پوسٹ تلاش کریں

مولانا مفتی محمود نے کہا تھا کہ شکر ہے کہ پاکستان بنانے کے گناہ میں ہم شریک نہیں تھے

مولانا مفتی محمود نے کہا تھا کہ شکر ہے کہ پاکستان بنانے کے گناہ میں ہم شریک نہیں تھے، اگرحضرت ابوسفیانبھی کہتے کہ شکر ہے کہ ہم اسلام کے گناہ میں شریک نہیں تھے جس کی وجہ سے عرب کلچر کی پامالی سے عالمی دہشتگردی تک بات پہنچ گئی!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

ہندوستان میں تبلیغی جماعت دو ٹکڑوں میں تقسیم ہے اور پاکستان میںتبلیغی جماعت اور دہشتگرد ایک جسم دو قالب کی طرح تھے ، مولانا طارق جمیل نے کہا:راستے دو ہیںمگر منزل ایک ہے!

جب شیعہ کے بقول چار صحابہ کے علاوہ سب مرتد ہوگئے تو پھر جنگوں میں تباہی اورقربانی سے لیکر بنوامیہ وبنوعباس کا ملیا میٹ اور موجودہ سعودی حکمرانوں تک اسلام کا کیا فائدہ ہوا ہے؟

سنی شیعہ اور امن پسند ودہشتگردوں کے اسلام میں کیا فرق ہے؟۔ تبلیغی جماعت کا نظم ونسق اور امن پسندی مثالی ہوا کرتی تھی۔ اب حال یہ ہے کہ تبلیغی جماعت کے عالمی مرکزبستی نظام الدین ہندوستان میں مولانامحمد الیاسکے پڑپوتے کی تبلیغی جماعت اور ان سے الگ ہونے والی شوریٰ کی تبلیغی جماعت دوالگ الگ حصوں میں تقسیم ہیں۔ لڑائی اورمارکٹائی کا سلسلہ ہے۔ ایک مسجد سے الگ الگ دونوں جماعتوں کی تعلیم ، جماعتیں نکالنے کی ترتیب اور حدود میں رہنے کی ترکیب کیلئے جمعیت علماء ہند دہلوی کا مفاہمتی کردار بھی دارالعلوم دیوبند کے ترجمان مولانا فضیل احمد صاحب کی دردناک آواز میں سامنے آچکا ہے۔
مولانا طارق جمیل نے بتایا ہے کہ جب تبلیغی جماعت کے آخری امیر مولانا انعام الحسن کو مشورہ دیا گیا کہ حضرت ابوبکر کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اپنے بعد کیلئے ایک امیر منتخب کرلیں تو ان کے صاحبزدے مولانا زبیراور مولانا الیاس کے پڑپوتے مولانا سعد میں سے کسی کو امیر بنانے پر خدشہ ہوا کہ جماعت دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوجائے گی۔ حاجی عبدالوہاب اور چند دوسروںکی رائے یہ تھی کہ مولانا سعد کو امیر نامزد کیا جائے اور کچھ کی رائے یہ تھی کہ مولانا زبیرکو امیر نامزد کیا جائے۔ پھر تین شخصیات کی ایک نظم بنائی گئی تاکہ جماعت تقسیم نہ ہوجائے۔ مولانا طارق جمیل نے ایک بیان میں کہا کہ مولانا زبیراور مولاناسعد کے حامیوں نے ایکدوسرے پر بندوقیں تک تان لی تھیں۔ قتل وغارت کے خدشہ سے ہی جماعت کیلئے امیر کے بجائے نظم کا فیصلہ کیا گیا۔ پھرنظم کے دو ارکان مولانا زبیر اور دوسرے کا انتقال ہوا تو مولانا سعد نے کہا کہ اب میں ہی امیر رہ گیا ہوں اور حاجی عبدالوہاب نے مرکزی شوریٰ کے ارکان بڑھانے کا فیصلہ کرلیا لیکن مولانا سعد نے شوریٰ کے ارکان بڑھانے کا فیصلہ اس کی مرضی کے بغیر مسترد کردیا۔ اب تبلیغی جماعت کا سر کٹی لاش ہے۔ مولانا سعد اور مولانا احمد لارڈ کی الگ الگ جماعتیں ہندوستان اور بنگلہ دیش میں کام کررہی ہیں۔
جب پاکستان میں طالبان کی دہشتگردی عروج پر تھی تو ریاست نے علماء کی خدمات لینے کا فیصلہ کیا۔ صحافی سلیم صافی نے مولانا طارق جمیل کو پروگرام میں بلایا تاکہ ہشتگردی کی روک تھام کیلئے کچھ ارشاد فرمائے لیکن مولانا طارق جمیل نے کہا کہ ہماری منزل ایک ہے، طریقۂ کار میں فرق ہے۔ جب دہشت گردی عروج پر تھی تب بھی تبلیغی جماعت اور طالبان ایک جان دوقالب تھے۔ تبلیغی جماعت کا اجتماع ہوتا تو دہشت گرد جنگ بندی کا اعلان کردیتے تھے۔ بدمعاش دہشتگردوں پرمذہبی رنگ وروغن چڑھانے کیلئے ان کو تبلیغی جماعت میں وقت لگانا پڑتا تھا۔ کوڑ علاقہ گومل میں دہشت گرد بمبار کو پولیس والے نے مار دیا تھا تو وہ تبلیغی جماعت سے تازہ تازہ آیا تھا۔ ہمارے عزیزوں نے کیوں اور کس کیلئے رکھا۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں وہ کس کی تلاش میں تھے؟۔ کریم پیر کا ایک بیٹا کچھ معلومات دینے پشاور آیاتھا اور تفصیل کا درست تفتیش پر پتہ چل سکے گا۔
مجھے بچپن سے دین وایمان کی چاہت تھی۔ جب نویں جماعت کوٹ ادو لیہ میں تھا تو علامہ دوست محمد قریشی کے بیٹے مولانا عمر قریشی جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں زیرتعلیم تھے۔ ان کے مسجد ومدرسہ کا انتظام اللہ وسایا نے سنبھال رکھا تھا۔ ایک مرتبہ اچانک مولانا عمرکے بہنوئی نے اللہ وسایا کے سر پر بہت زور دار طریقے سے بہت موٹا ڈنڈا مار دیا لیکن بچت ہوگئی اس کے دماغ کا بھیجا باہر نہیں آیا۔ جسے اللہ رکھے اسے کون جان سے مار سکتا ہے۔ مولانا سید محمد بنوری کو مدرسہ میں شہید کرکے خود کشی کا جھوٹا الزام لگایا گیاتھا۔ وزیرستان کے مولانا نور محمد وزیر اور مولانا معراج الدین قریشی محسود جنوبی وزیرستان کے ایم این اے (MNA) اور مسلمہ مذہبی شخصیات تھیں لیکن دونوں کو انتہائی بے دردی سے شہید کیا گیاتھا۔
مفتی محمود نے کہا تھا کہ ”ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہ تھے” ۔ اسلے کہ برصغیر میں بڑے پیمانے پر جانیں گئیں، عزتیں لٹ گئیں، خاندان کے خاندان بچھڑ گئے اور لوگوںکو اپنے مستقل گھروں، زمینوں، جائیدادوں، نقد رقوم، زیورات وغیرہ کی قربانی کیساتھ اپنے اپنے وطن وعلاقہ کو چھوڑنا پڑگیاتھا۔ جس کا حاصل انگریز کی باقیات عدلیہ، پولیس ، فوج اور بیوروکریسی تھی اور 22خاندانوں کی سیاست تھی۔ عوام کو کالے انگریز کی شکل میں غلاموں اور نااہلوںکے اقتدارپر قبضہ کرنے کے بعد غلامی سے زیادہ یہ آزادی بھی ایک سزا لگ رہی تھی جس کی بھیانک شکل میں دن بدن اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا تھا۔
انیس سو اڑتالیس (1948) بابڑہ میں پختونوں کے قتل عام سے لیاقت باغ راولپنڈی میں ذوالفقار علی بھٹو کی طرف سے فیصل آباد جیل سے بدمعاش رہاکرکے پختونوں کاخون بہایاگیا تھا۔ سیدعطاء اللہ شاہ بخاری کی تقاریر میں انگریز وں کے نکالنے اور مرزائیت کی مخالفت کا معاملہ ہوتا تھا لیکن پاکستان بننے کے بعد سرکار نے ختم نبوت کا نعرہ لگانے پر بھی گولی مارنے اور پھانسی پر چڑھانے کی سزاؤں سے انگریز کو پیچھے چھوڑ دیا۔ حبیب جالب کی شاعری ایوب خان کے ایسے دستورکو صبح بے نور کو میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا، بھٹو کے لاڑکانہ چلو نہیں تو تھانے چلو اور ضیاء کے دور میں ظلمت کو ضیاء کیا لکھنا ، بادل کو ردا ء کیا لکھنا بھی ظالمانہ تاریخ کی عکاسی تھی لیکن پرویزمشرف نے پاکستان کو قصاب خانہ بنادیا تھا۔ جس کی بھرپور تائیدنوازشریف، شہبازشریف اور عمران کی طرف سے بھی ہورہی تھی۔
مفتی محمودکی طرح ممکن تھا کہ حضرت عثمان کی شہادت کے وقت یہ ابوسفیان نے بھی کہہ دیا ہو کہ ”ہم اسلام کے گناہ میں شریک نہیں تھے” اسلئے کہ سرزمین حجاز میں حضرت سمیہ کی ٹانگیں اونٹوں سے باندھ کر چیر نے، بلال کے سینے پر بھاری پتھر رکھ کر گرم ریت پر لٹانے اور شعب ابی طالب تک مظالم تھے؟۔ بدرواحداور دوسری جنگوں میں کتنے مشرکینِ مکہ ومسلما ن قتل ہوئے؟۔ رسول اللہۖ کے وصال پر قریب تھا کہ انصار ومہاجرین میں خلافت کے مسئلے پر قتل وغارت برپا ہوجاتی اور پھر ارتداد اور زکوٰة دینے سے انکار اور نبوت کا دعویٰ کرنیوالے کے خلاف جہاد سے کتنے قتل کئے گئے۔ جب قریشِ مکہ نے نبوت کے دعویدار حضرت محمدۖ کے خلاف اقدام اٹھایا تو وہ ناجائز تھا لیکن مسلیمہ نے نبوت کا دعویٰ کیا تو اس کو ساتھیوں سمیت تہہ تیغ کیا گیا تھا؟۔
رسول اللہۖ نے فرمایا تھا کہ میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کی صفت بیان کی تھی کہ کافروں پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں مگر پھر عشرہ مبشرہ میں شامل حضرت طلحہ و حضرت زبیر اور حضرت علی تک نے ایکدوسرے کے مقابلے میں جہاد کیا اور ستّر (70) ہزار ایک جنگ کی نذر ہوگئے جو پاکستان میں اس وقت بھی مشکل سے ہوئے کہ جب ریاست کی رٹ ختم ہوچکی تھی اور پاکستان بالکل قصاب خانہ بن چکا تھا۔ اتنے افراد سپاہ صحابہ اور سپاہ محمد کی شیعہ سنی شدت پسند تنظیموں نے بھی ایکدوسرے کے قتل نہیں کئے۔ پھر بنی امیہ کے دور میں کربلا کا واقعہ پیش آیا۔ مسجد نبوی اورمدینہ شہر کی حرمت بھی پامال کی گئی اور عبداللہ بن زبیر سے جنگ کرنے کے دوران خانہ کعبہ کا مطاف پتھروں سے بھر دیا گیا اور ابن زبیر کے قتل کے بعد انکی نعش کئی دنوں تک لٹکائی گئی۔ اس کی سو (100) سالہ بوڑھی ماں حضرت اسماء بنت ابی بکرکے حال پر بھی رحم نہیں کھایا گیا۔ پھر بنوامیہ کے خاندان کو بنوعباس نے بہت بے دردی سے کچل دیا اور بنوعباس کو ہلاکو خان چنگیزی نے ہی تخت وتاراج کیا ۔ انسانی سروں سے مینار تعمیر کئے گئے۔ جب اہل تشیع کے نزدیک صرف چار صحابہ مسلمان باقی بچے تھے باقی سب مرتد ہوگئے تھے تو کیا ابوسفیان کی طرف سے بات بنتی نہیں ہے کہ جس اسلام نے عرب کے اقدار کو ملیامیٹ کرکے رکھ دیا تھا ،اچھا ہوا کہ یزید نے رسول اللہۖ کے کنبے کو پہلے بھی کربلا میں قتل کردیا تھا اور طالبا ن اور تبلیغی جماعت کی مشترکہ کاروائی اور حکمت عملی کے نتیجے میں سن د وہزار سات (2007) میں سیدعتیق الرحمن گیلانی کو قتل کرنے کی غرض سے آنے والوں نے بہن ،بھائی، بھتیجے ،بھانجی ،خالہ زاد ،ماموں زاد ، مسجد کے امام اور گھر کے خادم کے علاوہ آنے والے مہمانوں آفریدی، مروت، جٹ اور محسود سب کو قتل کیا تھا اور اسلام کی نشاة ثانیہ کا خواب دیکھنے والے عتیق گیلانی کو قتل کرنے کے بعد تیزاب کے بڑے بڑے کین لاکر عبرت کا نشان بھی بنانا تھا لیکن اللہ کے فضل سے وہ بچ نکلا تھا۔
ایک طرف شیعہ ہزارہ کے ذبح کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ تو دوسری طرف عراق وشام میں مسلمان ایک دوسرے کو تباہ کرنے کے بعد یہ سلسلہ پاکستان میں گرم کرنا چاہتے ہیں۔ شیعہ سنی اور دیوبندی بریلوی کے علاوہ حنفی واہلحدیث اور ایک ایک فرقے والے بھی ایکدوسرے کے خلاف رندے تیز کررہے ہیں۔ اگر بس چل گیا تو قادیانی صفحہ ہستی سے مٹادئیے جائیں۔ اگر بس چلا تو وہابی گستاخ صفحہ ہستی سے مٹادئیے جائیں اور اگر بس چلا تو بریلوی مشرک بھی صفحہ ہستی سے مٹادئیے جائیں۔ حجاز مقدس پر جن عرب حکمرانوں کا قبضہ ہے وہاں کفیلوں کے ذریعے غیر ملکیوں کو تمام انسانی اور تجارتی حقوق سے محروم کرکے رکھ دیا گیا ہے ۔ اگر وہ پیسے دیں تو اچھے ورنہ پھر ہمارے اہلحدیث بھی بریلوی کیا ہندو بننے کیلئے بھی آمادہ ہیں۔
جب سنی مسلمانوں کو پتہ چل گیا کہ قرآن وسنت میں حلالہ کی لعنت کا کوئی تصور نہیں تھا تو گمراہی کے قلعوں مدارس کو چاہیے تھا کہ قرآن کی تعریف میں تحریف کا عقیدہ پڑھانے اور حضرت عائشہ کی عمر نکاح کے وقت 6سال اور رخصتی کے وقت 9سال کی بجائے سولہ (16)سال اور(19)کی درست تحقیق پر جشن منانے سے لیکر سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کے جواز تک ہر معاملہ پر علاقائی سطح سے لیکر ملکی اور بین الاقوامی سطح تک جلسے جلوس کرتے ۔ قرآن وسنت کی طرف رجوع کرتے۔ اپنے غلط عقائد ونظریات اور نصاب سے توبہ تائب ہوجاتے ۔ اللہ کے حضور سجدہ شکر بجالاتے کہ رسول اللہۖ کی آل اولاد میں ایک شخص نے زبردست طریقے سے جہالتوں کی نشاندہی کردی ہے۔ تمام فرقوں کے مسائل کا حل قرآن وسنت سے حل کرنے کی زبردست کوشش نے اسلام کی نشاة ثانیہ کے خواب کی تعبیر کو قریب تر کردیاہے ۔ حلالہ کے نام پر خاندانوں کو تباہ اورعزتیں لٹوانے سے بچانے کا راستہ نکال دیا ہے۔ اسلام کی درست نشاندہی کردی ہے۔ اسلام کے نام پر مفادات کی سیاست اور سودکے جواز میں مذہبی رنگ سازی کے دانت کھٹے کردئیے ہیں۔ اہل تشیع کے گیارہ ائمہ نے بہت کچھ کیا ہوگا مگرمنصبِ خلافت پر براجمان ہونے یا نہ ہونے کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں مل سکا ہے اور بارہواں امام مہدیٔ غائب ہزار (1000)سال سے زیادہ عرصہ ہوا ہے کہ اہل تشیع کا ان سے رابطہ نہیں ہے۔ جب آئیں گے تو آئیںگے لیکن قرآن میں ایسے اولی الامر کی اطاعت کا ذکر ہے جس سے اختلاف کرنے اور بات اللہ اور اسکے رسول ۖ کی طرف لوٹانے کی گنجائش بھی ہو۔ علامہ سید شہنشاہ حسین نقوی اچھے ذاکر اور خطیب ہیں لیکن اس کی یہ بات شاید کسی شیعہ کی معتبر کتاب میں بھی نہیں ہوگی کہ رسول اللہۖ قیامت کے دن اپنی قوم سے قرآن کو چھوڑنے کی شکایت کریںگے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کو علی کے بغیر چھوڑ دیا ہے اور یہ ممکن ہے کہ ان کی کسی تفسیر میں ہو بھی سہی، کیونکہ مولانا حق نواز جھنگوی شہید کے معتبر اکابر شاہ اسماعیل شہید نے اپنی کتاب”منصبِ امامت” میں حضرت علی کے بارے میں ایسی احادیث لکھ دی ہیں۔ اگر رسول اللہۖ کو یہ شکایت صحابہ سے ہوگی تو ہمارا قصور تو نہیں ہوگا۔ البتہ یہ سمجھا جائے گا کہ جب تک مہدی غائب کا ظہور نہیں ہوتا ہے تو قرآن کی تعلیمات پر عمل نہ کرنے میں ہمارا کوئی قصور نہیں ہوگا اسلئے کہ حضرت علی اپنے وقت کاامام اور موجودہ دور کا امام زمانہ مہدی ٔ غائب ہیں۔ ایران اور عراق کی حکومت بھی اہل تشیع کے پاس ہے لیکن جب تک مہدی ٔ غائب کا ظہور نہیں ہوتا ہے تو شیعہ کے روحانی پیشواء کی طرح ایک ایسا اولی الامر عالمِ اسلام کو تشکیل دینا ہوگا جس سے دنیا کی سپر طاقتیں بھی اسلام کا نظام قبول کرنے کیلئے بخوشی تیارہوجائیں۔

NAWISHTA E DIWAR March Special Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

عنقریب پاکستان بینک کرپٹ ہوجائے گا تو دنیا بدل جائے گی۔

عنقریب پاکستان بینک کرپٹ ہوجائیگا تو دنیا بدل جائیگی۔ ہم نے نوازشریف کے دور میں بھی لکھ دیا تھاکہ سود پر سود لینے کا سلسلہ جاری ہے۔دفاعی بجٹ سے گردشی سودی قرضہ زیادہ ہے ،پاکستان پر آئی ایم ایف قبضہ کرلے گا

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

عمران خان نے ٹھیک کہا تھا کہ آئی ایم ایف (IMF)میں جانے سے بہتر ہے کہ خود کشی کرلے لیکن نوازشریف کے سودی قرضوں کی وجہ سے آئی ایم ایف سے قرضہ لینا پڑگیا ، دلدل میں پھنس گئے !

مولانا فضل الرحمن اور مفتی محمد تقی عثمانی، تمام مذہبی طبقے اور سیاستدان ایکدوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کی بجائے اسلام اور پاکستان کیلئے قربانی دیں،اللہ نے توبہ کا دروازہ تو کھلا رکھاہے !

ایک شیعہ مہمان نے کہاکہ حضرت علی نے فرمایا کہ ” جو انسان مسخ کردئیے گئے ان میں کچھ خشکی کے جانور میں بدل گئے بندر اورر خنزیر۔کچھ سمندری مخلوق میں بدل گئے۔ یہ مچھلیاں اصل میں انسان تھے جس کی شکل بدل گئی ہے۔ خرگوش بھی حرام ہے کیونکہ خرگوش واحد ایسا جانور ہے جس کو حیض بھی آتا ہے”۔ اس نے بتایا کہ امام جعفر صادق یا امام باقر سے کسی نے پوچھا کہ یزید توبہ کرسکتا ہے؟۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ نے توبہ کادروازہ بند نہیں کیا لیکن یزید کو توبہ کی توفیق نہ ملے گی۔ کیونکہ اس نے بے انتہاء مظالم اہل بیت پر ڈھائے ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی کم بخت اپنی آخرت سنوارنے کیلئے توبہ نہیں بھی کرتا ہے تو وہ اپنی دنیا سنوارنے کیلئے ضرور توبہ کرے۔ بہت مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ ہم نے افغانستان، عراق، لیبیا اور شام کے حالات دیکھنے کے علاوہ طالبان اور فوج کی طرف سے پٹھانوں پر بھی مظالم کے پہاڑ ٹوٹنے کے مظاہرے دیکھے ہیں۔ لوگوں کو گھر بار چھوڑ کر جس طرح سے اپنے علاقے خالی کرنے کیلئے خالی ہاتھوں بھاگنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔فوج نے اس وقت پاکستان بھر میں خوب ترقیاتی کام بھی کئے اور اپنے ہاتھ بھی صاف کردئیے تھے۔ ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان کے روڈ پر لاوارث محسودوں کا بہت بڑ اقبرستان بن گیا ہے۔ بہت خود دار لوگ مشکلات کا شکار ہوکر مرگئے ہیں۔ لاپتہ افراد میں پتہ نہیں کتنے لوگ اس قبرستان میں بھی دفن کئے گئے ہوں گے۔ محسود بہت بہادر، خود دار اور زبردست صفات رکھنے والی بہترین قوم ہے۔ کوئی دوسری قوم ہوتی تو اپنے پیاروں کیلئے ماتمی جلوس نکالتے ہوئے نظر آتی ۔ بادشاہی خان محسود نے مولانا فضل الرحمن، محمود خان اچکزئی اور آفتاب شیرپاؤ وغیرہ سے اسلام آباد کی ایک کانفرنس میں گلہ کیا تھا کہ کراچی سے مہاجر نے آکر ہمارے لئے امدادی سامان کے کیمپ لگائے مگر پختون لیڈر نظر نہیں آئے۔
منظور احمد پشتین نے فوج کے خلاف بہت نعرے لگائے، اگر کوئی دوسرا یہ کام کرتا تو اس کے پرخچے اُڑادئیے جاتے لیکن پاک فوج نے سمجھداری کے علاوہ سنجیدگی کا بھی مظاہرہ کیا کہ اس قوم کیساتھ جتنی زیادتیاں ہوگئیں ہیں،اب چیخنے کا حق بھی ان سے چھین لیا جائے تو یہ بہت ناانصافی ہوگی۔ گلہ من پشتین کے انتہائی دردِ دل والے اور بہت مزاحیہ اشعاربھی فضاؤں میں گونجتے ہیں۔ بنی اسرائیل سے بھی کسی دور میں قربانی لی گئی تھی اوریہ ان کی اپنی شامت اعمال کا بھی نتیجہ تھا لیکن بہت بے گناہ لوگ امرود کے تول میں بھی آگئے تھے۔ یہ پشتو کا محاورہ ہے کہ جب گناہگاروں کیساتھ بے گناہ بھی مصیبت کا شکار ہوجاتے ہیں تو وہ اپنے لئے امرود کے تول میں آنے کی بات کرتے ہیں۔پختون قوم کو جن آزمائش کا سامنا کرنا پڑا لیکن مزے دوسرے لوگوں نے اس پر اٹھائے تھے۔
اگرڈی این اے (DNA)ٹیسٹ کیا جائے تو جس مچھلی کو شیعہ انسان سمجھ کر نہیں کھاتے وہ شاید ایسی نکلے کہ شیعہ بھی کھالیں۔ جو لوگ سادات کا دعویٰ کرکے خمس کھارہے ہیں اگر انکا ڈی این اے (DNA) کیا جائے تو شاید ہندوؤں میں بھی اچھوت نسل کے نکل جائیں۔ کہیں ایسا نہ ہوکہ خمس کھانے کیلئے اچھوت سے سید بننے والے امت میں انتشار پیدا کرنا چاہتے ہوں اور اپنے مفادات کی حفاظت بھی اسی میں ان لوگوں کو لگتی ہو۔ ٹیسٹ کرنے ہونگے۔ اللہ نے قرآن میں انسانوں کو کتوں اور گدھوں سے بھی تشبیہ دی اور جانوروں سے بدتر بھی قرار دیا ہے۔ جن انسان نما جانوروں میں جانوروں سے بدتر صفات ہوں تو پھر وہ مساجد کے ائمہ بن کر بھی بدترین ہوسکتے ہیں جنکے پیچھے بندروں کی طرح نقل و حرکت کرنے والے نمازی نہ صرف گمراہی کا شکار ہوں بلکہ انسانیت سے بھی بالکل عاری ہوں اور قرآنی آیات اور حدیث صحیحہ کی تعلیمات کو دیکھا جائے تو دل ودماغ کھل سکتا ہے۔
ہم نے جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کا فتویٰ شائع کیا جس میں سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کو بے دینی قرار دیا گیا۔ مفتی تقی عثمانی کی کتاب سے سورہ ٔ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کے جواز کی سرخی شائع کردی۔ بریلوی مکتبۂ فکر نے پہلے تو اس کو خوب پھیلادیا مگر جب اگلے شمارے میں انکے اپنے کرتوت اورفتاویٰ کا پول کھل گیا تو پھرخاموش ہوگئے۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ جب مفتی تقی عثمانی نے اپنی کتابوں سے ان عبارات کو نکالنے کا اعلان کردیا اور علامہ غلام رسول سعیدی نے بھی فتاویٰ شامیہ کی مخالفت کی تھی تو مدارس کے علماء اکھٹے ہوکر فتاویٰ شامیہ اور فتاویٰ قاضی خان وغیرہ سے یہ خرافات نکالنے کا اعلان کردیتے۔ لیکن اس کارِ خیر کیلئے بھی علماء ومفتیان نے اتفاق واتحاد کی جرأت نہیں کی تھی۔
مدارس کے نصاب میں قرآن کی تعریف میں قرآن کی تحریف کی گئی ہے لیکن علماء کی طرف سے ڈھیٹ پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے نصاب کو تبدیل کرنے کا اعلان نہیں کیا جاتا ہے۔ شیعہ سنی ایکدوسرے پر قرآن کی تحریف کے الزامات لگاتے ہیں لیکن اپنی کتابوں سے یہ بکواسات نکالنے کیلئے آمادہ نہیں ہورہے ہیں۔ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عباس نے حضرت علی سے نقل کیا ہے کہ ”رسول اللہ ۖ نے دو جلدکے درمیان قرآن کے علاوہ کچھ نہیں چھوڑا تھا”۔ یہ واحد ایسی حدیث ہے جس میں قرآن کی حفاظت کا پتہ چلتا ہے۔ حالانکہ قرآن نے اپنی حفاظت کی خود گواہی دی ہے ،اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کو تحفظ دینے کیلئے احادیث کا محتاج نہیں کیا۔ وفاق المدارس کے صدر مولانا سلیم اللہ خان نے لکھا ہے کہ امام بخاری نے اہل تشیع کو جواب دینے کیلئے لکھا ہے کہ تمہارا عقیدہ غلط ہے کہ قرآن میں تحریف ہوئی ہے جس کی دلیل حضرت ابن عباس سے حضرت علی کا قول ہے لیکن امام بخاری کا یہ جواب صرف شیعوں کو جواب دینے کیلئے ہے۔ باقی امام بخاری کے نزدیک ایسا نہیں تھا کہ واقعی رسول اللہۖ نے امت کیلئے جمع شدہ قرآن چھوڑا تھا۔ بلکہ یہ قرآن تو حضرت عثمان نے جمع ومرتب کیا ہے۔ جس میں حضرت عبداللہ بن مسعود شامل نہیں کئے گئے تو ابن مسعود حضرت عثمان سے اس وجہ سے ناراض تھے ۔ کشف الباری میں مولانا سلیم اللہ خان کی طرف سے قرآن کے خلاف نظریہ دیکھا جاسکتا ہے۔
قرآن نے اپنی جمع وترتیب کی وضاحت آیت میں کردی۔ شیعہ سنی اپنی اپنی کتابوں سے خرافات نکالنے پر اتر آئیں تو ڈر یہ لگتا ہے کہ خرافات کو چھوڑ کر بہت اچھی اچھی چیزوں کو نکالنے پر متفق نہ ہوجائیں۔ اسلام مضبوط دین ہے مگر اسکا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا گیا۔ کتاب الطہارت کی ابتداء سے فقہی مسائل کی انتہاء تک ایک ایک مسئلہ پر بات کی جائے تو بہت سا خود ساختہ بوجھ علماء وطلبہ اور عوام کے ذہنوں سے اترجائیگا۔ نکاح وطلاق کے مسائل قرآن وسنت میں جس طرح سے حل کئے گئے ہیں وہ مسلمانوں کیلئے نہیں بلکہ دنیا کے تمام انسانوں کیلئے قابلِ قبول ہی نہیں بلکہ فطرت کے عین مطابق ہیں لیکن ابھی تک جانتے بوجھتے حلالہ کی لعنت کو جاری رکھا ہوا ہے۔ اسلامی بینکاری کے نام پر ہمارے ائرپورٹس اور موٹروے کو گروی رکھ دیا گیا ہے اور جب ادائیگی کیلئے ہمارے پاس کچھ نہیں ہوگا تو غیرملکی یہودی بینک اس کو قبضہ میں لے لیںگے۔
جب عالمی قوتوں کا پاکستان کے ائرپورٹس اور موٹروے وغیرہ پر قبضہ ہوجائے گا تو وہ ہماری پولیس اور فوج کو اپنی حفاظت پر لگادیں گے۔ دہشت گردوں میں اکثریت ان کے اپنے لوگ ہیں۔ مشکل وقت آنے سے پہلے ہوشیار ہونے کی سخت ضرورت ہے۔ مولوی اور سیاستدان بدلنے میں دیر نہیں لگاتے ہیں۔ سیکولر اور کمیونسٹ بھی آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہیں اسلئے قربانی نہیں دے سکتے ہیں۔ مذہبی لوگوں کوہواؤں کے دوش پر کھڑا کرنے کے بجائے بہت مضبوط اور بہترین دلائل کیساتھ میدان میںا تارنا ہوگا ورنہ تو یہ سب کیلئے دردِ سر بن جائیں گے۔پنجاب کی کیفیت مذہبی اعتبار سے بہت خطرناک ہے۔
اللہ نے قرآن میں فرمایا: اے ایمان والو! کھاؤ جو زمین میں حلال پاک چیزیں ہیں اور شیطان کے نقش قدم پر مت چلو، وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ وہ تمہیں برائی اور فحاشی کا حکم دیتا ہے۔ اور یہ کہ تم اللہ پر ایسی بات کرو جو تم نہیں جانتے ہو۔ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اتباع کرو اس کی جو اللہ نے نازل کیا ہے، کہتے ہیں کہ بلکہ ہم تو اس کی اتباع کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا ہے اور اگرچہ ان کے آباء کسی چیز کو سمجھتے نہ ہوں اور نہ ہدایت یافتہ ہوں۔ ان لوگوں کی مثال جنہوں نے انکار کیا ہے بالکل ایسی ہے کہ جیسے چرواہا جانوروں کو پکارتا ہے ۔ جس کو وہ نہیں سنتے مگرہانک پکار کی صدا ۔ بہرے ہیں، اندھے ہیں اورگونگے ہیں اور وہ سمجھ نہیں رکھتے ہیں۔(البقرہ آیت 168سے172)
نمازوں میں اللہ اکبر کی تکبیریں نمازیوں کیلئے تبدیلی کا ذریعہ نہیں ۔ اگر امام سری نماز پڑھارہاہے تو اسکے پیچھے سورہ ٔ فاتحہ پڑھنا ممکن نہیں ہوتا۔ تیزی کیساتھ نماز کی عادت پوری کرنے کی بجائے عبادت ہوتی تو زندگیاں بدل جاتیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا” بیشک جو لوگ چھپاتے ہیں جو اللہ نے کتاب میںسے نازل کیا ہے اور اس پر تھوڑا سا مول لیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نہیں کھاتے اپنے پیٹ میںمگر آگ۔ اور ان سے اللہ قیامت کے دن بات بھی نہیں کریگا اور نہ انہیں پاکیزہ ٹھہرائے گا اور ان کیلئے دردناک عذاب ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے گمراہی کو ہدایت کے بدلے میں خرید لیا اور عذاب کو مغفرت کے بدلے میں مول لیا۔پس کس چیز نے ان کو آگ کیلئے صبر پر مجبور کررکھا ہے؟۔ یہ اس لئے کہ اللہ نے کتاب کو حق کیساتھ نازل کیا اور جنہوں نے اختلاف کیا کتاب میں وہ بہت دور کی کم بختی میں نکل گئے۔ نیکی یہ نہیں ہے کہ اپنے چہروں کا رُخ مشرق یا مغرب کی طرف کردو۔ لیکن نیکی یہ ہے جو ایمان لایا اللہ پر اور آخرت کے دن پر اور ملائکہ پراور کتاب پر اور انبیاء پر ۔ اور اس نے اپنا مال دیا اور اپنا مال اپنی محبت سے دیا اپنے قرابتداروں کو اور یتیموں کو اور مسافروں کو۔ اور مانگنے والوں کو اور گردنیں چھڑانے میںاور نماز قائم کی اور زکوٰة دی۔اور اللہ سے وعدوں کو پورا کرنے والے جب وہ عہد کریں۔ اور صبر کرنے والے مشکلات میں اور مصائب میں اورلڑائی کے وقت میں۔ یہی لوگ ہیں جو سچے ہیں اور یہی لوگ پرہیزگار ہیں۔ (البقرہ آیت 174سے 177)
اللہ نے جس طرح روزے کے وقت میں کھانے کو حرام کیا ہے ،اسی طرح سے کسی کا مال باطل طریقے سے کھانے اور حکومت کی طرف معاملہ گھسیٹ کر کھانے کو بھی حرام قرار دیا ہے لیکن مذہبی لوگ روزے میں اپنا مال کھانا حرام سمجھتے ہیں لیکن ویسے حرام مال سے وہ نہیں رُکتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اپنا مال روزے میں حرام اور دوسروں کا حلال ہے۔
اللہ نے فرمایا کہ ” اگر تم صدقات کو ظاہر کردو تو یہ بھی ٹھیک ہے اور اگر تم اس کو چھپاؤ اور فقرآء کو دو تو یہ تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے۔ اور اس طرح تمہاری برائیوں میں سے کچھ کا کفارہ ہوجاتا ہے۔ اور جو تم کرتے ہو اللہ اسکی خبر رکھتا ہے۔ آپ پر انکو ہدایت دینا نہیں ہے مگر جس کو اللہ چاہے ہدایت دے۔ اور جو تم خیرات خرچ کرتے ہو تو یہ تمہارے اپنے نفسوںکیلئے بہتر ہے۔ اور تم خرچ نہیں کرتے مگر اللہ کی رضا حاصل کرنے کیلئے ۔ اور جو تم خرچ کرتے ہو ،اللہ اسکا پورا بدلہ دیتا ہے اور تمہارے ساتھ ظلم نہیں ہوتا ہے۔اور جو لوگ اللہ کی راہ میں ایسے قید ہوگئے ہیں کہ وہ زمین میں بھاگ دوڑ کی استطاعت نہیں رکھتے ۔ جاہل گمان کرتے ہیں کہ وہ دولتمند ہیں ان کی خود داری کی وجہ سے۔ آپ ان کو چہروں سے پہچان لوگے۔وہ لوگوں سے لپٹ کر نہیں مانگتے ہیں۔ اور جو تم اچھا خرچ کروگے تو اللہ اس کو جانتا ہے۔ جو لوگ اپنے اموال رات اور دن کو خرچ کرتے ہیںچھپا کر اور اعلانیہ تو ان کیلئے ان کے رب کے پاس اجر ہے۔ اور ان پر کوئی خوف نہیں ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ نہیں اٹھیں گے مگر جس طرح جنات نے اسکے حواس باختہ کردئیے ہوں چھونے سے ۔یہ اسلئے کہ وہ کہتے تھے کہ تجارت سود کی طرح ہے۔ حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اورسود کو حرام کردیا ہے۔ پس جس کے پاس اسکے رب کی طرف سے نصیحت پہنچی اور وہ سود کو چھوڑدے۔ پس جو پہلے ہوچکا اور اس کا امر اللہ کے سپردہے۔ اور جو پھر لوٹا تو یہ لوگ جہنم والے ہیں۔ اس میں وہ ہمیشہ رہیں گے”۔ (البقرہ آیت271سے275) ۔ علامہ پیر شکیل احمدمردان نے سورہ ٔ بقرہ کی طرف توجہ دلادی لیکن حقائق سننے کیلئے پتہ نہیں کیوں نہیں آمادہ ہوتے ہیں؟۔

NAWISHTA E DIWAR March Special Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

جب حق آجائے تو شدت پسندوں کے باطل عقائد اور نظریات روئی کے گالوں کی طرح ہوا میں اُڑیں گے

شدت پسند مذہبی طبقے اسلام سے دور ہیں۔ ایمان، صالح عمل ، حق کی تلقین اور صبر کی تلقین میں شدت پسند سب سے پیچھے ہیں اور جب حق آجائے تو ان کے باطل عقائد اور نظریات روئی کے گالوں کی طرح ہوا میں اُڑیںگے

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

مساجد ومدارس ، خانقاہیں وامام بارگاہیں شدت پسند طبقات کی آماجگاہیں ہیںمگر احادیث صحیحہ میں مذہبی طبقوںکی شدید الفاظ میں مذمت ہے۔ کیامذہبی طبقے حق کی طرف آئیں گے؟

شہید اسلام حضرت مولانامحمد یوسف لدھیانوی نے اپنی کتاب ”عصر حاضر حدیث نبویۖ کے آئینہ میں” مذہبی طبقے کے علاوہ حکام، تجاراور معاشرے کے ہرطبقے کو آئینہ دکھا دیا۔

جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی سے ماہنامہ ” البینات ” رسالہ نکلتا تھا اور اب بھی شاید شائع ہورہاہو۔ حضرت مولانا سیدمحمد یوسف بنوریاور مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید کی گرانقدر تحریرات اس میں شائع ہوتی تھیں۔ جب مولانا یوسف بنوری نے اپنے مضمون کے عنوان ” عبر وبصائر ” پر آیت لکھنا شروع کردی تو مولانا یوسف لدھیانوی نے عرض کیا کہ اس سے ایک اشتباہ ہوتا ہے کہ آپ کی تحریر میں قرآن کی طرح لوگوں میں بصائر ہیں۔ مولانا سیدمحمد یوسف بنوری نے یہ نہیں سوچا کہ ایک چھوٹا عالم اور مدرسے کے رسالے کا ملازم مجھے یہ رائے اور رہنمائی دینے کا کیا حق رکھتا ہے بلکہ فوری طور پر بات قبول کرکے اپنے مضمون کا عنوان رہنے دیا اور اس آیت کو رسالے سے ہٹادیا ۔
جب مولانا سید محمدیوسف بنوری کی وفات ہوئی تو مولانا یوسف لدھیانوی نے لکھ دیا کہ اسلاف کی آخری نشانی ہمارے درمیان سے اُٹھ گئی ، اب کوئی عالمِ حق کا آئینہ نہیں بچا ہے۔ پھر وہ وقت بھی جلد آگیا کہ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمود ،موجودہ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی اور شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کے درمیان جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں بینکوں کی سودی رقم سے زکوٰة کی کٹوتی پر بحث ہوئی اور اسی بحث کے دوران مفتی محمود پر موت کا دورہ پڑگیا اور وہ اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ اس ملاقات کا حال مفتی تقی عثمانی نے بھی ماہنامہ البلاغ دارالعلوم کراچی میں لکھا ہے اور مولانا محمد یوسف لدھیانوی نے بھی ماہنامہ البینات جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں لکھا ہے۔ پھر اقراء ڈائجسٹ میں یہ دونوں مضامین ”مولانا یوسف بنوری ومولانا مفتی محمودنمبر” میں شائع ہوئے ہیں۔ مفتی محمود نے وفات پائی تو میں لیہ پنجاب میں تھا اور جمعیت علماء اسلام کے کارکن فیض محمدشاہین نے عبدالخیل ڈیرہ اسماعیل خان میں مفتی محمود کے جنازے میں شرکت کے بعد آکربتایا کہ مفتی محمود کو زہر دے کر شہیدکیا گیا ہے۔ اس وقت مذہبی لوگوں کے دلوںمیں پیپلزپارٹی سے سخت نفرت تھی اور پاک فوج سے بڑی محبت تھی۔ جب بھٹو کوپھانسی دیدی گئی تو مساجد میں حلوئے بانٹے گئے تھے۔ میرے بڑے بھائی ایس ڈی او واپڈا اس وقت چیچہ وطنی میں تھے اور بھٹو کی موت پر شدید رنج اور غم وغصے کا اظہار کررہے تھے ۔ محلے میں مسجد کے امام نے ان سے قرضہ لیا تھا وہ بھی اسی غصے میں واپس مانگ لیا تھا۔
جب مفتی محمود کی وفات کے بعدعلامہ سیدعبدالمجید ندیم شاہ لیہ آئے تھے تولوگوں نے جمعیت علماء اسلام کی پیپلزپارٹی کیساتھ شمولیت کی باز گشت سنی تو جلسہ ختم ہونے کے بعد ندیم صاحب سے پوچھا کہ کیا جمعیت نے پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کرلی ہے؟۔ ندیم صاحب نے بھاگ کر جان چھڑائی تھی کہ ابھی نہیں۔ جب مولانا فضل الرحمن جمن شاہ لیہ آگئے تو پیپلزپارٹی اور جمہوری قوتوں کیساتھ مارشل لاء کے خلاف بہت مدلل انداز میں بات کی اور پاک فوج کو احترام کیساتھ اقتدار سے الگ کرنے کیلئے زبردست دلائل دئیے اور یہ طلسم توڑ دیا کہ چوکیداری کرنے والے ہی اقتدار پر قبضہ کرنے کا حق رکھتے ہیں۔
جب میں کراچی گیا تو جمعیت علماء اسلام کراچی کے امیر مولانا شیرمحمدنے کہا کہ مفتی محمود کو زہر دیا گیا تھا۔ جب مجھے بنوری ٹاؤن کراچی میں داخلہ ملا تو وہاں پرانے رسالے طلبہ کو اٹھانے کیلئے دئیے گئے تھے۔ ان میں البلاغ کا وہ رسالہ بھی تھا جس میں مفتی محمود کی وفات کا مفتی محمد تقی عثمانی نے تذکرہ کیا تھا۔ تحریر دیکھ کر مجھے اس مذہبی طبقے پر بڑا غصہ آگیا جنہوں نے مفتی محمد تقی عثمانی پر مفتی محمود کو پان میں زہر کھلانے کا الزام لگایا تھا، اسلئے کہ اس مفتی تقی عثمانی نے لکھا تھا کہ ” ہمیں چائے کی پیشکش کی گئی تو ہم دونوں بھائیوں نے کہا کہ ہم دن میںصبح ایک بار چائے پیتے ہیں اور پھر دن بھر نہیں پیتے”۔ جب فرشتوں نے حضرت ابراہیم کے کھانے کی دعوت قبول نہیں کی تو دل میں خوف آیا تھا کہ مہمان دشمن تو نہیںہیں؟۔ مگر مفتی محمود نے دونوں بھائیوں کے ضمیر کو مطمئن کرنے کیلئے کہا کہ ” میں خود چائے زیادہ پیتا ہوں لیکن اگر کوئی چائے نہیں پیتا ہے تو اس کو پسند کرتا ہوں”۔ حالانکہ مفتی محمود معمول کی زندگی میں فرماتے تھے کہ چائے میں دودھ ہے اور دودھ کی دعوت قبول نہ کرنے سے نبیۖ نے منع فرمایا ہے۔ مذہبی لوگوں کا سیاست سے تعلق ہو تو وہ بات کو پلٹانے کی بھی مہارت رکھتے ہیں۔ مفتی تقی عثمانی نے لکھا کہ ”میں نے عرض کیا کہ ہمارے ساتھ یہ علت لگی ہوئی ہے۔(پان کا بٹوہ دکھاکر) ”۔ مفتی محمود نے فرمایا کہ ”یہ تو چائے سے بھی بدتر ہے”۔ پھر مفتی تقی عثمانی نے مفتی محمود پر دورہ پڑنے کا ذکر کیا ہے اور ڈاکٹر کے آنے اور مفتی صاحب کی روح پرواز کرنے تک کا واقعہ لکھا ہے۔ اس تحریر کے بعد مفتی تقی عثمانی پر پان کھلانے کا شائبہ تک نہیں ہوسکتا تھا۔ پھر جب کافی سالوں کے بعد اقراء ڈائجسٹ میں بنوری ومحمود نمبر میں مولانا یوسف لدھیانوی کی تحریر دیکھ لی تو اس میں یہ اضافہ بھی تھا کہ پھر مفتی محمد تقی عثمانی نے اصرار کرکے مفتی محمود کو پان کھلادیا۔ جب تھوڑی دیر بعد مفتی محمود پر دورہ پڑگیا تو مفتی محمدرفیع عثمانی نے دل کے دورے کی خصوصی گولی مفتی صاحب کے حلق میں ڈال دی۔ اقراء ڈائجسٹ کی مجلس مشاورت میں حاجی محمدعثمان کا نام بھی لکھا تھا۔ بنوری ومحمود نمبر میںحاجی عثمان کے نام کی جگہ ستارے کے نشان لگادئیے ۔
جمعیت علماء اسلام کے قاری شیرافضل خان نے مفتی محمود کے جلسے میں مرزائی نواز جنرل ضیاء کے نعرے لگائے تو مفتی محمود نے کہا کہ مرزائی نواز نہیں مرزائی کہو۔ جنرل ضیاء کے بیٹے ڈاکٹرانوارالحق کی شادی مشہور قادیانی مبلغ جنرل رحیم الدین کی بیٹی سے ہوئی اور اس کا نکاح پڑھانے کیلئے مفتی تقی عثمانی اپنے مرشد ڈاکٹر عبدالحی خلیفہ مجاز مولانا اشرف علی تھانوی کو لے گئے۔ جنگ کے میر شکیل الرحمن نے قادیانی لڑکی کو مولانا یوسف لدھیانوی کے ہاتھ پرمسلمان کرنے کے بعد نکاح کیا تھا۔ مولانا یوسف لدھیانوی نے بتایا تھا کہ جو فتویٰ اور خط کا جواب اقراء ڈائجسٹ میں ان کی طرف منسوب کرکے حاجی عثمان کیخلاف شائع کیا گیا ہے یہ مفتی محمد جمیل خان نے لکھا ہے اور یہ ساری خباثت مفتی رشید لدھیانوی کی ہے۔ آج جامعة الرشید اسی مفتی رشید کی طرف منسوب ہے اور اسکے مہتمم مفتی عبدالرحیم کی چشم کشا تحریرات ہمارے پاس محفوظ ہیں۔ سارے حقائق کو عوام کے سامنے لایا جائے تو پھر مذہبی طبقات کے چہروں سے بہت سارے نقاب اُٹھ جائیںگے۔ جب ہم نے مولانا یوسف لدھیانوی کے حوالے سے مفتی تقی عثمانی کی مفتی محمود کی وفات کے حوالے سے کہانی لکھ دی تو مولانا یوسف لدھیانوی نے بتایا تھا کہ مفتی تقی عثمانی نے بہت ڈانٹا کہ آپ نے ماجرا لکھ کر مجھے پھنسادیا ۔مولانا یوسف لدھیانوی نے اپنی طرف منسوب غلط فتوے سے بھی معذوری ظاہر کی لیکن حاجی عثمان کی قبر پر داماد کیساتھ گئے تھے۔
جب حضرت حسین پر مشکل وقت آیا تو کوفہ کے شیعہ، مدینہ ومکہ کے صحابہ سمیت کسی نے بھی یزید کے خلاف کوئی موثر آواز نہیں اٹھائی تھی۔ جان کو خطرہ ہو تو اللہ تعالیٰ نے کلمہ ٔ کفر بھی معاف کردیا ہے لیکن عزیمت والے اور سازش میں شریک ہونے والے برابر نہیں ہوسکتے ہیں۔ جب حاجی عثمان پر فتوے لگے تو خانقاہ میں بڑی تعداد میں مرید ہونیوالوں کا تقویٰ پوٹی پیشاب کی طرح بہت بری طرح بہہ گیا۔ پھر حاجی عثمان کی وفات کے بعد بھی مذہبی طبقے کا مسجد الٰہیہ اور خانقاہ چشتیہ میں کردار بہت قریب سے دیکھ لیا تھا۔ جب حقائق کو منظر عام پر لایا جائیگا تو لوگ حیران ہونگے کہ یہ مذہبی طبقے کا حال تھا؟۔
مولانا محمد یوسف لدھیانوی کی مقبول کتاب ”عصر حاضر حدیث نبویۖ کے آئینہ میں” مارکیٹ سے غائب کردی گئی جسکے لاکھوں نسخے تیزی سے فروخت ہونے کا دعویٰ بھی کتاب پر لکھ دیا گیا لیکن شائع نہیں ہورہی ہے۔ مولانا سید محمد بنوری کی شہادت نے ثابت کردیا تھا کہ خود کشی کا جھوٹا الزام لگانیوالے قتل میں ملوث تھے اور مولانا یوسف لدھیانوی ، مفتی نظام الدین شامزئی، ڈاکٹر حبیب اللہ مختار،مفتی عبد السمیع، مفتی سعیدا حمد جلالپوری اور مفتی عتیق الرحمن اور مفتی جمیل خان کے قتل کے پیچھے بھی اسی گینگ کے ملوث ہونے کا اندیشہ ہے۔ ویسے شیعہ سنی نے بھی اپنے اپنے پالتو دہشتگرد رکھے تھے لیکن جب شرافت کے لبادوں میں چھپے ہوئے رستم میدان میں کھل کرسامنے آجائیںگے تو یوم تبلی سرائر ”اس دن بڑے بڑے رازوں سے پردہ اُٹھ جائیگا”۔ مولانا یوسف لدھیانوی کی کتاب عصر حاضر میں مساجد کے ائمہ کو آسمان کے نیچے بدترین مخلوق قرار دیا گیا ہے اور ان میں نماز پڑھنے والوں کو ہدایت سے بالکل عاری گمراہ قرار دیا گیا ہے۔ مدارس کے رئیس دارالافتاء کو علماء حق کے اُٹھ جانیکی وجہ سے جاہل قرار دیا ہے جن سے فتوے پوچھے جائیں گے تو بغیر علم کے فتوے دیںگے اور خود بھی گمراہ ہونگے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریںگے۔ یہ بھی روایت میں لکھ دیا ہے کہ علماء حق سے غلطی ہوسکتی ہے لیکن حق واضح ہونے کے بعد باطل پر ڈٹ جانے والا عالم نہیں بلکہ کھلم کھلا شیطان ہے۔ مذہبی لبادے اور مذہبی زبان میں لوگوں کو جہنم کی طرف بلانے والی روایت بھی لکھ دی ہے جس میں حکم ہے کہ مسلمانوں کی جماعت اور اسکے امام سے مل جاؤ لیکن اگر اس وقت نہ مسلمانوں کی جماعت اور نہ امام ہو تو ان سارے فرقوں سے الگ ہوجاؤ، چاہے درخت کی جڑ چوس کر گزارہ کرنا پڑجائے۔
قاری شیر افضل خان نے بتایا کہ میں نے خواب دیکھا کہ ”رسول اللہۖ قرآن کا درس دے رہے ہیں۔ مولانا یوسف بنوری اس درس قرآن میں موجود ہوتے ہیں اور کچھ اور لوگ بھی ہوتے ہیں لیکن مفتی محمود کو اس درس میں بیٹھنے کی اجازت نہیں ملتی ہے۔ میں نے مفتی محمود صاحب کو خواب بتایا تو مفتی صاحب نے کہا کہ مولانا بنوری کا بڑا مقام ہے اور مجھے اللہ نے اتنا اعزا ز نہیں بخشا ہے”۔ تبلیغی جماعت والے اپنے گناہوں کو اللہ سے بخشوانے کیلئے جماعت میں وقت لگاتے ہیں اور مفتی محمود صاحب سیاسی دغا بازی کی معافی مانگنے کیلئے حج پر جاتے تھے۔ جب مولانا احمد جان نے مفتی محمود سے کہا کہ میرے حلقے میں میرے لئے ووٹ مانگو۔ آپ نے کلثوم سیف اللہ سے ڈیرہ اسماعیل خان اور بنوں کی سیٹ پر اپنے لئے گٹھ جوڑ کررکھاہے۔ جمعیت کے ہر امیدوار کیلئے ووٹ مانگنا آپ کا فرض ہے تو مفتی محمود نے عوام سے کہا کہ مولانا احمد جان کہتا ہے کہ مفتی محمود ڈیرہ اسماعیل خان کا نام لیتا ہے بنوں کا نام نہیں لیتا ہے۔ جب میرا تعلق ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے تو میں ہر جگہ ڈیرہ اسماعیل خان ہی کے حوالے سے اپنا تعارف کراؤں گا۔ سیاسی دغہ بازی کا کھیل بہت تاریخی اور پرانا ہے۔

NAWISHTA E DIWAR March Special Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

مفتی منیر شاکر اور علامہ عابد حسین شاکری کی دوبہت ہی متضاد شخصیات بھی اللہ اور اسکے رسولۖ کے نام پر اکٹھے ہوکرکام کرسکتے ہیں

مفتی منیر شاکر اور علامہ عابد حسین شاکری کی دوبہت ہی متضاد شخصیات بھی اللہ اور اسکے رسولۖ کے نام پر اکٹھے ہوکروہ کام کرسکتے ہیں کہ پاکستان اور سب سنی شیعہ اور تمام مسلمان ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر مسجد نہیں بلکہ دنیا کی امامت کریں

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

مفتی منیر شاکر پختونخواہ میں اپنے سنی ، دیوبندی اور پنج پیریوں کیلئے بھی ایک انتہائی متنازع شخصیت ہیں لیکن یہ شخص اچھے انداز میں سب کیلئے قابلِ قبول اور بہت زبردست ہوسکتے ہیں

علامہ جواد حسین نقوی اہل پاکستان میں اپنے اہل تشیع کیلئے متازعہ ہیں لیکن اہلحدیث ، دیوبندی اور بریلوی مکتبۂ فکر میں بہت تیزی کیساتھ قابلِ قبول اور انتہائی عروج پر پہنچ رہے ہیں

سنی اور شیعہ اپنے اپنے مؤقف پر مضبوطی سے ڈٹنے کا حق رکھتے ہیں اسلئے کہ نسل در نسل ہندو، سکھ اور عیسائی کو اپنے آبائی مذہب سے بدلنا آسان نہیں ہے اور جہاں شدت پسندی آتی ہے تواللہ نے ملائکہ کے استاذ عزازیل علیہ الصلوٰة والسلام کو بھی اپنے مقام ومرتبہ سے اُتار کرابلیس لعین الی یوم الدین ہمیشہ کیلئے لعنت اللہ علیہ والملائکہ اجمعین بنادیاہے۔ نورانی ملائکہ نے بھی اعتراض کیا کہ حضرت آدم کو خلیفہ بنانیکی کیا ضرورت ہے جو زمین پرخون بہائے اور فساد پھیلائے ؟ لیکن اللہ نے کہا کہ ”میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے”۔ فرشتوں کا لاعلمی میں سوال اُٹھانا اخلاص کی دلیل ہے ، گستاخانہ لہجے کی نہیں ہے ۔ اللہ کے ہاں ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرنا جہالت ہے لیکن معصومانہ سوالات کا اظہار کوئی گناہ نہیں ہے۔ جبکہ شیطان اسلئے راندۂ درگاہ ہوا کہ اس نے شدت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو مٹی سے ، تمہارے حکم پر میں اسکے آگے سجدہ نہیں کروں گا۔سب ملائکہ نے سجدہ کیا تھامگر ابلیس نے نہیں کیا۔
آج ہم نے بنی آدم کو فساد پھیلانے اور خون بہانے کے شیطانی عمل سے روکنے کیلئے عدل واعتدال اور صراط مستقیم کا راستہ اپنانا ہے۔ رسول اللہۖ نے حضرت عثمان کے نا حق قتل کی خبر پر صحابہ کرام سے احرام کی حالت میں جہاد کیلئے بیعت لی تھی لیکن جب پتہ چلا کہ خبر جھوٹی ہے تو صلح حدیبیہ کی شرائط پردستخط کئے اور اس کا مطلب یہ تھا کہ مکہ پر مخالف فریق مشرکینِ مکہ کا اقتدار تسلیم کرلیا ہے۔ اولی الامر کی حیثیت سے مشرکینِ مکہ نے یہ شرائط رکھی تھیں کہ تلوار کے علاوہ کوئی اسلحہ ساتھ نہیں لاؤگے۔ تین دن سے زیادہ قیام نہ کروگے اور جب بھی نکلنے کیلئے کہا جائے تو نکلوگے۔ ایکدوسرے کیساتھ خفیہ اور اعلانیہ دشمنی نہیں کرینگے۔ اگر قریش کا کوئی فرد مسلمانوں کے پاس آجائے تو اس کو واپس کردیا جائیگا لیکن اگر مسلمانوں کا کوئی فرد قریش کے پاس آجائے تو اس کو واپس نہیں کیا جائے گا۔
آج جوغیرملکی مسلمان سعودی عرب میں رہتے ہیں ،ان کو عیسائی ممالک کی نسبت بہت کم انسانی حقوق حاصل ہیں۔ رسول اللہۖ نے اسلام کے بدترین دشمنوں یہود اور مشرکینِ مکہ کیساتھ بھی میثاقِ مدینہ اور صلح حدیبیہ کے معاہدے ریاستِ مدینہ کے داخلی اور خارجی محاذ پرفرمائے تھے جو اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام سلامتی اور ایمان امن کی ضمانت دیتا ہے۔ اگر ہمیں فرقہ وارانہ مسائل کی دلدل سے فرصت مل جائے تو اسلام کی ایک ایک بات سے پوری دنیا میں بہت بڑا انقلاب برپا ہوسکتا ہے۔ اسلام میں آزادیٔ رائے کا بھرپور حق ہے اور اس حق سے معاشرے میں امن وسلامتی اور آزادیٔ رائے کی اعلیٰ مثال نظر آسکتی ہے۔ رسول اللہۖ کے دور میں حضرت عائشہ پر بہتان طرازی کے مرتکب حضرت حسان، حضرت مسطح اور حضرت حمنہ بنت جحش نے اسّی اسّی (80،80) حدِ قذف کے کوڑے کھائے اگر اسلام نے برائی کو ہاتھ اور زبان سے روکنے کا حکم دیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہرگز بھی نہیں ہے کہ اگر قانونی چارہ جوئی کیلئے کسی کے خلاف حق کی گواہی دی جائے تو اس پر اسّی (80)کوڑے حدِ قذف کی سزا بھی مسلط کی جائے۔
خلیفہ ٔ دوم حضرت عمرنے بصرہ کے گورنر حضرت مغیرہ بن شعبہ کے خلاف گواہی دینے پر تین افراد کو کوڑے مارے تھے اور چوتھے فرد کی گواہی ناقص قرار دی تھی۔ اسلام کے چہرے سے جب تک اجنبیت کی یہ اُلجھنیں دور نہ کی جائیں اس وقت تک مسلمانوں کا کسی عقیدے اور نظام پر اتفاق نہیں ہوسکتا ہے۔
اگر دنیائے کفر کے ذہن میں یہ بیٹھ جائے کہ مسلمان چوری اور سینہ زوری کے مرتکب ہیں تو وہ مسلمانوں کو امامت کے قابل سمجھنا تو بہت دور کی بات ہے بلکہ اپنے اسلامی اقدار کیمطابق زندہ رہنے کا حق دینا بھی ان کیلئے مشکل ہوگا۔ مثلاً علامہ خادم حسین رضوی کے بیٹے علامہ سعد رضوی نہیں بلکہ وہ چھوٹے بیٹے جو بہت سیدھے سادے لگتے ہیں۔ اس کی رہائش فرانس یا کسی دوسرے مغربی ملک میں ہو۔ ایک بیگم اسلامی تعلیمات کے مطابق عیسائی یا یہودن ہو۔ اگر تین افراد اس پر چشم دید گواہ بن جائیں کہ کھلی ہوئی فحاشی کی مرتکب پائی گئی ہے لیکن وہ اعتراف جرم سے انکاری ہوجائے تو کیا اسلامی تعلیمات کا تقاضہ یہی ہوگا کہ ان گواہوں پر اسّی اسّی (80،80)کوڑے برسانے کا قانون بھی نافذ کیا جائے؟۔
دنیا میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ اسلام کا تقدس بالکل مصنوعی ،چوری اور سینہ زوری پر مبنی ہے لیکن ہم نے دنیا کے سامنے اسلام کی حقیقت کو واضح کرنا ہوگا کہ مغیرہ ابن شعبہ پر الزام لگنے اور گواہوں پر کوڑے برسانے اور ام المؤمنین حضرت اماںعائشہ صدیقہپر بہتان لگانے والوں میں بڑا اور بنیادی فرق تھا۔ دونوں معاملات کو خلط ملط کرنے سے دنیا میں اسلام کا بیڑہ غرق کردیا گیا ہے۔ اسلام میں برائی کو روکنے اور آزادیٔ اظہار رائے کی اس سے بڑی اور کیا مثال ہے کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ کیخلاف پوری قوت اور شدومد سے آواز اٹھائی گئی۔ اگر واقعی جرم کی مرتکب ہوتیں تو قرآن نے امہات المؤمنین کیلئے فحاشی پر دوہری سزا کی وضاحت کردی ہے ۔عام عورت کو سو( 100)کوڑے کی سزا تو ان پردو سو (200)کوڑے کی سزا نافذ ہوتی۔ دوسری بات یہ ہوتی کہ ان کا نکاح بدکار یا کسی مشرک سے کردیا جاتا۔ کیونکہ طیب طیبہ اور خبیث خبیثہ ایک ساتھ ہوسکتے ہیں مگر بدکار مردوں اور بدکار عورتوں کو مؤمنین پر حرام کردیا گیا ہے۔ اسکا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ ہر مشرک مرداور مشرکہ عورت بدکار ہوتے ہیں لیکن ان کا قانون یہ تھا کہ مشرکین کے ہاں قانونی اور اخلاقی لحاظ سے ایسے جوڑوں کی کھلی چھوٹ تھی۔ ویسے تو حضرت ام ہانی کے شوہر بھی مشرک تھے اور صحابہ جب مشرف بہ اسلام نہیں ہوئے تھے تو تب بھی بہت سے لوگ اچھے کردار کے مالک تھے۔
جب حضرت یوسف علیہ االسلام پر زلیخا نے بہتان لگایا تھا تو ایک بچے نے شواہد کے ذریعے سے غلطی اور جبر کی مرتکب حضرت زلیخا کو مجرم ثابت کیا تھا کہ اگر اس کی قمیص آگے سے پھٹ گئی ہے تو یوسف علیہ السلام مجرم ہیں اور اگر اس کی قمیص پیچھے سے پھٹ گئی ہے تو حضرت یوسف پاک اور وہ زلیخا مجرم ہے۔ جب کسی کوبات کرنیکی اجازت نہ ہو تو پتہ نہیں کیا کیا قیامت ڈھائی جائے گی؟ اور جب نبی اور انکے حرم پر بات کی گنجائش ہو تو ان سے بڑا پھنے خان کوئی نہیں۔
حضرت عائشہ کی پاکدامنی کی گواہی بہتان لگانے والی حمنہ بن جحش کی سگی بہن ام المؤمنین حضرت زینب نے بھی دی جو مقابلہ رکھنے والی سوکن بھی تھیں۔ ایک ایک گوشے سے نبیۖ نے تسلی فرمالی توپھر وحی اُتری تھی۔ اسلام بڑا زبردست دین اسلئے ہے کہ ایک تو رائے کی آزادی ہے تاکہ برائی کہیں بھی پنپ نہ سکے اور دوسرا یہ کہ ام المؤمنین اور ایک عام عورت پر بہتان لگانے کی سزا بالکل یکساں ہے تاکہ کوئی مذہبی اور طاقتور شخصیت اسلام کے دامن میں جھوٹی پناہ نہ لے سکے۔ معاشرے میں بے لاگ اظہار رائے کی آزادی سے پاکدامن اور خبیث کے درمیان تفریق قائم کرنے میں بالکل بھی کوئی مشکل نہیں ہے۔جب بلاخوف ماحول کا جائزہ لیا جائے توپاک اور پلید کی نشاندہی بہت آسان ہے۔
اسلام وحی کے ذریعے سے معاشرے کی اصلاح کے اصول بتاتا ہے لیکن معاشرے کی اصلاح صرف عقائد، نظریات اور الفاظ سے نہیں ہوتی ہے بلکہ اس کیلئے صالح اعمال کی ضرورت ہے۔ انسانوں کے صالح اعمال کا تعلق انفرادی اور اجتماعی معاملات سے ہوتا ہے۔ ایمان، صالح اعمال ، تلقینِ حق اور تلقینِ صبر انسان کو خسارے سے بچانے کیلئے ضروری ہیں۔ (سورۂ عصر) غلط گواہی دینے پر قرآن نے انسان کے دل کو گناہگار قرار دیا ہے۔ جب کوئی درست گواہی دیتا ہے تو معاشرہ اس کی سچائی کا قدر شناس ہوتا ہے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ نبیۖ نے عصر کی نما ز دو رکعت پڑھائی تو کچھ لوگوں نے سمجھا کہ چار رکعت سے نماز کم ہوگئی ہے، کچھ لوگوں نے نبیۖ کے سامنے بات کرنے کی جرأت نہیں کی لیکن ایک شخص نے نبیۖ کے سامنے کہا کہ دو رکعت نماز پڑھی ہے۔ شروع میں اس شخص کی بات پر نبیۖ نے یقین نہیں کیا لیکن جب تفتیش کرنے کے بعد بتایا گیا تو نبیۖ نے دو رکعت مزید پڑھائے اور فرمایا کہ ذی الیدین نے سچ کہاہے۔ انسانوں میں بعض اوقات سچ کہنے اور بے باکی میں فرق ہوتا ہے۔
مفتی منیر شاکر کی کلپ مشہور ہے کہ رسول اللہۖ کو میں اسلئے نہیں مانتا ہوں کہ میرے چچازاد یا خالہ زاد بھائی ہیںبلکہ اللہ کے حکم کی وجہ سے آپۖ کو مانتا ہوں۔ آپۖ کے والد عبداللہ، والدہ آمنہ، دادا عبدالمطلب ، چچاابوطالب کو میں نہیں مانتا ہوں۔ آپ نے کبھی نہیں سنا ہوگا کہ کسی نے کہا ہو کہ آمنہ نے یہ فرمایا ہے۔ نبیۖ اللہ کے رسول ہیں اسلئے ہم آپۖ کو مانتے ہیں۔
مفتی منیر شاکر کی اس بات سے بہت سے لوگوں نے زبردست اختلاف کیا ہے اور کچھ لوگ اسکے حق میں بھی ہیں۔ مفتی منیر شاکر کی اس بات میں بڑا وزن ہے کہ ہمارے لئے صرف قرآن وحدیث معتبر ہے۔ مفتی صاحب مولانا حسین علی کی جماعت اشاعت التوحید والسنة کے قائل ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مولانا طاہر پنچ پیری کے بیٹے مولانا طیب طاہری نے حق کے مشن سے انحراف کیا ہے اسلئے وہ مخالف پیر سیف الرحمن اور مولانا طیب طاہری میں کوئی فرق نہیں کرتے ہیں۔
جب لعان کی آیات نازل ہوئی تھیں تو انصارکے سردار سعد بن عبادہ نے کہا کہ میں قرآن کے حکم پر عمل کرتے ہوئے لعان نہیں کروں گا بلکہ بیوی اور اس کیساتھ ملوث شخص کو قتل کردوں گا۔ برصغیر پاک وہند میں انگریز نے ہندوؤں کی رسم ستی کو ختم کردیا کہ جب وہ خاوند کے مرنے کے بعد اس کی بیوی کو جلاڈالتے تھے۔ بلوچوں کی رسم تھی کہ چور کو اپنی صفائی پیش کرنے کیلئے آگ کے انگاروں سے گزرنا پڑتا تھا۔ مسلمانوں، ہندوؤں اور سکھوں میں یہ رسم تھی کہ بیوی کو فحاشی میں مبتلا دیکھ موت کے گھاٹ اتاردیا جاتا تھا، انگریز نے بھی تعزیراتِ ہند میں غیرت کے نام پر قتل کی اجازت دیدی تھی اور اب بھی یہ رسم موجود ہے۔
مفتی منیرشاکر ایک غیرتمند پختون اور مسلمان خود کو سمجھتا ہے لیکن اگر قرآن میں اللہ نے اور سنت میں رسول ۖ نے حلالہ کی لعنت پر عمل کرنیکا حکم نہ دیا ہو بلکہ اس رسمِ جاہلیت کو بالکل بنیاد سے ختم کردیا ہو توپھر نام نہاد اکابرعلماء و مفتیان کو احبار ورہبان کی طرح اپنا ارباب بنانا کیاجائز ہوگا کہ لوگوں کو رسم جاہلیت کے حلالے پر مجبور کیا جائے؟۔ مشرکینِ مکہ میں حلالہ کی رسمِ جاہلیت بے غیرتی کے لحاظ سے ہندوؤں کی رسم ستی سے بدرجہا بدترین تھی۔ آج بھی غیرتمند عورتیں ہندوؤں کی رسم ستی کو قبول کرلیںگی مگر حلالہ کی لعنت کو قبول نہیں کریں گی۔
پچھلے سال اسلام آباد میں پورا الیکٹرانک میڈیا، مذہبی وسیاسی لیڈر شپ ، حکمران اور اپوزیشن اورعمران خان ، مولانا فضل الرحمن، ن لیگی رہبران اور سبھی آٹھ (8)آزادی عورت مارچ کے خلاف برسرِ پیکار تھے۔روڈکے ایک طرف کپڑے پیچھے کے خواتین تھیں اور دوسری طرف پر جوش مذہبی طبقہ تھا۔ خون آلود ہونے کی خبر خواتین نے اپنے کیمپ کے حوالے سے دی لیکن ایف آئی آر ایک بے غیرت کاکڑ مولوی نے اپنے زخمی ہونے کی کٹوائی تھی ۔ ان کو کاٹو تو ایک قطرہ ٔ خون بھی غیرت کا نہیں نکلے گا۔ قرآن نے طلاق سے رجوع کیلئے شرط عدت اور اصلاح کی رکھی ہے مگر یہ قرآن کے فطری حکم کا انکار کرکے نہ صرف کفر کے مرتکب بلکہ انتہائی بے غیرتی، بے شرمی، بے حیائی، بے مروتی، بے حسی، بے ضمیری اور بے تکے الفاظ ومعانی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ مفتی منیر شاکر میری کتابوں کا مطالعہ کرکے دلائل سے مطمئن ہوکر قرآن کی آیات سے لوگوں کو آگاہ کرسکتے ہیں۔
علامہ عابد شاکری کہہ سکتے ہیں کہ مفتی صاحب ! اگر آپ نے یزید کو ماننے کی بجائے ابوطالب کو مانا ہوتا تو حلالہ سے خواتین کی عزتیں تارتار نہ ہوتیں۔ ہوسکتا ہے کہ ابوطالب نے اسلام کو بھی قبول نہیں کیا ہو کہ سجدوں میں چوتڑ ہم سے نہیں اٹھائے جاتے ہے مگر غیرت پاسبان رہتی تو حلالہ کی بے غیرتی اور یزید کے مظالم تک کم ازکم بات نہ پہنچتی۔علامہ ساجدنقوی ابوبکر و عمر کی خلافت کو نہیں مانتے ہیں تو یہ ان کا حق ہے۔ جب سعد بن عبادہ نے ان کی خلافت کو نہ مانا، تب بھی سعد بن عبادہ کی صحابیت پر کوئی اثر نہ پڑا۔ اگر جن نے ان کو شہید کیا اور وہ جن زندہ ہے تو جنات سے اسکو سزائے موت دی جائے۔ علامہ ساجدنقوی کہتے ہیںکہ توحیدورسالت کی گواہی کوفہ ،عراق اور کربلا میں ہے مگر شہادت ثالثہ ”علیاً ولی اللہ وخلیفہ بلا فصل” وہاں نہیں جو پشت درپشت ائمہ اہلبیت سے منسلک ہیں اسلئے برصغیر پاک وہند کے شیعہ بھی اپنی اس بدعت سے باز آجائیں۔

NAWISHTA E DIWAR March Special Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

بلٹ نے اس مرتبہ پروف کردیا کہ بیلٹ کے پیچھے اسکا کوئی کردار نہیں تھا.

پنجاب میں سینٹ الیکشن کا کریڈٹ چوہدری پرویز الٰہی اور مرکز میں پی ڈی ایم (PDM)کے امیدوار یوسف رضا گیلانی کی کامیابی کا کریڈٹ مولانا فضل الرحمن کو جاتا ہے۔ جمہوریت سرخرو ہوئی مگر نظام کے منہ پر انتخابات نے کالک مل دی

(کالم تیز و تند)  تحریر: قدوس بلوچ

بلٹ نے اس مرتبہ پروف کردیا کہ بیلٹ کے پیچھے اسکا کوئی کردار نہیں تھا لیکن یہ پتہ کیسے چل سکتا ہے کہ خفیہ بیلٹ میں ضمیر کی آزادی کا معاملہ ہے یا بے دریغ پیسہ اس میں ملوث ہے؟

جہاں قلم اور اسکی سطروں کا تقدس بکتا ہو،جہاں اینکر پرسن اور میڈیا ہاؤس اپنی عزت کا بھرم کسی کی وکالت کرتے ہوئے گٹروں میں ڈبکیاں کھاتادکھائی دے وہاں ضمیر کا کیا سوال ہے؟

پہلے زمانوں میں جب معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوجاتا تھا تو اللہ تعالیٰ کسی نبی یا رسول کی بعثت سے اصلاح وہدایت کے راستے کھول دیتا تھا۔ یقین وایمان والے اپنے اعمال کی پوری اصلاح کرکے سرخرو ہوجایا کرتے تھے۔ اور کافر ومنافق اپنے حربوں کے ذریعے عتاب وعذاب تک پہنچ جاتے تھے۔ جب سے نبوت کا سلسلہ ختم ہوا ہے تو امت کی اصلاح کیلئے قرآن کی رہنمائی موجود ہے اور علماء کرام و اولیاء عظام نے ہردور میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ جب انگریز نے برصغیرپاک وہند پر قبضہ کیا تھا تو حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی نے ایک طرف مجاہدین کی قیادت کرنے کی کوشش فرمائی ، دوسری طرف سیاسی محاذ پر اپنی جدوجہد کو تیز کرنے کی مہم کی سرپرستی فرمائی اور تیسری طرف فرقہ وارانہ اختلافات کو ختم کرنیکے محاذ پر کام کیا۔ فیصلہ ہفت مسئلہ دیوبندی بریلوی اختلافات کا حل تھا۔ ہوسکتا ہے کہ مولانا اشرف علی تھانوی کے حیدر آباد دکنی ماموں نے فرقہ واریت ہی سے توجہ ہٹانے کیلئے وہ بیہودہ حرکت کی ہو جس کی وجہ سے علماء دیوبند نے شیعہ اور بریلوی مکتب کا پیچھاچھوڑا ہو کہ ” اپنے مسلک کو چھوڑو مت اور دوسرے کے مسلک کو چھیڑومت”۔
مولانا فضل الرحمن میرے بڑے بھائی عبدالقیوم کے ہم جماعت تھے ، ملتان میں ہم ایک ہی اسکول میں پڑھتے تھے۔ میرے والد مولانا عبدالمالک کے مرید تھے۔ علماء دیوبند سے بڑی محبت رکھتے تھے۔ مذہبی جلسے جلوسوں میں ایک روحانیت ملتی تھی ۔ ہمارا تعلق حضرت حاجی محمد عثمان سے تھا۔ مفتی محمد تقی و مفتی محمد رفیع عثمانی کے استاذ مولانا عبدالحق صاحب نے حاجی عثمان سے بیعت کی تھی اور وہ بڑے خلیفہ بھی تھے۔ پھر وقت آیا اور آزمائش کی وجہ سے علماء سمیت بڑے فوجی افسران اور دنیا دار لوگ سب بھاگ گئے۔ جلسوں اور الیکشن میں ہم نے مولانا فضل الرحمن کو سپورٹ کرتے ہوئے سید عتیق الرحمن گیلانی کی بھرپور حمایت بھی دیکھی ہے ۔ جب نیب کی طرف سے مولانا کی گرفتاری کا شدید خطرہ تھا تو شہہ سرخی کیساتھ مولانا کی ایسی حمایت کردی کہ دنیا حیران اور پریشان ہوگئی لیکن جونہی خطرہ ٹل گیا تو پھر ہمیں خبر لینے کی بھرپور اجازت بھی مل گئی ۔
ہم نے بہت پہلے کارٹون شائع کیا تھا کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن میں مولانا فضل الرحمن اتحاد کی کوشش کررہے ہیں اور ہمیں اس کوشش سے کوئی اختلاف بھی نہیں اور صحافت میں اپوزیشن ہی کو سپورٹ کرنا ایک صحتمند صحافت کا تقاضہ ہوتاہے۔ اگر بالفرض مولانا فضل الرحمن کو نیب گرفتار بھی کرلیتی تو جمعیت کے کارکن بھی پی ٹی ایم (PTM)کی طرح جذباتی بن جاتے ۔ن لیگ و پیپلزپارٹی کے قائدین، رہنما اور کارکن بھی اپنے مقاصد کیلئے مولانا کی حمایت اور حکومت وریاست کی مخالفت کرتے۔ ہمارا مقصد مولانا فضل الرحمن کو سیاست کی طرح مذہبی معاملات میں بھی سردمہری کا شکار ہوجانے کے بجائے فعال کردار ادا کرنیکی طرف متوجہ کرنا ہے۔ جو ان کا اصل منصب اور ہدف بھی ہے۔
ہم نے لکھ دیا تھا کہ مشہور ہے کہ اونٹ اور اونٹنی کا ملاپ انسان کی مدد سے ہی ہوتا ہے۔ دیہاتوں میں جانوروں کے چھوٹے جراح ہوتے تھے جن کو سلوتری کہا جاتا تھا۔ ان کا کام جانوروں کے پیٹ میں مرے ہوئے بچوں کو بھی ہاتھ سے ہی نکالنا ہوتا تھا۔ اونٹوں کے معاملے میں بھی ان کی خدمات سے فائدہ اٹھایا جاتا تھا۔ پہلے جس طرح مولانا فضل الرحمن نے ن لیگ اور پیپلزپارٹی کو ملانے میں اہم کردار ادا کیا تھا، اب شاید بلکہ یقینا چوہدری پرویز الٰہی نے پنجاب میں تحریک انصاف اور ن لیگ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اگر پنجاب میں ن لیگ بھی متفق ہوجاتی تو تحریک انصاف کی حکومت کو پنجاب سے چلتا کرنے میں پیپلزپارٹی، ن لیگ اور ق لیگ کیلئے کوئی مشکل نہ تھی لیکن ن لیگ کی چاہت نہیں تھی اسلئے مولانا فضل الرحمن اور ن لیگ نے پیپلزپارٹی کیساتھ پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت گرانے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ ہم نے حقائق سے پردہ اُٹھانے میں دیر نہیں لگائی اسلئے ن لیگ اور جمعیت والے دبک کر بیٹھ گئے۔ پھر پیپلزپارٹی کی مدد سے ق لیگ نے سینٹ الیکشن کو پنجاب کے اندر بلامقابلہ انتخابات میں نمایاں کردار ادا کیاہے۔ایک اچھی اور جاندار صحافت کے بہت ہی زبردست نتائج نکل سکتے ہیں۔ مریم نواز سے پنجاب کے متفقہ سینٹ پر سوال کیا گیا تو اس نے کہا کہ ”میں اس پر تبصرہ نہ ہی کروں تو اچھاہے”۔ سلوتری کے کردار پر راضی ہوتی توتبصرہ بھی کرتی۔
پیپلزپارٹی سے جس طرح مولانا فضل الرحمن نے تحریکِ عدم اعتماد پر اعداد وشمارمانگ کر پنجاب اور مرکز میں یہ امکان ن لیگ کی وجہ سے مسترد کیا تھا وہ بالکل ہی غلط تھا۔ چوہدری پرویز الٰہی کو بھی مولانا فضل الرحمن نے مریم نواز کی ایماء پر ڈانٹ دیا تھا۔ جس کا چوہدری پرویز الٰہی نے کہا تھا کہ مجھے سمجھ میں نہیں آ رہاہے کہ مولانا مجھ پر کس بات کا غصہ نکال رہے ہیں؟۔
پنجاب اور مرکز میں ق لیگ کیساتھ مل کر ن لیگ کردار ادا کرنے کیلئے آمادہ ہوجائے تو مریم نواز کا کہنا بنتا ہے کہ لانگ مارچ کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اگر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ن لیگ نے وعدہ کیا ہے کہ تحریک انصاف کی مدت پوری ہونے دیگی تو پھر اپوزیشن کا شوشہ چھوڑ کر عوام اور صحافیوں کا وقت بھی ضائع نہ کیا جائے۔ البتہ اگر پی ڈی ایم (PDM) لانگ مارچ کے ذریعے سے حکومت گرانا چاہتی ہے تو بھی اچھی بات ہے۔ نظام میں تبدیلی کیلئے ہل چل کے حق میں ہم بھی ہیں۔ اگر اس ہل چل کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے نوازشریف کی طرح مریم نواز بھی علاج کی غرض سے چھوٹے سے آپریشن کیلئے باہر چلی جائے تو جتنا خرچہ مولانا فضل الرحمن پر کیا گیا ہے وہ بھی وصول ہوجائیگا۔
ہماری چاہت ہے کہ اہم اسلامی معاملات کو اُٹھاکر بحث کا آغاز کیاجائے تاکہ میثاق مدینہ سے یہود کی سازشوں کیلئے زبردست بند باندھا جاسکے۔ اسلامی مزارعت سے سود خوروں اور مفاد پرستوں کے قلع قمع میں بالکل بھی دیر نہیں لگے گی۔

NAWISHTA E DIWAR March Special Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

پارلیمنٹ سے اسلامی زارعت،عدالت، معیشت اور سیاست کا آغاز ہوا چاہتا ہے.

چہرے نہیں اب نظام کی تبدیلی
پارلیمنٹ سے اسلامی زارعت،عدالت،
معیشت اور سیاست کا آغاز ہوا چاہتا ہے

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

پارلیمنٹ میں حکومت اور اپوزیشن ایک متفقہ بل پیش کریں۔ جس پر پاک فوج، عدلیہ ،صحافیوں ، علماء ومفتیان اور دانشوروں کو بھی اعتماد میں لیا جائے ۔
(1) حدیث صحیحہ،امام ابوحنیفہ اور جمہور ائمہ کے نزدیک زمین کو مزارعت ، کرایہ اور کسی بھی طرح کا نفع اٹھانے کیلئے دینے کو ممنوع قرار دیا جائے۔ جب کسانوں کو مفت میں زمین مل جائے گی تو کاشتکار اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے قابل ہونگے۔ ضرورت کی چیز خرید سکیںگے تو ہمارے تاجروں کے کارخانے، فیکٹریاں اور مل چلنا شروع ہوں گے اور بازاروں اور دکانوں میں ریل پیل ہوگی۔ کاروبارِ زندگی رواں دواں ہوگا۔ جب سود حرام ہونیکی آیات نازل ہوئیں تو نبیۖ نے مزارعت کو بھی سود قرار دے دیا۔ مدینہ کی جس ریاست نے دنیا کی سپر طاقت کو شکست دی تھی تو اس کی وجہ کاشتکاروں اور تاجروں کی ہی خوشحالی تھی۔اگر وہ خود بھوکے مرتے یا قرض پر چلتے تو دنیا کو مظالم سے چھٹکارا دلانے میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکتے تھے۔ ملک میں محنت کشوں کی خوشحالی کا راستہ ہموار ہوگا تو پھر ریاست، حکومت اور عوام الناس سب خوشحال ہونگے۔ جاگیردار اپنے لئے مہنگی گاڑی، بیرون ملک سفر اور عیش وعشرت کا سامان کرتا ہے تو ایک طرف کاشتکار بھوکا مرتا ہے تو دوسری طرف مقامی تاجروں کا کاروبار نہیں چلتا ہے۔
(2) ریاست اور حکومت سے عوام الناس کو جن مشکلات کا سامنا ہے یہ ختم کی جائیں۔ ٹریفک اور عام پولیس سے لیکر نچلی سطح سے اعلیٰ عدالت تک لوگوں کو جس غضب سے گزرنا پڑتا ہے اس کا احساس وہی کرسکتا ہے جس کو ان سے واسطہ پڑجائے۔ پیٹ کے چکر میں ریاست کے اہلکار عوام سے وہ سلوک کرتے ہیں جو اپنے جانوروں سے بھی کوئی نہ کرے۔ ہماری چھبیس (26) خفیہ ایجنسیاں ہیں۔ دن دیہاڑے زمینوں، دکانوں اور پلاٹوں پر قبضے ہوجاتے ہیں۔ جعلی کاغذات کے چکر چلائے جاتے ہیں۔ پیسہ اور طاقتور طبقہ کی وجہ سے مظلوم سالوں اپنے حق کیلئے رُلتا ہے مگر اس کو انصاف نہیں ملتا ہے۔ شاکر شجاع آبادی نے کہا کہ اُوپر انصاف کا جھنڈا ، تلے انصاف بکتا ہے ایسی عدالتوں کو بمع عملہ ڈھادو۔
(3) ریاست، حکومت اور سیاسی پارٹیوں نے پرائیوٹ بدمعاش رکھے ہیں۔ظالموں کا خاتمہ کرنے کیلئے پورے معاشرے میں گلوبٹوں کو ہرقیمت پر تاریخی سبق سکھانا ہوگا اور ریاست کے اندر ریاست کا تصور بالکل ختم کرنا ہوگا۔ شریف عوام کے ٹیکس کی رقم سے اور شریف شہری پر بدمعاشوں کو مسلط کرنے والوں کو بھی سخت سے سخت سزا دینی ہوگی۔ البتہ یہ بھی نہیں ہوگا کہ کسی علاقہ میں سکیورٹی فورسز پر حملہ ہو اور عوام حملہ آوروں کو چھپائیں کہ یہ ہمارا کام نہیں ہے۔ ریاست جانے اور اس کا کام جانے۔ خطرناک باغیوں کو پھانسی سے لیکر اصلاحی سینٹروں تک منتقل کرنے کی ایسی قانون سازی کی جائے کہ کوئی خاتون اپنے بے غیرت شوہر، بیٹے اور بھائی کیلئے کبھی احتجاج کرنے پر مجبور نہ ہوجائے۔
(4) آرمی چیف اور دیگر عہدوں میں مدت کی توسیع کا قانون ختم کیا جائے اسلئے کہ پھر پرویز مشرف کی طرح وردی کو کھال قرار دینے والے پاک فوج کے پروفیشنل افسروں کے حقوق معطل کریںگے۔ ایسے نالائق لوگوں کو اعلیٰ عہدوں پر ترقی نہیں دی جائے جو اس اہم عہدے کو سنبھالنے کی صلاحیت سے عاری ہوں۔ اس کی وجہ سے پاک فوج میں بھی بد دلی پھیلتی ہے۔ سینئر جرنیلوں میں سے ٹاس پر نام نکالا جائے تاکہ کسی جرنیل کو منتخب کرنے کا سہرا کسی وزیراعظم یا آرمی چیف وغیرہ کے بھی مرہونِ منت نہ ہو۔
(5) مجرم کی غلط پشت پناہی اور کسی کیساتھ ناجائز کرنے پر وکیل، جج اور پولیس والے کو بھی کڑی سے کڑی سزا دی جائے۔ کسی بھی سرکاری محکمہ میں رشوت پر پھانسی کی سزا مقرر کی جائے۔ ووٹ خریدنے اور بیچنے والی پارٹیوں اور ارکان اسمبلی کو تختہ دار پر لٹکانے سے بھی گریز نہ کیا جائے۔ وردی یا وردی کے نام پر لوگوں کو تنگ کرنے والوں کو چوکوں پر لٹکایا جائے۔ ام المؤمنین اور عام عورت پر بہتان لگانے کی سزا میں کوئی فرق نہیں تھا لیکن اب کرپٹ سیاستدان کی ہتک عزت اور عام آدمی کی سزا میں بہت فرق ہے۔ پاکستان کے آئین کو اسلامی بنانے کیلئے حلالہ کی لعنت میں ملوث علماء نے بھی کوئی کردارادا نہیں کیا ہے اور خواتین کے شرعی، معاشی، معاشرتی ،اخلاقی اور سیاسی حقوق بھی غصب کررکھے ہیں۔ یہ چند نمونے ہیں اور اگر اخلاص کا مظاہرہ ہوا تو ملک کی بچت ہوگی۔

NAWISHTA E DIWAR March Special Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

اللہ نے طالوت کو اسلئے منتخب کیا ہے کہ علم اور جسمانی اہلیت اسکی زیادہ ہے۔

بنی اسرائیل نے پہلے اپنا بادشاہ مانگا جب طالوت کو بنادیا گیا تو کہنے لگے کہ اس کو کیوں بنایا گیا؟،ہم زیادہ حقدار تھے، اسکے پاس مال کی وسعت نہیں، کہا کہ اس کو اللہ نے اسلئے منتخب کیا ہے کہ علم اور جسمانی اہلیت اسکی زیادہ ہے

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

وقال الملک ائتونی بہ استخلصہ لنفسی فلما کلمہ قال انک الیوم لدینا مکین امینOقال اجعلنی علی خزآئن الارض انی حفیظ علیمOیوسف

بادشاہ نے کہا کہ اس کو میرے پاس لاؤ،تاکہ اپنے لئے خاص کروں، جب اُس سے بات کرلی تو کہا کہ آج آپ ہمارے پاس مقیم امین ہیں، کہا کہ مجھے وزیر خزانہ بنادو،نگران عالم ہوں

یوسف علیہ السلام مصر میں غلام اور مظلوم قیدی بن گئے لیکن خواب کی تعبیر اور مظلومیت نے اقتدار تک پہنچنے کا موقع فراہم کیا۔ بنی اسرائیل کی حیثیت اہل مصر کے ہاں ایسی تھی جیسے تختِ لاہور کے مقابلے میں پختون کی ہے۔ انگریز سے پہلے راجہ رنجیت سنگھ کا اقتدار تھا اور اب جمہوری عوام اور فوجی افسران کی وجہ سے پنجاب ہی کا اقتدار ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح وفاطمہ جناح، لیاقت علی خان ،بیگم راعنا لیاقت ،بنگالی سکندر مرزاکی ناہید ایرانی سے لیکر ذولفقارعلی بھٹو،نصرت بھٹو سے ہوتے ہوئے بات عمران خان اور بی بی بشریٰ تک جاپہنچی ہے۔ جنرل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اور پرویزمشرف نے اپنا براہِ راست اقتدار کیا اور پاک فوج نے کٹھ پتلیوں کے ذریعے بھی حکومت کی ہے۔
جنرل راحیل نے کہا تھا کہ وہ ملازمت میں توسیع نہیں لیںگے۔ فوج میں کرپشن پر زبردست ایکشن لیا تھا اور نوازشریف کو کرپشن سے بچانے میں کردار ادا کرنے سے بالکل معذرت کی تھی تو ان پر ملازمت میں توسیع کی بھیک مانگنے کا ناجائز الزام لگادیا گیا۔ جب عدالت میں آرمی چیف کی توسیع کا پنڈورا بکس کھل گیا تو پتہ چل گیا کہ آج تک آرمی چیف کی توسیع کا آئین میں ذکر اور گنجائش تک نہیں ۔ جس شق کے تحت توسیع کا عمل ہوتا تھا تو اس کا تعلق کرائم کے باب سے تھا۔ فوجی کو سزا دینی ہوتی تھی تو ریٹائر منٹ کے بعد اس شق کے تحت بحال کرکے فوجی کورٹ میں سزا دی جاتی تھی۔ جس پر ان صحافیوں کے چہروں سے بھی نقاب اُٹھ گیا جو نوازشریف کو نظریاتی شاہین ثابت کررہے تھے ۔ جس کی زندگی کوئے کے گھونسلے میں گزری ہو تو اس کو شاہین ثابت کرنا شاہین نہیں کوئے کیساتھ بھی بڑی زیادتی ہے۔ نوازشریف کی جھوٹی بیماری کی کہانی کے چرچے ابھی ختم نہیں کہ مریم نواز کو چھوٹے آپریشن کیلئے لندن جانا پڑرہاہے جسکا علاج پاکستان میں نہیں ہوسکتا۔ کالے کوئے کا بچہ سفید ہو تب بھی شاہین نہیں بن سکتا بلکہ کواہی ہوگا۔ وکیل سے زیادہ صحافی آرٹسٹ اپنا کمال رکھتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر بدتمیزی اور گالیوں کی گنجائش ترقی یافتہ ممالک میں نہیں اور فیس بک وغیرہ کے بھی قوانین ہیں۔ جب ن لیگ اور تحریک انصاف کے کارکنوں نے بدتمیزی کی سوشل میڈیا پر انتہاء کردی توچندصحافیوں نے اس پر ایک پروگرام رکھا۔ حامد میر نے کہا کہ انگریزی میں نیٹ کے ذریعے جب اردو اور پنجابی کی گالیوں کا ترجمہ ہوتا ہے تو لفظی ترجمہ کی وجہ سے ان تک بات صحیح پہنچتی نہیں۔ مثلاً علامہ خادم حسین رضوی کی معروف گالی کہ تیری پھینڑ دی سری کا انگریزی کا یہ ترجمہ ہوگا کہ (Your head of sistar) ان کو اس سے گالی کا پتہ نہیں چلتا ہے۔ ویسے یہ مقولہ ہے کہ ”پنجابی گالی کی زبان ہے”۔ اور ہم نے چیچہ وطنی میں انتہائی مخلص اور اچھے انسان صدیق استاذ کی زبان پر گالی کی بہتات دیکھ لی تھی۔ اسکے بجلی کامیٹر لگانے کا کام بھائی ایس ڈی واپڈا نے کیا تھا اور کلرک رکاوٹ ڈال رہاتھا تو اس نے کہا تھا کہ کلرک کے شروع اور آخر میں کتے کے دو کاف ہوتے ہیں اسلئے ڈبل کتے کی خاصیت رکھتا ہے۔ خلوص اورگالیوں کی وجہ سے وہ استاذ طلبہ کیلئے سکول میں ہردلعزیز تھے۔ عمران خان کی زبان پر جب چور، ڈکیت، ڈیزل اور سیاسی رہنماؤں اور پاک فوج کے خلاف ہرقسم کی بے باکی تھی تووہ پنجاب بلکہ پاکستان کے ہردلعزیز لیڈر بن گئے۔ علامہ خادم حسین رضوی نے خلوص کے ساتھ گالیوں کی بوچھاڑ کردی تو ان کا تاریخی جنازہ ہوا۔ گالیوں سے خلوص کی تاثیرِ مسیحائی سرکے بالوں سے پیروں کے ناخن تک پہنچ جاتی ہے اسلئے کہ یہ پاکستان اور خاص طور پر پنجاب کا اب آرٹ ہے۔ کلام کی بلاغت کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ بات صحیح پہنچ جائے۔
الٰہ اور معبود کا ترجمہ ہرزبان ، مذہب اور کلچر میں مختلف ہے۔ عربی میں ال کا اضافہ ہوتا ہے جیسے حمد سے الحمد اور حسین سے الحسین ، الٰہ کے شروع میں ال لگانے سے اللہ بن گیا ہے۔ قرآن میں اللہ نے فرمایا کہ” ہم نے کسی رسول کو نہیں بھیجا مگر اس کی قوم کی زباں سے”۔ جب لوگ خدا خدا کرتے تھے تو اس کی تاثیر مسیحائی رگِ جان میں اترجاتی تھی اور جب خدا پر قدغن لگنا شروع ہوا کہ اللہ ہی اسم ذات ہے تو لوگوں کا تعلق کمزور ہوا۔حالانکہ اگر اللہ اسم ذات ہوتا تو سنکسرت، عبرانی، انگلش ، ہندی اور فارسی میں بھی اللہ ہی ہوتا۔
سات (7)سال سے ستر (70)سال تک باقاعدگی سے نماز پڑھنے والے یہ نہیں سمجھتے کہ اللہ سے کیا مانگتے ہیں؟۔ ہدایت اور صراط مستقیم مانگی جائے تو ضرور مل جائے ۔ نماز پڑھنے والوں کے دل وذہن روشن وکشادہ ہونے کے بجائے تاریک وتنگ اسلئے ہیں کہ مسلسل بہت کچھ مانگنے اور ذکر کرنے کے باوجود بھی طوطوں کی طرح بولتے اور بندر کی طرح حرکت کرتے ہیں۔ اللہ نے سابقہ قوموں کو بندر بنانے کی جو سزا دی تھی اس کی عکاسی ہمارے یہاں بھی دکھائی دیتی ہے۔ جو اخلاقی، معاشی اور معاشرتی لحاظ سے ہماری حالت ہے کسی اور میں نظر نہیں آتی ہے ۔ مولانا عبیداللہ سندھی اور علامہ اقبال کو یورپ میں اسلام نظر آتا تھا کیونکہ مسلمان ہونے کیلئے جانور سے پہلے ایک انسان بننا بھی بہت ضروری ہے۔
اگر پاک فوج اور پاکستان کے اصحاب حل وعقد کسی تجربہ کار ،عالم فاضل ، قربانی اور جہاندیدہ امانتدار پٹھان کو اقتدار سونپ دیں تو سب سے پہلے پٹھان کہیں گے کہ ہمارے اندر مالی لحاظ سے یہ کمزور تھا اس کی جگہ ہمارا حق تھا کہ اقتدار سپرد کردیتے۔ سورۂ بقرہ میں آیت(242)سے(254) تک میں زبردست رہنمائی ہے۔ کوئٹہ سے سوات تک ہمارے چند پختون ساتھی ہیںجن کا طالوت کے ایماندارساتھیوں کی طرح ایمان ہے کہ کم من فئة قلیلة غلبت فئة کثیرة باذن اللہ ” کتنے ایسے کم تعداد والے گروہ ہیں جو زیادہ تعداد والے گروہ پر اللہ کے حکم سے غالب آئے ہیں۔ اگر حجاز کے لوگ انصار ومہاجرین ، قریش واہلبیت کی بنیاد پر اختلافات اور بنی امیہ وبنی عباس کے خاندانی قبضے کے باوجود بھی دنیا میں اپنی طاقت منواسکتے تھے تو آج پاکستانی قوم اسلام اور عالم اسلام کی بنیاد پر کامیابی سے ہم کنار کیوں نہیں ہوسکتی ؟خالی ایمان اور کردار درست کرنیکی ضرورت ہے۔

NAWISHTA E DIWAR March Special Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

پاکستان میں پٹھان پنجابی،بلوچ اورسندھی میں کس کو اقتدار دیا جائے تو تبدیلی آئیگی؟؟

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

الم ترالی الذین خرجوا من دیارھم وھم اُلوف حذر الموت فقال لھم اللہ موتوا ثم احیاھم ان اللہ لذوفضل علی الناس ولٰکن اکثر الناس لایشکرونO(القراٰن:سورة البقرہ آیت243)

کیا آپنے ان لوگوں (بنی اسرائیل کے قبائل )کے حالات پر غور نہیں کیا،جن کو اپنے مُلک سے مہاجر بناکر نکالا گیااور وہ ہزاروں میں تھے، موت سے بچنے کا خوف ان پر طاری کیا گیا ۔

پھراللہ نے ان سے کہا کہ مرجاؤ!۔ پھر اللہ نے ان کو زندگی بخش دی ، بیشک اللہ لوگوں پر اپنا فضل کرتا ہے مگر لوگوں میں اکثرشکر ادا نہیں کرتے ہیں۔ ( پختون قبائل کی بڑی عکاسی ہے)

پاکستان بنا تو ہندوستان سے ہجرت کرنے والے مہاجرین اور فوج میں پنجابیوں کی اکثریت کی وجہ سے سول وملٹری بیوروکریسی نے پاکستان پر حکومت کی۔ پھر ذوالفقار علی بھٹو نے مہاجر پنجابی اتحاد ختم کرکے سندھی پنجابی اقتدار کا آغاز کیا اور بنگلہ دیش میں اکثریتی پارٹی جیتنے کے باجود بھی مجیب الرحمن کو اقتدار منتقل کرنے میں دیر کردی اور اِدھر ہم اُدھر تم کا نعرہ لگاکر مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے جدا کردیا اور پھر ذوالفقار علی بھٹو نے سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے اقتدار سنبھالا اور پھر جب دھاندلی کا حربہ استعمال کیا اسکے خلاف قومی اتحاد کے نام پر تحریک نظام مصطفی ۖچلی ۔ ڈیڈی جنرل ایوب خان کی گود کے بھٹو پر اتنے اثرات تھے کہ لاڑکانہ میں اپنے مخالف امیدوار کو کمشنر خالد کھرل کے ذریعے اغواء کرکے کاغذات نامزدگی بھی داخل نہیں کرانے دئیے ۔
پھر اپوزیشن کو جسکے قائد عبدالولی خان تھے، حیدر آباد جیل میں بند کردیا تھا۔ پختون، بلوچ، سندھی اور پنجابی سیاسی قائدین ، رہنماؤںاور کارکنوں پر بغاوت کا مقدمہ چل رہاتھا۔جب اپوزیشن لیڈر ولی خان سے کہا گیا کہ آپ کیلئے جیل میں کمرہ سجادیا گیا ہے اور یہاں سے آپ نے پھانسی کے پھندے پر لٹک جانا ہے تو ولی خان نے کہا تھا کہ یہ کمرہ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی جیل کاٹنے کیلئے تیار کیا ہے۔ پھر وقت آگیا کہ مارشل لاء لگ گیا اور بھٹو نے اسی کمرے میں ہی اپنی جیل کاٹی۔ بلاول بھٹو زرداری کو معلوم نہیں ہوگا کہ جب بلوچستان کی جمہوری حکومت ختم کرکے وزیراعلیٰ عطاء اللہ مینگل کی جگہ اکبربگٹی کو گورنر بنایا گیا تو جب عطاء اللہ مینگل کے بیٹے کو اغواء کرکے ماردیا گیا تھا تو اس وقت اس کا نانا ذوالفقار علی بھٹو ایک طاقتور اورتاریخی مگر کٹھ پتلی وزیراعظم تھا۔ جو دھاندلی سے اپنی کرسی پر بیٹھا تھا اور اپنے وقت کے بدترین ڈکٹیٹروں سے بڑاکٹھ پتلی ڈکٹیٹر تھا۔
جنرل ضیاء الحق نے جب اقتدار پر قبضہ کیا تو بیوقوف جیالوں کو چھوڑ کر پیپلزپارٹی کی ساری سیاسی لیڈر شپ ممتاز بھٹوسے غلام مصطفی کھراور مولانا کوثر نیازی تک نہر میں ڈوبتی ہوئی کشتی کو دیکھ کر کنارے پر بھاگ گئی۔مولانا نے”اور لائن کٹ گئی” کتاب لکھ دی تھی۔ کھر نے خواتین سے نکاح اور چھوڑ نے کا سلسلہ جاری رکھا اسلئے کہ اداکارہ ممتاز کو بھٹو نے زبردستی سے نچوانے کیلئے لاڑکانہ بلوایا تھا۔ جس پر حبیب جالب نے ” لاڑکانہ چلو ورنہ تھانہ چلو” مشہور غزل لکھی تھی۔ صحبت صالح ترا صالح کند صحبت طالع ترا طالع کند۔ جب طالع آزما بھٹو کی دوستی کرلی تھی تو عورتوں کے معاملے میں طالع آزما بننا ہی تھا۔
جنرل ضیاء الحق نے افغان جہاد اورمہاجرین کے نام اپنے ملک وقوم کو خوب پالا تھا لیکن دیکھنا یہ ہے کہ گمنام ہیرو آئی ایس آئی کے جنرل اختر عبدالرحمان کے صاحبزادوں کے گھر سے کتنی دولت برآمد ہوئی ہے لیکن مجاہد ایک بیٹا بھی نہیں بنا ہے۔ پٹھان کہتے تھے کہ جب اختر عبدالرحمن نے ہندوستان سے ہجرت کی تھی توگدھا گاڑی پر آئے تھے اب اتنی دولت کہاں سے آئی ہے؟۔ جنرل ضیاء الحق نے مجلس شوریٰ بناکرا رکان کو پانچ پانچ کروڑ دئیے تھے۔ نجم سیٹھی کے رشتہ دار نے مجلس شوریٰ کی رکنیت سے فائدہ اٹھایا تو بیرون ملک سے دودھ پیک کرکے بیچنے کی کمپنی متعارف کروائی۔ چیچہ وطنی ضلع ساہیوال کی مال منڈی میں ہر مہینے آٹھ دس دن ڈیڑھ روپے کلو والا دودھ چارآنہ میں ملتا تھا اور لوگ منوں دودھ خریدتے تھے۔ لاہور سے اوکاڑہ ، ساہیوال اور چیچہ وطنی راوی کے کنارے صحت مند دودھ کم قیمت پر ملتا تھا۔ گورنمنٹ ہائی سکول چیچہ وطنی میں تقریری مقابلہ ہوا تو ” عقل وڈی کے منجھ ” میں منجھ وڈی والے نے مقابلہ جیتا تھا۔ میں اسی سکول میں تھا ۔ بھٹو کو اسی دور میں پھانسی دی گئی تھی۔مقرر نے کہا تھا کہ عقل انسان میں خوف پیدا کرتی ہے، عقل ہوتی تو (1971ئ) کی فوج نے ملک کا دفاع کرنے کے بجائے ہتھیار ڈال دینے تھے (1965ئ) کی جنگ ہم نے عقل سے نہیں بھینسوں کا دودھ پینے کی وجہ سے جیت لی تھی۔
نجم سیٹھی ہوسکتا ہے کہ اپنے نام رشتہ دار کے اثاثوں کی وجہ سے بھی نوازشریف اور دیگر سیاستدانوں سے کئی لاکھ گنا زیادہ ٹیکس جمع کراتے ہوں۔ پہلے نیب کا خوف نہ ہونے کے باوجود بھی لوگ سرکار سے لوٹے ہوئے مال اور املاک کو چھپاتے تھے۔ نجم سیٹھی کے رشتہ دار نے نیسلے کے جوس کی پارٹنر شپ اورتعلیمی ادارے وغیرہ کے مالک جس نے کافی رشتہ داروں کو روزگار دلایا ہے جس کی جتنی تعریف نجم سیٹھی کی بیگم جگنو محسن نے کی ہے اس سے زیادہ کی جگنو محسن خود مستحق اور زبردست سیاستدان ، ادیب اور صحافی ہیں۔
جنرل ضیاء الحق کی شوریٰ کے ارکان سے غلطی منوانا اور جنرل ضیاء کے شوربے نواز شریف کی مداح ہونا بھی سیاست کا کمال ہوسکتا ہے اور ضرورت اور مجبوری بھی ہوسکتی ہے لیکن نظریہ کی سیاست عنقاء بن گئی ہے یاکہیے کہ ڈائناسور کی طرح ناپید ہے۔ البتہ کسی کی تعریف کے گن گانا یا تعریف سے گھبرانا یا مخالف کے پیچھے پڑجانا یا مخالفت سے گھبرانا بھی چھوٹی ذہنیت اور خاندانی پسماندگی کی علامت ہے جس سے جگنو محسن بالاتر ہیں۔مجھے ان کے نظرئیے اور کردار کا کچھ پتہ نہیں لیکن دبنگ باتوں سے قدکاٹھ بڑا لگتا ہے۔
جب ایم آرڈی کے رہنماؤں نے (1988ئ) کے الیکشن میں حصہ لیا تھا تو قائدین کے مقابلے میں پارٹیوں نے اپنے امیدوار کھڑے نہیں کئے۔ البتہ ڈاکٹر خالد محمود سومرو نے معاہدے کی خلاف ورزی کرکے بینظیر بھٹو کے مقابلے میں الیکشن لڑا تھا۔ تحریک عدم اعتماد میں پیپلزپارٹی نے سوات اور ن لیگ نے چھانگا مانگا کو اپنی مویشی منڈی بنایا تھا مگر جمعیت علماء اسلام ف کے ارکان خریدوفروخت سے بے نیاز آزاد گھوم رہے تھے۔ عمران خان کی خاتون اول بشریٰ بی بی کا سسر غلام محمد مانیکا بھی اس وقت مسلم لیگ ن سے بکاتھا۔ مولانا فضل الرحمن نے صدر قذافی کی طرف سے یونیورسٹی کو ملنے والی رقم بھی مسترد کرکے اس دور میں تحریک عدم اعتماد کی شمولیت سے پیچھے ہٹنے کی بات قبول نہیں کی تھی۔ پھر جب ولی خان کو مولانا حسن جان کے ذریعے ہروایا تھا تو جمعیت کے نظریاتی لوگ مولانا فضل الرحمن کو برا بھلا کہہ رہے تھے اسلئے کہ مفتی محمود وزیراعلیٰ مفتی ولی بھائی بھائی سے بنے تھے۔
بینظیر بھٹو کو شہید کیا گیا تو پیپلزپارٹی کو صلے میں اقتدار مل گیا، زرداری صدرمملکت اور یوسف رضا گیلانی سرائیکی اور راجہ پرویز اشرف پوٹھوہاری وزیراعظم بن گئے۔ نواز شریف کو ٹبر کیساتھ جلاوطن کیا گیا تو اس کو پھر تخت لاہور کے ذریعے پاکستان کا اقتدار مل گیا اور پھر عمران خان کو اقتدار ملا لیکن وہ نیازی پٹھان ہونے کے باجود نیازی کہنے پر بھی خار کھاتا ہے۔ پختونوں کو بڑے پیمانے پر شہید کیا گیا اور بڑے پیمانے پر بے گھر کیا گیا مگر ان میں کسی کو اقتدار میں نہیںلایا گیا ہے اسلئے اس مرتبہ اقتدار کا حق کسی پختون کا بنتا ہے۔کوئی نیک سیرت اور باصلاحیت اچھا بیوروکریٹ بھی پاکستان میں اچھی تبدیلی لاسکتا ہے۔

NAWISHTA E DIWAR March Special Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat