متوجہ ہوں گے۔ جب محنت مزدروی میں کچھ ملنا شروع ہوگا تو مذہبی طبقات بھی محنت کش بن جائیں گے۔ جس کی وجہ سے سیاستدانوں اور اشرافیہ کی نالائق اولاد بھی گدھے گاڑیاں چلانے میں شرم محسوس نہیں کریںگی۔ ذہنی استعداد رکھنے والے افراد ڈاکٹر، استاذ ، سائنسدان اور تمام شعبوں میں کمال حاصل کریں گے اور ہاتھ پیر کی استعداد رکھنے والے بھی اپنے اپنے فن میں کمال حاصل کریںگے۔ آزادارکان جیت جائیں تو لابنگ کے بغیر کسی ایک کو منتخب کرلیں جس میں زیادہ استعداد نظر آتی ہو اور آزاد حیثیت میں منشور کو عملی جامہ پہنائیں اور حقیقی جمہوریت کو پاکستان میں قیامت تک جاری رکھیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv
اخبار نوشتہ دیوار کراچی۔ شمارہ جون 2022

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

جب سُود کی حرمت پر آیات نازل ہوئیں تو نبی ۖ نے مزارعت کو بھی سُود قرار دے دیا تھا
اللہ نے اہل کتاب کے کھانوں اور خواتین کو حلال قرار دیا، جس نے ایمان کیساتھ کفر کیا تو اس کا عمل ضائع ہوگیا
یہ کون لوگ ہیں حق کا علم اٹھائے ہوئے