پوسٹ تلاش کریں

دعوت اسلامی اور تبلیغی جماعت میں کون رشید؟

tablighi-jamaat-dawat-e-islami-sabz-gumbad-molana-ubaidullah-sindhi-muttahida-majlis-e-amal-haji-muhammad-usman-talaq-in-quran

دار العلوم دیوبند کے اکابر نے پہلے فتویٰ دیا تھا کہ ’’لاؤڈ اسپیکر پر نماز و اذان نہیں ہوتی ہے‘‘۔ جس پر آج تک تبلیغی جماعت کے مراکز عمل پیراہیں۔ علماء کی طرف سے آہستہ آہستہ کھسک کھسک کر فتوے سے غیر اعلانیہ رجوع کیا گیا ۔ پہلے اس کو حرام قرار دیا گیا تھا، پھر مکروہ تحریمی قرار دیا گیا ، پھر مکرہ تنزیہی تک بات پہنچی اور پھر خلاف اولیٰ تک بات آئی۔ جس کی تبلیغی جماعت کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہوئی۔ علماء و مفتیان اعلانیہ طور پر اپنی غلطی تسلیم کرتے تو تبلیغی جماعت نے بھی کوئی افیون نہیں کھایا تھا کہ اس صورتحال سے نکل نہ پاتے۔ تصویر پر علماء و مفتیان کا رویہ بھی قابل قدر انداز میں نہیں بدلا۔ پہلے علامہ سید سلیمان ندویؒ اور آزادؒ کو رجوع کرنے پر مجبور کیا گیا ، پھر ہوش آیا تو تجارت اور سفر کیلئے اجازت دی گئی ۔
اب صورتحال واضح طور پر ہماری کتاب ’’جوہری دھماکہ‘‘ سے بدل گئی تو پھر مولانا طارق جمیل نے بھی میڈیا پر آنا شروع کردیا۔ ہونا یہ چاہئے تھا کہ امیر تبلیغی جماعت حاجی عبد الوہاب صاحب بھی میڈیا کی زینت بنتے۔ دعوت اسلامی کے مولانا الیاس قادری انتہائی سیدھے سادے اور علم سے عاری انسان لگتے ہیں مگر جب ان کو تصویر کے بارے میں معلومات حاصل ہوئیں تو فوراً میڈیا پر آگئے اور اب ان کو پتہ چل گیا کہ احادیث میں سنت عمامہ سیاہ اور سفید رنگ کا بھی ہے تو وہ اپنی شناخت پر بضد رہنے کے بجائے تبدیل کرنے کے عملی مظاہرے پر آگئے۔
اہل تصوف کا یہ کمال ہوتا ہے کہ وہ دل کو شیشے کی طرح صاف کردیتے ہیں۔ جب کوئی حق بات ان کے سامنے آتی ہے تو اس کو فوری طور پر قبول کرلیتے ہیں۔ اہل کتاب میں یہود اہل علم تھے اور نصاریٰ اصحاف تصوف اور رہبانیت والے۔ قرآن میں یہود کے مقابلے میں نصاریٰ کو اسی لئے مسلمانوں کیلئے نرم گوشے والا قرار دیا گیا ہے۔ مولانا عبید اللہ سندھیؒ حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ کے مشن پر تھے اور درس نظامی کو خیر باد کہہ کر اُمت مسلمہ کو قرآن کی طرف متوجہ کرنا چاہتے تھے۔ مولانا سندھیؒ نے سورہ فاتحہ کے ترجمے کی تفسیر میں لکھ دیا ہے کہ جن پر اللہ کا غضب تھا وہ یہود تھے جن کے پاس علم تھا مگر عمل سے محروم تھے اور گمراہ سے مراد نصاریٰ تھے جن کے پاس علم نہیں تھا مگر عملی طور سے وہ گمراہی کا شکار تھے۔ حضرت سندھیؒ بریلوی مکتبہ فکر کو نصاریٰ کی طرح گمراہ اور دیوبندیوں کو یہود کی طرح وہ سمجھتے تھے جن پر اللہ کا غضب ہے۔ جو سمجھ بوجھ کے باوجود بھی قرآن کی طرف رجوع کرنے پر آمادہ نہیں ہورہے تھے۔ آج طلاق سے حلالہ کے بغیر رجوع کا مسئلہ ہے اور دیکھتے ہیں کہ حضرت مولانا سندھیؒ کی بات درست تھی یا نہیں؟۔
اگر تبلیغی جماعت کے دل اپنی جماعت کی محنت سے صاف ستھرے ثابت ہوئے اور انہوں نے پہلے قرآن کی آیات پر عمل کرکے حلالہ کے غیر فطری فعل کو ناجائز قرار دیا تو مولانا سندھیؒ کی بات غلط ثابت ہوگی اور اگر دعوت اسلامی نے قرآنی آیات کی طرف رجوع کرکے حلالہ کی لعنت کو ناجائز قرار دیا اور رجوع کی گنجائش قرآنی آیات کے مطابق عدت کے حوالے سے مان لی تو مولانا سندھیؒ کی بات ہو بہو 100%درست ثابت ہوگی۔ دعوت اسلامی اور تبلیغی جماعت کی منظم جماعتیں اتحاد و اتفاق اور وحدت کی منزل طے کرنے میں بہت آسانی کے ساتھ اُمت کی کشتی کو درست راستے پر گامزن کرسکتی ہیں۔
ہم نے سب سے پہلے جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ میں حاضری دی اور ایک خٹک صاحب کو اپنی کتابیں بھی دے دیں۔ مگر افسوس کہ خٹک صاحب نے فون اٹینڈ کرنا بھی گوارا نہیں کیا۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئر مین مولانا محمد خان شیرانی کے سامنے بھی بار بار طلاق و حلالہ کے حوالے سے گزارشات رکھیں مگر معاملہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ متحدہ مجلس عمل کی پہلی تشکیل بھی ہماری محنتوں سے ممکن ہوسکی تھی ورنہ کسی میں مختلف فرقوں کے درمیان اتحاد و اتفاق کی جرأت بھی نہیں تھی۔ متحدہ مجلس عمل نے اگر اسلامی احکامات کے حوالے سے علماء و مفتیان کو اکھٹا کیا اور ان کی درست سرپرستی کی تو اسلامی انقلاب کا اچھے انداز میں آغاز ہوگا اور اگر مذہب کے نام پر سیاست اور مفادات کے چکر رہے تو سب کیلئے رسوائی کا خدشہ ہے۔ مولانا فضل الرحمن ذاتی طور سے مجھے جانتے ہیں اور جب ان پر کفر کا فتویٰ ایم آر ڈی کی وجہ سے لگا تھا تو اس کا دفاع میرے اشعار سے ہی ہوا تھا۔
جب علماء و مفتیان نے ہمارے مرشد حضرت حاجی محمد عثمانؒ پر انتہائی غلط اور گمراہ کن فتوے لگائے اور پھر ہمارے پاس بدلا لینے کا موقع بھی تھا اور مولانا فضل الرحمن نے بدلا لینے کی تلقین بھی کی تھی تب بھی ہم نے بدلا نہیں لیا پھر جب علماء و مفتیان نے حاجی عثمان صاحبؒ کے عقیدتمندوں کا اپنے عقیدتمندوں سے بھی نکاح کرنے کو ناجائز ، عمر بھر کی حرامکاری اور اولاد الزنا قرار دیا تب بھی ہمارا دامن انتہاء پسندی اور شدت پسندی سے داغدار نہیں ہوا۔ درشت لہجے میں بات تک نہیں کی البتہ مدارس کی مساجد میں جاکر فتوؤں کو چیلنج کیا ۔ اب جب حلالے کی ناجائز صورتحال پر وہ اپنے عقیدتمندوں کی عزتوں کو لوٹ رہے ہیں تو پھر لہجہ سخت سے سخت ہوتا جارہا ہے۔ اس کی ضرورت نہ رہے تو بہت اچھا رہے گا۔
مقتدر طبقات جس طرح سے پارلیمنٹ لاجز سے غریب بچیوں کی عزتوں کو لوٹنے والوں تک سب کو نظر میں رکھتے ہیں اسی طرح سے حلالہ کی لعنت کسی طرح بھی دوسرے جرائم سے کم نہیں ہے۔ جب اسلام کے نام پر اتنا بڑا فراڈ ہورہا ہے تو ہم قیامت میں اللہ کو کیا منہ دکھائیں گے؟۔ ہم بار بار لکھ چکے ہیں کہ قرآن میں بار بار یہ وضاحت موجود ہے کہ طلاق کے بعد باہمی رضامندی سے عدت میں رجوع ہوسکتا ہے ، عدت کی تکمیل پر بھی رجوع ہوسکتا ہے اور عدت کے عرصہ بعد بھی رجوع ہوسکتا ہے۔ صرف اس صورت میں دوسری جگہ شادی کا ذکر ہے جب میاں بیوی اور معاشرہ دونوں کو الگ کرنے پر باہوش و حواس مصرہو۔ جس کی بھر پور وضاحت قرآن کی آیات 229، 230البقرہ میں موجود ہے۔ یہ وہ صورت ہے کہ جب مسئلہ یہ نہیں رہتا کہ رجوع ہوسکتا ہے کہ نہیں بلکہ دونوں جدا ہونے پر بضد ہوں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عورت اپنی مرضی سے دوسری جگہ شادی کرسکتی ہے یا نہیں؟۔ شوہر عام طور سے حلالہ تو کرواتا ہے مگر اپنی مرضی سے طلاق کے بعد شادی نہیں کرنے دیتا۔ اس فطری مسئلے کو اللہ تعالیٰ نے حل کیا ہے۔ ایک ہی حدیث میں یہ ذکر ہے کہ نبی ﷺ نے رفاعہ القرظیؓ سے مرحلہ وار تین طلاقوں کے بعد جب عبد الرحمن القرظیؓ سے شادی ہوئی اور انہوں نے ایک دوسرے کو میاں بیوی کی طرح دیکھ بھی لیا جس میں یہ بھی ضروری نہیں تھا کہ پہلا شوہر دوبارہ بھی شادی پر راضی ہوگا اور اس میں بھی حلالہ کروانے کا کوئی تصور نہیں بنتا ہے۔ عتیق

دہشتگردی کا خاتمہ خلافت کے قیام سے ممکن ہے

dehshat-gardi-misaq-e-madina-mufti-rafi-usmani-zina-bil-jabr-daish-khilafat-daily-jang-newspaper

جب امریکہ نے پہلی مرتبہ اُسامہ بن لادن پر کروز میزائلوں سے حملہ کیا اور اس میں ڈیڑھ سو کے قریب پاکستانی بھی شہید ہوگئے تو اس وقت ہم نے اپنے ہی اخبار ماہنامہ ضرب حق کراچی میں اس کی شدید الفاظ میں مذمت اور سازش کو بے نقاب کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم نہیں دیتا ، اسلام خلافت کے قیام کے بعد اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتا ہے ، پھر جزیہ کا مطالبہ کرتا ہے اور اسکے بعد جہاد کا مسئلہ آتا ہے۔ جب مدینہ منورہ میں خلافت کا قیام عمل میں آیا تھا تو میثاق مدینہ میں یہود بھی شامل تھے اور نصاریٰ بھی۔ منافق بھی اپنے سردار عبد اللہ ابن اُبی کی صورت میں موجود تھے۔ نبوت کا دعویٰ کرنے والا ابن صائد بھی مدینہ منورہ کی گلیوں میں کھلے عام بلا خوف و خطر گھومتا تھا۔
دہشت گردی کی بنیاد انتہا پسندی ہے ، انتہا پسندی انسان کی ذہنیت و فطرت سے ایک مخصوص ماحول کے نتیجے میں پروان چڑھتی ہے۔ جانور اور پرندوں میں بھی یہ غیرت ہوتی ہے کہ اپنی مادی کیساتھ کسی کو قابل اعتراض حالت میں دیکھ کر دہشت گردی پر اتر آتے ہیں۔ انسان کیلئے برداشت کی اس سے بڑھ کر کوئی بات نہیں ہوسکتی کہ اپنی زوجہ کو کسی دوسرے کے ساتھ کھلی ہوئی فحاشی کی صورت میں دیکھ لے۔ قرآن نے کھلی ہوئی فحاشی پر بیوی کو گھر سے نکالنے اور نکلنے کا مسئلہ واضح کیا ہے۔ اور عدالت میں لعان کی صورت پیش کرکے مقدمہ دائر کرنے کی تلقین کی ہے۔ انصار کے سردار حضرت سعد بن عبادہؓ سے لیکر موجودہ دور تک ہم قرآن کی ان آیات کو عملی طور پر قبول کرنے سے گریزاں رہے ہیں۔ بد قسمتی سے جو لوگ قرآن کی واضح آیات کو بھی قابل عمل سمجھنے سے انکاری رہے ہیں وہ اپنی بیگمات حلالہ کیلئے بہت ہی بے غیرتی کے ساتھ خود ہی پیش کردیتے ہیں۔
جس دن قرآن کریم کی آیات کو توجہ سے پڑھنے کی کوشش کی اور معاشرے کی جان حلالے کی لعنت سے قرآن و سنت کے مطابق چھڑائی تو بہت معاملات حل ہوجائیں گے۔ عالم انسانیت کے سامنے مسلمانوں کا قرآن کیخلاف بالکل غیر فطری رویہ قطعاً قابل قبول نہیں ہے۔ صحابہ کرامؓ کی اکثریت نے اپنے خلاف گواہی دیکر اپنے اوپر حد جاری کروائی لیکن شدت پسندوں نے خود پر حد جاری کرنے کے بجائے دوسروں پر خودکش حملوں سے اسلام کو بدنام کردیا۔ مفتی اعظم مفتی محمد رفیع عثمانی سے میڈیا نے رجوع بھی کیا تھا لیکن خود کش حملوں کو حرام نہیں قرار دیا۔ آج علماء و مفتیان کا معاشرے میں بہت بڑا مقام ہوتا جب دہشتگردی کیخلاف ریاست کی طرف سے دُم اٹھانے سے پہلے یہ خود ہی مخلص نوجوانوں کو اسلام کا حقیقی آئینہ دکھادیتے۔ قرآن و سنت میں شرعی حدود کی وضاحت بالکل واضح طور پر موجود ہے۔ سورہ نور میں زنا کی حد 100کوڑے اور بہتان کی حد 80کوڑے واضح کئے گئے ہیں۔ سورہ نساء میں شادی شدہ لونڈی کی حد آدھی اور دوسری جگہ نبی ﷺ کی ازواج پر کھلی فحاشی کیلئے دوگنی ذکر کی گئی ہے، سورہ احزاب میں زنا بالجبر کی حد قتل اور حدیث میں سنگساری ہے۔ جس میں گواہ ضروری نہیں۔
رسول اللہ ﷺ نابینا صحابی عبد اللہ ابن مکتومؓ کی آمد پر چیں بہ جبیں ہوئے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہ نازل ہوئی اور نبی ﷺ فرماتے تھے کہ مجھے اس کی وجہ سے ڈانٹ پڑی ہے۔ ایک شخص کو رسول اللہ ﷺ کی دعا سے بڑی دولت ملی تو اس نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا۔ نبی ﷺ نے اس کیخلاف کوئی جہاد نہیں کیا۔ رسول اللہ ﷺ کے بعد وحی کا سلسلہ بند ہوا ، حضرت ابوبکرؓ خلیفہ اول نے زکوٰۃ نہ دینے پر قتال کا حکم جاری کیا تو پہلے حضرت عمرؓ نے اختلاف کیامگر پھر ساتھ دیا۔ اہل سنت کے چاروں امام حضرت امام ابو حنیفہؒ ، حضرت امام مالکؒ ، حضرت امام شافعیؒ اور حضرت امام احمد بن حنبلؒ نے حکمران کی طرف سے زکوٰۃ زبردستی لینے اور اس پر قتال کرنے کو شرعاً ناجائز قرار دیا تھا۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے مالک بن نویرہ کو قتل کرکے اس کی خوبصورت بیگم سے عدت میں ہی زبردستی شادی کرلی تو حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکرؓ کو مشورہ دیا کہ حضرت خالدؓ کو اس جرم میں سنگسار کیا جائے۔ لیکن حضرت ابوبکرؓ نے تنبیہ پر اکتفاء کیا کہ ہمیں خالدؓ کی ضرورت ہے۔
حضرت عمرؓ کے دور میں بصرہ کے گورنر حضرت مغیرہ ابن شعبہؓ کیخلاف زنا کی گواہی آئی۔ سنگسار کرنے کی روایت قرآن کی آیات سے منسوخ ہوچکی تھیں مگر اللہ کے اوامر میں سب سے زیادہ سخت حضرت عمرؓ کے دل و دماغ میں سنگساری کا سودا سمایا ہوا تھا۔ حضرت مغیرہؓ کی آزمائش نے اس غیر فطری سزا کو ہمیشہ کیلئے دفن کردیا۔ چار اماموں میں سے دو اماموں نے بے نمازی کو واجب القتل اور دیگر دو نے زدو کوب اور قید و بند کی سزا کا مسلک ایجاد کیا۔ یوں اسلام بتدریج اجنبی بنتا چلا گیا۔ خلافت کا قیام اگر مغرب کے کینیڈا میں بھی کسی علاقے میں قائم ہو تو پوری دنیا اسلامی نظام خلافت کی دلدادہ ہوجائے گی۔
ہم نے 1984میں جمعیت اعلاء کلمۃ الحق کے نام سے وزیرستان کے طلبہ کی ایک تنظیم بنائی تھی اور پھر 1991میں وزیرستان سے خلافت کے آغاز کیلئے روزنامہ جنگ کراچی ، لاہوراور کوئٹہ یا راولپنڈی میں ایک اشتہار بھی دیا تھا۔ کسی ایک ایڈیشن میں شائع نہیں ہوا تھا۔ پورے پاکستان سے تمام مکاتب فکر کے اہم اور بڑے علماء کرام نے تحریری شکل میں ہماری باربار تائید فرمائی ہے۔ یہ زبردستی اور جبر کا معاملہ نہیں ہے۔ القاعدہ سے نکلنے والے داعش نے اپنی خلافت کا قیام عالم اسلام کیلئے شروع نہیں کیا بلکہ دولت اسلامیہ عراق و شام کے نام سے ایک ریاست کے قیام کا آغاز کیا۔ جس پر القاعدہ سے ان کے اختلافات ہوئے۔
مدینہ میں خلافت کے قیام کیلئے کسی طور سے رسول اللہ ﷺ نے دہشتگردی کا کبھی تصور بھی نہیں دیا۔ القاعدہ سے نکلنے والے داعش اور طالبان کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عالمی اسلامی خلافت کے قیام کیلئے احادیث صحیحہ میں جو پیش گوئیاں کی گئی ہیں اس میں یہ بشارت بھی ہے کہ آسمان اور زمین والے دونوں کے دونوں اس سے خوش ہوں گے۔ یہ بھی یاد رہے کہ پیش گوئی میں مشرق سے اٹھنے والی جماعت کا بھی ذکر ہے اور مغرب میں خلافت قائم کرنے والی جماعت کا بھی ذکر ہے۔ طلاق و نکاح کے مسائل علماء و فقہاء نے جس طرح سے بہت غلط انداز میں الجھادئیے ہیں اگر ان کو سلجھادیا جائے تو بھی اسلامی انقلاب کیلئے کافی ہیں۔ مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام اور مفتیان عظام ہماری طرف سے تحریر کردہ کتابوں سے متفق ہیں یا خاموش ہیں اور خاموشی بھی نیم رضامندی ہے جو ہماری خوش بختی ہے۔ جب اکابر علماء و مفتیان طلاق سے رجوع پر قرآن کی واضح آیات کو سمجھ کر لوگوں کو فتویٰ دینا شروع کرینگے تو ہمارا لہجہ شیریں ہوگا۔

یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے

ashraf-ghani-tota-mashal-khan-mansoora-lahore-jamiat-ulama-islam-bacha-khan-university-molana-sirajuddin-azan-e-inqalab

آل پختون جرگے کی طرف سے اسلام آباد میں جو خفیہ نعرے لگانے والے تھے جس کی تشہیر زیادہ تر سوشل میڈیا پر ہوئی اور جس کی وجہ سے الیکٹرانک میڈیا نے اس عظیم الشان دھرنے کو دکھانے سے یکسر گریز کیا۔ عوام کے دلوں میں نعرہ یہ تھا کہ ’’یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے مُلا گردی ہے‘‘ لیکن ایم این اے مولانا جمال الدین محسود اور سینیٹر مولانا صالح شاہ کے علاوہ جمعیت علماء اسلام کی نمائندگی کے خوف سے یہ نعرے عوام کے دل ہی دل میں رہ گئے تھے۔
یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے
یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے مُلا کی کارکردگی ہے
یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے اہل سیاست کی نامردی ہے
یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے قبائلیوں کی ہمدردی ہے
یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے پختونوں کی سردردی ہے
یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے احکام السلطانیہ الماوردی ہے
اگر ہم دہشت گردی کے پیچھے صرف پاکستان کی افواج کا نام لیں تو بڑی زیادتی ہوگی۔ ایک تاجر چین جارہا تھا اور اپنے بچوں سے ان کی خواہشات کا پوچھا ، سب نے اپنی اپنی خواہش بتائی کہ چین سے میرے لئے یہ لانا۔ طوطا بھی بیٹھا دیکھ رہا تھا تو تاجر نے طوطے سے بھی پوچھا ، طوطے نے کہا مجھے کچھ نہیں چاہیے، صرف چین کے طوطوں کو یہ پیغام دے دینا کہ تم آزادفضاؤں میں گھوم رہے ہو اور تمہارا ایک طوطاساتھی پنجرے کی سلاخوں میں بند ہے۔
الحبس لیس مذہبی و ان یکن من ذہبی
پنجرہ میرے لئے قابل قبول نہیں ہے اگرچہ وہ سونے کا بنا ہوا ہو۔ یہ شعر ایک پرندے کی فریاد کے طور پر عربی میں بنائی ہوئی نظم میں موجود ہے۔ تاجر نے اپنے بچوں کی خواہشات کے مطابق سب کیلئے الگ الگ چیزیں لیں۔ درختوں پر بیٹھے طوطوں کو دیکھ کر اپنے طوطے کی خواہش بھی یاد آئی۔ طوطے کو پیغام دیا تو ایک طوطا تڑپ کر نیچے گر پڑا ۔ تاجر کو بہت افسوس ہوا ۔ پھر طوطے کو سارا قصہ واپسی پر سنادیا۔ تاجر کا طوطا بھی غش کھاکر کلٹی ہوگیا۔ تاجر نے بہت افسوس کے ساتھ الٹ پھیر کر دیکھا اور پھر گندگی کے ڈھیر پر پھینک دیا۔ طوطا خود کو آزاد پاکر اُڑ کر سامنے والے درخت پر بیٹھ گیا۔ تاجر نے منت سماجت کی کہ واپس آجا لیکن طوطے نے بتایا کہ مجھے چین کے طوطے نے اپنے پیغام میں آزادی کا طریقہ سکھایا۔ کاش ! پختون دھرنے میں لگنے والا نعرہ اشرف غنی تک بھی پہنچے اور وہ امریکی وردی کیخلاف نعرہ لگا کر آزادی حاصل کرلے۔
مشعال خان کے قتل سے بری ہونے والے ملزموں کا استقبال پٹھانوں نے بہت اہتمام کے ساتھ کیا جس میں جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام کے مقامی رہنما شامل تھے۔ جبکہ جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ نے مذمت کرتے ہوئے اپنے مقامی رہنماؤں کو سخت تنبیہ کردی۔ مشعال خان کی بے گناہی کے باوجود جو لوگ اس میں ملوث ہونے سے انکاری تھے تو وہ غازی کیسے بن گئے؟۔ اسکے پیچھے تو کوئی وردی نہیں تھی؟۔ سراج الحق اور مولانا فضل الرحمن کے اندر اگر ایمانی غیرت اور انسانی فطرت ہو تو بیگناہ مشعال خان کے گھر جاکر اعلان کردیں کہ بیگناہ مشعال خان کے والدین ، بہن بھائی ، رشتہ دار اور احباب مُلا گردی کی وجہ سے مصائب کا شکار ہیں جس کی اسلام میں بھی کوئی گنجائش نہیں۔ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے کارکن درست کررہے ہیں تو پھر خود ہی اپنے کارکنوں کی قیادت بھی کریں تاکہ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو۔
سیاسی جماعتوں کے قائدین اور رہنماؤں نے دہشت گردی کے عروج پر کوئی قابل ذکر کردار ادا نہیں کیا ۔ چھپ چھپا کر تو مولانا معراج الدین شہید نے بھی اس کو غیر ملکی سازش قرار دینے میں کوئی کوتاہی نہیں کی جس نے یہاں سے لشکر لے کر طالبان کی حمایت میں سب سے پہلے قائدانہ کردار ادا کیا تھا۔ جب شروع میں سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے سربراہوں کوبھی سازش کا کوئی ادراک نہیں تھا اور جب ہوا تو بھی کھل کر نامردی کا مظاہرہ کیا۔ پھر عوام نے بھی یقیناًسازشوں کو سمجھنے میں بڑی دیر لگانی ہی تھی۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قبائل نے شروع میں طالبان کو نجات دہندہ سمجھ کر دل و جان سے قبول کیا پھر اس ہمدردی کے نتائج بھی خود ہی بھگت لئے۔ پورے ہندوستان ، پنجاب اور سندھ میں مولوی ایک دوسرے کو کافر اور گستاخ رسول قرار دیتے رہے مگر کوئی ایسا ناخوشگوار واقعہ غلط فہمی کی بنیاد پر کسی کالج و یونیورسٹی میں تو دور کی بات ہے کسی مدرسے میں بھی پیش نہیں آیا جو مشعال خان کیساتھ باچاخان یونیورسٹی میں ہوا۔ اسلئے پٹھانوں کو اپنی سردردی کا بہت بغور جائزہ لینا چاہئے۔
کالج اور یونیورسٹیوں میں ہزار سال قبل کی لکھی ہوئی کتاب ’’الاحکام السلطانیہ‘‘ میں ایک خلیفہ مقرر کرنے کو عالم اسلام پر فرض قرار دیا گیاہے۔ اس فریضے کو جہاں سب سے پہلے چند افراد یا کوئی ایک فرد پورا کرنے کا اعلان کردے تو اس میں لکھا ہے کہ شریعت کی رُو سے پوری دنیا پر فرض عائد ہوجاتا ہے کہ اس امیر المؤمنین کی اطاعت کرے۔ امیر کی تقرری کے بغیر مسلم اُمہ کو جاہلیت کی موت کا حقدار قرار دیا گیا ہے۔ ایک عرصہ مولانافضل الرحمن نے بھی اپنی جماعت پر ان احادیث کو فٹ کرنے کی کوشش جاری رکھی تھی جس کو علماء کے سامنے خطاب میں پیش کرکے آذان انقلاب کے نام سے کتابچہ میں شائع بھی کیا گیا تھا۔ مولانا فضل الرحمن عوام سے اس کی خاطر بندوق اٹھانے کے وعدے بھی لیتے رہتے تھے۔ انتخابی سیاست کو بھی ایک مرحلہ پر خیر باد کہہ دیا تھا۔ جب جمعیت علماء اسلام کے معتبر شوریٰ کو احادیث کی درست تعبیر سمجھ میں نہیں آرہی تھی تو ہم نے ایک کتاب ’’اسلام اور اقتدار‘‘ لکھ دی جس میں مولانا کی غلط فہمیوں کا بہت واضح انداز میں زبردست جواب دیا اور مولانا اس کے بعد اپنی ان جاہلانہ تعبیرات سے رُک بھی گئے۔ جب مُلا عمر امیر المؤمنین کے لقب سے نوازے گئے تو میرے اُستاذ مولانا شیر محمد ؒ امیر JUIکراچی نے مجھ سے کہا کہ مُلا عمر کو امیر المؤمنین مان لو۔ میں نے عرض کیا کہ مُلا عمر خود کو امیر المومنین کہے یا آپ کی جماعت یہ اعلان کردے تو مجھ سے یہ مطالبہ بھی جائز ہوگا لیکن جب وہ خود کو بھی افغانستان تک محدود کرتا ہے اور تم بھی اسکے دائرہ کار کو پاکستان کی حدود میں نہیں مانتے تو مجھ سے یہ مطالبہ درست نہیں۔ جب تک خلافت کا مسئلہ سمجھ کر حل نہ کیا جائے دنیا میں اس کا غلغلہ رہے گا۔

آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کا میونخ میں خطاب

German-Journalist-Reveled-Real-Facts-Behind-Mumbai-Attack-Qamar-Javed-Bajwa-delivers-a-speech-at-the-2018-Munich

جرمنی کے قدیمی معروف شہر میونخ میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے خطاب کیا ہے۔ میونخ میں علامہ اقبال نے بھی تعلیم حاصل کی ہے اور آئن اسٹائن سائنسدان کا تعلق بھی میونخ سے تھا۔ جنرل باجوہ کے خطاب کے اہم ترین نکات یہ تھے کہ روس کے خلاف جہاد کے نام پر 40سال قبل جو بویا تھا ، اسی کو اب کاٹ رہے ہیں۔ جہاد اپنے نفس پر قابو پانے کا نام ہے، قتال کا حکم صرف ریاست ہی دے سکتی ہے۔ 1840 علماء کرام و مفتیان عظام نے جہاد کو فساد کے طور پر استعمال کرنے کے خلاف متفقہ فتویٰ دیا ہے۔
آرمی چیف کیپٹن ہوکر بھرتی ہوتا ہے اور آرمی چیف تک پہنچتے پہنچتے اپنے سے بڑوں کا حکم ماننے کے علاوہ کسی چیز کو بھی نہ دیکھتا ہے ، نہ سمجھتا ہے اور نہ ہی اس پر غور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ 40سال پہلے ہوسکتا ہے کہ جنرل باوجوہ پاک فوج میں ایک کیپٹن کی حیثیت سے بھرتی ہوئے ہوں۔ 80سال پہلے تو ہم برطانیہ کی ایک ادنیٰ کالونی تھے۔ امریکہ اور یورپ آج بھی ہماری فوج کو بڑی بڑی بلائیں نظر آتی ہیں۔ پاک فوج کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے ہی ذو الفقار علی بھٹو کو پاکستان کا وزیر خارجہ بنادیا تھا۔ دنیا ورطہ حیرت میں پڑی تھی جب بھٹو نے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر اس کے ایجنڈے کو پھاڑ ڈالا تھا۔
کیا خوب ہوتا کہ ہمارا کوئی سیاسی قائد آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی جگہ میونخ میں دنیا سے خطاب کرتا اور ان الفاظ میں اپنا مافی الضمیر بیان کرتا ۔
اے جرمنی کے باسیو! غور سے سن لو! ۔ تمہارے ایک صحافی نے جسطرح پانامہ لیکس کا انکشاف کیا تھا اور اس کی وجہ سے ہماری عدالتوں میںآج تک سیاسی ہلچل برپا ہے، اسی طرح جرمنی کے ایک صحافی نے یہ انکشاف کیا ہے کہ ممبئی بھارت میں ہونیوالا حملہ امریکہ ، اسرائیل اور بھارت کی ملی بھگت سازش تھی۔ پاکستان کے بہت نامور صحافی حامد میر نے مفتی نظام الدین شامزئی کی طرف سے بہت پہلے انکشاف کیا تھا کہ پاکستانی مجاہدین کو امریکہ واشنگٹن کی طرف سے رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کے ذریعے پیسہ آرہا ہے جس سے علماء کو خریدا جارہا ہے۔ پھر وہی صحافی پتہ نہیں کس کے ہاتھ میں کھیل کر ممبئی حملے سے پاکستان کو بھی جوڑ رہا تھا۔ دنیا کی آنکھیں کھولنے کیلئے اتنا بھی کافی ہے کہ حافظ سعید کوئی مجاہد نہیں بلکہ رفاہی ادارے چلا رہا ہے۔ شکل اور ڈھنگ سے بھی کوئی اس کا انکار نہیں کرسکتا۔ اسکا بھائی جو اسکا جانشین بھی ہے امریکہ ہی میں رہتا تھا اور کچھ عرصہ قبل آیا ہے۔ ہم نے بین الاقوامی دباؤ کے تحت ان پر مقدمات بھی چلائے مگر عدالتوں میں کوئی ثبوت پیش نہیں ہوسکا۔ مولانا مسعود اظہر کو انڈیا نے پکڑ لیا تھا اور تہاڑ جیل سے ہفت روزہ ضرب مؤمن میں تازہ حالات پر انکے بیانات آتے رہتے تھے۔ اتنی آزادی کے ساتھ تو وہ پاکستان میں بھی کام نہیں کرسکتا ہے۔ ایک خطیب اور صحافی کا جو کام وہ تہاڑجیل سے کررہا تھا اس سے زیادہ پاکستان میں بھی اس کو کوئی سہولت میسر نہیں ہے۔
امریکہ میں 9/11کا واقعہ ہوا ۔ آج بھی اسکول کے طالب علم بگڑ کر دہشت گردی کے جو واقعات کررہے ہیں اس سے زیادہ ہمارے ہاں بھی دہشت گردی نہیں۔ امریکہ نے 9/11کے واقعہ پر افغانستان کے طالبان کو سزادی تو ہم نے عافیہ صدیقی تک کو امریکہ کے حوالے کردیا۔ افغانستان و پاکستان اس جنگ سے جتنے متاثر ہوئے اسکے اثرات آج تک ہم بھگت رہے ہیں۔ امریکہ نے عراق پر بھی حملہ کردیا اور پھر اپنی غلطی کا اقرار بھی کرلیا ۔ پھر لیبیا پر کسی وجہ کے بغیر حملہ کیا اور وہاں کی عوام کو تباہ و برباد کردیا۔ پھر شام میں لاکھوں افراد کو امریکہ نے مروا دیا اور اب افغانستان میں داعش اور طالبان کو طبل جنگ کیلئے تیار کر رکھا ہے۔ آخر یہ ساری کاروائیوں کے پیچھے مقاصد کیا ہیں؟۔ امریکہ کی نکیل جس اسرائیل کے ہاتھوں میں ہے اس بدمست ہاتھی کو روکنے والا آخر کون ہوگا۔ یورپی یونین کے علاوہ برطانیہ اور دنیا بھر کے اکثر و بیشتر اسلامی و غیر اسلامی ممالک کے برخلاف امریکہ نے اپنے سفارتخانے کو بیت المقدس کے شہر میں کھولا تو وہ دنیا میں تنہا رہ گیا۔ فلسطین میں امریکہ کی تنہائی کے بعد ایک ایسا لائحہ عمل تشکیل دینے کی سخت ضرورت ہے جس سے دنیا میں امن کی بحالی کو یقینی بنایا جاسکے۔
ہمارا تعلق اس نبی ﷺسے ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے و ما ارسلنٰک الا رحمۃ للعٰلمین146146اور ہم نے نہیں بھیجا مگر تمام عالمین کیلئے رحمت بنا کر145145 ۔ اس کی صداقت صلح حدیبیہ اور فتح مکہ سے بھی نبی ﷺ نے ثابت کرکے دکھادی۔ یہ بات دنیا جانتی ہے کہ صلح حدیبیہ میں کن شرائط کو قبول کرکے مسلمانوں نے اپنے مرکز مکہ مکرمہ پر مشرکین مکہ کی حکمرانی قبول کی۔ حضرت ابو جندلؓ کو اسی بنیاد پر زنجیروں میں باندھ کر لوٹادیا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ حضرت ابو جندلؓ نے اپنی مدد آپ کے تحت فرار ہوکر اپنے طور سے ان کے خلاف جہاد کا سلسلہ شروع کیا۔ جس کی ذمہ داری نبی ﷺ کی حکومت پر عائد نہیں کی جاسکتی تھی۔ امریکہ مجاہدین کو گوانتا ناموبے لیکر گیا اور ایک ایسے وقت میں جب امریکہ کو وزیرستان میں بھی مجاہدین لیڈروں کی تلاش تھی اور خوش قسمتی سے ہمارے ہاں کوئی بھی لیڈر نہیں تھا تو عبد اللہ محسود کو گوانتا ناموبے سے چھوڑ کر عوام کو بنا بنایا لیڈر دیا گیا۔ عافیہ صدیقی ایک بال بچے دار خاتون ہیں لیکن ان کو 86سال قید کی سزا سنائی گئی۔ امریکہ دنیا کو یہ بتادے کہ اس کی پالیسی دہشت گردوں کو ختم کرنے کی تھی یا جلا بخشنے کی تھی؟ اور بی بی سی لندن نے کچھ ایسے لوگوں کے انٹرویو شائع کئے ہیں جن کو امریکی فوج نے اذیت دینے کیلئے اتنا ریپ کیا کہ ان کی پاخانے کی جگہوں سے خون نکلنے لگا تو کیا ان انسانیت سوز مظالم کے مقاصد دہشت گردی کو فروغ دینا نہیں ہے؟۔
آپ نے عبد اللہ محسود کو گوانتاناموبے سے چھوڑ کر ہمارے خلاف جہاد کیلئے راستہ ہموار کیا تھا، اگر ہم اس کو مارنے کے بجائے پکڑ کر تمہارے حوالے کرتے تو کیا بھروسہ تھا کہ تم پھر اس کو چھوڑ دیتے۔ القاعدہ کے بیج بھی تم نے بوئے اور پھر اس کو ختم کرنے کے بہانے دنیا بھر میں دہشت گردی کی لہر بھی تم نے دوڑادی۔ بس کرو بس ! بس کرو بس! بس کرو بس! بس کرو بس! بس کرو بس! بہت ہوگیا۔
اگر امریکہ کو مخاطب کرتے ہوئے کوئی سیاسی قائد حقائق کے انداز میں تقریر کرتا تو امریکیوں کا ضمیر جاگتا یا سویا رہتا لیکن دنیا کو جگانے میں کامیابی ہوتی۔ اور پھر سب سے زیادہ یہ کہ ہمارے اپنے مسلمان بھائیوں کی آنکھیں کھل جاتیں اور ہم آپس کے فتنہ و فساد سے تو کم از کم بچ جاتے اور اگر ہم آپس میں فتنے و فساد سے پرہیز کریں تو دنیا ہم پر زبردستی کسی طرح سے بھی دہشتگردی مسلط نہ کرسکتی ۔

عدلیہ کو درپیش مشکلات اور ان کا حل: ایڈیٹر نوشتہ دیوار محمد اجمل ملک

chief-justice-saqib-nisar-iftekhar-ahmed-chowdhury-islamic-international-university-islamabad-justice-khosa-hudaibiya-paper-mills-siddique-kanju-Mustafa-Kanju

18فروری 2018کو مسلم لیگ ن کا شیخوپورہ میں یہ جلسہ ہوا تھا جس میں مریم نواز PTVپاکستان ٹیلی ویژن کے سرکاری میڈیا کو استعمال کرکے خطاب کررہی ہیں۔ اس جلسے سے مریم نواز اور نواز شریف نے بڑی تعداد میں آنے والے لوگوں کو مخاطب کرکے جو کچھ کہا وہ تمام نیوز چینلوں نے عوام کو دکھادیا ہے۔ مریم نواز نے واضح طور پر پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کے منصفوں(ججوں ) کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ڈکٹیٹر کے دور میں جن ججوں نے نواز شریف کو طیارہ ہائی جیکنگ کیس میں مجرم قرار دیا تھا اسی عدالت اور ججوں نے ڈکٹیٹر کی حکومت ختم ہونے کے بعد نواز شریف کو با عزت بری قرار دیا۔ مریم نواز نے کہا کہ میری عمر اس وقت چھوٹی تھی اور میں نے جج سے مخاطب ہوکر کہا تھا کہ ’’اللہ کے عذاب سے ڈرو، نواز شریف بے گناہ ہے‘‘۔ آج ججوں کا حکم صرف نواز شریف کیلئے ہے ۔ ڈکٹیٹروں پر ججوں کا حکم نہیں چلتا۔ اصل عدالت عوام کی ہے۔ ججوں نے ایک دن اپنے کئے کا جواب دینا ہے۔
نواز شریف نے پچاس ، سو،ہزار، پانچ ہزار اور دس کا نوٹ دکھا کر عوام سے کہا کہ میں نے یہ کرپشن بھی نہیں کی، تم گواہی دیتے ہو؟۔ سب نے گواہی دے دی۔
جلسہ عام میں کوئی ایک بھی رجل رشید اور حُر نہیں تھا جو یہ کہتا کہ نا اہل وزیر اعظم پاکستان کا سرکاری ٹی وی اپنے خاندان کی جاگیر سمجھ کر کیسے استعمال کررہا ہے۔ اگر عدلیہ صرف سرکاری ٹی وی کو استعمال کرنے پر از خود نوٹس لیتی تو لوہاروں کے آہنی اعصاب کا دنیا کو پتہ چل جاتا ۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح عمران خان کی طرف سے سرکاری ہیلی کاپٹر کا نوٹس لیتے ہوئے جیو ٹی وی چینل نے اس کی خوب تشہیر کی اگر سرکاری ٹی وی کے استعمال کا بھی نوٹس لیا جاتا تو نواز شریف اور اس کی صاحبزادی کو اپنی اوقات کا پتہ چل جاتا۔ سپریم کورٹ اور عدلیہ کے جج بھیگی بلی بن کر تو اپنی عزت برقرار نہیں رکھ سکتے۔ جو غلطیاں عدالت سے ہوئی ہیں ان پر پوری قوم سے معافی مانگی جائے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار ایک شریف النفس انسان ہیں، وہ نواز شریف کے کسی دور میں وکیل بھی رہے ہیں۔ جب ان کو افتخار چوہدری کے عروج کے دور میں لایا گیا تو اس پر تبصرے ہوئے کہ نواز شریف کے آدمیوں کو سپریم کورٹ میں جگہ دی جارہی ہے حالانکہ وہ پیپلز پارٹی کا دور تھا۔
نواز شریف آج کی عدلیہ کو سب سے بڑا طعنہ پی سی او ججوں کا دے رہے ہیں۔ بینظیر بھٹو کیساتھ جو چارٹر آف ڈیموکریسی نواز شریف نے سائن کیا تھا تو اس میں یہ بھی تھا کہ پی سی او ججوں کو بحال نہیں کرینگے۔ معاہدے کی رو سے نواز شریف کا فرض بنتا تھا کہ چوہدری افتخار سمیت کسی بھی پی سی او جج کو بحال نہ کرتے۔ نواز شریف عدلیہ کے ان ججوں کو بحال کرنے کے موڈ میں بھی نہ تھے مگر وکیلوں نے ورغلا کر عدلیہ بحالی تحریک میں شامل کیا جور یکارڈ پر ہے۔ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کی کہاوت پر عمل کرکے صدر زرداری کو طعنے دئے گئے کہ معاہدہ کوئی قرآن و حدیث تھوڑی ہے۔ تمام جماعتوں کے قائدین کو کسی ایک مجلس میں بلا کر عوام سے خطاب کا موقع دیا جائے تاکہ سیدھی سادی عوام کسی کے جھوٹ اور سچ کی جانچ پڑتال کرسکے۔
عدلیہ کے ججوں نے سب سے بڑی زیادتی یہ کی تھی کہ جن ججوں کو پرویز مشرف نے بھرتی کیا تھا ان کو پی سی او کی بنیاد پر عدلیہ سے نکال کر سزا دی گئی اور خود جنہوں نے کئی مرتبہ پی سی او کے حلف اٹھائے تھے اپنے آپ کو معاف کیا اور کسی بھی مذہب ، رسم و رواج اور قانون میں یہ نہیں ہوتا کہ اپنی غلطی معاف کرکے دوسرے کو سزا دی جائے۔ آج چیف جسٹس ثاقب نثار کہتے ہیں کہ میں افتخار چوہدری نہیں ثاقب نثار ہوں۔ اس میں شک نہیں کہ افتخار چوہدری بھی کسی قابلیت اور کردار کے مالک نہیں تھے اور ثاقب نثار ایک شریف النفس انسان ہیں ۔ مگر جج کی حیثیت سے اگر آج چوہدری افتخار ہوتے تو عدلیہ پر حملے نہ کرنے دیتے۔
حدیبیہ پیپر ملز کے فیصلے نے نواز شریف اور مریم نواز کو موقع فراہم کردیا کہ وہ عدلیہ پر جتنے گرجیں برسیں وہ حق بجانب ہیں۔ سپریم کورٹ کے پانچ ججوں میں دو نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ نواز شریف پارلیمنٹ اور میڈیا میں دی گئی صفائی میں قطری خط کے ذریعے صادق و امین نہیں رہے۔ اسلئے نا اہل ہیں۔ تین ججوں نے جے آئی ٹی بنائی تھی۔ اس جے آئی ٹی میں دو اہم معاملات تھے ایک اقامہ اور دوسرا حدیبیہ پیپر ملز ۔ اقامے کے مسئلے پر نواز شریف کو نا اہل قرار دیا گیا اور حدیبیہ پیپر ملز کا کیس کھولنے کیلئے نیب نے حکم دیا اور جب چیف جسٹس ثاقب نثار کے نائب جسٹس آصف سعید کھوسہ کے پاس رجسٹرار نے حدیبیہ پیپر ملز کا کیس لگایا تو جسٹس کھوسہ نے واضح طور پرکہا کہ میرے پاس یہ غلطی سے لگا ہے کیونکہ میں پہلے ہی پانچ ججوں کے ساتھ مل کر نیب کو حدیبیہ پیپر ملز کھولنے کا حکم دے چکا ہوں۔
سپریم کورٹ نے اپنے ہی پانچ ججوں کے فیصلے اور جسٹس آصف کھوسہ کی بدترین توہین کا ارتکاب کیا اور اس کیس میں تین ججوں کا بینچ بنادیا اور پھر فیصلہ دیا کہ میڈیا میں اس کو ڈسکس کرنے پر پابندی ہے۔ پھر تینوں ججوں نے ہمیشہ کیلئے حدیبیہ پیپر ملز کے کیس کو کھولنے پرپابندی لگادی۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے شریف برادران سے کہا کہ ہم کسی کے ہاتھ میں کھیل رہے ہوتے تو حدیبیہ کا یہ فیصلہ اس طرح سے نہ دیتے۔ ایک سال تک پانامہ کیس میڈیا پر ڈسکس ہوتا رہا۔جھوٹ کے پلندے عوام کو ازبر ہوگئے۔ پارلیمنٹ میں نواز شریف کی تحریری تقریر اور میڈیا پر نواز شریف کی فیملی اور ن لیگی رہنماؤں کے علاوہ سب ثبوت بار بار عوام کو تفصیلات کے ساتھ دکھائے گئے۔ منی لانڈرنگ کے ذرائع اور اکاؤنٹ بھی بتادئے گئے۔
جب حدیبیہ پیپر ملز کے تمام شواہد اور سپریم کورٹ کے فیصلے کو نظر انداز کیا گیا تو باقی معاملات میں بھی سزا دینے کی گنجائش رہتی ہے یا سپریم کورٹ کے جج اور نواز شریف مل کر پوری قوم کے ساتھ کھلواڑ کررہے ہیں؟۔پلاسٹک کے جعلی شیر میں اتنی ہوا بھر دی گئی کہ وہ پھٹنے پر جی ایچ کیو کو بھی اڑانے کی دھمکی دے رہا ہے۔ نواز شریف پر الزام یہ نہیں تھا کہ اس نے جعلی بندوق سے طیارے کو اغوا کیا تھا بلکہ وزیر اعظم کی حیثیت سے جہاز کو اترنے سے روکا تھا۔ جس میں جہاز کو اغواکرنے جتنی ہمت ہو وہ اپنی جان پر کھیل سکتا ہے، جو اپنی جان پر کھیل سکتا ہو وہ معاہدہ کرکے سعودی عرب جلا وطن نہیں ہوسکتا ہے۔ البتہ جنہوں نے لاہور ماڈل ٹاؤن میں گلو بٹوں کے ذریعے سے نہتے افراد کو مروادیا ہو تو اس کیلئے جہاز کو نہ اترنے کا حکم دینا بھی کیا بعید از قیاس ہوسکتا ہے۔ جبکہ ڈاکٹر طاہر القادری تو زیادہ سے زیادہ احتجاج کی صلاحیت رکھتا تھا اور پرویز مشرف اس کو اپنی فیملی سمیت جلا وطن بھی کر سکتے تھے۔
اب تو شاید عدلیہ میں پی سی او ججوں کی باقیات بھی نہیں ہیں۔ عدلیہ سب سے پہلے اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے ان ججوں کو بحال کردے جن سے امتیازی سلوک کرکے فارغ کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر عطاء الرحمن ، ڈاکٹر منظور احمد جیسی شخصیات بھی پرویز مشرف نے کراچی یونیورسٹی اور اسلامی انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد میں تعینات کئے تھے۔ ان ججوں میں اچھے ججوں کو منتخب کرکے بحال کرنے سے واضح ہوگا کہ عدلیہ اپنی غلطیوں پر خود توجہ دے رہی ہے۔ اسکے بعدسابقہ آرمی چیف پرویز مشرف کو انکی غیر موجودگی میں معزول کرکے جنرل ضیاء الدین بٹ کو آرمی چیف بنانے کا جائزہ لے کر فیصلہ کیا جائے کہ درست تھا یا غلط۔ کیونکہ عدلیہ سندھ پولیس کے آئی جی اے ڈی خواجہ کو بھی بدلنے کی اجازت نہیں دے رہی ہے تو کیا آرمی چیف کو پنجاب کی اشرافیہ برادری کو برطرف کرنے کا حق حاصل تھا؟۔
پھر ان جرنیلوں کو کٹہرے میں لایا جائے جنہوں نے یہ اقدام کیا کہ منتخب حکومت کو برطرف کرکے جلاوطنی پر مجبور کردیا۔ پھر ان ججوں کو بھی کٹہرے میں لایا جائے جنہوں نے پرویز مشرف کو تین سال تک آئین میں مداخلت کی کھل کر اجازت دی۔ ان میں جو لوگ فوت ہوگئے ان کی قبروں پر علامتی سزا کی فاتحہ پڑھی جائے۔ اور جو زندہ ہیں ان کو عدالت میں کھڑا کرکے قوم کے سامنے پوری حقیقت واضح کی جائے تاکہ روز روز ڈگڈگی بجانے والے تماشہ نہ لگاتے پھریں۔ حقائق سامنے آجائیں گے تو کوئی پنڈورا بکس نہیں کھلے گا بلکہ سب ہی اپنی اپنی غلطیوں کا احساس کرتے ہوئے پوری قوم سے معافی مانگیں گے اور اگر ان کی غلطی نہ ہوئی تو ان کو صفائی پیش کرنے کا موقع ملے گا۔
لاکھوں کیس سماعت کے منتظر ہیں چیف جسٹس صاحب پتہ نہیں جانے یا انجانے میں عوام کے ان دکھوں کا مداوا چاہتے ہیں جو ان کا فرض بھی نہیں۔ کراچی کی آبادی میں ڈیفنس کی شہرت ہے لیکن ڈیفنس میں پانی نہیں ہے۔ عدالت نے بلڈروں کیخلاف پانی کا نوٹس لیا اور ڈیفنس کو نہیں دیکھا تو عدلیہ کی عدالت پر عوام میں سوال اٹھنے لگے اور عدلیہ کا دفاع کرنا بھی آسان نہیں، عدلیہ نے ہسپتال کو دیکھنا شروع کیا ہے تو یہ فرض شناسی ہے یا فرائض سے پہلو تہی ہے؟۔ پانامہ لیکس سے توجہ ہٹانے کی یہ سازش ہے یا شریف برادران کو مطمئن کرنے کی کوشش؟۔ اپنے کیسوں کی طرف توجہ نہ دینے پر بڑے سوالات اٹھ رہے ہیں۔
مریم نواز یا نواز شریف سے گریبان پکڑنے کا خوف ہو تو کراچی کی مہاجر کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے نہال ہاشمی کو سزا دینے سے مسئلہ کیسے حل ہوگا؟ جبکہ اس سے کئی گنابڑھ کر پنجاب کے باسی عدلیہ کو مغلظات سے نواز رہے ہیں، ایک طرف ن لیگ عدلیہ پر ٹوٹ پڑی ہو، دوسری طرف دیگر عوام عدلیہ پر جانبداری کے قد غن لگارہے ہوں تو اس کے نتائج کیا برآمد ہوں گے؟۔ ایک مرتبہ چیف جسٹس کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تو پرویز مشرف کی حکومت چلی گئی۔ لیکن آزاد عدلیہ نے نہ اپنی صفائی کی اور نہ ہی غریب عوام کو کوئی ریلیف دیا۔ اس طرح عدلیہ کیسے مستحکم ہوسکتی ہے؟ جبکہ چیف جسٹس ثاقب نثار اور آنے والے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے مزاج اور عدل میں زمین آسمان کا فرق ہو۔ یہ صورتحال رہی تو عدلیہ پر انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھنا پڑے گا۔ عدلیہ پر حملے اپنے لاڈلوں کی طرف سے ہورہے ہیں۔ باقی لوگوں کو اس مرتبہ تماشہ دیکھنے میں بڑا مزا آئے گا۔ وقار بلند کرنا ہو تو اقدامات کرنے ہونگے۔
شاہ رُخ جتوئی نے پولیس والے کے بیٹے شاہ زیب کو قتل کردیا تو افتخار چوہدری نے اپنی طاقت دکھا کر شاہ رُخ جتوئی کو دبئی سے انٹرپول کے بغیر واپس لانے پر مجبور کیا۔ اس پر 302کے علاوہ دہشتگردی کا دفعہ بھی لگادیا۔ 302 کے قتل میں والدین کی طرف سے دیت لے کر یا ویسے ہی معاف کرنے کی گنجائش تھی۔ پولیس والوں کا کام پیسہ لینا ہوتا ہے۔ شاہ زیب کے باپ نے دیت لی یا معاف کردیا اور ہائیکورٹ نے دہشتگردی کا دفعہ ختم کردیا۔شاہ رُخ کو ضمانت پر رہائی مل گئی۔ اب پھر چیف جسٹس نے ضمانت ختم کرکے شاہ رُخ کو پھانسی گھاٹ کی کال کوٹھڑی کا حکم دیا ہے۔ سندھ کا ایک باسی عدلیہ سے انصاف پارہا ہے۔
ن لیگ کے سابقہ وزیر صدیق کانجو کے بیٹے غلام مصطفی کانجو نے بھی پنجاب میں شاہ رُخ جتوئی کی طرح کسی بیوہ کے اکلوتے بیٹے کو شہید کردیا تھا۔ چوہدری افتخار کی کانڑی عدالت کو پنجاب میں دہشتگردی کا دفعہ نظر نہیں آتا تھا۔ اور غلام مصطفی کانجو پر شاہ رُخ جتوئی کے برعکس دہشتگردی کا دفعہ نہیں لگایا گیا۔ پنجاب کی غریب بیوہ نے سپریم کورٹ کے سامنے میڈیا سے کہاکہ اپنے شہید اکلوتے بیٹے کا بدلہ پوری دنیا بھی نہیں لیکن ان بد معاشوں سے مجھے خطرہ ہے کہ میری بچیوں کی عزتوں کو پامال نہ کردیں، اسلئے دست بردار ہورہی ہوں۔ عدلیہ کے ججوں کا ضمیر الیکٹرانک میڈیا بھی نہ جگاسکا۔ غلام مصطفی کانجو کو رہائی دیکر بیرون ملک بھیج دیا گیا۔ واہ بھئی واہ ، صد رحمت بابا رحمتوں پر۔
چیف جسٹس ثاقب نثار اگر اپنے ضمیر سے زنگ اور غبار ہٹانا چاہتے ہیں تو شاہ رُخ جتوئی کی طرح مصطفی کانجو کو بھی پھانسی گھاٹ کی کال کوٹھڑی تک پہنچائیں۔ یہ نہ کہیں کہ عدالت کے انصاف کا ترازو پنجاب، سندھ اور دیگر صوبوں کیلئے ایک ہے اسلئے کہ شاہ رُخ جتوئی پر دوبارہ یہ مقدمہ چلا کر سندھیوں کو رلایا گیا تو پنجاب کی بیوہ کو بھی تو رلایا ہے یہی تو انصاف ہے۔ العیاذ باللہ استغفر اللہ۔ جس دن عدلیہ انصاف کرنا شروع کرے گی تو اس کو گالیاں بکنا بھی خود بخود بند ہوجائیگا۔ سول سوسائٹی کے جبران ناصر کو چاہئے کہ غلام مصطفی کانجو کی طرف بھی توجہ دلائے۔
لودھراں میں علی ترین کے مقابلے میں ن لیگ کی واضح جیت میں صدیق کانجو کی برادری کابھی اہم کردار ہے۔ یہ سیٹ جتوانے میں عدلیہ کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ راؤ انوار کے پیچھے چیف جسٹس کو بڑے لوگ تو دکھائی دیتے ہیں لیکن ماڈل ٹاؤن میں سر عام قتل عام کے پیچھے بڑے لوگ اندھی عدالتوں میں بیٹھے ہوئے ججوں کی نگاہوں سے اوجھل ہونگے۔ طالبان نے افغانستان میں انقلاب کے بعد ڈاکٹر نجیب اللہ کو چند دنوں تک سولی پر لٹکا کر رکھا تو آج بہت لوگوں کو اپنے فعل پر ندامت ہے لیکن اگر پاکستان کی عوام کبھی اٹھے اور خدا نخواستہ خونی انقلاب آیا اور معتبر لوگوں کو سولیوں پر لٹکانا شروع کردیا تو تاریخ کا یہ سبق دنیا کیلئے بالکل بھی انوکھا نہ ہوگا۔ ہنگامی بنیادوں پر انصاف کی فراہمی کے بغیر خونی انقلاب کا راستہ روکا گیا تو اس میں نہ صرف سب کی بقاء ہے بلکہ اس کی وجہ سے پوری دنیا میں پاکستان کی ریاست ، ادارے، عوام ، قائدین اور علماء امامت کرنے کے قابل بن جائیں گے۔
سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
دنیا نے طالبان اور داعش کے نام سے جو ایٹم بم تیار کر رکھا ہے اس کو پھاڑنے کیلئے ہمارا معاشرتی ، عدالتی ، سیاسی اور مذہبی نظام کافی ہے۔ جو لوگ خود پر بم باندھ کر پھاڑ رہے ہیں ان کو آخرت کی اُمید پر ورغلایا گیا ہوگا لیکن اس حقیقت سے بھی انکار کرنا ممکن نہیں کہ جب غریب کیساتھ اس معاشرے میں ظلم و جبر ہوتا ہے تو اسکے نتیجے میں خود کشی کرنیوالے کبھی کبھی خود کش کرانیوالوں کے ہاتھ بھی چڑھ جاتے ہیں۔ پہلی مرتبہ عوام میں امریکہ سے مقابلے کی وجہ سے طالبان کو بھرپور مقبولیت ملی تو تمام سیاسی جماعتیں اور ملکی ادارے ان کے ایمان کو داد دینے پر مجبور تھے۔ انہوں نے یہ قربانی داد وصول کرنے کیلئے ہرگز ہرگز نہیں دی تھی۔ خود کش دھماکے کے بعد جن کے پڑخچے اُڑ جائیں ان کو کیا داد سے فائدہ پہنچ سکتا ہے؟۔ وہ نظام کی تبدیلی چاہتے تھے اور پھر طالبان کے سب سے بڑے حامی شریف برادران اور عمران خان یہ کریڈٹ لے رہے ہیں کہ ہم نے دہشت گردوں کو ختم کیا ہے۔ اب اگر وہ پلٹ کر آگئے تو کسی کی بھی خیر نہیں ہوگی۔ ہمارے عدالتی نظام کی خرابیوں کو ہمارا جج طبقہ بھی نظر انداز نہیں کرسکتاہے۔ طالبان کیلئے جو فوجی عدالتیں تشکیل دی گئی ہیں ہمارے بدمعاش سیاستدانوں کیلئے طالبان سے زیادہ بڑھ کر مضبوط عدالتوں کی سخت ضرورت ہے۔ طالبان نے عدلیہ کے خلاف اتنا زہر عوام میں نہیں اگلا جتنا سیاستدان اگل رہے ہیں۔
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
سینٹ کے الیکشن میں کروڑوں کی منڈیوں میں بکرے فروخت ہورہے ہیں اور یہ لوگ پاکستانی قوم کی غریب عوام کیلئے قانون سازی کا فریضہ انجام دیں گے۔ طالبان خیر اگرجبر و تشدد اور انتہا پسندی کو چھوڑ کر جمہوری میدان میں آئیں گے تو اسلام کے فطری احکام کو منوانے میں کوئی دیر نہیں لگے گی۔ عدالتی نظام کو تبدیل کرنے کیلئے مخلص اور بے لوث لوگوں کی ضرورت ہے۔ ایک الیکشن قوم کی اس بدترین حالت کو سدھارنے کیلئے ایسا ضروری ہے جو ایک پر امن انقلاب کا ذریعہ بن جائے اور پاکستان کی حالت اس قابل ہو جو دنیا میں تبدیلی کا بہترین ذریعہ بن جائے۔
الیکشن کو تجارت بنانے والوں نے اپنی تجوریاں بھر دی ہیں اور غریب عوام کو ریاست کا فائدہ پہنچنے نہیں دیا ہے۔ اگر عدلیہ نے الیکشن میں اپنی حدود سے زیادہ خرچہ کرنے والوں کو پکڑنا شروع کردیا تو تمام سیاسی جماعتوں کے اہم رہنما الیکشن سے باہر ہوجائیں گے۔ ریاست اپنی قوت کے ساتھ عملی میدان میں اترے تو کرپٹ مافیا کی جگہ اچھے لوگ پارلیمنٹ میں پہنچ کر اقتدار کا نقشہ بدل دینگے۔

خواتین کی شمولیت پر اعتراض کرنے والوں نے کبھی دانت نہ کھولے کہ حجر اسود کو چومتے ہوئے نا محرم لوگوں کے ساتھ خواتین کیسے رگڑا کھاتی ہیں یہ ناجائز ہے

sami-ibrahim-on-bol-tv-asma-jahangir-ka-janaza-mufti-naeem-jamia-binoria-karachi-khawateen-hijr-e-aswad-2

عاصمہ جہانگیر عالمگیر شخصیت تھیں، بلا خوف و خطر ہر کمزور مظلوم کی آواز ظالم و جابر کیخلاف بلند کرنا محترمہ کا بڑامشغلہ تھا۔ پاکستان، پاک فوج، خفیہ اداروں اور مذہبی طبقات کیلئے محترمہ عاصمہ جہانگیر کا کردار قابلِ فخر ہے۔ ضمیر کی آوازبلند کرنے میں یکتائے روزگار شخصیت محترمہ کی مثال ڈھونڈنے سے نہیں ملتی۔ طالبانِ سوات ، بلوچ انتہاپسند ، وزیرستان کی عوام اور کراچی کے الطاف حسین سب کے انسانی حقوق کیلئے ایسے وقت میں آواز اٹھانا جب کسی میں ہمت نہ تھی محترمہ نے پاکستان اور مسلمانوں کا چہرہ روشن کیا۔ فتنہ گری کے گڑھ جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودی کے بیٹے فاروق مودودی نے جنازہ پڑھایا ۔ خواتین کی شمولیت پر اعتراض کرنے والوں نے کبھی دانت نہ کھولے کہ حجر اسود کو چومتے ہوئے نا محرم لوگوں کیساتھ خواتین کیسے رگڑا کھاتی ہیںیہ ناجائزہے، جب چوہوں کو بھی دہشتگردی کا پتہ چل گیا تو اب ان علماء و مفتیان کے دل ودماغ کی شریعت جاگ اٹھی ہے ،حالانکہ وقت پر فتویٰ دے دینا تھا۔ عتیق گیلانی

عاصمہ جہانگیر جنازہ: انٹرویو سمیع ابراہیم: بول ٹی وی چینل: تبصرہ سید عتیق الرحمن گیلانی

sami-ibrahim-on-bol-tv-asma-jahangir-ka-janaza-mufti-naeem-jamia-binoria-karachi-khawateen-hijr-e-aswad

مفتی صاحب! عاصمہ جہانگیر کے جنازے میں خواتین پہلی صفوں میں ہیں جو انکے قریبی عزیز نہیں وہ بھی دیدار کررہے ہیں۔ یہ آپ نے دیکھا تو ہمارے مذہب میں اس کی اجازت ہے؟۔
مفتی نعیم: اگر عورت کا نماز جنازہ پڑھنے کا ارادہ ہو تو پچھلی صف میں کھڑی ہوسکتی ہے لیکن اس جنازے میں عورتیں مردوں کیساتھ پہلی صف میں کھڑی تھیں تویہ اختلاط ویسے شرعاً ناجائز ہے۔ اور جنہوں نے یہ کیا ہے غلط ہے البتہ جنازے کی نماز ان کی ہوجائے گی۔
سمیع ابراہیم: مفتی صاحب! جس وقت یہ ہورہا تھا ایک جید عالم فاروق مودودی صاحب نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی تو کیا وہاں علماء کا کام نہ تھا کہ آواز اٹھاتے ، روکتے کہ خواتین پچھلی صف میں جائیں۔ اگر اس انداز میں بات کو پروموٹ کریں تو معاشرے میں اسکے کیا اثرات ہونگے۔
مفتی نعیم : مجھے نہیں معلوم کہ علماء جنازے میں تھے ، اور حیدر فاروق کوئی عالم نہیں بلکہ وہ ایک خاص ذہن رکھتے ہیں اسلئے حیدر فاروق کا جنازہ پڑھانا زیادہ مؤثر نہیں ۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ علماء اسکے اندر شریک نہیں ہوئے ہونگے اسلئے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ تم مرے ہوؤں کو برا بھلا مت کہو۔ باقی دینی اعتبار سے ان کی بہت ساری شکایتیں ہیں ، میرے ساتھ چینل میں بیٹھی ہیں، وہ تو بہت ہی خطرناک باتیں کیا کرتی تھیں ، بہر حال حضور ﷺ نے فرمایا کہ مردوں کی برائی نہ کرو۔ اسلئے میں کچھ نہیں کرتا لیکن اتنی بات ضرور کہوں کہ وہ قرآن و حدیث کو مکمل طور پر ماننے والی نہ تھیں بہت سی آیتوں کا اور بہت سی چیزوں کا وہ انکار کرتی تھیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ تھے انکے اندر مسائل لیکن اب چلی گئی ہیں دنیا سے تو دعا کی جائے کہ اللہ تعالیٰ ان پر رحم کا معاملہ فرمائے اور اسکے علاوہ کچھ نہیں۔ علماء اس بارے میں کہتے ہیں کہ یہ ایک نئی روشن خیالی ہے کہ مرد اور عورتیں دونوں ساتھ نماز.. گویا مرنے کے بعد بھی وہ اپنی روشن خیالی دکھارہی ہیں۔ انکی اولاد بتارہی ہے کہ نمازجنازہ میں گویا مرداور عورت ایک ہی چیز ہے۔شرعاً یہ ناجائز ہے۔حضورﷺ کی ازوج مطہراتؓ سے کہا گیا کہ وقرن فی بتوتکن ’’ اور گھروں میں رہیں‘‘۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ عورت کی نماز گھر میں بہتر ہے اور گھرمیں بھی اندر والے کمرے میں۔ میں سمجھتاہوں کہ ساری میڈیا نے جو دکھایا ہے، ہمارے ملک اور مذہب کیلئے نقصان دہ بات ہے۔ مغرب میں روشن خیال انکو دیکھ لیں گے کہ یہ کرتے ہیں تو نمازہ جنازہ اور دیگر نمازیں اکٹھی پڑھیں گے یہ ایک دین سے دوری کی بات ہے اور یہ کرنا انتہائی ظلم ہے۔
سمیع ابرہیم: آپ نے بڑی اہم بات کہی ہے ، ٹیلیویژن نے دکھایاہمارے حکمران،ہماری سول سوسائٹی کے بڑے اہم لوگ شریک ہوئے لیکن کسی نے روکنے کی بات نہ کی۔یہ جو بڑھتا ہوا رحجان ہے جسطرح نیشنل میڈیا پر ہم ان چیزوں کا پرچا ر کرتے ہیں اور اگر اس حوالے سے کوئی بات کرے تو ایک مخصوص گروپ ہے جو اپنے آپ کو لبرل کہتے ہیں تو جو اس بات کو ہائی لائٹ کرے تو کبھی ان کوبنیاد پرست کہتے ہیں اور کبھی اور انداز میں چڑھائی کرتے ہیں ، معاشرے میں جو یہ چیزیں آرہی ہیں ان کو روکنے کیلئے کیا کرنا چاہیے؟ آپ کیا تجاویز دینگے؟۔
مفتی نعیم: میڈیا علماء سے اسی وقت جب جنازہ ہورہا تھا لائیو انٹرویو لیتا تو ہوسکتا ہے کہ ہماری اس آواز سے کافی لوگ پیچھے ہٹ جاتے یا ان عورتوں کو پیچھے کردیتے لیکن میڈیا اب رات کے دس بجے مجھ سے سوال کررہا ہے جبکہ سب کچھ ہوچکا۔ تو میں سمجھتا ہوں اس میں میڈیا قصوروار ہے، بہت زیادہ اس کو کوریج دی بلکہ جب سے انکا انتقال ہوا ہے ان کی تعریف کی جا رہی ہے کہ انہوں نے یہ کیا یہ کیا، تو ایک تو حقوق العباد ہیں انہوں نے بندوں کے کئے ہونگے، غریبوں کی مدد کی ہوگی ، لیکن حقوق اللہ بھی ہیں ، اللہ کے حقوق، وہ اللہ کے حقوق کی کھلے عام مخالفت کرتی تھیں۔ کئی مرتبہ میرے ساتھ ایسا ہوا کہ انہوں نے اس بات پر لڑائی کی کہ میں قرآن کی اس آیت کو نہیں مانتی ، اس آیت کو نہیں مانتی تو آپ بتائیں کہ قرآن تو اللہ کی کتاب ہے اس کو اسکے ماننے نہ ماننے سے کچھ نہیں ہوتا ، لہٰذا اس بارے میں زیادہ بولنا مناسب نہیں ،اس وقت چونکہ ظاہر ہے کہ انکے رشتے داروں کا بھی دل دکھے گا لیکن انکے جنازے کے اندر یہ روشن خیالی دکھادی، یہ انتہائی افسوسناک بات ہے۔
سمیع ابراہیم: بالکل آپ صحیح فرمارہے ہیں، ان کی جو ذات ہے انکے حوالے سے بات نہیں کررہے ہمارا زیادہ فوکس یہ ہے کہ انکے نماز جنازہ میں جو کچھ ہوا اس نے معاشرے میں جو پیغام دیا ، اس میں کیا آپ حکومت کو ذمہ دار نہیں ٹھہراتے ہیں کہ وہ اس بات کی اجازت دیتے ہیں ؟، یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے ، پاکستان کا جو آئین قانون اسلامی ہے ، قرآن پاک سے پاکستان کے لاز، قوانین جنریٹ ہوتے بنتے ہیں۔ تو کیا یہ ریاست کی ذمہ داری نہیں ہے کہ جہاں اسلامی شعائر کا مذاق اڑایا جارہا ہو وہ مداخلت کرے اور اس چیز کو روکے؟۔
مفتی نعیم: ریاست کے لوگ روشن خیالی پسند کرتے ہیں لہٰذا جب وہ خود ہی پسند کرتے ہیں مرد عورتوں کا ساتھ چلنا پھرنا، مذاق کرنا تو جب ریاست کے لوگوں کا بھی یہی کام ہے تو وہ کیسے ان کی روشن خیالی کی مخالفت کرینگے؟ ۔ علماء فوراً اس پر گرفت کرتے اور اسکے علاوہ قرآن و حدیث سے ان کو ثابت کرتے کہ یہ چیزیں غلط ہیں نہیں ہونی چاہئیں۔ باقی ریاست کے لوگ تو ایسے ہیں کہ ہمارے جو وزیر داخلہ گزرے ہیں ان کو سورہ اخلاص بھی نہیں آتی تو کسی کو سینیٹر بنادیا ہے کسی کو وزیر داخلہ بنادیا ہے اور میں چیلنج سے کہتا ہوں کہ اسمبلی کے اندر اکثریت کو ناظرہ قرآن پڑھنا نہیں آتا ،ہماری ریاست کو سارا جمہوری نظام جو بھی گدھا گھوڑا آجائے اس کو قومی اسمبلی کا ممبر بنادیتے ہیں ، میں سمجھتا ہوں کہ یہ سارا قصور ریاست کا ہے ، البتہ میڈیا کو چاہئے تھا کہ وہ علماء کو اسی وقت لائیو لیتے اور انتظار میں تھا کہ کوئی بات کرے تو میں بات کروں۔ لیکن آ پ حضرا ت کو توفیق اب ہوئی تو اللہ تعالیٰ آپ کو پھر بھی جزائے خیر دے کہ ایک پیغام دنیا تک پہنچارہے ہیں۔ اور دنیا کو پتہ چل رہا ہے کہ کہیں اگلے جنازے میں ایسا نہ ہو۔ اور مغرب کے اندر بھی یہ شروع ہوجائے گا۔ مغرب کے لوگ تو ویسے ہی روشن خیالی کو پسند کرتے ہیں۔ اسلئے میں سمجھتا ہوں کہ مؤثر انداز میں ان کی تردید ہونی چاہیے تاکہ آئندہ یہ سلسلہ جاری نہ رہے۔
تبصرۂ نوشتۂ دیوار: عتیق گیلانی
محترم سمیع ابراہیم پہلے ARYمیں تھے اور اب بول چینل میں آگئے ۔ ڈاکٹر عامر لیاقت نے بھی ARY کے بعد بول چینل میں کام شروع کیا تھا۔ جب بول سے نکالا گیاتو ڈاکٹر عامر لیاقت نے اپنے پیغام میں معافی مانگ لی کہ جس کی دل آزاری ہوئی ہے، مجھے معاف کردے، چینل نے مجھے مجبور کیا تھا، میرے اپنے خیالات یہ نہیں تھے۔ سمیع ابراہیم امریکہ کے آزاد معاشرے میں رہے ہیں اسلئے شاید اسلامی احکامات میں زیادہ حساس ہیں، یہ الگ بات ہے کہ حکمرانوں کا درد بھی پیٹ میں سمایا ہواہے تاکہ کوئی نہ کوئی بہانہ ان پر حملہ آور ہونے کیلئے تلاش کیا جاسکے۔ ملک وقوم اور اداروں کا وقار بلند کرنے میں عاصمہ جہانگیر جیسی آزاد منش شخصیات کا کردار ہوسکتاہے ۔ اس تناظر میں جنرل راحیل شریف ہوتے تو شاید عاصمہ جہانگیرکی نمازِ جنازہ میں بھی شرکت کرتے اور ان کو قومی اعزاز کیساتھ ہی دفن کرنے کا بھی اعلان ہوجاتا۔ پارلیمنٹ، فوج، عدلیہ اور اہم اداروں اورشخصیات کے علاوہ علماء ومفتیان کی بھی بڑی تعداد اس میں شریک ہوتی اور جماعتِ اسلامی کے امیر سراج الحق بھی پہنچ جاتے۔ جب مردوں میں جنازہ پڑھنے کی جرأت ہوتو خواتین کیلئے شرکت کی ضرورت باقی نہ رہتی۔ یہ تو اچھا ہوا کہ سیدفاروق حیدر مودودی نے جرأت کرلی ورنہ کسی عورت ہی کو یہ فریضہ ادا کرنا پڑتا۔ جنازہ تو نبیﷺ کا بھی باقاعدہ کسی نے نہیں پڑھایا تھا۔ مولانا طارق جمیل کہتے ہیں کہ ’’ اللہ نے خود ہی نبیﷺ کا جنازہ پڑھایا تھا‘‘۔ شکر ہے کہ جنازے میں سجدہ نہیں۔ جنرل باجوہ کے خلاف بھی عاصمہ جہانگیر کی طرح سے پروپیگنڈہ نہ ہوتا کہ قادیانی ہیں تو شاید وہ جنازے میں شمولیت کی جرأت کرتے۔ جنرل باجوہ کی وجہ سے علماء خاموش رہے۔ عوام کو یہ بھی پتہ چل گیا ہے کہ ’’ مفتی صاحبان وقت آنے پر یہ کہتے ہیں کہ قرآنی آیات کے منکرین کا بھی جنازہ ہوجاتاہے‘‘ حالانکہ قادیانی بھی تو آیت کی غلط تأویل کی وجہ سے کافر ہیں۔ مفتی نعیم صاحب کو شاید مغالطہ ہوا ہے، ورنہ فرزانہ باری نے حلالہ کے حوالہ سے کہا تھا کہ آیت میں بھی ہو تو حلالہ پر عمل کو نہ مانوں گی۔ اگرانصار کے سردارحضرت سعد بن عبادہؓنے لُعان کی آیت پر اپنی غیرت کی وجہ سے انکار کیا اور ان پر کفر کا فتویٰ نہیں لگا تو پروفیسر فرزانہ باری پر بھی نہیں لگ سکتاہے۔ مدارس میں حنفی فقہ کے اصول میں جس طرح سے لکھ دیا گیاہے کہ اس آیت سے حدیث متصادم ہے اور جمہور کامسلک متصادم ہے۔ وہ دیکھنے کے قابل ہے۔ سمیع ابراہیم صاحب کو پتہ چلے تو کبھی علماء ومفتیان نادانوں کو حکمرانوں کیخلاف اکسانے کی کوشش نہ کریں۔ قرآن وسنت کا بیڑہ غرق کرنے والے مذہبی طبقے نے اگر قرآن وسنت کی طرف توجہ کی تو عاصمہ جہانگیر دنیا سے چل دی مگر ان جیسی دیگر بہادرخواتین شانہ بشانہ ہوں گی۔

حلالہ کی لعنت سے قرآن مجید کی سنگین خلاف ورزی اور خواتین کی بدترین بے حرمتی

halala-ki-lanat-khawateen-ki-behurmati-dehshat-gardi-pakistan-ulma-ka-fatwa-asma-jahangir-hijr-e-aswad-na-mehram-molana-syed-suleman-nadvi-mufti-shafi-usmani

اس موقع پر لطیفہ اچھا نہیں مگر سوشل میڈیا میں طوفانِ بدتمیزی برپا کرنے والوں اور کم عقل علماء کی عقل کو ٹھکانے لگانے کیلئے حقائق ضروری ہیں۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں ہمارے استاذ قاری مفتاح اللہ صاحب نے لطیفہ سنایا کہ’’ ایک طالب علم نے عورت سے بدفعلی کی جس سے حمل ٹھہر گیا تو اسے کہا گیا کہ عزل کرلیتے ، طالب علم نے کہا کہ عزل مکروہ تھا لیکن بیوقوف نے یہ نہ دیکھا کہ حرام کا مرتکب ہوا اور مکروہ کا خیال آگیا‘‘۔ آج لگتا کہ بیوقوف طلبہ مسندِ علم و افتاء پر بیٹھ کر فتوے دے رہے ہیں۔یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا بلکہ اسلام کی تاریخ کے ہر دور میں علماء نے دین، علم ، ایمان اور اسلام کو بتدریج اجنبیت کی طرف دھکیلنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ سید سلیمان ندوی اور ابوالکلام آزاد نے تصویر کے بارے میں فتویٰ دیا تو کم عقل پیچھے پڑگئے، مفتی اعظم مفتی محمودؒ نے بینک کی سود سے زکوٰۃ کی کٹوتی پر فتویٰ دیا تو کم عقلوں نے نہیں مانا، مولانا سلیم اللہ خان و دیگر علماء ومفتیان کا فتویٰ آیاکہ اسلامی بینکاری کے نام پرحیلہ سازی جائز نہیں تو کم عقلوں نے نہیں مانا سودکے جواز والوں نے شادی بیاہ میں لفافے دینے کی رسم کو سود اور اسکے کم ازکم گناہ کو ماں سے زنا کرنیکے برابر قرار دینے کی مہم چلائی۔ حلالہ کے حوالے سے فتوؤں کی ضرورت ہے اور معاشرے کے اندر یہ بڑا سنگین معاملہ ہے جو قرآن و احادیث ،انسانی فطرت و شریعت کی خلاف ورزی ہے

halala-ki-lanat-khawateen-ki-behurmati-dehshat-gardi-pakistan-ulma-ka-fatwa-asma-jahangir-hijr-e-aswad-na-mehram-molana-syed-suleman-nadvi-mufti-shafi-usmani-2

پارلیمنٹ لاجز سے بھاگتی ہوئی برہنہ لڑکی کو سیکورٹی گارڈز نے پکڑ کر پھر حوالے کردیا، جمشید دستی

parliament-lodges-islamabad-barhana-larki-jamshed-dasti-deara-ismail-khan-jail-bhook-hartal-senators-of-pakistan-corruption-muhammad-bin-qasim

نوشتۂ دیوار کے خصوصی ایڈیٹر سید ارشاد علی نقوی نے کہا: پاکستان کی تشکیل اسلام کے نام ہوئی مگر اسلام سے علماء ومفتیان نہ صرف ناواقف تھے بلکہ خود بھی اسلام پر عمل نہیں کرنا چاہتے تھے۔ جب اللہ تعالیٰ نے رسول ﷺ کو حکم دیا کہ ’’ مسلمانوں سے زکوٰۃ لو ، ان کیلئے یہ تسکین کا ذریعہ ہے‘‘ تو نبیﷺ نے اقارب پر زکوٰۃ کو حرام قرار دیدیا۔خلیفہ اول حضرت ابوبکرؓ کی بیگمؓ نے تھوڑا تھوڑا بچاکر حلوہ بنایاتھا تو حضرت ابوبکرؓ نے اپنی اتنی تخواہ کم کردی۔ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی مسند پر بیٹھنے کے دعویدار حکمران کے دسترخوان پر گزارا کرتے ہیں، مولانا فضل الرحمن اور سراج الحق نے ابھی مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو بھی نہ چھوڑا ہے کہ اسلام کا راگ الاپنے لگے ہیں۔ یہ دھوکہ دہی کی انتہاء ہے ۔جمشید دستی کا تعلق پیپلز پارٹی سے تھا اور اب وہ قومی اسمبلی کی آزاد رکنیت رکھتے ہیں۔ پارلیمنٹ لاجز میں شراب و کباب اور برہنہ لڑکی کے بھاگنے کی ناکام کوشش پر مذہبی جماعتوں کو آواز اٹھانے کی ضرورت تھی لیکن جمشید دستی اٹھارہے ہیں۔ یہ بالکل اٹل حقیقت ہے کہ مذہبی سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ دُم چھلہ بن کر اپنا کردار ادا کیا ہے۔ مولانا سمیع الحق اور جماعت اسلامی کو یاد ہوگا کہ جب پیپلز پارٹی سے برگشتہ نیشنل پیپلز پارٹی کے لیڈر غلام مصطفی جتوئی کو اسلامی جمہوری اتحاد کا سربراہ بنایا گیا اور پھر الیکشن میں وہ ناکام ہوا۔ پھر سینئر نائب امیر مولانا سمیع الحق نے اسلامی جمہوری اتحاد پنجاب کے صوبائی رہنما نواز شریف کو ہی وزیر اعظم بنوایا۔ پہلے ایم آر ڈی میں شمولیت کی وجہ سے مولانا فضل الرحمن پر کفر و گمراہی کے فتوے لگائے جسکی وجہ پیپلز پارٹی کی ایم آر ڈی میں شمولیت تھی۔ پھر اسی پیپلز پارٹی والے کو ہی اسلامی جمہوری اتحاد کا سربراہ بنایا۔ نواز شریف نے مولانا سمیع الحق کے خلاف میڈم طاہرہ کا اسکینڈل میڈیا میں دیا۔ پھر جب امریکہ سے معین قریشی کو نگران وزیر اعظم بناکر لایا گیا اور اس نے قبائل کو بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ووٹ کا حق دیا۔ مولانا نور محمد وانا جنوبی وزیرستان پہلے جمہوریت کو کفر کہتے تھے اور پھر الیکشن میں جیتنے کا موقع ملا تو انتخاب لڑا۔ جیت کر نواز شریف کی کابینہ میں فلم انڈسٹری کے سینسر بورڈ کے وزیر بن گئے۔ اخبار اوصاف کے کارٹون میں ان کی اچھی تصویر کشائی کی گئی تھی۔ یہ لوگ علمی بنیادوں پر ہمت کرکے فرقہ وارانہ و فقہی مسائل کو حل کریں تو معاشرے میں خود بخود اسلامی انقلاب آجائیگا ۔ ورنہ سیاست میں منافقت کا بازار گرم رکھنے کے یہ ذمہ دار ہونگے۔

اسلام آباد آل پختون جرگہ کی شامِ غریباں کا احوال :پیرواحدشاہ

naqeebullah-mehsud-all-pakhtoon-jirga-islamabad-sham-e-ghariban-pir-roshan-south-waziristan-raja-ranjit-singh-asp-police-tank-dera-ismail-khan-2

(پیر عبد الواحد شاہ ، اسلام آباد) نقیب اللہ محسود کی شہادت کے سلسلے میں وزیرستان کی عوام کا دھرنا اسلام آباد پہنچا تو کئی دنوں تک یہ منظر دیکھنے کو ملا کہ قومی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے کوئی توجہ نہ دی۔ پھر عمران خان کی کسی نے دُم ہلائی تو وہ پہنچ گیا، پھر مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی نے بھی رونق بخشی ، پھر محسود قبائل کے ملکان اور علماء نے بڑا دھوکہ دیدیا۔ عاشورۂ محرم کے آخر میں بڑے بڑے ذاکر اورخطیب جلوہ افروز ہوتے ہیں ۔ پھر دس محرم کے بعد والی رات انتہائی خاموشی اور اندھیرے میں منائی جاتی ہے۔ جسے شامِ غریباں کہتے ہیں۔ جب سید عتیق گیلانی نے خطاب کیا تو دھرنے میں شامِ غریباں کا منظر تھا ۔ خطاب نے دھرنے میں نئی روح پھونک دی اور پھر سازش ہوگئی۔ لگتا یہ ہے کہ ایک طرف محسود قبائل دہشتگردی کے خلاف کاروائیوں سے بہت تنگ آچکے تھے اور نقیب اللہ محسود کی بے گناہ شہادت سے ایک بہانہ مل گیا۔ اسٹیبلشمنٹ پہلے ہی پولیس و سیاسی نظام کو مزید سہارا دینے کے موڈ میں نظر نہیں آرہی ہے۔ ایک منصوبے کے تحت پولیس افسرراؤ انوارکیخلاف دھرنے کی اجازت دیدی گئی۔ سارے میڈیا چینل ایک ہی راگ الاپ رہے تھے لیکن اسلام آباد کا دھرنا بالکل مختلف تھا۔ اس میں پولیس کے بجائے فوج کے رویے ، ظلم و جبر اور زیادتی کیخلاف آواز اٹھانا مقصد تھا اور اس میں ایک حد تک کامیابی بھی مل گئی۔ آئی ایس پی آر نے وطن کارڈ کے خاتمے کا اعلان کیا، لاپتہ افراد کو چھوڑ دیاگیا،عوام سے ہمدری کا اظہار کیا گیا۔ زینب قتل کیس کے بعد راؤ انوار کی مخالفت میں کراچی کے دھرنے سے نظام کیخلا ف انقلاب کی امید نے اسوقت دم توڑ دیا جب پیپلزپارٹی کے رہنماؤں نے شہباز شریف کی طرف سے زینب کے والد سے ملنے کی طرح نقیب اللہ کے رشتہ داروں سے ملاقاتیں کیں۔ شاہ زیب کیس کو بھی شاہ رخ جتوئی کیخلاف کس نے نقصان پہنچایا؟، کسی سے یہ ڈھکا چھپا معاملہ بالکل بھی نہیں ۔ بات کوسبھی جانتے ہیں۔
اسلام آباد دھرنے میں فوج کا کوئی عمل دخل نہیں تھا لیکن وہ اپنی مخالفت کے باوجود بھی اس دھرنے پر ناراض نہ تھے، اسلئے کہ ختم نبوت پر خادم حسین رضوی، حمیدالدین سیالوی کی ناکامی کے بعد ڈاکٹر طاہر القادری، عمران خان اور زرداری کا فارمولہ بھی ناکام ہوا تھا، زینب کے قتل پر بھی قوم کا ضمیر نہیں جاگ سکا تھا تو یہ واحد وسیلہ تھا کہ عوام میں انقلاب کا شعور برپا ہوجانا تھا، عمران خان گیا تاکہ دھرنے والے آرمی چیف جنرل باجوہ سے ملاقات کا ذہن بنائیں۔ پھر مولانا فضل الرحمن اور محمود اچکزئی نے آکر دھرنے کا رخ دوسری جانب موڑنے کی کوشش کردی۔
قبائلی ملکان وعلماء کے ذریعے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے دھرنے کے اصل محرک منظور پشتون کو طلب کیا، منظور نے عوام کا شکوہ سنایا تو وزیراعظم نے کہا کہ فوج ہمارے ساتھ بھی زیادتی کرتی ہے، نوازشریف کو دوتہائی اکثریت پر بھی ہٹادیا تھا اور پوری فیملی جلاوطن کردی تھی، اب بھی نااہل کیا ہوا ہے۔ اس ترانے کو سن کو منظور پشتون نے بھی قبائلی عمائدین اور علماء سے اتفاق کیا کہ دھرنے کو ختم کیا جائے ۔ منظور نے شرط رکھ دی کہ راتوں رات دھرنا ختم کرنے کے بجائے کل دن12 بجے دھرنے میں شریک سب عوام اور میڈیا کے سامنے حقائق رکھ دئیے جائیں لیکن وزیراعظم کے بیان نے سب کو اتنا خوفزدہ کیا تھا کہ زبردستی سے دھرنا ختم کرنے کا علان کیا، اسٹیج پہلے ہی سے ٹرالر کے کنٹینر پر تھا جس کو افراتفری میں چلاکر لے گئے۔ بعض جوانوں نے مزاحمت بھی کی جن میں کونسلر پیر نعمان شاہ بھی تھا۔
دوسرے دن انور سلیمان خان نے بھی شکستہ دلوں کو جیتنے میں کردار ادا کیا لیکن شامِ غریبان سے عتیق گیلانی کے خطاب نے جذبہ پیدا کیا، جب دودن بعد دھرنا عروج پر پہنچا تو مولانا فضل الرحمن نے دھرنے والوں کو ورغلانے میں خفیہ کردار اداکیا جسکے بعد فارمی بیل امیر مقام کی تحریر پر دھرنے کو ختم کرنے کا اعلان ہوا۔ عتیق گیلانی کو موقع ملتا تو ایک انقلاب برپا ہوسکتا تھا۔