پوسٹ تلاش کریں

قرون وسطی کے امام مہدی کے بعد گیارہ مہدی آئیں گے۔

عصر حاضر حدیث نبوی ۖ کے آئینہ میں: مولانا محمد یوسف لدھیانوی

مولانا محمد یوسف لدھیانوی ، جامعہ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی
اس کتاب میں تمام طبقات حکام ، عوام، علمائ، تجار اور سب کی نشاندہی ہے

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

مردوں اور عورتوں کی آوارگی


”کاش میں جان لیتا کہ میرے بعد میری اُمت کا کیا حال ہوگا۔ جب انکے مرد اکڑ کر چلا کریں گے اور ان کی عورتیں اتراتی پھریں گی۔ اور کاش میں جان لیتا جب میری اُمت کی دو قسمیں ہوجائیں گی ایک قسم تو وہ ہوگی جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں سینہ سپر ہوں گے۔ اور ایک قسم وہ ہوگی جو غیر اللہ کیلئے سب کچھ کریں گے۔ (ابن عساکر عن رجل کنز العمال، صفحہ219، جلد14، عصر حاضر صفحہ14)۔
جب دہشت گردی کے عروج کا دور تھا تو بدکردار دہشت گرد اکڑ کر چلتے تھے اوران کی عورتیں اتراتی پھرتی تھیں۔ ایک وہ لوگ تھے جو ان دہشت گردوں کے سامنے سینہ سپر ہوگئے اور ایک وہ تھے جو غیر اللہ کیلئے سب کچھ کررہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے پھر ان لوگوں کی ایسی درگت بنائی کہ الحفیظ و الامان۔

خدا کی زمین تنگ ہوجائے گی


”رسول اللہ ۖ نے فرمایا : آخری زمانہ میں میری اُمت پر انکے حاکموں کی جانب سے ایسے مصائب ٹوٹ پڑیں گے کہ ان پر خدا کی زمین تنگ ہوجائے گی۔ اس وقت اللہ تعالیٰ میری اولاد سے ایک شخص (مہدی علیہ السلام) کو کھڑا کریں گے جو زمین کو عدل و انصاف سے اسی طرح بھردیں گے جس طرح و ہ پہلے ظلم و ستم سے بھری ہوئی ہوگی۔ ان سے زمین والے بھی راضی ہوں گے اور آسمان والے بھی۔ ان کے زمانے میں زمین اپنی تمام پیداوار اُگل دے گی اور آسمان سے خوب بارش ہوگی وہ ان میں7یا8یا9سال رہیں گے۔(ترمذی)

انسانی لباس میں شیطان


حضرت حذیفہ فرماتے ہیں کہ لوگ آنحضرت ۖ سے خیر کی باتیں پوچھا کرتے تھے اور میں آپۖ سے شر کے بارے میں تحقیق کرتا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ مجھے لاعلمی کی وجہ سے پہنچ جائے۔ فرماتے ہیں میں نے (ایک دفعہ) عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم جاہلیت اور شر میں پھنسے ہوئے تھے ۔ حق تعالیٰ نے (آپ کی بدولت) ہمارے پاس یہ خیر بھیج دی (یعنی اسلام)۔ تو کیا اس خیر (نبوت و رحمت کے دور )کے بعد بھی کوئی شر ہوگا؟۔فرمایا: ہاں! (جب خلافت راشدہ میں حضرت عثمان اور حضرت علی کی شہادت ہوئی )میں نے عرض کیا اور اس شر کے بعد بھی کوئی خیر ہوگی؟۔ فرمایا :ہاں!مگر اس میں کدورت ہوگی۔ (خلافت راشدہ کی جگہ امارت و بادشاہت لے لے گی)۔ میں نے کہا: کدورت کیا ہوگی؟۔ فرمایا: کچھ لوگ ہوں گے جو میری سنت کے بجائے دوسری چیزوں کی تلقین کریں گے ۔ ان میں نیک و بد کی آمیزش ہوگی۔ (حدیث کے عربی الفاظ میں دخن یعنی دھواں مذکور ہے جس کا سلسلہ نقش انقلاب میں واضح کیا گیا ہے)۔ میں نے کہا کہ اچھا۔ اس خیر کے بعد بھی کوئی شرہوگا؟ فرمایا : ہاں جہنم کے دروازے پر بلانے والے ہوں گے جو ان کی دعوت پر لبیک کہے گا اسے جہنم میں جھونک دیں گے۔ میں نے کہا: یا رسول اللہ! ذرا ان کا حال تو بیان فرمائیے۔ فرمایا: وہ ہماری ہی قوم سے ہوں گے اور ہماری ہی زبان بولیں گے (یعنی مسلمان اور مذہبی لبادے میں ہوں گے)۔ میں نے عرض کیا: اگر یہ برا وقت مجھ پر آجائے تو آپ مجھے کیا ہدایت فرماتے ہیں؟۔ فرمایا: مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام سے چمٹے رہنا۔ میں نے کہا اگر اس وقت نہ مسلمانوں کی جماعت ہو اور نہ امام تو پھر؟ ۔فرمایا: پھر ان تمام فرقوں سے الگ رہو خواہ تمہیں کسی درخت کی جڑ میں جگہ بنانا پڑے۔ حتیٰ کہ اسی حالت میں موت آجائے۔ (مشکوٰة ، صفحہ461، بخاری صفحہ1049، ج2، عصر حاضر صفحہ76)۔
اس حدیث میں صفحہ نمبر4پر نقش انقلاب کی تصویر کا ایک اجمالی خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ موجودہ دور میں علماء ، مفتیان، مساجد کے ائمہ ، سیاسی علماء کے تمام احوال عصر حاضر کی مختلف احادیث میں تفصیل کے ساتھ ذکر کئے گئے ہیں۔

سنت کے مفہوم میں مغالطہ اندازی


عبد اللہ ابن مسعود فرماتے تھے کہ اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جبکہ فتنہ تم میں سرایت کرجائے گا ، ادھیڑ عمر کے لوگ اس میں بوڑھے ہوجائیں گے اور بچے جوان ہوجائیں گے اور لوگ اسی فتنے کو سنت قرار دے لیں گے کہ اگر اسے چھوڑ دیا جائے تو کہا جائے گا کہ سنت چھوڑ دی گئی۔ عرض کیا گیا کہ ایسا کب ہوگا؟ فرمایا: جب تمہارے علماء جاتے رہیں گے اور (پڑھے لکھے) جاہلوں کی کثرت ہوگی ، تم میں حرف خواں زیادہ اور فقیہہ کم ہوں گے۔ امیر زیادہ اور دیانتدار کم ہوں گے۔ آخرت والے اعمال سے دنیا سمیٹی جائے گی۔ اور بے دینی کیلئے اسلامی قانون پڑھا جائے گا۔ (الدارمی ۔ عصر حاضر، صفحہ95)۔
درمیانہ زمانے کے مہدی کے مقابلے میں حدیث میں ایک کج رو جماعت کا ذکر ہے جس کا نبی ۖ نے فرمایا کہ وہ میرے طریقے پر نہیں اور میں اس کے طریقے پر نہیں۔ یہ مشکوٰة شریف کی روایت ہے۔ جہاں تک دنیا کیلئے اسلامی قانون پڑھنے کی بات ہے تو جامعة الرشید میں سُودی معیشت کیلئے اسلامی قانون پڑھانے کا سلسلہ جاری کیا گیا ہے۔ مذہبی مدارس بھی تجارتگاہیں ہیں۔

قرآنی دعوت کا دعویٰ


عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ انہ قال علیکم بالعلم قبل ان یقبض و قبضہ ان یذھب باصحابہ علیکم بالعلم فان احدکم لا یدری متی یفتقر الیہ او یفتقر الی ما عندہ انکم ستجدون اقواما یزعمون انہم یدعونکم الی کتاب اللہ و قد نبذوہ و را ظہورھم فعلیکم بالعلم و ایاکم اتبدع و ایاکم والتعمق و علیکم بالعتیق۔ (سنن دارمی ، صفحہ50، جلد1۔ عصر حاضرحدیث نبوی کے آئینہ میں،ص93)
”حضرت عبد اللہ ابن مسعود فرماتے ہیں علم کے اٹھ جانے سے پہلے پہلے علم حاصل کرلو۔ علم کا اُٹھ جانا یہ ہے کہ اہل علم رخصت ہوجائیں۔ خوب مضبوطی سے علم حاصل کرو۔پس تم میں سے کوئی نہیں جانتا ہے کہ اس کو کب علم کی ضرورت پیش آجائے یا دوسروں کو اس کی ضرورت پیش آئے جو اس کے پاس ہے۔ بیشک تم ایسے اقوام کو پاؤ گے جو یہ گمان رکھتے ہوں گے کہ وہ آپ کو اللہ کی کتاب کی طرف بلارہے ہیں اور بیشک انہوں نے اس کو پس پشت ڈالا ہوگا۔ پس تمہارے اوپر علم کی اتباع ضروری ہے۔ اور تم خبردار ! بدعت سے پرہیز کرو۔ اور خبردار! تم فضول کی موشگافیوں میں مت پڑو۔ اور تمہارے اوپر عتیق کی اتباع ضروری ہے”۔ مولانا یوسف لدھیانوی صاحب نے عتیق کا ترجمہ پرانا راستہ کیا ہے لیکن یہ تمام گمراہ فرقوں کیلئے مشعل راہ نہیں بلکہ مزید گمراہی کا سامان ہے۔
عربی سوشل میڈیا کے چینل اسلامHDمیں مختلف علماء نے اپنے بیانات میں واضح کیا ہے کہ جبری حکومتوں کے بعد خلافت علیٰ منہاج النبوة کا دور آگیا ہے۔ اس کے بعد منصور ، سلام، امیر العصب اور مہدیٔ دم وغیرہ کے بعد بالکل آخر میں آخری مہدی کا ظہور ہوگا جس کے دور میں دجا ل اکبر کا خروج اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہوگا۔ مہدی کے بعد قحطانی امیر منصور کے بعد دوسرے مہدیوں کا تصور علامہ جلال الدین سیوطی نے الحاوی للفتاویٰ میں بھی تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی ، شیخ الاسلام علامہ ڈاکٹر طاہر القادری نے بھی مہدی کے بعد قحطانی امیر اور پھر آخر میں آخری امیر کا تذکرہ اپنی کتابوں میں کیا ہے۔ اُمت مسلمہ پر اگر واضح کیا جائے تو شیعہ سنی اور تمام مکاتب فکر کے علماء ، مذہبی اور سیاسی طبقات ایک خلیفہ مقرر کرنے پر اتفاق کرسکتے ہیں۔ ہم نے مجلہ97، میں بہت تفصیل کے ساتھ سنی شیعہ کتب سے مختلف مہدیوں کے مدلل ثبوت پیش کئے ہیں۔ درمیانے زمانے کے مہدی کے بعد11مہدی اور آئیں گے تو اس پر نہ صرف شیعہ سنی کتابوں میں بلکہ عملی طور پر بھی اتفاق رائے قائم ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔ اُمت مسلمہ کو جمہوری بنیادوں پر تمام ممالک کی رضامندی سے خلافت پر متحد و متفق کیا جاسکتا ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv
اخبار نوشتہ دیوار کراچی۔ خصوصی شمارہ مئی 2022

ظہور امام مہدی و فتنہ دجال: مولانا بشیر احمد حصاروی

ظہور امام مہدی و فتنہ دجال: مولانا بشیر احمد حصاروی

تلمیذ رشید : محدث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری قدس سرہ العزیز

2014میں یہ کتاب چھپی ہے اور اس میں پاکستان کیلئے خوشخبری ہے۔

مہدی کی پہچان


ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ نبی ۖ نے فرمایا کہ ”مہدی میری اولاد میں سے ایک شخص ہے” اور حضرت علی سے روایت ہے کہ نبی ۖ نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ مہدی کی اصلاح ایک رات میں کریں گے”۔ (الفتن 203)
حضرت ابن مسعود سے روایت ہے کہ نبی ۖ نے فرمایا ”مہدی کا نام میرے نام پر اور ان کے والد کا نام میرے والد کے نام پر ہوگا ”۔ (الفتن ، 206)۔ قتادہ کہتے ہیں میں نے سعید بن مسیب سے پوچھا کہ مہدی واقعی حق ہے ؟ انہوں نے فرمایا واقعی حق ہے۔ میں نے کہا وہ کن میں سے ہے؟۔ فرمایا ! قریش میں سے۔ میں نے کہا قریش کے کس خاندان سے؟۔ فرمایا بنی ہاشم سے۔ میں نے کہا بنو ہاشم کے کس گھرانے سے ؟۔ فرمایا عبد المطلب سے۔ میں نے کہا عبد المطلب کے کس کنبے سے ہے؟۔ فرمایا! فاطمہ سے۔ (الفتن 207)۔ حضرت ابو طفیل سے رسول اللہ ۖ نے فرمایا : مہدی کی زبان میں لکنت ہوگی ، جب بات کرنے میں رکاوٹ پڑے گی تو دایاں ہاتھ بائیں ران پر مارے گا۔ (الفتن 205) ۔

کینیڈا کا لنگڑا مہدی کے آنے کی علامت


کعب احبار سے روایت ہے کہ علامةخروج المہدی الویة تقبل من المغرب علیھا رجل اعرج من کندة (الفتن 186)۔” مہدی کے منظر عام پر آنے کی علامت بہت سے جھنڈوں کا آنا ہے جو مغرب کی طرف سے آئیں گے، ان کا کمانڈر کینیڈا کا ایک لنگڑا شخص ہوگا”۔ یہ روایت ہرمجدون کے مصنف نے بھی اپنی کتاب میں درج فرمائی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ اس وقت افغانستان میں اتحادی فوجوں پر کمانڈر انچیف رچرڈ مائرز کینیڈا کا لنگڑا ہے جو بیساکھیوں پر چلتا ہے۔ الفتن کی روایت میں ہے ثم یظہرالکندی فی شارة حسنة (الفتن 163) ”پھر منظر عام پر آئے گا کنیڈین خوبصورت بیجوں والی وردی میں”۔ ظہور امام مہدی و فتنہ دجال ، مولانا بشیر حصاروی، بقیہ صفحہ2نمبر4

بقیہ نمبر4…ظہور امام مہدی و فتنہ دجال، مولانا بشیر احمد حصاروی

روایت کا دوسرا پیرا حسب ذیل ہے:


شام کے علاقے عراق میں ایک جابر نامی حکمران ہوگا … اور … سفیانی کی آنکھ میں کچھ خرابی ہے اس کا نام صدام ہے اور وہ اپنے ہر مخالف سے ٹکرائے گا۔ پوری دنیا اس کے خلاف کوت (کویت) میں جمع ہوگی۔ سفیانی کسی کے فریب میں آکر کویت میں داخل ہوجائے گا۔ سفیانی کی بھلائی اسلام سے وابستہ رہنے میں ہوگی۔ وہ خیر بھی ہے اور شر بھی۔ تباہی اس کیلئے ہے جو حضرت مہدی سے خیانت کرے گا۔
1400ہجری گزرنے پر دو تین دہائی کے بعد حضرت مہد ی امین منظر عام پر آئے گا ۔ وہ ساری دنیا سے جنگ کرے گا۔ تمام گمراہ اور اللہ کے پھٹکارے ہوئے اس کے خلاف جمع ہوجائیں گے۔ منافقت کے چیمپیئن بھی ان کے مقابلے میں گمراہوں کے ساتھ ہوں گے۔ یہ سب لوگ مجدون پہاڑ کے گرد جمع ہوں گے ۔ دنیا بھر کی مکار ملکہ امریکہ ان کے مقابلے میں نکلے گی۔ اور وہ پوری دنیا کو گمراہ کرنے اور کفر میں مبتلا کرنے کی کوشش کرے گی۔ اس زمانے میں ساری دنیا کے یہود ترقی کے آسمان پر اڑتے ہوں گے۔ بیت المقدس ان کے قبضے میں ہوگا۔ دنیا بھر کے ممالک مقابلے کیلئے جمع ہوجائیں گے۔ مہدی دیکھے گا ساری دنیا اپنے ناپاک عزائم میں طرح طرح کی سازشیں سجا کر مقابلے میں صف آراء ہیں۔ اور وہ دیکھے گا کہ اللہ کی تدبیر سب پر حاوی ہے۔ کائنات اللہ کی ہے سب کو اس کے حضور لوٹ کر جانا ہے …ان پر کربناک تیر پھینکے گا۔ آسمان سے آفتیں برسیں گی ۔ زمین والے کافروں پر لعنت بھیجیں گے اور اللہ تعالیٰ کفر کو مٹادینے کا حکم دیں گے۔ (ہرمجدون اردو ترجمہ 36 ، ظہور امام مہدی صفحہ57)
مشہور یہودی ماہر فلکیات نوسٹرا ڈیمس … پیشین گوئی کی ہے … تیسری عالمی جنگ21ویں صدی کے شروع میں پیش آئے گی۔ جو بہت خوفناک ہوگی اور ایک بھیانک طاعون کا مرض جو جوانوں ، بوڑھوں اور مویشیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا … ہرمجدون کے مصنف نے اس نجومی کی ایک رباعی کا ترجمہ اپنی کتاب میں درج کیا ہے ، ہرمجدون مترجم اردو سے اقتباس مندرجہ ذیل ہے،
”نئی صدی کے سال2001ء میں آسمان سے موت کا عظیم فرشتہ اترے گا اور65درجہ حرارت سے فضاء گرم ہوجائے گی۔ آگ بہت نیو شہر (نیویارک) کے قریب ہوگی ایک ہولناک انہدام ہوگا، افرا تفری کے عالم میں د و جڑواں عمارتیں ریزہ ریزہ ہوجائیں گی۔ قلعہ کے گرنے سے ایک بڑا قائد بھی گر جائے گا اور بڑی عالمی جنگ شروع ہوجائے گی۔ جبکہ بڑا شہر جل جائے گا۔ (صفحہ59)
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی ۖ نے فرمایا لا تقوم الساعة حتی یخرج رجل من قحطان یسوق الناس بعصاہ (الفتن 214)
”قیامت قائم نہیں ہوگی جب تک بنو قحطان کا ایک آدمی نہیں آئے گا جو لوگوں کو اپنی لاٹھی سے ہانکے گا”۔ یہ روایت صحیح بخاری کی ہے اور دوسرے محدثین نے بھی ذکر کی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قحطانی ایک عادل مگر سخت گیر حکمران ہے۔ گویا اس نے مزاج فاروقی سے کچھ حصہ پایا ہے۔ اور معلوم ہوتا ہے کہ مہدی کی عف و درگزر کی احسانی روش سے حوصلہ پاکر شیطانی مزاج کیٹگری مہدی کے بعد منظر عام پر آجائے گی۔ دراصل مغرب کے بے خدانظام اور ننگِ انسانیت معاشرت اور چنگیز خانی ظلم و جور پر مہدی نے رولر پھیر دیا ہے ۔ سنت نبوی کے سانچے میں ڈھلا سیاسی، معاشرتی، معاشی ، تعلیمی اور اخلاقی نظام اپنی ہمہ گیر خوبیوں کے ساتھ نافذ کردیا ہے۔ لیکن مغربی غلامی کی دو صدی کی نفسیات میں پڑی گندگی اتنی جلد نکل جائے ؟ ممکن نہیں لہٰذا قحطانی کا چابک فاروقی اس غلاظت کا صفایہ کرے گا اور سینوں کو نورِ ایمانی سے چمکائے گا۔
لہٰذا حضرت مہدی کے احسانی نظام سیاسی کے تحفظ کی خاطر فاروقی خصوصیات کا حامل حکمران مطلوب ہے وہ قحطانی ہے۔ مغرب کے ناپاک ابلیسی نظام کی ڈیڑھ دو صدی کی ملحدانہ تربیت جو امت کے80،90فیصد طبقے کی نفسیات میں رچ بس گئی ہے نظام کے اصلاح پذیر ہوجانے سے حقوق و مطالبات میں عدل احسانی کی کارفرمائی یقینا جاری و ساری ہوجائے گی۔ لیکن اس سے اس بات کی ضمانت نہیں ملتی کہ طبیعتوں میں رچی بسی ملحدانہ آلودگیاں بھی دُھل جائیں گی۔ حضرت مہدی کے ناقابل اصلاح بگڑے ہوئے حالات کو سنوار دینا اور الجھے ہوئے مسائل کی گتھی سلجھادینا ، معاشرے کو صحیح راہ پر ڈال دینا اور پورے عالم اسلام پر اثر انداز ہونا یہ معجزے سے کم نہیں ہے۔ لیکن جن دلوں پر ابلیس نے کالک مل دی ہو اس کالک کا مداوا کرنا یہ کام عرصہ دراز مانگتا ہے۔ جبکہ حضرت مہدی کو صرف7سال ہی ملیں گے۔ اور قحطانی کے بارے میں ہے کہ ”مہدی کے بعد ایک قحطانی شخص ہے جس کے کانوں میں سوراخ ہیں وہ حضرت مہدی کی سیرت کا حامل ہے اور اس کا عرصہ20سال ہے ، پھر وہ شہید کیا جائے گا ، پھر نبی ۖ کے اہل بیت ہی کا ایک فرد حسین سیرت منصب خلافت پر فائز ہوگا۔ اسی کے زمانے میں دجال آئے گا اور اسی کے زمانے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے”۔ (الفتن 228)۔
پھر قحطانی کے بعد مہدی ثانی خلیفہ ہوں گے۔ جو روم سے جنگ کریں گے انہیں شکست دیں گے ، قسطنطنیہ فتح کریں گے اور وہاں قیام پذیر ہوں گے۔3سال4مہینہ اور10دن پھر عیسیٰ ابن مریم نازل ہوں گے۔ لہٰذا یہ خلافت ان کے سپرد کردیں گے۔ (الفتن 221)۔ کعب احبار سے روایت ہے وہ شخص جو نصرت یافتہ ہوگا وہ بھی ایک مہدی ہے جس پر آسمان اور زمین والے اور آسمان کے پرندے رحمت کی دعائیں کریں گے انہیں رومیوں کے خلاف جنگ میں اور دوسری جنگوں میں آزمایا جائے گا۔ پھر وہ ملحمة الکبریٰ (جنگ عظیم) میں شہید ہوجائیں گے۔ اور ان کے ساتھی2ہزار ہوں گے۔ جن میں سے ہر ایک امیر ہوگا ، علمبردار ہوگا وہ سب شہید ہوجائیں گے ۔ ان کی شہادت اہل اسلام کیلئے اتنی بڑی مصیبت ہوگی کہ رسول اللہ ۖ کے بعد مسلمانوں نے ایسی مصیبت نہیں دیکھی ہوگی۔ (الفتن 253)۔
اس روایت کا مصداق طالبان اور ان کے امیر مُلا عمر ہی ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ ملحمة الکبری شروع ہے اور عالم کفر کا ہدف صرف اور صرف طالبان ہیں۔ عالم کفر کی طرف سے44ملکوں کی فوجیں ہیں اور ملت اسلامیہ کی طرف سے مقابل میں وسائل سے تہی دست نہتے طالبان ہیں جن کا پوری اُمت میں کوئی حامی نہیں ہے۔ بلکہ اُمت مسلمہ کے تمام وسائل اور سیاسی قوت بھی عالم کفر کے ہمدوش ہے۔ پھر مُلا عمر ہی غالب ہے تو کیوں نہ ان کا نام ”المنصور” ہو۔ اور آسمان و زمین والے کیوں نہ ان پر درود بھیجیں، اور کیوں نہ ان کی شہادت اُمت کیلئے رسول اللہ ۖ کے بعد سب سے بڑی مصیبت قرار پائے۔ اس میں شک نہیں کہ طالبان علامات قیامت میں سے ایک بڑی نشانی ہیں۔ مُلا عمر خود علامات قیامت میں سے ہیں۔ اُمت کو ان کی قدر ان کے اُٹھ جانے کے بعد ہوگی۔ واللہ اعلم بالصواب۔ اور شاید تقدیر کی طرف سے ان کا اٹھالیا جانا اس وقت ہوگا جب کفر ذلت آمیز شکست سے ہمکنار ہوجائے گا۔ کیونکہ موجودہ حالات میں عالم کفر پوری دنیا کے جدید ترین عسکری وسائل سے مسلح ہے اور زمین کے خزانے جیسے انہی کے حوالے کردئیے گئے ہوں۔ اور مسلم اُمہ خود بھی ان کی دست راست ہے لہٰذا نہتے طالبان ہی ہیں جو باطل کے سیل ہلاکت آفریں کے سامنے سد ذو القرنین بنے ہوئے ہیں۔ (ظہور امام مہدی 91)۔

ڈنڈے والی سرکار


نوائے وقت سنڈے میگزین میں2009ء کو ایک مضمون ڈاکٹر نذیر احمد قریشی متوفی13نومبر1990ء کی پیش گوئیاں درج ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کسی روحانی بزرگ سے فیض یافتہ ہیں ۔ پروفیسر محمد یوسف عرفان فرماتے ہیں کہ مورخہ28دسمبر1979ء کے دن ڈاکٹر صاحب مرحوم نے فرمایا : روسی افواج افغانستان سے شکست کھاکر واپس جائیں گی ، روسی شکست و ریخت کے بعد امریکی بالادستی اور سپر پاور ہونے کا دورانیہ مختصر ہوگا۔ … پاکستان کے حالات انتہائی دگرگوں ہوجائیں گے۔ قانون اور حکومت نام کی کوئی چیز نہیں رہے گی۔ قتل و غارت معمول بن جائے گا۔ جو جس کو چاہے گا قتل کرتا پھرے گا۔ کوئی مقدمہ نہیں ہوگا۔ پور ا ملک لاقانونیت کی لپیٹ میں ہوگا مگر ڈنڈے والی سرکار دنوں میں حکومتی رٹ قائم کردے گی۔ مذکورہ سرکار کو غیر ملکی امداد نہیں ملے گی۔ اور وہ ملکی وسائل اور پاکستان لوٹنے والوں کی دولت واپس لے کر پاکستان کا نظام کامیابی سے چلائے گی۔ سرحدیں سیل کردیں گے اور ذرائع ابلاغ مسدود کردیں گے۔ پاکستان کے اندر ہر قسم کی غیر ملکی مداخلت ختم کردی جائے گی۔ پاکستان کو لوٹنے اور نقصان پہنچانے والوں کا قلع قمع کردیں گے۔ پاکستان میں امن و سکون ، سلامتی اور قانون کی بالادستی ہوگی۔ نا انصافی کا تصور بھی نہیں ہوگا۔ مساجد بھی یک رنگ ہوں گی۔ یعنی اذانیں مختلف نہیں ہوں گی۔ ڈنڈے والی سرکار سے پہلے پاکستان پارلیمان مچھلی منڈی بن جائے گی۔ وزیر اعظم ادلتے بدلتے رہیں گے۔ سیاسی جوڑ توڑ زوروں پرہوگا۔ کشمیر خود مختار بن چکا ہوگا جو کبھی پاکستان اور کبھی بھارت سے الحاق کرتا پھرے گا۔ بالآخر ڈنڈے والی سرکار کشمیر کا پاکستان سے حتمی الحاق کرے گی۔ نئی حکومت افغانستان کے معاملات پاکستانی مفادات کے مطابق سنوارے گی۔ پاکستان بلکہ خطے میں بھارتی مداخلت کے خاتمے کیلئے بھارت سے کامیاب جنگ کرے گا۔لال قلعہ پر پاکستانی جھنڈا لہرائے گا مگر بین الاقوامی دباؤ کے تحت پاکستان دلی چھوڑ دے گا۔ مگر اجمیر شریف بٹھنڈا پاکستان کا حصہ بن جائے گا۔ پہلی جنگ کے نتیجے کے طور پر بھارتی پنجاب میں پاکستان کی حلیف سکھ خالصہ حکومت بن جائے گی۔ جس کا وجود پاکستانی ڈنڈے والی سرکار کی خوشنودی پر منحصر ہوگا۔ جنوبی بھارت میں مسلمان ، اچھوت قومیں دیگر اقلیتیں متحد ہوکر آزاد ریاست بنانے میں کامیاب ہوجائیں گی۔ شمالی بھارت کے برہمن ہندو یوپی کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کی انتہا کریں گے۔ ڈنڈے والی سرکار بھارت سے دوبارہ جنگ کرے گی اور کائنات سے ہندو ریاست و حکومت نام کی چیز ہمیشہ کیلئے ختم کردے گی۔
(ظہور امام مہدی و فتنہ دجال ۔صفحہ160، مولانا بشیر احمد حامد حصاروی )

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv
اخبار نوشتہ دیوار کراچی۔ خصوصی شمارہ مئی 2022

معاشی نظام کیلئے قومی حکومت بنائی جائے۔ جہانگیر خان ایڈوکیٹ

معاشی نظام کیلئے قومی حکومت بنائی جائے۔ جہانگیر خان ایڈوکیٹ

ڈیرہ اسماعیل خان سینئر ایڈوکیٹ جہانگیر خان سے عتیق گیلانی نے یہ استفسار کیا کہ موجودہ مشکل صورتحال میں پاکستان بچانے کیلئے آپ کیا تجویز پیش کریں گے۔ جہانگیر خان ایڈوکیٹ سینئر ایڈوکیٹ کے علاوہ مذہب، تاریخ، سیاست اورریاست کے حوالے سے زبردست بصیرت کے مالک ہیں ۔پاکستان کی تحریکوں اور شخصیات کو قریب سے دیکھنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں،جن کی فکرو بصیرت سے رہنمائی ملتی رہتی ہے۔ جہانگیر خان ایڈوکیٹ نے کہا کہ مجھے کوئی ایسا شخص، پارٹی یا ادارہ نظر نہیں آتا ، جو موجودہ حالات پر ملک وقوم کو بچانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ انہی کی وجہ سے تو یہ حالات اس نہج پر پہنچے ہیں۔ چند خسرے، لونڈے ، لونڈیاں اور بھانڈ ایک دوسرے کا تمسخر اڑانے کیلئے دن رات ٹی وی اور سوشل میڈیا پر پھلجھڑیاں چھوڑنے میں مصروف ہیں۔ مریم نواز ملک کی تقدیر کا فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے؟۔ بلاول بھٹو قوم کی تقدیر بدلے گا؟۔ عمران خان کی ذاتی ایمانداری مسئلے کا حل نہیں ہے اس کی ٹیم نے بھی اس ملک کو ویسا ہی لوٹ لیا جس طرح دوسروں نے لوٹا ہے۔ سیاست چلتی رہے گی لیکن معاشی صورتحال کو بہتر بنانا سب سے زیادہ ضروری ہے اور اب اس ملک کاایک ہی مسئلہ ہے اور وہ ہے مضبوط معیشت کا۔ اگر پاک فوج سیاسی پارٹیوں کی ایک قومی حکومت بنانے میں کامیاب بقیہ صفحہ 2نمبر2پر

بقیہ نمبر2 … جہانگیر خان ایڈوکیٹ
ہوجاتی ہے جس کی معاشی ٹیم ملک کی معیشت کو سہارا دیدے اور معاشی حالت ٹھیک ہوجاتی ہے تو پھر سب کچھ ٹھیک ہوسکتا ہے۔ مذہب، غیرت اور مختلف نعروں کو آزمایا جاچکا ہے اور اب اس کی ضرورت نہیں ہے۔ اسلام اور جمہوریت کے نام پرتحریک چلانے اور جذبات ابھارنے سے اب لوگ بیزار ہیں اور معیشت اس قوم کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ جمہوریت اسلئے ہوتی ہے کہ عوام کے حقوق ، مالی خوشحالی اور ان کی آزادی کاتحفظ کیا جاسکے۔ یہاں جمہوریت کے نام پرعوام کو قید ، حقوق سے محروم اور مالی طور بدحال کرنے کیلئے سیاسی جماعتیں ٹاؤٹ کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔ موجودہ صورتحال میں جھگڑا عوام کے مفادات کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ پارٹیوں کے مفادات کا مسئلہ ہے۔ مال خرچ کرکے اور عوام کے جذبات بھڑکاکر پارٹیوں سے پارٹیاں کھیل رہی ہوتی ہیں۔ اگر قومی حکومت کی تشکیل میں ہمارے اصحاب حل وعقد کا میاب ہوگئے اور معاشی نظام کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا گیا اور ملک کی معیشت بچالی گئی تو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا اور پھر سیاست اور جمہوریت بھی چلے گی اور اختلافات بھی چلتے رہیں گے لیکن اب ہم نے ملک کو تباہی کے کنارے پر پہنچادیا ہے۔ پاکستان میں محب وطن اور وطن کی دشمن دوقسم کی قوتیں سرگرم عمل ہیں۔ کوئی بھی ایسا ملک نہیں ہے جہاں پر اس طرح کی قوتیں کھل کر اور چھپ کر کام کرتی ہوں۔ بیرون ملک ہماری دشمن قوتوں کو اس بات کا انتظار ہے کہ کوئی ایسا ماحول بن جائے اور ملک نیست ونابود ہوجائے۔ ریاست نے اپنی غلط پالیسیوں کے نتیجے میں دشمنوں کو تقویت پہنچائی ہے اور جن کو پالا ہے انہوں نے دشمن سے بھی زیادہ ملک کو خطرے کی حالت تک پہنچادیا ہے۔ کوئی سیاسی لیڈر بنتا ہے تو وہ تین سوکتابیں پڑھتا ہے، ملک اور قوم کے حالات سے واقف ہوتا ہے اور بین الاقوامی حالات کو سمجھتا ہے لیکن ہم کھلاڑیوں اور کاروباریوں کو اپنے ملک پر مسلط کرکے مسیحا سمجھنے کی غلطی کر بیٹھتے ہیں۔باہمی مشاورت سے ماہرین کی چندسالوں تک حکومت مسائل کا حل ہے اور یہ بات دنیا جانتی ہے کہ ریاستیں اور حکومتیں چلانے کیلئے مختلف شعبوں کے تھنک ٹینک ہوتے ہیں۔ غل غپاڑے،ڈرامے،مفادپرستی اور مداری تماشے سے ملک نہیںچلتے۔ ریاست وحکومت کی بنیادی ضروریات کو ماہرین کے تھنک ٹینک کی مشاورت سے چلایا جاتا ہے جبکہ ہمارے ہاں سیاسی اُفق پر جتنی پارٹیاں نمودار ہوتی ہیں وہ دوست یار اور اپنے وفادار کو نوازنے کیلئے ہوتی ہیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv
اخبار نوشتہ دیوار کراچی۔ خصوصی شمارہ مئی 2022

ڈیرہ بگٹی، چولستان اور سندھ کے ساحلی علاقوں میں پینے کا پانی نہیں شرم کا مقام ہے کہ رات کا وقت آتا ہے تو سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف جلسے کرتی ہیں۔ عوامی ورکرز پارٹی کے ہردلعزیز رہنما کامریڈ عاصم سجاد اختر

ڈیرہ بگٹی، چولستان اور سندھ کے ساحلی علاقوں میں پینے کا پانی نہیں شرم کا مقام ہے کہ رات کا وقت آتا ہے تو سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف جلسے کرتی ہیں۔ عوامی ورکرز پارٹی کے ہردلعزیز رہنما کامریڈ عاصم سجاد اختر

ابھی گرمیوں میں پانی نہیں تو سردیوں میں کیا عالم ہوگا؟ جہاں جنگل ہوتا تھا وہاں پہاڑ بالکل ننگا نظر آئیگا۔ یہ کیوں ہے دوستو! یہ قدرتی آفات نہیں ہیں، یہ انسانوں کا بنایا ہوا نظام ہے۔

اسکے پیچھے ہوس ، منافع خوری ، طاقت ہے، تمام تر آنے والی نسلوں کا بھی حق اور روزگار مارنے کا یہ نظام ہے۔کبھیPTIکی ڈگڈگی کے پیچھے چل پڑتے ہیں …

عوامی ورکرز پارٹی کے ہردلعزیز رہنماکامریڈ عاصم سجاد اخترنے اسلام آباد پریس کلب میں ایک مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نعرہ:جبFWOاورNLCقبضے کرتے ہیں (جواب: دھرتی کا دم گھٹتا ہے۔ )۔ نعرہ: جب لوٹ مار کا بازار گرم کیا جاتا ہے۔ (جواب: دھرتی کا دم گھٹتا ہے )۔ یہاں پر ایک عجیب منظر ہے میں نے کبھی اتوار کے روز دیکھا نہیں ہے۔ایک طرف آپ کو سامراجی جنگ کا شکار عوام یہاں پر تقریباً پچھلے30دن سے پڑے ہوئے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔دوسری طرف ہمارے مذہبی لوگ بھی ہیں لیکن بہرحال وہ بھی ایک سامراجی جنگ کا حوالہ دے کر فلسطین کے عوام کے حوالے سے مظاہرہ کررہے تھے۔ چلو اچھی بات ہے وہ تھوڑا سا دور چلے گئے ہیں اب ہمیں ایک دوسرے کو سننے کا موقع ملے گا۔ لیکن کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ ساری چیزیں ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔ ہمارے حلقوں میں بھی کئی لوگ ایسے ہوں گے جن کو لگتا ہوگا کہ یہ جو ماحول کی بات ہورہی ہے یہ بس ایک درخت لگانے کی بات ہے تھوڑا سا پلاسٹک استعمال نہ کرنے کی بات ہے۔ یا پانی کی قلت کی بات ہے۔ یہ ساری سیاسی اور معاشی باتیں ہیں۔ اور یہ سارے اس عالمی نظام کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں جس کے ساتھ ہم جکڑے ہوئے ہیں۔ جسکو آپ سامراج کا نام بھی دے سکتے ہیں، بقیہ صفحہ 2نمبر1پر

  بقیہ نمبر1… کامریڈ عاصم سجاد اختر

سرمایہ داری کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ یہاں پر فوجی قبضے کا نام دے سکتے ہیں۔ اس میں کئی کئی شاخیں ہیں اس کی کئی کئی قسمیں ہیں۔ کئی کئی اس کی علامتیں ہیں۔ کسی نے کہا کہ قیامت یا جہنم یہاں پر کھڑے کھڑے آسمان پر آپ دیکھیں کہ کوئی دھوپ نظر نہیں آرہی لیکن40ڈگری یہاں پر موسم ہے اور آندھی چل رہی ہے۔ اور پچھلے مہینے سے آپ چولستان جائیں ، آپ ڈیرہ بگٹی جائیں، آپ سندھ کے ساحلی علاقوں میں جائیں ، لوگوں کے پاس پینے کا صاف پانی تک نہیں ہے۔ یعنی کہ جدید ریاست ہے ہمارے حکمران ایک دوسرے کیخلاف شرم کا مقام ہے کہ رات کا وقت آتا ہے تو جلسے کرتے ہیں ایک دوسرے کے خلاف۔ کوئی لندن جاکر ہدایت لے کر آرہا ہوتا ہے لیکن کسی کو اس چیز سے غرض نہیں ہے کہ آپ ڈیرہ بگٹی جائیں وہاں پینے کا پانی میسر نہیں ہوتا ہے… آپ ساحلی علاقوں میں جائیں ہزاروں سال سے ماہی گیر جو ہیں جن کا تاریخی روز گار ہے وہاں پر ہم بڑے بیرونی ٹرالروں کو ٹھیکے ضرور دے سکتے ہیں لیکن وہاں پر مقامی ماہی گیروں کے روزگار کی ہمیں تھوڑی سی بھی پرواہ نہیں ہے۔یہاں پر گوادر پورٹ کی بڑی خوبصورت تصویروں کے سوشل میڈیا پر ٹرینڈ چلتے ہیں لیکن وہاں پر مقامی لوگوں کی حالت کسی کو پتہ ہو تو ان کی طبیعت صاف ہو کہ یہ کونسی ترقی ہے؟۔ روڈ کٹتے ہیں پہاڑ کاٹے جاتے ہیں سونے پر سہاگہ گلگت بلتستان میں ہمیں ہر روز کبھی عمران خان کہتا ہے تو کبھی شہباز شریف کہتا ہے کہ وہاں پر جاکر ٹور ازم کریں۔ کیا ٹورازم کریں؟ وہاں پر آئے روز سیلاب آتا ہے پل کے پل گرجاتے ہیں ، گلیشئر دربدر پگھلتے چلے جارہے ہیں اور پھر بھی مائننگ کے کانٹریکٹرز اور منافع خور جن کے سب سے زیادہ خاکی والے ان کی بس ہی نہیں ہوتی کہ پہاڑ کاٹتے چلے جاتے ہیں کان بناتے چلے جاتے ہیں اور گلیشئر پگھل رہے ہیں۔ اور آپ کو پتہ ہونا چاہیے کہ یہاں پر یہ جو بچے ہیں کہ اس ملک کا تمام پانی ، پانچ کے پانچ دریا کا جو پانی ہے اور اوپر سے لے کر کراچی تک دریائے سندھ کے خاتمے تک پانی آتا ہے وہ تمام کا تمام گلگت ، بلتستان اور کشمیر کی پہاڑیوں سے نیچے اتر کر آتا ہے۔ اور وہ پانی گلیشئر پگھلنے کی نتیجے میں جب یہاں سردیوں میں پانی کا سیزن نہیں ہوتا تو وہی پانی ہمیں پینے کیلئے بھی سہولت فراہم کرتا ہے اور زراعت میں بھی۔ لیکن آپ دیکھیں کہ اس گرمیوں کے موسم میں گلیشئر تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ ابھی گرمیوں میں پانی نہیں ہے تو سردیوں میں کیا عالم ہوگا؟۔ اس کی مثالیں ان گنت ہیں۔ کئی مثالیں تو میں آپ کو دے بھی نہیں سکتا۔ آپ میرے خطے میں جائیں ہزارہ میں، سوات میں جائیں پورے پورے پہاڑ ننگے ہوگئے ہیں۔ جہاں پر جنگل ہوتا تھا وہاں پر پہاڑ آپ کو بالکل ننگا نظر آئے گا۔ یہ کیوں ہے دوستو!۔ جسے کہتے ہیں نا کہ قدرتی آفات۔ یہ قدرتی آفات نہیں ہیں، یہ انسانوں کا بنایا ہوا نظام ہے۔ اس نظام کے پیچھے ہوس ہے، منافع خوری ہے ، طاقت ہے، اگر میں طاقتور ہوں تو میں غریب کا حق مار کر اس کا روزگار مار کر تمام تر آنے والی نسلوں کا بھی حق اور روزگار مارنے کا یہ نظام ہے۔ تو اس پر آپ غور کریں اس پر آپ سوچیں کہ کبھی ہمPTIکی ڈگڈگی کے پیچھے چل پڑتے ہیں تو کبھی کسی اور کی۔ مہینہ پہلے ایسا لگا تھا کہ یہاں پر جمہوریت کے دودھ اور شہد کی نہریں نکل آئی ہیں۔ کہ یہاں پر ایک نئی حکومت حالانکہ نئی کونسی وہ بھی پرانی حکومت ہے ۔ کبھی کوئی نیا آتا ہے جو کہتا ہے کہ میں پرانے کو گرانے کیلئے آیا ہوں اور نیا چلاجاتا ہے تو وہ پرانا آجاتا ہے۔ اور نیا پھر ڈگڈگی بجاتا ہے۔ وہ ہمیں سامراج کی باتیں بیچتا ہے چورن ، لیکن وہ یہ نام نہیں لیتا کہ یہ قبضے کون کرتا ہے زمینوں پر، کارخانوں پر، جنگلات پر، پانی پر، یہ سارا کچھ ادھر ہی ہورہا ہے اور یہ سارا کچھ آنے والے وقت میں ایک بہت بڑے عذاب کی شکل اختیار کرے گا۔15کروڑ نوجوان ہیں اس ملک میں جن کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ اگر اس طرح کی سیاست کے اندر ہم جکڑے رہے تو کوئی ہمارا پرسان حال نہیں ہوگا۔ تمام دوستوں سے گزارش ہے ان ساتھیوں سے بھی گزارش ہے اس طرف والے بھی اور اُس طرف والے بھی جب آپ نہیں ہوتے تو ہم ہی ان سڑکوں پر آپ کی باتیں کررہے ہوتے ہیں۔ جب اسرائیل کے خلاف نعرہ لگانے والا کوئی اور نہیں ہوتا تو ہم ہی نعرے لگارہے ہوتے ہیں۔ اور وہ چیزیں جو کوئی بھی نہیں کہتاوہ ہم ہی کہتے ہیں۔ یہاں پر ایک حکومت آتی ہے اور جاتی ہے مگر ملک ریاض کے خلاف کوئی چوں نہیں کرتا۔ ایک حکومت آتی ہے اور جاتی ہے لیکنFWOاورNLCکے ٹھیکے ختم نہیں ہوتے۔ یہاں پر ایک حکومت آتی ہے اور جاتی ہے لیکن کبھی کوئی واشنگٹن سے جاکرIMFسے بھیک مانگ رہا ہوتا ہے ، کبھی ریاض جاکر سستے تیل کی بھیک مانگ رہا ہوتا ہے۔ تو کبھی چین سے سستے قرضے مانگ رہے ہوتے ہیں۔ ملک قرضوں پر چلتا ہے ،قرضے عوام برداشت کرتے ہیں، اور آنے والے کل کے بعد جب ماحولیاتی تباہی اس نہج تک پہنچ جائے گی تو پھر یہ قرضوں والا نظام بھی نہیں چل سکے گا۔ تو اپنے جیسے نوجوانوں کو سمجھائیں کہ ہوش کے ناخن لیں نعروں کے پیچھے نہ جائیں۔ عقل اور شعور والی سیاست کا ساتھ دیں۔ کیونکہ یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے اور اس کا سیاسی حل ہے۔ اور ہم فخر سے کہتے ہیں کہ ہم ایک سیاسی جماعت ہیں۔ ہم ایک طلبہ تنظیم ہیں ہم ایک عورتوں کی تنظیم ہیں، ہم اس نظام کے خلاف اور اس نظام کی تبدیلی کیلئے سیاست کرتے ہیں۔ ہم کچھ چھوٹے موٹے مفادات کیلئے نہیں کرتے۔ تو سب اپنے دوستوں کو یہ نعرہ بتائیں ، ہاتھوں میں لے کر ہاتھ چلو، آؤ ہمارے ساتھ چلو۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv
اخبار نوشتہ دیوار کراچی۔ خصوصی شمارہ مئی 2022

وزیرستان محسود ایریا میں مکمل امن ہے، گرمیاں گزارنے کیلئے آئیں، مولانا صالح شاہ قریشی اور عالم زیب خان کی محسود عوام سے اپیل۔

وزیرستان محسود ایریا میں مکمل امن ہے، گرمیاں گزارنے کیلئے آئیں، مولانا صالح شاہ قریشی اور عالم زیب خان کی محسود عوام سے اپیل۔

جنوبی وزیرستان مکین شہر میں تین محسود قبائل کے گرینڈ جرگہ سے جمعیت علماء اسلام کے سابق سینٹر مولانا صالح شاہ قریشی نے کہا کہ آج یہاں پر جو جرگہ ہوا ہے، انکے بلانے پر میں یہاںآیا ہوں اور میں نے یہ بات کی کہ محسود قوم میں کراچی ، ٹانک ، ڈیرہ اسماعیل خان اور جہاں پر بھی محسود رہتے ہیں یہ پروپیگنڈہ ہوا ہے کہ یہاں امن نہیں ہے ۔ بدامنی ہے، آپریشن ہے، یہ الٹی سیدھی باتیں میرے وزیرستان کے خلاف پروپیگنڈہ ہے۔ یہ پروپیگنڈہ غلط ہے۔ آج جب میں اس جرگے میں آرہا تھا تو سامنے ایک شخص نے مجھے چائے کی دعوت دی تو اس نے کہا کہ کراچی سے ہمیں فون آیا ہے کہ جنڈولہ سے مکین کی طرف توپوں سے گولہ باری کی جارہی ہے۔ بھائی یہ سب ہمارے امن کے خلاف پروپیگنڈے ہیں۔ میری محسود قوم اگر تم یہاں مکین میں ہو یا کراچی میں ہو یا پنڈی اور اسلام آبا د میں ہو ، میں تمہیں وزیرستان سے امن کا پیغام دیتا ہوں۔ میں وزیرستان سے خیر کا پیغام دیتا ہوں۔ اپنا خوف مٹا دو ، یہاں والوں کو بھی کہتا ہوں اور جو باہر ہیں ان سے بھی کہتا ہوں اکا دُکا واقعہ پر آپ اپنے وطن کو چھوڑتے ہو تو پھر ٹانک کو بھی چھوڑ دو۔ پھر کراچی بھی چھوڑ دو اور کل ہی کراچی میں دھماکہ ہوا ہے۔ اگر تم ان واقعات کی وجہ سے وطن چھوڑتے ہو تو پشاور میں بھی ہوتے ہیں اسلام آباد میں بھی ہوتے ہیں ، پنڈی میں بھی ہوتے ہیں ، ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی ہوتے ہیں، بلوچستان میں بھی ہوتے ہیں۔ جب سارا وطن کسی نے ایک بم یا توپ سے نہیں چھوڑا ہے تو تم اپنا وطن کیوں چھوڑتے ہو۔ آج امریکہ میں8افراد مرے ہیں کیا امریکی وہاں سے نکلے ہیں۔ روس میں روزانہ یہ واقعات ہوتے ہیں ۔ قوم کایہ پیغام دیتا ہوں کہ گرمیوں سے خود کو مت مارو، جو مکین ، کڑمہ، خیسور، شکتوئی اور جہاں کا رہائشی ہے اپنی جگہ پر آئے۔ ہمارا وطن سکول، ہسپتال اور کسی چیز سے آباد نہیں ہوتا ہے بلکہ محسود قوم سے ہوتا ہے۔
جبکہPTMکے ہر دلعزیز رہنما عالم زیب خان محسود نے کہا ہے کہ ہم اپنی پوری قوم کو مکین شہر سے میں یہ پیغام دیتے ہیں کہ قوم اپنے علاقہ میں آجائے۔ جو بھی ٹانک ، ڈیرہ اسماعیل خان اور دوسرے شہروں میں رہتے ہیں جو ہرسال روٹین میں گرمیاں گزارنے کیلئے آتے تھے ،ان کو یہ پیغام ہے اور ان سے ہماری یہ درخوست ہے کہ اپنے علاقے میں آجائیں اوران علاقوں کو آباد کریں۔ یہ امن تمہارے ساتھ وابستہ ہے ، جب تم یہاں ہوگے تو امن ہے اور اگر تم یہاں نہ ہو تو امن نہیں ہے۔ ویسے بھی جو جگہ خالی ہوجاتی ہے تو وہاں خاموشی چھا جانے سے بھی دہشت پھیل جاتا ہے اور دہشت ایسی چیز ہے کہ اس کی کوئی مخصوص شکل ہو۔ یہ خاموشی اور تنہائی بھی جب کچھ بھی موجود نہ تو یہ بھی ایک دہشت اور وحشت ہے۔پس تمہارے آنے کی وجہ سے امن اپنی جگہ پر آجائے گا۔ تمہیں یہ انتہائی درخواست ہے کہ ان علاقوں کو آباد کرو۔ یہ اچھا موسم اور یہ میٹھی ہوائیں ان سے اپنے بچوں کو محروم نہ کریں۔ سب آجائیں اور ایسا میں اپنی بات کروں گا ہم نے بھی اپنی فیملی یہاں لائی ہے۔ اس طرح سب سے یہ درخواست ہے کہ اپنی اپنی فیملیاں لائیں تاکہ ہم مستقل اپنے وطن کو آباد کردیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv
اخبار نوشتہ دیوار کراچی۔ خصوصی شمارہ مئی 2022

افغانستان، پاکستان، عراق، لیبیا اور شام تباہ کرنے والا اسرائیل کا سرپرست اعلیٰ امریکہ دوست لیکن اسرائیل بلیک میلنگ کا ذریعہ؟۔

افغانستان، پاکستان، عراق، لیبیا اور شام تباہ کرنے والا اسرائیل کا سرپرست اعلیٰ امریکہ دوست لیکن اسرائیل بلیک میلنگ کا ذریعہ؟۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

تحریک انصاف کی رہنما سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری نے پاک فوج کو اسرائیل سے تعلقات کے حوالے سے جب اپنا بیان جاری کیا تو میڈیا پر اس سے بھونچال آیا اور تہلکہ مچ گیا۔

جیو نیوز ”آپس کی بات” کے میزبان منیب فاروق نے پاکستانی نژاد امریکنNGOکے وفد اور صحافی احمد قریشی سے پوچھا کہ اسرائیل جانے اور اسرائیلی صدر وغیرہ سے ملاقات کے کیا مقاصد تھے؟

ARYنیوزٹائپ کے صحافی احمد قریشی نے بتایا کہ75سالہ تاریخ میں پاکستان میں پہلی بار کسی یہودی کو پاسپورٹ جاری کیا گیا ہے جس کا کریڈٹ ریاست اور تحریک انصاف کو جاتا ہے

تحریک انصاف کی رہنما ڈاکٹر شیریں مزاری نے اسرائیل کے حوالے سےISPRپاک فوج کے ترجمان کو دھمکی دی تو عدالت نے باغی ارکان کے ووٹ کاؤنٹ نہ کرنے کا فیصلہ دیا۔ عام تاثر یہ ہے کہ تحریک انصاف ریاست کو دباؤ میں لانے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ جیو نیوز اور صحافیوں کے ایک ٹولے کی طرف سے عمران خان کی حکومت اور پاک فوج پرایک دباؤ اور ن لیگ کو ریلیف اور وکالت کرنے کا سلسلہ جاری رکھنا کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ اب پانسہ پلٹ گیا ہے تو پاک فوج کو عمران خان کے دباؤ سے نکالنے کا سلسلہ جاری ہے۔
اگر شیریں مزاری یہ اعلان کردیتی کہ پاک فوج نے درپردہ اسرائیل سے تعلقات بحال کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا تھا جس کے پیچھے امریکہ تھا اور ہم نے ایسا نہیں ہونے دیا جس کی وجہ سے تحریک انصاف کی حکومت امریکہ کی ایماء پر ختم کردی گئی تو پاک فوج سے محبت کرنے والے جلاؤ گھیراؤ پر اتر آتے جو کسی طاقت سے پھر سنبھالے نہیں جاسکتے تھے۔ عمران خان نے خوف کے مارے یہ رسک لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ پاک فوج پر عمران خان بھی قربان ہو۔
اسرائیل جانے والے پاکستانی نژاد امریکن وفد میںARYنیوز کے صابر شاکر ٹائپ کے صحافی احمد قریشی نے انکشاف کیا کہ75سالہ تاریخ میں پہلی بار ایک یہودی کو پاکستانی پاسپورٹ جاری کیا گیا جسکا کریڈٹ ریاست اور عمران خان کی حکومت کو جاتا ہے۔ وفد کا مقصد پاکستان کی نمائندگی کرنا نہیں بلکہ بین المذاہب ہم آہنگی تھا۔ اسرائیلی حکومت کے نمائندوں نے بتایا کہ جس طرح ہم اپنے سخت گیر لوگوں کو سامنا کررہے ہیں جو مسلمانوں اور فلسطینیوں سے تعلق کی بحالی نہیں چاہتے۔ اسی طرح تم لوگوں کو بھی ان شدت پسندوں کا سامنا ہے۔ جب آپ کی طرف سے پیش رفت ہوگی تو ہم بھی اپنے لوگوں کو مطمئن کرسکیں گے۔ بیت المقدس میں فلسطینیوں کے بعد سب سے زیادہ تعداد ترکیوں کی تھی جن کا50سال سے اسرائیل سے دوستانہ تعلق ہے۔ مصر، عرب امارات، بحرین اور دوسرے مسلم ممالک نے اسرائیل سے تعلقات قائم کئے ہوئے ہیں۔ منیب فاروق نے پوچھا کہ ڈاکٹر شیریں مزاری جو تاثر دے رہی ہے کہ ہماری حکومت کی رخصتی کے بعد امریکہ سے پاکستانیوں کا وفد اسرائیل گیا تو کیا اس کے پیچھے عمران خان کی حکومت کے خاتمے اور نئی حکومت قائم ہونے کا کوئی تعلق ہے؟۔ جس کے جواب میں احمد قریشی نے کہا کہ میں ایک صحافی ہوں اورصحافت کا تعلق خبر سے ہوتا ہے۔پرویز مشرف کے دور میں وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کی بھی اسرائیلی سفیر سے خفیہ ملاقاتوں کی خبریں میڈیا پر آئی تھیں۔ عمران خان کے دور میں اسرائیلی جہاز کی آمد کے حوالے سے بھی مذہبی و سیاسی رہنماؤں میں خبر گردش کررہی تھی ۔پاکستان کی ریاست اور عوام کے درمیان گیس بھرے غبارے کا تعلق ہے۔ فضاؤں میں اڑنے والا غبارہ کب پھٹ جائے یا پھر کب گیس خارج ہوجائے؟ یہ ریاست ، سیاست اور صحافت کی بساط پر کھیلنے والے کھلاڑیوں کے بائیں ہاتھ کا ایک کھیل ہے۔ جب مقتدر طبقات، سیاستدانوں اور صحافیوں میں شعور نام کی کوئی چیز نہ ہو تو بے خبر عوام سے کس بات کی توقع رکھی جاسکتی ہے؟ ذرا سوچئے تو سہی3بار وزیر اعظم بننے والے نواز شریف کا بھائی کئی بار کا تجربہ کار وزیر اعلیٰ شہباز شریف اپنے کپڑے بیچ کر آٹا سستا کررہا ہے؟۔
عوام الناس کے ساتھ ساتھ اشرافیہ کے مخصوص طبقے کو بھی شعور دینا بہت ضروری ہے۔ پنجاب کی عوام کا حال بھارت کے پسماندہ طبقات سے بھی زیادہ بدتر ہے۔ جن کو گلی، محلے، علاقے اور سیاسی بدمعاشوں کے علاوہ پولیس، عدالت کچہری اور معاشرتی چوہدریوں کی چودھراہٹ کا سامنا ہے۔ پختونخواہ، سندھ، بلوچستان اور کراچی کے غریب عوام کا بھی کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ تھوڑا سا خوشحال طبقہ برگر کلاس فارمی اور فینسی مرغیاں اور پرندے ہیں۔ بقیہ صفحہ2نمبر3

بقیہ نمبر3…اسرائیل کو تسلیم کرنے پر بلیک میلنگ
جن کا سیاست ، نظرئیے اور انسانی ہمدردیوں سے کوئی دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ عمران خان جتنے لوگوں کو نظرئیے کے نام پر اکھٹا کرتے ہیں اگر وہ اپنی بیٹی ٹیرن وائٹ کو میدان میں لائیں تو ان سے زیادہ بڑا اجتماع ہوگا۔ جب قوم کو شعور نہیں ملتا تونظریاتی بننے کے بجائے لوگ اُلو بنتے ہیں۔ جمہوریت نے باشعور لوگوں کو عمران خان اور سب جماعتوں کی کارکردگی زبردست طریقے سے دکھادی ہے۔
امریکہ نے نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان کو بھی تباہ کردیا اور پھر عراق، لیبیا اور شام کو بھی تباہ کردیا اور یوکرین روس کے ہاتھوں امریکہ نے ہی تباہ کیا۔ عمران خان کہتا ہے کہ میں غیرت پر جیتا اور مرتا ہوں لیکن جب اس کو خوف تھا کہ اپوزیشن حکومت کیلئے مشکلات پیدا کریگی اور قرار داد لانے پر فرانس کے سفیر کو باہر نکالے گی تو پھر وعدے کے باوجود توہین رسالت کے مرتکب فرانس کے سفیر کو ملک بدر نہیں کیا۔ عوام نے نہ صرف پولیس والوں اور عوام کو قتل اور زدوکوب کیا بلکہ سری لنکن شہری کو سرِ عام بہیمانہ تشدد سے قتل کرکے جلا ڈالا۔ یہ وہی جذبہ تھا جو عمران خان نے ن لیگ کی حکومت کیخلاف مشکلات کھڑی کرنے کیلئے عوام میں پیدا کیا تھا۔ جس کی پھر عمران حکومت شکار ہوئی۔ اگر امریکہ نے عمران خان کو حکومت سے نکالا اور عمران خان امریکی سفیر کو نہیں نکال سکا تو ایسی بہادری پر پوری قوم نے عمران خان کو مسیحا ماننا ہے کیا؟۔
ہماری ریاست اور متحدہ حکومت کو اصل ڈر عوام کی اس جہالت سے ہے جو انہوں نے اسرائیل وامریکہ کیخلاف اور مذہب کے نام پر خود کاشت کی ہے۔ عمران خان کی ایک خاتونMNAنے اپنے دورِ حکومت میں مرکزی خیالات سے استفادہ کرتے ہوئے یہ تبلیغ بھی شروع کردی تھی کہ ہم نماز میں یہودیوں پر درود بھیجتے ہیں۔ اسلئے کہ یہود و نصاریٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد ہیں۔ گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے ، چور مچائے شور کی بہت ساری کہاوتیں مشہور ہیں۔
جب صدر مملکت عارف علوی نے عدالت کو ریفرنس بھیجا کہ باغی ارکان کی پوزیشن واضح کی جائے جس کی وجہ سے تحریک انصاف کی اتحادی جماعتیں بھی مخمصے کا شکار ہوگئی تھیں کہ اگر اتنے ارکان کی بغاوت ہے تو حکومت کا خاتمہ یقینی ہے۔ لیکن عدالت نے اتنی دیر کردی کہ تحریک انصاف کے اتحادیوں نے راہیں جدا کرلیں۔ جب منظر نامہ بدل گیا تو عدالت کا فیصلہ آگیا۔ اگر عمران خان نے راتوں رات عدالت لگانے پر درست اعتراض کیا تھا تو اس کو چاہیے تھا کہ اعلان کرتا کہ جج صاحبان اس کو رول کرکے اپنی کرسی کے اوپر رکھ لیں ہوسکتا ہے کہ انکے کام آجائے۔ بزدار سے تو ویسے استعفیٰ لیا تھا اور پرویز الٰہی کی بھی مٹی پلید ہوچکی ہے۔ چوہدری شجاعت حسین کا بیٹا وفاقی وزیر ہے۔ پنجاب کی حکومت کا دانہ چگنا ممکن نہیں ۔علیم خان اور جہانگیر ترین بھی مخالف جانب ہیں تو اس گناہ بے لذت حکومت کی بحالی پر عدالت کو خوش آمدید کہنا عقل کی بات نہیں۔
ہندوستان سے علیحدگی کی بنیاد مسلمانوں کا الگ وطن پاکستان تھا۔ اسلام کا نظام اتنا بہترین ہے کہ غریب، امیر اور متوسط طبقات کے علاوہ مسلم اور غیر مسلم سب کیلئے قابل قبول ہے۔ لیکن مذہبی طبقات نے اسلام کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا ہے۔ اگر اسلامی مزارعت کی بنیاد پر سُودی نظام کا جڑ سے خاتمہ کیا جائے اور محنت کشوں کو اپنی محنت کا پورا پورا صلہ ملے تو دنیا بھر کے کامریڈ اسلامی نظام کیلئے کھڑے ہوجائیں گے اور روس وغیرہ ہمارے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے۔
14سالہ چھوٹی بچی دعا زہرا کو والدین سے الگ کرکے شریعت کے نام پر نکاح کرنے کی گنجائش مولوی کے خود ساختہ مذہب میں ہے۔ قرآن و سنت میں نہیں ہے۔ میاں بیوی کی ناراضگی کے بعد باہمی صلح کیلئے حلالے اور بے غیرتی کی بنیاد قرآن و سنت نے نہیں ملاؤں نے رکھی ہے۔ جب لوگوں میں غلط فرسودہ حلالے کی روایت کو توڑنے کی غیرت نہیں ہے تو ان سے اور کیا غیرت کی توقع رکھی جاسکتی ہے؟۔ قرآن نے سورۂ نساء آیت19میں عورت کو خلع اور شوہر کو طلاق کا حق دیا ہے۔ آج اگر ڈاکٹر عامر لیاقت اعلان کردے کہ میں نے دانیہ سمیت کسی بیوی کو طلاق نہیں دی ہے تو مولوی کے مذہب کے مطابق عدالت کو خلع دینے کا حق نہیں۔ حالانکہ جس طرح شوہر کو طلاق کا حق ہے اسی طرح سے بیوی کو قرآن و سنت نے خلع کا حق دیا ہے۔ جس کیلئے عدالت میں جانے کی بھی ضرورت نہیںہے ۔ جب ہاتھ لگانے سے پہلے شوہر بیوی کو طلاق دے تو پھر بھی مالدار اور غریب کو اپنی وسعت کے مطابق آدھا حق مہر دینا فرض ہے لیکن جب خواتین سے کئی بچے جنوائے جائیں اور پھر ان کو طلاق دے کر نہ صرف گھروں سے باہر بھگایا جائے بلکہ ان کے بچے بھی چھین لئے جائیں تو ایسا ظلم اسرائیل و امریکہ اور کسی بھی غیر مسلم ملک میں نہیں ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ملاؤں کا بگڑا ہوا اسلام درست کرنا ہوگا پھر معاشرہ خود بخود مثالی بنے گا اور ترقی کرے گا۔
قرآن میں معاشرتی مسائل کی زبردست وضاحت ہے جس کی طرف ملاؤں کا دھیان نہیں گیا۔ قرآن میں تسخیر کائنات ہے۔ مسلمان سائنسدانوں نے مختلف شعبوں میں سائنسی ترقی کے حوالے سے بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔ اگر اس روش پر مسلمان قائم رہتے تو آج سائنسی ترقی میں مسلمانوں کا بہت بڑا حصہ ہوتا۔ قرآن نے بادلوں اور بجلی کی تسخیر کابتایا۔غیر مسلموں نے الیکٹرک اور الیکٹرانک سے دنیا کو روشن کردیا لیکن فقہاء غسل کے فرائض کی تسخیر میں لگے ہوئے تھے۔ مولانا شاہ تراب الحق قادری اور دعوت اسلامی کے مفتیوں نے عوام کو ان فقہی مسائل سے آگاہ کیا کہ ”روزے کی حالت میں پاخانہ کرنے کے بعد زور دے کر اپنے مقعد سے نکلنے والی آنت کو باہر رہنے پر مجبور کرو اور دھو کر اس کو کپڑے سے سکھادو نہیں تو روزہ ٹوٹ جائے گا اور استنجا کرتے وقت اپنی سانس کو بند رکھیں اسلئے کہ مقعد میں پانی چڑھ جائے گا اور روزہ ٹوٹ جائیگا”۔
اللہ تعالیٰ مذہبی طبقات سمیت ہمیں اور سب کو ہدایت عطا فرمائے۔ آمین ہمیں معلوم ہے کہ بعض قادیانیوں نے شیعوں کے خلاف آگ بھڑکانے میں بڑا کردار ادا کیا اور قادیانی جتنے قابلِ نفرت ہیں تو ان کی اپنی روش اس میں شامل ہے۔ تاہم قادیانی کو صرف اسلئے کہ وہ قادیانی ہے قتل کرنا جائز نہیں ہے ۔ جو اس کو جائز سمجھتا ہے تو بڑے علماء ومفتیان بسم اللہ کریں۔ مولانا فضل الرحمن کے دل کے وال بھی قادیانی ڈاکٹر مبشر نے بدلے تھے۔ اوکاڑہ میں ایک قادیانی کو قتل اور اسکے تین سالہ بچے کو زخمی کرنا ایک مدرسے کے نئے فاضل علی رضا کی طرف سے بہت قابلِ غور معاملہ ہے۔ زندیق کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ اس کی توبہ بھی قبول نہیں۔ اور قادیانیوں کو زندیق قرار دیا گیا ہے۔ پھر جنگ گروپ کے مالک نے قادیانی لڑکی کو توبہ کرواکر کیسے شادی کی ؟۔ نبی ۖ نے نبوت کے دعویدار ابن صائد دجال کو قتل نہیں کیا اور نہ اکابر علماء نے مرزاغلام احمد قادیانی کو قتل کیا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv
اخبار نوشتہ دیوار کراچی۔ خصوصی شمارہ مئی 2022

مشرق سے دجال نکلے گا جس کے مقابلے میں امام حسن علیہ السلام کی اولاد سے سید گیلانی ہوگا! علامہ طالب جوہری

مشرق سے دجال نکلے گا جس کے مقابلے میں امام حسن علیہ السلام کی اولاد سے سید گیلانی ہوگا! علامہ طالب جوہری

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

لغت میں خراسان مشرق کو کہتے ہیںاور عرب سے افغانستان،ایران،پاکستان مشرق کی جانب ہیں۔احادیث صحیحہ میںخراسان سے مہدی نکلنے کا بھی ذکر ہے اور دجال کے نکلنے کا بھی ذکر ہے!

جب دہشتگردوں نے ہمارے گھر پر حملہ کرکے13افراد کو شہید کیا تھا تو مولانا فضل الرحمن نے تعزیت کیلئے آمد کے موقع پر طالبان کو خراسان کادجال قرار دیا لیکن میڈیا نے خبرسنسر کردی تھی

امریکی صدر جوبائیڈن نے اسلام اور مہدی مخفی کا عید الفطر کی مناسبت سے ایک تقریب میں ذکر کیا تو انگریزی، عربی ، اردو سوشل میڈیا میں پذیرائی مل گئی۔ شیعہ عالم دین علامہ یاسر نقوی نے کہا کہ ”امریکی صدر تک نے مہدیٔ غائب کا ذکر کیا۔ جوبائیڈن نے کہا کہ گھرمیں تقابلِ ادیان کی کتابیں ہیں۔ ایک پروفیسر نے اسلامی تعلیم سے آگاہ کیا اور خفیہ مہدی کا زیادہ معلوم نہیں ۔ کافر نے فطری امام کا نام لیا اور سنی تعصب سے مہدی غائب کا ذکر نہیں کرتے ۔ اختلاف اپنی جگہ لیکن غیر متعصبانہ علمی حقائق کا تذکرہ کرنا چاہیے”۔ عربی عالم نے کہا کہ” خفی مہدی سے غیرفطری غائب امام مراد نہیں بلکہ سنی امام مہدی مراد ہیں جوانسانوں اور جنات شیاطین کی نظروں سے مخفی ہیں”۔ شیخ محی الدین ابن عربی کے اشعار کی تشریح کرتے ہوئے عربی عالم نے کہا کہ ” مہدی کا عوام کی نظروں سے اوجھل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ”لوگ واضح اسلامی احکام کو نہیں سمجھیں گے”۔
میرا عزیز پیر سید زبیرشاہ امریکیوں کا گائیڈ تھا۔ اسامہ بن لادن کیلئے کانیگرم جنوبی وزیرستان بھی امریکی ٹیم لایا تھا۔ سوات میں اس کی طالبان کے ہاتھوں گرفتار ی کی خبر آئی اور ساتھ میں ایک سومرو صحافی بھی تھا جو تاجر کے بھیس میں امریکہ کیلئے جاسوسی کررہے تھے۔ میڈیا پر گرفتاری کی خبر چلتے ہی تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان حاجی عمر نے کہا کہ فوری طور پر چھوڑ دیں گے۔ جس سے امریکہ اورTTPکے تعلق کی مضبوطی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ میرے ایک اور عزیز نے بتایا کہ وہ زبیرشاہ کیساتھ اسلام آباد میں امریکہ کے کسی بنگلے نما آفس میں گیا اور وہاں اس نے ہمارے نقش انقلاب کو دیکھا تھا جس میں گیارہ افراد کی تصاویر تھیں اور بارویں کا چہرہ مخفی تھا۔ شیعہ نے بارہ اماموں کا نقشہ بنایا ہوگا۔ صدر جوبائیڈن نے مخفی امام کا ذکر شاید اسی حوالے سے کیاہوگا۔
پانچ ہزار سال سے زیادہ عرصہ تک حضرت عیسیٰ اور حضرت خضر کی زندگی کا تصور ہے تو کیا حرج ہے کہ شیعہ کے امام کو ہزارسال سے غائب مانا جائے؟ ۔ میں نے اپنی کتابوں میں سنی وشیعہ کتابوں سے بہت واضح دلائل دئیے کہ مہدی آخری امیر سے پہلے گیارہ ائمہ اہل بیت حکومت کریں گے اور ان پر امت متفق بھی ہو گی۔ عیسیٰ کا نزول ، مہدی کی آمداوردجال کا خروج ہوگاتو پتہ چل جائیگا کہ شیعہ یاسنی مؤقف درست ہے؟۔ پہلے اتحادو اتفاق اور وحدت کی راہ ہموار کرنا ضروری ہے ۔ایک دوسرے کے دلائل سننا ،سمجھنا اور ان کو عملی جامہ پہنانا ہوگا۔ فرقہ وارانہ انتشار، قتل وغارتگری اور ایکدوسرے کیلئے عدم برداشت کا رویہ کسی کیلئے بھی کوئی فائدہ مند نہیں۔شیعہ کہتے ہیں کہ” خلافت راشدہ کے دور میں حضرت علی کی مظلومیت کا یہ عالم تھا کہ آخرکا ر مدینہ چھوڑ کر کوفہ منتقل ہونا پڑا۔ امام حسن نے مجبوری میں امیرمعاویہ کیلئے منصب چھوڑ دیا اور امام حسین کوشہیدکیا گیا اور باقی ائمہ اہل بیت نے خاموشی اختیار کرلی اور آخری غائب ہوگئے ”تو جب پہلے گیارہ نے کچھ نہ کیا تو بارویں امام سے امید کون لگائے گا؟۔اسلئے امام خمینی نے انتظار کی گھڑیاں ختم کرکے انقلاب برپا کردیا۔ حالانکہ شیعہ حدیث میں تھا کہ ”ہمارے قائم سے پہلے جس نے خروج کیا وہ ایسے طاہر کا بچہ ہوگا جو دوسروں کے ہاتھ میں کھیل رہا ہوگا”۔ فاطمی خلافت بھی آغاخانیوں اور بوہریوں کے آباء واجداد نے قائم کی تھی لیکن شیعہ امامیہ ان کے خلاف تھے۔ امامیہ شیعہ امام کا لفظ بارہ ائمہ کے علاوہ کسی کیلئے جائز نہیں سمجھتے تھے۔ مسجد کے امام کو پیش نماز کہتے ہیں۔ایرانی انقلاب شیعہ مسلک سے بہت بڑاانحراف بھی تھا ۔بقیہ صفحہ3نمبر2

بقیہ… علامہ طالب جوہری اورکئی دجال و امام مہدی
علامہ طالب جوہری کی کتاب ” ظہور مہدی” میں قیام قائم سے پہلے کئی قیام قائم کا ذکر ہے۔ ایک روایت ہے کہ مشرق سے دجال کے مقابلے میں قائم قیام کریگا جو حسن کی اولاد سے ہوگا۔ کسی روایت میں حسین کی اولادہے لیکن زیادہ روایات میں حسن کی اولاد کا ذکر ہے ،جس سے” سید گیلانی” مراد ہیں۔ علماء کرام علامہ طالب جوہری کی1987ء میں لکھی ہوئی کتاب میں مشرق کے دجال ، حسن کی اولاد میں سیدگیلانی کے حوالے سے معلومات مسلمانوں کے سامنے کھل کر بتادیں۔ بنو امیہ، بنوعباس اور خلافت عثمانیہ میں موروثی خلافت کا تصور تھا تو فاطمی خلافت اور بارہ ائمہ اہلبیت کا جواز بھی تھا۔ ا
امام ابوحنیفہ کے نزدیک غسل کے تین فرائض تھے ۔ کلی کرنا، ناک میں پانی ڈالنا، پورے جسم پر پانی بہانا۔ امام شافعی کے نزدیک کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنافرض نہیں۔ جبکہ امام مالک کے نزدیک مل مل کر دھونا بھی فرض ہے۔ الغرض کسی بھی فرض پر تینوں کا اتفاق نہیں ہے۔ امام جعفر صادق فرائض کا یہ اجتہاد اور اختلافات کو نہیں مانتے تھے لیکن کسی تسلی بخش جواب سے ان لوگوں کو قائل بھی نہیں کرسکے تھے ۔ جب اہلبیت کے ائمہ کا سلسلہ نہیں رہا تو شیعہ نے بھی اجتہادکا سلسلہ شروع کیا جو اہل تشیع میں آپس کے بھی اختلاف کا باعث بن گیا۔
قرآن میں اللہ نے جنابت سے غسل کا حکم دیا ۔دوسری جگہ پر وضو کے بعد فرمایا کہ ”اگر تم جنبی ہو تو پھر اچھی طرح سے طہارت حاصل کرلو”۔ وضو کے مقابلے میںنہانا یا غسل کرنا ہی اچھی طرح سے طہارت حاصل کرنا ہے۔ قرآن کو نظر انداز کیا گیا تو لایعنی فرائض کے اجتہادی اختلافات پیداکئے گئے۔
حنفی شافعی اختلاف اجتہاد تک محدود نہیں بلکہ احناف کے نزدیک قرآن سے نام نہادمتصادم خبر واحد کی صحیح حدیث معتبر نہیں اور خبر واحد کی قرآنی آیت معتبر ہے۔ جبکہ شافعی کے نزدیک قرآن سے باہر کی آیات پر اعتقاد رکھنا کفر ہے جو معتبر نہیں۔ خبر واحد کی حدیث معتبر ہے اور اس کو قرآن سے متصادم قرار دینا غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اور اساتذہ کرام کی تعلیم اور مرشد کی تربیت سے اللہ نے یہ قابلیت دی ہے کہ امت مسلمہ کو تضادات سے نکال سکتا ہوں۔ اگر علماء کرام اور مشائخ عظام نے موقع دیا تو بے دین طبقہ بھی مذہب کے بنیادی اور معاشرتی مسائل کو عالم انسانیت کیلئے بڑا پیکیج سمجھ کر قبول کریں گے اور اسی سے اسلام کی نشاة ثانیہ بھی ہوگی۔
قل ہل یستوی الذین یعلمون والذین لایعلمون لایستون ”کہہ دیجئے کہ کیا برابر ہوسکتے ہیں علم والے اور جو علم نہیں رکھتے؟۔ وہ برابر نہیںہیں”۔
بعض شیعہ دوٹوک کہتے ہیں کہ علی سے لڑنے والا مسلمان نہیں ہوسکتا، حضرت حسن کو جس نے صلح پر مجبور کیا وہ مسلمان نہیں تھا اور حضرت حسین کو جنہوں نے شہید کردیا وہ مسلمان نہیں تھے۔ اہل بیت کے مخالف دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ جو لوگ شیعہ سنی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی بات کرتے ہیں تو ان پر وہ برستے ہیں کہ تم بھی حق چھپانے کے مرتکب ہورہے ہو اور بقول عمران خان کے نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے۔
شیعہ گمراہی کی وجہ حفظ مراتب کا لحاظ نہ رکھنا ہے۔ علامہ شہنشاہ حسین نقوی نے ایک شیعہ سے کہا کہ تم نے غلط کہا کہ نبی کریم ۖ عرش پر گئے تو علی سے ملاقات ہوگئی ۔ یہ شرک ہے اور ہم مشرک نہیں۔ یہ کہو کہ عرش پر رسول سے اللہ نے علی کے لہجے میں بات کی۔ جس پر اہل محفل نے خوب داد بھی دیدی۔ اگر مان گئے کہ حدود کو پامال کررہے ہیں تو یہ خوش آئند ہے۔ سنیوں کا خطیب کہتا ہے ”جب نبیۖ معراج پر گئے ، جبریل نے کہا کہ اسکے بعد میں نہیں جاسکتا ، میرے پر جل جائیں گے۔ براق آگے جانے کو تیار نہ تھا تو سید عبدالقادر جیلانی غوث پاک نے حضورۖ کو اپنا کندھا پیش کردیا اور نبیۖ غوث پاک کے کندھے پر اللہ سے ملنے عرش پر گئے تھے”۔
جب قرآن میں اتنی بڑی رعایت لکھ دی گئی کہ ان الذین اٰمنوا والذین ھادوا والنصٰرٰی والصّٰبئین من امن باللہ والیوم الاٰخر وعمل صالحًافلھم اجرھم عند ربھم ولا خوف علیھم ولاھم یحزنونO
”بیشک جو لوگ مسلمان ہیں، جو لوگ یہودی ہیں اور نصاریٰ ہیں اور الصابئین ہیں جو بھی اللہ پر ایمان لائے اور آخرت کے دن پر اور اچھے عمل کئے تو ان کیلئے اجر ہے اور ان پر نہ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے”۔ (البقرہ آیت62)
یہ آیت اور اس طرح کی دوسری آیات اسلامی نظام کو دنیا میں غلبہ دلانے اور قابلِ قبول بنانے کیلئے بنیادی اہمیت رکھتی ہیں۔صائبین حضرت نوح کی امت ہندو ہیںجو مشرکین مکہ سے زیادہ گئے گزرے تھے جو خود کو دین ابراہیمی پر سمجھتے تھے۔
صحابہ کرام ، تابعیناور تبع تابعین میں تیسری صدی ہجری تک تقلید کی کوئی روایت نہیں تھی۔ چوتھی صدی ہجری میں تقلید ایک شرعی فریضہ بن گیا۔ حضرت شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید نے تقلید کو چوتھی صدی ہجری کی بدعت قرار دیا۔ ان کی کتاب کے اردو ترجمہ ”بدعت کی حقیقت” پر علامہ سید محمد یوسف بنوری نے تائیدی تقریظ لکھ دی ہے۔ شاہ اسماعیل شہید نے بدعت کی دوقسمیں اعتقادی بدعت اور عملی بدعت لکھیں کہ اعتقادی منافق کافر اور عملی منافق مسلمان ہے جس میں منافق کی علامات ہوں۔ حدیث میں مذمت اعتقادی بدعتی کی ہے۔ عملی بدعتی کی اس طرح مذمت نہیں اور تقلید عملی بدعت ہے۔
اکابر دیوبند نے شاہ اسماعیل شہید کی تائید کی لیکن جب مولانا احمد رضا خان بریلوی نے حرمین کے علماء کا فتویٰ لگوا دیا کہ ”یہ لوگ تقلید کو بدعت سمجھتے ہیں ” تو علماء دیوبند نے اس کو جھوٹ قرار دیتے ہوئے کتاب لکھ ڈالی کہ وہ حنفی مسلک کے مقلد اور چاروں مسالک کو برحق مانتے ہیں اور چاروں تصوف کے سلسلوں کو مانتے ہیں اور خود چشتی مشرب والے ہیں۔
تقلید کی ضرورت اسلئے پیش آئی کہ جب غسل وغیرہ کے فرائض میں اختلا ف ہوا تو پھر کسی ایک کی تقلید کرنی تھی۔ اجتہاد کی صلاحیت سے محروم طبقے پر تقلید فرض کردی گئی ۔ بریلوی عالم دین مولانا امجد علی نے اپنی کتاب ”بہار شریعت” میں لکھا ہے کہ ”یہ اجتہادی فرائض ہیں۔ دلیل کیساتھ اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن دلیل کے بغیر ان کو تسلیم نہ کرنا گمراہی ہے”۔ دلیل کے ساتھ ان فرائض کو ختم کرنے کا فرض کس نے ادا کرنا ہے؟۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی نے کہا کہ ” ہمارے پاس اتنا علم نہیں کہ یہ فیصلہ کرسکیں کہ کس کی بات درست اور کس کی غلط ہے۔ امام مہدی آئیں گے تو صائب رائے کو بتائیں گے ، ان کی بات حق ہوگی اور ان کے مخالف کی بات باطل ہوگی”۔ اہل تشیع بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ائمہ اہل بیت کی بات ٹھیک اور ان کے مخالفین کی بات غلط تھی۔ اہل تشیع اور مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی کی بات میں عقیدے کا اختلاف نہیں شخصیات کا اختلاف ہے لیکن دونوں میں زمینی حقائق کا بڑا فرق ہے۔
حقائق سے مفتی رفیع عثمانی کی بات درست ہے۔ مہدی کے دور میں دین اجنبی ہوگا اور مہدی اجنبیت کا پردہ اٹھائے گا جبکہ صحابہ کرام کے دور میں دین اجنبی نہیں تھا بلکہ اولی الامر کے امور کے اختلاف کا مسئلہ تھا۔ حضرت یوسف کو بھائیوں نے غائب کردیا تو یہ اعتقاد واقتدار کا نہیں بلکہ حسد کا مسئلہ تھا۔
اولی الامر سے قرآن میں اختلاف کی گنجائش ہے اور اولی الامر کی حیثیت سے نبی ۖ نے اپنے ساتھ اختلاف کا جواز رکھا تھا ،اللہ نے قرآن میں اس گنجائش کی تائید فرمائی ہے۔
ایک عورت نے نبی ۖ سے اپنے شوہر کے بارے میں مجادلہ کیا تو اللہ نے سورہ مجادلہ میں عورت کی تائید فرمائی۔ شیعہ نبیۖ سے اختلاف کی گنجائش کا اعتقاد رکھتے ہیںمگر حضرت علی کیلئے اس اختلاف کی گنجائش نہیں رکھتے اور یہ چھوٹی موٹی گمراہی نہیں بلکہ فقد ضل ضلالا بعیدًاہے۔ نبیۖ سے اختلاف کی قرآن نے گنجائش دی ہو اور حضرت علی سے شیعہ اختلاف کی گنجائش نہ رکھتے ہوں تو شیعہ کو دعوتِ فکر دیتے ہیں کہ اس پر وہ کیا زورِ خطابت اور داد تحسین اپنے گمراہ لوگوں سے حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں یا حق کی بات کہہ کر جوتے کھانے سے ڈرتے ہیں؟۔ یہ ان پر چھوڑدیتے ہیں۔
غزوہ بدر کے قیدیوں پر عمر و سعد نے مشورہ دیا کہ ہر ایک اپنے قریبی رشتہ دار کو تہہ تیغ کردے تو علی ، ابوبکر، عثمان اور دیگر کا مشورہ تھا کہ فدیہ لیکر چھوڑ دیا جائے۔ نبی ۖ نے اکثریت کی رائے پر فیصلہ کیا تواللہ نے فرمایا کہ ” نبی کیلئے مناسب نہیں کہ اسکے پاس قیدی ہوں یہاں تک کہ خوب خون بہادیتے اور تم دنیا چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے”۔ اس شیعہ خطیبوں کو اپنی عوام کے سامنے سانپ سونگھ جاتا ہے۔ اگر عمر کی جگہ علی نے مشورہ دیا ہوتا تو کتوں کی طرح لمبی لمبی زبانیں نکال کر صحابہ کرام کے خلاف بھونکنا شروع کرتے کہ تمہاری بات نبی ۖ نے مان لی تو اللہ نے مسترد کردیا۔ تم دنیا کے طلبار گار اور اللہ آخرت چاہتا ہے۔ جیب گرم ہونے کی توقع نہیں تو پھر آیات کی وضاحت بھی اپنے عوام کے سامنے نہیں کرتے ہیں۔
شیعہ افغانستان اور پاکستان میں مسلم اقلیت ہیں لیکن کچھ لوگ ان کو کافر بنانے کے پیچھے پڑگئے ۔ ان کی قتل و غارتگری پر ہمیں رحم آتا ہے لیکن فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے والے شیعہ خطیبوں کو ان مظلوموں پر کوئی رحم نہیں آتا ہے ،اسلئے تسلسل کیساتھ اہل سنت کے جذبات بھڑکاتے ہوئے اپنامفاد حاصل کرتے ہیں اور شیعوں کو قتل کروانے میں مدد دیتے ہیں۔
علامہ مجلسی کی کتاب ”بحار الانوار” کے حوالے سے ایک ویڈیو یوٹیوب پر دیکھی جس کا خلاصہ ہے کہ ” انگریز نے بحرین کا بادشاہ ایک متعصب ناصبی کو بنایا تھا جو اہل بیت اور شیعوں کا سخت دشمن تھا اور اس کا وزیر اس سے بھی زیادہ سخت دشمن تھا۔ ایک انار لایا گیا جس پر کلمہ اور ابوبکر وعمر اور عثمان خلیفہ رسول اللہ لکھا ہوا تھا۔ بادشاہ حیران ہوگیا اور وزیر نے کہا کہ شیعہ بڑے گمراہ ہیں ، یہ بھی نہیں مانیں گے۔ ان کا علاج یہ ہے کہ اس کا کوئی معقول جواب دیں ۔ یا پھر تین باتوں میں سے ایک پر عمل کا اختیار ہمیں دیں۔ 1: اپنا مسلک چھوڑ کر سنی بن جائیں۔ 2: کافر بن کر جزیہ دیں۔ 3: انکے مردوں کو قتل، عورتوں کو لونڈی بنائیں گے اور ان کے اموال غنیمت جان کر تقسیم کریں گے۔
جب شیعہ کے سامنے یہ تجاویز پیش کی گئیں تو انہوں نے چند دنوں کی مہلت مانگ لی۔ شیعوں نے نیک وتقویٰ داروں کو جمع کیا اور10افراد کا انتخاب کیا۔ ان میں سے پھر 3افراد چن لئے۔ پہلے ایک کو صحراء میں بھیجا کہ رات کو امام مہدی سے مدد طلب کرو۔ اس نے پوری رات عبادت اور آہ وزاری میں گزاردی مگرمایوس لوٹ آیا۔ پھر دوسرے نے بھی رات گزار دی مگر نتیجہ نہیں نکلا۔ پھر تیسرے نے امام کو اپنی مشکل میں پکارا تو امام نے جواب دیا اور کہا کہ بادشاہ سے کہو کہ وزیر کے گھر پر اس سوال کا جواب دیں گے۔ وزیر کے گھر میں فلاں کمرے کو دیکھو، وہاں اس جگہ چھپا ہوا ایک سانچہ مل جائے گا جو انار کو اس کے ابتدائی دنوں میں پہنایا جاتا ہے اور جب انار بڑا ہوتا ہے تو اس کی یہ شکل نکل آتی ہے۔ جب بادشاہ نے موقع دیا اور یہ راز کھل گیا تو اس نے شیعوں کا کلمہ پڑھ لیا اور شیعہ بن گیا۔
کوئٹہ میں ہزارہ برداری اور افغانستان وپاکستان میں آج بھی شیعہ حضرات کیلئے بڑے خطرات ہیں اور متفقہ لائحہ عمل کی سب کو ضرورت ہے۔ مختلف مواقع پر حضرت خضر کی بات سے بھی استفادہ لیا جاتا ہے۔ ہمارے کلاس فیلو مفتی منیر احمد اخون مفتی اعظم امریکہ نے بھی خضر سے چند سکے پانے کا ویڈیو میں ذکر کیا ہے اور مفتی زرولی خان سے بھی کوئی تذکرہ فرمایاہے۔
جب قرآن میں اللہ نے ایک شرعی مسئلے پر نبیۖ کے مقابلے میں ایک عورت کی تائید فرمائی ۔ قیدیوں سے فدیہ لینے پر نبیۖ اور صحابہ کی اکثریت کے مقابلے میں عمر و سعد کی تائید فرمائی تو کیا علی نبیۖ سے زیادہ تھے؟۔ حضرت ہارون نے بنی اسرائیل کو شرک کرتے دیکھ کر نہیں روکا تو حضرت موسیٰ نے ان کو سر اور داڑھی سے پکڑلیا کہ منع کیوں نہ کیا؟۔ حضرت ہارون نے عرض کیا کہ میری وجاہت نہیں کہ منع کرنے سے منع ہوتے۔ بلکہ یہ دوگروہ میں تقسیم ہوکر لڑنے لگ جاتے ۔ایک گروہ بات مان لیتا اور دوسرے کو بھی زبردستی سے منواتا۔ پھر آپ کہتے کہ بنی اسرائیل میں تفریق کیوں ڈالی ؟۔ حضرت موسیٰ نے شرک کو بڑی نافرمانی سمجھ لیا اور حضرت ہارون نے ان میں تفریق وانتشار کو شرک سے زیادہ بڑی برائی سمجھا تھا۔
امت مسلمہ کی بدقسمتی یہی ہے کہ ایک طرف شرک کا مسئلہ بنتا ہے تو دوسری طرف تفریق وانتشار کا۔ علامہ شہنشاہ حسین نقوی نے اپنے ساتھی کو شرک سے منع کیا لیکن اگر کوئی ایسا شخص یہی کام کرتا جس کی اتنی وجاہت نہ ہوتی تو انتشار پھیل جاتا۔ یہودی نے علی سے پوچھا کہ نبیۖ کے وصال کے بعد تمہارا خلافت پر جھگڑا ہوا؟۔ حضرت علی نے فرمایا کہ ”خلافت فروعی مسئلہ تھا، دریائے نیل سے پیر خشک نہ تھے تو تم نے حضرت موسیٰ کے ہوتے ہوئے سامری کے بچھڑے کواپنا معبود بنالیا”۔
شیعہ آپس کے مسائل خوش اسلوبی سے حل کرتے ہیں تو علی نے زیادہ خوش اسلوبی کیساتھ مسائل حل کئے تھے۔ امام بارگاہوں پر قبضے اور خطابت پر پیسے بٹورنے میں ایکدوسرے سے بغض و عناد رکھنے والے صحابہ کو اپنے او پر قیاس کرتے ہیں۔ حضرت علی کی اولادمیں بارہ ائمہ اہل بیت کو اقتدار ملے گا۔ پہلے بارہ ائمہ اہل بیت کسی درجے کسی سے کم نہ تھے۔ بنی فاطمہ کو اقتدار ملا تو حجراسود خانہ کعبہ سے اٹھالے گئے تھے۔ اگر ان بارہ افراد کو اقتدار ملتا تو بعض معاملات میں ان سے اختلاف کی گنجائش ہوتی اسلئے کہ قرآن میں رسول اللہۖ کے بھی واقعات ہیں۔ سورۂ مجادلہ کا واقعہ، قیدیوں پر فدیہ لینے کا واقعہ، ایک نابینا ابن مکتوم کی آمد پر چین بہ جبیں ہونے کا واقعہ، غزوہ احد میں سخت انتقام لینے کا واقعہ، کل کسی بات کا وعدہ کرنے پر انشاء اللہ نہ کہنے کا واقعہ۔ اس طرح حضرت علی اور ائمہ اہلبیت کے بھی واقعات ہوتے لیکن اقتدار کا موقع نہ ملا۔ جنت ملتی ہے تو بنی آدم کیلئے کوئی نہ کوئی واقعہ جنت سے نکلنے کا ذریعہ بنتا ہے اوریہ عبودیت کا تقاضہ ہے جو الٰہ نہیں اور نہ بن سکتے ہیں۔
اماں عائشہ صدیقہ پر بہتان لگا تو کم صحابہ نے قرآن کے مطابق کہا کہ ”یہ بہتان عظیم ہے”۔ حضرت علی کا کردار شیعہ نے اس پر واضح نہ کیا۔ کیا آیات کا انکار ہے؟۔ اتؤمنون ببعض الکتاب وتکفرون ببعض الکتاب ”کیا تم بعض کتاب کو مانتے ہواور بعض کو نہیں مانتے ہو؟”۔ اتلبسون الحق بالباطل وتکتمون الحق انتم تعلمون ”کیا تم حق کو باطل کیساتھ خلط ملط کرتے ہواور حق کو چھپاتے ہو اور تم جانتے بھی ہو”۔( القرآن)
حضرت عثمان کی شہادت کی جھوٹی خبر پر صلح حدیبیہ سے پہلے آیات نازل ہوئیں۔ نبیۖ نے بدلہ کیلئے بیعت لی، اس وقت لڑنا نہیں تھا بلکہ لڑنا اس وقت تھا جب حضرت عثمان کو باغیوں نے مسندِ خلافت پر شہید کردینا تھا۔ اس بیعت سے پیچھے ہٹنے کے لوازمات بھی اللہ نے بیان فرمائے۔ حضرت حسن و حسین نے دوازے پر پہرہ دیا اور سوتیلے بھائی محمد بن ابی ابکر نے گھر میں کود کر حضرت عثمان کو داڑھی سے پکڑا۔ پالا علی نے اور بیٹا ابوبکر کا تھا۔اس تضاد کا حل کس کے پاس ہے؟۔
ہارون کی داڑھی میںہاتھ ڈالنے پر موسیٰ کو تبرا ، گالی گلوچ اور سب وشتم کا نشانہ نہیں بناتے تو محمد بن ابی بکرکی تربیت پر حضرت علی پر بھی سب وشتم نہیں ہونا چاہیے تھا اور شیعہ خود بھی تشریح نہیں کرسکتے کہ یہ کیا ماجراء تھا کہ حضرت حسن وحسین نے پہرہ دیاتو سوتیلے بھائی نے کاروائی ڈالی تھی؟۔ جس طرح سگے اور سوتیلے بھائی بٹ گئے اسی طرح علی کے قریبی پرانے اور نئے ساتھیوں نے حضرت علی کے خلاف جنگ کا محاذ کھول دیا۔ خوارج پہلے شیعانِ علی تھے۔ امام حسن کے ساتھی ورشتہ داروں نے دھوکہ دیکر صلح پر مجبور کیا تو حضرت حسین کہاں تھے؟۔ تاریخ کی سچی جھوٹی باتوں کو اس طرح نہیں لیا جائے کہ قرآن وسنت اور مسلمانوں کا اجماعی معاملہ اور اجتماعی کردار ختم ہوجائے۔
مولانا اشرف علی تھانوی اور مولانا احمدرضا خان بریلوی نے لکھاکہ” اگر شوہر کہے کہ تجھے3طلاق تو3طلاقیں واقع ہوگئیں۔ دوگواہ نہ ہوں تب بھی بیوی حرام ہے۔ شوہر اپنی بات سے مکر جائے تب بھی بیوی حرام ہے لیکن اگرمکرگیا تو عورت کو2گواہ لانے پڑیں گے۔ اگر عورت کے پاس2گواہ نہ ہوئے تو بیوی اسکے نکاح میں رہے گی اور بیوی کو چاہیے کہ ہر قیمت پر خلع لے لیکن اگر شوہر خلع دینے پر راضی نہیں تو بیوی نکاح میں حرام کاری پر مجبور ہوگی اور مباشرت میں لذت نہیں اٹھائے ورنہ تو گناہگار ہوگی”۔ اس بکواس کا کون دفاع کرسکتا ہے؟۔ مجھے یقین ہے کہ بریلوی دیوبندی فقہ کی بنیاد اس سے دھڑام سے گر جائے گی اور وہ اس پر بہت خوش بھی ہوں گے۔ کیونکہ وہ اختلاف کی گنجائش اور غلطی کااصولی عقیدہ رکھتے ہیں۔
شیعہ کے نزدیک طہر میں طلاق کے صیغے ادا کرنے پر2گواہ بنانے ہونگے۔ پھر دوسرے طہر میں طلاق کے صیغے اور2گواہ بنانے ہونگے۔ پھر تیسرے طہر میں طلاق کے صیغے اور2گواہ بنانے ہونگے۔ پھر یہ طلاق ایسی ہوگی کہ اسکے بعد عورت پہلے شوہر کیلئے حلال نہیں ہوگی جب تک کہ وہ دوسرے سے نکاح نہ کرلے۔ بظاہر شیعہ کا مسئلہ فطرت ،اسلام اور انسانیت کے قریب لگتا ہے لیکن اگر مدلل انداز میں ثابت کیا جائے کہ انسانیت، اسلام اور فطرت کے یہ خلاف ہے تو شیعہ دلائل سمجھ کر مشکل سے اپنا مسلک چھوڑ نے کا اعلان کرینگے۔ کیونکہ تقلید کی روش نے اجتہادی غلطیو ں پر یقین کا سبق نہیں دیا اور انہوں نے اس کو اپنے عقیدے کیساتھ منسلک کردیا ہے۔
سورۂ طلاق کی پہلی آیت میں عدت کے مطابق تین مراحل میں عملی طلاق دینے کاحکم ہے۔ جہاں الفاظ اور صیغوں پر گواہ مقرر کرنے کی بات نہیں۔دوسری آیت میں عدت کی تکمیل پر معروف طریقے سے رجوع یا معروف طریقے سے الگ کرنے اور اپنے میں سے2عادل گواہ بنانے کا حکم ہے۔ شیعہ نے سنی کے مقابلے میں طلاق کا مسئلہ زیادہ سخت کیا لیکن اس کا قرآن وسنت سے کوئی تعلق نہیں ۔ کیونکہ قرآن میں فیصلہ کن مرحلے کے بعد بالکل آخر میں گواہوں کی بات ہے ۔شیعہ کے کسی امام معصوم کی طرف مسلک کی نسبت ہوئی تو ان کیلئے یہ اس سے انحراف اور قرآن وسنت وفطرت کی طرف آنے میں بڑی مشکل پیش آئے گی مگرپھر وہ آئیں گے ضرور،انشاء اللہ۔
حضرت عمر نے اکٹھی3طلاق پر رجوع نہ کرنے کا حکم اسلئے جاری کیا کہ جب بیوی راضی نہ ہو تو ایک طلاق کے بعد بھی رجوع نہیں ہوسکتا۔ قرآن میں سورۂ بقرہ کی آیت228اوردیگر آیات میں رجوع کیلئے صلح، معروف طریقہ اور باہمی رضامندی کی بار بار وضاحت ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ عورت راضی ہوتو عدت کے اندر، عدت کی تکمیل پر اور عدت کی تکمیل کے کافی عرصہ بعدبھی رجوع کی گنجائش کھلے الفاظ میں واضح ہے اور جب عورت راضی نہ ہو تو کسی طلاق کے بعد بھی اللہ نے کسی آیت میں بھی رجوع کی کوئی گنجائش نہیں ۔ قرآن کے فطری مؤقف کے مطابق حضرت عمر نے ٹھیک فیصلہ کیا تھا اور ائمہ اربعہ نے ٹھیک فتویٰ دیا تھا کہ عورت کی طرف سے صلح نہ ہونے کی شرط پر اکٹھی تین طلاق پر رجوع کی گنجائش نہیں۔
اجتہاد خلفاء راشدین میں اختلاف کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت علینے ”حرام ”کا لفظ کہنے پرتین طلاق کا فتویٰ دیا تھا اور حضرت عمر نے ایک طلاق کا ۔ قرآن کے منافی یہ لوگ اپنی طرف سے حلال وحرام کے فتوے کیسے دیتے؟۔ صحابہ کرام اور خاص طور پر خلفاء راشدین کی طرف اتنے بڑے اختلاف کی نسبت گمراہ کن ہے۔ حنفی مسلک کے مطابق ضعیف روایات کی بھی تطبیق ہونی چاہیے ، اس اختلاف میں تطبیق ہے۔ حضرت عمر سے فتویٰ پوچھا گیا تو بیوی رجوع کیلئے راضی تھی اسلئے قرآن کے مطابق رجوع کا فتویٰ دیااور حضرت علی نے دیکھا کہ بیوی رجوع کیلئے راضی نہیں تو قرآن کے مطابق فتویٰ دیا تھا۔
خلع اور طلاق میں عورت کے حقوق میں کمی وبیشی کا مسئلہ ہے اسلئے جب عورت طلاق کا دعویٰ کرے اور شوہر اس کا انکار کردے تو فیصلہ حلف اور گواہی پر ہوگا۔ عورت گواہ پیش کرے تو طلاق کے حقوق ملیں گے اور عورت کے پاس گواہ نہ ہوں اور شوہر حلف اٹھالے تو عورت کو خلع کے حقوق ملیں گے۔
اگر شوہر تین طلاق دے اور پھر عورت صلح کیلئے راضی نہ ہو اور ایک طلاق رجعی قرار دیا جائے تو یہ قرآن کی واضح آیات کے بالکل منافی اور خواتین کے حقوق پر بہت بڑا ڈاکا ہوگا اسلئے کہ اس نے اپنے شوہر سے جان چھڑانی ہے اور قرآن نے اسکو صلح نہ کرنے کا اختیار دیا ہوا ہے اور مولوی اس کو ایک طلاق رجعی کہہ کر عورت کے بالکل واضح حق کو غصب کررہاہے۔
دو مرتبہ طلاق رجعی کا حق بھی قرآن نے نہیں دیا ہے اسلئے کہ شوہر ایک طلاق کے بعد عدت کے آخر میں رجوع کرلے گا اور پھر طلاق کے بعد عدت کے آخر میں رجوع کرلے گااور پھر تیسری طلاق دے گا تو عورت کو تین عدتوں تک انتظار پر مجبور کرنے کا قانونی حق رکھے گا۔ اللہ نے عورت کو ایک عدت کا پابند بنایا ہے اور مولوی نے اپنے مذہب سے اس کو تین عدتوں پر مجبور کرنے کا شوہروں کو ناجائز حق دے رکھاہے۔ اگر اکٹھی تین طلاق کو ایک رجعی طلاق قرار دیا جائے تو اس سے نہ صرف عورت کے حقوق کی زبردستی حق تلفی ہوتی ہے بلکہ دوسرے بھی لامحدود اور ناقابل حل مسائل کے انبار کھڑے ہوجاتے ہیں۔
ہم نے اپنی کتابوں1:” ابر رحمت”۔2:”تین طلاق کی درست تعبیر”۔3:” تین طلاق سے رجوع کا خوشگوار حل ”۔4:”عورت کے حق” میں بہت تفصیل کیساتھ بہترین انداز میں یہ مسائل تشفی بخش طریقے سے سمجھائے ہیں اور اپنے ماہنامہ اخبار کے بہت مضامین میں بار بار امت مسلمہ کی جان ان غلط کہانیوں سے چھڑانے کی کوشش کی ہے جس کی تائید دیوبندی ، بریلوی اور اہلحدیث کے علاوہ شیعہ علماء نے بھی کی ہے۔
یہاں پر اہل تشیع اور اہل سنت کے اتحاد واتفاق اور وحدت کی غرض سے کچھ احادیث وروایات کا تذکرہ کردیتا ہوں اسلئے کہ کافی عرصہ سے اس موضوع پر دلائل نہیں دئیے ہیں جس کی وجہ سے اہل تشیع کے بعض علامہ صاحبان امت کو لڑارہے ہیں۔
اہل تشیع نے اپنی کتاب میں لکھا: ” یہ روایت مشہور ہے کہ وہ امت کیسے ہلاک ہوسکتی ہے جس کی ابتداء میں ،مَیں ہوں اور بیچ میں مہدی اور آخر میں عیسیٰ ”۔ قحطانی نے کہا ہے کہ ہم کلام کو اس بات پر محمول کرسکتے ہیں بایں طور پر کہ اس مہدی سے مراد مہدی عباسی مراد لیں نہ کہ اسے مہدی آخر زمان ” ۔ (الصراط السوی فی احوال المہدی ص357) مہدی عباسی کی وجہ سے یہ امت ہلاکت سے نہیں بچی تھی اسلئے کوئی ایسا فرد مراد لینا ہوگا جو امت کو ہلاکت سے بچانے کا ذریعہ ہو۔ امت کی ہلاکت جب درمیانہ زمانے سے شروع ہو تو اہل بیت کو نبیۖ نے کشتی نوح قرار دیا ہے۔ درمیانہ زمانے کے مہدی کا تعلق اہل بیت سے ہی ہوگا۔ علامہ طالب جوہری نے مشرق کے دجال کے مقابلے پر امام حسن کی اولاد سے سید گیلانی مراد لیا ہے تو عباسی مہدی سے سید گیلانی اہل تشیع کیلئے زیادہ قابل قبول ہونا چاہیے ۔درمیانہ زمانے کے امام مہدی کے مقابلے میں کج رو جماعت ہوگی۔
رسول اللہ ۖ نے فرمایا: خوشخبری سناؤ۔ خوشخبری سناؤ۔ میری امت کی مثال بارش کی طرح ہے یہ پتہ نہیں کہ آخری دور والے زیادہ کامیاب ہونگے یا پہلے دور والے؟۔ یا اس کی مثال ایک باغ کی طرح ہے کہ ایک سال اس کا پھل ایک جماعت والے کھائیں اور دوسرے سال اس کا پھل دوسری جماعت کے افراد کھائیں۔ شاید کہ آخری جماعت کی چوڑائی اور گہرائی زیادہ ہو ۔ اور حسن انتظام زیادہ اچھا ہو۔ پس وہ کیسے ہلاک ہوسکتی ہے جسکا اول میں ہوں، اسکا درمیان مہدی اور مسیح اسکا آخر ہے؟ لیکن درمیانہ زمانے میں ایک کج رو جماعت ہوگی وہ میرے طریقے پر نہیں اور مَیں اس کے طریقے پر نہیں ہوں۔ ( مشکوٰة باب ثواب ہذہ الامة ) مولانا فضل الرحمن نے خراسانی دجال کا لشکرTTPکو قرار دیا تھا ۔جسکے سرپرست تبلیغی جماعت والے تھے اوران کی روپ میں چھپ کاروائی بھی کرتے تھے۔
اہل تشیع نے لکھا ہے کہ ” جس روایت میں مہدی کے بعد چھ افراد اولاد حسن اور پانچ افراد اولاد حسین کا ذکر ہے کہ مہدی کے بعد وہ مالک زمین اور بادشاہ ہوں گے ۔ یہ غلط واہیات ہے اور احادیث صحیحہ کا مخالف ہے ۔ مہدی آخر میں آئیں گے اور عیسیٰ ان کی اقتداء کرینگے ۔ لہٰذا ان کے بعد کسی اور بادشاہ کا آنا خلاف فرض ہے”۔( الصراط السوی فی احوال المہدی357)
اگر درمیانہ زمانے کے مہدی کے بعد گیارہ افراد اہل بیت کی حکومت مان لی جائے جس پر امت کا اتفاق ہو تو پھر شیعہ سنی کیلئے ان کو اور اپنی مستند کتابوں کو قبول کرنا کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔
اصل بات یہ ہے کہ قرآن کے واضح احکام سے علم حاصل ہوتا ہے اور علم گمراہی اور ہٹ دھرمی سے بچنے کا زبردست ذریعہ ہے اور شیعہ سنی، بریلوی دیوبندی ، حنفی اہل حدیث پہلے اس کی طرف توجہ کریں اور معاشرے کو اس جہالت سے نکالنے میں اپنا بہترین کردار ادا کریں تو طالوت کی طرح اقتداربھی مل جائیگا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv
اخبار نوشتہ دیوار کراچی۔ خصوصی شمارہ مئی 2022

پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ دو سال پہلے تک فوج نے سیاسی کھیل کھیلا

پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ دو سال پہلے تک فوج نے سیاسی کھیل کھیلا

نوازشریف ، زرداری، مولانافضل الرحمن کے الزامات کے بعد اب عمران خان کے سخت ترین الزامات میر جعفر،میرصادق کا بھی سامنا ہے

جنرل قمر جاوید باجوہ سے گزارش ہے کہ فوج کی باہمی مشاورت سے اپنے وقت سے پہلے استعفیٰ پیش کریںاور پہلے تین سینئرموسٹ میں کسی کو آرمی چیف بنانے کا اعلان کردیں۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

فوجی ترجمان نے کہاکہ دوسال پہلے تک74سالوںسے سیاسی مداخلت کی۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع اشتراک عمل کا نتیجہ تھا ۔جسکی ذمہ دار تحریک انصاف، مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی سمیت تمام وہ جماعتیں ہیں جنہوں نے دُم اٹھاکر ابن الوقتی کا مظاہرہ کیا اور خاص قانون بھی دوتہائی اکثریت سے پاس کردیا جس سے سابقہ شرمناک مداخلت کی توثیق بھی کردی۔ اوریہ ثابت کیا کہ وہGHQکے گیٹ نمبر4کی پیداوار یا لے پالک ہیں۔ اس قانون کی وجہ سے آئندہ کیلئے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع اور سیاست میں مجرمانہ مداخلت کا راستہ کھول دیا گیا۔ جس کی وجہ سے پاک فوج کو بھاری نقصان اٹھانے اور افراتفری کا شکار کرنے کی راہ پر ڈالا گیا ہے۔
عوام کے دل میں یہ بات اُترچکی ہے کہ فوج نے اپنا اندرونی جھگڑا انجام کو پہنچانے کیلئے سیاسی میدان میں کٹھ پتلی سیاستدانوں کو استعمال کیا ۔ اصل مسئلہ آرمی چیف کے ریٹائرمنٹ اورنئے چیف کی تعیناتی کا ہی تھا۔ ن لیگ نے چوہدری پرویز الٰہی کو پنجاب میں وزیراعلیٰ اسلئے قبول کیا کہ عمران خان کوئی اپنا آرمی چیف نامزد نہ کردیں۔ ورنہ تو شہبازشریف کو مریم نواز وزیراعظم کے طور پر دیکھنا نہیں چاہتی تھی اور نوازشریف کی چابی مریم نواز کے ہاتھوں میں ہے۔ ن لیگ عثمان بزدارکی کارگردگی اور فرح خان گوگی کے کرتوت سے واقف تھی لیکن مریم نواز کہتی تھی کہ عمران خان کو سیاسی شہید نہیں بننے دیں گے۔ اسی لئے مولانا فضل الرحمن نے پرویز الٰہی کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا جس پر چوہدری برادران کو حیرانگی ہوئی تھی اور پیپلزپارٹی اور اے این پی کوPDMسے دھکا د کر باہر کیا گیا تھا۔ پہلی فرصت میں آرمی چیف کی مدت توسیع کا قانون ختم کیا جائے اور جنرل قمر جاوید باجوہ استعفیٰ دیکر تین سینئر موسٹ میں سے ایک کا اعلان کردیں۔ جب منصور کو پتھر مارے جارہے تھے تو اس کو کوئی تکلیف نہیں تھی لیکن حضرت شبلی کے پھول مارنے پرتکلیف سے چیخنے چلانے لگے۔ عمران خان کو یوٹرن لینے میں دیر نہیں لگتی ہے اسلئے احمد فراز کے فرزند شبلی فراز کے پھول مارنے سے پاک فوج کی طرف سے ردعمل میں چلا اٹھنے کا کہوںگا۔ وزیرستانی پشتو کی کہاوت ہے کہ ”فقیر نے کہا کہ تمہاری خیرات سے میری توبہ لیکن اپنے کتوں کو روک لینا”۔ فوج کو اپنے پالتوکتوں کو قابو کرنے کی ضرورت ہے لیکن ان پر قابو پایا گیا توبھی بقول حبیب جالب کے اب عوام میںاپنا اعتماد کھورہے ہیں۔بقیہ صفحہ3نمبر1

بقیہ … پاک فوج اور سیاست کا کھیل
کتا باؤلا ہو توذمہ دار مالک ہے۔74سالوں میںپہلے اصل قصوروار سیاسی قائدین تھے۔ پہلے6وزیراعظم اور گورنر جنرل سے صدر بننے تک جمہوریت نہیں تھی قائداعظم ، قائد ملت لیاقت علی ،محمد علی بوگرہ، چوہدری محمد علی، خواجہ نظام الدین ،حسین سہروردی ، فیروز خان نون اورصدر سکندرمرزا میں سے کوئی بھی عوام کا منتخب گورنرجنرل،صدراور وزیراعظم نہیںتھا؟۔
مہاتما گاندھی تقسیم ہند کے مخالف تھے۔ انگریزکی عبوری حکومت نے تقسیم ہند کا فیصلہ کرلیا جس کے وزیراعظم نہرواور وزیرخزانہ لیاقت علی خان تھے۔ کانگریس نے گاندھی کو کھڈے لائن لگا دیا تھا۔ مہاتما گاندھی نے فسادات کو روکنے کیلئے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا،لاہور میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ” میں باقی زندگی پاکستان میں گزاروں گا۔ اگر پاکستان نے اقلیتوں کو حقوق دئیے تو میں پاکستان کے جھنڈے کو سلیوٹ کروں گا۔ اگر اقلیتوں کو حق نہیں دیا تو سلیوٹ نہیں کروں گا۔ بنگال ، لاہور یا(سرحد)پختونخواہ میں رہوں گا”۔ جب کلکتہ میں فسادات ہوگئے۔ ہندوؤں نے تشدد شروع کیا تو حسین شہید سہروردی کی سرکاری رہائشگاہ کلکتہ حیدر آباد ہاؤس میں قیام کیا ۔ جس پر ہندؤوں نے گاندھی کا گھیراؤ کیا اور قتل کی دھمکی دی کہ تم بہار جاؤ،جہاں ہندؤوں کو مسلمان قتل کررہے ہیں، ہمیں تمہاری ضرورت نہیں۔ گاندھی نے کہا کہ قتل کرنا چاہتے ہو تو کرڈالو لیکن میں اپنے مشن سے نہیں ہٹوں گا۔ پھر گاندھی نے بھوک ہڑتال کی تو ہندؤوں سے مذاکرات کامیاب ہوگئے۔
ہندوستان کے اب توسیع پسندانہ عزائم ہوتے تو بنگلہ دیش پر قبضہ کرتا۔ قائداعظم کو گورنرجنرل نامزد کیا۔ ہندوستان نے تجربہ کار انگریز کو نامزد کیا۔ پاک فوج کی کمان پہلے دو انگریز آرمی چیف کے ہاتھ میں تھی۔ جنرل ایوب خان نے جمہوری نظام ختم نہیں کیا بلکہ میر جعفر کے پڑپوتے سکندر مرزا نے گورنر جنرل کا آئینی عہدہ ختم کرکے صدر کامنصب سنبھال لیاتو تین سالہ مدت میں5وزیراعظم فارغ کردئیے۔ نوابزداہ لیاقت علی خان کا تعلق بھوپال ہند سے تھا اور محمد علی بوگرہ، چوہدری محمد علی، خواجہ نظام الدین اور حسین سہروردی شہید کا تعلق بنگال سے تھا اور فیروز خان نون کا تعلق پنجاب سے تھا۔ جس نے گوادر کو کروڑوں ڈالرو ں سے عمان مسقط سے خرید لیا تھا۔
ڈیرہ بگٹی اور چولستان میں پیاس سے لوگ موت کا شکار ہوتے ہیں تو حکومت وریاست کے مقتدر طبقے پر لعنت کرنے کو جی چاہتاہے جو ایران سے تیل سمگلنگ کرکے ملک کے کونے کونے تک پہنچاسکتے ہیں لیکن ان لوگوں کو پانی کے چند بور نکال کر نہیں دے سکتے ۔ دوسری طرف تعلیمی اداروں کی سخت نگرانی کرنے پر احتجاج کرنیوالے چین کی مہمان خواتین اساتذہ کی بے گناہ موت پر ریلی نکالتے تو چینی اساتذہ واپس نہ جاتے۔ مہمان، خواتین اور اساتذہ پر خود کش بلوچ روایت کے منافی تھا لیکن ہمارا حکمران صرف اسلئے تگڑے بنتے ہیںکہ کوئٹہ کو گوادر سی پیک کے مغربی روٹ سے محروم کرکے تخت لاہور کو نوازے اور بس۔ مریم نواز کو اقتدار کیلئے فوج کیخلاف بکنااور دباؤ ڈالنا ہو تو بلوچی لباس پہن کر مسنگ پرسن کے لواحقین کے سامنے مگر مچھ کے آنسو بہائے۔ ساہیوال میں سی پیک سے پاور پلانٹ لگائے لیکن گوادر کی بجلی ایران سے سپلائی ہوتی ہو۔
توہین عدالت ،توہین ریاست اور توہین فوج کی راہداری پر اب اونٹ کس کروٹ پر بیٹھے گا لیکن دشمن سمجھے جانے والوں سے زیادہ پاک فوج سے دوستی کا وعدہ نبھانے والوں نے کام دکھا دیا ہے۔ جب کھلاڑی عمران خان نے امریکہ ، ہندوستان اور ایران تک اورARYنیوز چینل سے عام میڈیا تک پاک فوج کے خلاف ہر محاذ پر کھل کر بات کی اور پھر اقتدار میں آکر ایک پیج کا خوب ڈرامہ رچایا تو عوام کے دل و دماغ میں یہ بات راسخ ہوگئی کہ نوازشریف واقعی جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کے ظلم وستم کا شکار ہیں۔ حالانکہ وہ اپنے نامہ اعمال کی سزا بھگت رہے تھے۔ لندن ایون فیلڈ کے فلیٹ کب اور کس طرح خریدے تھے ،اس کا سارا ریکارڈ عوامی اور سرکاری سطح پر میڈیا میں موجود تھا۔ اگر پاک فوج اس کو ذبح کردیتی تب بھی اس کو پارلیمنٹ میں تحریری وضاحت اور قطری خط کا وہ ڈرامہ نہیں کرنا چاہیے تھا جو اس نے اپنی کم عقلی سے کیا تھا۔
عدالتوں نے سب چیزوں کو فراموش کرکے اقامہ پر سزا دیکر اتنی رعایت کی کہ ججوں کی بدنامی اور بے انصافی کیلئے یہی کردار کافی ہے اور جب اس میں بھی پاک فوج کی پشت پناہی کے باوجود یہ سزا دی گئی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان عدالتوں سے انصاف کی نہیں ظالموں کو تحفظ دینے کی توقع ہی رکھی جاسکتی ہے۔ ہمارے معزز جج اور جرنیل واقعی عزت کے بہت قابل ہیں اور الو کے پٹھے تو غریب عوام ہی ہیں لیکن اپنے نظام کو نہیں بدلا گیا تو عوام کے ہاتھوں بہت برا ہوسکتاہے۔
وزیرستان میں انتہائی معزز رائل قبیلے کا ایک پاگل تھا۔ اس نے اپنے بھائی اور اسکے دوستوں کے سامنے کہا تھا کہ ” اگر میری ماں کرنا چاہے تو کرسکتی ہے”۔ بار بار جملہ دوہرایا تو اس کا بھائی شرم سے پانی پانی تھا اور دوست بھی سکتے میں آگئے تھے کہ یہ اپنی ماں کے بارے میں کیا بکواس کررہاہے۔ آخر میں پاگل کے بھائی نے کہا کہ ” تمہاری ماں بہت بوڑھی ہے ،اب کچھ نہیں کرسکتی ہے”۔ تو پاگل نے کہا کہ ” میرا مقصد برتن دھونا وغیرہ تھا”۔ تو حاضرین مجلس کی سانس میں سانس آئی۔
میرا مقصد یہ ہرگز نہیں کہ مارشل لاء لگایا جائے لیکن اگر وہ چاہے تو وسیع البنیاد قومی حکومت کیلئے لاڈلوں کو راضی کرے۔ اخترمینگل، ایاز لطیف پلیجو، محمود خان اچکزئی سے لیکر اپنے لاڈلوں تک سب کو ملا بٹھاکرمشاورت سے اس ملک کو بچانا ہوگا۔ پاک فوج اہم کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
میں چیچہ وطنی ضلع ساہیوال کے گورنمنٹ ہائی اسکول میں ساتویں جماعت کا طالب علم تھا اور وہاں پر ایک تقریری مقابلہ ”عقل وڈی کہ منجھ” ہوا تھا۔ عقل اور منجھ (بھینس) کی بڑی ہونے کی وکالت کرنے والے مقررین کے درمیان مقابلے میں ججوں نے پہلا انعام ”منجھ وڈی”والے کو دیا۔ جس نے کہا تھا ”1965کی جنگ میں بھینس کے دودھ نے یہ جذبہ دیا کہ بھارت کے ٹینکوں کے نیچے جسموں پر بم باندھ کرہم لیٹے اور ملک کا دفاع کیا۔ عقل قربانی نہ دیتی”۔ تباہ حال ملک کا جذباتی طبقہ بھی عقل والوں کو فیصلہ بدلنے پر مجبور کررہا ہے اور ملک کے ایک مخصوص طبقے کی خوشحالی کے علاوہ کچھ نہیں سوچا جاتا ہے۔
عمران خان اور فوج ایک پیج پر تھے اور عدالتوں سے بھی خوش تھے ۔ نوازشریف کی اسلامی جمہوری حکومت کو1990ء میں لایا گیا اور1992ء میں کرپشن پر ختم کیا گیا۔16سال بعدISIسے پیسہ لینے کے کیس پر فیصلہ ہوا۔ اور1994ء میں لندن فلیٹ کے حوالے سے سرکاری دستاویز سے کرپشن ثابت کی گئی ۔ رحمن ملک ایف آئی اے نے کارنامہ انجام دیا اور پھر پیپلزپارٹی کی حکومت کے خاتمے کے بعد سیف الرحمن نے بھی سرے محل اور سوئیس اکاؤنٹ دریافت کئے ۔ پرویز مشرف کیساتھ نوازشریف کی جلاوطنی کا معاہدہ ہوا اور پھر جب پیپلزپارٹی اقتدار میں آئی تو صدر زرداری کو آئین میں استثنیٰ مل گیالیکن وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو آئین اور عدالت میں سے عدالت کے حکم کو نہ ماننے پر نااہل قرار دیا گیا۔ جب نواز شریف کی حکومت آئی تو لندن کے ایون فیلڈ فلیٹ کا معاملہ اٹھ گیا اور نوازشریف نے پارلیمنٹ میں بیان دیا کہ2005ء کو سعودیہ کی وسیع اور دوبئی کے مل بیچ کر2006ء میں خریدے۔ الحمد للہ میرے پاس اللہ کے فضل وکرم سے تمام دستاویزموجود ہیں جو عدالت کے سامنے پیش کرسکتا ہوں۔ عدالت نے بلایا تو قطری خط لکھ دیا اور پھر قطری خط سے بھی مکر گیا۔ پھر حقائق کو چھوڑ کر عدالت نے اقامہ پر سزا دیدی تھی۔ جس پر مجھے کیوں نکالا اور ججوں کے بچوں تک کو مارنے کی دھمکیاں دی گئیں۔
عمران خان نے جذباتی شور ڈالاتو نتیجہ نکلا کہFIAکےDGاور ذمہ دار افسران کو ہٹانے کا عدالت نے ازخود نوٹس لیا۔ ڈاکٹر رضوان کی موت پر سوالات اٹھائے گئے اور حامد میر نے کہا کہ جوتے میں کوئی چیز رکھ دی جاتی ہے جسکے کچھ دیر کے بعد بلڈ پریشرہائی ہو جاتا ہے اور بندہ طبعی موت مرتا ہے۔ سیٹھ وقار اور دیگر کچھ افراد کو مروانے کے دعویدار اب تمام کیسوں کا جائزہ لیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔
پارلیمنٹ نے بڑے چوروں کو پکڑنے اور طاقتور اداروں کے غلط معاملات پر گرفت کیلئے کبھی قانون سازی نہیں کی ہے ، جس کی وجہ سے ریاست کا اپنے آپ سے بھی اعتماد اٹھ گیا ہے اور اب فوج، عدالت اور سیاسی اشرافیہ حیران ہے کہ کیا کرے اور کیا نہیں کرے؟۔ عوام کے اندر افراتفری کی فضاء سے زیادہ نقصان عوام ہی کو پہنچے گا لیکن بچے گا کوئی بھی نہیں ۔ اللہ معاف کرے۔ معاملات نااہلوں نے بہت خراب کردئیے ہیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv
اخبار نوشتہ دیوار کراچی۔ خصوصی شمارہ مئی 2022

پاکستان میں مخدوش سیاسی صورتحال کا تجزیہ اور اس کے حل کیلئے کچھ بنیادی تجاویز

پاکستان میں مخدوش سیاسی صورتحال کا تجزیہ اور اس کے حل کیلئے کچھ بنیادی تجاویز

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ ” فساد ظاہر ہوگیا بحروبر میں بسبب اس کے جو لوگوں نے اپنے ہاتھوں سے کمایا ہے”۔ سورہ ٔ نور میں اللہ تعالیٰ نے افواہ کی بہت سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ جب صحابہ کرام اور نبی رحمتۖ کے دور میں ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ کے خلاف بہتان کی افواہ اُڑی تھی تو اللہ نے اچھے اچھے عقلمندوں اور نیکوکاروں کو تنبیہ فرمائی کہ اگر تم یہ کہتے کہ یہ بہتان عظیم ہے۔ سوشل میڈیا پر خواتین اینکر، سیاستدانوں کی بیٹیوں اور عورتوں کے خلاف کیا سے کیا بیہودہ بہتان طرازیاں نہیں ہورہی ہیں لیکن ہماری ریاستی مشنری کبھی میدان میں نہیں اتری ہے اسلئے کہ وہ پاک فوج زندہ باد کا نعرہ بھی لگا دیتے ہیں۔ اگر ان پر بروقت گرفت کی جاتی تو آج پاک فوج کے خلاف بھی یہ افواہیں پھیلانے کا سلسلہ کامیاب نہیں ہوسکتا تھا۔ اگر یہ قانون بنایا جاتا کہ سورۂ نور کے مطابق غریب وامیر اور طاقتور اور کمزور کیلئے ایک قانون ہے تو بھی یہ بد سے بدترین سلسلہ رُک سکتا تھا۔ آج بھی اگر پارلیمنٹ میں برابری کا قانون لایا جائے تو پارلیمنٹ کے نظام کو لاحق خطرات ٹل سکتے ہیں۔ ریاست مدینہ کے نام پر اقتدار کرنے والے عمران خان اس قانون کو لاتا تو لوگ تبدیلی سرکار کو سلام پیش کرتے۔مولانا فضل الرحمن حکومت کے روح رواں ہیں۔ مذہبی امور کے وزیرمفتی عبدالشکور بیٹنی قرآن وسنت کا واضح خاکہ پارلیمنٹ میں پیش کریںگے تو کام بنے گا۔ جمہوری انداز میں مشاورت کا بہترین موقع ملتا ہے۔ قرآن کے ہتک عزت کے قانون کی حمایت پارلیمنٹ، اشرافیہ، جرنیلوں ، ججوں اور تمام عوام کی طرف سے ہوگی اور یہ جمود کو توڑنے میں ہوا کاپہلا جھونکا ہوگا۔
کسی کی عزت اربوں میں اور کسی کی عزت اتنی بھی نہ ہو کہ وہ عدالت میں وکیل کی فیس کا خرچہ ادا کرنے کے قابل ہو۔ امیر کیلئے10کروڑبھی کوئی سزا نہیں اور غریب کیلئے10لاکھ بھی بڑی سزا ہے لیکن80،80کوڑوں کی سزا سب کیلئے برابر ہے۔ انگریز نے نوابوں ،پیروں، خانوں کو جائیدادیںدی تھیں اور کانگریس کے منشور میں یہ بات شامل تھی کہ بحق سرکار سب زمینیں ضبط کی جائیں گی لیکن مسلم لیگ کو خانوں، نوابوں اور پیروں نے اپنے باطل مقاصد جائیداد کو ضبط ہونے سے بچانے کیلئے سپورٹ کیا تھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے کہا تھا کہ ”ہندوستان میں مسلمانوں کی خیر نہ ہوگی اور پاکستان میں اسلام کی خیر نہ ہوگی ” اور ان کی بات بالکل سچ ثابت ہوئی ہے۔ اسلام کا پہلے بھی بہت کباڑہ کیا گیا اور اسلام کی نشاة ثانیہ والوں کو حکومت، عوام اور خواص نے سپورٹ نہیں کیا تھا ۔
نبی ۖ کے زمانے میں یہود ونصاریٰ کے علماء ومفتیان کی اجارہ داری تھی۔ انہوں نے اپنے احبار ورھبان کو اللہ کے علاوہ اپنا ارباب بنالیا تھا۔ اہل کتاب کے مذہبی طبقات نے دین میں تحریف کر ڈالی تھی اور عوام ان کے حلال وحرام کو حلال وحرام سمجھتے تھے اور یہی ارباب بنانا تھا۔ اللہ نے نبیۖ سے فرمایا تھا کہ لن ترضی عنک الیہود والنصاریٰ حتی تتبع ملتھم ”یہود ونصاریٰ آپ(ۖ)سے کبھی راضی نہیں ہونگے یہاں تک آپ ان کی ملت کے تابع نہ بن جائیں”۔ دینِ خالص کے مقابلے میں تحریف شدہ دین کو یہودونصاریٰ کے مذہبی طبقات بھی قائم رکھنا چاہتے تھے۔ فارس وروم دو بڑی سپر طاقتیں تھیں اور مسلمانوں کی ہمدردیاں فارس کے مقابلے میں روم سے تھیں اسلئے کہ آگ کی پوجا کرنے والے ایرانیوں کے مقابلے میں روم کے اہل کتاب عیسائی زیادہ مسلمانوں کے قریب تھے۔ خلافت راشدہ نے دونوں سپر طاقتوں کو شکست دی اور ایرانی سب مسلمان ہوگئے لیکن اٹلی سے اسپین تک مسلمانوں کی حکومت قائم ہونے کے باوجود گورے عیسائی من حیث القوم مسلمان نہیں ہوئے تھے۔
ہندوستان کی قوم حضرت نوح علیہ السلام کے امتی تھے۔ اہل کتاب و شرک کے درمیان کھڑے ہندوستانیوں میں کافی تعداد میں لوگ مسلمان ہوگئے لیکن پھر بھی بڑی تعداد نے اسلام قبول نہیں کیا کیونکہ ان پر بھی اہل کتاب کے کچھ نہ کچھ اثرات تھے۔ اسلام کی نشاة ثانیہ کے دور میں تمام ہندو وسکھ قوم نے اسلام کو قبول کرنا ہے۔ اسلام کی بگڑی ہوئی شکل کی وجہ سے گرونانک نے ہندو و مسلمان کے درمیان ایک تیسرے مذہب کی بنیاد رکھ دی تھی۔ اگر اسلام کی صحیح شکل پیش کی جائے تو ہندوستان پورے کا پورا ہندوانہ رسم ورواج کو چھوڑ کر مسلمان بنے گا اور اس کی خوشخبری ہندؤوں کی اپنی کتابوں میں موجود ہے۔
ڈاکٹر شہناز خان اپنے ٹوئیٹر اکاؤنٹ پر لکھتی ہیں کہ ”حکومت مہنگائی کے جن پر قابو پانے کی کوشش کررہی ہے لیکن اس جن کو قابو کرنے کیلئے پہلے کچھ اور جنوں کو جنہوں نے 70سال سے عوام کو مختلف طریقوں سے قابو کیا ہے بند کرنا پڑے گا۔ لیکن کسی میں ہمت ہے کہ یہ بات بھی کرے۔ یہ وہی کرسکتا ہے جس کا ان جنوں سے کوئی رشتہ نہ ہو”۔ سوشلسٹ پاکستان کے فیس بک اکاؤنٹ پر لکھا ہے کہ ”شخصیت پرست قوموں کا زوال ان میں عدم برداشت کے عروج پر پہنچنے سے ہوتا ہے”۔ مزید لکھا ہے کہ ”فسادی ایجنڈہ ؟ عوام کو جذبانی بناؤ ، حقیقی مسائل سے انکی توجہ ہٹاؤ ، انہیں تعمیری کے بجائے تخریبی سرگرمیوں میں الجھاؤ”۔ مزید لکھتے ہیں ”ہر وہ شخص بوڑھا ہوچکا ہے جس کے پاس زندگی کا کوئی مقصد نہیں اس کی عمر چاہے20سال ہے اور چاہے70اور80۔ لیکن جس کے پاس مقصد موجود ہے وہ جوان ہے اگر مقصد بڑا ہو تو جوانی بھی اتنی تروتازہ ہوگی”۔ پاکستان انقلابی پارٹی۔ مزید لکھتے ہیں ”اگر فسادی نے 4سالہ دورِ حکومت میں فساد کے بجائے درخت ہی لگائے ہوتے تو اس سال گرمیوں نے یوں شعلے نہ بھڑکائے ہوتے”۔ شفیق خنباطی نے فیس بک پر لکھا ہے ”میں نے پوچھا سنی ہو یا شیعہ؟ ۔ بھیانک ترین جواب ملا ، صاحب بھوکا ہوں۔ اگر آپ کا پڑوسی دیوبندی ، بریلوی، اہل حدیث، شیعہ یا کچھ اور ہے تو اس کا حساب وہ خود دے گا لیکن اگر وہ بھوکا مرگیا تو حساب آپ کو دینا ہوگا”۔ ”واجب القتل” کے عنوان سے فیاض صالح حسین لکھتے ہیں کہ ”دیکھو اس کند ذہن دنیا میں آنکھوں پر پٹی باندھ لو اور کولہو کے بیل کی مانند بس ایک ہی دائرے میں چلتے رہو کیونکہ تم اگر سوچو گے تو صاحب عقل ہوجاؤ گے اور واجب القتل ہوجاؤ گے”۔ فوجی وردی میں ملبوس خاتون کی تصویر کے ساتھ لکھا ہے ”اگر بلوچ ماؤں بیٹیوں نے بلوچ جہد آزادی کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھالی تو بلوچ سرزمینوں پر دشمنوں کے نشان تک ڈھونڈنے سے نہیں ملیں گے”۔ فدائی شاری بلوچ۔
فیصل آباد کے علامہ حامد رضا کی تقریر ہے کہ ”فوج ہمیں بتاتی رہی کہ رانا ثناء اللہ بیشمار لوگوں کا قاتل ہے تو آج اس کو قوم پر مسلط کردیا ہے۔ سیکورٹی ایجنسی کے اہلکار ہمیں یہ بتاتے تھے کہ ماڈل ٹاؤن میں رانا ثناء اللہ نے شہباز شریف کے کہنے پر14بندوں کو شہید کیا ہے۔ داتا دربار اور دیگر بم دھماکوں میں جو بینڈ آرگنائزیشن ہیں اس کا پروموٹر رانا ثناء اللہ ہے۔ آپ ہمیں یہ بھی بتاتے تھے کہ کوئٹہ میں بم دھماکوں میں ملوث کونسے لوگ افغان انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور ہمیں ڈاکو منٹس دیتے ہیں۔ میرے والد پرویز مشرف کے خلاف اور نواز شریف کے حامی تھے تو نواز شریف نے حرم کے سامنے بیٹھ کر قرآن کا حلف لیا کہ میں نے کوئی ایگریمنٹ نہیں کیا ہے۔ مجھے وہ ایگریمنٹ آپ نے دے دیا۔ توپھر میرا یہ سوال نہیں بنتا کہ جن لشکرنواز لوگوں کیخلاف جن طالبان کے حامیوں کیخلاف، جن کالعدم تنظیموں کے سرپرستوں کے خلاف ، جن ریاست دشمن عناصر کیخلاف ہمیں ثبوت دئیے گئے آج ان کو ہم پر مسلط کیا گیا ہے۔ آپ ہمیں یہ بتاتے رہے کہ یہ پاکستان کے غدار ہیں۔ اگر یہ پاکستان آگئے تو مودی کا ایجنڈا لیکر آئیں گے۔ تو آج جب وہ یہاں پر آگئے ہیں تو آپ ان کو سیلوٹ کس منہ سے کررہے ہیں؟۔ پھر اس کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان کے اندر غیر ملکی طاقتوں اور سامراج کا ایجنٹ بن کر آپ اپنی عزت بھی کرواسکتے ہیں آپ ایوان اقتدار میں بھی پہنچ سکتے ہیں………۔
جنرلز آف پاکستان آرمی کے فیس بک اکاؤنٹ پر لکھا ہے کہ
وردی میں بہتا خون ہی ہے
اس وردی میں پشتون بھی ہے
ہے قوم و ملک کی رکھوالی
وردی میں جوش و جنون بھی ہے
اقبال کا شاہیں وردی میں
سر سید کا مضمون بھی ہے
پنجابی ، سندھی، بلوچی جواں
اس وردی میں مدفون بھی ہے
اس وردی کو گالی نہ دو
اس پر شہداء کا خون بھی ہے
وائس آف امریکہ کی ویب سائٹ پر اسلام آباد میں دھرنے والے افغان مہاجرین کا احتجاج ”ہمیں ماردو ” جاری ہے۔ عبد الستار ایدھی نے کہا تھا کہ حمید گل اور عمران خان میرے پاس آئے تھے اور میرے کندھے پر بینظیر بھٹو کی حکومت گرانا چاہتے تھے جس کا میں نے انکار کیا اور لندن راتوں رات منتقل ہوگیا تھا۔ سوشل میڈیا پر ”انصاف اور اُصول کی جنگ لڑنے والی اُم رباب کے قصے اور عزائم کا اظہار ہے”۔ فضل اکبر نے فیسبک اکاؤنٹ پر ”اپیل ” کے نام سے لکھا ہے کہ ”اگرIMFسے قرض لینا مجبوری ہے اور ملکی مفاد میں ہے تو ضرور لیں لیکن کیوں نہ اس بار اس قرض کا بوجھ عوام پر نئے ٹیکس لگانے کے بجائے یہ کیا جائے کہ چاروں صوبائی اسمبلیوں کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی و سینٹ کے تمام ممبران اور صوبائی و وفاقی وزراء اور وزیر اعظم و صدر ، آرمی چیف اور تمام جج صاحبان اور تمام افسر شاہی سے سوائے اپنی تنخواہ کے علاوہ تمام تر مراعات واپس لے لی جائیں۔ ان کا ہاؤس رینٹ ، بجلی و گیس بل ، ڈیزل و پٹرول خرچ ، ماہانہ لاکھوں الاؤنس اور ریفریشمنٹ خرچ ، گاڑیاں، پروٹوکول، سب کچھ اپنی جیب سے برداشت کریں۔ پھر دیکھتے ہیں مہنگائی کم ہوتی ہے یا بڑھتی ہے۔ ملکی خسارہ کم ہوتا ہے یا بڑھتا ہے۔ ملک پر قرض کا بوجھ کب تک رہتا ہے؟؟؟؟ ”۔
ماہنامہ نوشتہ دیوار کے پبلشر اشرف میمن نے کہا کہ جب تنگی کا زمانہ آتا ہے تو سب سے پہلے ہم اپنے اضافی خرچوں کو چھوڑ دیتے ہیں اور دال روٹی پر گزارہ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اگر ملک میں بڑے بڑے خرچوں کو چھوڑ کر چند سال فیصلہ کرلیں کہ اپنی ضروریات سے زیادہ عوامی اور حکومتی سطح پر خرچوں کو چھوڑ کر ملک کے قرضوں کو چکائیں گے تو بہت جلد سُودی قرضوں سے نجات ملے گی۔
یکم مئی یوم مزدور پر یاور عظیم کا علامہ اقبال کی نظم ”خضر راہ ” سے اقتباس
بندۂ مزدور کو جاکر مرا پیغام دے
خضر کا پیغام کیا ہے یہ پیغام کائنات
اے کہ تجھ کو کھاگیا سرمایہ دار حیلہ گر
شاخ آہو پر رہی صدیوں تک تیری برات
دست دولت آفریں کو مزدیوں ملتی رہی
اہل ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکوٰة
ساحر الموط نے تجھ کو گیا برگ حشیش
اور تو اے بے خبر سمجھا اسے شاخ نبات
نسل ، قومیت، کلیسا، سلطنت، تہذیب، رنگ
خواجگی نے خوب چن چن کے بنائے مسکرات
کٹ مرا نادان خیالی دیوتاؤں کے لئے
سکر کی لذت میں تو لٹواگیا نقد حیات
مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
انتہائے سادگی سے کھاگیا مزدور مات
سید محمد علی ایڈوکیٹ فیس بک اکاؤنٹ پر لکھتے ہیں ”عمران خان صاحب اور شہباز شریف صاحب جلسوں پر اربوں روپیہ خرچ نہ کریں بلکہIMFکا قرضہ اتارنے کیلئے اپنے اپنے بینکوں سے پیسہ نکالیں اور جو کم پڑے اپنے اپنے ووٹروں سے فی کس1000روپیہ جمع کریں اورIMFکے منہ پر مار کر قوم کو آزاد کرائیں دونوں حضرات کے 2کروڑ سے زیادہ ووٹر ہیں۔ دیکھتے ہیں دونوں میں سے کونIMFکا قرضہ اتار کر عوام کا دل جیت لیتا ہے۔ میں اس سلسلے میں10ہزار روپے دینے کیلئے تیار ہوں۔ صرف اسلئے کہ ہمارے ملک کا قرضہ اترے۔ اور ہم اپنے فیصلے خود کرسکیں”۔
نواز شریف نے کلچر و تہذیب کو بدلنے کا ذمہ دار عمران خان کو قرار دیا ہے مگر جنرل ضیاء الحق کے دور میں اور ان کی وفات کے بعد جو گالی گلوچ ذو الفقار علی بھٹو کو نواز شریف دیتا تھا اور پھر سعودیہ سے جلاوطنی کے بعد شہباز شریف نے جو کلچر بنایا تھا اور اس کے درمیان جو کچھ بھی شریف برادران کا کردار رہا ہے وہ کسی طرح سے بھی عمران خان سے کم نہیں بلکہ زیادہ ہے۔ اسٹیبلشمنٹ حیران ہوگی کہ کونسے پتر کے کرتوت پر فخر کرسکتی ہوں؟۔ دونوں نے اسلامی جمہوری اتحاد سے لے کر ریاست مدینہ تک خوب گل کھلائے ہیں۔ ایک نے مولانا سمیع الحق پر میڈم طاہرہ کے اسکینڈل کا الزام اسلئے لگایا کہ سودی نظام کیخلاف مولانا نے اپنا مطالبہ رکھا تھا۔ مولانا فضل الرحمن کی جماعت کے انقلابی شاعر سید امین گیلانی نے عابدہ حسین اور تہمینہ کے خلاف جس دور میں اشعار گائے تھے اس تہذیب کی ادنیٰ جھلک بھی تحریک انصاف میں نظر نہیں آتی۔ عمران خان نے بلاول بھٹو سے لے کر ن لیگ اور اے این پی کے رہنماؤں تک مولانا ڈیزل کہہ کر جرم کیا ؟۔
شیخ رشید کو جس طرح پارلیمنٹ جاتے ہوئے گریبان سے پکڑا جاتا تھا اور جو الفاظ حنیف عباسی شیخ رشید کیخلاف استعمال کرتا ہے کہ50ہزار انعام دوں گا جو اس کی وگ اتار کر لائے۔ گھسیٹنے ، پیٹ چاک کرنے اور چوکوں پر لٹکانے کی بات شہباز شریف کرتا تھا۔ ماڈل ٹاؤن میں پر امن لوگوں کو جس طرح پولیس کے ذریعے شوٹ کیا گیا اتنا تو پاک فوج نے قبائل میں دہشت گردوں کیخلاف کسی آپریشن میں بھی نہیں کیا ہے۔ پنجاب میں جس طرح کی بدمعاشی کا کلچر ہے اور اس کی سرپرستی ن لیگ کرتی ہے اس کی ادنیٰ مثالISIکے ایک افسر کو پیٹ ڈالنا ہے۔ گاؤں دیہاتوں سے لیکر شہروں تک بدمعاشی کا سلسلہ ہے۔
ڈکیٹیٹر شپ کی پیداوار اور تربیت یافتہ سے جمہوری طرز کی اُمید لگانا اندھے کو کسی آئینے میں منہ دکھانے کی طرح جھوٹ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا ہے۔ پاکستان کے اصحاب حل و عقد کو فی الفور اسلامی قوانین کی طرف توجہ کرکے اپنے معاشرے کا رُخ درست سمت میں بدلنے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ بلا ٹل گئی تو پھر اس سے زیادہ بھیانک صورت میں دوبارہ سر اٹھائے گی اور پھر اس پر قابو پانے میں بھی کامیابی کی کوئی گارنٹی مشکل سے دی جاسکے گی۔
ہمارے مرحوم محمد حنیف عباسی نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ میں7نومبر2021کولکھا تھا ” مغربی ممالک میں امیروں کے ٹیکس سے غریبوں کی کفالت ہوتی ہے ۔ ہمارے ہاں غریبوں کے ٹیکس سے امیروں کی کفالت ہوتی ہے”۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

 

افغانستان، سعودی عرب اور پاکستان میں ایک چاند اور تین عید الفطر کا گھناؤنا تصور۔

افغانستان، سعودی عرب اور پاکستان میں ایک چاند اور تین عید الفطر کا گھناؤنا تصور۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

اس مرتبہ دنیا میں تین عیدیں تھیں۔ پہلے دن افغانستان اور بعض ممالک میں عیدالفطر تھی۔ دوسرے دن پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ اور سعودی عرب سمیت دنیا بھر میں عید تھی اور تیسرے دن پاکستان کے باقی صوبوں میں عید تھی ۔
شاید کوئی یہ بات نہیں مانے کہ ٹانک ملازئی میں بھی اسی شام کو بعض لوگوں نے چانددیکھ لیا تھا جس دن پھر افغانستان میں شہادت کی بنیاد پر ہوئی تھی۔ ایک ہندوستانی عالم دین نے ویڈیو جاری کی تھی کہ امارات اسلامی افغانستان میں اس دن چاند آسمان پر نہیں تھا لیکن شہادتوں کو قبول کرنے کی بنیاد پر عید ہوگئی ہے لیکن غلطی یہ ہوئی کہ جب مطلع صاف ہو تو کثیر تعداد میں شہادتوں کی بنیاد پر عید الفطر کا فیصلہ کرنا چاہیے تھا۔ جس کا جواب بھی افغانستان کی امارت اسلامی کے ایک ذمہ دار شخص کی طرف سے دیا گیا ہے کہ ہندوستان کے عالم کو غلط فہمیاں ہوگئیں ہیںکہ چاند آسمان پر نہیں تھا۔ حالانکہ ہم نے29روزے رکھے تھے اور وہ اس کو28روزے سمجھ رہا تھا۔ کتابوں کے حوالہ جات بھی درست نقل نہیں کئے ہیں بلکہ بعض ادھوری باتیں نقل کرکے عبارت کی آخری فیصلہ کن بات چھوڑ دی ہے۔
ہم نے بچپن سے دیکھا ہے کہ چاند عوام کو نظر آجاتا تھا لیکن پاکستان سے ہلال کمیٹی کا فیصلہ روزے اور عیدالفطر کے حوالے سے ایک دن بعد میں ہوتا تھا۔ پھر کراچی میں ہمارے مرشد حاجی محمد عثمان نے فرمایا تھا کہ ”ہلال کمیٹی نے چاند کو نہیں دیکھا لیکن چاند نے ان کو ضرور دیکھا ہوگا”۔ ملازئی میں جن لوگوں نے چاند افغانستان کے حساب سے دیکھا تھا اور انہوں نے اس دن روزہ بھی نہیں رکھا توایک ذمہ دار ٹیم تشکیل دی جائے جس کے دو مقاصد ہوں ایک چاند کے حوالے سے تاریخ درست کرنے اور دوسرا یہ کہ وہاں ایک پہاڑی علاقے میں تیل وگیس کے بڑے ذخائر ہیں۔ کافی عرصہ سے آگ خود بخود جل رہی ہے اور معمولی کھدائی سے بھی آگ بھڑک جاتی ہے۔ تاکہ گیس کے اس ذخیرے کو بھی عوام کیلئے کارآمد بنایا جاسکے۔ شہباز شریف نے چینیوٹ میں جن ذخائر کی بات کی تھی تو اس کی سچ اور جھوٹ کی حقیقت بھی عوام کے سامنے لائی جائے۔
ہلال کا فیصلہ کن معاملہ حل کرنا کوئی مشکل مسئلہ نہیں ہے ۔ جب متحدہ مجلس عمل کی حکومت تھی تو مفتی تقی عثمانی نے فتویٰ دیا تھا کہ لوگ ایک دن روزے کی قضاء رکھ لیں اسلئے کہ مرکز میں مفتی منیب الرحمن ہلال کمیٹی کے چیئرمین تھے اور یہ مسلکی جھگڑا بنایا جارہاتھا۔ ہم نے ماہنامہ ضرب حق کراچی میں مفتی تقی عثمانی کو اس وقت چیلنج کیا تھا کہ فرقہ واریت کی بنیاد پر فتویٰ دینے والو ؟ تمہارے ایمان کا اس وقت پتہ چلے گا کہ جب مرکز میں عیدالفطر ایک دن بعد میں ہوگی اور متحدہ مجلس عمل صوبہ سرحد میں ایک دن پہلے عیدالفطر منانے کا اعلان کرے گی۔ عید کے دن شیطان کا روزہ ہوتا ہے اور پھر متحدہ مجلس عمل کیساتھ عید نہیں منائی تو سراپا شیطان بننے کا اعزا ز بھی حاصل ہوگا۔ وہ مہینہ تھا اور آج کا دن ہے کہ مفتی محمدتقی عثمانی کے دانت تک تبدیل ہوگئے مگر پھر لب کشائی کی جرأت بھی نہیں ہوئی۔
مفتی منیب الرحمن سے ہمارے ساتھ اشرف میمن کا مکالمہ بھی ہم نے نقل کیا تھا کہ جب سعودی عرب اور امریکہ ولندن میں وقت کا دس بارہ گھنٹے کا فرق ہے اور پاکستان وسعودیہ میں دو ، ڈھائی گھنٹے کا فرق ہے۔ اگر یہاں عید کا چاند ایک دن بعد ہوسکتا ہے توپھر وہاں اتنے فرق پر پانچ چھ دن کا فرق ہونا چاہیے تھا؟۔ اور جب محکمہ موسمیات نے پیش گوئی کی تھی کہ اسلام آباد میں فضاء غبار آلود رہے گی اور کراچی میں مطلع صاف رہے گا اسلئے کراچی کے ساحل سمندر سے چاند نظر آنے کا امکان ہے اور اسلام آباد سے چاندنظر آنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ تو کراچی سے اسلام آباد چاند دیکھنے کے لئے آنے کی کیا ضرورت تھی؟۔ جس کا مفتی منیب الرحمن نے تاریخی جواب دیا تھا کہ ” میاںیہ پا کستان ہے اس میں انجوائے کرو، انجوائے”۔ جہاز کے ٹکٹ، ہوٹل کے خرچے اور آنے جانے کے ٹی اے ڈی اے۔ پاکستان کا قرضوں سے بیڑہ اسلئے غرق ہوا ہے کہ جب بھی کسی چمتکار کو موقع مل جاتا ہے تو وہ چپت کار بننے میں دیر نہیں لگاتا ہے۔ جب آزادی ہوگی اور قانون سے پکڑکا خوف نہیں ہوگا تو جنت میں شجرممنوعہ کے پاس جانے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی اور بندہ نافرمانی بھی ضرور کرے گا۔
کراچی کی آلودہ فضاؤں میں پہلے دن نہیں دوسرے دن کا چاند بھی نظر نہیں آتا ہے۔ سندھ میں سندھیوں کورمضان کا بھی پتہ نہیں چلتا ہے۔ بلوچستان کے شہر اتنے دور دور ہیں کہ ان کا آپس میں بھی رابطہ نہیں ہوتا ہے تو دوسروں سے کیا رابطہ ہوگا؟۔ پنجاب کے لوگ کہتے ہیں کہ پٹھان جانے رمضان جانے۔ پٹھان کی گواہی قابلِ قبول نہیں ہوتی ہے۔ تو پھر دو،دو اور تین تین عیدوں کا سلسلہ بھی ختم نہیں ہوسکتا ہے۔ اگر دنیا میں ایک خلافت کا نظام ہوگا تو ایک دن میں روزہ اور عیدالفطر کی تاریخ اور شرعی فریضہ ادا کیا جائے گا۔ ملک کا بندر بانٹ اور تقسیم کوئی شرعی مسئلہ نہیں ہے لیکن جب غیراسلامی تقسیم کو علماء ومفتیان ایک درجہ بھی دیتے ہیں اور ان کی شرعی حیثیت بھی قبول کرتے ہیں تو خلافت اسلامیہ کی بات بھی مان جائیں گے۔ اپنا روزہ اور عید درست کرنے کیلئے بھی عالمی خلافت کیلئے اپنا بھرپور زور لگائیں۔ قرآنی آیات کی بھی درست تشریحات کرنی ہوگی۔
رمضان کے بعد عیدالفطر کے دن روزہ رکھنا حرام ہے۔ اگردوسرے دن بھی پتہ چل جائے کہ عید کا چاند نظر آیا تھا تو روزہ رکھنا جائز نہیں ہے اور اگرعید کی نماز کا وقت نکل گیا ہو تو پھر دوسرے دن عید کی نماز ادا کی جائے گی۔ یہ مسئلہ واضح ہے لیکن ہمارے رات9بجے تک چاند نظر نہ آنے کے بعد اس مرتبہ اعلان کردیا گیا۔ حالانکہ پچھلے سال رات12بجے کے بعد چاند نظر آنے کا اعلان کیا گیا تھا اور اس مرتبہ ہلال کمیٹی کے چیئرمین صحافی مجیدنظامی وغیرہ سے کہا کہ9بجے ہم نے اعلان کردیا تھا،اس کے بعد پختونخواہ کی ہلال کمیٹی نے چاند دیکھنے کا اعلان کیا ہے۔ اصل مسئلہ یہ لگتا ہے کہ پچھلے سال پنجاب اور مرکز میں بھی عمران خان کی حکومت تھی اور پختونخواہ میں بھی عمران خان کی حکومت تھی تو ہلال کمیٹی کے چیئرمین کو اپنی نوکری کا ڈر نہیں تھا لیکن اس مرتبہ پنجاب اور مرکز میں عمران خان کی حکومت نہیں تھی اور اگر پختونخواہ میں تحریک انصاف کی حکومت کی بات مان لیتے تو نوکری جانے کا خطرہ تھا۔ مریم نواز اپنے خاندان کے دورِ حکومت میں ان صحافیوں کو بھی کنٹرول میں رکھتی ہے جن کو سرکاری اشہارات دئیے جاتے ہیں۔ جیو نیوز اور جنگ گروپ اپنے مقاصد کیلئے معاملات کو اٹھاتے ہیں۔ باقی میڈیا کے صحافی حضرات ان کی اتباع یا مخالفت میں اقدامات کررہے ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا کہ ” روزوں کو تمہارے اوپر فرض کیا گیا ہے جیسا کہ آپ سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا۔ یہ گنتی کے دن ہیں۔ اگر کوئی بیمار ہو تم میں سے یا سفر میں ہو تو پھر دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرلے۔ اور تم میں سے جو استطاعت رکھتے ہیں تو وہ مسکین کوکھانے کا فدیہ دیدے۔اگر کوئی زیادہ نیکی کرنا چاہے تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے اور اگر تم روزہ رکھ لو تو یہ زیادہ بہتر ہے تمہارے لئے ”۔
اس آیت میں روزوں کے دن اور بیماری وسفر کی حالت میں ان کی قضاء فرض کی گئی ہے۔ مریض اورمسافر میں دوقسم کے لوگ ہوتے ہیں ،ایک غریب اور دوسرے امیر۔ غریب تو خود فدیہ کا مستحق ہوتا ہے اور امیر کو روزہ چھوڑنے کی صورت میں ایک مسکین کو کھانے کا فدیہ دینے کی ترغیب دی گئی ہے اور اس سے زیادہ دے تو زیادہ بہتر ہے۔ کیونکہ اللہ نے ایک سہولت دی ہے اور اگر مال بھی عطاء کیا ہے تو پھر روزہ چھوڑنے کی صورت میں فدیہ دینے کی ترغیب ایک فطری بات ہے۔ البتہ چونکہ انسان کا نفس مشکلات سے فرار اختیار کرتا ہے اسلئے اللہ نے یہ بھی واضح فرمایا ہے کہ سفر اور مرض کی حالت میں روزہ رکھ لو یہ تمہارے لئے بہتر ہے تاکہ حیلے بہانے سے روزے چھوڑنے کے اقدامات نہیں اٹھائے جائیں کہ معمولی مرض اور آسان سفر میں بھی روزہ چھوڑ دیا جائے ۔ جس طرح گدھے کا روزہ چھوڑنے سے انسانوں کو تکلیف نہیں ہے اسی طرح انسانوں کا روزہ چھوڑنے سے اللہ کا بھی کچھ نہیں بگڑتا ہے لیکن بندے کے مفاد میں ہے۔
اس آیت سے علماء ومشائخ نے اپنے مالدار مریدوں، نوابوں، خانون اور بڑے لوگوں کیلئے یہ سہولت نکالی ہے کہ اللہ نے روزہ رکھنے اور فدیہ دینے میں سے ایک کا اختیار دیا ہے۔ حالانکہ یہ انتہائی غلط بات ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے روزوں کو فرض قرار دیا ہے اور مرض وسفر کی حالت میں چھوڑنے پر قضا ادا کرنے کا حکم دیا ہے تو پھر فدیہ اور روزے میں سے ایک کا اختیار کیسے دیا جاسکتا تھا؟۔ اگر غریب غرباء کو بھی مساجد میں یہ حیلہ بتادیا جاتا تو ہزار پانچ سو روپے کمانے والا دیہاڑی دار طبقہ بھی کسی کو فدیہ دیکر اپنی مزدوری بہت آسانی سے کرسکتا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے انسانوں میں اعتدال پیدا کرنے کیلئے قرآنی آیات کو نازل فرمایا ہے۔ اس آیت میں مسافر ومریض کو بھی ترغیب دی ہے کہ روزہ رکھنا بہتر ہے تمہارے لئے۔ لیکن بعض لوگ اتنے نادان اور شدت پسند ہوتے ہیں کہ وہ اس سے یہ نتیجہ نکالتے کہ جب سفر ومرض میں بھی روزہ رکھنا اللہ نے بہتر قرار دیا ہے تو پھر بہرصورت اللہ کی بات کو ترجیح دینی چاہیے اگرچہ مرض وسفر میں مرنے جیسی کیفیت تک بات پہنچ جائے اسلئے اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت میں پھر روزے کو سفر ومرض میں چھوڑنے کی گنجائش کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اسلئے کہ تمہارے اوپر اللہ تعالیٰ کوئی مشکل نہیں ڈالنا چاہتا ہے بلکہ آسانی پیدا کرنا چاہتا ہے۔ دونوں آیات میں اعتدال کا راستہ بتایا گیا ہے۔ ایک طرف حیلہ سازوں نے آیت میں اصل حکم سے ہٹ کر روزے کو عام حالت میں بھی فدیہ کے بدلے میں معاف کرنے کی بات کرڈالی اور دوسری طرف شدت پسندوں نے سفر و مرض میں سہولت کو بھی نظر انداز کرنے کا رویہ اختیار کرلیا ہے۔
طالبان کی افغانستان میں ایک ویڈیو جاری ہوئی جس میں مسافروں کوان کی سواریوں سے اتارکر روزہ نہ رکھنے پر سخت تذلیل کی سزا دی جارہی ہے۔ اگر اللہ نے نماز وروزے پر کسی سزا کا حکم نہیں دیا تو طالبان کو اپنی روش پر نظر ثانی کی سخت ضرورت ہے۔ تصویر اور بے نمازی کیلئے حکم بدل گیا ہے یا حقیقت سمجھ آگئی ہے تو روزے پر بھی ترغیب کی حد سے آگے نہیں بڑھنا چاہیے۔ خواتین برقعے کی روایت پنجاب سے منتقل ہوئی ہے۔ بوڑھے افغانیوں سے پوچھا جائے تو وہ بتائیں گے کہ پہلے افغانستان میں کہیں پر بھی برقعے کا کوئی رواج نہیں تھا۔
میری طالبان سے ہمدردی ہے اور انہوں نے بہت مشکلات کا سامنا کیا ہے اور پھر آزادی حاصل کی ہے۔ افغان قوم انگریز کے دور سے جن مشکلات کا شکار رہی ہے اس میں بیرونی مداخلت سے زیادہ اندرونی معاملات بھی اہم عنصر رہے ہیں۔ جاندار کی تصویر کی ہم نے طالبان سے زیادہ پہلے مخالفت کی تھی لیکن جب علمی حقائق کا پتہ چل گیا تو ”جوہری دھماکہ ” نامی کتاب میں اس غلط مؤقف کی دھجیاں اڑا دیں۔ طلاق وخلع اور حلالہ کے حوالے سے بھی ہم نے بہت ہی واضح حقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ اگر طالبان نے اس کی طرف دھیان دیا اور پاکستان سے مقتدر علماء کو بھی مجھ سمیت اس پر بحث کیلئے طلب کیا تو افغانستان کی سرزمین سے اسلام کی نشاة ثانیہ کے آغاز میں دیر نہیں لگے گی۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بار بار تسخیر کائنات کی بات کی ہے۔ فقہ کی کتابوں میں فرائض کی تسخیر اور اختلافات نے اسلام کا حلیہ بگاڑنے میں کردار ادا کیا ہے اور تسخیرکائنات کے علوم میں خواتین وحضرات کے اندر برابر کی صلاحیت ہوسکتی ہے۔ دنیا نے اس تسخیر کے ذریعے اتنی ترقی حاصل کرلی ہے کہ مسلمان دنیاہر چیز میں ان کا محتاج بن کر رہ گئی ہے۔ قرآن میں جتنے فقہی احکام ومسائل ہیں ان کا احادیث صحیحہ سے کوئی تصادم نہیں ہے لیکن فقہ کی کتابوں میں اسلام کو اجنبیت کی طرف دھکیل دیا گیا ہے۔ افغانستان میں پوری دنیا کے بہترین تعلیمی اداروں کو اپنی اپنی شاخیں کھولنے کی اجازت ،ترغیب اور مکمل تحفظ کی ضمانت دی جائے تو جس طرح چین نے ترقی کرلی ہے اس سے زیادہ افغانستان تعلیمی اداروں کے ذریعے سے دنیا میں ترقی کرے گا۔ افغانستان میں غربت ، بچیوں کی فروخت اور تمام مشکلات کا خاتمہ ہوجائے تو طالبان دنیا و آخرت میں سرخرو ہوں گے۔
میرے دادا سیدمحمدامیر شاہ کی قیادت میں1972ء میں ایک محسود قوم کا تین رکنی وفدافغانستان اسلئے گیا تھا کہ انگریز کے خلاف باہمی تعاون کریں گے اور پھر بیٹنی قبائل کا وفد میرے دادا کے بڑے بھائی سیداحمد شاہ کی قیادت میں گیا تھا۔جن کے بیٹے سید ایوب شاہ پڑھے لکھے تھے اور انہوں نے افغانستان میں ایک اخبار بھی نکالا تھا۔ پھر کچھ غلط حاسدین کی شکایت پر ان کو ظاہر شاہ کے والد نادر خان شاہ کے دورِ حکومت میں توپ سے اڑانے کی سزا سنائی گئی لیکن پھر ان کو جلاوطن کردیا گیا تھا۔ ہماری بیٹھک میں افغانستان کے ایک بادشاہ نے تین دن تک قیام بھی کیا تھا۔ امیرامان اللہ خان کیلئے لشکر تشکیل دینے والے پیر سعدی گیلانی عرف شامی پیر کی پہلی مرتبہ میزبانی میرے دادا نے کی تھی ۔ دوسری مرتبہ سیدایوب شاہ نے کی تھی۔ محراب گل افغان کے تخیلاتی نام سے علامہ اقبال نے جو اشعار بنائے ہیں ان میں وزیرومحسود اور دیگر قبائل کے نام بھی ہیں۔ قیامت کے دن تو مجرمین الگ کردئیے جائیں گے لیکن اس دنیا میں بھی مجرموں کو الگ کیا جاسکتا ہے۔ نبیۖ کی فتح مکہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ عزتدار لوگوں میں کوئی دشمن ہو تو بھی اس کو عزت سے نوازا جائے جب وہ دسترس میں آجائے تب۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv