پوسٹ تلاش کریں

مروجہ نظام زمینداری اور اسلام

مروجہ نظام زمینداری اور اسلام
مولانا محمدطا سین: داماد علامہ حضرت سید محمد یوسف بنوری
ترتیب وپیشکش اور ایک جاندار تبصرہ نوشتہ دیوار: عبدالکریم شیروش
پیش لفظ میں میرا مقصد واضح کرنا ہے کہ یہ مضمون جسکا عنوان ہے ”مروجہ زمینداری اور اسلام” جس نے کتاب کی شکل اختیار کرلی کیوں لکھا، وہ کیا مصلحت اور ضرورت تھی جو میرے لئے اسکے لکھنے کا محرک اور باعث بنی”۔
یہ معاشیات کا دور ہے، اقتصادی شعبے کی یہ اہمیت پہلے نہ تھی۔ آج انسانی ذہن پر سب سے قوی رحجان معاشی ہے۔ معاشی پہلو کی درستگی پر زندگی کی درستگی کا دار و مدار ہے۔ آج نظام حیات کے اچھے برے، قابل قبول یا قابل رد ہونے کا معیار اسکا معاشی ضابطہ ہے، جسکا معاشی ضابطہ اور اقتصادی لائحہ عمل اچھا اطمینان بخش ہے وہ نظام اچھا وقابل قبول ہے خواہ دوسرے پہلوں سے اسکے اندر کتنی خامیاںاور خرابیاں کیوں نہ ہوں۔ اسکے برعکس وہ نظام برا ہے جسکا معاشی ضابطہ اطمینان بخش نہ ہو۔ معاشی ضابطے کا معروضی معیار اور پیمانہ یہ ہے کہ جس سے سو فیصد افراد کو معاشی خوشحالی اور ترقی کے مواقع میسر آسکتے ہوں۔ اسکے بعد پھر جس سے جتنے زیادہ افراد کو معاشی خوشحالی کے مواقع ملتے ہوں اتنا ہی اضافی طور پر اچھا و اطمینان بخش ہے اور جتنے کم افراد کو معاشی خوشحالی اور ترقی کے مواقع ملتے ہوں اتنا اضافی طور پر برا اور غیر اطمینان بخش ہے۔
آج انسانیت دو مخالف اور متحارب دھڑوں میں منقسم ہے اسکا سبب دو مختلف معاشی نظام ہیں۔ ایک کیپٹل ازم یعنی سرمایہ داری اور دوسرا سوشلزم یعنی اشتراکیت ہے۔ اسلام کا مستقل معاشی نظام اشتراکی و سرمایہ دارانہ دونوں معاشی نظاموں سے بنیادی طور پر مختلف اور بہتر ہے لیکن افسوس کہ اب تک ہم عملی ثبوت پیش کرسکے اور نہ علمی اور نظری۔ اسلامی ممالک میںایسا معاشی نظام عملی شکل میں موجود نہیں جو سرمایہ دارانہ ہو اور نہ اشتراکی ۔
اسلامی نظام کے ایک حصے کا تعلق زراعت و کاشت کاری کے شعبہ سے ہے جو پاکستان جیسے زرعی ملک کیلئے خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔ اس شعبہ کے مسائل میں سے ایک مسئلہ مزارعت و بٹائی کا مسئلہ ہے جو اپنے عملی اثرات و نتائج کے لحاظ سے بڑا اہم مسئلہ ہے لیکن بدقسمتی سے اس کے شرعی جواز و عدم جواز کے متعلق فقہا اسلام کے مابین قدیم سے شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض فقہا اس کو بنیادی طور پر جائز اور بعض اس کو بنیادی طور پر ناجائز قرار دیتے رہے ، اوروں کا تو ذکر کیا خود امام ابو حنیفہ اور ان کے دو شاگردوں امام محمد شیبانی اور قاضی ابو یوسف کے مابین اس مسئلہ سے متعلق اختلاف فقہ حنفی کی تمام کتابوں میں مذکور ہے۔ امام اعظم ابو حنیفہ نے معاملہ مزارعت کی ہر شکل کو باطل و فاسد اور ان کے مذکورہ دو شاگردوں نے اس کو بنیادی طور پر جائز و صحیح ٹھہرایا۔
مفسرین حضرات میں علامہ ابن کثیر نے سورہ بقرہ والی تحریم ربو کی آیات کی تفسیر میں مخابرہ سے متعلق حضرت جابر کی مذکورہ بالا حدیث نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ :
انما حرمت المخابر وھی المزارع ببعض ما یخرج من الارض، و المزابن وھی اشترا الرطب فی روس النحل بالتمر علی وج الارض ، و المحاقل وھی اشترا الحب فی سنبلہ فی الحقل بالحب علی وجہ الارض، انما حرمت ھذہ الاشیا و ماشا کلھا حسمالماد الربو
”سوائے اسکے نہیں کہ حرام ٹھہرایا گیا مخابرہ جو پیداوار زمین کے ایک حصہ پر مزارعت کا نام ہے اور مزانب جو نام ہے درخت پر لگی تازہ کھجوروں کو زمین پر پڑے خشک چھوہاروں کے عوض خریدنا اور محاقلہ جو خوشوں میں محفوظ غلہ کو جو کھڑی کھیتی میں ہو، خشک غلے کے بدلے خریدنا۔ یہ اور اس قسم کے دوسرے معاشی معاملات صرف اسلئے حرام ٹھہرائے گئے ہیں کہ ربو کا کلی طور پر خاتمہ ہوجائے۔”
علامہ ابن کثیر نے مخابرہ، مزابنہ اور محاقلہ اور ان سے ملتے جلتے دیگر معاشی معاملات کے حرام ہونے کی وجہ اور علت یہ بتلائی ہے کہ یہ سب ربوی معاملات ہیں اور یہ کہ ان کو حرام قرار دینے کا مقصد ربو (سود) کا پوری طرح قلع قمع کرنا اور اس کو جڑ سے اکھاڑنا ہے، اس عبارت میں یہ بھی وضاحت ہے کہ مخابرہ عین مزارعت ہے۔
دوسرے عظیم مفسر علامہ القرطبی اپنی جلیل القدر تفسیر الجامع لاحکام القرآن میں تحریم ربو کی آیت میں سے اس آیت : فان لم تفعلوا فاذنو ا بحرب من اللہ و رسولہ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ھذا الوعیدالذی وعداللہ بہ فی الربو من المحارب قدورد عن النبی ۖ مثلہ فی المخابر عن جابر بن عبد اللہ قال سمعت رسول اللہ ۖ یقول: من لم یذر المخابر فلیوذن بحرب من اللہ و رسولہ، و ھذا دلیل علی منع المخابر وھی اخذ الارض بنصف ادثلث او ربع ویسمی المزارع، و اجمع اصحاب مالک کلھم و الشافعی و ابو حنیف و اتباعھم و داود علی انہ لایجوز دفع الارض علی الثلث و الربع و لا علی جز دما یخرج من الارض۔
”اللہ اور اس کے رسول ۖ سے جنگ کی یہ وعید و دھمکی جو ربو کو نہ چھوڑنے والوں کیلئے اللہ نے اس آیت میں فرمائی ہے۔ ٹھیک اسی طرح کی وعید رسول اللہ ۖ نے مخابرہ کو نہ چھوڑنے والوں کیلئے بھی فرمائی ہے۔ حضرت جابر بن عبد اللہ راوی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ۖ سے سنا آپ ۖ نے فرمایا جو مخابرہ کو نہ چھوڑے اس کیلئے اللہ اور اسکے رسول کی طرف سے اعلان جنگ ہے۔ حدیث مخابرہ کے ممنوع ہونے کی دلیل ہے۔ مخابرہ زمین کو کاشت کیلئے نصف، تہائی یا چوتھائی پیداوار پر لینا دینا اسی کا دوسرا نام مزارعت ہے۔ تمام مالکی علمائ، امام شافعی ، امام ابو حنیفہ اور انکے کچھ متبعین ،داد ظاہری کا اس پر اجماع ہے کہ زمین کو پیداوار کے تہائی ، چوتھائی اور کسی حصہ پر دینا جائز نہیں۔” (ص ، 367، ج3، مروجہ نظام زمینداری اور اسلام۔ ص 80-79: مولانا محمد طاسین )
مزارعت اور مرفوع احادیث
احادیث حضرت جابر 1: عن عطائعن جابر قال کانوا یزرعونھا بالثلث و الربع و النصف فقال النبی ۖ من کانت لہ ارض فلیزرعھا اولیمنحھا فان لم یفعل فلیمسک ارضہ۔
” عطا سے روایت ہے کہ جابر نے فرمایا کہ لوگ تہائی، چوتھائی اور نصف پیداوار پر زمین کاشت کرتے کراتے۔ نبی ۖ نے فرمایا جس کی زمین ہو وہ اسے خود کاشت کرے یا دوسرے کو کاشت کیلئے مفت بلامعاوضہ دے دے اور اگر نہیں کرتا تو اپنی زمین کو یونہی اپنے پاس روک رکھے”۔ (ص 315، ج1، بخاری)
4:عن سعید بن مینا قال سمعت جابر بن عبد اللہ ان رسول اللہ ۖ قال: من کان لہ فضل ارض فلیزرعھا او لیزرعھا اخاہ، ولا تبیعوھا فقلت لسعید ما قولہ لا تبیعوھا یعنی الکرا قال نعم۔
” سعید بن مینا نے کہا: میں نے جابر بن عبد اللہ سے سنا کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا : جسکے پاس فاضل زمین ہو وہ اسے خود کاشت کرے یا اپنے بھائی کو کاشت کیلئے دیدے، اور اسے بیچو نہیں، میں نے حضرت سعید سے پوچھا کہ لا تبیعوھا سے مراد کرائے پر دینا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ ”ہاں” (ص11، ج 2،مسلم) 2:(ص 355، ج 1بخاری۔ ص 11، ج 2، مسلم) 3: (ص 11، ج 2،مسلم)5: (ص 286 ، ج2، مستدرک للحاکم)6: (ص 11، ج 2مسلم)7: (ص 11، ج 2 ، مسلم)8: (ص 12، ج2،مسلم)9: (ص 11، ج2، مسلم)10: (ص 12، ج2،مسلم)11: (ص 349، سنن دارمی)
احادیث زید بن ثابت1: عن زید بن ثابت قال نہی رسول اللہ ۖ عن المخابر، قلت ما المخابر ؟ قال ان تاخذ الارض بنصف او ثلث او ربع۔” زید بن ثابت نے کہا کہ رسول اللہ ۖ نے مخابرہ سے منع فرمایا ، میں نے پوچھا مخابرہ کیا ہے؟ تو زید نے جواب دیا تیرا زمین کو کاشت کیلئے نصف یا تہای یا چوتھائی پیداوار پر لینا۔ (ص127، ج 2، ابی داد)۔ 2: ابن عمر عن زید بن ثابت قال نہی رسول اللہ ۖ عن المحاقل و المزابن” عبد اللہ بن عمر نے زید بن ثابت سے روایت کیا یہ کہ رسول اللہ ۖ نے محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا۔ (ص 260، ج2، شرح معانی الآثار للطحاوی)3: (ص 125 ، ج2 ، سنن ابی داد۔ ص 148، ج 2، سنن نسائی)۔
احادیث حضرت ابی ہریرہ
1: عن ابی سلم عن ابی ھریر قال قال رسول اللہ ۖ : من کانت لہ ارض فلیزرعھا اولیمنحھا اخاہ فان ابی فلیمسک ارضہ ۔
”ابو سلمہ نے ابو ہریر سے روایت کی کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا : جس کی زمین ہو وہ اسے خود کاشت کرے یا پھر اپنے بھائی کو مفت کاشت کیلئے دے اور اگر ایسا نہیں کرتا تو اپنی زمین کو روک رکھے۔ (ص 315، ج 1،بخاری)۔
2: عن ابی صالح عن ابی ھریر قال نھی رسول اللہ ۖ عن المحاقل و المزابن۔
” ابو صالح سے ابو ہریر نے بیان کیا کہ رسول اللہ نے محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا۔ (ص 11، ج 2 مسلم)
ابو سعید الخدری کی حدیث:عن داد بن الحصین ان ابا سفیان اخبرہ انہ سمع ابا سعید الخدری یقول: نہی رسول اللہ ۖ عن المزابن و المحاقل، و قال: المزابن اشترا الثمر فی روس النخل، و المحاقل کرا الارض۔
” داد بن الحصین سے روایت ہے کہ ابو سفیان نے ابو سعید خدری سے یہ کہتے سنا کہ رسول اللہ ۖ نے مزابن اور محاقلہ سے منع فرمایا ہے۔ مزابنہ نام ہے درخت پر لگے پھل کو خریدنا یعنی خشک پھل کے عوض اور محاقلہ کا مطلب ہے کرا الارض۔ (ص 12، ج 2، مسلم)
حدیث حضرت انس:عن انس بن مالک قال نہی النبی ۖ عن المحاقل و المخاضیر و الملامس و المنابذ و المزابن” انس بن مالک سے روایت ہے کہ نبی ۖ نے محاقلہ، مخاضرہ، ملامسہ، منابذہ ،مزابن سے منع فرمایا۔ (ص 293، ج 1،بخاری)
حضرت ثابت بن الضحاک کی حدیث:عن عبد اللہ بن السائب قال سالت عبد اللہ بن معقل عن المزارع فقال اخبرنی ثابت بن الضحاک ان رسول اللہ ۖ نھی عن المزارع۔
” عبد اللہ بن سائب نے کہا کہ میں نے عبد اللہ بن معقل سے مزارعت کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ مجھے ثابت بن ضحاک نے خبردی کہ رسول اللہ ۖ نے مزارعت سے منع فرمایا۔ (ص 11، ج 2،مسلم)۔
حضرت عائشہ صدیقہ کی احادیث
1: عن عبد اللہ بن عمر عن عائشہ ان النبی ۖ خرج فی مسیرلہ فاذا ھوا بزرع تھتز فقال لمن ھذا الزرع؟ قالوا لرافع بن خدیج فارسل الیہ وکان قد اخذ الارض بالنصف او بالثلث، فقال انظر نفقتک فی ھذہ الارض فخذ ھا من صاحب الارض و ادفع الیہ ارضہ وزرعہ” عبد اللہ بن عمرنے حضرت عائشہ سے روایت کیا کہ نبی ۖ اپنے ایک راستے سے گزرے کہ اچانک آپ ۖ کی نگاہ ایک لہلہاتی کھیتی پر پڑی۔ آپ ۖ نے پوچھا یہ کھیتی کس کی ہے؟ صحابہ نے بتلایا کہ رافع بن خدیج کی۔ آپ ۖ نے انہیں بلوایا ان کے بتلانے پر معلوم ہوا کہ انہوں نے وہ زمین نصف یا تہائی پر لی ہے تو آپ ۖ نے فرمایا دیکھو تمہارا جو خرچہ اس زمین میں ہوا ہے مالک زمین سے لے لو اور زمین بمعہ کھیتی کے اس کے حوالے کردو۔ (ص 304، ج 2، دار قطنی)۔
2:عن عائشہ قالت کان اصحاب رسول اللہ ۖ قوما عمال انفسھم کانو یعالجون اراضیھم بایدیھم ۔
حضرت عائشہ نے روایت کرتے ہوئے فرمایا کہ رسول اللہ ۖ کے صحابہ کرام خود کام کرنے والے لوگ تھے۔ وہ اپنی زمینوں میں خود اپنے ہاتھوں سے کام کرتے یعنی ان کو خود کاشت کرتے تھے۔ دوسروں سے نہیں کراتے تھے۔ (ص 127، ج6،السنن الکبری)۔
حضرت علی کی حدیث
عن علی ابن طالب ان رسول اللہ ۖ نھی عن قبال الارض بالثلث و الربع و قال اذا کان احدکم الارض فلیزرعھا او لیمنحھا اخاہ۔
”حضرت علی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے منع فرمایا زمین کو تہائی اور چوتھائی پر دینے کی ضمانت و ذمہ داری سے اور فرمایا جب تم میں سے کسی کی زمین ہو تو وہ اسے خود کاشت کرے یا پھر اپنے بھائی کو مفت کاشت کیلئے دے دے۔ (ص 283، المسند لزید)۔
حضرت سعد بن ابی وقاص کی احادیث
1: عن سعد بن ابی وقاص قال کان الناس یکرون المزارع بما یکون علی الساقی ربما یسقی بالما مما حول البر، فنہی رسول اللہ ۖ عن ذلک و قال اکروھا بالذھب و الورق۔
”حضرت سعد بن ابی وقاص سے مروی ہے کہ لوگ اپنے کھیت اس پیداوار کے عوض دوسروں کو دیتے تھے جو نالیوں کے کنارے اور کنوئیں کے ارد گرد پانی بہنے کی جگہ اگتی تھی۔ پس منع فرمایا رسول اللہ ۖ نے اس سے، اور فرمایا سونے چاندی کے عوض کرائے پر دو۔ (ص 259، ج 2، شرح معانی الآثار)۔
2: عن سعید بن المسیب عن سعد بن ابی وقاص قال کان اصحاب المزارع یکرون فی زمان رسول اللہ ۖ مزارعھم بما یکون علی الساقی من الزرع فجا وا رسول اللہ ۖ فاختصموا فی بعض ذلک، فنھاھم رسول اللہ ۖ ان یکروا بذلک و قال اکرو بالذھب و الفض۔
”حضرت سعید بن المسیب سے مروی ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص نے ان سے روایت کرتے ہوئے کہا کہ رسول اللہ ۖ کے زمانے میں کھیتوں والے اپنے کھیت کرائے پر دیتے تھے بعوض اس کھیتی کے جو پانی کی نالیوں کے کنارے پر اگتی تھی۔ پس وہ رسول اللہ ۖ کی خدمت میں حاضر ہوئے بوجہ اس جھگڑے کے جو ان کے درمیان اس معاملے میں ہوا تھا۔ سننے کے بعد رسول اللہ ۖ نے ان کو اس معاملے سے روک دیا اور فرمایا کہ سونے چاندی کے عوض کرائے پر دو۔ (ص 144، ج 2، سنن النسائی)۔
3:(ص 125 ،ج2، سنن ابی داد)۔
حضرت مسور بن مخرمہ کی حدیث
عن المسوربن مخرم قال مر رسول اللہ ۖ بارض بعبد الرحمن بن عوف فیھا زرع فقال یا عبد الرحمن لا تاکل الربو و لا تطعمہ، ولا تزرع الا فی ارض ترثھا او تورثھا او تمنحھا۔
”حضرت مسور بن مخرمہ نے روایت کرتے ہوئے کہا کہ رسول اللہ ۖ ایک زمین کے پاس سے گزرے جس میں عبد الرحمن بن عوف کی کھیتی تھی آپ ۖ نے ان کو مخاطب ہوکر فرمایا اے عبد الرحمن نہ خود سود کھا اور نہ دوسرے کو کھلا اور کاشت نہ کرو مگر ایسی زمین میں جس کے تم وارث بنے یا فرمایا بنادئیے گئے ہو یعنی مالک ہو یا وہ زمین تجھے منحہ کے طور پر با معاوضہ کاشت کے لئے دی گئی ہو۔ ” (ص 120، ج 4، مجمع الزوائد بحوالہ طبرانی)۔
عبد اللہ بن عمر کی احادیث:عن عمرو بن دینارعن ابن عمر و جابر قالا نھی رسول اللہ ۖ عن بیع التمر حتی یبد و صلاحہ و نہی عن المخابر کرا الارض بالثلث و الربع۔” عمر و بن دینار نے روایت کیا کہ ابن عمر اور جابر نے کہا کہ رسول اللہ ۖ نے منع فرمایا پھلوں کی خرید و فروخت سے یہانتک کہ ان میں کھانے کی صلاحیت پیدا ہو اور منع فرمایا مخابرہ سے یعنی زمین کو تہائی او رچوتھائی پیداوار پر لینے دینے سے ” (ص 147، ج2 نسائی)۔2: (ص 12، ج2 مسلم)3: عن نافع ان ابن عمر کان یکری مزارعہ علی عہد النبی ۖ وفی امار ابی بکر و عمر و عثمان و صدر امن خلاف معاوی حتی بلغہ فی آخر خلاف معاویہ ان رافع بن خدیج یحدث فیھا ینھی عن النبی ۖ فدخل علیہ وانا معہ فسالہ فقال کان رسول رسول اللہ ۖ ینھی عن کرا المزرع فترکھا ابن عمر بعد فکان اذاسئل عنھا بعد قال زعم ابن خدیج ان رسول اللہ ۖ نھی عنھا۔
”نافع نے روایت کیا کہ عبد اللہ بن عمر اپنے کھیت کرائے یعنی مزارعت پر دیتے تھے نبی ۖ کے زمانہ میں اور حضرت ابوبکر ، حضرت عمر ، حضرت عثمان کے زمانہ امارت اور حضرت معاویہ کے شروع کے عہد خلافت میں یہانتک کہ حضرت معاویہ کے عہد خلافت کے آخر میں ان کو معلوم ہوا کہ حضرت رافع بن خدیج اس کی ممانعت سے متعلق رسول اللہ ۖ کی حدیث بیان کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ انکے پاس گئے جب کہ میں انکے ساتھ تھا، ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا رسول اللہ ۖ کرا المزارع سے منع فرماتے رہے لہذا ابن عمر نے اسکے بعد اس کو چھوڑ دیا، پھر بعد میں جب بھی ان سے اسکے متعلق پوچھا جاتا تو جواب دیتے کہ رافع بن خدیج نے کہا کہ رسول اللہ ۖ نے اس سے منع فرمایا۔” (ص 13، ج 2، صحیح المسلم)۔
4: ص 313، ج 1، صحیح البخاری)۔
احادیث عبد اللہ بن عباس: عن ابن عباس اذا اراد احدکم ان یعطی اخاہ ارضا فلیمنحھا ایاہ ولا یعطہ بالثلث و الربع۔”عبد اللہ بن عباس سے مروی ہے کہ جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو زمین دینا چاہے تو مفت دے تہائی چوتھائی پر نہ دے۔ (ص 72، ج 8، کنز العمال، طبرانی)۔2: (ص 313، ج 1،بخاری) 3: (ص 166، ج1، ترمذی)۔ 4: (ص 72،ج 8، کنزالعمال طبرانی)۔ 5:(ص 260 ، ج 2، طحاوی)
اسید بن ظہیر کی حدیث1: عن رافع بن اسید عن ابیہ اسید بن ظھیر انہ خرج الی قومہ الی بنی حارث فقال یا بنی حارث لقد دخلت علیکم مصیب، قالوا ماھی؟ قال نھی رسول اللہ ۖ عن کرا الارض، قلنا یا رسول اللہ اذا نکریھا بشی من الحب قال لا، قال وکنا نکریھا بالتبن فقال لا، و کنا نکریھا بھا علی الربیع الساقی قال لا، ازرعھا اوا منحہا اخاک۔
”رافع نے اپنے باپ اسید بن ظہیر سے روایت کیا کہ وہ اپنی قوم بنی حارثہ میں پہنچے او ران سے کہا کہ تم پر ایک مصیبت آگئی ہے انہوں نے پوچھا وہ کیا مصیبت ہے؟ کہا کہ رسول اللہ ۖ نے کرا الارض سے منع فرمادیا ہے، ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہۖ! تو پھر کیا ہم غلے کی کچھ مقدار کے عوض زمین دے سکتے ہیں؟ جواب میں آپ ۖ نے فرمایا نہیں، ہم نے عرض کیا کہ ہم بھوسے کے بدلے دیا کرتے تھے، فرمایا یہ بھی جائز نہیں، عرض کیا ہم نالیوں کے کنارے کی پیداوار کے عوض دیا کرتے تھے، فرمایا نہیں، خود کاشت کرو یا اپنے بھائی کو یونہی کاشت کیلئے دے دو ۔ (ص 141، ج 2، سنن النسائی)۔
2: عن مجاہد عن اسید بن ظہیر قال اتی علینا رافع بن خدیج فقال ان رسول اللہ ۖ نھاکم عن امر کان ینفعکم وطاع رسول اللہ ۖ خیرلکم مما ینفعکم نھاکم رسول اللہ ۖ عن الحقل و الحقل المزارع بالثلث و الربع فمن کان لہ ارض فاستغنی عنھا فلیمنحھا اخاہ ولیدع۔
” مجاہد نے روایت کیا اسید بن ظہیر نے کہا کہ رافع بن خدیج ہمارے یہاں آئے اور کہا کہ رسول اللہ ۖ نے تمہیں ایک ایسے معاملے سے روک دیا جو تمہارے لئے نفع مند تھا لیکن رسول اللہ ۖ کی اطاعت تمہارے لئے تمام منافع سے بہتر ہے۔ رسول اللہ ۖ نے حقل سے منع فرمایا ہے ار حقل تہائی و چوتھائی پر مزارعت کا نام ہے۔ پس جس کے پاس زمین ہو اور اسے اس کی ضرورت نہ ہو تو وہ اپنے بھائی کو یونہی مفت کاشت کیلئے دے دے یا پھر بے کار چھوڑدے۔ (ص 141، ج 2، النسائی)۔
احادیث رافع بن خدیج 1: (ص 141، ج 2، نسائی) 2: (ص 315، ج 1،بخاری)۔3 : عن ابی النجاشی مولی رافع بن خدیج قال قلت لرافع ان لی ارضا اکریھا فنھانی رافع وا راہ قال لی ان رسول اللہ ۖ نھی عن کرا الارض و قال اذا کانت لاحدکم ارض فلیزرعھا او لیزرعھا اخاہ فان لم یفعل فلیدعھا وکا یکریھابشیی فقلت ارات ان ترکتھا و لم ازرعھا ولم اکرھا بشیی فزرعھا فوھبوالی من نباتھا شیئا اخذہ قال لا۔”ابو النجاشی مولی رافع بن خدیج نے روایت کرتے ہوئے کہا کہ میں نے حضرت رافع سے عرض کیا کہ میری ایک زمین ہے میں اسے کرائے پر دے سکتا ہوں تو انہوں نے اس سے منع کیا اور مجھ سے کہا کہ رسول اللہ ۖ نے کرا الارض سے منع فرمایا ہے اور فرمایا جب تم میں سے کسی کی زمین ہو تو وہ اسے خود کاشت کرے یا اپنے بھائی کو کاشت کیلئے دے دے اور اگر ایسا نہیں کرتا تو اسے یونہی چھوڑ دے اور اس کو کسی شے کے بدلے کرائے پر نہ دے، اس پر میں نے پوچھا کہ یہ بتلائیے کہ اگر میں اس زمین کو چھوڑ دوں نہ خود کاشت کروں اور نہ کرائے پر دوں اور کچھ لوگ آکر اسے کاشت کرلیں اور پھر وہ مجھے بطور ہبہ اس کی پیداوار میں سے کچھ دیں تو کیا میں لے سکتا ہوں؟۔ حضرت رافع نے جواب دیا کہ نہیں۔ 4: (ص 256 ، ج 2، طحاوی)۔ 5: (ص 13، ج 2،مسلم)۔6: (ص 313،ج1، بخاری)7: (ص 315 ج1 بخاری (ص 145، ج 2، نسائی) 8: (ص 145، ج 2، نسائی) 9: (ص 145، ج 2،نسائی) 10: (ص 115، ج 10 ، فتح الربانی، مسند احمد)۔ 11: عن مجاھد قال حدث رافع بن خدیج خرج الینا رسول اللہ ۖ ننھانا عن امر کان لنا نافعا، فقال من کان لہ ارض فلیزرعھا او یمنحھا او یذرھا ۔”مجاہد نے کہا کہ حضرت رافع بن خدیج نے فرمایا کہ رسول اللہ ۖ ہماری طرف نکلے او رہم کو ایک ایسے معاملے سے روکا جو ہمارے لئے مفید تھا اور فرمایا جس کی زمین ہو وہ اسے خود بوئے یا کسی کو بلا معاوضہ دے دے یا پھر اسے چھوڑ دے۔ ” نسائی (ص 142، ج2 ) 12: (ص 144، ج 2) 13: (ص 143، ج 2)14: (ص 143، ج 2) 15: عن عیسی بن سھل بن رافع بن خدیج قال انی یتیم فی حجر جدی رافع بن خدیج و بلغت رجلا و حججت معہ فجا اخی عمران بن سھل بن رافع، فقال یا ابناہ! انہ قد اکترینا ارضنا فلان بمائتی درھم، فقال یا بنی دع ذاک فان اللہ عزوجل سیجعل لکم رزقا غیرہ ان رسول اللہ ۖ قد نھی عن کرا الارض۔
” رافع بن خدیج کے پوتے عیسی بن سہل نے کہا کہ میں یتیم تھا دادا رافع بن خدیج کی گود میں پل بڑھ کر جوان ہوا اور انکے ساتھ حج کیا، ایک موقع پر میرا بھائی عمران بن سہل آیا اور دادا کو بتلایا کہ ہم نے اپنی فلاں زمین دو سو درہم کے عوض کرائے پر دی ۔ دادا نے فرمایا بیٹے اس کو چھوڑ دو اللہ تمہیں دوسرے طریقہ سے رزق دیگا کیونکہ رسول اللہ ۖ نے کرا الارض سے روکا اور منع فرمایا۔ ” (ص 147، ج 2،نسائی)۔ 16: عن ابن ابی نعم قل حدثنی رافع بن خدیج انہ زرع ارضا فمریہ النبی ۖ وھوا یسقیھا فسئا لہ لمن الزرع ولمن الارض فقال زرعی بیذری و عملی لی الشطر و لبنی فلان الشطر، فقال اربیت، فرد الارض علی اھلھا و خذ نفقتک۔ ”ابن ابی نعم نے کہاکہ رافع بن خدیج نے بیان کیا کہ اس نے ایک زمین کاشت کی تھی۔ ایک دن وہاں سے نبی ۖ کا گزر ہوا جبکہ وہ اس کو پانی دے رہا تھا، حضور ۖ نے پوچھا کھیتی کس کی ہے اور زمین کس کی؟ میں نے عرض کیا کھیتی میری ہے جو میرے بیج اور عمل کا نتیجہ ہے۔ نصف پیداوار میرے لئے ہوگی او رنصف بنی فلاں کیلئے۔ اس پر آپ ۖ نے فرمایا تم ربو میں پڑے، زمین اس کے مالکوں کو دیدو اور ان سے اپنا خرچہ لے لو ۔ ” (ص 127، ج 2، سنن ابی داد)، (ص 256، ج 2، طحاوی)۔ 17: عن نافع ان ابن عمر کان یاجر الارض قال فنبئی حدیثا عن رافع بن خدیج قال فانطلق بی معہ الیہ قال فذکر عن بعض عمومتہ ذکر فیہ عن النبی ۖ انہ نھی عن کرا الارض قال فترکہ ابن عمر فلم یاجرہ ۔”حضرت نافع سے روایت ہے کہ حضرت ابن عمر کرائے پر زمین دیا کرتے تھے پھر ان کو رافع بن خدیج کی حدیث کی خبر ملی، مجھے ساتھ لے کر ان کے پاس گئے انہوں نے اپنے بعض چچاں کے حوالے سے حدیث بیان کی اور اس میں نبی ۖ کی طرف سے کرا الارض کی نہی کا ذکر کیا۔ چنانچہ حدیث سننے کے بعد ابن عمر نے کرا الارض کو ترک کردیا اور پھر کبھی زمین اجارے پر نہ دی۔ ” (ص 13، ج 2، صحیح المسلم)۔
18ان رسول اللہ ۖ اتی بنی حارث فرائی زرعا فی ارض ظھیر فقال ما احسن زرع ظھیر، قالوا لیس ظھیر، قال الیس ارض ظھیر قالوا بلی و لکنہ زرع فلان، قال فخذوا زرعکم و ردوا علیہ النفق ۔ ”رافع نے روایت کیا کہ رسول اللہ ۖ محلہ بنی حارثہ تشریف لائے اور ظہیر کی زمین میں لہلہاتی کھیتی دیکھ کر فرمایا کیا ہی عمدہ کھیتی ہے ظہیر کی، لوگوں نے عرض کیا یہ ظہیر کی کھیتی نہیں، آپ ۖ نے فرمایا کیا یہ زمین ظہیر کی نہیں۔ لوگوں نے بتلایا کہ زمین تو ظہیر کی ہے مگر اسے کاشت فلاں شخص نے کیا ہے آپ ۖ نے فرمایا اپنی کھیتی لے لو۔ اور مزارع کو اس کا خرچہ دے دو۔ ” (ص 126، ج2، ابوداد)۔ (ص 144، ج 2، نسائی)۔
(مروجہ زمینداری اور اسلام: مولانا محمدطاسین: داماد علامہ سید محمدیوسف بنوری۔نیٹ پر القرآن اکیڈمی لاہور)
تبصرہ نوشتہ دیوار:شیروش
علامہ طاسین نے قرآن ، فقہ ، اصول فقہ سے اپنامقف درست ثابت کرنے کی کوشش کی ہے مگر آپ گوشہ گمنامی کی نذر ہوگئے ۔ ڈھیر ساری احادیث میں کوئی خال خال بات بھی جو نظر آتی ہے، اس پر بھی تحقیق کرکے معاملہ صاف کیا گیاہے۔اللہ کرے کہ بندہ مزدور کے تلخ اوقات بن جائیں۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے، کاشتکار وں نے جو محنت کی ہے ان کو اشتہاروں سے خوش کرنا ممکن نہیں ہے۔
اللہ تعالی نے قرآن میں فرمایا ہے کہ ” جو مرد کمائیں وہ انکا حصہ ہے اور جو خواتین کمائیں وہ انکا حصہ ہے”۔ زمین کی کاشت میں خاندان کے خاندان محنت کرتے ہیں اور ان کی محنت پر جاگیردار بھی نہیں پلتے ہیں بلکہ منڈیوں والے ساری کمائی سمیٹ لیتے ہیں۔ اگر احادیث کے مطابق ہم اپنی زراعت کو سود سے پاک کردیں تو پاکستانی قوم اپنے پاں پر کھڑی ہوجائے گی۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے اردگرد جتنی بنجر زمین پڑی ہے اگر یہ آباد کرنے کیلئے محنت کشوں کو مفت میں دی جائے توپختونخواہ اور بلوچستان کی سبزیوں اور اناج کیلئے یہ بھی بہت ہے۔ سولر کے ذریعے اس کو آباد کرنا مشکل بھی نہیں ہے۔جب لوگوں کو مفت میں زمینیں ملنے لگیں گی تو جاگیردار بھی زمینیں یا تو خود کاشت کرینگے یا پھر کاشتکاروں کو مفت میں دینا شروع کردینگے۔ اگر علما امام ابوحنیفہ کے مسلک پر عمل کرنے کے بجائے حیلہ ساز شاگردوں کے حیلوں پر عمل پیرا ہوں تو ان کو حنفی کہلانے کا کوئی حق نہیں ہے۔جب کاشتکاروں کو مفت میں زمینیں مل جائیں گی تو ان کے عشروزکو سے مولوی بھی بھیک کی خاطر زیادہ چکر نہیں لگائیںگے۔ خواتین اور نوجوانوں اور انقلابیوں کیلئے حقوق کی جدوجہد کا آسان راستہ یہ ہے کہ کالج ، یونیورسٹیوں اور میڈیا پر احادیث صحیحہ کے ذخیرے کو عام کریں۔ کاشتکاروں کو بھی تعلیم ، انسانی حقوق ، اچھی زندگی کا حق ہے، انکے بھی خواتین، نوجوان اور بچے ہیں۔ اشتراکیت روس اور چین میں بھی ناکام ہوچکی ہے اسلامی جمعیت طلبہ والے احادیث کی بنیاد پر غریبوں اور جوانوں کو بہتر معیشت اور بہتر مستقبل کا راستہ دکھائیں۔ بدمعاشی اور غنڈہ گردی کا راستہ روکنے کیلئے ضروری ہے کہ لال لال لہرانے اور سبز سبز لہلہانے والوں اس آسان ہدف کو اپنے مشترکہ لائحہ عمل کیلئے بنیاد بنائیں۔نوجوانوں کا جذبہ اچھا ہے کہ کچھ کیا جائے لیکن جب کرنے کیلئے کچھ نہیں ملتاہے تو ایکدوسرے کے سر پھوڑنے شروع کردیتے ہیں۔
علما کرام اور مفتیانِ عظام کو اگر طلاق اور دوسرے مسائل سمجھ میں نہ آتے ہوں تو تھوڑا سا غور کرکے سب کچھ سمجھ سکتے ہیں۔ اسلام کی درست تعبیر سے لوگ اسلامی انقلاب پر آمادہ ہونگے۔فرقہ واریت اور منافرت کا خاتمہ ہوگا اور مساجد ومدارس میں اسلام کی روشنی سے تروتازگی آئے گی اور مذہبی طبقات کی قدر ومنزلت بڑھے گی۔
وہ وقت بہت قریب لگتا ہے کہ جب دنیا میں اسلام کا ڈنکا بجے گا۔ جو نوجوان اور خواتین اپنے حقوق کی جنگ لڑنے پر آمادہ ہیں ان کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔جبر وستم کے نظام کو درست کرنے میں باہمت نوجوانوں اور خواتین کا کردار بہت بڑی غنیمت ہے۔ اصحاب حل وعقد ڈھیٹ پن کا شکار ہیں۔ یہ لوگ خواب غفلت سے بیدار ہیں۔ ہم ان کی جرات وعظمت، دردِ دل اور دور اندیشی کو سلام پیش کرتے ہیں جو بڑا حقیر سانذرانہ ہے۔ عبد الکریم شیروش
ماہنامہ نوشتہ دیوار کراچی ، خصوصی شمارہ دسمبر 2019

فرقہ وارانہ شدت کو کم کرنے کی ضرورت ہے جس سے دہشتگردی پر اثر پڑے، سیاسی شدت بھی ختم کی جائے۔

فرقہ وارانہ شدت کو کم کرنے کی ضرورت ہے جس سے دہشتگردی پر اثر پڑے، سیاسی شدت بھی ختم کی جائے۔

علماء اور جدید مذہبی طبقے کے علم وفہم اور عمل وکردار میں بڑا فرق ہے۔ انجینئر مرزا نے رٹ لگائی ہے کہ نبی ۖ نے فرمایا: ”عمار باغی گروہ کے ہاتھوں شہید ہوگا، عمار جنت کی طرف بلارہا ہوگا اورباغی گروہ جہنم کی طرف بلا رہا ہوگا”۔
بلاشبہ دو گروہ لڑیں گے تو ایک ٹھیک اور دوسرا غلطی پر ہوگا۔ پاکستان بن رہا تھا توکچھ پاکستان اور مسلم لیگ کے حامی اور کچھ مخالف تھے۔ مولانا ابوالکلام آزاد، جمعیت علماء ہند اور سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی جماعت ”احرار الاسلام” پاکستان اورمسلم لیگ کے خلاف تھے۔ علامہ شبیراحمد عثمانی، مولانا اشرف علی تھانوی ، مولانا ظفر احمد عثمانی اور مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع نے جمعیت علماء اسلام کی بنیاد رکھی اور پاکستان و مسلم لیگ کی حمایت شروع کی۔جماعت اسلامی نہ ادھر تھی اور نہ ادھر ۔ آزادی اور سیاسی تحریک بہت بڑی قربانیاں مانگتی ہے۔
مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ نے اپنے فتاویٰ کے نویں جلد میں لکھ دیا کہ انگریز نے جمعیت علماء ہند کو ختم کرنے کیلئے جمعیت علماء اسلام کی بنیاد رکھ دی ۔ آج مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علماء اسلام کا تعلق مولانا احمد علی لاہوری ، مولانا غلام غوث ہزاروی ، مولانا مفتی محمود اور مولانا عبداللہ درخواستی سے ہے جو جمعیت علماء ہند کے نظریاتی ساتھی تھے۔ اصل جمعیت علماء اسلام مرکزی کے نام سے تھی جو مفتی محمد شفیع، مولانا احتشام الحق تھانوی کی جماعت تھی ختم ہو گئی اسلئے کہ انہوں نے1970میں مولانا غلام غوث ہزاروی،مولانا عبداللہ درخواستی ، مولانا عبیداللہ انور ، مولانا عبدالحق اکوڑہ خٹک اور مفتی محمود پر کفر کا فتویٰ لگادیا تھا۔
حضرت امداد اللہ مہاجر مکی کے مریدین وخلفاء میں مولانا محمدقاسم نانوتوی، مولانا رشیداحمد گنگوہی اور بہت بڑے بڑے علماء ومشائخ تھے۔ مولانا اشرف علی تھانوی شیخ الہند مولانا محمودحسن کے شاگردتھے اور شیخ الہند نے اپنے استاذ مولانا رشیداحمد گنگوہی سے بیعت کی تھی۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے مولانا گنگوہی سے بیعت کی خواہش رکھی اور حاجی امداللہ مہاجر مکی سے سفارش کی درخواست کی تھی ۔حاجی امداداللہ مہاجر مکی نے فرمایا کہ ” میں تمہیں خود بیعت کرتا ہوں”۔ اگر حقائق کو دیکھا جائے تومولانا تھانوی کے استاذ کے اساتذہ بھی حاجی امداد اللہ سے بیعت تھے لیکن حکیم الامت اور مجدد ملت کا تمغہ اسلئے مولانا تھانوی کے سر پر سجا تھا کہ مہاجر مکی کے سلسلہ کے اصل جانشین آپ ہی تھے۔ تصوف وسلوک بھی دین کا شعبہ ہے۔شریعت و طریقت کا ٹکراؤ ہوتا ہے۔ مولانا رشیداحمد گنگوہینے حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے علم سے اختلاف کیا، تقویٰ حاصل کرنے کیلئے بیعت ہوئے تھے۔مولانا قاسم نانوتوی نے کہا کہ ”میں حاجی صاحب سے ان کے علم کی وجہ سے بیعت ہوا ہوں”۔ مولانا رشیداحمد گنگوہی کے شاگرد مولانا حسین علی تھے ، جن کی وجہ سے شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان اور مولانا طاہر پنج پیری نے توحید کا پیغام پھیلایا۔ اس نے اپنی تفسیرمیں لکھا ” میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ۖ گر رہے ہیں اور میں ان کو سہارا دیکر تھام لیتا ہوں”۔”بلغة الحیران” ۔
مفتی منیر شاکر کو شاید علم نہ ہوکہ دوسروں پر تنقید کے نشتر چلانے والوں نے گھر میں کیا دال دلیہ پکایا؟۔ مفتی منیر شاکرنے کہا کہ اشرف علی تھانوی نے اپنی کتاب میں لکھاکہ شاہ عبدالرحیم نے ایک بزرگ کی قبر پر مراقبہ کیا تو بزرگ نے بتایا کہ تمہاری گھر والی کے حمل میں جو بچہ ہے وہ بڑی شان والا ہوگا۔ بیگم نے بتایا کہ جب تہجد کے وقت ہاتھ اُٹھائے تو میرے ہاتھوں میں بچے کے بھی دو ہاتھ تھے جس سے میں ڈر گئی۔ پھر شاہ عبدالرحیم کو یاد آیا کہ مراقبہ میں بزرگ نے بیوی کے حمل میں موجود بچے حضرت شاہ ولی اللہ کے بارے میں خوشخبری دی تھی اور ان کا نام بھی تجویز کیا تھا۔ یہ وہ باتیں ہیں جو مردوں کو زندہ سمجھنے والوں نے عقل سے عاری عقیدت مندوں کے سامنے گھڑ رکھی ہیں۔
حضرت خضر نے بچے کو قتل کیا تو تصوف و طریقت کی کتابوں میں اتنا بڑا واقعہ نہیں۔ حضرت عیسیٰ جب مٹی کا پرندہ بناتے تو پھونک سے روح آجاتی تھی۔ حضرت ابراہیم نے چار پرندوں کو ٹکڑے ٹکڑے کیا پھر زندہ ہوگئے۔ اللہ نے آگ کو ٹھنڈی ہونے کا حکم دیا تھا۔ بیت المقدس میں رسول اللہ ۖ نے تمام انبیاء کی امامت فرمائی اور قبر میں سوال پوچھا جائیگا کہ ” اس شخص کے بارے میں تم کیا کہتے ہو؟”۔ عیسیٰ کا باپ کے بغیر آدم کی طرح پیدا ہونا قرآن میں ہے۔ بزرگوں کا انکار کفر و گمراہی نہیں مگر قرآن وسنت پر زد نہ پڑے۔ مولانا طاہر پنج پیری کراچی تشریف لائے تھے تو میں نے ان کی خدمت میں مولانا مسعود الدین عثمانی کی توحید خالص پیش کرنا چاہی مگر اس کے چیلے ناراض ہوگئے اور سوال نہیں کرنے دیا تھا۔ مولانا مسعود الدین عثمانی جامعہ بنوری ٹاؤن اور وفاق المدارس کے فاضل تھے۔ دورہ ٔ توحید ایسا ہو کہ اپنے پرائے کا لحاظ نہ ہو مگر قرآن و سنت کا خیال رکھا جائے ۔ معراج کا ذکر قرآن وسنت میں موجود ہے۔
کوئی سوال کرے کہ ہجرت کی رات براق کیوں نہیں آیا؟۔ اگر مظالم سے بچنے کیلئے معجزات کا سہاراہوتا تو پھر کمال اور آزمائش کی بات نہ ہوتی۔ معراج اور ہجرت جیسا کوئی واقعہ صوفی کا ہوتا تو سوالات اُٹھتے اور مذاق بھی اُڑایا جاتا۔ پشتو شاعر اور عالم دین رحمن بابا کاشعر ہے کہ ”جس کا ایک قدم عرش تک پہنچتا ہے میں نے درویش لوگوں کی رفتار کو دیکھا ہے”۔ مولانا اشرف علی تھانوی کے خلفاء نے یہ واقعہ بیان کیا کہ خواجہ نظام الدین سلطان الاولیائ قوالی کا اہتمام کرتے تھے اور اس وقت کے محتسب قاضی ضیاء الدین سنامی ان کی سخت مخالفت کرتے تھے۔ایک دن سپاہیوں کو لے کر گئے تو سلطان جی اپنے مریدوں کیساتھ ذکر میں مشغول تھے۔ خیمے کی طنابیں کاٹ ڈالیں تو خیمہ ہوا میں معلق ہوا ۔ قاضی نے کہا کہ اس سے متاثر مت ہونا۔ آئندہ آئیں گے اور اس بدعت سے روکیں گے۔ دوسری مرتبہ ذکر شروع ہونے سے پہلے سپاہیوں کیساتھ پہنچ گئے اور کہا کہ اس بدعت سے نہ رکوگے ؟۔ سلطان جی نے کہا کہ اگر نبی ۖ فرمادیں تو؟۔ قاضی رضا مندہوئے تو کیفیت طاری ہوگئی۔ دیکھا کہ نبی ۖ جلوہ افروز ہیں اور فرمایا کہ اس فقیر کو کیوں تنگ کررہے ہو؟۔ قاضی نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ۖ مجھے اس کیفیت پر بھروسہ نہیں لیکن جو دین روایات کے ذریعے ہم تک پہنچاہے ،اس پر اعتماد ہے اورہم اس پر عمل کے پابند ہیں۔ جب کیفیت ختم ہوگئی تو سلطان جی نے کہا کہ اب کیا کہتے ہو؟۔ اب تو نبی ۖ نے تمہیں کیا فرمایا؟۔ قاضی نے کہا کہ روکوں گا، نبی ۖ کی خدمت میں نے کیا عرض کیا؟۔ سلطان جی نے قوال کو اشارہ کیا کہ شروع کرو۔ قوال نے شعر پڑھا تو سلطان جی وجد میں کھڑے ہوگئے، قاضی نے اس کو گریبان سے پکڑ کر بٹھادیا۔ دوسری بار وہ کھڑے ہوگئے پھر گریبان سے پکڑ کر بٹھادیا۔ تیسری بار کھڑے ہوگئے اور اس کے گریبان میں ہاتھ ڈالنا چاہا مگر دست بستہ کھڑے ہوگئے۔ محفل برخاست ہونے لگی تو لوگوں نے سمجھا تھا کہ قاضی بھی مرید بن کر جائیں گے۔ قاضی نے کہا کہ اچھا میں پھر آؤں گا اور تجھے اس بدعت سے روکوں گا۔ لوگوں نے کہا کہ ابھی تو آپ دست بستہ کھڑے تھے؟۔ قاضی نے کہا کہ جب پہلی بار اس کو وجد آیا تو اس کی روح پہلے آسمان تک پہنچی۔ وہاں تک میری رسائی تھی، پکڑ کر واپس لایا ۔ دوسری بار اس کی روح عرش تک پہنچی اور وہاں سے واپس لا یا۔ تیسری بار اس کی روح عرش کے اوپر گئی ، میں جانے لگا تو حاملانِ عرش نے کہا کہ تیری اوقات نہیں ، یہ سلطان جی کا مقام ہے۔ میں تجلیات عرش کے سامنے کھڑا تھا اس بدعتی کے سامنے تھوڑا کھڑا تھا۔ پھر قاضی بیمار ہوگئے ۔ سلطان جی عیادت کیلئے جانے لگے۔ لوگوں نے کہا یہ بر ا بھلا کہتا ہے ؟۔ سلطان جی نے کہا کہ یہ عالم ربانی ہے اس کا یہ منصب ہے کہ مجھے منع کرے۔ حاضری کی اجازت مانگی تو قاضی نے کہا کہ تجھے بدعت سے روکتا رہا۔ اب اپنا چہرہ مت دکھاؤ، ایسا نہ ہو کہ میری عاقبت خراب ہوجائے۔ سلطان جی نے کہا کہ میں اتنا گستاخ نہیں کہ بارگاہ سنت میں بدعت سے ملوث ہوکر آؤں۔ توبہ کرکے آیا ہوں۔ قاضی بڑا خوش ہوا، اپنی دستار دی کہ اس کو بچھاؤ، اس پر چل کر تشریف لائے۔ سلطان نے اپنے سرپر وہ دستار رکھی اور خدمت میں حاضر ہوئے تو قاضی صاحب نے کہا کہ ” آپ وہ لوگ ہو ،جو اپنی نظر کیمیا سے مٹی کو سونا بنادو۔ آپ میری تقدیر پر نظر کرم فرمائیں کہ بری تقدیر اچھی میں بدل جائے ۔ واقعہ پر دیوبندی اور بریلوی خوش ہوںگے لیکن اہل حدیث کہہ سکتے ہیں کہ ولی کا عرش پر چڑھ جانا گستاخی ہے ۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ اللہ کہتا ہے کہ بندہ نوافل کے ذریعے میرا اتنا مقرب بن جاتا ہے کہ اس کی آنکھیں بن جاتا ہوں ، جس سے وہ دیکھتا ہے ، اس کی زبان بن جاتا ہوں جس سے وہ بولتا ہے، اس کے کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے ، اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کے پیر بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔ (حدیث قدسی) اس حدیث میں اللہ کا اپنے بندوں کے ہاتھ پیر بن جانا بڑی بات ہے۔ قرآن میں ملکہ سبا بلقیس کا تخت کیسے آنکھ پھیرنے کی دیر میں حاضر کیا گیا تھا؟۔
حقیقت یہ ہے کہ مولوی کی شریعت اور صوفی کی طریقت دونوں میں سب کچھ ہوسکتا ہے مگر ہدایت کامل سے دور ہیں۔مستی احوال اور مستی گفتار مسائل کا حل نہیں۔ اگر ملاکی کتابوں سے گمراہانہ معاملات نکالے جائیں تو قیصرو کسریٰ کی سپر طاقتوں کی طرح موجودہ دور میں بھی ہمارا ایک قدم نظام خلافت کے ذریعے سے امت مسلمہ اور دوسرا دنیا کی سپر طاقتوں کے حدود تک پہنچ جائے گا۔
امام ابوحنیفہ نے علم الکلام کی گمراہی سے توبہ کرکے فقہ کی طرف توجہ کی توپھر فقہاء نے امام ابوحنیفہ کے نام پر علم الکلام کی گمراہی فقہ میں داخل کردی۔ جب یہ عقیدہ پڑھانا شروع کیا کہ قرآن لکھے ہوئے شکل میں اللہ کی کتاب نہیں ہے تو پھر فتاویٰ قاضی خان، صاحب ہدایہ ، فتاویٰ شامی اور مفتی تقی عثمانی نے سورہ فاتحہ کو علاج کیلئے پیشاب سے لکھنا بھی جائز قرار دے دیا، اہل تصوف سے بڑھ کر اہل فقہ کی گمراہی قابل گرفت ہے۔ امام غزالی فقہ سے توبہ کرکے تصوف میں آئے تو المنقذ من ظلمات الی النور ” اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالنے کے نام پر کتاب لکھ ڈالی”۔ پھر جس فقہ کے اندھیرے سے روشنی کا سفر کیا تھا جس سے مراد تصوف تھا تو اس تصوف میں فقہ کی گمراہیاں بھی ڈال دیں۔ یہ حقیقت تھی کہ شریعت الگ چیز ہے اور تصوف الگ ۔ جو حضرت موسیٰ اور حضرت خضر کے واقعہ سے ثابت ہے۔ ہمارے ہاں دونوں کو خلط ملط کرکے دونوں میں بڑی گمراہی کا سامان پیدا کیا گیا ہے اسلئے دونوں کی آپس میں بنتی بھی نہیں ہے اور جہاں بنتی ہے تو وہاں زیادہ خرابیاں ہوتی ہے۔ پیسہ ہتھیانے کا چکر بنتا ہے۔
جب قرآن وسنت پر واقعی اعتماد اور بھروسہ ہوگا تو مذہبی جماعتوں کیلئے بھی معاملات آسان ہوں گے۔ کن فیکون ہوگا۔ اس کیلئے اعلیٰ ایمان اور اخلاقیات کی ضرورت ہے۔ بے گناہ لوگوں کو خود کش سے اڑانا اسلام نہیں ۔ اختلاف تو حضرت ہارون اور حضرت موسیٰ کا بھی داڑھی اور سرکے بال پکڑنے تک پہنچاتھا نبی ۖ نے صحابہ سے فرمایا کہ ”میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو”۔ مطلب یہ نہیں کہ خوارج کی طرح حضرت علی و حضرت عثمان پر کفر کافتویٰ لگائیں۔ مفتی تقی عثمانی نے حیلہ سے سود کو اسلامی جواز بخش دیا تو اکابر نے سخت مخالفت کی اور ان کا فتویٰ مدارس اور کتب خانوں میں ہے۔ حدیث میں ائمہ مساجد کو آسمان کے نیچے بدترین مخلوق کہا گیا لیکن اس کا مقصد اچھائی کی طرف لانا ہے۔ فتنہ کے وقت میں لڑنے سے بہتر نہ لڑنا ہے ۔ حضرت علی نے بھی خوارج سے کہا تھا کہ ”اگر تم نہیں لڑوگے تو میں بھی نہیں لڑتا ہوں”۔
حضرت عثمانجب شہید کئے گئے تو حسن و حسین نے دروازے پر پہرہ دیا اور محمد بن ابو بکر پیچھے سے دیوار پھلانگ کر داخل ہوا ۔ حضرت عثمان کو داڑھی سے پکڑا تو حضرت عثمان نے فرمایا کہ اگر تیرا باپ یہ دیکھ لیتا تو آپ پر خفا ہوتا۔ جس پر محمد بن ابو بکر نے چھوڑ دیا اور پھر دوسرے دو افراد نے شہید کردیا۔ حضرت علی سے حضرت عثمان کی بیگم حضرت نائلہ نے واقعہ بیان کیا کہ ان دو نامعلوم افراد کو نہیں جانتی۔ حضرت علی نے محمد بن ابوبکر سے پوچھا تو وہ بھی نہیں جانتے تھے۔
یہ شکر ہے کہ حضرت علی نے مولویوں کی طرح یہ نہیں کہا کہ عورت کی گواہی حدود میں معتبر نہیں۔ اسلئے اگر قاتلوں کا پتہ بھی چل جائے تو بدلے میں قتل نہیں کرسکتے۔ جب امیر معاویہ نے قاتلین عثمان کو حوالہ کرنے کا مطالبہ کیا تو خوارج کے سردار ذو الخویصرہ نے 20ہزار افراد کے لشکر کے ساتھ کہا کہ یہ سب قاتلین ہیں۔ جس پر حضرت امیر معاویہ نے مطالبہ ترک کردیا۔ اس وقت سے آج تک اُمت ایک اضطراب کا شکار ہے اور اس اضطراب سے نکلنے کیلئے قرآن کی طرف رجو ع کرنا بہت ضروری ہے۔ جس سے اُمت مسلمہ کے مسائل حل ہوں گے۔
سراج الحق عوامی جلسوں میں کہتا ہے کہ” سود کا ادنیٰ گناہ اپنی ماںکے ساتھ خانہ کعبہ میں36مرتبہ گناہ کے برابر ہے ”۔ اور یہ نہیں سمجھتا کہ سودکو حلال کرنے کی وعید اس سے بھی زیادہ ہونی چاہیے۔ سراج الحق مولانا فضل الرحمن کو ٹارگٹ کرتا ہے کہ شرعی عدالت نے سودی نظام کے خلاف فیصلہ دیا،حکومت نافذ نہیں کرتی ۔ انگریز کے خلاف جمعیت علماء ہند نے قربانیاں دیں ۔ جاہلوں نے ان پر قوم پرستی وکفر کا فتویٰ لگایا۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی بیگم کی لاش کی بے حرمتی کی گئی کہ مسلمانوں کے قبرستان میں اس کو دفن نہ کیا جائے۔صحابہ کی حرمت پر قربانی دینے والے علماء کرام تھے لیکن جماعت اسلامی اپنے ایک رکن کو ایک قرار داد کی وجہ سے کریڈت دیتی ہے۔ قاضی حسین احمدصدر ملی یکجہتی کونسل تھے تو نمائندہ ماہنامہ ضرب حق امین اللہ نے سوال کیا کہ شیعہ کافر ہیں یا مسلمان؟ تو سخت ناراض ہوگئے۔ مولانا فضل الرحمن کی جماعت میں مولانا حق نواز جھنگوی شہید شامل تھے۔ سپاہ صحابہ بدمعاش بن گئی تو مولانا فضل الرحمن نے دہشت گرد قرار دیا ۔مولانا فضل الرحمن معتدل مزاج ہیں ۔عمران خان نے بھی مولانا فضل الرحمن صاحب کہنا شروع کردیا جو خوش آئند ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے امریکی جہاد کو شروع سے پاکستان کیلئے سونے کی چڑیا قرار دیا اور پیسے نہیں کمائے مگر ریاست کو ضرورت پڑگئی تو مجاہدین کا سوتیلا باپ بن گیا۔ مجھ سے زیادہ علماء اور مولانا پر کسی نے تنقید نہیں کی مگر میں ان کو زندہ باد کہتا ہوں ۔ البتہ انقلاب کیلئے مولانا فضل الرحمن اور علماء خود کو تبدیل کریں تو دہشتگردی کی لہر ختم ہوگی۔
مفتی محمد شفیع نے اپنی تفسیر ”معارف القرآن” میں غلط تفسیر لکھ ڈالی ہے کہ مشرک کو قتل کرو اور زکوٰة نہ دینے اور نماز نہ پڑھنے پربھی قتل کا حکم ہے۔ دیوبندی بھی دو فرقوں میں تقسیم ہیں۔ جو سلفی کی طرف رحجان رکھتے ہیں وہ دوسروں کو مشرک سمجھتے ہیں۔ سوات میں طالبان نے بریلوی پیر کو شہید کرکے اس کی لاش بھی چوک پر لٹکادی تھی۔ سلفی گروپ داعش میں ہیں۔داعش عالمی خلافت چاہتا ہے اور طالبان مقامی سطح پر امارت اسلامیہ کے قائل ہیں۔
مفتی منیر شاکر نے کہا کہ میں محمد ۖ کو اسلئے مانتا ہوں کہ اللہ نے کہا ہے۔ میں عبد المطلب ، عبد اللہ اور آمنہ کو نہیں مانتا اسلئے کہ اللہ نے ماننے کیلئے نہیں کہا۔ جس کے جواب میں مفتی گوہر شاہ نے کہا کہ ”بات صحیح ہے لیکن اس سے نبی ۖ کی توہین ہوتی ہے۔ اگر میں کہوں کہ مفتی منیر شاکر کی عزت اسلئے کرتا ہوں کہ وہ عالم ہے اگر وہ عالم نہ ہوتا تو میں اس مینڈک کی طرح شکل کو نہ مانتا تو اس کو کتنا برا لگے گا؟۔ اللہ کیلئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ کتوں کا رب ہے ، خنزیروں کا رب ہے۔ لیکن یہ توہین ہے حالانکہ کتوں اور خنزیروں کا بھی کوئی اور رب نہیں ۔ اللہ مفتی منیر شاکر کو ہدایت دے ورنہ …”۔ بڑی حکمت عملی کے ساتھ فضاء کو بدلنا ہوگا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

مولانا ارشد مدنی جمعیت علماء ہند

مولانا ارشد مدنی جمعیت علماء ہند

جمعیت علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی جو مولانا حسین احمد مدنی کے صاحبزادے اور جمعیت علماء اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمن کے بزرگ ہیں۔ اپنے حالیہ بیان میں کیا فرماتے ہیں ، ذرا غور سے ملاحظہ فرمائیں۔
”جمعیت علماء ہند وہ تنہا جماعت تھی جو لوہے کی طرح پتھر کی چٹان کی طرح تھی۔ ہمارے اکابر تھے۔ مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا مدنی، مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب، مولانا احمد سعید صاحب، مولانا حفظ الرحمن صاحب۔ ہم سے جو وعدہ کیا تھا اسے پورا کرو۔ ہم بار بار وعدہ لیتے رہے ہیںکے ملک آزاد ہوگا تو ملک کادستور سیکولر دستور ہوگا۔اگر ملک کی تقسیم کے اوپر دستخط کیے ہیںتم نے دستخط کیے ہیں تم مجرم ہوہم نے تو اپنی پگڑیاں اچھلوائی ہیںاور ٹوپیاں روندوائی ہیںہم اس جرم کے کرنے والے نہیں ہیں۔ شریف لوگ تھے، جمعیت علماء کا کردار ڈیڑھ سو سالہ کردار تھا”۔
مشکل ترین بات یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے بتایا کہ مولانا ارشد مدنی نے بھی باجوڑ دھماکے پر مجھ سے تعزیت کی اور میںنے ان سے پوچھا کہ ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اپنے بزرگوں کے عقائد، نظریات اور منہج پر چلیں گے اور اپنے اکابر کے عقیدے ، نظریے اور منہج کی حفاظت کریں گے تو انہوں نے ہمارے فیصلے کی تائید فرمائی۔ مولانا فضل الرحمن کے اکابر کون کون ہیں ؟۔ شاہ ولی اللہ بریلوی دیوبندی اور اہلحدیث کے مشترکہ تھے۔ ان کے پوتے شاہ اسماعیل شہید نے مرشد سیداحمد شہید کو خراسان کا مہدی ثابت کرنے کیلئے” منصب امامت” کتاب لکھی اور بالاکوٹ کے مقام پر خلافت کے قیام کی کوشش میں ساتھیوں اور مرشد سمیت شہید ہوئے اور آج تحریک طالبان افغان اور پاکستان اس کی منہج پر چلنے کا دعویٰ کرتے ہیں ۔ شاہ اسماعیل شہید نے تقلید کو بدعت قرار دیا تھا اور اس کی کتاب کے ترجمہ ” بدعت کی حقیقت ” کی تقریظ مولانا محمد یوسف بنوری نے لکھی ہے۔پہلے اکابر دیوبند نے شاہ اسماعیل شہید کی تائید میں قرآن وسنت کی تعلیم کو زندہ کرنے کے عزم کا اظہار کیا پھرمولانا احمد رضا خان بریلوی نے ان پر ”حسام الحرمین” کا فتویٰ لگایا تو اس وقت حرم میں موجودہ وہابی حکومت نہیں تھی۔ توعلماء دیوبند نے تقلید کی تائید اور وہابیت کی تردید میں متفقہ مؤقف پیش کیا، پھر وہابی حکومت اقتدار میں آئی تو عبدالوہاب نجدی اور ابن تیمیہ کو گمراہ قرار دینے کے بعد پھر اکابر کی غلط فہمیاں دور ہوگئیں۔ طالبان نے زبردستی داڑھی رکھوانے اور نماز پڑھانے کا سلسلہ شروع کیا تو مولانا فضل الرحمن اور علماء دیوبند نے نہ صرف ان کی تائید کردی بلکہ ملاعمر کو خراسان کا مہدی بھی قرار دیا۔ پھر امریکہ نے طالبان کی حکومت ختم کردی تو مولانافضل الرحمن نے دہشتگردی پر تحریک طالبان کو خراسان کے دجال کا لشکر قرار دے دیا۔ طالبان اور ہندوستان کے درمیان پھنسے ہوئے مولانا فضل الرحمن کواس دلدل سے عزت وسلامتی کے ساتھ نکالنے کی کوشش ہے۔انسان میں غلطیاں ہوتی ہیں لیکن دنیا میں انقلاب برپا کرنے کیلئے خود کو بھی بدلنا پڑتا ہے اور خود کی تبدیلی سے چار سو میں تبدیلی آسکتی ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

مغرب نے کلمہ نہیں پڑھاہے باقی انہوں نے اسلام کو قبول کیا ہوا ہے مفتی منیر شاکر کا پیغام

مغرب نے کلمہ نہیں پڑھاہے باقی انہوں نے اسلام کو قبول کیا ہوا ہے مفتی منیر شاکر کا پیغام

مغرب نے نصاریٰ کے مسخ شدہ مذاہب کوچرچ تک محدود کردیا اور پارلیمنٹ کے ذریعے معاشرتی معاملات کے حقوق اور قوانین کا تعین کردیا، آج ہم یہود ونصاریٰ کے نقش قدم پر ہیں؟

نکاح و طلاق ، خلع ، حق مہر ، عورت کے حقوق اور دیگر معاملات میں مسلمانوں نے بھی قرآن سے معنوی انحراف کرکے یہودونصاریٰ کی طرح دین کو مسخ کرکے رکھ دیا ،ہمیںاصلاح کرنا ہوگی

مفتی منیر شاکر سے معروف شاعر ، کالم نگار اور ایک متحرک تاریخی وبیباک شخصیت مردان کے شعیب صادق نے اپنے ساتھیوں سمیت ملاقات کی ہے۔ درسِ نظامی کی اصول فقہ میں یہ حنفی مؤقف پڑھایا جاتا ہے کہ شریعت کے دلائل چار ہیں۔ نمبر1: قرآن : جس سے مراد پانچ سو آیات ہیں جو شرعی احکام سے متعلق ہیں۔ باقی قرآن انبیاء اور دوسرے حضرات کے قصے اور مواعظ ہے۔
لیکن افسوس کہ علماء نے ان500قرآنی آیات کی نشاندہی نہیں کی بلکہ یہ کام کیا ہے کہ نبی کریم ۖ کی حدیث صحیح بھی ہے ، جمہور مسلک کے مطابق بھی ہے لیکن حنفی اس کو قرآن کے منافی سمجھتے ہیں اسلئے یہ حدیث کو نہیں مانتے۔ نتیجے میں جمہور فقہاء ومحدثین نے امام ابوحنیفہ کی سخت مخالفت کی ہے۔ پورے فقہ میں نہ قرآنی آیات کی نشاندہی ہے اور نہ احادیث صحیحہ کی۔ حالانکہ یہ پڑھایا جاتا ہے کہ دوسری دلیل سنت ہے۔ ذخیرۂ احادیث تو بڑی بات علماء و مفتیان چیدہ چید ہ احادیث کا بھی ادراک نہیں رکھتے۔حنفی مسلک احادیث کے خلاف محاذآرائی کا نام ہے۔ اس وجہ سے امت مسلمہ گمراہی سے محفوظ ہے اسلئے کہ احادیث کے نام پر قرآن کے بھی خلاف مواد ہے۔ البتہ علماء ان کو عوام کے سامنے لانے سے تقیہ کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے مذہبی طبقہ قرآن وسنت سے بالکل جاہل ہے۔
جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں معتبر شخصیت مولانا بدیع الزمان کی تھی۔ ہم نے آپ سے اصول فقہ کی کتابیں”اصول الشاشی” اور” نورالانوار” پڑھی تھیں۔ عربی میں گوشت کو لحم کہا جاتا ہے اور قرآن میں مچھلی کو لحمًا طرےًا ”تازہ گوشت ”قراردیا گیا ہے۔ حنفی مسلک میں مچھلی گوشت نہیں ہے اسلئے کہ اس میں خون نہیں ہوتا اور جس میں خون نہ ہو تو وہ گوشت نہیں ہے۔ اگرحنفی مسلک کو قرآن ، سنت ، عقل اور فطرت کے خلاف ثابت کیا جائے تو چھوڑدیا جائے گا۔
اگر ہم یہ مان لیتے ہیں تو قرآن میں تازہ گوشت سے بدنما دریائی گھوڑا مراد ہے؟۔ حالانکہ مانتے ہیں کہ قرآن میں تازہ گوشت سے مراد مچھلی ہے۔ اور مچھلی میں خون ہوتا ہے۔ اصولِ فقہ میں ایک اور مسئلہ پڑھایا جاتا ہے کہ سمندری انسان بھی ہوتے ہیں لیکن ان سے شادی کرنا جائز نہیں ہے ۔ مولانا بدیع الزمان نے بتایا تھا کہ سمندر کے کنارے پر کسی نے سمندری عورت پکڑلی تھی اور پھر اس سے چھوٹ گئی تھی اور ایک سمندری مرد بھی نکلا تھا۔ جب ایک طرح کے انسانوں سے شادی جائز نہیں تو حور کی جنس بھی الگ ہوگی؟۔ اس سے شادی تو بہت دور کی بات ہے کیا جنسی تعلق قائم کیا جاسکتا ہے؟۔ عربی میں موصوف مقدم اور پھر صفات آتی ہیں۔ قرآن میں باغات موصوف اور ان کی صفات بیان کی گئی ہیں کہ گویا ہیرے و مرجان ہیں۔ سورۂ رحمان میں ومن دونھما جنتان”اور اس کے علاوہ دو باغ اور ہوں گے”۔ اس میں ایک دنیاوی انقلاب کا ذکر ہے اور دنیا میں الگ الگ اقسام کے دو دو باغات مراد ہیں۔
قرآن کی سورہ محمد ۖ میں ہے کہ ” جنگ میں قید ہونے والوں کو احسان کیساتھ رہا کرو یا فدیہ سے”۔ جس سے دنیا کو یہ اصول دیا گیا ہے کہ جنگ میں قید ہونے پر بھی کسی عورت کو لونڈی اور مرد کو غلام یا قتل نہیں کیا جاسکتا ہے۔ دوسرا یہ کہ طویل قید میں بھی نہیں ڈالا جاسکتا ہے۔ تیسرا یہ کہ اس پرذہنی اور جسمانی تشدد نہیں کیا جاسکتا ہے۔ جیسے گوانتا ناموبے میں امریکہ نے کیا اور ڈاکٹر عافیہ کو لمبی سزا دی۔
قرآن میںدو دو، تین تین اور چار چار عورتوں سے نکاح کی اجازت ہے ۔ عدل نہ کرنے کا خوف ہو تو پھر ایک یا جن سے ایگریمنٹ ہو۔ یہ غلط سمجھ لیا گیا ہے کہ اس سے مراد لاتعداد لونڈیاں ہیں ،اگر چہ لونڈی وغلام کی ذاتی ملکیت ختم کرکے ان کی حیثیت بھی ایگریمنٹ یا گروی کی کردی تھی لیکن یہاں مرادمتعہ ہے۔ جب صحابہ نے نبی ۖ سے پوچھا کہ کیا ہم خود کو خصی نہ بنالیں تو نبی ۖ نے متعہ کی نہ صرف اجازت دی بلکہ فرمایا کہ لاتحرموا مااحل اللہ لکم من الطیبٰت ”حرام نہ کرو جو اللہ نے پاک چیزوں کو تمہارے لئے حلال کیا” ۔
مولانا طارق جمیل نے حوروں کی خواہش میں جن لوگوں کو ڈال دیا وہ تبلیغی جماعت سے جہادی بن گئے اور خود کش کرنے لگے۔ اگر حلالہ کی لعنت کو دیکھا جائے تو کس کو اللہ کے اس حکم میں کامیابی کا یقین آئے گا؟۔ مولانا الیاس نے فضائل کے ذریعے قوم کو علماء ومشائخ کی طرف متوجہ کیا لیکن جو خود نہ ہوں ہدایت پر تو دوسروں کو… ؟۔ صحابہ کے بارے میں ٹھیک کہا کہ خود نہ تھے جو راہ پر عالم کے ہادی بن گئے ،کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحاکردیا۔قرآن وسنت کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ لوگ دین فطرت اسلام کو قبول کرنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

ہر دہشتگرد مسلمان کیوں ہوتا ہے ؟ہندولڑکی

ہر دہشتگرد مسلمان کیوں ہوتا ہے ؟ہندولڑکی

اندرا گاندھی کو جس نے مارا وہ مسلمان تھا؟۔ بابری مسجد کو جس نے شہید کیا وہ مسلمان تھا؟۔ مسلمان عالم

ہندو لڑکی : اچھا ٹھیک یہ آپ مانتے ہیںکہ سارے مسلمان پاکستانی سوچ نہیں رکھتے ہیں لیکن ہر دہشت گرد مسلمان ہی کیوں ہوتے ہیں؟۔
مہمان عالم دین کاجواب: مہاتما گاندھی کو جس نے مارا وہ مسلمان تھا کیا؟، اندرا گاندھی کو جس نے مارا وہ مسلمان تھا کیا؟، بابری مسجد کو جس نے شہید کیا وہ مسلمان تھا کیا؟، دلی کی سڑکوں پر سکھوں کی گردنیں کاٹی گئیں کیا وہ مسلمان تھے؟،گجرات کے گلی کوچوں میں جن لوگوں کو مارا گیا اور جن کو بے گھر کیا گیا کیا وہ مسلمان تھے؟۔ میری بہن میں آپ سے گزارش کررہا ہوں کہ آپ ایسا مت سوچیں۔ میںآپ کو صرف اتنی بات کہنا چاہ رہا ہوں کہ برائی برائی ہوتی ہے، اس کو آپ مذہب کے اینگل سے نہ دیکھیں، یہ موئز ان سے مسلمانوں کا کیا تعلق؟، موئزن سے ہمارا کیا تعلق؟ہم ہر قسم کے تشدد کی مذمت کرتے ہیں، مذمت کرنا چاہیے ۔
میزبان: میں آپ کی اس بات سے بالکل متفق ہوں۔ جو دہشتگرد ہے وہ نا ہندو ہوتا ہے نا مسلمان ہوتا ہے۔ بلکہ دہشت گردی خود ایک مذہب بن گیا ہے اب۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اگر وہ ذہنی مریض ہے تویہ سلوک اپنے بچوں کے ساتھ کیوں نہ کیا؟

اگر وہ ذہنی مریض ہے تویہ سلوک اپنے بچوں کے ساتھ کیوں نہ کیا؟

میں نے آپ کو پہلے ہی کہا تھا کہ اب ان خاتون کو پاگل ثابت کیا جائے گا۔ میرے سوالات ہیں کہ اگر وہ ذہنی مریض ہیں تو انہوں نے یہ سلوک اپنے بچوں کے ساتھ اور جج صاحب کے ساتھ کیوں نہ کیا؟؟ یہی سلوک جس سکول میں پڑھاتی ہیں ان سکول کے بچوں کے ساتھ کیوں نہ کیا؟؟ اڑوس پڑوس کے بچے ان کی ذہنی بیماری سے کیسے محفوظ رہے؟ اگر وہ ذہنی مریض ہے تو جج صاحب آپ نے ان کو پاگل خانے کیوں نہ بھیجا؟ جب آپ لوگ اس کو گھر میں قید کرکے جارہے تھے اس وقت آپ کے ہوش کدھر تھے جج صاحب؟۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اربوں ڈالر کا تانبا چین منتقل ہواہے حامدمیر

اربوں ڈالر کا تانبا چین منتقل ہواہے حامدمیر

اس کا سارا حساب کتاب نیٹ پر دینا چاہیے کہ50فیصد منافع مرکز اور50فیصد صوبے کو منتقل کیا گیا؟

اربوں ڈالر کا تانبہ شمالی وزیرستان سے چین منتقل ہورہا ہے ،ایک ٹرک دہشتگردی کا شکار نہ ہوا، سوال بنتا ہے؟ سوال یہ بھی کہ وہ پیسہ کہاں ہے؟۔
ہم بتارہے ہیں آج کی سب سے بڑی خبر کہ پاکستان کے پاس6ٹریلین ڈالرز کے معدنی ذخائر ہیںیہ ذخائرجوآپ کو میرے پیچھے شمالی وزیرستان کے علاقے محمد خیل میں نظر آرہے ہیں۔
حامد میر: اگر6ٹریلین ڈالرز کی ورتھ کے منرلز ہیں تو ہمارے مسئلے حل ہوسکتے ہیں؟
انجینئر ذیشانFWO:یہ دوسرا سب سے بڑا تانبے کا ذخیرہ ہے پاکستان میں۔
حامد میر: محمد خیل سے ہم سالانہ کتنے پیسے کماسکتے ہیں؟
انجینئرFWO:ہم نے ابھی تک کوئی22ہزار ٹن تانبہ پچھلے تین ساڑھے تین سال میں چائنہ ایکسپورٹ کردیا۔ تقریباً30سے35ملین ڈالرز ریونیو جنریٹ کرچکے ہیں۔ محمد خیل کے اس پروجیکٹ میں3.5ملین ٹن کا ذخیرہ ہے، ابھی تک1.1ہم نکال چکے اور مزید2.5ملین ٹن کا ذخیرہ ہے۔ اوراس پروجیکٹ میں70فیصد محمد خیل گاؤں شمالی وزیرستان کے لوگ ہی یہاں کام کررہے ہیں۔ پروجیکٹ کے ریوینیوز کا50فیصد ہم یہاں لوکل کمیونٹی پر خرچ کررہے ہیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

بہاولپور یونیورسٹی کا ایک اور پہلو بھی ہے

بہاولپور یونیورسٹی کا ایک اور پہلو بھی ہے

مریم اکرام سوشل میڈیا(social media influencer) ہیں۔ اپنا چینل بھی چلارہی ہیں۔ اینکر پھٹ پڑی لڑکیوں کو ذمہ دار قرار دے دیا۔ مزید کیا خوفناک انکشافات کئے سن کر حیران ہوجائیں گے توبہ۔
ماں باپ بچوں کو ہاسٹلز، فلیٹوں میں بھیجتے ہیں تو گند شروع ہوتا ہے وہاں سے۔ جو شریف ہے جب وہ دیکھے گی ناں کہ دوسری ساتھ بیٹھی ہوئی رات کو روم میں آرہی ہے بڑے بڑے شاپنگ بیگز لیکر آرہی ہے کہ یہ میں نے ڈریس لئے، میرے بوائے فرینڈ نے یہ فون دیا ۔ للی پنجی ہیں خدا کی قسم ان کو بولنے کی تمیز نہیں۔ جاہل خاندان سے تعلق رکھنے والیوں نےiPhoneرکھے ہیں انکے باپ نے کڈنیاں بیچ کر دیے ہیں ان کو؟۔ وہی شریف لڑکیاں جن کی بات کررہے ہیں۔ شرافت ختم کرکے فونز لئے، ڈریسنگ سینس کو بہتر کیا، دیہات کی زیادہ تر لڑکیاں اس لائن میں آتی ہیں جن کی وجہ سے بہت سی لڑکیاں بدنام ہوتی ہیں اسلئے شرافت تو ہاسٹل اور فلیٹ میں جاکر ختم ہوجاتی ہے۔ جب میں نے سنا تو مجھے پتہ تھا کہ ہمارے ملک کی لڑکیاں انتہائی گندی ہیں، اگر ان کی ویڈیو ہیں یا بلیک میل کیا جارہا ہے تو وہ کچھ نہ کچھ کررہی تھیں۔ کچھ ویڈیو میں سب کچھ کررہی ہیں،کپڑے اتار رہی ہیں کیمرہ سامنے ہے۔ یہ یونیورسٹی کی لڑکیاں ہیں تو یہ میرے لئے کوئی شاکنگ نہ تھا کہ5500لڑکیوں کی غلط ویڈیوز پر بلیک میل کیا جارہا ہے۔ اگر کچھ ہے تو بلیک میل کیا جارہا ہے۔
سوال: ویڈیوز سامنے آنے کے بعد جو شریف بیچاری لڑکیاں ہیں ان کی زندگی پر تو یہ ویڈیوز اثر انداز ہورہی ہے خاص کر اس یونیورسٹی کی لڑکیوں پر؟۔
مریم اکرام: آج تک شریف لڑکی کی ویڈیو تو سامنے نہیں آئی ہے جس میں کسی لڑکے کو تھپڑ مارا ہو۔ مرضی ہو تو سب کچھ کرالینا ہے۔ مرضی نہیں تو اگلا بدتمیز ہے۔ یہاں پر ہم شریف بن جاتے ہیںاور جہاں پر شرافت ختم ہوجاتی ہے تو ہم کہتے ہیں کہ ہم نے رہنا بھی یہیں ہے اور ہم سب کچھ کریں گے بھی۔ آپ نے کہا کہ کچھ شریف وہاں پر ہوں گی اگر ان کی ویڈیوز نہیں تو ان کے اندر وہی اعتماد ہے اور وہ اپنے گھر والوں کے اندر اسی طرح فخر کے ساتھ ہیں کہ بھئی ہم ان میں ملوث نہیں، ہماری ویڈیوز نہیں، اس گارڈ کی غلطی نہیں جس کے پاس ویڈیوز ہیں بلکہ ان لڑکیوں کی غلطی ہے جن کی ویڈیوز ہیں۔ اور کس طرح کی ویڈیو ہیں وہ وہی جانتے ہیں میں نے نہیں دیکھیں۔ البتہ دو تین ویڈیو نظر سے گزری ہیں جو آپ کے ساتھ ضرور شیئر کروں گی۔ تو یہاں پر شرافت اور گندگی دونوں سائڈ پر ہوجاتے ہیں اگر آپ کو لگ رہا ہے کہ جگہ گندی ہے یہاں پر کچھ لوگ ایسے ہیں تو اپنے والدین کے ساتھ شیئر کریں، آپ وہاں سے نکل جائیں یونیورسٹی بدلیں آپ پرائیویٹ کرسکتے ہیں، بہت کچھ کرسکتے ہیں تو گند سے آپ کو نکلنا ہے۔ شرافت وہاں پر ختم ہوگئی ہے۔ یونیورسٹی کے اعلیٰ عہدیداران کو سزا ملنی چاہیے کیونکہ انہوں نے اس طرح کے کام وہاں پر ہونے دئیے ہیں۔
سوال: ایک خاتون گاؤں سے آتی ہے کیا وجہ ہے ایک شریف فیملی سے تعلق ہو یہاں پر آکردنوں میں چال چلن بدل جانا کیا اتنا آسان ہے اپنے کو تبدیل کرنا کیا پیسہ اتنا ضروری ہوگیا کہ کوئی بھی آفر کرے آپ مان جائیں؟۔
مریم اکرام: ایک گندی مچھلی پورے تالاپ کو گنداکرتی ہے آپ کے روم میٹ میں پانچ سے سات لڑکیاں ہیں ان میں سے ایک بھی گندی ہے ناں تو اس نے آپ کو بھی گندا کردینا ہے۔ اس نے ڈنر، لنچ پر جانا ہے ، اسٹیٹس مینٹین رکھنا ہے اپنا آپ کے پاس نہیں تو کب تک اسکے ساتھ لڑیں گے۔ اپنا دفاع کیسے کریں گے کس طرح روکیں گے کہ اس کے پاس سب کچھ ہے میرے پاس نہیں ہے آخر کار رہنا تو آپ کو وہیں پر ہے۔ والدین وہ خرچہ پورا کر نہیں سکتے۔ تو جب گاڑیوں میں وہ گھوم رہی ہے آپ کو گھومنے کیلئے رکشہ بھی نہیں مل رہا ہے اسلئے یہ چینج ہوجاتی ہیں۔ میں ایک آفس میں کام کرتی تھی2016سے18تک میں نے کام کیا ہے وہاں پر ایک لڑکی تھی اس کی عمر19سال ہوگی اور اس نے بتایا کہ میں پچھلے تین سال سے طوائف(prostitute)کے طور پر کام کررہی ہوں طوائف ہوں نہیں کیونکہ میرے ماں باپ کہتے ہیں کہ پیسے لاؤ پیسے لاؤ پیسے لاؤ۔ پہلے وہ ماں باپ سے پیسے لیتی تھی دیتی نہیں تھی جب اس نے پیسہ کمانا اور لوگوں کے پاس جانا شروع کردیا میں نے کہا کیوں کرتی ہو؟۔ اس نے کہا میں اسلئے کرتی ہوں کہ ہر مرد کی ہوس ہے۔ ہر مرد نے کہنا اور کرنا یہی ہے۔ تو جب اس نے آفر کرانی ہے تو میں خود آفر کرادیتی ہوں کہ ہاں ٹھیک ہے اوکے فائن۔ پیسہ دو بولو کتنا پیسہ دیتے ہو؟۔بڑے بڑے برانڈز کے مالکان کے ساتھ اسکے تعلقات تھے کہ اگر میں ان برانڈز کا بھی نام لوں تو ان کے اوپر لعنت ہے ۔ آفس جاب وہ9سے5تک کرتی تھی تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ یہیں سے کماتی ہوں وہاں پر تو اس کی تنخواہ تھوڑی سی تھی اور گھر پر مہینے کا ڈیڑھ دو لاکھ روپے بھجوانا بہت بڑی بات تھی۔ تین چار سال بعد میں اس سے ملی تو کہنے لگی سب اجڑ گیا۔ حالانکہ وہ بچی پڑھنے آئی تھی۔ پڑھتے پڑھتے اس نے کہا کہ جاب کررہی ہوں۔ پھرپیسے گھر بھیجنے شرو ع کردئے پھر گھر والوں کو بھی پیسوں کی ہوس لگ گئی ۔
سوال: نشہ ہاسٹلز پر پہنچانے کیلئے کوئی نا کوئی تو لوگ ہوں گے عام لڑکی کی رسائی تو نہیں ہے تو نشہ آور چیزیں کیسے پہنچتی ہیں وہ بھی آئس نشہ؟۔
مریم اکرام: اگر آپ کرائم اور نشہ آور چیزوں پر بات کرتے ہیں،گینگ کو پکڑتے ہیں تو خود پھنستے ہیں اسلئے میں نے کافی عرصے پہلے ان سب چیزوں کو چھوڑ دیا، میں انکے اوپر رپورٹنگ کرتی ہی نہیں۔ڈرگز کیلئے ایک ہی بندہ ہوتا ہے جسکے پاس یہ آتے ہیں۔ اور کیٹگرائز ہوتے ہیں کہ اس ایریا میں ہم نے ہی بیچنے ہیں۔ ہاسٹل کی جو مین سپریڈنٹ ہوتی ہے جو گیٹ پر بیٹھتی ہے ان اینڈ آؤٹ دیکھتی ہے اصل میں تو وہprostituteاورproviderہے۔ جو رات کو باہر نکلنے کی اور باہر سے اندر آنے پر اجازت بھی دیتی ہے۔ ڈرگز ان تک بھی پہنچاتی ہے اور اس کا پیسہ خود بھی رکھتی ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کے اپوزٹ ہاسٹل ہیں وہاں پر یہ سب کچھ ہوتا تھا اور جو نیچے بیٹھی ہوتی تھی ہیڈ لڑکیاں شروع شروع میں اس سے ڈرتی تھیں کہ وہ پکڑلے گی وہ آنے نہ دے گی وہ جانے نہیں دے گی حالانکہ ملواتی ہی بندوں سے وہ تھی بڑے بڑے بندے آتے تھے اور سب سے زیادہ کام وہیں پر چل رہا ہے۔ لڑکیوں کو ہاسٹل کی ہیڈ ہی ڈرگس مہیا کرتی ہے۔ وہی سب سے پیسے لیتی ہے۔ اگر ہیڈ اچھا ہو تو سب آگے چیزیں نہیں پہنچ سکتیں۔جیسے ہاسٹلز میں کنڈی لگانا الاؤ نہیں ہوتا جس کا مطلب ہے کہ آپ کبھی بھی اندر داخل ہوسکتے ہیں اور دیکھ سکتے ہیں کہ لڑکیاں کیا کررہی ہیں۔ دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں تو پھر کیوں دیکھیں ؟۔ پیسہ چل رہا ہے وہاں پر اور شریف ماں باپ کے بچے جب تک یونیورسٹیز میں آتے رہیں گے۔لاہور، کراچی، اسلام آباد ، بہاولپور جہاں جائیں گند ہے اور رہے گا جب دیکھ بھال نہیں کریں گے۔
سوال: یہ واقعہ آخری ہے یا ایسے واقعات ہوتے رہیں گے؟
مریم اکرام: ہوتے رہیں گے نہیں ہورہے ہیں۔ یہ سامنے آیا۔ بیک اینڈ پر کونسا ہے یہ نہیں پتہ۔ کتنی لڑکیاں یہ سوچ رہی ہیں کہ شکر ہے ہمارا ڈیٹا سامنے نہیں آیا۔ یار شکر ہے میرا نام نہیں آیا اس بار بچ گئی۔ بہت سے لوگ سوچ رہے ہوں گے کہ شکر ہے ساڈی یونیورسٹی دا نئی ہویا ،شکر اے ساڈے ہوسٹل تے چھاپا نئی پیا۔ یہ کام چل رہا ہے ، چلتا رہے گا، بہاولپور یونیورسٹی سامنے آئی۔بہت واقعات سامنے نہیں آئے ۔ اگر آئیں گے تو آپ پھر انٹرویو کررہے ہوں گے اور میں بھونک رہی ہوں گی ہماری کس نے سن لینی ہے؟۔ ہمارا نظام کبھی بھی صحیح نہیں ہوگا کیونکہ نظام بنانے والے ہی خراب ہیں تو ہم کیسے خود کو صحیح کرسکتے ہیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

پرویزمشرف کے دور میں سیکولر بل منظورہوا!

پرویزمشرف کے دور میں سیکولر بل منظورہوا!

حافظ حسین احمد اگر سورۂ نور میں لعان کی آیت کا حکم دیکھ لیں تو عوام کو ورغلانے کا جذبہ بالکل نکل جائیگا!

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں یہ بل پاس ہوتا ہے کہ آپ کی بیٹی، آپ کی بیوی، آپ کی بچی، آپ کی خاتون کسی کیساتھ جائے نہ آپ اسے روک سکتے ہیں نہ آپ اس کے خلاف تھانے میں جاسکتے ہیں نہ آپ اس کو سزا دے سکتے ہیں۔ اس کیلئے بات ہوئی کوشش کی گئی، مفتی تقی عثمانی کو ڈالا گیا۔ چوہدری شجاعت کو ڈالا گیا۔ مشرف نہیں مان رہا تھا کہ ہم پر دباؤ ہے امریکہ کا۔ اس بل کو منظور کرنا ہوگا، عورتوں کو آزادی دینی ہوگی۔ ہمارا اجلاس ہوا اور اس اجلاس میں فیصلہ ہوا۔ مولانا فضل الرحمن جوش میں آئے اورفرمایا کہ اگر یہ بل پاس ہواقومی اسمبلی میں تو ہم اسی وقت قومی اسمبلی سے استعفیٰ دے کر باہر جائیں گے۔کہا تھا ،نہیں کہا تھا؟۔ بل پیش ہوا۔ پیپلز پارٹی نے مشرف کا ساتھ دیا۔ میں مولانا فضل الرحمن کے پاس پہنچاکہ آپ نے کہا تھا کہ اسمبلی کی چھت پر اللہ کے99نام لکھے ہیں ہمیں اس کی قسم ہے کہ اگر یہ بل پاس ہوتو ایک لمحہ ضائع کئے بغیر اسمبلی کو چھوڑ دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاگل نہ بنیں سیاست میں ایسی باتیں ہوتی ہیں۔ میں نے اپنا ہاتھ چھڑا دیا میں باہر نکلا اور آج تک باہر ہوں۔

__حافظ حسین احمد جناب پر نوشة دیوار کا تبصرہ__
لعان کا حکم سورۂ نور میں نازل ہو اتو سعد بن عبادہ نے اس پر عمل سے انکار کردیا ۔ اگر لعان کا حکم قرآن ہے کہ بیوی کو رنگے ہاتھوں پکڑکر قتل نہیں کرسکتے اور نہ سزا دے سکتے ہیں تو دیکھنا پڑے گا کہ کیا غلط اور کیا صحیح ہے؟۔ کہیں اسلام کا حکم تو علماء اور مذہبی طبقات نے غلط نہیں سمجھ لیا ہے؟۔ اس پر مشاورت کریں!۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv