پوسٹ تلاش کریں

مولانا فضل الرحمن نوازشریف کی چال سے ہوشیار کیوں نہیں ؟: عتیق گیلانی

نوازشریف نے شاہدخاقان عباسی کے ذریعے عمران خان کو اپنی مدت پوری کرنے کا سودا کرلیا ہے۔ نائی صحافی سید عمران شفقت نے بہت پہلے خبر بریک کی تھی اور اب راشد مراد مولانا فضل الرحمن کو مزید چونا لگانا چاہتا ہے۔

  پنجاب میں پرویز الٰہی سے زیادہ عثمان بزدار ن لیگ کے فائدے میں ہے۔ مریم نواز اور نوازشریف نے مزید فائدہ اُٹھانے کیلئے مولانا فضل الرحمن کیساتھ پی ڈی ایم (PDM)میں رہنے کا فیصلہ کیا

  تحریک انصاف اورپی ڈی ایم (PDM)میں ٹوٹ پھوٹ ایک بڑے انقلاب کا زبردست پیش خیمہ لگتا ہے۔ نوازشریف کے زرخرید صحافیوں کا ٹولہ پوری طاقت کیساتھ اپنا نمک حلال کررہاہے

 ہم نے پچھلے شمارے میں لکھ دیا تھا کہ ”سید عمران شفقت نے راز سے پردہ اٹھایا ہے کہ شاہد خاقان عباسی ڈیل کے تحت لندن گیا ہے۔ صرف ٹائم پاس کرنے کی حد تک سیاست رہے گی۔ عمران خان کو مدت پوری کرنے دی جائے گی اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہلکے پھلکے بیانات دئیے جائیں گے”۔

اس مرتبہ ہم نے اپنے کاغذ اور چھپائی کے خرچے کو بچانے کیلئے سیاست پر نہیں لکھا ہے اسلئے سوشل میڈیا کے ذریعے حقائق پہنچارہے ہیں۔ جب مریم نواز نے کہاہے کہ پنجاب حکومت کو ہم نہیں گرنے دیںگے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ عثمان بزدار کی جگہ پرویز الٰہی کے کردار سے ن لیگ کو زیادہ خطرہ ہے۔ دھرنوں کے ذریعے حکومت کے گرانے کا معاملہ ہو تو تحریک لبیک ، تبلیغی جماعت اور دعوت اسلامی میں زیادہ افراد جمع کرنے کی صلاحیت ہے۔ پیپلزپارٹی لانگ مارچ پر صرف احتجاج کی سیاست پر درست یقین رکھتی ہے اور دھرنے کی سیاست جماعت اسلامی، ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان نے امپائر کی انگلیوں پر اب تک کی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ کی سیاست کرنے والوں کو دھرنوں کی سیاست راست نہیں آ سکتی ہے۔

مولانا فضل الرحمن نے بڑی قوتوں کے پیچھے ہونے کا اشارہ دیکر عوام کومغالطہ دیا کہ اسٹیبلشمنٹ کے اندر سے لوگ ہمارے ساتھ ہیں۔ کھریاں کھریاں کے دروغ گو مرغے نے بعض فوجی افسران کے معطل کرنے ، جبری ریٹائرڈ منٹ اور نظر بندی کی آذانیں بھی دینا شروع کردی تھیں۔ راشد مراد آر ایم ٹی وی (RM.tv) نے جو ویڈیوز بنائی تھیں ،ان کا سارا ریکارڈ دیکھا جاسکتا ہے۔ فوج کو چاہیے کہ نوازشریف کو کھل کر بڑا پیغام دے کہ ان جھوٹے کتوں کو بھونکنے کیلئے ہم پر کیوں چھوڑا ہے؟۔ اسد درانی را کا ایجنٹ ہرگز نہیں ہے لیکن نوازشریف نے اسکے خلاف کیس سننے والے ارشد ملک کو جس طرح سے خریدا تھا تو کیا اسد درانی ایک مناسب قیمت کے تحت نہیں بول سکتا ہے؟۔ فوجی بیچارے تو بہت بھوکے ہوتے ہیں۔

جسٹس فائز عیسیٰ کی بیگم کو بھی لندن میں جائیداد کس نے دی ہے؟۔ ارشد ملک کا کسی جج یا صحافی نے کیوں نوٹس نہیں لیا؟۔ جسٹس شوقت صدیقی بتائے کہ پارلیمنٹ میں نوازشریف نے اپنے اثاثہ جات کی لکھی ہوئی تفصیل کسی جرنیل کے خوف سے پیش کی تھی؟۔ انصار عباسی، نجم سیٹھی اور دیگر اسلام پسند اور کامریڈ صحافی بتائیں کہ قطری خط کا مسئلہ کیا تھا؟۔ پیسہ پھینک تماشہ دیکھ ان لوگوں کا ضمیر نہیں بولتا بلکہ مسئلہ کچھ اور ہے اور ان سب کی صلاحتیں مول لی گئیں ہیں۔ جب نوازشریف اور اسٹیبلشمنٹ زرداری کے خلاف تھے تو انصار عباسی کہتا تھا کہ اسلام میں صدر کو استثنیٰ نہیں مل سکتا ہے ،ہمارا آئین اسلامی ہے اور صدر زرداری کا استثنیٰ غلط ہے۔ لیکن جب فوج پر تنقید کی بات آتی تھی تو انصار عباسی کہتا تھا کہ آئین میں فوج پر تنقیدنہیں ہوسکتی ۔ ہم نے اس وقت بھی انصار عباسی کی طرف سے اس بے ایمانی کو اسلام کے نام پر کھلواڑ قرار دیا تھا۔

بعد میں پتہ چلا کہ انصار عباسی کے گھر تک شہباز شریف نے کروڑوں روپے کا روڈ بناکر دیا ہے۔ شہبازشریف کی طرف سے صدر زرداری پر جسٹس خواجہ شریف کے خلاف قتل کی سازش کا افتراء کرنے میں بھی انصار عباسی نے کردار ادا کیا تھا اور نذیر ناجی نے اپنے خلاف سازش میں انصار عباسی کو کتے کا بچہ قرار دیا تھا۔

اسلام کے نام پر دہشت گردی اور سود کو جائز قرار دینے والے مفتی صاحبان بھی کم دھبہ نہیں کہ انصار عباسی بھی اپنا بوجھ اسلام کے کھاتے ڈال دے۔ رؤوف کلاسرا وغیرہ اچھے صحافیوں کو پیشکش کیوں نہیں ہوتی ہے؟۔

مولانا طیب طاہری نے کہاہے کہ مولانا فضل الرحمن کو مشکل وقت میں ساتھیوں نے چھوڑا۔جب انگریز نے خدائی خدمتگاروں کی لسٹ بناکر پٹائی شروع کردی تو ایک شخص نے کہا کہ مجھے بھی مارو۔ پولیس نے کہا کہ تمہارا نام لسٹ میں نہیں ہے ۔ اس نے کہا کہ لسٹ میں نہیں مگر میں ان کا ساتھی ہوں۔ جب پولیس نے مارا تو اس نے کہا کہ پہلے تو نہیں تھا مگر اب ان کا ساتھی بن گیا ہوں۔ سیاست سے مجھے دلچسپی نہیں ہے لیکن اگر میں مولانا فضل الرحمن کا ساتھی ہوتا تو ان کو تنہاء نہیں چھوڑ تا۔

مولانا طیب طاہری کا بھائی میجر عامر نوازشریف سے کچھ مراعات لیکر مولانا طیب طاہری سے یہ بیان دلوارہاہوگا۔ مولانا طیب طاہری نے طالبان کا ساتھی ہوکر بھی طالبان کیلئے مشکل وقت میں کونسی قربانی دی ہے؟۔ وہاں قربانی دیتا تو یہاں بھی امید اور توقع کرنے میں کوئی حرج نہیں تھی۔

مولانا فضل الرحمن ایک انسان ہے۔ اللہ تعالیٰ انسان کو موقع دیتا ہے۔ پہلے تو نوازشریف اور شہباز شریف نے لاہور میں ملاقات تک گوارہ نہیں کی تھی۔ پھر فائدہ اُٹھاکر ملک سے باہر گئے ۔ نوازشریف کے زر خرید صحافی سارا ملبہ زرداری پر ڈالتے ہیں لیکن نوازشریف، مریم نواز ، شہبازشریف یہ سب ایک ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری بھی ان سے بدرجہا بہتر ہے۔ شاہد خاقان عباسی کے ذریعے یہ سودا کرچکے تھے اور اب پرویزالٰہی کے خوف سے پنجاب میں بھی تبدیلی نہیں لانا چاہتے ہیں۔ فوج سے مراعات لینے کے چکر میں ایک مرتبہ پھر ن لیگ مولانا فضل الرحمن کو استعمال کررہی ہے۔ اگر ان سے کوئی پیسے وغیرہ نہیں لئے ہیں تو ان کو ازخود پھینک دیں۔

جمعیت علماء اسلام کی ساری تنظیم توڑ کر مولانا شیرانی کو مرکز یا بلوچستان میں ایک مرضی کی امارت دیدیں۔ امید ہے کہ وہ اس مرتبہ مرکز کی امارت آپ کیلئے چھوڑ دیں گے اور بلوچستان میں ان کو بلامقابلہ منتخب ہونا چاہیے۔ جنرل سیکرٹری کیلئے حافظ حسین احمد اور مرکزی وزیراطلاعات مولانا شجاع الملک اور پختونخواہ کا امیر مولانا گل نصیب کو بنادیں۔ جمعیت میں توڑ بالکل ہر قیمت پر ختم کردیں۔

پھر معاشرتی اور اقتصادی نظام کی تشکیل کیلئے جید علماء کرام کی کانفرنس کرنے کی مہم شروع کریں۔ جب انتخابات کا وقت قریب ہوگا تو جمعیت علماء پاکستان سمیت سارے دیوبندی ، بریلوی، اہلحدیث اور شیعہ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونگے اور ملک میں جمہوری بنیادوں پر ایک انقلاب کا آغاز ہوجائے گا۔

سیاسی جماعتوں کی قیادت میں وہی کچھ ملے گا جو عمران خان کو حکومت میں بھی دھکے کھانے پڑرہے ہیں۔ آئندہ انتخابات کی مہم چلانے میں سیاسی جماعتیں پیچھے پیچھے اور انقلابی اسلامی سیاست آگے آگے ہوگی۔ قوم پرست بھی پورا پورا ساتھ دیں گے اور اسٹیبلشمنٹ بھی پکار اُٹھے گی کہ یہ ملک بچانے نکلے ہیں، آؤ انکے ساتھ چلیں۔ ملک کی لوٹی ہوئی دولت لانے میں سارے کرپٹ مافیاز کے دل بھی خدا کے خوف سے پسیج جائیں گے اور ملک کی تعمیر وترقی میں پوری دنیا بھی زبردست ساتھ دیگی۔

 

NAWISHTA E DIWAR Feburary Breaking News 2021

www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv

#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

#breaking_news #BreakingNews

اسلامی بینکاری ایسٹ انڈیا کمپنی سے بہت زیادہ خطرناک ہے : عتیق گیلانی

کراچی،لاہور، اسلام آبادائیرپورٹس اور موٹروے گروی رکھ دئیے پھر کیاوزیراعظم ، گورنر اور وزیراعلیٰ ہاؤسز، قومی اور صوبائی پارلیمنٹ، سینیٹ ،GHQاورایٹمی پروگرام اسلامی بینکنگ کے تحت عالمی اداروں کے سپرد ہونگے؟
ہمارا پورا نظام ناکام ہے۔ PDMکی روحِ رواں مریم نواز سے حکومت وریاست کو ڈر نہیں مگر کریمہ بلوچ کی لاش سے ڈر لگاتھا اسلئے بہت شرمناک جبری طور پر خفیہ دفن کرنا پڑگیا؟
نوازشریف کے لندن فلیٹ ،رائیونڈ محل اور مفتی تقی عثمانی کے دارالعلوم کراچی سمیت تمام اثاثے ضبط کرکے قومی اداروں کو بازیاب کیا جائے۔ وزیراعظم بنی گالہ گھرکو گروی رکھوا دیں

 

جس طرح برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی نے مغل کی عظیم سلطنت کو شکست دیکر برصغیر پاک وہند کو فتح کرنے میں اپنا کردار ادا کیا تھا ،اس سے زیادہ خطرناک اپنے پاکستان میں نام نہاداسلامی بینکاری ہے۔ براڈ شیٹ کے دھوکہ بازوں سے حکمران شکست کھارہے ہیںتو عالمی مالیاتی اداروں کی گرفت سے کیسے بچ سکیںگے؟ ۔

نوازشریف نے پاکستان کے ائیرپورٹس اور موٹروے کو بھاری سودی قرضوں کے تحت گروی رکھوادیا ہے اور اب وزیراعظم عمران F9پارک اسلام آباد یا کلب کو نام نہاد اسلامی بینکاری کے نام سے گروی رکھنا چاہتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کا یہ کہنا کہ پبلک پارک کے بجائے اسلام آباد کلب کو گروی رکھوانا چاہیے، سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ لگتا ہے۔ اب عوام تالیاں بجائیں گے کہ اسلام آباد کلب افسروں کی تفریح گاہ ہے ،اچھا ہوا کہ پبلک پارک کو بچالیا گیا۔ پھر جس پارلیمنٹ پر لعنت کی گئی تھی اور جس وزیراعظم ہاؤس اور گورنر ہاؤس کو گرانے کی بات کی گئی تھی اس کیلئے اعلان کیا جائیگا اور لوگ اس کا خیرمقدم کریں گے۔ پھر فضاء ایسی بنائی جائے گی کہ جب پارلیمنٹ اور سول لیڈر شپ ہاؤسز گروی ہیں تو GHQکو بھی گروی رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ بہت بڑا کمال سمجھا جائیگا کہ فوج سے بھرپور بدلہ لے لیا گیا۔

پھر ہمارے تمام دفاعی مراکز بشمول ایٹمی ٹیکنالوجی کو بھی آخر کا ر ملک چلانے کیلئے گروی رکھ دیا جائیگا اور جب دینے کیلئے کچھ نہیں بچے گا تو امریکہ کی فوج ہمارے سرکاری مراکز پر قابو پالے گی۔ لوگ کہیں گے کہ انگریز نے ہمارا یہ سول وملٹری پورا اسٹرکچر بنایا تھا ،وہی ان کالی چمڑی والے بلیک انڈین سے بدرجہا بہتر ہیں۔ جب اپنے حریف ہندوستان کے سامنے جنرل نیازی کا ہتھیار ڈالنا مجبوری تھا تو انگریزی سرکار کے قدموں میں اپنی ناک کی نکیل ڈالنے میں کیا حرج ہوسکتا ہے؟۔

مفتی محمد تقی عثمانی کو عام معمولات کے مطابق درست فتویٰ لکھنا نہیں آتا ہے تو اس کو شیخ الاسلام کس قاعدے ،کلیے کے تحت کس اُلو کے پٹھے نے بنایا ہے؟۔کراچی کے تمام بڑے مدارس سمیت ملک بھر کے علماء ومفتیان نے نام نہاد اسلامی بینکاری کے غیر اسلامی اور سودی ہونے پر اتفاق کیا تھا لیکن عالمی قوتیں مفتی تقی عثمانی کو سپورٹ کررہی تھیں۔ دنیا کے چند طاقتور ترین انسانوں کی لسٹ میں اس کا نام ڈالا جاتا تھا۔ جب علماء ومفتیان نے دیکھ لیا کہ ہماری مخالفت کا اس کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے تو مایوس ہوکر بیٹھ گئے۔ عالمی مالیاتی اداروں نے مفتی تقی عثمانی کو جتنا معاوضہ دیا ہے اور اس پر اسلامی بینکاری کے نام سے جو کچھ کمایا ہے وہ سب بحقِ سرکار ضبط کیا جائے اور اس رقم سے پاکستان کے قیمتی اثاثوں کی عالمی مالیاتی اداروں سے جلدجان چھڑائی جائے۔ نوازشریف کے پاکستان اور لندن سمیت دنیا بھر کے تمام اثاثوں کو ضبط کیا جائے اور ان سے بھی پاکستان کے قومی اداروں کو بازیاب کیا جائے۔

جب پرویزمشرف نے پاکستان کے ایک بینک کو اونے پونے فروخت کیا تو عبدالوہاب بلوچ کے بیان کو ہم نے شہہ سرخی بنادیا تھا۔ پھر اسٹیل مل کو بیچا جارہاتھا تو اس کے خلاف شہہ سرخی لگائی تھی جس کے بعد افتخار محمد چوہدری چیف جسٹس آف پاکستان نے ازخود نوٹس لیکر معاملہ رکوادیا تھا۔ عمران خان نے ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن اسٹیل مل کے ہزاروں ملازمین اور اسلام آباد میں زندگی کھپانے والی خواتین ٹیچرز سمیت کتنے لوگوں کا روز گار چھین لیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو احساس اسلئے نہیں ہے کہ دودھ پینے اور سکول جانے والے بچے سمیت اس کے سرپر کوئی بوجھ نہیں ہے اور وہ پھر بھی کہتا ہے کہ میں اپنی تنخواہ سے گزارہ کررہاہوں۔ سوچ لیں کہ جنکے پاس اپنا گھر نہیں ، کرایہ پر رہتے ہیں اور دودھ پینے والے بچے اور ڈلیوری والی بیگمات اور سکول جانے والے بچے بھی ہیں تو انکا چند ہزار میں گزارہ کیسے ہوگا جبکہ وزیراعظم کاتنہا بیگم کیساتھ مشکل سے گزارہ ہوتا ہے؟۔

پوری دنیا کی نظریں پاکستان پر ہیں کہ جہاں کی فوج اور خفیہ ایجنسی عالم اسلام میں نمبر1ہے۔ واحد ایٹمی طاقت ہے۔ بہت کم تنخواہوں پر فوج، پولیس، ڈاکٹر، ٹیچر، ملا ، مجاہد، سیاسی ورکر اور کاشتکار وغیرہ کیلئے ملازم مل جاتے ہیں۔ مفت میں مذہبی گروہ پلتے ہیں، حلالہ بھی کرواتے ہیں ،پیسے بھی دیتے ہیں اور بلیک میل بھی ہوجاتے ہیں۔ اگر اس ملکِ خداداد کا کنٹرول سنبھالا جائے تو عائشہ صدیقی کی کتاب نے دنیا کو یہ بتادیا ہے کہ سب سے منافع بخش ادارہ فوج ہے جو 7یا 10کروڑ روپے پر بھی روڈ کا ٹھیکہ لے لے تو ڈیڑھ کروڑ میں ٹھیکہ دار سے بنوالیتی ہے۔ بلڈنگ اینڈ روڈ کا ٹھیکہ بھی برا نہیں کہ 3کروڑ میں بمشکل فی کلومیٹر اسٹیمیٹ لگاتے ہیںاور ڈیڑھ کروڑ بھی نہیں لگتے ہیں۔ پولیس کے کرائم والے تھانے بھی بھاری قیمت پربکتے ہیں۔

محکمہ ہیلتھ ہو یا جنگلات ، تعلیم ہو یا عدالت بس لوگوں سے پیسہ ہی پیسہ بٹورنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ہر محکمہ میں نوکری کیلئے رشوت، پولیو میں اربوں کا اسکینڈل اور ہر ادارہ عوام کا خون نچوڑ کر وصولی کرنے میں دمادم مست قلندر ہے۔سیاستدان کا تو کوئی مقابلہ بھی نہیں کرسکتا ہے۔ فوجی جرنیل ، عدلیہ کے جج اور اعلیٰ بیوروکریسی کے افسران بھی ملک وقوم کو چونا لگانے میں ماہر پیسہ خوری ہوتے ہیں۔ جعلی ادویات سے بھی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے نام پر بہت کمائی ہے۔ یہ وہ قوم ہے جو کرونا سے بھی مرنے سے بچ جاتی ہے اسلئے کہ آلودہ پانی، جعلی ادویات اورزہریلی غذائی اشیاء نے ان کے معدے کا نظام لکڑ پتھر ہضم والا بنادیا ہے۔ ان کی آنتیں لوہے کی بھی نہیں جو زنگ کھا جائیں بلکہ اسٹیل اور پلاسٹک کی ہیں۔ اس قوم کے جاہلوں کو ہی نہیں پڑھے لکھوں کو بھی پیر ٹھگ لیتے ہیں۔ بینظیر بھٹو اور نوازشریف بھی تنکے والے ننگے بابا سے ڈنڈیاں کھا کھا کر حکومت لینے کی توقع پر پہنچتے تھے ۔ ایاک نعبد وایاک نستعین والا طالبان خان بھی پاک پتن کے مزار پر چوپائے کی طرح کھڑا ہوا، بس ایک دُم نہیں تھی جس کو ہلانا شروع کردیتا۔ پاکستان جیسی قوم پوری دنیا میں کوئی نہیں اللہ پاک کی قسم!

بس جن لوگوں کے ہاتھ میں اقتدار کی باگ ڈور ہے یہ بہت کم عقل ہیں ۔ ان کو عقل ہوتی تو نوازشریف، بلاول بھٹو، عمران خان ، زرداری ، شہبازشریف، پرویز خٹک، امیر مقام، جام کمال……… رہنما ہوتے؟۔ ان زندوں سے کریمہ بلوچ کی لاش بھی زیادہ قابلِ رشک تھی جس سے مضبوط پاکستان نے خطرہ محسوس کیا اور لوگوں کو دکھائے بغیر دفن کردیا۔ حبیب جالب نے کہا کہ ”ڈرتے ہیں بندوق والے اک نہتی لڑکی سے”۔ مگر جب بینظیر اقتدار میں آئی تو جالب کا شعر پسند نہیںآیا کہ” ہربچہ ہے ہزاروں کا مقروض پاؤں ننگے ہیں بینظیروں کے”۔ اگرجالب زندہ ہوتے تو کریمہ بلوچ پراپنے اشعار سے بلوچوں کی نفرت کو پنجاب کی محبت میں بدل ڈالتے۔

مدارس اب گمراہی کے قلعے بن چکے ہیں اور ان کی اصلاح اب ضروری ہوچکی ہے۔

رعایا اور حکمران کے درمیان اعتماد، تعلقات ، حقوق وفرائض اور الفت ومحبت کی درست حقیقت سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ میاں بیوی کے حوالے سے قرآن وسنت اور معاشرے میں اسلام کے مسخ شدہ تصورات کے علمی حقائق کو سمجھیں

مدارس قرآن وسنت کو سمجھنے کیلئے رشد وہدایت کی پہلی اور آخری منزل ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اب گمراہی کے قلعے بن چکے ہیںاور ان کی اصلاح اب ضروری ہوچکی ہے۔

امریکہ، اسرائیل اور مغرب مدارس کے دشمن ہیں لیکن وہ دشمنی سے اتنا نقصان نہیں پہنچاسکتے ہیں جتنا مدارس کے اپنے ارباب اختیاراور اہتما م وفتویٰ اپنی غلطیوں سے پہنچا رہے ہیں!

بریلوی دیوبندی مدارس میں درسِ نظامی کی تعلیم کا نصاب ایک ہی ہے۔ امامِ انقلاب مولانا عبیداللہ سندھی نے قرآن کے آخری پارہ عم کی اپنی تفسیر ”المقام المحمود” میں سورة القدر کی تفسیر میں لکھا ہے کہ ” سندھ، پنجاب، سرحد، بلوچستان، کشمیر اور افغانستان میں جس قدر قومیں بستی ہیں یہ سب امامت کی حقدار ہیں۔ اگر ہندو پوری دنیا کو ہمارے مقابلے میں لے آئیں تب بھی ہم اس خطے سے دست بردار نہیں ہونگے۔ اسلام کی نشاة ثانیہ اب عجم سے ہوگی اور اس کا مرکزی علاقہ یہی ہے۔ امام ابوحنیفہ کے مسلک کے سواء یہاں کے لوگ کوئی دوسرا مسلک قبول نہیں کرینگے۔ امام ابوحنیفہ ائمہ اہلبیت کے شاگرد تھے اسلئے شیعہ اور ایران بھی اس انقلاب کو قبول کرلیںگے”۔

پاکستان کی آزادی سے پہلے مولانا سندھی وفات پاگئے ۔مولانانے لکھاہے کہ ”قرآن کا معجزہ عربی الفاظ نہیں بلکہ وہ مفہوم ہے جس کی وجہ سے مردہ قوموں میں زندگی پیدا ہوتی ہے”۔ امام ابوحنیفہ نے عربی پر عبور رکھنے کے باوجود نماز کو فارسی زبان میں پڑھنے کی اجازت دی۔ حنفی مکتب نے درسِ نظامی میں اس کی یہ توجیہ پیش کردی ہے کہ ” امام ابوحنیفہ بڑے اللہ والے تھے۔ قرآن کی عربی تلاوت میں حسنِ قرأت کی سجاوٹ بندے اور اللہ کے درمیان پردہ حائل کرتی ہے اسلئے فارسی میں نماز کو جائز قرار دیا۔ دوسرا یہ کہ رسول اللہۖ نے بعض فارسی الفاظ پر تلفظ فرمایاتھا اسلئے فارسی میں نماز پڑھنے کو جائز قرار دیا تھا” ۔ (نورالانوار : ملاجیون ۔ نصاب درس نظامی )

مجلس احرار کے چوہدری افضل الحق نے پولیس کی نوکری چھوڑ کر حکومت مخالف تحریک آزادی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ چوہدری افضل الحق نے اپنی کتاب ” دین اسلام ” میں مذہب ، قومی، مادری، علاقی اور سرکاری اعتبار سے زبان کے مسئلے پر علماء کے نصاب سے زیادہ بہتر باتیں لکھی ہیںکہ” ہماری مادری زبان کچھ ہے، رابطے کی زبان کچھ ہے، مذہبی زبان کچھ ہے اور سرکاری زبان کچھ ہے جس کی وجہ سے یہ قوم ترقی نہیں کرسکتی ہے”۔

بنگلہ دیش نے اردو کے بجائے بنگالی زبان کو پاکستان کی قومی زبان قرار دینے پر زور دیا لیکن قائداعظم نے ان کا مطالبہ مسترد کردیا تھا،البتہ بنگال کیلئے قومی زبان بنگالی قرار دینے کی اجازت دی تھی۔ تحریکِ پاکستان کا آغاز بنگال سے ہوا۔ سندھ اسمبلی سے بھی پاکستان بنانے کی قراراداد پاس ہوئی تھی اور سندھ میں سرکاری زبان بھی سندھی ہے۔ پنجابی، پشتو اوربلو چی پہلے سے عام ہوتی تو سندھ کی طرح پنجاب، پختونخواہ ، بلوچستان کی علاقائی زبان بھی سرکاری ہوتی، سندھ کے شہری علاقوں میں مہاجرین کی وجہ سے اردو بالکل عام ہوگئی اور اب میڈیا چینلوں کی وجہ سے پاکستان میں اردو عام ہوئی ہے۔

قائداعظم محمد علی جناح کو خود بھی اُردو نہیں آتی تھی۔ مادری زبان کی اپنی بڑی اہمیت ہے۔ اللہ نے قرآن میں فرمایا کہ ” اور ہم نے کسی رسول کو نہیں بھیجا مگر اس کی قوم کی زبان سے ، تاکہ پیغام انکے سامنے واضح کردے”۔ یہ ہماری تاریخ کا المیہ ہے کہ ایک طرف حنفی درسِ نظامی میں پڑھارہے تھے کہ عربی پر قدرت کے باجود نماز فارسی میں پڑھنا جائز بلکہ بہتربھی ہے اور دوسری طرف جب حضرت شاہ ولی اللہ نے فارسی میں قرآن کا ترجمہ کیا تو ان کو علماء نے واجب القتل قرار دیا جس کی وجہ سے دوسال تک روپوش رہنا پڑا تھا۔ پھر ان کے بیٹوں نے اردو کا لفظی اور بامحاورہ ترجمہ کیا ۔ دوسری زبانوں میں بھی قرآن کے ترجمے ہوگئے اور جب پنجابی اور پٹھانوں کے ملے جلے علاقہ سے ایک عالم دین نے پشتو میں قرآن کا ترجمہ کیا تو اُن پر کفرکا فتوی لگا دیا گیا۔ سندھی میں تو شاہ ولی اللہ سے بھی بہت پہلے قرآن کا ترجمہ ہوچکا تھا اور سندھ میں جمعہ کا خطبہ بھی عربی میں نہیں سندھی میں پڑھا جاتا ہے۔

عورت زبان دراز ہوتی ہے مرد ہاتھ چھوڑ ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتیں زبان دراز اور پاک فوج ہاتھ چھوڑ ہے۔ پنجاب کی عوام زبان کی تیز اور پٹھان کا ہاتھ اُٹھ جاتا ہے۔ پختونخواہ سے زیادہ فرقہ وارانہ اور جہادی تنظیمیں پنجاب میں تھیں لیکن پختونوں نے ایکدوسرے کا کباڑہ کرلیا۔ مریم نواز نے عمران خان اور پاک فوج کو زبان درازی سے آڑے ہاتھوں بہت لیا لیکن محمود خان اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن عمل سے انقلابی بن رہے ہیں۔

اگر نکاح وطلاق پر حقوق وفرائض کی آیات سے عوام کو آگاہ کیا گیا توپھر گھریلو تشدد، نا انصافی اور ناچاقی کا خاتمہ ہوگا اور طلاق سے رجوع کا رحجان معاشرے میں پروان چڑھے گا۔حکمرانوں اور باغی قوتوں کے درمیان بھی سمجھوتہ ہوسکے گا۔ جب دل ٹوٹتا ہے تو آنسو پھوٹتا ہے اور تعلق چھوٹتا ہے پھر شوہر بیوی کو ، حکمران رعایا کو کوٹتاہے، نصیب روٹھتا ہے اور طاقتور لوٹتا ہے ،اپنے معاشرے میں گھریلو حالات سے ریاستی معاملات تک بگاڑ آچکا ہے۔ ہماری کوشش یہی ہے کہ کسی طرح اصلاحِ احوال کی طرف قوم متوجہ ہوجائے اور پاکستان کی تقدیر بدل جائے۔

علماء ومفتیان یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیںکہ سب کو چھوڑ کر ہمارے پیچھے کیوں پڑے ہو؟۔ ریاستی اور سیاسی نادانوں کو بھی شاید یہی گلہ ہو لیکن ہم نے کس کو چھوڑا ہے؟۔ تنقید کرنے میں اپنی ذات، خاندان ، شہر، علاقہ ، صوبے اور ملک سے لیکر پوری دنیا تک بہت فراخ دِلی سے کام لیا ہے۔ ہمیں کسی اور سے نفرت اسلئے نہیں ہوسکتی ہے کہ خود بہت ہی کمزور اور بیکار انسان ہیں۔

علماء کرام و مفتیانِ عظام میں سب سے زیادہ خوبیاں ہیں۔ دل وجان سے علمائِ حق کے پیروں کی خاک کو اپنی آنکھوں کی پلکوں پر اٹھانے کو بہت بڑی سعادت اپنے لئے سمجھتے ہیں۔ قرآن کا تلفظ ، قرآن کا ترجمہ اور اسلام کی تعلیمات ان کی قربانیوں کی بدولت دنیا میں زندہ اور تابندہ ہیں۔ غلطیاں کس طبقے میں نہیں ہیں؟۔ جب علماء ومفتیان کا وجود نہیں تھا تب بھی حضرت عثمان اور حضرت علی اپنے وقت کے مسلمانوں کے ہاتھوں سے شہید ہوگئے تھے؟۔ جب حکمرانوں نے باجماعت نماز کی قرأت میں بسم اللہ پر پابندی لگادی تھی تو مالکی فقہاء نے ہمت ہارکر کہا کہ فرض نماز میں بسم اللہ کوپڑھنا جائز نہیں کیونکہ بسم اللہ قرآن کا حصہ نہیںہے۔ شافعی فقہاء نے کہا کہ بسم اللہ سورۂ فاتحہ کا بھی حصہ ہے اسلئے جہری نماز میں جہری بسم اللہ پڑھنا فرض ہے۔ حنفی فقہاء نے کہاکہ درست بات یہ ہے کہ بسم اللہ قرآن کا حصہ ہے لیکن اس کے انکار سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کیونکہ اس میں شبہ ہے اور شبہ اتنا قوی ہے کہ اس سے انکار کی وجہ سے کوئی کافر نہیں بنتا ہے۔ حالانکہ عام آیت کے انکار سے آدمی کافر بن جاتا ہے۔ نورالانوار اور توضیح تلویح میںیہ بریلوی دیوبندی علماء کے درسِ نظامی کے نصابِ تعلیم کا حصہ ہے۔

پہلے تو علماء کے ظرف کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کی ضرورت ہے کہ بسم اللہ قرآن میں ہے ۔ اجتہادی مسئلہ سمجھ کر نہ صرف ایکدوسرے کو برداشت کررہے ہیں بلکہ ایکدوسرے کا دل سے احترام کرتے بھی ہیں اور نصاب میں اس کو جگہ بھی دیتے ہیں ۔ دوسرا یہ ہے کہ اس جہالت کا تدارک کرنا بہت ضروری ہے۔ اگر امریکہ واسرائیل نے لوگوں کو بتانا شروع کردیا کہ علماء کے نصاب میں یہ خرابی ہے تو کسی کو منہ دکھانے کے بھی قابل نہیں رہیںگے، مشکل وقت سے پہلے سدھرنے کی ضرورت ہے۔

اللہ نے قرآن میں فرمایا: ”ہم نے قرآن اور سات بار بار دوہرائی جانے والی عطاء کی ہیں”۔ سات دوہرائی جانے والی سے مراد قرآن کا مقدمہ سورۂ فاتحہ ہے۔ بسم اللہ کیساتھ سات آیات بنتی ہیں۔ آیات کیلئے گول دائرہ نشانی ہے۔ قرآن کے بعض نسخوں میں سورۂ فاتحہ پر آیات کے نمبر نہیں ہیں۔ بعض میں بسم اللہ کو پہلی آیت اور بعض میں الحمد للہ کو پہلی آیت لکھا ہے لیکن پھر اس میں آخری آیت میں دو آیات کے نمبر(6)اور( 7)لگائے گئے ہیں۔

یہ قرآن کی حفاظت کیلئے بہت بڑی دلیل ہے کہ کسی نے آیت کے گول دائرے کا اضافہ کرنے کی بھی جرأت نہیں کی۔جس طرح ایک سو چودہ (114) سورتوں میں ایک سورت کی ابتداء میں بسم اللہ نہیں تو کسی نے لکھنے کی جرأت نہیں کی ہے۔ اس سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ تفاسیر میں لکھا ہے کہ آخری دو سورتوں کو حضرت عبداللہ بن مسعود نے اپنے مصحف میں نہیں لکھا تھا اسلئے کہ ان کے قرآن ہونے کے قائل نہیں تھے۔ حالانکہ قرآن کی سورة کا منکر مسلمان نہیں ہوسکتا ہے اور یہ بات غلط ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے انکے قرآنیت سے انکار کیا تھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود سے بہت لوگوں نے قرآن پڑھنا سیکھ لیا تھا جس کی وجہ سے پہلا اور آخری صفحہ پھٹ گیا ۔ ابن مسعود کے مصحف کی زیارت کرنے والے راوی نے یہ بات کہی کہ اس میں سورۂ فاتحہ اور آخری دو سورتین نہیں تھیں اور اس بات کا بتنگڑ بناکر کہانیاں گھڑی گئیں۔

شیخ الہند مولانا محمود الحسن اور علامہ شبیراحمد عثمانی کی تفسیر عثمانی ،مولانا سید مودودی کی تفہیم القرآن اور علامہ غلام رسول سعیدی کی تبیان القرآن میں شیطان کا یہ حملہ کامیاب ہوا ہے کہ قرآن کی آخری سورتوں پر زبردست وار کیا گیا ہے۔ اللہ نے شیطان سے قرآن کے آگے پیچھے سے حفاظت کا ذمہ لیا۔ بریلوی، دیوبندی اور جماعت اسلامی والے اکٹھے ہوکر شیطان کی سازش کو ناکام بنائیں۔ علامہ غلام رسول سعیدی نے لکھا ہے کہ ”پہلے قرآن پر اجماع نہیں ہوا تھا اسلئے عبداللہ ابن مسعود پر آخری سورتوں سے انکار کے باوجود بھی کفر کا فتویٰ نہیں لگتا ہے لیکن اب اجماع ہوچکا ہے ،اگر اب کوئی انکار کریگا تو اس پر کفر کا فتویٰ لگے گا”۔ (تبیان القرآن جلد12) جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اجماع قرآن سے کوئی زیادہ معتبر چیز ہے۔ العیاذ باللہ تعالیٰ

بھیڑ چال میں مبتلاء علماء ومفتیان و مذہبی دانشوروں کو چاہیے کہ قرآن کے شروع اور آخر سے گمراہی اور ضلالت کی باتیں نکال دیں اور زور دار انداز میں حقائق عوام کے سامنے لائیں تاکہ آنے والے وقت میں مشکلات سے بچ سکیں۔ جب ضمیر پر غبار پڑا ہو تو عمل کی دنیا سے انسان دور ہوجاتا ہے۔

انجینئرمحمد علی مرزا نے نہ صرف محنت کرکے عربی کے تلفظ کو پڑھنا سیکھا ہے بلکہ مختلف موضوعات پر تعصبات کے بغیر ایک خلاصہ بھی نکالا ہے۔ اُنیس (19)گریڈ کے افسر ہیں اور مسائل عوام کو سمجھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ تھوڑی بہت غلطیاں ہوسکتی ہیں۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ اگر مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ لوگ کہیںگے کہ قرآن میں اضافہ کردیا تو رجم کا حکم قرآن میں لکھ دیتا۔ حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ ”رجم کی آیت اور رضاعت کبیر کی آیات نبیۖ کے وصال تک پڑھی جاتی تھیں۔ بکری کے کھا جانے سے ضائع ہوگئیں۔ یہ امام ابوحنیفہ جیسے لوگوں کا کمال تھا کہ اس طرح کے متضاد اعتقادات کا رستہ روک دیا تھا۔ مسلم علمی کتابوں کو وہابی اور بابی کا پتہ ہے لیکن روایات میں جو گل کھلائے گئے ہیں ان حقائق تک مرزا صاحب نہیں پہنچے ۔

علماء کرام کو میدان میں نکلنا ہوگا اور افہام وتفہیم کے ذریعے سے اچھا ماحول بنانا ہوگا۔ ہم مرزا صاحب کی بھی خدمت میں پہنچے لیکن وہ خود کو زیادہ اونچی چیز سمجھے ہیں۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

اہل تشیع کا عقیدہ ہے کہ مہدی غائب آکر معاملہ ٹھیک کرے گا سنی عقیدہ ہے کہ قرآن مہدیوں کو بناتا ہے

جب تک عوام تبدیلی کیلئے کھڑے نہیں ہونگے ہمارامذہبی، سیاسی، ریاستی، سماجی اشرافیہ اور بدمعاش طبقہ مسلط ہی رہے گا۔ اہل تشیع کا عقیدہ ہے کہ مہدی غائب آکر معاملہ ٹھیک کریگا، سنی عقیدہ ہے کہ قرآن مہدیوں کو بناتا ہے۔

ایران میں شیعہ نے امام مہدی غائب سے پہلے انقلاب برپا کردیا اور پاکستان میں سنی مکتبۂ فکر نے اہل تشیع کے ساتھ مل کر بھی کوئی انقلاب برپا نہیں کیا، متحدہ مجلس عمل بڑا ڈھونگ تھا

مارشل لاء اور اس کی پیداوار سیاسی اور مذہبی جماعتوں سے تبدیلی کی کوئی توقع نہیں ہے۔ پاکستان میں معاشرتی سطح پر مثبت تبدیلیوں سے استحکام آسکتا ہے ورنہ افراتفری پھیلے گی۔

علامہ اقبال نے اپنے اشعار میں امامت اور مہدی کی وضاحت فرمائی۔

تو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے میری طرح صاحبِ اَسرار کرے
ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے
فتنۂ ملت بیضا ہے امامت اس کی
جو مسلمان کو سلاطیں کا پرستار کرے
شاعر کی نوا مردہ و افسردہ و بے ذوق
افکار میں سرمست نہ خوابیدہ نہ بیدار
دنیا کو ہے اس مہدیٔ برحق کی ضرورت
ہو جس کی نگہ زلزلۂ عالمِ افکار
ہوئی جس کی خودی پہلے نمودار
وہی مہدی وہی آخر زمانی

علامہ اقبال کا تعلق سنی مکتبۂ فکر سے تھا۔ انہوں نے مہدی کاتصور وہ پیش کیا جو سنی مکتبۂ فکر کا عقیدہ ہے۔ جس طرح حیات خضر علیہ االسلام کا عقیدہ تھا اور آج بھی بہت سے لوگ حضرت خضر کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت سے زندہ مانتے ہیں لیکن ان پر کفر وگمراہی کے فتوے نہیں لگتے،اسی طرح اہل تشیع کیلئے مہدیٔ غائب اور امامِ زمانہ کا عقیدہ رکھنا کوئی عیب نہیںہے اور جب تک علمی حقائق واضح نہیں ہوجاتے تو مناقشہ کرنا ضروری نہیں ہے۔

ایک سفید ریش پٹھان عالمِ دین نے کہا کہ ” شیعہ آذان میں حضرت علی کیلئے خلیفتہ بلافصل نبیۖ کا خلیفۂ بلافصل کہتے ہیںیہ حضرت ابوبکر کی توہین ہے اور ان کی آذان پر پاکستان میں پابندی لگنی چاہیے”۔ حضرت سعد بن عبادہ نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی خلافت کو تسلیم نہیں کیا تھا لیکن آپ پر توہین کا الزام نہیں لگایا گیا۔ البتہ جنات نے قتل کیا تھا یا اس دور کے خفیہ مشن والوں نے قتل کیا ۔ جب حضرت عثماناور حضرت علی کی شہادت مسندِ خلافت پر بیٹھنے کے باوجود ہوئی تو حضرت سعد بن عبادہ کی شہادت بھی کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔ صحافی ہارون الرشید کی کلپ دیکھی کہ ”ہزارہ مزدوروں کو طالبان نے اسلئے قتل کیا کہ بھارت کی جاسوسی کرتے ہیں”۔ مولانا عادل خان کو اسلئے قتل کیا گیا ہوگا کہ وہ سعودی عرب کے پیسوں سے یہاں فرقہ واریت کو ہوا دے رہے تھے۔ ایک طرف علماء دین کا قتل اور دوسری طرف ہزارہ مزدروں کا قتل فرقہ واریت کے نام پر جاری رہے گا؟۔

تحریک طالبان پاکستان نے اپنے عروج کے دور میں بریلوی مکتبۂ فکر کے علماء اور پیروں کو قتل کیا۔ مینگورہ سوات میں ایک شخصیت کی لاش کو قبر سے نکال کر چوک پر لٹکایا گیا۔ ہماری سیکورٹی ایجنسیاں موجود ہونے کے باوجود بے بس تھیں کیونکہ مذہبی جوش وجنون اور غیظ وغضب کا سامنا کون کرتا؟۔ شیعہ کی آذان کو صحابہ کی توہین قرار دینے کے بعد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آنیوالے وقت میں پنجاب سے آواز اُٹھے کہ ” جو لوگ آذان سے پہلے صلوٰةوسلام نہیں پڑھتے ہیں یہ گستاخ رسول ہیںاور ان کی قتل وغارت شروع ہوجائے”۔

تبلیغی جماعت کے ترجمان نعیم بٹ نے شاید حفظ ماتقدم کے طور پر ہی پہلے سے اس صلوٰ ةو سلام کی بہت تعریف کی ہے۔ لیکن جب فرقہ واریت کا بھوت سوار ہوجاتا ہے تو پھر قائد آبادخوشاب میں بریلوی مکتبۂ فکر والا گستاخ کے نام پر گارڈ کی گولی کا نشانہ بنتا ہے اور لوگ پولیس اسٹیشن پر چڑھ کر قتل کی تائید کررہے ہوتے ہیں۔ اگر یہ دیوبندی ، اہلحدیث یا جماعت اسلامی سے تعلق رکھتا تب بھی حالات زیادہ مختلف ہوتے کیونکہ ان کو گستاخ ہی سمجھا جاتا ہے۔پنجاب میں شیعہ سنی کے علاوہ دیوبندی بریلوی فرقہ واریت کی فصل بھی تیار کھڑی ہے، صرف ماچس کی ایک تلی سے آگ لگانے کی دیر باقی ہے۔

علامہ اقبال نے ”پنجابی مسلمان” پر خوب لکھا تھا کہ

مذہب میں بہت تازہ پسند اس کی طبیعت
کرلے کوئی منزل تو گزرتا ہے بہت جلد
تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا
ہو کھیل مریدی کا تو ہرتا ہے بہت جلد
تأویل کا پھندہ کوئی صیاد لگادے
یہ شاخِ نشیمن سے اترتا ہے بہت جلد

تحریکِ لبیک کے علامہ خادم رضوی سے حکومت نے معاہدہ کیا کہ فرانس کے سفیر کو سترہ(17)فروری( 2021ئ) سے پہلے نکالا جائیگا۔ اوریا مقبول جان بھی چہلم پر گیا تھا، ڈاکٹر عامر لیاقت کے حوالے سے بھی تحریکِ انصاف چھوڑ کر تحریکِ لبیک میں شامل ہونے کی خبرپھیلائی جارہی ہے۔ شاید یہ تحریکِ لبیک تحریک انصاف کی متبادل کے طور پر بھی ہو، جس طرح مریم نواز نے کہا تھا کہ شہبازشریف عمران خان کے متبادل ہیں۔ جب سے تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی ہے تو امریکہ کا بھی کوئی سفیر موجود نہیں جو ہماری فوج، سیاسی جماعتوں اور جہادی طبقات کا باپ رہاہے۔ فرانس کے سفیر کو نکالنے کا مسئلہ اہم ہے یا نہیں ہے ؟ لیکن ہمارے ملک کے حالات جس طرف جا رہے ہیں وہ بڑے تشویشناک ہیں۔ اسلام آباد میں پی ڈی ایم (PDM)کے جلسے میں محترم محمود خان اچکزئی نے کہا کہ ” مولانا فضل الرحمن فتویٰ جاری کرے کہ عوام بھوک مٹانے کیلئے حکومت کی املاک کو لوٹ سکتے ہیں”۔ بینظیر بھٹو کو شہید کیا گیا تھا تو عوام احتجاج سے زیادہ لوٹ مار میں لگے ہوئے تھے۔ طالبان نے اپنی تحریک لوٹ مار اور بھتہ خوری کے ذریعے چلائی تھی۔ براڈ شیٹ نے ایک روپیہ بھی برآمد نہیں کیا ہے لیکن اس کو اتنی رقم ادا کردی گئی ہے جتنی پاکستان کی نیب نے پاکستانی عوام سے وصول کی تھی۔ ریاست اور سیاست کے پہلوان بھی اپنے لئے بقدرِ ضرورت حکومت کا مال اور عوام سے بھتہ حلال سمجھتے ہیں اور جب انسان کی بھوک کھل جاتی ہے تو حدیث میں آتا ہے کہ مٹی سے ہی اسکا پیٹ بھر سکتا ہے۔ ہم بہتر مستقبل کی تلاش میںاپنا حال بھی برا کرسکتے ہیں۔

علامہ سید جواد نقوی نے وضاحت کی ہے کہ” اہل تشیع کے ہاں امام عوام کی طرف سے منتخب نہیں ہوتا بلکہ نامزد ہوتا ہے۔ نبیۖ نے حضرت علی ، علی نے حسن ، حسن نے امام حسین اور اس طرح بارہ امام نامزد ہوگئے۔ امام کا اسلام وہ ہے جو قرآن وسنت میں ہے اور اہل تشیع کا بھی وہی ہے۔ اہل تشیع ائمہ سے رہنمائی لیتے ہیں لیکن اب غیبت کبریٰ کا زمانہ ہے اورعمومی احکام سے رہنمائی لینی ہے”۔

اہل تشیع بھائیوں سے اتنی گزارش ہے کہ جب تک امام مہدیٔ غائب نہ نکلے تو اپنے کلمے اور آذان پر کاربند رہو۔ تمہارے علماء وذاکرین جو دلائل دیں ان پر جھومتے رہو، غمِ حسین کا ماتم مناؤ۔ ہندو، سکھ، عیسائی ، یہودی اور بدھ مت کے علاوہ بہت مذاہب دنیا میں ہیںلیکن ان سے پاکستان میں کوئی نفرت نہیں کرتا تو آپ سے نفرت کرنے والوں کا ایک مشن بھی ہے اور کاروبار بھی۔ جب تک اپنے اماموں کیلئے جذباتی بنیاد پر دوسروں سے اپنی نفرت کا اظہار کروگے تو مخالفین اپنا مشن زندہ رکھیںگے کیونکہ جب آپ اپنے اماموں کی گستاخی برداشت نہیں کرسکتے تو دوسروں کو سمجھانا بہت مشکل کام ہے۔ دوسروں سے نفرت تمہاری مجبوری بھی ہے لیکن اتنا خیال کم از کم ضرور رکھو کہ امام کا تعلق زمانے کیساتھ ہوتا ہے۔ حضرت علی کے بعد اب تو بارہویں امام کے کلمے اور آذان میں جملے کی منطق بنتی تھی۔ جس طرح رسول کیساتھ کلمہ بدلتا ہے۔ ابراہیم خلیل اللہ، موسیٰ کلیم اللہ اور عیسیٰ روح اللہ کے بعد اب محمد رسول اللہ۔ حضرت علی کے بعد امام حسن ، امام حسین ، زین العابدین کیساتھ ساتھ اب تو بارہویں امام کا کلمہ ہونا چاہیے تھا۔ ہمیں اس سے غرض نہیں کہ آپ نے اپنے امامِ وقت کیساتھ اپنا کلمہ بدلنے کی درست کوشش کیوں نہیں کی؟۔ ہم تمہیں تمہارے مخالفین کے قتل و غارت کا نشانہ بنانے سے بچانا چاہتے ہیں۔ ہماری سنی مکتبۂ فکر سے استدعا ہے کہ اپنی جہری نماز میں سورۂ فاتحہ اور دوسری سورتوں کا آغاز جہری بسم اللہ سے کرلو۔

پنجاب میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک ٹیم نکلے اور فرقہ واریت کی جگہ دلائل سے عوام کے شعور کو مالامال کردے۔ بلوچستان اور پختونخواہ کی تباہی کے بعد پنجاب اور سندھ میں فرقہ واریت کے نام پر قتل وغارت گری کا بازار گرم ہوجائے تو پاکستان کی ریاست حالات کو سنبھال نہیں سکے گی اور اقوام متحدہ کی فوج عراق میں عورتوں کی جس طرح تلاشی لیکر توہین کررہی ہے اور امریکی فوج نے جس طرح کا جنسی تشدد القاعدہ والوں پر کیا ، بس اللہ کی پناہ۔ ایک فارسی بان یا ازبک وتاجک وغیرہ کی ویڈیو آئی تھی۔ اس پر بے پناہ جنسی تشدد کیا گیا تھا۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

سورۂ الدہر میں دنیا کے اندر ایک خوشحال انقلاب کا ذکر ہے۔ کرونا کی بیماری نے اس کو واضح کیا ہے۔

جنت میں بہ آسانی نہریں بنانے، نذریں پوری کرنے اور مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلانے کا تصور نہیں ہوگا۔ دنیا ہی میں چوبیس گھنٹے ڈیوٹی دینے والے لڑکے ویٹرہونگے اور نعمت ہی نعمت، بڑے ملک کا زبردست تصور ہوگا!

سورۂ الدہر میں دنیا کے اندر ایک خوشحال انقلاب کا ذکر ہے ۔ پاکستان اور دنیا میں کرونا کی بیماری نے اس کو زبردست طریقے سے واضح کیا ہے۔ علماء اور دانشور حقائق ضرور بتائیں!

جب قرآن کی سورۂ جمعہ ، سورۂ واقعہ اور سورۂ محمد میں آخرین کا ذکر ہے جو دنیا میں طرزِ نبوت کی خلافت قائم کرینگے تو اس انقلاب کے حالات بھی زمانے کے اعتبار سے نقل کئے گئے ہیں۔

سورۂ جمعہ میں ایک صحابہ کرام کی جماعت کا ذکر ہے اور دوسری آخر ین کی جماعت کا ذکر ہے جو پہلوں والوں سے مل جائیںگے۔ سورہ ٔواقعہ میں السابقین کی دو جماعتوں کا ذکر ہے پہلے میں بہت اور آخر میں تھوڑے سے لوگ ہونگے۔ اور دائیں جانب والوں کی بڑی جماعت پہلوں میں سے بھی ہوگی اور آخر والوں میں سے بھی بڑی جماعت ہوگی۔

قرآن میں پہلی جماعت صحابہ کے ذریعے دنیا میں جو انقلاب آیااسکے اثرات (1924ئ) تک خلافت عثمانیہ کی صورت میں موجود تھے۔ اب ترکی وہ اسلامی ملک ہے جس نے سب سے پہلے اسرائیل کو تسلیم کیا۔ طیب اردگان نے فرانس کے سربراہ مملکت سے ہاتھ نہیں ملایالیکن فرانس کا سفیر اپنے ملک سے نہیں نکالا۔ پہلے اسرائیل کا سفیر ناراض تھا اور اب وہ بھی ترکی کے دارالخلافہ استنبول میں اسرائیلی سفارت خانے میں بیٹھ گیا ہے۔

ایران نے اپنی جمہوری حکومت قائم کررکھی ہے۔ ایران اسلامی ممالک میں سب سے زیادہ طاقتور ملک بھی خود کو سمجھتا ہے جو امریکہ کے حملوں کا بھی جواب دیتا ہے۔ اگر انکے بارویں امام مہدی غائب نے ایران کو دنیا کا جنیوا بنادیا تو اسلامی دنیا خیرمقدم کریگی۔ امام اور انکے ماننے والا طبقہ دوسروں کے جبر اور دسترس سے آزاد ہیں۔ اہل تشیع امامیہ کا عقیدہ ہے کہ امام کی بعثت اللہ کی طرف سے ہوتی ہے۔ جب تک امام کا ظہور نہ ہو اپنے عقائد پر مضبوطی سے جمے رہیں۔ اگر انکا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت علی اور دیگر ائمہ سے خلافت کا حق چھین لیا گیا تھا تو ان کو یہ عقیدہ رکھنے کا بھرپور حق ہے۔ اگر بنوامیہ ، بنوعباس اور خلافت عثمانیہ کی جگہ ائمہ اہلبیت کو امامت کا حقدار سمجھتے تھے تو اس میںکچھ براکیا ہے؟۔ اگر وہ خلافت راشدہ کیلئے بھی یہی تصور رکھتے ہیں کہ ان سے انکا حق چھین لیا گیا تھا تو یہ اہل تشیع کی طرح اہلسنت کیلئے بھی زیادہ مفید اسلئے ہے کہ سنی سمجھتے ہیں کہ شیعہ حضرت علی کے حوالے سے شرکیہ عقیدہ رکھتے ہیں۔ جاہل شیعہ کے عقائد کو درست کرنا اہل تشیع کے علمی طبقے کی اپنی ذمہ داری ہے لیکن حضرت علی کیلئے مظلومیت کا عقیدہ رکھنا شرک کے برعکس صحتمند عقیدہ ہے۔ حضرت سعد بن عبادہ انصارکے سردار بھی خود کو خلافت کا حقدار سمجھتے تھے اور ابوبکرو عمر سے ناراض تھے ،یہاں تک کہ انکے پیچھے نماز تک نہیں پڑھتے تھے۔

سورۂ الدھر میں جس انقلاب کا ذکر ہے اس میں نظامِ شمسی کی تپش سے اور سردی کی سختی سے بچنے کی خوشخبری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جنت اور ریشم کا ذکر کیا ہے۔ پاکستان میں زراعت کی کتابوں میں ریشمی کیڑوں کا تعارف ہے اور جب پاکستان میں بڑے پیمانے پر زراعت کی ترقی کیلئے راہ ہموار ہوگی تو بڑے پیمانے پرباغات اور کیڑوں سے ریشمی انڈسٹریاں بھی کھلیں گی۔جس سے خوشحالی کا سفر شروع ہوگا۔ کانیگرم میں ماما پیر کے باغ میں سورج نظر نہیں آتا تھا۔ باغ میں ہوا کم لگنے کی وجہ سے سردی کی زیادہ سختی محسوس نہیں ہوتی ۔ پاکستان کے زیادہ تر لوگوں نے ویسے بھی ایسے باغ نہیں دیکھے ہیں۔ اگر ہم ترقی کی راہ پر گامزن ہوں تو پورے پاکستان میں باغات کے جال بچھاسکتے ہیں۔ پنجاب اور سندھ کی سرحد سے ہندوستان میں جنگلی نیل گائے، ہرن اور دیگر جانور نظر آتے ہیں۔ درندوں کو آسان شکار فارمی یا گھریلو گائے مل جائیں تو وہ تیز رفتار ہرن، نیل گائے اور مارخور کے پیچھے بھاگنے میں وقت ضائع نہیں کرتے۔ جب قرآن میں اللہ تعالیٰ نے کافروں کے معبودوں کو بھی برا بھلا کہنے سے منع فرمایا ہے تاکہ وہ ہمارے معبودِ برحق کو برا نہ کہیں تو گائے ہندوؤں کی معبود ہے۔ ہم انکے جذبات کا خیال رکھ کر انکے دل جیت سکتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ گائے کو شہروں اور جنگلوں میں چھوڑ کر جنگلی درندوں سے قیمتی جنگلی جانوروں مارخور وغیرہ کی حفاظت کا سامان کرسکتے ہیں۔ شیروں کا پیٹ گائے وغیرہ کے گوشت سے بھرا ہوگا تو بکری اور شیر ایک گھاٹ پر پانی پئیں گے اور انسانوں کے علاوہ جنگل کے جانوربھی اس نظام سے خوش ہونگے۔

جنگلی جانوروں کی حفاظت اورافزائش نسل کیلئے بڑے پیمانے پر حفاظتی تدابیر کا انتظام بھی کیا جاسکتا ہے۔ ایسی مصنوعی خندقیں، سوراخ اور تعمیرات کا اہتمام ہوسکتا ہے جس میں ہر نوع کے جانوروں کی حفاظت کا اپنے دشمن سے ٹھیک طریقے سے انتظام ہو۔ جب پاکستان ایک امیر ملک بن جائیگا تو اس میں شیشوں اور چاندی کے برتنوں کا استعمال ایک معمول بن جائیگا۔ بادی بھی ایک انسانی کمزوری ہے ۔اللہ نے فرمایا کہ ” آپس میں لڑو مت ، ورنہ تمہاری ہوا خارج ہوجائے گی”۔ قرآن میں ایسے پیالوں کی بات جسکے زنجبیل والے مزاج سے بادی کم ہو یا اس کا اخراج کھلے عام تنگ کرنے کے خلاف مددگار ثابت ہو، اسکا تعلق بھی دنیا ہی کی زندگی سے ہوسکتا ہے۔ ایک ایسا چشمہ جس کا نام سلسبیل رکھا جائے۔ ہوسکتا ہے کہ آب زم زم سے یا خاص نوعیت کا کوئی مصنوعی چشمہ بنایا جائے اور اس میں کوئی خصوصیت بھی ہو تاکہ عوام اور خواص کو مخصوص بیماری ، ہاضمے یا کسی صورت میں کام آئے۔

ویطوف علیھم ولدان مخلدون اذا رأیتھم حسبتھم لؤلؤًا منثورًا ” اور ان کے گرد لڑکے ہمہ وقت گھوم رہے ہوں گے اور جب آپ ان کو دیکھ لیں گے تو ان پر منتشر موتیوں کا گمان ہوگا”۔ انقلاب کے بعد پاکستان میں دنیا بھر سے لڑکی نہیں لڑکے ویٹروں کو نوکری ملے گی ۔ بھارت،عرب، یورپ ، امریکہ ، چین ، آسٹریلیا، روس ، کوریااور دنیا بھر سے غریبوں کو نہ صرف نوکریاں ملیںگی بلکہ انکی اعلیٰ تعلیم وتربیت اور آرام کا بھی مکمل خیال رکھا جائیگا۔ دنیا کو بتایا جائیگا کہ تہذیب وتمدن اور انسانیت کس چیز کا نا م ہے؟ اور پاکستان دنیا کی امامت کے قابل کیوں ہے؟۔ کچرے کے ڈھیر پر کام کرنے والے ہمارے افغانی بھائی بچوں کو صاف ستھرا کرکے ایک مثالی معاشرہ بنایا جائے گا۔ انشاء اللہ وتعالیٰ عزوجل ۔

جب پاکستان صحیح ٹریک پر چڑھ جائیگا تو تمام اسلامی ممالک اور دنیا بھر کے غیراسلامی ممالک بھی انتظامی اعتبار سے جمہوری بنیادوں پر پاکستان سے الحاق کریںگے۔ ایران ، افغانستان کے علاوہ بھارت اور بنگلہ دیش بھی اس کا حصہ بننے کیلئے درخواست دیںگے۔ پاکستان وزیراعظم عمران اور ن لیگ وپیپلزپارٹی کا تجربہ کرچکا ہے۔ امریکہ نے ٹرمپ اور بھارت نے مودی کی بداخلاقی دیکھ لی ہے۔ پاکستان میں اچھی طرزِ حکمرانی سے دنیا میں بڑی خوشگوار تبدیلی آئے گی۔ بھارت سے ہندوانہ رسم وراج کا خاتمہ وہاں کے ہندو خود ہی کردیںگے۔ اچھی نسلوں کے ہندو مسلمان بن جائیںگے تو اس کے زبردست اثرات مرتب ہونگے۔ نبیۖ نے فرمایا کہ ” لوگوں کی مثال معدنیات کی طرح ہے۔ جو لوگ اسلام قبول کرنے سے پہلے سونا اور چاندی کی طرح تھے وہ اسلام قبول کرنے کے بعد بھی ایسی اچھی صفات کے مالک ہیں اور جو لوگ اسلام قبول کرنے سے پہلے بھی خراب تھے تو وہ اسلام قبول کرنے کے بعد بھی ویسے ہی ہونگے”۔ نبیۖ نے حاتم طائی کی بیٹی کو عزت دی تھی اور مروان بن حکم کو اپنے باپ کیساتھ جلاوطن کیا تھا۔

جن لوگوں نے مسلمانوں کے خوف ، رعب ودبدبہ اور لالچ کی وجہ سے برصغیر پاک وہند میں اسلام قبول کیا تھا، ان کی اولادوں نے علماء ومشائخ اور مجاہدین بن کر بھی اعلیٰ اخلاقی معیارات قائم کرنے کی بجائے اسلام کو خیر نہیں پہنچائی۔ کم اصل ہندو بنیوں کی اولادوں نے غریبوں کی زکوٰة اور خیرات پر بھی اپنے اللے تللے اور بہت ساری دولت کا سامان کرلیا ۔ کراچی کے جامعہ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کے بانی حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری نے ان لوگوں کے کرتوت دیکھ کر اپنے اوپر ہدیہ کی رقم بھی حرام کی تھی۔ ایک سال سے زیادہ زکوٰة کی رقم مدرسے کیلئے نہیں لیتے تھے اور قربانی کی کھالوں کو سب سے اچھا مال سمجھتے تھے لیکن طالب علموں کو کھالوں کیلئے پھر بھی نہیں بھیجتے تھے۔ ہم نے گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے دیکھے ہیں لیکن اپنی ذات کو ان سے بھی کم تر اسلئے سمجھتے ہیں کہ ہر انسان اپنی خامیوں کو دوسروں سے زیادہ سمجھتا اور دیکھتا ہے۔ تعریف صرف اللہ ہی کیلئے ہے۔

ایسی عاجزی اور مروت بھی بیکار ہے کہ جب مخلوقِ خدا کیساتھ ظلم وستم کی انتہاء کی جاتی ہو اور ظالم اپنے کرتوت سے باز نہیں آتے ہوں اور ان کو اپنے سے بہتر قرار دے کر ایک درست سمت کی جدوجہد سے پہلو تہی برتی جائے۔ مدارس میں جانتے بوجھتے اسلام کے نام پر حلالہ کی لعنت کا کاروبار ہورہاہو۔ اللہ نے ایک جان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے تو ایک عورت کی عزت لوٹنے کو قتل سے بھی بڑا جرم قرار دیاہے۔ اگر معلوم ہوجائے کہ قرآن و سنت سے حلالہ نہیں بنتا تب بھی اپنے معتقدین اور عوام الناس کی عزتوںکو لوٹا جائے تو اس سے بڑا جرم روئے زمین پر کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا ہے۔

پاکستان کی ریاست اور حکومتوں کی نالائقی، نااہلی اور کرپشن کی داستان 73سالوں سے بلاشبہ اپنی انتہاء کو پہنچی ہوئی ہے جس میں بہت لوگوں نے اپنی اپنی بساط کے مطابق کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے لیکن اسلام کے نام پر بہت کچھ ہورہاہے اور خلافت راشدہ کے دور میں حضرت عثمان کی شہادت اور اس سے پہلے اور بعد کے ناسازگار حالات و واقعات سے موجودہ دور تک بتدریج مختلف ادوار میں جو کچھ ہوتا رہاہے وہ بھی بہت افسوسناک ہے۔ مسلکوں اور فرقوں کے نام پر جس طرح اسلام کو باقی رکھا گیا ہے اسی طرح پاکستان کے ساتھ بھی سلوک روا رکھا گیا ہے۔ عالم اسلام میں ایٹم بم اور بہت سی خوبیوں کیساتھ پاکستان ممتاز ہے تو یہاں کے علماء ومشائخ کا بھی ممتاز مقام ہے۔

جس طرح بدترین جمہوریت بہترین امریت سے بہتر کہلاتی ہے اسی طرح اچھے سرکاری علماء سے چندوں پر گزارہ کرنے والے علماء ومشائخ کا اخلاق وکردار بہت بہترین ہے۔ ہمارا مقصد دل سے کسی کی برائی نہیں ہے۔ صرف جمود توڑنا چاہتے ہیں۔ علمائ، سیاستدان، فوجی اور مجاہدین سب میں ہم سے زیادہ اچھائیاں اور صلاحتیںہیں اور جب انقلاب آئے گا تو سب کو عزت ہی ملے گی۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

سورۃ الدہر میں زمانے کا انقلاب، نہروں سے پانی کی ترسیل کا نظام اور پاکستان

سورة الدہر میں زمانے کا انقلاب ، سہولت کے ساتھ نہروںسے پانی کی ترسیل کا نظام اور پاکستان میں اس پر عمل سے عالمِ اسلام کی اخلاقیات اورپوری دنیا کی تقدیر بدلنے اور طرزنبوت کی خلافت کا زبردست انداز میں آغاز

پاکستان جیسی بہترین قوم پوری دنیا میں کہیں بھی نہیں ،جب اسکی اقتصادی حیثیت مستحکم ہوجائیگی تو انسانیت اور اسلام کی روح پر عمل کرنے میں ہم بہت بہترین رول ماڈل ہوں گے!

مولانا فضل الرحمن اور اس کی جماعت محترم محمود خان اچکزئی سے زیادہ جمہوری ہیں اور محترم محمود خان اچکزئی اور اس کی جماعت مولانا فضل الرحمن سے زیادہ انقلابی اور اسلامی ہیں!

اللہ تعالیٰ نے سورۂ دہر میں جن معاملات کا ذکر کیا ہے ان کو نہ صرف مؤمن مانیںگے بلکہ دہری بھی قبول کرلیںگے اور یہ اتفاق الرائے کی پہلی بڑی بنیاد ہے۔ پاکستان میں مؤمن تبلیغی، جہادی ،سیاسی مختلف حوالے سے بٹے ہوئے ہیں لیکن دہریوں کا الگ ٹولہ ہے جو مذہب سے نفرت کرتا ہے۔

ھل اتٰی علی الانسان حین من الدھر لم یکن شیئًا مذکورًا ” کیا انسان پر ایسا لمحہ زمانے میں گزرا، جب وہ کوئی قابلِ ذکر چیز نہیں تھا”۔ سورۂ دہر کی اس پہلی آیت میں ملحدین سے صرف سوال ہے۔ کیونکہ اللہ کو پتہ تھا کہ مذہبی لوگوں کی احمقانہ حرکتوں کی وجہ سے کبھی وہ دور بھی آئے گا کہ جب اچھے بھلے لوگ الحاد اختیار کرکے اس قدر ہٹ دھرم بن جائیں گے کہ قرآن کی ہر بات کو بالکل منفی طریقے سے لیں گے۔ اللہ نے یہاں سوال اٹھایا ہے کہ کبھی کوئی ایسالمحہ گزرا ہے جب انسان قابلِ ذکر چیز نہ تھا؟۔پھرفرمایا کہ ”بیشک ہم نے انسان کو نطفۂ امشاج (ماں باپ) سے پیدا کیا ، ہم نے آزمائش میں ڈالااور اس کو سننے والا ، دیکھنے والا بنایا ۔بیشک ہم نے راستہ بتایا اس کی مرضی ہے کہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا بنے۔ بیشک ہم نے کافروں کیلئے زنجیریں، طوق اور بھڑکتی آگ تیار کررکھی ہے ، بیشک نیک لوگ ایسے پیالوں سے پئیں گے جن کا مزاج کافوری ہوگا۔ ایسا چشمہ جس سے اللہ کے بندوں کو پانی پلایا جائیگا ، جہاں چاہیں گے اس کی شاخیں نکالیں گے۔ یہ لوگ اپنی نذریں پوری کرینگے اور اس دن سے ڈریں گے جس کا شر ہر جانب پھیلا ہوا ہوگا اور کھانا کھلائیں گے اپنی چاہت سے مسکین، یتیم اور قیدی کو ۔ (کہیں گے) کہ ہم تمہیں اللہ کی رضا کیلئے کھلاتے ہیں، ہم آپ سے کوئی بدلہ اور شکریہ نہیں چاہتے ہیں۔ ہم اپنے رب سے ڈرتے ہیں جو دن سخت مصیبت کا طویل ہوگا۔ پھر اللہ تعالیٰ ان کو اس دن کے شر سے محفوظ رکھے گا۔ اور انہیں تازگی اور سرور بخشے گا۔ اور ان کو بدلہ دے گا جو انہوں نے صبر کیا باغ اور ریشم۔ جس میں وہ تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے اُونچی مسندوں پر۔ اس میں ان کو سورج نظر آئے گا اور نہ سردی کی سختی اور ان پر اسکے سائے جھک رہے ہوں گے اور ان کے پھل انتہائی دسترس میں نیچے ہوں گے اور ان پر چاندی کے برتن اور شیشوں کے پیالے پھرائے جائیں گے۔ شیشوں کو بھی چاندی سے مرصع کرکے بہترین انداز میں بنایا ہوا ہوگا۔ جس میں ان کو ایسے مشروب پلائے جائیں گے جس کا مزاج ادرک کا ہوگا۔ ایک چشمے کا اس میںنام سلسبیل رکھا جائیگا۔اور ان پر ہمیشہ (چوبیس گھنٹہ فل ٹائم) ویٹرلڑکے خدمات انجام دینگے۔ جب آپ اس کو دیکھیں تو سمجھیں کہ موتی ہیں جو بکھیر دئیے گئے ہیں۔ جب آپ اسے دیکھ لیں اور پھر دیکھ لیں تو نعمتیں ہی نعمتیں ہوں گی اور بہت بڑا ملک ہوگا۔ ان پر باریک ریشم کے سبز اور موٹے ریشم کے کپڑے ہونگے اور زیبِ تن کرائی جائیں گی چاندی کی گھڑیاں اور ان کو انکا رب پاکیزہ مشروب پلائے گا۔ بیشک یہ تمہارا بدلہ ہے اور تمہاری محنت آخر کار رنگ لائی ۔ بیشک ہم نے نازل کیا آپ پر یہ قرآن تھوڑا تھوڑا کرکے۔ پس آپ صبر کریں اپنے رب کے حکم کیلئے اور ان میں کسی کی اطاعت نہ کریں گناہگار اور ناشکراہوکر اور اپنے رب کا نام یاد کریںسویرے اور شام کو۔ اور رات کو اس کو سجدہ کرو اور رات گئے تک لمبے وقت تک اس کی پاکی بیان کریں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو جلدی حاصل ہونیوالی چیز سے محبت کرتے ہیں لیکن چھوڑ دیتے ہیں پیچھے لمبے دن کے انجام کار کو۔ ہم نے ان کو پیدا کیا ہے اور ان کو استحکام بخش دیا ہے اور جب ہم چاہیں گے تو ان کو ان جیسوں کی طرح تبدیل کرکے رکھ دیں گے۔ بیشک یہ ایک نصیحت ہے۔ پس جو چاہے اپنے رب کی طرف جانے والا رستہ اختیار کرے اور تم نہیں چاہتے ہو مگر جو اللہ چاہے۔ بیشک اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔ جس کو چاہتا ہے رحمت میں داخل کرتا ہے اور ظالموں کیلئے اس نے درد ناک عذاب تیار کررکھا ہے”۔ (سورہ الدہر۔پارہ نمبر29)

سورہ ٔ دہر سے پہلے سورۂ قیامت کا ذکر ہے۔ سورۂ دہر میں قیامت نہیں دنیا اور زمانے کا ذکر ہے۔ آج دنیا نے اللہ سے بغاوت کرنے کے بعد اپنے لئے زنجیروں، طوق اور بھڑکتی ہوئی آگ کا سامان کرلیا ہے۔ اسلامی ممالک کیساتھ جو کچھ ہوا اور جو ہورہاہے اور جو ہونے جارہاہے اور انسانیت کیساتھ جو کچھ ہورہاہے کیا اس سے بڑھ کر مزید تباہی وبربادی کے بعد انسانیت کے ہوش ٹھکانے آئیں گے؟۔ شاکر شجاع آبادی کہتا ہے کہ ” میری سخاوت بھی حاتم طائی سے کم نہیں جب صبح قلم کی خیرات چلاتا ہوں تو شام ہوجاتی ہے”۔

جب سعودیہ پاکستان کے کام نہ ّئے تو ہماری سوشل میڈیا کے کتے چوبیس گھنٹے عربوں کی برائی کرنے لگتے ہیں اور جب تعلقات بہتر ہوتے ہیں تو چپ ہوجاتے ہیں۔ ہمارا قبلہ اور کعبہ تو اقتصادیات ہیں۔اگر ہماری اقتصادی حالت بہتر ہوتی تو بھونکنے کی ضرورت نہیں پڑتی اور ہمارا اسلام اور ہمارے اخلاقیات بھی بہتر ہوجاتے۔

سعودی عرب میں تیل کے چشمے ہیں اور پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے پانیوں کے پاک چشموں سے مالا مال کیا ہے لیکن ہمیں صاف اور پاک پانی پینے کو بھی نہیں ملتا ہے، جتنے منرل واٹر پر ہمارا اشرافیہ خرچ کرتا ہے ،اگر انہیں پینے کا صاف پانی ملتا اور منرل واٹر کے خرچے مسکین ، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلانے پر صرف ہوتے تو پاکستان میں بدحالی نہیں خوشحالی کا زبردست طوفان آجاتا۔ جنت میں کافوری اور ادرکی مزاج کے پیالوں کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ جراثیم کش کافوری مزاج کے پیالوں اور بادی وغیرہ کے علاج کیلئے ادرک کے مزاج کی مشروبات کی ضرورت اس دنیا میں ہے۔ با آسانی پانی پہنچانے کے طریقے اُخروی جنت نہیں بلکہ دنیا کی جنت کی ضرورت ہیں۔ مولانا مودودی نے لکھا ہے کہ ”جنت میں پھاوڑے اور کدال نہیں ہونگے” لیکن اگر آپ زندہ رہتے اور سہراب گوٹھ میں میلوں کھڑی بھاری مشنری دیکھ لیتے اور پاکستان میں بہترین نہری نظام کا آغاز ہوجاتا تو اپنی تفسیر کی رائے بھی بدل لیتے۔ آسانی کیساتھ نہری نظام کے علاوہ نذریں پوری کرنے اور ایسے دن کے شر سے ڈرنا جس کا شر ہر جانب پھیلا ہوا ہے، اس کا تعلق بھی دنیا سے ہی ہے اور موجودہ کرونا کی بیماری اس کی زبردست مثال ہے۔ جب کبھی خوشحالی کا دور آئے گا تو لوگ نذریں پوری کرینگے کہ ہر اچھے انسان کے خیال میں ایک خواہش ہوتی ہے کہ اگر میرا کاروبار چل گیا تو یہ یہ خدمت غریبوں کی ضرور کروں گا۔ پاکستان کی مثال لے لیجئے ،اگر آج کاروبار چل گیا تو لوگ اس پر عمل کرنا بھی شروع کردیں گے۔ وہ لوگ کاروبار چلنے کے بعد اپنی ہی محبت سے مسکینوں ، یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلانا شروع کردیںگے اور کہیں گے کہ ہم اللہ کیلئے کھلاتے ہیں آپ سے کسی ووٹ اور زندہ باد کا نعرہ لگوانے سے ہماری کوئی غرض نہیں ہے۔ ہمیں تو اپنے رب سے ڈر لگتا ہے جو دن بہت سخت اور لمبا ہے اور یہ دنیا میں کرونا کی نئی لہریں ہوسکتی ہیں۔ پھر اللہ ان کو اس دن کے شر سے محفوظ رکھے گا اور ان کو تازگی اور خوشی بخشے گا۔

پاکستان میں نہری نظام سے ایک تو کاروبار بہت بڑے پیمانے پر چمکے گا اور دوسراسستی بجلی پیدا کرنے سے سردی گرمی میں بجلی کی کھپت بہت زیادہ ہوگی۔ پاکستان زرعی ملک ہے، یہاں انواع واقسام کے باغات ہونگے اور نہری نظام سے سستی بجلی پیدا ہوگی تو کھانے پینے اور رہن سہن کی مشکلات کا خاتمہ ہوجائیگا۔ سردی گرمی میں درخت کام آئیںگے۔ پھلوں کی بہتات اور ترقی یافتہ ممالک کا پاکستان بہت ہی اعلیٰ نمونہ بن جائیگا۔

بنوں شہر میں انگریز کے دور سے پانی کی ایک ایسی ٹنکی ہے جو ڈیم سے بھرتی ہے۔ گڈوبیراج میں کتنی بجلی پیدا ہوتی ہے؟۔ حیدرآباد اور کراچی کے درمیان پانی کی نہریں بناکر ایک تو اتنی سستی بجلی پیدا کرسکتے ہیں کہ دونوں ہی شہروں کو بہت کم قیمت پر بڑے پیمانے پر بجلی پہنچ سکتی ہے۔ جہاں غریب اور فیکٹری مالکان چوری کے بغیر سستے بلوں کو ادا کرسکیںگے اور کراچی میں پانی کا نظام بھی بغیر بجلی کے نوری آباد میں ڈیم بناکر اونچی سے اونچی بلڈنگ تک پہنچ سکتا ہے۔ گھروں میں زیادہ بل پانی کی موٹر کیوجہ سے آتا ہے۔ ماحولیاتی آلودگیوں سے پاکستان کو بچانے کیلئے بھی قدرتی نظام کا سہارااچھا رہے گا۔ پاکستان اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کیلئے کوئی پالیسی نہیں بناتا ہے۔

عمران خان نے الیکشن میں دو جھوٹ بولے۔ ایک یہ کہ پختونخواہ کی پولیس بہت بہتر کردی۔ حالانکہ پختونخواہ کی پولیس پہلے سے نسبتًا بہتر تھی اور دوسرا یہ جھوٹ بولا کہ تین سو (300)ڈیموں سے پختونخواہ کی تقدیر بدل ڈالی ۔ یہ بھی بالکل جھوٹ تھا۔ ہمیں اس سے غرض نہیں کہ صدر، وزیراعظم کون ہو؟۔ ہم پاکستان کی تقدیر بدلنے کی خواہش رکھتے ہیں اور ہمارا ایمان ہے کہ اس کی تقدیر بدلنے میں اللہ تعالیٰ زیادہ وقت نہیں لگائے گا۔ وزیراعظم عمران خان، نوازشریف، شہبازشریف ، پیپلزپارٹی اور مولانا فضل الرحمن نے اپنی بساط کے مطابق ایکدوسرے سے انتقام لینا ہے یا قوم کی خدمت کرنی ہے؟۔ اگر قوم کی خدمت کرنی ہے تو اقتدار میں رہتے ہوئے اور اقتدار سے باہر انہوں نے اپنی اپنی ترجیحات کو بدلنا ہوگا۔ اپنی خوب تعریف اور مخالفین کوبہت ذلیل کر کے یہ کہنا نہیں بنتا کہ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العٰلمین ”ہماری آخری بات یہ ہے کہ سب تعریفیں اللہ کیلئے ہیںجو جہانوں کا پالنے والا ہے”۔ یہ تو اس وقت ہوگا کہ جب پاکستان کو جنت بنائیں گے اور آپس میں ایکدوسرے کا خیرمقدم سلام سے کرینگے۔محمود اچکزئی مولانا فضل الرحمن سے زیادہ اسلامی اور انقلابی اور مولانا ان سے زیادہ جمہوریت پسند ہیں۔لیکن بے بسی کے نتیجے میں محمود خان اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن اپنی اپنی چال بھول گئے ہیں اور اگر افراتفری پھیل گئی تو پھر سنجیدہ لوگ بھی غیر سنجیدہ ہی بن جائیں گے۔بنیادی تبدیلیوں کی طرف آنا ہوگا۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انقلاب کے ذریعے جنت اور جہنم کا نقشہ پیش کیا ہے

اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انقلاب کے ذریعے جنت اور جہنم کا نقشہ پیش کیا ہے جو پاکستان میں دیانت دارانہ نظام ہی کے ذریعے سامنے آسکتا ہے جس سے دنیابھر میں طرزِ نبوت کی خلافت قائم اور آسمان وزمین والے خوش ہونگے

ہر شاخ پہ اُ لو بیٹھا ہے انجامِ گلستان کیا ہوگا؟۔ اسٹیک ہولڈروں کے بجائے گدھا گاڑی والوں کو مختلف طبقات پر مسلط کیا جاتا تب بھی حرص وہوس اور ایسی نالائقی کا کبھی مظاہرہ نہ ہوتا

پتہ نہیں کس خمیر کے جنرلزکو ترقی دیکر آرمی چیف اور ذمہ دار عہدوں پر بٹھایا جاتاہے اور کس خمیر کے سیاستدان عوام کے ووٹوں سے اسمبلی اور ممبران کے ووٹوں سے سینیٹ پہنچتے ہیں ؟

قرآن میں اللہ تعالیٰ نے دنیا میں بھی جنت اور جہنم کے تصور کا ذکر کیا ہے اور اس کی ایسی وضاحت ہے جس سے آخرت مراد لینا ممکن نہیں ۔ ہمارا پیارا ملک پاکستان اس کی بالکل صحیح تصویر بن سکتا ہے۔پوری دنیا میں ایسا بڑا بہترین دریائی نظام نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو عنایت فرمایا ہے لیکن اس میں نہری نظام کا بنانا حکومتِ پاکستان کا کام تھا۔ انگریز نے نہری نظام کو پاکستان میں اپنی ترجیحات میں شامل کیا تھا لیکن پاکستان نے اس کو نظرانداز کردیا ۔ قدرتی اور مصنوعی جھیلوں کا ہم بسہولت بڑا جال بچھاسکتے ہیں اور بہت آسانی کیساتھ پورے پاکستان کو نہری نظام سے مزین کرسکتے ہیں۔

قرآن میں سورۂ مدثر کے بعد سورۂ قیامت اور پھر سورۂ دہر ہے۔ جب اسلام نازل ہواتو اللہ نے نبیۖ کو سورۂ مدثر میں مخاطب کیا ہے۔ سورۂ مدثر میں بھی دنیاوی انقلاب اور آخرت کے حوالے سے واضح رہنمائی ہے ۔ پھر سورۂ قیامت میں صرف آخرت کے حوالے سے رہنمائی ہے اور پھر سورۂ دہر میں صرف زمانے اور دنیاوی انقلاب کے حوالے سے بھرپور رہنمائی ہے۔

رسول اللہ ۖ کے حوالے سے مؤمنین اور کفار نے ابتدائی مکی دور کا بھی مشاہدہ کیا تھا اور آخر میں مدنی دور اور انقلاب کا زمانہ بھی دیکھ لیا تھا۔ سورۂ مدثر کی آیات کو شروع سے آخرتک غوروفکر کیساتھ سمجھنے کی کوشش کی جائے تو بہت ساری باتوں سے شروع دور کی مشکلات اور بعدکی فتوحات بہت واضح طور پر نظر آئیں گی۔ پہلے تیرہ (13)سال مکی دور کے اور پھر چھ (6)سالہ مدنی دور کے بعد جب صلح حدیبیہ ہوگیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کو فتح مبین قرار دیدیا۔ یہ اُنیس (19)سال کی مدت مشکلات کا زمانہ تھا لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے فتوحات کے دروازے کھول دئیے تھے۔ دس سال تک صلح حدیبیہ کا معاہدہ بہت بڑی فتح کی بنیاد تھی۔

اللہ تعالیٰ نے ایک طرف نبیۖ کے کردار کو پیش کیا ہے، دوسری طرف مخالفین کے سرغنے کا ذکر فرمایا ہے۔ قرآن کی بعض آیات بعض کی تفسیر ہیں۔ اللہ نے فرمایا کہ ” ہم آپ لوگوں کو آزمائیںگے، کچھ خوف سے، بھوک سے، اموال، جانوں اور ثمرات کی کمی سے ، پس بشارت دیدو صبر کرنے والوں کو”۔

ثمرات سے مراد پھل اور میوے نہیں ہیں کیونکہ وہ تو اموال ہی ہیں بلکہ ثمرات ان نتائج کو کہتے ہیں جو خیرکے کاموں کے نتیجے میں نکلتے ہیں۔ اسی بنیاد پر اللہ تعالیٰ نے نبیۖ سے فرمایاکہ فلا تمنن تستکثر ”احسان کے بدلے ان سے زیادہ خیر کی توقع نہ رکھیں”۔ یہ ایک عام کلیہ ہے کہ اچھائی کے بدلے میں اچھائی کی توقع رکھی جاتی ہے۔ نیکی کا ثمرہ نیکی ہوتی ہے۔ جزاء الاحسان الا احسان” احسان کا بدلہ احسان ہی ہوتا ہے”۔

مفتی محمدتقی عثمانی نے اپنی تفسیر ” آسان ترجمۂ قرآن” میں سورۂ مدثر کی آیت سے سودکا نتیجہ نکالا ہے کہ نبیۖ کا احسان کے بدلے خیرکثیر کی توقع بھی سود کے زمرے میں آتا تھا اسلئے اللہ نے منع فرمایا۔ حالانکہ احسان کے بدلے احسان کی توقع فطرت کا تقاضہ تھا لیکن جاہلوں سے خیر کے بدلے شر کی توقع تھی اسلئے سورہ مدثر میں اپنے رب کیلئے صبر کی تلقین فرمائی ہے۔ اللہ نے خبر دی کہ جب مکہ میں انقلاب کا نقارہ اللہ مسلمانوں کے ذریعے بجا دے گا تو یہ دن مشکل ہوگا اور کافروں پر آسان نہیں ہوگا۔ سورۂ مدثر میں اللہ نے جو نقشہ پیش کیا وہ دنیا میں انقلاب کے ذریعے دکھا بھی دیا تھا۔

جو دشمن کا سردار تدبیریں ڈھونڈتا تھا،اللہ کی وحی کا انکار کرتا تھا ، اس کو سحر قرار دیتا تھا اور اسکو بشر کاکلام کہتا تھا ، ایک دن اسکو اللہ نے ”سقر ” میں پہنچانا ہے۔ اور تمہیں کیا پتہ کہ سقر کیا ہے؟۔وہ ایسا انقلاب ہے کہ جس میں کوئی رورعایت باقی نہ ہوگی اورنہ کوئی عذرچھوڑا جائے گا۔ (رنگے ہاتھوں سب مجرم پکڑے جائیںگے) اللہ تعالیٰ نے اُنیس (19)سال کی مدت کے بعدصلح حدیبیہ کے ذریعے فتح مکہ سے پہلے چند سال آخری اتمامِ حجت کیلئے سب کو دیدئیے تھے۔ حضرت خالد بن ولید اور دیگر حضرات فتح مکہ سے پہلے اسلام کی آغوش میں آگئے تھے۔ قرآن میںاُنیس (19)کے عدد کو علم الاعداد کے اعتبار سے بھی حیرت انگیز حیثیت حاصل ہے۔ جس پر تحقیق کرنے والے نے بڑا کام کیا ہے اور کمپیوٹر کے ذریعے سے بھی ایسے کمال کی ترتیب قرآن کی سورتوں اور حروف میںممکن نہ تھی۔

کرونا کی بیماری کواکیسویں صدی کے اکیسویں سال میں بھی اُنیس (19)ہی کے سال کا نام دیا گیا ہے۔ امریکہ میں پارلیمنٹ کو فوج کا تحفظ دینا بھی نظام کی ناکامی کی دلیل ہے۔ بھارت میں نریندر مودی کا مسلط ہونا اور پاکستان کے آوے کا آوا بگڑنا بھی کسی بڑے انقلاب کا پیش خیمہ لگتا ہے۔ مشرکینِ مکہ نہ صرف ملائکہ کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے بلکہ ان کی پوجا کا بھی تصور رکھتے تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ زمین پر اللہ کی نمائندگی کیلئے کسی بشر رسول کی بعثت ممکن نہیں ہے، نوری فرشتوں کا یہ منصب ہے جو انکے خدا ہیں۔

جب مکہ فتح ہوا تو فتح مکہ سے قبل اور فتح مکہ کے بعد کے مسلمانوں میں وہ واضح فرق تھا جس کی وضاحت قرآن میں بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۂ مدثر کے آخر میں حق سے اعراض کرنے والوں کے بارے میں فرمایا ہے کہ

فما لھم عن تذکرة معرضین

کانھم حمرمستنفرة

فرت من قسورة

” اور ان کو کیا ہے کہ نصیحت سے اعراض کررہے ہیں؟۔ وہ لوگ جیسے بدکے ہوئے گدھے ہوں جو بھاگ رہے ہوں ببرشیر سے”۔

ابوجہل وابولہب اور دیگر سردارانِ کفارنے نبی ۖ اور قرآن سے اسی طرح کا رویہ اختیار کررکھا تھا لیکن ان کو پتہ نہیں تھا کہ دن ایسے بدل جائیں گے کہ فتح مکہ کے بعد ابوجہل کا بیٹا حضرت عکرمہ بھاگنے کے بعد سچے اورپکے مسلمان بن جائینگے۔ حضرت ابوسفیان اور حضرت ہندہ اسلام قبول کرلیں گے اور نبیۖ معافی تلافی دیکر فرمائیںگے کہ مجھے اپنا چہرہ مت دکھانا تجھے دیکھ کر اپنے چچا(سیدالشہدائ) امیرحمزہ یاد آتے ہیں۔ رسول ا للہۖ کے بعد بعض لوگ پھر مرتد بھی ہوگئے تھے۔ حضرت ابوبکر کے بعد حضرت عمر کے دور میں بڑی خوشحالی آئی تھی۔ اہل ایمان خوشحالی کی حالت میں تھے اور مجرمین کی حالت غیر تھی۔ مجرموں سے بزبان حال پوچھا جاتا کہ تم اس قدر مشکلات کی دلدل میں کیوں پھنسے ہو؟۔ اسلئے کہ ان پر مؤلفة القلوب کی زکوٰة کا دروازہ بھی بند کردیا گیا تھا۔ مجرمین کہتے تھے کہ ” ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہیں تھے۔ اور مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے اور ہم مخمصے میں پڑنے والوں کے ساتھ مخمصہ میں پڑے رہتے تھے اور ہم آخرت کے دن کو جھٹلاتے تھے۔ حتی کہ ہمیں یقین آگیا۔ پس شفاعت نفع نہ دیگی ان کو شفاعت کرنے والوں کی”۔ صحابہ کرام کی سیرت کے واقعات میں ہے کہ مروان بن حکم کو نبیۖ نے جلاوطن کردیا تھا اور حضرت ابوبکر و حضرت عمر کے دور میں مروان کو مدینہ نہیں آنے دیا گیا تھا۔ پھر حضرت عثمان نے مروان کو داماد بنایا۔ حضرت امیر معاویہ نے مروان کو مدینے اور مکے کا گورنر بنایا تھا اور اس نے صحابہ کرام پر بڑا ظلم کیا تھا۔ رسول اللہۖ نے حضرت ابوسفیان کو عزت بخشی تھی لیکن یزید کے دور میں کربلا کا واقعہ ہوگیا تھا اورحضرت عمر بن عبدالعزیز مروان کا پوتا تھا جس کو دوسری صدی ہجری کا مجدد اور انکا دور خلافت راشدہ کہلاتا ہے۔ تاریخ اور احادیث کو درست طریقے سے مرتب کرنے کی سخت ضرورت ہے۔

سورۂ مدثر میں بڑے حقائق پوشیدہ ہیں لیکن علماء کی ایسی ٹیم ہونی چاہیے جو تعصبات کے بغیر قرآنی آیات سے امت مسلمہ کو قرآن وسنت اور تاریخ کی روشنی میں درست رہنمائی فراہم کرے۔ سورۂ مدثر کے بعد سورۂ قیامة اور پھر سورۂ دہر ہے۔ یہاں اصل مقصد سورۂ دہر سے کچھ حقائق کی طرف توجہ دلانا مقصود تھی۔ جبکہ قیامت اور الدہر بالکل الگ الگ موضوعات ہیں۔ قرآن کا مقصد بھی دونوں سورتوں میں الگ الگ مضامین کی وضاحت ہی ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ سورۂ قیامةسے جیسے دنیا اور زمانے کے حالات مراد لینا بے معنی اور غلط ہے ،اسی طرح سے سورۂ الدہر سے بھی زمانے کے بجائے قیامت مراد لینا غلط اور بے جا ہے۔ سورۂ دہر کے تناظر میں ہم اپنے ملک پاکستان کو جنت کی نظیر بناسکتے ہیں۔ قرآن و حدیث میں اسلام کے غلبے اور پوری دنیا میں دوبارہ طرز نبوت کی خلافت قائم ہونے کی پیش گوئی ہے۔

اگر نالائق طبقہ اپنی نالائقی بدل کراپنی لیاقتوں کے جوہر دکھائے تو ہم پھر نہ صرف امت مسلمہ میں بلکہ پوری دنیا میں سرخرو ہوسکتے ہیں۔ مروان و یزید کا اقتدار نالائقی اور نااہلی کے باوجود خاندانی اور موروثی پسِ منظر کی وجہ سے تھا لیکن حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اچھا کردار ادا کیا تو موروثیت نے کوئی نقصان آپ کے کردار کو نہیں پہنچایا۔ افواج پاکستان میں آرمی چیف کے بیٹے کو آرمی چیف نہیں بنایا جاتا ہے لیکن بادشاہت کے علاوہ ہمارے اس نام نہاد جمہوری نظام میں نالائقی اور نااہلی کے باجود موروثی نظام کا عمل دخل ہے۔

پاکستانی قومی ترانے میں اسلام کی نشاة ثانیہ ہے۔ علماء کی نااہل اولاد کو موروثیث کی وجہ سے اپنے باپ کے منصب پر فائز کیا جاتا ہے۔ جس کی اسلام اور جمہوریت میں قطعی طور پر گنجائش نہیں ۔ اگر آرمی چیف کا بیٹا آرمی چیف بنتا تو پاک فوج کب سے اپنی اہلیت کھو دیتی؟۔ جمہوری پارٹیاں بھی اپنے اندر جمہوریت اور میرٹ کی روح پیدا کرلیتیں تو پاکستان کی ترقی میں سیاسی پارٹیاں اپنی مظلومیت کا واویلا نہ کرتیں۔جب اہل کا نااہل بیٹا یا پوتا یا نواسہ وارث بنتا ہے تو مدرسے کا مہتمم یا پارٹی کا سربراہ اچھے اچھوں کی محنت ، صلاحیت اور قربانیوں کو خاک میں ملا دیتا ہے۔جب مدارس عوام کے چندوں اور پارٹیاں عوام کی صلاحیتوں سے بنتی ہیں تو ان پر موروثی اعتبار سے قبضہ شرعی اور دنیاوی لحاظ سے کہاں جائز اور مناسب لگتاہے؟۔ غریب کو تعلیم کے مواقع نہیں ملتے اور امیر میں صلاحیت کا فقدان ہوتا ہے۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

پاکستان میں چوراور چوروں کاتعاقب براڈشیٹ اور فارن فنڈنگ میں عیاں!

مشہور تھا کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔اب پاکستان کی ریاست، سیاست اور صحافت سے پردہ اُٹھ چکا ہے۔ جو حال اسلامی جمہوریہ پاکستان کا اصحاب حل وعقد نے کیا ہے،اس سے زیادہ بُرا حال علماء نے اسلام کا کیا ہے

تاہم جس طرح پاکستان واحد ایٹمی ریاست ہے جس کا کریڈٹ سیاست، ریاست اور صحافت کو جاتا ہے اور تمام نااہلیوں کے باوجود اہل پاکستان کی یہ سب سے بڑی خوش قسمتی ہے۔

اسی طرح پاکستان کے علماء ومشائخ نے قرآن وسنت اور اصولِ فقہ کے علاوہ دین اسلام کی روح کو زندہ رکھنے میں بہت زبردست اور بنیادی کردار ادا کیا ہے جو بہت خوش آئند ہے

اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے درمیان طلاق یعنی جدائی کا جواز رکھا ہے۔ جس انداز میں عورت کو تحفظ دیا ہے وہ بھی بہت مثالی ہے اور جس انداز میں صلح واصلاح اور باہمی رضامندی کی شرط پر رجوع کی وضاحت فرمائی ہے وہ بھی بہت مثالی ہے اور جس انداز میں باہمی رضا مندی کے بغیر صلح کی گنجائش کا خاتمہ اور یکطرفہ رجوع کو حرام قرار دیا ہے وہ بھی مثالی ہے اور جس تفصیل و ترتیب کیساتھ وضاحتیں کی ہیں وہ بھی بہت مثالی اور لاجواب ہیں لیکن اسکے باوجود جس کم عقلی، ڈھیٹ پن، ہڈحرامی کا مظاہرہ مذہبی طبقے کررہے ہیں ان کو بھی اس مستقل مزاجی اور استقامت پر بہت زبردست داد اور خراج تحسین پیش کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان میں جس طرح براڈ شیٹ اور فارن فنڈنگ کیس پر بہت زیادہ بے شرمی، بے حیائی اور بے غیرتی کا مظاہرہ کرنے میں اصحاب حل وعقد اپنی مثال آپ ہیں اسی طرح طلاق کے مسئلے میں علماء ومفتیان اور مذہبی طبقے کی حالت بھی ان سے بالکل مختلف نہیں ہے۔جس طرح براڈ شیٹ میں لندن کی حکومت ،عدالت اور وکالت نے پیسے بھی بٹور لئے ہیں، شرمندہ بھی کردیا اور لٹکتی ہوئی تلوار بھی سر پر رکھی ہوئی ہے اسی طرح سے علماء ومفتیان حلالے کی دنیا میں اپنے عقیدت مندوں سے ناجائز متعہ کرکے بیڑہ غرق کررہے ہیں۔

براڈ شیٹ کمپنی کے سکینڈل نے بڑے پیسے کماکر اس طرح سے سب کو بے نقاب کردیا جس طرح علماء ومفتیان نے حلالہ کی لعنت سے اسلام کی تعلیم پر مذہب میں جعل سازی کوبڑے طریقے سے بے نقاب کردیا ہے۔

میڈیا میں سیاستدانوں اور نیب دانوں کی وکالت کرنے والی صحافت کو بے نقاب کرنے کیلئے لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ دنیا بھر کے میڈیا چینلوں کے سامنے کھڑا کرکے جھوٹ بولنے والے صحافیوں سے پہلے جھوٹ بولنے کی وضاحت مانگی جائے ،اگر وہ معقول وضاحت پیش نہ کرسکیں تو ان کو ایسے کوڑے مارے جائیں کہ پھر وہ بھول کر بھی جھوٹ بولنے کی کوئی ہمت نہ کرسکیں۔ اسی طرح جن سیاستدانوں نے کرپشن کی ہے ان کو بھی جرم کے اعتراف کیلئے میڈیا پر لایاجائے اور سچ نہ بولنے پر کوڑے مارے جائیں۔ اسی طرح نیب اور اسکے سرپرستوں کو غلط پالیسی اختیار کرنے پر سرِ عام کوڑے مارے جائیں۔ پاکستان کی عزت بننا شروع ہوجائے گی تو افغانستان اور ایران کو دعوت دی جائے کہ ہم ایک مشترکہ ریاستی نظام بناتے ہیں۔ پھر ترکی اور عرب ممالک سمیت پوری دنیا کے اسلامی ممالک کو ایک کیا جائے۔

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے

نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر

پاکستان میں بھی جتنے ریاستی ادارے ہیں، سب کی کارکردگی صفر ہے مگر عوام کی نظروں میں صرف سیاستدان و آرمی والے کرپٹ ہیں۔عدلیہ، محکمہ ٔ جنگلات، زراعت، ریلوے، پی آئی اے، تعلیم، صحت، تجارت،میڈیا، انکم ٹیکس، کسٹم،پبلک سروس کمیشن،واپڈا، سول وملٹری بیوروکریسی اور جتنے بھی حکومت ، ریاست اور عوام سے تعلق رکھنے والے ادارے اور افراد ہیں ،سب کی حالت ایکدوسرے سے بدتر ہے لیکن کیا یہ سب ٹھیک نہیں ہوسکتے ہیں؟۔

اللہ تعالیٰ دِ لوں کو پھیرنے والا ہے۔ مشرکینِ مکہ کی جہالت اور کفر کا کیا حال تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو اسلام اور ایمان کی دولت سے نواز کر دنیا میں خلافتِ راشدہ کو سپرطاقت بنادیا تھا۔جب وحی کا سلسلہ اور نبوت ورحمت کا دور تکمیل کو پہنچ گیا تو خلافت پر انصار و قریش اور قریش واہلبیت میں اختلاف تھا لیکن انہوں نے پھر بھی اتفاق سے اسلام کی شوکت کو دنیا میں ایسا دوام بخشاتھا کہ بنوامیہ ،بنوعباس،سلطنت عثمانیہ نے بھی بڑی سپرطاقت کی شکل اختیار کرلی تھی۔ رسول اللہ ۖ کی زندگی میں مختلف موقع پر صحابہ کرام نے اختلاف کیا تھا۔ غزوۂ بدر کے قیدی، سورۂ مجادلہ میں عورت کا مجادلہ اور حدیث قرطاس کے معاملات بہت واضح ہیں ۔آج ہمارا ایکدوسرے سے اختلاف بالکل بنتا ہے لیکن افہام وتفہیم کا راستہ اپنانا ہوگا۔

پاکستان کا دارالخلافہ کراچی تھا لیکن اس کو اسلام آباد منتقل کردیا گیا۔ پھر مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ اب ملتان اور ڈیرہ غازی خان پاکستان کے مراکز ہیں۔ ڈیرہ غازی خان میں جی ایچ کیو (GHQ) اور ملتان میںدارالخلافہ منتقل کیا جائے۔کرپشن کی رقم حق حلال کی کمائی ہوتی تب بھی اس پر اتنی زکوٰة بنتی تھی جتنی رقم پر براڈ شیٹ سے نیب کا معاہدہ ہوا ۔ پاکستان کمزور نہ ہوتا تو برطانیہ سے تاوان وصول کیا جاتا کہ فراڈ کرنے والوں کی کمپنی رجسٹرڈکیوں کی تھی؟۔ پھر فراڈ کرنے والے کو دوبارہ کیسے اس نام پر دوسری کمپنی رجسٹرڈ کرنے دی؟۔ اس وقت نیب کے چیئرمین جنرل ر امجد شعیب نے غلطی کی تو اس کی سزا بھی ملنی چاہیے لیکن اگر اس نے مغالطہ کھایا اور اسکا اعتراف کیا تو پھر دوسرے چیئرمینِ نیب نے یہ تسلسل کیوں جاری رکھا تھا؟۔ پھر پرویز مشرف نے کیوں رعایت دیدی تھی؟۔

جتنے فوج سے متعلقہ لوگوں نے کرپشن کرکے مال بیرونِ ملک منتقل کیا تھا وہ سب ایک سال کی زکوٰة یا براڈ شیٹ سے طے ہونے والی رقم کے مطابق اپنابیس فیصد ( 20%) رکھ کر باقی ساری رقم پاکستان کے حوالے کریں اور اس سے ڈیرہ غازی خان میں جدیدترین جی ایچ کیو (GHQ)بنایا جائے۔ سیاستدانوں اور سول بیوروکریٹوں کو بھی بیس فیصد ( 20%)دیکر ملتان میں ایک جدید ترین دارالخلافہ بنایا جائے۔

نہری سسٹم اور سستی بجلی پیدا کرنے سے پاکستان کی تعمیرِ نو کی جائے۔ پاکستان کا سقوط خدانخواستہ ہوگیا تو پھر افغانستان، عراق ، لیبیا اور شام کو بھی دنیا بھول جائے گی کیونکہ یہاں فرقہ واریت، طبقاتی اور نظریاتی بنیادوں پر ایک دوسرے سے نفرت بھڑکائی جاسکتی ہے۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

مفتی عبدالقوی اور حریم شاہ کے اسکینڈل سے حلالہ کی لعنت کا فتویٰ زیادہ خطرناک و شرمناک ہے

مفتی عبدالقوی اور حریم شاہ کے اسکینڈل سے حلالہ کی لعنت کا فتویٰ زیادہ خطرناک و شرمناک ہے جسکا تدارک کرنا ہوگا

سید بلال قطب نے اگر واقعی مدرسے میں سات (7)سال تعلیم حاصل کی ہے اور پھر قرآن کی آیت وحلائل آبنائکم بیٹوں کی بیگمات کا بھی پتہ نہیں تھاتو نالائق کو اسلامی اسکالر بنانا کیسا تھا؟

حنفی مسلک یہ ہے کہ عدت میں نکاح باقی رہتا ہے ۔ قرآن میں اصلاح کی شرط پر عدت میں اور عدت کی تکمیل پر رجوع ہے مگرپھر بھی قرآن کیخلاف حلالہ کی لعنت پر مجبور کیاجاتا ہے

حریم شاہ اور مفتی عبدالقوی کے اسکینڈل نے الیکٹرانک، سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر بدتمیزی کا ایک طوفان برپا کیا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ ”ہوسکتا ہے کہ جس چیز کو تم اپنے لئے برا سمجھتے ہو وہ تمہارے لئے خیر ہو”۔ عبدالقوی کا تعلق تبدیلی سرکار سے تھا۔ تحریک انصاف علماء ونگ کے صدر تھے اور اب اس کے چچا نے پریس کانفرنس کے ذریعے سے بتایا ہے کہ اسکے مفتی کا منصب بھی ختم کردیاہے۔

سید قطب نے علامہ ابتسام الٰہی ظہیر اور مولاناراغب نعیمی کیساتھ پروگرام میں بتایا ہے کہ اس نے خود بھی سات سالہ مدرسے کانصاب باقاعدہ پڑھاہے لیکن داڑھی اور مذہبی لبادہ نہ رکھنے کی وجہ سے اپنے ساتھ مولانا یا مفتی نہیں لگاتا ہے اور پروگرام میں علامہ طاہر اشرفی سے بھی فون پر سید قطب نے بات کی ہے۔

اگر علامہ راغب نعیمی حضرت مولانا ڈاکٹر سرفراز نعیمی کے فرزند نہ ہوتے تو شاید ٹی وی (TV)اسکرین پر اتنا آنے کا موقع بھی نہ ملتا۔ ان کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ پہلے کسی کے نام کیساتھ مفتی لگانے کا کوئی تصور نہیں ہوتا تھا۔ مولانا احمد رضاخان بریلوی نے بہت فتوے دئیے ہیں لیکن ان کیساتھ کسی نے ”مفتی ” نہیں لکھا۔ جب مدارس میں باقاعدہ تدریس کا نظام شروع ہوا تو اس میں ایک عالم کو فتوؤں کیلئے خاص کردیا جاتا تھا اور اس کو مفتی اپنے فرائضِ منصبی کی وجہ سے کہا جاتا تھا۔ پھر جب مدارس میں مزید تدریس کا عمل منظم ہوگیا تو پھر دارالافتاء میں زیادہ مفتی بیٹھنے لگے اور پھر باقاعدہ افتاء کا کورس بھی پڑھایا جانے لگا۔ اب لوگ کورس کرنے کی بنیاد پر بھی مفتی لکھتے ہیں۔

مفتی شاہ حسین گردیزی کے سامنے قاری اللہ داد صاحب کا ذکر آیا تو انہوں نے کہا کہ کسی نے قاری اللہ داد سے پوچھا کہ آپ مفتی ہیں تو قاری صاحب نے کہا کہ میں مفتی تو نہیں ہوں مگر مفتی کا باپ ضرور ہوں۔ ہمارے ہاں محاورہ ہے کہ اگر جانور گھر میں پلابڑھا ہو تو اسکے دانت دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے کہ دودانت یا چھ؟۔ اس کی عمر کا انسان کو پتہ ہوتا ہے۔ حریم شاہ وزیراعظم عمران خان، شیخ رشید، فیاض الحسن چوہان سے ہوتے ہوئے مبشر لقمان کے علاوہ سرکاری حساس مقامات میں اپنی ویڈیو اور اسکینڈل کا اظہار کرچکی ہے۔ تصاویر اور ویڈیو سے لیکر سب چیزوں میں ایڈیٹنگ بھی ہوسکتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے جلسۂ عام میں کہا کہ ”عمران خان نے گھر کو ریگولرائز کیا ہے اور اب ایک دوسری چیز کا ریگولرائز کرنا باقی ہے”۔ تحریک انصاف کے رہنماؤں نے مولانا کی طرف سے ذاتیات پر حملے کو قابل افسوس عمل قرار دیا ہے۔

مولانا فضل الرحمن پر ڈیزل اور عمران خان پر عدت میں شادی کرنے کے الزام میں کوئی صداقت ہے یا نہیں لیکن قوم کے سامنے بھرپور وضاحت بہت ضروری ہے ۔ ڈاکٹر عامر لیاقت بھی ڈاکٹر نہیں لیکن اسکے ساتھ ڈاکٹر لکھنا جعل سازی ہے۔ تحریکِ انصاف میں شمولیت سے پہلے اس نے الزام لگایا کہ عمران خان نے عدت کے اندر شادی کی ہے۔ جیو ٹی وی چینل پر عمر چیمہ نے دعویٰ کیا کہ اس کے پاس ثبوت ہیں کہ عمران خان کی بشریٰ بی بی سے عدت میں شادی ہوئی ہے۔ عمران خان وزیراعظم بن گئے لیکن عمر چیمہ کے اس چیلنج کو غلط ثابت کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ڈاکٹرعامر لیاقت نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرلی مگر اپنے الزام کی کوئی تردید نہیں کی ۔

ہم نے لکھا ہے کہ ” صحیح حدیث میں خلع کی عدت ایک حیض ہے اور سعودیہ میں اسی پر عمل بھی ہورہاہے”۔ اگر بشریٰ بی بی کی عدت طلاق کے حوالے سے پوری نہ ہو تو خلع کے اعتبار سے ضرور پوری ہوئی ہوگی۔صحیح حدیث ہے کہ عورت کا نکاح اپنے ولی کی اجازت کے بغیر باطل ہے، باطل ہے، باطل ہے۔ اسکا اطلاق کنواری پر ہوتا ہے اسلئے کہ قرآن میں طلاق شدہ اوربیوہ کو نکاح کیلئے آزاد قرار دیا گیا ہے۔ ہمارے علماء کرام اپنے نصاب میں قرآن وحدیث کو ٹکراتے ہوئے صحیح حدیث کو بھی رد کردیتے ہیں حالانکہ قرآن کا مقصد طلاق کے بعد اپنے شوہر کی دسترس سے آزادی دلانا ہے ۔ اگر مفتی عبدالقوی صاحب حریم شاہ سے نکاح کرنے کے جھانسے میں نہ آتے بلکہ وہ اسکے باپ سے اجازت طلب کرتے تو سید زادی کو شہرت حاصل ہونے کے بعد اسکا عزت دینا بنتا تھا۔ مفتی عبدالقوی کس طرح کے انسان ہیں؟۔ عمران خان سے تعلق رکھتے ہیں۔ عمران خان کے دھرنے میں پھیرے دینے والی زویا علی کہتی تھی کہ عمران خان مجھ سے شادی کرلو۔ عائشہ گلالئی کو بھی لگا تھا کہ عمران خان اس سے شادی کرنے کے موڈ میں تھا لیکن اسکے نصیب کی بارش ریحام خان اور پھر بشریٰ بی بی پربرس گئی۔

اصل بحث معاشرے کی اخلاقیات اور شریعت کی ہے۔ مفتی سے بڑا رول ماڈل وزیراعظم ہے۔ دھرنے میں ہماری سول و ملٹری اشرافیہ کی خواتین اور دوشیزاؤں نے بھی عمران اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے پیروکاروں نے اپنی اپنی کلاس کی نمائندگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ تحریک انصاف کے ٹائیگروں نے اپنی ٹائیگرنیوں کو جس طرح سے بھنبھوڑا تھا وہ بھی قوم کے سامنے تھا۔ پھرجبری جنسی تشدد کا دائرہ بچوں اور بچیوں تک پہنچ کر تشدد سے لاش مسخ کرنے کی حدوں تک وسعت اختیار کرگیا۔ اب تو خواتین کا رونا بھی ختم ہوگیا ہے اسلئے کہ آنسو بہانا مذہبی لوگوں کی طرح محض تکلف تونہیں تھا۔

جہاں تک مفتی عبدالقوی اور حریم شاہ کے اسیکنڈل کا مسئلہ ہے تو اس پر علماء کیلئے کونسی شرمندگی کا مسئلہ ہے؟۔ عربی مقولہ ہے کہ وللناس فی مایعشقون مذاہب ”لوگوں کیلئے اپنی اپنی پسندیدہ چیزوں میں اپنے اپنے مشرب ہوتے ہیں”۔ علامہ اشرفی پر شراب کا اسکینڈل مشہور ہوگیا۔ فیصل آباد کے بڑے مدرسہ میں طلبہ نے جنسی تشدد پر شیخ الحدیث مولانا نذیر احمدکے خلاف آواز اُٹھائی تھی۔ مولانا سمیع الحق پر میڈم طاہرہ کا اسکینڈل مشہور ہوا تھا۔ نوازشریف پر طاہرہ سید کے اسکینڈل کی بازگشت تھی۔ سمیع ابراہیم نے مسلم لیگ کی رہنمامائزہ حمید،پرویزمشرف ، صدرزرادری کی ویڈیوز کا معاملہ اُٹھایا اور سچی بات یہ ہے کہ جب مریم نواز نے پی ڈی ایم (PDM)کے چندجلسوں میں بنوں، مالاکنڈ اور لورالائی میں شرکت نہیں کی تو یہ احسا س ہوا کہ ان علاقوں کا ماحول اتنا سازگار نہیں ہے کہ کوئی خاتون اس طرح اسٹیج پر مردوں کے مجمع میں خطاب کر سکے مگر جب اسلام آباد میں الیکشن کمیشن کے سامنے مریم نواز کیساتھ چند خواتین کو مردوں کی بہت قربت میں دیکھا تو بالکل بھی اچھا نہیں لگا۔ ن لیگ کے رہنماؤں کو اپنے لیڈر نوازشریف سے محبت ہے تو اس کا اظہار خواتین سے کچھ فاصلہ رکھ کرکیا جاسکتا ہے۔

بیت اللہ کے طواف میں بھی خواتین اجنبی مردوں کیساتھ ہڈی پسلی ایک کرکے حجرِ اسود کو چومتی ہیں تو ان کو شریعت اور اخلاقیات کی طرف سے اجازت نہیں ہے۔ علماء اور دانشوروں کو سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر حق کی آواز اٹھانے کی ضرورت ہے اور یہ کوئی معیاری اخلاقیات تو نہیں لیکن شریعت میں اس کی بھی اجازت ہے کہ بی بی بشریٰ نے شوہر سے خلع لیکر اپنے مرید سے شادی رچالی ہے مگر جوہوگیا سوہوگیا۔

جب حضرت عائشہ پر بہتان لگا تو یہ کتنا بڑا سانحہ تھا؟۔ جس کو افک عظیم کہا ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ ” اس کو اپنے لئے شر مت سمجھو بلکہ یہ تمہارے لئے خیر ہے”۔ اس واقعہ سے سبق ملتا ہے کہ غلط گمان پر بہتان لگانا بڑا جرم ہے۔ غلط بات کی تشہیر بھی درست نہیں اور جب نبیۖ کی عزت وناموس پر بہتان اور اذیت ناک معاملہ آیا تو نبیۖ نے صحابہ کرام کوپھر بھی اشتعال نہیں دلایا ورنہ تو ان لوگوں کے ٹکڑے کردئیے جاسکتے تھے۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ کسی پاکدامن عورت پر بہتان لگانا اتنا بڑا جرم ہے کہ سورہ نور میں زنا کی سزا سو (100)کوڑے اور بہتان کی سزا اسی (80)کوڑے ہے اور موجودہ دور میں اس کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ ام المؤمنین اور کسی غریب خاتون پر بہتان کی سزا قرآن نے ایک ہی رکھی ہے اور ہمارے ہاں جسکے پاس زیادہ حرام کی کمائی ہو وہ ہتکِ عزت کا بڑا دعویٰ بھی کرتا ہے۔ غریب اور امیر کیلئے اسی (80)کوڑے کی سزا ایک جیسی ہے لیکن غریب کیلئے کم پیسوں کی سزا زیادہ اور امیر کیلئے کچھ نہیں ہے۔

اب آتا ہوں اصل مقصد کی طرف کہ انجینئر محمد علی مرزا، عمران خان کا بی بی بشریٰ سے خلع کے بعدنکاح اور مفتی عبدالقوی کا حریم شاہ سے اسکینڈل اتنی زیادہ بڑی بات نہیں ہے جتنی مفتی عبدالقوی کی یہ بات تھی کہ اگر کوئی محترمہ حلالہ کروانا چاہے تو میں اس کیلئے تیار ہوںکیونکہ جب مدارس میں علماء ومفتیان فتویٰ دیں گے کہ جب تک وہ عورت اس طلاق کے بعد کسی اور سے نکاح نہیں کرے گی تو پہلے شوہر کیلئے حلال نہیں ہوگی۔ اگر یہ ثابت ہوجائے کہ عورت کو حلالہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور علماء ومفتیان پھر بھی کسی منکوحہ عورت کو حلالہ کرنے پر مجبور کریں تو یہ حریم شاہ کیساتھ رنگ رنگیلے معاملات سے زیادہ گھناؤنا معاملہ ہے۔ جہاں سپریم ادارے پارلیمنٹ میں بھی اس قسم کی تقریریں ہوتی ہوں جو پیپلزپارٹی کے قادر پٹیل مراد سعید کے خلاف کررہے ہیں تو وہاں اخلاقیات کی اس قوم سے کیا توقع کی جاسکتی ہے؟۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ فان طلقہا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجًا غیرہ ” پس اگر اس نے طلاق دیدی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ اور شوہر سے نکاح کرلے”۔( آیت230سورة البقرة )

اس آیت میںتیسری طلاق کا کوئی ذکر نہیں ہے بلکہ نبیۖ سے صحابی نے پوچھ لیا تھا کہ قرآن میں تیسری طلاق کہاں ہے؟۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ دومرتبہ طلاق کے بعد تیسری مرتبہ میں معروف رجوع کے بجائے او تسریح باحسان احسان کیساتھ چھوڑ دینا ہی تیسری طلاق ہے جس کا ذکر آیت(229البقرہ) میں ہے۔ جس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ ” تمہارے لئے حلال نہیں کہ جو کچھ بھی ان کو دیا ہے کہ اس میں سے کچھ بھی ان سے واپس لے لو مگر جب دونوں اس خوف پر متفق ہوں کہ وہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے اور (اے فیصلہ کرنے والو!) اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیںگے تو دونوں پر کوئی حرج نہیں کہ جو شوہر نے اس عورت کو دیا ہے کہ پھر وہ عورت کی طرف سے اس کو فدیہ کردیا جائے اور یہ اللہ کی حدود ہیں، ان سے تجاوز مت کرو اور جو اللہ کی حدود سے تجاوز کرتا ہے تو وہی لوگ ظالم ہیں۔ آیت(229)پھر اسکے بعد آیت (230)میں طلاق کا ذکر ہے۔

آیت (228)میں اللہ تعالیٰ نے عدت کے تین مراحل کا ذکر کیا ہے اور اس میں باہمی اصلاح کی شرط پر شوہر کو رجوع کرنے کی اجازت دی ہے۔ آیت(229)میں بھی تین مراحل اور تیسرے مرحلے میں معروف طریقے سے رجوع کی اجازت دی ہے۔ باہمی اصلاح اور معروف طریقے سے رجوع میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ بنیادی طور پر عدت اور اصلاح سے عورت کے حق کو تحفظ دیا ہے۔ یعنی عدت کے بعد عورت دوسرے سے نکاح کرسکتی ہے اور طلاق سے رجوع کیلئے باہمی اصلاح اور معروف طریقے سے رجوع شرط ہے۔ طلاق کا تعلق عدد سے نہیں عدت سے ہے۔ دو مرتبہ طلاق اور تیسری مرتبہ طلاق کا تعلق عدت کے تین مراحل سے ہے جس کونبیۖ بھی واضح کرچکے تھے۔ یہ تصورہی غلط ہے کہ ایک عدد طلاق دی جائے اور عدت کے بعد بھی دوعدد طلاق باقی ہوں حتی کہ عورت دوسرے شوہر سے نکاح کرلے تب دو طلاق باقی ہوں اور جب دوسرا طلاق دے اور پہلا نکاح کرلے تو سوال پیدا ہوکہ پہلا نئے سرے تین طلاق کا مالک ہوگا یا پھر پہلے سے موجود دو طلاق کا مالک ہوگا؟۔

طلاق سے رجوع کیلئے بنیادی شرط باہمی اصلاح اور معروف رجوع ہے جس کی وضاحت آیت(231)اور(232)البقرہ میں بھی متصل ہے۔ اگر ایک طلاق کے بعد عدت میں عورت راضی نہ ہو تو بھی شوہر کیلئے رجوع حرام ہے اور اگر عدت کی تکمیل کے بعد میاں بیوی باہمی اصلاح اور معروف رجوع پر راضی ہوں تب بھی حلال ہے اور جہاں تک آیت(230)میں طلاق کے بعد حلال نہ ہونے کا ذکر ہے تو اسکا مقصد عورت کو شوہر کی دسترس سے باہر نکالنا ہے۔ کیونکہ شوہر طلاق کے بعد عورت کو اس کی مرضی سے جہاں چاہے نکاح نہیں کرنے دیتا ہے۔ اس آیت نے بڑے ظالم مردوں سے عورتوں کی جان چھڑائی ہے لیکن علماء وفقہاء نے حلالہ کی لعنت رائج کردی ہے۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

انجینئر محمد علی مرزا کی قرآن کے بارے میں جہالت اور کم عقلی کا انوکھا مظاہرہ!

فرمایا : وینزل الغیث ویعلم ما فی الارحام ”اور وہ بارش نازل کرتا ہے اور جانتا ہے جو ارحام میں ہے” مگر مرزا نے کہا کہ” اللہ جانتا ہے کہ بارش کب ہوگی اور ماں کے پیٹ میں کیا ہے جبکہ سب فرقوں کا ترجمہ غلط ہے”!

مرزا نے تفسیر کی کہ ”قرآن میں ہے کہ بارش کب ہوگی” اور دنیا کو آج بھی پتہ نہیں کہ بارش کب ہوگی۔ الٹراساؤنڈ نے فرقوں کو غلط ثابت کیا ہے، اللہ جانتا ہے کہ کون کافر ہے یا مسلمان”

مرزا جاہل کتابی کو یہ بھی معلوم نہیں کہ قرآن کے الفاظ کیا ہیں؟۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ ” قرآن کی تفسیر زمانہ کرے گا” آج کے زمانے نے قرآن کے الفاظ کی تفسیر کی ہے!

انجینئر محمد علی مرزا نے قرآن کے حوالے سے عوام کی اصلاح نہیں کی بلکہ مزید جہالت کے اندھیروں میں دھکیلا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مرزا میں کتنا خلوص ہے؟۔ یا وہ جاہل اور کم عقل کے علاوہ انتہائی ہٹ دھرم بھی ہے؟۔

انجینئرمحمد علی مرزا نے اپنی ویڈیو میں کہا ہے کہ :

”قرآن کے الفاظ کی ذمہ داری اللہ نے لی ہے ،تمام فرقوں کے علماء کی غلطیوں کا اللہ ذمہ دار نہیں ہے۔ جب سائنس نے ترقی نہیں کی تھی تو علماء نے کاقرآن ترجمہ یہ کیا کہ ”اللہ جانتا ہے کہ ماں کے پیٹ میں بچہ ہے یابچی ”۔ اب سائنس نے ترقی کرلی ہے اور الٹرا ساونڈ میں بچے اور بچی کا پتہ چلتا ہے۔ اب لوگ سمجھ رہے ہیں کہ قرآن غلط ثابت ہوگیا ہے۔ نہیں جی علماء کا ترجمہ غلط ثابت ہوا ہے۔ قرآن میں یہ تو نہیں ہے کہ بچے اور بچی کا عوام کو پتہ نہیں چلتا ہے ، یہ تو علماء نے ترجمہ غلط کیا ہے۔ قرآن کے الفاظ میں ہے کہ ماں کے پیٹ میں جو ہے اس کا پتہ لوگوں کو نہیں ہے ،یہ غیب کا علم ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ ”تم میں مؤمن بھی ہیں اور کافر بھی ہیں” ۔ اب کوئی بتائے کہ ماں کے پیٹ میں کافر ہے یا مسلمان؟۔ قرآن غلط ثابت نہیں ہوتا ہے۔ جب سائنس نے ترقی نہیں کی تھی توعلماء نے قرآن کا ترجمہ غلط کیا تھا۔

اللہ نے فرمایا ہے کہ ”کوئی نہیں جانتا ہے کہ بارش کب ہوگی” ۔ آج بھی لوگوں کو پتہ نہیں ہے کہ بارش کب ہوگی۔ ایک سال بعد آج کی تاریخ کا پتہ چلتا ہے کہ بارش ہوگی ؟۔ جب مون سون کا علم ہو اور ہواکے رخ سے بادل کا پتہ چلے کہ بارش آرہی ہے تو یہ غیب کا علم نہیں ہے۔ غیب کا علم وہ ہے جو سائنس کے بغیر حاصل ہو۔ اللہ نے غیب کی نفی کی ہے اور یہ غیب نہیں ہے”۔

محترم انجینئرمحمد علی مرزا صاحب !

پہلی بات یہ ہے کہ ہمیں تمہارے خلوص اور علمی محنت پر کوئی شک نہیں ۔ آپ کی ویڈیو دیکھ کر دل میں یہ خواہش اُبھرتی ہے کہ پروفیسر احمد رفیق اختر کی طرح آپ کے درس کابھی حکومت کے اداروں میں سرکاری اہتما م ہونا چاہیے۔ کراچی میں رینجرز سے پروفیسر صاحب نے خطاب کیا تھا۔ قاسم علی شاہ اور پروفیسر احمد رفیق اختر سے زیادہ آپ کی تقریروں سے فرقہ واریت کا ناسور ختم کرنے کی اب ریاستِ پاکستان اور مسلمانوں کو سخت ضرورت ہے۔

فرقہ واریت سے بالاتر نہ سہی لیکن اہلسنت کی کتابوں سے فرقہ پرستی کی جہالتوں کو ختم کرنا مرزا صاحب کے خلوص کا آئینہ ہے۔ اسی طرح اہل تشیع کی کتابوں سے شیعہ میں فرقہ واریت کے جراثیم کم کرنا بھی اچھا ہے۔ انسان بہت کمزور ہے اور یہ کمزوری ہم میں بھی ہے اور مرزا صاحب کی شخصیت میں بھی۔ اہل علم پھلدار درخت کی طرح تواضع سے جھکے ہوتے ہیں۔

قرآن کے الفاظ میں ”بارش کب ہوگی”نہیں بلکہ فرمایا :ان اللہ عندہ علم الساعة وینزل الغیث ویعلم مافی الارحام وماتدری نفس ما ذا تکسب غدا و بای ارض تموت ”بیشک اللہ کے پاس وقت کا علم ہے اوروہ بارش برساتا ہے اور وہ جانتا ہے کہ رحموں میں کیا ہے اور کسی کو پتہ نہیں کہ وہ کل کیا حاصل کرلے گا اور کس زمین پر مرے گا”۔

مجھے نہیں پتہ کہ کس فرقے کے کس عالم نے قرآن کے ان واضح الفاظ کا غلط ترجمہ کیا ہے لیکن مرزا صاحب نے اپنی ویڈیو میں بالکل غلط ترجمہ کیا۔

قرآن میں جن پانچ چیزوں کا ذکر ہے ۔ آخری دو چیزوں کی نفی ہے کہ ”کوئی نفس نہیں جانتاکہ وہ کل کیا حاصل کرلے گا اور کس زمین پر مرے گا”۔ یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے سے گہری مناسبت رکھتی ہیں۔ دنیا جس رفتار سے ترقی کررہی ہے تو اس بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ آنے والے دورکی ترقی وعروج یا زوال وتنزل کا علم واقعی کسی بھی نفس کیلئے مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ اور اسی کیساتھ” کس زمین میں مرے گا” کا معاملہ بھی واضح ہے کیونکہ جس قدر جہاز، گاڑیوں اور ذرائع آمدو رفت کا نظام بڑھ گیا ہے اور ترقی کی نت نئی ایجادات ہورہی ہیں وہ قرآن کی ان دونوں باتوں کی مزید تفسیر کررہی ہیں۔

جہاں تک پہلی تین چیزیں ہیں تو اللہ نے کسی اور کی نفی نہیں کی ہے بلکہ فرمایا کہ” اللہ کے پاس وقت کا علم ہے، وہ بارش برساتا ہے اور وہ جانتا ہے جو رحموں میں ہے ”۔ ان تین چیزوں میں کسی اور کی نفی نہیں ہے۔ رسول اللہۖ نے فرمایا کہ ” پانچ چیزیں غیب کی چابیاں ہیں اور ان کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ہے”۔ نبیۖ نے ٹھیک فرمایا اسلئے کہ اللہ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ ”جس دن ملائکہ اور روح چڑھتے ہیں تو اس کی مقدارپچاس (50) ہزار سال ہے”۔ سورۂ معارج کی اس آیت کا مشاہدہ نبیۖ نے معراج کی رات کو کیا تھا۔ البرٹ آئن سٹائن نے نظریۂ اضافیت دریافت کیا اور ریاضی کے حساب سے تصدیق کردی کہ جب چڑھنے کی رفتار تیز ہو تو زمین کے ایک لمحہ کے مقابلے میں تیزرفتاری سے چڑھنے کی مدت اسی (80)سال ہوتی ہے۔ موٹا دماغ رکھنے والے کیلئے یہ بھی ہے کہ دن رات اور ماہ وسال سے زمین کا اپنے محور کے گرد گھومنا اور سورج کے گرد گھومنا ثابت کرتا ہے کہ واقعی وقت غیب کی چابی ہے ۔ رسول اللہۖ نے سچ فرمایا کہ یہ غیب کی چابی ہے اور وقت نے ثابت بھی کردیا ہے۔ دوسری چیز بارش کا نازل ہونا۔ نبیۖ نے فرمایا کہ ”دجال جہاں چاہے گا بارش برسائے گا”۔ اللہ تعالیٰ نے صرف یہ فرمایا ہے کہ ”وہ بارش برساتا ہے” ۔ کسی اورکی نفی نہیں کی ہے۔ نبیۖ نے اس کو بھی غیب کی چابی قرار دیا ہے۔ قرآن نے بادل اور ہر چیزکے مسخر ہونے کا ذکر کیاہے اور بارش سے آسمانی بجلی کا بھی مشاہدہ ہوتا ہے انسان نے بارش سے فائدہ اُٹھاکر مصنوعی بجلی پیدا کرلی ہے اور وقت نے بارش برسنے کو غیب ہی کی چابی ثابت کردیا ہے۔ آج دنیا میں بجلی سے جو دنیا آباد ہے یہ قرآن وحدیث کی زبردست تفسیر ہے۔ تیسری بات اللہ نے یہ فرمائی ہے کہ ” وہ جانتا ہے کہ رحموں میں کیا ہے” اس میں بھی کسی اور کی نفی نہیں ہے۔ آج فارمی جانور، پھل اور کھیت سے لیکر ایٹم کے ذرات تک ایٹمی ٹیکنالوجی اور الیکٹرانک کی دنیا یہ ثابت کررہی ہے کہ ارحام کا تصور وسیع ہے جو غیب کی چابی ہے اور جس طرح انسان اورجانور میں رحم ہے اسی طرح نباتات اور جمادات میں بھی ہے۔ ماں کے پیٹ، انڈے، پھل، گندم، ایٹمی ذرات پر رحم کا اطلاق ہوتا ہے ۔ اور اللہ نے ان نرومادہ کا فرمایا تھا کہ ”اور وہ جو تم نہیں جانتے ”۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی