پشتون تحفظ موومنٹ کے منظور پشتین کے گلے شکوے
ایک مرتبہ انصار کے جوان طبقے نے گلے شکووں کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مشرکین مکہ نے بہت برا سلوک کیا ، ہجرت پر مجبور کیا گیا اور ہم نے مہاجر بھائیوں کو قربانیاں دیکر عزت دی ۔ آج اسلام نے ترقی کی ہے اور مال غنیمت باٹنے کا وقت آیا تو انصار کے مقابلے میں مکہ کے مہاجر ین کو ترجیح دی جاتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کو شکایت پہنچی تو انصار کے بزرگوں کو طلب کیا اور پوچھا کہ اس میں کوئی حقیقت ہے؟ ۔بزرگ انصار نے کہا کہ ہمیں شکایت نہیں لیکن جوان طبقے میں تشویش کی اطلاع ملی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے معاملہ سنجیدہ لیا اور سارے انصار کو طلب فرمایا۔ مہاجرین کے آنے سے قبل حالات بھی دریافت کئے اور موجودہ حالات کا بھی پوچھا۔ انصار نے کہا کہ ہمیں بہت فائدہ پہنچا ہے ، پہلے اوس و خزرج لڑتے تھے ، مدینہ کے یہود ہم پر حاوی تھے ، حالات ہمارے بد سے بدتر تھے لیکن اب تمام گھروں میں امن و سکون اور خوشحالی ہے۔ پھر شکایت کے بارے میں مطمئن کیا کہ جو لوگ گھر بار چھوڑ کر مکہ سے آئے ہیں پہلے تم لوگ ان کی مدد کرتے تھے اور اب مال غنیمت سے ان کی مدد کی جاتی ہے۔ کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ نئے مسلمان ہونے والوں کو ان کی ضروریات کے مطابق مال غنیمت سے کچھ مال ملے اور میں تمہارا بن جاؤں؟۔ جس پر انصار کی طرف سے آہ و بکا ، چیخ و پکار اور زار و قطار رونے کی آواز بلند ہونا شروع ہوئی اور وہ بلند آواز سے کہہ رہے تھے کہ رضینا باللہ رباً و بالاسلام دیناً و بمحمد نبیاً ’’ہم اللہ کے رب ہونے پر راضی ہیں ، ہم اسلام کے دین ہونے پر اور محمد ﷺ کے نبی ہونے پر راضی ہیں‘‘۔ سارے گلے شکووں کا ماحول ختم ہوا۔
منظور پشتین نے پشتون تحفظ موومنٹ کے پلیٹ فارم سے اسلام آباد میں دھرنا دیا تو اسٹیج پر انتظامیہ کے محسود جوان کی آنکھوں میں بھرے ہوئے آنسو ؤں کو میں نے خود دیکھا جس کو میں اس وقت بھی نہیں پہنچانتا تھا اور اب بھی مجھے نہیں پتہ کہ وہ کون تھا لیکن وہ کہہ رہا تھا کہ ’’پیر صاحب ! آپ لوگوں کو بہت تکلیف پہنچی ہے لیکن ہم نے اپنے بچوں ، خواتین اور بوڑھوں کی جو دردناک اور نہ ختم ہونے والی کہانیاں دیکھی ہیں وہ بھی اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہیں‘‘۔ پچھلے دنوں قصور کی زینب کا واقعہ بڑا دردناک تھا ، اس سے پہلے سندھ کی غریب دوشیزہ کا وڈیرے کے ہاتھوں قتل کا واقعہ ہوا۔ پھر ڈیرہ اسماعیل خان میں لڑکی کو ننگا کرکے گھمانے کا واقعہ پیش آیا۔ پھر کوہاٹ کی طالبہ کو شادی سے انکار پر قتل کیا گیا ، پھر فیصل آباد میں واقعہ پیش آیا ۔ اس سے پہلے بھی خواتین کیساتھ زیادتیوں کی داستانیں میڈیا میں رپورٹ ہوئی ہیں۔ البتہ چیچہ وطنی میں کسی مجذوب بچی نے پٹاخے خریدے تھے اور اس کو آگ لگی تھی جس میں زیادتی یا جلانے کا کوئی قصہ نہیں تھا ۔ سیاسی رہنما ان غریب والدین کو معاوضہ دلانے کے چکر میں ڈرامہ رچانے کا کہہ گئے تھے۔ میڈیا نے حقائق سے پردہ اٹھانے کے بجائے بہت غلط رپورٹنگ کی تھی۔
منظور پشتین نے کہا ہے کہ ہم نے وزیرستان سے چیک پوسٹوں کو ختم کرنے کا کوئی مطالبہ نہیں کیا ہے بلکہ ہم کہتے ہیں کہ پاک فوج کے سپاہی چیک پوسٹوں کو مزید بڑھادیں ۔ ہمارا صرف یہ مطالبہ تھا کہ عوام سے اچھا سلوک کیا جائے اور اگر چیک پوسٹوں کو ختم کیا گیا تو اس کی ذمہ داری ہم پر نہ ڈالی جائے۔ جو لوگ ہم پر تنقید کررہے ہیں ہم ان کو ویلکم کہتے ہیں۔ تنقید ہمارے لئے اصلاح کا ذریعہ ہے۔ مشاورت سے ایک درست سوچ پروان چڑھتی ہے اور ہم اس کے خواہاں ہیں۔ میڈیا میں ہم پر تنقید کے بجائے بہت غلط سلط الزامات لگائے گئے ہیں اور ہمیں چند ایک کے سوا کوئی بھی سپورٹ نہیں کررہا ہے۔ میڈیا کو اپنے عمل پر بہت سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔ ہم ملک دشمن نہیں بلکہ اپنے حقوق کی بات دستور کے اندر رہتے ہوئے کرتے ہیں۔ فاٹا میں پاکستانی دستور کا نفاذ چاہتے ہیں۔ منظور پشتون نے کہا ہے کہ قاری محسن کو میرا بھائی بتایا جارہا ہے حالانکہ اس کا تعلق میری تحصیل سے بھی نہیں ہے۔ میرا تعلق طالبان سے ثابت ہوجائے تو جو سزا دیں وہ قبول ہے۔ ایک اور الزام لگایا جاتا ہے کہ نسیم میرا بھائی ہے جو 2007ء میں خود کش حملوں کا ماسٹر مائنڈڈ تھا۔ یہ بات درست ہے کہ نسیم میرا بھائی ہے لیکن اس کی پیدائش 2011ء کو ہوئی ہے اور اب وہ 7 سال کا ہے اور تیسری جماعت کا طالب علم ہے۔منظور پشتین ایک معتدل مزاج اور اچھے انسان ہیں۔ سوشل میڈیا پر پروپیگنڈے کرنے والے پاکستان اور اسلام کے خیر خواہ ہوں تب بھی بیوقوف ملک قوم سلطنت اور مسلمانوں کو نقصان پہنچارہے ہیں۔
ہماری منظور پشتین سے اتنی استدعا ہے کہ اپنی قوم سے محبت اسلام کا تقاضا ہے اور اپنی قوم کیلئے تعصب نہ صرف کفر و جہالت بلکہ اپنی قوم سے دشمنی کے بھی مترادف ہے۔ جو پشتون ہوکر پشتونوں سے محبت نہیں کرتا وہ دوسری زبان والوں سے محبت کے دعوے میں بھی جھوٹا اور مکار ہے۔ اسی طرح بلوچ ، پنجابی ، سرائیکی اور سندھی و مہاجر بھی اپنوں سے محبت رکھے تو وہ دوسروں کیلئے اثاثہ ہے اور اپنوں سے نفرت والے دوسروں سے بھی محبت نہیں رکھ سکتے ہیں۔ مہاجر قومی موومنٹ بن گئی تو آخر کار متحدہ قومی موومنٹ میں بدل گئی۔ سوات کے پختون سینیٹر سیف کو متحدہ نے سینٹ میں بھیجا ، میاں عتیق کا تعلق پنجاب سے ہے اس کو بھی متحدہ نے سینٹ میں بھیجا۔ نبیل گبول بلوچ ہے متحدہ قومی موومنٹ نے اس کو عزیز آباد کے حلقے سے قومی اسمبلی کا ممبر بنوایا۔ جب ریاستی ادارے بھرپور طریقے سے الیکشن میں دھاندلی نہیں ہونے دے رہے تھے تب بھی عزیز آباد سے متحدہ کے کنور جمیل نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرلی۔ الطاف حسین نے پاک فوج کے جرنیلوں کو سیاستدانوں کیخلاف دہائیاں بھی دیں اور مسلم اُمہ میں ایک خلیفہ مقرر کرنے پر زور بھی دیا۔ البتہ یہ بہت برا کیا کہ ایک مہذب قوم کے مہذب افراد کو تہذیب کے دائرے سے نیچے اتارا۔ جس کے نتیجے میں کارکنوں نے سر عام پھر رہنماؤں کی پٹائی بھی لگادی۔ اب جب متحدہ قومی موومنٹ کا جلسہ ہورہا تھا تو پھر ڈاکٹر فاروق ستار کی تقریر کے دوران مہاجروں کا ترانہ جاری رکھا۔ کوئی مہذب قوم کسی مہمان کے ساتھ بھی ایسا سلوک روا رکھے تو اقتدار کے لائق نہیں رہتی۔
پختون تحفظ موومنٹ کی یہ ابتدا ہے اور سوشل میڈیا پر ان کے کارندوں کی طرف سے پاک فوج کے ترجمان اور پنجابیوں کیلئے غلیظ زبان کا استعمال نہ روکا گیا تو یہ تحریک سر اٹھانے سے پہلے مغلظات بکتے ہوئے اوندھے منہ الٹی پڑی دکھائی دے گی۔ جن تھوڑے بہت لوگوں کی ہمدردیاں انہیں حاصل ہیں وہ بھی نہ رہیں گی۔ کراچی میں مہاجر پشتون فسادات کے بدبودار نعرے سے انسانیت نے دم توڑ دیا تھا۔ پختون مہاجروں کے مقابلے میں زیادہ مہذب نہیں لیکن آج وہی الطاف حسین منظور پشتین کے جلسے کو کامیاب بنانے کیلئے مہاجروں کو حکم دیتا ہے ، یہ نہ ہو کہ کل منظور پشتین پنجابیوں سے معافی تلافی کیلئے ان کی ٹانگیں پکڑ رہا ہو۔ PTMکے تعلیمیافتہ کارکن اسلام کی بنیاد پر پختون اور ملاؤں کی اصلاح کریں تو ہماری ریاست اور بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کی اصلاح بھی ہوجائے گی۔ عتیق