حضرت ابوبکر اور حضرت عمر پر شیعہ اعتراضات اور باغ فدک کا مسئلہ اور عتیق گیلانی کے تسلی بخش جوابات
Shia object to Hazrat Abu Bakar and Hazrat Umar and the issue of Bagh-e-Fadik and satisfactory answers from Atiq Gilani
منگوپیر ہسپتال کراچی کے شیعہ سٹاف نرس جنس مرد فرمان علی کے سوالات کے تسلی بخش جوابات کی ایک ادنیٰ کوشش۔
قرآنی آیات کے درست ترجمے اور
تفسیر اُمت مسلمہ کے سامنے لائی جائے تو سارے مسلمان مخمصے سے نکل کر دنیا میں ترقی وعروج کی سب سے بڑی منزل پاسکتے ہیں۔اللہ تعالیٰ اتنا بھی
کمزور نہیں کہ امریکہ ونیٹو افواج کے ہوتے ہوئے طالبان سے قندھار ، کابل اور مزار شریف فتح نہیں کراسکتا تھا جونہی امریکہ گیا تو اللہ میدان میں کود گیا
محترم جناب سید عتیق الرحمن گیلانی صاحب! السلام علیکم
میرے مندرجہ ذیل سوالات کے تسلی بخش جوابات عنایت فرمادیجئے۔ جزاک اللہ خیر۔ از طرف ایک شیعہ فرمان علی
سوال نمبر1:_ ر سول اللہ ۖ کی تدفین میں حضرت ابوبکر، عمر اور عثمان شامل نہیں تھے ان لوگوں کو حکومت پر قبضہ کی فکر تھی۔ جواب
وعلیکم السلام ۔میرا پروگرام تھا کہ سنی بھائیوں کو یہ سمجھادوں گا کہ اہل تشیع کو کافر، مشرک ، گمراہ اور غلط کہنے کے بجائے ان کو ان کے عقائد اور نظرئیے سمیت اپنے سے زیادہ اچھا مسلمان سمجھنے کی کوشش کرو اور ہیں لیکن ان سوالات نے مجبور کردیا کہ پہلے اہل تشیع کی غلط فہمی کو دور کرنے کی کوشش بڑی ضروری ہے۔ افغانستان میں طالبان کی آمد کے بعد شیعہ کی آذان کو گستاخی قرار دیا گیا ہے اور کالعدم سپاہ صحابہ کے علامة الجہل اورنگ زیب فاروقی نے شیعوں سے کہا کہ تمہارے شناختی کارڈ پر بھی عمر لکھا ہوتا ہے، تمہارے باپ ، تمہاری ماں اور تمہاری بہن کے نام پر جب تک عمر نہ لکھا جائے تو شناختی کارڈ نہیں بن سکتا ہے۔
حضرت عمرفاروق اعظم سے مجھے محبت ہے ۔ میرے پہلے اور دوسرے بیٹے کا نام ابوبکر اور عمر ہیں۔ ہمارے قبرستان میں ہمارے بڑے شاہ محمد کبیر الاولیاء کے بیٹے کا نام بھی محمد ابوبکر ذاکرتھا۔ حضرت ابوبکرصدیق اور حضرت عمرفاروق اعظم نبی کریم ۖ کے دنیا ، قبر اور آخرت کے رفقاء اور صحابہ ہیں۔عراق اور سعودی عرب سے بھاڑہ لیکر ان کا دفاع کرنے والوں نے جس طرح صحابہ کے نام پر اپنا کاروبار شروع کردیا ہے ، اسی طرح سے شیعان علی نے حضرت علی اور اہل بیت کے ائمہ کو اپنے کاروبارکی وجہ سے بدنام کرکے رکھ دیا ہے۔
حضرت ابوبکر ، حضرت عمر اور حضرت عثمان سے کم محبت حضرت علی سے اسلئے نہیں کہ وہ ایک جلیل القدر صحابی کے علاوہ میرے جدامجد بھی ہیں اور ماحول سے متأثر ہونے کی ضرورت مجھے اسلئے نہیں کہ اورنگزیب بادشاہ نے اپنے باپ کو قید اور بھائیوں کو قتل کردیا اور تخت پر قبضہ کرلیا۔ 500علماء نے فتاویٰ عالمگیریہ مرتب کرکے یہ آئین لکھ دیا کہ ”بادشاہ قتل، زنا، چوری، ڈکیتی اور کوئی بھی مجرمانہ کردار ادا کرے تو اس پر کوئی حد اور سزا جاری نہیں ہوسکتی ہے”۔
فتاویٰ عالمگیریہ پر حضرت شاہ ولی اللہ کے والد شاہ عبدالرحیم کے بھی دستخط ہیں۔ شاہ ولی اللہ نے اپنے اور اپنے والد صاحب کے بارے میں جو مبشرات لکھی ہیں اور اسی طرح مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی کے مشاہدات ملاحظہ کئے جائیں تو لوگ شیعہ ذاکروں کے ائمہ اہل بیت کے حوالے سے سارے ہی مبالغوں کو بھول جائیں گے۔ اس میں شک نہیں کہ اگر حضرت شاہ ولی اللہ نے قرآن کا فارسی میں اور ان کے صاحبزادوں نے اردو میں ترجمہ نہیں کیا ہوتا تو ہم بھی قرآن کی طرف متوجہ ہونے کے بجائے اپنے اسلام کو عاشورہ محرم کے جلوس اور علامتی ماتم تک ہی محدود رکھتے۔ کیونکہ زنجیر زنی کا ماتم اہل تشیع کے اشرافیہ اور علامہ صاحبان نے بھی جاہل اور جٹوں تک ہی محدود رکھا ہے۔ جبکہ ہم جاہل اور گنوار نہیں ہیں۔ جس طرح اہل تشیع کے جٹ اور گنوار جذبات میں ماتم کرکے اپنا جسم چھلنی کردیتے ہیں لیکن اشرافیہ ذاکرین کو اپنے ساتھ ماتم اورخون بہاتے ہوئے نہیں دیکھتے بلکہ صرف ذاکرین پر پیسہ لٹانے اور معاوضہ دینے کی طرف توجہ دیتے ہوئے داد دیتے ہیں اور یہ بہت بڑی جہالت ہے۔ اسی طرح کالعدم سپاہ صحابہ کے کارکن یہ نہیں دیکھتے کہ علامہ اورنگزیب فاروقی جو بات کرتا ہے وہ درست ہے یا نہیں؟۔ بس داد ہی دئیے چلے جاتے ہیں۔ شناختی کارڈ میں عمر لکھا نہیں ہوتا بلکہ عمر لکھی ہوتی ہے۔ جب کراچی میں اردو والے اس کو نہیں ٹوکتے کہ الو کے پٹھے تم نے حضرت عمر مذکر بھی عمر مؤنث میں بدل دیا۔ اگر یہ بات شیعہ کرتا کہ عمر ہوتی ہے تو تم لوگ اس پر حضرت عمر کی توہین کا الزام لگادیتے۔ مفتی ڈاکٹر شیخ التفسیر، شیخ الحدیث مولانا منظور مینگل نے اورنگزیب فاروقی کی کتاب پر تقریظ لکھی جو مجھے کالعدم سپاہ صحابہ کے علامہ رب نواز حنفی کی طرف سے بطورِ تحفہ بھیجی گئی ہے۔ اس میں مولانا منظور مینگل نے لکھا ہے کہ اورنگزیب فاروقی کا نام تین لفظوں سے مل کر بناہے۔ اور، رنگ، زیب۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ زیب کا تو رنگ ہی اور ہے ۔ حالانکہ یہ جہالت کی انتہاء ہے۔ پھر تو ” اور، نگ ، زیب بنتا ہے”۔ یہ وہ گدھے ہیں جنہوں نے کتابیں لاد رکھی ہیں ۔ اُلٹی سیدھی حرکتوں سے علم کو بدنام کردیا۔
اگر حضرت ابوبکر اور حضرت عمر نے نبیۖ کی وفات کے بعد انصار سے خلافت کے مسئلے پر سیر حاصل بحث نہ کی ہوتی تو انصار ومہاجرین الجھ جاتے۔ قرآن وسنت نے صحابہ کرام کی ایسی تربیت نہیں کی تھی کہ مسلمانوں پر جو فرض کفایہ تھا کہ چند افراد بھی غسل اور تدفین کا فرض ادا کرسکیں لیکن پوری کی پوری امت اسی کام پر لگ جاتی۔ حضرت علی کی قبر کا بھی آج تک اسی لئے کوئی پتہ نہیں ہے کہ اس وقت قبروں کی اتنی اہمیت بھی نہیں تھی جتنی آج بنائی گئی ہے۔ اہل تشیع یہ نہیں سوچتے کہ رسول اللہۖ کے جن صحابہ کرام سے وہ اسلئے بہت زیادہ بغض رکھتے ہیں کہ نبیۖ کے غسل کو چھوڑ کر خلافت کے مسئلے میں لگ گئے تو شیعان علی نے تو حضرت علی کی قبر کا بھی خیال نہیں رکھا تھا؟۔ جنازے پر توخبریں مختلف ہوسکتی ہیں۔ شیعہ سنی کا نبیۖ کی وفات کے مہینے پر بھی اتفاق نہیں ہے۔ سنیوں کے نزدیک بارہ ربیع الاول ہے اورشیعوں کے نزدیک صفر ہے۔ اسی طرح نبی ۖ کی ولادت کے مہینے پر بھی دونوں کا اتفاق نہیں ہے۔
اگر قرآن وسنت میں قبروں اور ایام کی اتنی اہمیت ہوتی تو سب سے پہلے تو لاکھ سے زیادہ انبیاء کرام کی قبروں اور پیدائش ویوم وفات کو دریافت کیا جاتا ۔ پھر آج سب کی قبروں کی زیارات اور دن منانے کے علاوہ ہمارے پاس کچھ بھی نہ ہوتا۔ جس طرح ایک ہندو کیلئے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ اللہ نے قرآن میں گائے کو ذبح کرنے پر اصرار کیوں فرمایا؟۔ اور گائے ذبح کرنے میں حیل و حجت سے بنی اسرائیل نے اپنی مشکلات میں اضافہ کیوںکیا تھا؟۔ اسی طرح بہت معاملے اہل تشیع کو اپنے ماحول کے حساب سے سمجھانا بہت مشکل کام ہے۔
سوال نمبر2:__
حضرت علی علیہ السلام کو مقرر کردیا گیا تھا پھر حدیث قرطاس کی کوئی ضرورت نہ تھی اور حضرت عمر کی آواز ہمارے نبی ۖ سے بلند ہوگئی تھی۔
جواب_
اگر حضرت علی نامزد ہوچکے تھے تو پھر حدیث قرطاس کی ضرورت نہیں تھی؟۔ یہ تو اہل تشیع کے ہی خلاف بات جاتی ہے اسلئے کہ اگر حضرت علی کو نامزد کردیا ہوتا تو پھر حدیث قرطاس کی کیا ضرورت ہوتی؟۔ قرآن کے سورۂ حجرات میں جاہل لوگوں سے کہا گیا ہے کہ نبیۖ کوحجرات سے دور مت پکارو لیکن اس کا مطلب مطلق آواز بلند کرنا نہیں ورنہ تو پھر لاؤڈاسپیکر کے ذریعے تقریر اور آذان کی بھی اجازت نہیں ہونی چاہیے تھی۔ سورۂ مجادلہ میں ایک شرعی مسئلے پر نبیۖ سے ایک خاتون نے جھگڑا کیا اور اللہ نے عورت کے حق میں وحی نازل فرمائی ۔ اس سے اہل تشیع کا یہ عقیدہ باطل ثابت ہوتا ہے کہ نبیۖ سے کسی بات پر صحابہ نے اختلاف کیا تو وہ ناجائز تھا۔ قرآن میں متعدد امور کا ذکر ہے جن میں غزوۂ بدر کے قیدیوں پر فدیہ لینے کا بھی ذکر ہے۔ کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ حضرت علی و دیگر صحابہ کرام نے دنیا کو ترجیح دیدی اور اللہ نے فرمایا کہ” تم دنیا چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے”۔ بس بنیۖ اور صحابہ کرام نے دنیا کو طلب کیا اور آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ؟۔ شیعہ جس منطق سے صحابہ کے خلاف نتائج نکالتے ہیں اگر وہی منطق استعمال کی جائے تو پھر سارا دین تباہ ہوگا۔ قرآن میں حضرت آدم ، حضرت یونس اور حضرت موسیٰ کی طرف ظلم کی نسبت ہے اور یہ بھی فرمایا کہ اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا ۔ شکر ہے کہ اہل تشیع انبیاء کے پیچھے نہیں پڑے ہیں ورنہ انبیاء کو بھی قرآنی آیات اور اپنی منطق سے ہدایت کے قابل نہ سمجھتے ۔
اہل سنت نے ایمان مجمل اور ایمان مفصل میں انبیاء کو شامل کیا مگر صحابہ کو شامل نہیں کیا ۔ جب وحی کا سلسلہ جاری تھا تب بھی انبیاء کرام کی رہنمائی کا سلسلہ اللہ نے جاری رکھا لیکن اہل تشیع کے نزدیک وحی کا سلسلہ بند ہونے کے بعد بھی ائمہ اہلبیت سے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ۔ اگر اللہ ان کو اقتدار کے منصب پر فائز کردیتا تو مسلمان دنیا میں جمہوری روایات کی جگہ عجیب وغریب قسم کے نظام کا سامنا کرتے۔ جب نبیۖ نے امیر حمزہ کی شہادت کے بعد زیادہ انتقام کی بات فرمائی تو اللہ نے منع فرمایا۔ شیعہ کے ہاں خود ساختہ اقتدار کی صورت میں بدترین طرح کے انتقام لینے کی خواہش اسی لئے پائی جاتی ہے کہ وہ وحی پر زیادہ یقین کرنے کو بھی تیار نظر نہیں آتے ہیں۔ ایسے گنجوں کو کبھی اقتدار ملنا بھی نہیں۔ اولی الامر ایسا ہی ہونا چاہیے کہ جس پر تنقید کی گنجائش ہو اور اس سے اختلاف بھی کرنے میں کوئی دقت نہیں ہو اور یہی قرآن وسنت کا خلاصہ ہے اور آج ایران میں بھی اس پر عمل ہورہاہے۔ نبیۖ کے ذریعے اللہ نے قیامت تک یہی رہنمائی بھی کردی ہے۔ اب مسلمان اس پر عمل کریں یا نہ کریں۔
سوال نمبر3:_
جب ہمارے نبی ۖ علی کو جانشین بنائیں اور وہ قابل قبول نہ ہو تو ابوبکر نے عمر کو نامزد کردیا وہ کس طرح صحیح ہے؟
جواب_
یہ عوام کا کام ہے۔ عوام نے حضرت امام حسن ہی کو خلیفہ بنایا تھا لیکن جب امام حسن نے معاہدے کے تحت امیر معاویہ سے صلح کرلی اور یہ کہہ کر صلح کرلی تھی کہ میرے دشمن سے میرے شیعہ بدتر ہیں تو پھر عوام نے امیر معاویہ کی حکومت کو تسلیم کیا۔ اگر حضرت علی چاہتے تو ابوسفیان کی بات مان لیتے اور حضرت ابوبکر سے خلافت چھین لیتے۔ حضرت علی ، حسن اور اہلبیت سے زیادہ شیعہ ذاکرین اور علماء کو اپنی تقریروں کی فیسوں کی لت لگی ہو تو اس کا کیا علاج ہوسکتا ہے؟۔ مدعی سست گواہ چست اسی کو تو کہتے ہیں؟۔ حضرت علی نے ابوسفیان کی پیشکش کو نہ ٹھکرایا ہوتا تو حضرت ابوبکر سے خلافت حضرت علی کو منتقل ہوسکتی تھی اور امام حسن نے امیر معاویہ سے صلح نہ کی ہوتی تو بنوامیہ کا مسند پر قبضہ ناکام ہوسکتا تھا لیکن جب امام حسن اور آپ کے شیعہ بروقت کسی دوسرے فیصلے پر مجبور ہوں اور پھر چودہ سو سال بعد آپ پٹ کر کوئی اور بات کریں تو اس کا فائدہ کس کو پہنچے گا؟۔ اگر ائمہ اہلبیت اپنا بڑا بیٹا اپنا جانشین بنادے اور پھر وہ امام کی وفات سے پہلے فوت ہوجائے اور پھر امام اپنا دوسرا بیٹا امام مقرر کردے اور پہلے بیٹے کی اولاد اپنے حق کو برقرار ٍرکھ کر اپنا فرقہ بناسکتے تھے تو اقتدار ہاتھ میں ہوتا تو تلواریں بھی نکل سکتی تھیں اور مار کٹائی کا بازار بھی گرم ہوسکتا تھا۔ اللہ نے اہل بیت کوآزمائش میں ڈال کر اس گند سے محفوظ کردیا اور شیعہ غم کھاتے ہیں کہ اقتدار کی خاطر اورنگزیب کی طرح بھائیوں کو قتل کرنے والے ان میں پیدا کیوں نہیں ہوئے؟۔
سوال نمبر4:_
باغ فدک کیلئے حضرت فاطمہ علیہا السلام حضرت ابوبکر کے دربار میں جاتی ہیں تو ان سے گواہ مانگے گئے اور گواہوں کے طور پر اپنے شوہر حضرت علی اور حسنین کریمین کو پیش کیا مگر ابوبکر نے کہا کہ شوہر اور بیٹوں کی گواہیاں قابل قبول نہیں ہیں۔
جواب_
باغ فدک مال فئی تھا اور اس کے مصارف قرآن میں ہیں۔ زیب ِ داستان کیلئے بڑی کہانیاں بنائی گئی ہیں۔ کیا رسول اللہ ۖ قرآن کے منافی مال فئی اپنی بیٹی کو دے سکتے تھے؟۔ میں نے پہلی مرتبہ پڑھا کہ حضرت فاطمہ نے حضرت علی اور اپنے صاحبزادوں کو گواہی کیلئے پیش کیا تھا۔ ملکوک اور انبیاء میں یہ فرق ہوتا ہے کہ بادشاہ اپنے بیٹے ، بٹیوں اور دامادوں کو نوازتے ہیں جبکہ رسول ۖ نے اپنی بیٹی کو تسبیح فاطمہ عطاء کرکے امت مسلمہ کو قیامت تک اذکار سے نوازا تھا۔ یہ ایک حقیقت تھی کہ باغِ فدک کوئی موروثی جائیداد نہیں تھی ، اس مالِ فئی میں فقراء ومساکین ، عامة المسلمین مہاجرین وانصار کا بھی حصہ تھا۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ نبی ۖ نے اتنی بڑی جائیداد اپنی بیٹی کو تحفے میں عطاء کی ہو اور وہ بھی غریب اور مساکین کا مال؟۔ اگر بالفرض ایسا ہوجاتا تو کیا دنیا میں اس کو تحسین کی نظروں سے دیکھا جاتا؟ نبی ۖ نے صدقات کو بھی اپنے اقرباء پر حرام کردیا تھا۔ شیعہ حضرات صرف اور صرف اس بات کا بتنگڑ بنانے پر تل جاتے ہیں جس میں صحابہ کی طرف سے اہل بیت کی حق تلفی کا پہلو نظر آتا ہو اور اس میں تمام حقائق کو بالکل ہی بھول جاتے ہیں۔ اہل بیت کو اللہ نے دنیا نہیں آخرت کیلئے چن لیا تھا۔
سوال نمبر5:_
سورہ تحریم میں آیت نمبر 5میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ۖ سے فرمایا کہ ازواج مطہرات سے بہتر زوجہ دے سکتا ہوں اور سورہ تحریم آیت نمبر 10میں حضرت لوط اور حضرت نوح کی بیویوں کی مثال بھی دی ہے۔ آیت نمبر10اور 11حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ کے لئے آئی ہیں۔
جواب_
بطور تنبیہ بہت معاملات انبیاء اور نبیۖ کیلئے آئے ہیں۔سورہ ٔ عبس میں کیانبیۖ کیلئے تنبیہ کے منطقی نتائج یہ نکالے جائیں کہ نعوذ باللہ آپ ۖ نے یہ معمول بنایا تھا کہ سرداروں کی بے رغبتی کے باوجود انکی طرف توجہ فرماتے تھے اور غریب غرباء اور نابینا کی طرف سے دلچسپی رکھنے کے باوجود انکی طرف توجہ نہیں فرماتے تھے؟۔ کسی واقعہ سے سبق سیکھنے کے بجائے اپنے من چاہے مقاصد حاصل کرنا کوئی اخلاقی اور شرعی تقاضہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تنبیہ کرتے ہوئے توبہ کرنے کی تلقین فرمائی۔ اگربدر کے قیدیوں پر میدان جہاد سے فدیہ لینے تک کا سارا معاملہ واضح ہو اور اس پر گرفت نہ کی جائے تو سورۂ تحریم کے واقعہ پر کیوں کر گرفت کی جاسکتی ہے؟۔ بدر کے میدان میں مسلمان اسلئے نہیں اترے تھے کہ جہاد کریں بلکہ ابو سفیان کی قیادت میں قریش کا مال بردار قافلہ مقصد تھا۔ پھر اس قافلے کے تحفظ کیلئے آنے والوں سے اللہ نے سابقہ ڈال دیا۔ اللہ نے پورا پسِ منظر بیان کیا کہ کیسے اللہ نے دونوں لشکروں کو لڑادیا۔ پہلے دونوں کی نظروں میں ایک دوسرے کو کم کرکے دکھایا ۔ اگر اللہ ایسا نہ کرتا توبقیہ صفحہ نمبر3نمبر1پر
بقیہ شیعہ فرمان علی کے سوالات اور جواب
دونوں لڑنے سے گریز کرتے۔ پھر جب اللہ نے فرشتوں کے ذریعے مسلمانوں کو جیت عطاء کردی تو فدیہ لیکر اپنے اقارب کو چھوڑنے کا فیصلہ کیاگیا۔ جن کا مشورہ نبیۖ نے مان لیا۔ اسی پر وحی نازل ہوئی کہ ماکان للنبی ان یکون لہ اسرٰی حتی یثخن فی الارض تریدین عرض الدنیا واللہ یریدالاٰخرة ” نبی کیلئے مناسب نہیں تھا کہ آپ کے پاس قیدی ہوں یہاں تک خوب خون بہاتے۔ تم دنیا چاہتے ہو اور اللہ آخرة چاہتا ہے”۔ اگر یہ آیات نہ اترتیں تو مسلمان لوٹ مار اوراغواء برائے تاوان کو اسلامی احکام کا تقاضہ سمجھتے ۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ الزام لگادیا جائے کہ ان کا کام لوٹ مار اور اغواء برائے تاوان تھا۔ اسلام دشمن عناصرکے الزامات کا جواب ہم پرلازم ہے۔
جب مشرکینِ مکہ دشنمانِ اسلام نے مسلمانوںکے اموال اور جائیدادوں پر قبضہ کیاتھا ، خا نہ کعبہ کی زیارت حج وعمرے سے روکا تھا تو مسلمانوں کا یہ اقدام بھی معمول کے مطابق درست تھا۔ کئی گنا بڑے لشکر سے جنگ کے مقابلے میں مالدار قافلے کو لوٹنا یقینا زیادہ آسان ہدف اور ترجیح تھا۔اللہ تعالیٰ نے بجائے اس کے کہ قافلہ لوٹا جائے،ان کا سامنادشمن کے بڑے لشکر سے کرادیا۔ پھر جب فتح دیدی اورمسلمانوں نے مشاورت سے فدیہ لیکرچھوڑنے کا فیصلہ کیاتو اللہ تعالیٰ نے نبی ۖ کے فیصلے کونامناسب اورمسلمانوں کے مشورے کو دنیا چاہنے سے تعبیر کرکے واضح کردیاکہ اللہ تم سے آخرت چاہتاہے۔ اگراللہ پہلے سے لکھ نہیںچکا ہوتا توتمہیںدردناک عذاب کامزہ چکھا دیتا۔
نبی ۖ نے فرمایاکہ وہ عذاب اللہ نے مجھے دکھایا اور اگر یہ نازل ہوجاتا تو عمر اور سعد کے سواء سب کو لپیٹ میں لے لیتا۔حضرت عمرنے مشورہ دیا تھا کہ جوجس کا قریبی رشتہ دارہے وہ اپنے ہاتھوں سے اس کو قتل کردے۔حضرت سعد نے ان کی تائید کی تھی ۔ حضرت علیاپنے چچا عباس کو گرفتارکرنے کے بجائے قتل بھی کرسکتے تھے۔ اسی طرح دیگر صحابہ کے بھی اپنے قریبی رشتہ داران دشمنوں میں موجود تھے۔ اور یہ فطری بات ہے کہ قریبی رشتہ داروںکو قتل کردیناآسان کام نہیںہوسکتاہے۔مہاجرین نے اپنے وطن اور عزیز واقارب کوچھوڑ دیا تھا۔
حضرت علی کی ہمشیرہ حضرت ام ہانی اولین مسلمانوںمیںسے تھیں ۔ نبوت سے قبل نبیۖ نے آپکا رشتہ بھی حضرت ابوطالب سے مانگا تھا۔لیکن ان کا رشتہ ایک مشرک سے حضرت ابوطالب نے طے کیا تھا۔معراج کا واقعہ ام ہانی کے گھرمیں پیش آیا تھا۔حضرت ام ہانی نے مشورہ دیا تھا کہ اس کو لوگوں میں عام کرنے سے گریزکریں ورنہ ساتھیوں کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔حضرت ابوبکر نے زبردست انداز میںنہ صرف واقعہ معراج کی تصدیق کی تھی بلکہ تمام معاملات میںآگے آگے تھے۔ ابوطالب کواندیشہ تھا کہ نبیۖ کیلئے مشکلات کے پہاڑ کھڑے ہوسکتے ہیں اسلئے اپنی چہیتی بیٹی کا رشتہ نہیںدیا لیکن مشکلات کے پہاڑ کھڑے ہوگئے تو ابوبکرصدیق نے اپنی چہیتی بیٹی کا رشتہ دے دیا تھا۔ام ہانی نے اپنے شوہر اور بچوں کی خاطرہجرت کرنے کے حکم پربھی عمل نہیں کیااور ابوبکرنے اپنی بیوی بچوںکو چھوڑکر نبیۖ کیساتھ ہجرت کی تھی۔
دنیا کی چاہت صرف مال وولت نہیں ہے۔عزیز واقارب اور اپنے وطن کی بھی قربانی دینا بڑی بات ہوتی ہے۔ صحابہ کرام کے ان نفوس قدسیہ کا تزکیہ جس طرح کیا گیا تھاہم اپنے ماحول میں یہ سوچ صرف اس وقت رکھ سکتے ہیں جب فرقہ واریت کے ماحول سے دور ہم پرکچھ اس طرح کے مراحل سے گزریں۔اللہ نے وحی کے ذریعے انکا جس ماحول میںجس طرح کا تزکیہ فرمایا تھا وہ کمال کی بات تھی اور ہم اسکے غلط منطقی نتائج نکال کراپنی تباہی کے علاوہ کچھ اورنہیں کرسکتے ہیں اور ان سے حسن ظن رکھنا ہی ہمارے ایمان کی سلامتی کیلئے ضروری ہے۔
ہمارا گمان یہ ہے کہ صحابہ کرام نے اپنے رشتہ داروں سے زیادہ نبیۖ کے اقارب کاخیال رکھ کر معاف کرنے کا مشورہ دیا اور اللہ نے اسی کو دنیا کی طلب قرار دیا ۔ اگر اس وقت حضرت عباسقتل کردیے جاتے تو بنی امیہ کے بعد ان کی اولادکواسلئے اقتدار سپرد نہیں کیا جاتا کہ ابوطالب نے اسلام قبول نہیںکیا تھا اور عباسنے اسلام قبول کیا تھااسلئے علی کی اولاداہل بیت سادات سے زیادہ عباس کی اولاداقتدارکی مستحق ہے۔ ہجرت کے بعد حضرت علی نے اپنے مشرک بہنوئی کو قتل کرنا چاہا تھا لیکن نبیۖ نے روک دیا۔ حالانکہ اس میں بہنوئی کا کوئی بھی قصورنہیں تھا۔کیا اس واقعہ کی بنیاد پرحضرت علی کے خلاف مہم جوئی کیجائے؟۔
حضرت ابوبکر نے اپنے لئے کتنا وظیفہ مقرر کیا پھر اس میںبھی کٹوتی کی؟۔ حضرت عمرنے اپنے بیٹے کوزناکی حد میںکوڑوں سے مروادیااور مرنے کے بعد بھی کوڑے پورے کروادئیے۔اپنی وفات سے پہلے اپنے بیٹے کوخلافت کیلئے نااہل قرار دیا تھا۔ حضرت عثمان نے ہمیشہ اپنا مال اسلام اورمسلمانوں پر قربان کیا اسلئے بھونڈے الزامات اور بدظنی کی کوئی وجہ نہیں بنتی ہے۔ آیت میں حضرت عمر اورحضرت سعد کے علاوہ تمام صحابہشامل تھے اور نبیۖ کے فیصلے کو بھی نامناسب قرار دیا گیا ہے۔جس کی درست تفسیر کی ضرورت ہے۔
قرآن نے ایک طرف صحابہ کرام کا تزکیہ کرنا تھا، دوسری طرف جمہور کے فیصلے کی توثیق کرکے یہ واضح کرنا تھاکہ اقلیت کی رائے کی بھی تحقیر نہیں تعظیم ہونی چاہیے اور تیسری طرف یہ رہنمائی مقصودتھی کہ اولی الامر کی حیثیت سے نبیۖ باہمی مشاورت اور اکثریت سے فیصلہ کریں تو بھی اس پر مثبت تنقید کرنے کی بھی گنجائش ہے اور قیامت تک جب وحی کا سلسلہ بند رہے گا توکسی کو مطلق العنان ڈکٹیٹر اورمعصوم عن الخطا ء والاصلاح امام بنانے کی گنجائش ہر گز نہیں ہے۔
بدر کے قیدیوں سے فدیہ لینے کامعاملہ برقرار کھا گیا، تاکہ اولی الامرکے کسی بھی فیصلے کونامناسب سجھنے کے باوجوداس میں خلل ڈالنے کا راستہ بھی قطعی طور پر رُک جائے،ورنہ نظام مملکت نہیںچل سکے گا۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میںجہاں تزکیہ کے راستے کھولے، وہاں حکمت ودانائی کاسبق بھی سکھادیا۔ مشرکینِ مکہ نبیۖ کی رحمت للعالمین ذات کو سمجھتے تھے اور اللہ نے ان کو یہ بتانا تھاکہ فدیہ سے حوصلہ پانے کا معاملہ غلط ہے۔ ان آیات کے بعد دوبارہ مسلمانوں سے لڑنے کی اس اُمید کیساتھ ہمت نہ کرناکہ پھر فدیہ سے جان چھوٹ جائے گی۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کومخاطب کرکے جاہل دشمن کے دماغ کوٹھیک کرناچاہتاتھا۔قرآن کی بہت ساری آیات اس پر واضح دلیل ہیں۔
اگر ان آیات سے نبیۖ اور اکابرصحابہ کرامکی تنقیص شروع کی جائے تو اس کے نتائج ناانصافی اورگمراہی کے سواء اورکیانکلیں گے؟۔جب اہل تشیع تھوڑا مثبت سوچنا شروع کریں گے تودنیا اور آخرت میں بہت اچھے نتائج پائیںگے۔ حضرت علیکی حیثیت کسی سے کم نہ تھی۔قرآن وسنت کے مطابق بہت سے معالات پر آپ کے درست تحفظات تھے لیکن آپ نے اہل اقتدارکا ساتھ دیا۔ منافقت اورمجبوری نہیںبلکہ دل وجان سے خلافت کا ساتھ دیا تھا لیکن کچھ یارلوگوں نے ایسی داستانیں گھڑ دیں کہ ائمہ اہلبیت کی شخصیتوں کو بھی مسخ کرکے رکھ دیا گیا ۔ حضرت علی کی سیرت مشعل راہ ہے جس نے اپنی جگہ بڑا اہم کردار اداکیا۔ کیاکوئی کہہ سکتا ہے کہ مغل دورمیںاونگزیب عالمگیر سے کوئی اچھا آدمی نہ تھا؟۔ ایران، پاکستان، افغانستان،سعودی عرب اوردنیا بھرکے ممالک میںکوئی حکمران اپنے تمام رعایاسے اچھا ہے؟۔حضرت یوسف علیہ السلام اپنے وقت کے بادشاہ سے افضل ، زیادہ باصلاحیت اور ہر اعتبار سے اچھے تھے لیکن خزانے کی وزارت سے اس ملک اور قوم کی تقدیر بدل دی۔ علامہ سید جواد نقوی ایک کٹر شیعہ عالمِ دین ہیں اور ان کی بہت زبردست مثبت سوچ سے انقلاب آسکتا ہے۔
سوال نمبر6:_
حضرت محمد ۖ کی ایک ہی بیٹی تھی حضرت فاطمہ علیہ السلام ورنہ مباہلہ میں باقی 3بیٹیوں کو بھی لاتے۔
جواب_
کیا حضرت علی اپنے باپ کے اکلوتے بیٹے تھے؟۔ عقیل اورجعفر پھرعلی کے بھائی نہیںتھے؟اسلئے کہ مباہلے میںان کو شامل نہیںکیا گیا۔ قرآن میں واضح ہے کہ قل لازواجک وبناتک ونساء المؤمنین لیکن آیت مباہلہ میں ابنائنا ونسائنا وانفسنا کا ذکر ہے ، بنتک ایک بیٹی کا ذکر نہیں۔ مباہلے میں قربانی کا چیلنج ہے اور ابراہیم کی اسماعیل کے علاوہ بھی اولاد تھی ۔بنواسرائیل کے مقابلے میں بنو اسماعیل کوآزمائش کا سامنا کرنا پڑا۔ اگر ان کے علاوہ بھی کسی کو پیش کیا جاتا تو عیسائیوں ہی کی ہار ہوتی اور مسلمان بہر صورت جیت جاتے۔
سوال نمبر7:_
حضرت عثمان نے مروان کو چیف ایڈوائزر بنادیا تھا اور اس کو باغ فدک بھی دے دیا تھا۔ اور جتنی زکوٰة اور خمس جمع ہوتا تھا وہ بھی وہ لے جاتا تھا اور نبی ۖ نے اس کو اس کے باپ کو مکہ اور مدینہ سے باہر نکال دیا تھا۔
جواب_
ابوجہل کا بیٹا عکرمہ ایک سچا پکا صحابی بن گیاتھا تواس کا راستہ نبیۖ نے روکاتھا؟ ۔ وحشی نے امیرحمزہ کو شہید اورہندنے ان کاکلیجہ چباڈالاتھاتوان پر کوئی پابندی لگادی گئی تھی کہ اسلام قبول نہیں کرنا ؟۔اپنی سوچ ٹھیک کرلیتے۔ حضرت عمربن عبدالعزیزاسی مروان کے پوتے تھے جن کی اہل تشیع اوراہل سنت تعریف کرتے ہیں۔اگرموجودہ دورکے شیعہ ماتمی جلوس سے دست بردارنہیںہوسکتے ہیں جن میںعوام کیلئے زنجیر زنی اور ذاکرین کیلئے کمائی کے علاوہ کچھ نہیںہے تو وہ حضرت علی،حضرت حسن اور حضرت حسین کی موجودگی میں دین کی پامالی پرکیسے یقین کرلیتے ہیں؟۔حالانکہ حضرت عثمان نامعلوم افرادکے ہاتھوں یرغمال بناکر شہیدبھی کئے گئے؟۔کیا نعوذ باللہ اہل بیت صرف فتوحات کی مراعات کھانے کیلئے بیٹھے تھے؟۔ دشمنوں کے کھلے حملوں سے زیادہ دوستوں کے رقیق حملے خطرناک ہوتے ہیں۔اہل تشیع مسخ شدہ تاریخی روایات کا یقین کرکے اہل بیت کی کردار کشی کرنے والوں کو انکے دشمنوں سے بھی زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں۔
سوال نمبر8:_
قرآن میں اللہ نے فرمایا کہ آپ ۖ اپنے کام مشورہ سے کیا کریں تو کیا نبی ۖ کیلئے ضروری ہے کہ وہ صحابہ کے مشورہ پر عمل بھی کریں۔
جواب_
نہیں بالکل بھی نہیں۔ صلح حدیبیہ میں صحابہ کے مشورے پر عمل نہیں کیا گیا اور اس میں حضرت علی کی طرف سے رسول اللہ کے لفظ کو کاٹنے کاانکار بھی شامل تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس معاہدے کو فتح مبین قراردے دیا۔ جب حضرت عائشہ پر بہتان لگا تو حضرت علی نے طلاق دینے کا مشورہ دیا لیکن اللہ تعالیٰ کی وحی اس کے برعکس نازل ہوئی۔اللہ تعالیٰ نے قرآن میں واضح فرمایا کہ ”اگر تم اچھا گمان رکھتے اور کہتے کہ یہ بہتان عظیم ہے”۔اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ حضرت علی پر العیاذ باللہ بہتان لگانا شروع کردیں کہ اس مشکل وقت میں منشاء الٰہی کے خلاف مشورہ دیکر صحابیت سے خارج ہوگئے۔غلطیوں کی اصلاح بنی آدم کی کمزوری نہیں ان کی طاقت ہے۔ جس بات سے اللہ نے جنت میں منع کیا تھا تو اس کی خلاف ورزی ہوئی لیکن حضرت آدم کی عزت وشرف میں اضافہ ہوگیا۔ جب نبی کریمۖ نے صحابہ کی مشاورت پر بدری قیدیوں سے فدیہ لینے پر فیصلہ فرمایا تو اس کو نامناسب قرار دیکر اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو تقلیدکے دنگل سے نکالا تھا۔البتہ اس کا منطقی نتیجہ نکال کر رسولۖپرالزام تراشی بھی جائز نہیں ہے۔
سوال نمبر9:_
صحابہ جنگ اُحد میں نبی ۖ کو چھوڑ کر بھاگ گئے اور جگہ بھی چھوڑ دی اور اپنے سر منڈوانے سے بھی انکار کیا یہ کیسے صحابہ تھے۔
جواب_
اگر جنت سے نکالے جانے سے لیکر ہجرت کرنے تک ایک ایک چیز کو منفی انداز میں دیکھیں اور یہ کہنا شروع کریں کہ رسول اللہ ۖ اپنے نام سے رسول اللہ کے لفظ کوکاٹنے کا حکم دے رہے تھے اورعلی نے انکار پر اصرار کیا اور اس تضاد سے اسلام کو باطل کہنا شروع کریں تو کیا نتائج نکلیں گے؟۔ مثبت سوچیں۔
سوال نمبر10:_
حضرت عائشہ حضرت علی علیہ السلام کے مقابلے پر آگئیں۔
جواب_
حضرت عثمان کی شہادت پر قرآن میں بیعت رضوان بہت پہلے سے لی گئی تھی اور اس کی پاسداری کا حکم بھی دیا گیا تھا۔جب حضرت عائشہ پر بہتان لگا تھا تو اس میں بھی قرآن نے حضرت عائشہ کی برأت کا اعلان کیا تھا لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ حضرت علی پر بہتان طرازی کی جائے۔ جس طرح حالات کے گھمبیر ہونے کی وجہ سے حضرت عائشہ کے خلاف محاذ کھڑا کرنے پر منافقین اور مخلصین کے درمیان فرق وامتیاز ضروری ہے ، حالانکہ مخلص لوگ بھی بہت غلط استعمال ہوگئے تھے تو بعد کے ادوار کی لڑائی پر بھی اپنی حدود سے نکل کر سوچنے کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔ اسلام ، قرآن وسنت کے مزاج کوسمجھنا چاہیے۔جبکہ قرآن نے آپس میں لڑائی پر صلح کاحکم فرمایا اور واقعہ افک کی مذمت کی۔
سوال نمبر11:_
حضرت حسین علیہ السلام کا ساتھ کسی صحابی نے کیوں نہیں دیا؟۔
جواب_
لڑائی کا میدان اس معیار کانہیں تھا۔اکابر صحابہ جانتے تھے کہ جن لوگوں نے کوفہ میں حضرت علی کا ساتھ نہیں دیا بلکہ شیعان علی خوارج بن گئے۔ جوصرف اور صرف اسلئے بگڑ گئے کہ حضرت علی نے ایک شخص کو اختیار کیوں دیا۔ حضرت حسن نے اختیار سے بڑھ کر اپنے شیعوں سے زیادہ خطرہ محسوس کرتے ہوئے حکومت بھی سپرد کردی تھی۔ پھرشیعان حسین پرکوفہ میں کیسے اعتماد کیا جاسکتا تھا؟۔ اکابر صحابہ نے حضرت حسین کو ٹھیک مشورہ دیا تھا اورجب حضرت حسین گھیرے میں آگئے تو پھر کوفہ کی طرف جانے کا خیال بھی دل سے نکال دیا تھا۔ یزید نے خوف سے مکہ اور مدینہ کے اندر صحابہ کیساتھ بھی کوئی رعایت نہیں رکھی تھی۔ اہل تشیع کے دل ودماغ میں یہ بات بیٹھ گئی کہ جب حضرت علی، حسن اور حضرت حسین کیساتھ کوفی شیعوں کا برتاؤ درست نہیں تھا تو نبیۖ کے صحابہ پر بھی بدگمانی کرنے لگے۔ آدمی جیسے خود ہوتا ہے وہ دوسروں پروہی گمان رکھتا ہے۔
سوال نمبر12:_
معاویہ کو آپ رضی اللہ کہتے ہیں اس نے مولا علی سے جنگ کی اور یزید کو مسلط کیا اور اہل بیت کو گالیاں دلوائیں۔
جواب_
ہم تو حضرت سعد بن عبادہ کو بھی ایک جلیل القدر صحابی مانتے ہیں جنہوں نے حضرت ابوبکر و حضرت عمر اور مہاجرین کے خلاف مہم جوئی کا سلسلہ جاری رکھا تھا اور وہ ان کے پیچھے نماز تک نہیں پڑھتے تھے۔ حضرت معاویہ کو حضرت حسن نے مسلط کیا تھا اور نبیۖ نے صلح حدیبیہ کیا تھا تو کہاں کہاں تک بات پہنچے گی؟۔
سوال نمبر13:_
حدیث میں آتا ہے کہ میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ایک قرآن اور دوسرے میرے اہل بیت۔ اب ہم 11اماموں سے ہدایت نہیں لیتے ان کے بغیر قرآن سمجھ نہیں آسکتا۔ ان کی تعلیمات ہی ہم کو قرآن سمجھا سکتی ہیں مگر اس پر بالکل عمل نہیں ہورہا۔
جواب_
بارہویں امام ہزار سال سے زیادہ عرصہ ہوا ہے کہ غائب ہیں؟ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیںپھر قرآن پر عمل نہ کرنیکی ذمہ داری کس کے سر ہے؟
سوال نمبر14:_
حضرت عمر نے حضرت فاطمہ علیہ السلام کے گھر کو آگ لگادی تھی حدیث میں ہے یہ حکم حضرت ابوبکر نے دیا تھا وہ کہتے ہیں کاش میں یہ کام نہ کرتا یہ سنی کتابوں میں موجود ہے۔
جواب_
کیا حضرت علی نے نبیۖ کی ایک بیٹی کو بھی تحفظ فراہم نہیں کیا تھا؟۔ میں ایسی بزدلی پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہوں۔ اگر ابوسفیان جیسے لوگ حضرت ابوبکر کی خلافت کے خلاف سازش کرنے کیلئے وہاں آتے جاتے ہوں اور حضرت عمر نے ان کو دھمکی دی ہو تو یہ الگ بات ہے۔آج کے دور میں ویڈیو کے بھی ہوتے ہوئے کتنے غلط پروپیگنڈے چلتے رہتے ہیں۔ شیعہ کے خلاف کیا نہیں ہے؟۔
سوال نمبر15:_
حضرت حسن علیہ السلام کو معاویہ نے زہر دے کر شہید کروادیا اور حضرت عائشہ نے حضرت حسن علیہ السلام کو نبی ۖ کے پہلو میں دفن ہونے نہ دیا اور حضرت عائشہ کے حکم سے مروان ابن حکم نے جنازے پر تیروں کی بارش کروادی۔ جس کی وجہ سے وہ وہاں دفن نہیں ہوسکے۔
جواب_
کہانیاں چھوڑدیں،آئیں انقلاب لائیںاورپھر مجھے وہاں دفن کردیں۔ یہ منفی سوچ ائمہ اہلبیت کے شیعوں نے رکھی تو آخری امام کو حضرت خضر کی طرح منظر عام سے غائب ہونا پڑا اور ایرانی انقلاب کے بعد بھی منظرِ عام پر نہ آئے۔ آنے والے بارہ اماموں کا تصور شیعہ سنی دونوں کی روایات میں موجود ہے جن کو اقتدار بھی ملے گا۔ یہ سلسلہ درمیانہ زمانے کے مہدی سے شروع ہونا ہے۔
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv