پوسٹ تلاش کریں

صیہونیت نے سودی نظام کے ذریعے پوری دنیا پر قبضہ کرلیاجسکا علاج صرف اسلام ہے؟

صیہونیت نے سودی نظام کے ذریعے پوری دنیا پر قبضہ کرلیاجسکا علاج صرف اسلام ہے؟

رسول اللہ ۖ نے آخری خطبے میں سب سے پہلے اپنے چچاکا سود قتل معاف کرنے کا اعلان کیا تو پوری دنیا میں ایک عظیم انقلاب آگیا جسکے اثرات1924خلافت عثمانیہ تک موجود تھے

امریکہ سودی نظام کی وجہ سے بالکل کھوکھلا ہے ، یورپ اور آسٹریلیا سمیت پوری دنیا سودی نظام کی وجہ سے تباہی کے کنارے پر کھڑی ہوگئی ہے ۔حالانکہ سارے مذاہب نے سود کو حرام قراردیا ہے

صرف پاکستان سودی نظام کی وجہ سے تباہی کے دھانے پر کھڑا نہیں ہے بلکہ امریکہ ، برطانیہ ، فرانس، جرمنی ، آسٹریلیا ، بھارت اورپوری دنیا میں مہنگائی کا طوفان اور سسٹم ناکام ہے۔
ڈاکٹر عبداللہ ناصح علوان کی کتابیں ”تربیت اولاد” وغیرہ عربی اور ان کا اردو ترجمہ مارکیٹ میں دستیاب ہے لیکن ان کی ایک کتاب ”مسلمان نوجوان” عربی اور اس کا اردو ترجمہ کافی عرصہ ہواہے کہ مارکیٹ سے غائب کردیا گیا ہے۔ جامعہ العلوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کے پرنسپل ڈاکٹر حبیب اللہ مختار اس کتاب کا ترجمہ کرنے کی وجہ سے شہید کردئیے گئے تھے اور اس میں عالمی معاشی ماہرین کی رائے لکھی گئی تھی کہ معیشت کیلئے سودی نظام ایک ناکام نظام ہے۔ دوسری طرف مفتی محمد تقی عثمانی اور مفتی منیب الرحمن کے ذریعے سودی نظام کو جواز بخش دیا گیا اوردونوں کے مکروہ چہروں کو دیوبندی اور بریلوی وفاق المدارس پاکستان اور تنظیم المدارس پاکستان کا صدر بنایا گیا ہے۔ حالانکہ دونوںہی سب سے بڑے جرم کے مرتکب ہیں۔عالمی شیطانی سودی بینکاری کو اسلامی قرار دے دیاہے۔
دنیا کے تمام مذاہب یہودی، عیسائی، ہندو، بدھ مت اور پارسی سبھی کے ہاں سود حرام ہے ۔ اسلام اور مسلمانوں کی آواز پر دنیا کے تمام مذاہب سود کے خاتمے کیلئے زبردست کردار بھی ادا کرسکتے ہیں۔ مزارعت کے ذریعے مزارعین کے خاندانوں کو غلامی میں جکڑا جارہا تھا اور سودی نظام کے ذریعے سے دنیا کے ملکوں اور قوموں کو غلامی میں جکڑا جارہاہے۔ امریکہ اور دنیا میں شرح سود پاکستان کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ ہمارے تیل، گیس ، سونے و دیگر معدنیات کے خزانوں پر قبضہ مارنے کا خواب دیکھنے والے ہماری عوام اور حکمرانوں کو آخری حدتک پہنچانے کے درپے ہیں۔ قانون، اخلاقیات، مذہب، اقدار، روایات اور انسانیت کو ہمارے ہاں سے ملک بدر کیا جارہاہے لیکن ان کی تمام چالوں کو اللہ کی مدد سے ہم ناکام بناسکتے ہیں۔
ہمارے پاس وافر مقدار میں پانی کے بہاؤ کا نظام ہے۔ جس سے ہم سستی بجلی، کھیتی باڑی، باغات اور جنگلات اُگانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہماری زمینیں معدنی ذخائر سے بہت مالامال ہیں۔ ہمارے پاس صحراؤں اور پہاڑوں کا بڑا سلسلہ ہے۔ ہمارے پاس محنت کش عوام ہیں اور ہمارے پاس دنیا کی بہترین صلاحیتوں والے دماغ ہیں۔ ہمارے پاس ایک اچھی خاصی افرادی صلاحیت ہے۔ کچے کے ڈاکو اور طالبان سے ہی بڑا کام لیا جاسکتا ہے۔ جب لوگ معاشی اعتبار سے مجبور ہوتے ہیں تو ہر غیراخلاقی کام پر کم معاوضے اور جان پر کھیل کر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ جب ملک وقوم پر سودی قرضوں کا بوجھ زیادہ سے زیادہ ہوگا تو ملک کے ادارے بھی کرپٹ بننے پر ہی مجبور ہوںگے۔ بے روزگار افراد بھی ڈکیتی کا راستہ اختیار کریںگے اور اچھے سے اچھے لوگ بھی برے سے برا بننے پر مجبور ہونگے۔
اگر بے کار لوگوں کو اچھا معاوضہ ملنے لگے تو وہ سب کارآمد بن جائیں گے۔ جب انسانوں کے دماغ اور ہاتھ پیر استعمال ہونا شروع ہوجائیں گے تو ملک وقوم میں دولت کی بہتات بھی ہوجائے گی۔ لوگوں کو دولتمند بنانے کیلئے چند کام کرنے ہیں۔
1:ایرانی تیل کی سمگلنگ کو رشوت کے بغیر قانونی جواز دینا ہوگا۔ پیٹرول سستا ہوگا تو بجلی کی پیداوار اور آمدورفت میں عوام وخواص کو فوری ریلیف ملنا شروع ہوجائے گا۔ مل، فیکٹری اور دیگر معاملات سستے چلنا شروع ہوں گے تو بیرون ملک کی مارکیٹوں میں ہمارا مال بکنا شروع ہوجائے گا اور ڈالروں سے ملک مالامال ہونا شروع ہوجائے گا۔ ایک بہت بڑے طبقے کو روزگار ملے گا۔ چین اور ہندوستان کو بھی سستا پیٹرول ہم دیں گے تو ان سے دوستی بھی مضبوط ہوجائے گی۔ جب لوگوں کے پاس کمائی ہوگی تو ریاست کو چلانے کیلئے عوام خود ٹیکس دے گی اور بیرون ملک کشکول لیکر نہیں گھومنا پڑے گا۔سودی قرضوں سے جان چھوٹ جائے گی اور ملک پر بوجھ کم ہوجائے گا۔
2:ملک میں زمینوں کو مزارعت پر نہیں بالکل فری دینا شروع کریں گے تو ایک بہت بڑا محنت کش طبقہ خط غربت سے اوپر آجائے گا۔ بہت بڑے پیمانے پر وہ سبزی ، اناج اور گنے وغیرہ اُگانا شروع کردیں گے۔ باغات اور جنگلات اگانے کی طرف بہت لوگ مائل ہوجائیں گے اور پاکستان جنت نظیر بن جائے گا۔ کچے کے ڈاکو اور طالبان ایک اچھے شہری کی زندگی گزاریں گے اور بدمعاشوں سے شریف لوگوں کو تحفظ فراہم کریں گے۔ جنگلات اور باغات اگائیں گے اور دنیا بھر میں مزے سے سیر سپاٹے بھی کرسکیں گے۔ ان کے بچوں کو تعلیم وتربیت کی زندگیاں نصیب ہوں گی۔ کسی طاقتور طبقے کے پھر کبھی ٹاؤٹ کا کردار بھی ادا نہیں کریں گے۔ اسلام و انسانیت سے محبت کریں گے اور غلطیوں کی لوگوں سے معافی مانگیں گے اور ملک میں بیرون ملک سیاح بھی آسکیں گے۔
3:بہاولپور میں ایک بہت بڑا ہوائی اڈہ قائم کریں گے جو سستے پیٹرول کیلئے ایک مثالی مرکز ہوگا۔ دوبئی اور بھارت سے زیادہ بڑا کاروبار ہمارے ہاں چلے گا۔ دنیا کا بہترین بحری بندر گاہ گوادر اور بہترین ہوائی اڈہ بہاولپور کا ہے۔ صرف اس کو چالو کرنے کی ضرورت ہے۔ درآمدات وبرآمدات کیلئے پاکستان سے بہتر دنیا میں کوئی ملک نہیں ہے۔ بحری اور ہوائی راستوں کا معاملہ بھی سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے اور بری راستے کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔ ہندوستان ، برما ، بنگلہ دیش ، بھوٹان، تھائی لینڈ ، نیپال وغیرہ کو ٹرین اور سڑک کے ذریعے عرب اور یورپ کو ملایا جاسکتا ہے۔ دوبئی نے سمندری سرنگ کے ذریعے بھارت کیساتھ ملنے کا پروگرام بنایا ہے لیکن جب پاکستان کے ذریعے بائی روڈ و ٹرین راہداری قائم ہوگی تو ایک بہت بڑا کاروبار ہمیں ملے گا اور پاکستانیوں کوپوری دنیا عزت کی نظر سے دیکھے گی۔ صرف راہداری کے ٹیکس سے بھی ریاست اورحکومت کے تمام اداروں کو چلانے میں مشکل نہیں ہوگی۔
4:ہندوستان ، افغانستان اور ایران کے اشیاء کی خرید اور فروخت کا کاروبار شروع ہوجائے تو پاکستان کے اندر اور باہر ہمارے لوگ بہت بڑے پیمانے پر تجارت کرسکتے ہیں۔ مہنگائی اس وقت مسئلہ ہوتا ہے جب لوگوں کے پاس پیسے نہیں ہوتے لیکن جب پیسہ آتا ہے تو 5ہزار روپے کلو دودھ بھی لوگ خوشی سے لیں گے۔ بھینسوں کا پیشاب اور گوبر صاف کرنے، چارہ کھلانے اور نہلانے دھلانے اور دودھ نکالنے والوں کو بہت اچھا معاوضہ ملنا چاہیے۔ لوگوں کے پاس پیسہ ہوگا تو مہنگائی کے رونے والے نہیں ملیں گے ۔ روزگار کے مواقع ہوں گے تو پھر بدمعاشی ، چوری چکاری اور ڈکیٹی کی جگہ شرافت والی زندگی ہی گزاریں گے۔ پھر لوگوں کو سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کے خلاف نفرت انگیز مواد پھیلانے کی فرصت بھی نہیں ہوگی ۔ ان کے اخلاق اور کردار بھی شرافت سے مالامال ہوجائیں گے۔
5:سولر بنانے کے کارخانے پاکستان میں آجائیں گے۔ اور دنیا بھر کو یہاں سے آسانی کیساتھ سپلائی ہوسکے گی۔ ساتھ دریاؤں پر ڈویژن ، ضلع اور تحصیل کی سطح پر بجلی بنانے کے ایسے ٹربائن لگائیں گے جس میں بڑے پیمانے پر سستی بجلی کی سپلائی ممکن ہوسکے۔ دور دراز سے کھمبوں اور تاروں کی ضرورت بھی نہ پڑے اور واپڈا کے محکموں کے ملازمین کو مقامی سطح پر تنخواہیں بھی دی جائیں۔ جس سے درآمدات کا سلسلہ کم اور برآمدات کا سلسلہ خود بخود بہت بڑھ جائے گا۔ یہ صرف مثال پیش کررہا ہوں ، باقی مشاروت سے ماہرین بہت زبردست تجاویز پیش کرسکتے ہیں اور نت نئے معاملات بھی سامنے آجائیں گے اور ڈیموں میں بڑے پیمانے پر مچھلیوں کا کاروبار بھی ہوسکتا ہے۔ دریاؤں کو مغلظات پھینکنے سے بھی صاف کرنے کا بندوست کرنا ہوگا۔ دور دراز کے علاقوں کو نہروں سے بھی مالامال کرنا ہوگا۔
پانی کو صاف کرنے کیلئے ریت کے ٹیلوں سے گزارنے کا طریقہ کار بھی بنانا ہوگا۔ قدرتی بارشوں اور ماحولیات کیلئے بھی بڑے پیمانے پر کام کی ضرورت ہوگی اور اس میں کافی لوگ بھی روزگار حاصل کریںگے۔
6:قرآن وسنت کے معاشرتی ، معاشی اور سائنسی آیات کیلئے بہترین تعلیمی ادارے بنانے پڑیں گے۔حضرت مولانا انور بدخشانی فرماتے تھے کہ ”مدارس میں فقہ نہیں فقہ کی تاریخ پڑھائی جارہی ہے”۔تسخیرکائنات کیلئے قرآنی آیات میں بڑا زور دیا گیا ہے، ہمارے تعلیمی اداروںمیں تسخیر استنجاء اور فرائض و آداب گھڑنے اور اختلافات پیدا کرنے پر زور دیا گیا ہے۔
پسماندہ علاقوں میں بچوں کی وہ پود ہوتی ہے جن میں کافی صلاحتیں ہوتی ہیں لیکن ہمارے ہاں وہ قیمتی ہیرے مزارعت کی دنیا میں دفن ہوجاتے ہیں۔ڈکیت ، بدمعاش اور طالبان بن جاتے ہیں۔ جب اچھے سے اچھے تعلیمی اداروں کا قیام عمل میں آئے گا اور قرآن وسنت کی درست تعلیمات سے یہ دنیا آگاہ ہوگی تو پھر پاکستان امامت کرے گا اور اسلامی ممالک اور باقی دنیا اس کے اقتداء میں کام کرنا شروع کریں گے۔
آج بھی پاکستان کی عوام اور خواص میں صلاحیت کی کوئی کمی نہیں ہے۔ کچے کے ڈاکوؤں اور طالبان دہشت گردوں کی کتنی اچھی منجمنٹ ہے؟۔ لڑائی اور بدکرداری کی بدولت بہت کچھ ضائع ہوگیا ہے اور آئندہ بھی ضائع ہوتا رہے گا اسلئے آج ہمیں اپنی آنکھیں کھولنا ہوں گی۔ تیار مدارس اور سکول وکالج کا نظام بھی درست کرلیں تو بہت کچھ بدل جائے گا۔ انشاء اللہ
7:کچے کے ڈاکو اور طالبان سے زیادہ بدتر ہمارے اپنے وہ مستحکم ادارے ہیں جہاں سے مدارس کے نام پر تعلیم دی جاتی ہے، جہاں عدالتوں میں انصاف کا ستیاناس ہوتا ہے۔ جہاں پولیس کے تھانوں میں انسانیت کی تذلیل ہوتی ہے ۔ جہاں پر تعلیمی اداروں میں باصلاحیت افراد کو ضائع کیا جارہاہے ۔ اور جہاں فوج اور اس کے اداروں کے حالات دگرگوں ہیں۔ کوئی بھی ایسی قابل سیاسی جماعت نہیں ہے جس کے ذریعے کوئی کردار سازی کی جائے۔ ہر پرائیوٹ اور سرکاری ادارے میں چلتی کا نام گاڑی ہے مگر اب گاڑیوں کی مدت بھی ختم ہوگئی ہے اور اگر بروقت اچھے اقدامات نہیں اٹھائے تو بہت بگاڑ آسکتا ہے۔ صرف اگر اسلامی نظریاتی کونسل درست کردار ادا کرے تو بھی ایک انقلابی کیفیت پیدا ہوسکتی ہے لیکن ہرکسی کو اپنی نوکری کی فکر ہے۔ اگر مجھے اس ادارے میں خدمت کا موقع دیاگیا تو قوم کے رحجات بدلتے ہوئے دکھائی دیں گے،مجھے کوئی عہدہ بھی نہیں چاہیے لیکن میری مفت خدمات حاصل کرسکتے ہیں۔

اسلامی انسانی انقلاب
اسلامی خلافت کا قیام عمل میںآئے تو دنیا سے سودی نظام کا خاتمہ کریگا جس کی تائید تمام مذاہب کے مخلص طبقات بہت ایمانی غیرت کیساتھ کریں گے۔ امریکہ بھی سودی نظام میں بڑا ڈوبا ہواہے وہ تائید کرے گا۔ یورپی ممالک اور بھارت کا بھی قرضوں سے برا حال ہے وہ بھی تائید کریں گے۔ روس اس کی سب سے پہلے تائید کرے گا اسلئے کہ کمیونزم اور سوشلزم مذہب کے خلاف ہیں لیکن سودی نظام کے خاتمے کو خوش آئند قرار دینا اس کا نظریاتی مسئلہ ہے ۔ چین کی بھی اصل بنیاد وہی ہے۔
یہود کا مذہبی طبقہ بھی شیطان اور صہیونی سودی نظام سے دنیا کی جان چھڑانے کیلئے پیش پیش ہوگا۔ اسرائیل بھی فلسطین پر مظالم بند کردے گا۔ مسلمانوں کو دنیا میں دشمن نہیں سب سے اچھا دوست اور انسان تصور کیا جانے لگے گا۔ مزارعت پوری دنیا میں فری ہوگی۔ سودی نظام نابود ہوجائے گا۔ شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کوتکلیف ضرور ہوگی کہ اچھا خاصا سودی بینک کا معاوضہ مل رہاتھا اور اب محنت مزدوری کرکے بچوں کی پرورش کرنی پڑے گی۔ پاکستان میں حشر کی عدالت لگے گی اور دنیا میں حساب کتاب ہوگا۔ علماء ، جرنیل، جج ، بیوروکریٹ، صحافی اور سیاستدان کے علاوہ تمام طبقات سے ناجائز دولت کا پوچھا جائے گا۔ اچھے لوگوں کیساتھ آسان حساب ہوگا لیکن بڑے بڑے ہاتھ مارنے پر مسلسل اصرار کرنے والوں کا محاسبہ ہوگا۔ عدالتوں میں مہنگے وکیل ان کی سہولت کاری نہیں کرسکیں گے ۔
قرآن میں اس بڑے انقلاب کا جا بجا تفصیل اور اجمال کیساتھ ذکر موجود ہے۔ جب دنیا میں معاشرتی، تعلیمی ، عدالتی اور حکمرانی کا طرزعمل درست ہوگا اور اقتصادی نظام کی درستگی کیلئے سود اور مزارعت کا نظام ختم ہوگا۔ سمگلنگ اور رشوت کے نظام کا خاتمہ ہوجائے گا تو تمام دنیا کے لوگ اس مثالی خوشی میں شریک ہوں گے اور پاکستان سے اپنے اپنے ممالک کیلئے ایسی منجمنٹ مانگیں گے جو ان کے ہاں بھی نظام کو درست کریں۔
عالمی اسلامی خلافت کے قیام میں دنیا بھر کے لوگ ہمارا ساتھ دیں گے۔ روس کا نظام بھی ناکام ہواہے اور امریکہ نے بھی مظالم کے پہاڑ توڑنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا ہے ۔ اسلام کا انسانی انقلاب نہ صرف مسلمانوں کیلئے بلکہ تمام انسانیت کیلئے ہی ہوگا اور باقی مخلوقات جانور وںاور پرندوں کو بھی تحفظ دے گا۔ اجارہ داری نہیں ہوگی بلکہ ہرشعبہ میں بلاتفریق اہلیت کو ترجیح دی جائے گی۔ عدل اور اہلیت اس کی اصل بنیاد ہوگی ۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ مئی2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

طلاق کے بارے میں قرآن وسنت کے درست تصورات اور مذہبی طبقے کے اختلافات کے حل کی طرف پیش قدمی؟

طلاق کے بارے میں قرآن وسنت کے درست تصورات اور مذہبی طبقے کے اختلافات کے حل کی طرف پیش قدمی؟

جب شوہر کا عورت سے نکاح ہوجاتا ہے تو اس رشتے کی باریکی اور مضبوطی کا تعلق دو طرفہ بنیادوں پر اللہ نے رکھاہے۔
شوہر کا انتقال ہوجائے تو عورت عدت پوری ہونے کے بعد زندگی بھر اس نکاح کو برقرار رکھ سکتی ہے۔ اس کی قبر پر اسکے شوہر کے نام کی تختی لگتی ہے کہ زوجہ فلاں۔ جنت میں بھی قرآن کہتا ہے کہ لوگ اپنی ازواج اور اولاد کے ساتھ ہوں گے۔
لیکن اگر عورت عدت پوری ہونے کے بعد کسی اور شوہر سے نکاح کرلیتی ہے تو اس کا بھی عورت کو مکمل اختیار دیا گیا ہے اور اس کے بعد وہ دوسرے شوہر کی بیوی بن جائے گی۔ پہلے سے اس کا تعلق قائم نہیں رہے گا۔ قرآن وحدیث اور صحابہ سے ان چیزوں کا بھرپور ثبوت ملتا ہے لیکن مذہبی طبقات نے اس معاملے کو اپنی جہالتوں سے بہت بگاڑ دیا تھا، جس کی اصلاح ایک حد تک ہماری تحریرات سے الحمدللہ اب ہوچکی ہے۔
قرآن میں پہلی بار عدت کا ذکر سورہ بقرہ کی آیت226اور طلاق کا پہلی بار ذکر سورہ بقرہ کی آیت227میں ہے۔
انگریزی میں کہا جاتا ہے کہ ”پہلا امپریشن ہی آخری امپریشن ہوتا ہے”۔ فقہاء اور مسالک کے علمبرداروں نے پہلے ذکر کا ستیاناس کرکے رکھ دیا ہے۔ قصور قرآن کا نہیں ہے بلکہ جہالت کے اندھیرے میں پھنسے ہوئے ائمہ کا قصور تھا۔
اللہ نے طلاق سے پہلے طلاق کا مقدمہ بیان کردیاہے۔ سورہ البقرہ آیت:224میں واضح کردیا ہے کہ ”تم اپنے عہدو پیمان کو رکاوٹ نہ بناؤ کہ نیکی کرو، تقویٰ اختیار کرو اور عوام کے درمیان صلح کراؤ”۔ جب عوام الناس کے درمیان اللہ کے نام پر صلح کیلئے رکاوٹ بننا ممنوع ہے تو پھر جب میاں بیوی صلح کرنا چاہتے ہوں تو اللہ اور مذہب کو کیسے رکاوٹ بناسکتے ہیں؟۔
اس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ نے کسی بھی حال میں میاں بیوی کے درمیان کوئی ایسا فتویٰ نہیں دیا ہے جس میں وہ صلح چاہتے ہوں اور اللہ اور مذہب اس میںرکاوٹ بنتا ہو۔
پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ البقرہ آیت230میں اللہ نے کیوں فرمایا ہے کہ ”پھر اگر اس نے طلاق دی تو اس کیلئے حلال نہیں ہے یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہر کیساتھ نکاح کرلے”۔
اس کا جواب سیدھے سادے الفاظ میں بالکل واضح ہے کہ جب تک سیاق وسباق کو نہ دیکھا جائے تو آیت کا مفہوم سمجھ میں کبھی نہیں آسکتا ہے۔البقرہ آیات231اور232میں یہ واضح ہے کہ ”جب تم نے عورتوں کو طلاق دی اور پھر وہ اپنی عدت کو پہنچ گئی تو معروف طریقے سے رجوع کرو یا معروف طریقے سے اس کو چھوڑ دو۔ ان کو اسلئے مت روکو تاکہ تم ان کو ضرر پہنچاؤ”۔ اور ” جب تم نے عورتوں کو طلاق دی اور اپنی عدت کو پہنچ گئی تو ان کو مت روکو کہ اپنے شوہروں سے نکاح کریں ،اگر وہ آپس میں معروف طریقے سے راضی ہوں”۔
جب اللہ تعالیٰ آیت230کے بعد کی دو آیات میں حلالہ کے بغیر عدت کی تکمیل کے بعد بھی رجوع کی اجازت دیتا ہے تو پھر آیت230کا معاملہ اور پس منظر کیا ہے؟۔ اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس سے پہلے آیت228البقرہ میں اللہ تعالیٰ نے عدت میں اصلاح کی شرط پر شوہروں کو ان کے لوٹانے کا زیادہ حقدار قرار دیا تھا۔ جب عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد اللہ تعالیٰ نے باہمی اصلاح اور معروف طریقے سے رجوع کی اجازت دی ہے تو پھر درمیان کی بات بھی حقائق سمجھ کر دیکھنے کی کوشش کریں تو ذرا تدبر سے معاملہ سمجھ آجائے گا۔
سورہ طلاق کی پہلی دو آیات میں بھی عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد معروف طریقے سے رجوع کی اجازت دے دی ہے۔ جس میں کسی قسم کا کوئی ابہام نہیں ہے۔
جہاں تک آیت230البقرہ کا تعلق ہے تو اس سے پہلے آیت229میں بھرپور وضاحت ہے کہ
” طلاق دو مرتبہ ہے پھر معروف طریقے سے روکنا یا احسان کیساتھ چھوڑ دینا ہے اور تمہارے لئے حلال نہیں کہ جو کچھ ان کو دیا کہ اس میں سے کچھ واپس لے لو مگر جب دونوں کو یہ خوف ہو کہ دونوں اللہ کے حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے اور اگر تمہیں خوف ہو کہ وہ دونوں اللہ کے حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے تو دونوں پر کوئی حرج نہیں ہے کہ عورت کی طرف سے اس چیز کو فدیہ کردیا جائے۔ یہ اللہ کے حدود ہیں ،ان سے تجاوز مت کرو اور جو ان سے تجاوز کرے تو وہی لوگ ظالم ہیں”۔
اگر اس وضاحت کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے تو پھر کوئی ابہام بھی باقی نہیں رہتا ہے۔ اس آیت میں چند وضاحتیں یہ ہیں۔
البقرہ228میں عدت کے تین مراحل واضح ہیں۔البقرہ آیت229میں تین مراحل میں تین مرتبہ طلاق واضح ہے۔ مولانا سلیم اللہ خان اور علامہ غلام رسول سعیدی نے اپنی اپنی بخاری کی شرح میں یہ حدیث لکھ دی ہے کہ نبی ۖ سے صحابی نے پوچھا کہ قرآن میں تیسری طلاق کہاں ہے۔ جس کے جواب میں نبی ۖ نے فرمایا کہ آیت229البقرہ میں دو مرتبہ طلاق کے بعد احسان کے ساتھ رخصت کرنا تیسری طلاق ہے۔ علاوہ ازیں بخاری کتاب التفسیر سورہ طلاق میں ہے کہ حضرت عمر نے نبی ۖ کو بتایا کہ عبداللہ نے اپنی بیوی کو حیض میں طلاق دی ہے ۔ جس پر رسول اللہ ۖ غضبناک ہوگئے اور عبداللہ سے رجوع کیلئے کہا اور فرمایا کہ طہر کی حالت میں اپنے پاس رکھویہاں تک کہ حیض آجائے۔ پھر طہر یعنی پاکی کے دن آجائیں اور پھر حیض آجائے۔ پھر پاکی کی حالت آجائے تو اگر طلاق دینی ہو تو ہاتھ لگائے بغیر چھوڑ دو اور رجوع کرنا ہو تو اس میں رجوع کرلو۔ یہی وہ ہے عدت ہے جس میں اس طرح اللہ نے طلاق کا امر دیا ہے۔ یہ کتاب الاحکام، کتاب الطلاق اور کتاب العدت میں بھی ہے لیکن بخاری نے ان میں صرف غضبناک کے الفاظ کا ذکر نہیں کیا ہے۔ اگر صحیح بخاری کی تمام کتابوں میں غضبناک ہونے کے الفاظ کا ذکر ہوتا تو اس کا نتیجہ کچھ اور نکلتاکیونکہ اس سے مسئلے کی وضاحت میں بھرپور مدد ملتی
محمود بن لبید کی روایت ہے کہ رسول اللہۖ کو ایک شخص نے خبر دی کہ فلاں نے اپنی بیوی کو طلاق دی ہے تو اس پر رسول اللہ ۖ غضبناک ہوکر کھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ تم اللہ کی کتاب کیساتھ کھیل رہے ہو۔ جبکہ میں تمہارے درمیان میں موجود ہوں۔ ایک شخص نے کہا کہ کیا میں اس کو قتل کروں؟۔
اس روایت سے احمق لوگ یہ اخذ کرتے ہیں کہ اگر ایک ساتھ تین طلاق کے بعد رجوع ہوسکتا تھا تو نبی ۖ غضبناک نہ ہوتے بلکہ رجوع کا حکم دیتے۔ حالانکہ اس سے زیادہ مضبوط روایت میں ہے کہ نبی ۖ نے غضبناک ہونے کے باوجود بھی رجوع کا حکم دیاتھا جو بخاری میں ہے اور محمود بن لبید کی روایت بخاری ومسلم میں نہیں ہے۔ روایات میں یہ بھی موجود ہے کہ قتل کی پیشکش کرنے والے حضرت عمر تھے اور یہی واقعہ ہے جس میں عبداللہ بن عمر نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں۔
محمود بن لبید کی روایت سے زیادہ مضبوط روایت صحیح مسلم میں ہے کہ حسن بصری نے کہا کہ مجھ سے ایک مستند شخص نے کہا کہ عبداللہ بن عمر نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دیں۔20سال تک کوئی دوسرا مستند شخص نہیں ملا جس نے اس کی تردید کی ہو۔20سال بعد ایک اور زیادہ مستند شخص نے کہا کہ عبداللہ بن عمر نے ایک طلاق دی تھی۔ صحیح مسلم کی اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ بعد میں لوگوں کا رحجان بدل گیا تھا۔رحجان کی تبدیلی کی ایک وجہ یہ تھی کہ حضرت عمر نے اپنے دور خلافت کے2سال بعد ایک ساتھ تین طلاق پر رجوع نہ کرنے کا فیصلہ دیا تھا۔جس پر اہل علم کے مناظرانہ اور مسلکانہ وفرقہ وارانہ رنجشوں کی وجہ سے امت مسلمہ میں زبردست قسم کی تقسیم آگئی۔
پھر حضرت علی کے شاگردوں کی طرف سے بھی یہ بات سامنے آگئی کہ کسی شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ تو مجھ پر حرام ہے۔ جس پر حضرت علی نے فتویٰ دیا کہ اب رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔ جس میں ایک ساتھ تین طلاق کے واقع کرنے پر اتفاق ہوگیا تھا اور حضرت عمر و حضرت علی کے ماننے والے ایک ہوگئے ۔
کاش! یہ لوگ روایات اور اقوال کی طرف دیکھنے کی جگہ قرآن کے بنیادی آیات سے بھی کچھ استفادہ کرنے کی کوشش کرتے۔ لیکن قرآن کو روایات میں کھو دیا گیا۔ خلفاء راشدین کی طرف منسوب کیا گیا کہ اگر بیوی کو حرام کہہ دیا جائے تو پھر سب کا فتویٰ اور فیصلہ الگ الگ تھا۔ حضرت عمر ایک طلاق رجعی قرار دیتے تھے۔ حضرت علی تین طلاق مغلظہ قرار دیتے تھے اور حضرت عثمان اس کو ظہار کے حکم کے مترادف کہتے تھے۔
علامہ ابن تیمیہ کے شاگرد علامہ ابن قیم نے” زادالمعاد” میں چار خلفاء راشدین اور چار ائمہ مجتہدین کے علاوہ حرام کے لفظ پر دوسرے فقہاء کیساتھ20اجتہادات کا ذکر کیا ہے۔اس کا ذکر صحیح بخاری میں حسن بصری نے کیا ہے کہ ” بیوی کو حرام کہا تو جو نیت کی جائے۔ بعض علماء کا اجتہاد ہے کہ یہ تیسری طلاق ہے۔ جس کے بعد عورت حلال نہیں ہوتی جیساکہ کھانے پینے کی اشیاء کو حرام قرار دینے کے بعد کفارہ ادا کرنے سے حلال ہوجاتی ہیں”۔ بخاری میں ایک روایت چھوڑ کر حضرت ابن عباس کے قول کو بھی نقل کیا گیا ہے کہ بیوی کو حرام قرار دینے پر کچھ بھی واقع نہیں ہوتا نہ طلاق ، نہ قسم اور نہ کفارہ اور یہی رسول اللہ ۖ کی سیرت کا تقاضہ ہے۔ حضرت ماریہ قبطیہ کیلئے فرمایا کہ مجھ پر حرام ہے اور اس کا سورہ تحریم میں ذکر ہے مگر یہ توفیق مسالک کے انبار لگانے والوں کو بخاری سمیت کسی کو بھی نہیں ملی ہے کہ قرآن کی سورہ تحریم کا حوالہ دے دیتے اور بس کرتے۔
آیت کا دوسرا حصہ ہے۔ جس میں مرحلہ وار تین مرتبہ طلاق کے بعد اللہ نے فرمایا ہے کہ ” اور تمہارے لئے حلال نہیں ہے کہ جو کچھ بھی ان کو دیا کہ اس میں سے کچھ بھی واپس لو مگر جب دونوں کو خوف ہو کہ اللہ کی حدود پر دونوں قائم نہیں رہ سکیں گے۔ جب تمہیں یہ خوف ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے تو پھر عورت کی طرف سے اس کو فدیہ کرنے میں کوئی حرج نہیںہے اور یہ اللہ کی حدود ہیں اور جو ان حدود سے تجاوز کرے گا تو یہی لوگ ظالم ہیں”۔ آیت229
اس میں واضح ہے کہ تیسرے مرحلے میں طلاق کا فیصلہ کیا تو تمہارے لئے حلال نہیں کہ ان کو جوکچھ بھی دیا ہے کہ اس میں سے کچھ بھی واپس لے لو۔ یعنی شوہر کی طرف سے دی ہوئی چیز بھی واپس نہیں لے سکتے مگر کوئی ایسی چیز ہو جو رابطے کا ذریعہ ہو اور اس کی وجہ سے دونوں کو اور فیصلہ کرنے والوں کو یہ خوف ہو کہ وہ واپس نہیں کی گئی تو پھر وہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے یعنی اس چیز کی وجہ سے رابطہ اور تعلق بن سکتا ہے اور دونوں کے جنسی تعلقات کا اندیشہ ہو۔ مثلاً شوہر نے موبائل کی ایک سم دی ہے اور وہ سم شوہر کیلئے واپس لینا حلال نہیں ہے مگر وہ دونوں اور فیصلہ کرنے والے خدشہ رکھتے ہیں کہ اگر یہ ”سم” واپس نہیں کی گئی تو اس کی وجہ سے گڑ بڑ ہوسکتی ہے ۔ پھر اس سے بچنے کیلئے وہ ”سم” عورت کی طرف سے دینے میں کوئی حرج دونوں پر نہیں۔ علاوہ ازیں مکان یا کوئی بھی ایسی چیز ہوسکتی ہے جس پر سب کا اتفاق ہوجائے کہ یہ خطرناک ہے۔
حنفی مسلک نے بھی اپنے اصول فقہ میں اسی صورتحال کی بنیاد سے اگلی آیت230البقرہ کی طلاق کو جوڑ دیا ہے اور یہی بات علامہ ابن قیم نے ابن عباس کے حوالے سے بھی لکھ دی ہے اپنی کتاب ”زاد المعادجلد4باب خلع” میں اور اسی بنیاد پر علامہ تمناعمادی نے اپنی کتاب ”الطلاق مرتان” لکھ دی ہے۔ لیکن اس سے خلع مراد لینا غلط ہے اسلئے کہ دو اور تین مرتبہ کی طلاق کے بعد خلع کی کوئی صورت نہیں بنتی ہے۔ حدیث میں تو خلع کی عدت بھی ایک حیض ہے۔ طلاق مرد کی طرف سے ہے اور خلع عورت کی طرف سے ہے۔
آیت230میں طلاق کی وہ صورت ہے کہ جس میں یہ طے ہوجائے کہ دونوں نے صلح نہیں کرنی ہے اور آئندہ رابطے کیلئے بھی کوئی صورت نہیں چھوڑنی ہے۔ اور یہی صورتحال ہی تمام آیات میں واضح طور پر موجود ہے۔ چنانچہ آیت228البقرہ میں اصلاح کی شرط پر عدت میں رجوع کی اجازت دی گئی ہے۔ آیت229میں معروف کی شرط پر عدت میں رجوع کی اجازت دی گئی ہے۔ اگر اصلاح اور معروف کی شرط کے بغیر شوہر رجوع کرے گا تو اس پر رجوع کرنے کے بجائے اسی طرح حلال نہ ہونے ہی کا اطلاق ہوتا ہے۔ اور اگر اصلاح اور معروف کی شرط ہو تو عدت میں بھی رجوع کی وضاحت ہے اور عدت کی تکمیل کے بعد بھی سورہ البقرہ کی آیات231،232میں رجوع کی وضاحت موجود ہے اور اسی کا خلاصہ سورہ طلاق کی پہلی دو آیات میں بھی موجود ہے۔
احادیث صحیحہ ، صحابہ کرام اور ان کے شاگردوں میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ عبداللہ بن عباس نے ٹھیک فرمایا کہ حضرت عمر کے دور سے پہلے تین طلاق کو ایک سمجھا جاتا تھا۔ طلاق ایک فعل ہے ، جس طرح روزہ دن میں ایک مرتبہ رکھا جاتا ہے اور نکاح ایک بار میں ایک ہی ہوسکتا ہے اسی طرح عدت کے ایک مرحلے میں ایک ہی مرتبہ طلاق ہوسکتی ہے ۔ روزہ اور کھانے پر ہزار بار بھی کہا جائے تو ایک ہی روزہ اور ایک ہی مرتبہ کھانا کھانا مراد ہوگا۔ حضرت عمر نے فیصلہ اسلئے دیا کہ عورت رجوع کیلئے راضی نہیں تھی اور حضرت علی نے حرام کے لفظ پررجوع نہ کرنے کا فتویٰ اسلئے دیا کہ عورت رجوع کیلئے راضی نہیں تھی۔ حضرت ابن عباس کے جن شاگردوں نے ایک ساتھ کو تین طلاق قرار دیا تو اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ عورت رجوع کیلئے راضی نہ تھی اور جن شاگردوں نے تین طلاق کو ایک قرار دیا تو اس میں رجوع کیلئے عورت راضی ہوتی تھی۔
طلاق کا اظہار تو بڑی بات ہے جب نبی ۖ نے ایلاء کیا اور آپ ۖ کو معلوم تھا کہ رجوع پر امہات المؤمنین بہت ہی خوش ہوجائیں گی لیکن اللہ نے فرمایا کہ رجوع نہیں کرسکتے۔ پہلے ان کو طلاق کا اختیار دے دو اور پھر وہ چاہیں تو رجوع ہوسکتا ہے۔ یہ صرف قرآن میں عورتوں کے حق کی رہنمائی کیلئے تھا۔
طلاق ونکاح کے نام پرمسالک اور فرقہ واریت نے جس طرح کے بدبودار لیٹرین اور گند کیا ہے اگر عوام کو پتہ چلے گا تو بڑے بڑوں کی بالکل خیر نہیں ہوگی۔ جب حضرت عمر سے کہا گیا کہ عبداللہ بن عمر ہی کو اپنا جانشین بنالو۔ تو حضرت عمر نے کہا کہ اس کو طلاق کے مسئلے کا پتہ نہیں اور اتنی بڑی ذمہ داری کے قابل اس کو سمجھوں گا؟۔ یہ خلافت کیلئے نااہل ہے۔
ابوسفیان اور حضرت عمر میں اس کے علاوہ بھی بہت فرق تھا لیکن جب امام حسن اور امیر معاویہ نے آپس میں صلح کرلی تو شیعہ سنی اہل بیت وصحابہ پر نہیں لڑیں۔ یزیداور مروان بن حکم کے دور میں حضرت حسین اور عبداللہ بن زبیر جب شہید کئے گئے تو حکمران غیر صحابی اور شہداء صحابی تھے۔ صحابہ کی توقیر دل میں ہو تو حسین و عبداللہ بن زبیر کے مقابلے میں یزید ومروان کی کوئی حیثیت نہیں ہوسکتی ہے۔ البتہ یزید ومروان سے زیادہ قرآن کے مقابلے میں مسالک اور فرقے بنانے والے مجرم ہیں۔ پہلے تو لوگ بہت سادہ تھے ۔ ملاجیون اور اس کو ماننے والا طبقہ سادگی کے باعث اچھے لوگ تھے۔ اب تو سودی بینکاری کو جواز بخشنے والے اور زکوٰة کو کالعدم قرار دینے کے فتوے والوں کو چالاک وعیار لوگ پہنچانتے بھی ہیں مگر ………….؟۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ مئی2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

 

نکاح کے بارے میں قرآن وسنت کے درست تصورات اور مذہبی طبقات کے اختلافات کے حل کی طرف پیش قدمی

نکاح کے بارے میں قرآن وسنت کے درست تصورات اور مذہبی طبقات کے اختلافات کے حل کی طرف پیش قدمی

قرآن میں غلام کو ”عبد” اور لونڈی کو”اَمة” کہا گیا ۔ عبد اور لونڈی کو بھی نکاح کا حق دیا گیا ہے۔ بلکہ طلاق شدہ وبیوہ کا جس طرح نکاح کرانے کا حکم دیا گیا ہے اسی طرح غلاموں اور لونڈی کے نکاح کرانے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔
قرآن نے غلام اور لونڈی کا اسٹیٹس تبدیل کردیا ہے اور مالکانہ حق کی جگہ ملک یمین کا تصور دیا ہے۔ جس کا مطلب ایک ایگریمنٹ ہے۔ جتنے میں غلام یا لونڈی کو خریدا گیا ہے تو اس پر حق ملکیت کا تصور باطل قرار دیا گیا۔اسلئے کہ انسان جانور کی طرح کسی کی ملکیت نہیں ہوسکتا ہے۔ بلکہ اس کی حیثیت گروی کی قرار دی گئی ہے۔ جب بھی مطلوبہ رقم میسر ہوگی تو لونڈی اور غلام کو آزادی مل جائے گی لیکن دنیا میں غلام بنانے کے طریقے سبھی حرام قرار دئیے گئے۔ جن میںسود، مزارعت،، جنگوں میں غلام بنانا، جوا،بردہ فروشی اور بدمعاشی وغیرہ شامل ہیں۔
نکاح اور ملکت ایمانکم میں فرق یہ ہے کہ نکاح میاں بیوی کے درمیان ہوتا ہے اور ملکت ایمانکم ایگریمنٹ ہے جس کا اطلاق غلام اور لونڈی پر بھی ہوتا ہے اور آزاد عورت اور آزاد مرد کا ایک وقتی تعلق بھی ہوسکتا ہے۔ تجارتی معاہدہ بھی ہوسکتا ہے۔ قرآن میں جہاں یہ الفاظ استعمال ہوئے ہیں وہاں سیاق اور سباق کو دیکھ کر پتہ چل سکتا ہے کہ اس سے کیا مراد ہے؟۔
مثلاً سورہ نساء کی ابتداء میں اللہ نے فرمایا: فانکحوا ماطاب لکم من النساء مثنٰی وثلاث ورباع وان خفتم ان لا تعدلوا فواحدہ او ماملکت ایمانکم ”پس نکاح کرو،عورتوں میں سے جن کو چاہو،دودو، تین تین، چار چار اور اگر تمہیں خوف ہو کہ انصاف نہیں کرسکوگے تو ایک یا جن کے مالک تمہارے معاہدے ہوں”۔ (النساء آیت3)
یہاں لونڈی اور غلام مراد نہیں بلکہ مستقل نکاح کی جگہ وقتی ایگریمنٹ ہے۔ جس میں مالی اور جنسی اتنی طاقت نہ ہو کہ وہ ایک سے زیادہ عورتوں کے ساتھ عدل کرسکے تو پھر ایک عورت یا ایگریمنٹ پر گزارہ کرے۔حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ صحابہ نے نبی ۖ سے عرض کیا کہ کیا ہم خود کو خصی بنالیں؟۔ نبیۖ نے منع کیا اور ایک یا دو چادر کے بدلے ایگریمنٹ کی اجازت دے دی اور فرمایا : لاتحرموا ما احل اللہ لکم من الطیبٰت ”حرام مت کرو جن پاک چیزوں کو اللہ نے تمہارے لئے حلال کیا ہے”۔(صحیح بخاری)
جس میں ایک بیوی رکھنے کی بھی صلاحیت نہ ہو تو وہ اس طرح ایگریمنٹ پر گزارہ کرسکتا ہے۔ عبداللہ بن مسعود کی بیگم نہیں تھی اور حضرت عثمان نے کسی عورت سے نکاح کی پیشکش کردی تو عبداللہ بن مسعود نے اس کا انکار کردیا۔ مولانا سلیم اللہ خان صدر وفاق المدارس پاکستان نے بخاری کی شرح میں اس پیشکش کو مسترد کرنے کی وجہ انتہائی غلط لکھ دی ہے کہ قرآن کو جمع کرنے کے مسئلے پر ناراض تھے کہ ان کو شریک کیوں نہیں کیا گیا۔ اس سے بہتر تھا کہ وہ لکھتے کہ شیخ رشید نے کہا تھا کہ جب بازار میں دودھ ملتا ہو تو بھینس رکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ کیونکہ قرآن کی تحریف کو تقویت دینا انتہائی بڑے درجے کا کفر ہے جس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مولانا سلیم اللہ خان نے لکھ دیا ہے کہ ” صحیح بخاری میں عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ حضرت علی نے کہا کہ ” رسول اللہ ۖ نے ایک دو گتوں کے درمیان قرآن کے علاوہ کچھ نہیں چھوڑا ہے”۔ اور یہ بخاری نے شیعوں کے مؤقف کو رد کرنے کیلئے لکھ دیا ہے کہ تم قرآن کی تحریف کے قائل ہو لیکن تمہارے علی تحریف کے قائل نہیں تھے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ علی کی یہ بات غلط ہے ۔ قرآن میں تحریف ہوئی ہے۔ (کشف الباری :مولانا سلیم اللہ خان)
مولانا سلیم اللہ خان کی اس بکواس کو اس کے نالائق اور جاہل شاگردوں نے مرتب کرکے بہت غلطی کی ہے اور اس کی اعلانیہ تردید اور اس سے توبہ کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ البتہ صحیح بخاری میں امام ابوحنیفہ کے مؤقف کو غلط ثابت کرنے کیلئے ایک ساتھ تین طلاق کی روایت غلط نقل کی گئی ہے۔اسی طرح سے فتح خیبر کے حوالہ سے گھریلو گدھوں اور متعہ کی حرمت شیعہ کے مؤقف کو غلط ثابت کرنے کیلئے نقل کی گئی ہے جس کوبخاری کے اندر کے تضاد کی وجہ سے رد کرنا ضروری ہے اسلئے کہ متعہ کو جواز فراہم کرنے والی روایت مرفوع ، زیادہ معتبر اورواضح ہے اور فتح خیبر تک گھریلو گدھوں کا کھانا بھی انتہائی غلط ہے۔
عبداللہ بن مسعود پر الگ مصحف کا الزام بھی غلط ہے جس شخص نے ابن مسعود کے مصحف کی زیارت کی اور اس میں اس نے سورہ فاتحہ اور آخری دوسورتوں کو نہیں پایا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ پہلا اور آخری صفحہ پھٹ کر ضائع ہوچکا تھا۔ جیسا مساجد میں بہت قرآن ہوتے ہیں لیکن اس پر کہانیاں گھڑی گئی ہیں۔ جہاں تک فما اسمتعتم منھن کے ساتھ الی اجل مسمی کے اضافے کی بات ہے تو وہ عبداللہ بن مسعود نے جلالین اور تفسیرابن عباس کی طرح تفسیر لکھ دی ہے۔ اگر یہ اضافی آیت ہوتی تو حنفی مسلک کے نزدیک خبر واحد کی آیت بھی آیت ہی کے حکم میں ہے ،پھر تو احناف کے نزدیک متعہ جائز ہونا چاہیے اسلئے کہ خبرواحد کی آیت سے ثابت ہے۔ حالانکہ یہ غلط ہے ۔
آج اگر ہم لکھ دیں کہ عبداللہ بن مسعود، بخاری ومسلم، اصول فقہ میں قرآن کی تعریف ، مولانا انورشاہ کشمیری کے فیض الباری اور مسلک حنفی میں قرآن کی تحریف ثابت ہے تو لوگ ڈنڈے لیکر پیچھے پڑجائیں گے کہ تم تحریف کے قائل ہو؟۔ مگر جب ہم ان کی تردید کررہے ہیں تو کوئی حمایت نہیں کرتا ؟۔
بیوہ کو خاوند کے مال کا1/8ملتا ہے نبیۖ نے درہم و دینار کی وراثت نہیں چھوڑی تو حضرت عائشہ و دیگرنبی ۖ کی ازواج مطہرات اپنے اپنے حجروں کی مالک بن گئی تھیں۔اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ گھر کی مالکن عورت ہی ہوتی ہے۔ فرمایا: لاتخرجوھن من بیوتھن ولایخرجن الا ان یاتین بفاحشة مبینة ” ان کو ان کے گھروں سے مت نکالو اور نہ وہ خود نکلیںمگر جب وہ کھلی فحاشی کا ارتکاب کریں”۔ سورۂ طلاق
سویڈن قانون کے مطابق جب میاں بیوی میں جدائی ہو تو ان کا مشترکہ گھر دونوں میں تقسیم ہوگا۔ ہم سویڈن میں ایک شخص کے مہمان تھے جس کی بیوی سے جدائی ہوگئی تھی اور اس نے بتایا کہ اس نے سارا گھر بیوی کو دے دیا اسلئے کہ عورت پر اسے رحم آیا اور قانون کے مطابق اس نے اپنا حق نہیں لیا۔
اسلام میں عورت پر یہ احسان نہیں ہے کہ اس کو طلاق دی جائے اور گھر اس کیلئے اور اس کے بچوں کیلئے چھوڑد یا جائے۔ بلکہ یہ طلاق کے بعد عورت کا اپنا حق ہے۔ اس نے جب نکاح کرلیا تو اپنی ساری کشتیاں جلا ڈالیں۔ اب اللہ تعالیٰ نے اس کو صرف مرد کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑا ہے۔ اس کے ایسے حقوق رکھے ہیں کہ جب انسانیت کو پتہ چل جائے تو پھرسارا انسانی معاشرہ ہی بدل جائے گا۔ گھر بھی اسی کا ہے۔ خرچہ بھی شوہر ہی کی ذمہ داری ہے۔ شوہر کی وسعت کے مطابق حق مہر بھی اس کا حق ہے۔ آج پوری دنیا کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ فقہاء نے لکھ دیا ہے کہ بیوی کا علاج معالجہ شوہر کے ذمے فرض نہیں ہے۔ حالانکہ کھانے پینے کی طرح علاج معالجے کی اہمیت ہے اور اس کیلئے بیوی کس کے پاس جائے ؟۔ مفتی محمد تقی عثمانی نے بڑا کمال کردیا کہ اپنے اکابر ین سے انحراف کرکے لکھ دیا ہے کہ ”علاج کرنا بھی شوہر کی اخلاقی ذمہ دای ہونی چاہیے”۔
مولانا محمد منظور نعمانی کے بیٹے مولانا عتیق الرحمن سنبھلی خط لکھ کر مفتی تقی عثمانی سے پوچھتے ہیں کہ ”حق مہر کی شریعت میں حیثیت کیا ہے؟”۔ جس کے جواب میں لکھ دیا کہ ” یہ اعزازیہ ہے”۔ اعزاز میں تو ایک چونی کا انعام بھی بہت ہوتا ہے۔
مولانا سلیم اللہ خان نے لکھا کہ ” جس کے نزدیک چور کا ہاتھ جتنی رقم میں کٹتا ہے ، اتنی کم ازکم رقم حق مہر میں دینی فرض ہے۔اسلئے کہ جتنی رقم میں چور اپنے ایک عضوء سے محروم ہوتا ہے اتنی رقم میں شوہر اپنی بیوی کے ایک عضوء کا مالک بنتا ہے”۔
حالانکہ قرآن نے واضح کردیا ہے کہ امیر پر اپنی وسعت اور غریب پر اپنی حیثیت کے مطابق حق مہر فرض ہے۔ جب کسی صحابی نے نبی ۖ سے اس عورت کا رشتہ مانگا تھا جس نے خود کو نبیۖ کیلئے ہبہ کردیا تھا تو نبی ۖ نے مالی حیثیت پوچھ لی اور اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں تھا کہ ایک لوہے کی انگوٹھی سے بھی حق مہر ادا ہوسکتا ہے بلکہ اس صحابی کی پوری ملکیت یہی تھی۔ اور وہ ایک گھر کا مالک تھا۔ اس کے باوجود اللہ نے فرمایا کہ نبی کے علاوہ کسی اور کا یہ حق نہیں کہ کوئی عورت خود کو اس کوہبہ کردے۔
ایک آدمی کھرب پتی ہے یا ارب پتی ہے یا کروڑ پتی ہے یا لکھ پتی ہے یا مسکین ہے۔ تو اگر اس نے نکاح کرلیا اور ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دی تو اپنی حیثیت کے مطابق اس پر حق مہر کا نصف دینا فرض ہے۔ یہ اس کی مرضی پر نہیں بلکہ اس کی مالی حیثیت کے مطابق اللہ تعالیٰ نے فرض قرار دیا ہے۔
بیوہ کو1/8ملتا ہے اور وہ گھر کی مالکن بھی بنتی ہے تو حق مہر اس کی حیثیت کے مطابق سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہے۔ عام حالات میں بیوی خود کواپنے شوہر کے مال کا مالک سمجھتی ہے اور وہ ایک حد تک مالک ہوتی بھی ہے ۔ لیکن جب جھگڑا یا طلاق کا مسئلہ آتا ہے تو اس کو ہر چیز سے محروم کردیا جاتا ہے۔
قرآن وسنت اور فطرت نے جو حقوق ایک بیوی کو دئیے ہیں وہ طلاق کی صورت میں ہر چیز سے محروم کردی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ اسکے بچے بھی چھن جاتے ہیں جو سب سے زیادہ تکلیف دہ بات ہے۔ یہ قرآن وسنت اور اسلام نہیں ہے بلکہ علماء وفقہاء کے خود ساختہ مسالک ، فرقے اور مذاہب ہیں۔
مسلمانوں میں رائج نکاح میں جب عورت کو نکاح کے حقوق حاصل نہیں ہیں تو اس کو کیا نام دیا جاسکتا ہے؟۔ یہ جائز ہے یا ناجائز حرام کاری ہے؟۔ اللہ نے واضح کیا ہے کہ طلاق کے بعد شوہر کیلئے حلال نہیں ہے کہ عورت سے کچھ بھی واپس لے،اگرچہ اس کو بہت سارا مال دیا ہو اور نہ ہی مال واپس لینے بہتان طرازی کرنے کی اس کو اجازت ہے۔ (النسائ:20)
ہمارے ہاں رائج نکاح پر نکاح کا نہیں بلکہ ایگریمنٹ کا اطلاق ہوتا ہے اسلئے کہ نکاح کے قانونی حق سے عورت بالکل محروم ہوتی ہے۔ اسلام سے قبل لونڈی کیساتھ بھی وہ ناجائز نہیں ہوتا تھا جو علماء ومفتیان نے نکاح کے نام پر عورت کے ساتھ زیادتیوں کی اجازت دی ہے۔ بیوی سے شوہر کہتا ہے کہ تجھے تین طلاق ۔ پھر اپنی بات سے مکر جاتا ہے تو اس پر بیوی کو حرام قرار دیا گیا ہے اور بیوی کیلئے وہ شوہر حرام قرار دیا گیا ہے اسلئے عورت کو خلع لینے کا حکم ہے لیکن اگر شوہر خلع نہیں دیتا ہے تو عورت حرام کاری پر مجبور ہے۔ عورت اس کے ساتھ حرامکاری کی مباشرت کرے لیکن لذت نہیں اٹھائے۔ دوسری طرف یہ بکواس مسئلہ بھی بتایا ہے کہ اگر چندازواج میں سے کسی ایک کو طلاق دیدی جائے اور یہ تعین نہ ہو کہ کس عورت کو طلاق دی ؟۔ تو باری باری سب سے مباشرت کرے ، جس میں زیادہ لذت ہوگی وہی طلاق ہوگی اسلئے کہ حرام میں لذت زیادہ ہوتی ہے۔
نکاح ، طلاق اور خلع کے مسائل میں قرآنی آیات سے انحراف کرکے وہ گل کھلائے ہیں،جنہیں دیکھ کر شرمائے یہود۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر اپنا فضل کیا ہے اور دین کی سمجھ دی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی سے بھی اس دور میں ملاقاتیں کی تھیں اور قبلہ ایاز صاحب سے بھی ملاقاتیں کی ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل میں سرکاری سطح پر سبھی فرقوں اور مسالک کی نمائندگی ہوتی ہے اور اس میں مزید اچھے لوگوں کو بھی دعوت دے کر آج مسائل کا حل کرسکتے ہیں۔
ایلاء کی عدت چار ماہ اور طلاق کی عدت تین ماہ ہے۔ بیوہ کی عدت 4ماہ10دن اور خلع کی عدت ایک ماہ ہے۔ طلاق میں عورت سے دی ہوئی منقولہ وغیرمنقولہ اشیاء واپس نہیں لے سکتے ہیں لیکن خلع میں عورت کو گھر چھوڑنا پڑتا ہے اور غیر منقولہ دی ہوئی جائیداد سے بھی دستبردار ہونا پڑتا ہے۔
مذاق اور سنجیدگی میں طلاق اس وقت معتبر ہے کہ جب وہ رجوع کیلئے راضی نہ ہو اسلئے کہ طلاق میں اس کے زیادہ حقوق ہیں۔ طلاق صریح اور طلاق کنایہ کے تمام الفاظ بھی عورت کے حق کو تحفظ دینے کیلئے ہیں۔ اگر شوہر نے ایلاء کیا جس میں کوئی صریح طلاق نہیں ہوتی ہے تو شوہر یکطرفہ رجوع نہیں کرسکتا ہے بلکہ رجوع سے پہلے عورت کو طلاق کا اختیار دینا ضروری ہے۔ اگر طلاق کا عزم تھا تو اللہ اسے پکڑے گا اسلئے کہ یہ دل کا گناہ ہے اور اس کی وجہ سے عورت3کی جگہ4ماہ تک انتظار کرے گی۔ اس ایک ماہ کی زیادہ عدت پر بھی شوہر کی پکڑ ہوگی۔
جب طلاق کا اقدام یا علیحدگی کے اسباب شوہر نے پیدا کئے ہوں گے تو عورت کو طلاق کے حقوق ملیں گے اور جب خلع عورت کی طرف سے ہوگا تو پھر عورت کو گھر اور منقولہ جائیداد سے دستبرداری اختیار کرنی پڑے گی۔ اگر قرآن وسنت کے یہ قوانین مسلمان معاشرے میں رائج ہوتے تو مغرب اور دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بیوی و شوہر کیلئے جمہوریت کی قانون سازی نہیں کرنی پڑتی۔ عیسائیوں میں 3سو سال پہلے تک طلاق کی شرعی اجازت نہیں تھی۔ عیسائیوں نے قرآن سے ہی متاثر ہوکر اپنے ہاں طلاق کیلئے قانون سازی کردی ہے۔
اگر مسلمانوں میں نکاح اور ایگریمنٹ کے حقوق واضح ہوتے تو عیسائی اور ترقی یافتہ ممالک کے لوگ اسلام ہی کو رائج کرتے۔ نکاح کے بعد طلاق و خلع کے حقوق جدا ہوتے اور اگریمنٹ میں بھی عورت کسی ایک شخص کے ساتھ پابند ہوتی۔ جس سے اولاد کی شناخت کو تحفظ ملتا اور عدت کی پابندی سے ایڈز وغیرہ کی بیماریاں بھی دنیا میں نہیں پھیل سکتی تھیں۔
قرآن وحدیث سے بھی مذہبی طبقہ ناواقف ہے اور نکاح وطلاق اور خلع کے احکام کے بارے میں بھی غفلت میں ہے۔ جس دن مذہبی طبقے کا رخ پھر گیا تو بہت بڑا انقلاب آجائیگا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ مئی2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

 

منظور پشتین و سید عالم محسودکا مقدمہ

منظور پشتین و سید عالم محسودکا مقدمہ

منظور احمد پشتین صرف محسود اور پشتون قوم کا اثاثہ نہیں بلکہ بلوچ ، سندھی اور سرائیکی مظلوم قوموں کے علاوہ مظلوم پنجابی قوم کیلئے بھی ایک بڑا اثاثہ ہیں۔ اس طرح سیدعالم محسود ایک بہت بڑا سرمایہ ہیں۔ منظور پشتین نے کہا ہے کہ پشتون قوم اس وقت ایک قوم ہوگی کہ جب چمن کے پشتونوں کی تکلیف تمام پشتون قوم کو محسوس ہو۔ ایک پشتون کے دکھ درد اور تکلیف کے احساس کو تمام پشتون محسوس کریں۔ اب کہیں کسی کو تکلیف ہوتی ہے اور ایک بڑے واقعہ کی وجہ سے وہاں احتجاج ہوتا ہے توکسی اور علاقے کے لوگوں کو پتہ بھی نہیں ہوتا ہے کہ کیا ہواہے؟۔
منظور احمد پشتین نے کہا کہ دہشت گردوں کے گروپ اور قائدین بدل جاتے ہیں اور جرنیل بھی بدل گئے مگر پالیسیاں اب بھی وہی ہیں۔ عالمی قوتیں اپنی پروکسی کے ذریعے لڑائی ہمارے وطن میں لڑتے ہیں۔ ایک گروپ کو امریکہ فنڈ دیتا ہے اور دوسرے گروپ کو چین فنڈ دیتا ہے لیکن خون ہماری قوم کے لوگوں کا بہتا ہے۔ وسائل ہمارے لوٹ لئے جاتے ہیں۔ اس صورتحال میں قوم کی تنظیم سازی بہت ضروری ہے۔ انقلاب کو بڑے لوگ نہیں لاتے بلکہ عام عوام میں جب شعور آجاتا ہے تو بڑے بڑے انقلاب یہی عام لوگ برپا کرتے ہیں۔
سیدعالم محسود بھی پشتونوں اور ان کے وطن میں ہونے والی سازشوں کی بہت کھل کر بات کرتا ہے۔ غلام قوموں کی مثالیں دیتا ہے اور مشہور دانشوروں کے اقوال زریں سے اپنی قوم میں تعلیم وشعور اور بیداری کی فضاء ہموار کرتا ہے۔ جب کسی قوم کو دوسری اقوام کی کتابوں اور انقلابیوں سے آگاہ کیا جائے تو اس پر اپنی قوم کو قیاس کرنے سے پہلے اپنی قوم کی اصلی حالت بھی ملحوظِ خاطر رکھی جائے اور ان سے قوم کو نجات دلائی جائے۔
حجاز مقدس صحرائے عرب کی وہ سرزمین تھی جس پر کسی بھی بڑی طالع آزما حکمران کی حکمرانی نہیں تھی۔ چھوٹے چھوٹے قبائل تہذیب وتمدن سے محروم ، جنگ وجدل کی آماجگاہ ، ظلم و جبر کی چراگاہ اور جہالت کی اندھیر نگری میں ڈوبے ہوئے منتشر لوگوں کی بستیاں تھیں۔ مکہ اور یثرب بھی اس وقت اس وطن کا حصہ تھے۔ البتہ مکہ مکرمہ کو مذہبی تقدس کا درجہ حاصل تھا۔ لوگ بیٹیوں کو زندہ دفن کرتے تھے۔ گھوڑا آگے بڑھانے پر سالوں لڑائی کرتے تھے۔ جہالت کی اندھیر نگری میں ڈوبے ہوئے تھے لیکن بڑی اچھی صفات اور خوبیوں کے بھی یہ مالک تھے۔
رسول اللہ ۖ نے بعثت سے پہلے بھی اتفاق واتحاد کے درس سے اپنی قوم کو نوازا تھا۔ جب تعمیر کعبہ پر حجر اسود رکھنے کا مسئلہ پیش آیا تو سارے قبائل کو نمائندگی کے شرف سے نوازاتھا اور جب اللہ نے وحی نازل کی تو بھی مشاورت کا اہم حکم دیا ۔
وزیرستان کے لوگوں میں عرب سے بڑی مشابہت ہے۔ دی پٹھان میں انگریز نے لکھ دیا ہے کہ یہ دنیا کا واحد خطہ ہے جو حکمرانوں کی دسترس سے ہمیشہ باہر رہاہے۔ کیونکہ حکمرانوں کی دلچسپی خراج سے ہوتی ہے اور وزیرستان کے لوگوں کے پاس یہ وسائل نہ تھے کہ حکمران ان پر حکومت کرنے میں دلچسپی لیتے۔ انگریز دور میں بھی بڑا ہوشیار اور بہادر آدمی وہی شمار ہوتا تھا جو افغانستان اور انگریز دونوں سے مراعات لیتا تھا۔ غریب چور کو ماں لوریاں دیتی ہوئی کہتی تھی کہ غال شہ خدائے دے مال شہ ”چور بن جاؤ اور اللہ تمہارا مدد گار بن جائے”۔تاہم وزیرستان کے لوگوں میں خوبیاں بھی بہت تھیں۔ ظالم کے خلاف اتحاد اور مشاورت سے فیصلے ان کا وہ حلف الفضول تھا جو بعثت سے قبل تھا اور نبی ۖ نے خطبہ حجة الوداع میں سرخ اونٹوں سے بھی زیادہ محبوب قرار دیا تھا۔ رسول اللہ ۖ نے صحابہ کی تربیت کی تھی جس کی وجہ سے حضرت ابوبکر ، عمر اور عثمان کی خلافت کا اچھا خاصہ دور کامیابی سے چل گیا۔ حالانکہ ابوبکر کی خلافت کو ہنگامی اور عمر کی خلافت کو نامزدگی اور عثمان کی خلافت کو بہت محدود مشاورت کا درجہ حاصل تھا۔ جن میں انصار شامل نہ تھے۔
وزیرستان کے لوگوں کا سب سے بڑا کمال مشاورت کے عمل کا تھا جس میں وحی کی سمجھ نہیں بلکہ فطرت کی رہنمائی تھی۔
فطرت کے مقاصد کی کرتاہے نگہبانی یا بندہ صحرائی یا مرد کوہستانی
اسلام نے عربوں کو جہالت سے نکال دیا تھا لیکن محسودقوم اپنی فطرت کی اچھائی پر قائم تھی۔ البتہ اس کی برائیوں کا خاتمہ علماء ومشائخ اسلئے نہیں کرسکے کہ اسلام خود بھی اجنبیت کا شکار تھا تو اس قوم کی اصلاح کہاں سے ہوتی؟۔ تبلیغی جماعت نے اسلام کی تبلیغ کردی لیکن جب اس کے جاہل افراد حلالہ سے اپنی غیرت کا بیڑہ غرق کرنے لگے تو محسود قوم کے غیرتمند وں نے کہا کہ اچھا خاصا غیرتمند انسان ہوگا مگر جب جماعت میں وقت لگاتا ہے تو غیرت بالکل کھو دیتا ہے۔ حلالہ کا واحد حکم ہوتا تھا جس پر تبلیغی عمل کرتے تھے باقی قرآنی احکام سے واقفیت نہیں رکھتے تھے۔ پھربعد میںطالبان آگئے۔
جب طالبان نے امریکہ کے خلاف جہاد کرنا شروع کیا تو اس وقت پاکستان کی ڈبل پالیسی تھی۔ایک طرف مجبوری میں اس نے امریکہ کا ساتھ دیا اور دوسری طرف طالبان کی سرپرستی بھی کرتا تھا۔ صلح حدیبیہ کے بعد نبی ۖ نے ابوجندل کو حوالے کردیا اور ابوجندل نے اپنے جیسے لوگوں سے مجاہدین کا لشکر بنایا تو کفار کے ناک میں دم کردیا۔ طالبان نے امریکہ سے لڑائی کا آغاز کیا تو پاکستانی فوج اور اپنی عوام کے خلاف بھی بھتہ سے لیکر لیڈی ڈاکٹر کے اغواء برائے تاوان تک سب کچھ کردیا۔
جب بڑے پیمانے پر پیسہ ملنے لگا تو خود کش بھی کاروبار بن گیا۔ جس قوم کی لڑکیاں برائے فروخت ہوں تو لڑکوں کے بک جانے پر کیا تعجب ہوسکتا ہے؟۔ دینداری سے زیادہ لالچ کے پروانوں نے اپنا کام دکھانا شروع کیا۔ ہمارے عزیزوں کے بارے میں مشہور تھا کہ ” رات کو کھمبے چوری کرکے نکالتے اور دن کو عوام کے سامنے توبہ کرتے ہیں”۔ وہ بھی طالبان بن گئے۔ ہمارے عزیز پیر کریم کے اپنے بیٹے بھی ملوث تھے مگر اس کے بیٹے نے اپنے قریبی عزیز اور پڑوسی پرہمارے واقعہ میں ملوث ہونے کا الزام لگادیا۔ پیر کریم میرے بھائی کی تعزیت پر آتا تھا لیکن اپنی بھابھی کی تعزیت کیلئے پہلے دن بھی نہیں بیٹھا۔ حالانکہ اس کے بھتیجوں نے کہا تھا کہ چاچو کریم وہاں بیٹھا ہے۔
ہماے خلاف ایک مہم چلائی گئی کہ لوگوں کی بیویاں اغواء کرتے ہیں۔ کسی کی بیوی بچوں کو چھین لیا ہے وغیرہ۔ طالبان کو غلط معلومات دیکر اکسایا گیا اور طالبان ان کو سزا دینے پر بھی تیار تھے لیکن ہماری غیرت نے گوارا نہیں کیاکہ جاسوسی کے نام پر طالبان ہمارے قریبی عزیزوں اور دوسرے خوار غریب کو قتل کریں۔ جب تک ہم اپنی کمزوریوں پر قابو نہیں پائیں گے تو یہ معاملات چلتے رہیںگے۔ میں چاہوں گا کہ پیر کریم سے کچھ معلومات لیکر شائع کردوں تاکہ غلط فہمیوں کے ازالہ میں ایک بنیادی کردار ادا ہو۔ غلط رسموں کی اصلاح کیلئے منظور نے بھی بیان دیا تھا لیکن یہ بہت کمزور بات ہے۔ جب تک مضبوط اور حقائق کی بنیاد پر پوری پشتون اور پاکستانی قوم کو تباہی وبربادی سے نہ نکالا جائے تو خریدنے اور بکنے کا سلسلہ جاری رہے گا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ مئی2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

 

قرآن وحدیث سے انحراف کا نتیجہ

قرآن وحدیث سے انحراف کا نتیجہ

ےٰبنی اٰدم لایفتنکم الشیطٰن کما اخرج ابویکم من الجنة ینزع عنھما لباسھما لیریھما سواٰتھما انہ یرٰ کم ھو و قبیلہ من حیث لاترنھم انا جعلنا الشیٰطین اولیاء للذین لایؤمنون (الاعراف:27)
” اے آدم کی اولاد ! خبردار تمہیں شیطان فتنے میں نہ ڈالے جیسا کہ تمہارے والدین کو بہشت سے نکالا۔ ان دونوں کے کپڑے اتروادئیے تاکہ ان کی شرمگاہوں پر ان کی نظریں پڑجائیں۔بیشک وہ اور اس کا قبیلہ تمہیں وہاں سے دیکھتے ہیں کہ تم انہیں نہیں دیکھتے۔ بیشک ہم نے شیطانوں کو ان کا سرپرست بنایا ہے جو ایمان نہیں لاتے ہیں”۔
لڑکا اور لڑکی دنیا کی جنت میں رہتے ہیں۔ دلہن دلہا کی جگہ بھگوڑے بنتے ہیں تو تذلیل ہوتی ہے۔ حدیث میں واضح ہے کہ ایسا نکاح باطل ہے باطل ہے باطل ہے۔ مولوی دنیا بھر کے لوگوں پر منکرِ حدیث کا فتویٰ لگانے میں کوئی حرج محسوس نہ کرے لیکن خود اپنی تعلیمات میں اس کا بہت بڑا مرتکب ہوتا ہے۔ جس کا اسے اور اسکے ماحول کو احساس تک نہیں ہوتاہے۔
ایسے بیہودہ نکاح کیلئے شریف گواہ کہاں مل سکتے ہیں؟۔ حدیث ہے کہ ”نکاح میں دو صالح گواہ مقرر کرو” ۔لیکن حنفی مسلک میں ضرورت کیلئے دو فاسق کی گواہی کافی ہے۔ حدیث ہے کہ دف بجاکر نکاح کا اعلان کرو۔ حنفی کہتا ہے کہ دو فاسق گواہوں کی خفیہ گواہی بھی اعلان ہے۔ انکار حدیث کا فتنہ تو کوئی علماء ومفتیان سے سیکھے۔ انکار حدیث کے اس فتنے کی وجہ سے معاشرے میں بھی بہت بگاڑ پیدا ہوگیا ہے۔
لڑکی اور لڑکے کے بھاگنے کیلئے علماء نے مکمل راستہ ہموار کیا ہے اور یہ اتنا نالائق طبقہ ہے کہ اپنی نالائقی کا احساس تک نہیں رکھتا ہے۔ بلکہ اس کا سارا الزام معاشرے اور ماحول پر ڈالنے سے بھی نہیں شرماتا ہے۔اس بیچارے گدھے کویہ پتہ تک نہیں ہوتا ہے کہ اس کے اپنے غلط نصاب کا یہی نتیجہ نکلتا ہے۔
لڑکی اور لڑکے کو قتل کردیا جاتاہے اور اگر وہ بچ جائیں تو پھر ان کے خاندان کی عزت فالودہ بن جاتی ہے۔ جب لڑکا لڑکی کو اس طرح سے شادی کی اجازت مل جائے تو وہ ہوامیں ہی معلق ہوجاتے ہیں۔ نوکری اور کاروبار ہو تو بھی چھوٹ جاتا ہے اور اپنے اپنے خاندانوں سے بھی ہاتھ دھو لیتے ہیں۔ ان کی عزت بھی تذلیل میں بدل جاتی ہے۔
جب معمول کے مطابق شادی ہوتی ہے تو عزتوں کے ہار پہنائے جاتے ہیں۔ ایک طرف سے جہیز تودوسری طرف سے حق مہر ملتا ہے۔ دوست احباب تحفے تحائف دیتے ہیں۔ بہتر مستقبل کیلئے نوکری اور کاروبار کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ آل اور اولاد کیلئے دونوں طرف کے رشتہ آپس میں مل جل کرخوشیوں کے سامان مہیا کرتے ہیں۔ ان کی وجہ سے دو خاندانوں میں دوستی اور رشتہ داری کا تعلق قائم ہوجاتا ہے۔ اختلافات کی صورت میں دونوں طرف کے رشتہ دار سمجھانے بجھانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک طرف انتہائی خوشنما تصویر دکھائی دیتی ہے اور دوسری طرف انتہائی بدنما اور بھیانک تصوردکھائی دیتا ہے۔
اگرچہ دونوں صورتوں میں حق اور باطل کا فرق بہت واضح ہے لیکن ایک طرف ہمارے علماء ومفتیان نے احادیث کا انکار کرکے غلط راستہ ہموار کردیا ہے تو دوسری طرف عورت کے صحیح حقوق بھی ہمارے اسلامی معاشرے میں بالکل نہیں ملتے ہیں اور اگر عورت پر زبردستی سے والدین اپنے فیصلے مسلط نہ کرتے تو یہ حادثات بھی پیش نہ آتے۔ عورت بیوہ وطلاق شدہ ہو پاپھر کنواری اس پر والدین زبردستی اپنی مرضی مسلط نہیں کرسکتے ۔
مفتی محمد تقی عثمانی نے نابالغ لڑکیوں و دیگر معاملے پر شادی کے حوالہ سے جوظالمانہ فتوے لکھے،اگر خلفائ بالخصوص حضرت عمر کی حکومت ہوتی تو ان فتوؤں پر مفتی تقی عثمانی کو بالکل سرعام کوڑے مارے جاتے۔ اسلام کسی کے باپ کی جاگیر نہیں۔ اسلام کی درست تعلیم کو عام کرنا اہم فریضہ ہے۔ بنی ہاشم نے پہلے دور میںبھی اسلام کیلئے قربانی دی مگر ابولہب بھی ان میں تھا لیکن ہم ابوطالب وعلی کا کردار ااداکریںگے۔ انشاء اللہ تعالیٰ
ٔٔٔ٭٭٭
بھاگ کر شادی کرنے والی سلمہ شیخ کو معمولی بات پر اس کے شوہر نے گلا دبا کر قتل کیا۔ ہماری اکثرلڑکیاں لوفر قسم کے لڑکوں کی پیار بھری باتوں میں آکر گھر سے فرار ہوتی ہیں، جس میں قرآن وحدیث کیخلاف شرعی مسائل کا بہت بڑا عمل دخل ہے ذرا سوچئے سہی!
٭٭٭
16سال کی پٹھان لڑکی شادی کرنے کیلئے لاہور آگئی۔
3سال کا تعلق ہے اب کراچی سے بھاگ آئی۔
گھر والے نہیں مان رہے تھے تو ان کو چھوڑ دیا۔

السلام علیکم ناظرین! دیکھو ٹی وی کے ساتھ میں ہوں آپ کی ہوسٹ رابعہ مرزا خوش آمدید کہوں گی۔ لڑکی اسکے ساتھ لڑکا ہے ۔ ان کا آپس میں کیا ریلیشن ہے آئے ہیں یہ کراچی سے۔ ریسکیو کیا ہے ان کو پولیس تحفظ مرکز نے۔ میں لڑکا لڑکی سے پوچھتی ہوں کیا معاملہ ہے کیوں آئے ہیں ؟۔ لڑکی سے سوال:
نام؟۔ امبرین ۔ عمرکیا ؟16سال۔ کہاں سے آئی ہو؟۔ کراچی سے ۔ لڑکے کیساتھ؟۔ ہاں۔ کیا لگتا ہے ؟۔ محبت کرتی ہوں۔لڑکاپٹھان ہے ؟۔ ہاں۔ تو گھر والوں نے شادی نہیں کی؟۔ امی نہیں راضی ۔ وہ کہتی ہیں اسکے ساتھ نہیں کر نی۔کتنا عرصہ ہو ا محبت کا؟۔3سال!13سال کی عمر سے تم نے محبت کر لی تمہارا کیا لگتا ہے ،ماموں کا لڑکاہے؟۔ ج: پڑوسی ہے۔ س :کیا کرتا ہے لڑکا؟۔ ج:کباڑ کا کام کرتا ہے۔ س: پیسہ ویسہ کما لیتا ہے؟۔ ج: ہاں ۔ س: اسکے اور تمہارے کتنے بہن بھائی ہیں؟۔ ج: اسکے دو بہنیں تین بھائی اور میرے دو بھائی چھ بہنیں۔ س: ابو کیا کرتے ہیں؟۔ ج: ابو گاڑی چلاتے ہیں۔ س:اب کیسے شادی کر لو گے؟۔ ج: یہ کہہ رہے ہیں امی لوگ آ رہے ہیں۔ س: کب سے بھاگے ہو ؟۔ ج: پرسوں سے۔ س: پتہ تھا لاہورکا، جو بھاگ کر آتا ہے، لاہورمیں کیا ہے؟۔ ج: پتہ نہیں، س: امی سے بات ہوئی؟۔ج: پولیس والوں نے کی۔ س: صبح آئیں گے وہ؟۔ج: ہاں۔س: شادی کر لیں گے؟۔ ج: ہاں ۔ س:نہ کی تو سوچو آگے پھر کیا ہوگا؟۔ ج: میں تو کروں گی اس سے ہی کروں گی ۔ س: کرنی ہے تو اسی سے نہیں تو ؟۔ ج:اور کسی سے بھی نہیں کروں گی ۔ س: اس کی عمر کیا ہے اس کا شناختی کارڈ ہے تمہارا تو شناختی کارڈ نہیں بنا؟۔ ج: نہیں بنا۔ سوال: لڑکے کی کیا عمر ہے؟۔ ج:21سال ۔ سوال: باقی بہن بھائیوں کی شادی ہوئی ہے تمہاری ؟۔ ج: ہاں ۔ س: تمہاری نہیں ہوئی اور تم سے بڑی کی بھی؟۔ ج: ہاں۔ س: اب تم پھر کر لو گی جلدی شادی یا وہ کہیں گے کہ ہم یہی کریں گے تو پھر ویٹ کر لو گی؟۔ج: صحیح ہے۔ سوال: پڑھی ہوئی ہویا کچھ نہیں پڑھا قرآن پاک پڑھا؟۔ ج: نہیں۔ قرآن پاک ابھی پڑھنے جاتی ہوں ۔ س: تو کس طرح محبت ہوئی ہے موبائل رکھا ہوا تھا آپس میں؟۔ ج: پہلے نہیں تھا ابھی ہے۔
س: اس نے لے کے دیا؟۔ ج: نہیں ابو کا موبائل ہے ۔ امی لوگوں کو نہیں پتہ ہے۔ س: سب چوری چوری کام؟۔
(پھرلڑکے سے سوالات کا سلسلہ شروع کرتے ہوئے)
سوال: ہاں جی کیا نام ہے ؟۔ ج: یاسین۔ س: کب سے محبت ہے؟،ج: تین سال سے۔ س: تو کیا کرتے ہو کماتے ہو، صرف عشق معشوقیاں کی ہیں؟۔ ج: کباڑ کا کام ہے چاچو کیساتھ اپنا کام ہے۔ س: کتنا کما لیتے ہو ؟۔ ج: مہینے کا28،30ہزار۔ س: خوش رکھو گے؟۔ج: انشااللہ۔ س:30ہزار سے کیا بنتا ہے ایک ہزار روپے کا تو برگر آجاتا ہے تو اس کو کیسے خوش رکھو گے ؟۔ ج: اللہ کو منظور جیسا ہوگا خوش رکھے گا اللہ۔ س: اسکے ماں باپ نے فیصلہ کیا تم ان کو پسند نہیں ہو تو پھر اس کو کیوں بھگایا ؟۔ ج: اس نے یہ بولا کہ مجھے بھگا کرلے جاؤ، میں نے بولا کہ صبر کروتھوڑا ،امی ابو مان جائیں گے ہم ان کو راضی کر لیں گے بس پھر اس نے بولا کہ نہیں امی ابو نہیں مانیں گے امی نے ضد پکڑی ہے اور وہ نہیں مانے گی۔ س: اس نے ضد کیا کہ بھاگ چلتے ہیں؟۔ ج: ہاں۔ س: تو کب اس نے ذہن میں ڈالا کہ بھاگنا ضروری ہے اب ہمارا شادی نہیں ہوگا ؟۔ ج: اس نے تو رمضانوں میں کہا تھا مگر میں نے بولا ابھی نہیں بڑی عید کے بعد تک گزارہ کرتے ہیں اسکے بعد دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے۔ میں اپنی امی والدہ کو بھی بھیج دوں گا بہنوں کو بھی ۔ س: تمہارے گھر والے راضی ہیں؟۔ ج: جی سب راضی ہیں مگر اس کی امی نہیں ۔ س: اب کیا کرو گے تمہارے گھر والوں سے رابطہ ہوا انکا ؟۔ ج: جی وہ راستے میںہیں۔ س: تمہارے آ رہے ہیں انکے بھی ؟۔ ج: دونوں آرہے ہیں ۔ س: پھر کیا تم یہیں پرشادی کر لو گے یا ان سے لکھوا کے جا ؤگے کہ شادی کریں گے تو ہم گھر جائیں گے ورنہ نہیں؟۔ ج: ہم شادی کریں گے پھر گھر پہ جائیں گے۔ یہاں پہ ہمیں پولیس والوں نے بھی بولا تھا کہ ہم انکے ساتھ بات کریں گے ان کو راضی کریں گے ،مولوی صاحب کو بلاکر آپ لوگوں کو نکاح کروا کے آپ لوگوں کو بھیج دیں گے۔
ناظرین! یہ جوڑا بھاگ کے آیا۔ باقی کیس ہسٹری کیا کہتی ہے ہم بابر صاحب سے پوچھتے ہیں کہ اصل میں معاملہ کیا ہے۔ چلئے میرے ساتھ السلام علیکم جی! وعلیکم السلام! کیسے ہیں بابر صاحب؟۔جی الحمدللہ میڈم جی۔سوال: بابر صاحب یہ جو ہے چھوٹی عمر کے ہیں بالکل جوان ہیں اور بچی کی بھی عمر نہیں شناختی کارڈ بھی نہیں بنا۔ ان کو کیسے ریسکیو کیا کہاں سے آئے ہیں ان کا معاملہ کیا ہے کیا کیس ہسٹری ہے کیا کہیں گے؟۔ جواب: ادھر مسافر خانے صبح7بجے کے قریب آکر بیٹھے ہیں تو ان کو شک کی بنیاد پہ ہم نے جو تحفظ مرکز بلایا ہے۔اس لڑکے کو شک کی بنیاد پہ بلایا ۔اس نے پہلے تو نمبر سارے غلط بتائے پھر بعد میں ان کا موبائل لیا تو اس میں سے نمبر وغیرہ نکالے۔ لڑکی کا بھی نمبر اس کے موبائل سے نکال کر اس کے گھر والوں سے رابطہ کیاتوپھر لڑکی کے والدین نے کہا کہ ہم اسے لے جائیں گے اور لڑکے کے والد نے کہا میں تو ادھر اپنے کام پر ہوںمیں تو نہیں آرہا۔ سوال: لڑکے کے پیرنٹس نے اس کے پیچھے آنے سے انکار کردیا؟۔ جواب: ہاں !ظاہر سی بات ہے انہوں نے جب بولا کہ ہم تو نہیں آسکتے ہمیں تو پتہ نہیں کہ وہ کدھر ہے؟۔ تو وہ پھر ہم نے انہیں کہا کہ ٹھیک ہے اگر آپ نہیں آئیں گے تو ہم کاروائی کر دیتے ہیں ۔ پھر جب کاروائی کا سنا تو کہتے ہیں نہیں جی ہم آجائیں گے آپ ان کو بٹھا کے رکھیں انہیں جانے مت دیں۔ رابطہ کر کے پھر انہیں بلوایا کہ آپ ضرور پہنچیں۔ انہوں نے کہا جی ابھی تو دوپہر کو ان کو ہینڈ اوور کر کے گئے ہیں جو ہماری فرسٹ ٹیم تھی انہوں نے بھی رابطہ کیا ۔بعد میں انہوں نے ان کو بتایا کہ ہمیں بس نہیں مل رہی تو انشااللہ شام چار بجے ٹرین ملے گی تو انشااللہ صبح تین چار بجے پہنچ جائینگے ۔سوال: تو اب ان کے پیرنٹس آرہے ہیں۔ تو پھر اس کے بعد کا کیا معاملہ ہے کیا راضی ہیں انکے گھر والے آپس میں ان کا نکاح کرنے کیلئے کیونکہ ان بچوں نے کہا ہے کہ پولیس والوں نے یہ یقین دلایا ہے کہ آپ کا نکاح کروائیں گے اس کے بعد آپ کو ان کے پیرنٹس کے حوالے کیا جائے گا؟۔ جواب: نہیں جی پولیس کا کام تو یہاں تک ہی تھا۔ پولیس نے تو ریسکیو کرنا ہوتا ہے اور ریسکیو کر کے ان کے والدین کے ہینڈ اوور کرنا ہوتا ہے اور یہ ان کی خاندانی باہمی رضامندی سے یہ اگر چاہیں تو ہماری طرف سے جاتے ہی نکاح کر لیں یہاں سے باہر جا کے نکاح کر لیں لیکن ہم اتنا کر سکتے ہیں کہ انہیں سمجھا ضرور سکتے ہیں کہ اگر آپ کے بچے بالغ ہیں اگر آپ کے بچے اچھے طریقے کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو آپ ان کی بات ضرور سنیں گھر جا کے۔ اب وہ سنیں یا نہ سنیں یہ تو ان کے اپنے گھر کا میٹر ہے ۔
جی ناظرین! آپ نے دیکھا اورسنا کہ اگر خدانخواستہ یہ پولیس تحفظ مرکز کی ٹیم ان کو ریسکیو نہ کرتی تو بچی بہت ینگ ہے16سال کی ان کو پتہ نہیں ہے کہ کس طرح یہ اس معاشرے میں کیا چل رہا ہے خدانخواستہ کسی کریمنل ایکٹیوٹی یا کسی کریمنل گینگ کے ہاتھ آ جاتے تو ان کو خدانخواستہ اس لڑکی کوسیل بھی کیا جا سکتا تھا اغواء بھی کیا جا سکتا تھا لڑکا بھی کوئی اتنا ہائی فائی نہیں ہے یا اتنا سٹرانگ اور مضبوط نہیں ہے نہ فائنینشلی ہے اور فزیکلی ہے۔ لڑکی کو کس طرح پروٹیکٹ کر سکتا ہے؟۔ سوال تو یہ بنتا ہے کہ یہ آئے کیوں ہیں ؟۔یا کس بیس پہ ہیں ؟۔ یا کیا سوچ کے آئے ہیں؟۔ پھر میں کہوں گی کہ اپنے گھر میں ارد گرد بچوں کو ضرور مانیٹر کریں ان کی ایکٹیوٹی کو ضرور چیک کریں ان کے حلقہ احباب کو چیک کریں کہ بچوں کی کیا ایکٹیوٹی ہے کہاں آرہے ہیں کہاں جا رہے ہیں کہاں اٹھ رہے ہیں؟۔ اپنے آپ مصروفیات زندگی میں اتنا ٹائم ہو تاکہ آپ کو اپنے بچوں کے اوپر تھوڑی سی مانیٹرنگ ہو ان کی ایکٹیوٹی کا پتہ ہو یہ نہ ہو کہ کل کو پچھتائیں اس سے پہلے آپ الرٹ ہو جائیں۔ باقی آئی جی صاحب کا یہ اقدام ہمارے سر آنکھوں پر۔ پولیس تحفظ مرکز کی ایک ٹیم نے ایک اور کیس کو حل کیا ہے ایک بچہ بچی کو انشااللہ صبح اپنے پیرنٹس کے ہینڈ اوور کیا جائے گا قیمتی رائے سے آگاہ کیجئے گا پھر کہوں گی کہ پولیس تحفظ مرکز کی ٹیم اور پولیس تحفظ مرکز جنہوں نے بنایاIGصاحب ان کے اقدام کو ہم سلیوٹ کرتے ہیں قیمتی رائے سے آگاہ کیجئے گا حاضر ہوں گے نئے پروگرام میں فی امان اللہ۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ مئی2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

 

ایک عظیم انسانی معاشرہ

ایک عظیم انسانی معاشرہ
قرآن کریم کی تعبیر وتشریح پر حنفی، شافعی، مالکی ، حنبلی، جعفری اور اہلحدیث وغیرہ کا اتفاق ہوجائے تو امت مسلمہ کے مسائل بھی حل ہوجائیں گے۔ کیا حنفی اور شافعی کا قرآن کی تفسیر پر کوئی اتفاق تھا؟۔ نہیں، ہرگز بھی نہیں!۔ لیکن اسکے باوجود حنفی و شافعی ایک دوسرے کیلئے قابل احترام ہیں؟۔ہاں جی بالکل بھی!۔
مفتی منیر شاکر نے عوام کو قرآن پہنچانے کی جس تحریک کا آغاز کیا، بہت لوگ ان کی سن رہے ہیں، سمجھ رہے ہیں اور اتفاق کررہے ہیں ۔ جب آدمی چلنا پھرنا سیکھتا ہے تو گرتا اور سنبھلتا ہے۔غلطی کرتا ہے اور ٹھیک طریقے سے سدھرتاہے۔
دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث مولاناانور شاہ کشمیری نے فرمایا کہ ”میں نے ساری زندگی ضائع کردی ۔ قرآن وحدیث کی خدمت نہیں کی بلکہ فقہی مسلک کی وکالت کی ہے”۔ اور یہ بھی لکھ دیا ہے کہ ” قرآن میں معنوی تحریف بہت ہوئی ہے”۔
قرآن کے ذریعے عالم اسلام اور عالم انسانیت کا ایک عظیم معاشرہ بن سکتا ہے۔ قرآن وسنت کی تعلیم کو علماء ومشائخ کے سامنے لائیں گے تو بات بن جائے گی۔ علماء دیوبند نے1857کی جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد معاشرے میں اسلامی تعلیم کو زندہ رکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔
برصغیر پاک وہند میں مدارس قرآن وسنت کی تبلیغ کا اہم ترین ذریعہ تھے۔ قرآن واحادیث کے الفاظ کی حد تک تو مدارس اہم ذریعہ ہیں کیونکہ عربی کے بغیر قرآن اور احادیث کے الفاظ بھی نہیں پڑھ سکتے۔ لیکن جس طرح سے کہا جاتا ہے کہ حج وعمرے کے مسائل اس وقت تک سمجھ میں نہیں آسکتے جب تک کوئی عملی طور پر حج وعمرے کی ادائیگی نہ کرے۔ اسی طرح قرآن و حدیث کے احکام کا تعلق اگر عبادات سے ہو تو جب تک عملی طور سے عبادات کو اپنا لائحہ عمل نہ بنالیا جائے تو عبادات سمجھ میں نہیں آسکتی ہیں۔ مثلاً نماز، روزہ، وضو اور غسل کے احکام کو سمجھنے کا تعلق عملی زندگی سے ہے۔ اسی طرح معاشرتی احکام کا تعلق بھی عملی زندگی سے ہے۔ جب تک نکاح وطلاق اور دوسرے معاشرتی معاملات سے کسی کا عملی واسطہ نہیں پڑتا ہے تو پڑھنے اور پڑھانے سے شرح صدر نہیں ہوتا ۔ اسی طرح معاشی واقتصادی مسائل ہیں اور اسی طرح وہ احکام ہیں جو حکومت کے نظام سے تعلق رکھتے ہیں۔ سعودی عرب اور ایران کے بعد افغانستان میں طالبان کو اس سے واسطہ پڑگیا ہے۔ امیر المؤمنین ملا عمر اور امیرالمؤمنین ہیبت اللہ کے اقتدار میں شریعت کے نفاذ کے حوالے سے بہت فرق ہے۔ داڑھی، تصویر اور نماز کے مسئلے پر پہلے جیسی شدت ابھی نہیں رہی ہے۔ یہ انحراف نہیں بلکہ سمجھ اور تجربات کا بہت واضح فرق ہے۔
سعودی عرب اور ایران بھی بدل رہے ہیں۔ خلافت کے قیام سے نئے نئے تجربات پہلے سامنے آئے۔ حضرت ابوبکر صدیق نے زبردستی سے زکوٰة کا نظام نافذ کیا اور اس کیلئے قتال بھی کیا۔ حضرت عمر نے بدری اور غیربدری صحابہ میں وظائف کے اندر فرق رکھا۔ حضرت عثمان نے حضرت ابوبکر وعمر کا نظام اپنایا۔ حضرت علی نے نبی ۖ کے نظام کو زندہ کرنے کی کوشش شروع کردی لیکن ان کو دسترس حاصل نہیں ہوسکی تھی۔ حضرت حسن نے امیرمعاویہ کے حق میںدستبرداری اختیار کی اور یزید کے دور میں حضرت حسین نے حکومت کا تختہ الٹنے کی بنیاد رکھ دی۔ عبداللہ بن زبیر نے مکہ میں اپنی خلافت قائم کی۔ یزید کے بعد مروان نے عبداللہ بن زبیر کے اقتدارکا خاتمہ کردیا۔شہید کی لاش کو کئی دنوں تک عبرت کیلئے ٹانگ دیا تھا۔
نبی کریم ۖ نے سود کی آیات نازل ہونے کے بعد مدینہ میں مزارعت کو سود قرار دیا، مزارعین میں قوت خرید پیدا ہوگئی۔ مزودر کی دیہاڑی دوگنی تگنی چگنی ہوگئی۔ تاجروں کے حالات بدل گئے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے فرمایا کہ” مٹی میں ہاتھ ڈالتا ہوں اور سونا بن جاتا ہے”۔ جاگیردارانہ نظام بنیادتھا غلام اور لونڈی پیدا کر نے کا۔ عربی میں غلام کو ”عبد” اورلونڈی کو ” امة” کہتے ہیں۔ قرآن نے غلام اور لونڈی کے نکاح کا حق دیا تھا بلکہ واضح کیا کہ ” مؤمن غلام آزاد مشرک سے بہتر ہے۔ اگرچہ تمہیں مشرک زیادہ اچھا لگے”اور مؤمنہ لونڈی آزاد مشرکہ سے بہتر ہے ۔ اگر مشرکہ تمہیں زیادہ اچھی لگتی ہو”۔
غلام اور لونڈی جانوروں کی طرح بازاروں میں بکتے تھے۔ ان کے کوئی انسانی حقوق نہیں تھے۔ اسلام نے فیصلہ کردیا کہ ”مزارعت سود اور حرام ہے ” تو اس حکم سے غلامی کی فیکٹریوں کے خاتمے کی بنیاد رکھ دی۔ جنگوں، بردہ فروشی اور جوئے اور سودی قرضوں کی وجہ سے بھی لوگوں کی اولاد ، بیگمات اور وہ خود غلامی کی زنجیروں میں جکڑجاتے تھے۔ غلامی کے تمام ذرائع کا خاتمہ کردیاتھا۔ جنگوں میں بچوں ، عورتوں اور پر امن لوگوں پر ہاتھ اٹھانے تک ممانعت کردی تھی۔ پہلے ادوار میں عزتدار لوگوں کی تذلیل کردی جاتی تھی اسلئے کہ معزز بچوں اور خواتین کو بھی غلام اور لونڈی بنادیا جاتا تھا۔ حضرت زید بردہ فروشی کے ذریعے غلام بنائے گئے تھے اور نبیۖ نے ان کو اپنا منہ بولا بیٹا بنالیا مگر پھر بھی غلامی کے دھبے کی وجہ سے اپنی بیگم کو طلاق دینی پڑگئی۔ حضرت بلال اصلی نسلی غلام تھے مگر آپ کی عزت مشرکینِ مکہ کے سرداروں سے بھی بڑھ گئی تھی۔
پھر وہ وقت آیا کہ حضرت ابوبکر ، حضرت عمر اور حضرت علی کی اولاد نے پھر ملوکیت کے دور میں مزارعت شروع کردی تھی اور صحیح بخاری ومسلم وغیرہ ان حضرات کی وجہ سے دورِ رسالتۖ کے مقابلے میں مزارعت کے سود کو جواز مل گیا۔ غلام بنانے کا ایک ہی معتبر طریقہ تھا وہ مزارعت کا جاگیردارانہ نظام تھا۔اس کو مسلمانوں نے دوبارہ رائج کردیا تھا تو جو اسلام انسانوں کی غلامی سے انسانوں کو نکالنے کیلئے آیا تھا وہ اپنی افادیت کھو گیا۔
معیشت کی وجہ سے پاکستان اسرائیل کے غلام امریکہ کا غلام بن گیا اوربتوں کا پجاری بھارت معیشت میں مستحکم ہونے کی وجہ سے آزاد اور عزت دار ہے ۔پاکستانی مقتدرہ اور حکمران کی عزت فالودہ بن گئی۔ عبادات میں اہم نماز اورنمازِ جمعہ ہے جس سے پہلے تجارت چھوڑنے اور بعد میں فضل تلاش کرنے کا حکم ہے۔ دنیا میں سودی نظام کی وجہ سے امریکہ ویورپ اب اسرائیل کے غلام بن چکے اور روس نے سوویت یونین کے ممالک کو خودہی آزاد کردیااسلئے کہ وہاں سودی ناسور نہیں تھا۔ ہم اسلام کے معاشی اور معاشرتی نظام سے بہت دُور ہوچکے۔
مولانا مناظر احسن گیلانی نے اپنی کتاب”سوانح قاسمی جلد2” میں لکھا کہ مسلمان نسل درنسل ہندؤوں کی رسم ”ستی” سے متأثر تھے۔ بیوہ شوہر کی وفات کے بعد خود کو جلادیتی تھی اور بیوہ دوسری شادی نہیں کرتی تھی۔ شاہ ولی اللہ نے لکھاکہ اگر اس رسم کے خلاف بول نہیں سکتے تو دل سے برا سمجھے۔ شاہ اسماعیل شہید نے اپنی بیوہ بہن کو مشکوٰة پڑھائی تو بیوہ کے نکاح کرانے کے باب کو اس سے چھپایا ۔ جب سیداحمد بریلوی کی صحبت کا فیض حاصل کیا تو کھلم کھلا تقریریں کرنے کی ہمت ہوئی۔ جس کی وجہ سے بیوہ کی شادیاں کرانے والے کے نام سے مشہور کیا گیا۔ پھر ایک دن کسی نے سوال کیا تو سمجھ گئے اور کہا کہ جواب بعد میں دوں گا۔ سیدھا اپنی بیمار بہن کے پاس پہنچ گئے اور منت کی کہ میرا وعظ بے اثر ہوگا اسلئے دوسرا نکاح کرو۔ وہ بیمار تھی مگر مجبور ہوکر نکاح کرلیا۔ یہی صورتحال مولانا قاسم نانوتوی کی بھی بیان کی ہے جن کو ”الامام الکبیر” کے لقب سے یاد کیا ہے۔
شاہ ولی اللہ ، شاہ اسماعیل شہید اور مولانا محمدقاسم نانوتوی کے واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوانہ رسوم سے نکلے لیکن قرآن کا درست ترجمہ و تفسیر اس وقت سامنے نہیں آسکی تھی۔ اللہ نے سورہ نور آیت32میں بیوہ وطلاق شدہ کا نکاح کرانے کا حکم دیا اور صالح غلاموں اور لونڈیوں کے نکاح کا بھی۔ اور ساتھ یہ صورت بھی بتادی کہ اگر آزاد عورت کا نکاح کسی غلام سے کیا جائے تو اس میں مکاتبت یعنی لکھت کا معاہدہ ہوگا ۔ اگر اس میں خیر نظر آئے تو یہ معاہدہ ہونا چاہے اور اس پر وہ مال بھی خرچ کرو جو اللہ نے تمہیں دیا ہے۔ پھر کنواری لڑکیوں کا مسئلہ بھی حل کیا ہے لیکن ان آیات کا انتہائی غلط ترجمہ وتفسیر کیا ہے۔ علماء ومفتیان اور شیخ القرآن وشیخ الحدیث اور جدید دانشوروں کی ایک ٹیم بیٹھ جائے۔ انشاء اللہ بہت آسانی کیساتھ اُمت کو موجودہ دور کی مشکلات سے قرآن کی واضح ہدایت سے نکالیں گے۔ ہم قرآن وسنت کی طرف توجہ نہیں کرتے بلکہ مسلکانہ اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر مدارس ومساجد کو استعمال کررہے ہیں۔ اچھے اچھے علماء حضرات کی سرپرستی میں قرآن وسنت کی طرف توجہ سے ہدایت کے راستے کھل جائیں گے۔ اللہ کا وعدہ ہے کہ” جولوگ ہمارے (احکام) میں جدوجہد کرتے ہیں ہم ان کو ضرور بضرور اپنے راستوں کی ہدایت دیں گے”۔ القرآن

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ مئی2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

 

قرآن کریم کی غلط تعبیر سے کس نے گمراہ کیا؟

قرآن کریم کی غلط تعبیر سے کس نے گمراہ کیا؟

ولا تکرھوا فتیٰتکم علی البغآء ان اردن تحصناً لتبتغوا عرض الحیٰوة الدنیا ومن یکرھھن فان اللہ من بعد اکراھھن غفور رحیم(33)
اور اپنی لڑکیوں کو بغاوت پر مجبور مت کرو اگر وہ نکاح کرنا چاہتی ہوں تاکہ تم دنیا کی سرخ روئی چاہو اور جس نے ان کو زبردستی سے مجبور کردیا تو بیشک اللہ ان کی مجبوری کے بعدمغفرت کرنے والا رحم کرنے والا ہے۔سورہ النور

کنواری لڑکیوں کوانکے ولی (سرپرست) اپنی مرضی سے نکاح کی اجازت نہیں دیتے ہیں۔جب لڑکی کسی سے عشق اور محبت کے ہاتھوں مجبور ہوکربغاوت کرنے پر آتی ہے تو خاندان کی عزت کو فالودہ بنادیتی ہے۔ عدالتوں میں بڑے پیمانے پر اس طرح کے کیس سامنے آرہے ہیں۔قرآن اورحدیث میں ان مسائل کا حل موجود ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عام طور پر لڑکی کا نکاح خاندان کی باہمی مشاورت سے طے کیا جاتا ہے۔ یہ بالکل معمول سے ہٹ کر معاملہ ہوتا ہے کہ لڑکی مرضی سے نکاح چاہے اور والدین کی رضامندی اس میں شامل نہ ہو لیکن کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ لڑکی اپنا دل کسی کو دے بیٹھتی ہے اور خاندان کیلئے وہ رشتہ قابل قبول نہیں ہوتا ہے۔
ایک طرف حنفی فقہاء نے صحیح حدیث کو قرآن کے خلاف قرار دیا اور دوسری طرف ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کی اس صورت میں اجازت دی ہے کہ جب لڑکی اور لڑکے دونوں کے خاندان میں برابری ہو۔ اگر لڑکی کا خاندان اُونچا ہو تو پھر اس کا نکاح کم حیثیت رکھنے والے لڑکے سے اس صورت میں جائز ہے کہ جب لڑکی کے خاندان والے اجازت دیں۔
فقہاء نے قرآن کو حدیث کے خلاف قرار دیکر رد کردیا تھا مگر پھر کفوء کا شرعی مسئلہ فقہی مسائل اور فتوے کا حصہ بنادیاہے اور کفوء کے مسائل میں بھی عجائبات ہیں لیکن اس طرف زیادہ تفصیلات میں جانے کا یہ موقع نہیں۔ زیادہ تر مسائل اسی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں کہ لڑکی کے خاندان لڑکے کو برابر نہیں سمجھتے ہیں۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو وضاحت کیساتھ بیان کردیا ہے۔ جب لڑکی والوں کو اپنی خاندانی وجاہت کا احساس ہو اور لڑکے کو اپنی خاندانی وجاہت کے قابل نہ سمجھتے ہوں تو پھر اللہ نے اس کی نشاندہی کرتے ہوئے آیت میں واضح کیاکہ:
” اور اپنی لڑکیوں کو بغاوت پر مجبور مت کرو اگر وہ نکاح کرنا چاہتی ہوں تاکہ تم دنیا کی سرخ روئی چاہو اور جس نے ان کو زبردستی سے مجبور کردیا تو بیشک اللہ ان کی مجبوری کے بعدمغفرت کرنے والا رحم کرنے والا ہے”۔(سورہ النور۔ آیت33)
اگر لڑکی کو مجبور کرکے اس کی دوسرے شخص سے زبردستی سے نکاح کرایا گیا تو پھر اگر چہ یہ جائز نہیں ۔ عورت کی مرضی سے اس کا نکاح کرانا ہی ضروری ہے لیکن ان کو زبردستی سے مجبور کرنے کے بعد لڑکی پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ اسلئے کہ مجبوری میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں ہے اور اللہ غفور رحیم ہے۔اور اگر لڑکی نے بغاوت کرکے باطل نکاح کرلیا تو بھی اگرچہ یہ حرام ہے مگر جب اس کے ولی اس کو اپنی مرضی کے خلاف مجبور کررہے تھے تو یہ بغاوت اور باطل نکاح بھی قابل معافی ہے اور اللہ غفور رحیم ہے۔ قرآن وسنت کی روح کو سمجھ کر آج اُمت کی ذہن سازی کی جائے تو ماحول پر بھی قابو پانے میں آسانی ہوگی اور قوم کی مردہ جان میںبھی زندگی کی روح دوڑ جائے گی اور مسلک کے نام پر اختلافات اور خرافات سے بھی جان چھوٹ جائے گی۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ علم سے جاہل ، عمل سے عاری ، عقل سے گدھے اور دنیاپرستی کے معاملے میں انتہائی عیارو چالا ک ہیں اور نئے نئے ریکارڈ بنارہے ہیں اور اسلاف کا نام لیتے ہیں۔
جامعہ دارالعلوم کراچی کے ایک فاضل نے بتایا کہ مفتی محمد تقی عثمانی کی لڑکی کو ایک لڑکا ٹیوشن پڑھا رہاتھا اور پھر اس نے اس لڑکے سے شادی کی ٹھان لی مگر پھر اپنی لڑکی کو مارپیٹ سے مجبور کرکے دوسرے لڑکے سے نکاح پر مجبور کیا گیا ۔
جن کے گھروں میں مسائل ہوں تو وہ قرآن و حدیث کے مسائل کو درست انداز میں اٹھانے سے بڑا گریز کرتے ہیں۔
جماعت اسلامی کے نومنتخب امیر حافظ نعیم الرحمن صاحب یہ بات سمجھ لے کہ ”اگر قرآن کی اس آیت کا درست ترجمہ وتفسیر منی پاکستان کراچی کے لوگوں کو سمجھا دی گئی تو پورے پاکستان کے لوگوں میں یہ شعور عام ہوجائے گا۔ پھر کوئی باپ بھی اپنی بیٹی کو بغاوت پر مجبور کرنے کی حد تک لے جانے کے بجائے اس کا نکاح اس کی مرضی سے کردے گا اور ہمارا معاشرہ ایک بہت بڑے بحران سے بچ جائے گا۔
علماء نے اس آیت کا ترجمہ یوں کردیا ہے ۔(العیاذ باللہ)
” اور تم اپنی لونڈیوں کو بدکاری پر مجبور مت کروجب ان کا ارادہ پاکدامن رہنے کا ہو،تاکہ اس کے ذریعے سے دنیاوی مفاد حاصل کرو۔ اور جس نے زبردستی سے ان کو مجبور کردیا تو پھر ان کی مجبوری کے بعد اللہ غفور رحیم ہے”۔ النور،آیت:33
اگر قرآن وسنت کی درست تعلیمات کو سیکھ اور سمجھ کر اپنے منبر ومحراب پر عوام کے سامنے بیان کیا جائے تو سوشل میڈیا پر بھی حقائق پھیل جائیں گے اور اسلام اور علماء کا نام روشن ہوگا۔
احادیث میں کنواری لڑکیوںاور طلاق شدہ وبیوہ خواتین کا نکاح ان کی مرضی اور اجازت سے بہت بڑی وضاحت ہے۔
ملا جیون بہت سادہ مگر مخلص انسان تھے۔ رائیونڈ تبلیغی مرکز میں ایک عالم نے بیان کیا کہ ” شاہجہان بادشاہ اور اسکے وزراء ریشمی کپڑے پہنتے تھے۔ ملاجیون سے کسی نے پوچھا کہ ریشمی کپڑے مرد کیلئے جائز ہیں ؟۔ تو اس نے جواب دیا کہ بالکل بھی جائز نہیں ہیں اور اگر کوئی اس کو حلال سمجھتا ہے تو وہ واجب القتل ہے”۔ مفتی تقی عثمانی نے سود کو بھی اب حلال قرار دیا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ مئی2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

 

انکار حدیث کے ذریعے فتنہ کس نے برپا کیا؟

انکار حدیث کے ذریعے فتنہ کس نے برپا کیا؟

جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اس کا نکاح باطل ہے باطل ہے …

ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کا ہونا آیت حتیٰ تنکح زوجًا غیرہ سے ہرگز متصادم نہیں ہے

درسِ نظامی کی فقہ حنفی ہے کہ حتی تنکح زوجًا غیرہ ”حتی کہ وہ کسی اور شوہر سے نکاح کرے ”( البقرہ:230) اس آیت میں عورت اپنے نکاح کیلئے خود مختار ہے۔ جس میں حدیث خبر واحد کی وجہ سے اس کو اپنے ولی کی اجازت کا پابند نہیں بنایا جاسکتا ہے۔ نبی ۖ نے فرمایا: ایما امرأة نکحت بغیر اذن ولیھا فنکاحھا باطل باطل باطل ” جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اس کا نکاح باطل ہے باطل ہے باطل ہے”۔ یہ حدیث خبرواحد ہے اور قرآن کی آیت سے متصادم ہے اسلئے اس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔
پاکستان کے آئین میں قرآن وسنت کے منافی قوانین کی گنجائش نہیں ۔ لڑکی گھر سے بھاگتی ہے پھر اغواء کا مقدمہ ہوتا ہے پھر عدالت سے رہائی ملتی ہے جب لڑکی کہتی ہے کہ وہ اپنی رضامندی سے گئی تھی اورمولوی کا نکاح نامہ پیش کیا جاتاہے ۔
اگر حنفی قرآنی آیت سے حدیث کو متصادم نہ قرار دیتے تو معاملہ مختلف ہوتا۔ یہ احادیث حد تواتر کو پہنچی ہوئی ہیں کہ ولی کی اجازت کے بغیر عورت کا نکاح نہیں۔200احادیث عورت کے نکاح کو ولی کی اجازت کے بغیر باطل قرار دیتی ہیں لیکن حنفی مسلک و درسِ نظامی کی تعلیمات یہی ہیں کہ قرآن سے متصادم ان احادیث کو ناقابل عمل قرار دیتے ہیں۔ مفتی منیر شاکر کی بھی تعلیم وتربیت اسی درسِ نظامی اور حنفی مسلک میں ہوئی ہے۔
مالکی، شافعی، حنبلی، جعفری اور اہل حدیث کے جمہور فقہاء و محدثین ان احادیث کو مانتے ہیں۔ ولی کی اجازت کے بغیر وہ عورت کے نکاح کو باطل سمجھتے ہیں اسلئے پاکستان وہندوستان کے علاوہ دوسری جگہ لڑکی کے بھاگ کر نکاح کرنے کامعاملہ کم ہوتا ہے۔ جمہور فقہاء ومحدثین نے امام ابوحنیفہ اور مسلک حنفی کے علمبرداروں کو ”منکرین حدیث” قرار دینا شروع کیاتھا۔
علماء غلط تعلیم دیتے ہیں کہ ”یہ قرآن سے متصادم ہے”۔ اصل حنفی مسلک یہ ہے کہ جب قرآن و احادیث کی تطبیق ہوسکتی ہو تو تطبیق کردی جائے ،امام ابو حنیفہ نے فرمایا کہ ” جب حدیث صحیح ثابت ہوجائے تو وہی میرا مذہب ہے”۔ سارے ائمہ یہی کہتے تھے کہ قرآن کے خلاف حدیث کو وہ نہیں مانتے۔ حدیث کے مقابلے میں ہمارے مذہب کو دیوار پر دے مارا جائے۔
اگر ولی کی اجازت کے بغیر عورت کے نکاح کو باطل قرار دینے والی احادیث کو کنواری لڑکیوں سے خاص کردیا جائے اورقرآنی آیات کو طلاق شدہ اور بیوہ کیساتھ خاص کردیا جائے تو قرآن و احادیث میں تصادم نہیں تطبیق ہوجائے گی۔ مسلک حنفی کا یہی تقاضا ہے جس کی نشاندہی دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حکیم الاسلام قاری محمد طیب نے اپنی کتاب” اجتہاد وتقلید” میں بہت وضاحتوں کیساتھ کردی ہے۔ جو مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع اور مفتی حسام اللہ شریفی کے استاذ تھے۔
البقرہ آیت230میں طلاق شدہ سے زیادہ ١لبقرہ:234میں اللہ تعالیٰ نے بہت واضح الفاظ میں بیوہ عورت کو عدت کی تکمیل کے بعد خود مختار قرار دیا ہے۔ اگر حنفی مسلک والے ان دونوں آیات کو اپنی تعلیمات میں پیش کرتے اور احادیث صحیحہ کو کنواری لڑکیوں سے خاص کردیتے تو جمہور فقہاء ومحدثین بھی ان آیات کے انکار یا تأویل کے مرتکب نہ ہوتے۔
علماء کرام کو چاہیے کہ قرآن و احادیث پر متفق ہوجائیں اور ایک دوسرے پر منکرین قرآن وحدیث کا فتویٰ لگانے سے پرہیز کریں۔ جمہور فقہاء ومحدثین کی مصیبت یہ ہے کہ احادیث صحیحہ کی وجہ سے آیت230،234البقرہ کے خلاف بھی عورت کی خود مختاری و آزادی کو نہیں مانتے۔ آج سوشل میڈیا کے ذریعے مسائل کو علماء تک محدود نہیں رکھا جاسکتا ۔اسلئے عوام مذہبی طبقے سے بہت تیزی کیساتھ مسلسل متنفر ہورہی ہے۔
برصغیرپاک وہند کے مایہ ناز حنفی عالم علامہ تمناعمادی نے پاکستان کی تشکیل کے بعد مشرقی پاکستان کے ریڈیو سے قرآن کا درس دینا شروع کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ قرآنی آیات بھی سمجھانے کیلئے تمرین (مشق) کرائی جائے۔ جس طرح حنفی اصول فقہ میں آیت حتی تنکح زوجًا غیرہ کے مقابلے میں حدیث کی تردید ہے ،اسی طرح آیت وبعولتھن احق بردھن فی ذٰلک ان ارادوا اصلاحًا ” اور انکے شوہر اس عدت میں ان عورتوں کو لوٹانے کا زیادہ رکھتے ہیں اگروہ صلح چاہتے ہوں”۔ کے مقابلے میں پہلے تو کوئی خبر واحد کی حدیث نہیں ہے کہ جس میں نبیۖ نے عدت میں رجوع سے روک دیا ہو۔ لیکن اگر کوئی صحیح حدیث ہوتی تب بھی قرآن کی آیت سے متصادم ہونے کی بنیاد پر اس کو رد کردیا جاتا۔
علماء کی بڑی کم بختی یہ ہے کہ قرآن کی آیات کو بھی آپس میں متصادم کر دیا جو کام قرآن کے دشمن نہ کرسکے وہ نادان دوستوں اور احمق گدھوں نے کردیا۔ اللہ نے عدت میں باہمی اصلاح سے شوہر کو رجوع کا زیادہ حقدار قرار دیا تو حلالہ کی لت والے مفتیان کس طرح فتویٰ دیتے ہیں کہ رجوع نہیں ہوسکتا ہے؟۔
عورت کی عزت کو قرآن وسنت نے تحفظ دیا لیکن علماء نے اسلام اور حلالہ کے نام پر عورتوں کی عزتوں کو پامال کردیا ہے۔ حنفی مسلک فطرت کے عین مطابق تھا لیکن احمق گدھوں نے مسلک حنفی کی غلط ترجمانی سے حقائق کو بالکل مسخ کردیا ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ مئی2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

بھارتی پارلیمنٹ میں بنگلہ دیش،پاکستان،افغانستان ، سری لنکا کا نقشہ اکھنڈ بھارت کاحصہ؟

بھارتی پارلیمنٹ میں بنگلہ دیش،پاکستان،افغانستان ، سری لنکا کا نقشہ اکھنڈ بھارت کاحصہ؟

اسرائیل سودی نظام کی وجہ سے امریکہ اور یورپ کو اپنے ہاتھوں میں نچارہاہے اور فلسطین وعرب کو تباہ وبرباد کررہاہے ۔برما کے مسلمانوں پر بھی شدید مظالم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں!

برما میں اراکانی مسلمانوں کو مذہبی طبقے نے تعصبات سے بھر دیا ہے جس کی وجہ سے وہ مشکلات کا شکار ہیں ان غریبوں پرکوئی بھی توجہ نہیں دیتا،ان کو مشکلات سے نکالنا ایک اہم فریضہ ہے

نریندرمودی سے تعصبات کو ہوا مل گئی۔ ہم اکھنڈ بھارت کے نقشے میں بنگلہ دیش،پاکستان اور افغانستان کا علاقہ شامل کرنے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ قائداعظم اور قائد ملت لیاقت علی خان نے ہندوستان کو تین ٹکڑوں میں تقسیم کیاتھا، جس میں لاکھوں جانیں گئیں اور عزتیں پامال ہوگئیں۔ مشرقی ومغربی بنگال ، پنجاب، کشمیراور ہندوستان کی تقسیم سے ہم نے بھارت میں مسلمانوں کو ہندؤوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جس کی وجہ سے کروڑوں مسلمانوں کی جان ومال اور عزتوں کو خطرات کا سامنا ہے۔ اگر پاکستان بنگلہ دیش اور افغانستان تک کا علاقہ پھر گریٹر بھارت میں ضم کردیا گیا تو ایک طرف قرضوں اور دہشتگردی سے جان چھوٹ جائے گی اور دوسری طرف مجاہد متعصب ہندؤوں کو سبق سکھا دیں گے۔ لتاحیاء جیسی شاعرہ کی بات بالکل درست ہے کہ ”اسلام وہی تو ہے جو حضرت نوح پر اترا تھا اور جو ویدوں میں موجود ہے”۔ جس طرح ہندؤوں نے اپنے دین کو مسخ کردیا ہے اسی طرح مسلمانوں نے اسلام کے ساتھ وہی سلوک کیا۔ بھارتی مسلمان دھڑلے سے کہتا ہے کہ
میں اللہ کے نبی کا باغی نہیں ہوں
میں ہندو تو ہوں وہابی نہیں ہوں
جنرل ضیاء الحق وانہ جنوبی وزیرستان میں آئے تھے تو نامور عالم دین مولانااحمد حسن لسوندی سے پوچھا کہ”یہ لوگ پگڑیاں سروں پر ہلاتے ہیں تو میری بات سمجھ بھی آتی ہے یا نہیں؟۔ مولانا احمد حسن نے کہا: ایک پٹھان نے فارسی بان عورت سے شادی کی تھی تو اس خاتون نے اپنا یہ دکھڑا سنایا تھا کہ
یارمو افغان شد من نہ دانم چہ کنم
او بگوید دلتہ راشہ من نہ دانم چہ کنم
”میرا شوہر افغان ہے۔ میں نہیں جانتی ہوں کہ میں کروں کیا؟۔ وہ کہتا ہے یہاں آؤ اور میں نہیں جانتی کہ کیا کروں”۔
جس پر جنرل ضیاء الحق اپنے پروٹول کو نظرانداز کرتے ہوئے خوب کھلکھلاکر ہنس پڑے تھے۔ یہی حال ہمارے عجم کے مسلمانوں کا بھی ہے کہ قرآن وحدیث کی زبان عربی ہے اور ہمارا مذہبی طبقہ کچھ کا کچھ مفہوم لیتا ہے لیکن سمجھتا نہیںہے۔
جنرل ضیاء الحق نے قبائلی عمائدین سے پوچھا کہ روس آپ کے پڑوس میں آیا، تمہیں پریشانی تو نہیں ؟۔ مولانا احمد حسن نے کہا کہ ”ہم بہت خوش ہیں”۔ یہ خلافِ توقع جواب سن کر جنرل صاحب نے پریشانی سے پوچھا کہ کیوں؟۔ مولانا احمد حسن نے جواب دیا کہ ”قبائل بہادر قوم ہے۔ اسکے پاس اسلحہ نہیں ہے لیکن ہم روسی ہتھیار چھین کر یہاں سے مار بھگائیںگے”۔ جس پر جنرل ضیاء الحق بہت زیادہ خوش ہوگئے۔ بھارت اگر توسیع پسندانہ عزائم رکھتا ہے اور افغانستان تک اس نے قبضہ کرنا ہے تو نیٹو سے اس نے سبق سیکھ لیا ہے۔ اس کو پاگل کتے نے نہیں کاٹا ہے لیکن ہم اپنی فوج کی خوشنودی کیلئے یہ نہیں کہتے۔ بھارت نے بنگلہ دیش کو جب اس فوج سے آزاد کردیا تو بنگال سے نکل گیا۔ فوج کو چاہیے کہ اس قوم کو اس حد تک نہ لے جائے کہ لوگ اپنی جان چھڑانے کیلئے لڑیں اور پھر باہر کی افواج عوام کی مدد کو پہنچ جائیں۔ غلطیوں کی گنجائش نہیں ہے۔ ہمارا کوئی بھی ایسا ریاستی ادارہ اور سیاسی پارٹی نہیں جس پر عوام کو اعتماد ہو اور ملک وقوم کو مشکل صورتحال سے نکال سکے۔ سراج الحق دوفیصد سودی اضافے کو اسلامی بینکاری قرار دیتا تھا اور لوگوں میں سود کے خلاف وہ مذہبی جذبہ بھی ابھارتا تھا جس کو گالی کہہ سکتے ہیں مگر باشعورعوام نے بالکل مسترد کردیا تھا۔
جب برما کے مسلمان بڑے پیمانے پر بنگلہ دیش پہنچ گئے تو حامد میر سے ن لیگی وزیر خواجہ آصف نے کہا کہ ہمارے جہاز تیار کھڑے ہیں صرف اجازت دیں تو پاکستان لے آئیں۔ یہ میاں محمد شریف کے نام لیوا ہیں جس نے بوسینیا کے مسلمانوں کی مدد کی لیکن آج یہ کچے کے ڈاکو کا مقابلہ نہیں کرسکتے ہیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ مئی2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv