جہاں بغیر ماں باپ کے جھولے والیاں بچیاں جوان ہورہی ہیں ،وہ اپنا رنگ، ڈھنگ اور اپنی محرومیوں کا انتقام بھی معاشرے سے ضرور لیں گی۔ ایران میں متعہ کے نام پر قحبہ خانے ہیں ، سعودی عرب میں مسیار کے نام پرعورت کی عزت افزائی ہورہی ہے، دبئی میں جسم فروشی کا کھلے عام کاروبار ہے پاکستان میں بااثر طبقات ،ریاست کے اہلکاراورحکومت کے نمائندے مکروہ دھندوں سے غریب بچیوں کی جسم فروشی میں حصہ وصول کرتے ہیں مدارس میں لواطت اور حلالے کا کاروبار چل رہاہو تو کیا ہمارے اس معاشرے کو دہشت گردوں کے ذریعے سے سیدھا کرنے کی کوشش کی جائے گی؟۔ موجودہ دور کی جنسی بے راہ روی نے سابقہ ادوار کی رکھیلوں اور داشتاؤں کی داستانوں کو بھی مات کردیا ہے ،ہم پر حملہ آور مغربی تہذیب کا راستہ قرآن کا نظام ہی روک سکتاہے اگر لونڈی بنانے اور حلالے کی لعنت دیکھی جائے تو مغربی تہذیب انسانیت کیلئے غنیمت معلوم ہوگی ۔ مسلمانوں کو اپنا درست لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا ،ورنہ مسلمان بہت مارا جائیگا نوشتۂ دیوار کے ایڈیٹر ملک محمد اجمل نے کہاکہ لمحہ فکریہ ہے کہ یوم خواتین پر لڑکیوں نے بیہودہ پوسٹر سے طوفان برپا کیا۔جہاں بغیر ماں باپ جھولے والی بچیاں جوان ہورہی ہیں توپھریہ مناظرہونگے۔ ایران میں متعہ کی ہیرہ منڈی، سعودیہ کا مسیاراور خواتین کا استحصال، دبئی میں کھلے عام دھندہ، پاکستانی بااثر طبقہ اپناحصہ وصول کرتاہے۔ بچیاں اغواء ہوجاتی ہیں۔ مدارس میں لواطت اورحلالہ کی باتیں بھی رکھیلوں اور داشتاؤں سے بدتر ہیں۔ لونڈی بنانا خطرناک ہوگا۔ جنگ جمل میں ساتھیوں نے لونڈی بنانے کاکہا توعلی ؓ نے فرمایا: ام المؤمنین ؓ لونڈی ہونگی؟۔ یہ خوارج تھے۔ امریکی سازش داعش خلافت کے ذریعے مسلمات کو لونڈی بنانے سے پہلے پاکستان، افغانستان، سعودیہ، ایران، ترکی وغیرہ نے اگر ہوش کے ناخن نہ لئے تو مسلمان کوبہت ذلیل کیا جائیگا۔ مولانا عبیداللہ سندھی ؒ نے لکھا: ’’غیرقوم کی خواتین لونڈیاں ہوتی تھیں‘‘۔ پاکستان میں بنگالی خواتین کی حیثیت نہیں تھی،سعودیہ میں غیرملکی خادمہ لونڈی ہوتی ہے۔ قرآن و سنت میں نکاح و ایگریمنٹ کا قانون ہے۔اسلام میں نکاح کا قانون قوموں ومذاہب کیمطابق ہے۔مولانا سندھی ؒ نے لکھا: ’’قرآن کا پہلا مخاطب مسلم، دوسرا الناس۔ نشاۃ اول میں عرب خوبیوں کو برقرار، خامیوں کا خاتمہ ہوا۔نشاۃ ثانیہ میں عالم انسانیت کی خوبیوں کو قبول اور خامیوں کا خاتمہ کیا جائیگا‘‘۔ غلام رسول سعیدی ؒ نے لکھا’’ غلام ولونڈی بنانا برائی تھی اب اجازت نہیں‘‘۔ ماملکت ایمانکم کا اطلاق متعہ، مسیار، رکھیل، داشتہ اورگرل فرینڈ ز کی قانونی شکل پر ہوگا لیکن غلام و لونڈی بنانے کو قرآن نے آل فرعون کا عمل بتایا۔ قبلہ ایاز صاحب کی سرپرستی میں اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارش پر عالم اسلام کے تمام مسلمان متفق ہونگے۔
اسوقت سندھ کے اندر،اس سے پہلے کئی ہندو بچیوں کو اغواء کرکے زبردستی اسلام قبول کرواکے انکی شادیاں مسلمان بچوں سے کیں جو معصوم بچی لیڈر منتخب ، ووٹ نہیں کرسکتی ، شناختی کارڈ ، اکاؤنٹ نہیں کھلوا سکتی اسکا مذہب بدلنا،شادی کرنا کمیونٹی چھوڑنا کیسے تسلیم ہمارا مذہب اسلام اسکی اجازت نہیں دیتا ہمارے مسلمان بھائیوں بہنوں کو سوچنا چاہیے کہ انکے مذہب کی تضحیک اڑائی جارہی ہے یہ مسئلہ مسلمانوں کا ہے انکے مذہب کا مذاق اڑایا جارہا ہے دوسرا ان سندھیوں کا ہے جن کی قوم پر بن آئی ہے غیر ت کا مسئلہ ہے۔ کراچی (سوشل میڈیا ) سندھ کی ہدیٰ بھرگری بلوچ نے ویڈیو پیغام میں کہا :اس وقت سندھ کے اندر اور اس سے پہلے کئی بار ہندو بچیوں کو اغوا کرکے زبردستی اسلام قبول کرواکے ان کی شادیاں مسلمان بچوں کیساتھ کی گئیں۔ سندھ کی عوام، سندھ کی قوم کافی عرصے سے خود کو ایک پروگریسو، سیکولر اور صوفی کہلاتی ہے، اس طرح کی پریکٹسز سندھ کے وقار کو مجروح کرنے میں بہت بڑا کردار ادا کررہی ہیں، میرے خیال سے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اب تک اکیسویں صدی کے اندر بھی عورتوں کو as a collateral damage یا as a commodity (اشیاء) Trade کرتے ہیں یا بطور instrument کے استعمال کرتے ہیں کہ مذہب کی بات آتی ہے ،فرقہ واریت کے اندر ہم دیکھتے ہیں کہ victim ہمیشہ عورت کو بنایا جاتا ہے ، نشانہ ہمیشہ عورت کو ہی بنایا جاتا ہے۔ اس وقت اگر ہم اس پورے مسئلے کو دیکھیں تو ہمیں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ جو پیر ہے وہ کافی عرصہ سے اس طرح کی حرکت میں ملوث رہا ہے۔ یہ کئی بچیوں کیساتھ اس طرح کی حرکتیں کرچکا ہے لیکن افسوس کہ پیپلز پارٹی کی گورنمنٹ جس نے کوشش بھی کی تھی کہforced conversion (جبری تبادلوں)کیخلاف قانون پاس کروا سکے اور وہ قانون اسلئے مسترد ہوگیا کیونکہ مُلوں کے کچھ عناصر کو یہ بات گوارہ نہ تھی۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہپاکستان کا قانون ہے، مسلمان دوسرے مذہب میں کنورٹ نہیں ہوسکتا تو یہی قانون آخر ہندوؤں کیلئے کیوں نہیں ؟ دوسری بات کہ اگر کسی ہندو کا مسلمان ہونا consider ہو تو اسکی کوئی عمر متعین کیوں نہیں کی؟ جو معصوم بچی اپنا لیڈر منتخب نہیں کرسکتی ووٹ نہیں کرسکتی، شناختی کارڈ نہیں بنوا سکتی 18سال سے کم، بینک کا اکاؤنٹ نہیں کھلوا سکتی، زندگی کے چھوٹے سے فیصلے نہیں لے سکتی، اسکا مذہب بدلنے کا فیصلہ اسکا 18سال سے کم مسلمان سے شادی کا فیصلہ (decision)، اسکا گھر اپنی کمیونٹی کو چھوڑنے کا فیصلہ ، اسکا اپنی زندگی کے بارے میں self determination ، یہ سارے decision (فیصلے) آخر کس طرح سے صحیح مانے جارہے ہیں اور کس بنیاد پر انہیں justify کرکے پریس کانفرنس بلائی جارہی ہے؟۔ تیسری بات کہ اگر قانون کے تحت 18سال اور 17سال سے کم عمر کی بچیوں کی شادی نہیں ہوسکتی تو کس قانون کے تحت ان دونوں بچیوں کی شادیاں کی گئیں اور شادیاں کروانے والوں کیخلاف جو کاروائی ہونی چاہئے تھی وہ اب تک کیوں نہیں ہوئی؟۔ چوتھی بات یہ کہ آخر یہ مذہب قبول ہندو لڑکے کیوں نہیں کررہے؟۔ آخر یہ بچیوں ہی کو کیوں نشانہ بنایا جارہا ہے؟۔ آخر ایسا کیوں نہیں ہوا کہ کسی گاؤں سے اٹھ کر کسی دس پندرہ سال کے معصوم بچے کسی لڑکے نے یہ فیصلہ کیا ہو کہ مجھے اسلام قبول کرنا ہے اور ان پیروں نے اسے اسلام قبول کروا کر اپنی ہی بیٹیوں کی شادی اسکے ساتھ کروادی ہو، آخر ایسا کیوں نہیں ہوا؟۔ اگر کسی ہندو لڑکے کو اسلام قبول کرنے کے بعد کوئی مسلمان اپنی بیٹی نہیں دیتا لیکن وہیں پر یہ بات بالکل ٹھیک سمجھتا ہے کہ ایک ہندو بچی کو مسلمان کروا کر اپنے بیٹوں کیساتھ اس کی شادی کروادی جائے۔ یہی پر ہی ان مُلوں کی، ان پیروں کی، ان فقیروں کی سب سے بڑی جو مکاری ہے وہ ہمارے سامنے آجاتی ہے انکا مقصد مذہب کی خدمت کرنا نہیں ۔ ہمارا مذہب اسلام اس کی اجازت ہی نہیں دیتا، میں تو کہتی ہوں ہمارے مسلمان بھائی اور بہنوں کو سوچنا چاہیے کہ ان کی مذہب کی کس طرح کی تضحیک اڑائی جارہی ہے ان کو چاہیے کہ اسکے خلاف بات کریں۔ آپ کو اسلام یہ اجازت نہیں دیتا کہ آپ کسی کو اغوا کریں، اغوا کے بعد زبردستی مذہب قبول کروائیں۔ وہ بچی پریس کانفرنس کے دوران رو پڑی ہے۔ یہ کونسی پسند کی شادی ہے یا یہ پسند آخر consider بھی کیسے ہوگی جس کی شادی کی ابھی عمر نہیں ۔ میرے خیال سے سب سے بڑا کردار ہمارے tokan representative (ٹوکن کی نمائندگی ) کو ادا کرنا چاہیے جو سینٹ میں ہیں۔ جن میں کرشنا کوہلی شامل ہیں، جن کو پیپلز پارٹی آگے لیکر آئی ہم نے ان کی بڑی حوصلہ افزائی کی کہ وہscheduled caste سے خاتون کو لے کر آئے اور سینٹ میں جگہ دی، پھر سینٹ کا ایک سیشن چیئر بھی کروایا بہت شکریہ بہت اچھی بات تھی لیکن یہ چھوٹے چھوٹے سے ٹوکن representative اور ٹوکن participations جو یہ کروارہے ہیں جو ٹوکن لیڈر شپ یہ دکھارہے ہیں اس سے سندھی اور ہندو کمیونٹی کے مسائل حل نہیں ہونگے۔ دوسری بات سندھی اور ہندو کمیونٹی یہ ایک کمیونٹی ہے یہ ایک قوم ہے اور اب یہ مسئلہ ہمارے قومی شعور کا اور قومی شناخت کا ہوگیا ہے کہ کیا اب ہم تیار ہیں کہ ہم اپنے سیکولر ہونے کا پروگریسو ہونے کا باشعور ہونے کا اور صوفی ہونے کا جو اسٹیٹس ہے اب ہم وہ گنوائیں؟ یا ہم تیار ہیں کہ سندھ کو ان مُلاؤں اور پیروں کے ہاتھوں میں دیں جنہیں کئی سال پہلے ہمارے صوفی، ہمارے شاعر، ہمارے فلسفی رد کرچکے ہیں۔ کیا ہم تیار ہیں اس دن کیلئے کہ جب اس دھرتی سے شاہ، سچل اور اس طرح کے جو صوفی ہیں جو یہاں سے پیدا ہوئے تھے وہاں سے اب اس طرح کے مُلا، دہشتگرد اور غنڈے پیدا ہونگے؟۔ خدارا! ہمیں چاہئے کہ پیپلز پارٹی اور ہماری سندھ گورنمنٹ سے یہ کہیں اور یہ درخواست کریں اس مُلائیت کے پیچھے جو سیاست کی دکان چلتی آرہی ہے اسے بند کریں اوران لوگوں کیلئے آواز اٹھائیں جن کی نمائندگی کا پارلیمنٹ، سینٹ اور اپنی اسمبلی میں ہے۔ان ہندو لیڈرز جو پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کی ٹکٹ پر اس وقت اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں انہیں چاہئیے کہ اگر اس مسئلے کے اوپر ان بچیوں کی بازیابی کے اوپر کوئی اس طرح کا قانون نہیں پیش کرتے تو میرے خیال سے انہیں مستعفی ہوجانا چاہیے۔ وہ بری طرح سے فیل ہیں اپنے لوگوں کی نمائندگی کرنے میں۔ میرے خیال سے یہ مسئلہ ہندو کمیونٹی کا نہیں، مسلمانوں کا ہے کیونکہ انکے مذہب کو بہت ہی برے طریقے سے استعمال کیا جارہا ہے اسکا مذاق اڑایا جارہا ہے۔ دوسرا ان سندھیوں کا ہے جن کی قوم کے اوپر بن آئی ہے ان کی قومی شناخت خطرے میں ہے۔ میرے خیال سے پیپلز پارٹی کو اسکے لحاظ سے کچھ قوانین مرتب کرنے چاہئیں اور ہمیں چاہیے کہ ہم ایک قوم کی حیثیت سے ایک پریشر گروپ کی طرح ان کو پش کریں اور ان کی اس حرکت کیخلاف جتنا بھی ہم بات کرسکتے ہیں ہم کریں اور ہم اسے ایک ہندو کمیونٹی کا مسئلہ سمجھ کر ڈیل نہ کریں بلکہ ایک سندھی کمیونٹی کا مسئلہ سمجھ کر ڈیل کریں کیونکہ اب یہ ہماری قومیت اور ہماری شعوری غیرت کا سوال بن چکا ہے۔ خواتین کے حقوق کی سوشل ایکٹوسٹ سندھ کی ہدیٰ بھرگری بلوچ کی ایک ویڈیو یوم خواتین کے حوالے سے آئی ہے جس میں اس نے وضاحت کی ہے کہ ایک ہجڑے نے لکھا تھا کہ ’’کھانا میں گرم کروں گی بستر تم گرم کردینا‘‘۔ ہم خواتین جس طرح تیسری جنس سے نفرت کرتے ہیں اور مرد جس طرح کے جملے ان پر کستے ہیں ، جس طرح ان کو سمجھا جاتا ہے اور جو ان کا ماحول ہوتا ہے تو وہ اس طرح ہی کی باتیں کریں گے۔ جب تک مرد رنگے ہاتھوں پکڑا نہ جائے تو اس کو کوئی بدکار نہیں کہتا لیکن کوئی عورت اپنے حق کیلئے نکلتی ہے تو اس پر الزام لگادیا جاتا ہے۔ بینظیر بھٹو اور مریم نواز کی مثال لے لیں۔ یہ الزام مرد ہی لگاتے ہیں۔ اگر کسی نے یہ کہہ دیا کہ ہم اگر بدچلن ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے حقوق کیلئے ہم پر جو الزام لگاتے ہو لگاؤ لیکن اس مرتبہ خواتین نے پچھلے سال سے بڑی تعداد میں اپنے حقوق کیلئے مظاہرہ کیا ہے۔ ہر قسم کی خواتین ہر طبقے سے نمائندگی کررہی تھیں۔ ہم نے اپنی جیب کے خرچے سے یہ ریلیاں نکالیں۔ این جی اوز اور پارٹیوں سے مدد نہیں لی۔ اگر اس طرح خواتین اپنے حقوق کیلئے نکلیں تو آئندہ آنے والے وقت میں وہ ہر میدان میں اپنے حقوق کا تحفظ کرپائیں گی۔
میں ہندی کی وہ بیٹی ہوں جسے اردو نے پالا ہے اگر ہندی میری روٹی تو اردو میرا نوالہ ہے
یوم خواتین 8مارچ 2019کے موقع پر لتاحیا نے اپنے کلام میں کہاکہ:بہت me too , me too چل رہا ہے اور بہت اسکا غلط استعمال بھی ہورہا ہے تبھی ایک نظم کہی ہے :جب تک اس سے کام ملنے کی اُمید تھی وہ روز اس سے ملنے جاتی تھی، ہر طرح کا رشتہ نبھاتی تھی جسمانی بھی روحانی بھی۔ ایک دن گرما گرم خبر پڑھنے کو ملی کہ اس نے اپنے بوائے فرینڈ پر بلتکار کا کیس کردیا ہے۔ آروب اور ہتھیہ روگ کا سلسلہ یونہی چل رہا ہے لیکن پتہ نہیں کیوں مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ اگر وہ اسے کام دے دیتا تو وہ کیس نہ کرتی۔ Given Takeکی پارٹی یونہی چلتی رہتی۔ کیونکہ اس نے اسے کام نہیں دیا ہے اسلئے اسے لگ رہا ہے کہ ارے میرا تو ریپ ہوگیا ہے۔ جانے یہ کیسی محبت ہے۔ جہاں ان دیکھی محبت کی جاتی ہے لیکن یہ بات ہم جیسے جاہلوں کو سمجھ میں نہیں آتی ہے ، لیکن اتنا ضرور سمجھ میں آتا ہے کہ ریپ اور کمپرومائز میں فرق ہوتا ہے۔ کم سے کم ڈکشنری میں تو یہی لکھا ہے ۔ مجھے پاک و ہند سے محبت قانونِ فطرت نرالا ہے حیا کی غزلوں کا ہر شعر قدرت کا جوالہ ہے جب ہیں دونوں ایک ماں باپ کی سگی بہنیں پاک ہے ہماری ماں تو بھارت بھی اپنی خالہ ہے انگریز نے طلاق دی تو سوکناہٹ کا بھی نہیں جواز مگر یہاں سازِ سامری کا ولولہ وہاں سازِ گوسالہ ہے وہ برہمن دل سے مؤمنہ زباں و عمل سے صادقہ مگر اچھوت نسل مفتی یہاں پر بھی بنیا سالا ہے یہاں کے لوگ ہیں شیر تو وہاں کے ہرن خیر جانوروں سے بھی بہت بدتر دونوں کا گوالا ہے ایک برصغیر، ایک آب وہوا ،ایک جیسے شہر دیہات یہاں لاہور، کراچی ، وہاں پر دلی اور انبالہ ہے سمندر سرزمین ڈھنگ ایک، نسل و رنگ بھی ایک ایک فضا وہاں گنگا جمنا یہاں کوہ ہمالہ ہے ایک گھاٹ پر پانی پئیں گے شیر و ہرن دیس میں کبھی شیر چھوڑ دے درندگی غزالہ تو پھر غزالہ ہے امریکہ نے ہمیں برباد کیا وسائل پر قبضے کا فساد کیا جنگ کے جنون کی سیاست بڑا شرم ناک مسالہ ہے کہیں کل بھوشن کی ہے کھل کر در اندازی کہیں حافظ سعید اور مولانا مسعود اظہر کا بقالہ ہے ہزار سال کعبے کا جگر رہا بتوں کا مندر وہ صنم صنم کرتے ہم صمد صمد آیت کوتوالہ ہے ہر مذہب کی تائید ہر عبادتگاہ کی تمجید کلام پاک سچے تبلیغ کا آخری رسالہ ہے اسلام کی دیوانی حیا نے کھپائی اپنی جوانی یہاں بھی اب کوئی کوئی انسانیت کا متوالا ہے تالی ایک سے نہیں بجتی ملاؤ دونوں ہاتھوں کو ہماری بہن حیا کی بیٹی ہوئی پیدا ملالہ ہے بھارت میں نیتا کے خلاف بہت اُٹھتی ہے آواز یہاں بھی منظور پشتین، ہزارہ کی جلالہ ہے ظلم و جبر کے نظام کا ہوا چاہتا ہے اب خاتمہ حقدار کو ملے گا حق، نظامِ عدل لا محالہ ہے دونوں طرف سے آئیں گے کبھی اچھے رہنما اِدھر نیازی، اُدھر مودی کی حکومت بد خصالہ ہے اگر ایٹم بم کا عذاب آیا پیغام امن کا پلٹا کھایا تو وجہ ریاستی دہشت، سبب لعنت حلالہ ہے اپنا مذہب کاروبارِ ریاست ان کا غضب پرستارِ سیاست برائے نام یہ اور وہ حکومت عالمی استعمار کی دلالہ ہے جسٹس مرکنڈے کی تقریر اور حیا کی شاعری ایک بلبل کا فغاں تو دوسری گل لالہ ہے وہ پاکستان نہ آئیں تو ہم نے بھارت ہے جانا ہاتھ ہمارے قلم اور نہ پیروں میں چھالہ ہے جنگ کا جنوں رکھتے ہیں، لڑتے نہیں پرکھتے ہیں متعصب بے شرم بے غیرتوں کا منہ کالا ہے لپٹے گی یہ جمہوری بساط باشعور ہیں شش جہات ٹرمپ ، مودی اور نیازی نے اقتدار سنبھالا ہے انسانیت، تعلیم اور اقدار سب کا ہوا ہے خاتمہ ذہنوں میں اندھیر نگری اور دلوں پر تالا ہے بے روز گاری، غربت، ظلم، جبر سب تخت تاراج لونڈے لپاڑوں کی آوازیں رنڈوا بنی گالہ ہے شدت ہے نفرت ہے جہالت ہے وکالت ہے مفاد پرستی ہے، خود پرستی ہے جانوروں سے پالا ہے دینِ ابراہیم، دینِ نوح دین اسلام ہے ایک نشاۃ ثانیہ کا آغاز جشن ڈیڑھ ہزار سالہ ہے نفرت کی گنجائش نہیں محبت کے سواء خواہش نہیں عتیق امن و سلامتی کا قرآں بہترین حوالہ ہے
یہ جو لنگ چنگ کی باتیں تھیں تو ہمیشہ میرے من میں آتا تھا کہ یہ کہاں سے وہ راکشس پیدا ہوجاتا ہے کہ آپ کسی کو مارڈالتے ہو۔ تو میں گجرات میں قریب تین ساڑھے تین مہینے سے رفیق قریشی نام سے رہ رہا تھا اور پہلے احمد آباد میں جو کیٹل ٹریڈنگ کرتے تھے جو قصائی تھے ان کے ساتھ دوستی کی۔ پھر انہوں نے ہی مجھے یہ نام دیا رفیق قریشی، ، راجھستان میں الگ الگ گاؤں میں اور گجرات کے بھی بیسا میں ان غیر قانونی مویشی منڈیاں چلتی ہیں۔۔۔ میں نے خود32 ٹرکوں میں بیٹھ کر الگ الگ دنوں میں سفر کیا اور بیچ راستے میں کس طرح سے بجرنگ دل اسٹارچیکنگ کرتا ہے، گائے کا ٹرک اگر آپ کو لانا ہے تو ساڑھے 14یا 15ہزار روپے، بھینس کے ٹرک کے ساڑھے 6ہزار روپے ،بھیڑ کا ٹرک اگر لارہے ہو تو 5ہزار دینے پڑتے ہیں۔ اور وہ پالن پور میں چوہدری نام کے ہیں بجرنگ دل کے وہ یہ پورا نیٹ ورک چلاتے ہیں۔ میں تیس بتیس ٹرک لایا تھا اور اس دوران میں ایک بار انکے پاس بھی گیا ان کو ملنے کیلئے کہ مجھے دھندہ بڑھانا ہے تھوڑے پیسے کم کرو۔ اور میں باقاعدہ اسکل کیپ پہن کر گیا۔ پٹھانی ڈریسزوغیرہ پہن کر ہی میں گھومتا اور رہتا تھا۔ تو میں انکے پاس چلاگیا کہ آپ تھوڑا سا فیس کم کرو مجھے دھندا بڑھانا ہے۔ وہ بولے کتنا کریگا؟۔ میں نے کہا میں روز 40 ٹرک لے کر آؤں گا۔ اور مجھے بمبئی تک لیکر جانا ہے۔ تو انہوں نے کہا نہیں نہیں میری ذمہ داری گجرات تک کی ہے آپ کو اگر بمبئی لے جانا ہے تو بلساڑ میں بابو بھائی ڈیسائی نام کا دوسرا شخص ہے ہمارا،اس کو مہاراشٹرا بارڈر کراس کرنے کیلئے الگ سے پیسہ دینا پڑیگا۔ اسکا ریٹ الگ ہے میرا بلساڑ تک کی ذمہ داری ہے۔ تو وہ آپ کو کرنا پڑیگا۔ اور انکا ایک رول ہے کہ چمڑا ان کو دینا پڑتا ہے۔ مطلب جانور کاٹنے کے بعد مفت میں چمڑا ان کو دینا ہے وہ ایکسپورٹ کرتے ہیں۔ میں نے ان کو یہ پوچھا کہ آپکے دھرم میں تو یہ الاؤ ہی نہیں تو انہوں نے کہا کہ تو ابھی آیا نا بیٹھ کر چائے پی تو میں اسکے سامنے بیٹھ گیا۔ تو انہوں نے کہا کہ ہاں ہمارے دھرم میں الاؤ نہیں تو میں نے کہا کہ آپ پھر یہ گائے کے چمڑے کا بیوپار کیوں کرتے ہو؟۔ وہاں دیوار پر لکشمی کی مورتی تھی، تو اس نے پوچھا یہ کیا ؟۔ میں نے کہا کہ کوئی بھگوان ہے۔ تو اس نے کہا کہ میں اس کی پوجا کروں یا چمڑے کی پوجا کروں؟۔ تو میں نے کہا کہ صاحب ہم بھی تو وہی چاہتے ہیں ہم کو بھی دو پیسہ مل جائیگا۔ تو اس نے کہا کہ تمہارا پیٹ بھرنے کیلئے اتنا کافی ہے جتنا مل رہا ہے نا!۔ اس سے زیادہ جو ہے وہ ہمارا ہے۔ پھر کافی باتیں اس نے بتائیں کہ روز ڈیڑھ کروڑ روپیہ پالن پور کے وہ جو امیر گڑھ کا چیک پوسٹ ہے وہاں پر روز ایک دن میں ڈیڑھ کروڑ روپیہ اکھٹا ہوتا ہے، عید کے بعد آنا تب شاید کچھ تھوڑا بہت کم کرینگے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ بیچ بیچ میں ہم کو لوگوں کو مارتے رہنا پڑتا ہے کیونکہ جب کسی کو مارتے ہیں تو دس پندرہ ہزار بیس ہزار لوگ ڈر جاتے ہیں اور وہ ڈر برقرار رکھنا ہے تو بیچ بیچ میں مارتے رہنا پڑتا ہے۔ تو تو اچانک الگ نمبر کے ٹرک میں ٹریول مت کر کہیں پھنس جائیگا ایک آدھ دن۔ میں نے کہا کیا کرینگے ،سر پیٹ بھرنے کیلئے تو کرنا ہی پڑیگا۔ جب تک زندہ ہیں تب تک یہ کرنا ہے، آپ نے اگر مار ڈالا تو کہاں پیٹ بھرنے کی نوبت آئیگی۔ تو یہ ساری باتیں ہوئی تھی، ہم سوچتے ہیں کہ گاؤ رکشا وغیرہ یہ دھرم کی باتیں وہ کرتے ہیں لیکن وہ بزنس ماڈل ہے اور اس بزنس ماڈل کی انوسٹمنٹ ڈر ہے۔ اور ڈر یہ انوسٹمنٹ بنیادی طور پر فاشزم کی انوسٹمنٹ ہے۔ چاہے آپ کسی بھی فیلڈ میں دیکھو۔ جو ڈی مونیٹرائزیشن کے بعد انہوں نے کہا تھا کی معاشی طور پر ہر آدمی کو گھٹنوں کے بل لاکر رکھ دیا اور آرچک آدھار پر کوئی بھی انسان گھٹنوں کے بل ٹک جاتا ہے تو وہ کسی بھی فاسی وادی حکم کو ماننے کیلئے تیار ہوجاتا ہے۔ اور وہی ہم نے دیکھا کہ اسکے بعد کیا کیا ہوا، کچھ نہیں۔ اربن مڈل کلاس میں inferiority complex (احساس کمتری) ہوتا ہے، اربن مڈل کلاس کو ہمیشہ ایسا لگتا ہے کہ ہم دیش کیلئے کچھ نہیں کررہے۔ تو ان میں یہ وہم پیدا کردیا کہ آپ لائن میں کھڑا ہوکر بہت کچھ دیش کیلئے کررہے ہو اور وہ کھڑے ہوگئے اور وہ کھڑے رہنے کی وجہ سے جب ہم جیسے لوگ criticise (تنقید) کرنے لگے تو وہ ہم کو گالیاں دینے لگے کہ بارڈر پر دیکھو کہ جوان کیسے مررہے ہیں؟ ہم چار گھنٹے لائن میں کھڑے نہیں رہ سکتے کیا؟۔ اور یہ اسلئے ہوتا ہے کہ انکا جو احساس کمتری ہے انہوں نے اس کو ٹریٹ کرنے کی کوشش کی اس کوسمجھانے کی کوشش کی۔ اور اسلئے یہ پورا اربن مڈل کلاس انکے پیچھے دوڑ رہا تھا۔ یہ جاکر کوئی دیکھتا نہیں کہ واقعی میں یہ کیا ہورہا ہے یہ کس طرح سے ہورہا ہے۔
حضرت ابراہیم ؑ ،اسحاق علیہ السلام ،یعقوب علیہ السلام ،یوسف علیہ السلام ، داود علیہ السلام ، سلیمان علیہ السلام ، زکریا علیہ السلام ،یحییٰ علیہ السلام ، مریم علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام ذوالقرنین، حکیم لقمان،طالوت وغیرہاللہ نے فرمایا :’’ اے بنی اسرائیل میری وہ نعمت یاد کرو،جو میں نے تم پر کی اور میں نے جہان والوں پرتمہیں کوفضیلت دی‘‘دنیاوی فضیلت کا سکہ آج اسلئے برقرار ہے کہ تسخیر کائنات کا نظریہ قرآن نے دیا مگرنفع بخش سائنسی ایجادات انکا مقدربنیںرسول اللہ نے فرمایا: ’’ اہل غرب ہمیشہ حق پر قائم رہیں گے‘‘۔ قرآن نے جمہوریت اور اخلاقی نظام دیامگرعمل انہوں نے کیابنی اسماعیل ؑ کی اولاد میں رحمۃ للعالمین محمد ﷺ کی بعثت کے بعد نبوت کا سلسلہ ختمرحمۃ للعالمینﷺ کی بعثت ہوئی تو یہودونصاریٰ کی مذہبی حالت ایسی تھی جیسے آج شدت پسندمسلمان فرقوں اور علماء کی ہےقرآن اور نبی رحمۃ للعالمینﷺ کی سیرت طیبہ کی روشنی دنیا میں پھیل گئی تو اہل مغرب نے مذہبی شدت پسندی کو خیربادکردیاپہلے اسلام دینِ فطرت کے مقابلے میں یہودونصاریٰ نے اپنی عوام کو غرق کردیا ، آج ہم بھی انکے نقش قدم پر چل رہے ہیںمغرب نے مذہبی شدت پسندی ترک کرکے امامت کا مقام حاصل کیا، ہم شدت پسندی سے خود کو ذلیل کرنے پر تل گئے۔طاقت میں بہت آگے مغرب کے عیسائی چاہتے تو اپنا قبلہ بیت المقدس مسلمانوں اور یہودیوں سے چھین کر اور مسلمانوں کے قبلہ کو سکینڈوں میں ملیامیٹ کرسکتے ہیں۔ چاہیں تو دنیا بھر کے مسلمان ممالک کو تہس نہس کرکے انکے مردوں کو مار ڈالیں اور خواتین کو لونڈیاں بنادیں۔ مسلمانوں و ہندؤں نے خواتین کو انسانی حقوق سے محروم کیا ۔ اگر رشتے ناطے کی محبت ، اقدارکا پاس اورمذاہب سے عقیدت نہ ہو تووہ مغرب کی غلامی کو بھی یہاں کی نام نہادآزادی سے بہتر سمجھیں گے ۔ حکمرانوں،اشرافیہ، سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے جہنم سے نکلنے کیلئے اغیار کی حکومتوں کو غنیمت اور اپنی تقدیر کا عروج قرار دیں۔ برصغیر پاک وہند کے بارے میں یہ درست ہے کہ سکندر اعظم سے برطانوی سامراج تک یہاں کی عوام پر رومیوں نے حکومت کی، عربوں، ایرانیوں ، ترکوں ، افغانیوں ، سکھوں اور پٹھانوں نے حکومت کی اور جو بھی باہر سے آیا تو اس نے فتح کے جھنڈے گاڑ دئیے۔ لیکن یہ تجزیہ کوئی نہیں کرتا کہ یہاں خوار غریب عوام اور خواتین کیساتھ کیا رویہ رکھا گیا؟۔ جو دوسرے حکمران اس سے زیادہ مظالم کی داستان رقم کرتے اور مزید ستم ڈھاتے؟۔پاکستان کے قبائلی علاقہ جات نسبتاً آزاد منش، خوشحال اور فطرت کے ترجمان تھے۔ جس طرح عربوں سے فاتح لوگوں نے تاریخ میں کوئی غرض نہیں رکھی تھی۔ خوبی خامیاں عربوں اور پختون قبائل میں تھیں لیکن علامہ اقبال ؒ نے رسول اللہﷺ کو بندۂ صحرائی اور آنیوالے مجاہدکومردِ کوہستانی کا خطاب دیتے ہوئے بہت واضح الفاظ میں فرمایا تھا کہفطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی یا بندۂ صحرائی یا مردِ کوہستانیپورے برصغیرپاک وہند میں آزاد قبائل نے سب سے زیادہ انگریز کی مزاحمت کی تھی اور خاص طور پر وزیرستان کے لوگوں نے۔ہمارے حکمران مرغا بن کے بھی امریکہ کے بوٹ چاٹنے کیلئے تیار ہوجاتے لیکن آزاد منش قبائل نے قربانیوں کا پہاڑ اپنی بربادیوں پر کھڑا کردیا ۔ ہمیں غیروں نے نہیں اپنوں کی سازش، لالچ اور جہالتوں نے تباہی وبربادی کے کنارے پرپہنچادیا۔ طالبان ریاست کی غلطی سے غلط سمت پر استعمال ہوئے اور اب پی ٹی ایم کو بھی غلط سمت استعمال کرنے کی کوشش جاری ہے۔ منظور پشتین اتنا کہہ دے کہ ’’نیوزی لینڈ کے دہشت گرد کی ماں نے مطالبہ کیا ہے کہ میرے بیٹے کو سزائے موت دی جائے ۔ پختونوں میں بے غیرت دہشت گردوں کی ایک بھی غیرتمند ماں ایسی نہیں جو کھل کر سامنے آئے اور کہے کہ میرا حرام زادہ بیٹا دہشت گرد تھا اور اچھا ہوا کہ انجام کو پہنچ گیا یا اس کو انجام تک پہنچایا جائے۔وہ مائیں یہ نہیں کرتیں تو فوجیوں کے ہاتھوں سے ان کا ٹھنڈا ہونا بہتر ہے جن کو طالبان نے گرم کیا ہوا تھااسلئے کہ دہشتگردی پر اوس پڑی ہے‘‘۔ پی ٹی ایم کی قیادت کو چاہیے کہ پہلے اپنی کڑک مرغیوں سے گندے انڈے پھنکوادے۔ پھر یہ بات ریاست میں نہیں دنیا بھر میں جگہ پکڑے گی کہ’’ اللہ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کو ہمارے حکمرانوں کی طرح مسلمان بنانے کے بجائے ہمارے حکمرانوں کو اس کی طرح ایک اچھا انسان بنائے‘‘۔ ہماری ریاست ڈرامہ کرتی ہے ، نوازشریف کو اپنے ہاتھوں میں لیا ہے اور عمران خان کو بھی۔ جیسے طالبان سے لڑبھی رہی تھی اور اس پر مر بھی رہی تھی، یہی حال منظور پشتین اوراسکے ساتھیوں کے رویے سے بھی لگتا ہے۔ ڈبل پاٹ، ڈبل گیم اور ڈبل پالیسیوں سے ملک وقوم اور مذہب وملت کو تباہ کیا گیا اور ان کھیلوں سے باز آکر سیدھی راہ پر چلنے کی ضرورت ہے۔طالبان کی مصنوعی فضاء سے جان چھوٹی مگر لسانیت کا رنگ بہت خطرناک ہے۔ حق کیلئے آواز اٹھانے سے زیادہ ان لوگوں کو دبانے کا ماحول وہ بگاڑ پیدا کررہاہے اور لوگ پھراس ڈبل گیم سے بہت مایوسی کا شکار ہورہے ہیں۔حضرت ابراہیم ؑ سے حضرت عیسیٰ ؑ تک سب سے زیادہ انبیاء کرام ؑ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل میں مبعوث فرمائے۔سب سے زیادہ مذہبی لوگ یہودو نصاریٰ تھے مگر وہ تحریف کی بدولت اس قدر اپنی فطرت مسخ کرچکے تھے کہ اللہ کو اپنا آخری رسولﷺ عرب میں پیدا کرنا پڑا ۔ اور قرآن میں یہ وضاحت کردی کہ ’’اے نبی! یہود ونصاریٰ آپ سے کبھی ہرگزہرگز بھی راضی نہ ہونگے یہانتک آپ ان کی ملت کے تابع نہ بن جائیں‘‘۔رسول اللہ ﷺ کے دور میں یہودونصاریٰ کے علماء ومشائخ اور انکے پجاری عوام جہاں کھڑے تھے، آج ہمارے علماء ومشائخ اور عوام بھی انکے نقش قدم پر چل پڑے ہیں۔ جب یہودو نصاریٰ کے اپنے مذہبی خداؤں بقول قرآن مجید کے احبارو رھبان کو مغرب کی باشعور عوام نے بالکل سائیڈ لائن پر لگادیا توانہوں نے دنیا میں عروج وترقی کی منزل بھی پالی ہے۔آج عرب علماء، ایرانی حکومت ،برصغیر کے بریلوی، دیوبندی، اہلحدیث اور شیعہ تمام مذہبی طبقے یہودونصاریٰ کی طرح اپنی فطرت بھی مسخ کرچکے ہیں۔اُمید کی کوئی کرن ان سے پھوٹتی دکھائی نہیں دیتی ہے۔ ایک بڑی کہانی ہے جسکے مختصر دو اسکرین شارٹ ملاحظہ فرمائیں۔ بڑھیا کے کم عقل پوتے کو شہزادی کی گڑیا مل گئی۔ بڑھیانے پوتے کو سلایااور صحن میں چنے بکھیر دئیے۔ وہ اٹھا تو بتایا کہ چنوں کی بارش ہوئی ہے۔ بادشاہ نے قیمتی گڑیاکی منادی کرائی تو لڑکے نے بتایا کہ مجھے ملی ہے۔ دادی نے کہا کہ جھوٹ ہے، اس کو پوچھو کہ کس دن کا واقعہ ہے، لڑکے نے کہا کہ جس دن چنے کی بارش ہوئی تھی۔پھرپوتے نے دادی سے اپنی شادی کامطالبہ کیا تو دادی نے کہا کہ کوئی لڑکی پسند آئے تو اس کو کنکر مارو، اگر و ہ ہنسے تو رشتہ مانگ لوں گی۔ لڑکے نے شہزادی کو کنویں کے کنارے کنکر مارا، وہ کم عقل کی حرکت پر مسکرائی لیکن لڑکے نے بڑا پتھر سر پر دے مارا تاکہ خوب ہنسے۔ اپنی دادی کو بتایا کہ لڑکی نے مجھے بڑا پسند کیا مگر وہ ہنستے ہوئے خوشی سے کنویں میں گر گئی۔دادی نے کنویں میں بکرا، گدھا اور دنباپھینک دئیے۔ بادشاہ نے گمشدہ شہزادی کی برآمدگی پر انعام کابڑا اعلان کیا تو لڑکے نے ماجراء سنایا۔ بادشاہ نے لڑکے کو کنویں میں اتارا۔ لڑکے نے کہا کہ بادشاہ تمہاری بیٹی کے جسم پر اون تھا؟۔ بادشاہ نے کہا کہ ہاں، دم تھی،کیا اسکے سینگ تھے؟۔ بادشاہ ہاں ہاں کرتا رہا۔ چارپاؤں، بڑے بڑے کان کے بعد آخر اس کا ہاتھ گدھے کے ذکر پر لگا تو کہا کہ تیری بیٹی کا اتنا بڑا ذکر تھا؟۔ بادشاہ بڑا شرمندہ ہوا ،اور کہا کہ خبیث بس کرو بس کرو، میری کوئی بیٹی نہیں اور اس کو کنویں سے جلدی نکلوادیا۔جب نبیﷺ کے بعد وحی کا سلسلہ بند ہوا، اسلام اجنبیت کا شکار ہوا تو بادشاہ کا دل اپنے باپ کی لونڈی پر آگیا۔ امام ابوحنیفہؒ نے فرمایا کہ کسی عورت کو ہاتھ لگانا بھی نکاح کی طرح ہے ،باپ کی لونڈی جائز نہیں۔ امام ابویوسف نے حیلہ بتایا کہ لڑکی کی گواہی قابلِ قبول نہیں، لونڈی کی بات ہی مسترد کرو، کہ تمہارے باپ نے اس کو ہاتھ بھی لگایا ہے۔ پھر آنے والوں نے حرمت مصاہرت کے مسائل کو اسطرح دریافت کیا ، جس طرح بڑھیا کا کم عقل پوتا کنویں میں شہزادی کی خبر بادشاہ کو دے رہا تھا۔ نیند میں غلطی سے ساس کیساتھ جماع حرمت مصاہرت ہے اورہاتھ لگنا بھی حرمت مصاہرت ہے، اپنی بیوی کیساتھ مباشرت اور بچے کی پیدائش کے بعد اصولاً حرمت مصاہرت ہے لیکن ضرورت کی خاطر بیوی جائز ہے۔ ساس کی شرمگاہ کواگر باہر سے شہوت کیساتھ دیکھ لیا تو عذر ہے لیکن اندر سے دیکھ لیا تو حرمت مصاہرت ہے۔ ملاجیون کی کتاب ’’نورالانوار‘‘ برصغیر پاک وہند کے کم عقل پڑھ اور پڑھا رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے انگریز کے ذریعے دنیا پر قبضہ کرواکر ملا سے جان چھڑائی۔پہلے تعلیم ملاؤں کی رہین منت ہوتی تھی ،اب انگریزی تعلیم ہے۔انگریز کو معلوم ہے کہ جب تک شام وعراق میں داعش کے ذریعے مسلمانوں کی اپنی خواتین کو نکاح بالجہاد کا فلسفہ نہیں سمجھائے، جس میں پنج وقتہ نماز کی طرح ایک خاتون کے دن میں پانچ شوہر بدل بدل کر ریپ کروایا جاتا ہے، تب تک ان کو سمجھ یہ بات نہیں آئے گی کہ مغرب کی خواتین کو لونڈی بنانا بھی برا ہے۔ آج میڈیا میں داعش کی اس کارکردگی پر پرد ہ ڈالا گیا ہے۔ اوریا مقبول جان جانتا ہے کہ ایک دفعہ بیوروکریسی سے ریٹائرڈمنٹ کے بعد وہ دوبارہ اس نظام کا حصہ نہیں بن سکتا ہے وہ کوشش میں ہے کہ کوئی نیا سیٹ اپ آجائے تاکہ پھرنوکری کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو اور آدمی کی سوچ اپنے ماحول سے آگے جا بھی نہیں سکتی ہے۔اوریا مقبول نے ملاؤں کی حکومت میں نوکری کا خواب دیکھاہے۔جب یہودونصاریٰ کے مذہبی گروہ ناقابلِ اصلاح ہوچکے تھے تو اللہ تعالیٰ نے عرب ان پڑھوں کا انسانیت کیلئے انتخاب کیا اور دنیا کو عربوں کے ذریعے انسانیت کا درس دیا۔ یہ وہ عرب تھے جن کے ہاں حضرت ابراہیم ؑ واسماعیل ؑ کے بعد کوئی نبی نہیں آیا تھا۔ بنی اسرائیل کے مذہبی شدت پسندوں اور دہشت گردوں کو قدرت نے بھی مسترد کردیا تھا۔ جب ان کی خواتین کو عربوں نے لونڈی بنایا تب انکے دل ودماغ بھی کھل گئے اور پھر مسخ شدہ مذہب کو ترک کرکے عروج کی منزل پر پہنچ گئے۔آج اہل مغرب کی فطرت وہ نہیں۔اسلام کی نشاۃ اول عربوں کے ذریعے ہوئی تھی اور قرآن کا پہلا مخاطب مسلمان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کے الفاظ کا لفظی تحریف سے حفاظت کا ذمہ خود لیا،اسلئے کہ یہ اللہ کی آخری کتاب ہے۔ جسطرح ابراہیم ؑ کے بعد عربوں میں دین اجنبی بن گیاتھا، اس طرح حضرت نوح ؑ کے بعد سے ہندوؤں میں دین اجنبی ہے۔ قرآن کا دوسرا مخاطب عوام الناس اور عالم انسانیت ہے۔ دین میں زبردستی کا کوئی شائبہ تک بھی نہیں ۔ رسول ﷺ کی سیرت طیبہ اعلیٰ نمونہ اور قرآن نبیﷺ کی سیرت ہے۔ صلح حدیبیہ کا معاہدہ نبیﷺ نے کسی مجبوری میں نہیں بلکہ دین کے تقاضے کے عین مطابق کیا تھا۔ اگر مشرکین مکہ اس کو نہ توڑتے تو یہ فتح مبین کا معاہدہ دس سال تک حضرت عمرفاروق اعظم ؓ کے دورِ خلافت تک قائم رہتا۔ مکہ کو جس انداز سے فتح کیا وہ بھی انسانیت کیلئے جیت اور بہت بڑا سبق تھا لیکن اگر معاہدہ برقرار رہتا تو اسلام زمین میں جڑ پکڑ لیتا اور اتنے کم وقت میں فتنے وفساد کا بازار گرم نہ ہوتا اور نہ خلافت راشدہ امارت وبادشاہت میں بدل جاتی۔صلح حدیبیہ کی ایک اہم شق یہ بھی تھی کہ ’’ کوئی مسلمان اسلام چھوڑ کر مشرک بن جائے تو مشرکین اسے مسلمانوں کو واپس نہیں لوٹائیں گے لیکن اگر کوئی مشرک مسلمان بن جائے تو مسلمان اس کو واپس لوٹا دیں گے‘‘۔ آج مغرب نے جاہل مسلمانوں کیساتھ یہ شق مانی ہوئی ہے کہ اگر تم کسی کو عیسائی نہیں بننے دیتے ہوتو خیر ہے لیکن ہمارا کوئی عیسائی مسلمان بنتا ہے تو اس کو اپنے پاس رکھ لو۔ دین کا تعلق روح اور دل کیساتھ ہے۔ جب کوئی دل سے ہی مسلمان نہ ہو تو اس منافق کے دھڑ کو لیکر مسلمانوں نے کیا کرنا ہے؟۔ منافق جہنم کے نچلے درجے میں ہونگے جبکہ مشرک وکافر ان سے کہیں بہتر ہونگے۔ صلح حدیبیہ کا معاہدہ فطرت کا تقاضہ تھا لیکن جذباتی صحابہ کرام ؓ نے وقت پر نبیﷺ کی بصیرت کو نہیں سمجھا ۔اللہ نے مسلمانوں کو قرآن میں یہ گنجائش دی کہ ’’ اگر زبردستی سے جاہل ان کو کلمۂ کفر بکنے پر بھی مجبور کریں تو ایمان پر کوئی فرق نہیں پڑتا ‘‘۔ سندھ میں ہندو بچیاں اسلام قبول کریں تو انکے والدین ، گھر ،محلے ، رشتہ داروں اور کمیونٹی والوں کو اس کرب کی کیفیت سے گزارنے کی اسلام ہرگز اجازت نہیں دیتاہے۔ بچیاں اپنے گھر میں رہیں اگر وہ دل سے مسلمان ہیں اور زبان سے اقرار نہیں کرسکتی ہیں تو بھی مسئلہ نہیں۔ پاکستان، اسلام ، سندھ اور عالمِ انسانیت کی بہادر بیٹی ہدیٰ نے جو آواز اٹھائی یہ اسلام کی روح اور سندھ و پاکستان کیلئے باعثِ افتخار ہے۔ والدین کے دل چھلنی کرنے سے نہیں بلکہ انسانیت کا دل جیتنے سے قرآن ، نبیﷺ کی سیرت اور انسانیت کے تقاضے پورے ہو جائیں گے۔ مولوی، پیر اور فقیر پہلے درسِ نظامی کے گند کو صاف کردیں۔ علامہ خادم حسین رضوی نے بی بی آسیہ کا نام لینا چھوڑ دیا۔ دہشت گردوں نے جی ایچ کیو پر قبضہ کیا لیکن ربوہٰ پر قبضہ نہیں کیا۔ علامہ خادم حسین رضوی ربوہٰ کو فتح کرکے دکھائیں تومحمود غزنوی کے بیٹے بن سکیں گے۔ آج جن کی دم اٹھااٹھاکراستعمال کیا جارہاہے کل یہ ربوہٰ پر چارج ہوکر ہلا بول دیں گے۔ فوج نے دہشت گردوں کو پختونوں پر چھوڑ دیا تو خود بھی محفوظ نہیں رہی اور پختونوں نے دہشت گردوں کو فوج پر چھوڑا تو خود بھی نہ بچ سکے اور یہ مکافاتِ عمل ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ جو مسلمان دنیا بھر میں دہشت گردی کی فضاؤں کو بڑا کمال سمجھ رہے تھے انہوں نے نیوزی لینڈ کے ایک واقعہ پر طوفان اٹھا دیا۔ انصاف یہ نہیں کہ اپنے ساتھ زیادتی پر واویلا کیا جائے اور دوسرے کیساتھ زیادتی کو اپنا حق سمجھا جائے۔ سوشل میڈیا پر فضول پروپیگنڈے بھی انسانیت کے بالکل منافی ہیں۔ISI کا نام استعمال کرنے والوں کودھر لیا جائے۔غزوہ ہند کا مطلب اسلام کی نشاۃ ثانیہ کیلئے جدوجہد اور دوسرے نہیں اپنے حکمرانوں کو ہی پکڑکر طوق وسلاسل میں جکڑنا بھی ہوسکتا ہے۔جس طرح ہندو اپنے ویدوں سے دور ہیں اس طرح مسلمان قرآن وسنت سے بالکل بے بہرہ ہیں۔ جس طرح مشرکین مکہ نے اسلام قبول کرکے قرآن کی نشاۃ اول میں بنیادی کردار ادا کیا، اسی طرح ہندو انسانیت کی بنیاد پر اسلام کو سپورٹ کرکے اسلام کی نشاۃ ثانیہ میں بنیادی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ یہود و نصاریٰ کی طرح ہمارے مذہبی طبقات بھی اپنی انسانی فطرت کھو چکے ہیں۔ اگر ہماری اپنی ریاست ان کی پشت پناہی چھوڑ دے تو غیرتمند عوام کے ہاتھوں یہ ایک دن حلالہ کی لعنت پر ایسے شکار ہوجائیں گے جیسے نیوزی لینڈ کے معصوم اور بے گناہ نمازی ہوئے تھے۔ اب انکے دانت کھٹے ہیں ،پہلے انکے دلائل کا کسی کے پاس جواب نہیں ہوتاتھا اور اندھے ایکدوسرے کے خلاف لاٹھی چلاتے تھے۔ اب وہ دلائل سے بالکل عاری ہوچکے ہیں۔ اپنی کتابوں اور مبلغ جہالت کا دفاع بھی نہیں کرپارہے ہیں۔ اپنے خراب انڈوں پر بیٹھ کرپاگل کڑک مرغی کی طرح کٹ کٹ کرکے اپنا ہی وقت ضائع کررہے ہیں۔ جذبات کی شکار عوام کو حقائق کا پتہ چلاتو وہ مولوی صاحبان کو بھی شعور کی دولت سے نوازیں گے۔
سمجھا جاتا ہے کہ اللہ نے عورت کو خلع کا حق نہیں دیا۔ حالانکہ یہ بالکل غلط ، بکواس اور لایعنی ہے۔ غلطی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مذہبی طبقے نے نصاب، تفسیر، حدیث کی کتابوں میں سورۂ البقرہ آیت229میں تین مرتبہ طلاق کے بعد خلع کا تصور دیا۔ حالانکہ مرحلہ وار تین مرتبہ طلاق کے بعد خلع کا تصور نہیں ہوسکتا ہے۔ خلع میں تو ایک طلاق اور عدت کے ایک مرحلے کا تصور نبی کریم ﷺ نے واضح فرمایا، جس پر آج بھی سعودیہ اور دیگر مسالک والے عمل پیرا ہیں۔ ہمارے نصاب میں بالکل غلط طور پر حدیث صحیحہ کو قرآن کیخلاف گردانا جاتا ہے کہ ’’ قرآن نے طلاق کی عدت تین مراحل یا تین ماہ مقرر کئے ہیں تو حدیث صحیحہ کی وجہ سے یہ قرآن کا واضح حکم منسوخ تصور ہوگا‘‘۔ حالانکہ حمل کی صورت میں تین مراحل کی یہ عدت نہیں ہے اور حدیث میں غلام کی دو طلاق اور لونڈی کی دو حیض کی عدت کو بھی احناف قرآن کے برعکس تسلیم کرتے ہیں۔ دو،تین مرتبہ طلاق کے بعد خلع کا کوئی تصور نہیں ہوسکتا ۔ البقرہ آیت: 229میں یہ واضح ہے کہ ’’ طلاق دو مرتبہ ہے پھر معروف طریقے سے روکنا ہے یا احسان کیساتھ رخصت کرنا ہے‘‘۔علامہ غلام رسول سعیدی ؒ بریلوی تنظیم المدارس اور مولانا سلیم اللہ خان ؒ دیوبندی صدر وفاق المدارس نے اپنی بخاری کی شرح میں یہ حدیث نقل کی کہ صحابی ؓ نے پوچھا کہ قرآن میں تیسری طلاق کہاں ہے؟۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ’’ تسریح باحسان تیسری طلاق ہے‘‘۔ جب حضرت عمر ؓ نے نبی ﷺ کو خبردی کہ عبداللہ بن عمر ؓ نے اپنی عورت کو حیض میں طلاق دی تو رسول اللہ ﷺ غضبناک ہوئے اور پھر ابن عمر ؓ سے فرمایا کہ رجوع کرلو۔ پاکی کے دور میں پاس رکھو یہانتک کہ اسے حیض آجائے۔ پھر پاکی کا دور آجائے اور اسے حیض آجائے۔ پھر پاکی کادورآجائے تو پھر اگر روکنا چاہتے ہو تو روک لو اور طلاق دینا چاہتے ہو تو ہاتھ لگائے بغیر چھوڑ دو، یہ وہ عدت ہے جس میں اللہ نے اس طرح طلاق کا امر کیاہے‘‘۔ کتاب التفسیر سورۂ طلاق بخاری، کتاب الاحکام ، کتاب العدت اور کتاب الطلاق بخاری میں یہ روایت ہے اور صحیح مسلم میں تواکٹھی تین طلاق کا ذکر بھی ہے۔ اگر دو مرتبہ طلاق کے بعد تیسرے مرحلے میں معروف طریقے سے رجوع کیا تو بات ختم ہوجاتی ہے لیکن اگر تیسرے مرحلے میں تیسری مرتبہ بھی طلاق دیدی تو اللہ تعالیٰ نے اسکے بعد فرمایا کہ ’’ اور تمہارے لئے حلال نہیں کہ جو کچھ بھی ان کو دیا ہے ،اس میں سے کچھ بھی واپس لے لو۔ الا یہ کہ دونوں کو یہ خوف ہو کہ دونوں اللہ کی حدود کو قائم نہ رکھ سکیں گے اور اگر تمہیں ( اے فیصلہ کرنے والو!) خوف ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود پر نہیں قائم رہ سکیں گے تو پھر عورت کی طرف سے وہ چیز فدیہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ اللہ کے حدود ہیں ان سے تجاوز مت کرو اور جو ان سے تجاوز کرتا ہے تو بیشک وہی لوگ ظالم ہیں ۔ (البقرہ آیت229) آیت میں مرحلہ وار جدائی کے حتمی نتیجے تک پہنچنے کے بعد یہ حکم بیان کیا گیا ، جس سے خلع مراد لینے کا کوئی امکان بھی نہیں۔ افسوس کہ کم عقل لوگوں نے جو کتابیں لکھ ڈالیں ہیں ،ان کو درسِ نظامی کا حصہ بنادیا گیا ہے۔ چنانچہ اصولِ فقہ کی کتاب ’’نورالانوار‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’ حنفی مؤقف یہ ہے کہ آیت230میں فان طلقہا (پھر اگر اس نے طلاق دی تو اس کیلئے حلال نہیں یہانتک کہ وہ کسی اور سے نکاح کرلے) کی ’’ف ‘‘تعقیب بلا مہلت کیلئے آتا ہے اسلئے اس طلاق کا تعلق خلع(فدیہ) کی صورت سے ہی ہے جبکہ امام شافعی ؒ کے نزدیک اس طرح دومرتبہ طلاق کے بعد خلع تیسری طلاق بن جائے گی اور پھر اگلی تیسری طلاق کی گنجائش نہ رہے گی، اسلئے یہ خلع (فدیہ )کی صورت جملہ معترضہ ہے۔ احناف اس کا یہ جواب دیتے ہیں کہ خلع کوئی مستقل طلاق نہیں ہے بلکہ تیسری طلاق کیلئے ایک ضمنی مقدمہ ہے جس سے شوافع کے اعتراض کا جواب ہوجاتا ہے۔ حالانکہ دو تین مرتبہ طلاق کے بعد نہیں بلکہ ایک مرتبہ طلاق کے بعد بھی خلع کا تصور باقی نہیں رہتاہے۔ قرآن وحدیث میں واضح ہے کہ تین مرتبہ مرحلہ وار طلاق کے بعد شوہر کی طرف سے دیا ہوا مال واپس لیناغلط ہے۔ صرف اس صورت میں کسی ایسی چیز کو عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں کوئی حرج نہیں جب دونوں کو اس کی بنیاد پر میل ملاپ اور اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا خطرہ ہو اور فیصلہ کرنے والے بھی یہی خدشہ سمجھتے ہوں۔ یہ طلاق کی وہ صورت ہے جس میں باہوش وحواس مرحلہ وار جدائی کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔علامہ ابن قیم ؒ نے حضرت ابن عباس ؓ کی یہی تفسیر نقل کی لیکن اس کو بھی خلع کی کتاب میں نقل کیا ہے۔( زادالمعاد: جلد4) شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے اس آیت میں الجھاؤ کے پیشِ نظر مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کے ترجمہ و تفسیر کا ایک جگہ حوالہ دیا ہے۔ حالانکہ یہ آیت بالکل واضح ہے لیکن مذہبی طبقے نے مسلکی وکالت کی نمک حلالی کیلئے تعصب میں الجھ کر حقائق سے غفلت کا مظاہرہ کیا، ابن قیم ؒ احناف کی تردید میں اندھے پن کا شکار تھے۔ یہ کونسا فقہ اور قرآن فہمی ہے کہ قرآن شوہر کو اپنے دئیے ہوئے مال کو بھی واپس نہ لینے کا حکم دے رہا ہو اور علماء آیت کے واضح مفہوم کے برعکس عورت کو اپنا مال ومتاع دینے کو بھی اس آیت کی بنیاد پر جواز دیتے ہوں؟۔ اس آیت کا خلع سے بالکل کوئی تعلق نہیں ہے۔ علماء وفقہاء نے غلط تفسیر وفقہی مسائل سے اسلام کو اجنبیت کی انتہاء پر پہنچادیا ہے۔ جس کی خبر رسول اللہ ﷺ نے تقریباً1435سال پہلے دی تھی۔علامہ تمنا عمادی ؒ ایک حنفی المسلک مولوی تھے ،انہوں نے حنفی مسلک کی بنیاد پر الطلاق مرتان کتاب لکھ دی اور انکارِ حدیث کا فتنہ بھی اسکے بعد پیدا ہوا۔ پھر بہت سے اسکالر علماء وفقہاء کی فقہ دانیوں سے اپنی تفہیم کشید کرنے میں لگے۔ خلع یہ ہے۔’’ تم عورتوں کے زبردستی سے مالک نہ بن بیٹھواور نہ اسلئے ان کو روکو، کہ جو کچھ تم نے انکو دیا، اس میں بعض واپس لو۔ مگریہ کہ وہ کھلی فحاشی کی مرتکب ہوں۔ ان سے (خلع کے باوجود) اچھا سلوک کرو، ہوسکتا ہے کہ تمہیں وہ بری لگیں اور اللہ تمہارے لئے اسمیں بہت سا خیر رکھ دے‘‘۔ (سورۂ النساء آیت:19) اس آیت میں بھی اسلام کی اجنبیت کو برقرار رکھتے ہوئے غلط تفسیر لکھ ڈالی۔ممکن نہیں کہ اللہ عربی کی کھلی زبان میں اتنی بڑی غلطی کرے کہ ان جملوں کے انہی الفاظ میں الگ الگ قسم کی خواتین مراد لے۔ علماء نے یہ تفسیر کی ہے کہ ’’ عورتوں کے زبردستی سے مالک نہ بن بیٹھو ‘‘ سے مراد ایام جاہلیت میں خاندان کی بیوہ خواتین مراد ہیں۔ اور ’’ ان کواسلئے مت روکو کہ جو کچھ بھی تم نے ان کو دیا ہے ،اس میں سے کچھ بھی واپس لومگر یہ کہ کھلی ہوئی فحاشی کے مرتکب ہوں‘‘ سے مراد اپنی بیگمات ہیں حالانکہ علماء کی فاش غلطی ہے۔ یہ تفسیر عربی زبان کے علاوہ کسی اور زبان کی بھی نہیں ہوسکتی جبکہ عربی میں دوسرے جملے کی ضمیر کا مرجع پہلے جملے کی خواتین ہی ہیں۔ علماء نے مغالطہ اسلئے کھایا کہ انکے نزدیک شوہر تین طلاق کا مالک ہوتا ہے اور اللہ نے نکاح کا عقدہ شوہر کے ہاتھ ہونے کی وضاحت کی ہے۔ جبکہ یہ دونوں باتیں محض مغالطے کا نتیجہ ہیں۔ شوہر تین طلاق کا مالک ہوتا تو بیوی لونڈی کی طرح اس کی ملکیت ہوتی۔ اگر ہاتھ لگانے سے پہلے شوہر طلاق دے تو اللہ نے فرمایا کہ ’’تمہارا ان پر عدت کا کوئی حق نہیں جس کو تم گنو‘‘۔ جس سے یہ واضح ہوا کہ’’ شوہر ہاتھ لگانے کے بعد طلاق دے تو اس کا بیوی پر عدت کا حق ہے‘‘۔ تین طلاق کی ملکیت کے غلط تصور نے بھی اسلام کو اجنبی بنادیا ہے۔ اگرایک طلاق دی جائے اور عدت کے بعد بھی دو طلاقوں کا تصور باقی رہے ،یہاں تک کہ عورت دوسری جگہ نکاح بھی کرلے اور پھر وہاں سے طلاق کے بعد یہ بحث کیجائے کہ پہلا شوہر نئے سرے سے 3 طلاق کا مالک ہوگا یا پہلے سے موجود بقیہ دو طلاقوں کا؟۔ اگر عوام کے سامنے یہ حقائق آگئے تو سمجھیں گے کہ علماء کو پاگل کتوں نے تو نہیں کاٹا ہے جو اس طرح کی بکواس پڑھتے اور پڑھاتے ہیں؟۔ دوسرا مغالطہ اس آیت سے لگاکہ شوہر نے ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دی تو پھر بھی اس پر آدھا حق مہر ہے۔ اگر عورت آدھے کو معاف کردے یا مرد نے پورا حق مہر دیا اور وہ اپنا آدھا حصہ بھی چھوڑدیتا ہے جسکے ہاتھ میں نکاح کا گرہ ہے۔ چونکہ طلاق کی صورت میں شوہر نے ہاتھ لگانے سے پہلے چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہوتا ہے اسلئے وہ پورا حق مہر بھی معاف کردے تو زیادہ مناسب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ’’مرد ہی میں نکاح کو ختم کرنے کی صلاحیت ہے‘‘۔ اس سے زیادہ واضح الفاظ میں اللہ تعالی نے عورت کی طرف پکے معاہدے نکاح کے میثاق غلیظ کی نسبت کردی ہے۔ فرمایا کہ ’’ اگر تم میں کوئی کسی ایک عورت کے بدلے دوسری سے نکاح کرنا چاہتا ہے اورکسی ایک کو چھوڑ نا چاہتا ہے تو اس کو اگربہت سارا مال بھی دیا ہو تو اس میں سے کچھ بھی واپس لینا جائز نہیں،ان کو محروم کرنے کیلئے بہتان مت باندھو۔ کیا تم بہتان باندھوگے؟ حالانکہ وہ تم ایکدوسرے سے بہت قربت حاصل کرچکے ہو اور بیشک انہوں نے تم سے میثاق غلیظ (بہت پکا مقدس عہد) لیا ہے ‘‘۔(النساء آیت 20اور21) اسکا یہ مطلب نہیں بن سکتا کہ عورت ہی نے مضبوط عہد لیاہے اور وہی اس کی مالک بھی ہیں۔ جب ہاتھ لگانے سے پہلے نصف حق مہر ہے تو ہاتھ لگانے کے بعد پورے حق مہر کیلئے مزید کیا وضاحت کی ضرورت باقی رہتی ہے؟۔ مفتی تقی عثمانی نے اپنے ’’ آسان ترجمۂ قرآن ‘‘ میں پہلی مرتبہ تفسیر کے علاوہ ترجمہ میں بھی تحریف کردی ۔ لکھ دیا کہ ’’ حق مہر مراد ہے‘‘۔ حالانکہ سورۂ بقرہ اور سورۂ النساء میں حق مہر کے علاو ہ دی ہوئی چیزیں مراد ہیں۔ مفتی تقی عثمانی کو اللہ نے نئی زندگی دی اور کھل کر اپنی غلطی کے اعتراف سے مخلوق خدا کو بڑا فائدہ پہنچے گا۔
سورۂ بقرہ کی آیات222سے 232تک سارا زور عورت کی اذیت اور اسکے حقوق کے تحفظ پر ہے لیکن علماء نے مقصد اور نصب العین کو ہی مدِ نظر نہ رکھا تو آیات کی تفسیر پر فقہی اختلافات کا بہت بڑاپردہ ڈال دیا۔ آیت222البقرہ میں عورت کی دو چیزوں اذیت اور طہارت کا ذکر ہے اور اذیت کے مقابلے میں توبہ اور ناپاکی کے مقابلے میں طہارت والوں کا ذکر ہے لیکن علماء وفقہاء نے اذیت کو نظر انداز کرکے گند مراد لیا۔ یہ خواتین کی حق تلفی کا پہلامرحلہ ہے۔ پھر اللہ نے فرمایا کہ ’’ تمہاری عورتیں تمہارا اثاثہ ہیں ، جہاں یا جیسے چاہو انکے پاس آؤ‘‘۔ آیت223۔اثاثہ کی جگہ ترجمہ ومفہوم کھیتی کردیا ، جسکے جانوروں سے بھی کم حقوق ہیں ۔ اس طرح پہلی آیت میں اذیت کا غلط ترجمہ کیا تو اس آیت میں عورت کیساتھ لواطت پر بیہودہ فقہی اختلافات کا راستہ اپنالیا۔ صحابہ کرام ؓ اور ائمہ عظام ؒ تک اس پر حلال وحرام اور کفرو اسلام کے اختلافات نقل کردئیے ہیں۔ آیت:224میں اَیمان(عہدوپیمان) سے مرادلاتعلقی ، طلاق اورصلح کیلئے ہرطرح کی رکاوٹ ہے اور کسی بھی ایسی صورت کی نفی ہے کہ میاں بیوی یا کسی بھی افراد کے درمیان صلح نہ کرنے کیلئے اللہ کو ڈھال کے طور پر استعمال کیا جائے۔ ’’ اللہ تمہیں لایعنی عہدوپیمان سے نہیں پکڑتامگر جو تمہارے دلوں نے کمایا‘‘۔آیت225 اس میں طلاق صریح وکنایہ کے تمام لغو الفاظ شامل ہیں۔ اللہ نہیں پکڑتا مگر بیوی پکڑسکتی ہے،اسلئے کہ اسکے حق کا معاملہ ہے۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ ’’ تین چیزوں کی سنجیدگی اور مذاق معتبر ہے۔ طلاق، رجوع اور عتاق‘‘۔ اصولِ فقہ میں اس آیت پر حنفی شافعی اختلاف بالکل غلط ہے۔ یمین کا لفظ عام ہے۔ عہدو پیمان اور حلف سب شامل ہے۔ سورۂ مائدہ میں کفارہ کیلئے اذا حلفتم کی وضاحت ہے۔نکاح سے زیادہ بڑا عہدوپیمان کیا ہے؟۔ مگر اس کو توڑنے پر کفارہ نہیں ۔ کفارہ صرف حلف کی صورت میں ہوتا ہے۔ آیت: 226میں ایلاء بیوی سے ناراضگی کا ذکر ہے جس میں طلاق کا کھلے لفظوں میں اظہارنہ کیا جائے تواس صورت میں طلاق کے اظہار سے ایک عدت ایک ماہ زیادہ ’’چار مہینے‘‘ ہے۔ اس مدت میں دونوں کو خوشی سے صلح کی وضاحت ہے اور آیت:227میں واضح ہے کہ ’’ اگر طلاق کا عزم تھا تو سنتا اور جانتا ہے‘‘۔ یعنی طلاق کا عزم دل کاگناہ ہے جس سے عورت کی عدت میں ایک ماہ کا اضافہ ہوگا اور اس پر اللہ کی پکڑ ہے۔ آیات میں معاملہ بہت واضح ہے لیکن حنفی مسلک میں چار ماہ بعد طلاق ہوگی اور جمہور کے نزدیک چار ماہ بعد بھی نکاح قائم رہے گا۔ اس بھیانک اختلاف کی واحد وجہ یہ ہے کہ عورت کا حق جو قرآن کا بنیادی مقصد ہے ان ظالم فقہاء نے بالکل نظر انداز کردیا۔ چنانچہ ایک طبقہ سمجھتا ہے کہ شوہر نے اپنا حق استعمال کرلیا اور دوسرا سمجھتا ہے کہ شوہر نے پھر بھی اپنا حق استعمال نہیں کیا۔ حالانکہ اللہ نے عورت کا حق محفوظ کیا تھا کہ طلاق کے اظہار کے بعد تین طہروحیض یا تین ماہ کی عدت ہے اور طلاق کا اظہار نہ ہو تو چار ماہ کی عدت ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ ’’ عدت میں اصلاح کی شرط پر شوہروں کو رجوع کا حق ہے‘‘۔( آیت:228البقرہ ) تو صحابہ ؓ اور صحابیات ؓ اتنے پاگل تو نہیں تھے کہ صلح کیلئے وہ کسی عدالت، حکمران اور مفتی سے رجوع کرلیتے؟۔ جبکہ اللہ نے یہ واضح کردیا تھا کہ ’’ اگر تمہیں ان دونوں کے درمیان جدائی کا خدشہ ہو تو ایک حکم فیصلہ کرنیوالا شوہر کے خاندان اور ایک حکم بیوی کے خاندان سے تشکیل دو، اگر دونوں اصلاح چاہتے ہوں تو اللہ ان میں موافقت پیدا کردیگا‘‘۔ (النساء آیت:35) جس سے یہ واضح پتہ چلتا ہے کہ طلاق کے بعد صلح کیلئے عدت میں کسی سے فیصلہ اور فتویٰ لینے کی ضرورت نہیں اور میاں بیوی آپس میں صلح کریں ۔ صلاحیت سے محروم ہوں تو ایک ایک رشتہ دار تشکیل دیدیں لیکن عدالت سے فیصلہ اور مفتی سے فتویٰ لینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اتنے خاندان اسلئے تباہ اور اتنی عزتیں اسلئے لُٹ رہی ہیں کہ امت نے قرآن کو چھوڑ رکھا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے یہی شکایت قیامت کے دن کرنی ہے۔ وقال الرسول یارب ان قومی اتخذوا ہذا قراٰن مھجوراً ’’رسول کہیں گے کہ اے میرے ربّ! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا‘‘۔ امت میں عوام سے زیادہ ان خواص اور علماء ومشائخ کی پکڑ ہوگی جنہوں نے قرآنی تعلیمات کی طرف کوئی توجہ بھی نہیں دی اور وہ فقہی مسالک کے اختلافات اور فرقہ واریت کے مسائل میں الجھتے اور عوام کو الجھاتے رہے ۔ فقہ وتفسیر کی کتابوں میں تضادات و اختلافات کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صنفِ نازک کو تحفظ دیا ہے اور انہوں نے خواتین کے حقوق کو سلب کرنے پر ہی اپنا زور صرف کرڈالا ہے۔ مغرب نے خواتین کو مردوں کے برابر حقوق دئیے ہیں لیکن اسلام نے خواتین کو مردوں سے زیادہ حقوق دیدئیے ہیں۔ درجہ اسلئے نہیں دیا کہ عورتوں کے حقوق سلب کئے ہیں بلکہ درجہ کا احساس دلاکر خواتین کو زیادہ حقوق دئیے ہیں۔ درجہ یہ ہے کہ شوہر طلاق دیتا ہے اور عورت عدت تک انتظار کرتی ہے۔ یہ انتظار خواتین کے حق میں زیادہ فائدہ مند ہے۔ جب میاں بیوی جدا ہوتے ہیں تو عورت کو زیادہ نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے، اسلئے اللہ تعالیٰ نے مرد پر حق مہر کا فریضہ عائد کردیا ہے۔اگر دنیا کے سامنے یہ واضح ہوجائے کہ ’’ حق مہر دونوں کی باہمی رضا شوہر پر ضروری ہے‘‘۔ خلع کا حق عورت کو اور طلاق کا حق مرد کو حاصل ہے۔ اگر عورت خلع لے تو ایک حیض کے بعد اس کی عدت پوری ہوگی اور گھر سے اس کو نکلنا ہوگا۔دی ہوئی غیرمنقولہ جائیداد، گھر ، باغ اور دکان وغیرہ سے ہاتھ دھونے پڑیں گے۔ اگر شوہر طلاق دے تو منقولہ وغیر منقولہ تمام دی ہوئی جائیداد چاہے خزانے دیدئیے ہوں سب سے شوہر کو ہاتھ دھونا پڑینگے۔ سورہ البقرہ: 229،سورۂ النساء: 20اور سورۂ طلاق آیت:1میں گھر کی نسبت عورت کی طرف کی گئی ہے مگر فحاشی کی صورت میں عورت گھر سے نکل بھی سکتی ہے اور اس کونکالا بھی جاسکتا ہے۔ اگر عورت کا شوہر فوت ہوجائے اور عورت کا اپنا کوئی گھر نہ ہو تو مکمل ایک سال تک شوہر کے عزیز واقارب پر عورت کی ذمہ داری پڑتی ہے۔ اسلام کے یہ قوانین قرآن کی واضح آیات میں موجود ہیں۔ مغرب اور ترقی یافتہ ممالک میں جو قوانین ہیں وہ برابری کے نام پر انسانی فطرت اور انصاف کے منافی ہیں۔ عورت امیر ہو تو طلاق کے بعد اس کو اپنی آدھی جائیداد شوہر کو دینی پڑتی ہے اور مرد امیر ہو تو عورت نے جدائی کا فیصلہ کیا ہو تب بھی شوہرکو آدھی جائیداد دینی پڑتی ہے۔ سویڈن میں اشرف میمن کے ایک دوست نے ایک رات مہمان نوازی کی تھی اور اس نے اپنی بیگم کو طلاق دی تھی لیکن اپنے گھر تقسیم کرنے کے بجائے بیوی کو گفٹ کردیا تھا۔ عمران خان نے جمائماخان کو طلاق دی تو اس کی جائیداد میں حصہ سے انکار کردیا تھا۔ وہاں کے جج نے عمران خان کے اس اقدام کو سراہا تھا۔ مغرب کا یہ قانون غیرفطری اور غلط ہے اور اس قانون سے خوف کھاتے ہوئے بہت لوگ شادی نہیں کرتے بلکہ گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ کے چکر میں رہتے ہیں۔ اگر قرآن کے فطری اور منصفانہ قوانین کا پتہ چلاتو پوری دنیا میں اسلام کا معاشرتی نظام رائج کیاجائیگا۔ قرآن نے طلاق کا بڑی وضاحت کیساتھ ذکر کیا۔ اگر میاں بیوی مرحلہ وار تین مرتبہ طلاق کے نتیجے پر پہنچے کہ آئندہ رابطے کی کوئی صورت نہ رکھی جائے۔ جرگہ بھی یہی سمجھتا ہو تو مسئلہ یہ نہیں کہ رجوع ہوسکتاہے یا نہیں؟۔ بلکہ طلاق کے بعد شوہر عورت کو دوسرے شوہر سے مرضی کے مطابق نکاح نہیں کرنے دیتا۔ عورت تو ایسی کمزور چیز ہے کہ کسی مرد کی منگیتر بن جائے تو منگنی ٹوٹنے پر بھی مرد کو غیرت آتی ہے کہ کسی اور سے شادی نہ ہو اور اگر وہ کسی اڑوس پڑوس ، دوست اور احباب کے ہاں نکاح کرتی ہے تو مرد پر یہ گراں گزرتا ہے۔ اسلئے اللہ تعالیٰ نے بہت واضح الفاظ میں عورت کا یہ مسئلہ حل کردیا کہ اس طلاق کے بعد دوسری جگہ اپنی مرضی سے نکاح کرنے کے بغیر پہلے شوہر کیلئے حلال نہیں ہونے کی وضاحت کردی۔ رسول اللہ ﷺ نے عنقریب دین کے اجنبی ہونے کی خبردی تومسئلہ طلاق اجنبیت کا شکار ہوا۔ حضرت عمر ؓ، صحابہ کرام ؓ ، ائمہ مجتہدین ؒ اور سلف سالحین ؓ نے قرآن کی اس روح کو سمجھ کر عورت کی جان خلاصی پر زور دیا اور مختلف صورتوں پر یہ حکم لگادیا کہ عورت پہلے شوہر کیلئے حلال نہیں جب تک کہ کسی اور سے نکاح نہ کرے۔ یہانتک کہ اکٹھی تین طلاق پر اور لفظ حرام پر بھی یہی حکم لگادیا۔ مسئلہ عورت کی جان خلاصی تھا۔ بعد والوں نے باہمی رضا سے رجوع ناجائز قرار دیا اور حلالہ کی لعنت کیلئے حیلے تراشنے اور مواقع تلاش کرنے کے درپے ہوگئے یہانتک کہ 950ھ اور980ھ میں وفات پانے والے علامہ بدرالدین عینی حنفی و علامہ ابن ہمام حنفی نے ثواب کی نیت سے حلالہ کی لعنت کو باعثِ ثواب بھی قرار دیا۔ اگر یہ لوگ قرآن کو دیکھتے تو ڈھیر ساری آیات میں بغیرحلالہ رجوع کے واضح احکام مل جاتے۔ زیادہ سے زیادہ اخلاف نالائقین سے یہ حسنِ ظن رکھنے کی گنجائش ہے کہ وہ حلالے کیلئے حیلے بہانے نہیں بلکہ اپنی نالائقی کے سبب قرآن سے واضح احکام تلاش کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے تھے۔ علامہ انورشاہ کشمیری ؒ نے آخر یہ اعتراف کرلیا کہ ’’ ساری زندگی قرآن وسنت کی خدمت نہیں کی بلکہ فقہ کی وکالت میں ضائع کردی‘‘۔ اللہ کے رسولﷺسے دیوبندی، بریلوی ، شیعہ اور اہلحدیث کو محبت ہے تو قیامت کے دن شکایت سے بچنے کیلئے قرآن کی طرف آئیں۔ وقال الرسول یاربّ ان قومی اتخذوا ہذالقراٰن مھجوراً ’’اور رسول(ﷺ قیامت کے دن) کہیں گے اے میرے ربّ ! بیشک میری قوم نے ا س قرآن کو چھوڑ رکھا تھا‘‘
قرآن وسنت کے منشور سے امت مسلمہ بالکل بہرہ مند نہیں ۔ سودی نظام کو پہلے آئین پاکستان میں بھی تحفظ حاصل تھا اور پھردیوبندی شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی وبریلوی مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن نے حیلے سے بھاری معاوضے لیکراسلامی مدارس کے ذریعے بھی سودی نظام کو جواز بخشنا شروع کردیا ۔ رسولﷺ نے زمین کی مزارعت کو بھی سود قرار دیا تھا۔ علماء ومفتیان اور شیوخ الاسلام ومفتیانِ اعظم کے حربے کوئی نئے نہیں بہت پرانے ہیں جن سے وہ اپنا اُلو سیدھا کرکے اسلام کو اجنبیت کا شکار بناتے چلے گئے ہیں۔ مفتی تقی عثمانی نے کراچی میں شادی بیاہ کی رسم میں لفافہ کو سود اور اسکے 70سے زیادہ گناہوں میں سے کم ازکم گناہ کو اپنی ماں سے زنا کے برابر قرار دیا۔ ان لوگوں کو حلالہ کی لعنت سمجھانے پر کوئی فرق نہیں پڑتا ہے اسلئے کہ انکے مصنوعی تقوے کا عالم انتہائی درجہ کے بھیانک تضادات ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ سے فرمایاتھا کہ فلاتمنن فتکثر ’’اسلئے احسان نہ کرنا کہ زیادہ بڑا بدلہ ملے گا‘‘۔ جس کا واضح مطلب یہ تھا کہ انقلابی قوم کی خیرخواہی کا احسان کرتے ہیں تو انکے بدلنے کی اُمید بھی رکھتے ہیں۔ نبیﷺ کو بھی احسان کے بدلے اچھے کی اُمید تھی۔ اللہ تعالیٰ نے قوم سے یہ اُمید رکھنے کی توقع سے منع فرمادیا۔ جس طرح آج ہم قوم کو حلالہ سے بچانے کی بات کرکے اچھے کی امید رکھتے ہیں لیکن ڈھیٹ علماء ومفتیان کی ڈھٹائی کا عالم ہم نہیں سمجھتے ہیں۔ اگر علامہ خادم حسین رضوی کو پتہ چل جائے کہ مفتی تقی عثمانی نے اس آیت کی بنیاد پر رسول اللہ ﷺ کی ذات پر سود کا گھناؤنا الزام لگادیا ہے تو بھی حکومت کی پشت پناہی سے ڈر کر عشق رسول ﷺ کا ثبوت نہیں دینگے۔ 1: نبیﷺ نے کسی خوف یا لالچ میں صلح حدیبیہ کادس سالہ معاہدہ نہیں کیا تھا بلکہ یہی دین ،ایمان ، اسلام کا تقاضہ تھا۔ منافق جہنم کے نچلے حصہ میں ہوگا۔ اگر کوئی منافق اسلام چھوڑ کر مکہ چلا جاتا تو مسلمانوں کا فائدہ بھی اسی میں تھا۔ وہ منافق بھی نچلے درجے سے نکل کر جہنم میں اوپر آجاتا۔ اگر مسلمان مشرکوں کو واپس کیا جاتا تویہ اسلام اور مسلمانوں کے مفاد میں تھا۔ یہ تبلیغ کا زبردست ذریعہ تھا۔ اگر کسی کو کلمۂ کفر پر مجبور کردیا جائے تو قرآن میں اس پر گرفت نہ ہونے کی وضاحت ہے۔ آج عیسائی طاقت کے باوجود جاہل مسلمانوں سے یہی رویہ رکھتے ہیں کہ اگر مسلمانوں کو عیسائی نہ بننے دیا جائے اور عیسائیوں کو مسلمان بننے دیا جائے تو مسئلہ نہیں۔ 2:اگر مشرکینِ مکہ حدیبیہ کا معاہدہ نہ توڑتے تو مسلمان اس کو دس سال حضرت عمر ؓ کے دور تک قائم رکھتے اور شاید مزید توسیع بھی کردیتے۔ فتح مکہ پراچھائی یہ ہوئی کہ رسول اللہ ﷺ نے دشمنوں سے اچھا سلوک کیا اور برا یہ ہوا کہ حضرت خالد بن ولید ؓ نے بعض لوگوں کو قتل کیا ،جس سے نبیﷺ نے برأت کا علان فرمایا۔ جولوگ فتح مکہ کے بعد بھیڑ چال میں مسلمان ہوگئے تو نبیﷺ کے وصال کے بعد گاؤں کے گاؤں مرتد بھی بن گئے اور حضرت ابوبکر ؓ نے مشکل سے ان پر قابو پایا۔ حضرت خالد بن ولید ؓ نے مالک بن نویرہ کو قتل کرکے اسکی بیگم سے عدت میں شادی بھی رچالی، حضرت عمر ؓ نے سنگسار کرنے کا مشورہ دیا لیکن حضرت ابوبکر ؓ نے تنبیہ کردی۔ یہی وجہ تھی کہ خلافت راشدہ کے دور میں حضرت عثمان ؓ اور پھر حضرت علی ؓ شہید ہوگئے ، حضرت حسن ؓ کو دستبردار ہونا پڑا۔ سانحہ کربلا برپا ہوگیا۔ خلافت بنوامیہ ، بنوعباس اور پھر ترکی خاندان کی لونڈی بن کے رہ گئی تھی۔ 3: مشرکین مکہ سے مسلمانوں کی قرابتداریاں تھیں اسلئے ان سے نکاح کو واضح الفاظ میں منع کیا گیا،جنکے مقابلے میں غلام مرد سے مسلمان عورت اور لونڈی سے مسلمان مرد کو زیادہ قابل ترجیح قرار دیا ۔ نسل سے کردار کو ترجیح دی گئی۔ یہ مذہبی مسئلہ نہیں تھا بلکہ انسان کے اعلیٰ اخلاقی کردار کی بات تھی۔ مشرک تو عیسائی بھی تھے جو تین خداؤں کا عقیدہ رکھتے تھے۔ حضرت عیسیٰ ؑ کے بارے میں انتہائی گستاخانہ عقیدہ رکھنے والے یہود بھی کافر تھے لیکن ان کی خواتین سے نکاح کی کھلی اجازت دی گئی۔ حضرت علی ؓ کی بہن حضرت ام ہانی ؓ پہلے اسلام کو قبول کرچکی تھیں لیکن ہجرت نہیں کی اور فتح مکہ تک مشرک شوہر کیساتھ رہی۔ نبیﷺ نے اسکے کہنے پر اسکے شوہر کو پناہ بھی دی اور کسی نے اس تعلق پرحرامکاری کا فتویٰ بھی نہیں لگایا تھا۔ علماء ومفتیان کو سمجھانا پڑیگا۔ 4: نکاح کیلئے عورت کا راضی ہونا ایک بنیادی حق ہے۔ کوئی باپ بیٹی کا نکاح اسکی مرضی کے بغیر کردے تو یہ نکاح منعقد نہیں ہوا۔صحیح بخاری کا یہ عنوان ہے۔ اگر معاشرے کو مذہبی تبلیغ کے ذریعے پابند کیاجاتا تو کوئی بچی گھر سے بھاگ کر شادی نہ کرتی۔ جب معاشرے میں بڑی سطح پر اس کی خلاف ورزی ہورہی ہے تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لڑکیاں بھاگ کر شادیاں کرتی ہیں۔ نبیﷺ نے اس نکاح کو باطل قرار دیا جو ولی کی اجازت کے بغیر ہو۔ نکاح کیلئے دو صالح گواہ ضروری قرار دئیے اور دف بجاکر نکاح کے اعلان کا حکم دیا لیکن علماء ومفتیان نے قرآن وسنت کو نظر انداز کرتے ہوئے غیرفطری معاملات کو مذہب کے نام سے جائز قرار دیا۔ سسرالی رشتہ دار وں کا اللہ نے بطور احسان نسبی رشتہ داروں کی طرح ذکر کیا مگر دشمنی مول لینے کا تماشہ لگایاجاتا ہے۔ 5:جب دنیا میں لونڈیوں اور عباد( غلاموں )کی رسم تھی تو اللہ تعالیٰ نے بیوہ وطلاق شدہ کے علاوہ لونڈی اور غلاموں کا نکاح کرانے کا بھی حکم دیدیا۔ جس طرح آزاد مشرک سے غلام اور آزاد مشرکہ لونڈی سے نکاح کو ترجیح قرار دیا،اسی طرح آزاد عورت سے غلام کے نکاح کی صورت بھی بتادی۔ اسکے علاوہ اپنی جوان لڑکیوں کو بھی چھپ کربدکاری یا کھل کر بغاوت پر مجبور نہ کرنیکا حکم دیاجب وہ نکاح کرنا چاہتے ہوں۔ کیونکہ قرآن سے رہنمائی لینے کے بجائے فقہی مسالک کی وکالت پر لکھی جانے والی کتابیں مدارس کے نصاب میں موضوعِ بحث بن گئی اسلئے قرآن کی واضح آیات کے احکام بھی لوگوں سے اوجھل ہوتے چلے گئے۔ علماء کرام نے اگر جرأت سے کام لیا تو اللہ تعالیٰ ان کے رزق میں بھی برکت عطاء فرمائیگا۔ جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ سودی نظام کو جواز بخشنے والے مذہبی قوتوں نے اسلام اور غریب کا دامن چھوڑ کو خود کو بہت کمزور بنادیا۔ 6: میاں بیوی کا نکاح ہو تو اسلام نے صرف مردوں پر حق مہر کو فرض کیا ہے۔ جہیز کی رسم ایک لعنت ہے۔ حق مہر اتنا معقول ہونا چاہیے کہ مرد نکاح کو کھلواڑ بنانے سے دریغ کرنے پر مجبور ہو۔ مفت میں عورتیں ملتی ہی رہیں گی تو مرد بڑے مزے لے لے کر عورتوں سے کھلواڑ کرنے کے جرائم بھی کرتے رہیں گے۔ حق مہر لڑکی کا اپنا حق ہوتا ہے۔ پختون قوم کو حق مہر کھانے کی بے غیرتی سے نجات دلانی ہوگی اور پنجابیوں کو جہیزکی لعنت سے چھٹکارا دلانے کیلئے ہر ممکن کوشش کرنی ہوگی۔ پاکستان کی عوام میں خوبیاں زیادہ اور نقائص کم ہیں لیکن وہ اپنے نقائص سے نجات حاصل کرنے کی کوشش نہ کرینگے تو اپنی خوبیوں کا بھی پھرپور فائدہ نہ اٹھاسکیں گے۔ 7: ہاتھ لگانے سے پہلے عورت کو طلاق دی جائے تو نصف حق مہر دینا ہوگا لیکن باہمی رضامندی سے کوئی معاف کرنا چاہے یا پورا دینا چاہے تو بھی آپس میں ایکدوسرے کیساتھ اچھائی کا سلوک نہ بھولیں۔عورت پر ایسی صورت میں کوئی عدت نہیں ۔ جس سے یہ بھی واضح پتہ چلتاہے کہ شوہر عدت کا حقدار ہوتا ہے۔ 3طلاق کی ملکیت کے تصور سے عورت کی حیثیت لونڈی سے بھی بدتر بن جاتی ہے۔ لونڈی کو مذاق میں کہا جائے کہ آزاد ہے تو وہ آزاد ہوجاتی ہے لیکن عورت کو طلاق دی جائے اور پھر اس سے کہا جائے کہ ایک دی ہے تو بھی اس کی جان نہیں چھوٹ سکتی ہے۔ دو مرتبہ طلاق کہنے سے بھی جان نہیں چھوٹ سکتی ہے۔ فقہ نے اس مسئلے کو اتنا پیچیدہ بنادیا ہے کہ اچھے اچھوں کا دماغ بھی گھوم جاتا ہے۔ طلاق سے رجوع کیلئے صلح کی شرط ہے اور یہی معروف رجوع ہے جس کا قرآن میں بار بارعدت کے اندر، عدت کی تکمیل پر اور عدت کی تکمیل کے بعد بڑی وضاحتوں کیساتھ سورہ بقرہ اور سورہ طلاق میں زبردست ذکر ہے۔ علماء ومفتیان ان وضاحتوں کے بجائے یا تو فقہ کی بھول بھلیوں میں بھٹکتے پھرتے ہیں یا حلالے کے چکر میں اپنی جنسی خواہش کی پیاس بجھادیتے ہیں۔ 8: عورت کو اللہ تعالیٰ نے خلع کا حق دیا ہے جس کا ذکر سورہ بقرہ کی آیت229میں نہیں بلکہ سورہ النساء کی آیت19میں ہے۔ خلع میں حق مہر کے علاوہ شوہر کیطرف سے دی گئی اشیاء زیورات، رقم اور گاڑی وغیرہ سب منقولہ چیزیں لیجانے کا بھی حق ہے۔ شوہر اسلئے نہیں روکے کہ بعض چیزوں سے وہ دستبردار ہوجائے ۔ البتہ فحاشی کی صورت میں بعض اشیاء سے محروم کرسکتا ہے لیکن اس کیلئے کھلی فحاشی میں مبتلاء ہونے کیلئے شوہر کی طرف سے عدالت کے سامنے لعان کے حکم پر عمل کرنا پڑیگا۔خلع میں عورت کی عدت صرف ایک حیض ہے۔ 9: شوہر کو طلاق کا حق ہے لیکن طلاق کے بعد حق مہر کے علاوہ تمام منقولہ اور غیرمنقولہ دی ہوئی جائیداد کو بھی واپس نہیں لے سکتا ہے اور حق تلفی کیلئے بہتان لگانا بھی بڑی بے غیرتی ہے۔ سورہ النساء آیت20,21 اگر دنیا میں قرآن کا قانون نافذ کیا جائے کہ مرد طلاق دیگا تو وہ عورت کو گھر سے بے دخل نہیں کرسکتا بلکہ اپنے لئے کوئی متبادل بندوبست کریگا تو پوری دنیا قرآن کے احکام کو من وعن نافذ کرنے میں دیر نہیں لگائے گی۔ 10:حضرت موسیٰ ؑ نے حضرت ہارون ؑ کو سراور داڑھی سے پکڑا کہ سامری کے گوسالہ پر قوم کوشرک سے منع کیوں نہ کیا؟، مسلمان بھائی فرقہ واریت پر ایکدوسرے سے دست وگریبان ہیں، حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ؒ نے بریلوی دیوبندی مکاتبِ فکر کو سر اور داڑھی کے بالوں سے باندھنے کی کوشش کی۔ حاجی عثمان ؒ کے مرید نے دل ودماغ سے سب کو باندھنے کا کارنامہ انجام دینا ہے۔ انشاء اللہ العزیز۔ سیدعتیق الرحمن گیلانی
قرآن نازل ہوا تو انسان غلامی کی زنجیروں میں جکڑا تھا۔ عباد غلاموں کو کہتے تھے۔ غلام و لونڈی نکاح کے حق سے محروم تھے۔ جس پر غلامی کا دھبہ ہوتا اسکے ساتھ مشرکینِ مکہ کے جاہل نکاح گوارا نہ کرتے تھے۔ لونڈی نکاح کے حق سے محروم تھی۔ بیوہ اور طلاق شدہ خواتین کو نکاح کیلئے ناپسندیدہ سمجھا جاتا تھا۔ بھارت کے ریٹائرڈ چیف جسٹس مرکنڈے نے اپنی تقریر میں سامعین سے کہا کہ ’’ تم جو اپنے آپ کو پڑھا لکھا سمجھتے ہو، میں تمہیں جاہل سمجھتا ہوں۔ آپ کی تعلیم بالکل برائے نام ہے۔ آج اگرتمہاری بیٹی کسی دلت(اچھوت) سے شادی کرنا چاہے تو تم اس کو فوراً قتل کر ڈالوگے اور پھر تم ایک انسان نہیں حیوان بن جاؤگے، تمہاری تعلیم دھری رہ جائے گی ، میں تمہیں پڑھا لکھا نہیں بلکہ جاہل ہی سمجھتا ہوں ، کوئی بھی پڑھا لکھا نہیں ۔ اپنا دعویٰ چھوڑ دو‘‘۔ قرآن اور نبی کریم ﷺنے جاہل عوام کو انسانیت کے مقام پر کھڑا کردیا۔ مسلمان قرآن کو ترک کرکے پھر حیوان سے بدتر بن گئے ۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے انسانوں کو جانور بلکہ ان سے بدتر قرار دیا۔ انگریز عدالتیں ظالم کے ظلم کو نہیں روک سکتی ہیں۔ ظلم کے خاتمہ کیلئے انسان کو حیوان کے درجے سے نکال کر انسان بنانے کی ضرورت ہے۔ انسان و حیوان میں بنیادی فرق ظلم ہے۔ ارشادِنبوی ﷺ ’’ خبردار ظلم نہ کرنا ، خبر دارنہ کرنا، خبردار ظلم نہ کرنا۔ مسلمانو! اللہ کی کتاب قرآن مجید کو مضبوط تھام لو۔ مسلمانو! تمہارا مال، تمہاری جانیں اور تمہاری عزتیں حرمت والی ہیں۔ کسی مسلمان کے مال میں سے کچھ لینا جائز نہیں، ہاں اگر وہ راضی ہو۔ مسلمانو! شیطان اس بات سے مایوس ہوچکا کہ نماز پڑھنے والے اس کی پرستش کریں لیکن وہ تمہارے اندر رخنہ اندازی کریگا‘‘۔ آخری خطبے کے الفاظ ،منکر اور معروف کے کچھ جملے1991ء میں ہم نے پاکستان کے چھوٹے بڑے شہروں میں لاؤڈ اسپیکر سے سنائے۔ وقت کیساتھ ساتھ ہمیں تحقیق سے پتہ چلا ،کہ تصویر ناجائز نہیں تو ہم نے کھلے دل کیساتھ اپنے اخبار اور کتابوں میں مؤقف بھی بدل دیا۔ آج اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مسلمانوں نے قرآن کو رسمی طور پر قبول کیا لیکن عملی طور پر نہ صرف عام مسلمانوں نے بلکہ مدارس کے نصاب اور مروجہ مسائل میں مذہبی طبقہ بھی قرآن سے بالکل بے خبر ہے، فرقہ وارانہ مسائل پر لڑنے والوں نے قرآن کی اس تعلیم کو ترک کردیا جو انسان کو حیوان کے درجے سے نکال کر درست مسلمان بناتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وانکحوا الایامیٰ منکم والصالحین من عبادکم وایمائکم ’’اور نکاح کراؤ، اپنی طلاق شدہ وبیوہ خواتین کا اوراپنے نیک غلاموں اور لونڈیوں کا‘‘۔ قرآن کا یہ اعجاز تھا کہ محروم طبقات کا نام لیکر ان کے نکاح کا اہتمام کرنے کاپورے معاشرے کو حکم دیا۔ ایک ہندو بیوہ یا طلاق شدہ خاتون مسلمان ہوجائے تو اسکے ساتھ شادی کرنے کیلئے ہم تیار نہیں ہوسکتے ہیں لیکن جوان بچیاں گھر سے بھاگ کر شادی کرلیں تو پھر یہ قربانی دینے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ سندھ کے اندر دوبہنوں کا اسلام قبول کرنا اور دو شادی شدہ افراد کا انکے ساتھ نکاح کرنا ایک تازہ مثال ہے۔ سندھ میں کتنی طلاق شدہ و بیوہ خواتین شادی کیلئے ترستی ہونگی۔ پاکستان ودنیا بھرمیں کتنی طلاق شدہ وبیوہ ماحول کو بگاڑ رہی ہونگی مگر انسے مسلمان شادی نہیں کرتے۔ سعودی عرب نے اس گھمبیر مسئلے کا حل مسیار نسبتاً زیادہ مدت تک متعہ کی اجازت سے نکال دیا۔ ایران میں متعہ کے نام پر خواتین کو لونڈیوں سے بھی بدتر بنادیا گیا۔ ہیرہ منڈی کی خواتین پھر بھی گناہ اور توبہ کے تصور سے کچھ نہ کچھ سدھرنے کی بھی اُمید رکھتی ہوں گی لیکن متعہ ومسیار کا تصور بظاہر مغرب کے گرل فرینڈز سے بدتر اور انسانیت کی تذلیل ہے ۔ دبئی میں فحاشی کے سرِ عام اڈے ہیں اور پاکستان کی حالت سب سے بدتر اسلئے ہے کہ ریاست کے اہلکار بھی دلائی میں نہ صرف شریک ہیں بلکہ شریفوں کو بھی کراچی کے ساحلِ سمندراور لاہور کے ہوٹلوں میں پھنسانے کے جھانسے استعمال کرتے ہیں۔ جہاں تک اسلام کا تعلق ہے تو اللہ تعالیٰ نے برائیوں کواچھائیوں سے ہی بدلنے کا ٹھیکہ خود بھی اٹھایا ہے ۔مسلمانوں اورانسانوں کو بھی بار بار یہ ترغیب دی ہے۔ قرآن وسنت میں نکاح اور ایگریمنٹ کا جائز تصور موجود ہے۔ اور اسلام نے دنیا کے ہرقوم ومذہب کے اندر انکے قانونی نکاح اور بدکاری کے تصور کو درست قرار دیا۔ ہندو جو نکاح کرتے ہیں ، اسلام میں وہ قابلِ قبول اور دنیا کے تمام مذہب کے قوانین اور تصورات درست ہیں۔ دورِ جاہلیت میں سوتیلی ماؤں سے بھی نکاح کیا جاتا تھا تو اللہ نے منع فرمایا اور واضح کیا کہ مگر جو پہلے ہوچکا ہے۔ آج ایران ، سعودی عرب اور مغربی ممالک میں جو نکاح اور ایگریمنٹ کا تصور ہے وہ بھی قابل قبول تو ہے لیکن بہتر کیا ہے؟۔ اس پر بحث اور مکالمے کی سخت ضرورت ہے۔ قرآن نے لونڈی بنانے کے طریقۂ کار کو آل فرعون کی کارکردگی قرار دیا ۔ ظاہر ہے کہ قرآن اس کی حمایت کررہا تھا، نہ ہی مسلمانوں کو آل فرعون کی راہ پر ڈال رہا تھا، تاہم مروجہ برائی کو قبول کرکے اس کو درست راہ پر ڈالنے کی بنیاد ڈالی۔ مولانا عبیداللہ سندھیؒ کا تعلق کانگریس سے تھا،وہ ایک نیشنلسٹ مسلمان تھے ۔ انکے دماغ میں غلام ولونڈی کے حوالے سے قرآن کا یہ نقشہ بیٹھ گیا تھا کہ ’’ غیرقوم کو لوگ اہمیت نہیں دیتے ۔پردیسی قوم سے تعلق رکھنے والی خواتین لونڈیاں تھیں۔ قرآن میں اپنی قوم کی زیادہ سے زیادہ چار اور غیرقوم سے لاتعداد لونڈیوں سے ایگریمنٹ کا تعلق واضح ہے‘‘۔ علامہ غلام رسول سعیدیؒ نے لکھ دیا کہ ’’ قرآن میں برائی کے بدلے برائی ہے، دنیا غلام و لونڈی بناتی تھی تو اسلام نے بھی اجازت دیدی اور اب جبکہ پوری دنیا اس بات پر متفق ہوچکی ہے کہ لونڈی اور غلام بنانا غیر قانونی ہے تو اسلام بھی کسی کو اب لونڈی وغلام بنانے کی اجازت نہیں دیتا ‘‘۔ اگر ایک ہندو اپنی قوم کے دلت اچھوت کو نچلے درجے کا انسان سمجھتا ہے۔ سفید فام گورے کالے انسانوں کو قانونی طور پر نہیں لیکن حیوانیت کے جذبے سے غلام سمجھتے ہیں اور ہمارے سیاستدان، علماء ، فوجی افسران ، بیوروکریٹ ، جاگیردار اور سرمایہ دار غریبوں و خواتین کو اچھوت ولونڈی کا درجہ دیتے ہیں تو قرآنی قوانین اور اخلاقیات سے ہم نے کچھ بھی نہیں سیکھا ہے۔ اسلام نے اللہ کے سواء غیروں کی بندگی کا تصور لاالہ الا اللہ کی بنیاد پر ختم کر دیا۔ البتہ عوام کے دل ودماغ کا لحاظ رکھتے ہوئے غلاموں کیلئے ’’عباد‘‘ کا لفظ استعمال کیا ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا کہ ’’ مؤمن عبد( غلام) مشرک سے بہتر ہے ،اگر چہ تمہیں اچھا لگے اور مؤمنہ لونڈی مشرکہ سے بہتر ہے اگرچہ وہ تمہیں بہتر لگے‘‘۔قرآن مجیدمیں رسول اللہﷺ کا خلق عظیم انسانیت کیلئے اعلیٰ نمونہ قرار دیا گیا لیکن ہم قرآن وسنت کے بنیادی قوانین سے بھی بالکل عاری ہوچکے ہیں۔مینار پاکستان میں تمامِ مکاتب کے علماء کرام ، دانشور اور عوام کو مشترکہ دعوت ہے۔ حقائق کے چند نمونے ماہنامہ نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ اپریل 2019، صفحہ نمبر2اور4پر دیکھ لیجئے گا۔