پوسٹ تلاش کریں

فوج کا قانون کی بالادستی کو تسلیم کرنا بڑے انقلاب کی ابتداء ہے. ملک اجمل

نوشتہ دیوار کے ایڈیٹرمحمد اجمل ملک نے ڈان لیکس پر تبصرہ کیا کہ یہ نئی صورتحال قوم کو نجات دلانے کاذریعہ ہے۔ فوج نے ڈان لیکس کا فیصلہ مسترد کرنے کے بعد قبول کرکے شعور کا ثبوت دیا ہے، سرحدات کی تشویشناک صورتحال کے علاوہ اپوزیشن کا منافقانہ طرزِ عمل اور وزیرِ داخلہ چوہدری نثار کی طرف سے ردالفساد کیخلاف ہرزہ سرائی ریاست کی تباہی کیلئے ایک بہت بڑا مسئلہ بن سکتا تھا۔ چوہدری نثار نے یہ کہہ کر کہ ’’مجھے ذمہ دار عہدے کی وجہ سے اس بات کی اجازت نہیں کہ کچھ بول سکوں‘‘ بہت کچھ بول دیا ۔ ڈان لیکس سے زیادہ سنگین معاملہ وزیرِ داخلہ کایہ بیان تھا۔ ریاستی اداروں کو قوم اور حکمرانوں کی تائید کی ضرورت ہوتی ہے۔ آئی ایس پی آر کا ڈان لیکس کے فیصلے کو مسترد کرنا فطری بات تھی لیکن جب حکومت و اپوزیشن دونوں نے مل کر آئی ایس پی آر کا بیان مسترد کردیا تو پاک فوج کیلئے عزت کا راستہ یہی تھا کہ جیسے تیسے فیصلے کو قبول کرلیا جائے۔ جن لوگوں کی چاہت یہ تھی کہ آرمی حکومت کا دھڑن تختہ کرے، فوج نے ان کی خواہش کی تکمیل نہ کرکے بہت اچھا کیا، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی بہت تحمل و بربادی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت اور کسی اور کیخلاف انتقامی کاروائی نہیں کر رہے ہیں۔ بھاگے ہوئے زرداری واپس آگئے ، مریم نواز بھی خیر سے واپس آجائیں گی۔ ڈان لیکس کی جعلی رپورٹ کا اصل موضوع منظر عام پر نہیں تھا بلکہ میڈیا پر پاک فوج کا ٹرائیل ہورہا تھا۔ اصل بات یہ تھی کہ شہباز شریف نے ڈی جی آئی ایس آئی رضوان اختر کو ڈانٹا تھا یا نہیں؟۔ شہباز شریف جنرل راحیل کے سامنے خواب و خیال میں بھی جسارت نہیں کرسکتا۔ مریم نواز نے ایک تیر سے دو شکار کئے، ایک فوج سے انتقام ،دوسرا شہبازکو قربانی کابکرا بناناچاہا مگر سب تدبیریں الٹی ہوگئیں۔
ڈان لیکس کا اصل معاملہ یہ تھا کہ شہباز شریف اتنا بڑا ڈان نہیں کہ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی ڈانٹ ڈپٹ کرسکے۔ پاک فوج کو اس نازیبا حرکت پر غصہ آیا تھا۔ حکومت نے خود بھی اس کو بہت بڑی سازش قرار دیا، جب کئی مہینوں کے بعد ان لوگوں کو مجرم قرار دیا گیا جو اس کھیل کا حصہ بھی نہیں تھے تو آئی ایس پی آر نے اس کو مسترد کیا، اپوزیشن لیڈرسید خورشید شاہ نے آئی ایس پی آر کے بیان کو معقول قرار دیا لیکن آصف زرداری کے ترجمان فرحت اللہ بابر اور اعتزاز احسن کا بیان آیا کہ ’’ آئی ایس پی آر کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وزیراعظم کے فیصلے کو مسترد کردے‘‘۔ حالانکہ اس بیان کی وزیرداخلہ چوہدری نثار نے بھی تردید کی تھی۔ آئی ایس پی آر تو ایک فریق تھا مگرچوہدری نثار نے کس طرح وزیراعظم ہاؤ س سے جاری ہونے والے بیان کی تردید کی تھی؟۔ چوہدری نثار نے آئی ایس پی آر کے بیان کو افسوسناک قرار دیا تھا۔ گدھے سے کسی نے پوچھا کہ ڈھینچو ڈھینچو کیوں کرتے ہو؟۔ تو اس نے کہا کہ لوگوں کو ڈراتا ہوں۔ پھر پوچھا کہ ٹیٹ کیوں مارتے ہو؟، تو اس نے کہا کہ خود بھی تو ڈرتا ہوں۔ چوہدری نثار نے اپنے بیان میں دونوں کام کئے تھے۔
حکومت عوام کو بچوں کی طرح بے شعور نہ سمجھے۔ وزیراعظم ہاؤس اور جی ایچ کیو کے درمیان اس لڑائی کو اس طرح کا رنگ دیناغلط ہے کہ گویا یہ گدھا اور گدھی کا کوئی جنسی اسکنڈل تھا، گدھے کا طریقہ واردات یہ ہوتا ہے کہ دانت نکال کر گدھی پر چڑھ دوڑتا ہے، گدھی لاتیں مارتی ہے ، دیکھنے والے اس گھمسان کی جنگ سے پریشان ہوکر سمجھتے ہیں کہ کمزور جنس اپنی جان سے جائیگی، اچانک پھر پتہ چلتا ہے کہ سیٹلمنٹ ہوگئی ہے اور قصہ ختم۔ کہتے ہیں کہ گدھے کی محبت لات مارناہے۔ فوج اور حکومت کے درمیان جس ڈرامائی انداز میں رومانس کا کھیل اپنے اختتام کو پہنچاہے وہ بڑا انوکھا طرزِ عمل ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ وزیراعظم ہاؤس کا بیان قانون کی بالادستی اور طاقتور ترین ادارے فوج نے اس کو قبول کیا ہے۔ ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ طاقتور لوگ قانون کو مانتے نہیں۔ پاک فوج نے قانون کی بالادستی تسلیم کرکے قوم کو نئی راہ پر ڈالا ہے۔ یہ زبردست انقلاب کا پیش خیمہ ہے کہ طاقتور ترین ادارے نے قانون کی بالادستی قبول کرلی ہے۔ اس کی مثبت انداز میں بڑے پیمانے پر اتنی تشہیر کرنے کی ضرورت تھی کہ ہر طاقتور اپنی سطح پر قانون کے سامنے جھک جائے لیکن افسوس کہ اس کو منفی انداز میں پیش کرکے قوم ، ملک اور سلطنت کا جنازہ نکالا جارہا ہے۔جب مسلمانوں کو غزوہ بدر میں فتح کے بعد تنبیہ کی گئی کہ’’نبی کیلئے یہ مناسب نہ تھا کہ اس کے پاس قیدی ہوں یہاں تک کہ خوب خون بہاتے، تم دنیا چاہتے ہو، اللہ آخرت چاہتاہے، اگر پہلے سے اللہ لکھ نہ چکا ہوتا تو سخت عذاب دیتا، جن لوگوں سے فدیہ لیا گیا، اگر انکے دلوں میں خیر ہے تو اللہ اسکا بہتر بدلہ دے گا اور اگر انکے دلوں میں خیانت ہے تو اللہ ان سے نمٹ سکتا ہے‘‘۔ قرآن کی وحی سے یہ مسلمانوں کا تزکیہ ہورہاتھا، ان کو حکمت عملی کی تعلیم دی جاری تھی پھر جب مسلمانوں نے غزوہ احد میں شکست کھائی تو بدلہ میں تجاوز کرنے کی قسمیں کھانے لگے لیکن اللہ نے فرمایا کہ اگر تمہیں زخم لگا ہے تو ان کو بھی پہلے لگ چکا ہے۔ کسی قوم کے انتقام کا جذبہ وہاں تک نہ لے جائے کہ تم عدل نہ کرو اور انہوں جتنا کیا ہے ، اتنا ہی تم بھی کرسکتے ہو، اگر معاف کردو، تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے، معاف ہی کردو اور معاف کرنا بھی اللہ کی توفیق کے بغیر تمہارے لئے ممکن نہیں‘‘۔ شکست میں بھی تزکیہ ہی کیا جارہا تھا، پھر جب مسلمانوں کا اچھا خاصا تزکیہ ہوگیا، حکمت سیکھ گئے تو صلح حدیبیہ کامعاہدہ ہوا، جو مسلمانوں کیلئے قطعی طور پر قابلِ قبول نہیں تھا لیکن اللہ نے اس کو فتح مبین قرار دیدیا۔
کوئی بھی ایسا ماحول نہیں چاہتا جس میں اپنی خواہشات کے برعکس معاملہ سامنے آجائے مگر اللہ تعالیٰ اس سے انسانوں کو دوچار کردیتا ہے۔ امریکہ سے جنگ لڑنے والے طالبان کی پشت پر مسلمان ہی نہیں پوری دنیا بھی خفیہ طور سے کھڑی تھی ، نیٹو کو شکست دینا آسان نہ تھا مگر مجاہدین نے سینہ سپر ہوکر زبردست قربانیاں دیں۔ ان لوگوں کی بدقسمتی یہ تھی کہ تزکیہ وحکمت سے محروم تھے اس لئے ایک اچھے موقع کا غلط فائدہ اٹھایا، خود کو بھی تباہ کیا اور اپنے چاہنے والوں کو بھی تباہ کیا۔آج ن لیگ کو ایک موقع ملا ہے ،پاک فوج تو ریاست کی ملازم ہے ، کوئی کسی کا ذاتی غلام ہو تب بھی اسکے ساتھ زیاتی کرنے کا حق نہیں ہوتا۔ جب دھرنے کے موقع پر نوازشریف نے راحیل شریف سے کردار ادا کرنے کی گزارش کی تو خورشید شاہ نے گرج برس کر کہا کہ ’’یہ تم نے کیا کیا؟‘‘ نواز شریف نے کہا کہ ’’میں نے جنرل راحیل سے کوئی کردار ادا کرنے کیلئے نہیں کہا‘‘، آئی ایس پی آر نے پھر وضاحت کردی لیکن خواجہ سعد رفیق نے میڈیا سے سوال کے جواب میں کہا کہ ’’ وزیراعظم کا کام حکم دینا ہوتا ہے درخواست کرنا نہیں‘‘۔ حالانکہ وزیراعظم کا کام اپنی حدود وقیود کے اندر رہ کر حکم دینا تھا اور دھرنے کو روکنا، ان سے بات چیت کرنا اور سیاسی طور سے ڈیل کرنا فوج کی ذمہ داری تھی اور نہ ہی اس کا وزیراعظم حکم دے سکتے تھے۔ ن لیگ عدالتوں پر تو چڑھ دوڑنے اور آرمی چیف جہانگیر کرامت کو ذلیل کرکے ہٹانے کا قصہ بھی رکھتی ہے اور اگر پرویزمشرف بھی پیٹھ میں چھرا گھونپنے سے نہ بچتے تو آج مغل بادشاہوں کی طرح نوازشریف پاک فوج کو بھی ذاتی غلام بنالیتی۔ فوج طاقتور ادارہ ہے اور اس کی تاریخ ’’حق مانگنا توہین ہے حق چھین لیا جائے‘‘ رہی ہے۔جس پریس کانفرنس کے ذریعے سے ڈان لیکس کے فیصلے کو قبول کرلیا ، تو قبول اور مسترد کرنے میں قانونی اعتبار سے کوئی فرق نہیں ۔جو سیاستدان، نامی گرامی وکیل اور صحافی یہ کہتے ہیں کہ آئی ایس پی آر کو رپورٹ مسترد کرنے کا حق نہیں ، ان کو یہ بھی کہنا چاہیے تھا کہ قبول کرنے کا بھی حق نہیں، بس وزیراعظم ہاؤس سے برآمد ہونے والا اعلامیہ وہ دلہن ہے جسکو مسترد اورقبول کرنا کوئی معنیٰ نہیں رکھتاہے۔ ن لیگ نے میڈیا ہاؤس کو خرید کر جس قسم کا ماحول پیدا کیا ، اس میں ایک آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کا الجھ جانا بعید از قیاس نہیں تھا۔ گدھے گدھی کا جنسی منظر نامہ ایسارومانس ہوسکتا ہے جس میں کاٹنے اور دولوتیاں مارنے کے بعد عوام سے کہا جائے کہ ہم محبت کررہے تھے اور تم نے ہمیں آمنے سامنے لا کھڑا کیا۔ یہ فوج کے کافی حد تک تزکیہ کی دلیل ہے کہ وہ اپنے اوپر تاریخ کی سخت ترین تنقید کو خندہ پیشانی سے برداشت کررہی ہے۔ مریم نواز کا نام رپورٹ سے نکالنے کے جواب میں آئی ایس پی آرکے لبوں پر مسکراہٹ آئی۔ وزیراعظم ہاؤس کیلئے اس سے بڑی شکست اور کیا ہوسکتی ہے کہ رنگ میں لڑنے والے کھلاڑی میں کسی کی ہار جیت نہیں ہوئی بلکہ یہ پہلی نوراکشتی تھی جس میں رنگ سے باہر افراد کے نام شکست خوردہ اور سزا یافتہ ہیں۔ جسکا اظہار طارق فاطمی، راؤ تحسین اور پرویز رشید نے بھی کیا ۔ یہ جمہوریت کی فتح نہیں شکست ہے کہ آمروں کی طرح غلط فیصلہ مسلط کیا گیا جس پر آئی ایس پی آر بھی بجا طور سے مسکرائے ۔ وزیراطلاعات مریم اورنگزیب نے سچ کہا کہ ’’یہ کسی کی شکست و جیت نہیں بلکہ قوم کی جیت ہے‘‘۔ قوم کی جیت اسلئے ہے کہ ہمیشہ طاقتور اپنی طاقت کے زور پر اپنا حق چھین لیتا ہے لیکن اس مرتبہ پاک فوج نے بھی طاقتور ہونے کے باوجود اپنے حق کیلئے زور نہیں لگایا۔اگر یہ جمہوری وطیرہ بن جائے کہ جرم کوئی کرے اور سزا کسی کو دی جائے اور وزیراعظم ہاؤس کا یہ فیصلہ ہو کہ طاقتور فوج کو بھی انصاف نہ مل سکے تو پھر اس سے بڑھ کر ظلم وجبر کی انتہاء کیا ہوسکتی ہے؟۔ قوم کا خیر خواہ طبقہ اس بات پر بجا طور سے خوش ہے کہ جن کمزور لوگوں کو طاقتور اچھوت سمجھ کر ظلم و زیادتی کا نشانہ بناتے تھے، آج فوج بھی ہمارے ساتھ شاملِ حال ہوگئی ، جس سے مظلوموں کا حوصلہ بڑھا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کا یہ کہنا غلط ہے کہ ’’ ڈان لیکس پر بال کی کھال نہ اتاریں‘‘ اسلئے کہ کھال تو اترگئی ہے ، صرف بال ہی رہ گئے ہیں۔ کھال کے بغیر بالوں کی اتنی بھی حیثیت نہیں ہوتی ہے جتنی دہشت گرد اپنے عروج کے دور میں جعلی داڑھی اور جعلی بال لگایا کرتے تھے۔
عمران خان نے عدالت اور فوج سے جو توقعات وابستہ کررکھی تھیں تو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جمہوری معاشرے میں جہاں عوام کا ضمیر پیسوں سے خریدا جاتا ہو ، وہاں سب ہی دولت کی چمک کے آگے بے بس ہوجاتے ہیں۔ جب عمران خان نے اسلام آباد کو بند کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن خود بنی گالہ کے گھر سے بھی باہر نہیں آئے تو تحریکِ انصاف کے کارکنوں کو فوج پر سوشل میڈیا میں تنقید کے تیر چلانے سے پہلے اپنے قائد کی بھی بھرپور خبر لینی چاہیے۔ مسلم لیگ کا ایم این اے اپنی قیادت پر تنقید کی جرأت کرکے یہ بھی کہے کہ ’’چوہدری نثار نے اپنی بیٹی کو بھارت سیف گیمز کیلئے بھیجا تھا‘‘ ، تو چوہدری نثار کی طرف سے اعتزاز احسن کو ذاتیات پر جواب دینے سے زیادہ مناسب یہ تھا کہ اپنی بیٹی کی عزت پر حملہ کرنے کا جواب دیتا، اگر سندھ میں رینجرز عذیر بلوچ کے سرپرست ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کو کچھ نہ کہے اور پیپلزپارٹی کی قیادت آصف زرداری کو ٹھیس پہنچانے کیلئے اس کے ساتھیوں کو انتقام کا نشانہ بنائے اور پھر چوہدری نثار بیان دے کہ ہم اپنی فورسزز کیساتھ کھڑے ہیں اور جب ڈان لیکس پر فوج سے معاملات خرابی کا شکار ہوں تو ردالفساد میں بھی وزیرداخلہ پاک فوج پر الزام تراشی کرے تو یہ حکومت اور اپنی ریاست کو ذاتی غلام کی طرح سمجھنے سے کم نہیں ہے۔
میرے دوست خالد نے بتایا کہ 1985ء میں نوازشریف وزیراعلیٰ بنے تو والد کے دوست نے بتایا تھا کہ ایک ہندوکی مل تھی، جس میں میاں شریف کا چاچا ملازم تھا، اس نے1937ء میں میاں شریف کو بھی منشی کی حیثیت سے وہاں بھرتی کروایا، تقسیم کے بعد حالات خراب ہوگئے تو ہندو بھاگااور مل کی چابی میاں شریف کے پاس تھی، اس طرح وہ اس کا مالک بن گیا۔ پھر کراچی میں کسی میمن سے وہ فرم خرید لی جس کو انگریز ملازم چلاتا تھا، فرم لاہور منتقل کردی، انگریز چھٹی پر جارہا تھا تو اپنا کام کسی کو نہیں سکھا رہا تھا لیکن شریف پر اعتماد کرکے اپنا کام سکھایا، پھر چھٹیوں کے بعد آیا تو اس نے آنکھیں پھیر لیں۔ شریف برادران بیرونِ ملک سے اپنی پراپرٹی پاکستان منتقل کریں کہیں الطاف بھائی کی طرح دولت سے محروم ہی نہ کردیا جائے۔ابن انشاء کی روح سے معذرت کیساتھ
کل چودہویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا ترا
کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نے کہا چہرا ترا
کل فیصلے کی رات تھی شب بھر رہا چرچا ترا
دو نے کہا یہ چور ہے اور تین بولے رُک جا ذرا
سب جو وہاں موجود تھے ناچا کئے گایا کئے
گلو ترا بلو ترا احسن ترا خواجہ ترا
عزت کی تو بس خیر ہے آتی ہے یہ جاتی ہے یہ
اس فیصلے سے جو بھی ہوا بس بچ گیا عہدہ ترا
تجھ پر قلم پھیرا نہیں باقی کسی کو گھیرا نہیں
کیسے بچا سمدھی ترا بیٹی تری بیٹا ترا
JIT بھی ڈھونڈ لے قبر پہ جاکر پوچھ لے
باقی کسی کا کیا گناہ بس پھنس گیا باوا ترا
عامر بڑا ’’ممنون‘‘ ہے کیسا عجب قانون
مل بھی تری، ول بھی تری پھر بھی نہ اک پیسہ ترا

مشال خان کے قاتلوں کا جذبہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا ذریعہ کیسے بن سکتا ہے؟ عتیق گیلانی

میں (عتیق گیلانی) نے لاہور ، اوکاڑہ ، گوجرانوالہ ، اسلام آباد ، پشاور ، نوشہرہ، مردان اور صوابی کا مختصر دورہ کیا ، اتحاد العلماء جماعت اسلامی نے جو پشاور میں علماء و مشائخ کانفرنس منعقد کی اس میں بھی مختصر شرکت کی۔ مشال خان کے والد سے بھی معلومات لیں۔ اسکے والد نے بتایا کہ ’’پورا گاؤں زیدہ صوابی گواہ ہے کہ میرے بیٹے نے کبھی کسی سے کوئی لڑائی جھگڑا نہیں کیا ، عام آدمی کو بھی کبھی گالی نہیں دی۔ رسول اللہ ﷺ کی توہین کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ پانچ وقت کا نمازی اور روزانہ قرآن کی تلاوت کرتا تھا۔ بس ایک غریب کا بیٹا تھا ، اسکی قابلیت کی اسکو سزا دی گئی۔ میرے بیٹے کیساتھ جو ہوا سو ہوا مگر کسی اور غریب کے بیٹے کیساتھ ایسا نہ ہو۔ اسلئے میں برسر اقتدار طبقہ سے انصاف چاہتا ہوں، مولانا فضل الرحمن نے ٹھیک بات کہی، البتہ کچھ علماء اسکی پارٹی کے شرپسندی کا مظاہرہ کررہے ہیں جس کی وجہ سے شریف علماء بھی دباؤ کا شکار ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان جیل میں ہم اور مولانا فضل الرحمن اکھٹے تھے، میں نے مفتی محمودؒ کے پیچھے بھی نماز پڑھی ہے، اس واقعہ پر بہت لوگ دور دور سے افسوس کا اظہار کرنے آئے‘‘۔ مولانا فضل الرحمن کی ویڈیو یو ٹیوب پر ہے ، مولانا شجاع الملک کا بیان بھی موجود ہے۔ دونوں بیانات میں تضادات ہیں اور ان تضادات کو سنجیدگی سے ختم کرنے کا تہیہ کیا جائے تو اسلام و پاکستان کا پوری دنیا میں بول بالا ہوسکتا ہے ، علماء کرام کسی کا دُم چھلہ نہ بھی بنیں تو عوام کا جم غفیر انکو اقتدار میں لائیگا، پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے اور اسلام ہی کی بنیاد پر پاکستان رہیگا۔
مولانا فضل الرحمن نے تحریک انصاف کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ’’ اس پارٹی کو بیرونی ایجنڈے کے تحت پاکستان میں سازش کا ٹاسک دیا گیا ہے۔ اس نے سب سے پہلے قادیانیوں سے مدد لی۔ اس واقعہ میں مشال خان کو یونیورسٹی کے ساتھیوں نے الزام کی بنیاد پر قتل کیا ، اگر تحقیق کے بعد ثابت ہوجائے کہ الزام غلط تھا تو ہم اسکے ساتھ کھڑے ہیں۔ اگر ثابت ہوجائے کہ الزام درست تھا تب بھی قاتلوں کو قانون ہاتھ میں لینے کا حق نہیں تھا۔ یہ ہمارا مؤقف بالکل واضح ہے۔ اسمبلی میں اس بات پر بحث ہورہی ہے کہ توہین رسالت کا قانون درست ہے مگر اسکا غلط استعمال روکا جائے۔ حالانکہ یہ اسوقت کہا جاسکتا ہے کہ جب قانون کا غلط استعمال ہو جبکہ یہاں تو قانون کا استعمال ہوتا ہی نہیں اگر ہوتا تو اس قسم کے واقعات بھی پیش نہ آتے‘‘۔
مولانا فضل الرحمن ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہیں اور اپنی بات کو گول مول پیش کرنے میں بڑی مہارت کی شہرت رکھتے ہیں۔ اگر وہ اسلام کی خاطر نہیں اپنے سیاسی مخالف کو ٹھکانے لگانے کی خاطر بھی یہ کہتے کہ ’’عبد الولی خان یونیورسٹی کی انتظامیہ کا تعلق تحریک انصاف سے ہے ، جب مشال خان نے انتظامیہ کیخلاف کرپشن پر آواز اٹھائی تو اس پر توہین رسالت کے حوالے سے جھوٹا الزام ایک تیر سے دو شکار تھے، ایک اپنے کرپشن کو چھپانا اور دوسرا توہین رسالت کے حوالے سے طالب علموں کے جذبات کو غلط استعمال کرکے دنیا بھر میں اسلام کو بدنام کرنا تھا تاکہ اس قانون کی پاکستان سے چھٹی کرائی جائے‘‘۔ مولانا فضل الرحمن مشال خان کے والد سے تعزیت کرنے پہنچ جاتے اور ان کو پورا پورا انصاف دلانے کی یقین دہانی کراتے تو بڑی تعداد میں عوام کے دل جیت لیتے۔ ایک طرف موم بتی گروپ علماء سے نفرت کا اظہار کرے اور دوسری طرف علماء اپنے اقدام کے سبب لوگوں کی نظر میں انتہائی گراوٹ کا شکار ہوں تو یہ ملک و قوم کیلئے بہت بڑا المیہ ہے۔
مولانا شجاع الملک نے اپنے جلسہ میں مذہبی طبقے کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنا بیانیہ بہت اچھے انداز میں پیش کیا کہ ’’دنیا بھر میں قتل ہوتے ہیں ، ظلم و جبر کا بازار گرم ہوتا ہے مگر اقوام متحدہ، بیرونی ممالک اور ہمارے حکمران طبقات اور میڈیا ٹس سے مس نہیں ہوتا لیکن جب توہین رسالت کے مرتکب کو سزا دینے کی بات ہوتی ہے تو سب ایک زباں ہوکر شور مچاتے ہیں۔ جب اصلاحات کے حوالے سے مجھے ہری پور جیل جانا پڑا ،تو پھانسی کی چکیوں میں مردانیوں کی اکثریت تھی، 134 میں سے 128پھانسی کے منتظر مردانی تھے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر کہ تم نے ماں کو گالی دی ہے اور میرے کتے کی توہین کی ہے اسلئے قتل کرتا ہوں۔ جب رسول اللہ ﷺ کی توہین پر ایک قتل ہوا تو یہ دنیا کھڑی ہوگئی کہ بڑا جرم ہوگیا ہے۔ حالانکہ اگر مشال مجرم نہ بھی تھا تو چھوڑ دیتے کہ چلو اچھا ہوا کہ ایمان اور اسلام کیلئے مردانیوں نے یہ قربانی دی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ اس کی شلوار نکل گئی مگر بہت سوں کی نکلی ہے تو ایک اسکی بھی نکل گئی تو کیا ہوا؟۔ کسی نے نبوت کا دعویٰ کیا اور ہمارے بہت محترم شخصیت مسجد کے امام نے اس کو لوگوں سے بچا کر پولیس کے حوالے کیا۔ لوگوں نے مولانا کی گاڑی بھی جلادی اور وہ اب تک عوام کے خوف سے مفرور ہیں۔ اس ملک میں قانون کسی اور کیلئے نہیں ہے صرف مولوی کیلئے ہے اور مولوی پاسداری بھی کرے تو بھی اس کو ٹھکانہ نہیں ملتا۔ ہم اس کارنامے پر مشال خان کے قاتل غازیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور اگر مشال خان کے جرم کا کوئی گواہ نہیں تو حاضرین تم سب اسکے گواہ ہو ، سب نے کہا کہ ہاں ہم گواہ ہیں‘‘۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا شجاع الملک نے اپنے ایمانی جذبات کا بہت بہادری کے ساتھ اس وقت اظہار کیا کہ جب قانون نافذ کرنے والے مشال خان کے قاتلوں اور انکو اشتعال دلانے والوں کی پکڑ دھکڑ میں مصروف تھے۔ ایک طرف میڈیا نے وہ مناظر دکھائے جب تحریک انصاف کے جلسوں میں کارکن کسی لڑکی کو بھنبھوڑ رہے تھے تو دوسری طرف تحریک انصاف کا نمائندہ کونسلر ، یونیورسٹی انتظامیہ اور کالج کے لڑکے مشال خان کو مذہبی جذبے کے تحت قتل کرکے تشدد کا نشانہ بنارہے تھے۔ تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے دونوں مظلوموں سے ہمدردی کا اظہار کیا لیکن ایک میں انصاف کے تقاضے پورے ہوئے یا نہیں دوسرے کا بھی پتہ چل جائیگا۔ مولانا شجاع الملک نے اپنے قائد مولانا فضل الرحمن کی طرح اس موضوع پر اپنی سیاست چمکانے کے بجائے صرف اور صرف مذہبی جوش و خروش اور جاہ و جلال کا مظاہرہ کیا ہے جو خوش آئند ہے۔
سورہ فاتحہ کے بعد اللہ نے سورہ بقرہ کی ابتداء میں بسم اللہ کے بعد فرمایا: ذٰلک الکتٰب لاریب فیہ ہدی للمتقین ’’یہ وہ کتاب ہے جس میں شک نہیں ہدایت دیتی ہے متقیوں کو‘‘ ۔ حضرت عمرفاروق اعظمؓ کیلئے رسول اللہ ﷺ نے ہدایت کی دعا فرمائی۔ اس دعا میں عمرو بن ہشام ابوجہل بھی شامل تھا۔ ابو جہل ایک سیاسی و مذہبی قائد تھا۔ اس نے ایک اجتماع میں عوام کو بھڑکایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمارے معبودوں کی توہین کی ہے ، بھائی کا بھائی سے جھگڑا ہے اور بیٹے کا باپ سے۔ اس فتنے کو ختم کرنے پر قوم کی طرف سے 100اونٹوں کا انعام دیا جائیگا‘‘۔ حضرت عمرؓ ایک جذباتی انسان تھے مگر ان کے دل میں لالچ نہیں تھی۔ تلوار نیام سے نکال کر رسول اللہ ﷺ کو قتل کرنے کی غرض سے روانہ ہوئے تو راستے میں کسی نے خبر دی کہ تمہارا بہنوئی بھی اسلام قبول کرچکا ہے۔ حضرت عمرؓ نے رُخ موڑا ، بہنوئی اور بہن کی پٹائی لگانی شروع کی ، جب استقامت کا مظاہرہ دیکھا تو کہا کہ مجھے بھی قرآن کے اوراق دکھادو ، بہن نے کہا کہ تم پہلے غسل کرلو۔ قرآن کا پڑھنا تھا کہ حضرت عمرؓ کی کیفیت بدل گئی اور اسلام قبول کیا۔ پھر حضرت عمرؓ کے ذریعے سے اسلام کو کھلم کھلا وہ تقویت ملی جس کی وجہ سے آپ کو فاروق اعظم کا خطاب مل گیا تھا۔
سید الشہداء حضرت امیر حمزہؓ کو شہید کرکے کلیجہ نکالنے والے وحشیؓ اور کلیجہ چبانے والی ہندہؓ کو بھی اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی توفیق دی، جن کا چہرہ بھی رسول اللہ ﷺ سے دیکھا نہیں جاتا تھا۔ اس مشال خان کے واقعہ کا جو بھی پس منظر ہے ، قاتلوں کیساتھ اسکے کوئی ذاتیات نہیں تھے ، جن لوگوں نے قتل کے بعد بھی انتہائی سلوک کیا ان میں بہر حال دین ، مذہب اور رسول اللہ ﷺ سے محبت ہی کا جذبہ کار فرما تھا۔ مولانا شجاع الملک کی سوچ مردان کے حوالے سے ماحول کا حصہ ہوسکتی ہے مگر قرآن کسی ایک بے گناہ کے قتل کو تمام انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے۔ اگر کسی مخالف مکتبہ فکر کی عوام یہ غلط پروپیگنڈہ کریں کہ مولانا شجاع الملک توہین رسالت کا مرتکب ہے اور اسکے ساتھ وہی سلوک روا رکھا جائے جو مشال خان کیساتھ روا رکھا گیا تو مولانا شجاع الملک کے لواحقین بھی ہمدردی کے لائق ہونگے۔ اسلام میں لاش کیساتھ مسخ کرنے کا سلوک ناجائز ہے تو کوئی مولانا اس کو جواز نہیں بخش سکتا۔ شلوار کا نکلنا اس کیلئے بہت بڑی توہین ہے جس کی عادت نہیں بگڑی ہو۔ جس کی عادت رہی ہو اس کیلئے واقعتا کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ ہمیں اس سے بحث نہیں کہ مشال خان بے گناہ تھا یا مجرم تھا، سوال یہ ہے کہ قاتلوں نے جس جذبے کے تحت اسکے ساتھ یہ سلوک کیا ہے وہ جذبہ ٹھیک تھا یا غلط؟۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ درست جذبے کواجاگر کرکے اسکا غلط استعمال روکا جائے، مولانا فضل الرحمن کی یہ بات درست ہے کہ توہین رسالت کے قانون کیخلاف سازش ہورہی ہے، مگر بات قانون کے درست یا غلط استعمال کی نہیں بلکہ اس جذبے کو غلط استعمال کرنے کی ہے، اگر مشال خان نے توہین نہیں کی تھی اور مولانا فضل الرحمن اسکے ساتھ کھڑے ہیں اور قاتلوں کو مجرم ہی سمجھتے ہیں تو مولانا شجاع الملک اور مولانا فضل الرحمن کے تضادات کو کیسے دور کیا جائیگا؟۔
ایک بہت بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ اور حضرت وحشیؓ کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کے ذریعے ہدایت دیدی مگر علماء اور مذہبی طبقات کی اکثریت ہدایت پانے کی توفیق سے کیوں محروم ہیں؟۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ اقتدار اور دولت کی لالچ نے ان کو ہدایت سے محروم کیا ہے۔ حضرت امیر حمزہؓ کو شہید کرنے والے وحشیؓ نے بھی لالچ میں کارنامہ انجام دیا تھا مگر پھر بھی ان کو ہدایت مل گئی۔ دولت اور اقتدار کی لالچ تو بہت لوگوں کو ہوتی ہے۔ انصارؓ و مہاجرینؓ ، عشرہ مبشرہ کے صحابہؓ کے بعد بنو اُمیہ ، بنو عباس اور خلافت عثمانیہ کے ادوار میں بڑے اور اچھے لوگ بھی دولت اور اقتدار کی لالچ میں مبتلا ہونے کے باوجود ہدایت سے محروم نہیں رہے۔ جبتک اتمام حجت نہ ہو تو اللہ تعالیٰ بھی کسی قوم کو عذاب نہیں دیتا وما کنا معذبین حتیٰ نبعث رسولاً ’’اور ہم کسی کو عذاب نہیں دیتے مگر جب کسی رسول کو مبعوث کردیں‘‘۔ رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے بعد رسالت کا سلسلہ ختم ہوچکا اور اب عوام و خواص کی اکثریت کسی امام ہدایت یا امام مہدی کیلئے چشم براہ کھڑی ہے۔
میں نے جمعیت علماء اسلام کے سابقہ ضلعی امیر ، سرپرست اعلیٰ اور صوبائی نائب امیر مولانا فتح خان مرحوم کے سامنے یہ بات رکھی کہ اجتہاد کی تعریف کیا ہے؟۔ انہوں نے فرمایا کہ جو قرآن و حدیث میں نہ ہو۔ میں نے عرض کیا کہ بسم اللہ قرآن و حدیث میں ہے اور اس پر اجتہاد کی گنجائش ہے؟۔ فرمایا کہ بسم اللہ قرآن و حدیث میں ہے اور اس پر اجتہاد کی گنجائش نہیں۔ پھر میں نے عرض کیا کہ مساجد میں جہری نمازوں میں بسم اللہ کو جہر کیساتھ نہیں پڑھا جاتا ہے ، درس نظامی میں ہے کہ درست بات یہ ہے کہ بسم اللہ قرآن کا حصہ ہے مگر اس میں شبہ ہے ۔ تو کیا پھر ذٰلک الکتاب لاریب فیہ پر ایمان باقی رہتاہے؟۔ مولانا فتح خان نے فرمایا کہ نہیں۔ میں نے عرض کیا کہ امام مالک کے نزدیک بسم اللہ قرآن کا جز نہیں اسلئے فرض نماز میں اس کا پڑھنا جائز نہیں، امام شافعی کا مسلک یہ ہے کہ بسم اللہ سورہ فاتحہ کا بھی جز ہے اسلئے اسکے بغیر نماز نہیں ہوگی جبکہ حنفی مسلک میں یہ مشکوک ہے تو کیا بسم اللہ پر اجتہاد کی گنجائش ہے؟۔ مولانا فتح خان نے کہا کہ جو بات آپ کررہے ہیں اگر میں یہ بات کروں تو مسجد میں ہی مجھے مار دیا جائیگا۔ چھوٹے مولوی قرآن پر ایمان رکھتے ہیں مگر درس نظامی کو نہیں سمجھتے اور جو بڑے سمجھتے ہیں وہ چھوٹوں سے گھبرارہے ہیں۔
مشال خان کا والد مضبوط اعصاب کا مالک ہے ، اگر وہ قاتلوں کو فی سبیل اللہ معاف کرکے صرف یہ مکالمہ کرلے کہ ہمارا قرآن پر ایمان ہے ، جو مولوی حضرات اپنے نصاب میں قرآن کے بارے میں یہ پڑھاتے ہیں کہ المکتوب فی المصاحف المنقول عنہ نقلاً متواترا بلا شبہ ’’جو مصاحف میں لکھا ہوا ہے ، آپ ﷺ سے تواتر کیساتھ بغیر کسی شبہ کے نقل ہوا ہے۔‘‘ سے مراد قرآن کے لکھے ہوئے نسخے نہیں ۔ فتاویٰ قاضی خان ، فتاویٰ شامیہ میں صاحب ہدایہ کی طرف منسوب ہے کہ سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا جائز ہے اور قرآن کی کچھ آیات موجودہ قرآن میں شامل نہیں جو غیر متواتر ہیں ۔ قرآن کی توہین پر مشال کے قاتل یہ سبق پڑھانے والے علماء کو بھی سزا دینگے ؟ ۔ اگر درس نظامی سے یہ تعلیم نکالی جائے تو علماء کو بھی ہدایت مل جائے گی۔

اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا بہترین و مستند ترین نمونہ

سورۂ واقعہ میں السٰبقون السٰبقون کی دو جماعتوں کا ذکر ہے ، جومقرب ہیں، پہلوں میں بڑی جماعت اور آخر میں تھوڑے سے۔ جبکہ دوسرے درجے میں اصحاب الیمیں کا ذکر ہے ، جن کی میں پہلوں میں بھی بڑی جماعت ہے اور آخر والوں میں سے بھی بڑی جماعت ہے۔قرآن میں سبقت لے جانیوالوں کیلئے آخر میں قلیل من الاٰ خرین کا ذکر ہے اور اصحاب الیمین کیلئے بھی آخر میں بڑی جماعت کا ذکر ہے۔ ان دونوں درجات کی حامل جماعتوں کی احادیث میں بھی بھر پور طریقے سے وضاحت ہے۔
حضرت عمر بن خطابؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میری امت کو آخری دور میں حکمرانوں کی طرف سے سختیاں پہنچیں گی، ان میں سے کوئی محفوظ نہ ہوگا مگر وہ آدمی جس نے اللہ کے دین کو پہچانا اور اسکے ذریعے زباں، ہاتھ اور دل سے جہاد کیا، یہ وہ ہے جو سبقت لے جانے والوں میں شامل ہوگیا، فذٰلک الذی سبقت لہ السوابق، دوسرا وہ شخص جس نے اللہ کے دین کو پہچانا اور پھر اسکے ذریعے سے تصدیق بھی کردی۔ تیسرا وہ شخص ہے جس نے اللہ کے دین کو پہچان لیا، پھر کسی کو خیر کا عمل کرتے دیکھا تو اس سے محبت رکھی اور باطل عمل کرتے دیکھا تو اس سے دل میں بغض رکھا، یہ شخص حق کو چھپانے کے باوجود بھی نجات کا مستحق ہے۔ مشکوٰۃ، ص438۔ عصر حاضر ۔ مولانا یوسف لدھیانویؒ
بفضل تعالیٰ ہم نے 1988ء میں حاجی محمد عثمانؒ کیخلاف معروف علماء ومفتیان کے غلط ، گمراہ کن اور مفادپرستی کی بنیاد پر دئیے جانے والے فتوؤں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔بہت سے علماء ومفتیان نے کھل کر اعلانیہ ہمارا ساتھ دیا اور بہت سے درپردہ ہمارے ساتھ تھے، پھر ہم نے 1991ء میں روزنامہ جنگ کراچی، کوئٹہ، لاہور سے ایک اشتہار دیکر باقاعدہ خلافت کے قیام کا اعلان کیا۔خلافت پرالمارودی کی کتاب’’الاحکام السلطانیہ‘‘میں واضح ہے کہ ’’عالم اسلام کے تمام مسلمانوں پر ایک امام کا تقرر فرض ہے۔ جہاں سے جو لوگ بھی پہل کریں دوسرے تمام مسلمانوں پر اس کی اتباع ضروری ہے اور اسکے مقابلہ میں جو امام کھڑا ہو،اس کی گردن ماری جائے‘‘۔ کتابچہ ’’ خلافت علی منہاج النبوۃ کے وجود مسعود‘‘ لکھ کر شائع کیا،کانیگرم وزیرستان کے مولانا اشرف خان کو اپنے مشن کا بتایا تو بہت خوشی کا اظہار کیا، مولاناشاداجان نے کہا کہ مولوی محمد زمان کوقائل کرلو تو مسئلہ نہیں بنے گا۔ مولوی محمد زمان کو تفصیل سے بتایا کہ ہمارے ہاں فتنہ وفساد کی جڑ دومتوازی قوانین ہیں، جس کو شریعت کا قانون مفاد میں لگتاہے وہ فریق شرع کی بنیاد پر فیصلہ کرنا چاہتاہے، جس کو پشتو کے قانون کے مطابق مفاد میں لگتاہے وہ روایتی قانون سے چاہتاہے۔ جب کسی بات پر اتفاق نہیں ہوتا تو قتل وغارت تک بات پہنچتی ہے، جب ایک قانون متعین ہوگا تو فتنہ وفساد کی جڑ ختم ہوگی، جب شرع کی حدود نافذ ہونگی تو وزیرستان جرائم کے بجائے امن اور امان کا گہوارہ بن جائیگا۔ قبائل میں اسلامی ریاست کا نمونہ پاکستان کیلئے مشعل راہ ہوگا۔ یوں پورا پاکستان ، افغانستان اور ایران سے اسلامی خلافت کا آغاز ہوگا، ہندوستان کے مسلمان بھی ہمارے ساتھ اٹھ کھڑے ہونگے اور بھارت کے حکمرانوں کو شکست دینگے۔ پھر عرب اور دنیا کے تمام مسلمان ریاستوں کو شریک کرکے عرب کو مرکز بنادینگے۔ مگر حدود کے نفاذ کا اعلان کرنے سے پہلے کانیگرم کے علماء، تبلیغی جماعت کے کارکن اور پیر لوگ یہ اعلان کرینگے کہ سب سے پہلے شریعت پر عمل کیلئے ہم اپنے گھروں سے ابتداء کرینگے، اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو حق مہر کے نام پر بیچیں گے نہیں، جو بھی حق مہر ہوگا، وہ عورت کو دینگے۔ دوسرا یہ کہ خواتین کو جائیداد میں حصہ دینگے۔ تیسرا یہ کہ گھر سے شرعی پردہ شروع کرینگے ۔ مولوی محمد زمان نے شرعی حدود کے اجراء کی حمایت کی لیکن گھر سے شریعت پر چلنے کی بات کو مشکل قرار دیا۔ ہم نے کہا کہ جب اپنی بہن بیٹی کو اس کا حق مہر اور وراثت میں حصہ دینا مشکل ہو تو دوسروں پر شرعی حدود کا اجراء کیسے آسان ہوگا؟یہ منافقت ہوگی اسلام نہ ہوگا۔ پھر تبلیغی جماعت کے چند افراد میرے پاس آئے اور ایک نے پہلے یہ مسئلہ پوچھا کہ میرا بیٹا کراچی میں ٹائیر پنکچرکا کام کرتا ہے ، اس کی کمائی میرے لئے جائز ہے؟۔ میں نے کہا کہ اپنے کاروبار میں دھوکے سے حرام نہ کماتا ہو تو بالکل جائز ہے۔ پھر پوچھا کہ میری بہو، بیٹیوں اور بیوی کو شرعی مسائل کا پتہ نہیں، رائیونڈ سے مستورات کی ایک جماعت آتی ہے اورمیرے گھر کی خواتین کو مسائل سکھاتی ہیں توکیا جائز ہے؟، میں نے کہا کہ بالکل نہیں۔ اس نے کہا کہ کیوں؟۔ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’’اپنے نفسوں واپنے اہل عیال کو آگ سے بچاؤ‘‘ یہ تمہاری ذمہ داری ہے، رائیونڈ سے آنے والی مستورات کی نہیں اور وزیرستان کے حالات بہت خراب ہیں، لوگ آغواء ہوجاتے ہیں، خواتین کی جماعت کو اغواء کرلیا گیا اور ان کو زیادتی کا شکار بنایا گیا تو ایک اور جماعت پیدا ہوگی۔ پھر توتبلیغی جماعت نے ہمارے خلاف پروپیگنڈے کی تمام حدود کو پار کیا۔ قادیانی، بریلوی اور شیعہ کے تمام الزامات لگادئیے۔ ایک دن مسجد کا امام نہیں تھا تو ایک تبلیغی آگے بڑھا، ملک ظفر شاہ نے اس کو پکڑ کر پیچھے دھکیل کر کہا کہ چلہ لگاکر جعلی ادویات کا میڈیکل اسٹور بھی کھول لیتے ہو، میرا کہا کہ ایک عمر علم کی تعلیم میں لگادی ہے اور مجھے نماز کیلئے آگے کردیا۔ میں نے نماز پڑھادی تو نماز کے بعد اعلان کیا کہ میرے خلاف انواع واقسام کے پروپیگنڈے چل رہے ہیں وضاحت اسلئے کررہا ہوں کہ جنہوں نے میرے پیچھے نماز پڑھ لی ہے ان کو تشویش نہ رہے۔ ہمارا تعلق مولانا اشرف علی تھانویؒ اور مولانا الیاسؒ سے ہے جو نام سے ان کو نہیں جانتے ، بہشتی زیور کے مصنف اورتبلیغی جماعت کے بانی۔ قادیانی ، بریلوی اور شیعہ کا پروپیگنڈہ کرنے والوں میں اتنی غیرت ہونی چاہیے کہ مجھے گریبان سے پکڑلیں۔ تبلیغی جماعت کے قیام کا مقصد لوگوں کو شرعی احکام کی طرف راغب کرنا تھا، لوگ یہاں چند فٹ کے فاصلے پر ننگے نہاتے ہیں ، آنے والے مہمانوں کے علاوہ فرشتوں کو اس ننگے مناظر پر شرم آتی ہوگی، فضائل کی تعلیم فرض ،واجب، سنت نہیں بلکہ مستحسن عمل ہے مگر جب فرائض کی تعلیم اور حلال وحرام کی تربیت نہ ہو تو یہ نام کی دینداری رہ جاتی ہے۔ اس پر تبلیغ کے امیر گل ستار نے کہا کہ ’’مفتی زین العابدین کا فتویٰ ہے کہ تبلیغی جماعت کا موجودہ کام فرض عین ہے‘‘۔ پھر مسجد میں یہ بات طے ہوئی کہ جو غلط ہوگا اس کو کانیگرم بلکہ وزیرستان سے نکالیں گے۔تبلیغی جماعت والوں کی کوشش تھی کہ میری غیرموجودگی میں علماء کو جمع کیا جائے اور میرے خلاف اور اپنے حق میں متفقہ فیصلہ لیا جائے۔ جس طرح حضرت ابراہیمؑ نے بیماری کا بہانہ کرکے بتوں کو توڑا تھا، مجھے بھی حکمت سے کہنا پڑا کہ ’’میں جارہاہوں‘‘۔ میرانشاہ میرا آنا جانا رہتا تھا۔ جب گھر میں چھپ گیا تو دوسرے دن تبلیغی جماعت نے یہ فیصلہ کیا کہ تمام علماء کا اجلاس ہماری مسجد میں ہوگا۔ میں نے اپنے بھانجے اور گومل کے امام حافظ عبدالقادر شہیدؒ کو بھی ٹیپ ریکارڈر کیساتھ بروقت پہنچنے کی اطلاع کردی۔ جب علماء کا اجلاس شروع ہورہا تھا تو میں بھی نمودار ہوگیا۔ پھر ان کی پریشانی کی انتہاء نہ رہی۔ میرا کہنا تھا کہ مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ لوگ میری وجہ سے اکٹھے ہوئے ہیں، مجھ سے بات نہیں کرنی تو مجھے ویسے بھی میرانشاہ جانا ہے ، چلا جاؤں گا، انہوں نے کہا کہ ہم مشورہ کرکے بتادیتے ہیں کہ آپ سے بات کریں یا نہیں۔ پھر انہوں نے فیصلہ کیا کہ مسجد کے عقب میں چھوٹے کمرے میں عوام کے بجائے مختصر محدود افراد کے سامنے بات کی جائے۔ میں نے کہا کہ یہ غلط ہے، عوام کے سامنے ہی بات ہوجائے مگر وہ نہیں مانے۔پھر بات کو ٹیپ کرنے کیلئے میں نے اصرار کیا کہ کراچی کے معروف علماء ومفتیان نے ہمارے مرشد حاجی عثمانؒ سے دھوکہ کیا تھا، ملاقات کا اہتمام کرکے من گھڑت استفتاء کے چشم دید گواہ بن گئے۔ تم لوگوں نے خود بھی اس بات پر مناظرہ کیا تھا کہ سنت کے بعد دعا بدعت ہے یا مباح؟، فارسی میں فیصلہ سنانے کے بعد دونوں طرف سے ڈھول کی تھاپ پر اپنی اپنی جیت کا اعلان کیا تھا اور اس بنیاد پر قادیانیت کا فتویٰ بھی مولوی محمدزمان نے مولانا شاداجان پر لگایا تھا۔ جس کا وہ اعتراف کرکے کہہ رہے تھے کہ اب ایسا نہیں ہوگا، فیصلہ تحریری شکل میں لکھ دیا جائیگا۔ پھر انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ ’’آپ نے مہدی آخر زمان کا دعویٰ کیا ہے؟‘‘۔ میں نے کہا کہ جب میں نے مدینہ دیکھا تک نہیں، اس مہدی کی پیدائش مدینہ اور چالیس سال کی عمر میں خروج مکہ میں ہوگا ، اسکا نام محمد اور والدین کے نام آمنہ اور عبداللہ ہونگے تو میں کیسے یہ دعویٰ کرسکتا ہوں، انہوں نے کہا کہ مہدی صرف وہ ایک ہے۔میں نے شاہ اسماعیل شہیدؒ کی کتاب ’’منصبِ امامت‘‘ دکھادی کہ ’’مہدی آخرزمان سے پہلے مہدیوں کا سلسلہ ہوگا، جن میں سے ایک خراسان کا مہدی ہے‘‘۔ جمعہ خطبات میں بھی خلفاء راشدینؓ کو مہدی کہاجاتاہے۔ پھر انہوں نے میری طرف سے یہ باتیں لکھ کر دستخط کئے کہ ’’میں نے مہدی آخر زمان کا دعویٰ نہیں کیا اور تبلیغی کام مستحسن ہے‘‘۔ سب کے دستخط کئے مگر پھر تحریر دینے سے انکار کرکے مسجد کی امامت اور نیا دین چھوڑ دینے کا مشورہ دیابقیہ صفحہ 2 نمبر1

اسلام کی نشاۃ اول کا بہترین و مستند ترین نمونہ

اللہ تعالیٰ نے قرآن میں جہاں السابقون الاولون من المہاجرین و الانصار کا ذکر کیا، وہاں انکے ساتھ رضی اللہ عنھم و رضو عنہ کی سند کا بھی ذکر فرمایاہے ۔ اسلام کی نشاۃ ثانیہ انہی کے نقش قدم پر ہوسکتی ہے و الذین اتبعوھم باحسانکی سعادت اس وقت مل سکتی ہے جب پہلوں کے بارے میں حسن ظن کا عقیدہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نشاندہی بھی فرمائی ہے کہ ثلۃ من الاولین و قلیل من الاٰخرین پہلوں میں بڑی جماعت اور آخر والوں میں سے تھوڑے وہ ہونگے جو سبقت لیجانے میں سبقت لے جائینگے۔ اللہ نے ان کو اولٰئک المقربون مقرب ہونیکا درجہ دیا ہے۔ اس کے علاوہ سورہ جمعہ میں بھی اللہ نے صحابہ کرامؓ کو قرآن کی تعلیم و تربیت اور حکمت و تزکیہ کا ذکر کیا ہے اور یہ بھی فرمایا ہے کہ واٰخرین منھم لما یلحقوا بھم اور آخر والے جو ان پہلوں سے ابھی نہیں ملے ہیں۔ صحابہ کرامؓ کے حوالے سے فتح مکہ سے قبل اور فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کرنے پر مختلف درجات کا ذکر ہے۔ بدری صحابہؓ اور غیر بدری صحابہؓ میں بھی فرق تھا۔ عشرہ مبشرہ کے دس صحابہؓ سب میں ممتاز تھے۔ عشرہ مبشرہؓ میں چار خلفاء راشدینؓ کی امتیازی حیثیت بھی ایک مسلمہ بات ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے وصال کے وقت انصارؓ و مہاجرینؓ کے درمیان خلافت کے مسئلے پر اختلاف شروع ہوا ، حضرت علیؓ تجہیز و تکفین میں لگ گئے اور انصارؓ نے خلافت کیلئے ایک مجلس کا اہتمام کر رکھا تھا جہاں حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ پہنچے۔ مکالمہ کے بعد حضرت ابوبکرؓ کی بیعت پر اکثریت کا اتفاق ہوا ، فتنہ و فساد ہوتے ہوتے بچ گیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے اپنے بعد حضرت عمرؓ کو خلیفہ نامزد کردیا۔ حضرت عمرؓ نے اپنے بعد خلافت کا مسئلہ شوریٰ کے سپرد کردیا۔ حضرت عثمانؓ کو شوریٰ نے مقرر کردیا اور جب حضرت عثمانؓ کو شہید کیا گیا تو حضرت علیؓ ہنگامی حالت میں خلیفہ نامزد ہوگئے۔پھر حضرت عثمانؓ کے قاتلین سے بدلہ لینے کے مسئلے پر حضرت علیؓ اور حضرت عائشہؓ و طلحہؓ و زبیرؓ کے درمیان جنگیں برپا ہوئیں۔ حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ کا تعلق بھی عشرہ مبشرہ سے تھا۔
رسول اللہ ﷺ نے حدیث قرطاس میں ایسے وصیت نامہ کا ذکر کیا تھا جس کے بعد امت گمراہ نہ ہو لیکن حضرت عمرؓ نے کہا کہ ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے۔ حضرت عمرؓ نے بعد میں فرمایا تھا کہ کاش! ہم رسول اللہ ﷺ سے تین باتوں کا پوچھ لیتے ، ایک آپؐ کے بعد خلیفہ کون ہو، دوسرا زکوٰۃ نہ دینے والوں کیخلاف قتال ، اور تیسرا کلالہ کی میراث۔
رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرامؓ کو وصیت فرمائی تھی کہ اپنی بیگمات کو مساجد میں آنے سے نہ روکا جائے۔ غیر مسلم یہود و نصاریٰ بیگمات کو بھی انکی عبادت گاہوں میں جانے سے نہ روکنے کا حکم دیا تھا۔ آج جس طرح فیملی پارک آباد ہیں اس وقت مساجد اور عبادتگاہیں آباد ہوا کرتی تھیں۔ آج جس طرح مکہ مکرمہ کی مسجد الحرام میں حضرات و خواتین ، بچے اور بچیاں نماز و طواف میں شریک ہوتے ہیں اسوقت مسجد نبوی اور دوسری مساجد کو بھی اسی طرح آباد رکھا جاتا تھا۔ معروف شاعر شاکر شجاع آبادی نے اپنے اشعار میں کہا ہے کہ جن مساجد میں مخلص نمازی ہیں وہ زمین پر بیت اللہ ہیں اور جو مولوی کی تجارت گاہیں بن گئی ہیں انکو ڈھایا جائے۔ عدالتوں کے بارے میں کہا ہے کہ اوپر انصاف کا جھنڈا ہے اور نیچے انصاف بکتا ہے ایسی عدالتوں کو بمع عملہ کے گرادیا جائے۔ شاکر شجاع آبادی بہت ہی مقبول شاعر ہیں وہ کہتے ہیں کہ سنی مشرک ، شیعہ کافر اور وہابی منکر ہیں لہٰذا اے کافر !تم ہی جنت پانے کی تیاری کرلو۔ علماء و مفتیان کرام کو حقائق کی طرف آنے کی ضرورت ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنی ازواج مطہراتؓ سے فرمایا تھا کہ میرے ساتھ جو حج کرلیا وہ کافی ہے ، میرے بعد حج نہیں کرنا۔ جب حضرت عمرؓ نے اپنی زوجہؓ کو مسجد میں جانے سے روکنے کیلئے رات کو خفیہ طور سے چھیڑا ، جسکے بعد انہوں نے مسجد میں جانا یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ اب مسجد میں جانے کا زمانہ نہیں رہا۔ عربی مقولہ ہے کہ الناس علی دین ملوکھم عوام اپنے حکمرانوں کے طرز عمل پر چلتے ہیں۔ صورتحال اس وقت یہ بنی کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ نے فرمایا کہ اگر رسول اللہ ﷺ حیات ہوتے تو خواتین کو مساجد میں جانے سے خود روک دیتے، جب مساجد میں خواتین کا آنا رُک گیا تو ایک درشتی کا سا ماحول پیدا ہوا۔ حضرت عمرؓ کی مسجد میں شہادت کے بعد حضرت عثمانؓ کو گھرمیں محصور کرکے شہید کیا گیا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا و من اظلم ممن منع مسٰجد اللہ ان یزکر فیھا اسمہ و سعٰی فی خرابھا اولءٰک ماکان لھم ان یدخلوھا الا خائفین لھم فی الدنیا خزی و لھم فی الاٰخرۃ عذاب عظیم O ’’اور اس سے بڑا ظالم کون ہے کہ جو منع کرے اللہ کی مساجد سے کہ اس میں اس کا نام لیا جائے اور ان کو ویران کرنے کی کوشش کرے۔ ایسے لوگ ان مساجد میں داخل نہیں ہوں گے مگر خوفزدہ ہوکر ۔ ان کیلئے دنیا میں بھی ذلت ہے اور آخرت میں بھی بہت بڑا عذاب ہے‘‘( البقرہ : آیت 114)۔
رسول اللہ ﷺ نے آخری خطبہ میں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔ جب ماحول بگڑ گیا تو بات اس حد تک پہنچی کہ بنو اُمیہ کے حجاج کے مقابلے میں حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ خوارج سے مدد مانگتے تھے اور خوارج حضرت عثمانؓ کو برا بھلا کہنے کی شرط پر مددکیلئے تیار تھے۔ درج بالا آیت سے پہلے یہود و نصاریٰ کی اس کیفیت کا ذکر ہے جس میں وہ دوسروں کی مذمت کرتے ہیں اور اپنے بارے میں خوش فہمیوں کا شکار ہیں۔ آج اگر بیت اللہ کی طرح مسلمان اپنے گاؤں ، محلہ اور شہروں کی مساجد کو آباد کریں تو اُمت کی اصلاح کیلئے یہ زبردست اقدام ہوگا۔ جن کالج ، یونیورسٹیوں ، دفاتر، ہسپتال ، ایئر لائن اور پبلک مقامات پر مخلوط نظام سے بگاڑ پیدا ہورہا ہے اگر روزانہ کی بنیاد پر پنج وقتہ نماز سے ماحول کی تبدیلی کا آغازکرینگے تو مسلم امہ کو دنیا کی ساری قومیتوں اور مذاہب پر عالم انسانیت میں فوقیت حاصل ہوگی۔ بصورت دیگر امت مسلمہ کے صحابہ کرامؓ اور صحابیاتؓ سے ہماری عقیدت برقرار رہے گی کیونکہ ان کو سند قرآن نے دی ہے لیکن مسلم امہ کی اکثریت جس طرح سے بے راہ روی کا شکار ہوگی اسکے مناظر کا اندازہ سب اپنے گھروں میں ٹی وی پر چلنے والے اشتہارات سے لگا سکتے ہیں۔
قرآن و سنت میں بہت سی ایسی باتیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کی طرف سے فیصلے کے برعکس آیات نازل کیں۔ جیسے سورہ مجادلہ میں خاتون کا ذکر ، بدر کے قیدیوں پر فدیہ لینا ، عبد اللہ ابن ابی منافق کا جنازہ پڑھانا، فتح مکہ کے بعد ہجرت نہ کرنے کے باوجود حضرت علیؓ کی ہمشیرہ حضرت اُم ہانیؓ سے شادی کرنے کی خواہش۔۔۔ خلفاء راشدینؓ کے دور میں بھی اختلاف کا معاملہ رہا۔ مشرکین مکہ زمانہ حج میں عمرہ کو جائز نہیں سمجھتے تھے۔ اللہ نے حج اور عمرہ کرنے کی اجازت دیدی۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک حج کیا ، اس میں عمرہ کا احرام بھی ساتھ باندھا ۔ حضرت عمرؓ نے حج کیساتھ عمرہ کا احرام باندھنے کو روکا۔ حضرت عمران بن حصینؓ نے کہا کہ جب اللہ نے حکم نازل کیا اور نبی ﷺ نے اس پر عمل کیا تو اس کے بعد کوئی ایسا حکم نازل نہیں ہوا کہ منع کیا گیا ہو۔ جس نے روکا ، اس نے اپنی رائے سے روکا۔ احادیث کی کتب میں تفصیلات ہیں۔ ابن عمرؓ سے کہا گیا کہ تمہارے والد کی رائے یہ تھی تو انہوں نے کہا کہ میں اپنے والد نہیں رسول اللہ ﷺ کی نبوت پر ایمان لایا ہوں۔ ابن عباسؓ نے فرمایا کہ حیرت ہے کہ تم پر پتھر کیوں نہیں برستے کہ رسول ﷺ کے مقابلے میں عمرؓ اور ابوبکرؓ کی بات کرتے ہو۔ بخاری شریف میں حضرت عثمانؓ سے حضرت علیؓ کے الجھنے کا معاملہ بھی مذکور ہے۔ حنفی مسلک یہ ہے کہ حضرت عمرؓ کی بات کو قرآن و سنت کے مقابلے میں کوئی حیثیت حاصل نہیں۔ باقی مسالک حضرت عمرؓ کی بات کو ترجیح دیتے ہیں۔
اہل تشیع کہتے ہیں کہ عمرؓ نے قرآن و سنت کے مقابلے میں مشرکین مکہ کا مذہب رائج کرنے کی کوشش کی۔ فقہی مسالک کی سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ مسئلے مسائل رٹنے کے علاوہ سمجھ بوجھ کا اس میں کوئی کام نہیں۔ جب حنفی اپنے مسلک کی وکالت کرتے ہیں تو یہ نظر آتا ہے کہ وہ بھی اہل تشیع کی طرح حضرت عمرؓ کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ حالانکہ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ حضرت علیؓ نے حضرت عمرؓ کی وفات کے بعد بھی اچھے کلمات سے ان کی تعریف اور توصیف کی جس کا نہج البلاغہ میں ذکر ہے، حضرت عمرؓ جانتے تھے کہ مسلم اُمہ مشقت میں مبتلا ہوجائے گی ، اگر واحد سنت سمجھ کر حج وعمرے کا احرام ایک ساتھ باندھا جاتا تو قیامت تک لوگ بڑی مشقت میں پڑ جاتے۔ حج کے دنوں میں پہلے سے لوگ پہنچ جاتے ہیں اگر کئی کئی دنوں تک وہی احرام سنت سمجھ کر زیب تن رہتا تو مکہ کے لوگ حاجیوں کی بدبو سے بھاگ جاتے۔ حضرت عمرؓ قرآن و سنت کی تعلیمات سے نہیں لڑ رہے تھے بلکہ لوگوں کی جہالت سے لڑ رہے تھے، صحابہؓ کس بات پر لڑ رہے تھے اور آج کے مذہبی طبقات کن کن باتوں کے مباح و بدعت ہونے پر لڑ رہے ہیں؟۔ داڑھی کی لمبائی ، مونچھ کی کٹائی ، چوتڑ تک سر کے بال یا گنجاپن ۔ زاغوں کے تصر ف میں ہے شاہیں کا نشیمن

پاکستان و دیگر ممالک میں اہل تشیع کا ماتم و جلوس پر تماشہ لگانا جائز نہیں. ایرانی علماء کا فتویٰ

ایران (ساجدحسین) محمد رضاصاحب (ایران خوزستان، شہروزفول، خیابان امام خمینی، ڈاک نمبر 6461758746، مکان نمبر 234 نے اپنی ایک ویڈیوکال پربتایا کہ ان علماء کرام (آیت اللہ خامنہ ای، آیت اللہ نوری ھمدانی، آیت اللہ شبیری زنجانی، آیت اللہ صافی گلیایگانی، آیت اللہ بہجت مرحوم، آیت اللہ جوادی آملی، آیت اللہ سیستانی) نے متفقہ طورپر یہ فتویٰ صادرفرمایاہے کہ پاکستان یا دوسرے ممالک کے اندراہل تشیع حضرات جوماتم اورکوب زنی، خون خرابہ ، سرے عام جلوس کی شکل میں نکل کر تماشہ کرتے ہیں یہ سب اسلام اوردین وشریعت میں جائزنہیں حرام ہے۔
اورصحابہ کرام جن میں حضرت ابوبکرؓ،حضرت عمرؓ،حضرت عثمانؓ،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور اسی طرح دوسرے صحابہؓ کوگالیاں دیتے ہیں یا برا بھلاکہاجاتاہے یہ کسی بھی شخص کوحق نہیں پہنچتاکہ انکو گالیاں دے یا برابھلاکہے۔ مزیدانہوں نے کہا کہ پوری دنیاکیلئے جب تک ایک امام مقرر نہ ہواسوقت تک مسلمانوں کے اندراتحادواتفاق نہیں ہوسکتا۔ اسلام کی سربلندی اسی میں ہے کہ ہم سب صرف اورصرف مسلمان بن کر رہیں اور آپس کے اختلافات کو چھوڑ دیں۔ اور اللہ نے چاہاتوانشاء اللہ پاکستان آکرمیں شاہ صاحب سے ضرورملاقات کیلئے آؤں گا۔ آپ ان سب علماء کرام کے نام ایک پیغام لکھ کربھیجیں تاکہ آپ کا یہ پیغام ہم ان علماء تک پہنچاسکیں۔ آپ یہ پیغام عربی میں لکھیں یا فارسی میں۔ اگرآپ ان علماء سے بات کرناچاہیں توانٹرنیٹ پربھی آپ سوالات پوچھ سکتے ہیں۔

رمضان شریف میں زکوٰۃ کا اہم ترین مسئلہ

زکوٰۃ وصول کرنے کے نام پر بڑے بڑے اشتہارات لگانے والوں کی حیثیت ملٹی نیشن کمپنیوں سے بھی زیادہ ہے۔غریب ومستحق افراد کا اللہ نے ایک وسیلہ بنایا تھا ان ظالموں نے وہ بھی ان سے چھین لیاہے۔ معاشرے میں بہت سے عزتدار لوگ ہوتے ہیں جو زکوٰۃ کے مستحق ہوتے ہیں لیکن وہ کسی کے آگے اپنی ضرورت نہیں رکھ سکتے۔ امام غزالیؒ نے لکھ دیا تھا کہ ’’ امام ابوحنیفہؒ کے شاگردشیخ الاسلام امام ابویوسفؒ نے یہ حیلہ کررکھا تھا کہ سال ختم ہونے سے پہلے اپنا سارا مال اپنی بیوی کو ہبہ کردیتے اور پھر سال ختم ہونے سے پہلے بیوی اس کو ہبہ کردیتی تھی تاکہ زکوٰۃ سے بچا جاسکے۔ جب امام ابوحنیفہؒ سے کسی نے کہہ دیا کہ آپ کا شاگرد اس طرح سے کررہاہے تو فرمایا کہ یہ دین کا فقہ حاصل کرنے کا انعام ہے جس کا وہ فائدہ اٹھا رہاہے‘‘۔ امام ابوحنیفہؒ نے یقیناًطنز یہ یہ جملہ کہا ہوگا، مولانا ابوالکلام آزادؒ نے لکھا:’’ دارالعلوم دیوبند کا ایک بزرگ بھی یہ حیلہ کرتا ہے مگر یہ اسلام نہیں یہود نے جس طرح سے توراۃ کے حکم کو بگاڑ دیا تھایہ حدیث کے مطابق یہود کے نقش قدم پر چلنے کا نتیجہ ہے‘‘۔ (تذکرہ، آزادؒ )
حضرت ابوبکرؓ نے امیروں سے زکوٰۃ چھین کر غریبوں کو ان کا حق دلایا تھا، علماء کرام میں جو بہت امیر کبیر ہیں ان سے زکوٰۃ چھین کر غریب علماء میں بانٹی جائے تو کوئی مولوی غریب نہیں رہے گا لیکن فقہ وتفسیر کی کتابوں میں یہ لکھ دیا گیاہے کہ تمام فقہی مسالک اس پر متفق ہیں کہ زکوٰۃ میں زبردستی نہیں ہے۔ اگر حکمران زبردستی ان سے زکوٰۃ لیتے تو بیویوں کو ہبہ کرنے کے حیلے بہانے بھی نہ چلتے۔ خلافت راشدہ کا دور وہ تھا جسکے آخر میں بڑا شر برپا ہوا،آپس میں لڑ مرے،حالانکہ نبیﷺ نے فرمایا تھا کہ میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ صفات بیان کیں کہ رحماء بینھم اشداء علی الکفار ’’وہ آپس میں رحیم اور کافروں پر سخت ہیں‘‘ لیکن اسلام کے چہرے پر وہ غبار نہیں آیا جس کی وجہ سے اسلام کا سورج چھپ گیا ہو۔ پھر حضرت امام حسنؓ کے کردار کی وجہ سے صلح ہوگی لیکن اس خیر میں دھواں شامل ہوا، جس کے اثرات آج اپنے انتہاء کو پہنچ گئے ہیں۔
نبی کریمﷺ کی چاہت تھی کہ لوگ اپنی زکوٰۃ اپنے ہاتھوں سے مستحقین کے اندر تقسیم کردیں، صحابہؓ چاہتے تھے کہ آپﷺ کے ہاتھوں سے ان کی زکوٰۃ مستحقین کو مل جائے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کوحکم دیا کہ’’ ان سے صدقات ( وصول) کرو، یہ ان کیلئے تسکین کا ذریعہ ہے‘‘۔ نبیﷺ نے اللہ کے حکم سے صحابہؓ کی خواہش پر زکوٰۃ کو قبول کیا لیکن اپنے اہلبیت پر اس کو حرام کردیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے سمجھا کہ جو حکم اللہ کے نبیﷺ کو تھا،ایک خلیفہ کی حیثیت سے وہ حکم مسلمان حکمران کو بھی ہے، لہٰذا جن لوگوں نے بیت المال کو زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا تو انکے خلاف قتال کیا، حضرت خالد بن ولیدؓ نے ایک شخص کو قتل کرکے اس کی خوبصورت بیوی سے شادی بھی رچالی جس پر حضرت عمرؓ نے ان کو سنگسار کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ حضرت داؤد علیہ السلام کی 99بیویاں تھیں تب بھی اپنے مجاہد اوریا کی عورت پر دل آیا تو اللہ نے دنبیوں کی تعبیر سے آپؑ کو منع کردیا۔ فتح مکہ کے بعد رسول اللہﷺ حضرت علیؓ کی بہن ام ہانیؓ سے شادی کرنا چاہتے تھے تو اللہ نے فرمایا کہ جن رشتہ دارعورتوں نے ہجرت نہیں کی ان سے نکاح نہ کریں اور یہ بھی فرمایا کہ ’’اسکے بعد کوئی عورت بھلی لگے تو اس سے شادی نہ کریں‘‘۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ اللہ نے نبیﷺ کے وصال کے بعد بھی آپﷺ کی ازواج مطہراتؓ سے شادی کا منع فرمایا تھا، یوں ایک طرف کسی عورت کو بہت ہی بڑا شرف مل جاتا کہ ام المؤمنین بن جاتی تو دوسری طرف بیوہ بن جانے کے بعد بھی وہ شادی کی مجاز نہ ہوتی۔ ابنت الجونؓ سے نبیﷺ نے خلوت صحیحہ فرمائی تھی مگر انکے ساتھ ازدواجی تعلق قائم کرنے سے پہلے ان کو چھوڑدیا تھا۔ حضرت عمرؓ نے انکی شادی پر پابندی لگانا چاہی لیکن اس نے کہا کہ مجھے نبیﷺ نے ہاتھ نہیں لگایا۔
حضرت خالد بن ولیدؓ کو نبیﷺ نے سیف اللہ قرار دیا ،حضرت آدم ؑ اس شجرہ کے قریب گئے جسکا فرمایاگیا : ان لاتجوع ولاتعری کہ بھوکے ننگے نہ ہوجاؤ۔وہ کونساشجرہ ہے جسکے پھل کھانے سے انسان کا پیٹ نہ بھرے بلکہ بھوکا ننگا ہوجائے؟، شیطان نے آدمؑ کو بتایا ھل ادلکم علی شجرۃ الخلد وملک لایبلیٰ کیا تمہارے لئے اس شجرے کی نشاندہی کروں جو ہمیشہ والی ہو اور نہ ختم ہونے دولت ہو۔ مولانا عبیداللہ سندھیؒ نے لکھا کہ شیطان نے اپنی مادی کیساتھ مباشرت کرکے بتادیا، بخاری میں ہے’’ اگر حواؑ نہ ہوتی تو کوئی عورت شوہرسے خیانت نہ کرتی‘‘۔
حضرت آدمؑ کا بڑا بیٹا اسی نافرمانی کے نتیجے میں پیدا ہواتھا، جس نے اپنی ناجائز خواہش کیلئے اپنے بھائی ہابیل کو شہید کردیا ،پھر کوئے نے دفن کرنے کا طریقہ بتایا۔ انسان اچھی سے اچھی چیز کھاکر بھی بدبودار بول وبراز خارج کرتاہے، اسکی پیدائش کا طریقہ کار بھی ماں باپ کے ملاپ اور نطفہ امشاج سے ہوتاہے۔ ضعیف انسان کو تکبر کسی طرح بھی زیب نہیں دیتا اور اللہ اس کو برداشت بھی نہیں کرتاہے۔ زکوٰۃ مستحق کیلئے گند نہیں بلکہ اس کیلئے حق حلال ہے اور غیرمستحق کیلئے گندو حرام ہے۔ یہ فقراء ومساکین کا حق ہے ، غریب بیواؤں اور یتیموں کا حق کھانے اور کھلانے سے اس امت پر عذاب کی کیفیت طاری ہوگئی ہے۔ مال اوراولاد کو اللہ نے فتنہ قراردیا۔ نبیﷺ زکوٰۃ لینے سے انکار کررہے تھے تو اللہ نے حکم دیا کہ انکی تسکین کا ذریعہ ہے اور جب نبیﷺ نے قبول کرلیا تو حضرت ابوبکرؓ نے مغالطہ کھایا جس کی وجہ سے وہ خالد بن ولیدؓ کا ناگوار واقعہ بھی پیش آیا، اس واقعہ کی وجہ سے حضرت خالد بن ولیدؓ کی تمام خدمات کو فراموش کرنا ایسا ہے جیسے حضرت آدم ؑ کی ساری شرافت و اعزازات میں بس درخت کی غلطی کو پکڑ کر تنقید وتنقیص کا نشانہ بنایا جائے۔ رسول ﷺ کا یہ بہت بڑا کارنامہ تھا کہ بیواؤں و طلاق شدہ خواتین کو زوجیت کی عزت کا شرف بخشا، حضرت ابوبکرؓ نے اپنی ضرورت سے تھوڑا زیادہ لینا بھی برداشت نہیں کیا، ان کے خلوص پر حسنِ ظن نہ کرنا اپنا نقصان ہے مگر جس مغالطے کی وجہ سے ایک عظیم فوج کے عظیم سپہ سالار سے اتنی بڑی لغزش ہوئی، حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ کاش نبیﷺ سے پوچھ لیتے کہ زکوٰۃ نہ دینے کے خلاف قتال کیا جائے یا نہیں؟۔ پھر زکوٰۃ کیلئے قتال کا مسئلہ ختم ہوا تو اس کی وجہ سے اچھی فضاء بن گئی اور یزید کے لشکر کے سپاہ سالار نے حضرت حر ؒ نے امام حسینؓ کا ساتھ دیا۔ ایک شخصیت کی وجہ سے مجموعی فضاء پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔ وزیراعظم سید یوسف رضاگیلانی کے گھر سے سیلاب زدگان کیلئے تحفہ میں دیا جانے والا ہار برآمد ہوا، یہ زرداری کی صحبت کے دور رس اثرات تھے۔
حضرت علامہ سیدمحمد یوسف بنوریؒ تاجدارِ مدینہ کے فرزند تھے، مدرسہ کیلئے ایک قانون بنادیا کہ ’’ایک سال سے زیادہ کیلئے زکوٰۃ نہیں لے جائے گی۔ طالب علم کو ہاتھ میں زکوٰۃ دیکر مالک بنایا جائیگا، اسکی طرف سے مدرسہ وکالت کا کام نہیں کریگا اور سالانہ ماہرین کے ذریعہ سے آرڈٹ کرایا جائیگا‘‘۔ علامہ یوسف بنوریؒ نے خود پر ہدیہ کو بھی حرام قرار دیا تھا۔ ایک سرمایہ دار نے کہا کہ مولانا آپ کو ضرورت نہ ہو تو مستحق لوگوں میں بانٹ دیں۔ مولانا نے فرمایا کہ ’’ ثواب آپکوملے جواب مجھے دینا پڑے، اس خسارے کا سودا میں نہیں کرتا‘‘۔ تاریخ کے ہر دور میں اہل حق موجود رہے ہیں، ہم نے ان اہل حق کی وراثت کا حق ادا کرنا ہے۔ حاجی عثمانؒ کے خلفاء کا یہ کارنامہ تھا کہ بسوں میں چلنے والے علماء کرام کو گاڑیاں دی تھیں، حاجی محمدعثمان ؒ نے سائیکل بھی نہ لی اور بہت خستہ حال بلڈنگ کے خستہ حال فلیٹ میں رہے۔ سیدعتیق

عصر حاضرحدیث نبویﷺ کے آئینہ میں

عن حذیفہؓ قال: کان الناس یسئلون رسول اللہ ﷺ عن خیر و کنت اسئلہ عن الشر مخافۃ ان یدرکنی، قال : قلت یا رسول اللہ! ان کنا فی جاہلیۃ و شر فجاء نا اللہ بھٰذا الخیر، فھل بعد ھٰذا الخیر من شر؟ قال: نعم! قلت : وہل بعد ذٰلک الشر من خیر ؟ قال: نعم ! و فیہ دخن، قلت : وما دخنہ؟ قال: قوم یستنون بغیر سنتی و یہتدون بغیر ھدیتی، تعرف منھم و تنکر، قلت فہل بعد ذٰلک الخیر من شر؟ قال: نعم! دعاۃ علیٰ ابواب جہنم، من اجابہم الیھا قذفوہ فیھا، قلت یا رسول اللہ! صفہم لنا، قال ھم من جلدتنا و یتکلمون بالسنتنا! ، قلت: فما تأمربی ان ادرکنی ذٰلک؟، قال: تلزم جماعۃ المسلمین و امامہم! قلت فان لم یکن لہم جماعۃ ولا امام؟ قال: فاعتزل تلک الفرق کلہا ولو ان تعض باصل شجرۃ حتیٰ یدرکک الموت و انت علیٰ ذٰلک (مشکوٰۃ، بخاری، عصر حاضر)
حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے لوگ خیر کے بارے میں پوچھا کرتے تھے اور میں شر کے بارے میں پوچھتا تھا تاکہ مجھے شر نہ پہنچے۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! بیشک ہم جاہلیت اور شر میں تھے تو اللہ نے اس خیر (اسلام)کو ہمارے پاس بھیجا ۔ کیا اس خیر کے بعد کوئی شر ہوگا؟، فرمایا : ہاں! ۔ پھر میں نے پوچھا کہ کیا اس شر کے بعد کوئی خیر ہوگی؟۔ فرمایا: ہاں! اس میں دھواں (آلودگی) ہوگی۔ میں نے پوچھا : وہ دھواں کیا ہے؟۔ فرمایا: لوگ میری سنت کے بغیر راہ اپنائیں گے اور میری ہدایت کے بغیر چلیں گے۔ ان میں اچھے بھی ہوں گے اور برے بھی۔ میں نے عرض کیا کہ کیا اس خیر کے بعد بھی شر ہوگا؟۔ فرمایا: ہاں! جہنم کے دروازے پر کھڑے داعی ہونگے جو ان کی دعوت قبول کریگا اس کو اسی میں جھونک دینگے ۔ میں نے عرض کیا: ان کی پہچان کرائیں۔ فرمایا : ہمارے لبادے میں ہوں گے اور ہماری زبان (مذہبی اصطلاحات) بولیں گے ۔ میں نے عرض کیا : اگر میں انکو پالوں تو کیا حکم ہے؟۔ فرمایا: مسلمانوں کی جماعت اور انکے امام سے مل جاؤ ۔ عرض کیا کہ اگر مسلمانوں کی جماعت ہو اور نہ ان کا امام تو پھر؟۔ فرمایا : ان تمام فرقوں سے الگ ہوجاؤ اگرچہ تمہیں درخت کی جڑ چوس کر گزارہ کرنا پڑے۔ یہاں تک کہ تمہیں موت پالے اور تم اسی حالت پر رہو۔ (عصر حاضر حدیث نبوی ﷺ کے آئینہ میں)
اس حدیث میں صفحہ نمبر 4پر موجود نقش انقلاب کی بھرپور وضاحت ہے۔ اسلام کے آغاز میں نبوت اور خلافت راشدہ کا دور تھا جس کے آخر میں عشرہ مبشرہ نے بھی گھمسان کی جنگ لڑی۔ اس دور کا خیر اور شر دونوں واضح تھے۔ پھر اسکے بعد خیر میں دھواں نمودار ہوا۔ یہ دھواں امارت ، بادشاہت اور جبری حکومتوں کے اختتام تک بتدریج بڑھتارہا، اس خیر کے دور میں اچھے لوگ بھی تھے اور برے بھی، جن میں علماء صوفیاء اور ہر طرح کے حکمران شامل تھے۔ اس دور کے بالکل اختتام پر دوبارہ طرز نبوت کی خلافت کے قیام سے پہلے شر کا وہ دور آیا ہے جس میں مذہبی جماعتیں اور تنظیمیں مذہبی لبادے اور مذہبی زبان میں لوگوں کو جہنم کی طرف دھکیل رہی ہیں۔ یہ دور وہ ہے جس میں مسلمانوں کی جماعت اور انکے امام کے ساتھ ملنے کا حکم ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے نماز ، وضو اور غسل وغیرہ کے فرائض نہیں سکھائے ، خلافت راشدہ کے دور میں بھی چاروں خلفاء نے اس قسم کی فضولیات پر اپنا اور اپنی قوم کا وقت ضائع نہیں کیا۔ اسی دھوئیں کے دور میں نبی ﷺ کی سنت اور ہدایت کے بغیر فرقہ واریت اور مسلکوں کے اپنے اپنے چشمے لگائے گئے۔ ان من گھڑت ہدایت اور سنت کے طریقوں سے اسلام کا چہرہ بتدریج اجنبیت کا شکار بنتا چلا گیا۔ ان میں کچھ اچھے نیک ، صالح ، اللہ والے اور حق کے علمبردار تھے اور کچھ بد ، بدکار، طاغوت کے بندے اور باطل کے علمبردار تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرائض اور واجبات کیلئے کوئی حلقے نہیں لگائے اور جن لوگوں نے نیک نیتی کیساتھ یہ تعلیم عام کردی کہ غسل کے احکام کیا ہیں اور اس میں نت نئے فرائض وغیرہ دریافت کرلئے مگر درباری بن کر حکمرانوں کی ایماء پر اہل حق کا خون جائز قرار دینے کے فتوے نہیں لگائے تو بھی ان کا کردار اپنی شخصیتوں کی حد تک نیک و صالح اور اہل حق کا رہا۔ انکی ہدایت اور سنت کو پھر بھی بجا طور سے نبی کریم ﷺ کی ہدایت اور سنت نہیں کہہ سکتے۔
امام ابو حنیفہؒ پر حکمرانوں کو شک تھا کہ پس پردہ حضرت امام حسنؓ کی اولاد عبد اللہ اور ابراہیم کی بغاوت کی تائید کررہے ہیں تو ان کو جیل میں زہر دے کر شہید کیا گیا۔ امام ابو حنیفہؒ کی ساری زندگی علم کلام کی گمراہی میں گزری اور پھر آخر میں توبہ کرکے وہ فقہ اور اصول فقہ کی طرف رُخ کرکے شمع ہدایت کے چراغ جلانے لگے۔ قرآن کے مقابلے میں احادیث صحیحہ اور خلفاء راشدین کے فیصلوں کو بھی رد کرنے میں ذرا تامل سے کام نہ لیا۔ ان کی شخصیت اہل حق کیلئے مینارۂ نور کی حیثیت رکھتی تھی۔ آپ نے بڑی استقامت کیساتھ حق کا علم بلند کرنے میں مقدور بھر کوشش کی۔ حضرت امام مالکؒ ، حضرت امام شافعیؒ ، حضرت امام احمد بن حنبلؒ اور حضرت امام جعفر صادقؒ بھی اپنے اپنے طرز پر نبی ﷺ کی سنت کو ہر قیمت پر تحفظ دینے کے زبردست علمبردار رہے ۔ ان کے پیروکاروں نے اپنے اپنے طرز پر فقہ و مسالک کی تدوین کا کام کیا۔ نبی کریم ﷺ کی سنت اور ہدایت کو زندہ کرنے کیلئے دوبارہ طرز نبوت کی خلافت قائم ہوگی تو تاریخ کے ادوار میں اسلام کے سورج پر پڑنے والے دھوئیں کا سراغ لگ سکے گا۔ موجودہ دور میں بات یہاں تک پہنچی ہے کہ سب کو پیٹ کی لگی ہوئی ہے یا پھر خود کش دھماکوں اور گرنیٹ کا خوف دامن گیر ہے۔ مساجد ، خانقاہ اور امام بارگاہ میں وہ لوگ براجمان ہیں جنہوں نے مذہب کو محض دنیاوی مفاد کا ذریعہ بنادیا ہے۔
امام ابو حنیفہؒ کی خدمات کا انکار اسلام کے سورج سے پھوٹنے والی روشن کرنوں کا انکار ہے۔ تاہم اسلام کے سورج کو آلودہ کرنے میں بھی سب نے اپنا اپنا حصہ ڈال دیا ہے۔ امام ابو حنیفہؒ نے علم الکلام (علم العقائد) سے توبہ کرکے قرآن کریم کی بیش بہا خدمت انجام دی مگر اس طریقے ہدایت اور سنت کو نبی کریم ﷺ کے طرز عمل سے نہیں جوڑا جاسکتا ہے۔ علم کلام کا یہ مسئلہ تھا کہ تحریری شکل میں اللہ کی کتاب قرآن کا نسخہ اللہ کا کلام نہیں ، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے وحی کا آغاز ہی قلم کے ذریعے سے انسان کو تعلیم دینے سے کیا ہے اور سورہ بقرہ میں الذین یکتبون الکتٰب بایدیھم ’’جو لوگ کتاب کو اپنے ہاتھ سے لکھتے ہیں‘‘( کتاب ہاتھ سے لکھی جانے والی چیز ہے ) مشرکین مکہ جانتے تھے کہ صبح شام لکھوائی جانے والے چیز کا نام کتاب ہے۔ ان پڑھ اور جاہل بھی یہ سمجھتا ہے کہ کتاب موبائل ، میز اور جگ نہیں لیکن علم کلام سے اپنی گمراہی مقدر ٹھہری۔ اُصول فقہ میں پڑھایا جاتا ہے کہ قرآن کے نسخے کلام اللہ نہیں اور ان پر حلف اٹھانے سے حلف نہیں ہوتا۔ پھر گمراہی کے کالے بادل وقت کیساتھ گہرے ہوتے گئے تو یہاں تک لکھا گیا کہ سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا جائز ہے۔ مستند سمجھے جانیوالے مذہبی مدارس گمراہی کے گڑھ اور قلعے بن چکے جو اپنے نصاب سے گمراہی کو نہیں نکال سکتے۔ علم کی سند جہالت اور مدارس کے نصاب پر ڈٹ جانا ہٹ دھرمی کے سوا کیا ہے؟ ۔امام نہ ملے تو درخت کی جڑ چوسنا بہتر رزق ہے۔
آج بڑے مدارس کے علماء ومفتیان اور مذہبی وسیاسی جماعتوں کے رہنما حق کی خاطر کھڑے ہوجائیں تو اسلامی انقلاب میں بالکل بھی کوئی دیر نہیں لگے گی۔
عن عبد اللہ ابن مسعودؓ ان رسول اللہْ ﷺ قال: ما من نبی بعثہ اللہ تعالیٰ فی اُمۃٍ قبلی الا کان لہ من امتہٖ حواریون و اصحاب یاخذون بسنتہٖ و یقتدون بامرہٖ ثم انھا تخلف من بعدہٖ خلوف یقولون مالا یفعلون و یفعلون مالا یؤمرون ومن جاہدھم بیدہٖ فھو مؤمن ومن جاہدھم بلسانہٖ فھو مؤمن ومن جاھدھم بقلبہٖ فھو مؤمن ولیس وراء ذٰلک من الایمان حبۃ خردلٍ (صحیح مسلم)
حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھ سے پہلے جس نبی کو بھی اللہ نے مبعوث فرمایا اس کی اُمت میں کچھ مخلص اور خاص رفقاء ضرور ہوا کرتے تھے جو اس کی سنت کی پابندی اور اسکے حکم کی پیروی کرتے، پھر انکے بعد ایسے ناخلف پیدا ہوئے جو کہتے کچھ اور کرتے کچھ اور وہ کام کرتے تھے جن کا ان کو حکم نہیں ہوتا تھا۔ پس جو شخص ہاتھ سے انکے خلاف جہاد کرے وہ بھی مؤمن ہے اور جو زبان سے انکے خلاف جہاد کرے وہ بھی مؤمن ہے اور جو دل سے انکے خلاف جہاد کرے وہ بھی مؤمن ہے اور اس کے بعد رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں ہے۔ (عصر حاضر حدیث نبویؐ کے آئینہ میں۔ مولانا یوسف لدھیانویؒ )
ہمارا ایک دوست امین اللہ خانپور کٹورہ میں اخبار کا گشت کررہا تھا ، ایک شخص نے کہا کہ میں مولانا عبد اللہ درخواستیؒ کا نواسہ ہوں۔ ہمارے مدرسے میں یہ میٹنگ بھی ہوئی ہے کہ عتیق الرحمن مفتی تقی عثمانی اور مفتی شامزئی کیخلاف لکھتا ہے اسکے لئے کوئی پروگرام بنائینگے، اگر مجھے ملے تو میں اس کو کلاشنکوف سے قتل کردونگا۔ امین اللہ بھائی نے کہا کہ میں تمہیں اس کے پاس لے جاتا ہوں پھر قتل کرنا ہو یا خود کش کرنا ہو میں نشاندہی کردیتا ہوں، تو وہ شخص کہنے لگا کہ تمہارا کوئی قصور نہیں ہے تم تو اخبار بیچتے ہو ، میرا اختلاف تم سے نہیں ، امین اللہ بھائی نے کہا کہ میں اخبار بیچتا نہیں ہوں بلکہ یہ میرا مشن ہے۔ تو اس نے کہا کہ مجھے معاف کرنا آپ کی دل آزاری ہوئی ہے۔
جب مفتی تقی عثمانی نے ہمارے مرشد حاجی محمد عثمانؒ پر فتوے لگائے تھے تو مولانا عبد اللہ درخواستی ؒ کے نواسے مولانا انیس الرحمن درخواستی شہید حاجی عثمان صاحب سے بیعت ہوئے تھے۔ ان کے بڑے بھائی مفتی حبیب الرحمن درخواستی نے حاجی عثمانؒ کے حق میں فتوے دئیے تھے۔ جب وہ میرے مشکوٰۃ کے اُستاذ تھے تو اپنے بھتیجے امداد اللہ کو میرے ذمہ لگایا تھا جو تقریباً ہر روز مدرسے سے چھپ کر فلم دیکھنے جاتا تھا۔ اب اس نے بھی بہاولپور میں اپنا مدرسہ کھول رکھا ہے۔ جب انوار القرآن کا طالب علم تھا تو اس وقت بہت بیکار لوگ بھی وی سی آر پر فلمیں نہیں دیکھتے تھے مگر مدرسے میں جمعرات کو کرائے پر وی سی آر لایا جاتا تھا اور میں نے ڈنڈے کے زور پر ان کو روکا تھا۔ اس وقت مدرسے کے تمام اساتذہ اور طلباء اس کے گواہ ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اس عالم کی مثال کتے سے دی جس نے علم نہیں دنیا کو ترجیح دی۔ کتوں میں بھی کچھ نسلی کتے ہوتے ہیں جوپرایا اور دشمن کا نہیں کھاتے لیکن قرآن میں گلی کوچوں کے اس کم اصل کتے کا ذکر ہے جو ہر حال میں ہانپتا ہے۔ ہمارا مؤقف بالکل واضح ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی ایک گمراہ مولوی اور مردود صوفی تھا لیکن اس کو بھی کوئی اتنی نشاندہی کرتا کہ نصاب میں اس قسم کی مغلظات ہیں تو وہ بھی ان مغلظات کیخلاف ہوجاتا۔ موجودہ دور اس دہانے پر کھڑا ہے کہ یا کوئی انقلاب کا امام بن کر مسلمانوں کی جماعت کو ان گمراہانہ تصورات سے بچائے یا پھر سب فرقوں سے الگ تھلگ ہوکر مذہب کے نام پر پلنے کے بجائے جنگل میں نکل جائے چاہے درخت کی جڑیں چوس کر گزارہ کرنا پڑے۔ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل ہے کہ ہم نے ان ناخلف جانشینوں کیخلاف نہ صرف علمی اور عملی جہاد کا آغاز کیا ہے بلکہ مسلم اُمہ کی ایک بھاری اکثریت بھی ہر مکتبہ فکر سے ہماری ہم نوابن گئی ہے۔
ہمارے ساتھیوں کو اگر اللہ تعالیٰ نے کامیابی بخشی تودنیا ان کو سورہ واقعہ کے اندر موجود قلیل من الاٰخرین کے طور پر سمجھے گی۔ سورہ جمعہ اور سورہ محمد میں بھی اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے حوالے سے جو آیات ہیں احادیث میں ان کی وضاحت کی گئی ہے۔ پاکستان اسلام کی نشاۃ ثانیہ کیلئے بنا تھا اور یہ بہت اچھا ہوا کہ مولوی حضرات اقبال و قائد اعظم کیخلاف تھے ورنہ اسلام کے نام پر اس ملک کا کباڑہ کیا جاتا۔ جن لوگوں نے کھل کر ہماری حمایت کی ہے اور وہ دنیا سے جاچکے ہیں اور جو کھل کر ہماری حمایت کررہے ہیں اور وہ دنیا میں موجود ہیں تو ان کا شمار سورہ واقعہ کے مطابق اصحاب الیمین میں ہوگا جو پہلے دور میں بھی کثرت سے تھے اور اس دور میں بھی کثرت سے ہیں۔ دین کو پہچاننے کے بعد ہاتھ ، زباں اور دل سے جہاد کے مختلف مراحل سے ہم بفضل تعالیٰ گزر چکے ہیں۔ حدیث میں پہلا درجہ انہی کو دیا گیا ہے جنہوں نے اللہ کے دین کو پہچانا اور پھر اس کے ذریعے زبان ہاتھ اور دل سے جہاد کیا۔ دوسرا درجہ ان لوگوں کا ہے جنہوں نے اللہ کے دین کو پہچانا اور پھر اعلانیہ اس کی تصدیق بھی کی اور تیسرا درجہ ان لوگوں کاہے جن میں اعلانیہ حمایت کرنے کی جرأت نہ تھی مگر دل ہی دل میں خیر کا عمل کرنے والوں سے محبت رکھی اور باطل کا عمل کرنے والوں سے بغض رکھا۔ انکے بارے میں بھی وضاحت ہے کہ وہ اپنے اس پوشیدہ عمل کے باوجود بھی نجات پائیں گے۔ بہت سے بزرگ علماء دین کل بھی ہم سے محبت رکھتے تھے اور دنیا سے اسی طرح سے رخصت ہوگئے۔ آج بھی بفضل تعالیٰ بڑے بڑے اکابر ہیں جو ہم سے دلی محبت رکھتے ہیں مگر ہمت نہیں کرسکتے۔ اخبار میں ان لوگوں کے بیانات بھی منظر عام پر آتے ہیں جو اعلانیہ ہماری حمایت کررہے ہیں۔ ان کی اس ہمت میں اللہ تعالیٰ برکت ڈالے اور بہت سے لوگوں کو ان کی بدولت اعلانیہ حمایت کی ہمت عطا فرمائے۔ اصل معاملہ عوام کی جہالتوں کا بھی ہے، آج ایک عالم نمازمیں قرآن وسنت کے مطابق سورۂ فاتحہ اور قرآن کی دیگر سورتوں اور آیات سے پہلے جہری بسم اللہ پڑھنا شروع کردے تو عوام کی طرف سے بغاوت کا خطرہ ہوگا۔
انقلاب کیلئے جہری نماز میں جہری بسم اللہ سے آغاز کرنا ہوگا۔ بنی امیہ کے دور میںیہ المیہ پیش آیا کہ جہری نماز میں جہری بسم اللہ پڑھنے والوں کوحضرت علیؓکا حامی قرار دیا جاتا تھا، امام شافعیؒ نے جہری بسم اللہ کو لازم قرار دیا تو ان کو رافضی قرار دیکر منہ کالا کرکے گدھے پر گمایا گیا، حضرت امام ابوحنیفہؒ کی موت جیل میں ہوئی ، حضرت امام مالکؒ کیلئے مشہور ہے کہ ان کے فقہ کو رائج کرنے کی پیشکش ہوئی مگر انہوں نے انکار کردیا۔ امام مالکؒ کی طرف یہ منسوب ہے کہ فرض نماز میں بسم اللہ پڑھنا جائز نہ سمجھتے تھے، حنفی مسلک میں یہ پڑھایا جاتاہے کہ ’’ صحیح بات یہ ہے کہ بسم اللہ قرآن کا حصہ ہے مگر اس میں شک ہے‘‘(نورالانوار)۔صحیح بات یہ ہے بسم اللہ قرآن ہے مگر اس میں شک اتنا قوی ہے کہ اسکے انکار کی وجہ سے کوئی کافر نہیں بنتا‘‘( توضیح تلویح) درس نظامی کی یہ دونوں کتابیں دیوبندی وفاق المدارس و بریلوی تنظیم المدارس کے وفاقی بورڈ کا حصہ ہیں۔ آج مذہبی جماعتیں مدارس کے اپنے کفریہ نصاب کو درست نہیں کرسکتیں تو دنیا میں کیا اسلامی نظام کے نفاذ کا کام کرینگی۔ مولانا فضل الرحمن اور مولانا عطاء الرحمن نالائق طلبہ تھے تو فیل ہوتے تھے،ان کو اسلام کی کوئی فکر نہیں۔ ان خود ساختہ ٹھیکیداروں کے چنگل سے اسلام کو بازیاب کرانا ہوگا۔کسی بادشاہ کو بھکارن پسند آگئی اور اس سے شادی کرلی،جو محل میں کھانا نہیں کھارہی تھی، بادشاہ کو پریشانی لاحق ہوئی تو وزیر نے سمجھایاکہ محل کے کونوں روٹی کے ٹکڑے پھیلادیں تو کھا جائیگی۔درباری مُلاؤں کو بھی انقلاب کا مزہ نہیں آتا بلکہ ٹکڑوں پر پلنا اچھا لگتاہے۔

بقیہ :اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا بہترین ومستند ترین نمونہ

کراچی سے کانیگرم جنوبی وزیرستان تک علماء ومفتیان نے جو کردار ادا کیا اسکو تاریخ کے اوراق میں جگہ ملے یا نہ ملے اس سے ہمیں کوئی غرض نہیں ہے لیکن الحمد للہ ہے ہمارا کردار اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا آغاز ثابت ہورہاہے۔ پہلے میرا بھی علماء کرام و مفتیان عظام سے محض عقیدت واحترام کا تعلق تھا، اب یہ تعلق محض رسمی حد تک نہیں بلکہ مضبوط بنیادوں پر استوار ہوچکا ہے۔ جمعیت علماء اسلام کے سابقہ مرکزی امیر مولانا عبدالکریمؒ بیرشریف لاڑکانہ ، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی امیر مولانا خان محمدؒ کندیاں میانوالی ، مولانا سرفراز خان صفدرؒ گوجرانوالہ اور انکے صاحبزادے مولانا زاہدالراشدی کے علاوہ دیوبندی بریلوی اہلحدیث، جماعت اسلامی اور شیعہ کے بڑے نامور علماء کرام و سرکاری افسران نے بڑی تعداد میں ہماری بھرپور طریقے سے زبردست حمایت کی ہے۔ جن میں سندھ کے چیف سیکرٹری فضل الرحمن،ایف آئی اے کے داریکٹر، آئی جی ڈی آئی جی سندھ اور دیگر ذمہ دار عہدوں پر فائز شامل ہیں۔ کسی بھی تحریک اور جماعت کو ایسے مختلف الخیال لوگوں کی طرف سے اتنی بڑی تعداد میں کھل کر ایسی حمایت کرنے کا اعزاز حاصل نہیں ہوا ہے۔
ٹانک کے تمام مشہور علماء کرام مولانا فتح خانؒ ، مولانا عبدالرؤفؒ گل امام، مولانا عصام الدین محسود، جمعیت علماء اسلام (ف)مولانا غلام محمد ضلعی امیر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، مولانا شیخ محمدشفیع ضلعی امیرجمعیت علماء اسلام(س)مولانا قاری محمد حسن شکوی خطیب گودام مسجد ٹانک و مہتمم مدرسہ شکئی جنوبی وزیرستان وغیرہ نے کھل کر ہماری حمایت کی مگرقاضی عبدالکریم کلاچی نے کھل کراور مولانا فضل الرحمن نے چھپ کر وار کیا۔ پھر مولانا فضل الرحمن نے سب کے سامنے گھر پر آکر کہا تھا کہ ’’میں نے ہمیشہ حمایت کی ہے‘‘۔ حالانکہ جب ٹانک کے معروف علماء نے تحریر ی حمایت کا اعلان کیا اور تبلیغی جماعت نے انکے خلاف فضاء کو خراب کرنا شروع کردی توہم نے ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کے تمام دیوبندی مکتبۂ فکر کا پروگرام رکھنے کی تجویز رکھی سب متفق ہوگئے مگر مولانا فضل الرحمن نے مولانا عصام الدین محسود سے کہا کہ یہ پروگرام نہ ہونے پائے۔ انہوں نے پوچھ لیا کہ کیوں؟، مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ’’پھر روتے ہوئے میرے پاس نہیں آنا ، میرے پاس کوئی جواب نہیں‘‘۔
مولانا عصام الدین محسود نے مجھے بتادیا ۔ میں خود مولانا فضل الرحمن کے پاس گیا ، پہلے اس نے بات ٹالنے کی کوشش کی اور پھر مدرسہ کے منتظم مولانا عطاء اللہ شاہ سے کہا کہ آپ شرکت کرلیں۔ مولانا فتح خان کو میں نے صورتحال سے آگاہ کیاتو یہ طے پایا کہ ٹانک کے علماء کے کھانے کا اہتمام مولانا عصام الدین محسودکے ذمہ لگانا ہوگا تاکہ مولانا فضل الرحمن کے دباؤ سے وہ کہیں غائب نہ ہوجائیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے علماء کی دعوت مولانا فتح خان کے ذمہ ہوگی۔ پھر ڈیرہ اسماعیل خان سے کوئی بھی نہیں آسکا تھا لیکن ٹانک اور مضافات کے علماء کرام کی اچھی تعداد شریک ہوئی۔ میں نے اپنے مؤقف کی وضاحت کردی تو مولانا فتح خان نے اٹھ کر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ میری داڑھی سفید ہوگئی ہے، عتیق میرے سامنے بچہ ہے لیکن اسکے علم نے میری آنکھوں سے پٹیاں کھول دی ہیں۔۔۔‘‘۔ مولاناعبدالرؤف مولانا غلام محمد اور دیگر نے بھرپور طریقے سے میرے حق میں تقریریں کردیں۔ جمعیت علماء اسلام کے ذمہ دار عہدوں پر مولانا فتح خان، مولانا عبدالرؤف، مولانا عصام الدین تھے۔
مولانا شرف الدین کی اس وقت کوئی حیثیت نہیں تھی تاہم اس نے اعتراض اٹھایا تھا کہ عہدے مانگنا جائز نہیں، تم خود خلیفہ بننا چاہتے ہو۔ میں نے جواب دیا کہ خلافت حلوے کی پلیٹ نہیں کہ کوئی فرد اس کو اٹھائے اور بھگا کرلے جائے۔ 20افراد مار دئیے جائیں تب 21واں شخص خلیفہ بن جائے تو یہ سستا سودا ہوگا۔ اورجہاں تک عہدہ مانگنے کی بات ہے تو جب رسول اللہ ﷺ مکہ میں تھے تو اللہ نے ہجرت کرنے اور اقتدار کو مددگار بنانے کی دعا کا حکم دیا۔ جب خلافت قائم نہ تو اس کا قیام ضروری ہے البتہ خلافت قائم ہوجائے تب عہدہ مانگنے کی ممانعت ہے ،الیکشن کے دور میں ووٹ مانگنے کیلئے جمعیت علماء اسلام کتنے پاپڑ بیلتی ہے اور حکومتوں میں شامل ہونے کیلئے اس کا رویہ کتنا انوکھا ہوتا ہے۔ اسلام کی رو سے اس طرح کی تنظیم سازی جائز بھی ہے یا یہ کسی اور کے اتباع کا شاخسانہ ہے؟۔ پھر مولانا شرف الدین نے کہا کہ آپ اپنے اخبار میں تائیدی بیانات دیتے ہو مخالفت والے شائع نہیں کرتے۔ میں نے کہا کہ میرا اخبار آپ کے مخالفانہ سوالات اور اعتراضات کیلئے ہی وقف ہے۔ آپ لکھیں ہم شائع کریں گے۔ اس نے کچھ دنوں کا وقت لیا مگر مہینوں پھر چھپتا رہا۔ آخر کار میں اسکے مدرسے تجوڑی میں پہنچ گیا ، بعد میں کسی سے کہا کہ خدا کیلئے میری جان چھڑائیں۔ پھر ہم نے کبیر پبلک اکیڈمی میں ایک پروگرام رکھ لیا۔ مولانا فتح خان ، مولانا عبد الرؤف ، مولانا عصام الدین اور مولانا غلام محمد وغیرہ نے بہت کھل کر جلسہ عام میں ہماری تحریک کی حمایت کی جس کو ہم نے اپنے اخبار ضرب حق میں شہ سرخیوں کیساتھ شائع کیا۔ لوگ علماء اور اکابرین کی حمایت سے مطمئن ہوتے ہیں مگر ہمارے حاسدین نے مخالفت میں شدت پیدا کردی۔
مولانا فضل الرحمن نے ڈیرہ اسماعیل خان میں ہمارے ساتھیوں کیخلاف علماء کو بھڑکایا ، سپاہ صحابہ کے کارکنوں سے ہمارے ساتھیوں کی لڑائی ہوئی تو خلیفہ عبد القیوم نے بتایا کہ یہ پلان کسی اور کا تھا ہمارے کارکن استعمال ہوگئے۔ اسی دن مولانا فضل الرحمن ہمارا پچھلا اخبار لیکر ٹانک گئے اور جن علماء کی تقاریر شائع ہوئی تھیں ان پر دباؤ ڈالا۔ مولانا عبد الرؤف نے بتایا کہ میں نے مولانا کو کہا کہ ہم عتیق گیلانی کو جانتے بھی نہ تھے آپ نے متعارف کرایا، اب اس میں خامی کیا ہے ؟، اگر کوئی بات ہے تو آپ آرام سے بیٹھ جائیں ہم نمٹ لیں گے لیکن اگر کوئی بات نہیں تو خواہ مخواہ حسد کرنا درست نہیں ہے۔ پھر مولانا عبد الرؤف ضلعی امیر جمعیت علماء اسلام ٹانک نے اپنا زبردست تائیدی بیان قلم بند کرکے علامہ اقبال کا یہ شعر بھی لکھ دیا تھاکہ
تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کیلئے
قاضی عبد الکریم کلاچی نے اپنے خط میں مولانا شیخ محمد شفیع کو لکھا تھا کہ آپ کی طرف سے عتیق گیلانی کی تحریری اور مجلس عام میں تقریری حمایت پر مجھے دکھ ہوا ہے، باقی (مولانا فضل الرحمن والے)تو ایسے ہیں کہ قادیانیوں کا بھی استقبال کرینگے۔ عتیق گیلانی پر گمراہی کا فتویٰ مہدی کی وجہ سے نہیں لگتا یہ تو کوئی بات نہیں بلکہ اہل تشیع کے کفر پر امت کا اجماع ہوچکا ہے یہ شخص اس اجماع کا منکر ہے اسلئے گمراہ ہے۔ مولانا عبد الرؤف کا بیان ضرب حق کی زینت بنا تھا جس میں قاضی عبد الکریم کو اپنی بھونڈی حرکتیں چھوڑنے کی تلقین کی گئی تھی۔ میں نے قاضی عبد الکریم کے جواب میں لکھا تھا کہ تمہارا فتویٰ سعودی عرب کے حکمرانوں پر بھی لگتا ہے اسلئے کہ غیر مسلم کا حرم میں داخلہ ممنوع ہے۔ جس کے بعد قاضی عبد الکریم نے مولانا عبد الرؤف سے معافی مانگ لی تھی کہ میں غلطی پر تھا۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا تھا کہ ہم نے جان بوجھ کر قاضی عبد الکریم کو عتیق گیلانی سے لڑایا تاکہ اس کے فتوے کند ہوجائیں۔ پھر مولانا فضل الرحمن نے ہمارے گھر پر مولانا گل نواز محسود کے مجھ سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ ’’میں نے اسکی کبھی مخالفت نہیں کی ہمیشہ اسکی حمایت کرتا ہوں۔ ‘‘ اہل تشیع، اہل حدیث،دیوبندی اور بریلوی علماء ومفتیان کی لمبی فہرست ہے جنہوں نے ہماری حمایت کی ہے لیکن درپردہ حسد کا مسئلہ بھی ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے واضح کردہ قیامت کی یہ نشانی حرف بہ حرف پوری ہوئی.

عن انس رفعہ۔اقتراب الساعۃ ان یری الہلال قبلا فیقال لیلتین و ان تتخذ المساجد طرقا و ان یظھر موت الفجاء ۃ
(طبرانی اوسط ، کنزل العمال ج 14، ص 220، جمع الفوائد ج: 3، ص:443، حدیث نمبر: 9808 ، مطبوعہ علوم القرآن بیروت، عصر حاضر حدیث نبوی ؐکے آئینہ میں، لدھیانویؒ )
قرب قیامت کی ایک نشانی یہ ہے کہ چاند پہلے سے دیکھ لیا جائیگا اور پھر کہا جائیگا کہ دو رات کا چاند ہے اور مساجد کو گزر گاہ بنالیا جائیگا اور نا گہانی موت عام ہوگی۔
رسول اللہ ﷺکی طرف سے واضح کردہ قیامت کی یہ نشانی حرف بہ حرف پوری ہوئی ہے۔ پہلے سے چاند دیکھنے کی بات تو اتنی بڑی بات نہیں جتنی چاند گرہن اور سورج گرہن کا معاملہ ہے۔ وہ بھی پہلے سے بتادیا جاتا ہے۔ مفتی منیب الرحمن چیئر مین رویت ہلال کمیٹی کے چشمے سے لگتا ہے کہ آٹھ نمبر سے کم نہیں ہوگا۔ قریب اور دور کے چشمے بھی الگ الگ ہوتے ہیں اور اگر کبھی دور کے ساتھ قریب کا چشمہ بھی لگایا جاتا ہے تو نیچے کی طرف سے ہوتا ہے۔ پوری دنیا میں ہلال کا پہلے سے ہی پتہ چل جاتا ہے مگر پاکستان میں ہلال کمیٹی نے چاند دیکھنے کا فیصلہ اسوقت کرنا ہوتا ہے جب چاند سب لوگوں کو اتنا بڑا نظر آتا ہے کہ اس کیلئے مخصوص کمیٹی کی ضرورت نہیں رہتی۔ ایک مرتبہ ہم اسلام آباد گئے اور اخبارات میں خبر یہ تھی کہ رمضان کا چاند نظر آنے کا اسلام آباد میں کوئی امکان نہیں البتہ کراچی میں نظر آسکتا ہے۔ مفتی منیب الرحمن کراچی سے پھر بھی اسلام آباد چاند دیکھنے کیلئے گئے ۔ اسلام آباد کے ایئر پورٹ پر واپس آتے ہوئے میں نے چیئر مین رویت ہلال کمیٹی مفتی منیب الرحمن سے پوچھا کہ اگر پاکستان اور سعودی عرب کے وقت میں کچھ گھنٹوں کا فرق ہے تو اس سے زیادہ فرق پاکستان اور برطانیہ و امریکہ کا ہے۔ اگر 2 گھنٹوں سے ایک دو دن کا فرق ہوسکتا ہے تو 8اور 12 گھنٹے کا پھر زیادہ فرق ہونا چاہیے۔ جب محکمہ موسمیات نے خبر دی کہ چاند اسلام آباد میں نظر نہیں آسکتا ، کراچی میں موسم صاف ہے ، کراچی میں نظر آسکتا ہے تو پھر چاند دیکھنے کیلئے کراچی سے اسلام آباد آنے کی کیا ضرورت تھی؟۔ تو مفتی منیب الرحمن نے اس کا بہت زبردست جواب دیا کہ یہ پاکستان ہے انجوائے کرو انجوائے۔ اگر دنیا کی سطح پر مختلف چاند ہوں تو پھر الگ الگ روزے اور عید منانا بھی درست ہے۔ جس طرح سے نماز کے اوقات میں مختلف جگہوں پر سورج یا طلوع ہوتا ہے یا غروب اور کہیں عصر و ظہر کے وقت میں مغرب و عشاء کا وقت ہوتا ہے۔ اس طرح سے چاند کا بھی یہ مسئلہ ہوتا تو پھر مختلف روزے اور عید الفطر و عید الاضحی کا جواز تھا۔ دنیا تماشہ دیکھتی ہے کہ لندن اور امریکہ میں بعض لوگ سعودیہ کیساتھ اور بعض پاکستان کیساتھ روزہ و عید مناتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں توراۃ کے حوالے سے مذہبی ذہنیت رکھنے والوں کو گدھوں سے تشبیہ دی ہے۔ مندرجہ بالا حدیث میں یہ وضاحت ہے کہ ہلال کو پہلے سے ہی دیکھ لیا جائیگا ۔ یہ صلاحیت تو دنیا نے حاصل کرلی ہے۔ مگر اسکے باوجود مسلم امہ کی کیفیت یہ ہے کہ دو دن کے چاند پر روزہ و افطار کرتے ہیں۔ پہلے علماء ریڈیو کے اعلان کو شریعت کے منافی سمجھتے تھے اسلئے چشم دید گواہوں پر روزہ و عید کا فتویٰ دیتے تھے۔ پھر ریڈیو کے اعلان کو ہی معتبر قرار دیا۔ پھر ٹی وی کی نشریات کو حرام قرار دیا اور اب ٹی وی پر اعلان نہ ہو تو چاند کا دیکھنا بھی معتبر نہیں۔
ایک لطیفہ ہے کہ کسی شخص نے قسم کھائی ہوئی تھی کہ جب تک چاند کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لوں روزہ نہیں رکھوں گا۔ وہ آسمان کی طرف دیکھنے سے گریز کر رہا تھا ایک دن اپنی گائے کو پانی پلارہا تھا تو چاند کے عکس کو پانی میں دیکھا۔ پھر کہنے لگا کہ اب تم پاؤں میں پڑ گئے ہو اسلئے روزہ رکھنا پڑے گا۔ ہلال کمیٹی والے چاند کو نہیں دیکھتے جب تک چاند بہت ترس نہیں جاتا۔ ماہرین عوام کو بتادیں کہ دوربین کیلئے قریب کے چشموں کی ضرورت ہے یا دور کے؟۔ اگر سعودیہ کا چاند پاکستان کیلئے معتبر نہیں تو پاکستانی حج کا فرض کیسے ادا کرتے ہیں؟۔ نماز کے اوقات کی طرح تمام مہینوں کے ہلالوں کے بھی آئندہ کلنڈر شائع ہوسکتے ہیں جس کو علماء و مفتیان سمجھے بوجھے بغیر بھی اپنے نام کے ساتھ منسوب کرینگے۔ روزہ رکھنے اور افطار کرنے کا کلینڈر بھی علماء و مفتیان نے جدید علوم کی روشنی میں بنایا ہوتا ہے تو پھر چاند کا کیوں نہیں؟۔ خدارا اُمت مسلمہ پر رحم کریں۔محمد اشرف میمن، پبلشر نوشتہ دیوار

اسلام کا مسئلہ طلاق کردار سازی کا ذریعہ

عربی میں عورت کو چھوڑدینے یا علیحدہ کرنے کا نام طلاق ہے۔ زمانہ جاہلیت میں اس طلاق نے ایسی مذہبی کیفیت اختیار کرلی تھی جس میں شوہر چاہتا تو بیوی کو زندگی بھر حق سے محروم کرکے رکھ لیتا۔ طلاق دے دیتا اور پھر عدت کے خاتمے سے پہلے رجوع کرلیتا اور یہ بھی صورتحال تھی کہ بیک وقت تین طلاق دیتا تو رجوع نہیں کرسکتا تھا۔ اللہ نے شوہر کے اختیاری ظلم و جبر کو بھی ختم کردیا اور اس کیفیت سے بھی نجات دلادی کہ میاں بیوی باہمی رضا مندی سے رجوع نہیں کرسکتے تھے۔ طلاق کے حوالے سے دنیا نیوز کے معروف صحافی کامران خان نے ڈاکٹر ذاکر نائک ، جاوید احمد غامدی اور مفتی محمد نعیم کو اپنا اپنا مؤقف پیش کرنے کا موقع فراہم کیا۔ رمضان کا مہینہ آرہا ہے جس میں طلاق کے واقعات کی کثرت ہوتی ہے۔ اہل حدیث کے دار الافتاؤں میں سوالات کے انبار پڑے رہتے ہیں۔
طلاق کے حوالے سے قرآن میں سورہ طلاق کی پہلی دو آیات اور سورہ بقرہ کی 224 سے 232تک کسی بھی مسلک کے بڑے عالم دین کا صرف عوام ترجمہ ہی دیکھ لیں۔ ہمارا مؤقف کتاب ’’ابر رحمت‘‘ اور ’’تین طلاق کی درست تعبیر‘‘ میں بہت واضح ہے جس کی آج تک بڑے پیمانے پر بڑے بڑے علماء و مفتیان کی طرف سے بہت تائید ہوئی ہے مگر ان کی تردید کی جرأت آج تک کوئی نہیں کرسکا ہے۔ الحمد للہ کافی لوگوں کے مسائل بھی حل ہوئے ہیں اور امید ہے کہ تمام مکاتب فکر کے علماء اور دنیا بھر کی تمام ریاستوں کی طرف سے اس کو بھرپور پذیرائی ملے گی۔ ہم یہاں پھر چند مغالطے ختم کرنا چاہتے ہیں۔
اسلام نے نکاح و طلاق کے معاشرتی تصورات کو کچھ اہم اصلاحات کیساتھ متعارف کرایا ہے، نکاح و طلاق کی سب سے زیادہ اہمیت نسب کی حفاظت اور جائز و ناجائز کا تصور ہے۔ نکاح و طلاق میں شوہر و بیوی کے حقوق کا مکمل تحفظ ہے۔ نکاح اور طلاق میں جاہلانہ رسم و رواج کا بالکل جڑ و بنیاد سے خاتمہ کیا گیا ہے مگر بد قسمتی سے اسلام اجنبی بن گیا ہے۔
ایک شوہر اپنی بیوی کو ایک طلاق دیتا ہے اور پھر عدت کے آخر میں بیوی کی رضا مندی کے بغیر رجوع کرلیتا ہے ، اسی طرح سے تین مرتبہ بیوی کو عدت گزارنے پر مجبور کرتا ہے تو کیا یہ حق اس کو شریعت نے دیا ہے؟۔ کم عقل علماء و مفتیان کہتے ہیں کہ اللہ نے ہی شوہر کو یہ حق دیا ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے شوہر کو ایک ہی عدت کا حق دیا ہے تین عدتوں کا نہیں۔ پھر اگر شوہر اپنی بیوی کو زندگی بھر طلاق نہیں دے تو بھی کم عقل علماء و مفتیان کہتے ہیں کہ یہ حق شوہر کو اللہ نے ہی دیا ہے۔ بیوی خلع لینا چاہتی ہو مگر شوہر طلاق نہ دے تو بھی یہ کم عقل طبقہ کہتا ہے کہ اللہ نے شوہر کو یہ حق دیا ہے۔ قرآن کی تعلیمات کو چھوڑنے کا سب سے بڑا ذمہ دار طبقہ یہ علماء و مفتیان ہیں جنکو عوام قرآن و سنت اور دین و شریعت کا محافظ سمجھتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں رسول اللہ ﷺ کی طرف سے قیامت کے دن اپنی اُمت کے خلاف شکایت کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے جس سے علماء و مفتیان اندازہ لگاسکتے ہیں۔
و قال رسول ربی ان قومی اتخذوا ھٰذ القرآن مہجورا ’’اوررسول ﷺ فرمائیں گے کہ اے میرے رب! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت 224میں یہ نکتہ واضح کیا کہ اللہ کو اپنی یمین کیلئے مت استعمال کرو ڈھال کے طور پرکہ تم نیکی نہ کرو گے ، تقویٰ اختیار نہیں کرو گے اور لوگوں کے درمیان مصالحت نہ کرو گے۔۔۔ عربی میں یمین کی جمع اَیمان ہے ۔ دائیں ہاتھ کو یمین کہا جاتا ہے اور جب کوئی عہد و پیمان کرتا ہے ، حلف اٹھاتا ہے ، کسی چیز کو حرام قرار دیتا ہے تو یہ سب کے سب یمین کی صورتیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے وضاحت یہ کی کہ اللہ کو نیکی ،تقویٰ اور مصالحت نہ کرنے کیلئے عہد و پیمان میں ڈھال کے طور پر استعمال نہ کرو۔ یہ ایسی وضاحت ہے کہ جب بھی میاں بیوی آپس میں ملنے پر راضی ہوں تو کوئی یہ فتویٰ نہیں دے سکتا ہے کہ اللہ کی طرف سے منع ہے ، شریعت رکاوٹ ہے ، فقہ رکاوٹ ہے ، حدیث رکاوٹ ہے اور قرآن رکاوٹ ہے۔ کم عقل علماء و مفتیان کی ذہنیت پر اس آیت میں اللہ نے بینڈ (پابندی)لگادی۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ بیوی کو غصہ میں ماں کہہ دیا جاتا تھا ، حرام کہہ دیا جاتا تھا اور تین طلاق دی جاتی تھی ، نہ ملنے کی قسم کھالی جاتی تھی اور پھر پشیمانی کے بعد بھی مذہب کو آڑ بنا کر میاں بیوی ایکدوسرے کے قریب نہیں آسکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ سرخ لکیر ان تمام فتوؤں پر خط تنسیخ بنا کر کھینچ دی کہ اب اللہ کو ان معاملات میں ڈھال کے طور پر استعمال کرنا چھوڑ دو۔ اللہ کو پتہ تھا کہ انسان بتوں کو بھی پوجتا ہے ، چاند، تارے اور سورج کا بھی پجاری بنتا ہے ، گائے کو بھی پوجتا ہے ، احبار و رہبان علماء و مشائخ کو بھی رب کے درجے پر فائز کردیتا ہے۔ ڈھیٹ انسان کیلئے ایک جملہ کافی نہیں تفصیل ضروری ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت 225 میں واضح کردیا کہ اللہ تمہیں لغو یمین سے نہیں پکڑتا بلکہ دل کے گناہوں سے پکڑتا ہے۔ پھر 226میں یہ بھی بتادیا کہ اگر کوئی اپنی بیوی سے نہ ملنے کی ٹھان لے تو اس کیلئے 4ماہ ہیں اور اگر مل گئے تو اللہ غفور رحیم ہے اور پھر آیت 227میں یہ بھی بتادیا کہ اگر پہلے سے طلاق کا عزم تھا تو اللہ سننے جاننے والا ہے۔ پھر آیت 228میں یہ بھی بتادیا کہ طلاق شدہ کیلئے انتظار کی مدت تین مراحل یا تین ماہ ہے اور اس مدت میں شوہر صلح کی شرط پر رجوع کے حقدار ہیں۔ جس کا مطلب واضح ہے کہ اگر طلاق کا عزم تھا اور اس کا اظہار نہ کیا تو اللہ تعالیٰ دل کے اس گناہ پر ضرور پکڑے گا اسلئے کہ طلاق کے عزم کا اظہار نہ کرنے کی صورت میں عدت 3 کے بجائے 4 ماہ ہے اور یہ عورت کیساتھ زیادتی ہے۔ جب طلاق کے عزم کا اظہار نہ کرنیکی صورت میں عورت کی عدت ایک ماہ بڑھ جائے اور اس پر بھی اللہ کی طرف سے واضح طور پر پکڑکی وعید سنائی گئی ہو تو پھر شوہر کو زندگی بھر عورت کو رلانے کا حق اللہ کی طرف سے کیسے ہوسکتا ہے؟۔
عدت 4ماہ کی ہو یا 3ماہ کی لیکن اللہ تعالیٰ نے رجوع کیلئے بار بار عدت ہی کا حوالہ دیا ہے۔ عدت میں بھی رجوع کیلئے باہمی رضا مندی اور صلح کی شرط کو واضح کیا ہے۔ قارئین ! خود ہی قرآن کی آیات کا ترجمہ ہی دیکھ لیں۔ سورہ بقرہ کی آیت 228میں تین مراحل کی عدت اس صورت میں ہے جب عورت کو حیض آتا ہو اور اگر حیض نہ آتا ہو یا اس میں کوئی مسئلہ ہو تو پھر 3ماہ کی عدت ہے۔ 3طہر و حیض کا مجموعہ بھی 3ماہ بنتا ہے۔ اگر عورت کو حمل ہو تو پھر عدت کے 3مراحل میں 3مرتبہ طلاق کا کوئی تصور نہیں بنتا، 228میں یہ بھی واضح ہے کہ میاں بیوی کے حقوق بالکل برابر ہیں البتہ مردوں کو ایک درجہ زیادہ حاصل ہے۔ یہ بڑا درجہ ہے کہ شوہر طلاق دیتا ہے اور عورت انتظار کی عدت گزار تی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آیت 229میں یہ واضح کیا ہے کہ طلاق دو مرتبہ ہے ، پھر معروف طریقے سے رجوع یا احسان کیساتھ رخصت کرنا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ واضح فرمادیا کہ 3مرتبہ طلاق سے مراد حیض کی صورت میں طہر و حیض کے 3مراحل ہیں۔ بخاری کی کتاب التفسیر سورہ طلاق کے علاوہ کتاب الاحکام ، کتاب الطلاق اور کتاب العدت میں حضرت ابن عمرؓ کے حوالے سے اس وضاحت کا مختلف الفاظ کے ساتھ ذکر ہے۔ ایک صحابیؓ کے سوال کے جواب میں بھی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تسریح باحسان ہی تیسری طلاق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی واضح کردیا کہ اگر معروف طریقے سے رجوع کا پروگرام نہ ہو تو پھر طلاق کی صورت میں تمہارے لئے بیوی سے کچھ بھی لینا حلال نہیں جو بھی تم نے انکو دیا ہے، البتہ اگر دونوں اس بات پر متفق ہوں کہ اگر کوئی دی ہوئی چیز ایسی ہو جس کو واپس نہ کیا جائے تو دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے اور اگر فیصلہ کرنے والوں کو بھی یہ خوف ہو کہ اس چیز کو واپس کئے بغیر یہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو عورت کی طرف سے اس چیز کا فدیہ کرنے میں دونوں پر کوئی حرج نہیں۔ یہ اللہ کے حدود ہیں ان سے تجاوز مت کرو اور جو ان سے تجاوز کرتا ہے تو بیشک وہی لوگ ظالم ہیں۔ پھر یہ تمہید مکمل کرنے کے بعد اللہ نے آیت 230میں واضح کیا کہ پھر اگر طلاق دیدی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ کسی اور سے نکاح نہ کرلے۔ علماء و مفتیان اپنی کم عقلی کی وجہ سے قرآن کی ساری حدود کو پامال کرتے ہوئے یہ ایک جملہ پکڑ لیتے ہیں اور باقی آگے پیچھے سے کچھ دیکھنے کی زحمت نہیں کرتے۔ اسکے بعد آیت 231اور 232میں بھی عدت کے بعد رجوع کی گنجائش کو واضح کیا گیا ہے۔ دیوبندی بریلوی اصول فقہ کی متفقہ کتاب ’’نور الانوار: ملا جیونؒ ‘‘ میں بھی حنفی مؤقف کی وضاحت ہے کہ آیت 230میں اس طلاق کا تعلق 229میں فدیہ کی صورت سے ہے ۔ علامہ ابن قیم ؒ نے بھی ’’زاد المعاد‘‘ میں حضرت ابن عباسؓ کے حوالے سے تفسیر لکھ دی ہے کہ اس طلاق کا تعلق سیاق و سباق کے مطابق مرحلہ وار دو مرتبہ طلاق کے بعد تیسرے مرحلے میں فدیہ دینے کی صورت سے ہے۔ تفسیر کے امام علامہ جاراللہ زمحشریؒ کی بھی یہی رائے ہے۔ اور سب سے بڑھ کر قرآن کی سورہ طلاق میں بھی اسی مؤقف کی ہی زبردست تائید ہے۔ ابو داؤد شریف میں حضرت ابو رکانہؓ اور حضرت اُم رکانہؓ کے حوالے سے بھی سورہ طلاق کا حوالہ دیکر نبی کریم ﷺ نے اسی مؤقف کی تائید فرمائی ہے۔
سورہ بقرہ اور سورہ طلاق کی آیات اور احادیث میں یہ مؤقف بالکل واضح ہے کہ تین مرتبہ طلاق کا تعلق طہر و حیض کے 3مراحل سے ہے۔ رجوع کا تعلق باہمی رضامندی اور عدت کی تکمیل کے حوالے سے ہے۔ عدت کی تکمیل سے پہلے عورت دوسری جگہ شادی نہیں کرسکتی اور عدت کی تکمیل کے بعد دوسری جگہ بھی شادی کرسکتی ہے اور پہلے سے بھی وہ رجوع کرسکتی ہے اللہ تعالیٰ کی آیات رجوع کیلئے معاون ، مددگار اور ترغیب کا ذریعہ ہیں۔ جن لوگوں نے قرآن و سنت کو باہمی رضامندی کی راہ میں رکاوٹ بنالیا ہے یہ ان کی اپنی کارستانی ہے۔ جس طرح سے صاحب ہدایہ ، فتاویٰ قاضی خان اور فتاویٰ شامیہ میں سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کے جواز کی باتیں انتہائی گمراہ کن، کافرانہ اور مردودانہ ہیں اور اگر کوئی اس میں شک کرتا ہے تو پھر رمضان کی 27ویں شب میں تمام ٹی وی چینلوں کے سامنے ان گمراہ کن کتابوں کو لاکر ان کی تردید کی جائے یا ان کی تائید کیلئے سورہ فاتحہ کو توبہ نعوذ باللہ من ذٰلک پیشاب سے لکھنے ۔۔۔جس طرح سے سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کی بات فقہ کی مستند کتابوں میں ہونے کے باوجود انتہائی غلط اور گمراہ کن ہے اسی طرح سے یہ بھی غلط ہے کہ قرآن و سنت کے خلاف بیک وقت تین طلاق پر کسی عورت کی عزت لوٹنے کا فتویٰ دیا جائے۔ حضرت عمرؓ نے جھگڑے کی صورت میں شوہر سے طلاق کے بعد رجوع کا حق بالکل ٹھیک چھینا تھا۔ قرآن ایک طلاق کے بعد بھی صلح کے بغیر شوہر کو رجوع کا حق نہیں دیتا۔ ائمہ اربعہ نے ٹھیک فیصلہ کیا کہ طلاق واقع ہوجاتی ہے تاکہ عورت عدت کے بعد دوسری جگہ شادی کرسکے۔ مگر باہمی رضامندی سے رجوع کا حق قرآن و سنت میں نہیں چھینا گیا تو کسی اور کو یہ حق کیسے ہے؟۔ ٹی وی پر کوئی بھی عالم و مفتی ہمار اچیلنج قبول کرلے۔