دعوت اسلامی اور تبلیغی جماعت میں کون رشید؟
دار العلوم دیوبند کے اکابر نے پہلے فتویٰ دیا تھا کہ ’’لاؤڈ اسپیکر پر نماز و اذان نہیں ہوتی ہے‘‘۔ جس پر آج تک تبلیغی جماعت کے مراکز عمل پیراہیں۔ علماء کی طرف سے آہستہ آہستہ کھسک کھسک کر فتوے سے غیر اعلانیہ رجوع کیا گیا ۔ پہلے اس کو حرام قرار دیا گیا تھا، پھر مکروہ تحریمی قرار دیا گیا ، پھر مکرہ تنزیہی تک بات پہنچی اور پھر خلاف اولیٰ تک بات آئی۔ جس کی تبلیغی جماعت کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہوئی۔ علماء و مفتیان اعلانیہ طور پر اپنی غلطی تسلیم کرتے تو تبلیغی جماعت نے بھی کوئی افیون نہیں کھایا تھا کہ اس صورتحال سے نکل نہ پاتے۔ تصویر پر علماء و مفتیان کا رویہ بھی قابل قدر انداز میں نہیں بدلا۔ پہلے علامہ سید سلیمان ندویؒ اور آزادؒ کو رجوع کرنے پر مجبور کیا گیا ، پھر ہوش آیا تو تجارت اور سفر کیلئے اجازت دی گئی ۔
اب صورتحال واضح طور پر ہماری کتاب ’’جوہری دھماکہ‘‘ سے بدل گئی تو پھر مولانا طارق جمیل نے بھی میڈیا پر آنا شروع کردیا۔ ہونا یہ چاہئے تھا کہ امیر تبلیغی جماعت حاجی عبد الوہاب صاحب بھی میڈیا کی زینت بنتے۔ دعوت اسلامی کے مولانا الیاس قادری انتہائی سیدھے سادے اور علم سے عاری انسان لگتے ہیں مگر جب ان کو تصویر کے بارے میں معلومات حاصل ہوئیں تو فوراً میڈیا پر آگئے اور اب ان کو پتہ چل گیا کہ احادیث میں سنت عمامہ سیاہ اور سفید رنگ کا بھی ہے تو وہ اپنی شناخت پر بضد رہنے کے بجائے تبدیل کرنے کے عملی مظاہرے پر آگئے۔
اہل تصوف کا یہ کمال ہوتا ہے کہ وہ دل کو شیشے کی طرح صاف کردیتے ہیں۔ جب کوئی حق بات ان کے سامنے آتی ہے تو اس کو فوری طور پر قبول کرلیتے ہیں۔ اہل کتاب میں یہود اہل علم تھے اور نصاریٰ اصحاف تصوف اور رہبانیت والے۔ قرآن میں یہود کے مقابلے میں نصاریٰ کو اسی لئے مسلمانوں کیلئے نرم گوشے والا قرار دیا گیا ہے۔ مولانا عبید اللہ سندھیؒ حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ کے مشن پر تھے اور درس نظامی کو خیر باد کہہ کر اُمت مسلمہ کو قرآن کی طرف متوجہ کرنا چاہتے تھے۔ مولانا سندھیؒ نے سورہ فاتحہ کے ترجمے کی تفسیر میں لکھ دیا ہے کہ جن پر اللہ کا غضب تھا وہ یہود تھے جن کے پاس علم تھا مگر عمل سے محروم تھے اور گمراہ سے مراد نصاریٰ تھے جن کے پاس علم نہیں تھا مگر عملی طور سے وہ گمراہی کا شکار تھے۔ حضرت سندھیؒ بریلوی مکتبہ فکر کو نصاریٰ کی طرح گمراہ اور دیوبندیوں کو یہود کی طرح وہ سمجھتے تھے جن پر اللہ کا غضب ہے۔ جو سمجھ بوجھ کے باوجود بھی قرآن کی طرف رجوع کرنے پر آمادہ نہیں ہورہے تھے۔ آج طلاق سے حلالہ کے بغیر رجوع کا مسئلہ ہے اور دیکھتے ہیں کہ حضرت مولانا سندھیؒ کی بات درست تھی یا نہیں؟۔
اگر تبلیغی جماعت کے دل اپنی جماعت کی محنت سے صاف ستھرے ثابت ہوئے اور انہوں نے پہلے قرآن کی آیات پر عمل کرکے حلالہ کے غیر فطری فعل کو ناجائز قرار دیا تو مولانا سندھیؒ کی بات غلط ثابت ہوگی اور اگر دعوت اسلامی نے قرآنی آیات کی طرف رجوع کرکے حلالہ کی لعنت کو ناجائز قرار دیا اور رجوع کی گنجائش قرآنی آیات کے مطابق عدت کے حوالے سے مان لی تو مولانا سندھیؒ کی بات ہو بہو 100%درست ثابت ہوگی۔ دعوت اسلامی اور تبلیغی جماعت کی منظم جماعتیں اتحاد و اتفاق اور وحدت کی منزل طے کرنے میں بہت آسانی کے ساتھ اُمت کی کشتی کو درست راستے پر گامزن کرسکتی ہیں۔
ہم نے سب سے پہلے جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ میں حاضری دی اور ایک خٹک صاحب کو اپنی کتابیں بھی دے دیں۔ مگر افسوس کہ خٹک صاحب نے فون اٹینڈ کرنا بھی گوارا نہیں کیا۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئر مین مولانا محمد خان شیرانی کے سامنے بھی بار بار طلاق و حلالہ کے حوالے سے گزارشات رکھیں مگر معاملہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ متحدہ مجلس عمل کی پہلی تشکیل بھی ہماری محنتوں سے ممکن ہوسکی تھی ورنہ کسی میں مختلف فرقوں کے درمیان اتحاد و اتفاق کی جرأت بھی نہیں تھی۔ متحدہ مجلس عمل نے اگر اسلامی احکامات کے حوالے سے علماء و مفتیان کو اکھٹا کیا اور ان کی درست سرپرستی کی تو اسلامی انقلاب کا اچھے انداز میں آغاز ہوگا اور اگر مذہب کے نام پر سیاست اور مفادات کے چکر رہے تو سب کیلئے رسوائی کا خدشہ ہے۔ مولانا فضل الرحمن ذاتی طور سے مجھے جانتے ہیں اور جب ان پر کفر کا فتویٰ ایم آر ڈی کی وجہ سے لگا تھا تو اس کا دفاع میرے اشعار سے ہی ہوا تھا۔
جب علماء و مفتیان نے ہمارے مرشد حضرت حاجی محمد عثمانؒ پر انتہائی غلط اور گمراہ کن فتوے لگائے اور پھر ہمارے پاس بدلا لینے کا موقع بھی تھا اور مولانا فضل الرحمن نے بدلا لینے کی تلقین بھی کی تھی تب بھی ہم نے بدلا نہیں لیا پھر جب علماء و مفتیان نے حاجی عثمان صاحبؒ کے عقیدتمندوں کا اپنے عقیدتمندوں سے بھی نکاح کرنے کو ناجائز ، عمر بھر کی حرامکاری اور اولاد الزنا قرار دیا تب بھی ہمارا دامن انتہاء پسندی اور شدت پسندی سے داغدار نہیں ہوا۔ درشت لہجے میں بات تک نہیں کی البتہ مدارس کی مساجد میں جاکر فتوؤں کو چیلنج کیا ۔ اب جب حلالے کی ناجائز صورتحال پر وہ اپنے عقیدتمندوں کی عزتوں کو لوٹ رہے ہیں تو پھر لہجہ سخت سے سخت ہوتا جارہا ہے۔ اس کی ضرورت نہ رہے تو بہت اچھا رہے گا۔
مقتدر طبقات جس طرح سے پارلیمنٹ لاجز سے غریب بچیوں کی عزتوں کو لوٹنے والوں تک سب کو نظر میں رکھتے ہیں اسی طرح سے حلالہ کی لعنت کسی طرح بھی دوسرے جرائم سے کم نہیں ہے۔ جب اسلام کے نام پر اتنا بڑا فراڈ ہورہا ہے تو ہم قیامت میں اللہ کو کیا منہ دکھائیں گے؟۔ ہم بار بار لکھ چکے ہیں کہ قرآن میں بار بار یہ وضاحت موجود ہے کہ طلاق کے بعد باہمی رضامندی سے عدت میں رجوع ہوسکتا ہے ، عدت کی تکمیل پر بھی رجوع ہوسکتا ہے اور عدت کے عرصہ بعد بھی رجوع ہوسکتا ہے۔ صرف اس صورت میں دوسری جگہ شادی کا ذکر ہے جب میاں بیوی اور معاشرہ دونوں کو الگ کرنے پر باہوش و حواس مصرہو۔ جس کی بھر پور وضاحت قرآن کی آیات 229، 230البقرہ میں موجود ہے۔ یہ وہ صورت ہے کہ جب مسئلہ یہ نہیں رہتا کہ رجوع ہوسکتا ہے کہ نہیں بلکہ دونوں جدا ہونے پر بضد ہوں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عورت اپنی مرضی سے دوسری جگہ شادی کرسکتی ہے یا نہیں؟۔ شوہر عام طور سے حلالہ تو کرواتا ہے مگر اپنی مرضی سے طلاق کے بعد شادی نہیں کرنے دیتا۔ اس فطری مسئلے کو اللہ تعالیٰ نے حل کیا ہے۔ ایک ہی حدیث میں یہ ذکر ہے کہ نبی ﷺ نے رفاعہ القرظیؓ سے مرحلہ وار تین طلاقوں کے بعد جب عبد الرحمن القرظیؓ سے شادی ہوئی اور انہوں نے ایک دوسرے کو میاں بیوی کی طرح دیکھ بھی لیا جس میں یہ بھی ضروری نہیں تھا کہ پہلا شوہر دوبارہ بھی شادی پر راضی ہوگا اور اس میں بھی حلالہ کروانے کا کوئی تصور نہیں بنتا ہے۔ عتیق