پوسٹ تلاش کریں

یا اللہ یا رسول نواز شریف کی قربانی ہو قبول: مریم نواز

qatar-nawaz-sharif-taliban-maryam-nawaz-asma-shirazi-imam-supreme-court-syed-atiq-ur-rehman-gailani

نوشتہ دیوار کے مالیاتی امور کے چیف محمد فیروز چھیپا نے کہا

 ن لیگی رہنما، شریف خاندان اور مریم نواز کو چاہیے کہ وہ اپنارونا رونے کے بجائے مظلوم خواتین کیلئے آواز بلند کرے۔  اسی میں عزت بھی ہے، فرض اور قوم کا قرض بھی۔  تمام پارٹیوں و میڈیا کی چند خواتین رہنماؤں کے ذریعے مظلوم خواتین کے حقوق کیلئے کام کیا جائے تو زبردست انقلاب کا ذریعہ ہو گا۔ سپریم کورٹ کے سامنے ایک بیوہ خاتون کہہ رہی تھی کہ میری جوان بیٹیاں ہیں انکی عزتوں کو خطرہ ہے اسلئے اپنے اکلوتے بیٹے کے کیس سے دست بردارہورہی ہوں۔  ایک بھی مذہبی و سیاسی جماعت نہیں تھی جو ساتھ دینے کیلئے کھڑی ہوجاتی کیونکہ ہرایک نے ظالم طبقوں سے ووٹ لیکر اقتدار تک پہنچنا ہوتاہے۔

اسلام نے خواتین کو وہ حقوق دیئے جس کا کسی ۔۔۔

 سیکولر مغربی معاشرے میں آج بھی تصور نہیں ہوسکتاہے۔ مگر افسوس کہ پاکستان میں مدارس، مذہبی طبقے اور ریاست نے بھی انکے حقوق پر ڈاکہ ڈالا ہے۔ ہمارا ملکی قانون ہے کہ عورت طلاق شدہ اور بیوہ ہونے کے بعد بھی کوئی مرد سرپرست فارم میں ظاہر کرے۔ مریم نواز بھی باپ کے زیر سرپرستی کی وجہ سے زیرکفالت کاشکار ہوئی۔ عدالتوں اور میڈیا میں مریم نواز توکبھی مریم صفدر کا چرچا رہا ہے۔ سپریم کورٹ کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی ۔

جب ہمارا ملک کسی خاتون کو اپنی شناخت۔۔۔

 و خود مختاری بھی نہیں دیتا ہو تو اسکے دوسرے حقوق کس حد تک محفوظ ہوں گے؟۔ اسلام نے بیوہ و طلاق شدہ کو آزاد وخودمختار قرار دیا ہے۔  مگر افسوس کہ جمہور ائمہ شافعیؒ ، مالکیؒ اور حنبلیؒ کے علاوہ اہلحدیث کا بھی مسلک ہے کہ کوئی بیوہ و طلاق شدہ بھی خود مختار نہیں، اس کیلئے ولی ضروری ہے اور ولی کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح درست نہیں۔  جبکہ حنفی مسلک میں کنواری کو بھی ولی کی اجازت کا ملنا ضروری نہیں ۔

افراط و تفریط کی وجہ سے ہم قرآن سے ہٹ گئے۔ اعتدال اور میانہ روی کا راستہ بھی بھول گئے۔  بھٹکی ہوئی آہو کو چاہیے کہ وہ مسلم اُمہ کو سوئے حرم کی طرف لے جائے۔  قرآن وسنت کی واضح ہدایت کے باوجود علماء نے طلاق کے بعد رجوع کا دروازہ بند کر رکھاہے۔  اور حلالہ کی لعنت کے نام پر صرف خواتین نہیں سارے خاندان کی عزت کو تباہ کیا جارہاہے۔ اس کا راستہ روکنے کیلئے بہادر خواتین کو میدان میں آنا پڑیگا۔  حلالہ کروانے کی اکثریت جاہل غریب اور بے بس ہوتی ہے۔  مذہبی قائدین سمجھ کے باوجود اُن پر رحم نہیں کرتے۔

قرآ بلاشبہ اللہ کی کتاب: حنیف عباسی

molana-fazal-ur-rehman-chapli-kabab-kalabagh-dam-mufti-muneeb-halala-teen-talaq-syed-atiq-ur-rehman-gailani
jamiat-ulma-e-islam-nazam

مولانا فضل الرحمن پرتضحیک کے نشتر چلتے ہیں،کہاگیاکہ وہ گذشتہ حکومت کی بیوہ، موجودہ کی منکوحہ اور آنے والی کی منگیتر ہے۔ نہیں یہ عزتدار کیلئے ہے وہ تو داشتہ کی طرح ہے۔
مولانا فضل الرحمن خود کو منصور سمجھ کر انا الحق کا نعرہ لگائے تو شبلی کا پھول بھی برداشت کرنا ہوگا ۔ہم سمجھتے ہیں کہ مولانا ! اب واپس آجاؤ ، عزت کا وہ راستہ نہیں جس پر آپ چل پڑے

molana-fazal-ur-rehman-chapli-kabab-kalabagh-dam-mufti-muneeb-halala-teen-talaq-syed-atiq-ur-rehman-gailan(2)i

 

قرآن کا غلط ترجمہ و تفسیر فرقہ واریت کی بنیاد ہے. محمد منیر مُلا

qatar-nawaz-sharif-ashraf-ali-thanvi-ahmad-raza-khan-barelvi-surah-fatah-syed-atiq-ur-rehman-gailani

کراچی نمائندۂ نوشتہ دیوار محمد منیر ملا نے کہا کہ قرآن کا غلط ترجمہ و تفسیر فرقہ واریت کی بنیاد ہے عرصہ ہوا کہ میڈیا متضاد بیانات، شواہد اور ججوں کے فیصلے و ریمارکس سے وزیراعظم نوازشریف اور اسکے خاندان کی دھجیاں اڑا رہا ہے، پانچ ججوں نے متفقہ طور سے آزادنہ ٹرائیل کا موقع دینے کے بعد نااہل قرار دیدیا مگر اپنا کوئی گناہ ماننے کیلئے وہ تیار نہیں ہیں، پھر کیسے نبیﷺ کے بارے میں یہ تصور مانا جائے کہ اللہ نے اگلے پچھلے گناہ کا کہا؟۔ بریلوی مکتب کے علامہ غلام رسول سعیدیؒ نے مولانااحمد رضا خان بریلویؒ کے ترجمہ سے اختلاف کیا تو مفتی شاہ حسین گردیزی نے اس پربڑی کتاب لکھی۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ کواس ترجمہ پر کافر قراردیاگیا مگر پھر بریلوی مکتب کا آپس میں بھی اس آیت کے ترجمہ پر شدید اختلاف سامنے آیا۔ رسول ﷺ کی طرف گناہ کی نسبت اور آپﷺ کے والدین پر گناہ کی تہمت غلط ہے۔ قرآن کا درست ترجمہ و مفہوم فرقہ واریت کاحل ہے۔ قرآن کے مفہوم پرنبیﷺ کی ذات اور والدین کریمین پر فرقہ واریت، انانیت، خود غرضی کا مظاہرہ کرنے سے بڑی گمراہی کیاہوسکتی ہے؟ ۔ حضرت جنید بغدادیؒ نے تو اپنی شہرت، دولت اور بادشاہ کی قربت کی قربانی دیکر ایک سید کو جتوایا تھاجسکے گھر کی ضروریات نہیں چل رہی تھیں تو بڑی ولایت مل گئی۔ سید عتیق الرحمن گیلانی اپنی ذات کیلئے نہیں بلکہ لازوال قربانیوں کی تاریخ رقم کرکے اس قرآن کی دعوت دے رہا ہے جو عزت کا لٹیرا نہیں محافظ ہے۔ جس سے دور ہوکر مسلم اُمہ خوار ہوگئی ہے، قومی ایکشن پلان پر عمل کی غرض سے حکومت، عدلیہ اور فوج مل کر اکابر علماء سے نکاح، طلاق، حلالہ اور قرآن کے ترجمے پرصرف تفتیش کر لیں۔ صوبائی حکومتیں بھی یہ کام کرسکتی ہیں ۔اسی سے تعصبات اور جہالتوں کا خاتمہ ہوگا۔
علماء ومفتیان، مذہبی سیاسی جماعتوں کا ہی یہ کام تھا مگران کو فرصت نہیں ملتی ہے، جب فرقہ وارانہ تعصب نہ رہے گا تو علماء سیاسی پلیٹ فارم پربھی اکٹھے ہوسکیں گے، حکمران کرپشن میں ڈھیٹ ہیں، اکابر علماء جہالت پر ڈھیٹ ہیں، دونوں اپنا کردار اور نظریہ ٹھیک کریں۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی نے حدیث نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ’’ دجال سے زیادہ خطرناک چیز حکمران اور لیڈر ہیں‘‘۔ (علامات قیامت و نزول مسیحؑ : مفتی رفیع)
مولانا فضل الرحمن نے حضرت ابوبکرؓ سے منقول رسولﷺ کی حدیث طالبان اور انکے امیر پرفٹ کی تھی، خراسان سے دجال اور اسکے لشکر کا حدیث میں ذکرہے، لیکن اگر ملا عمرخراسان کا دجال اور طالبان اسکا لشکر تھا تو کیا حکمران اور علماء کے کردار کو حدیث کی روشنی میں دیکھنے کی ضرورت نہیں ؟۔ خراسان سے ایک مہدی نکلنے کا بھی ذکر ہے، بعض علماء نے ملاعمرؒ کو مہدی قرار دیاہے۔ ایک ایسے اسلامی انقلاب کی بھی نوید ہے جس میں زورو جبر کا تصور بھی ختم ہوگا۔ قرآن وسنت کا حقیقی خاکہ دنیا کے سامنے پیش ہوجائے تو پاکستان کو یہ سعادت مل سکتی ہے۔
حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ نے اپنی کتاب ’’ عصر حاضر حدیث نبویﷺ کے آئینہ‘‘ میں علماء، مفتیان، عوام، حکام سبھی کی تصویر پیش کردی ہے۔ مولانا یوسف لدھیانویؒ ختم نبوت کے مرکزی رہنما بھی تھے اور جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے ماہنامہ البینات کے مدیر بھی تھے۔ جن علماء و مفتیان نے حاجی عثمانؒ پر فتوے لگائے ، ان میں مولانا یوسف لدھیانویؒ کا نام بھی شامل کیا گیا تھا۔ حاجی عثمانؒ نے اپنی وفات سے پہلے سید عتیق الرحمن گیلانی کو وصیت کی کہ مولانا یوسف لدھیانوی کا مؤقف ضرور پوچھ لینا۔ مولانا یوسف لدھیانویؒ کے پاس ہمارا وفد گیا تو انہوں نے بات ٹالنے کی کوشش کی مگر جب سید گیلانی نے فتوے پر شرعی نکتے سے تنقید کی تو مولانا لدھیانویؒ نے فرمایا کہ ’’میں نے یہ نہیں لکھا، مفتی جمیل خان نے لکھ کر میری طرف منسوب کیا، مجھے حاجی عثمانؒ سے بڑی عقیدت ہے، انکے طفیل اپنی مغفرت کی دعا کرتا ہوں، یہ ساری مفتی رشید لدھیانوی کی خباثت تھی، جس طرح امام مالکؒ کا نام دنیا میں روشن ہے اور ان پر فتوے لگانے والوں کو کوئی نہیں جانتا، اسی طرح حاجی عثمانؒ کا نام زندہ رہے گا اور فتوے لگانے والے تاریخ سے مٹ جائیں گے‘‘۔ مولانا یوسف لدھیانویؒ نہ صرف خود بلکہ اپنے دامادوں کو بھی حاجی عثمانؒ کے مزار پر لے جایا کرتے تھے۔
حاجی عثمانؒ پر فتوے میں سب زیادہ جاندار اعتراض یہ تھا کہ ’’ نبیﷺ کی طرف منسوب اس حدیث کا انکار کیا ہے جس میں حضرت عائشہؓ نے آپﷺ سے عرض کیا تھا کہ اللہ نے آپکے اگلے پچھلے گناہ معاف کئے تو اتنی مشقت کیوں کرتے ہیں؟۔جس پر نبیﷺ نے فرمایا کہ’’ کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں‘‘۔ حاجی عثمانؒ نے مشاہدات دیکھنے والے خلیفہ سے کہاتھا کہ اس حدیث کے بارے میں رسول اللہﷺ سے پوچھ لو۔ خلیفہ ابراہیم نے بتایا کہ ’’رسول ﷺ نے فرمایا کہ حدیث تو میری ہے لیکن الفاظ میں ردو بدل ہے‘‘۔ ان الفاظ میں بنیادی بات رسول اللہﷺ کی طرف گناہ کی نسبت تھی اور یہ الفاظ قرآن کی آیت کا ترجمہ کرکے لئے گئے تھے۔ حاجی عثمانؒ کو گناہ کی نسبت کا معاملہ رسول اللہﷺ کی طرف قبول اسلئے نہیں تھا کہ پھر معصومیت پر اثر پڑتاتھا۔ اس حوالہ سے اہل علم کے ترجمے اور تفاسیر میں بھی زبردست بحث کی گئی ہے۔ حاجی عثمانؒ کو سید عتیق الرحمن گیلانی نے ہی ایک موقع پر بتایا کہ یہ قرآن کی آیت ہے اور اس کی مختلف توجیہات بیان کی گئی ہیں۔حاجی عثمانؒ فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہتاہے کہ یا موسیٰ مگر ہم تو ادب سے نام لیں گے۔ حاجی عثمانؒ نے جو مؤقف اپنایا تھا وہ اکابر علماء کی مستند کتابوں میں بھی موجود تھا۔
یہ مسلم اُمہ کیلئے کتنی بڑی خوشخبری ہے کہ حضرت شاہ ولی اللہؒ نے قرآن کا فارسی میں ترجمہ کیا تو ان علماء ومفتیان نے کفر اور واجب القتل کے فتوے لگائے جو فارسی میں نماز پڑھنے کو امام ابوحنیفہؒ کی طرف سے نہ صرف جائز بلکہ عربی سے زیادہ مناسب قرار دے رہے تھے۔ اپنے نصاب کو ہی نہ سمجھنے والوں نے شاہ ولی اللہؒ کیلئے مشکلات پیدا کردی تھیں۔آج شاہ ولی اللہؒ کے مشن پر فخر کیا جاتا ہے اور دنیا کی بہت سی زبانوں میں قرآن کے تراجم عام ہیں۔ پھر اردو میں ترجمہ کیا گیا توسورۂ فتح کی اس آیت کا ترجمہ فرقہ وارانہ تعصبات و مسلکی اختلافات کو ہوا دینے کا ذریعہ بنا اور آج سید عتیق الرحمن گیلانی کی طرف سے ایسا ترجمہ جو سیاق وسباق کے مطابق ہے۔ جس پر کسی فرقے، مسلک ، جماعت اور کسی بھی نظرئیے کا کوئی بھی آدمی اختلاف نہیں کرسکتا۔ کیا اس کاوش کا یہ نتیجہ نکلنا چاہیے کہ جس طرح شاہ ولی اللہؒ دوسال تک قتل کے خوف سے روپوش رہے اور جاہل قتل کرنے کے درپے رہے؟۔کیا عتیق گیلانی بھی چھپتے پھریں؟۔ جو لوگ آپ پر بزدلی کا الزام آج لگارہے ہیں تو مشرکین مکہ کے جاہل ابولہب، ابوجہل وغیرہ نے بھی تو نبیﷺ پر اس طرح ہجرت کے حوالہ سے یہ الزامات لگائے ہونگے؟،کون کس کی راہ پر چل رہا ہے؟۔ ضلع ٹانک کے تمام اکابر علماء کرام نے تحریری اور جلسۂ عام میں تائید کی ، مولانا نور محمد وانا اور مولانا معراج الدین کو کیوں شہید کیا گیا؟۔
اللہ کا شکر ہے کہ ہر مکتبۂ فکر کے اکابر علماء سے لیکر اصاغر تک نے دل و جان سے ہمارے مشن کی تائید کردی جس پر الگ سے کتابچہ مرتب ہوسکتاہے، اخبار ضرب حق میں جو سرخیاں لگتی تھیں، اس نے تاریخ کا دھارا بدل دیا ۔سید گیلانی کی ہمت اتنی ہے کہ جب انکے تعاقب میں گھر پر دجالی لشکر نے حملہ کرکے13افرادکو شہید کیا تو اطلاع ملتے ہی فیصلہ کیا کہ میدان میں نکلے مگر بھائی نے منع کیا اور پھر اسی وقت تسلی دیتے ہوئے کہاکہ اب تو خلافت قائم ہو گی۔ جواب میں کہاگیا کہ اب ایسی خلافت کو کیا کرینگے؟۔ اپنے ساتھیوں کے پاس خود ہی مختلف علاقے میں گئے۔ ملاقات میں میرے رونے پر تسلی لینے کے بجائے تسلی دینے کے انداز میں فرمایاکہ’’ عورتیں روتی ہیں، مرد نہیں رویا کرتے‘‘۔ اتنے بڑے حادثے کے بعد دوبارہ سب کو چیلنج کرنے کی ہمت اللہ کا بڑافضل ہے۔ دین خیر خواہی کا نام ہے۔ شاہ صاحب ان مظلوموں ، بے کسوں اور فریاد کرنے والے بے بسوں کی آواز ہیں جن کو کوئی نہیں پوچھتا، جن سے ریاستیں ڈرتی ہیں ان کو بھی ببانگ دہل چیلنج کررکھا ہے۔
رات جل اٹھتی ہے شدتِ ظلمت سے ندیم
لوگ اس وقفۂ ماتم کو سحر کہتے ہیں
طوفان کر رہا تھا میرے عزم کا طواف
دنیا سمجھ رہی تھی کہ کشتی بھنور میں ہے

طلاق کو علمائ نے اس قدر مشکل بنادیا کہ رجوع کی گنجائش بھی ختم کردی، ڈاکٹر ہما بقائی

dr-huma-baqai-teen-talaq-halala-ashraf-ali-thanvi-ahmad-raza-khan-barelvi-syed-atiq-ur-rehman-gailani

کراچی (ڈاکٹر احمد جمال)معروف اسکالر ڈاکٹر ہما بقائی صاحبہ نے کہا

: طلاق کے مسئلہ پر بالخصوص سنی مسالک میں جس طرح عمل کیا جارہا ہے اسے زحمت بنادیا گیا ہے۔ اسلام ایسا مذہب ہے کہ آسانی پیدا کرتا ہے۔ طلاق نا پسندیدہ ضرور ہے لیکن اس کی اجازت دی ہے اور معافی کا راستہ بھی ہے۔ اسے کچھ علماء نے اس قدر مشکل بنادیا ہے کہ رجوع کی گنجائش بھی ختم کردی ہے جبکہ اسلام میں بغیر حلالہ کے رجوع کی گنجائش موجود ہے۔ بہت ساری خواتین سے جب میں نے یہ بات کی جو اس مشکل مرحلہ سے گزر رہی ہیں

انہوں نے یہ بات آشکار کی کہ جس مولوی سے فتویٰ لینے جاؤ وہ اپنے آپ کو حلالے کیلئے پیش کردیتا ہے۔

اس معاملے میں تحقیق کی بھی ضرورت ہے تاکہ اس کا غلط استعمال نہ کیا جاسکے اور مردوں کو اور عورتوں کو نا کردہ جرم کی اتنی بڑی سزا ملے۔ معافی تو اللہ بھی دیتا ہے بڑے بڑے گناہ کرنے کے بعد اگر اللہ کی طرف رجوع کیا جائے تو وہ بھی گناہ معاف فرمادیتا ہے۔
یہ اچھا ہے کہ آپ کا ادارہ اس حوالے سے تحقیق کر رہا ہے اور آگاہی کے عمل کو آگے بڑھا رہا ہے۔ سید عتیق الرحمن گیلانی صاحب کافی عرصہ سے اس حوالے سے تحقیق کررہے ہیں اور اس کے نتیجے میں یہ کتابچہ (تین طلاق سے رجوع کا خوشگوار حل) سامنے آیا ہے اور اچھا ہو کہ مزید تحقیق ہو۔

آئندہ آنے والے بارہ امام جن پر امت کا اجماع ہوگا

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑے جارہا ہوں قرآن اور میرے اہل بیت : صحیح مسلم

نقش انقلاب کو بڑا کرنے کیلئے تصویر پر کلک کریں

httpzarbehaq.comwp-contentuploads201705Naqsh-e-Inqalab-bara-imam-shia-sunni-hadith-quran-islam-pakistan-allama-iqbal-triple-talaq-ispr-ghq-syed-atiq-ur-rehman-gailani2.jpg

مولانا نصر اللہ کے بیان پر عبد القدوس بلوچ کا تبصرہ

quaid-e-azam-joined-congress-year-ulmaa-with-congress

کراچی (عبد الشکور) مولانا نصر اللہ امام و خطیب جامع مسجد معصب ابن عمیر چمڑہ چورنگی (03333405517) نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ قیام پاکستان مقصد محض آزادی کے ساتھ ساتھ ایک بنیادی نقطہ نظر اسلامی معاشرہ تھا مگر بدقسمتی سے قائد اعظم جیسے منافقین کے ہاتھ باگ دوڑ دے دی گئی جنہوں نے کانگریس سے مل کر منافقانہ رویہ اپنایا کہ آج تک اہل پاکستان ذلیل و خوار ہیں لہٰذا ایک ایسے معاشرے کی از سر نو تشکیل کی ضرورت ہے جو ہر قسم کے منافقانہ رویوں سے پاک جس میں آئین حدیث شریف اور قانون قرآن ہو۔ اور معاشرتی برائیاں بھلے جتنی بھی ہوں پھر یہ ہوا کے تنکے کی طرح اڑ جائیں گی۔ اور ہم سب من حیث القوم سکھ کا سانس لے سکیں گے ورنہ آج کل جس جمہوریت کا ڈھونگ رچایا جارہا ہے یہ محض ایک تباہی و بربادی ہے جس کی زندہ مثال موجودہ نظام ہے اس موجودہ نظام کے خاتمے کے بغیر ہماری زندگی اجیرن ہے اور دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام امت مسلمہ کے لوگوں کو اس نظام کے خاتمے اور جنازے کو کندھا دینے کی توفیق عطا فرمائے۔

تبصرہ نوشتہ دیوارتیز و تند عبد القدوس بلوچ

جناب مولانا صاحب !علماء و مفتیان ایک طرف قائد اعظم کے ساتھ تھے اور دوسری طرف گاندھی اور نہرو کے ساتھ تھے۔ مدارس پر کس نے پابندی لگائی ہے کہ وہ اپنے نصاب میں غلطیوں کی اصلاح نہ کریں؟۔ مجلس احرار کے قائد مولاناسید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ نے پہلے پاکستان کی مخالفت کی مگر پھر جب پاکستان بن گیا تو فرمایا کہ ’’مسجد بننے پر پہلے اختلاف ہوسکتا ہے لیکن جب مسجد بن جائے تو پھر اس کا تقدس ، اس کی حفاظت اور اس کی آبادی بھی ضروری بن جاتی ہے‘‘۔ آپکا بیان بہت معذرت کے ساتھ ایسا ہے جیسے آپ اپنے مسجد کے بانیوں کو اور اس کے رکھوالوں کو برا بھلا کہو کہ وہ منافقین ہیں لیکن دوسروں کو برا کہنے کے بجائے اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔ علماء ہی ذمہ دار ہیں۔ قدوس بلوچ

علماء اور حکمرانوں سے خصوصی گزارش

asif-ali-zardari-nawaz-sharif-maulana-fazlur-rahman-imam-abu-hanifa-imam-malik-imam-shafai-imam-hanbal-halala-teen-talaq-triple-talaq(2)

حنفی مسلک کے مدارس دیوبندی بریلوی کا نصابِ تعلیم ایک ہے۔ قرآن وسنت اور اجماع وقیاس کی بنیادی تعلیم کا محور و مرکز اصولِ فقہ ہے۔ بہت کم لوگ اصولِ فقہ کی دقیق، مغلق اور منطقی زباں کو سمجھتے ہیں، تاہم اصولِ فقہ کی کتابوں کے تراجم ہوچکے ہیں اور ان کو سمجھنے کی دشواری کا معاملہ ختم ہے۔ نصاب کی تبدیلی کی بازگشت ہے مگر چوہوں کی مجلس شوریٰ بلی کے گلے میں گھنٹی ڈالنے سے کترارہی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے سرکاری پلیٹ فارم سے اس نیک کام کا آغاز ہوگا تو دنیا کی سطح پر خوشیوں کا طوفان اُمنڈ آئیگا۔
امام ابوحنیفہؒ نے اپنا سارا عہدِ شباب علم الکلام کی گمراہی میں گزارا اور پھر توبہ کرکے فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ علم الکلام سے اصول فقہ محفوظ نہیں ۔ اصولِ فقہ میں کتاب، سنت، اجماع اور قیاس کے چار اصول ترتیب وار ہیں۔ اللہ کی کتاب سے پانچ سو آیات مراد ہیں جو احکام سے متعلق ہیں،باقی آیات قصص و مواعظ ہیں۔ اگر علماء پانچ سو آیات میں سے غسل، وضو، نکاح، طلاق اوررجوع کے احکام طلبہ کو پڑھاتے تو مسائل کا شکار نہ ہوتے۔ قرآن میں ہے۔ ولا جنباً الا عابریٰ السبیل حتیٰ تغتسل ’’ اور نہ حالتِ جنابت میں نماز کے قریب جاؤ مگر یہ کہ کوئی مسافر ہو،یہاں تک کہ نہالو‘‘۔ اس حکم میں مسافر کیلئے غسل کے بغیر تیمم سے بھی نماز پڑھنے کی اجازت ہے۔ اجازت میں حکم فرض نہیں مباح کا درجہ رکھتاہے۔ حضرت عمرؓ نے سفر کے دوران حالت جنابت میں تیمم سے نماز نہیں پڑھی تو نبیﷺ نے فرمایا کہ آپ نے ٹھیک کیا ہے۔ حضرت عمارؓ نے مٹی میں لوٹ پوٹ کر تیمم کرکے نماز پڑھ لی تو نبیﷺ نے فرمایاکہ ہاتھ اور چہرے پر مسح کافی تھا۔ پھر اللہ نے وضو کی تفصیل بتائی ہے اور فرمایا ہے کہ اگر تم حالتِ جنابت میں ہو تو اچھی طرح پاک ہو جاؤ۔ ظاہرہے کہ وضو کے مقابلہ میں نہانا ہی اچھی طرح پاک ہونا ہے جس کا پہلے ذکرہے۔ دنیا میں انسان تو کیا چرندے اور پرندے بھی نہانا جانتے ہیں۔ صحابہؓ وضوو غسل کرنا جانتے تھے مگر فضول کے فرائض پر اختلافات سے وہ بے خبر تھے۔ آج مسلمانوں کو پھر قرون اولیٰ کا دور زندہ کرنا ہوگا تو لوگوں کی اصلاح ہوگی۔میرے استاذ ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر صاحب نے میری ایک کتاب پر حضرت امام مالکؒ کا یہی قول نقل فرمایا ہے۔ اصولِ فقہ کی کتابوں میں قرآن کی غیر معقول تعریف سے ایمان سلامت نہیں رہ سکتاہے۔
المکتوب فی المصاحف، المنقول عنہ نقلا متواترا بلاشبۃ کتاب کی یہ تعریف ہے کہ ’’جو مصاحف میں لکھی ہوئی ہے، نبیﷺ سے متواتر نقل کی گئی ہے، کسی شبہ کے بغیر‘‘۔ یہ تعریف ہوتی تومعاملہ ٹھیک تھا مگر اسکی تشریح یہ کی جاتی ہے کہ مصاحف میں لکھی سے مراد کتاب نہیں، یہ تو نقوش ہیں جونہ لفظ ہیں اور نہ معنی بلکہ یہاں 7قاریوں کے الگ الگ قرآن مرادہیں۔ اسلئے فقہ کا مسئلہ ہے کہ مصحف پر حلف اٹھانا حلف نہیں ہوتا اور شامی، قاضی خان، صاحب ہدایہ نے لکھ دیا ہے کہ سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا جائز ہے۔ حالانکہ ان بکواسات کا تعلق علم الکلام سے تھا جس سے امام اعظم ؒ نے توبہ کی تھی مگر پھر بھی وہی گمراہی ہے۔ پہلی وحی کاآغاز اقراء اور تعلیم بالقلم سے ہواتھا: والقلم ومایسطرون سے مصحف قرآن کا حلف معتبر ہے اور الذین یکتبون الکتاب بایدیھم سے واضح ہے کہ کتاب لکھی ہوئی چیزکا نام ہے۔
لکھا ہے کہ متواترکی قید سے غیر متواتر آیات نکل گئیں۔ جو قرآن پر اضافہ ہے۔ بلاشبہ سے بسم اللہ کے نکلنے کا ذکر ہے جس سے قرآن بلاشبہ نہیں رہتا۔ حالانکہ علم الکلام کو عمل دخل دینے کے بجائے کتاب کی تعریف میں آیات کا حوالہ دینا تھااور قرآن کی حفاظت میںآیات کا حوالہ دینا تھا جن میں کمی بیشی اور شک وشبہ کی گنجائش نہیں ۔ امام شافعیؒ کے ہاں خبرواحد حدیث دلیل ہے مگر مشہورو خبر واحد آیت کا وجود اسلئے نہیں کہ قرآن کی حفاظت پر پھر ایمان باقی نہیں رہتاہے۔ امام شافعیؒ نے اہل اقتدار سے ذلت اٹھائی ، ان پر رافضی کی تہمت لگائی گئی۔ امام ابوحنیفہؒ کوجیل میں زہر دیا اور ائمہ کرام کے نام لیواؤں نے بعد میں مزید غلو سے کام لیاہے۔
بنی امیہ کے دور میں ایک طرف اسلام پھیل گیا تو دوسری طرف سرکاری سرپرستی میں بعض مسائل میں جبر کی فضاء بنائی گئی، چنانچہ جہری نمازوں میں بسم اللہ پڑھنے کو حضرت علیؓ کی شدت سے منسوب کیا گیا۔ جو جہری نماز میں جہری بسم اللہ پڑھتے،وہ حکومت کے غدار سمجھے جاتے۔ اصولِ فقہ میں قرآن کی تعریف سے بسم اللہ کو اسلئے مشکوک بناکر خارج کیا گیا ہے۔ آج دور بدل چکاہے اگر ائمہ مساجد جہری نمازوں میں بسم اللہ جہر سے پڑھنا شروع کریں تو قیامت نہیں بہت بڑا انقلاب آئے گا۔
امام ابوحنیفہؒ سمیت تمام ائمہ کرامؒ نے قرآن کو پہلی ترجیح دی، جس کی وجہ سے وہ احادیث مسترد ہیں جن کی وجہ سے قرآن پر حرف آتا ہے۔ ابن ماجہ میں ہے کہ جب نبیﷺ کا وصال ہوا، تو 10آیات بڑے آدمی کا دودھ پینے کے حوالہ سے تھیں جن کو بکری نے کھا کر ضائع کردیا۔ اہلحدیث ان روایات کو بھی حدیث سمجھتے ہیں۔ انکے مسلک میں یہ ہے کہ بڑا آدمی اگر عورت کا دودھ چوس کر پی لے تو اس عورت سے وہ پردہ نہ کرے لیکن شادی کرسکتاہے۔اسی طرح وہ بچیوں کا ختنہ بھی مستحسن سمجھتے ہیں
جن احادیث سے قرآن کی تحریف کا عقیدہ پیدا ہوتا ہے ان پر ایمان رکھنے سے قرآن پر ایمان نہیں رہتا ہے۔ مسلمانوں کا یہی اعلان ہے کہ قرآن میں کسی حرف کی بھی تبدیلی نہیں آئی ہے تو اپنی تعلیمات کا نصاب بھی درست کرنا پڑے گا۔ قرآن میں وضاحت ہے کہ اللہ کے کلام پر باطل آگے سے حملے میں کامیاب ہوسکتاہے نہ پیچھے سے۔ بسم اللہ پرآگے کی طرف سے حملہ ہے، قرآن میں موجود ہے مگر نماز اور نصاب میں معاملہ مشکوک بنایا گیا۔
قرآن کی آخری دو سورتیں الفلق اور الناس کے بارے میں لکھ دیا گیا کہ عبداللہ ابن مسعودؓ نے اپنے مصحف میں نہیں رکھا، وہ اس کو قرآن میں داخل نہیں سمجھتے تھے۔ حالانکہ پہلے ہاتھ سے قرآن لکھا جاتا تھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا مصحف عرصے تک موجود رہا۔ پہلا اور آخری صفحہ پھٹ کر ضائع ہوگئے، جس طرح عام طور سے ہوتا ہے، جس نے دیکھ لیا تو اس نے یہی بات کردی کہ میں نے عبداللہ بن مسعودؓ کا مصحف دیکھا ، لیکن اس میں سورۂ فاتحہ اور آخری دو سورتیں نہیں تھیں۔ اگرچہ بعض نے یہ بھی لکھاہے کہ ابن مسعودؓسورہ فاتحہ کو بھی نہیں مانتے تھے مگر نماز کے اندر فاتحہ کی شمولیت سے یہ بات آسانی سے ہضم نہیں ہوسکتی تھی اسلئے آخری دو سورتوں پر حملہ کیا گیا تھا کہ حضرت ابن مسعودؓ ان کے منکر تھے۔ العیاذ باللہ، قائداعظم کا جنازہ علامہ شبیر احمد عثمانی نے پڑھایا ۔ تفسیر عثمانی میں بھی حضرت ابن مسعودؓ کی طرف سے ان آخری سورتوں پر شیطانی حملے کا ذکر ہے۔
علامہ غلام رسول سعیدی نے بھی اس پر تفصیل سے انتہائی نامعقول بحث درج کی ہے۔ دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث کو قرآن کے بارے میں اپنی غلط تعلیم کا خاتمہ کرنا ہوگا۔لوگ اسلئے علماء کے علمی معاملات سے دور بھاگتے ہیں کہ ان کو اپنے ایمان کی سلامتی بھی خطرے میں لگنے لگتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رسولﷺ کی شکایت قرآن میں نقل کی ہے کہ قیامت کے دن فرمائیں گے کہ ’’ میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا‘‘۔
اللہ نے فرمایا کہ قیامت میں ہرشخص کو اسکے امام (سربراہ) کیساتھ بلایا جائیگا۔ یوم ندعوا کل اناس بامامھم بعض نے مغالطہ کھایا اور سمجھا کہ امہاتھم یعنی ماؤں کیساتھ بلانے کا ذکر ہے۔ چناچہ وہ حدیث بھی گھڑ لی کہ ’’قیامت میں سب کو ان کی ماؤں کے نام سے پکارا جائیگا لیکن حضرت عمرؓ بڑی غیرت والے ہیں صرف ان کو انکے باپ کے نام سے پکارا جائیگا۔
جب اصول فقہ میں قرآن کی تعریف میں علم الکلام کی گمراہی پڑھائی جائے گی۔ قرآن کے علاوہ بھی قرآن کا تصور پڑھایا جائیگا اور اس میں شک وشبہ کی تعلیم ہوگی تو ایسے قرآن کی طرف کون آئیگا جس سے الٹا انسان کا عقیدہ اور ایمان خراب ہو؟۔
قرآن کی تعریف میں سب سے پہلے قرآن کی آیات کے ذریعے کتاب کا معنیٰ درست کرنا ہوگا، پھر ان آیات کو درج کرنا ہوگا جن میں قرآن کی حفاظت کا ذکر ہے، ان روایات کو درج کرکے مسترد کرنا ہوگا جن سے تحریف کا عقیدہ پیدا ہوتاہے۔ یہ صاف ستھری ذہنیت علماء وطلبہ کو قرآن پر عمل کی طرف راغب کریگی۔ اصول فقہ میں ہے کہ قرآن الفاظ اور معانی دونوں کا نام ہے لیکن پھر امام ابوحنیفہؒ کی طرف یہ منسوب ہے کہ فارسی میں نماز پڑھنا جائز بلکہ افضل ہے۔ ایک طرف فقہ کی تعلیم میں فارسی میں نماز پڑھنے کا جواز لیکن دوسری طرف حضرت شاہ ولی اللہؒ پر فارسی ترجمہ کرنے پر کفر ، مرتد اور واجب القتل کے فتوے لگائے گئے جس کی وجہ سے دوسال تک ان کو روپوش ہونا پڑا۔ پھر جب علماء کو بات سمجھ میں آگئی، شاہ ولی اللہؒ کے بیٹوں نے اردو میں قرآن کے ترجمے کئے۔ علماء نے مختلف زبانوں میں قرآن کا ترجمہ کیا تو پنجابیوں اور پٹھانوں کے سنگم پر مشترکہ آبادی میں غرغشتو کے عالم نے پشتو میں قرآن کا ترجمہ کردیا تو ان پر فتوے لگائے گئے کہ پشتو میں ترجمہ کرکے کفر کیا ہے۔
جب علماء کرام کے نصاب میں ایسی تعلیم نہیں ہوگی جو طلبہ میں صلاحیت پیدا کرلے تو نالائق پیدا ہونگے اور کوئی لائق ہوگا تو اس کو بروقت پہچاننا مشکل ہوگا۔یہ مسئلہ حل طلب ہے۔ مولانا محمد خان شیرانی نے مجھ سے پہلے کہا تھا کہ ’’ آپ نصاب مرتب کرلیں تو میں مدراس میں پڑھانے کی ذمہ داری لیتا ہوں مگر مجھے ان کی بات پر یقین نہیں آیااور نہ ان کی اتنی حیثیت تھی اوراسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین بن گئے تو طلاق کے مسئلہ پر تفصیل بتائی ، اپنی کتاب پیش کی مگر ٹس سے مس نہ ہوئے۔ ایک موقع پر مولانا فضل الرحمن کے بھائی مولانا عطاء الرحمن اور قاری عثمان بھی تھے تو میں نے قرآن کی تعریف پر اصول فقہ کی تعلیم کا بتایا۔ مولانا عطاء الرحمن بنوری ٹاؤن میں فیل ہونے کی وجہ سے بھاگ گئے تھے۔ جبکہ میں شروع سے نصاب کی تعلیمات پر جاندار تنقید کرتا تھا۔
درسِ نظامی کی آخری تفسیر بیضاوی تھی جس میں لکھا ہے کہ ’’ الم کی مراد اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اور یہ بھی کہا گیاہے کہ الف سے اللہ ، لام سے جبریل اور میم سے محمد مراد ہیں۔اللہ نے جبریل کے ذریعے یہ کتاب محمدﷺ پر نازل کی ‘‘۔ میں نے استاذ مولانا شبیر احمد رحیم یار خان سے کہا کہ اس تفسیر میں دو تضاد ہیں۔ پہلا یہ کہ جب صرف اللہ ہی کو پتہ ہے کہ الم سے کیا مراد ہے تو یہ کہنا غلط ہے کہ اس سے یہ مراد ہے اور دوسرا یہ کہ الف اللہ کا پہلا حرف اور مم محمد کا پہلا حرف ہے تو جبریل کا بھی پہلا حرف ہونا چاہیے تھا پھر الف جیم میم کیوں نہیں؟۔ استاد نے کہا کہ عتیق کی بات صحیح اور بیضاوی کی تفسیر غلط ہے۔
اصولِ فقہ کی کتاب ’’اصول الشاشی ‘‘ کا پہلا سبق ہے: حتی تنکح زوجاً غیرہ آیت میں عورت کی طرف نکاح کی نسبت ہے ، لہٰذا جس حدیث میں عورت کا نکاح ولی کی اجازت کے بغیر باطل قرار دیا گیا وہ قرآن کی آیت سے ٹکراتی ہے، اس پر عمل نہیں ہوگا۔ حالانکہ قرآن میں طلاق شدہ کا ذکرہے، قرآن و حدیث میں ٹکراؤ نہیں ۔کنواری کا ولی باپ ہوتاہے، شادی کے بعد شوہر سرپرست بنتاہے، طلاق یا شوہرفوت ہو توعورت خود مختار بنتی ہے۔ وزیراعظم نے زیرِ کفالت افراد میں مریم نواز کا ذکر کیا۔ سپریم کورٹ میں یہ معاملہ زیرِ غور ہے۔ ولی اور مولا کے معنی دوست بھی ہیں اور سرپرست و صاحبِ اختیاربھی عورت کا ولی اس کا والد ہوتاہے یا شوہر ۔ اور دونوں کا تعلق منقطع ہوجائے تو پھر اس کو خود مختار کہتے ہیں۔ ولی کے معنی صرف دوست کے نہیں، قرآن میںیہود و نصاریٰ کو اولیاء بنانے سے روکا گیاہے تو اختیار دینا منع کیا گیاہے، دوستی سے نہیں روکا گیا ہے،والمحصنات من اہل الکتاب حل لکم اوراہل کتاب میں پاکدامن خواتین سے شادی کی اجازت ہے۔
یہود ونصاریٰ کی خواتین سے شادی کی اجازت ہے تو بیوی سے بڑھ کر دوستی نہیں ہوسکتی ہے۔ بیوی بچوں کی ماں ہوتی ہے، اس سے دشمنی تو نہیں کی جاسکتی ۔ دہشتگرد اسلئے مسلم حکمرانوں کو اسلام دشمن سمجھتے ہیں کہ ان کی عیسائی حکمرانوں سے دوستی ہے اور یہ انکے نزدیک قرآن سے بغاوت کا درجہ ہے۔ جب ہمارے علماء اور حکمران طبقہ اسلام کی بنیادی تعلیم سے بھی آگاہ نہ ہو تو اسکے نتیجے میں افراتفری کی فضاء کبھی بھی ختم نہیں ہوگی۔ گھبرانے کی ضرورت نہیں ،کوئی پنڈورہ بکس نہیں کھلے گا۔ مشکل کو قابو کرنیکا درست راستہ علم ہے جہالت نہیں۔ حضرت علیؓ میں تمام صلاحیتیں تھیں اور نبیﷺ کے بعد انصار وقریش کی طرح خلافت کے حقدار ہونے کا معاملہ درست تھا۔ نبیﷺ کی چاہت بھی ٹھیک تھی لیکن یہ منشاء الٰہی نہیں تھی۔ پھر خلافت کے علاوہ مساجد، مدارس ، خانقاہوں پر بھی موروثی نظام کے اثرات مرتب ہوئے۔ خلافت راشدہ کو اللہ نے موروثیت کی بیماری سے پاک رکھنا تھا۔ تمام مذہبی سیاسی جماعتیں، چندہ سے بننے والے ٹرسٹ، مدارس اور سب چیزوں کو عوامی بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اب تو پارٹیاں حکومتوں کو بھی اپنی وراثت بنانے میں مشغول ہیں۔ نواز شریف اور زرداری کے علاوہ دوسرے بھی ریاستی اداروں سے مل کر حکومتی کاروبارپر قبضہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
عدالت اس وقت نااہل تھی کہ جب آصف علی زرداری کو11سال جیل میں رکھا مگر چوری کا مال بھی نہیں پکڑ ا۔ اب تو اس میں اہلیت آگئی ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دیا اور تحقیقات کرکے کرپشن ثابت بھی کی جائے گی اور سزا بھی دی جائے گی۔ یہ بھی یاد رہے کہ ایسا بھی لوگ کرتے ہیں کہ بڑے غبن، چوری اور ڈکیٹی کے بعد کچھ عرصہ جیل جاتے ہیں وہ کاروبار ہی یہ کرتے ہیں۔ عدالت صرف اتنا بھی کرے کہ نوازشریف اور تمام ذمہ دار عہدوں پر رہنے والوں نے باہر اثاثے بنالئے ہوں تو ان کو جائز وناجائز کی بحث سے پہلے اپنی آل اولاد اور دولت سمیت اپنے ملک میں لانے پر مجبور کردے۔
سیاسی کارکن اور سیاسی رہنماؤں کو یہ بھی کر گزرنا ہوگا کہ موروثی قیادت اہلیت بھی رکھتی ہو تو قیادت کسی اور تجربہ کار اور اہل شخص کو سپرد کردی جائے۔ امریکہ میں ایک شخص دو مرتبہ سے زیادہ صدر نہیں بن سکتاہے تو ہمارے ہاں بھی نسل در نسل اس جہالت کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ استعداد والے لوگوں کی بہت حق تلفی ہوتی ہے۔ عمران کا ہسپتال بھی موروثی نہیں ٹرسٹی ہونا چاہیے، مدارس پر بھی موروثیت کا قبضہ ختم کرنا ہوگا اور اس بات میں تفریق ضروری ہے کہ جو ذاتی ملکیت ہوتی ہے وہ کیا ہے اور عوام کا چندہ لیکر بنانے والے اداروں کی حیثیت کیاہے؟۔ کسی آدمی نے اپنی زمین پر اپنے پیسوں سے مسجد بنادی توملکیت ختم ہوجاتی ہے، کانیگرم جنوبی وزیرستان میں میرے باپ دادا نے ایسا کیاہے لیکن اس کا اختیار عوام کے پاس ہے۔
جب انسان میں مفاد کا نہیں خدمت کا جذبہ ہوتاہے تو خدمت پر کوئی لڑائی نہیں ہوتی ہے۔ پیپلزپارٹی، ایم کیوایم اور ن لیگ جھاڑو لیکر صفائیاں شروع کردیں پھر دیکھیں کہ اس پر کوئی جھگڑا نہیں ہوگا۔ اس طرح ایم این اے، سینٹ، ایم پی اے، بلدیاتی اداروں کے کونسلر اور تمام ذمہ دار عہدوں وزیراعظم اور صدر مملکت خدمت کا جذبہ رکھ کر کام کریں تو بہتان تراشی اور اخلاق باختہ گالیوں کی نوبت نہیں آئیگی۔ ماتحت ملازم ڈیوٹی پر مجبور ہوتے ہیں لیکن بڑے گریڈ کے افسروں کو حکومت مجبور نہیں کرسکتی ہے۔ آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ بہت اچھے انسان ہونگے مگر جب صوبائی حکومت کا اختیار بھی ہے اور وہ نہیں چاہتی ہے کہ آئی جی کے عہدے پر وہ کام کرے تو آئی جی کواس خدمت کی کرسی پر لات مارنا چاہیے۔ اس سے ان کی ذات اور عہدے کا وقاربھی مجروح ہورہا ہے۔
نوازشریف کیساتھ اگر اسٹیبلشمنٹ کی کوئی لڑائی ہے تو عوامی اختیار کیلئے حکومت سے زیادہ حکومت سے باہر رہ کر جدوجہد کا آغاز کیا جاسکتاہے۔ عہدے سے چپک جانے میں وہ عزت نہیں جو اس کو ٹھکرانے سے ملتی ہے۔ حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ کو خلافت کی کوئی لالچ نہیں تھی ، ان کا دور بھی بڑے اطمینان سے گزرا۔ امام حسنؓ نے خلافت کی مسند چھوڑی تو اللہ نے عزت سے نوازا۔ جب اللہ تعالیٰ نے انسان پیدا ہی خلافت کیلئے کیا ہے تو کیسے ممکن ہے کہ وہ ذمہ داری اٹھانے سے انکار کردے؟۔ انا عرضنا الامانت علی السمٰوٰت واالارض و الجبال فابین ان یحملنہا و اشفقن منھا وحملھا الانسان انہ کانا ظلوما جہولا ’’بیشک ہم نے امانت کو پیش کیا،آسمانوں زمین اور پہاڑوں پر مگر انہوں نے امانت اٹھانے سے انکار کردیا اور انسان نے امانت اٹھالی، بیشک وہ بڑا ظالم اور جاہل تھا‘‘۔ انسان کو مکلف بنایا گیاہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کو اختیار دیا گیاہے۔ اختیار اس کی جبلت کا حصہ ہے، جتنا اختیار مل جائے اس کو پورا کرنے کیلئے بہت ساروں کی اگر کوئی دم ہوتی تو اٹھائے اٹھائے گھومتے کہ مجھے یہ اختیار چاہیے مگراللہ نے بنی نوع انسان آدم علیہ السلام کی اولاد پر کرم کیا اور عزت سے نوازا ۔ انسان کی عزت اور اختیار اسکے ہاتھ میں ہے اسلئے اللہ نے فرمایا کہ لایکلف اللہ نفس الا وسعہا لہا ماکسبت و علیھا مااکتسبت ’’ اللہ نے کسی نفس کو مکلف نہیں بنایا ہے مگر اسکے دائرے وسعت کے مطابق، پھر وہ اچھا عمل کرتا تو اس کو اجر ملتاہے اور برا عمل کرتاہے تو اس کی سزا بھگت لیتا ہے‘‘۔
اس آیت کا بھی غلط مفہوم نکالا گیا کہ اللہ کسی پر طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا ہے۔ حالانکہ اگلے جملے میں دعاہے کہ ہم پرہماری طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالنا۔ آیات کا غلط مفہوم مرتب کرنے پر ہماری قوم مشکلات کا شکار ہے۔ غریب و مظلوم طبقے انسانیت کے ظلم وجبر اور تشدد کا شکار بنتے ہیں تو کہا جاتاہے کہ اللہ نے جو بوجھ ڈال دیا ہے اس کو برداشت کرنا چاہیے۔
سابق ایم این اے صدیق کانجو کے بیٹے مصطفی کانجو نے بیوہ کے اکلوتے بیٹے کو نشے میں دھت ہوکر قتل کیا تو بیوہ نے سپریم کورٹ کے سامنے اپنی مجبوری بتائی کہ میری بیٹیاں ہیں ان کی عزتوں کو خطرہ ہے اسلئے کیس سے دستبردار ہورہی ہوں مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ ن لیگ کی حکومت کھڑی ہوجاتی اور بیوہ کو انصاف دلاتی تو مخلوقِ خدا خوش ہوتی، اللہ بھی راضی ہوجاتا۔ تحریک انصاف ، پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی سمیت کسی بھی سیاسی ومذہبی جماعت نے اس غریب بیوہ کا ساتھ نہیں دیا۔ طاقتور خاندانوں کے ذریعے جمہوری جماعتوں کو طاقت میں آنا ہوتاہے، اسلئے غریب اور مظلوم عوام بے بسی سے مظالم سہنے کا شکار رہتے ہیں۔
اصول فقہ کی ’’نورالانوار‘‘ میں ثلاثۃ قروء 3ادوار پر ریاضی کی غلط بحث کی گئی ہے۔ عدت کے 3ادوار کا تعلق طلاق کے 3مراحل سے کیسے بنتاہے؟۔ رسول اللہ ﷺ نے ابن عمرؓ پر ناراضگی کا اظہار کیا، اور قرآن میں عدت کے تین ادوار میں تین مرتبہ طلاق کے مراحل سمجھائے۔ اگر اس حدیث کو قرآن فہمی کیلئے بنیاد بنایا جاتا تو طلبہ، علماء، عوام کے دماغ کھل جاتے۔ حضرت عمرؓ نے اسلئے اپنے بیٹے کو خلافت کیلئے نااہل قرار دیکر فرمایا کہ’’ اس کو طلاق کا بھی پتہ نہیں تو خلافت کے امور کیسے چلائے گا‘‘۔علماء ہمیشہ سے نااہلی کا شکار اسی لئے رہے کہ طلاق کے مسئلے میں بھی مار کھاگئے تھے، وزیراعظم کو مریم نواز کے زیرسرپرستی کا پتہ نہ تھا تو کاروبارِ حکومت کیلئے ان کی اہلیت الیکشن کمیشن نے کیسے تسلیم کرلی؟، الیکشن کمیشن کے اس ذمہ دار عملے کوبرطرف کیا جائے تومیرٹ پر بھرتی کرنے کے موقع بھی پیدا ہونگے۔

ہاروت ماروت اور یاجوج ماجوج کاعجیب ذکر خیر

mufti-taqi-molana-fazal-ur-rehman-maulana-ashrf-memon-haroot-maroot-yajooj-majooj-halala-triple-talaq-syed-atiq-ur-rehman-gailani

fatwa-Darul-uloom-korangi-karachi-mufti-taqi-usmani

ہاروت ماروت اور یاجوج ماجوج کاعجیب ذکر خیر

یہ ضمیر کے سوداگرجادوگر کب ہونگے دنیا میں اجاگر

ہاروت ماروت فرشتے تھے جو لوگوں کو جھاڑ پھونک سکھاتے تھے، میاں اور بیوی میں جسکے ذریعے تفریق ہوجاتی اور وہ بتاتے تھے کہ ہم فتنہ ہیں اور اس کی تاثیر سے کسی کو نقصان نہیں پہنچتا مگر اللہ کے حکم سے۔ جن علماء نے قرآن وسنت کا تقاضہ سمجھ کر طلاق کے غلط تصورسے میاں بیوی میں جدائی کرائی، وہ محترم ہیں لیکن اگر قرآن وسنت میں ایسا نہ ہو اور حقائق واضح ہونے کے بعد بھی ناجائز تفریق اور حلالہ کا فتویٰ جاری رکھیں تو ایسی ہٹ دھرمی پر حکومت، اپوزیشن اور میڈیا اپنا کردار ادا کریں۔ جنگ گروپ کے مفتی حسام اللہ شریفی صاحب کی طرف سے طلاق اور حلالہ کے مسئلے پر وضاحتیں آچکی ہیں،اسلئے GEOپر یہ اہم مسئلہ ضرور اٹھایا جائے، تاکہ اخبارِ جہاں اور روزنامہ جنگ میں غلطیوں کا ازالہ ہوجائے۔ARY، آج، دنیا، بول، پاک، نیوز1،24، 92 ،DAWNودیگر چینلوں پر اس اہم ا یشو کو اٹھانے کی ضرورت ہے۔ علماء کرام نے پہلے تائید کرکے ثابت کیا کہ وہ بہت زیادہ قابل احترام ہیں۔
ہمیں کوئی شوق نہیں کہ بڑے علماء ومفتیان کی تذلیل کریں مگر جن خواتین کو ناجائز حلالے کے فتوے دئیے جاتے ہیں وہ ہماری مسلمان مائیں، بہنیں، بیٹیاں ہیں۔ ہماری غیرت گوارا نہیں کرتی کہ خاموش رہیں۔علماء کرام کو خاموشی کا روزہ توڑنے کی ضرورت ہے ورنہ ہم سپریم کورٹ کی عدالت میں فریق بناکر طلب کریں گے۔ دارالعلوم کراچی کے فتویٰ میں البقرہ:230 کا حوالہ ہے مگر متصل آیت:229 میں دو مرتبہ طلاق اور تیسری مرتبہ چھوڑنے کا بھی ذکرہے اورباہوش وحواس دونوں اور فیصلہ کرانے والوں کی طرف سے جدائی کی وضاحت ہے، عورت کی طرف فدیہ حلال نہ ہونے کے باوجوداس صورت میں جائز ہے کہ دونوں کو آئندہ رابطہ کرنے پر اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا خوف ہو۔ اس طلاق کا تعلق اس سے متصل صورتحال سے ہے ۔ علماء اللہ کے حدود کو توڑکر فتویٰ دیتے ہیں۔ آیات228اور231،232میں بھی عدت کے اندر اور عدت کے بعد باہمی رضا سے رجوع کی وضاحت ہے اور حدیث میں عدت کے اندر حلالہ کے انتظار کا فتوی نہیں۔
ایک طرف دارالعلوم کراچی کی شائع کردہ کتابوں میں شادی بیاہ میں لفافے دینے کی رسم کو سود اور اسکے 70سے زیادہ وبال اور گناہوں میں کم ازکم گناہ ماں کیساتھ زنا کے برابر قرار دیاگیاہے،جسکے خلاف انکے اپنے عقیدت مند بھی عمل پیرا ہیں۔ معروف تاجر محمود رنگون والا کے ہاں بھی یہ رسم جاری ہے، جہاں اشرف میمن کی مفتی رفیع عثمانی سے ملاقات ہوئی۔

Ashraf-memon-mufti-rafee-usmani

دوسری طرف سارے مدارس والے موجودہ نام نہاد اسلامی بینکاری کو سود قرار دیتے ہیں لیکن یہ لوگ معاوضہ لیکر جواز کے فتوے جاری کئے ہوئے ہیں۔ ضمیر کے سوداگرجادوگر کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے یایہ سب کچھ اللہ پر ہی چھوڑدیں؟۔
شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی و مفتی اعظم مفتی رفیع عثمانی علم وسند کے اعتبار سے ماشاء اللہ دونوں کی شہرت خوب ہے۔ ہاروت و ماروت فرشتے ، جھاڑ پھونک سے ’’ میاں بیوی کے درمیان تفریق کرتے تھے، اللہ کی طرف سے وہ فتنہ تھے‘‘۔حلالہ کی ضرورت نہ ہوتو اسکی نشاندہی ضروری ہے۔ یاجوج و ماجوج کا کام یہ بتایاگیاہے کہ ہر بلندی سے پستی کی طرف آئیں گے سب چیزیں چٹ کر جائیں گے۔ اللہ نے کسی عالم کے بارے میں فرمایا ’’ اسکے پاس علم تھا ، اگر ہم چاہتے تو اس کو علم کے ذریعے بلندی وعروج کی منزل پر پہنچاتے مگر اس نے زمین کی پستی کو پسند کیا ۔ اس کی مثال کتے کی ہے ، اگرآپ اس پر بوجھ لاد دیں، تب بھی ہانپے اور چھوڑ دیں، تب بھی ہانپے ‘‘۔
اگر عالم دین اپنے علم کا درست استعمال کرے تو اللہ ترقی وعروج عطا فرماتا ہے اور جو بھی اپنے علم کا غلط فائدہ اُٹھاکر زمین کی زندگی کو دائمی سمجھ لیتاہے تو اس کی مثال پھر کتے کی طرح بن جاتی ہے۔ مذہب کوکاروباربنادیا جائے توچندہ، زکوٰۃ، صدقہ، خیرات، فتویٰ فروشی اور حلالہ کی لعنت کے ذریعے انسان ہر بلندی سے پستی کا سفر کرتاہے ،جو ہرچیز چٹ کرجاتاہے۔ یاجوج اور ماجوج کا کردار ان علماء کابھی ہوسکتاہے جن کا سفر بلندی سے پستی اور ہر چیز چٹ کرجانے کا ہو۔سنریہم آےٰتنا فی الآفاق و فی انفسہم عن قریب ہم اپنی نشانیاں آفاق اور انکے نفسوں میں دکھائیں گے۔ اللہ کی آیات آفاق اور انفس کی موجودہ دنیا میں ہم بھی پاسکتے ہیں۔
مولانا یوسف بنوریؒ نے فتویٰ فروشی اور مذہب کو کاروبار بناکر کسی مفاد کو ترجیح نہ دی ۔ مولاناسیدعطاء اللہ شاہ بخاریؒ ، مولانا الیاسؒ ، مولاناتھانویؒ ، مدنیؒ ، سندھیؒ ، کشمیریؒ ، شیخ الہندؒ گنگوہیؒ ، نانوتویؒ اورانکے مرشد حاجی امداد اللہ مہاجرمکیؒ سے اختلاف ہوسکتاتھا، انکا آپس میں بھی تھا مگرانکے خلوص وایمان پرخود غرضی و دنیا طلبی کی تہمت نہیں لگائی جاسکتی ۔ مذہب فروشوں کو ا نکے بلند مقام کی جانشینی کا دعویٰ نہیں اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔ کہاں وہ اللہ والے ؟، کہاں یہ مفاد پرست؟۔ مؤمن کاتعارف یہ ہے: ان اللہ اشتریٰ من المؤمنین انفسہم واموالہم بان لہم الجنۃ ’’بیشک اللہ نے مؤمنوں سے جنت کے بدلے ان کی جانیں اور اموال خرید لئے‘‘ وہ مذہبی طبقے جو اپنی جان و مال کے بدلے اللہ سے جنت کا سودا کئے بیٹھے ہوں، انکا ادراک کرنامشکل کام نہیں۔ صحابہؓ ، علماء ومشائخ ؒ اور مجاہدینؒ کی قربانیوں سے تاریخ بھری پڑی ہے دوسرا وہ مذہبی طبقہ ہے جس کا یاجوج ماجوج کی طرح عروج سے پستی کاسفر تھا: ولاتشتروا بآےٰتی ثمناً قلیلاً وایای فاتقون۔’’ اور میری آیتوں کو تھوڑی سی قیمت کے بدلے مت بیچواور مجھ سے ڈرو‘‘۔ حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کی تجدید واحیائے دین میں مدارس، خانقاہوں اور تبلیغی جماعت کے کردار کو دنیا نظر انداز نہیں کرسکتی لیکن کیا یہ سب کچھ اسلئے تھا کہ بڑی داڑھیاں رکھ کر، مذہبی لبادے اور عالیشان مذہبی عمارتیں بناکر دین کی حفاظت ، عوام کی عزتوں کی حفاظت اور اپنی آخرت کی حفاظت کے بجائے اپنے پیٹ کی آگ بجھائیں؟۔ اور جہنم کی طرح ہل من مزید ’’کیامزید بھی ہیں‘‘کی آواز لگائیں؟۔چندہ کی بے تحاشا مہم سے یاجوج ماجوج کا منظر دکھائی دے، غریب و مستحق عوام تک خیرات، صدقہ ، فطرہ اور زکوٰۃ کی رقم نہ پہنچے؟ ۔ یہ بلندی نہیں پستی کا سفر ہے، اُوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ اپنے لئے مانگنا بھی برا ہے تو دین کے نام پر دنیاوی مقاصد حاصل کرنا زیادہ بدتر ہے بنوری ٹاؤن کے افتتاحی تقریب میں کہا جاتا ’’ دنیا کو دنیا کی راہ سے حاصل کرنا برا نہیں۔ دین کو دنیا کا ذریعہ بنانا بہت برا ہے۔ طلبِ دنیا ہو تو مدرسہ چھوڑ دو۔‘‘
حاجی عثمانؒ کے مرید وں کا آپس میں بھی نکاح پر فتوی پوچھاگیاتو جامعہ بنوری ٹاؤن نے فتویٰ دیاکہ ’’منسوب باتیں غلط ہیں تو فتویٰ نہیں لگتا، نکاح تو بہر حال جائز ہے‘‘۔ مفتی عبدالسلام چاٹگامی اور مفتی ولی حسن ٹونکیؒ کے تائیدی دستخط تھے۔ دارالعلوم کراچی سے سوال تھا کہ نکاح منعقد ہوجائیگا یا نہیں؟۔ مفتی تقی عثمانی ورفیع عثمانی نے لکھا ’’ نکاح منعقد ہوجائیگا،مگربہتر ہوگا کہ انکے بارے میںآگاہ کردیں‘‘۔ مفتی رشیداحمد لدھیانوی کے ہاں سے سوال جواب ایک ہی قلم سے لکھا گیا کہ’’ اس نکاح کا انجام کیا ہوگا؟ عمر بھر کی حرامکاری اور اولاد الزنا‘‘۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکیؒ نے سابقہ فتوے کیخلاف دستخط کردئیے جو ایک مجذوب و معذور شخصیت تھی اور مفتی تقی عثمانی و رفیع عثمانی نے لکھ دیا کہ’’ نکاح جائز نہیں ،گو منعقد ہوجائے‘‘۔ میں نے دارالعلوم کراچی میں نماز مغرب اور جامعہ بنوری ٹاؤن میں نمازِ عشاء کے بعد اعلانیہ فتویٰ چیلنج کیا۔ تبلیغی جماعت کی تربیت نے اعلان اور مجدد ملت حضرت حاجی عثمانؒ کی صحبت نے ایمان سکھا یاتھا ۔ جائز نکاح کو حرامکاری کہا جائے تو جسکے سینے میں دل ہو وہ کتنا تڑپ اُٹھے گا؟۔ ایک خاتون نے بارگاہ رسالت ﷺ میں جرأت کرکے مجادلہ کیا تو وحی کے ذریعے فتوے کی دنیا میں ایسا انقلاب آیا جو قیامت تک قرآن کے سینے (28پارہ سورۂمجادلہ)میں وضاحت کیساتھ محفوظ رہے گا۔ بے خبر علماء ومفتیان! اس کو ذرا دیکھ لیں۔
سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے فرمایا:’’ جان پر آئے تو مال کی قربانی دیدو۔جان سے زیادہ مال قیمتی نہیں مگرعزت جان سے بھی زیادہ اہم ہے۔ عزت کیلئے جان اور مال دونوں قربان کردو۔ معاشرتی اقدار یہی ہیں کہ عزت پر جان کی بھی بازی لگائی جائے۔ ایمان کا درجہ سب سے اُونچا ہے، جب ایمان پر بات آئے تو جان، مال اور عزت سب کو ایمان پر قربان کیا جائے‘‘۔یہی دستور ہے ورنہ اوندھے منہ نماز میں رکوع اورسجدے بہت مشکل ہوتے۔
طالبان ، القاعدہ، لشکر جھنگوی، داعش اور ساری انتہاپسند تنظیموں کیلئے یہ اقوال زریں کا بہت بڑا اثاثہ ہے جس کا ذکر قرآن میں بھی جابجا ہے، ایمان کیلئے ایک خود کش حملہ آور اپنی جان کی بازی اسی لئے لگاتاہے کہ ایمان سے زیادہ قیمتی چیز کا کوئی تصور نہیں۔ ایک نوجوان شادی شدہ کا سال، ڈیڑھ کیلئے تبلیغی جماعت میں جانا خود کش حملے سے زیادہ مشکل کام ہے لیکن وہ اپنے ایمان کیلئے یہ قربانی دیتاہے اور دنیا ومافیہا کو چھوڑ کر مذہبی علوم کی خدمت اور صوفیانہ روحانی ماحول کیلئے وقف ہوجانا تبلیغی جماعت میں سال اور ڈیڑھ سال لگانے سے بھی زیادہ بھاری اور دشوار کام ہے۔ مذہبی لوگ اپنے تئیں جو جان ومال اور وقت کی قربانیاں دیتے ہیں وہ یقینابہت زیادہ خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ ان کے پاؤں کی گرد کو خاکِ شفاء سمجھ کردھو کرپیا جائے تو بڑی سعادت ہے ، وہ سفلی جذبہ سے انسان کو پاک کرکے بلند وبالا مقام تک پہنچادیتے ہیں۔
اللہ انسان کو احسن تقویم کا اعزاز دینے کے بعد اسفل السافلین کے نچلے درجہ پر پہنچا دیتاہے مگرایمان وعمل صالح بچنے کا ذریعہ ہے لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم ثم رددناہ فی اسفل سافلین الا الذین امنوا وعملوا الصالحات فلھم اجر غیر ممنون فما یکذبک بعد بالدین أالیس اللہ باحکم الحاکمین
انسان اپنے مذہبی طبقات ہی کے ذریعے ممکن سمجھتا ہے کہ ایمان و عمل صالح کی دہلیز پر پہنچ کرنچلے درجے کی انسانیت اور ہمیشہ کیلئے جہنم سے وہ اپنے رہنماؤں کی بدولت ہی بچ سکتاہے۔ایمان کی دولت سے زیادہ قیمتی سوغات کا تصور کوئی مذہبی طبقہ نہیں رکھتا ہے۔
خود کش حملہ قربانی ہے، اس سے بڑھ کر قربانی یہ ہے کہ نوجوان بیوی بچوں کو چھوڑ کر سال ، ڈیڑھ کیلئے تبلیغی جماعت میں نکلے اور اس سے بڑی قربانی یہ ہے کہ کوئی اپنی دنیا کو قربان کرکے علم وتصوف کیلئے ہی وقف ہو۔ جان دینا شہید کی قربانی اور جان کھپانا صدیق کی قربانی ہے ۔ انبیاء کرام ؑ کے بعد صدیقین و شہداء اور صالحین کا درجہ ہے۔ صالحین بہت ہیں لیکن صدیقین اور شہداء کا درجہ کسی کسی خوش قسمت اور بڑے نصیب والے کو ہی ملتاہے۔ صالح بندوں سے محبت رکھنا بھی ایمان کی علامت ہے۔ عربی شاعر نے خوب کہا ہے کہ
اُحب الصالحین ولست منھم
لعل اللہ یرزقنی صلاحا
’’ میں نیک لوگوں سے محبت رکھتا ہوں مگر خود ان میں سے نہیں ہوں۔ ہوسکتاہے کہ اس کی برکت سے اللہ میری اصلاح کردے‘‘۔ اصلاح کوئی معمولی بات نہیں ۔ حدیث کے حوالہ سے علماء نے لکھا کہ ’’ اللہ امام مہدی علیہ السلام کی اصلاح ایک رات میں فرمادیگا‘‘۔ اہل تشیع اور اہل سنت کے مذہبی طبقوں سے معذرت کیساتھ وہ کونسی قربانی ہوسکتی ہے جو علماء ومشائخ، صالحین، مجاہدین، شہداء اور صدیقین سے بھی بڑھ کر ہو؟، اپنے گریبان اور بند قباؤں کو چاک کرکے دل پر ہاتھ رکھ کر بتاؤ کہ ایک تبلیغی جماعت کا کارندہ نصاب کے مطابق زندگی بھر اپنے معمولات جاری رکھے تو یہ بڑی ہے یا یہ بڑی قربانی ہے کہ یکم دم تین طلاق دینے پراپنے بچوں کی ماں کو ایک رات، ایک گھنٹہ اور ایک لمحہ حلالہ کی غرض سے پیش کردے؟۔ ایک مجاہد جان کی قربانی دیکر بڑی قربانی دیتاہے یا اگر وہ حلالہ کیلئے اپنی ماں کو پیش کردے؟ اور ایک عالم ومفتی اور شیخ الطریقت زندگی وقف کرنے سے بڑی قربانی دیتاہے یا یہ کہ اس کی بال بچوں والی بیٹی کو ایک رات کیلئے حلالہ کی لعنت کا سامنا کرنا پڑے تو بڑی قربانی ہے؟۔ لوگ ایمان کی خاطر حلالہ کی قربانی تک دیتے ہیں لیکن عزت دیکر اجر وثواب کے مستحق بنتے ہیں یا لعنت ملامت اور دنیا و آخرت کی تباہی مول لیتے ہیں؟؟؟۔ جسکے پاس ضمیر، غیرت اور عزت نام کی کوئی چیزہو، وہ بغیر جواز کے حلالہ کا کبھی کوئی فتویٰ دینے کا تصور نہیں کرسکتا لیکن جس نے ضمیر کھودیا ہو اس کا کچھ نہیں کہہ سکتا۔
ایمان کیلئے عزت کی بڑی قربانی دیکر بھی ایمان محفوظ رہ سکتاہے تو ضرور فتویٰ دیجئے۔
دارالعلوم کراچی کے محمود اشرف عثمانی نے فتویٰ میں اضافہ کیا کہ ’’ ورنہ نکاح ممکن بھی نہیں ‘‘۔ یہ واضح ثبوت ہے کہ علمی صلاحیت سے محروم جدی پشتی جاہل طبقہ تیسری نسل میں یہانتک پہنچ چکاہے کہ ممکن و ناممکن نکاح اور الفاظ و جملے کی تمیز سے بھی عاری ہے۔حلالہ سازشی نکاح ہے، دیگر مسالک اسکے ذریعے حلال ہونے کے قائل نہیں مگر حنفی مسلک کی خاص رعایت سے نکاح بہرحال نکاح ہے، سازشی ہو یا مستقل؟۔ بعض عدت کی شرط کا لحاظ رکھے بغیر نکاح ودخول کے ذریعے حلالہ کردیتے ہیں تو حنفی اصولوں سے جاہل علماء ومفتیان کا طبقہ یہ نہیں مانتا، حالانکہ نکاح کی قیدبھی محض تکلف ہے اسلئے کہ حنفی مسلک میں زنا بھی نکاح ہے۔ نکاح کیلئے سازشی گواہ اور سازشی ملا کی ضرورت نہیں۔ رسول ﷺ نے نکاح کا اعلان دعوت ولیمہ سے کیا،(بخاری) علامہ ابن رشدؒ نے کتاب ’’ بدایۃ المجتہد نہایۃ المقتصد‘‘ میں لکھاہے کہ امام حسنؓ کے نزدیک نکاح کیلئے گواہ شرط نہیں۔ البتہ اس کا اعلان ضروری ہے، حضرت ابن عباسؓ نے حدیث روایت کی ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ’’ نکاح کیلئے دوعادل گواہ مقرر کردو‘‘۔ حنفیوں کے نزدیک یہ خبر واحد حدیث معتبر نہیں ہے۔ نکاح کیلئے دو فاسق گواہ بھی کافی ہیں۔ قرآن و حدیث کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے؟۔ جبکہ قرآن میں عدت کی تکمیل پر دو عادل گواہوں کا حکم ہے ۔ جو کوئی خبر واحد حدیث بھی نہیں مگر حلالہ کی لعنت کے خاتمے کیلئے قرآن کو معتبر کہا تو اپنے آباء اجداد کے کرتوت کا کیا بنے گا؟۔
فقہ کی کتابوں میں اس پر بحث ہے کہ اگر عدت میں عورت نے شادی کرلی اور دوسرے نے بھی طلاق دیدی تو عورت کی عدت ایک ہوگی یا دو عدتیں گزارنی پڑیں گی؟۔ہم حلالہ کا وہ شرعی مسئلہ فقہ کی کتابوں سے ثابت کرینگے کہ عدت وانتظار کی بھی کوئی ضرورت نہ ہوگی، لیکن جب قرآن وسنت میں حلالہ کے بغیر بھی رجوع کرنے کی نہ صرف گنجائش ہو بلکہ اس کی بار بار وضاحت کی گئی ہو تو حلالہ کا فتویٰ دینا بڑا سخت جرم ہے۔ ہم نے کتاب ’’ابر رحمت‘‘ اور ’’تین طلاق کی درست تعبیر‘‘ میں تفصیل سے وضاحت کردی۔ پھرکتابچہ ’’ تین طلاق سے رجوع کا خوشگوار حل ‘‘ بھی پیش کردیا ہے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے مظفر گڑھ کے واقعہ پر ازخود نوٹس لیامگر حلالہ پنچایت کے فیصلے سے زیادہ سنگین ہے۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں بینچ نے ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے فیصلہ دیا ’’ طلاق کا تعلق الفاظ سے نہیں بلکہ باقاعدہ پراسیس مکمل کرکے طلاق دی جاسکتی ہے، لہٰذا بیوی کو خرچہ دیا جائے‘‘۔ سورۂ طلاق میں بھی پراسیس مکمل کرکے دوعادل گواہوں کومقرر کرنیکا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ دنیا کو ہماری ریاست کی جہالت کا کیسے پیغام جاتاہے کہ خرچہ کیلئے برسوں سے طلاق معتبر نہیں مگر ریاستی نظام ایسا ہے کہ قرآن وسنت کے خلاف جاہل مفتیوں کو جاہل عوام کی عزتیں لوٹنے کیلئے کھلا چھوڑ دیاہے؟۔ دارالعلوم کراچی کا یہ فتویٰ قرآن وسنت کیساتھ تودجل ہے ہی، علاوہ ازیں سپریم کورٹ کے فیصلے کی بھی توہین ہے۔ مذہبی جماعتیں ، مدارس، عدالتیں ،عوام جب تک حلالہ کی لعنت سے چھٹکارا نہیں پالیتے ہیں ، ان میں کوئی غیرت نہیں جاگ سکتی ہے۔ میڈیا چینل پر بھی اس کو اہمیت نہیں دی جاتی ہے، سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اخبار جہاں جنگ گروپ کے مفتی حسام اللہ شریفی مدظلہ کی طرف سے حلالہ کی مخالفت کے باوجود جنگ و جیو والے ان کو اجاگر نہیں کرتے ہیں۔ میڈیا کی شامت اسی وجہ سے آسکتی ہے۔ ہر دم بک بک کرنیوالے میڈیا کو فرصت نہیں۔

پنچایت کا 17 سالہ لڑکی کے ریپ کے فیصلے سے بدتر حلالہ کے فتوے ہیں. عتیق گیلانی

-mufti-taqi-molana-fazal-ur-rehman-maulana-maududi-Multan-on-panchayat's-orders-syed-atiq-ur-rehman-gailani

درجہ بالا تصویر میں مظفر گڑہ کا واقعہ ہے، 17سالہ لڑکی سے پنچایت نے بطور بدلہ ریپ کا فیصلہ کیا، چیچہ وطنی میں بھی 14سالہ لڑکی کا نکاح اس شخص سے بدلے میں کروایا جس کی بیوی سے زیادتی کی گئی۔ بادی النظر میں پنچایت کے فیصلے کا انسانیت کی توہین ہونا روزِ روشن کی طرح واضح ہے مگر اس کی وجوہات تک پہنچنا بھی ضروری ہے کہ آخر انسانیت کی روپ میں اتنا بڑا ظلم پنچایت کے فیصلے میں کیسے ممکن ہے کہ ایک انسان کے جرم کی سزا دوسری بے گناہ خاتون کو دی جائے؟۔
شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی اور مولانا فضل الرحمن کو میڈیا میں چیلنج دیتا ہوں کہ قرآن و سنت ،درسِ نظامی اور فقہ حنفی کی واضح تعلیمات کے مطابق ایک ساتھ تین طلاق کے باوجود باہمی رضامندی سے رجوع کی گنجائش ہے حلالہ کی نہیں لیکن پھر بھی حلالہ کا ناجائز فتویٰ دیا جاتاہے۔ جو معاشرہ قرآن اور سنت کا پابند ہو ، پاکستان کے آئین میں بھی اس کی وضاحت ہو اور قرآن وسنت میں بار بار باہمی رضامندی سے رجوع کا حکم دیا گیا ہو مگر قرآن وسنت واضح ہوجانے کے بعد بھی کوئی ہٹ دھرمی پر قائم ہو اور جاہل لوگوں کو حلالے کا فتویٰ دے تو اس کا کیا علاج ہونا چاہیے؟۔ برما کے مظالم پر آواز اٹھانے والے یہ نہیں جانتے کہ دارالعلوم کراچی سے عزت کی تباہی کا سلسلہ کیوں نہیں رک رہاہے؟۔ مولانا فضل الرحمن قرآن اور سنت کے علاوہ عزتوں کو تحفظ دینے میں اپنا کردار ادا کرے، چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب اور جسٹس آصف سعید کھوسہ حلالے کے گھناؤنے فتوؤں کا نوٹس لیں۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی آیاہے کہ’’ طلاق کا تعلق الفاظ نہیں پراسیس کیساتھ ہے‘‘۔ یہ دین، انسانیت اور سپریم کورٹ کی بھی توہین ہے۔

جاوید غامدی کا بیان قرآن نہیں بکواس ہے. اجمل ملک

hazrat-nooh-mufti-taqi-molana-fazal-ur-rehman-maulana-maududi-javed-ahmed-ghamidi-ghulam-ahmed-pervez-ghulam-ahmed-qadiani-islamic-scholars-triple-talaq-quran-syed-atiq-ur-rehman-gailani

نوشتۂ دیوار کے ایڈیٹر محمداجمل ملک نے کہا ہے کہ ہماری کوشش ہے کہ کسی طرح سے حقائق واضح ہوجائیں۔ مساجد کے علماء کرام جو درسِ نظامی کے فاضل ہوتے ہیں،ان کو حق بات کا اعتراف کرنے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہوتی۔اسکے برعکس مذہب کے نام پر اپنی دکانیں چمکانے والوں نے بھی لگتاہے کہ مذہب کو معاش کا ذریعہ بنالیا۔اجمل ملک نے جاوید غامدی کے ویڈیو لنک کے ذریعے بیان کا تعاقب کرتے ہوئے پڑھے لکھے جاہلوں کو اس حقیقت سے آگاہ کرنے پر زور دیاہے کہ جاوید غامدی کو ہماری میڈیا میں بڑی حیثیت دی جاتی ہے۔ قرآن پر اسکی معلومات کو سند سمجھا جاتاہے مگر اسکا بیان حقیقت کے کس قدر منافی ہے کہ ’’اور میں محض تفنن طبع کیلئے نہیں کہہ رہا ۔قرآن مجیدکہتا ہے تلک ایام ندالہا بین الناس ہم دنیا کے اقتدار کو ایک لائن میں کھڑا کرکے ایک کے بعد دوسری قوم کو دے رہے ہیں۔ یہ آخری زمانہ ہے، قرآن نے بتایا ہے کہ حضرت نوحؑ کے تیسرے بیٹے یافس کے پاس حکمرانی ہوگی۔ پہلے انکے پہلے بیٹے حام کی نسلوں افریقی اقوام کے پاس حکمرانی رہی۔ دوسرے دور میں دوسرے بیٹے سام سمیٹک نیشن کے پاس اقتدار رہاہے اور اب یہ یافس کی اولاد ہے جو امریکہ آسٹریلیا ، یورپ،وسط ایشیاء میں اور ہندوستان میں بڑی حد تک آباد ہیں۔ تو اللہ نے اپنے اسٹیج پر اب ان کو موقع دے رکھاہے، مسلمان قومیں اپنا وقت لے چکی ہیں،یہ آپکے سوال کے ایک حصے کا جواب‘‘۔
جاوید غامدی کو ہم سازشی ، ایجنٹ اور دغا باز نہیں کہتے۔ ریٹائرڈ کی عمر تک پہنچنے کے بعد اچھے اچھوں کی دماغی صلاحیت بھی ختم ہوجاتی ہے۔ یہ قرآن ہی کی بات ہے۔ اگر دنیا میں ہندوؤں کو بھرپور غلبہ ملتا تو پھر جاوید غامدی یہ بھی کہتا تھا کہ حضرت نوحؑ کا جو بیٹا کنعان دریا میں غرق ہوا تھا، یہ ہندو اسی کی اولاد ہیں ، جس کی نئی جنم سے اللہ نے اقتدار کا وعدہ پورا کردیا، یہ قیامت تک اقتدار میں رہیں گے، ہم اچھوتوں کا کام یہ نہیں کہ اقتدار کی منزل تک پہنچیں بلکہ ہم اپنے نام کیساتھ عربی قبیلہ غامدیہ کی طرح غامدی لگادیں اس سے زیادہ کچھ نہ ہوگا۔یہ پست ذہنیت کی علامت ہے۔
جہاں تک قرآن کی بات ہے تو نوحؑ کی اولاد میں نمایاں حضرت ابراہیم ؑ تھے، جن کی اولاد کیلئے امامت کی دعااور ظالم نہ ہونے کی شرط پر دعا کی قبولیت کا ذکر قرآن میں ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کے ایک بیٹے اسحاقؑ سے بنی اسرائیل تھے، یوسف ؑ کو بھی اقتدار ملا تھا۔
حضرت داؤدؑ اور حضرت سلیمانؑ کو اقتدار ملا تھا اور قریش مکہ نبیﷺ کی بعثت ہوئی ، دنیا کی سپر طاقتوں کو خلافت نے شکست دیدی تھی اور یہ سب حضرت ابراہیمؑ کی اولاد تھے۔ایک بادشاہ جو لوگوں سے زبردستی بیوی چھین لیتاتھا وہ حضرت نوحؑ کے کسی اور بیٹے کی اولاد تھا۔ جواہل فرعون بنی اسرائیل کے مردوں کو ذبح کرتے تھے وہ کوئی اور نسل تھی۔ بنی اسرائیل کو بنی اسماعیل سے بھی جدا کرنا بھی غلط ہے۔
کوئی جھوٹ بولے تو بھی کسی ڈھنگ سے بولے۔ مذہب ایک ایسا حربہ ہے کہ اس میں جھوٹ کی بھی کوئی حد اور ڈھنگ نہیں۔ جاوید غامدی کا بے ڈھنگے جھوٹ میں اس طرح بڑی ڈھٹائی سے اظہار اور میڈیا کا اس کو کوریج دینا انتہائی افسوسناک ہے۔ سیاسی لوگ بے ڈھنگے لگتے ہیں جب سندھی اجرک، بلوچی وپٹھانی پگڑی اور چترالی ٹوپی عوام کو مانوس کرنے کیلئے پہنتے ہیں۔ شہباز شریف پیٹرول کی آگ میں جلنے والوں کے پاس بھی انگریزی ہیڈ پہن کر اسلئے گیا کہ جاویدغامدی کے بیان سے خود کو یافس کی اولاد سمجھتا ہوگا۔ مریم نواز بھی کہتی ہے کہ ’’ ہم حکمران خاندان ہیں‘‘۔
جاوید غامدی نے مزید کہاہے کہ ’’پاکستان پر اللہ نے جن کو حکومت کیلئے منتخب کیاہے۔ وہ تین چار سو خاندان ہیں اور ان کی اولادہیں۔ ایک لمبے عرصے تک یہی رہنا ہے، جب تک ایجوکیشن نہیں بڑھے گی، بہت سے حالات نہ ہونگے تو کوشش کریں کہ یہ کچھ تھوڑے دیندار ہوجائیں، کچھ اخلاقی چیزوں کو مان لیں، لیکن لوگ الٹی کوشش کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ مسجد کے مولوی کو ایوانِ اقتدار میں پہچانا ہے‘‘۔
حالانکہ جاوید غامدی یہ سب کچھ غلط بول رہا ہے۔ مفتی محمودصاحب مسجد کے مولوی تھے مگر اپنی صلاحیتوں سے وزارت اعلیٰ کے منصب پر پہنچ گئے، نوازشریف کا باپ صنعتکار تھااگروہ جنرل ضیاء الحق کی ڈکیٹیر شپ کا سہارا نہ لیتا تو اقتدار کی اہلیت بھی اس میں نہیں تھی، آج بھی اس سے لوٹی ہوئی دولت واپس لی جائے تووہ اور اس کی اولاد اور خاندان میں کچھ صلاحیت نہیں ہے۔جنرل ضیاء الحق، پرویزمشرف اور بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح وغیرہ کا کونسا اقتدار والا خاندانی بیک گراؤنڈ تھا؟۔
جاید غامدی قرآن اور جمہوریت کے نام پر درس دینے کے بجائے پہلے اپنے دماغی علاج کا کوئی بندوبست کریں۔ قرآن اور تاریخ کی موٹی موٹی باتوں کا بھی اس کو علم نہیں ہے اور جمہوریت سے بھی واقف نہیں۔ کسی ادارہ میں پروفیسری کی اور پھر شاید ریٹائرمنٹ کا دکھ لیکر بیٹھ گئے۔ قرآن کہتاہے کہ انسان ایسی عمر کو پہنچ جاتاہے کہ جب وہ علم کے بعد کچھ نہیں سمجھتا۔ ومنھم من یرد الی ارذل العمر لکی لا یعلم بعد علم شئیاً ’’ اور ان میں سے بعض اس رذیل عمر تک پہنچتے ہیں کہ علم کے بعد کچھ سمجھ نہیں رکھتے‘‘۔ افراد ریٹائر ہوتے ہیں، مر جاتے ہیں اور نیست ونابود ہوجاتے ہیں مگر قوموں کے عروج وزوال کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہتاہے جبتک دنیا میں موجود ہوں۔ قرآن مایوس لوگوں کو کافر قراردیتا ہے قرآن مردہ قوموں کو زندگی کی نعمت عطا کرتا ہے، قرآن گری ہوئی قوموں کو عروج بخشتا ہے ۔قرآن دنیا وآخرت کی کامیابی کا ضامن ہے۔ قرآن اللہ پر ایمان دیتا ہے، قرآن موسیٰ کو فرعون سے ٹکرانے کی دعوت دیتاہے تاکہ بنی اسرائیل کو غلامی سے بچائے ، ظالموں کے سامنے لیٹنے کی دعوت قرآن نے نہیں دی ہے، قرآن نے مکہ مکرمہ کے غلاموں حضرت بلالؓ وغیرہ کو ابوجہلوں اور ابولہبوں سے ٹکرایا تھا۔
بدر واحدکے غزوے اور صلح حدیبیہ کا معاہدہ گواہ ہے کہ جاوید غامدی پرلے درجہ کا جاہل ، مکار اور بکواسیہ ہے۔ اگر حکومت اسکے ساتھ ملی ہوئی نہ ہو تو میڈیا پر اس سے درست وضاحت طلب کی جائے، اگر وہ معذور ہو تو یہ غلط درس دینے سے توبہ کرلے۔اس دور میں اسلام کو اجنبیت سے نکالنا مسائل کا حل ہے۔