پوسٹ تلاش کریں

سورۂ مدثر میں ایک بڑے انقلاب کا اشارہ

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

اسلام کی نشاة ثانیہ کے آغاز کا وقت ہے کیا؟

قرآن کی طرف متوجہ ہوئے بغیر اسلام کی نشاة ثانیہ کے آغاز کا تصور نہیں ہوسکتا

روزنامہ مشرق پشاور میں سورۂ مدثر کی بعض آیات کا حوالہ دیا گیا کہ اس میں کورونا وائرس کا چین سے ہونے کا ذکر ہے۔ آیت8میں ناقور سے مراد کورونا اور آیت12،13میں مال کی کثرت اوراولاد کی حاضری سے مملکت چین مراد لیا گیا۔ کبھی پاکستان جرمنی جیسے ملک کو قرضہ دیتاتھا مگر اب قرضہ دیتا نہیں لیتا ہے۔ اگر دنیا سے سود کا نظام ختم ہوجائے اور پاکستان کا سود معاف ہوجائے تو پاکستان کیلئے اس سے زیادہ خوشخبری کیا ہوسکتی ہے؟۔ نوازشریف نے ڈھیر سارے سودی قرضے لئے اور پھر اپنی شوگر ملوں کیلئے اربوں کی سبسڈی لی۔ شوگر مافیاپکڑا گیا تو تحریک انصاف سے زیادہ ن، ق لیگ اور پیپلزپارٹی کے بکروں کو چھرا دکھائی دیتا ہے۔ اگر یہ لوگ وہ سبسڈی کا مال بھی غریب عوام کو اس مشکل میں دیدیں تو غریبوں کا بھلا ہوجائے۔
جاپان نے ایک کھرب امریکی ڈالر کورونا وائرس کے خلاف پیش کردئیے ہیں۔ ہمارے پھنے خان،ننھے خان اور منے خان لوٹی ہوئی دولت بھی واپس نہیں کرتے۔ کرونا کانقارہ بج چکا ہے۔ سورۂ مدثر میں سقر سے جہنم نہیں بلکہ شکرے کی نحوست مراد ہوسکتی ہے، قرآن میں نحوست کوپرندے سے تعبیر کیا گیا ۔ لاتبقی ولاتذرO لواحة للبشر”نہ رازباقی چھوڑے اورنہ کوئی معاملہ رہنے دے۔جھلساکر انسان کو بگاڑ کر رکھ دے”۔ علماء ،سیاستدان، صحافی اور سب طبقات کیلئے یہ بڑی وارننگ ہے جو آخرت میں نہیں دنیا میں انقلاب کے حوالے سے ہے۔ ومایعلم جنود ربک الا ھو”اور کوئی نہیں جانتا تیرے رب کے لشکر کو مگر وہ، اوربشر کیلئے نصیحت ہے”۔ یہ کرونا وائرس بھی اللہ کا لشکر ہے۔جب انقلاب آئیگا تو ہر شخص اپنے کئے میں گرفتار ہوگا مگر دائیں جانب والے( اچھے لوگ )وہ جنت نظیر دنیا میں مجرموں سے پوچھیں گے کہ اس سقر(کم بختی کی نحوست میں) کس چیز نے پہنچایا؟

 

سورۂ مدثر میں ایک بڑے انقلاب کا اشارہ؟

قرآن کے رموز اور حقائق کبھی ختم نہیں ہوتے بلکہ ہردور میںرہنما اصول ہیں!

قرآن وسنت میں دو انقلابات کا ذکر ہے۔ پہلا انقلاب رسول اللہۖ کے دورمیں آیا۔ جسکے اثرات خلافت عثمانیہ اور سلطنت مغلیہ تک قائم رہے۔ دوسرا انقلاب درمیانہ زمانے سے آخری دورحضرت عیسیٰ علیہ السلام اور دجالِ اکبر تک قائم رہے گا۔ پاکستان اسلام کے نام پر بن گیا مگر اسلام سے سیاستدان تو دور کی بات ہے علماء ومشائخ بھی ناواقف ہوگئے تھے۔ مسٹر جناح کوئی مذہبی شخصیت نہیں تھی بلکہ مذہب سے دور ہونا ہی اس کا سب سے بڑا کمال تھا لیکن اسلام اور مسلمانوں کیلئے اللہ تعالیٰ نے بہت بڑا کام اس سے لے لیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس میں شیاطین اپنا مکروہ جال بنارہے تھے لیکن بہرحال انہم یکیدون کیدا واکیدکیدا
کرونا وائرس کے نقارے نے انسانیت کے دل ودماغ سے انسان دشمنی کا انتقام نکال دیا ہے۔ جہاں سورۂ مدثر میں دورِ نبوتۖ کے انقلاب کاذکر ہے وہاں پاکستان میں بھی بڑے انقلاب کی خوشخبری دے رہاہے۔ سیاست،صحافت، علماء ، مذہبی طبقے، سول وملٹری اور عدالتی بیوروکریسی سے معاملات قابو میں نہیں آرہے ہیں۔ مجرم اپنے انجام کو پہنچ رہے ہیں اور بہت قریب ہے کہ لوگ اس اسلام کی طرف متوجہ ہوں، جو قرآن وسنت کا عین تقاضہ ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں ایک ایسی خلافت کا قیام عمل میں آئے کہ پوری دنیا اسکے سامنے سرنگوں ہو۔
روس، امریکہ اور چین سمیت بھارت واسرائیل بھی اسے قبول کرکے خوش ہونگے۔ جب یہ انقلاب برپا ہوگا تو کسی شخص اور اسکے حواریوں سے شیخ الاسلامی کا تاج اتریگا اور وہ اعتراف کر لیںگے کہ ہماری نمازیں ڈھونگ تھیں، ہم مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے، پھر ان کی کوئی سفارش بھی نہیں کرسکے گا اسلئے کہ ہر ایک اپنی بداعمالیوں کے سبب مشکلات میں گرفتار ہوگا۔ البتہ اصحاب الیمین ہر طبقے سے ہونگے اور وہ ان سے انٹرویو لیتے ہونگے۔

 

کیاسورۂ الدھر میں دنیاوی انقلاب کی خبر؟

اگر حدیث کی خوشخبری ایک عظیم انقلاب کی ہے تو پھر قرآن میں یہ خبر کیوں نہیں!

جب دنیا اس کورونا وائرس کے چیلنج سے نکل جائے گی تو پھر سائنسی تحقیق کے نتیجے میں ایسے گلاس اور کپ بنائے جاسکتے ہیں جن کا مزاج کافوری ہو ؟۔ قرآن میں سورۂ قیامت کے بعد سورۂ الدھر ہے، جس کا واضح مطلب یہی ہے کہ قیامت کا ذکر سورۂ قیامت میں ہے اور دھر کا ذکر سورۂ الدھر میں ہے۔ پاکستان واحد ایسا ملک ہے جس کو پانچ دریاؤں کے نہروں سے ہی آسانی سے سجایا جاسکتا ہے۔ وزیرستان کا بڑا قدیمی شہر کانیگرم صدیوں سے آباد ہے لیکن پہاڑ پر بنے ہوئے اس شہر کے نیچے ندی اور نالے کے شفاف پانی کو آج تک شہر کا گند آلودہ نہیں کر رہاہے۔ پاکستان کے دریاؤں کو بھی آلودہ کیا گیا ہے۔ صنعتوں کو بلوچستان منتقل کیا جائے اور تیز رفتار ٹرینوں کے ذریعے کراچی کولاہور، پشاور،کو ئٹہ اور گوادر سے ملایا جائے۔تو ہمارے سیاستدان اور بیوروکریٹ اپنا سارا جائز اور ناجائز سرمایہ واپس پاکستان لائیںگے۔
حکومت سندھ علاقہ وائز اعداد وشمار کے ذریعے امدادی رقم غریب غرباء اور مزدور طبقہ تک پہنچائے، لوٹ مار سے بچنے کیلئے رینجرز اور پاک فوج کے جوانوں کی مدد لے۔ دنیا بھر سے لوگ اس مشکل گھڑی میں انسانیت کی خدمت کررہے ہیں۔ ایسے بُرا دن کے دیکھنے سے قبل جس کا شر بہت وسیع ہے عام لوگ بھی اپنی مدد آپ کے تحت ضروتمند طبقے کو امدادپہنچاتے ہیں جو کسی قسم کی جزاء اور شکریہ ادا کرنے کی توقع نہیں رکھ رہے ہیں بلکہ خالص اللہ کی خاطر کرتے ہیں۔ سورۂ الدھر میں معاملات بالکل واضح ہیں۔ جب انقلاب آئیگا تو پاکستان سمیت دنیا پر نعمتوں کی ایسی بارش ہوگی کہ سورج کی تپش اور سردی کی ٹھٹر سے سب محفوظ ہونگے۔ نوجوان طبقہ بہت خوشی سے خدمت کا فریضہ انجام دے گا۔ پھلوں کی کوئی کمی نہیں ہوگی۔ خلافت کے قیام کے بعد جس قسم کی نعمتوں کا ذکر ہے وہ سورہ الدھر میں مذکور ہیں۔

کان چھدوانا ناجائز دانت تڑوانا جائز ہے

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

بچی کے کان چھیدنے کو تخلیق میںمداخلت اور
ناجائز قرار دینے والے نے دانت تڑوا ڈالے

جنرل ضیاء نے سود سے زکوٰة کی کٹوتی شروع کی تو مفتی اعظم مفتی محمود نے انکار کیا۔ اگر 10لاکھ پر1 لاکھ سود ہو۔ 25ہزار زکوٰة کٹے، 75ہزار سود ملے ، اصل رقم محفوظ ہو تو زکوٰة ادا ہوگی؟۔ مفتی تقی عثمانی نے سودی زکوٰة کا فتویٰ دیا اور مدرسہ کیلئے جنرل ضیاء سے مالی مفاد لیا۔ مفتی محمود نے جامعہ بنوری ٹاؤن میں مفتی تقی و مفتی رفیع عثمانی کو چائے پر بلایا مگر دونوں نے انکار کرکیا کہ ہم صبح پیتے ہیں۔ مفتی محمود نے کہا کہ خود زیادہ پیتا ہوںمگر کوئی کم پیئے تو پسند کرتا ہوں۔ مفتی تقی نے کہا کہ حضرت ہمارے ساتھ یہ علت (پان) لگی ہے۔مفتی محمود نے کہا کہ ”یہ تو چائے سے بدتر ہے”۔ مفتی تقی عثمانی نے اصرار کرکے مفتی محمود کو پان کھلایا۔ مفتی محمود نے راکٹ سائنس کے دلائل نہیں دینے تھے مگر غش کھاکر گرے، مفتی رفیع عثمانی نے حلق میں دورۂ قلب کی گولی ڈالی، مفتی محمود جان سے گئے۔تبلیغی جماعت نے سودپر فتویٰ مانامگر رائیونڈ جوڑ پر فتویٰ نہ مانا۔ قرآن کی نہ مانیں تو گرگس کی آذان سے کام نہ چلے گا۔ سورۂ مدثر میں واضح معاملات کا پتہ اس وقت چلے گا جب اسلامی انقلاب برپا ہوگا۔

علماء ومفتیان اور مذہبی طبقے کے عجیب حیلے!!

مُلا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت نادان یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد

جب ہندوستان میں انگریز کا قبضہ تھا تو مولانا اشرف علی تھانوی کہتے تھے کہ مسلمان جب نماز اور عبادات کیلئے آزاد ہیں تو انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنے کی جہدوجد بیکار ہے۔ جس پر علامہ اقبال نے یہ شعر پڑھاتھا، یہی رویہ بریلوی واہلحدیث علماء کا بھی رہا تھا مگر مولانا تھانوی کے استاذ شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے تحریکِ ریشمی رومال میں بغاوت کردی تھی۔
ایک بڑی عمر کے کم عقل شخص نے جوانوں سے کہا تھا کہ ”میں روزہ توڑنا چاہتا ہوں مگر اس کا کفارہ ادا نہیں کرسکتا۔ تم لوگ مجھے زبردستی پکڑکر کچھ کھلادینا، اس طرح میرا روزہ بھی ٹوٹ جائیگا اور کفارہ ادا نہیں کرنا پڑیگا”۔ حالانکہ ہمارے یہاں کہاوت مشہور ہے کہ” اگر نہیں چلوگے تو اٹھاکر لیجاؤں گا لیکن اگر نہیں کھاؤگے تو پھر میں کیا کرسکتا ہوں”۔ بہرحال اس صاحب کے روزے کو شرارتی لڑکوں نے توڑ کر ایک مذاق کا تماشا بنالیاتھا۔ پہلے علماء ومفتیان نے فتویٰ دیا کہ ”مساجد میں باجماعت نماز پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی ہے”۔ پھر حکومت سے کہا کہ ” ہم تو نمازیوں کو نہیں روک سکتے، البتہ حکومت خود روک لے تو ہم مزاحمت نہیں بلکہ تعاون کرینگے”۔
اللہ واسطے اسلام کا ٹھیکہ چھوڑ دو۔ شوگر مافیا کی طرف سے اربوں کمانے کی جمہوریت میں اور تمہاری طرف سے اسلام کے نام پرتجارت کرنے میں کوئی فرق نہیں۔ تمہارا کام اسلام کی شیخی کرنا نہیں ہے بلکہ انبیاء کرام کے ذمے بھی صرف تبلیغ تھی۔ تم قرآن وسنت نہیں اپنی اجارہ داری کی تبلیغ کرتے ہو۔ مرضی ہو تو فتویٰ دیتے ہو کہ نماز باجماعت ترک نہیں کرسکتے اور مرضی ہو تو فتویٰ دیتے ہو کہ گھروں میں نماز پڑھو۔ یہ دھندہ چھوڑ دو، دنیا میں پیٹ پالنے کیلئے راستے اور بھی ہیں۔ پیٹ پالنے کیلئے دین کو ذریعہ معاش بنانے سے بہتر دنیاوی طریقے ہیں۔ دین کا کام گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والوں کے بس کی بات بالکل بھی نہیں ۔

مفتی تقی عثمانی اور تبلیغی جماعت کے معاملات

اسلام کو توبدل ڈالا۔ وائرس کیخلاف پروپیگنڈہ نہ کرکے عوام کو گمراہ نہیں کریں!

وائرس زائرین اور بیرونِ ملک آمد سے آیا۔ مفتی تقی عثمانی کا فتویٰ تھا کہ باجماعت نماز ، خطبۂ جمعہ کو مختصر کیا جائے مگر ترک نہیں کیا جاسکتا۔ قدیم فقہاء اور جامعہ ازہر ودیگر فتاویٰ ہیں، البتہ اجتماع پر پابندی میں حکومت کا حکم ماننا فرض ہے۔ تبلیغی جماعت رائیونڈ اجتماع سے منع نہ ہوئی۔ بارش نے بھگایا تو پھر بھی جماعتیں شکیل دیں۔ مفتی تقی عثمانی نے تبلیغی کا کورونا سے بچنے کا خواب بھی بتایا کہ رسول اللہۖ نے یہ وظیفہ بتایا تھا جو میڈیا پرخوب نشر کیا گیا تھا۔
نعمان مسجد لسبیلہ کراچی میں تبلیغی جماعت کابعدازمغرب گشت، عشاء کے بعد بیان تھا تو مفتی تقی عثمانی کو عصر کی نماز کے بعد درسِ قرآن سے روکا کہ تم اللہ کی راہ میںرکاوٹ بنے ہو۔ مفتی محمود، جمعیت علماء اسلام و دیگر مدارس کے برعکس مفتی تقی عثمانی نے سودی زکوٰة پر فتویٰ دیا، الائنس موٹرز سے تبلیغی جماعت کا اختلاف تھا تو مفتی تقی عثمانی و مفتی رشید لدھیانوی نے تبلیغی جماعت کیخلاف فتویٰ دیا۔ جب الائنس موٹرز اور حاجی عثمان میں اختلاف ہوا تو مفتی تقی عثمانی نے الائنس موٹرز کا ساتھ دیا۔ پھر مفتی تقی عثمانی نے سود کو اسلامی قرار دیا تو وفاق المدارس کے صدر مفتی تقی عثمانی کے استاذ مولانا سلیم اللہ خان نے مفتی زرولی خان اور دیگر علماء ومفتیان سے مل کر مفتی تقی عثمانی کو تنبیہ کی مگر مفتی تقی عثمانی نے کسی کی نہیں مانی۔ تبلیغی جماعت والے پہلے دو یا تین افراد میں بھی ایک کو امیر مقرر کرتے لیکن پھر امارت کے ہوس نے اکابر کو امیر مقرر کرنے کے شرعی حکم سے دستبردار کروادیا۔ پہلے عالمی امیر سے محروم تھے پھر پاکستانی امیر بھی نہیں رہا۔ اسلئے جب تک کرونا وائرس پھیلانے کے جرم میں گرفتار نہیں ہوئے، کسی کی بھی بات نہ مانی۔
انسان گناہ کی پیٹھ پر سوار ہو تو توبہ کوئی معنیٰ نہیں رکھتا ۔ قرآن کی طرف رجوع نہ کیا جائے تو اس سے بڑی اور کافری کیا ہے؟۔سودی نظام کے جواز سے توبہ کریں۔

مفتی تقی عثمانی کے بدلتے فتوؤں کی حالت!!

پہلے نبیۖ پر سودکھانے کی توقع کا حکم لگایا، نیوتہ کو سودکہا پھربینکنگ پراترآیا!

اللہ نے قرآن میں نبیۖ سے فرمایا: فلا تمنن تستکثر”احسان سے توقع نہ رکھو کہ قوم بھلائی کی تبلیغ کے بدلے زیادہ خیر کا مظاہرہ کریگی”۔ (سورہ ٔالمدثر) فطری بات ہے کہ جزاء الاحسان الا الاحسان” احسان کا بدلہ احسان ہے”۔جب جہالت کا معاشرہ ہوتا ہے تو بھلائی کی تبلیغ لوگوں کو بری لگتی ہے۔ نبیۖ کاتبلیغ کے بدلے خیرکثیر کی توقع فطرت تھی لیکن جاہلوں کی طرف سے غیر فطری ردِ عمل کا اندیشہ بھی تھا جس کو اللہ نے واضح کردیا تھا۔
مفتی تقی عثمانی نے بعض نادان مفسرین کی آراء سے یہ تفسیر کرڈالی کہ یہ سود تھا، نبیۖنے مال دینے کے بدلے نعوذباللہ زیادہ مال حاصل کرنے کی توقع رکھی تو اللہ نے روک دیا۔ مفتی تقی عثمانی نے کراچی میں شادی بیاہ کے موقع پر لفافوں کے لین دین کو بھی سود اور اسکے کم ازکم گناہ کو اپنی ماں کیساتھ زنا کرنے کے برابر قرار دیا۔ مفتی تقی عثمانی کے بہنوئی مفتی عبدالرؤف سکھروی کے وعظ چھپ کر بازار میں بک رہے ہیں۔نیوتہ کی رسم میں لفافے کے لین دین پر سود کا فتویٰ اور اپنی ماں سے زنا کے برابر گناہ قرار دینے والوں نے بینکنگ کے سودی نظام کو معاوضہ لیکر جائز قرار دیا۔ وفاق المدارس کے صدر اور اپنے استاذ مولانا سلیم اللہ خان سمیت کسی بھی دینی مدرسے کے فتوے اور مزاحمت کو خاطر میں نہیں لایا۔ حاجی عثمان پر فتوے لگائے گئے تو مفتی تقی عثمانی نے اپنے سے بڑے علماء ومفتیان اور اساتذہ کیلئے بھی خود کو سرپنچ بنالیا۔
پھراللہ نے عروج دیا: سنستدرجھم من حیث لایعلمون” ہم انکو ایسی ترقی دینگے کہ وہ سمجھیںگے بھی نہیں”۔ سارھقہ صعودا ”عنقریب میں اس کو چڑھا ؤں گا”۔ اس سے مفتی تقی عثمانی اسلام کی نشاة ثانیہ کے وقت مراد ہوسکتاہے۔ روزنامہ مشرق پشاور میں کسی نے کروناوائرس اور چین مراد لیاہے مگر شیخ الاسلام کوبھی اپنی ذات پر غور کرنا چاہیے۔

مفتی تقی عثمانی کے عروج وزوال کی داستان

ہم نے آسمان کو ستاروں سے مزین کیا:اور جب ستارے ٹوٹ جائیں گے

مولانا سید سلمان ندویاور مولانا ابوالکلام آزاد نے تصویر کے جواز کا فتویٰ دیا تومفتی شفیع کی جب کوئی حیثیت نہیں تھی تو دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ نے مضمون چھپوانے کی لالچ دی تو حق بات کو دبانے کی خدمت انجام دی۔ جوہری دھماکہ میں تفصیل سے حقائق موجود ہیں۔
مفتی تقی عثمانی ومفتی رفیع عثمانی کیلئے باپ مفتی شفیع نے دارالعلوم میں ذاتی مکان خریدے تو مفتی رشید احمد لدھیانوی نے اسلئے ناجائز قرار دیا کہ وقف مال خریدنے اور فروخت کرنے کی گنجائش نہیں۔ نیز ایک آدمی بیچنے اور خریدنے والا نہیں ہوسکتا۔ اس پر مفتی رشید لدھیانوی کی پٹائی لگادی، سودی زکوٰة کی کٹوتی پر مفاد حاصل کیا۔ حاجی عثمان کیخلاف الاستفتاء مرتب کرکے علماء ومفتیان کی غلط وکالت کی، دارالعلوم کراچی کی مسجد میں ہمارا چیلنج قبول نہیںکیا اور پھر سود ی بینکنگ کو اسلامی قرار دیا۔ مولانا یوسف لدھیانوی اور مولانا سلیم اللہ خاننے حاجی عثمان کی قبر اور مسجدالٰہیہ آکر درونِ خانہ معافی تلافی کرلی، مفتی تقی ورفیع عثمانی معافی مانگیں۔
ملا کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور :کرگس کا جہاں اور شاہین کا جہاں اور

مفتی تقی عثمانی اور حاجی عثمان پر فتوے کامنظر!

منہاج الشریعت، سراج الطریقت ،عروج ملت حضرت حاجی محمد عثمان قدس سرہ

پندرھویں صدی کے مجددحضرت حاجی محمد عثمان ایک طرف تبلیغی جماعت کے بزرگ، علماء کے دلدادہ، اولیاء کے سرخیل تھے تو دوسری طرف خلافت علی منہاج النبوةکی تمنا رکھتے تھے۔ علماء ومفتیان آپ سے بیعت تھے۔ بڑے پیمانے پر فوجی وپولیس افسر اور مدینہ منورہ کے پولیس افسر تک بھی آپ کے حلقہ ارادت میں شامل تھے۔ اہلحدیث حضرات بھی آپ کے مرید تھے۔ جب آپ کے سرمایہ دار مریدوں نے علم بغاوت بلند کیا تو الاستفتاء کے نام سے دارالعلوم کراچی میں وہ الزام لگائے گئے جو عقل کے بھی بالکل منافی تھے۔پھر جب دوسرے علماء ومفتیان نے ہمارے جال میںپھنس کر اکابرین کے خلاف فتویٰ دیا تو دارالعلوم کراچی والے بچ گئے۔ وہ نہ تو فتویٰ کی حمایت اورنہ مخالفت کیلئے تیار تھے۔ ہفت روزہ تکبیر کراچی میں بھی وہ فتویٰ شائع ہوا،جس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ سید عتیق الرحمن گیلانی نے یہ استفتاء لکھا ہے جو حاجی عثمان کے مرید خاص ہیں، اس قسم کے عقائد پر پابندی لگائی جائے۔ حالانکہ سب عقائد شیخ عبدالقادر جیلانی، شاہ ولی اللہ ، علامہ یوسف بنوری اور شیخ الحدیث مولانا زکریا کے تھے۔ پھر جب روزنامہ تکبیر کراچی کو اصل صورتحال سے ایک سال بعد آگاہ کیا گیا تو اس میں علماء ومفتیان کو دروغ گوئی سے کام لینے کے بجائے اپنی غلطی تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ ان حالات میں مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن کا کردار مجذوبانہ تھا، مفتی رشیدلدھیانوی کا کردار متشددانہ تھا اور مفتی تقی عثمانی ومفتی رفیع عثمانی کا منافقانہ تھا۔ نکاح کے معاملے پر بھی دوغلہ پن کا فتویٰ دیا تھا، جس کی تفصیلات دیکھ کر دانتوں کے بعد انکی ناک بھی کٹے گی،انشاء اللہ۔ ہمارا کوئی ذاتی عناد نہیں مگر طلاق کے مسئلے پر میرے استاذ مفتی محمد نعیم کے جرأتمند انہ بیان پر بھی مفتی تقی عثمانی اور اسکے حواریوں نے تنقید کا نشانہ بنایاتھا۔ اب جنگ ہوگی۔

علماء و مفتیان اپنی ہٹ دھرمی چھوڑیں

علماء ومفتیان اور مذہبی طبقات کی انتہائی بدترین اور بہت ہی قابلِ رحم حالت

مفتی تقی عثمانی اور مفتی منیب الرحمن نے علماء ومفتیان کا بڑا نمائندہ اجلاس طلب کیا اور ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کرنے کیلئے کراچی پریس کلب میں میڈیا کے صحافیوں کے سامنے اپنے انتہائی بھونڈے پن کا مظاہرہ کیا۔ تحریری اعلامیہ مفتی تقی عثمانی نے پڑھ کر سنایا تو اس میں ایک مطالبہ رکھا گیا تھا کہ مساجد سے لاک ڈاؤن کی پابندی ختم کی جائے۔ مفتی منیب الرحمن نے کہا کہ آج سے لاک ڈاؤن ختم ہے۔ صحافی نے کھلے تضاد پر سوال اٹھادیا۔ مفتی تقی عثمانی نے مائک ہاتھ سے مفتی منیب الرحمن کی طرف کردیاتومفتی منیب الرحمن نے اپنی بات دہرادی کہ لاک ڈاؤن آج سے ختم ہے۔ پھر مفتی تقی عثمانی نے سوال کے جواب میں تحریری مطالبہ دہرایا لیکن جب صحافیوں نے ابہام ختم کرنے پر زور دیا تو علماء نے مزید گفتگو سے بھاگ کر جان کی امان پائی۔ پھر شاہ زیب خانزادہ نے کھینچ تان کر بہت اگلوانے کی کوشش کی کہ مفتی منیب کے بیان کی کیا حیثیت ہے؟ مگرمفتی تقی عثمانی نے آخری حد تک ٹال مٹول سے کام لیکر کہا کہ ہمارا حکومت سے معاہدہ ٹوٹ چکا تھا۔ البتہ آئندہ کیلئے ہم بات چیت کیلئے تیار ہیں۔

مفتی منیب الرحمن نے اپنے رویہ کو چھوڑ کر بہت ہی قابلِ تحسین اقدام اٹھایا ہے

جب مشترکہ اعلامیہ کے بعد مفتی تقی عثمانی اور مفتی منیب الرحمن ایکدوسرے سے کھلم کھلا تضاد رکھنے کے باوجودصحافیوں کو اطمینان بخش جواب دینے سے کنی کترا رہے تھے تو پھر کسی اور مؤقف پر ان سے واضح مؤقف رکھنے اور عوام کو رہنمائی فراہم کرنے کی کیا توقع رکھی جاسکتی ہے؟۔ افسوس کہ مذہبی طبقات پھر بھی سوشل میڈیا پر انکے دفاع کی خدمت کررہے ہیں۔
قرونِ اولیٰ اور قرون اُخریٰ کے ادوار کا تفصیل سے قرآنی آیات میں ذکر ہے لیکن فرقہ واریت کے رنگ بدلتے ہوئے گرگٹوں نے کبھی اس پر توجہ نہ دی اور آج بھی ان سے توقع نہیں کہ حقائق کو ایمان کے تقاضوں کے مطابق مان لیںگے۔قرآن میں صحابہ کرام کو واضح طورپر رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ کا تمغۂ امتیاز دیا گیا ہے مگر شیعہ سنی کا صحابہ پر اختلاف ہے۔ نبیۖ نے فرمایا: علیکم بسنتی وسنة الخلفاء راشدین المھدیین ” تم پر میری سنت کی اتباع لازم ہے اور خلفاء راشدین مہدیوں کی سنت کی اتباع لازم ہے”۔
جب حضرت ابوبکر ، حضرت عمر ، حضرت عثمان اور حضرت علی کے راشد ومہدی ہونے پرہی شیعہ سنی کا اتفاق نہیں تو آئندہ کے مہدیوں پر کیسے اتفاق ہوسکتا ہے؟۔بس اس بات پر اتفاق ہے کہ دنیا میں امام مہدی تشریف لائیںگے اور ایک عظیم انقلاب برپا ہوگا۔ کیا اس انقلاب کا ذکر بہت واضح انداز میں قرآن کریم میں نہیں ہوسکتا ہے؟۔ ہے اور بالکل واضح طور پر ہے!۔ نبیۖ نے امیر معاویہ کیلئے بھی دعا مانگی تھی کہ ” اے اللہ اس کو ہادی اور مہدی بنادے”۔ مگر اہل تشیع کا مؤقف یہی ہوسکتا ہے کہ یہ دعا قبول نہیں ہوئی تھی۔ جبکہ اہلسنت کے نزد ابوطالب کیلئے نبیۖ نے ہدایت کی دعا مانگی مگر اللہ نے فرمایاانک لاتھدی من احببت ۔ہمیں پہلوں کے بارے میں بحث چھوڑ کر اپنا مستقبل گمراہی سے بچانے کی فکر کرنا ہوگی۔

ڈاکٹر طاہرالقادری اور مفتی رفیع عثمانی بھی حدیث پراب غلطی کا ازالہ کریں

ہمارا ایمان ہے کہ جس طرح قرآن کریم قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی بڑی تعداد کیلئے بھی رشد وہدایت اور مقربین بارگاہ الٰہی کا ذریعہ بن گیا تھا،اس طرح قرون اُخریٰ میں کم تعداد ہی کیلئے سہی مگر مقربین بنانے کا ذریعہ بن جائیگا اور بڑی تعداد میں لوگوں کے رشدو ہدایت کا ذریعہ آخری دور میں بھی بنے گا۔ جسکا سلسلہ اس درمیانہ دور یانصف آخر سے لیکر بالکل آخری دور تک چلتا رہے گا۔ نبی ۖ نے بارہ خلفاء کا ذکر فرمایا جن پر امت نے متفق ہونا ہے۔ علامہ جلال الدین سیوطی نے اپنی کتاب ” الحاوی للفتاویٰ” میں اس حدیث کی یہ تشریح لکھ دی کہ ” ابھی تک یہ بارہ خلفاء آئے نہیں ہیں جن پر امت کا اتفاق ہوا ہو”۔ ڈاکٹر طاہر القادری و مفتی رفیع عثمانی نے علامہ جلال الدین سیوطی کی اس کتاب کے حوالہ جات نقل کرکے بہت بڑی خیانت کا مظاہرہ کیا ہے۔ علامہ سیوطی نے لکھا ہے کہ نبیۖ نے فرمایا کہ مہدی کے بعد پھر قحطانی امیر ہوگا۔ ایک روایت میں ہے کہ مہدی چالیس تک رہیں گے۔ پھر قحطانی امیر منصور ہوگا، جسکے دونوں کان میں چھید ہوگا۔ وہ مہدی کی سیرت پر ہوگا۔ پھر نبیۖ کے اہل بیت میں سے آخری امیر ہوگا جو نیک سیرت ہوگا”۔ڈاکٹر طاہرالقادری اورمفتی رفیع عثمانی نے ان روایات کے اندراصلی روایت مہدی اور قحطانی کو چھوڑ کر پھر تشریحی روایت سے صرف آخری امیر کا ذکر لے لیا۔ ہم نے اپنی کتابوں میں مسلسل احتجاج کیا کہ اس خیانت سے اعلانیہ توبہ کی جائے مگر یہ لوگ ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ علامہ یوسف بنوری کے شاگرد نے اپنی کتاب میں مہدی کے حوالہ سے بہت تفصیل سے روایات کا ذکر کیاہے جہاں مہدی اور قحطانی امیر منصور کے درمیان بھی کافی واقعات ،انقلابات اور امیر مقرر کرنے کا ذکر ہے مگر پھر ملاعمر سے مہدی و منصوربھی مراد لیا ہے۔ علماء ومفتیان اور دانشور مل بیٹھ کر اچھے نتیجے پر پہنچ جائیں۔

ریاست مدینہ کرونا حقائق کے تناظرمیں

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ ” جہاں وبائی مرض ہو تو وہاں سے کوئی دوسری جگہ نہ جائے اور نہ کوئی وہاں جائے”۔ چین کو پتہ چلا کہ ”ووہان میں وبائی مرض کرونا پھیل گیا ہے تو وہاں سے نکلنے اور وہاں جانے پر پابندی لگادی”۔ ساڑھے چودہ سو سال پہلے ریاستِ مدینہ نے جس کی نشاندہی کی تھی چین نے موجودہ دور میں اس پر عمل کرکے نجأت حاصل کرلی۔ ایران نے اپنی زیارات کو شفاء کا ذریعہ سمجھا اور حدیث کو نظر انداز کردیا تو تباہی مول لے لی ۔ ٹرمپ کو مذاق سوجھا تو اس کی شلوار بقول عمران خان نیازی کے گیلی ہوگئی ہے۔ اٹلی،اسپین، فرانس اور جن ممالک نے اس کو سنجیدہ نہیں لیا تو اس کی بہت بڑی سزا بھی بھگت رہے ہیں۔
قرآن نے سود کو اللہ اور اسکے رسولۖ سے اعلانِ جنگ قرار دیا ۔ کافرممالک میںشرح سود بالکل زیرو ہورہی ہے اور مسلم ممالک میں شرح سود خاص طور پر پاکستان میں سب سے زیادہ ہے۔ یہ عمران خان مسلمان ہے جسے دیکھ کر شرمائے ریاستِ مدینہ کا یہود؟۔پاکستان میں جس طرح سیاست میں سرمایہ کاری کرکے بہت زیادہ شرحِ سود اٹھایا جاتا ہے اس کی مثال ہماری پیشہ وارانہ جمہوریت ہے۔ پہلے ہندو بنیے کا سود مشہور تھا۔ اسی طرح مشرکینِ مکہ بھی سودخوری میں مبتلا تھے۔ریاستِ مدینہ میں یہود کا سود اپنی انتہاء کو پہنچا ہوا تھا۔ آج ریاستِ مدینہ میں صادق وامین رسول اللہ ۖ کی نہیں بلکہ ریاستِ مدینہ کے یہودکی یاد تازہ کی جارہی ہے۔
اسلامی انقلاب عقائد نہیں نظام کیخلاف تھا۔ مدینہ میں رسول اللہۖ پر سود کی حرمت والی آیت نازل ہوئی تو آپۖ نے زمین کو مزارعت اور کرایہ پر دینا سود قرار دیا۔ مکہ فتح ہوا تو پہلے اپنے چچا عباس کا سود، جاہلیت کے خون میں پہلے چچا کا خون معاف کردیا۔پاکستان میں اسلامی انقلاب جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کیخلاف آئیگا اور محنت کشوں کی چاندنی ہوگی۔

کورونا خودکش حملے کی طرح دہشتگردی ہے ؟

جب نبیۖ نے فرمایا کہ متعدی مرض وبا سے ایسے بھاگو جیسے جنگلی شیر سے بھاگتے ہو تو پھر کورونا وائرس میں غفلت کا مظاہرہ کرنا خود کش حملوں کی طرح دہشت گردی ہے۔ امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو امت مسلمہ کے جذبات طالبان کے حق میں اور امریکہ کے خلاف تھے۔جنرل پرویزمشرف نے مجبوری میں امریکہ کا ساتھ دیا تو پاک فوج کی اکثریت کا جذبہ عوام کی طرح امریکہ کے خلاف اور طالبان کی حمایت میں تھا۔ ریاست کا حکم امریکہ کیساتھ تھا اور ریاست کا جذبہ طالبان کیساتھ تھا۔ جس کی وجہ سے جی ایچ کیو پر قبضہ سمیت پورے ملک کو بہت نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔ 70ہزار سے زیادہ پاکستانی لوگ جان سے گئے۔
آج پاک فوج کورونا وائرس کے خلاف دل وجان سے عوام کیساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ کورونا وائرس دہشتگردی سے زیادہ مہلک و خطرناک ہے۔ امریکہ نے افغانستان، عراق اور لیبیا کا بیڑہ غرق کیا تو دنیا کو دہشت گردی نے اپنی لپیٹ میں لیا۔ دہشت گردی ظلم وجبر کانتیجہ تھی اور کورونا وائرس کے خلاف دہشتگردی نہیں ہمدردی کا جذبہ پایا جاتا ہے۔ عالمِ انسانیت کو اس زریںموقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شَر کی قوتوں کو شرمندہ کرنا چاہیے۔اگر پاکستان میں کوئی اچھا حکمران ہوتا تو سب سے پہلے تمام گھروں کو راشن اور علاج کی سہولت فراہم کرکے اپنی حدود میں رہنے کی تلقین کرتالیکن لگتاہے کہ پاکستان میں وائرس پھیلانے کی دانستہ کوشش ہورہی ہے اور خاندانی منصوبہ بندی کی جگہ کرونا وائرس سے آبادی کم کرنے کا منصوبہ زیرِ غور ہے۔ چین سے طلبہ واپس لائے جاتے مگر چین نے خود واپس نہیں کئے۔ ایران میں زائرین کو رکھا جاسکتا تھا مگر زائرین کو واپس لایا گیا۔جب تک وائرس پھیل نہ جائے عمران خان اطمینان کا سانس نہ لے گا اسلئے قرضہ معاف کرانے اور چندہ بٹورنے کا یہ واحد ذریعہ ہے۔

 

علماء کے انوکھے اور نوکیلے فتوؤں کی یہ بھرمار؟
علامہ اشرف جلالی بریلوی بمقابلہ پیر ذوالفقاردیوبندی

جب کوروناوائرس کیوجہ سے تبلیغی جماعت مشکل میں آئی تو بریلوی مکتب کے مولانا اشرف جلالی کی ویڈیو سامنے آئی کہ علامہ ابن سرین نے بدعقیدہ افراد کی طرف سے روایت و آیت کو بھی سننے سے انکار کردیا تھا، ہم اہلسنت ٹھیک کرتے ہیں کہ تبلیغی جماعت اور دیوبندیوں سے قرآن وسنت کی تبلیغ نہیں سنتے۔ دیوبند مکتب کے پیرذوالفقار نے ایک حدیث تبلیغی جماعت پر چسپاں کردی کہ نبیۖ نے فرمایا کہ ایسے لوگ ہونگے جو انبیاء اور شہداء نہیں ہونگے مگر ان پر انبیاء اور شہداء بھی رشک کرینگے۔ یہ وہ ہونگے جو عوام کے دلوں میں اللہ کی محبت ڈالیںگے اور اللہ میں لوگوں کی محبت ڈالیںگے، ان کو معاصی ترک کرنے کی دعوت دیکر۔ یہ تبلیغ والے ہیں اور وہ سب علماء ومشائخ بھی اس میں داخل ہیں جو یہ کام کررہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن وسنت کے ذریعے مسلمانوں کو ہٹ دھرمی کی تعلیم نہیں دی ۔ بدر کے قیدیوں پر مشاورت کے بعد فیصلہ ہوا تو اللہ نے قرآن میں تنبیہ فرمائی، احد کے بعد جذباتیت کے مظاہرے پر اللہ نے برعکس فیصلہ دیا۔ سورۂ مجادلہ میں عام فتوے کے برعکس وحی نازل ہوئی ۔ صلح حدیبیہ میں نبیۖ نے زبردست حوصلے کا مظاہرہ کیا۔ اگر تبلیغی جماعت کی شوریٰ فیصلہ کرتی اور اپنے ترجمان کے ذریعے عوام کو مطلع کرتی کہ” ہم سے غلطی ہوئی ہے، دین اور دنیا سے ہم جاہل ہیں۔ حکومت کی بات مان کر ہمیں اجتماع نہیں کرنا چاہیے تھا اور پھر اجتماع کے بعد جماعتوں کی تشکیل ہماری غلطی اور ہٹ دھرمی تھی جس کا ہم نے خمیازہ بھگت لیا ”۔ تو سب لوگ تبلیغی جماعت کی تعریف کرتے لیکن مولانا نعیم بٹ نے ہٹ دھرمی سے ترجمانی کرتے ہوئے اپنی اصلیت واضح کردی۔ بریلوی، دیوبندی ،شیعہ،اہلحدیث اور جماعت اسلامی روایتی ہٹ دھرمی چھوڑ کر قرآن وسنت کے واضح احکام پر عمل کریں۔

 

پاکستان کی ریاست شوگر مافیا کی لونڈی ہے؟
کیا ہم اپنی حالت بدلنے کی صلاحیت نہیں رکھتے؟

پاکستان نازک موڑ پر کھڑا ہے، کچھ لوگوں کو ن لیگ نے خرید لیا ہے جو یہ چاہتے ہیں کہ اس حکومت کو چلتا کرکے ن لیگ، ق لیگ اور تحریک انصاف کے لوٹے مل کر ایک بار پھر مشترکہ حکومت قائم کریں۔ چاہے نئے انتخابات کے ذریعے ہو یا اسی سیٹ اپ میں تبدیلی کا تقاضہ پورا کیا جائے۔ جب جہانگیر ترین اور عمران خان کو نکال باہر کیا جائیگا تو تختِ لاہور ، پنجابی اور اسٹیبلشمنٹ کی تثلیث کو وہ لوگ صلیب کی طرح پوجنا شروع کردینگے جو فوج کی سخت مخالفت کرکے نوازشریف کیلئے کام کررہے ہیں مگر دوسری طرف پاکستان توڑنے کیلئے یہ سازش کافی ہوگی اسلئے کہ عمران خان نیازی اور جہانگیر ترین کوسائیڈ لگانے پر لسانی طاقتوں کو تقویت ملے گی۔ جب الیکشن کی سیاست کرنے والوں کی اکثریت مفادپرست ہے اور فوج کے کندھے پر چڑھ کر سب حکومت میں آتے ہیں تو ایک ایمرجنسی حکومت کے ذریعے سے مخلص عوام کو ہی اعتماد میں لیا جائے۔ قرآن وسنت کی طرف توجہ کی جائے، مساجد سے نیک لوگوں کو اسلام کی درست تعلیم سمجھائی جائے ، علماء ومفتیان کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جائے۔ سماجی کارکنوں کی زبردست سرپرستی کی جائے اور ملک کی تقدیر بدلی جائے۔
کسی کا کوئی ذاتی ایجنڈہ کامیاب نہیں ہوسکتا ہے۔ سول وملٹری اور عدالتی بیوروکریسی کے علاوہ صحافت اور سیاست کے میدان سے اچھے لوگوں کو پاکستان میں نظام کی تبدیلی پر لگانے سے ہی انقلاب برپا ہوسکتا ہے۔ کورونا وائرس ہمیں ایک قوم اور جماعت بن کر رہنے کیلئے ہی رحمت بن کر آیا ہے۔ وحی کا سلسلہ بند ہوچکا ہے، سب میں خوبیاں اور کمزوریاں ہیں اورسب کو ایک پلیٹ فارم سے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ عمران خان اپنی پارٹی کو خوش رکھنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتا ہے تو نالائق قوم کو کس طرح متحد کرسکتا ہے؟۔

علماء ومفتیان کابدترین تجاہل عارفانہ

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

مفتی منیب الرحمن کا جہالت پر مبنی بیان اور مفتی تقی عثمانی کی بڑی ہٹ دھرمی!

مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن چیئرمین ہلال کمیٹی نے صحافی عامر ضیاء کو”ہم نیوز” پرانٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ عین جنگ کی حالت میں بھی نمازباجماعت پڑھنے کا حکم ہے۔ اگر پاک فوج مفتی صاحب کو اپنے پاس رکھے اور کسی کاروائی میں میدانِ جنگ کے اندر آزمالے اور جب دونوں طرف لاشیں گررہی ہوں اور مفتی صاحب انفرادی نماز پڑھ کر دکھائے۔ عوام بہت غلط سمجھ رہی ہے کہ صحابہ کرام نے عین لڑائی کے وقت بھی باجماعت نماز میں رکوع وسجدہ نہیں چھوڑا۔ پاک فوج کے جوان سمجھتے ہونگے کہ ان کا ایمان مضبوط تھا، ہم ایسا نہیں کرسکتے ہیںلیکن عین لڑائی میں نماز باجماعت کی بات انتہائی لغو اور غلط ہے۔ جنگ خندق میں لڑائی تو شروع بھی نہیں ہوئی تھی کہ خندقیں کھودنے میں بھی کئی نمازیں قضاء ہوگئیں۔ شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی نے خاتون پولیس کو معطل کرنے کا مطالبہ کیا اور لوگوں کے مجمع کو نہیں دیکھا۔ جب مفتی تقی عثمانی نے حکومت کے حکم پر عمل کا کہا اور گھر میں نماز ظہرباجماعت پڑھنے کا فتویٰ دیا توپھر مساجد کے ائمہ کو اپنی جھوٹی حمایت کے نام پر حکومت سے لڑانا بہت غلط ہے۔

 

مولانا فضل الرحمن نے اپنا مؤقف بہتر پیش کیااور اس پیغام کو سمجھنا ضروری ہے!

مولانا فضل الرحمن نے بہت اچھا کیا کہ ہوشیاری سے مؤقف واضح کیا۔ مذہب کیخلاف حکومت کی سازش کامرثیہ پڑھنے کے بجائے کورونا وائرس کو انسانی مسئلہ قرار دیا۔ یہ نہیں فرمایا کہ خاتون پولیس اہلکارنے کچھ غلط کیا بلکہ حکومت کے فیصلے پر نہ صرف بھرپورتعاون کو واضح کیا بلکہ یہاں تک کہا کہ جس طرح مساجد کے ائمہ تعاون کررہے ہیں، اسی طرح سے بازاروں و دیگر مقامات پر بھی لوگوں کو ہماری اقتداء کرنی چاہیے۔ جب ہم فرض باجماعت نمازوں میں عوام کو بھیڑ بنانے سے منع کررہے ہیں تو عوام کو بھی تمام معاملات میں عمل درآمد کرنا چاہیے۔
مولانا فضل الرحمن کو پتہ ہے کہ مساجد میں ان کی ایسی اوقات نہیں کہ وہ فتویٰ جاری کردیں اور مساجد کے ائمہ اور نمازی اس پر عمل کرنا شروع کردیں اسلئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ جب دیگر مقامات سے آپ عوام کی بھیڑ نہیں روک سکتے تو مساجد کے ائمہ پر بھی مقدمات قائم کرنا درست نہیں ہے۔ ہم نہیں کہتے کہ دوسری جگہوں پر بھیڑ ہے تو مساجد میں بھی اجازت ہو بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ جب ہم حکومت کی بات مان رہے ہیں تو عوام کو مان لینی چاہیے۔ البتہ جب ہم تعاون کررہے ہیں تو مساجد کے ائمہ پر مقدمات درج کرنے سے زیادتی کا تأثرہی ابھرے گا۔ خصوصاً سندھ میں ایسا بہت ہوا ۔ ہم اس کو فرقہ وارانہ رنگ نہیں دیتے بلکہ اس میں تمام مذاہب کیساتھ انسانی بنیادوں پر تعاون کررہے ہیں۔ہم اہل تشیع کے امام بارگاہوں اور عیسائی کے گرجوں،ہندوؤں کے مندروں میں اسپرے کرنے گئے۔ البتہ ہماری مساجد دیگر مذاہب کی عبادتگاہوں کی طرح نہیں بلکہ اس میں پنج وقتہ نمازیں ہوتی ہیں۔
مولانا فضل الرحمن مساجد کے ائمہ کا مزاج سمجھتے ہیں اسلئے مفتی تقی عثمانی کے فتوے کا حوالہ نہیں دیامگر حکومت جب تک زبردستی سے کام نہیں لے تو وہ کنٹرول نہیں کرسکتی ہے

 

مولانا فضل الرحمن کو اپنا مؤقف مزید بہتر انداز میں پیش کرنے کی ضرورت ہے

جس طرح حکومت دکان پر پابندی لگانے کے بعد بھیڑ لگانے پر دکاندار کو پکڑنے میں ہی آسانی محسوس کرتی ہے،اسی طرح مساجد میں بھیڑ لگنے پر ائمہ کیخلاف مقدمات بنانے سے ہی معاملات کنٹرول کرسکتی ہے۔ مساجد بھی عبادتگاہوں کے علاوہ دکانیں بھی بن چکی ہیں۔
مولانا فضل الرحمن علماء ومفتیان کے ایک نمائندہ اجلاس میں مجھے بھی شرکت کا موقع دیں تو قرآن وسنت کے بہت سے مسائل میڈیا پر آجائیںگے اور اللہ تعالیٰ عذاب ٹال دے گا۔ مفتی منیب الرحمن نے انتہائی جہالت کا مظاہرہ کیا جس پر دیگر علماء ومفتیان کو گرفت کرنی تھی مگر وہ خود بھی تو اسی طرح سے بے حال ہیں۔جاہلوں کا ایک ہجوم ہے جس نے علماء ومفتیان کا لباس اوڑھ رکھا ہے۔ مساجد کے ائمہ اور مدارس کے مفتیان کا حال حضرت مولانا یوسف لدھیانوی شہید کی کتاب ” عصر حاضر حدیث نبویۖ کے آئینہ میں” میں دیکھ سکتے ہیں جبکہ دوسرے طبقات علماء وحکام اور عوام کے بارے میں بھی انتہائی زبوں حالی بیان کی گئی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سورۂ النساء کی آیت102میں حالتِ جنگ میں نماز باجماعت کے اہتمام کا اس طرح سے حکم بالکل بھی نہیں دیا جو مفتی منیب الرحمن نے اپنی جہالت کا مظاہرہ کیاہے بلکہ سفر میں جب خوف کا عالم اور پھر نبیۖ بنفس نفیس موجود ہوں تو خوف کی اس حالت میں نماز باجماعت کا اس طرح سے حکم دیا ہے کہ آدھے نماز پڑھیں اور آدھے اسلحہ لیکر پیچھے سے کھڑ ے ہوںاور سجدوں کے بعد نمازی پیچھے کھڑے ہوجائیں اور محافظ گروہ نبیۖ کیساتھ نماز پڑھے۔ اسلئے کہ کہیںتاک میں بیٹھے کفارحملہ نہ کردیں اور صحابہ رسولۖ کے پیچھے نماز پڑھنے اور حفاظت کا فریضہ انجام دینے میں کسی ایک بات سے بھی محروم نہ ہوجائیں۔ قرآن انسانی فطرت کا ترجمان ہے ۔علماء ومفتیان کو حقائق کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔

 

اللہ تعالیٰ نے سفرکی نماز اور نمازِ خوف کی زبردست وضاحت فرمائی ہے مگر…….

قرآن میں قتال فی سبیل اللہ کے بعد ہجرت فی سبیل اللہ کا ذکر ہے اور پھر زمین میں عام سفر کی حالت کے احکام ہیں۔ یہاں تفصیل کی زیادہ گنجائش نہیں ہے اسلئے مختصر لکھ دیتا ہوں۔
فرمایا:واذا ضربتم فی الارض فلیس علیکم جناح ان تقصروا من الصلوٰة، ان خفتم ان یفتنکم الذین کفروا،ان الکٰفرین کانوا لکم عدوا مبینًاOواذا کنت فیھم فاقمت لھم الصلوٰة فلتقم طائفة منھم معک ولیأخذوا اسلحتھم فاذا سجدوا فلیکونوا من ورائکم،ولتأت طائفة اُخرٰی لم یصلوا فیصلوا معک ولیأخذواحذرھم واسلحتھم ودّ الذین کفروالوتغفلون عن اسلحتکم وامتعتکم فیمیلون میلة واحدة ولاجناح علیکم ان کان بکم اذًی من مطرٍاو کنتم مرضٰی ان تضعوا اسلحتکم وخذوا حذرکم ان اللہ اعدّ للکٰفرین عذابًا مھینًاOفاذا قضیتم الصلوٰة فاذکروا اللہ قےٰمًا وقعودًا و علی جنوبکم فاذااطمأنتم فاقیموا الصلوٰة ،انّ الصلوٰة کانت علی المؤمنین کتٰبًا موقوتًاO ”جب تم زمین میں سفر کرو تو تمہارے اوپر کوئی حرج نہیں کہ نماز کو مختصر کرو۔ (یہ سفر کی نمازکاحکم ہے) اگر تمہیں خوف ہو کہ کفار تمہیں آزمائش میں ڈالیںگے، بیشک کفار تمہارے کھلے دشمن ہیں اورجب آپ ان میں موجود ہوں ،تو آپ ان کو نماز پڑھائیں تو ان میں ایک گروہ آپ کے ساتھ ہو اورضرور اپنا ا سلحہ بھی پکڑ کر رکھیں۔ جب سجدہ کرلیں تو آپ کے پیچھے چلے جائیں اور دوسرا گروہ آجائے جس نے نماز نہیں پڑھی تو آپ کیساتھ نماز پڑھے اور بیداری میںچوکنا بنے اور اپنااسلحہ اٹھائے پکڑے رکھے۔ کافروں کی چاہت ہے کہ تمہیں اپنے اسلحے اور سامان سے غافل دیکھ کرایک دفعہ میں آپ لوگوں پر ٹوٹ پڑجائیں۔

 

علماء ومفتیان کو قرآن کی آیت کا متن دیکھ کر سفر اور خوف کی نماز کو سمجھاپڑے گا!

اور تم پر کوئی گناہ نہیں ہے کہ اگر تمہیں کوئی اذیت ہو بارش سے یا تم مریض ہو کہ تم اپنااسلحہ رکھ لو۔مگر اپنی بیداری برقرار رکھو۔ بیشک اللہ نے کافروں کیلئے رسوا کن عذاب مقرر کررکھا ہے اور جب تم نماز پڑھ چکو تو اللہ کا ذکرکرو کھڑے ہوکراور بیٹھ کر اور اپنی کروٹیں لیتے وقت۔ پھر جب تم اطمینان کی حالت میں آجاؤ تو نماز قائم کرو، بیشک نماز وقت کی پابندی کیساتھ مؤمنوں پر فرض کی گئی ہے”۔ سورہ النساء آیت102،103۔ مفتی منیب الرحمن اچھی طرح دیکھ لے۔
سب سے پہلی بات آیت میں سفر کی نماز کا حکم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ” جب زمین پر چل (سفرکر)رہے ہو توتمہارے لئے کوئی حرج نہیں کہ نماز کو مختصر کرو”۔ حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ نبیۖ نے سفر میں قصر بھی کیا ہے اور پوری نماز بھی پڑھی ہے۔ قرآن میں بھی دونوں صورتوں کی اجازت ہے۔ جب امام مسافر اور مقتدی مقیم ہوں تو امام مقتدیوں کو پوری نماز پڑھاسکتا ہے لیکن امام مسلکی بنیاد پر اس کو ناجائز سمجھ کر گریز کررہے ہیں۔ حضرت عائشہ کی روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کبھی نبیۖ نے سفر میں اکیلی نماز بھی پڑھی ہے۔
آیت میں پھر خوف کی حالت کا ذکر ہے۔ فرمایا:” اگر تمہیں خوف ہو کہ کافر آزمائش میں ڈال دیںگے ۔ بیشک کافر تمہارے کھلے دشمن ہیں”۔ خطرناک خوف کی حالت میںقصر نماز پڑھنے کا بھی حکم نہیں ہے کیونکہ صحابہ کرام جاہل نہیں عالم باعمل تھے۔ اللہ نے خوف کی صورت میں پہلے ہی حکم واضح کیا تھا کہ ” نمازوں کی حفاظت کرو اور بیچ کی نماز کی اور اللہ کیلئے عاجزی سے کھڑے ہوجاؤ۔ اگر تمہیں خوف ہو تو چلتے چلتے یا سورای پر اللہ کو یاد کرو۔ جب امن میں آؤ توپھر اللہ کو یاد کرو(نماز پڑھو) جس طرح تمہیں سکھایا گیا جو تم پہلے نہیں جانتے تھے”۔البقرہ کی آیات238،239میں حالتِ جنگ نہیں خوف کی حالت میں یہ واضح حکم تھا۔

 

پاک فوج کے سپاہی اورمجاہد ہی حالت جنگ کی صورتحال میں نماز کو سمجھ سکتے ہیں

فرمایا:”اور جب آپ( ۖ) ان میں موجود ہوں تو ان کو نماز پڑھائیں تو ایک گروہ ان میں سے آپ کے ساتھ کھڑا رہے اورضروراپنا اسلحہ بھی اُٹھارکھیں۔ جب یہ سجدہ کرلیں تو آپ کے پیچھے ہوجائیں اور وہ گروہ آجائے جس نے نماز نہیں پڑھی ہے تووہ آپ کے ساتھ نماز پڑھیںاور بیدارو چوکنا رہیں اور اسلحہ پکڑکر رکھیں اور کافرچاہتے ہیں کہ اگر غافل دیکھ لیں تمہارے اسلحہ سے تمہیںاور تمہارے سامان سے تو ایک دم تم پر جھپٹ پڑیں”۔
یہاں اس بات کی بخوبی وضاحت ہے کہ قرآن میں زور اسلحہ پر ہے نماز پر نہیں ہے۔ اگر نبیۖ باجماعت نماز پڑھانا چاہیں تو ایک گروہ کو اسلحہ سمیت چوکنا ہوکر نماز پڑھنے کا حکم ہے اور جب وہ ایک رکعت (سجدوںتک) پڑھ لیں تو پیچھے چلے جائیں اور دوسرا گروہ جس نے نماز نہیں پڑھی ہے وہ لوگ آپۖ کیساتھ نماز پڑھیں لیکن نماز کی حالت میں بھی اسلحہ ساتھ ہی رکھیں اور بالکل چوکنابیدار رہیں۔ اسلئے کہ کافر تاک میں رہتے ہیں اور غفلت پاکر کسی وقت بھی حملہ آور ہوسکتے ہیں۔ آیت میں اسلحہ بہرحال رکھنے کی ترغیب ہی ہے۔چونکہ نماز پڑھنے کیلئے خوف کی حالت میں پیادہ اور سوار ہونے کی گنجائش واضح تھی اور جب سفر میں قصر نماز پڑھنے کی اجازت مل گئی اور پھر خوف کی حالت کا بیان ہوا۔ جس میں پیادہ وسوار ہوکر نماز پڑھنے کی واضح گنجائش ہے اور اس میں باجماعت نماز پڑھنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔
نبیۖ اگر ان میں موجود ہوں اور نماز پڑھانا چاہیں تو احتیاط کا تقاضہ پورا کرنے کیلئے یہ حکم دیا گیا کہ سب نماز میں شریک نہ ہوں اور جو نماز میں شریک ہوں وہ بھی چوکنا ہوں اسلحہ ساتھ رکھیں۔پاک فوج کے سپاہی اور مجاہدین فی سبیل اللہ اس آیت کی اہمیت اور مقاصد سمجھ سکتے ہیں،خیال ہے کہ فقہاء وعلماء اور ملاحضرات ان آیات کو سمجھنا بھی نہیں چاہتے ۔

 

علماء ومفتیان اور شاعروں کو حالت جنگ میں نماز کی کیفیت سمجھ نہیں آسکتی!

فرمایا” اور تم پر کوئی گناہ نہیں کہ اگر تمہیں کوئی تکلیف درپیش ہو ،بارش سے یا بیماری کی وجہ سے کہ آپ لوگ اپنا اسلحہ رکھ لیں اور بیدار وچوکنا رہیں۔ بیشک اللہ نے کافروں کیلئے رسواکن عذاب تیار کرکے رکھا ہے ”۔ چونکہ آیت میں نماز کی حالت میں بھی اسلحہ پکڑکر رکھنے کا حکم ہے تو تکلیف کی صورت میں جب بارش سے یا بیماری کی وجہ سے ہو تو اسلحہ رکھنے کی اجازت دی ۔ مگر پھر بھی بیداری پر زور دیا گیاہے۔ قرآنی آیات کا متن سمجھنے کی سخت ضرورت ہے۔ اسلام جاہلانہ جذبات کا دین نہیں ہے۔ علماء وفقہاء اپنی روٹی کیلئے بھی اللہ پر توکل نہیں کرسکتے ہیں۔ جب کبھی دشمن کے ساتھ عین لڑائی میں نماز کا وقت ہو تو سجدہ کرنا جہالت ہے۔ اسلام کو جنگ کی حالت میں جتنا مجاہد اور فوجی سمجھ سکتا ہے اتنا کوئی ملا اور شاعر نہیں سمجھ سکتا۔ یہ بکواس ہے کہ
آ گیا عین لڑائی میں اگر وقتِ نماز قبلہ روہوکے زمیں بوس ہوئی قوم حجاز
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود ویاز نہ کوئی بندہ رہا اورنہ کوئی بندہ نواز
لڑائی کے وقت صف میں کھڑا ہوکر نماز پڑھی جائے تو واقعی بندہ اور بندہ نواز نہ رہے گا۔ یہ المیہ ہے کہ مدارس کے فارغ التحصیل قابل ہونے کے باجود نالائق صاحبزادگان کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ جدید تعلیم یافتہ سید ابوالاعلیٰ مودودی عالم اورپروفیسر منیب الرحمن مفتی بن گئے تو قرآن وسنت کی تعلیمات کی رہی سہی ساکھ بھی انہوں نے بگاڑ کر رکھ دی۔ جن علماء وفقہاء کے غلط افسانوں کو عوام نہیں سمجھ رہی تھی ،ان لوگوں کی بدولت جدید تعلیم یافتہ طبقہ بھی گمراہ بن گیا۔ اسی طرح تبلیغی جماعت نے اپنی سرسری محنت سے ایمان واسلام کا غلط مفہوم ذہن میں بٹھالیا۔ جب تھوڑی سی مشکل آگئی تو اللہ سے سب کچھ ہونے کے ایمان کا پتہ چل گیا۔ قرآن وایمان کی درست تشریح نہ ہوتو ہمارا لکھا پڑھا ،مولوی اور شاعر طبقہ گمراہ رہے گا۔

 

قرآنی آیات کا درست مفہوم ”ہم نیوز” کی بھی خاص طور پر ذمہ داری بن گئی!

فرمایا:”اورجب تم نماز پڑھ چکو تواللہ کا ذکرکرو کھڑے ہوکراور بیٹھ کر اور اپنے پہلوؤں پر۔پھر جب تم اطمینان کی حالت میں آجاؤ، تو نماز قائم کرو۔ بیشک نماز مؤمنین کیلئے فرض کی گئی ہے وقتوں کے مطابق”۔( النساء آیت103) مفتی منیب الرحمن کا انٹرویو نشر کرنیوالے صحافی ”ہم نیوز” کے عامر ضیاء کا فرض بنتا ہے کہ قرآن کا اصل مؤقف لوگوں کو پہنچادے۔
آیت کا یہ آخری حصہ بھی بالکل واضح کرتا ہے کہ خوف یابارش کی صورت میں اسلحہ رکھنے کی گنجائش تکلیف کی وجہ سے ہے مگر پھر بھی گھمبیر صورتحال میں بہرحال چوکنا رہنے کا حکم ہے۔
ایسی صورت میں نمازِ خوف پیادہ اور سوارہوکر بھی پڑھی جاسکتی ہے اور اشارے کنایہ سے بھی۔ اسلئے اللہ نے فرمایا کہ جب تم نماز پڑھ چکو تو اللہ کا ذکر کرو، کھڑے کھڑے، بیٹھے بیٹھے اور کروٹیں بدلتے ہوئے۔ کیونکہ قیام، رکوع اور سجود کا یہ متبادل عمل ہے۔ پھر جب اطمینان مل جائے تو نماز قائم کرلو۔ اسلئے کہ اللہ نے مؤمنوں پر اوقات کے مطابق فرض کی ہوئی ہے۔
سیدابوالاعلی مودودی بہت ذہین تھے اسلئے آیت کے دوسرے الفاظ پر مختلف مفسرین سے مختلف مواد نکل کیا مگر اس آخری جملے پر بالکل بھی کچھ نہیں لکھا ہے۔ حالانکہ اس بات کی سخت ضرورت تھی کہ جب نماز پڑھ لی تو پھر قیام، قعود اور جنوب پر اللہ کا ذکر کرنے کا مقصد کیا ہے؟ اور اطمینان کے بعد پھر کس طرح نماز قائم کرنے کا حکم دیا جارہاہے۔ قرآن میں کسی تضاد کا تو بالکل سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے لیکن جب مسجد میں پنج وقتہ نماز عبادت کے علاوہ پیٹ پالنے کا بھی ایک واحدذریعہ بن جائے تو علماء ومفتیان اور تبلیغی جماعت ودعوت اسلامی کے کارکن بہت حیران ہونگے کہ نبیۖ و صحابہ کرام سے غزوہ خندق میں نمازیں کیسے قضاء ہوگئیں؟۔ اُمید ہے کہ مفتی منیب الرحمن جہالت سے اعلانیہ توبہ کرنے میں عار نہ سمجھیںگے۔

 

اگر اسلام کا درست مفہوم سمجھ میں آتا تو مذہبی طبقہ ہی کورونا کیلئے بڑا کام کرتا

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ولاتقف مالیس لک بہ علم ان السمع والبصروالفواد کل اُلٰئک کان عنہ مسئولًاO”اور ایسی بات پر اپنا مؤقف پیش نہ کرو، جس کا آپ کو علم نہ ہو۔ بیشک کان ، آنکھ اور دل کے بارے میں پوچھا جائے گا”۔ بنی اسرائیل آیت:36
پوری دنیا میں کورونا سے لوگ مررہے ہیں لیکن مذہبی طبقات سمیت جاہل طبقات بکواس کا طبل بجارہے تھے کہ” سازش ہے اور کچھ نہیں”۔ میرے ساتھ ایک بھتیجاتھا توخیبرپختونخواہ کی پولیس کے اہلکار کو سمجھایا کہ لوگوں سے ہاتھ مت ملاؤ۔ اس سے بیماری پھیل سکتی ہے لیکن وہ کہہ رہاتھا کہ یہ کافروں کیلئے ہے جو گندی چیزیں کھا رہے ہیں۔ پھر دوسری مرتبہ دوسرا بھتیجا ساتھ میں تھا اور خیبر پختونخواہ پاک فوج کا سپاہی کہہ رہاتھا کہ ماسک کیوں نہیں پہنے ہیں؟۔ ہم پر احتیاط کرنے کیلئے زور ڈال رہاتھا۔ جب پاک فوج کی طرف سے لاک ڈاؤن پر زور دیا گیا ہے اور وزیراعظم ڈھیلے پن کا مظاہرہ کررہاہے تو پولیس اور فوجی اہلکاروں پر بھی اسکے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ اگر تمہیں خوف ہو تو چلتے چلتے اور سواری پربیٹھ کر بھی نماز پڑھ سکتے ہو لیکن جاہل مولوی طبقہ نماز کو خوف کا تریاق بتارہاہو تو یہ علم کا فقدان اور بہت بڑی جاہلیت ہے۔ اگر مساجد کے ائمہ اور مذہبی طبقات میں اسلام وایمان کا درست تصور ہوتا تو کورونا وائرس سے آگاہی کیلئے سب سے زیادہ کام یہی طبقہ آتا لیکن یہ اپنے ساتھ جاہل تعلیم یافتہ عوام کو بھی لے ڈوبے ہیں۔ مفتی منیب الرحمن کہتا ہے کہ یہاں کورونا کی وجہ سے صرف خدشہ ہے مگر حقیقت میں اس کا کوئی وجود نہیںہے۔ جبکہ جنگ کی حالت میں نماز پر حملہ کرنے کا حقیقی اور سوفیصد خطرہ ہوتا ہے اور پھر بھی نماز معاف نہیں ہے۔ میڈیا پر حقائق کی تبلیغ ہوجائے تو بہت کم دنوں میں جلدہی اسلام کا حقیقی چہرہ علماء ومفتیان کو سمجھ بھی آجائے گا۔

شعور کے عروج کا دور شروع ہوچکا ہے

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

مولانا فضل الرحمن کا گھر میں نماز پڑھنے کا پیغام دانشمندی کاہی ثبوت ہے!

والفجرOولیال عشرOوا لشفع والوترOوالّیل اذا یسرOھل فی ذٰلک قسم لذی حجرٍO ” قسم ہے خصوصی فجر کی اور دس راتوں کی اور خاص جفت اور طاق کی اور رات کی جب رخصت ہورہی ہو۔ کیا اس میںدانشور کیلئے کوئی قسم ہے؟”۔(سورة الفجر)
شعور کی مقدس صبح اس قابل ہے کہ اس پر قسم کھائی جائے۔ رمضان کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا مغفرت اور تیسرا آگ سے نجات ہے، یہ وہ مقدس مہینہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا ۔ اسکے آخری عشرے کی جفت اور طاق راتوں میں لیلة القدر کی تلاش کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ جس سال بے شعوری کی رات رخصت ہورہی ہو تو اس کی بھی اہمیت ہے۔ اس مقدس پیغام میں کسی بھی دانشور کیلئے قسم کی واقعی بڑی اہمیت ہوسکتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے اپنے گھر میں اپنے گھر والوں کیساتھ نماز، تراویح پڑھنے کے ذریعے قوم کو پیغام دیا کہ علماء ومفتیان کا عوام کو اجتماعی نمازوں کے ذریعے وبا کے خطرے میں ڈالنا دانشمندی نہیں۔اسلام اور ایمان کا ہرگز یہ تقاضا نہیں کہ اس خوف کارسک لیاجائے،جس نے دنیا کو لپیٹ میں لیاہے۔

 

کورونا میں جہاں مسلم اہل دانش کی آزمائش ہے وہاں کافروں کی الٹی گنتی شروع

الم ترکیف فعل ربّک بعاد Oارم ذات العمادOالتی لم یخلق مثلھا فی البلادOوثمود الذین جابوا الصخر بالوادOوفرعون ذی الاوتادOالذین طغوا فی البلادOفاکثروا فیھا الفسادO فصب علیھم ربک سوط عذاب Oان ربک لبالمرصادO”کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ تیرے رب نے عاد ستونوں والے ارم کیساتھ کیا کیا؟جس کی طرح قوم ملکوں میں پیدا نہیں کی گئی۔ اور ثمود کیساتھ جو چٹانیں وادی میں تراشتے تھے۔ اور فرعون کیساتھ جو میخوں والا تھا۔جنہوں نے ملکوں میں سرکشی کی تھی۔ اور اکثر اس میں فساد کرتے رہتے تھے۔ پھر تمہارے رب نے ان پر عذاب کا کوڑا برسایا۔ بیشک تیرا رب گھات لگائے بیٹھا ہواہے( انتظار ہے کہ ظالموں کا کب خاتمہ کردیگا) ۔ (الفجر)
جب تک شعور کی صبح طلوع نہیں ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے کسی قوم کو عذاب نہیں دیا ۔ امریکہ اور پوری دنیا میں یہ احسا س اُجاگر ہورہاہے کہ انتہائی مظالم ، فخر وغرور اور مفادپرستی کی سزا مل رہی ہے۔ پہلے مذہبی طبقات صالح، تقویٰ دار اور اچھے لوگ ہوتے تھے۔ اب تو بلیک واٹرتنظیم کے کارندوں نے مذہبی لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔ شیخ الاسلام اور مفتی اعظم سودی بینکوں پر معاوضہ لیکر اسلام کا ٹھپہ لگاتے ہیں،جھوٹے تاجروں نے مذہبی لبادے کو اپنا ہتھیار بنالیا ۔تبلیغی جماعت کا نعیم بٹ کہتا ہے کہ حبشہ سے خواتین کی جماعت آئی ہے جس میں حضرت بلال حبشی کی نسل والی عورت ہے۔ حالانکہ سیدنا بلال حجاز میں بچپن، جوانی ، ضعیف العمری اور وصال تک آباد رہے۔ مولانا الیاس کے پڑپوتے کا تو خیال رکھا نہیں۔ مولانا طارق جمیل کو اس بنیاد پر تبلیغی جماعت والے فحش گالیاں دیتے ہیں کہ اہلبیت کی احادیث بیان کرتاہے۔ لاؤڈاسپیکر پر آذان ونماز سے گریز کرنے والے ویڈیو میں جھوٹ بولنے سے نہیں شرماتے۔

 

مذہبی طبقے اس انقلاب میں اپنی روش کی تصویر بھی ضرور دیکھ لیںکہ کیا چاہتاہے

فاما الانسان اذا ما ابتلاہ ربہ فاکرمہ و نعمہ فیقول ربی اکرمنO و اما اذا ماابتلاہ فقدر علیہ رزقہ فیقول ربی اھاننO کلا بل لاتکرمون الیتیم O و لا تحاضون علی طعام المسکینOو تأکلون التراث اکلًا لماOوتحبون المال حبًا جمًا Oکلااذا دکت الارض دکًادکًاO وجاء ربک والملک صفًا صفًاO وجیی ء یومئذٍ بجھنم یومئذٍ یتذکرالانسان وانّٰی لہ الذکرٰیOیقول یالیتنی قدمت لحیاتی Oفیومئذٍ لایعذب عذابہ احدOولا یوثق وثاقہ احدO یآایتھاالنفس المطمئنةOارجعی الٰی ربک راضےة مرضےةOفادخلی فی عبادیOوادخلی جنتیO ”اور جب انسان کو اسکارب آزماتا ہے اور اس کو عزت دیتا ہے اور اس کو نعمت دیتا ہے تو کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے عزت دار بنادیا اور اس کو آزماتا ہے اور رزق اس پر کم کردیتا ہے تو کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے ذلیل کردیا۔ ہرگز نہیں بلکہ تم نے یتیم کا اکرام نہ کیا اورنہ مسکینوں کیلئے ایکدوسرے کو کبھی اُبھارا۔ تم میراث کا مال سمیٹ کر کھا جاتے ہواور مال سے جم کر محبت کرتے ہو۔ جب زمین کو کوٹ کوٹ کر ریزہ ریزہ بنایا جائیگا اور تمہارا رب آجائے اور فرشتے صف در صف۔ پھر سامنے لایا جائے جہنم کو اس دن۔اس دن انسان نصیحت حاصل کرلے گا اور اسی کیلئے تو نصیحت ہے ۔ وہ کہے گا کہ کاش اپنی زندگی کیلئے کچھ تو آگے کرتا۔ اس دن کوئی دوسرا اس کو عذاب نہیں دیگا۔ اور اس کو کوئی دوسرا نہیں باندھے گا( بلکہ اپنے ضمیر کے عذاب اور جھکڑ کا شکار ہوگا)اے نفس مطمئنہ اپنے رب کی طرف لوٹ جا۔ راضی خوشی سے۔پس میرے بندو میں داخل ہوجاؤ اور میری جنت میں داخل ہوجاؤ۔ (الفجر)۔ انقلاب کے بعد دنیا کا یہ نقشہ بن جائیگا۔

 

پاک فوج نے لاک ڈاؤن میں ایک بنیادی کردار ادا کیا مگر جاہلوں کی ضدہے!

تبلیغی جماعت کے اکابر اور ترجمان اپنی غلطی ماننے کے بجائے دوسروں کو ٹوپی پہنا رہے ہیں اورتکلیف پہنچنے پر چوہدری پرویزالٰہی اور پاک فوج کے تعاون کا شکریہ ادا کررہے ہیں مگر یہ بات نہیں سمجھتے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ ہی نے تو اپنی قوم کو وبا کی مصیبت کے رحم وکرم پرنہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اگر تبلیغی جماعت کو بروقت مسجدوں میں قرنطینہ کرنے کا کریڈٹ کسی کو جاتا ہے تو یہ فوج کے ISPRکی جانب سے وزیراعظم کی خواہشات کے برعکس فیصلہ تھا اور اب عمران خان اور علماء ومفتیان کے مشترکہ رویہ سے صدر عارف علوی نے جاہلانہ فیصلہ کیا ہے تو اسکے نقصان کی تمام تر ذمہ داری احمقوں کی جنت میں رہنے والی مخلوق پر عائد ہوگی۔
مولانا فضل الرحمن نے اس اجتماعی فیصلے کا خیرمقدم کرنے کے بجائے اس سے اختلاف کو ایک ذاتی رائے کی حیثیت سے بے معنیٰ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ” اجتماعی فیصلے کا احترام کرنا چاہیے”۔ مگر بذات خود اپنے گھر والوںبھائیوں ، بیٹوں، بھتیجوں سمیت اپنے گھر میں ہی نماز پڑھنے کو واضح کیاہے۔ جو اپنے لئے آدمی پسند کرتا ہے وہ دوسروں کیلئے بھی پسند کرتا ہے۔ اگر جمعیت علماء اسلام کے کارکن اور رہنما ایک سخت اپوزیشن کے باجود حکومت کے امدادی کاموں میں رضاکارانہ طور پر پیشکش کرتے ہیں اور نماز گھروں میں پڑھتے ہیں تو اس کا زبردست اثر بھی مرتب ہونا چاہیے بلکہ جمعیت علماء اسلام کی شوریٰ کے ذریعے عوام کو گھروں ہی میں نمازپڑھنے کی تلقین ایک بہت جرأتمندانہ فیصلہ ہوتا۔ یہ ریاست کا کام ہے کہ لوگوں کو زبردستی موت کے منہ میں جانے سے بچائے مگر مذہبی طبقے کے سامنے ریاست ٹھنڈی ہے اسلئے کہ وزیراعظم کی اپنی روش بھی مختلف ہے۔ مذہبی طبقے کے سامنے لیٹنا مجبوری نہیں خوشی ہے، کل اگر خدانخواستہ بڑے پیمانے پر نقصان ہوگیا توذمہ دار طبقے کیابری الذمہ ہونگے؟۔

 

قرآن میں کورونا سے پیدا ہونے والی صورتحال کی بھرپور وضاحت ہے مگر…..

کوئی بھوک سے مرتا ہے اور کاروبار کھولنے کا مطالبہ کرتا ہے تو اس کی بات اپنی جگہ ہے مگر جب مساجد سے وبا پھیلنے کا خطرہ ہو تو اللہ تعالیٰ نے خوف کی صورت میں نماز باجماعت سے دُور رہنے کی بالکل واضح آیات میں تلقین کردی ہے۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب عوام اور علماء کرام کوقرآن کی افادیت سے آگاہ کردیا جاتا۔ مولانا بشیر فاروقی سیلانی ویلفیئرٹرسٹ سے خیرات بانٹ رہے ہیں۔بہت اچھی بات ہے ۔ تبلیغی جماعت کا بھی اپنا ایک ٹرسٹ ہونا چاہیے تھا جو نظر آتے کہ غریب عوام مسکینوں اور یتیموں کا یہ لوگ بھی احساس رکھتے ہیںلیکن بشیر فاروقی کو ٹی وی پر آتے وقت اعلان کرنا چاہیے تھا کہ تصویر کے معاملے میں شریعت ناکام ہوگئی ہے اور اس پر عمل کرنا ممکن نہیں رہاہے یا یہ اعلان کرنا چاہیے کہ تصویر جائز ہے یا پھر اپنی کوتاہی کو واضح کرتا کہ مجھے بھی اپنی شکل دکھانے کا شوق خوامخواہ میں سوجھا ہے۔ جب اسکے بقول حضرت علی نے یہودی سے کہا کہ تیری داڑھی، میری داڑھی کے گنجان آباد ہونے یانہ ہونے کا ذکر قرآن میں ہے۔اللہ اچھی زمین سے اچھا سبزہ اُگاتا ہے اور خبیث سے ناقص ۔ حالانکہ اس کی زد تو بعض صحابہ کرام ، علماء ومشائخ اورمسلم عوام پر بھی پڑتی ہے ، چین،جاپان، کوریا سب اس کی زد میں آتے ہیں لیکن شاباش ہوالیکٹرانک میڈیا کو کیسے کیسے جاہلوں کو بولنے کا موقع دیتے ہیں مگر قرآن کی ایک بہت واضح آیت اور حدیث کو پیش نہیں کرتے کہ خوف کی حالت میں مسجد کی نمازباجماعت سے قرآن نے چھوٹ دی ہے اور اس حدیث میں اسکی وضاحت ہے جس کا سب سے زیادہ اطلاق اس عالمی وبا کورونا وائرس پر ہوتا ہے۔ یہ زبردست موقع ہے کہ قرآن امت کو اجتہاد کے بغیر جو رہنمائی فراہم کرتاہے جس پر لوگ علماء ومفتیان کے محتاج نہیں ۔ علماء کو عوام کے ایمان وروحانی غذاء کی فکر نہیں بلکہ پیٹ کی آگ دماغ پر شعلہ زن ہے۔

 

دنیا میں ہی اس انقلاب کا نقشہ ہے جس میں رجعت پسند اور انقلابی کا حال ہے

سورۂ الفجر میں عقل والوں کیلئے قسم میں سمجھ کی بات کا داعیہ کیوں پیدا کیا گیا ہے؟۔ جب ایک طرف کم عقل علماء ومفتیان ہوں اور دوسری طرف اہل دانش ہوں تو اہل دانش ہی رہنمائی کا فریضہ انجام دینے کے قابل ہوں گے۔سورۂ فجر کی اگلی آیات میں گزشتہ طاقتور قوموں کی داستانوں اور ہلاکتوں کی طرف واضح پیغام دینے کے بعد یہ واضح کیا کہ ”تمہارا رب گھات میں بیٹھا ہے”۔ پھر انسان خاص طور پر مسلمان حکمرانوں، علماء ومفتیان اور مذہبی طبقات کے علاوہ عام لوگ سب کے سب انسانوں کی عمومی روش کو واضح کیا ہے کہ جب اس کو عزت ملتی ہے اور نعمت ملتی ہے تو کہتا ہے کہ پروردگار! (اس قابل تھا)تو نے مجھے اکرام کے قابل سمجھا۔ اور جب تھوڑا آزمائش میں ڈال دیتا ہے اور رزق کم کردیتا ہے تو کہتا کہ پروردگار تونے مجھے ذلیل کردیا۔بھلے کی آزمائش اچھی لگتی ہے اوربرے کی آزمائش پر تلملا اٹھتا ہے۔ لیکن جب دیکھو تو یتیموں کا کوئی اکرام نہیں کرتا۔ مسکینوں کے کھانے کی تحریک نہیں چلاتا۔ وراثت میں ناجائز حق کھا جاتا ہے۔ مال سے جم کر پیار کرتاہے۔ (ایسے میں اپنی نمازوں کو گھاس کی طرح کھا جائے اوران نمازیوں کیلئے ہلاکت ہے جو نماز کے مقاصد بھول جاتے ہیں)پھر اللہ نے انقلاب کا نقشہ قرآن میں کھینچاہے کہ جب زمین کوٹ کوٹ کر ریزہ ریزہ کی جائے گی اور تیرا رب آجائے اور ملائکہ صف درصف۔ اور جہنم کا نقشہ سامنے ہوگااسلئے کہ اسکے خیال میں دین کا تعلق صرف آخرت کیساتھ ہے دنیا کیساتھ نہیں۔پھر اس دن وہ نصیحت لے گا اور نصیحت تو ہے ہی اس کیلئے۔ مگر افسوس کریگا کہ اپنی اس زندگی کیلئے کچھ تو آگے کرتا۔ اس دن کوئی طعنہ نہ دیگا مگر اپنے ضمیر کے عذاب اور قید کا شکار ہوگا۔ انقلابی مخاطب ہوگا کہ اطمینان والا! اب خوشی راضی سے اپنے رب کی طرف لوٹ ! میرے بندوں، میری جنت میں داخل ہوجاؤ۔

 

قرآن کے مقاصد سے غافلوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ کیا فضول تعلیم دیتے ہیں؟

یقینا اب دنیا کے کافر بھی بڑے پیمانے پر اسلام کی حقانیت جان کر تمنا کرینگے!

اللہ تعالیٰ نے قرآن کو اسلئے نازل نہیں کیا کہ لوگ دم تعویذ،پیشاب سے علاج کیلئے لکھنے کی جسارت کریں ، اس بات پر درسِ نظامی کے اسباق پڑھائیں کہ تحریری شکل میں قرآن اللہ کا کلام نہیں ہے۔ فرقہ واریت اور مسلکانہ تعصبات کی لعنت میں پڑیں۔ مفادپرستی کیلئے ٹولہ بازی اور گروہ بندیوں میں تقسیم ہوں۔ جماعتوں اور تنظیموں سے امت کا بٹوارہ کرتے پھریں اور مختلف ممالک کی شکل میں قابض طبقات اپنے اپنے مفادات کا تحفظ کریںبلکہ قرآن سے ایسا لگتا ہے کہ جس طرح موجودہ حالات میں فرقہ پرستوں اور قرآن کو چھوڑنے والوں پر ہی اب تازہ تازہ نازل ہوا ہو۔عربی میں حِجر عقل کو اور حَجر پتھر کو کہتے ہیں۔ وائل ابن حِجر صحابی تھے۔ علامہ ابن حجرکا معنیٰ دانشمند ہے جس طرح ابن سبیل مسافر ہوتاہے۔ علماء نے علامہ ابن حجر کو پتھر بناکر اسکے حافظے کو پتھر سے مشابہ قرار دیا ہے۔ قرآن میں سورۂ حجر کے اندرایک قوم کا ذکرہے جو اپنے ذہنی کمالات کی وجہ سے ترقی یافتہ تھی۔ کورونا نے ملکوں کے درمیان دشمنی کا ماحول ختم کرکے انسانیت کی فلاح کیلئے سائنسی بنیادوں پر کام کرنے کی ترغیب دی ہے۔
سورۂ الحجر میں بڑے حقائق ہیںلیکن مختصر حوالہ جات کافی ہیں۔ الرٰ تلک اٰےٰت الکتٰب و قراٰن مبینOربمایود الذین کفروا لو کانوا مسلمینOذرھم یاکلواو یتمتعوا ویلھھم الامل فسوف یعلمونOومااہلکنا من قرےة الا ولھا کتاب معلوم Oماتسبق من امة اجلھا ومایستأخرونOو قالوا یٰایھاالذی نزل علیہ الذکر انک لمجنونO ”الف ،لام ،را ،یہ کتاب کی آیات ہیں اور واضح قرآن ہے۔ قریب ہے جن لوگوں نے کفر کیا کہ وہ چاہیں کہ کاش ہم مسلمان ہوتے۔ ان کو چھوڑ و، کھائیں اور فائدہ اٹھائیں، ان کو اُمید نے غفلت میں ڈالا ہوا ہے۔ ہم کسی بستی کو ہلاک نہیں کرتے مگر اس کیلئے ایک مقررہ وقت ہے۔ کسی قوم کا وقت مقدم اور تاخیر کا شکار نہیں ہوسکتا ہے۔ اور انہوں نے کہا کہ اے جس پر وحی نازل ہوئی ہے آپ واقعی میںمجنون ہیں”۔ (سورہ حجر)
یہ سورة انقلابِ عظیم کے وقت کی نشاندہی کیلئے کافی ہے کہ جب کفر سے محبت کرنیوالا طبقہ دنیا میں ہی مسلمان ہونے کی تمنا کریگا۔ کافروں کو بہت عرصہ تک ڈھیل ملتی رہی ہے ، مسلمان بھی کوئی قابلِ قدر کردار ادا نہیں کرسکیںہیںلیکن اللہ تعالیٰ نے قرآن ضائع ہونے کیلئے نازل نہیں کیا بلکہ اس سے عنقریب ہدایت کے وہ چشمے پھوٹیں گے کہ دنیا حیران ہوگی۔انشاء اللہ
اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام اور قوموں کی تاریخ کا تذکرہ اور بہت اہم باتوں کا ذکر کیا اور پھر فرمایا: ولقد کذّب اصحاب الحجر المرسلینO……………. ” اور تحقیق کہ اصحابِ الحجر نے رسولوں کو جھٹلایا۔ہم نے اپنی آیات ان کو دیں تو انہوں نے اس سے روگردانی کی۔ وہ پہاڑ تراش کر مکانات بناتے تھے، امن امان کی حالت میں رہتے تھے۔ پھر ہم نے ان کو صبح کے وقت دھماکوں سے پکڑلیا۔ جو انہوں نے حاصل کیا تھا وہ ان کو بچا نہیں سکا اور ہم نے نہیں بنایا آسمانوں اور زمین کو مگر حق کیساتھ اور بیشک مقررہ (انقلاب کا) وقت ضرور آئیگا( آسمان و زمین کی موجودگی میں) پس آپ اچھے انداز سے درگزر سے کام لو۔ بیشک تمہارا رب بہت ہی اخلاق والا جاننے والا ہے۔ اور بیشک ہم نے آپ کو سات (آیات) دُوہرانے والی دی ہیں اور قرآن عظیم۔ آپ اپنی آنکھوں کو اس پر نہ لگائیں جو ہم نے متاع کے اقسام دئیے ہیں اور ان پر زیادہ غم بھی نہ کھائیں اور مؤمنوں کیساتھ انتہائی عاجزی والا برتاؤ اپنائیں اور کہہ دیجئے کہ میں تو صرف ایک کھلا ڈرانے والا ہوں” ۔ (سورہ الحجر)ان آیات میں موجودہ ترقی یافتہ دور کے لوگوں کیلئے بہت کچھ ہے مگران کو قرآن سے رہنمائی کیلئے آگے بڑھنا ہوگا۔

 

گویا قرآن انہی لوگوں پر ہی نازل ہوا ہے جنہوں نے اس کو ٹکڑے کیا ہے!

فرمایا: کماانزلناعلی المقتسمیںOالذین جعلوا القراٰن عضینOفو ربک لنسئلنھم اجمعینO عما کانوا یعملونO…………………”گویا ہم نے تفرقہ بازی میں مبتلا ہونیوالے پر (یہ کلام ) نازل کیا ہے۔ جنہوں نے قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا ۔ پس تیرے رب کی قسم کہ ان سب سے ہم ضرور پوچھیںگے جو وہ عمل کرتے تھے۔( گدھوں سے قرآن کے حقائق اور رازوں کا نہیں بلکہ انکے اپنے عمل کا پوچھا جائیگا)پس اے نبی! آپ اعلان کرڈالیں جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے اور مشرکوں سے پہلوتہی برت لیں۔ ہم کافی ہیں مذاق اڑانے والوں کیلئے ،جنہوں نے اللہ کیساتھ دوسرے معبود بنارکھے ہیں۔ عنقریب یہ سمجھیں گے اور ہم یہ جانتے ہیں کہ انکی باتوں سے آپ کے سینے میں تکلیف اُٹھتی ہے۔پس پاکی بیان کر اپنے رب کی تعریف کیساتھ۔ اور سجدوں والوں میں سے ہوجاؤ۔ اپنے رب کی بندگی کر یہاں تک کہ آپ کے پاس یقین آجائے۔ (اہل حق کو اللہ غلبہ دلادے)۔ (سورہ حجر)
اللہ تعالیٰ نے قرآن کی مختلف آیات میں واضح کیا ہے کہ فرقہ بندی علم کے بعد آپس ہی کی بغاوتوں سے آئی ہے۔ اللہ کو یہ بھی معلوم تھا کہ ہم پہلے والوں اور آخر والوں کو جانتے ہیں اور یہ معلوم تھا کہ یہود ونصاریٰ کے نقش قدم پر چل کر مسلمانوں نے بھی قرآن کی معنوی تحریف کا ارتکاب کرنا ہے اسلئے کہ قیامت تک حفاظت کی ذمہ داری اللہ نے ظاہری الفاظ کی لی ہے۔ شاباش مولانا مودودی جیسے عالم نے بھی قرآن کو ٹکڑے کرنے کی ذمہ داری امت کے سر رکھ دینے کے بجائے یہود یوں کا قرآن مراد لیا ہے۔جماعت اسلامی منصورہ میں اجلاس بھلاکر علماء کو کردار ادا کرنے پر متوجہ کرے۔ مولانا مودودی نے نکاح سے درست معنی مراد لئے ہیں مگر حنفی علماء نے اصولِ فقہ میں نکاح کے حوالہ سے شریعت اور فطرت کی دھجیاں بکھیر دی ہیں!۔

قرآن وسنت کے احکام کا معاملہ

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

قرآن کی تفسیر میں نقل کے علاوہ ڈھیر ساری جہالتوں کا مظاہرہ بھی کیا گیاہے!

قرآن کی تفسیر میںجس طرح علماء وفقہاء اور مفسرین نے مفہوم کو بگاڑنے میں کافی کردار ادا کیا ہے،اسی طرح مولاناسیدابوالاعلیٰ مودودی نے بھی حقائق کو مسخ کرنے میں اپنی جہالت کی وجہ سے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ تمام مکاتبِ فکر کے مذہبی طبقات کے بڑوں کو مل بیٹھ کر اپنی غلطیاں ٹھیک کرناسخت ضروری ہیں۔ رسول اللہ ۖ قیامت کے دن شکایت فرمائیںگے کہ وقال الرسول یارب ان قومی اتخذوا ھٰذا القراٰن مھجورًا ” اور رسول (ۖ) عرض کریںگے کہ اے میرے رب! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا”۔قرآن
جے یوآئی کے مولانا فضل الرحمن، جماعت اسلامی کے سراج الحق،تحریک لبیک کے علامہ خادم حسین رضوی ، اہلحدیث علامہ ابتسام الٰہی ظہیر، اہل تشیع کے علامہ شہنشاہ حسین نقوی کے علاوہ تمام مکاتب فکر نمائندوں کو قرآن کے ترجمہ وتفسیر کے حوالہ سے مل بیٹھ کر معاملات ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ توبہ کرنے کا مقصد تب ہی پورا ہوسکتا ہے کہ جب قرآن کے اندر جو معاملات مذہبی طبقات نے بگاڑدئیے ہیں پہلے انکی اچھی طرح اصلاح ہوجائے۔

قرآنی آیات پر مسلکی تضادات، عجیب واقعہ اور مولانا سیدمودودی کی جہالت!

حضرت مغیرہ ابن شعبہ جب بصرہ کے حاکم تھے تو انکے خلاف چار افراد نے زنا کی گواہی دی تھی، جن کے نام صحیح بخاری وغیرہ میںہیں۔ ان میں ایک صحابی حضرت ابوبکرہ بھی تھے اور آخری گواہ زیاد نے کہا تھا کہ میںنے دیکھا کہ سرین نظر آرہی تھی، لپٹے ہوئے سانسیں لے رہے تھے، اس عورت کے پاؤں مغیرہ کے کانوں پر ایسے لگ رہے تھے جیسے گدھے کے دوکان ہوں اور اسکے علاوہ میں نے کچھ اور نہیں دیکھا، جس پر حضرت عمر نے کہا کہ گواہی مکمل نہیں ہوئی ۔ باقی تین گواہوں کو حدقذف کے 80،80کوڑے لگائے گئے اور پھر یہ پیشکش کی گئی کہ اگر تم کہہ دو کہ ہم نے جھوٹ بولا تھا تو تمہاری گواہی قبول کی جائے گی۔ حضرت ابوبکرہ نے پیشکش کو قبول کرنے سے انکار کیا اور باقی حضرات نے پیشکش قبول کرلی۔ جمہورآئمہ حضرت امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل کے نزدیک حضرت عمر کی پیشکش ٹھیک تھی اور قرآن میں جھوٹی گواہی دینے کے بعد حدقذف کے علاوہ اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ ان کی گواہی کبھی قبول نہیں کی جائے گی لیکن توبہ کرنے والوں کو مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ جبکہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک حضرت عمر کی پیشکش غلط تھی ، جھوٹ کی گواہی دینے والے کی گواہی ہمیشہ قبول نہیں کی جائے گی اور توبہ کا تعلق آخرت کے عذاب سے معافی کیساتھ ہے۔ جس واقعہ پر مسالک کی بنیاد رکھی گئی اور قرآن کی جو متضاد تفسیر کی گئی ہے اس کی شکایت قیامت کے دن رسولۖ اللہ کی بارگاہ میں قیامت کے دن کرینگے۔ مسلکی رسہ کشی سے نکل کر حقائق کی بنیاد پر دنیا میں اسلامی نظام کے نفاذ کیلئے پہلے فکری مرحلے کو درست کرنا ہوگا اور پھر عمل کا مرحلہ آسکے گا۔ جبکہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے لکھا کہ ” وہ عورت حضرت مغیرہ ابن شعبہ کی اپنی بیوی تھی” ۔ حالانکہ حضرت مغیرہ کو معزول کردیا گیا تھامگر مودودی ایک پڑھے لکھے جاہل تھے۔

عثمانی خلیفہ کی 4500 لونڈیاں بمقابلہ موجودہ برطانوی وزیراعظم کی گرل فرینڈ

کرونا وائرس میں مبتلاء برطانوی وزیراعظم کی حاملہ گرل فرینڈبھی کرونا کا شکار ہے۔ ہمارا مذہبی طبقہ سمجھتا ہوگا کہ دونوں اللہ کی نافرمانی کی وجہ سے عذاب کا شکار ہیں ، اگر خلافت قائم ہو تو شادی شدہ وزیراعظم کو سنگسار اور کنواری گرل فرینڈ کو 100کوڑے اور1سال جلاوطنی کی سزا دی جاتی۔ اگر اسی مذہبی طبقے سے پوچھ لیا جائے کہ عثمانی خلیفہ کی4500 لونڈیا ں جائز تھیں تو یہ فتویٰ دینگے کہ قرآن میں بیگمات کی محدودتعداد مقرر ہے لیکن لونڈیوں کی تعداد متعین نہیں ہے۔ آج کی دنیا میں اسلامی خلافت کا یہ مذہبی تصور کافروں کیلئے تو بعیدازقیاس ہے مگر مسلمانوں کی اکثریت کیلئے بھی قابلِ قبول نہیں ہے۔ پھر جس سے زمین وآسمان والے سب خوش ہوں ،کونسی طرزِ نبوت کی خلافت کا تصور ہوسکتا ہے؟۔صحیح بخاری میں رسول اللہۖ ہی نے قرآنی آیت لاتحرموا ما احل اللہ لکم من الطیبٰت کی تفسیر کرتے ہوئے متعہ کو جائز قرار دیاہے۔ برطانوی وزیراعظم کی گرل فرینڈ کی حیثیت کو قرآن وسنت سے متعین کرنا ہوگا۔ نیز اللہ تعالیٰ نے لونڈی بنانے کو آل فرعون کا وطیرہ قرار دیا ہے جو بنی اسرائیل کیلئے بڑی سخت آزمائش تھی۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی نے آیت کی تفسیر میں بخاری کی حدیث نقل کرنی تھی مگر تفہیم القرآن میں عیسائیوں کی رہبانیت کا تصور پیش کیا گیا ہے۔قرآن میں لونڈی کوامہ اور غلام کو عبد قرار دیا گیا ہے اور ان سے نکاح کا تصور اور حکم بھی اجاگر کیا گیاہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ماملکت ایمانکم سے کیا مراد ہے؟ تو اسکا معنی ایگریمنٹ ہے اور اس ایگریمنٹ کا تعلق آزاد عورت کیساتھ بھی ہوسکتا ہے اور لونڈی وغلام کیساتھ بھی ۔ انسانی حقوق کی وجہ سے ہی دنیا میں مسلمانوں کو عروج حاصل ہوا تھا لیکن خاندانی بادشاہتوں نے نظریات کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا۔ ہم نے پہلے قرآن وسنت کے حقائق کو اجاگر کرنا ہوگا۔

قرآن وسنت میں کمزور کو حقوق دلانے میں بہت جلد جان چھڑانے کا تصورہے

مزدور کو اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے مزدوری دینے کا حکم ہے۔مزارعین کو پوری فصل دینے کا حکم ہے۔ عورت کی جان چھڑانے کیلئے عدت تک مصالحت کرنے کا حکم ہے ۔خلع کی صورت میں عورت کی عدت صحیح حدیث میں صرف ایک حیض ہے۔ ہاتھ لگانے سے پہلے بھی اگر عورت کو طلاق دی جائے تو مقرر کردہ نصف حق مہر دینے کا حکم ہے اور عورت پر عدت نہیں ہے۔ میاں بیوی کے درمیان ہی نہیں بلکہ عوام کے کسی بھی دو طبقے کے درمیان اللہ کے نام پر عہدوپیمان ، حلف اور کسی بھی قسم کے لغو الفاظ کو رکاوٹ ڈالنے سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے مگر مسلم اُمہ بالکل الٹے پاؤں قرآن کے احکام کے برخلاف چل رہی ہے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ بہت واضح الفاظ کے قرآنی احکام اور معاملات کو انتہائی غلط طریقے سے بگاڑ دیا گیا ہے۔
دورِجاہلیت کا ایک مسئلہ یہ تھا کہ ” جب عورت سے طلاق کے الفاظ کا اظہار نہیں کیا جاتا تھا تو وہ لامحدود مدت تک بیٹھی رہتی تھی”۔ دورِ حاضر کی عدالتوں میں بھی کمزور و مظلوم کو بہت رُلایا جاتا ہے مگر ہمارے ضمیر پر یہ بوجھ اسلئے نہیں بنتا کہ خواتین کیساتھ اسلام کے نام پر یہی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ بیوی سے ناراضگی ہو تو جب تک شوہر طلاق نہ دے تو وہ بیٹھی رہے گی۔
قرآن نے دورِ جاہلیت کا یہ تصور طلاق کے مسائل میں سرفہرست حل کیا۔ اللہ نے فرمایا کہ ” جو لوگ اپنی بیگمات سے ناراض ہیں تو ان کیلئے چار ماہ کا انتظار ہے، اگر انہوں نے صلح کرلی تو اللہ غفور رحیم ہے اور اگر انہوں نے طلاق کا عزم کیا تو اللہ سننے والا جاننے والا ہے”۔ (البقرہ: آیت227,226)۔اگر طلاق کا عزم تھا اور پھر اظہار نہیں کیا تو یہ دل کا گناہ ہے۔ اسلئے کہ طلاق کے اظہار کی صورت میں انتظار کی عدت4 ماہ نہیں3 ماہ ہے ،ایک ماہ کی اضافی مدت کی تکلیف پر طلاق کے عزم کی صورت میں پکڑ ہے۔ قرآن بالکل واضح ہے۔

فقہی مسالک کے نام پر قرآن کی واضح آیات سے انحراف نے تباہی مچائی ہے!

سورہ ٔ البقرہ کی آیات228,227,226,225میں یہ بالکل واضح ہے کہ اگر طلاق کا اظہار نہیں کیا تو عورت کی عدت 4ماہ ہے اور اگر طلاق کا اظہار کیا تو 3 مراحل یا 3 ماہ ہے۔اور اگر طلاق کا عزم تھا اور پھر اس کا اظہار نہیں کیا تو یہ دل کا گناہ ہے اور اس پراللہ کی پکڑ ہوگی۔
اسلام فطرت کا دین ہے اور قرآن کی یہ آیات فطرت کے مطابق بالکل واضح اور سب ہی کیلئے قابلِ قبول ہیں لیکن ان کی تفسیر یہ کی جاتی ہے کہ یہ ناراضگی نہیں صرف قسم کی صورت میں ہے جو بہت بڑی زیادتی ہے۔ امام مالک مدینہ کے باشندے تھے ،ان کے نزدیک بھی ایلاء کا تعلق قسم سے نہیں بلکہ قسم کے بغیر ناراضگی کو بھی ایلاء کہتے ہیں۔ مولانا سید مودودی نے بھی اس کا تفہیم القرآن میں ذکر کیا ہے۔ قرآن میں ابہام اور تضادات کا سوال پیدا نہیں ہوتاہے لیکن جمہور اور حنفی مسلک کے نام پر تفسیر کو جو غیرفطری رنگ دیا گیاہے وہ بڑاافسوسناک ہے۔
چنانچہ احناف کے نزدیک چار ماہ گزرتے ہی عورت کو طلاق واقع ہوجائے گی۔ پھر تعلق جائز نہیں ہوگا اور جمہور کے نزدیک جب تک طلاق کا اظہار نہیں کیا جائے تو طلاق واقع نہیں ہوگی۔ اختلاف کے نتیجے میں ایک طرف عورت نکاح سے نکل چکی ہوگی اور اس سے ازدواجی تعلق حرامکاری ہوگی اور دوسری طرف عورت بدستور نکاح میں ہوگی ، کسی اور سے نکاح کیا تو حرامکاری ہوگی۔ جب معاشرے میں ایک عورت کو جو کسی کی ماں ہوتی ہے، کسی کی بیوی ہوتی ہے ، کسی کی بہن ہوتی ہے اور کسی کی بیٹی ہوتی ہے اس قدر مشکلات میں ڈالا جائیگا تو یہ اسلام غیرمسلموں کیلئے قابلِ قبول ہوگا۔ ان اُلّوکے پٹھے علماء ومفتیان اور مذہب کے نام پر سیاست چمکانے والوں کو ریمانڈ دینے کی ضرورت ہے جنہوں نے قرآن کو غیرفطری تعلیم سے نقصان پہنچایا تھا۔ اب بھی ڈھیٹ اور مینسڑیں بنے بیٹھے ہیں اور ٹس سے مس نہیں ہوتے۔

قرآنی آیات کی غلط تفسیر کرنے کی اصل وجہ کیاہے؟۔ یہ سمجھ کر حیران ہوںگے!

قانون کا مقصد کمزور کا تحفظ ہوتا ہے۔ اللہ نے ناراضگی اور طلاق کی صورت میں عدت کا جو حکم دیا ہے تو عدت کا تعلق عورت سے ہی ہے اور عورت ہی کو تحفظ دینے کیلئے انتظار کی عدت ہے مگر حضرت امام مہدی علیہ السلام کے انتظار میں بیٹھے ہوئے گمراہ فقہاء نے کمزور عورت کو بحث سے بالکل خارج کردیا ۔ حنفی فقہاء کہتے ہیں کہ شوہرنے اپنا حق استعمال کرلیا اسلئے 4ماہ گزرتے ہی عورت طلاق ہوگئی اور جمہور کے نزدیک شوہرنے اپنا حق استعمال نہیں کیا اسلئے عورت بدستور نکاح میں ہے۔ کیا اللہ کی واضح آیات کے احکام میں اتنا بڑا تضاد ہوسکتاہے؟۔ نہیں !ہرگز نہیں!۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے عورت ہی کی عدت بیان کی ہے۔ اگر عورت چاہے توپھر اس عدت کے بعد آزاد ہے، دوسرے شخص سے نکاح کرسکتی ہے اور اگر عدت کے بعد بھی اپنی مرضی سے شوہرکیساتھ رجوع پر راضی ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی پابندی نہیں ہے۔
جن آیات اور احکام کی بدولت قرآن کے قوانین کو پوری دنیا میں رائج کیا جاسکتا ہے ان کا حلیہ بگاڑنے میں مذہبی طبقے نے نہ صرف اپنا کلیدی کردار ادا کیا ہے بلکہ اس غلط روش پر آج بھی اڑے ہوئے ہیں۔ ایک معاملے میں نہیں بلکہ معاشرتی حقوق ومعاملات کی ہر چیز بالکل تہہ وبالا کرکے رکھ دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک طرف عورت کی جان چھڑانے کیلئے آخری حد تک اس معاملے کی انتہاء کردی ہے اور دوسری طرف بار بار عدت میں ، عدت کی تکمیل پر اور عدت کی تکمیل کے عرصہ بعد رجوع کی گنجائش باہمی رضامندی سے رکھی ہے۔ دلائل پر دلائل ، مضامین پر مضامین اور کتابوں پر کتابیں شائع کردی ہیں لیکن حلالہ کی لعنت سے ان کی جان نہیں چھوٹ رہی ہے۔ہمارا معاشرتی نظام قرآن کے مطابق ہوتا تو دنیا کیلئے قابل فخر ہوتا مگرفقہاء نے قرآن کو پسِ پشت ڈال کر امت کو دنیا وآخرت میں مجرم کی حیثیت سے کھڑ اکیا

قرآن میں دنیاوی عذاب کا ذکر

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی ٹارگٹ کیوں؟ 

جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے اساتذہ بھی مفتی تقی پر تکیہ اور تقیہ کئے بیٹھے ہیں!

مفتی تقی عثمانی نے اپنی کتابوں” فقہی مقالات جلد چہارم” اور” تکملہ فتح المہلم” میں لکھ دیا تھا کہ ” علاج کیلئے سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا جائز ہے”۔ جبکہ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی سے ہم نے اسکے خلاف فتویٰ لیا تھا۔ پھر جب عرصہ بعد ڈاکٹر عبدالرزاق سکندرپرنسپل جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی نے سودکے نام پر اسلامی بینکاری کے خلاف لکھا تو ملک اجمل نے جنگ کے صحافی نجم الحسن عطاء کیساتھ ڈاکٹر صاحب کی جرأت کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے حاضری دیدی۔ لیکن ڈاکٹر صاحب نے گھبرا کر کہا کہ ” میں نے مفتی تقی عثمانی کے خلاف کچھ نہیں لکھا ہے، پہلے بھی میرے ایک شاگرد نے سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کے خلاف ہمارا فتویٰ شائع کیا تو مفتی تقی عثمانی ہم پر بہت برہم ہوگئے تھے۔ مفتی تقی عثمانی نے مولانا یوسف لدھیانوی پر بھی برہمی کا اظہار کیا تھا کہ مفتی محمود کے حوالہ سے اپنی تحریر میں پان و گولی کھلانے کا ذکر کیوں کیا تھا؟۔ طلاق کے مسئلے پر مفتی نعیم کو بھی مفتی تقی عثمانی نے ڈانٹا تھا اور مولانا انور بدخشانی مدرس جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی نے کہا کہ مفتی تقی عثمانی ہی کا سکہ چلتا ہے۔

مولانا فضل الرحمن بھی شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی کو بڑا قابل عالم سجھ رہے ہیں

طلاق وحلالہ کے غلط فتوؤں اور درسِ نظامی کے علاوہ حال ہی میں ” آسان ترجمہ قرآن” میں فاش غلطیوں کے ارتکاب میں مفتی تقی عثمانی نے ایک سرغنہ کا کردار ادا کیا ہے۔ علماء کرام کو ثالثی کی پیشکش ہم کررہے ہیں۔ صحافی موسیٰ خان خیل شہید کے بھائی مفتی احمدالرحمن کے داماد سے جامعہ بنوریہ عالمیہ سائٹ میں درسِ نظامی کے نصاب اور طلاق وحلالہ کے حوالہ سے ہماری بات ہوئی تھی لیکن جامعہ بنوری ٹاؤن کے اکابر علماء پہلے سے ہی اپنی بے بسی کا اظہار کر رہے تھے ،اسلئے وہاں بحث ومباحثہ کیلئے جانا مناسب نہیں سمجھا۔ وہاں بدمعاش لوگ پہلے بھی صاحبزادہ مولاناسید محمد بنوری کو شہید کرچکے تھے اور اسکا الزام شریف النفس ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر پر لگا رہے تھے۔ ہم نے ٹانک شہر میں ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کے مقتدر علماء کرام کو بات کرنے کیلئے دعوت دی تھی تو مولانا فضل الرحمن نے اس اجتماع میں رکاوٹ کا خفیہ طور پر اظہار کیا ،پھرہم نے بالمشافہہ مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کی ،کافی لیت لعل کے بعد اس نے سید عطاء اللہ شاہ منتظم معارف شرعیہ کو جانے کا حکم دیا مگر ڈیرہ اسماعیل خان سے علماء کرام وعدے کے باوجود نہیں آئے تھے۔ ٹانک کے اکابر علماء نے میرا مؤقف سننے کے بعد کھل کر حمایت کرنے کا اعلان کیا اور پھر ایک جلسہ عام میں بھی حمایت کردی جس کو ہم نے اخبار میں شہہ سرخیوں سے شائع کیا تو ڈیرہ کے علماء نے اخبار میں حمایت دیکھنے کے بعد رکاوٹ ڈالنے کا پرواگرام بنایا۔ اگلی مرتبہ جھگڑا کیا۔ پھر طے ہوا کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹانک سے مولانا فتح خان اور مولاناعبدالرؤف بھی آئیںگے اور مولانا علاء الدین کے مدرسہ نعمانیہ میں ایک نشست رکھیںگے لیکن پھر انہوں نے حالات خراب کردئیے اور حکومت نے ٹانک کے علماء پر پابندی لگادی اور ہمیں 16ایم پی اے کے تحت گرفتار کرنے کا آرڈر جاری کیا تھا

مولانا عطاء الرحمن نے مولانا شیرانی کے سامنے علمی بحث سے راہِ فرار اختیار کی

مولانا شیرانی اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمیں تھے تو قصر ناز میں مولانا عطاء الرحمن اور قاری عثمان سے بھی اچانک ملاقات کا موقع ملا تھا، وہ لوگ ریاستِ پاکستان کا مذاق اڑارہے تھے اور جب مجھ سے رائے پوچھی تو میں نے درسِ نظامی میں قرآن کی تعریف کا کہا کہ جب تم لوگ قرآن کو نہیں مانتے۔ المکتوب فی المصاحف سے مراد لکھی ہوئی کتاب(قرآن) مُراد نہ ہو تو قرآنی آیات اور لکھی ہوئی کتاب کا انکار لازم ہے ،جس کیوجہ سے اس کو پیشاب سے لکھنا بھی جائز قرار دیتے ہو۔جب نقل متواتر سے غیر متواتر آیات نکل گئیں تو قرآن کی حفاظت کا عقیدہ کہاں باقی رہتا ہے؟۔ جب بلاشبہ کی قید سے بسم اللہ نکل گئی تو ذلک الکتاب لاریب فیہ پر ایمان کہاں باقی رہتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے بھائی مولانا عطاء الرحمن نے کہا کہ جب بھوکے کو روٹی نہیں مل رہی تھی تو دوسرے نے کہا کہ پراٹھے کیوں نہیں کھاتا؟۔ ہم پاکستان کی بات کررہے تھے ، یہ اپنا مقصد قرآن لیکر آگیا۔ حامد میر جب روزنامہ اوصاف اسلام آباد کے ایڈیٹر تھے توڈیرہ اسماعیل خان میں علماء کے چیلنج کو قبول کرنے کی بجائے میرے بھاگنے کی خبر اس نے لگائی تھی اور پھر دوسرے دن میرے جواب کی بھی چھوٹی سی خبر شائع کی تھی۔
اسکائپ کے ذریعے بھی الیکٹرانک میڈیا پر حقائق کو سامنے لانے کا اہتمام ہوسکتا ہے۔ مفتی تقی عثمانی نے اپنی کتابوں سے ” سورۂ فاتحہ ” کو پیشاب سے لکھنے کا جواز نکالنے کا اعلان کیا تھا لیکن اسکے بعد وزیراعظم عمران خان کے نکاح خواں” مفتی سعید خان”نے اپنی کتاب ”ریزہ الماس” شائع کی جس میں سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کے جوازکا دفاع کردیاہے۔
درسِ نظامی کے نصاب پر امریکہ کی طرف سے کوئی دباؤ ہے یا نہیں لیکن ہم ایمان کا تقاضہ سمجھتے ہیںکہ علماء ومفتیان کودرسِ نظامی درست کرنیکا فریضہ بہر صورت ادا کرنا چاہیے۔

سورۂ مدثر، سورۂ دھر کیلئے قرآن کی دوسری سورتوں کوپیشِ نظر رکھ کرہی سمجھنا ہوگا!

قرآن کی سورۂ القلم میں بسم اللہ کے بعدن والقلم ومایسطرونOوانت بنعمة ربک بمجنون O وانَّ لک لاجرًا غیرممنونO وانک لعلیٰ خلق عظیمOفستبصرویبصرونO بایکم المفتونOان ربک ھو اعلم بمن ضل عن سبیلہ وھو اعلم بالمھتدین O”ن۔ قسم ہے قلم کی اور جوسطروں میں ہے۔ نہیں آپ اپنے رب کی نعمت سے مجنون۔ آپ کا مشن اجر ہے نہ ختم ہونے والا۔ اور آپ اخلاق کے عظیم رتبے پر ہیں۔سو عنقریب آپ دیکھ لیںگے اور وہ بھی دیکھیںگے کہ کون مبتلا ہے؟۔ بیشک تیرا رب جانتا ہے کہ جو راہ سے ہٹا ہے اور وہ ہدایت والوں کو بھی زیادہ جانتا ہے”۔اللہ تعالیٰ قلم اور سطروں میں لکھی ہوئی کتاب کی قسم کھارہاہے لیکن علماء کو فقہ واصول کی باطل تعلیم سے فرصت نہیں کہ قرآن کی تعریف کا غلط معاملہ سمجھ کر درست کرلیں۔ مشرکین نے نبیۖ کو مجبون قرار دیا، اور کہا کہ عنقریب آپ کا مشن ملیامیٹ ہوجائیگا۔ آپ کے اخلاق اچھے نہیںمگر اللہ نے ان کی سب باتوں کو بالکل رد کردیاتھا۔ہر بات آخرت پر نہیں چھوڑی بلکہ دنیا میں ہی نتائج سے آگاہ کردیاکہ عنقریب پتہ چل جائیگا کہ جنون اور بداخلاقی میں کون مبتلاہے اور کون ہدایت پر اور کون گمراہ ہے۔ سورۂ مدثر، سورۂ دھر میں بھی دنیاوی انقلاب ہی کا ذکر ہے مگر علماء نے اس کی غلط تفسیر کرکے آیاتِ قرآنی کے اصل معانی کو ہوا میں اڑادیا ہے۔ قرآن میں زمینی حقائق کے حوالہ سے بھی قرونِ اولیٰ اور اسلام کی نشاة ثانیہ کے انقلابات کی خبر یں ہیں۔
جب باطل قوتوں کا غلبہ ہوتا ہے تو ہتھیار کے بغیر بھی اہل حق الزامات کی زد میں ہوتے ہیں۔ شریف کو مجنون، اخلاق وآداب کے منافی قرار دیا جاتا ہے مگر پھر وہ وقت دور نہیں ہوتا ہے کہ اہل حق غالب اور باطل ناکام ہوتے ہیں۔ قرآن میں بہترین رہنمائی ہے۔

سورۂ قلم کی تفصیل سے ظاہر ہے کہ آخرت سے پہلے دنیا میں مجرموں کا پتہ چلے گا

اورارشادفرمایا:فلاتطع المکذبینOودّوالوتدھن فیدھنونO و لا تطع کل حلاف مھینOھمازٍ مشائٍ بنمیمOمناعٍ للخیرِ معتدٍ اثیمOعتلٍ بعد ذلک زنیمٍOو ان کان ذامالٍ وبنینٍOاذتتلٰی آےٰتنا قال اساطیر الاولینO سنسمہ علی الخرطومOانا بلونٰھم کما بلونآ اصحٰب الجنة اذا اقسموا لیصرمنھا مصبحینO”لہٰذا ان جھٹلانے والوں کی بات نہ مانو۔ یہ توچاہتے ہیں کہ آپ کچھ مداہنت کریں تو یہ بھی مداہنت کریں۔ہرگز بات نہ مانو، ہر ایک بہت قسم کھانے والے ہلکے آدمی کی، طعنہ دینے والے،چغلیاں کھانے والے کی،خیر کیلئے رکاوٹ کھڑی کرنیوالا، حدسے گزرا ہوا گناہ گار، کھاؤ پیو جھگڑالوبدخلق اور بداصل ۔گرچہ وہ مال و اولاد رکھتا ہے۔ جب ہماری آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو کہتا ہے کہ یہ تو پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں۔ عنقریب ہم اس کی سونڈ پر داغ لگائیںگے۔ ہم نے ان کو اس طرح آزمائش میں ڈالا۔ جس طرح جنت( باغ ) والوں کو آزمائش میں ڈالا تھا۔ جب انہوں نے قسم کھائی کہ ہم صبح ضرور اس کا پھل توڑیںگے”۔
سورۂ قلم کی ان آیات میں جھٹلانے والوں کے دباؤ میں آنے سے منع کیا۔ جو چاہتے تھے کہ آپۖ ڈھیلے ہوں تو وہ بھی ڈھیلے پڑیں۔ باطل گھناؤنی صفات رکھتے تھے۔ مال و اولاد کے زعم میں مبتلاسمجھتے تھے کہ آیات پرانے قصے ہیں مگر اللہ نے واضح کیا کہ” عنقریب اس کی سونڈ کو داغ دینگے” سونڈ سے مراد ناک، چہرہ ہے جو دنیاوی عزت ، جاہ وجلال ہوتاہے۔
سورہ ٔ قلم میں پھر جنت(باغ) والوں کا قصہ ہے جو اپنی نعمت کھونے کے بعد ایکدوسرے کی ملامت کررہے تھے۔ کذٰلک العذاب ولعذاب الاخرة اکبر ”ایسا ہی ہوتاہے عذاب اور آخرت کا عذاب اس سے بڑا ہے”۔دنیاوی انقلاب بالکل واضح ہے۔

پہلے رکوع کے بعد سورۂ قلم کے دوسرے رکوع کی چیدہ چیدہ آیات ملاحظہ کریں

ان للمتقین عند ربھم جنّٰت النعیمOافنجعل المسلمین کالمجرمینOما لکم کیف تحکمونOام لکم کتٰب فیہ تدرسونOانّ لکم لما تخیّرونO ام لکم اَیمان علینا بالغة الیٰ یوم القیامة ……”بیشک پرہیزگاروں کیلئے ان کے رب کے پاس نعمتوں والے باغات ہیں۔ کیا ہم حق قبول کرنے والوں سے مجرموں کا سا سلوک کرینگے؟۔تمہیں کیا ہوا ہے، کیسا فیصلہ کرتے ہو؟۔ کیا تمہارے پاس کوئی کتاب ہے جس کا تم درس دے رہے ہو؟اور اس میں تمہارے لئے ہے کہ تمہارے پاس اپنے لئے اختیار ہوگا؟۔ یا تمہارا ہمارے ساتھ کوئی عہدوپیمان ہے جو قیامت تک جو چاہو اپنے لئے فیصلہ کروالو؟”۔
فذرنی ومن یکذّب بھٰذالحدیث سنستدرجھم من حیث لایعلمون ….. ……”پس مجھے اور اس بات کو جھٹلانے والوں کو آپ چھوڑ دیں۔ ہم درجہ بہ درجہ انہیں لے جائیںگے جسکا ان کو پتہ بھی نہ چلے گا۔ میں ان کو مہلت دیتا ہوں اور میری تدبیر مضبوط ہے۔ کیا آپ ان سے کوئی معاوضہ طلب کرتے ہو،جسکے بوجھ تلے وہ دبے جارہے ہیں؟۔کیا ان کے پاس کوئی غیب ہے جس سے وہ لکھ رہے ہوں؟۔ پس آپ اللہ کے حکم کا انتظار کریں اور مچھلی والے کی طرح نہ بنیں۔جب اس نے پکارا تھا اور پھر مغموم تھا۔ اگر اپنے رب کی نعمت اس کو نہ ملتی تو چٹیل میدان میں پھینک دیا جاتا اور وہ دبوچا ہوا ہوتا۔ پھر اللہ نے اسے چن لیا اور اس کو صالحین میں سے بنایا۔ اور قریب ہے کہ جنہوں نے کفر کیا کہ اپنی آنکھوں سے پھسلادیںجب یہ ذکر کو سنتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بیشک یہ مجنون ہے اوریہ اور کچھ نہیں مگر تمام جہانوں کیلئے نصیحت ہے”۔ سورۂ قلم میں جہاں قرآن کیلئے مہم جوئی کرنیوالے متصدقین اور مخالفین مکذبین کا حال ہے وہاں دنیا میں بھی سزا اور جزاء کی بھرپور وضاحت ہے۔

عذاب وجنت سے آخرت ہی نہیں بلکہ دنیامیں بھی جزاء وسزا مراد ہوتی ہے!

قرآن میں جہاں دنیا کا عذاب یا جنت مراد ہواور اس سے آخرت مراد لی جائے تو قرآن سمجھ میں نہیں آئیگا۔ قرآن صرف آخرت کے عذاب اور جنت کی کتاب نہیں بلکہ اس کامفہوم درست پہنچانے کا نتیجہ دنیاکوجنت بناسکتا ہے اور اسے جھٹلانے کا عذاب دنیا میں مل سکتا ہے۔
قرآن کو جھٹلانے والوں کا سب سے بڑا وطیرہ دنیاوی مفادات اور آخرت کا انکار یا مفت میں اپنے لئے آخرت میں اپنی مرضی کے فیصلے۔ سورۂ قلم میں تفصیل سے اس کا ذکر ہے۔ اس کو تدبر کیساتھ پڑھنے کے بعد ذہن کھل جائیگا۔ مال اور اولاد کو ترجیح دیتے ہوئے آیات کیلئے پُرانے قصے کہانیوں کی سوچ رکھنے والے کیلئے ہے کہ ” عنقریب ہم اس کی سونڈ پر داغ لگائیں گے”۔ سورۂ مدثر اور سورۂ دھر کے علاوہ کئی سورتوں میں دنیاوی عذاب، قرآنی انقلاب ، اسلام کی نشاة اول اور نشاة ثانیہ کے حوالے یوم الفصل اور جزاء وسزا کابالکل بہت واضح ذکرہے۔
مفتی تقی عثمانی نے اپنے مال اور اولاد کیلئے بینکوں کو اپنا ٹھکانہ بنالیاہے۔ سودی نظام کو جائز قراردینے کی معصیت سے توبہ کئے بغیر قرآن وسنت کی طرف رجوع نہیں ہوسکتا۔(

 

جب قرآن وسنت فرقوں، مسلکوںاور گروہوں میں بٹ گیاتو امت کا زوال آیا!

قرآن کریم میں آخرت کا تصور تو بالکل اپنی جگہ پر واضح ہی ہے لیکن قرآن کیلئے مصدقین و مکذبین کا کردار ادا کرنے والے دنیا میں ہی فلاح پاتے ہیں یا اپنے انجام کو پہنچتے ہیں۔جب قرآن موضوعِ بحث تھا تو فتح مکہ اور سپر طاقتوں کو شکست دینے والے قرونِ اولیٰ کے مسلمان پوری دنیا سے اپنے عقائد اور اعمال کی بدولت ممتاز تھے۔ البتہ جب خلافتِ راشدہ کے بعد حکومت پر بنی امیہ، بنی عباس اور ترکی خاندان سلطنت عثمانیہ کا قبضہ ہوا۔ ہندوستان میں مغل تو افغانستان میں ایکدوسرے کا خون کرنے والے بادشاہ تھے تو اسلام کی حقیقی تعلیمات کا وجود نہیں تھابلکہ بادشاہوں کے مرغے شیخ الاسلامی کے عہدوںپر قاضی القضاة کا کردار ادا کرتے تھے، جو حق کہنے والوں کو گردن زدنی، جیل، کوڑوں اور جلاوطنی کی عبرتناک سزادیتے۔
اورنگزیب عالمگیر نے اپنے بھائیوں کو قتل اور باپ کو قید کردیا تھا مگر جب شاہ ولی اللہکے والد شاہ عبدالرحیم سمیت پانچ سو جید،مستند، معروف اور تقویٰ وپاک دامنی کے نجوم، آفتاب و مہتاب نے فتاویٰ عالمگیریہ مرتب کیا تو اس میں بادشاہ کیلئے قتل، زنا، چوری، ڈکیتی اور ہرقسم کی حد اور سزا معاف کردی اور حیلہ یہ ڈھونڈ نکالا کہ ”بادشاہ تو خود ہی دوسروں پر حد نافذ کرتا ہے مگر اس پر کون حد نافذ کردیگا؟۔ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا،اسلئے بلّا دودھ پی جائے تو معاف ہے”۔ انگریز نے تسلط حاصل کیا تو آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد جن جماعتوں اور فرقوں نے ایکدوسرے کیخلاف محاذ کھولے ہیں ان میں حق وباطل سے زیاد اپنے گروہی و فرقہ وارانہ مفادات ہیں۔ بریلوی،دیوبندی، اہل تشیع، اہلحدیث ، جماعت اسلامی، پرویزی اور انواع واقسام کے نت نئے فرقے طلوع وغروب ہوتے رہتے ہیں۔ مرزائیوں کو پہلے بھی کافر سمجھا جاتا تھا مگر مولانا احمد رضاخان بریلوی تو دوسروں کو قادیانی جیسا سمجھتے تھے

 

حق وباطل کی کشمکش مسلکوں اور فرقوں کی بنیاد پر نہیں ہوتی بلکہ قرآن کی بنیاد ہے

دارالعلوم دیوبند کے شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے مالٹا جیل سے رہائی کے بعد اُمت کے زوال کے دواسباب قرار دئیے۔ایک قرآن سے دوری اور دوسرا فرقہ واریت۔ مفتی محمد شفیع نے کہا کہ ” یہ دراصل ایک ہی سبب ہے۔ قرآن سے دوری۔ فرقہ واریت بھی قرآن سے دور ہونے کے سبب سے ہے”۔ دارالعلوم کراچی میں مفتی شفیع کے داماد مفتی عبدالرؤف سکھروی کو جاندار کی تصویر ناجائز لگتی ہے جبکہ مفتی تقی عثمانی کا فتویٰ اسکے منافی ہے۔ ایک شادی بیاہ میں تصاویر کھینچوانے پر اپنے مریدوں کو سخت ترین عذاب کی وعیدیں سناتا ہے اور دوسرے کی اپنی ویڈیوز مسجد میںبنتی ہیں۔ایک شادی بیاہ میں لفافے کی لین دین کو سود اور اسکے کم ازکم گناہ کو اپنی ماں سے زنا کے برابر قرار دیتا ہے اور دوسرے نے اسلامی نام پر سودی بینکنگ کا کاروبار اپنا مشن بنایا ہواہے۔ ایک علم آفتاب اور دوسرا تقویٰ کا مہتاب ہے۔ ماشاء اللہ چشم بد دور۔
شیخ الہند کے شاگرد مولانا عبیداللہ سندھی نے قرآن کی طرف دعوت دی تو ان کو پاگل اور گمراہ قرار دیا گیاتھا لیکن آخر کار مولانا انور شاہ کشمیری نے معافی طلب کرلی اور اعلانیہ کہا کہ ”ہم نے قرآن وسنت کی خدمت نہیں کی بلکہ مسلکوں کی وکالت کرکے زندگی ضائع کردی”۔ مولانا الیاس نے امت کا درد لیکر تبلیغی جماعت کے ذریعے دنیا میں دعوت کا کام عام کردیا مگر جماعت نے بستی نظام الدین مرکز سے بھی جان چھڑائی اور اب کوئی امیر بھی نہیں ہے۔ جب دارالعلوم دیوبند میں مولانا حسین احمد مدنی کے صاحبزادوں اور قاری طیب اور مولانا انور شاہ کشمیری کے صاحبزادوں میں مہتمم کے عہدے پر جھگڑا ہوا تو دارالعلوم دیوبند دوٹکڑے ہوگیا۔ آج تک مولانا سید محمد بنوری شہید کے قاتلوں کا بھی سراغ نہیں مل سکا لیکن وہ کونسے بدمعاش ہیں جو اتنے مضبوط بن گئے ہیں؟۔کیامولانا امداداللہ مردانی بتاسکتے ہیں قاتل؟۔

 

مدارس پر بدمعاشوں اور مافیاز کے قبضے ہیں، یہی حال تبلیغی جماعت کا لگتاہے!

مولانا الیاس نے تبلیغ کا کام شروع کیا تو اپنوں سے زیادہ غیروں نے پذیرائی بخش دی تھی اور یہ بات میں رجماً بالغیب نہیں کہتا ہوں بلکہ بچپن میں جب تبلیغی جماعت میں وقت لگایا تھا تو بریلوی مساجد کے بعض ائمہ بھی تبلیغی جماعت کو غیرمتنازع کہتے تھے۔ ہمارے مرشد حاجی عثمان کراچی کی جس مسجد میں عصر سے عشاء تک بیان کرتے تھے تو اسکے خطیب وامام مشہور مبلغ مولانا شفیع اوکاڑوی تھے، جس کو تعصبات پھیلانے پر مسجد کے متولی نے بروزِ جمعہ منبر سے اتارا اور حاجی عثمان سے تقریر کرنے کاکہا اور اوکاڑوی صاحب کو بتایا کہ تقریر ان سے سیکھ لو۔ پھر آہستہ آہستہ مولانا اوکاڑوی نے بستر گول کیااور مسجد نور جوبلی رنچھوڑ لائن کو چھوڑ کر گلزار حبیب مسجد کارُخ کیا۔ جہاں سے مولانا الیاس قادری نے دعوت اسلامی کا آغاز کیا تھا۔
پہلے تو اکابر اللہ والے ہوا کرتے تھے،اب جوکروں نے مشیخت کا لباس زیب تن کیا ہے۔ تبلیغی جماعت ، دعوت اسلامی اور مدارس کے علاوہ تمام مذہبی جماعتوں کے نیک لوگ امت کا بہت بڑا اثاثہ ہیں مگر انکے بڑے اکابر نے دانستہ یا نادانستہ طور پر مفادات کو شغل بنایا ہے۔
ہرمکتب فکر، گروہ، جماعت اور تنظیموں میں اچھے برے لوگ ہیں۔ اچھوں کی تعداد بروں کے مقابلے میں زیادہ ہی ہوتی ہے لیکن بدمعاش طبقہ سب پر غالب رہتا ہے اور پیدا گیر قسم کا ٹولہ ہمارے شیخ حاجی عثمان کی خانقاہ پر بھی براجمان تھا۔ مولانا فضل الرحمن کی حاجی عثمان کے خلیفہ سروربھائی النور والے نے دعوت کی تھی تومجھ سے جمعیت والوں نے پوچھا، میں نے کہا کہ ڈٹ کر کھاؤ، اچھا آدمی ہے۔ پھر ان کو جمعیت کا فیڈرل بی ایریا کا امیر بنانے کی تجویز آئی تو میں نے منع کردیاکہ ”یہ خبیث سدھرے گا، گدھے کی طرح کارکن بناکر اس سے کام لو”۔ میں نے کہا کہ دوسرے خلفاء بھی ایسے ہی ہیں تو سب حیران تھے مگر پھر ثابت ہوا۔

 

حاجی عثمان کے خلفاء ٹی جے ابراہیم اور الائنس موٹرز کے کرتے دھرتوں کا حال

طیب، جاوید ، ابراہیم نے 1500ر وپے سے چائے کا مشترکہ کام شروع کیا، حاجی عثمان نے دعا دی اور وعدہ لیا کہ اپنی ضروریات کے علاوہ منافع دین کیلئے خرچ کروگے۔ برکت کی انتہاء ہوگئی تو یتیم اور بیواؤں کا سرمایہ بھی شریک کرلیا۔ علماء ومفتیان نے اپنا سرمایہ بھی لگانے کی استدعا کردی۔ حاجی عثمان نے کمپنی کو شرعی قوانین مرتب کرکے اجازت دی۔ مضاربہ کی کمپنی کی یہ شرائط تھیں کہ ” 40 فیصد منافع سرمایہ کار اور60کمپنی کا ہوگا۔سرمایہ واپس لیتے وقت ایک ماہ پہلے اطلاع دینی ہوگی اور اس اطلاعی مدت کا منافع نہیں ملے گا”۔ جبکہ کمپنی کا ایجنٹ بھی سرمایہ کار سے 2فیصد منافع لیتا تھا۔ بڑے علماء ومفتیان سب ایجنٹ بن گئے تھے۔ حاجی عثمان کی خانقاہ پر جلی حروف سے لکھا تھا کہ ” رسول اللہ ۖ تشریف لائے اور فرمایا کہ حاجی محمد عثمان کا کوئی مرید ضائع نہ ہوگا،الّاا سکے جو اخلاص سے نہ جڑا۔ خلیفہ اول محمدابراہیم”۔
پھر حاجی عثمان نے تبلیغی جماعت کی طرف سے ٹی جے ابراہیم سے لاتعلقی کااظہار کرنے کے بعد کمپنی کو بند کرنے کا حکم دیا لیکن انہوں نے نام بدل کر ”الائنس موٹرز” رکھ دیا۔ پھر پتہ چل جانے سے بچنے کیلئے بڑے گر استعمال کئے اور آخر کار حاجی عثمان کو بیماری کا جھوٹ بناکر گھرمیں نظر بند کردیا گیا۔ چہیتوں نے آنکھیں پھیر یں اور بدمعاشی پر اتر آئے۔ اکابر علماء و مفتیان نے الائنس موٹرز کے کرتے دھرتوں کا ساتھ دیا، لوگوں کا سرمایہ پھنسا بیٹھے تھے لیکن سازش، اسلام کو غلط استعمال کرنیکی بھی حد ہوتی ہے، انہوں نے تمام حدود پھلانگ لئے تھے مگرحاجی عثمان پر اللہ تعالیٰ کا یہ انعام تھا جو سید عتیق الرحمن گیلانی جیسا مرید بھی عطاء کیا تھا۔ ہم ان فتوؤں پر علماء ومفتیان کا شکریہ ادا کرتے ہیںکیونکہ حاجی عثمان کی شخصیت کے گرد حصار ٹوٹنے سے کئی بڑوں کے چہروں سے نقاب اترا،البتہ قرآن کی طرف توجہ دینی ہوگی۔

 

سورہ المطففین کے پہلے رکوع کی چیدہ چیدہ آیات ملاحظہ کریں

ویل للطففینOالذین اذا اکتالوا علی الناس یستوفونOواذا کالوھم او وزنوھم یخسرونOالایظن اولٰئک انھم مبعوثونOلیوم عظیمOیوم یقوم الناس لرب العٰلمینOکلا ان کتاب الفجار لفی سجینOوماادراک ما سجینOکتاب مرقومO ویل یومئذٍ للمکذّبینOالذین یکذبون بیوم الدینOومایکذب بہ الاکل معتدٍ اثیمٍOاذا تتلٰی علیہ آیٰتناقال اساطیر الاولینOکلا بل ران علی قلوبھم ماکانوا یکسبونOکلا انھم عن ربھم یومئذٍ لمحجوبون Oثم انھم لصالوا الجحیمOثم یقال ھٰذا الذی کنتم بہ تکذبونO”تباہی ہے کمی کرنے والوں کیلئے جب لوگوں پر بانٹنے کیلئے تولتے ہیں تو پورا پورا حساب شمار کرتے ہیں اور جب چندہ بٹورنے کیلئے ناپ یا تول کا حساب لگاتے ہیں تو اس میں گھٹانے کا کام کرتے ہیں۔ کیا ان کو یہ گمان نہیں کہ ایک دن ان کی پیشی ہونے والی ہے،ایک بڑے دن کیلئے۔ جس دن لوگ کھڑے ہونگے اپنے رب العالمین کے سامنے؟۔ ہرگز نہیں،فاجروں کا حساب کتاب جیلوں میں ہوگا اور تمہیں کیا معلوم کہ جیل کیا ہے؟۔ لکھے ہوئے رجسٹر ہونگے۔ وہ دن تباہی کاہوگا جھٹلانے والوں کیلئے۔ جو جھٹلاتے ہیں ،آخرت کے دن کے ذریعے( کہ حساب کتاب وہاں ہوگا) اور اس کے ذریعے سے کوئی نہیں جھٹلاتا مگر ہر حد سے گزرا ہوا گناہگار۔ جب اسکے سامنے ہماری آیات کو تلاوت کیا جاتا ہے تو کہتا ہے کہ یہ پرانے لوگوں کے قصے ہیں۔ ہرگز نہیں بلکہ انکے دلوں پر زنگ چڑھ گیا ہے۔ جو انہوں نے کمایا ہے اسکے سبب۔ ہرگز نہیں ،اس دن وہ اپنے رب سے حجاب میں ہونگے۔ پھر یہ جحیم میں پہنچ جائینگے اور ان سے کہا جائیگا کہ یہ وہی ہے جسکے ذریعے سے تم جھٹلاتے تھے”۔

 

آج چندہ لیاجارہاہے اور اسلامی انقلاب کے عظیم دن حساب کتاب بھی ہوگا

قرآن بہت واضح عربی زبان میں ہے۔ پوپ فرانس سے لیکر امریکی جوانوں تک مظالم کا احساس ہوگیا ہے۔ کرونا وائرس کے متاثرین کیلئے چندوں کی ضرورت ہے ،چندہ لینے والے کہہ سکتے ہیں کہ دنیا میں نہیں آخرت میں ہم اپنا حساب کتاب دیںگے۔ وہ اپنی بداعمالیوں کو آخرت کی سزا اور جزا سے جوڑ کر اپنی جان چھڑاتے ہیں۔ برے لوگوں کا حساب کتاب جیل ہے اور انکا اعمالنامہ رجسٹر میں درج ہوگا۔ حکمرانوں ، سیاستدانوں، جرنیلوں،آفیسروں کے علاوہ این جی اوز، مذہبی وسیاسی جماعتوں اورسماجی کارکنوں میں نیک وبدکی تفریق کا حساب دنیا ہی میں سامنے آئیگا۔ نسل، رنگ، زبان، ملک اور مذہب کی تفریق کے بغیر اچھے لوگوں کی قدرومنزلت دنیا ہی میں ہوگی۔ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کی نشاة ثانیہ کیلئے بنایا ہے۔
عالمی اسلامی نظام کی طرف دنیا کا سفر شروع ہے۔ شدت پسندی ،فرقہ پرستی اورمفاد پرستی اپنے انجام کو پہنچنے والی ہے۔ انشاء اللہ۔ زنگ آلودہ دلوں کے فتح ہونے کا وقت آگیا ہے اور سب کا اعتقاد قرآن کے مطابق بنے گا کہ ذرہ برابر شرہو یا خیر اس کو انسان دیکھے گا۔

 

سورۂ مطففین میں دنیاوی انقلاب عظیم کا بھی ذکر ہے، علماء ومفتیان غور کرینگے؟

جب رسول اللہ ۖ کے دور میں مکہ فتح ہوا، انقلاب عظیم آگیا تو لوگ فوج در فوج اسلام کو قبول کرکے اسلام میں داخل ہونے لگے مگر وہ اپنے رب سے حجاب میں تھے۔ ابوسفیان و دیگر افراد کیلئے معافی عام کا اعلان نارِ نمرود سے کم نہیں تھا۔ نبیۖ کا وصال ہوا تو بہت لوگ فوج در فوج پھر اسلام سے مرتد ہوگئے۔ ابراہیم علیہ السلام کیلئے کافروں کا فیصلہ جحیم میں ڈالنے کاتھا مگر اللہ نے آگ کو سلامتی والا ٹھنڈا بنادیا۔ نبیۖ نے فتح مکہ پر معافی دی۔ کافر ومؤمن میں یہ فرق ہے کہ کافر آگ میں جھونکتے ہیں اور مسلمان معاف کرنے کوہی اپنا شعار سمجھتے ہیں۔
کلا ان کتٰب الابرار لفی علیینO………………ھل ثوّب الکفار ماکانوا یفعلونO”ہرگز نہیں! نیکی کرنیوالوں کارجسٹر بلند پایہ مقام پر ہوگا۔ اور آپ کو کیا معلوم کہ بلند پایہ مقام کیا ہے؟۔ یہ ایک لکھا ہوا رجسٹر ہے جس کا مشاہدہ مقربین کرینگے۔ (اسلامی انقلاب کے بعد اعلیٰ ترین لوگ) بیشک نیکی کرنے والے مسندوں پر بیٹھ کر نظارے دیکھتے ہونگے۔ انکے چہروں پر آپ نعمتوں کا نظارہ دیکھوگے، ان کو سیل بند اعلیٰ شراب پلائی جائے گی جس پر مشک کی سیل ہوگی۔ اس میں رشک والے ہی ایکدوسرے پر رشک کرینگے۔ جسکاوصف تسنیم ہوگا، یہ چشمہ ہوگا جس سے مقرب لوگوں کو پلایا جائیگا۔ بیشک مجرم لوگ ایمان والوں پر ہنستے تھے اور جب انکے قریب سے گزرتے تھے تو اشارہ بازی کرتے تھے۔ جب وہ اپنے گھروں میں لوٹتے تھے تو مزے لیتے تھے۔ جب وہ انکو دیکھ لیتے تھے تو کہتے تھے کہ یہ وہ گمراہ لوگ ہیں اور ان پر انکو نگران بناکر نہیں بھیجاگیا تھا۔ تو آج ایمان والے کفر والوں پر ہنسیں۔مسندوں پر بیٹھ کر نظارہ دیکھیں۔ کیا کفار کو ثواب مل گیا جو وہ کرتے تھے؟”۔ یہ سورة المطففین عظیم انقلاب کی خبر دے رہی ہے۔ کاش دنیا اس کو سمجھنے کی کوشش کرے۔

 

جس انقلاب عظیم سے زمین اور آسمان والے دونوں خوش ہوں تو اسکاذکرہے؟

سورۂ مطففین میںان ایمان والوں کا بھی ذکر ہے جس کو دیکھ کر جھٹلانے والے ہنستے تھے۔ خلافت علی منہاج النبوة کے قیام میں سیدھے سادے مگر مخلص لوگوں کا بنیادی کردار ہوگا، جن لوگوں نے قرآن کے واضح احکام کے باوجود بھی ان کو قبول کرنے سے انکار کیا ہوگا تو کفرکے معنی ہی اصل میں انکار کرنے کے ہیں۔ عربی میں منکرین کا ترجمہ الذین کفروا ہے۔جس جگہ حق کا پرچار کیا جائے تو ایک منکرین کا درجہ ہوتا ہے اور دوسرا مکذبین کا درجہ ہوتا ہے۔ جن لوگوں نے مکذبین کا مقام حاصل کیا ہوتا ہے تو وہ منکرین سے بھی سخت ہے۔
اگر دنیا میں طرزِ نبوت کی خلافت قائم ہوجائے تو پھر لوگ دو حصوں میں تقسیم ہونگے،ایک فجار(حقوق العباد کو پامال کرنے والے) اور دوسرے ابرار( حقوق العبادکیلئے خدمات انجام دینے والے)۔ ایک عذاب نبوت کی تکذیب کی وجہ سے آتا ہے۔ وماکنا معذبین حتیٰ نبعث رسولا، ”ہم عذاب نہیں دیتے جب تک کوئی رسول مبعوث نہ کردیں”۔نبیۖ کی ختم نبوت کی وجہ سے اب کسی قوم پرایسا عذاب بھی نہیں آسکتا ہے۔ البتہ ظلم وزیادتی، سود اور مختلف منکرات کی وجہ سے اللہ کا عذاب آسکتا ہے۔ دنیا میں سودی نظام عذاب کا ذریعہ ہے۔ جب پاکستان اور دنیا میں مزارعین کو مفت زمینیں دی جائیںگی اور سودی نظام کا خاتمہ ہوگا تو پھر ایک عظیم انقلاب کی آمد ہوگی۔ جنہوں نے ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور کامظاہرہ کرتے ہوئے غریب غرباء کے نام پر زکوٰة ، صدقات ، چندے بٹورے ہیں تو ان کو سونڈ پر داغا جائیگا۔ باقی اگر دنیا میں شراب کی بات ہوتو شرابی ہی ایکدوسرے پر رشک کرینگے اور مفتی تقی عثمانی کی طرح مفتی محمود کی طرف سے بدتر قرار دینے کے باوجود کسی کو اصرار کرکے مشروب نہیں پلائی جائے گی۔اس عظیم انقلاب کے نقشے میں دنیا کی خوشحالی ہوگی۔

 

سورۂ المطففین کے بعد متصل سورۂ انشقاق میں بھی انقلابِ عظیم کا ہی منظر ہے

اذا السماء انشقتOواذنت لربھا وحقتO…….” اور جب آسمان پھٹ پڑیگا اور اسکے رب کی طرف سے اجازت مل جائے گی اور یہی حق ہے۔اور جب زمین کھینچ جائے گی اور جو کچھ اس میں ہے سب اُگل دے گی اور خالی ہوجائے گی۔اسکے رب کی طرف اس کو اجازت ہوگی اور یہی حق ہے۔ …………………”۔ یہ تو طے ہے کہ احادیث میں آتا ہے کہ انقلابِ عظیم کے دور میں زمین اپنے خزانے اُگل دے گی اور آسمان سے خوب بارشیں ہونگی مگریہاں آسمان سے پھٹ پڑنے سے مترجمین اور مفسرین نے قیامت مراد لیا ہے۔حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ ”قرآن کی تفسیر زمانہ کریگا”۔ قرآن کی بعض آیات بعض کی تفسیر ہیں۔ سورۂ الشوریٰ میں آئندہ کے حالات اور آسمان پھٹنے کا پسِ منظر ہے۔ تکاد السمٰوٰت یتفطرن من فوقھن والملٰئکة یسبحون بحمد ربھم ویستغفرون لمن فی الارض الا ان اللہ ھوالغفور الرحیمO ”قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑے انکے اوپر سے اور ملائکہ پاکی بیان کرتے ہیں اپنے رب کی تعریف کیساتھ۔ اورجو زمین میں ہیں ،ان کیلئے استغفار کرتے ہیں۔خبردار! کہ بیشک اللہ مغفرت والا رحم والا ہے”۔ (الشوریٰ :5)
شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی نے لکھ دیا ہے کہ” قریب ہے کہ فرشتوں کے بوجھ سے آسمان پھٹ پڑے”۔(آسان ترجمہ قرآن کا حاشیہ)۔حالانکہ اللہ فرماتا ہے کہ” مغفرت کی طرف دوڑ پڑو، جو جنت عطاء کریگا جس کی چوڑائی آسمان اور زمین کی چوڑائی کے برابر ہے”۔
اللہ نے شوریٰ میں واضح کیا ہے کہ …. اور فرقو میں مبتلاء نہ ہوئے مگر علم کے بعد آپس کی بغاوت سے۔اگر تیرے رب کی طرف سے لکھا نہ ہوتا توانکے درمیان فیصلہ کرچکا ہوتا۔ بیشک جن کو کتاب کا وارث بنایاگیاانکے بعد تو وہ شک میں پڑے ہیں شبہ کیوجہ سے

 

سورۂ انشقاق سے دنیاوی انقلاب کی خبر مرادہے جو اسکی آیات سے واضح ہے!

سورۂ شوریٰ میں بہت حقائق واضح ہیں جس میں آسمان پھٹنے اور فرشتوں کا زمین والوں کی مغفرت طلب کرنا اور اللہ کا جلال واضح ہوناکہ اگر پہلے سے لکھا نہ جاچکا ہوتا تو کتاب کے بہت نالائق وارثوں پر غضب الٰہی کا آسمان سے فیصلہ ہوچکا ہوتا۔ لیکن اللہ غفور رحیم ہے۔ جب تک آسمان کے پھٹ جانے کا فیصلہ نہیں ہوتا تو ظالموں کو مہلت بھی ہوگی۔ جب آسمان پھٹے گا تو پھر ظالموں کی مہلت بھی ختم ہوگی۔ زمین کے خزانے اُگلنے کی بات تقاضہ کرتی ہے کہ مؤمنوں کیلئے خوشخبری کا پیغام ہو۔اللہ نے فرمایا کہ ” اوراسی طرح ہم نے آپ کی طرف وحی کی عربی قرآن کی تاکہ آپ ڈرائیں اہل مکہ کو اور جو انکے ارد گرد ہیں اور ڈرائیں جمع ہونے والے دن کیلئے جس میں کوئی شک نہیں ہے، فریق فی الجنة وفریق فی السعیر”ایک گروہ جنت (خوشی میں ہوگا) اور دوسرا گروہ سعیر(پاگل پنے میں ہوگا) ۔ (الشوریٰ:7)
ےٰاایھاالانسان انک کادح الیٰ ربک کدحاً فملٰقیہO…..” اے انسان!بیشک تو اپنے رب کی طرف مشقت اٹھاکر چل رہاہے اور اس سے سامنا کرنا ہے۔ پس جس کو دائیں ہاتھ میں اعمالنامہ مل جائے تو عنقریب اسکا آسان حساب لیا جائیگا اوروہ اپنے اہل کی طرف خوش ہوکر لوٹے گااورجس کو پیٹھ پیچھے اس کا اعمالنامہ دیا جائے تو وہ موت پکاریگا اور پاگل پن میں پہنچ جائیگا۔ بیشک وہ اپنے اہل وعیال میں خوش تھااور اس کا گمان تھا کہ وہ ہرگز نہیں لوٹے گا۔جی ہاں! اللہ اس کے کرتوتوں کو بخوبی دیکھ رہاتھا۔ ( الانشقاق:آیت6تا15)
یہ دنیا میں حساب کتاب اور گھر کے سربراہ کی بات ہے، آخرت میں تو انسان اپنے بھائی، ماں باپ، بیوی اور بچوں سے بھاگے گا۔ سب کا اپنا اپنا حساب ہوگا لیکن دنیا میں گھر کا سربراہ حساب کتاب دیگا۔ بیوی بچوں ،اہل وعیال کا کوئی قصور بھی نہ ہوگاجس پر پکڑ ہو۔

 

سورۂ انشقاق کے آخری حصہ میںبھی پہلے اور درمیانہ حصے کی طرح انقلاب کی خبر!

فلآ اقسم بالشفقOوالیل وماوسقOوالقمر اذا تسق Oلترکبن طبقًا عن طبقٍOفمالھم لایؤمنونO…………” پس نہیں، میں قسم کھاتا ہوں شفق کی اور رات کی جب وہ سمیٹ لے اور چاند کی جب وہ کامل بنے۔ تم نے ضرور ایک طبقہ سے دوسرے طبقہ کی طرف سوار ہو آنا ہے۔ پس ان کو کیا ہے کہ ایمان نہیں لاتے؟اور جب ان پر قرآن پڑھا جاتا ہے تو سجدہ نہیں کرتے؟۔بلکہ جنہوں نے انکار کیا، وہی لوگ جھٹلاتے ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ انہوں نے کیا کیا جمع کررکھا ہے۔ پس ان کودردناک عذاب کی خوشخبری سنا دو۔مگر جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے صالح عمل کئے تو ان کیلئے بدلہ ہے کبھی نہ ختم ہونے والا”۔
رات کی سرخی انقلاب ہے ، جب رات کی طوالت آخری حد کو پہنچ جائے تو سب کچھ سمیٹ لیتی ہے۔ رات جل اٹھتی ہے شدتِ ظلمت سے ندیم لوگ اس وقفہ ماتم کو سحر کہتے ہیں
چاند کا مکمل ہوکر طلوع ہونا بھی رات کے اندھیرے میں اچھی علامت ہے۔ حدیث میں نبوت ورحمت کے دور کے بعد امارت، بادشاہت اور جبری حکومتوں کے بعد پھر طرزِ نبوت کی خلافت کا دور ہے۔ جس کو امت مسلمہ کے سارے طبقات مانتے ہیں مگر پھر کیوں ایمان نہیں لاتے ہیں؟۔ جب قرآن کی آیات سامنے آجائیں تو پھر بھی اپنے فقہی کمالات بھگارتے ہیں مگر قرآن کی نہیں مانتے ہیں۔ یہی وہ کفر کرنے والے ہیں جنہوں نے قرآن کو جھٹلایا ہے۔
جب بھی انقلاب عظیم آئیگا تو بڑے بڑوں کی پول کھلے گی۔ ہوسکتا ہے کہ انقلاب زیادہ دور نہ ہو۔ سورۂ جمعہ، سورۂ واقعہ ، سورۂ شوریٰ ، سورہ ٔ مدثر ، سورۂ دھر، سورۂ مطففین، سورۂ انشقاق اور اس سے متصل سورۂ البروج کے علاوہ سورہ الفجر اور سورہ البد وغیرہ میں انقلاب عظیم کی خبر بڑی وضاحتوں کیساتھ موجود ہے مگر قرآنی احکام اور معاملات کی طرف توجہ کرنی ہوگی۔

کیا یوم انقلاب کی خبر سے بے خبر ہیں؟

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

سورہ دھر نصیحت ہے اور اس کو دیکھ کر کوئی بھی اپنے رب کا راستہ پکڑسکتا ہے!

سورہ دھر کے آخر میں اللہ نے ارشاد فرمایا:انّ ہذہ تذکرة فمن شاء اتخذ الیٰ ربہ سبیلًاOوما تشاء ون الا ان یشاء اللہ ان اللہ کان علیمًا حکیمًاOیدخل من یشاء فی رحمتہ والظٰلمین اعدّلھم عذابًا الیمًاO ”یہ ایک نصیحت ہے۔پس جو چاہے اپنے رب کا راستہ پکڑلے۔ مگر تم نہیں چاہ سکتے ہو جب تک اللہ نہیں چاہے۔ بیشک اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔ وہ جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کردیتا ہے۔ اور ظالموں کیلئے اس نے دردناک عذاب تیار کررکھا ہے”۔ (سورۂ دھر)
جب انسان کا مطمع نظر آخرت ہو تو وہ غیب پر ایمان رکھ کر دنیا کی زندگی میں قربانیاں دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے صراط مستقیم دل وجان سے مانگتا ہے۔ پھر اس کیلئے اللہ اپنی رحمت کا دروازہ کھول دیتا ہے۔ جب ظالم نہیں چاہتا ہے تو اللہ بھی اس کو اپناراستہ نہیں دکھاتا ہے۔
ہماری زندگی بفضل تعالیٰ قربانیوں سے عبارت ہے۔ جب مولانا فضل الرحمن پر دیوبندی علماء ومفتیان نے کفر والحاد کے فتوے لگائے تھے تو شیخ الحدیث مولانا علاء الدین ڈیرہ اسماعیل خان کے صاحبزادے مولانا مسعودالرؤف میرے ہم جماعت اور کمرے کے رومیٹ تھے۔ علماء ومفتیان کے متفقہ فتوے کا اشتہار اس نے لگایا تھا اور میں نے پھاڑ ڈالا۔ اسکے ساتھ ہاتھا پائی بھی ہوئی تھی۔ پھر ایک نظم لکھ ڈالی جس سے فتوے کو شکست ہوئی تھی۔ پھر مولانا فضل الرحمن نے اپنی تقریر میں یہ کہنے کی جرأت کی تھی کہ میں جدوجہد کررہاتھا اور تم فتوے لگارہے تھے؟ میں تمہارے فتوے کو جوتے کی نوک پر رکھتا ہوں۔ اکابر علماء ومفتیان نے حاجی عثمان پر فتویٰ لگایا تو بھی اللہ نے سرخرو کیا تھا۔ پھر ٹانک کے اکابر علماء کی تائید کے بعد ڈیرہ کے علماء ومفتیان نے مل کر ہم پر فتوے لگائے تو بھی منہ کی کھانی پڑی مگر پھر بھی ان کوشرم نہیں آئی۔ واہ جی واہ!۔

 

قرآن میں متشابہات کی تفسیر زمانہ کرتاہے مگر واضح آیات ابہام کی متحمل نہیں !

والمرسلٰت عرفاOفالعٰصفٰت عصفاOوالنٰشرٰت نشراOفالفٰر قٰت فرقاOفالملقےٰت ذکراOعذرا او نذراOانما توعدون لواقعO
”قسم ہے معروف طریقے سے بھیجی جانے والیوں کی، جوپھر طوفانی کیفیت برپا کرتی ہیں اور نشر ہوجاتی ہیں اچھی طرح سے نشر ہونا۔پھر تفریق پیدا کرتی ہیں اچھے طریقہ سے۔پھر وہ نصیحت کو (دلوں میں) القاء کردیتی ہیں۔کوئی عذر پیش کرتا ہے اور کوئی ڈرتا ہے۔ بیشک جس (یوم انقلاب عظیم)کا تم سے وعدہ ہے وہ ضرور واقع ہونے والا ہے۔(سورۂ : المرسلات)
سیدابوالاعلیٰ مودودی نے لکھا کہ ” یہاں قیامت کے ضرور واقع ہونے پر پانچ چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے۔ ایک والمرسلات عرفا” پے در پے بھلائی کے طور پر بھیجی جانے والیاں” ۔دوسرے العٰصفٰت عصفا” بہت تیزی اورشدت کیساتھ چلنے والیاں”۔ تیسرے النٰشرٰت نشرا” خوب پھیلانے والیاں”۔چوتھے الفٰرقتِ فرقا: الگ الگ کرنے والیاں۔ پانچویں الملقےٰت ذکرا ”یادکا القاء کرنے والیاں”۔ چونکہ ان الفاظ میں صرف صفات بیان کی گئی ہیں کہ یہ کن چیزوں کی صفات ہیںاسلئے مفسرین کے درمیان اس امر میں اختلاف واقع ہوا ہے کہ پانچوں صفات ایک ہی چیز ہیں یا الگ الگ چیزوں کی۔ اور وہ چیز یا چیزیں کیا ہیں ۔ایگ گروہ کہتا ہے کہ پانچوں سے مراد ہوائیں ہیں۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ پانچوں سے مراد فرشتے ہیں۔ تیسرا گروہ کہتا ہے کہ پہلے تین سے مراد ہوائیں ہیں اور دوسرے دو فرشتے۔ چوتھا کہتا ہے کہ پہلے تین فرشتے دوسرے دو ہوائیں۔ایک گروہ کی رائے یہ پہلے سے مراد ملائکہ رحمت، دوسرے سے مراد ملائکہ عذاب اور باقی تین سے مراد قرآن مجید کی آیات ہیں”۔تفہیم القرآن میں مختلف تفاسیر ہیںلیکن اگلے صفحات پر غور کریں۔

 

مفسرین نے قرآن کی واضح آیات کومختلف آراء کی ہواؤں کے رحم وکرم چھوڑ دیا!

مفسرین خود ہی مختلف آراء میں سرگرداں ہونگے تو عوام اور کافروں کی کیا رہنمائی ہوگی؟۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بار بار انبیاء کرام اور انکے معاندین کا ذکر کیا ہے، انبیاء کرام کے ذریعے واضح رسالات اور پیغامات کا ذکر کیا، صحف ابراہیم و موسیٰ کا ذکر کیا ہے۔ جب بھی یہ رسالات یا پیغامات لوگوں تک پہنچی ہیں تو اس کے ذریعے سے طوفان کھڑے ہوئے ہیں اور جب یہ خوب نشر ہوتے ہیں تو حق و باطل کے درمیان تفریق وامتیاز کھڑی کردیتی ہیں۔ عوام اور خواص کے دلوں تک جب حقیقت پہنچ جاتی ہے تو اس کو قبول کرنے یا نہ کرنے میں لوگوں کو عذر یا خوف در پیش ہوتا ہے۔ لیکن پھر وہ دن پہنچ جاتا ہے جس میں دنیا ہی کے اند ر باطل کے عذاب اور اہل حق کی نجات کا فیصلہ ہوجاتا ہے۔ جب تک نبوت ورسالت کا سلسلہ جاری رہا تو یہ رسالات وپیغامات بھی لوگوں کو معروف طریقے سے ملتے رہے لیکن جب ختم نبوت کے بعد ان رسالات کی آمد کا سلسلہ بند ہوگیا تو قرآن کی شکل میں قیامت تک کیلئے یہ محفوظ ہے۔ البتہ قیامت سے پہلے بھی عظیم انقلاب کی خبر ہے جس کو مولانا سیدا بوالاعلیٰ مودودی نے اپنی کتاب ”ا حیائے دین ” میں واضح کیا ہے اور سب مسلمان اپنے اپنے دائرے میں اس دن کا انتظار کررہے ہیں جب اسلام ہربنگلہ اور جھونپڑی میں داخل ہوگا لیکن قرآن کی طرف توجہ کی ضرورت شاید کسی نے محسوس نہیں کی الاماشاء اللہ کہ اس یوم الفصل کی بات بہت واضح ہے۔
یوم موعود سے مرادقیامت نہیں بلکہ انقلابِ عظیم کا دن ہے۔قرآن آسمانی کتب و صحائف کا مجموعہ ہے اور ایک دن دنیا کی تمام اقوام اور مذاہب قرآنی انقلاب کے تحت جمع ہوںگے۔ قرآن اسلئے نازل نہیں ہوا کہ نزول کے وقت کے بعد قیامت تک اسکے راز پوشیدہ رہیں بلکہ دنیا میں ایک لمبے عرصہ تک قرآن کی بنیاد پر دنیا نے ہدایت سے فائدہ اٹھاناہے۔

 

قرآن میں استعارات کی زبان متشابہات کا راز کھلے توپھریہ محکمات بنتے ہیں

جب انقلاب کا دن آجائیگا تو چاند، سورج اور ستاروں کی طرح پوجے جانے والے لوگوں کی حیثیت ماند پڑجائے گی۔ مذہب اور سیاست میں آفتاب ومہتاب کی لیڈر شپ تو ویسے نہ ہوگی مگر ستارے سمجھے جانے والے بھی اپنی حیثیت ایسی کھو دیںگے جس طرح روزانہ دن کے نکلتے ہی ستارے غائب ہوجاتے ہیں۔ آسمان سے خوشیوں کی بہار آئے گی اور علم کے بڑے پہاڑ سمجھے جانے والے اُڑ جائیںگے۔ فرشتوں کی مدد کا وقت آجائیگا۔ فیض احمد فیض نے جس انقلاب کا ذکر اپنے اشعار میں کیا تھا وہ منظر نقارۂ خدا بن کر عوام میں بجنا شروع ہوجائیگا۔
المرسلات میں آگے اللہ فرماتا ہے۔ فاذا النجوم طمستOواذا السماء فرجت Oواذالجبال نسفت Oواذا لرسل اقتتO لایّ یوم اجلتOلیوم الفصلOوما ادراک ما یوم الفصلO ویل یومئذٍ للمکذّبینO………… ”پھرجب ستارے ماند پڑجائیںگے اورجب آسمان سے خوشیاں آئیںگی۔ جب پہاڑ اُڑ جائیںگے۔ جب فرشتوں کی آمد کا وقت پہنچے گا۔ یہ کس دن کیلئے جلدی کررہے ہیں۔ فیصلے کے دن کیلئے۔ اور آپ کو کیا معلوم کہ فیصلے کا دن کیا ہے؟۔ تباہی ہے جھٹلانے والوں کیلئے۔ کیا ہم نے پہلوں کو ہلاک نہ کیا اور پھر انکے بعد والوں کو انکے پیچھے (ہلاک ) نہیں لگایااور ہم ایسا ہی مجرموں کیساتھ (دنیا ہی میں )کرتے ہیں۔ہلاکت ہے جھٹلانے والوں کیلئے۔کیا ہم نے تمہیں حقیر پانی سے پیدا نہیں کیا؟۔ پھر ہم نے اسے بنایامحفوظ ٹھکانے میں۔ معلوم مدت تک اور ہم نے تقدیر مقرر کی اور ہم اچھی قدرت رکھنے والے ہیں، تباہی ہے ہلاکت والوں کیلئے ۔ کیا ہم نے زمین کو سمیٹ کر رکھنے والا نہ بنایا۔ زندگی اور اموات میں”۔ عربی میں فرج عام طور پرخوشی ہی کو کہتے ہیں۔انقلاب مؤمنوں کیلئے خوشیوں ہی کا باعث بنے گا۔

 

قیامت سے پہلے دنیا میں عظیم انقلاب کے ذریعے بھی قرآن کا اعجاز ثابت ہوگا

اللہ تعالیٰ نے قرآن میں قیامت سے پہلے دنیا میں بھی عظیم انقلاب کے ذریعے خاکہ پیش کردیا ،تا کہ لوگوں کیلئے حق اور باطل کا راستہ قیامت کے دن تک واضح رہے گا لیکن انسان پھر آخر انسان ہے اور جب تک دنیا قائم رہے ،انسان غفلت کا شکار ہوتا رہے گا۔وسعت اللہ خان نے کورونا وائرس کے حوالے سے جو تحریر لکھ دی وہ جلی حروف کیساتھ ہی نہیں مرثیہ وغیرہ کی طرح میڈیا کے تمام چینلوں پر بار بار پڑھ کر سنانے کی بہت سخت ضرورت ہے۔
سورۂ واقعہ میں قیامت کا پورا نقشہ ہے جس میں لوگ تین گروہوں میں تقسیم ہونگے۔ ایک مقربین جو پہلوں میں سے بڑی جماعت اور آخرین میں تھوڑے ہونگے۔ دوسرے اصحاب الیمین جو پہلوں میں بھی بڑی جماعت ہوگی اور آخر میں بھی بڑی جماعت ہوگی۔ تیسرے کو اصحاب المشئمہ قرار دیا گیاہے۔ مقربین کو جو شراب پیش کی جائے گی تو اس سے سر چکرائے گا اور نہ عقل میں کوئی فتور آئیگا۔ دنیا میں بھی انقلاب کے ذریعے آخرت کا نقشہ سامنے آئیگا۔
مرسلات میں فرمایا: وجعلنافیھارواسی شٰمخٰت وا سقینٰکم مائً فراتاOویل یومئذٍ للمکذبینO……….”اور ہم نے اس میں بلند پہاڑ بنائے اور تمہیں میٹھا پانی پلایا اور تباہی ہے جھٹلانے والوں کیلئے۔ پس اب چلو،اس کی طرف جسکے ذریعے تم جھٹلاتے تھے۔ چلو اس سایہ کی طرف جو تین قبیلے( اقسام) والا ہے۔ جو نہ سایہ دار ہے اور نہ شعلے سے مستغنی کرنے والا ہے۔ بیشک یہ محل کی طرح بگولے پھینکے گا۔ گویا کہ وہ سرخ اونٹ ہیں۔ تباہی ہے اس دن جھٹلانے والوں کیلئے۔ یہ دن ہے جب وہ بولتے نہ ہونگے اور نہ ان کو اجازت ہوگی کہ معذرت پیش کریں اور تباہی ہے اس دن جھٹلانے والوں کیلئے”۔صرف طلاق و حلالہ پر تین کتابیں،کافی مضامین اور فتاویٰ لکھ دئیے مگر ڈھیٹ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔

 

مجرموں کو تھوڑا فائدہ اُٹھانے کا ذکر ہے اسکا تعلق دنیا کے انقلاب ہی سے ہے!

درسِ نظامی کی بنیادی تعلیم، قرآن کی تحریف، سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے اور نبیۖ کی سخت ترین توہین کے ارتکاب سے لیکر ایک ایک چیز کی وضاحت ہم کرچکے ہیں۔ انقلاب کا وقت آئیگا اور ہم دلائل کے آگ کے بڑے بڑے بگولے سے نشانہ بنائیںگے تو یہ بالکل سرخ اُنٹوں کی طرح نشانہ بننے کیلئے تیار ہونگے۔ پھر وہ بولیںگے بھی نہیں اور حلالہ کی لعنت کا شکار کرنے والی مخلوق اس قابل بھی نہیں ہوگی کہ ان کو معذرت کی اجازت دی جائے۔
اللہ نے مرسلات میں فرمایا: ھٰذا یوم الفصل جمعنٰکم والاوّلینOفان کان لکم کید فکیدونO ویل یومئذٍ للمکذبینO ……..’.’یہ جدائی کا دن ہے۔ہم نے تمہیں اور پہلوں کو جمع کرلیا( جیسا پہلوںکو اہل حق کے سامنے مجبور کردیا تھا ،اسی طرح تمہیں کردیا) پس اگر تم کوئی چال چل سکتے ہو تو کرکے دکھاؤ۔تباہی ہے اس دن جھٹلانے والوں کیلئے۔ بیشک متقی لوگ اس دن سایہ میں ہونگے اور لوگوں کی نظروں میں(چڑھے ہونگے) اور پھلوں تک ان کی رسائی ہوگی ،ان میں سے جو وہ چاہتے ہونگے۔کھاؤ ، پیو مزے سے جو تم نے عمل کئے۔ بیشک ہم اس طرح نیکوکاروں کو بدلہ دیتے ہیں اور تباہی ہے اس دن جھٹلانے والوں کیلئے۔ تم بھی کھاؤ اور تھوڑا فائدہ اٹھالو بیشک تم مجرم ہو۔ تباہی اس دن جھٹلانے والوں کیلئے اور جب ان سے کہا جاتا تھا کہ جھک جاؤ ،تو نہیں جھکتے تھے۔ تباہی ہے اس دن جھٹلانے والوں کیلئے۔ اس( واضح کلام کے احکام) کے بعد کس بات پر وہ ایمان لائیںگے؟”۔ (سورہ المرسلات)
ہم دعوت دیتے ہیں کہ مفتی تقی عثمانی، مفتی منیب الرحمن اور مولانا فضل الرحمن ، علامہ شہنشاہ حسین نقوی اور علامہ ابتسام الٰہی ظہیر وغیرہ درسِ نظامی اور مذہبی طبقات کی طرف سے دین کو مسخ کرنے کے رویہ پر میڈیا میں ہی ہم سے بات کریں تو بھی انقلاب آجائے گا۔

 

اطلاق النار بندوق کی فائرنگ کو کہتے ہیں، قرآن زمان وکمان پر حاوی ہے

ہم نے دیکھا کہ حاجی عثمان کے ساتھ علماء ومفتیان نے کیا رویہ رکھا تھا۔ اس کی تفصیل کبھی سامنے آئے گی۔ لوگ حیران ہونگے کہ بڑے بڑوں نے کس قدر ضمیر فروشی کا مظاہر ہ کیا تھا۔ اور ہماری جیت کے باوجود کھڈے کھودنے والوں کو کتنی رعایت دی گئی۔ پھر ٹانک کے اکابر علماء کی تائید کے بعد ڈیرہ اسماعیل خان کے علماء نے کس طرح مولانا فضل الرحمن کے ایماء پر کھڈا کھودا تھا مگر پھر وہ انجام کو پہنچ گئے، اس کی بھی ایک دلچسپ داستان ہے۔ جب کبھی موقع ملے گا اور ضرورت ہوگی تو ایک ایک بات آمنے سامنے بیان کرنے میں بہت مزہ آئیگا۔پھر وہ وقت آیا کہ طالبان نے میری وجہ سے ہمارے گھر کو نشانہ بنایا۔ میزائل، راکٹ لانچروں اور بموں کیساتھ چھوٹے بڑے جدید ہتھیاروں کیساتھ دھماکوں سے گونجتا رہااور بہت سے معجزانہ طور پر بچ گئے اور کئی ساروں کو شہادت کی منزل پر پہنچادیا۔ پچھلی تحریر میں سورہ الانشقاق کا ذکر کیا تھا اور اب اس سے متصل سورۂ البروج کے اندر ”یوم موعود” کے حوالے سے حقائق دیکھ لیں۔
والسماء ذات البروج Oوالیوم الموعودOوشاہدٍ ومشہودٍOقتل اصحاب الاخدودO النار ذات الوقودOاذھم علیھا قعودOوھم علی مایفعلون بالمؤمنین شہودO ومانقموا منھم الا ان یؤمنوا باللہ العزیزالحمیدOالذی لہ ملک السمٰوٰت والارض واللہ علیٰ کل شی ء شہیدOان الذین فتنوا المؤمنین والمؤمنات ثم لم یتوبوا فلھم عذاب جھنم ولھم عذاب الحریقO………….”قسم ہے برجوں والے آسمان کی اور جس دن کا وعدہ ہے اورگواہ اور جس کی گواہی دی جائے۔ مارے جائیں گڑھے کھودنے والے، ایندھن والی آگ کی۔جب وہ اس پر بیٹھے تھے اور مؤمنوں کیساتھ جو ہورہاتھا ،اس پر گواہ تھے۔

 

اللہ تعالیٰ نے ماضی کی طرح مستقبل کے حالات بھی قرآن میں بیان کئے ہیں!

اور ان سے انتقام نہیں لے رہے تھے مگراسلئے کہ وہ ایمان لائے اللہ پر جوبڑا زبردست اور تعریف کے لائق ہے۔وہی جس کیلئے آسمان اور زمین ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ بیشک جن لوگوں نے آزمائش میں ڈلا مؤمنین و مؤمنات کو اور پھر انہوں نے توبہ نہیں کی تو ان کیلئے عذاب ہے جہنم کا اور ان کیلئے عذاب ہے جلانے والا۔ بیشک جو ایمان لائے اور اچھے عمل کئے ان کیلئے باغات ہیںجس کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ بیشک تیرے رب کی پکڑ بہت سخت ہے۔ بیشک وہ پہل کرتا ہے اور لوٹاتا ہے اور معاف کرنے والا محبت کرنے والا ہے۔ عظمت والے عرش کا مالک ہے۔جو چاہتا ہے کردیتا ہے۔ کیا آپ کو لشکروں کی خبر پہنچی ہے؟۔ فرعون اور ثمود کی۔ بلکہ کفر کرنے والے جھٹلانے میں لگے رہتے ہیں اور اللہ نے ان کو پیچھے سے گھیر رکھا ہوتا ہے۔ بلکہ یہ تو قرآن مجید ہے لوح محفوظ میں”۔
اللہ نے مجرموں کو معافی مانگنے کا راستہ دیا ہے لیکن انقلاب عظیم قربانیوں کے بغیر نہیں آسکتا تھا۔ نکاح وایگریمنٹ ،طلاق وخلع ، اسلامی حدود اوراسلامی خلافت کے تقاضوں سے علماء ومفتیان آگاہ کرنے پر کان دھرتے تو ہم بھی مشکلات کے شکار نہ ہوتے اور تائید کرنے والے بھی معاشرے میںاپنا بھرپور کردار اداکرتے۔ سب کے سب سرخرو ہوتے۔ جب ہم اسلام کے نام پر بینک کے سود کو اسلامی قرار دینے کے باوجود علماء ومفتیان کو شیخ الاسلام اور مفتی اعظم کے القاب سے نوازیںگے تو غیر مسلموں کو کس اسلام کا سبق دیںگے؟۔ سوشلزم کے بعد دنیا میں کپٹلزم بھی ناکام ہوگیا ہے۔ اسلام واحد راستہ ہے جو دنیا کو ایک فطری نظام دے سکتا ہے۔ جمہوریت دولت کی لونڈی اور سیاستدان بھونڈے لوٹے ہیں۔ اگر درست اسلامی نظام کا معاشرتی اور بین الاقوامی ایجنڈا پیش کیا جائے تو پوری دنیا اسکاخیرمقدم کرے گی۔

 

حضرت حاجی محمد عثمان رات کے اندھیرے میں عروج ملت کا روشن تارہ تھے

اپنے دور میںحضرت حاجی محمد عثمان رات کے اندھیرے میں ایک روشن ستارے تھے، جن کی وجہ سے مخلوقِ خدا کو بہت فائدہ پہنچ رہاتھا۔ اعتکاف کیلئے 700آدمی بیٹھنے کیلئے تیار تھے مگر 350 افراد سے زیادہ کیلئے مسجدالٰہیہ خانقاہ چشتیہ سوکواٹر کورنگی کراچی میں جگہ نہیں تھی۔
دیوبندی ،بریلوی، جماعت اسلامی، اہلحدیث ، تبلیغی جاعت کے بڑے علماء ومفتیان اور فوجی افسران ، پولیس افسران وغیرہ سب بیعت تھے۔ سعودی عرب کے عرب بیعت تھے اور شام کے عرب بھی بیعت تھے۔آپ نے کہا تھا کہ تین قسم کے افراد میرے مرید ہیں۔ ایک تو دنیا دار ہیں، یہ تیسری جنس کھدڑے ہیں چھوڑ کر بھاگ جائیںگے۔ ایک آخرت والے ہیں جن کی حیثیت عورتوں کی ہے، ان میں مردانہ قوت نہیں ہوتی ہے۔پھر بھی بہرحال بہتر ہیں۔ تیسرے اللہ والے ہیں، یہ میدان کے مرد ہیں۔ انہوں نے اصل کام کرنا ہے۔ پھر وہی کچھ ہوا۔ کچھ لوگوں نے ہمارے ساتھ نکل کر خانقاہوں سے ادا کی رسمِ شبیری۔ماشاء اللہ
سورۂ البروج کے بعد سورۂ الطارق میں اللہ فرماتا ہے۔ والسماء والطارق Oوماادرٰک ما الطارقOالنجم الثاقبO………….”اور قسم ہے آسمان کی اور طارق کی اور آپ کو کیا معلوم کہ طارق کیا ہے؟۔ چمکتا ہوا تارہ ہے۔ ہر ایک جان پر ضرور کوئی نگہبان ہے۔ پس انسان دیکھ لے کہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے؟۔پیدا کیا گیاہے اچھلتے پانی سے۔جو پیٹھ اور سینے کے بیچ سے نکلتا ہے۔بیشک وہ اس کو لوٹانے پر بھی قادر ہے۔اس دن تو پوشیدہ راز واضح ہونگے۔تو اسکے پاس کوئی طاقت ہوگی اور نہ مددگار۔قسم ہے لوٹانے والے آسمان کی اور پھٹنے والی زمین کی۔ بیشک یہ فیصلہ کن بات ہے اور نہیں ہے کوئی مذاق۔وہ اپنی چال چلتے ہیں اور میں اپنی چال چلتا ہوں۔ کافروں کومہلت دو،ذرا اپنے حال پر چھوڑ دو”۔

ایک آزمائش معراج اور دوسرا حلالہ ہے

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

امت کی یہ دو آزمائش ہیںایک واقعہ معراج اور دوسراقرآن میںشجرہ ملعونہ

ان نرسل بالاٰےٰت الا ان کذّب بھا الاولون واٰتینا ثمود الناقة مبصرةً فظلمو بھا ومانرسل بالاٰیات الاتخویفًاOو اذا قلنالک ان ربک احاط بالناس وماجعلنا الریا التی اریناک الا فتنة للناس والشجرة الملعونة فی القراٰن ونخوفھم فمایزیدھم الا طغیانًا کبیرًاO ” اور کوئی بستی نہیں مگر ہم اسکو ہلاک کرینگے قیامت سے قبل یا اسے عذاب دینگے سخت عذاب،یہ کتاب کی سطروں میں ہے اور ہم نے منع نہیں کیا کسی نشانی کو مگر اسے پہلے والے جھٹلاچکے اور ہم نے ثمود کو اونٹنی دی نظر آنیوالی پھر انہوں نے اس کیساتھ ظلم کیا اور ہم نہیں بھیجتے نشانی مگر ڈرانے کیلئے اور جب ہم نے کہا تیرا رب لوگوں پر حاوی ہے اور ہم نے نہیں بنایا خواب کو جو آپ کو دکھایا مگر لوگوں کیلئے آزمائش اورشجرہ ملعونہ قرآن میں اور ہم انکو ڈراتے ہیں ۔پس نہیں اضافہ کرتا انکا مگر بہت بڑی سرکشی میں”۔ (بنی اسرائیل آیات:58،59، 60)

 

واقعۂ معراج میں براق اور ہجرت کا مشکل ترین سفر صحابہ کے ایمان کی آزمائش

معراج پرفکری اختلاف مسئلہ نہیں تھا، کمزوری میں اللہ کی طاقت پرایمان حق تھا!

اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل میںمعراج کا واقعہ اور مختلف معاملات کاذکرکرتے ہوئے فرمایا کہ ولقد صرّ فنا فی ھٰذا لقراٰن لیذّکّروا و مایزیدھم الا نفورًاO ”اور تحقیق ہم نے مختلف پہلوؤں سے پھیر پھیر کر معاملات پیش کئے اس قرآن میںتاکہ وہ نصیحت حاصل کریں اور ان میں اضافہ نہیں ہوتا مگر راہِ فرار اختیار کرنے کا ”۔ (بنی اسرائیل آیت:41)اور فرمایا کہ” سات آسمان اور زمین اور جو ان میں ہیں تسبیح بیان کرتے ہیں اس کی اورکوئی چیز بھی ایسی نہیں جو اس کی تعریف کیساتھ اس کی پاکی بیان نہ کرتی ہومگر تم اس کی تسبیح کو نہیں سمجھتے ہو۔ بیشک وہ حلیم غفور ہے۔ جب آپ قرآن پڑھتے ہیں تو آپ اور جولوگ ایمان نہیں لاتے ،انکے درمیان چھپانے والا پردہ ڈال دیتے ہیں”۔ (بنی اسرائیل آیت: 44، 45)
اللہ نے یہ واضح کیا کہ لوگوں نے کوئی نشانی مانگ لی تو ہم نے ظاہر کردی مگر انہوں نے اس کا انکار کیا۔ ہم نے قوم ثمود کے سامنے اونٹنی رکھ دی تو انہوں نے اس پر ظلم کیا۔ جبکہ ہم نے کہا کہ تیرے رب نے لوگوں کا احاطہ کیا ہے اور ہم نے جو خواب آپ کو دکھایا تو لوگوں کیلئے ایک آزمائش کا ذریعہ تھا اور آزمائش کادوسرا ذریعہ قرآن میں شجرہ ملعونہ ہے۔ ہم ان کوڈراتے ہیں ان میں اضافہ نہیں ہوتا مگربہت بڑی سر کشی کا۔ آخر یہ دو باتیں امت کی آزمائش کیوں؟۔ اس بات کو یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ اللہ نے ان دو آزمائشوں سے پہلے انسانوں پراپنے غلبے کا ذکر کیاہے۔ جب واقعہ معراج پیش آیا تو نبیۖ مکی دور کی مشکلات میں تھے اور لوگوں کیلئے یہ بہت بڑی آزمائش تھی کہ کس طرح لمحہ بھر میں اتنا بڑا واقعہ ہوسکتا ہے۔ یہ لوگوں کے ایمان کا امتحان تھا۔حضرت ابوبکر صدیق اور دیگر صحابہ کرام اس میں پورے اترے۔ کافروں نے اپنی ہٹ دھرمی سے نبیۖ کو ہجرت کرنے پر مجبور کردیا تھا۔ یہ ایمان کا امتحان بن گیا۔ کیا حضرت ابوبکر نے واقعۂ معراج کی تصدیق کی تو صدیق اکبر کا لقب پایا؟۔نبیۖ کاہجرت کے موقع پر ساتھ دینا اس سے زیادہ بڑی بات تھی،اسلئے کہ معراج کے تیز رفتار براق پر سفر کرنے والے رسول اللہۖ کیساتھ رفیقِ غار نے جن مشکلات کا سامنا کیا تھا۔ غارِ ثورپر کوئی آج بھی چڑھتا ہے تو مشکلات کا احساس کرسکتا ہے۔ پھر نبیۖ کو کاندھے پر چڑھانا تاکہ تعاقب کرنے والے دشمن قدم مبارک کے نشانات کے ذریعے نہیں پہنچ سکیں۔ کوئی کافر ہوتا تو چیخ اُٹھتا کہ اپنے براق کو بلواؤ۔ حضرت علی کی ہمشیرہ حضرت ام ہانی کے گھر میں معراج کا واقعہ ہوا تھا۔ وہ بھی ابتدائی چندمؤمنات میں سے تھیںلیکن نبیۖ کو انہوں نے یہ مشورہ دیا کہ واقعہ معراج کا ذکر نہ کریں اس سے صحابہ کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔ حضرت ام ہانی نے اپنے مشرک شوہر کی محبت میں ہجرت بھی نہیں کی۔ جب مکہ فتح ہوا تو منکرین کو بھی یقین ہوگیا کہ بت مغلوب ہیں اور اللہ نے واقعی میں انسانوں کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ اہمیت اس بات کی نہ تھی کہ واقعہ معراج جیتا جاگتا سفر تھا یا خواب تھا؟۔ بلکہ اللہ کا لوگوں پر غالب آنا ایمان تھا اور اس پر کسی صحابی یا صحابیہ نے شک کی گنجائش نہیں رکھی۔حضرت عائشہ اور حضرت ام ہانی اپنے عقیدہ معراج کے ظاہری یا خواب کی صورت پر اختلاف کرسکتی تھیں مگر اللہ کا لوگوں پر غالب آنا سب کے نزدیک یکساں یقینی تھا۔ حضرت عائشہ کی رائے یہ تھی واقعہ ٔ معراج خواب تھا اور جمہور صحابہ نے اس کو جاگتے کا واقعہ سمجھ لیا تھا۔ جب قرآن نے بھی اس کو خواب ہی قرار دیا تو اسکے خواب ہونے پر ایمان بھی کوئی کفر نہیں بلکہ عین اسلام ہے لیکن جب نبیۖ نے اس کو ظاہری حالت کا واقعہ بتایا ہو تو بھی اس پر ایمان لانااسلام کاتقاضہ تھا۔ تفسیر کے امام علامہ جاراللہ زمحشری بھی معتزلہ تھے ، سرسیداحمد خان اور غلام احمد پرویز تک معتزلہ سے متأثر تھے۔

 

نظریہ اضافیت سے معراج کا معمہ حل ہواہے لیکن شجرہ ملعونہ سے کیا مراد ہے؟۔

قرآن میں اصل بات یہ ہے کہ اس بات پر ایمان لانا ضروری ہے کہ اللہ کالوگوں پر احاطہ ہے۔ مسلمانوں کے مختلف فرقوں کا اس بات پر ایمان ہے کہ اللہ لوگوں پر غالب ہے۔ غلبے کا یقین ایک بہت بڑا اثاثہ ہے جس کیوجہ سے جب حق با ت سمجھ میں آجاتی ہے تو لوگوںکا خوف دل میں مانع نہیں ہوتا ہے اور جب ماحول میسر ہوتا ہے تو اس ماحول کے مطابق اظہار ضروری ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ انسانوں میں اہل حق کے گروہ کے ذریعے ایک ماحول دنیا میں بناتا ہے۔ جس کے مقابلے میں باطل کو صرف آخرت ہی میں نہیں بلکہ دنیا میں بھی شکست ہوجاتی ہے۔
واقعۂ معراج پر مسلمانوں کا ایمان کافروں کیلئے معمہ تھا مگر جب البرٹ آئن سٹائن نے نظریہ اضافیت دریافت کیا تو پھر یہ معمہ نہیں رہا۔ قرآن میں دوسری بات شجرہ ملعونہ ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شجرہ ملعونہ سے کیا مراد ہے؟۔ جبکہ اللہ نے اسکے بعد آدم کو سجدے کے واقعے کا ذکرکیا ہے۔اللہ نے حضرت آدم وحواء کو حکم دیا کہ” اس درخت کے قریب مت جاؤ، پھر ظالموں میں سے ہوجاؤگے”۔ یہ کونسادرخت تھا؟۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جنت میں اللہ نے ایک درخت کے قریب جانے سے روکا اور قرآن میں یہ حکم دیا کہ لا تقربوا الزنا ”زنا کے قریب مت جاؤ”۔قریب نہ جانے کا حکم مشترک ہے، دیکھنا یہ ہے کہ دونوں سے مراد ایک ہے یا نہیں؟۔ شیطان نے کہا کہ کیا میں تمہیں شجرة الخلد (ہمیشہ رہنے والاشجرہ نسب ) بتادوں ،جسکا مُلک کبھی ختم نہ ہو؟۔ پھر دونوں کو ورغلایااور انکے کپڑے اتروادئیے۔ اللہ تعالیٰ نے کہا کہ کیا میں نے تم دونوں کو تمہارے اس شجر سے روکا نہیں تھا؟۔ انہوں نے عرض کیا ہم نے اپنے اختیار سے یہ نہیں کیا۔ اللہ نے قرآن میںروزہ کی حالت میں بیوی سے مباشرت کرنے سے منع کیاہے لیکن ایک صحابی نے بے بس ہوکر روزہ توڑ دیا تھا انسان کی یہ کمزوری ہے۔

 

قرآن میں شجرہ ملعونہ کا ادراک حدیث میں حلالہ کی لعنت سے بالکل ہوسکتا ہے

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت آدم وحواء سے پہلا بیٹا قابیل پیدا ہوا تھاجس نے ظلم سے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کردیا تو کیا شجرة الخلد یہی شجرہ تھا جس سے آدم وحواء خودکو نہ روک سکے تھے؟۔بخاری میں ہے کہ رسول اللہۖ نے فرمایا کہ اگر بنی اسرائیل نافرمانی نہ کرتے تو گوشت خراب نہ ہوتا اور اگر حواء نہ ہوتی تو کوئی عورت اپنے شوہر سے خیانت نہ کرتی۔ جب رمضان میںرات کو بھی یہ سمجھا جارہا تھا کہ بیگمات سے مباشرت جائز نہیں تو اللہ نے فرمایا کہ علم اللہ انکم تختانون انفسکم (اللہ جانتا ہے کہ تم اپنے نفسوں سے خیانت کرتے ہو) احل لکم لیلة الصیام ان تباشروھن( تمہارے لئے روزہ کی رات ان سے مباشرت حلال ہے)۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ ” اے بنی آدم! تمہیں شیطان دھوکہ نہ دے کہ تمہیں ننگا کردے جیسے تمہارے والدین کو ننگا کیا تھا اور جنت سے نکلوادیا تھا”۔قرین قیاس لگتاہے کہ ناجائز تعلق ہی شجرہ ملعونہ اور شجرہ ممنوعہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ قرآن میں شجرہ ملعونہ کا اس امت کی آزمائش سے کیا تعلق ہے؟۔ حدیث میں حلالہ کرنے اور حلالہ کروانے والے پر اللہ کی لعنت کی گئی ہے اور اُمت مسلمہ میں حلالہ کی لعنت کوشجرہ ملونہ ہی سمجھا جاتا ہے۔ قرآن کی آیت میں اسکا ذکر اور اس امت کیلئے اسکا دوسری بڑی آزمائش ہونے کا کیا مطلب ہے؟۔
شیطان نے اتنے جوڑے جدا نہیں کئے ،اتنے خاندان تباہ نہیں کئے، اتنی بے راہ روی نہیں پھیلائی جس طرح قرآن، رحمان اور ایمان کے نام پر حلالہ کے حکم کی وجہ سے علماء ومفتیان اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ بہت لوگ ایک ساتھ تین طلاق کے بعد رجوع کرنا چاہتے ہیں لیکن علماء ومفتیان اور اُمت مسلمہ میں مسلمان کا ماحول انکے درمیان حلالہ کے نام پر رکاوٹ ہے۔ حلالہ کی لعنت سے عزتوں کی دھجیاں بکھیری جارہی ہیں،آخر یہ کب تک چلے گا؟۔

 

بدرالدین عینی اور ابن ہمام نے نامعلوم بزرگوں کی بنیاد پر حلالہ کو کارِ ثواب کہا!

جس طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فحاشی سے منع کیا ہے مگر لوگ اس سے باز نہیںآتے ہیں۔اسی طرح سے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں حلالہ کی لعنت کا راستہ کھولا نہیں بلکہ روکا ہے لیکن مولوی ومفتی حضرات مذہب کے لبادے میں اس پلید شراب سے جان نہیں چھڑارہے ہیں۔
چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی۔بریلوی مکتبۂ فکر کے مفتی شاہ حسین گردیزی کے پاس ایک بریلوی عالم دین آئے تھے ، مختصر نشست میں زیادہ بحث میں الجھنے کی گنجائش نہ تھی۔ اس نے کہاکہ حضرت آدم ایک نبی تھے اور شجرہ ممنوعہ کے پاس جانا گناہِ کبیرہ معلوم ہوتا ہے۔ اللہ نے فرمایا: الذین یجتنبون کبٰئر من الاثم والفواحش الا اللمم…… . .. . فلاتزکوا انفسکم ھو اعلم بمن اتقٰیO”اور جو لوگ کبائر گناہ سے اجتناب کرتے ہیں اور فواحش سے مگر بے بسی کے عالم میں۔بیشک تیرا رب واسع المغفرت ہے۔وہ تمہیں جانتا ہے کہ تمہیں زمین سے پیدا کیا اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں جنین تھے۔ . پس اپنے نفسوں کی پاکیزگی بیان نہ کرو۔ اللہ جانتا ہے کہ کون تقویٰ رکھتا ہے”۔(سورہ النجم : 32)
فقہ حنفی کے مشہورومعروف فقہاء علامہ بدر الدین عینی اور امام ابن ہمام نے اپنے نامعلوم بزرگوں سے نقل کرتے ہوئے پہلی مرتبہ ثواب کی نیت سے حلالہ کی لعنت کو کارِ ثواب قرار دیا۔ لیکن صدیاں گزرنے کے باجود کسی میں اتنی جرأت نہیں ہوسکی کہ ان معتبر ہستیوں کی بات عام کرنے کی جسارت کرتے۔ علماء ومشائخ نے توجہ نہیں دی اور بگلے آنکھیں بند کرکے مچھلیوں کا شکار کھیلتے رہے۔ جب اللہ نے شجرہ ملعونہ کا ذکر قرآن میں کیا ہے اور حدیث میں حلالے ہی کو لعنت قرار دیا گیا ہے تو یہ واقعی قرآن کے مطابق امت کیلئے آزمائش تو ہے۔ لذت بھی ایسی چیز کی جو انسان کی فطری کمزوری ہے جس کی وجہ سے ہمیں جنت سے بھی نکالا گیا ہے

 

بڑے بہادر علماء حلالہ کی لعنت کو سمجھ کر اکابر کے ڈر سے حق کا فتوی نہیں دیتے!

پاکستان میں حنفی مسلک کی اکثریت ہے۔ دیوبندی بریلوی علماء کا تعلیمی نصاب ہی امت مسلمہ کی جان حلالے کی لعنت سے چھڑاسکتا ہے لیکن افسوس کہ بڑے بہادر کہلانے والے علماء ومفتیان اندورنِ خانہ ہمارے مؤقف سے سوفیصد متفق ہونے کے باجود کسی اور سے نہیں اپنے مکتب کے علماء و مفتیان اصاغر واکابر سے خوف کھا رہے ہیں اور قرآن وسنت کے واضح مؤقف کو قبول کرکے امت کی جان حلالے کی لعنت سے چھڑانے کی ہمت نہیں کررہے ہیں۔ مؤمن کوشجرہ ملعونہ اور اس کی پشت پناہی والوں کے مغلوب ہونے پر یقین ہے۔ ایک طرف اللہ کے واضح احکام ہیں اور دوسری طرف اتخذوا احبارھم ورہبانہم ارباباً من دون اللہ کے علمبردار ہیں۔ بظاہر یہودو نصاریٰ کے نقش قدم پر چلنے والے بہت مضبوط ہیں لیکن اللہ کی ذات سب کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔جس دن طلاق سے رجوع اور آیت میں حلال نہ ہونے کا راز کھل گیا تو شجرہ ملعونہ کی پشت پناہی کرنیوالے مجرم کی حیثیت سے کھڑے ہونگے مگر جنہوں نے غلطی سے معاملات خراب کئے ہوں اور ان کاقصد شیطان کی پیروی نہ ہو بلکہ غلطی سے شیطان کے جال کا شکار ہوگئے ہوں تو انسان خطاء کا پتلا اور اللہ حلیم غفور ہے۔
سورہ بقرہ آیت230: فان طلقہا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجًا غیرہ ”پھر اگر اس نے طلاق دیدی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح کرلے”۔ امت مسلمہ کے فقہاء اس آیت سے حلالہ کی لعنت کا حکم مراد لیتے ہیں اور اچھے لوگ حلالے کو لعنت سمجھ کر اس سے انتہائی نفرت بھی کرتے ہیں۔ یہ شجرہ ملعونہ واقعی بڑی لعنت اور بہت بڑی آزمائش بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ طلاق سے رجوع کیلئے جو توازن شوہر وبیوی کے درمیان رکھا ہے، جس دن امت مسلمہ نے اس توازن کو سمجھ لیا تو بات بنے گی۔

 

”میرا جسم میری مرضی” والیوں نے عورت مارچ میں بہادری کی بھی حد کردی!

سب سے پہلی اور بنیادی بات یہ ہے کہ انسان، جانور، پرندے کے جوڑوں میں مقناطیس کی کشش کے علاوہ غیرت اور حمیت بھی ہے۔ انسانوں میں یہ فطرت نہ ہوتی تو ایک مرد اپنی بیگم سے بچے جنوانے کے بعد اس کو پھینک دیتا اور معاشرے میںعورت جانوروں یا مرغیوں کی طرح اکیلی بچے جننے اور انڈوں سے چوزے نکالنے کے بعد اپنے بچوں کا لشکر لے کر گھوم رہی ہوتی۔ جانوروں اور پرندوں میں شریف جانور بھی ہوتے ہیں جو غیرت رکھتے ہیں اور اپنے بچوں کو ماں باپ مل جل کر پالتے اور سنبھالتے ہیں۔ فاختہ اور کبوتر امن کی علامت ہیں اور اچھی نسل کی چیزوں میں جنسی بے راہ روی کا ماحول نہیں پایا جاتا ہے۔ نر ہرجگہ جنسی تشدد پر آمادہ ہوتا ہے اسلئے کوئی بھی بہادر مرغا کسی مرغی کو دیکھ کر اپنی جنسی تسکین اور تشدد کا نشانہ بناتا ہے۔ جب انسان اپنے مقام سے گرجاتے ہیں تو ان کو جانور بلکہ جانور سے بدتر کہا گیا ہے۔
اردو کی مشہور شاعرہ پروین شاکر نے اپنے شوہر کی بیوفائی کے باوجود جس عورت پن کا بڑا مظاہرہ کیا ہے جب تک اردو زبان زمین پر زندہ رہے، پروین شاکر کا نام بھی روشن رہے گا۔ مرد نے بھی اپنی عورت کیلئے قربانیاں دی ہیں اور وہ ساغر صدیقی کی صورت میں زندہ ہیں۔ یہ یاد رہے کہ ” میرا جسم میری مرضی” کے عنوان سے عورت کے پیچھے جس طرح مافیا پڑگیا تھا تو یہ بہت افسوس کی بات ہے۔ عورت مارچ میں جس طرح اسلام آباد کی عورتوں نے بہادری کی تاریخ رقم کردی ہے ۔ ایک طرف بپھرا ہوا مذہبی طبقہ تھا اور دوسری طرف نہتی خواتین کا بلٹ پروف کے بغیر پتھر کی پہنچ پر حوصلہ افزاء اسٹیج تھا، یہ کسی بدکردار اور بدعنوان عورت کی جرأت نہیں ہوسکتی تھی بلکہ مولانا ابوالکلام آزاد نے کہا تھا کہ ” قوم دب جاتی ہے تو اسے دبانے والا طبقہ آخری حد تک پہنچادیتا ہے۔ پھر اس میں مزید دبنے کی گنجائش نہیں ہوتی ہے”۔

 

سورہ بقرہ :224سے 232 سمجھ میں آجائیں تو قرآن کوپذیرائی ملے گی!

قرآن کی آیت230 البقرہ سے پہلے 224سے 229تک اپنے متن کیساتھ دیکھنے کی زحمت کی جائے اور پھراسکے بعد231اور 232البقرہ بھی دیکھ لی جائیں۔ پھر سورۂ طلاق کو بھی دیکھ لیا جائے۔ یاد رہے کہ درسِ نظامی میں حنفی اصول فقہ کی داخلِ نصاب کتابوں کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ شجرہ ملعونہ کو کھل کر واضح کیا جائے تو اس آزمائش سے نہ صرف پوری امت مسلمہ سرخرو ہوکر نکلے گی بلکہ پوری دنیا میں اسلام کے معاشرتی نظام کے غلبے کا ڈنکا بجے گا۔عورت آزادی مارچ کی بات کرنے والی خواتین بھی قرآن ہی کو اپنانصب العین بنالیں گی اور سب سے زیادہ عزت عربی مدارس کے علماء وطلبہ کو اسلئے ملے گی کہ لوگ قرآن کا عربی متن سیکھنے کیلئے ان کو اپنا استاذ بنائیںگے۔ قرآن مردہ قوموں کی تقدیر بدل کر زندہ کردیتاہے۔
قرآن کی ان آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ میاں بیوی کی صلح میں رکاوٹ نہیں ہے۔اللہ الفاظ پر نہیں بلکہ دل کے نقصان دہ فعل پر پکڑتا ہے۔ طلاق کا اظہار نہ ہو تو ناراضگی کی صورت میں چار ماہ کی مدت ہے ۔ اگر طلاق کا عزم تھا تو یہ دل کا گناہ ہے جس پر پکڑبھی ہوگی اسلئے کہ طلاق کا اظہار کرنے کے بعد انتظار کی مدت تین ماہ ہے۔ ایک ماہ عدت بڑھنے کا گناہ ہے۔ طلاق پرعدت اور عدت کی تکمیل کے بعدباہمی رضامندی سے صلح کادروازہ کھلاہے اور جب عورت راضی نہ ہوتو عدت میں بھی صلح کا دروازہ بندہے۔ طلاق کی تین صورتیں ہیں ، دونوں کا منشاء جدائی کا ہوتو پھر سوال یہ پیدا نہیں ہوتا کہ رجوع ہوسکتا ہے یا نہیں بلکہ اسکے باوجود بھی کبھی شوہر اجازت نہیں دیتا اور کبھی عورت شرم کرتی ہے اسلئے اس کاحکم آیت230 میں واضح ہے۔شوہر نے طلاق دی ہو اور عورت جدائی نہ چاہتی ہو تو اسکا حکم آیت231میں ہے۔ اور عورت نے طلاق لی ہوتوپھر اپنے شوہر کے پاس جاناچاہتی ہو تو اسکا حکم آیت232میں ہے

دنیا میں ایک انقلابِ عظیم کی واضح خبر

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

قرآن تقویٰ والوں کیلئے بھی ہدایت کا ذریعہ ہے اور عوام الناس کیلئے بھی ہے

قرآن امت مسلمہ کیلئے قرون اولیٰ سے درمیانہ زمانے تک ھدی للمتقین اور درمیانہ زمانے سے آخری دور تک ھدیٰ للناسپوری عالم انسانیت کیلئے ہدایت کا ذریعہ ہے۔دنیا کی قوموں پر زوال وعروج کے مختلف ادوار آتے رہتے ہیں۔قرونِ اولیٰ کا زمانہ بہ لحاظِ تقویٰ اپنی انتہاء کو پہنچا ہوا تھا۔ ایک ادنیٰ صحابی کے تقویٰ کو اولیاء کے بڑے سے بڑے گروہ بھی پہنچ نہیں سکتے ہیں، یہ اٹل بات ہے۔ پھر بتدریج تابعین، تبع تابعین دور بہ دور ، زمانہ بہ زمانہ اس طرح تقویٰ کا معیار مولانا شاہ احمد نورانی کے باپ مولانا عبدالعلیم صدیقی، شیخ الحدیث مولانا زکریا،مولانا محمد یوسف بنوریکے دور سے ہوتے ہوئے ہمارے مرشد حضرت حاجی محمدعثمان کے دورتک جا پہنچا۔ملا عمر مجاہد اور دوسرے نیک لوگوں کی جگہ اب ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ یہ تقویٰ نہیں شعور وآگہی کا دور آگیا ہے ۔ مفتی محمودکیلئے تقویٰ معیارتھا مگر مولانافضل الرحمن کو تقویٰ نہیں شعور پر گزارہ کرنا ہے۔ طالبان رہنما جو برقعہ پوش خواتین سے ڈنڈے کی زبان پر بات کرتے تھے،اب ننگی ٹانگوں والیوں کے سامنے اپنی مرضی سے بیٹھ جاتے ہیں۔

 

مساجد میںنماز باجماعت اور جمعہ کی چھٹی کا فتویٰ دینے والے پھر کیوں گئے؟

آج سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ رمضان شریف میں عوام کی روحانی غذاء مساجد میں نماز باجماعت اور تراویح کی فکر کرنیوالوں کا اپنا حال یہ ہے کہ معاوضہ حاصل کرنے کیلئے سود کو جواز دے دیا ہے۔ مفتی تقی عثمانی اور مفتی منیب الرحمن کو عوام کے تقوے کی فکر ہے؟۔یا مذہب کے نام پر کاروبار، دھندے اور مذہبی لوگوں کے جذبات کیش کرنے کا جذبہ ہے؟۔ فتویٰ تودیا تھا کہ نماز باجماعت اور جمعہ کی جگہ ظہر کی نماز باجماعت گھر میں پڑھو!۔ پاکستان میں کورونا کی شرحِ اموات بہت کم تھی تو گھروں میں نماز کا فتویٰ دیدیا اور جب شرح اموات بڑھ گئی توپھر دوبارہ لاک ڈاؤن توڑنے اور نماز باجماعت، جمعہ اور تراویح کی فکر کے جذبات اُبھرے؟۔ جب شکوک وشبہات تھے کہ بیماری ہے یا ڈرامہ ہے تو گھروں میں نماز پڑھنے کی ہدایت دی؟ اور جب یقین کرلیا کہ واقعی بیماری ہے تو عوام کی روحانی غذاء کا درد پیٹ میں اُٹھ گیا ہے؟۔
چلو اس وقت تو تمہاری فطری مجبوری تھی کہ مجاہدین طلبہ کو جہاد کے فتوے دیتے تھے مگر اپنے بچوں کو شہادت کی منزل پر پہنچانے کا اہتمام کرنے سے ڈرتے تھے؟۔ جب تک ریاست کی طرف سے دہشتگردوں کے خلاف نیک نیتی سے اقدامات اٹھانے کی فکر سامنے نہیں آئی تو تم نے مساجد،بازاروں، اداروں اور پاکستان کے چپے چپے پر خود کش حملے ، ریموٹ بم دھماکے اور چھاپہ مار کاروائیوں کے خلاف کبھی فتویٰ نہیں دیا۔ مفتی رفیع عثمانی میڈیا پر کہتے تھے کہ اس جہاد کو ہم ناجائز نہیں کہہ سکتے۔ مولانا طارق جمیل کہا کرتا تھا کہ ہماری منزل ایک ہے، صرف راستے جدا ہیں۔ طارق اسماعیل ساگر آج پاکستان میں بلیک واٹر کا انکشاف کررہے ہیں لیکن جب دنیا میں انقلاب آئے تو بہت سے رازوں سے پردہ اٹھے گا۔ سیاستدان، علماء ومفتیان اورحکمران اپنی اپنی زبانوں سے ضرورعجیب وغریب حقائق سے پردہ اٹھائیں گے۔

 

مولانا عبیداللہ سندھی نے لکھا کہ قرآن کا پہلامخاطب عرب اور دوسرا عالمگیر ہے

خواب کے نبوت کا چالیسواں حصہ ہونے سے مراد وحی کا سلسلہ نہیں غیب کی خبر!

قرآن کا اگلا دور انسانی شعور کے دور میں ایک عظیم انقلاب برپا کریگا؟۔اب تو لوگ سمجھتے ہیں کہ ان پڑھ دورِ جاہلیت کے بدو عربوں کو ایک عظیم رہبر انسانیتۖ نے اپنے ساتھیوں کی تربیت کرکے فاتح عالم بنادیا لیکن اس وقت دنیا پسماندہ تھی۔ ظلم وجبر تھا۔بڑاانسانیت سوز معاشرہ تھا جس میں نسبتاً بہتر لوگ پذیرائی پالیتے تھے۔ خلافتِ راشدہ سے بنی امیہ وبنی عباس کے دور میں زیادہ فتوحات ہوئیں اور خلافت عثمانیہ کے دور میں تو سب سے زیادہ علاقے پر قابو پالیا گیا۔ جدید ترقی یافتہ دنیا میںانسانیت، عدل وانصاف اورجمہوریت کے اصولوں سے مالامال مغرب کو پسماندہ مسلمانوں کے زیراثر آنا مشکل نہیں بلکہ ناممکن سالگتا ہے۔اب بھی امریکہ ، یورپ اور مغربی ممالک نے شعور کی کمی کی وجہ سے مسلم دنیا کو شکست سے دوچار کردیا۔ کورونا وائرس کے دور میں ہمارا کام شعور کی تحریک ہونا چاہیے۔ جب نبیۖ نے اپنی حیات طیبہ (زندگی)میں لوگوں کو وبا سے بچنے کیلئے کوئی دعا، دم اور وظیفہ تلقین نہیں فرمایا تھا؟۔ حضرت عبیداللہ بن جراح ، حضرت معاذ بن جبل اور دیگر بہت سارے جلیل القدر صحابہ نے وبا سے شہادت پائی تو مفتی تقی عثمانی کے ذریعے تبلیغی جماعت کے بزرگ کو نبیۖ نے کسی خواب کے ذریعے تبلیغی جماعت کے کارکنوں کو مروانا تھا؟۔ اور مراکز بند کروانے تھے؟۔
صحابہ نے نبیۖ کے خواب کی بنیاد پر سمجھا کہ اسی سال عمرہ کرینگے توصلح حدیبیہ کا معاہدہ کرنا پڑگیا۔اللہ نے فرمایا لقد صدق اللہ رسولہ الریا بالحق لتدخلن المسجد الحرام ان شاء اللہ اٰمنین محلقین رء وسکم ومقصرین لاتخافون فعلم مالم تعلموا فجعل من دون ذٰلک فتحًا قریبًاO …” بیشک اللہ نے رسول کو سچا خواب دکھایا ، تم ضرور مسجد حرام میں داخل ہوگے انشاء اللہ امن کیساتھ سرکے بال منڈاتے اور کم کرتے ہوئے۔تمہیں کوئی خوف نہ ہوگا۔ پس اللہ جانتا ہے جس کو تم نہیں جانتے۔ پس اللہ نے اسکے بغیر تمہیں عنقریب فتح دیدی۔ وہ اللہ جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیج دیا ہے تاکہ اس کو تمام ادیان پر غالب کردے اور اللہ کی گواہی کافی ہے۔ محمدۖ اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ آپ کیساتھ ہیں، کافروں پر سخت ،آپس میں ایکدوسرے پر رحم کرنے والے ہیں آپ ان کو دیکھوگے رجوع ،سجود، فضل چاہنے والے اللہ سے اور اس کی رضامندی، سجود کے اثرات سے انکے چہروں پر نشان ہیں، یہ وہ جن کی صفات توراة اور انجیل میں ہیں۔ گویا ایک کھیتی ہے جس نے پہلے کونپل نکالی پھر اس کی کمربنائی ،پھر مضبوط کردی، پھر اپنے تنے پر کھڑی ہوگئی جو بھلی لگتی ہے کاشتکار کو،تاکہ کفار انکے پھلنے پھولنے پر غصہ کھائیں۔ وعدہ کیا اللہ نے ایمان والوں اور عمل صالح کرنے والوں سے ان کی مغفرت اور اجرعظیم کا”۔
سورہ فتح کی ان آیات میں ایک بات یہ ہے کہ اللہ نے اپنے رسول ۖ کو سچا خواب دکھایا تھا۔ جس کی تعبیر عنقریب پوری ہوگی جس کو صحابہ نے نہیں جانا لیکن اللہ جانتاتھا۔ صحیح بخاری کی روایت ہے کہ نبی ۖ نے فرمایا کہ حضرت عائشہ کی تصویر خواب میں دکھائی گئی ۔ اگر یہ خواب اللہ کی طرف سے ہے تو پورا ہوگا اور شیطان کی طرف سے ہے تو پورا نہیں ہوگا۔جس سے پتہ چلتا ہے کہ خواب رحمانی اور شیطانی دونوں ہوسکتے ہیں۔نبیۖ نے درست فرمایا کہ نبوت میں سے کچھ بھی باقی نہیں رہ گیا ہے مگر مبشرات یعنی رویائے صادقہ۔یہ بھی فرمایا کہ سحری کے وقت میں زیادہ ترخواب سچے ہوتے ہیں اورفرمایا کہ خواب نبوت کا چالیسواں حصہ ہے۔
اگر نبوت کا چالیسواں حصہ رہتا ہے تو ختم نبوت پر ایمان باقی رہتاہے؟۔ نبوت سے مراد وحی ، رسالت ، نبوت کا معروف معنیٰ نہیں بلکہ نبوت غیب کی خبروں کو بھی کہتے ہیں۔

 

صحابہ کے دور میں دین تمام ادیان پر غالب نہیں ہوا، یہ وعدہ پوراہوناباقی ہے!

سورہ فتح کی آیات میں ایک اہم بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت اور دین حق کے غلبے کا تمام دنیا اور تمام ادیان پر جو وعدہ کیا تھا ، اس کا پورا ہونا ابھی باقی ہے۔ شاہ ولی اللہ نے بھی یہ لکھ دیا کہ آئندہ خلافت علی منہاج النبوة قائم ہوگی تو یہ وعدہ بھی پورا ہوجائیگا۔ (ازالة الخفائ) ان آیات کی ایک بات یہ بھی ہے کہ اللہ نے صحابہ کرام کی مثال کھیتی سے دی ،پہلے کونپل نکالا، پھر کمر کس لی،پھر مضبوط کرلی ،پھر اپنے تنے پر کھڑا ہونے کا وقت آیا جس سے کھیتی والا خوش ہوا،اور انکار کرنے والوں کو جلن لگ رہی تھی۔ جلن سے گویا گندھک کی شلواریں پہنی تھیں۔ پیٹ جلتا ہے تو بار بار قضائے حاجت کیلئے جانا پڑتا ہے ، دشمن کے پیٹ میں مروڑ اٹھتا ہے۔
ہم نے دیکھا کہ ہزاروں افراد خانقاہِ چشتیہ میں نماز، ذکر واذکار، تعلیم وتعلم، تلاوت قرآن اور ایمان ویقین کے روحانی محافل میں مشغول رہتے ۔ خواب ومشاہدات کا سلسلہ بدستورتھا لیکن پھر اچانک سازش شروع ہوئی، فتوے لگ گئے اور لہلاتے کھیت نیست ونابود ہوگئے۔ جس دن انقلاب آگیا تو سربستہ راز کھل جائیںگے۔ یوم تبلی السرآئر Oفمالہ من قوة و لاناصرO”جس دن پوشیدہ رازوں سے پردہ اُٹھ جائیگا تو اس کیلئے کوئی قوت ہوگی اور نہ مدد گار ہوگا”۔ (سورۂ الطارق)۔ یوٹیوب پر مفتی تقی عثمانی کو دنیا کا پہلا نمبر طاقتور انسان قرار دیا گیاہے۔ مولانا فضل الرحمن ، مفتی منیب الرحمن، قاری حنیف جالندھری وغیرہ کو بھی وہ تخلیہ میں بٹھادیں اور کچھ معاملات واضح کردیں۔ مفادات ، شہرت، دھونس دھمکی کو چھوڑدو۔ ہم نے خانقاہ کا انتقام نہیں لینا: والذی اخرج المرعٰی Oفجعلہ غثآئً احوٰیO ”اورجس نے نباتات اُگائیں اور پھر ان کو سیاہ کوڑا بنادیا”۔ (سورة الاعلیٰ)مفتی تقی عثمانی و مفتی رفیع عثمانی کے استاذ مولانا عبدالحق اور میرے استاذ مولانا فضل محمدسب گئے۔

 

قرآن میں جس طرح نماز جماعت کا ذکر ہے اسی طرح انفرادی نماز کا بھی ہے!

سورہ ٔالاعلیٰ اور اسکے بعد سورۂ الغاشیہ، سورۂ الفجر ، سورۂ البلداور سورۂ الشمس میں انقلاب کی زبردست خبر اوراوصاف ہیں۔ جناب علی محمد ماہی نے اپنی کتاب ”سرالاسرار المعروف یوم الفصل ”میں کیا لکھ دیا مگر ہم نے اپنی آنکھوں سے قیامت کا منظر دنیا میں اپنی گناہگار آنکھوں سے اسوقت دیکھا ،جب بڑے بڑے نام نہادعلماء وصلحاء کے چہروں سے نقاب اٹھتے دیکھے۔
سیذکر من یخشٰی Oویتجنبھا الاشقیOالذی یصلی النار الکبرٰی Oثم لایموت فیھا و لایحےٰیOقد افلح من تزکّٰی O وذکر اسم ربہ فصلّی Oبل تؤثرون الحےٰوة الدنیاOوالاخرة خیر و ابقٰی Oانّ ھٰذا لفی الصحف الاولیٰ Oصحف ابراہیم وموسٰیO”عنقریب نصیحت حاصل کریگا جو ڈرتا ہے اور گریز کریگا جو بدبخت ہے۔ جو بڑی آگ میں جائیگا، جس میں نہ مرے گا اور نہ زندہ ہوگا۔ تحقیق کہ فلاح پاگیا جس نے تزکیہ حاصل کیا اور اپنے رب کا نام لیا اور نماز پڑھ لی بلکہ تم تو دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو اور آخرت بہتر اور باقی رہنے والی ہے۔ یہی بات پہلے صحائف میں بھی ہے۔ ابراہیم کے صحیفوں میں اور موسیٰ کے صحیفوں میں۔(سورةالاعلیٰ)۔ قرآن کریم کی آیات صرف پہلے ادواراور آخرت کیلئے نہیں بلکہ ہردور کے ہر ماحول کیلئے ہیں۔ان آیات میں نماز باجماعت نہیں بلکہ انفرادی نماز کا ذکر ہے۔اور یہ واضح ہے کہ حقیقی خوف رکھنے والا نصیحت حاصل کرلے گا اور بدبخت اجتناب کریگا۔ یہی با ت پہلے صحیفوں ابراہیم وموسیٰ کے صحیفوں میں بھی ہے۔ یہ بھی واضح ہے کہ فلاح اس شخص نے نہیں پائی جس نے تزکیہ حاصل نہ کیا اور نماز پڑھ لی بلکہ فلاح اس نے پائی جس نے تزکیہ حاصل کیا ، پھر نماز پڑھ لی۔جعلساز دکانداروں اور مولویوں کے نماز کی اللہ تعالیٰ کو کوئی پرواہ نہیں ہے۔ یہی یاد رکھئے گا۔

 

قرآن میں جہاں دوسری باتوں کا ذکر ہے وہاں کورونا عالمگیر وباکا ذکر بھی ہے!

معمولی معمولی باتوں کا ذکر قرآن میں ہے۔ کائنات پھیلنے کا ذکر ہے۔ آسمان سے لوہا اترنے کا ذکر ہے۔ پانچ چیزوں کا ذکر ہے جس کو نبیۖ نے مفاتیح الغیب قرار دیا۔ ساعة کا علم، وہ بارش برساتا ہے، جو ارحام میں ہے اس کو جانتا ہے اور تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ کل کمائے گا اور کس زمین پر مرے گا۔ پہلی بات ثابت ہوگئی کہ الساعة کا علم غیب کی چابی ہے اور یہ نبیۖ نے اسلئے فرمایا تھا کہ معراج کی رات نظریہ اضافیت کا راز کھل گیا تھا۔ بارش برسنے سے آسمانی بجلی گرتی ہے جس کی وجہ سے الیکٹرک کی تسخیر نے دنیا کو غیب کی چابیوں سے آگاہ کیا اور ارحام میں صرف انسان نہیں بلکہ حیوانات ، نباتات اور جمادات سب شامل ہیں ۔ آج فارمی جانور، پرندے ،نباتات ،ایٹمی طاقت ،الیکٹرانک کی دنیا نے ثابت کردیا کہ واقعی غیب کی چابی یہی ارحام کا علم ہے۔ قرآن کی تفسیر اور حدیث کی تشریح زمانے نے کردی ہے۔
کورونا ایک عالمی وبا ہے تو کیا اس کا ذکر قرآن میں نہیں ہوگا؟۔ قرآن میں عذاب کا تعلق دنیا اور آخرت کیساتھ ہے۔ جب آدمی غریب ہوتا ہے اور دو وقت کی روٹی کیلئے ترستا ہے پھر خوشحالی کیلئے نذریں مانتا ہے لیکن خوشحالی کے بعد سب کچھ بھول جاتا ہے۔ مولانا مودودی اور حاجی عثمان نے ایک مشکل دور کے بعد آسانی بھی دیکھ لی ۔ ہم نے بھی غربت اور بھوک دیکھ لی تھی اور اپنا گزارہ کرنے کے علاوہ سب کچھ غریبوں پر بانٹنے کی نذریں مانی تھیں مگر وہ وعدہ کیاجو وفا ہوجائے۔ آج شکر ہے کہ بڑے پیمانے پر بینک بیلنس نہیں ورنہ پتہ نہیں قربانی سے بھی گریز کرتے۔ اللہ نے فرمایا: ” وہ نذروں کو پورا کرتے ہیںاور اس دن کے شر سے ڈرتے ہیں جس کی آفت ہر جانب پھیلی ہے ۔کھانا کھلاتے ہیں اپنی چاہت سے مسکین، یتیم اور قیدی کو۔بیشک ہم تمہیں اللہ کیلئے کھلاتے ہیں کوئی بدلہ اور شکریہ تم سے نہیں چاہتے ہیں۔

 

علامہ طالب جوہری نے اپنی کتاب” ظہور مہدی” میں سید گیلانی کا ذکر کیا ہے

ہیں اپنے رب سے اس بدنما بہت لمبی مدت والے دن کے شر سے ”۔ (سورہ ٔالدھر)
یہ آیات موجودہ دور میں کورونا کے معاملے کو بہت زبردست طریقے سے اجاگر کرتے ہیں اور مساکین ، یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلانا اس موقع پر بہت اہمیت کا حامل ہے۔ لوگوں میں زمانے کے اس موڑ پر احساسات اجاگر ہورہے ہیں۔ جہانگیر ترین سمجھتا ہوگا کہ عمران خان کو جہازوں میں گھمانے اور خرچے کرنے کے بجائے غریب غرباء کے کام آتے۔ کاشتکاروں ہی کو حدیث کے مطابق پوری فصل دیدیتے تو ایک انقلاب اور حقیقی تبدیلی آسکتی تھی۔ انتخابات کے موقع پر ایک ہی قومی اور صوبائی حلقے میں مولانا فضل الرحمن کے بیٹے کو جمعیت کے صوبائی ممبر سے ٹانک میں تین ہزار کم ووٹ ملے۔ اس نے کہا کہ میں نے خرچہ زیادہ کیا تھا۔ دونوں کے مجموعی خرچے سے ایک ایک ووٹ لاکھ لاکھ روپے کا پڑا تھا۔آج کاغریب بدحال ہے۔
ایک عظیم انقلاب سے پہلے کورونا وائرس کی عالمگیر وبا کا ذکر قرآن میں ہوسکتا ہے؟۔ علی محمد ماہی نے کیا لکھا تھا ؟۔ مجھے معلوم نہیں مگر اپنے خاص علم کا اظہار کرکے اس نے داد کیا پائی تھی ، مجھے یہ بھی نہیں معلوم ۔ البتہ 1988ء میں لکھی گئی کتاب ” سرالاسرار المعروف یوم الفصل ” کو قرآن کی سورتوں سے جوڑنا علم الاعداد کے حساب سے اسکا اپنا فن تھا۔ انقلاب سے پہلے کورونا وائرس کی وبا نے لوگوں کو مہدی کی یاد دلائی۔ علامہ طالب جوہری نے” ظہورِ مہدی” کے حوالہ سے1987ء میں کتاب شائع کی جس میں مشرقی دجال کے مقابلہ میں حسنی سید کا ذکر ایک روایت میںہے۔ علامہ طالب جوہری نے لکھا کہ ”اس سے مراد سید گیلانی ہیں”۔
شیعہ سنی ، دیوبندی ، بریلوی، اہلحدیث اور جماعت اسلامی والے سب قرآن واحادیث کی طرف متوجہ ہوں اور اسلام کے غلبے کیلئے پاکستان سے جدوجہد کا آغاز کردیں۔

 

کوروناوائرس کی شکل میڈیا پر خاردار جھاڑ کی طرح ہے۔ضریع یہی تو ہے !

فرمایا: ھل اتٰک حدیث الغاشےةOوجوہ یومئذٍ خاشعةO………’ ‘ کیا آپ کو چھا جانے والی کی خبر پہنچی ہے؟۔کچھ چہرے اس دن خوفزدہ ہوں گے۔ عمل کرنے والے تھکے ہوئے ہونگے۔ ان کو چشمے کااُبلا ہوا پانی پلایا جائیگا۔ان کیلئے کھانا نہیں ہوگا مگر خاردار جھاڑ۔ جو نہ موٹا کرے گا اور نہ بھوک سے چھٹکارا دلائے گا۔بعض چہرے اس دن تازہ ہونگے اور اپنی محنت پر خوش ہونگے۔ وہ عالی درجہ باغات میں ہونگے۔ اس میں لغو بات نہیں سنیںگے۔ (جس طرح آج کل کی الیکٹرانک اور سوشل میڈیا بکواسیات کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں)اس میں چشمے بہتے ہونگے۔ اسکے اندر اونچی مسندیں ہوں گی اور پیالے رکھے ہونگے۔ گاؤ تکیوں کی قطاریں لگی ہونگی۔ نفیس ماربل وٹائیل کے فرش بچھے ہوںگے۔ کیا وہ اونٹ کی طرف نہیں دیکھتے کہ اس کو کیسے پیدا کیا؟ اور آسمان کی طرف کہ کیسے اونچا کردیا ؟، اور پہاڑوں کی طرف کہ کیسے جمالیا؟۔اور زمین کی طرف کہ کیسے بچھادی؟۔پس آپ ان کو نصیحت کیجئے، بے شک آپ نصیحت کرنیوالے ہیں۔ان پرآپ جبری مأمور نہیں۔ (خود کش حملوں اورجمعیت علماء اور اسلامی جمعیت طلبہ کی طرح) مگر جس نے منہ موڑا اور انکار کیا تو اللہ بڑا عذاب دے گا۔ ان لوگوں نے ہماری طرف پلٹنا ہے اور ہم پر ان سے حساب لینا ہے”۔ (سورۂ الغاشیہ)
کورونا وائرس کی خار دار جھاڑ تصویر کی شکل میں میڈیا پر دکھائی جارہی ہے۔ کتنے لوگ اس کی وجہ سے تکلیف میں مبتلاء ہیں۔ پوری دنیا کو لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ سورة کے آغاز میں جس طرح چھا جانے والی کی بات کی خبر پہنچنے کا ذکر ہے اور پھر بعض چہرے خوفزدہ ہونے اور بعض کے تروتازہ ہونے کا ذکر ہے اس کا تعلق دنیا ہی کے معاملے سے معلوم ہوتا ہے۔ دانشور وعلماء اور امت مسلمہ کے اصحاب حل وعقد مشاورت سے اپنے معاملات درست کرنے پر توجہ دیں!