پوسٹ تلاش کریں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے

جمعیت علماء اسلام ایک مذہبی سیاسی جماعت ہے ، مذہبی کاز کیلئے اقدامات اٹھانے میں ہی اس کی مقبولیت ہے

حضرت ابوبکر نے مانعین زکوٰة کے خلاف اقدام اٹھایا تھا تو یہ اسلامی خلافت کا پہلا جبر تھا جس کا سامنا رسول اللہ ۖکی وفات کے بعد عوام نے کیا تھا۔ حضرت عمر نے آخری وقت اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ کاش ! ہم نبی ۖ سے تین چیزوں کا پوچھتے۔ ایک آپ کے بعد خلفاء کی فہرست۔ دوسری زکوٰة نہ دینے والوں کے خلاف قتال اور تیسری کلالہ کی میراث۔
اہل سنت کے چاروں امام متفق ہیں کہ مانعین زکوٰة کے خلاف قتال نہیں ہے۔ البتہ دیگر مسالک میں بے نمازی کے قتل کا حکم ہے اور انہوں نے زکوٰة کے مانعین کے خلاف قتال کو دلیل بنایا ہے۔ جس کی تردید حنفی مسلک والوں نے یہ کہہ کر کردی ہے کہ جب تمہارے ہاں حضرت ابوبکر کے فیصلے سے اتفاق نہیں ہے تو اس پر نماز کو کیسے قیاس کرسکتے ہو؟۔
مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع کی تفسیر معارف القرآن میں زکوٰة اور نماز پر قتال کا حکم جاری کیا گیا ہے جس کی تردید میں علامہ غلام رسول سعیدی نے ” تبیان القرآن” میں لکھا ہے اور اگر مولانا فضل الرحمن مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن و مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد تقی عثمانی کو بٹھاکر فیصلہ کریں تو اس کے زبردست نتائج نکل سکتے ہیں۔ داعش اور طالبان خود کش حملے اسلئے کرتے ہیں کہ غلط تفاسیر سے مغالطہ کھاتے ہیں۔
جب صحافیوں سے کہا جاتا ہے کہ افغانستان،پاکستان اور ایران میں الگ الگ شریعت کی گنجائش ہے تو لوگوں کویہ بات ہضم نہیں ہوتی ہے کہ پاکستان اور افغانستان کی شریعت میں کیا فرق ہے؟۔ کیا بندوق کے زور کی شریعت الگ اور جمہوریت کی شریعت الگ ہوسکتی ہے؟۔ نہیں بالکل نہیں ۔ہرگز نہیں۔
جنرل ضیاء الحق نے زکوٰة کا آردنینس نافذ کیا تھا جس کی مفتی محمود نے سخت مخالفت کی تھی۔ اگر بینک میں10لاکھ ہوں اور اس پر سال میں ایک لاکھ روپے بینک کی طرف سے سود مل جائے۔ اور بینک زکوٰة کے نام پر25ہزار روپے کاٹ لے ۔ جب اصل رقم10لاکھ بھی محفوظ ہوں اور75ہزار سود کے بھی مل جائیں تو زکوٰة کیسے ادا ہوگی؟۔ اسلئے مولانا فضل الرحمن کہا کرتے تھے کہ ”مدارس اس زکوٰة سے اجتناب کریں۔ یہ زکوٰة نہیں سود ہے اور شراب کی بوتل پر آب زم زم کا لیبل ہے”۔
جب پاکستانی قوم سے زکوٰة کا مسئلہ چھڑادیا گیا ہے تو پھر ہماری معیشت کیسے تباہ وبرباد نہیں ہوگی؟۔ کہاں حضرت ابوبکر کا مانعین زکوٰة کیخلاف قتال اور کہاں ہمارے ملک میں سودی نظام کے ذریعے زکوٰة کا بہت بڑا خاتمہ ؟۔ ذرا سوچو تو سہی!۔
مولانا سید محمد یوسف بنوری کے داماد مولانا طاسین نے جو مزارعت پر تحقیق کی ہے۔اس کی مولانا فضل الرحمن تائید کرچکے ہیں۔ اگر بھول گئے ہیں تو دوبارہ دیکھ لیں۔ اگر زمین کو جاگیردار طبقہ مزارعین کومفت میں دے تو ہماری معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی ہوسکتی ہے۔ جب محنت کش کسانوں میں حوصلہ پیدا ہوگا تو پاکستان کی ساری بنجر زمین کو خود آباد کردیں گے ۔ جس سے لکڑی ، اناج اور پھل کی پیدوار میں اچھا خاصا اضافہ ہوگا اور محنت کشوں کے ذہنی طور پر تندرست بچے سکول کی تعلیم حاصل کرنے کے قابل بن جائیں گے اور ملک کو چلانے کیلئے باصلاحیت طبقہ میسر آجائیگا۔ اندرون وبیرون ملک یہی طبقہ پاکستان کا نام روشن کرے گا۔ سودی گردشی قرضوں سے ملک وقوم کو چھٹکارا مل جائے گا۔ پاکستان کے اداروں سے بھی اسمگلر طبقے کا خاتمہ ہوجائے گا اور اچھے لوگ آجائیں گے۔
ہرشعبے اور میدان میں صحت مند اور توانا لوگوں کی آمد ممکن ہوسکے گی۔ رسول ۖ نے سود کی آیات نازل ہونے کے بعد مزارعت کو بھی سود قرار دے دیا اور اس پالیسی کی وجہ سے پھر وہ یثرب گاؤںدنیا کا ترقی یافتہ شہر ”مدینہ ” بن گیا۔ جہاں سے یہ انقلاب پھر پوری دنیا میں پھیل گیا تھا لیکن خلافت کی جگہ جب آمریت نے لے لی تو پھر دین کی ہر تعبیر کا بیڑا غرق کردیاگیا۔
آج جب سودی بینکاری کا نام اسلامی بینکاری رکھ دیا ہے تو پھر آخر غیر اسلامی کیا ہے؟۔ جب سود بھی اسلامی بن گیا؟۔ اسلامی بینکاری کانفرنس میں اسحاق ڈار نے خوب کہا تھا کہ جب تم عام سودی بینکاری سے اسلام کے نام پر2فیصد زیادہ سود لو گے تو کون اس کی طرف آئے گا؟۔ حالانکہ اسلام کے نام سے کالے دھن کو سفید کرنے کا طریقہ ایجاد کرلیا گیا ہے۔ جس میں ایک طرف سودی بینکاری کو مکمل تحفظ مل جاتا ہے اور دوسری طرف کالے دھن کا بھی کوئی حساب کتاب نہیں لے سکتا ہے۔
جب کوئی کالے دھن کی پراپرٹی اسلامی بینک کے نام پر منتقل کی جاتی ہے تو اس کا مالک بینک بن جاتا ہے اور پھر اس کو فرضی کرایا کی صورت میں سود کیساتھ ایڈ جسٹ کردیا جاتا ہے۔ اگر کوئی احتساب کا ادارہ تفتیش کرلے کہ یہ پراپرٹی کس کی ہے؟ تو وہ بینک کے نام ہوتی ہے اور اس کا محاسبہ نہیں ہوسکتا ہے اور جب کوئی شخص دیوالیہ ہوجائے تو پراپرٹی بینک کے نام ہوگی اور بینک کو نقصان بھی نہیں ہوگا۔ کراچی ائیر پورٹ سے لیکر کیا کیا پراپرٹیاں فرضی کرائے کی مدد میں ہم بیچ چکے ہیں؟۔ اگر کوئی بحران کھڑا ہوگیا تو سب کچھ اغیار کی تحویل میں دیا جائیگا۔
اسلام کے معاشرتی نظام کو بھی مذہبی طبقے نے بہت بگاڑا ہے اور اگر ایک ایک بات کو صحیح معنوں میں اجاگر کیا جائے تو پھر لوگوں میں اسلام کی سمجھ پیدا ہوگی اور مذہب سے بیزار طبقہ اسلام کی خدمت کرنے لگ جائے گا۔ جمعیت علماء اسلام کے پلیٹ فارم سے قرآن وسنت کی صحیح تعلیمات کا معاملہ پھیلے گا تو جمعیت والوں میں ایک زبردست انقلاب برپا ہوجائے گا۔
مولوی طبقے نے ہمیشہ اسلام کے نام پر اپنی اجارہ داری کا نفاذ قائم کیا ہے لیکن اب لوگ مذہب بیزار ہوگئے ہیں ۔ پہلے سے زیادہ آج علماء ومفتیان کی عزت وتوقیر میں اضافہ ہوسکتا ہے لیکن اس کے لئے ہٹ دھرمی نہیں اسلام کی اصل تعلیمات کو پیش کرنا ہوگا۔ مفتی منیر شاکر ایک باصلاحیت اور بہادر آدمی ہے اور ان کے ساتھ جمعیت علماء اسلام کی ایک ٹیم تشکیل دے کر پورے پختونخواہ ، بلوچستان اور افغانستان میں ایک تحریک شروع کردی جائے تو بہت جلد اس کے بہترین نتائج نکل سکتے ہیں۔ کامریڈ اور لامذہب طبقہ بھی اسلام کی حمایت میں بالکل پیش پیش ہوگا لیکن جب ہم سودی نظام کو اسلامی قرار دیں اور ماں بہنوں کی عزتیں حلالہ کی لعنت سے لٹوائیں اور توقع رکھیں کہ عوام ہمیں اقتدار کی دہلیز تک پہنچائے گی تو اس خام خیالی کا ادراک ہونا چاہیے کہ اگر دنیا میں اقتدار اور دولت مل بھی گئی مگر آخرت میں ہمارا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ اسلام کی درست تعلیم کا نتیجہ ہندوستان اور اسرائیل پر بھی مرتب ہوجائے گا۔ پورپ و امریکہ میں بھی اسلام کا ڈنکا بج جائے گا۔ مشرق ومغرب اور شمال وجنوب میں اسلام کی فطرتی تعلیم سے منزل مل سکتی ہے ۔
مولانا فضل الرحمن نے رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ میں جو تقریر فلسطین کے حق میں کی وہ بھی بہت اچھی بات ہے لیکن یہ سعودی عرب کے شاہ سلیمان کیلئے سپاس نامہ زیادہ تھا اور عالم اسلام کیلئے رابطے کی اس میں کوئی خاص بات نہیں تھی۔ جب ہم اسلام کے معاشی، معاشرتی اور سیاسی ڈھانچے کو پیش کریں گے تو عالم اسلام کے تمام حکمران اس کی طرف بن بلائے بھی توجہ دیں گے۔ اسلام کے اندر یہ کمال ہے کہ مردہ قوموں میں اس کے ذریعے زندگی کی روح دوڑانے کی صلاحیت اللہ نے رکھی ہے۔ امید کرسکتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن اس کیلئے اپنی اور اپنی جماعت کی خدمات پیش کریں گے۔ ان کی شخصیت کو حکومت،ریاست اور اپوزیشن میں قبولیت کا جودرجہ حاصل ہوا ہے اس موقع پر وہ دین کی درست خدمات انجام دے کر اپنی ذمہ داری پوری کرنے کا احساس کریں گے۔ انشاء اللہ العزیز

(نوٹ: اس پوسٹ کے ساتھ عنوان ”ہر استحکام کیلئے ایک انہدام ضروری ہوتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن ” کے تحت پوسٹ ضرور پڑھیں۔)

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ مارچ2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

 

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں

یا ایھا الذین امنوا لاتقربوا الصلوٰة وانتم سکریٰ حتی تعلموا ماتقولوں ولاجنباً الا عابری السبیل حتی تغتسلوا ”اے ایمان والو! نماز کے قریب مت جاؤ، جب تم نشے میں ہو، یہاں تک کہ تم سمجھو جو تم کہہ رہے ہو۔اور نہ حالت جنابت میں مگر کوئی مسافر یہاں تک کہ تم نہالو”(سورہ النساء آیت43)فرض پڑھنے اور نہ پڑھنے کی اس میں گنجائش ہے

النساء کی آیت43میں دو حالت میں نماز کے قریب نہیں جانے کا حکم دیا گیا ہے۔
نمبر1:جب بندہ نشے کی حالت میں ہو۔ نشے کی حالت ختم ہوجائے اور جب جو بول رہاہے وہ سمجھ میں بھی آرہا ہو۔
نمبر2:جب بندہ جنابت کی حالت میں ہومگر مسافر کیلئے اجازت ہویہاں تک کہ بندہ نہالے تو پھر نماز پڑھ سکتا ہے۔
مولانا ادریس نے کہا کہ جس طرح کی تروایح تم پڑھتے ہوجس میں تیز رفتاری سے اُوٹ پٹانگ کرتے ہو،اس کی وجہ سے تمہیں ثواب نہیں مل رہاہے بلکہ گناہگار بنتے ہو۔ انسان اللہ کے سامنے اس طرح نماز پڑھے جیسے بہت لوگوں کی عادت ہے تو مولانا ادریس کی بات کو کسی نے بھی برا نہیں سمجھا ہے۔
مفتی منیر شاکر کی باتوں کو ادھورا نقل کرکے کلپ بنایا ہے اور ان سے بعض لوگوں کو شدید اختلاف اور نفرت ہے اسلئے وہ ایسا کررہے ہیں لیکن بات پوری سنی اور سمجھی جائے تو اچھا ہوگا۔
مفتی منیر شاکر سے اختلاف کا حق ہے اس نے کہا کہ تراویح فرض واجب نہیں نفل ہیں تو اس پر طوفان کھڑا کیا گیا ۔
جہاں تک مفتی منیر شاکر کے مخالفین کا تعلق ہے تو ان کی حیثیت ایسی ہے جو شاہ ولی اللہ کے مخالفین کی تھی ایک طرف وہ ملاجیون کی کتاب” نورالانوار” میں پڑھتے اور پڑھاتے تھے کہ ”امام ابوحنیفہ کے نزدیک فارسی میں نماز پڑھنا عربی سے بہتر ہے اسلئے کہ عربی میں الفاظ کی سجاوٹ انسان اور خدا میں حجاب بنتا ہے ” اور دوسری طرف جب شاہ ولی اللہ نے قرآن کا فارسی میں ترجمہ کیا تو انہوں نے واجب القتل قرار دے دیا۔
مولانا مناظر احسن گیلانی اور بہت سے لوگ احادیث کی مخالفت کے بعد راہِ حق پر آئے ہیں ۔ مفتی منیر شاکر دلیر ہے جو بات سمجھ میں آتی ہے اس میں کسی کی ملامت کی پرواہ نہیں کرتا ۔ یہی بڑی خوبی ہے۔ مخالفین بات کو سمجھنے سے معذورلگتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب نشے کی حالت میں نماز کے قریب جانے سے منع کیا گیا یہاں تک کہ سمجھو جو کہہ رہے ہو۔ تو کیا لوگ نماز جو پڑھتے ہیں تو وہ نشے کے بغیر بھی سمجھ رہے ہیں یا نہیں؟۔ نماز تروایح تو بہت دور کی بات ہے فرض نماز پر مولانا ادریس کہتے کہ گناہگار ہوتے ہو تو بھی قابل فہم بات تھی۔
حضرت عمر نے سفر سے واپسی پر اللہ کے رسول ۖ سے عرض کیا کہ مجھے پانی نہیں مل رہاتھا اور تیمم سے میرا دل نہیں مانتا تھا اسلئے میں نے نماز پڑھنا چھوڑ دی تھی۔ نبی ۖ نے فرمایا: آپ نے بہت اچھا کیا کہ نماز نہیں پڑھی۔ حضرت عمر نے فرض نماز پڑھنا اسلئے چھوڑ دی کہ جنابت کی حالت سے اگرچہ نکلتے لیکن اللہ کے دربار میں حاضری کے بھی اپنے آداب ہیں۔ جو سمجھ لئے جائیں تو حضرت عمر پر کوئی اعتراض نہیں کرسکتا ہے۔
حضرت عمار نے سفر سے واپسی پر عرض کیا کہ یارسول اللہ میں نے جنابت کی وجہ سے تیمم کیلئے مٹی میں لوٹ پوٹ ہوکر نماز پڑھ لی تو نبیۖ نے فرمایا کہ بہت اچھا کیا لیکن پورے جسم کے لوٹ پوٹ ہونے کی ضرورت نہیں ہاتھ منہ کافی ہے۔
شیعہ حسن الہ یاری نے ان احادیث کی وجہ سے حضرت عمر پر کفر کا فتویٰ لگایا ہے کہ قرآن میں واضح تیمم کا حکم ہے اوروہ تیمم سے نماز نہیں پڑھتے تھے۔ حالانکہ قرآن میں تیمم سے نماز پڑھنے کا حکم نہیں بلکہ اجازت ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ” نماز کے قریب مت جاؤ”۔ پھر مسافر کو اجازت دی ہے ۔ عبداللہ بن مسعود اور ابوموسیٰ اشعری کے درمیان تیمم سے نماز پڑھنے اور چھوڑنے پر مناظرہ ہے۔ حالانکہ وہ فرض نماز کا مسئلہ تھا اور اب تراویح پر اتنا اودھم مچاکر جہالت کا ثبوت دیا جارہاہے۔
فقہ کی کتابوں میں مالابدمنہ، قدوری، کنز، شرح الوقایہ اور ہدایہ درس نظامی میں رائج ہیں۔ فقہاء کے7طبقات پہلا طبقہ مجتہد مطلق، دوسرا مجتہد فی المذہب، تیسرا مجتہد فی المسائل،چوتھا اصحاب التخریج ، پانچواں اصحاب الترجیح، چھٹا اصحاب التمیز اور ساتواں مقلد محض ”امام ابوحنیفہ اور باقی تین امام پہلے طبقے میں ہیں۔ دوسرے طبقے میں امام ابوحنیفہ کے تمام شاگرد امام ابویوسف، امام محمد، عبداللہ بن مبارک وغیرہ۔ تیسرے طبقے میں احمد خصاف،امام طحاوی،کرخی،شمس الائمہ حلوانی،سرخسی، بزدوی،قاضی خان۔
چوتھے طبقے میں کرخی،ابوبکرجصاص رازی، ۔ پانچویں طبقے میںامام قدوری ، صاحب ہدایہ ۔ چھٹے طبقے میںصاحب کنز الدقائق، صاحب وقایہ۔صاحب در مختار۔ساتواں طبقہ اندھوں میں کوئی ایک بھی کانا راجہ نہیں ہے۔ پہلے تین طبقات کو مجتہدین اور اسکے بعد کی تین طبقات کو مقلدین کہا جاتا ہے۔
امام ابوحنیفہکے شاگردوں میں امام ابویوسف اور عبداللہ بن مبارک میں جتنے اختلافات کی شدت تھی اس کے مقابلے میں مفتی منیر شاکر اور دوسرے علماء میں کچھ بھی نہیں ہے۔
قدوری میں نمازکی سنتیں ”نوافل” ہیں۔ تو تراویح نماز کا درجہ بھی نوافل کا ہے ۔ نوافل پر ثواب اور نہ پڑھنے پر پکڑ نہیں ۔ حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نوافل کے ذریعے بندہ میرے اتنے قریب بن جاتا ہے کہ میں اس کی آنکھیں بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتاہے، اس کی زبان بن جاتا ہوں جس سے وہ بولتا ہے ،اس کے کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے۔ اس کے پیر بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے”۔ اللہ نے فرمایا : اقم الصلوٰة لدلوق الشمس الی غسق اللیل وقرآن الفجر ان قران الفجر کان مشہوداو من اللیل فتھجد بہ نافلة لک عسٰی ان یبعثک مقاماً محموداً” اے نبی ! نماز قائم کر، سورج ڈھلنے سے رات کی تاریکی تک اور فجر کا قرآن ، بیشک فجر کے قرآن کی گواہی دی جاچکی ہے اور رات میں تمہارے لئے تہجد نفل ہے ہوسکتا ہے کہ آپ کو مقام محمود سے نوازا جائے ”۔
غزوہ بدر میں نبی ۖ نے پتھر کے کنکر ہاتھ سے پھینک دئیے ،اللہ نے فرمایا ”یہ آپ نے نہیں پھینکے بلکہ اللہ نے پھینکے ہیں”۔جب نبی ۖ نے صلح حدیبیہ سے پہلے حضرت عثمان کی شہادت پر بیعت لی تو اللہ نے فرمایا”اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر تھا”۔ شہادت عثمان کے بعد حضرت عائشہ نے جب قصاص کیلئے حضرت علی سے جنگ کی تو حضرت ابوبکرہ نے کہا کہ میرا دل تھا کہ حضرت عائشہ کے لشکر میں شامل ہوجاؤں مگر پھر مجھے حدیث یاد آگئی کہ جب ایران کے بادشاہ کے فوت ہونے پر اس کی بیٹی بادشاہ بن گئی کہ ”وہ قوم فلاح نہیں پاسکتی ہے جس کی قیادت عورت کررہی ہو” اسلئے ان کا ساتھ دینے سے رک گیا۔
جب حضرت عمر کے دور میں مغیرہ ابن شعبہ کے خلاف 4افراد گواہی کیلئے آئے تو ابوبکرہواحد صحابی تھے باقی3صحابہ نہ تھے۔ پہلے نے گواہی دی تو عمر پریشان ہوگئے، دوسرے نے گواہی دی تو عمر کی پریشانی حد سے بڑھ گئی ، تیسرے نے گواہی دی تو عمر کی پریشانی کی انتہاء نہ رہی۔ چوتھا زیاد گواہی کیلئے آیا تو عمر نے کہا کہ اللہ اس کے ذریعے نبی کے صحابی کو اس ذلت سے بچائے گا اور پھر زور کی دھاڑ ماری کہ تیرے پاس کیا ہے؟۔ یہ اتنی زور کی دھاڑ تھی کہ راوی نے کہا کہ قریب تھا کہ میں بیہوش ہوجاتا۔ پھر زیاد نے کہا کہ میں نے اور کچھ نہیں دیکھا، یہ دیکھا کہ عورت ام جمیل کے پاؤں مغیرہ کے کاندھوں پر گدھے کے کانوں کی طرح پڑے تھے ،ایک سرین نظر آرہی تھی،یہ ٹھندی ٹھندی سانس لے رہے تھے۔ جس پر حضرت عمر نے کہا کہ اب گواہی مکمل نہیں ہوئی۔3گواہ کو حد قذف80،80کوڑے لگادئیے۔ پھر پیشکش کی کہ جو گواہ یہ کہے گا کہ اس نے جھوٹی گواہی دی تو آئندہ اسکی گواہی قبول کی جائیگی۔ حضرت ابوبکرہ نے اس پیشکش کو ٹھکرادیا اور باقی دو نے کہا کہ ہم نے جھوٹ بولا تھا۔
اہل سنت کے جمہور فقہاء مالکی ، شافعی ، حنبلی کے نزدیک یہ حضرت عمر کی پیشکش تھی اسلئے درست تھی ۔ اگر کوئی جھوٹی گواہی کے بعد توبہ کرے گا تو اس کی آئندہ گواہی قبول کی جائے گی۔ حنفیوں کے نزدیک قرآن میں واضح ہے کہ جس نے جھوٹ کی گواہی دی تو اس کی گواہی کبھی قبول نہیں ہوگی اسلئے حضرت عمر کی یہ پیشکش قرآن کی واضح آیت کے خلاف تھی۔
قارئین ! سمجھ سکتے ہیں کہ واقعہ کیا ہے؟۔اور اس پر فقہاء کے اختلافات کیا ہیں؟۔ اصل بات تو یہی تھی کہ حضرت عمر کی پیشکش بالکل بے بنیاد تھی اور مغیرہ کو بچانے میں عجیب کردار ادا کیا۔ گواہوں پر حد قذف لگانا بھی بالکل درست نہیں تھا۔لیکن اس کی بنیاد پر فقہی مسائل کی تشکیل اس سے زیادہ بھونڈہ تھا۔
اصل مسئلہ یہ تھا کہ جب عمر کے دور میں خوشحالی کی ہوائیں چل گئیں تو لوگوں میں عیاشیوں کی کیفیت پیدا ہوگئی۔ ایک طرف حضرت عمر نے متعہ پر پابندی لگادی اور دوسری طرف یہ کہنا شروع کردیا کہ ”جس کے بارے میں پتہ چلے گا کہ اس نے بدکاری کی ہے تو اس کو سنگسار کردوں گا۔ اگر مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ لوگ کہیں گے کہ عمر نے قرآن میں اضافہ کیا تو میں یہ حکم قرآن میں درج کردیتا”۔ قرآن میں سنگساری کا حکم نہ تھا اور قرآن میں زانی مرد اور عورت کیلئے100،100کوڑے کی سزا تھی۔ احادیث گھڑی گئی ہیں کہ” سنگسار کرنے و بڑے آدمی کا دودھ پینے سے رضاعت ثابت ہوتی ہے اور ان آیات کو نبی ۖ کی وفات کے وقت بکری نے کھاکر ضائع کیا”۔
جب حضرت عمر پر امتحان پڑگیا تو اپنے بیٹے کو کوڑوں سے بھی مروا ڈالا۔ لیکن مغیرہ کیلئے زمین وآسمان کی قلابیں ملاکر اس کو بچایا۔ اچھا ہوا کہ جو حضرت عمر ایک غلط مشن کے علمبردار تھے کہ اس کے اپنے ہاتھوں سے اس کی تابوت میں آخری کیل بھی خود ٹھوک دی تھی۔ حضرت علی نے فرمایا تھا کہ ”اگر مجھے اقتدار مل گیا تو مسلمانوں کیلئے قرآن اور باقی مذاہب کیلئے ان کی اپنی کتابوں کے مطابق فیصلہ کروںگا”۔ اچھا ہوا کہ حضرت علی اس اقتدار تک نہیں پہنچ سکے اسلئے کہ قرآن میں اللہ نے نبیۖ کو حکم دیا ہے کہ ”اگر اہل کتاب قرآن کے مطابق فیصلہ کرانے پر راضی ہوں تو فیصلہ کردیں اوروہ اپنی کتاب کے مطابق فیصلہ کرانا چاہتے ہوں تو نہ کریں وہ آپ کو فتنہ میں ڈالیں گے”۔
ایک ریاست دو دستور نامنظور نامنظور کی بات غلط ہے ۔ پاکستان میں سپریم کورٹ بھی ہے اور شریعت کورٹ بھی ہے۔ اسلامی خلافت قائم ہوگی تو مسلمان کو بدکاری پر100کوڑے لگائیں جائیںگے اور یہود کو سنگسار نہیں کیا جائے گا بلکہ انکے حال پر چھوڑا جائے گا۔ البتہ ہماری کتاب ”قرآن” سے فیصلہ کرائیں گے تو100کوڑے لگائے جائیںگے۔ نبیۖ پر جب سورہ نور نازل نہیں ہوئی تھی تو یہود اور مسلمان دونوں پر وہ حکم جاری کیا جو تورات میں تھا ،جس طرح پہلے قبلہ القدس ہی کو بنایا تھا لیکن پھر قبلہ بھی تبدیل ہوا اور سورہ نور میں کوڑے کا حکم نازل ہوا تو کسی کو سنگسار یا جلاوطن کرنے کی سزا نہیں دی۔
قرآن میں بیوی کو قابل اعتراض حالت میں دیکھ کر قتل کا حکم نہیں بلکہ لعان کا حکم ہے۔ مسلمان غیرت سے اپنا فیصلہ اہل کتاب سے کرواسکتے تھے ۔اللہ نے فرمایا :”اے ایمان والو! اہل کتاب کو اپنے اولیاء مت بناؤ”۔ ولی سے مراد دوست نہیں بلکہ فیصلہ کرانے کیلئے اختیار سونپ دینا ہے۔ اہل کتاب سے نکاح ہوسکتا ہے تو اس سے بڑھ کر دوستی کیاہے؟۔
جب بنوامیہ، بنوعباس اور سلطنت عثمانیہ کی بادشاہت نے ڈیرے ڈال دئیے تھے تو مسلمانوں سے دین کی سمجھ چھن گئی۔ پھر فقہاء نے قرآن وسنت سے دوری کیلئے وہ کھلواڑ کیا جو مکڑی کے جالوں سے کمزور ہے لیکن کوئی ہمت نہیں رکھتا ہے۔
قرآن وسنت کا معاشرتی، معاشی اور سیاسی نظام بالکل ہی تباہ وبرباد کرکے رکھ دیاہے۔ لاکھوں کروڑوں حضرت خضر کی طرح اولیاء بن جائیں مگر انقلاب حضرت موسٰی نے لانا ہے۔ ریاست مدینہ معاشرتی اور معاشی نظام کی بنیاد پر ہی کامیاب ہوگئی تھی۔میثاق مدینہ میں مسلمانوں کیساتھ یہودونصاریٰ کے برابری کے حق تھے اور صلح حدیبیہ میں مشرکینِ مکہ کو بہت اضافی رعایت بھی دی گئی تھی۔ نبوت کے دعویدار ابن صائد کے خلاف کوئی اشتعال انگیزی نہیں کی گئی۔ منافقین کو جینے کا حق دیا گیا۔
ہمارا مذہبی طبقہ اسلام کے معاشرتی، معاشی، سیاسی نظام کو بالکل بھی نہیں سمجھتا ہے۔ تمام لوگ مفتی منیر شاکر کے ہمنوا ہوکر قرآن کے تراجم اور تفاسیر سے استفادہ کریں کوئی معمولی فرق بھی نہیں آئے گا۔ جب افغانستان پر امریکہ نے حملہ کیا تھا تو ہم نے کونسا تیر مارا؟۔ ڈھائی ہزار امریکی فوجی مرگئے ،زیادہ تر وہ بھی بیماری اور ناموافق آب وہوا سے اور4لاکھ افغانی شہید اور80ہزار پاکستانی موت کے گھاٹ اترگئے۔ پاکستان نے امریکہ کا ساتھ دیا اور عراق پر امریکہ نے حملہ کیا تو ایران نے امریکہ کا ساتھ دیا، حماس نے عسقلان پر حملہ کیا تو آج تک بھی غزہ کی پٹی اس کا خمیازہ بھگت رہی ہے۔ مصر، پاکستان، ایران، سعودی عرب اور اسلامی ممالک مل کر بھی حملہ کریںگے تو اس کا خمیازہ بھگت لیں گے۔ آج ہم فسلطین کیلئے روئیں گے تو کل دنیا عالم اسلام کیلئے احتجاج کرے گی لیکن جس طرح فلسطین کی مدد کوکوئی نہیں پہنچتا وہی حال ہمارا ہوگا ۔ جذبات سمجھ کیساتھ جوڑ نہیں کھاتے ہوں تو جہالت ہے۔جس دن ہمارا اپنا حال ٹھیک ہوگا اس دن دنیا میں خلافت کے قیام میں دیر نہیں لگے گی۔

(نوٹ: اس پوسٹ کے ساتھ عنوان ”پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟ ” کے تحت پوسٹ ضرور پڑھیں۔)

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ مارچ2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

 

پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟

پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟

یہ علم زوالِ علم وعرفاں کا شاخسانہ تھا کہ مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ نے ”نماز کی سنتوں کے بعد اجتماعی دعا کوبدعت قرار دیا”۔ جس پر دیوبندی ایکدوسرے پر فتوے لگانے شروع ہوگئے

غسل ، وضو اور نماز میں فرائض پر فقہی مسائل کے اختلافات قابل احترام تھے تو اسکے مقابلے میں سنت کے بعد اجتماعی دعا پر لڑنے سے زیادہ حماقت کا بازار گرم کرنا احمقوں کیلئے ممکن نہیں تھا

دیوبندی و بریلوی سے پہلے برصغیر پاک وہند میں شیخ احمد سرہندی المعروف مجددالف ثانی اورشیخ عبدالحق محدث دہلوی کے درمیان بھی اختلافات تھے۔ شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید نے جب شروع میں جوشِ علم کی کتابیں لکھ ڈالیں تو تقویة الایمان، بدعت کی حقیقت وغیرہ سے فضاء کو بہت گرم کردیا۔ شرک وبدعات کے خلاف قلم اٹھایا تو ایک نئی دنیا پیدا کرلی ۔ کچھ لوگوں نے ساتھ دیا اور کچھ ان کے مخالف بن گئے اور اس میں معتبر علماء کرام اور مشائخ عظام کے نام شامل تھے۔
سن1857کی جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھ دی گئی۔ مولانا قاسم نانوتویو مولانا رشیداحمد گنگوہی حاجی امداد اللہ مہاجر مکی سے بیعت تھے ۔شاہ اسماعیل شہید سے علماء دیوبند بڑی عقیدت رکھتے تھے۔ شاہ اسماعیل کی کتاب ”بدعت کی حقیقت ”کا اردو ترجمہ ہوا تو علامہ یوسف بنوری نے اس پر تائیدی تقریظ بھی لکھی ہے۔ شاہ اسماعیل شہید نے اپنی اس کتاب میں لکھ دیا ہے کہ ” تقلید چوتھی صدی ہجری کی بدعت ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ بہترین دور میراہے پھر جو لوگ اس سے ملے ہوئے ہیں اور پھر جو لوگ ان سے ملے ہوئے ہیں۔ پہلی صدی ہجری صحابہ ، دوسری تابعین اور تیسری تبع تابعین کی تھی۔ان تین ادوار میں جو مسائل بنائے گئے ان کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے اور اس کے بعد چوتھی صدی ہجری کے بعد بدعات ہیں۔تقلید کوبھی چوتھی صدی ہجری میں ہی ضروری قرار دیا گیا ہے”۔مولانا احمد رضا خان بریلوی نے اس بنیاد پر علماء دیوبند کے حرمین کے علماء سے فتویٰ حاصل کرلیا تھا اور اس کا نام ” حسام الحرمین ” یعنی حرمین کی تلوار رکھ دیا تھا۔
اس دور میں حجاز پر موجودہ وہابی حکومت نہیں تھی اور علامہ ابن تیمیہ اور عبدالوہاب نجدی سے حرمین اور حجاز کا مقتدر طبقہ بڑی نفرت کرتا تھا۔علامہ ابن تیمیہ نے اپنی کتاب ” تقلیدکے مسالک کو مستقل فرقے قرار دیا تھا ” اور شاہ اسماعیل شہید نے بھی ان سے استفادہ کیا تھا۔ مولانا خلیل احمد سہارنپوری عربی میں لکھ سکتے تھے اسلئے انہوں نے علماء دیوبند کی طرف سے اس کا جواب کتاب المہند علی المفند ”ہند کی تلوار جھوٹے پر” لکھی اور اس پرعلماء دیوبند کے اکابر نے دستخط بھی کردئیے۔
اس کتاب میں محمد بن عبدالوہاب نجدی کے عقائد سے بری ہونے کا کھل کر اعلان کیا گیا لیکن اس کے بعد موجودہ سعودی عرب کے وہابی حکمرانوں کا اقتدارسامنے آگیا، انہوں نے کئی لوگوں کو مشرک قرار دے کر قتل کیا ۔ مزارات بھی ہموار کردئیے اور ترکی حکومت خلافت عثمانیہ سے معاہدہ کیا کہ ان کی تعمیرات کو نہیں چھیڑا جائے گا۔ گنبد خضراء رسول اللہ ۖ کا روضہ بڑی مشکل سے بچ گیا جس کو محمد بن عبدالوہاب صنم اکبر کہتا تھا۔
عمران خان کو پاک پتن میںبابا فریدکے مزار کی راہداری سے زیادہ گنبد خضریٰ کے مکین ۖ سے عقیدت ومحبت ہے مگر اس کو معلوم تھا کہ اگر بابا فرید کی راہداری پر جبین نیاز جھکانے کا گنبد خضریٰ کے مکین ۖ کی راہدای کی طرح کی عقیدت کا مظاہرہ کیا تو چوتڑ پر بڑے سخت ڈنڈے پڑیں گے۔اسلئے وہاں اس طرح کی حرکت کرنے سے گریز کیا۔ نبی ۖ نے دعا بھی مانگی تھی کہ ” اے اللہ ! میری قبر کو سجدہ گاہ نہیں بنا”۔ مولانا شاہ احمد نورانی سے یونیورسٹی کی ایک لڑکی نے پوچھ لیا کہ قبر کو چومنا، اس پر جھکنا اور سجدہ کرنا جائز ہے؟۔ مولانا نورانی نے یہ جواب دیاکہ میں سمجھ رہا تھا کہ مجھ سے کوئی سیاسی سوال ہوگا لیکن چلو یہ بتا دیتا ہوں کہ ”قبر کو چومنا، اس پر جھکنا اور سجدہ کرنا سب حرام و ناجائز ہے ۔ قبر پر فاتحہ پڑھنے کے علاوہ کچھ بھی جائز نہیں ہے۔
شاہ ولی اللہ نے لکھا کہ ” اللہ نے صحابہ کرام سے وعدہ کیا تھا اور عربی میں جمع کا اطلاق کم ازکم تین افراد پر ہوتا ہے۔ حضرت ابوبکر ، عمر اور عثمان سے خلافت کا وعدہ پورا ہوا۔ حضرت علی کے دور میں خلافت منتظمہ نہیں بن سکی اسلئے کہ فتنے کا دورتھا، بدامنی عروج پر تھی اور خلافت میں امن کا وعدہ ہے۔ خیرالقرون کے تین ادوار میں پہلا دورنبی ۖ کا تھا۔دوسرا ابوبکرو عمر کا تھا اور تیسرادور حضرت عثمان کا تھا”۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے لکھ دیا کہ شاہ ولی اللہ سے مجھے اختلاف ہے۔نبی ۖ و ابوبکر کا پہلا دور تھا اسلئے حضرت ابوبکر نے کوئی تبدیلی نہیں لائی۔ دوسرا دور حضرت عمر کا تھا جس میں بہت سی تبدیلیاں اور طبقاتی تقسیم کی بنیاد پڑ گئی۔ تیسرا دور حضرت عثمان کا دور تھا جس میں خاندانی حکومت کی جڑیں پڑگئیں۔ جس کی وجہ سے خلافت راشدہ پھر بنوامیہ کی امارت میں تبدیل ہوگئی۔ تفصیل کا موقع نہیں ہے۔
مولانا رشیداحمد گنگوہی شیعہ پر کفر کا فتویٰ لگاتے تھے ، مولانا قاسم نانوتوی نے شیعہ پر کفر کا فتویٰ نہیں لگایا۔ بنوری ٹاؤن اور دیوبند کے کافی مدارس نے شیعہ پر کفر کا فتویٰ لگایا اور مفتی محمد تقی عثمانی کے جامعہ دارالعلوم کراچی نے اس فتوے کو مسترد کردیا۔
جن علماء ومفتیان نے بڑے پیمانے پر شیعہ کو قادیانیوں سے تین وجوہات کی بنیاد پربدترکافر قرار دیا ۔1:قرآن کی تحریف کا عقیدہ ۔2:صحابہ کرام خاص طور پر حضرت ابوبکر کی صحابیت کا انکار۔3:عقیدہ امامت کی وجہ سے ختم نبوت کے منکر ہیں۔
جب متحدہ مجلس عمل بن گئی تو بنوری ٹاؤن کراچی سے ہمارا ایک پڑوسی مفتی شاہ فیصل برکی تعلیم حاصل کررہاتھا اور اس نے استفتاء کا جواب دیا تھا کہ ” شیعہ سے سنی کا اتحاد جائز ہے”، جس پر میں لکھ دیا تھا کہ ” شیعہ نے اپنے عقائد سے توبہ کرلی یا پھر ان پر الزامات غلط تھے یا انکے باوجود کفر کا فتویٰ نہیں لگتا ہے؟”۔
مفتی شاہ فیصل برکی نے میرے گھر پر تشریف لاکر کہا تھا کہ ”پیر صاحب ! جب ہم شیعہ پر کفر کا فتویٰ لگاتے ہیں تو آپ ہمیں نہیں چھوڑتے اور اب اتحاد کا فتویٰ دیا ہے تو بھی مخالفت کررہے ہیں؟”۔ میں نے کہا کہ اسلام کو بازیچہ اطفال بنادیا ہے کہ جب چاہو کسی کو کافر قرار دو اور جب چاہو اس کو مسلمان مان لواور وہ بھی اپنے مفادات کیلئے ؟”۔ یہی بات ایک مرتبہ مولانا محمد خان شیرانی کی موجودگی میں مولانا عبدالواسع سے کہی تھی۔ مسائل کا حل افہام وتفہیم سے نکلے گا فتوؤں سے نہیں۔
مفتی محمد ولی درویش کہتے تھے کہ ”پنج پیریت گمراہی کی پہلی سیڑھی ہے۔ دوسری سیڑھی مودودیت ہے۔ تیسری سیڑھی غیر مقلدیت ہے اور چوتھی سیڑھی لادینیت ہے”۔ جو لوگ دیوبند سے پنج پیری ، مودودی،غیرمقلد اور پھر احادیث کے منکر بنتے ہیں تو بظاہر لگتا یہی ہے کہ مفتی منیر شاکر نے غلام احمدپرویز کا مطالعہ کیاہے۔ علامہ تمنا عمادی بہت ماہر عالم دین تھے۔ مشرقی پاکستان کے ریڈیو سے ”درس قرآن” دیتے تھے۔ انہوں نے مشہور کتاب ” الطلاق مرتان ” لکھی ہے۔ دیوبند ی مشہور مکتب ”المیزان” نے بھی اس کو حال ہی میں شائع کردیا ہے۔
علامہ تمناعمادی نے بھی حنفی اصولوں کے مطابق احادیث کا انکار کرتے ہوئے ان کو عجمی سازش قرار دیا تھا لیکن پرویز نے پڑھے لکھے طبقے میں بہت پذیرائی حاصل کرلی ہے۔ مفتی منیر شاکر نے مجھ سے پوچھا کہ ”الطلاق مرتان ”پڑھی ہے تو میں نے کہا کہ ہاں پڑھی ہے لیکن ان کا مؤقف درست نہیں ہے۔ احادیث کے انکار کی ضرورت نہیں تھی اور آیت229البقرہ میں ”خلع” مراد بھی نہیں ہوسکتا ہے۔ علامہ تمنا عمادی کا موقف غلطی پر مبنی ہے۔ انشاء اللہ آئندہ تفصیلی بات چیت کروں گا۔
ہمارے بچپن میں جب ایک پنج پیری عالم مولانا شادا جان نے نماز کی سنت کے بعد اجتماعی دعا کو بدعت قرار دیا تو مولوی محمد زمان نے اس پر کفر اور قادیانیت کے فتوے لگادئیے۔ جبکہ ہماری مسجد کا امام مولانا اشرف خان دارالعلوم دیوبند کا فاضل تھا اور مولانا محمد الیاس بانی تبلیغی جماعت سے بھی ان کی ملاقات ہوئی تھی۔ اس نے خاموشی اختیار کرلی تھی لیکن خود سنت کے بعد اجتماعی دعا کا اہتمام کرتے تھے۔ میرے والد نے علماء کو بلواکر فیصلہ کرایا تو انہوں نے دعوت کھاکر فیصلہ ” فارسی ” میں سنادیا۔ مولوی محمد زمان کے ہاں سے ڈھول کی تھاپ پر جیتنے کا اعلان ہوا تو مولانا شاداجان کے حامیوں نے جیت کا ڈھول بجایا۔
سہراب گوٹھ جنت گل کی مسجد میںمولانا عبدالرزاق ژوبی نے امامت شروع کی تو چند دن کیلئے مجھے فریضہ سونپ دیااسلئے کہ بلوچستان جانا تھا اور خدشہ تھا کہ کوئی مسجد پر قبضہ نہ کرلے۔ میں نے سنت کے بعد اجتماعی دعا کا بتایا کہ دیوبند سے کتاب لکھی گئی ہے کہ یہ بدعت ہے اور افغانی علماء دیوبندی ہیں لیکن ان میں حق کہنے کی جرأت نہیں ہے تو وہ بڑے حیران ہوگئے۔
پنج پیری اور مفتی منیر شاکر اصل دیوبندیت کے دعویدار ہیں لیکن جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں پہلے ان کا داخلہ ممنوع تھا۔ مفتی نظام الدین شامزئی شہید پنج پیری تھے اور مفتی محمددرویش کو مولانا نورالہدیٰ نے جامعہ میں داخل کرایا تھا اور وہ بھی اصل میں بڑے پنج پیری ہی تھے۔ غلام احمد پرویز اور منکرین حدیث نے جو اعتراضات احادیث پر کئے ہیں تو اس سے زیادہ قرآن پر بھی ہوسکتے ہیں۔ حضرت خضر کا بچے کو قتل کر نا، حضرت عیسیٰ کا مردوں کو زندہ کرنا، بیماروں کو دم شفاء دینا اورمٹی سے پرندہ بنانا اسمیں پھونک مارنے سے روح آجانا وغیرہ، شاہ ولی اللہنے لکھا کہ صوفیا مشاہدہ حق تک پہنچے مگر علم درست نہیں ۔ علماء کا علم صحیح ہے لیکن مشاہدہ حق تک نہیں پہنچے ہیں۔ دن میں ستارے ہیں لیکن نظر نہیں آتے ہیں۔علم اور مشاہدہ حق میں یہ فرق ہے۔

(نوٹ: اس پوسٹ کے بعد عنوان ”نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں ” کے تحت پوسٹ ضرور پڑھیں۔)

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ مارچ2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے

حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے

پاکستان ہے تو ہم سب ہیں۔ نوازشریف ،زرداری ، فائز عیسیٰ، جنرل قمر جاوید باجوہ اور تمام سیاستدان ، صحافی، جرنیل، جج اورسول بیوروکریٹ اپنے بیرون ملک کے اثاثوں کو قربان کردیں

پختونخواہ وبلوچستان سے اسمگلنگ کے بجائے سستی اشیاء اور گیس وپیٹرول کا فائدہ عوام تک براہ راست پہنچائیں تو لوگوں کو روزگار ملے گا اور کاروبارِحکومت بھی اچھی طرح سے چل جائیگا

سندھ حکومت دریائے سندھ ضلع و ڈویژن کی سطح پر مناسب بند تعمیر کرے جس میں سیلاب کے پانی کو بڑے پیمانے پرذخیرہ کرکے رکھا جاسکے۔ اس پر لوکل پن بجلی بنانے کا انتظام کرے تو سندھ جنت نظیر بن جائے گا۔ ہاریوں کو مفت میں زمینیں دینے سے سندھ پاکستان میں اس انقلاب کا سب سے بنیادی ذریعہ بن جائے گا جو پاکستان سے پوری دنیا میں پھیل جائے گا۔
بلوچستان مرکز سے فنڈز لینے کے بجائے ایرانی پیٹرول کا کاروبار اپنے ہاتھ میں رکھ لے۔ پورے ملک کو سستے پیٹرول کی سپلائی بھی کرے ۔ خود بھی کمائے ،لوگوں کو بھی سہولت کی فراہمی یقینی بنائے۔ بلوچستان سے اسمگلر اور مافیاز کا خاتمہ ہوجائے گا تو امن وامان کی صورتحال میں بہت بہتری آجائے گی۔ ایران اور افغانستان سے سمگلنگ نے معاملات کو بہت بگاڑا ہے۔
پنجاب اور سندھ ہندوستان سے گائے اور گوشت درآمد کرنا شروع کریں اور دوسری سستی اشیاء دالیں، چاول،ادویات اور ہندوستان میں بننے والی چیزوں کی درآمد شروع کریں اور اپنی چیزیں ان کو برآمد کریں تو لوگوں میں خوشحالی کا دور آجائے گا۔ پنجاب اور سندھ کے عام لوگ بھی کم پسماندہ نہیںہیں۔ سندھ کی طرح پنجاب میں بند بنائے جائیں اور بجلی پیدا کی جائے۔
میانوالی سے ملتان موٹر وے بنے تو اسلام آباد،پشاور اور پنجاب وپختونخواہ کا زیادہ ٹریفک سکھر تک موٹر وے پر آجائیگا۔ میانوالی و ڈیرہ اسماعیل خان عمران خان اور مولانا فضل الرحمن کے حلقے ہیں۔ مریم نواز اور شہبازشریف اس تھوڑے خرچہ پر بہت لوگوں کے دل جیت سکتے ہیں جس میں جنوبی پنجاب کا بڑا حصہ بھی آجائیگا۔ کراچی آنے جانے والوں کو سہولت ہوگی۔
خیبر پختونخواہ میں پن بجلی لگائے جائیں تو وفاق سے کچھ لینے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ ماربل اور کاپر کیلئے انڈسٹری لگائی جائے ۔خام مال کو بیرون ملک سستا بیچنے والے پاگل کے بچے تھوڑی شرم وحیاء بھی نہیں رکھتے۔اگر وطن سے ہمدردی ہوتی تو آج مقروض نہ ہوتے اور نہ ملک وقوم کو ان مشکلات کی دہلیز پر پہنچاتے۔ مقتدر طبقہ لوٹا ہوامال واپس کرکے قرضہ چکائے۔

(نوٹ: اس پوسٹ کے ساتھ عنوان ”ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟ ” کے تحت پوسٹ ضرور پڑھیں۔)

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ مارچ2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟

ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟

پاکستان ایک طرف سودی قرضوں میں گھرا ہوا ہے اور دوسری طرف کاروبار زندگی اتنا خراب ہے کہ اپنا وزن نہ سلطنت میں اٹھانے کی صلاحیت ہے اور نہ عوام پر مزید بوجھ ڈالنے کی گنجائش!

اپنے اپنے ذاتی ، سیاسی اور صوبائی مفادات سے بالاتر ہوکر ایک پاکستانی کی حیثیت سے سوچنا ہوگا کہ اگر ملک بحران کا شکار ہوگیا تو پھر عوام میں سے ہر ایک اس کی سزا ضروربھگت لے گا

نوازشریف کے سابق دورِ حکومت میںIMFو چین وغیرہ سے بڑاقرضہ لیا جارہاتھا تو ہم نے شہہ سرخیوں کیساتھ اتنباہ کیا کہ ہم وہاں پہنچ سکتے ہیں کہ بین الاقوامی مالی ادارے ہمارے ملک کے مقتدر طبقے سے اختیار اپنے ہاتھ میں لیکر ملک چلانے کی شرط پر قرضہ دیں۔1914میں صحافی امتیاز عالم سے بھی مولانا فضل الرحمن نے کھل کر کہا تھا کہ ”ہماری پارلیمنٹ برائے نام ہے ، سیاسی، فوجی اور معاشی لحاظ سے بیرونی قوتیں جو فیصلہ کرتی ہیں وہی ہم پارلیمنٹ میں بروئے کار لاتے ہیں، ہمارا کوئی اختیار نہیں ہے”۔ یہ ہم نے شائع بھی کیا ہے۔
اگر مولانا فضل الرحمن کوبھی پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی طرح اقتدار کا حصہ بلوچستان میں دیا جاتا تو شاید انقلاب کی باتیں نہ ہوتیں۔ بلوچستان سے جمعیت علماء اسلام کے مالی مفادات وابستہ تھے اسلئے پہلے مولانا محمد خان شیرانی کو ہٹایا گیا اور اب وہاں حکومت میں حصہ دار بنانے سے ن لیگ نے بھی معذرت کرلی کہ ”بڑی دیر کردی مہرباں آتے آتے” تویہ محرومی مولانا فضل الرحمن کو ہضم نہیں ہورہی ۔ تحریک انصاف کو پختونخواہ اور ملک بھرمیں مظلومیت کا ووٹ ملا ہے لیکن اس کی نااہلی یہ تھی کہ جب خلائی مخلوق نے اس کو مسلط کیا تو اچھل کود کررہی تھی ۔ اب سہنے کی سکت نہیں رکھتی ۔ قاسم سوری کو بالکل ناجائز طریقے سےPTIسے جتوادیا گیا تھا تو اس کو ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی بنادیا گیا پھر اس نے عمران خان کے کہنے پر تحریک عدم اعتماد سے بچنے کیلئے اسمبلی کو توڑنے کا اعلان کیا۔ حالانکہ عزت اور وقار کا راستہ یہی تھا کہ جب زرداری سے ملکر تحریک انصاف نے بلوچستان باپ پارٹی کی داغ بیل ڈالی اور باپ کا چئیرمین سینٹ لایا گیا اور پھر جبPDMکی اکثریت کے باوجود اس کو نہیں ہٹایا جاسکا اور جب یوسف رضا گیلانی جنرل سیٹ پر حفیظ شیخ کے مقابلے میں سینیٹر منتخب ہوگئے تو عمران خان اقتدار سے الگ ہوجاتے۔ لیکن حکومت ملی بھی لوٹا کریسی اور بیساکھیوں کے سہارے تھی چلائی بھی خلائی مخلوق کے سہارے اور نوازشریف کے لوگوں کو توڑنے کیلئے محکمہ زراعت کا استعمال ہوا کیونکہ منے کے ابے کا نام لینے کی کسی میں جرأت نہیں تھی۔
پھر جو امریکہ مخالف کارڈ استعمال کرکے سائفر لہرایا تھا تو اسکے نتائج بھگتنے تھے۔ کوئی شک نہیں کہ امریکہ کو بڑی دلچسپی ہوگی کہ پاکستان میں مذہبی کارڈ استعمال کرنے والوں کا اقتدار نہ آئے مگر عمران خان کیساتھ ایسا کچھ ہوا یا نہیں ؟ اس کی وجہ مذہبی کارڈ بالکل نہیں تھا۔ جب عمران خان نے روس کا دورہ کیا تھا اور اسکی وجہ سے امریکہ کو ناراض سمجھ رہا تھا تو عمران خان نے واضح کیا تھا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے باہمی مشاورت کیساتھ روس کا دورہ کیا تھا۔جنرل باجوہ کا اعتراف آیا تھا کہ امریکہ نے ہم سے آنکھیں پھیریں تو ہمیں دوسری قوتوں کی طرف دیکھنا پڑا۔
اگر مولانا فضل الرحمن نے انقلاب برپا کرنا ہے تو اجنبیت کے ماحول میں دین کے معاشرتی اور معاشی معاملات کواُجاگر کریں۔مذہبی بلیک مارکیٹنگ کا راستہ تباہی کا راستہ ہے۔اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کا سسر قادیانی تھا۔ ن لیگی صحافی ابصار عالم نے اسلئے نوازشریف کے ذریعے آرمی چیف تعینات کرایا تھااور ن لیگ نے جنرل باجوہ کو خوش کرنے کیلئے قومی اسمبلی سے قادیانیوں کے حق میں وہی بل پاس کیا جو سینیٹ میں حافظ حمداللہ کی وجہ سے ناکام ہوا ۔ مولانا عبدالغفور حیدری نے میڈیا پر قاری حنیف جالندھری کی موجودگی میںکہا کہ” شکر ہے کہ سینیٹ سے بل پاس نہیں ہوا تھا ورنہ مجھے ڈپٹی چئیرمین سینیٹ کی حیثیت سے دستخط بھی کرنے پڑتے اسلئے کہ چئیرمین اس دن موجود نہ تھا۔ حکومت جب کسی بل کو منظور کرنا چاہتی ہے تو اگر قومی اسمبلی یا سینیٹ میں سے کسی ایک میں پاس نہیں ہوتا تو پھر مشترکہ اجلاس میں اس کو لاکر پاس کرتی ہے”۔ پھر مشترکہ اجلاس میں شیخ رشید نے جمعیت علماء اسلام کو پکارا کہ سید عطاء اللہ بخاری کو تم کیا جواب دوگے۔ ختم نبوت کیلئے بڑی قربانیوں کا کیا ہوگا؟۔ شیخ رشید نے کہا کہ علماء مجھے مارنے کیلئے دوڑے تھے البتہ جماعت اسلامی نے شیخ رشید کا ساتھ دیا تھا۔
فیض آباد دھرنا ہوسکتا ہے کہ علامہ خادم حسین رضوی رحم اللہ نے کسی کے اشارے پر ہی دیا ہو لیکن قصور پارلیمنٹ ہی کا تھا۔ افتخار محمد چوہدری سابق چیف جسٹس نے میڈیا پر بتایا کہ” جب مرزائیوں کیلئے اسمبلی میں بین الاقوامی سازش ہورہی تھی تو اس وقت بلوچستان سے تعلق رکھنے والے حافظ حمد اللہ نے آواز حق اٹھائی تھی”۔ مولانا فضل الرحمن نے بتایا کہ ” ہم نے عمران خان پر بیرونی ایجنڈے کیلئے کام کرنے کا الزام لگایا تھا تو وہ مشن پورا نہیں ہوا تھا اور اب آپ نے دیکھا کہ چیف جسٹس نے ایک کیس میں قادیانی کے حق میں کیسے ریمارکس دئیے؟”۔
لیکن حقیقت تو یہ تھی کہ فیض آباد دھرنا ، عمران خان اور خفیہ طاقتیں اس وقت اس سازش کے خلاف کھڑی تھیں اور ن لیگ اور مولانا فضل الرحمن جنرل قمر جاوید باجوہ کے سسرال کیلئے ہی دوسری طرف کھڑے تھے۔ اب اگر چیف جسٹس فائز عیسیٰ اور ن لیگ پھر ایک طرف کھڑے ہوگئے ہیں تو اس کا ادراک بھی مولانا فضل الرحمن کو ہوسکتا ہے لیکن وہ کھل کر بات کرے۔ اس کے پسِ پردہ حقائق اب تک کھل کر سامنے نہیں آسکے ہیں۔
ابصار عالم کو گولی ماری اور اسکے بیٹے کو اپاہج بنادیا تھا تواس کا الزام کسی اور پر لگانے کے بجائے ابصار عالم نے اعتراف جرم کرلیا کہ اگر میں قادیانی سسر کی وجہ سے جنرل باجوہ کوISIاور فوج کی طرف سے مشکلات میں دیکھ کرخود یہ مشورہ نہ دیتا تو نوازشریف اس کو آرمی چیف نہ بناتے۔ پھر مجھے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا تو آرمی چیف نے میری کوئی مدد نہیں کی تھی۔
جب نوازشریف نے جنرل باجوہ کو آرمی چیف بنادیا تھا تو ایک تقریب میں جنرل قمر جاوید باجوہ نے مولانا فضل الرحمن سے مذاق میں اس خوف کا اظہار کیا کہ مجھے ڈر لگتا ہے کہ فتویٰ نہ لگادیں۔ مفتی محمود نے جنرل ضیاء الحق کو مرزائی قرار دیا تھا ۔ جنرل ضیاء الحق کی بیگم اور جنرل رحیم الدین کی بیگم دونوں بہنیں تھیں۔ جنرل رحیم الدین مشہور قادیانی مبلغ تھا۔جمعیت علماء اسلام کے امیر مولانا عبدالکریم بیرشریف لاڑکانہ جنرل ضیاء الحق کو آخری وقت تک قادیانی قرار دیتے تھے۔ جس کو بعد میں مولانا فضل الرحمن نے امارت میں شکست دیکر ہٹادیا تھا لیکن اس سے پہلے مولانا سراج احمد دین پوری جمعیت علماء اسلام کی امارت چھوڑ کر پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے تھے۔
مفتی تقی عثمانی نے جنرل ضیاء الحق کے بیٹے ڈاکٹر انوار الحق اور جنرل رحیم الدین کی بیٹی کا نکاح پڑھایا تھا۔ مفتی محمود کو پان میں زہر اور دورہ قلب کی گولی کے بہانے شہید کرنے والا مفتی محمد تقی عثمانی اپنے تحریری اور تقریری بیانات میں تضادات سے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہے ۔پہلے تحریر میں لکھا تھا کہ ہم بھائیوں نے چائے پینے سے انکار کیا تو مفتی محمود نے کہا کہ میں چائے پیتا ہوں مگر کوئی نہیں پیتا تو اس کو پسند کرتا ہوں تو میں نے پان کا بٹوہ دکھایا کہ ہمارے ساتھ یہ علت لگی ہوئی ہے۔ مفتی محمودنے کہا کہ یہ تو چائے سے بھی بدتر ہے۔اس میں پان کھلانے اور دورہ قلب کی گولی کا کوئی ذکر نہیں کیا تھا لیکن مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید نے اس کا ذکر کیا تھا۔ جب ہم نے اپنی کتاب میں یہ لکھا تھا مولانا لدھیانوی شہید نے بتایا کہ اس پر مفتی تقی عثمانی نے ڈانٹ پلائی ہے۔ پھر اب مفتی تقی عثمانی نے کہا ہے کہ مفتی محمود سے پان کی بڑی بے تکلفی تھی اور مجھے کہتے تھے کہ لاؤ بھیا ہم تمہارا پان کھائیں گے؟۔ اتنا بڑا تضاد؟ واہ جی واہ۔
اوریا مقبول جان ، سلیم بخاری اور علامہ زاہد الراشدی نے جنرل قمر باجوہ کے حق میں گواہی دی تھی کہ ان کا قادیانیوں سے تعلق نہیں ۔ تحریک انصاف نے اسمبلی میں شیخ رشید کا ساتھ نہیں دیا لیکن جب ن لیگ کے خلاف تحریک چلی تو عمران خان نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ ن لیگ کے احسن اقبال کو گولی لگی تھی۔ وزیرقانون زید حامد کو استعفیٰ دینا پڑا تھا۔ عوام اور مذہبی طبقہ ہی نہیں فورسسز کی سپاہیوں اور افسران میں بھی بہت زیادہ مذہبی حساسیت ہے۔ مذہبی و سیاسی بنیادوں پر جس طرح کی مہم جوئی چل رہی ہے اس کا پاکستان بالکل بھی متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔
اصل چیز معاشی عدم استحکام ہے ۔جب اس کو سیاسی بنیاد پر مذہبی ٹچ دیا جاتاہے تو معاملات میں بہت بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ فوج اپنے کھیل اور کھلونوں کے ہاتھوں بدنام ہوگئی ہے۔ فوج کے بغیر نوازشریف ، عمران خان، زرداری، مولانا فضل الرحمن اور سراج الحق سمیت کوئی بھی اقتدار نہیں چلاسکتا ہے۔ کسی نے دریا میں کمبل دیکھ کر چھلانگ لگا دی اور جب اسکے ساتھیوں نے دیکھا کہ کشمکش کافی دیر سے جاری ہے، کمبل حاصل کرنے کے بجائے اسکی جان کو خطرہ ہے تو آواز لگائی کہ ”کمبل کو چھوڑ دواور تم سلامت نکل آؤ” ۔ اس نے کہا کہ ” میں کمبل کو چھوڑ رہاہوں لیکن کمبل مجھے نہیں چھوڑ رہاہے ”۔ حقیقت یہ تھی کہ وہ کمبل نہیں ریچھ تھا۔ فوج نے بھی سیاسی جماعتوں کو کمبل سمجھ کر دریا میں چھلانگ لگا دی لیکن وہ ریچھ نکلے۔ جنرل ایو ب نے ڈیڈی بن کر ذوالفقار علی بھٹو کو کمبل سمجھ لیا۔پھر جنرل ضیاء الحق و جنرل حمید گل نے نوازشریف کو پالا پھر عمران خان کمبل آگیا۔ پھرPDMکو اور اب نوازشریف اور زرداری کی پارٹنر شپ کو ڈبل کمبل سمجھ لیا لیکن کمبلوں سے جان چھڑانی مشکل ہوگئی ہے۔
پاکستان کے معاشی حالات اس قدر گھمبیر ہیں کہ کسی وقت بھی ملک ڈیفالٹ کی طرف جاسکتا ہے۔ جب2008میں نواز شریف،قاضی حسین احمد ، محمود خان اچکزئی، عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری ودیگر سیاسی جماعتوں نے انتخابی دنگل میں شرکت کا بائیکاٹ کیا کہ جنر ل پرویزمشرف وردی اتار یں اور جب تک وردی نہیں اتاریں گے تو ہم الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے تو پیپلزپارٹی نے نوازشریف کو منوالیا اور دوسری جماعتوں کو نوازشریف نے چھوڑ دیا۔بینظیر بھٹو بلٹ پروف گاڑی سے باہر نہ نکلتی تو قتل نہ ہوتی اسلئے کہ ساتھ بیٹھنے والے تمام افراد بھی محفوظ رہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے اداروں نے منع کیا تھا کہ رسک ہے لیکن محترمہ نے کہا تھا کہ مجھے جن سے خطرہ ہے ان کو روک لو ۔ اداروں نے کہا تھا کہ ”ہم اپنے بڑے نیٹ ورک کو خراب کرکے کافی لوگوں کی جانوں کو خطرات میں نہیں ڈال سکتے”۔
مولانافضل الرحمن نے اب کہا ہے کہ ” ایک وڈیرے کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں اور پوچھنے پر پتہ چلا کہ اس پر بڑا تشدد ہوا ہے کہ وہ ہمارے حق میں فیصلہ کرلے”۔ سندھ میں یہ فیصلہ ہوا تھا کہ ”اس مرتبہ پیپلزپارٹی کو صوبائی حکومت میں نہیں آنے دیا جائیگا ، اسلئے کہ وہNFCایوارڈ اور پانی وغیرہ کے مسئلہ پر تعاون نہیں کرتی ہے”۔ اگر تحریک انصاف کی مرکز میں حکومت قائم ہوجاتی اور ن لیگ وپیپلزپارٹی اپوزیشن میں ہی رہنے کا فیصلہ کرتیں تو تحریک انصاف اور ن لیگ دونوں مل کر عوام پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ لادنے کی طرح صوبہ سندھ کیلئے بھی فنڈز میں کمی کرتیں اور پختونخواہ کی طرف سے بھی اپنا حق طلب کرنے کا کوئی معاملہ پیش نہ آتا۔ آصف زردای نے صدر کی پوزیشن سنبھال کر شہباز شریف کی حکومت کو سہارا دیا ہے مگر ساتھ ساتھ اس کی گردن بھی اپنے ہاتھ میں رکھی ہوئی ہے۔
ایک طرف تحریک انصاف کا عوامی دباؤ اور سوشل میڈیا کی طاقت اور دوسری طرف پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی مفادات پر مبنی پارٹنر شپ اور تیسری طرف مولانا فضل الرحمن کی تھریٹ اور چوتھی طرف ملک کی معاشی بدحالی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہے اور اس میں ذرا سی غلطی کی کوئی گنجائش نہیں۔ ریاست کو موج مستی کا نشہ نہیں بلکہ اس ریچھ سے جان نہیں چھوٹ رہی ہے۔ عمران خان کو وزیراعظم بننے کا بڑا شوق تھا بن گیا نوازشریف کو ایک موقع ملنے کا شوق تھا مل گیا اور زرداری کو صدر مملکت بننے کا شوق تھا بن گیا۔ مولانا فضل الرحمن کو بھی صدر بننے کا شوق تھا لیکن وہ نہیں ہوا۔ محسن جگنو سے اپنے انٹرویو میں اعتراف بھی کرالیا کہ امریکہ سے کہا تھا کہ ” مجھے شدت پسند نہیں ترقی پسند مولوی سمجھا جائے لیکن امریکہ نے اس پر اعتماد نہیں کیا ”۔
ساری دنیا کو پتہ تھا کہ امریکہ نے ملا عمر کی طالبان حکومت کو بینظیر بھٹو اور نصیراللہ بابر کے ذریعے اسلئے میدان میں اتارا تھا کہ ازبکستان کی گیس پائپ لائن ہندوستان تک امریکی کمپنی نے پہنچانی تھی ۔ اگر یہ منصوبہ کامیاب ہوجاتا تو روس سے آزاد ہونے والے نئے مسلم ممالک کے گیس کا وسیع ذخیرہ بھارت و چین اور دنیابھرکو بیچنے میں امریکہ کی اجارہ داری قائم ہوجاتی۔ لیکن اس کو اسلامی رنگ میں پیش کیا گیا تھا۔ طالبان نے اپنے افغان صدر نجیب اللہ کا کیا حشر کیا تھا؟۔ اسلئے کہ وہ امریکہ کے کیمپ میں نہیں تھا۔ جبکہ دوسری طرف غیر ملکی صحافی پکڑے بھی جاتے تو حسنِ سلوک سے مسلمان بن کر جاتے تھے؟۔
دوسری طرف شیعہ اگر ایرانی انقلاب کو اسلامی مانتے ہیں تو آیت اللہ خمینی کو ”امام ” ماننے والے امیر معاویہ کیلئے امیر شام کا لقب کیوں اختیار کرتے ہیں؟۔ امیر شام تو وہ اس وقت تھے جب حضرت علی اور حضرت حسن سے جنگ لڑرہے تھے۔ جب امام حسن ان کے حق میں دستبردار ہوگئے اور20سال تک اس نے حضرت امام حسن وامام حسین کی تائید سے حکومت کی تو پھر ان کی حیثیت واقعی ایک خلیفہ راشد کی بالکل بھی نہیں تھی لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان کے دور میں بڑی فتوحات کا دروازہ کھل گیا تھا۔ اسرائیل اور امریکہ کے خلاف نعرے لگانے سے تو کچھ نہیں ہوتا جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو پاکستان نے امریکہ کا ساتھ دیا جس پر شیعہ نے سنیوں کو طعنہ بھی دیا تھا لیکن جب عراق پر امریکہ نے حملہ کیا تو ایران اور شیعہ نے کس کا ساتھ دیا؟۔ افغانستان میں بھی ایران نے شمالی اتحاد کا ساتھ دیا جو امریکہ کیلئے طالبان کے خلاف لڑرہاتھا۔ اگر اس وقت احمد شاہ مسعود زندہ ہوتے تو شاید امریکہ کا ساتھ نہ دیتے۔
حسن الہ یاری اپنی بیوقوفی کی وجہ سے نہ صرف شیعہ سنی کے اندر تفرقہ ،شدت پسندی اور منافرت کے بیچ بورہاہے بلکہ اب وہ شیعہ کیلئے بھی درد سر بن گیا ہے۔ حسن الہ یاری کو علم کی زبان میں سمجھانے کی ضرورت ہے۔ وہ دنیا کیلئے امریکہ میں جا بیٹھا ہے۔ علامہ شہنشاہ حسین نقوی نے اہل تشیع کے درمیان اجتہاد کے مسئلے پر حسن الہ یاری کی سخت سرزنش کی ہے۔ لیکن یہ حسن الہ یاری کا معاملہ نہیں ہے بلکہ شیعہ فرقے کو یہ مسئلہ درپیش ہے اور اس کا اگر صحیح حل نہیںنکالا گیا تو پھر فرقہ واریت کی آگ میں سبھی ایک دن بالکل اندھے ہوجائیں گے۔
حسن الہ یاری نے حضرت ابوبکر و حضرت عمر کے کفر کیلئے یہ دلیل دی ہے کہ ” قرآن میں اللہ تعالیٰ نے جنابت اور پاخانہ کی صورت میں تیمم سے نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے اور حضرت عمر نے اس حکم سے کھلم کھلا انحراف کرکے کفر کا ارتکاب کیا ہے”۔
علامہ مناظر احسن گیلانی نے اپنی کتاب ” تدوین فقہ ” میں بحث کرتے ہوئے شاہ ولی اللہ کی تشویش کا حوالہ دیا کہ جب حضرت عمار سے نبی ۖ نے فرمایا کہ” تیمم کرکے نماز پڑھ لو ” تو حضرت عمر نے اس پر عمل کیوں نہ کیا؟۔ اور نبی ۖ نے خود حضرت عمر سے کیوں نہیں فرمایا کہ ”تیمم کرکے نماز پڑھ لو”۔
حضرت شاہ ولی اللہ ایک دیندار اور مذہبی شخصیت تھے اور نماز قضاء کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے اسلئے حضرت عمر کیلئے تعجب کا اظہار کیا لیکن حضرت عمر نے قرآن کی تفسیر کو بھی سمجھ لیا تھا اور نبی ۖ نے اس پر عمل کرنے کی تائید بھی کردی تھی تو اس بات کو شاہ ولی اللہ نے کیوں نہیں سمجھا؟ ،اس پر تعجب کرنا تھا اور علامہ مناظر احسن گیلانی نے کیوں نہیں سمجھا ؟،یہ بات تعجب کی ہے۔میرے دادا سیدامیر شاہ سے زندگی میں ایک نماز قضا ء ہوگئی تھی جس کا ساری زندگی خوف اور دکھ تھاکہ اگر اس پر پکڑ ہوگئی تو کیا ہوگا؟۔ میرے والد علماء کے بہت قدردان تھے اور مسجد بھی بغیر چندہ اپنے پیسوں سے عالیشان تعمیر کرلی لیکن ہم نے دیکھا کہ جون کے مہینے میں لمباروزہ رکھتے تھے لیکن مغرب کی نماز قضاء کرلیتے تھے اور پھر تراویح پڑھنے جاتے۔ جہاں پر ایک دن میں6،6پاروں کا ختم ہوتا تھا۔ اوروہ کہتے تھے کہ نماز پڑھ لی تو بہت اچھاکیا ، ثواب بھی مل گیا اور فائدہ بھی ہوا لیکن اگر نہیں پڑھی تو اس کا اللہ کو کوئی نقصان نہیں ہے اور نہ اللہ کو اس کا کوئی فائدہ ہے البتہ اگر کوئی غریب بھوکا ہواتو پھر اللہ معاف نہیں کرے گا۔ حضرت عمر ایک طرف تیمم میں نماز نہ پڑھنے کا فائدہ اٹھاتے تھے یا کراہت کی وجہ سے اللہ کے حضوراس کے دربار میں حاضری دینا مناسب نہیں سمجھتے تھے اسلئے کہ بدبودار منی کے مواد سے لتھڑے ہوئے انسان کو اللہ پاک کے حضور حاضری دینے میں بوجھ لگتا ہے۔ تو دوسری طرف کہتے تھے کہ اگر دریائے نیل کے کنارے کتا بھی پیاس سے مرجائے تو اس کی پوچھ گچھ یا بازپرس مجھ سے اللہ تعالیٰ ضرور کرے گا۔
نہج البلاغہ میں حضرت علی نے حضرت عمر کی وفات کے بعد بڑی تعریف کی تھی۔ اہل تشیع غلط سمجھتے ہیں کہ حضرت علی حضرت عمر سے خوفزدہ ہوکر تقیہ کرکے گھر میں بیٹھ گئے ۔ حسن الہ یاری کہتا ہے کہ ابوبکر وعمر نے اسلام قبول کیا ہی نہیں تھا بلکہ منافقت سے لبادہ اوڑ ھ لیا تھا۔ اگر یہ سچ ہے تو پھر حضرت علی نے خوف کے مارے تین خلفاء کی حکومت قبول کرلی اور امام حسن نے بھی امیرمعاویہ کے حق میں دستبردار ہونے کا فیصلہ خوف سے کیا۔ حضرت امام حسین نے اپنے شیعوں سے دھوکہ کھایا اور پھر ان کو یزید کے لشکر نے راستہ نہیں دیا اور اس کے بعد باقی ائمہ اہلبیت نے بھی ساری زندگی خوف میں گزاری اور آخری امام غائب ہوئے اور ایرانی حکومت بھی جبر واستبداد کا نتیجہ ہے؟۔ جب ائمہ اہل بیت نے کسی ایک شیعہ پر بھی اعتماد کرکے بقول علامہ شبیہ الرضا نجفی کے دین کی مکمل کتاب سپرد نہیں کی تو پھر صحابہ پر شیعہ کیسے اعتماد کرسکتے ہیں؟۔ یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ اگر امام کا ہونا کوئی بڑی انوکھی چیز ہوتی تو کم ازکم گھر کے افراد میں چھٹے امام کے بعد کیوں اختلاف پیدا ہوتا؟۔ خمینی نے انقلاب برپا کرکے اچھاکیا لیکن ابھی باہمی اعتماد کیساتھ معاملات حل کرنا دانشمندی کا تقاضاہے۔پاکستان میں ایک اچھی فضاء قائم کریں تو معاشی صورتحال آج باہمی تعاون سے ہی بہتر ہوسکتی ہے۔

(نوٹ: اس پوسٹ کے بعد عنوان ”حکومت وریاست IMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے ” کے تحت پوسٹ ضرور پڑھیں۔)

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ مارچ2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

ہر استحکام کیلئے ایک انہدام ضروری ہوتا ہے اگر آپ کا گھر زلزلے میں کریک ہوجائے تو کہیں گے کہ گرائیں گے تو اور ٹوٹ جائیگا،دوبارہ بنانا پڑے گا؟ ۔ اس حد تک غیر مستحکم ہیں ہم معاشی ، سیاسی ، اخلاقی لحاظ سے کہ ایک دفعہ اس کا انہدام ضروری ہوگا اور وہ انقلابی تحریک سے ممکن ہے۔ حکومت دھاندلی کی پیداوار ہے۔سندھ اور بلوچستان اسمبلی خریدی گئی ۔الیکشن کے نتائج مسترد!

ہر استحکام کیلئے ایک انہدام ضروری ہوتا ہے اگر آپ کا گھر زلزلے میں کریک ہوجائے تو کہیں گے کہ گرائیں گے تو اور ٹوٹ جائیگا،دوبارہ بنانا پڑے گا؟ ۔ اس حد تک غیر مستحکم ہیں ہم معاشی ، سیاسی ، اخلاقی لحاظ سے کہ ایک دفعہ اس کا انہدام ضروری ہوگا اور وہ انقلابی تحریک سے ممکن ہے۔ حکومت دھاندلی کی پیداوار ہے۔سندھ اور بلوچستان اسمبلی خریدی گئی ۔الیکشن کے نتائج مسترد!

حقیقت ہے کہ جمہوریت اپنا مقدمہ ہار رہی ہے کچھ لوگ زمانہ ہوا کہ اسمبلیوں سے مایوس ہیں ایک طبقہ جمہوریت کو کفر سمجھتا ہے ساری قربانیوں کے باوجود ہمارے حق پر ڈاکہ ڈالا جارہا ہے

جمعیت علماء اسلام اورPDMکے قائد مولانافضل الرحمن نے کہا:یہ حکومت عوام کی نمائندہ نہیں دھاندلی کی پیداوار ہے!
پارلیمنٹ میں تحفظات کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا لیکن اس صورتحال سے چاروں صوبوں میں جا کر صوبائی جو ہمارے جنرل کونسلز ہیں مجالس عمومی ہیں ان کو اعتماد میں لینا، چنانچہ ہمارا پہلا اجلاس خیبر پختونخواہ میں ہوا اور ابھی دوسرا اجلاس یہاں کراچی میں ہو رہا ہے اس کے بعد پنجاب میں جائیں گے۔ بلوچستان میں بہت سخت سردی ہے مختلف اطراف سے لوگوں کے جمع ہونے میں دقتیں آرہی ہیں تو اس کو فی الحال موخر کیا ہے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ جمہوریت اپنا مقدمہ ہار رہی ہے اور پارلیمنٹ اپنی اہمیت کھو رہی ہے۔ اس صورتحال میں اب کیا کیا جائے؟۔ یہ پارلیمنٹ جواس وقت ہم دیکھ رہے ہیں یہ عوام کی نمائندہ نہیں۔ یہ دھاندلی کی پیداوار پارلیمنٹ ہے جس میں کچھ لوگ اپنے آپ کو حکمران کہلائیں گے اور قوم کے دلوں پر وہ حکومت نہیں کر سکیں گے ان کے جسموں پہ تو شاید وہ حکومت کرسکیں لیکن قوم دل سے اس کو تسلیم نہیں کرے گی۔ اس حوالے سے ہم آج یہاں کراچی آئے ہیں۔ یہاں کے صوبائی جنرل کونسل اور ورکرز کیساتھ ساری صورتحال پہ بات کرنی ہے اور پھر مزید ہم پورے ملک میں تحریک چلانے کا لائحہ عمل بھی بنائیں گے۔ بھرپور تحریک ہوگی عوامی قوت کے ساتھ ہوگی اور وہ ملک کی سیاست کو تبدیل کرے گی اس کی کایا پلٹے گی۔ حالات اس طرح نہیں رہیں گے جس طرح کہ ہم پہ مسلط کئے جا رہے ہیں۔ یہ حالات ہم نہ تسلیم کرتے ہیں نہ اس کو ہم قبول کرتے ہیں اس کے خلاف بھرپور عوامی رد عمل آئے گا لیکن ہم اس کو منظم طریقے سے آگے بڑھانا چاہیں گے۔صحافی کے سوال کے جواب میں کہا کہ دیکھئے ہمارا کوئی ذاتی جھگڑا کسی کے ساتھ نہیں ہے کہ وہ ہمیں منا لیں گے۔ مسئلہ قوم کا ہے مسئلہ عوام کا ہے انہوں نے اقتدار کی کرسی کو شاید اپنی جاگیر سمجھ لیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں ہم حکومت کو خرید لیتے ہیں چنانچہ سندھ اسمبلی خریدی گئی ہے بلوچستان اسمبلی خریدی گئی ہے اور مختلف صوبوں میں انہوں نے جو پیسہ انویسٹ کیا ہے پیسے کی بنیاد پر اگر ملک کی حکومت چلنی ہے اور اسمبلی خرید نی ہیں تو پھر ظاہر ہے کہ ہم تو فارغ ہیں۔ایک صحافی کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ دیکھئے ابھی تک کسی گرینڈ الائنس کی باضابطہ تجویز نہیں ہے۔رات کو بھی ہمارے ایک دوست نے کھانے پر سب کو بلایا۔ ملاقات ہوئی سب کے ساتھ بڑی اچھی ملاقات رہی۔ ملاقاتیں ہونی چاہیے اور اس میں مذاکرہ ہوتا ہے اس میں ڈیبیٹس ہوتی ہیں حالات کو سمجھا جاتا ہے اور یہ ہمیں اندازہ لگانا ضروری ہے کہ ہم آئین و قانون کی حدود میں رہتے ہوئے اپنا حق اظہار رائے استعمال کریں اور اس وقت نوجوان نسل میں بہت زیادہ شدت آرہی ہے اور ملک کے اندر ایک نظریہ تو نہیں ہے بہت سے لوگ اپنے نظریوں کے حامل ہیں۔ کچھ لوگ ویسے ہی اسمبلیوں سے مایوس ہیں ایک زمانہ ہو گیا کہ مایوس ہیں مزید ان کو اسمبلیوں اور جمہوریت سے مایوس کیا جا رہا ہے۔ ایک طبقہ جمہوریت کو بالکل کفر سمجھتا ہے ہم نے اس ماحول میں جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا ہم نے آئین اور قانون کی روشنی میں جمہوریت کی تشریح کی اور لوگوں کو اس کی طرف آمادہ کیا۔ اس ساری قربانیوں کے باوجود کون ہے جو ہمارے اس حق پہ ڈاکہ ڈالتا ہے؟۔ ہم کوئی ڈاکہ تسلیم نہیں کرتے ہم ڈاکہ ڈالنے والے کو مجرم سمجھتے ہیں لاکھ دفعہ وہ اسٹیبلشمنٹ ہو، لاکھ دفعہ وہ فوج ہو، لاکھ دفعہ وہ مسلح قوت ہو لیکن جبر کو جبر کہا جائے گا اسے کبھی عدل تسلیم نہیں کیا جا سکتا ہے۔ صحافی کے سوال پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں بڑی وضاحت سے عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ پیپلز پارٹی کو اور مسلم لیگ ن کو تقریبا وہی مینڈیٹ ملا ہے جو2018میں ملا تھا۔ پھر اس وقت دھاندلی کیوں تھی اور آج دھاندلی کیوں نہیں؟۔PTIکو وہی تقریبا ً مینڈیٹ ملا ہے جو2018میں ملا تھا اس وقت دھاندلی نہ تھی آج دھاندلی کیوں ہے؟۔ دونوں سے سوال ہے لیکن جمعیت علماء اپنے اصولی موقف پہ قائم ہے دھاندلی18میں ہوئی ہے تب بھی دھاندلی ہے اور2024میں ہوئی ہے تب بھی دھاندلی ہے۔ جہاں تک پارٹیوں کا تعلق ہے۔ ضرور سب دوست تشریف لائے ہیں انکے اکابرین تشریف لائے ہم نے ان کو احترام دیا ہے احترام کا رشتہ تو پہلے بھی تھا آئندہ بھی رہے گا اورPTIکے و فود بھی آئے ہیں ایک سے زیادہ مرتبہ وہ تشریف لائے ہیں ہم نے ان کو بھی احترام دیا، عزت دی ہے اور سیاست میں آپ جانتے ہیں کہ ہم نے کبھی بھی تلخی کو فروغ نہیں دیا تعصبات کو فروغ نہیں دیا گالم گلوچ کو فروغ نہیں دیا۔ مؤقف لیا ہے اتفاق رائے بھی کیا ،اختلاف رائے بھی کیا، اعتدال کیساتھ اور دلیل کیساتھ کیا ۔ لیکن میں آپ کو اطمینان دلاتا ہوں کہ اب تک ہم اپنے مؤقف پہ قائم ہیں، پارلیمنٹ میں جائیں گے احتجاجی اور تحفظات کے طور پر ہم جائیں گے کوئی ووٹ ہم نے استعمال نہیں کرنا اور انشااللہ العزیز ہماری جو دوست جماعتیں ہیں جو ہمارے پاس تشریف لائے بار بار لائے انشااللہ اب وہ اصرار نہیں کریں گے ہم نے اپنا مؤقف ان کو تقریباً منوا لیا ہے۔
مولانا فضل الرحمن نے ایک اور بیان میں کہا ہے کہ
جمعیت والو! میں آپ سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں ہم نے10،12سال تک عمران خان کیساتھ اور پی ٹی ائی کے ساتھ ایک لڑائی لڑی ۔ہم نے جو سوالات اٹھائے اور یہ کہ یہ آپ کا ایجنڈا ہے اور اس ایجنڈے کی مزاحمت کریں گے ہم اور ہم نے کی اگر اس کا ایجنڈا مکمل نہیں ہو۔ ابھی آپ نے سپریم کورٹ کا فیصلہ دیکھا۔یہ ریاست کے اندر باہر کے ایجنڈے اس طرح چلائے جاتے ہیں کہ پھر ادارے استعمال ہوتے ہیں اب ایک کیس ہے آپ کے پاس اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ جی2019کا کیس ہے اور2021میں ترمیم ہوئی ہے اور اس وقت یہ قانون نہیں تھا بھلا اب ضمانت پر رہا کردیں بھلا آپ اس کو چھوڑ دیں۔ نیچے جو مندرجات آپ نے تحریر فرمائی ہیں اور اپنا فلسفہ دین آپ نے اس کے اندر سمو دیا ہے ہماری بحث اس سے ہے اور جج صاحب ناراض نہ ہو آپ نے جو کچھ اس میں کہا ہے وہ بدنیتی پر مبنی ہے۔ آپ کون ہوتے ہیں کہ قران کی آیتوں کی غلط تشریح کرتے ہیں۔ اس کی غلط تدبیر کرتے ہیں۔ غلط جگہ پر آپ اس کو بطور دلیل کے پیش کرتے ہیں۔ تو پھر آپ کسی خاص ایسے نظریے کے تابع شخص ہیں کہ ان کو پھر ہم جانتے ہیں پاکستان میں ہمیشہ ایک طبقہ ایسا رہا ہے جنہوں نے دین کا علم سند کی بنیاد پر حاصل نہیں کیا صرف مطالعوں سے انہوں نے دین کو حاصل کیا ہے۔ اور پھر ڈیوٹی لی ہے اس نے کہ میں دین کی ایسی جدید اور نئی تعبیرات کروں گا ایسی تعبیرات جو امت کیلئے قابل قبول ہوں یا نہ ہو لیکن مغرب کے لیے قابل قبول ہوں یہ مغرب کے لیے قابل قبول تعبیرات یہ کون لوگ ہیں؟۔ کون کرتے ہیں یہ؟۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے فیصلے وہ انہی تعبیرات کی پیروی ہے۔

(نوٹ: اس پوسٹ کے بعد عنوان ”مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے” کے تحت پوسٹ ضرور پڑھیں۔)

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ مارچ2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

عورت مارچ کیلئے ایک تجویز

عورت مارچ کیلئے ایک تجویز

اسلام آباد عورت مارچ میں پریس کلب سے تھانہ کوہسار ہمیں پہنچادیا گیا۔رات گئے ہمیں رہا کردیا گیا۔ ہم لوگوں کی چاہت تھی کہ عورت کے حقوق اور مشکلات سے متعلق وہ ٹھوس شواہداوراس ان کا حل ان کے سامنے رکھیں تاکہ دنیا میں وطن اور اسلام کیساتھ ان خواتین کا نام بھی روشن ہو جو بہادری سے اپنی بہترین اسٹر گل جاری رکھی ہوئی ہیں۔ مذہب ٹھکرانے ہی سے دنیا نے عورت کو حقوق دئیے مگر اسلام انکا بہترمحافظ ہے۔
اللہ نے جو حقوق دئیے ہیں وہ مذہبی طبقات نے چھینے۔
حق مہر: قد علمنا ما فرضنافی ازواجھم ”تحقیق ہم جانتے ہیں جو ہم نے ان مردوں پرعورتوں کامہر فرض کیاہے”
مولوی پڑھاتا ہے کہ اللہ نے حق مہر فرض کیا ہے لیکن کتنا؟ یہ وہی جانتا ہے۔ مخلوق کو اس کا احساس تک نہیں دیا گیا ہے۔ کم ازکم حق مہر کا یہ ہے کہ جس امام کے ہاں چور کا ہاتھ جتنی رقم میںکٹتا ہے اتنی رقم حق مہر میں فرض کردی گئی ہے۔ مسلک حنفی میں10روپے پر ہاتھ کٹنا ہے۔ کسی امام کے ہاں چار آنے اور کسی کے ہاں ایک پیسہ پر ہاتھ کٹتا ہے تو اسکے نزدیک اتنی رقم کم ازکم عورت کے حق مہر میں فرض ہے۔ کیونکہ چور ایک عضوء ہاتھ سے جتنی رقم میں محروم ہوتا ہے اتنی رقم میں آدمی اپنی عورت کے ایک عضوء شرمگاہ کا مالک بن جاتا ہے۔
وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے صدر مولانا سلیم اللہ خان نے اپنی کتاب ”کشف الباری شرح صحیح بخاری” میں یہ تفصیلات درج کردی ہیں۔ عورت اپنی بڑی توہین محسوس کرتی ہے کہ مذہبی بہروپ میں اس کی عزت و تقد س کو کس طرح چور کے ہاتھ سے تشبیہ دے کر پامال کیا گیا ہے؟۔
جب حضرت عمر نے عورت کا حق مہر کم مقرر کردیا تو اس پر ایک عورت نے کہا کہ تم کون ہوتے ہو،ہمارا حق مہر مقرر کرنے والے جب اللہ نے کم مقرر نہیں کیا ہے؟۔ جس پر عمر نے غلطی کا اعتراف کرلیا اور عورت کو ٹھیک قرار دے دیا تھا۔
سوال یہ ہے کہ اللہ نے اپنے علم میں پوشیدہ رکھا ہے کہ کتنا حق مہر فرض ہے؟ جس کیلئے اندھے کو شبِ دیجور کی سوجھی؟۔
لا جناح علیکم ان طلقتم النساء مالم تمسوھن او تفرضوا لھن فریضة و متعوھن علی الموسع قدرہ و علی المقتر قدرہ متاعًا بالمعروف حقًا علی المحسنین ”کوئی حرج نہیں ہے کہ جب تم عورتوں کو ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دواور حق مہر مقرر نہ کیا ہو تومالدار پر اس کی وسعت کے مطابق اور فقیر پر اس کی وسعت کے مطابق معروف طریقے سے مال ومتاع ہے اچھے لوگوں پر حق ہے”۔
اس آیت میں بات بالکل واضح ہے کہ حق مہر کا تعلق مرد کی وسعت سے ہے۔ ایک کروڑ پتی پر کتنا ہونا چاہیے اور ایک فقیر بے نوا پر کتنا ہونا چاہیے ؟اس کا حکم معاشرے میں معلوم ہے۔
عرب اور پشتون تو حق مہر نہیں رکھتے بلکہ بیچ دیتے ہیں اور پنجاب وہندوستان میں مرد جہیز کا بھی خود کو حقدار سمجھتا ہے اور اسکے نتیجے میں اللہ کا ایک اہم حکم لایعنی بن کر رہ گیا ہے۔لندن میں رہنے والے مفتی عتیق الرحمن سنبھلی نے مفتی تقی عثمانی کو خط لکھ دیا تھا کہ ”عورت کے حق مہر کا مقصد کیاہے؟۔ یہ معاوضہ ہے یا پھر کچھ اور؟۔ بعض آیات میں اس کو اجر سے تعبیر کیا گیا۔ جس کے جواب میں مفتی تقی عثمانی نے لکھا کہ ”بندہ ناچیز کے نزدیک یہ ایک اعزازیہ ہے”۔ حالانکہ ایک عورت کے تحفظ کی یہ ضمانت ہے۔ مفتی تقی عثمانی کے ایک بھتیجے کی بیوی فوت ہوگئی تو ان کے ایک مرید اور عقیدت مند نے اپنی بیٹی دے دی اور پھر اس نے چھوٹے بچے بہت مشکل سے پالے اور بچوں کی اپنی ماں نے دوسرے شوہر سے شادی کی تھی۔ جب اسکے شوہر کا انتقال ہوگیاتو اس کو دوبارہ گھر میں لایا گیا اور اس بے چاری کو باپ کے گھر جانے کے بعد پیغام دیا گیا کہ واپس آنے کی ضرورت نہیں ہے تمہیں طلاق دی جاچکی ہے۔ وہ عورت ابھی کسم پرسی کی زندگی گزاررہی ہے اور کسی سہارے کی تلاش میں ہے۔ اگر حق مہر شوہر کی حیثیت کے مطابق ہو تو پھر کسی خوشخال گھرانہ سے طلاق شدہ عورت کو اس گھرانے کے مطابق بڑی مقدار میں اتنی رقم مل جاتی کہ رشتہ ٹوٹنے پر زیادہ غم نہ ہوتا۔
جب ہاتھ لگانے سے پہلے نصف حق مہر فرض ہے تو استعمال کے بعد کتنا حق مہر ہونا چاہیے؟۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں سب کچھ واضح کردیا ہے۔ اس مرتبہ کا عورت مارچ اسلام آباد ”ماہ رنگ بلوچ” کے نام پر رکھا گیا تھا۔ ایک وقت تھا کہ جب ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور سمی دین بلوچ نے ”عورت مارچ” کے خلاف سخت مؤقف کا اظہار کیا تھا لیکن جب ”عورت مارچ” والوں نے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا ساتھ دیا تو پھر غلط فہمیاں بھی دور ہوگئی ہیں۔ قوم پرست، عورت مارچ اور کامریڈ لوگ سمجھتے ہیں کہ مذہبی طبقہ ریاست ، روایتی اقدار اور سامراجیت کیلئے ہی استعمال ہوتا ہے اسلئے ان سے قدرے فاصلہ اور نفرت رکھتے ہیں لیکن اسلام ایسا ہرگز نہیں ہے البتہ مولوی استعمال ہوتاہے۔
ماما قدیر بلوچ نے ایک بلوچ سے کہا کہ نوشتۂ دیوار اخبار پڑھ لیا کرو،تو بلوچ نے بتایا کہ ہم ژوب میں ہینڈ پمپ لگاتے تھے تو ایک پشتون نے کہا کہ ” ہمیں اس کی ضرورت نہیں اسلئے کہ جب20،25لاکھ میں عورت خریدیں گے تو گھر میں اس کو بٹھا کر نہیں کھلاسکتے۔ پانی بھی لائے گی اور کام کاج بھی وہ کرے گی۔ اتنی زیادہ رقم پھر ہم کس لئے خرچ کرتے ہیں؟”۔
علماء ومفتیان نے ”درسِ نظامی ” اور ”نصاب تعلیم” میں ان تمام حقوق کو پامال کردیا ہے جو اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر ان کو دئیے ہیں۔ ہم افراد اور مخصوص قوموں کی بات نہیں کرتے۔ مجھے اطلاع ملی کہ حاجی ہمش گل محسود ( تبلیغی جماعت والے) نے مفت میں اپنی بیٹی دینے کی پیشکش کی ہے۔ انہوں نے اپنی کوئی ایک بیٹی بھی نہیں بیچی بلکہ علماء اور دیندار طبقے کو مفت میں ہدیہ کے طور پر دی ہیں۔ حالانکہ نبیۖ سے اللہ نے فرمایا ہے کہ کوئی بھی عورت اپنے آپ کو آپ کے علاوہ ہبہ نہیں کرسکتی۔ تبلیغی جماعت والے علماء نہیں ہوتے لیکن اچھے لوگ دین پر کچھ نہ کچھ عمل کی کوشش کرتے ہیں۔ عورت کو مفت میں دینا بھی مسئلے کا حل نہیں ہے۔PTMکے منظور پشتین نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ مفت میں اپنی بیٹیاں اور بہنیں دے گا۔ خلوص اپنی جگہ لیکن مسائل کا حل خلوص کیساتھ علمی اور معاشرتی حل ہے۔
میری ایک گھر والی سندھی اور دوسری بلوچ ہے۔ جب میں سندھی گھر والی کو کراچی سے اپنے گھر پختونخواہ لے گیا تو اس کو مذاق میں کہا گیا کہ تمہارے گھر والوں نے مفت میں تمہیں دیا ہے جس کے جواب میں اس نے کہا تھا کہ ”میں انمول ہوں۔ عورت کی کوئی قیمت ہوتی ہے اور عورت بکنے کی چیز ہے؟”۔
شادی مرد کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور عورت کی بھی لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ جب شادی ناکام ہوتو پھر عورت کو نقصان ہوتا ہے۔ اس کا ازالہ کرنے کیلئے اللہ نے عورت کا حق مہر اپنی وسعت کے مطابق معروف طریقے سے رکھا ہے۔ کل جب شوہر طلاق دے یا عورت خلع لے تو پھر اس میں عورت کو مکمل تحفظ بھی حاصل ہو۔ مولوی نے ہر چیز کو الٹا ہی لیا ہے۔ جب حق مہر مرد پر فرض کردیا ہے اور ہاتھ لگانے سے پہلے بھی وسعت کے مطابق حق مہر رکھا ہے اور مقرر کردہ حق مہر کا نصف فرض قرار دینے کے بعد اتنی وضاحت کردی ہے کہ اگر عورت نصف میں سے کچھ معاف کردے یا مرد نصف سے زیادہ دے تو اس کی گنجائش ہے لیکن جس کے ہاتھ میں نکاح کا گرہ ہے مناسب یہی ہے کہ وہ حق سے زیادہ دیدے ۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ معاملہ یہاں خلع کا نہیں بلکہ طلاق کا ہے اور طلاق کا اقدام مرد کررہاہے تو مرد سے اچھے کی توقع رکھنے کی ضرورت ہے ۔ لیکن ان الفاظ کو پکڑ کر مولوی طبقے نے قرار دیا ہے کہ طلاق صرف اور صرف مرد کا حق ہے۔ عورت کو خلع کا حق اللہ نے نہیں دیا ہے۔ پھر تعبیرات کیلئے جہاں اللہ نے خلع واضح کردیا ہے اس کو بھی ماننے کیلئے تیار نہیں ہے۔ آیت19النساء اور جہاں خلع مراد ہونہیں سکتا آیت229البقرہ ۔ وہاں آیت میں خلع مراد لیا ہے۔ عورت مارچ کی خواتین نے اگر قرآن کی واضح تعلیمات کو سمجھ لیا اور اس کو اٹھایا تو پھر ساری دنیا میں لوگ قرآن وسنت کی تعلیمات کو آئیڈیل قرار دیکر عورت کے حقوق کا ڈنکا بجادیں گے۔ ہم مسلسل لکھ رہے ہیں لیکن جس دن بھی اس طرف عورت مارچ، علماء ومفتیان اور عوام کی توجہ ہوئی تو یہ ایک بڑا انقلاب ہوگا۔ ایک عورت کا شوہر ایک ہی ہوتا ہے لیکن اس کا ایک باپ، کئی بھائی ، بیٹے،چچا،ماموں اور قبیلے کے حضرات ہوتے ہیں جو اس کو تحفظ دینے کیلئے اٹھ سکتے ہیں۔
پٹھان نے عورت کی قیمت رکھ کر اس کو خلع کے حق سے بھی محروم کردیا ہے لیکن پنجابی نے جہیز دے کر بھی عورت کو خلع کے حق سے محروم کیا ہے۔ حق مہر عورت کا حق ہے تاکہ اس کا کوئی استحصال معاشرے میں نہ ہو۔ جب میاں بیوی خوشی سے اپنی زندگی گزار رہے ہوں تو پھر عورت کی طرف سے حق مہر میں کچھ معاف کیا جائے تو اس کو خوشی خوشی کھانے کی اجازت ہے۔
ہمارے ہاں معاشرے میں حق مہر کے اندر اعتدال نہیں ۔ پشتون حق مہر کے نام پر عورت بیچ دیتے ہیں اور پنجابی جہیز کے ساتھ ہبہ کردیتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں عورت کا استحصال اسلئے ہوتا ہے کہ مولوی نے حق مہر کی افادیت ختم کردی ہے۔
حکومت ،ریاست ، عدالت اور اپوزیشن عمران خان کی بیگم بشریٰ بی بی کے درمیان عدالتی فیصلہ افہام وتفہیم کیلئے بہت بڑی بنیاد بن سکتا ہے۔ جس سے شیعہ سنی اور حنفی واہلحدیث میں بھی قربت آسکتی ہے اور1973کے آئین میں یہ پہلی رحمت کی بارش بن سکتی ہے۔ عدالت کے جج نے جو سزا دی ہے اصل وجہ کچھ بھی ہو لیکن شیعہ سنی،حنفی اہلحدیث اور تمام مذہبی طبقات کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ”عورت عدت میں کسی اور سے نکاح نہیں کرسکتی ہے اور قرآن وسنت میں عدت کے اندر نکاح سے روکا گیا ہے اور شوہر کو عدت میں رجوع کا حق حاصل ہے”۔
جب خاور مانیکا نے عدالت میں بیان دیا کہ اس نے طلاق دی اور عدت میں اس کا حق رجوع مجروح ہوا ہے تو جج نے اس پر بشریٰ بی بی اور عمران خان دونوں کو7،7سال قید اور5،5لاکھ روپے جرمانہ کی سزا دی ہے۔ اصل مسئلے کے کچھ حقائق کھل کر سامنے آئے ہیں۔ مفتی عبدالقوی تحریک انصاف علماء ونگ کے صدرتھے۔ اس نے بتایا کہ خاورمانیکا نے کہا تھا کہ اس نے تین طلاقیں دی ہیں اور اب حلالہ کے بغیر رجوع ہوسکتا ہے؟۔ ظاہر ہے کہ بشریٰ بیگم حلالہ کی لعنت کیلئے کبھی آمادہ نہیں ہوگی۔ خاورمانیکا نے کہا ہوگا کہ عدت قرآن کے مطابق گھر میں گزارلو اور بشریٰ بی بی نے عدت پوری کی ہوگی اور پھر گھر سے نکل کر اپنے گھر میں منتقل ہوئی ہوگئی۔ خاور مانیکا نے بتایا کہ5ماہ سے ناراضگی چل رہی تھی اور اس کو اس بات پر بڑی حیرانگی ہوئی کہ جب بشریٰ بی بی نے تحریری طلاق کا مطالبہ کیا۔ لیکن اس کے کہنے پر اس نے طلاق لکھ کر دے دی۔ اس تحریری طلاق سے پہلے ظاہر ہے کہ شرعی عدت پوری ہوچکی تھی لیکن قانونی تقاضا پورا کرنے کیلئے طلاق مانگی گئی اور اس کے ڈیڑھ ماہ بعد عمران خان سے اس کا نکاح مفتی سعید خان نے پڑھادیا۔ عدت اس سے پہلے پوری ہوچکی تھی لیکن تحریری اور قانونی نکاح کی عدت پوری نہیں ہوئی تھی۔ جب تحریری طلاق کی عدت پوری ہوگئی تو دوبارہ بھی قانونی نکاح ایک مرتبہ پھر مفتی سعید خان نے پڑھایا تھا۔ اس کی خبر اسی وقت عمر چیمہ نے جیونیوز پر دے دی تھی۔
جب عمران خان اور بشریٰ بی بی کی تقدیر بدلنے کی مصنوعی کوششوں کا آغاز ہوگیا تو خاور مانیکا منظر عام سے غائب کئے گئے اور پھر اس نے شدید دباؤ کے تحت اپنی کرپشن اور کیسوں کا مسئلہ بچانے کیلئے عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف سلطانی گواہ بننے کا فیصلہ کرلیا اور یہ کوئی ڈھکا چھپا معاملہ بھی نہیں ہے۔
خاور مانیکا نے عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف گواہی دی کہ انہوں نے عدت میں نکاح کرکے میرا حق رجوع مجروح کیا ہے اور نکاح خواں اور گواہ بھی سامنے گئے تو جج نے ٹھوس ثبوت مہیا ہونے پر بے دھڑک اپنی صوابدید پر سزا دیدی اسلئے کہ عدالت میں تحریری طلاق اور نکاح خواں اور گواہ معتبر ہیں۔
اگر قرآن وسنت کی طرف رجوع کیا جائے تو علماء ومفتیان کے اندر اختلافات کے پہاڑ بھی گر سکتے ہیں اسلئے کہ طلاق کی عدت اور خلع کی عدت میں بھی فرق ہے۔ جب خاورمانیکا سے بشریٰ بی بی نے تحریری طلاق کا مطالبہ کیا تو یہی خلع ہے اور خلع کی عدت ایک حیض یا ایک مہینہ ہے۔ تحریری طلاق کے ایک ماہ بعد نکاح ہوا تھا اسلئے عدالت خلع کے مطابق نکاح کے درست ہونے کا فیصلہ دیدے اور ان سزاؤں کو معطل کیا جائے۔ ہمارا آئین قرآن وسنت کا پابند ہے۔ سعودی عرب کی عدالتوں میں بھی خلع کیلئے حدیث کے مطابق ایک ماہ کی عدت ہے۔ بشریٰ بی بی کے حق کیلئے اس فیصلے سے بہت ساری خواتین کا مسئلہ حل ہوگا اور پاکستان میں ریاست مدینہ زندہ ہوجائے گی۔
قرآن میں سب سے پہلی عدت کا بیان ناراضگی کی صورت میں4مہینے ہے۔ آیت226البقرہ۔ خاور مانیکا کے بقول بھی ناراضگی کی عدت پوری ہوگئی تھی۔ میں اپنی کتابوں اور اخبار ی کالموں میں اس پر تفصیل سے دلائل بھی دے چکا ہوں اور اسکی وجہ سے عوام الناس کا قرآن وسنت کی طرف رجوع بھی ہوگا۔ علماء ومفتیان بھی اپنے باطل اختلافات، مسالک اور فرقہ پرستی کی آگ سے اسکی وجہ سے بہت جلد نکلنے میں کامیاب ہوگی۔
اسلام کا معاشی اور معاشرتی نظام واحد ذریعہ ہے جو بحران سے پاکستان ، عالم اسلام اور پوری دنیا کو نکال سکتا ہے۔ ایک معروف شخصیت شاہ ولی اللہ سے برصغیر پاک وہندکے علماء اور مشائخ بڑی عقیدت ومحبت رکھتے ہیں۔ جب انہوں نے پہلی مرتبہ قرآن کا فارسی میں ترجمہ کیا تو واجب القتل کے فتوے لگ گئے اور ان کو کچھ عرصہ تک عوام سے بھی روپوش ہونا پڑا تھا۔ آج قرآن کے تراجم بالکل عام ہیں۔ علماء سے زیادہ جدید مفکرین مولانا سیدابولاعلیٰ مودودی، ڈاکٹر اسرار احمد اور جاوید غامدی پر پڑھے لکھے لوگ اعتماد کرتے ہیں۔ اسلئے کہ علماء ومفتیان کی فکر کو انہوں نے سلیس اور عام فہم زبان میں عام کردیا ہے۔
میں نے مدارس کی خاک چھانی ہے اور مولانا بدیع الزمان اور بڑے اچھے اچھے اساتذہ کرام کی خدمت میں زانوتلمذ طے کیا ہے اور ان سے نصابی تعلیم میں بڑی بڑی غلطیوں کی داد بھی پائی ہے اور ان سے مزاحمت اور امید کے آداب پائے ہیں۔
خلع کے بارے میں قرآنی آیات229البقرہ نہیں ہے۔ یہ بہت بڑا مغالطہ ہے اور اس کی وجہ سے مذہبی طبقات جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ خلع کے بارے میں سورہ النساء آیت19ہے اور اس میں نہ صرف عورت کو خلع کا حق دیا گیا ہے بلکہ مالی تحفظ بھی دیا گیا ہے جبکہ آیات20،21میں پھر مردوں کو طلاق کا حق اور عورت کو مالی تحفظ دیا گیا ہے۔ اگر عورت کے حقوق کی علمبردار ہدی بھرگڑی وغیرہ نے تھوڑی سی توجہ دیدی تو پورے سندھ، پاکستان ، عالم اسلام اور پوری دنیا میں ایک زبردست انقلاب برپا ہوجائے گا۔ مغرب سے بھی زیادہ اسلام نے عورت کو حق دیا مگر مولوی نے چھین لیا ہے۔
حسن الہ یاری نے کہاہے کہ حضرت عمر نے ایک ساتھ تین طلاق پر فیصلہ دے کر حلالہ کیلئے راستہ کھول دیا ہے حالانکہ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کسی بھی طلاق کے بعد شوہر کے یکطرفہ رجوع کا اختیار اللہ نے قرآن میں ختم کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر نے تنازعہ کا فیصلہ قرآن کے مطابق کیا اور حضرت علی نے بھی یہی کیا تھا کہ جب شوہر نے عورت کو حرام قرار دیا اور عورت رجوع کیلئے راضی نہیں تھی تویہ فیصلہ دیدیا کہ شوہر رجوع نہیں کرسکتا۔ صحابہ کرام کے مسالک میں کوئی فرق نہیں تھا اور قرآن سے احادیث صحیحہ بھی متصادم نہیں ہیں لیکن علماء وفقہاء اور فرقہ واریت کے ناسور نے قرآن وسنت کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ جس دن ہمارے معاشرتی نظام کو قرآن وسنت کے مطابق بنادیا تو غیرمسلم بھی اپنے لئے اسی فطری نظام کو پسند کریںگے اور دینا میں ایسی خلافت علی منہاج النبوة قائم ہوگی کہ آسمان وزمین والے دونوں کے دونوں اس سے خوش ہوں گے۔ عورت آزادی8مارچ تک محدود نہیں رہے گا بلکہ یہ مزاحمتی تحریک خوشیوں کے شادیانے بجانے میں مگن ہوگی۔
عورت میں اللہ نے اپنی عزت کے تحفظ کی فطرت کا مادہ رکھا ہے۔ حٰفظٰت للغیب بما حفظ اللہ ” وہ غیب میں اپنا تحفظ کرتی ہیں جو اللہ نے ان میں یہ فطری مادہ رکھا ہے”۔
پوری دنیا میں عورت آزادی مارچ کا دن منایا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں اسکے خلاف بہت غلیظ پروپیگنڈہ ہے کہ انکا مقصد جنسی بے راہ روی ہے۔ حالانکہ یہاں کب اس پر پابندی ہے؟ پھر دنیا بھر میں کیوں منایا جاتا ہے جن کو جنسی آزادی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے؟۔ جب اللہ نے آدم وحواء کو ایک شجرے سے منع کیا اور دونوں نے نافرمانی کردی ۔ جس کی وجہ سے ان کی شرمگاہیں کھل گئیں اوروہ جنت کے پتے ان پر چپکانے لگے تو اللہ نے اس کا ذمہ دار حضرت حواء کو نہیں حضرت آدم کو ٹھہرایا اور فرمایا:عصٰی آدم ربہ فغویٰ ” آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی تو حد پار کردی”۔ اسلئے عورتوں کی اس تحریک کو غلط رنگ دینا انتہائی قابل مذمت ہے۔ عورت کو باعزت مقام دینا مرد کی اپنی عزت ہے۔ پورے قرآن میں عورت پر کوئی ایسا جبر نہیں ہے جو مذہبی طبقات اپنی طرف سے فرض کئے ہوئے ہیں اور عورت اس جبر کی مخالفت میں اپنی سرتوڑ کوشش کررہی ہے تو یہ اس کا حق ہے۔ موٹی موٹی باتیں بھی مولوی کی سمجھ نہیں آرہی ہیں تو عورت کا اپنے حق کیلئے نکلنا بالکل قابل فہم بات ہے۔

(نوٹ: اس پوسٹ کے ساتھ عنوان ” ہدیٰ بھرگڑی کا تفصیلی ویلاگ” کے تحت پوسٹ پڑھیں۔)

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ مارچ2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

عورت آزادی مارچ کو اسلام آباد پریس کلب سے ڈی چوک تک جانے کی اجازت نہیں دی گئی ۔ ہدیٰ بھرگڑی کا تفصیلی ویلاگ

عورت آزادی مارچ کو اسلام آباد پریس کلب سے ڈی چوک تک جانے کی اجازت نہیں دی گئی ۔ ہدیٰ بھرگڑی کا تفصیلی ویلاگ

کیا ڈی چوک کی سڑک پر جوسیاست ہوتی ہے اس پرصرف مین پولیٹیکل پارٹیز، مولوی اور مردوں کا حق ہے؟۔

یہ جانیںکہ عورت ماچز کو جواس قدر ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑرہاہے تو اس کامطلب ہے کہ کچھ اچھاکررہی ہیں!

سلام ساتھیو ! ایک اور سال2024گزرا ہے اس سال کا عورت مارچ بھی اسلام آباد میں ہو چکا۔ تو اسکے اوپر خاص طور پر ریاستی اداروں نے جس طریقے سے عورت مارچ کے ساتھ سلوک کیا اس پہ روشنی ڈالنے کیلئے یہ ویلاگ بنا رہی ہوں۔ ہم نے8مارچ کو اسلام آباد میں ریاستی جبر کا ایک اور چہرہ دیکھا8مارچ کے دن2024جبکہ کوئی کیئر ٹیکر گورنمنٹ نہیں ہے اب ایک آپ کی سو کالڈ الیکٹڈ گورنمنٹ پاور میں ہے یہ وہ گورنمنٹ ہے جو دعوی کرتی ہے کہ بہت پرو وومن گورنمنٹ ہے جسکا پرائم منسٹر شہباز شریف ہے ،جس نے پنجاب کے اندر پہلی بار ایک خاتون وزیراعلی مریم نواز کو منتخب کیا۔ صدر آصف علی زرداری ہیں ۔اس گورنمنٹ میںخواتین کو پریس کلب سے ڈی چوک جانے تک کی اجازت نہیں دی گئی اور وہ اجازت کیوں نہیں دی گئی اسکے پیچھے کی جو وجوہات ہیں وہ آپ کے سامنے رکھنے چلی ہوں تاکہ یہ ویڈیو لاک ہو جائے اور ڈاکیومنٹ ہو جائے کہ خواتین کی تحریک نے عمران خان گورنمنٹ میں جس طرح کے مسائل کا سامنا کیا وہی کے وہی مسائل ہمارے آج بھی ہیںPMLNکی گورنمنٹ کے اندر ۔عورت مارچ ایک فیمینسٹ تحریک ہے اس نے ینگ خواتین فیمینسٹ اور پرانی فیمینسٹ کے ا سٹرگل کو آگے بڑھاتے ہوئے پچھلے5سال میں ملکی سطح پربڑے بڑے احتجاج اور مارچز کیے۔ ان میں ہر طرح کا مسئلہ ڈسکس ہوا، جو ڈیمانڈز پیش کی گئی ان ڈیمانڈز نے اکنامک جسٹس سے پیریڈ پاورٹی تک جبری گمشدگی اور ٹارگٹ کلنگ سے خواتین کا سیاست میں شرکت کا حق،تعلیم صحت اور جو جنسی تشدد ہے ان کو ہائی لائٹ کرنے کی کوشش کی۔ ہم اس موومنٹ کو اسلئے سپورٹ کرتے ہیں کہ یہ وہ واحد موومنٹ ہے جس نے تمام مسائل جو پاکستان کی عوام، خواتین، محنت کش طبقہ، مزدور کسان کے تمام مسائل کو حل کر کے ایک بہتر معاشرے کی تشکیل کر سکتے ہیں، ایک ایسا معاشرہ جوبرابری پر مبنی ہو، جسمیں استحصال اور کسی بھی قسم کا جبر نہ ہو۔ عورت مارچ کی موومنٹ نے ان تمام ایشوز کو مین سٹریم پبلک ڈسکورس کا حصہ بنایا۔ تمام پرابلمز کو ہائی لائٹ کیا، نیشنل لیول پہ جن کو پہلے عوامی سطح پر ڈسکس نہیں کیا جاتا تھا۔یہ موومنٹ پچھلے5سال سے کئی قسم کے مسائل کا شکار ہوئی۔ ایک سال توہین رسالت کے کیسز کیے گئے۔ ایک سال پتھر برسائے مولویوں نے۔ ایک سال لاٹھی چارج کا سامنا کرنا پڑا اور اس سال بھی ریاست اپنی پوری مشینری کو موبلائز کر کے لا ئی تاکہ اسلام آباد پریس کلب میں مارچ کرنے نہ دیا جائے۔ خواتین پولیس کی بھاری نفری کھڑی کر دی گئی اور انکے پیچھے کھڑے کر دیے گئے مرد جو پولیس افسر تھے ۔5سالوں میں اور اس سال بھی بالکل اسی وقت اسی شہر میں ڈی چوک پر مولویوں نے بہت کامیاب جلسے کیے۔ اسلام آباد پولیس اور ایڈمنسٹریشن کی سرپرستی میں اینٹی عورت مارچ ، اینٹی ویمن پروپیگنڈہ کو فروغ دیا۔5سالوں میں خواتین جو مارچز میں حصہ لیتی تھی انکے پر وائلنٹ ڈیتھ تھریٹس دیے گئے سٹیج سے۔ مولوی اور انکی سپورٹر خواتین وہاں پہ آئی تھیں حیاء مارچز میں ہم نے ان کو مائیک پہ یہ کہتے ہوئے بھی سنا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ان عورتوں کیساتھ وہ سلوک ہوجو نور مقدم جیسی کئی اور خواتین کیساتھ ہوا ہے۔ مولویوں نے حیا ء مارچ کا جو سین کرییٹ کیا اسکو ریاست کی بھرپور سپورٹ ملی تھی تو ہمیں یہ سوال پوچھنے کی ضرورت ہے کہ اتنے زیادہ رگڈ الیکشنزمیں بھی مولویوں کی مذہبی بنیاد پرست سیاسی جماعتیں عوام کی سپورٹ لینے سے تو بہت بری طرح ناکام ہوئی ہیں انہیں ایک سیٹ تک بڑی مشکل سے ملتی ہے جب عوام مولوی اور مذہبی فنڈامینٹلسٹ گروپس کو رد کرتی جا رہی ہے تو کیا وجہ ہے کہ ریاست مولوی کی سرپرستی نہیں چھوڑ رہی؟۔ کیا وجہ ہے کہ ریاست مولوی کے ان تمام عورت دشمن پروپیگنڈہ یا عورت دشمن نیریٹو کی سرپرستی کیوں نہیں چھوڑ رہی ہے؟۔ اسلام آباد اور دوسرے صوبوں میں بھی ہم نے نوٹس کیا کہ ہر سال8مارچ کو مولوی موبیلائز ہوتا ہے مولوی اپنی خواتین بھی لیکر آتے ہیں وہ برقعہ میں آتی ہیں وہ ڈنڈے لیکر آتی ہیں وہ یہ کہہ کے آتی ہیں کہ ہم آج ان عورتوں کو سیدھا کریں گی انکو ڈنڈے ماریں گی ۔ اسلام آباد پولیس ،انتظامیہ اور جو پورے سسٹم کا حصہ ہیں وہ تمام لوگ جو انہی ورکنگ کلاس عورتوں کی سیلریوں کے کٹے ہوئے ٹیکسز سے سیلری اٹھاتے ہیں وہی انہی عورتوں پہ8مارچ کے دن تشدد کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ریاست آخر ان مولویوں کی سرپرستی کیوں نہیں چھوڑ رہی؟ ہمیں جواب سمجھ میں آجاتا ہے کہ ایسی ریاست جس میں ایک عورت کو معافی منگوائی جائے کہ اس نے اپنی قمیض پہ حلوہ لکھا ہوا پہنا تھا جس پہ4،5یا چلیں5یا50جاہل مولوی ایک مسلمان عورت کو اس طرح ہراساں کر سکتے ہیں اس کو قتل کی دھمکیاں دے سکتے ہیں اسے مارنے پہ تل سکتے ہیں اس معاشرے میں اور پھر اسی معاشرے میں جہاں خیبر پختونخواہ کی اسمبلی جہاں پختون رہتے ہیں وہ پختون جو عورتوں کی عزت کرتے ہیں اور عورتوں کو اپنی عزت سمجھتے ہیں اسیKPKکی اسمبلی کی خاتون منتخب نمائندے کی ایک رات کی قیمت پوچھی جا رہی ہے اور اس کی بولی لگائی جا رہی تھی۔ کوئی ایکشن اس آدمی یا ان مردوں کے خلاف نہیں لیا گیا۔ ایسی ریاست جسکے اندر سورٹ اور سسی لوہار کے باپ کو دن دیہاڑے قتل کر دیا جاتا ہے وہ خواتین دونوں بہنیں سڑک پہ کتنے دن احتجاج کرتی ہیں کہ ہمیں جواب دیا جائے کہ کیوں ہمارے والد کو قتل کیا گیا کیونکہ وہ پروگریسو سیاست اور حقوق کی بات کرتے تھے وہ مزدور، محنت کش طبقے کی بات کرتے تھے اسے دن دیہاڑے قتل کر دیا گیا اور اسے کوئی انصاف نہیں ملا۔ وہ ریاست جسکے اندر بلوچ کئی کئی نسلیں ان کے کئی مرد کب سے گمشدہ ہیں ان کی عورتیں یہ تک نہیں جانتیںکہ ان کا شادی شدہ اسٹیٹس کیا ہے ؟،کیا وہ بیوائیں ہیں ؟،کیا وہ اپنے شوہروں کا اب بھی انتظار کریں؟ وہ کئی لڑکیاں جن کی منگنیاں ہوئی تھیں وہ آج تک ان آدمیوں کے انتظار میں بیٹھی ہیں کہ وہ کب آئیں گے؟۔ تاکہ وہ اپنی زندگی کو آگے بڑھا سکیں۔ وہ ریاست جس میں عورتوں کی زندگی رک چکی ہے جس میں ہر دن ہر طرح کا تشدد عورت پر ہوتا ہے کبھی قتل کبھی اغواء ہوتی، کبھی چہرے پہ تیزاب پھینکا جاتا ہے کبھی تشدد کیا جاتا ہے۔ ایسی ریاست میں ہم نے کبھی مولوی کو کوئی مارچ نکالتے ہوئے نہیں دیکھا ہم نے کبھی کسی مولوی کو اتنے برے طریقے سے جو خواتین کو ٹریٹ کیا جاتا ہے پورا سال ہم نے ان کو کبھی سڑکوں پر نہیں دیکھا کہ وہ باہر نکلیں وہ آکے اپنی آواز اٹھائیں وہ اسلام کی وہی تعلیمات آ کر لوگوں کو بتائیں کہ جن میں کہا گیا ہے کہ آپ خواتین پہ ہاتھ نہ اٹھائیں ،خواتین اور بچوں کیساتھ اچھا سلوک رکھیں۔ وہ ریاست جسکے مدرسوں میں معصوم بچوں سے زیادتیاں ہوں۔ گھروں میں کام کرنے والی غریب خواتین کیساتھ زیادتی ہو ان کا استحصال ہو۔ ہم نے کبھی کسی مولوی کو کسی ریاستی ادارے کو اس طرح کے گھناؤنے جرائم کی مخالفت کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ ہم نے کوئی ایسے اقدامات نہیں دیکھے کہ جو اٹھائے گئے ہوں ان عورتوں کی بقائ، انکے وقار اوران عورتوں کی زندگی کے حق کیلئے۔ ہم نے دیکھا ہے کچھ بھی ایسا نہیں۔ اس سال ریاست نے بڑا اور گھناؤنا کھیل کھیلا۔8مارچ کو اگر آپ کسی کو فون کریں گے تو آپ کو ایک ریکارڈڈ میسج سنائی دے گااور وہ یہ ہے کہ ”یہ خواتین کا عالمی دن ہے اس خواتین کے عالمی دن پہ آئیں خواتین کو ڈیجیٹل تعلیم دیں۔ یہ تعلیم دیں کہ ان کواس معیشت کا اچھا حصہ بنائیں”۔جس سے ہمیں یہ لگتا ہے کہ ریاست تبھی عورت کے بارے میں سوچتی ہے کہ جب انہیں عورت کی محنت جو گھر میں کر رہی ہے اس کا تو کوئی اجر نہیں ملتا مگر وہی محنت جب پبلک میں آکر کریں اکانومی کو آ کر بوسٹ کرے یہ تمام ،تو مطلب عورت کا استعمال جو معاشرے میں رہ چکا ہے اور پاکستانی ریاست میں رہ چکا ہے وہ صرف یہ ہے کہ آپ بچے پیدا کریں آپ گھر کا چولہا چلائیں آپ کھانے پکائیں آپ انکے کپڑے دھوئیں، کھانے پکا کے دیں۔ یہ بیمار ہوں ان کی تیمارداری کریں ۔آپ بس یہی کر سکتی ہیں آپ سیاست میں آئیں گی، بولی لگائی جائے گی اسمبلی فلور پہ۔ آپ اپنے من پسند کپڑے پہن کے سڑکوں پہ نکلیں گی تو آپ کا سر تن سے جدا کیا جائیگا۔ آپ اپنے رائٹ ٹو پروٹیسٹ کو استعمال کرنے کیلئے8مارچ کو سڑک پر نکلیں گی آپ کا راستہ روکا جائے گا ۔ہاں اگر یہی خواتین پی ٹی ائی یاPMLNیا اگر پیپلز پارٹی کے جلسے کیلئے نکلتیں تو ان کو کسی قسم کی دشواری فیس نہیں کرنی پڑتی۔ اگر عبائے پہن کر سڑکوں پر لاٹھیاں لے کے نکلیں تو بھی ان کو کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ لیکن یہی خواتین اگر پیس فل پروٹیسٹ کریں اپنے پلے کارڈز اٹھا کر سڑک پہ نکلیں ایک سیاسی پلیٹ فارم جسے پریس کلب ٹو ڈی چوک ہم ایک سیاسی پلیٹ فارم سمجھتے ہیں اس کو ایکسس کرنے نکلیں گی تو ریاست کی پوری مشینری وہاں پہنچ جائے گی ان عورتوں کو ٹارچر کرے گی ان کو ایموشنلی اب یوز کرے گی ان کو ٹراما دے گی راستے روکے جائیں گے ،خاردار تاریں بچھائی جائیں گی ۔ عورت مارچ اسلام آباد کیساتھ یہ پچھلے5سال سے ہو رہا ہے اور اس سال بھی ریاست نے اپنا گھناؤنا پدر شاہانہ عورت دشمن چہرہ تھا جو اس کی پالیسی تھی وہ سامنے رکھی ۔ اس سال لگتا ہے کہ ہمیں ڈی چوک اسلئے نہیں جانے دیا گیا کیونکہ عورت مارچ کے پوسٹر پر ایک بلوچ عورت تھی جس نے اپنے گلے میں فلسطین کا کفایہ پہنا ہوا تھا یہ اس سال اسلئے کیا گیا کہ ویسے تو میڈیا بلوچوں کی مزاحمت کو بلیک آؤٹ کر سکتی ہے پشتونوں، سندھیوں کی جو تحریک کا مین سٹریم میڈیا نے بلیک آؤٹ کیا ہوا ہے گلگت بلتستان میں جو تحریکیں چل رہی ہیں اسکا میڈیا نے بلیک آؤٹ کیا ہے لیکن عورت مارچ کیونکہ متنازعہ ہے اس پہ ریٹنگ ملتی ہے کیونکہ اس کو کور کرنا بہت ضروری ہے تو کیوں نہ ان کا راستہ، ان کی آواز اور انکا جو سیاسی حق ہے اس سے روکا جائے کیونکہ کنٹروورشل ہے اس کو کور کرنا بہت ضروری ہے تو کیوں نہ ان کا راستہ ان کی آواز اور ان کا جو سیاسی حق ہے اسے روکا جائے کیونکہ یہ اب ان عورتوں کیساتھ جڑ رہی ہیں یا ان عورتوں کی آواز اٹھا رہی ہیں جس کا اس قوم کی ریاست نے بہت برے طریقے سے کئی عرصے سے استحصال کیا ہوا ہے۔ اس سال ریاست نے صرف عورت مارچ یا عورتوں سے دشمنی نہیں نکالی اس بار ریاست نے بلوچ دشمن اپروچز کو بلوچ دشمن پالیسی کا پورا کا پورا بھرپور نفاذ کیا اور انہوں نے عورت مارچ اسلام آباد کو احتجاج کرنے نہیں دیا، ڈی چوک جانے نہیں دیا۔NOCہر سال ان سے مانگی گئی ہر سال انکار کیا گیا۔ ہر سال یہ کہا گیا کہ آپ پارک میں چلے جائیں، اسلام آباد سپورٹس کلب چلے جائیں۔ تو ہم ان سے یہ سوال تو ضرور کریں گے کہF9پارک، سپورٹس کلب میں آپTLPکے دھرنے کیوں نہیں کرنے دیتے؟۔PTI،PMLN، پیپلز پارٹی کے جلسے کیوں نہیں کرواتےF9پارک میں؟، یہ ڈی چوک، جو پولیٹیکل سپیسز ہیں جو سڑک پہ سیاست ہوتی ہے کیا اس پر صرف مین سٹریم پولیٹیکل پارٹیز ؟، یا صرف مولوی کا حق ہے ؟۔کیا یہ سڑکوں میں صرف مردوں کا ٹیکس ہے؟۔ یہ سپیس صرف مردوں کے ہیں؟ کیا یہ ریاست صرف مردوں کی ہے؟۔ یا یہ ریاست صرف اسی عورت اور اسی گروپ اور اسی سیاسی پارٹی کو اسپیس دے گی اپنی سیاست کرنے اپنی مزاحمت کرنے کا جو کہ پاکستانیت کا جو ایک کانسپٹ ہے جو ایلینٹ کرتا ہے انسان کو اپنی مادری زبان، اپنے کلچرل اور نسلی شناخت سے کیا وہ اسپیس صرف پاکستانیت کو ماننے والوں کو دیا جائیگا کیا وہی فیمینسٹ جدوجہد ریکگنائز ہوگی یا وہیں پہ ہی فیمینزم کیش کیا جائیگا جہاں پر بلوچوں کا پشتونوں کا سندھیوں کا گلگت بلتستان کا خیبر پختون خواہ کا وسیب کا جو مسائل ہیں جہاں ڈسکس نہیں ہوں گے؟۔ کیا وہ فیمن ازم یا وہ فیمینسٹ سٹرگل جو کہ نسلی شناخت کو نہیں مانتا یا صرف اسی کو ایکسس دیا جائیگا یا اس طرح کا بیانیہ ہم پہ تھوپا جائیگا کہ جس پہ ہم سے یہ ڈیمانڈ کی جائے کہ اگر تم لوگوں نے سیاست کرنی ہے سڑک پہ آنا ہے تو عورتوں کے مسئلے اٹھاؤ تو کیا بلوچ مردوں کا غائب ہونا عورتوں کا مسئلہ نہیں؟۔ کیا سندھی بچیوں کے باپ کا دن دیہاڑے قتل عورتوں کا مسئلہ نہیں؟۔ کیا عورتوں کا مسئلہ صرف جنسی جبر ہے؟۔ کیا انکا ایتھنک کلینزنگ یا جو ایتھنک انکے مسائل ہیں کیا ایک عورت صرف عورت ہے کیا وہ سندھی عورت نہیں؟ کیا وہ بلوچ عورت نہیں؟ کیا وہ قوم و نسلی شناخت کو بھول کر سیاست کرے تبھی مانی جائے گی؟۔ تبھی سپیس ملے گا ؟۔یا وہ فیمینسٹ تنظیمیں یا خواتین تحریک جو دفاعی بجٹ کیخلاف بولیں جو جنگی اور امپیریلسٹ وارز میں پاکستان جہاں حصہ بنتا ہے اسکے بارے میں بات کریں یا وہ تحریکیں جو ریکگنائز کرتی ہیں کہ کس طرح اس ملک میں جمہوریت کے نام پر فوج اپنی بربریت کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ کبھی ایک پارٹی کے پیچھے چھپتی ہے کبھی وہ دوسری پارٹی کے پیچھے چھپتی ہے اور ہماری سیاسی جماعتیں جن کو ووٹ دینے ہماری عوام سڑکوں پہ نکلتی ہے کیا وہ ووٹ ان کو دے رہی ہیں یا وہ ووٹ مولویوں کی سرپرستی کرنے والی اس فوج کو دے رہی ہے ؟۔ تو یہ تمام سوال ہیں کہ جنکے بارے میں سوچنا پڑے گا۔ جو سب سے بڑی بات ہے وہ یہ کہ کئی عرصے سے جتنے بھی میڈیااور سوشل میڈیا پر جس طرح کے پروپیگنڈے کیے گئے ان خواتین نے بہت سہا ہے ، کریکٹر اسیسینیشن سہی ہیں، ڈیتھ اور ریپ تھریٹس رہے ہیں ان کی ایک ایک پکچر کو جس طرح سے ڈاکٹر کر کے انکے پلے کارڈز کو چلایا گیا، کوئی کاروائی ریاست نے انکے خلاف نہیں کی تو ہمارے لیے یہ بہت جاننا ضروری ہے کہ جن جن کو ہم ووٹ کرتے ہیں جن کو ہم ریاست میں لیکر آتے ہیں وہ ریاست وہ سیاستدان آخر خواتین کے بارے میںکیا سوچتے ہیں اور ہمارے لیے کون سا پولیٹیکل سپیس چھوڑا ہے؟۔ عورت مارچز پریشر گروپ کے طور پہ کام کرتی ہیں ہم8مارچ کو اسی لیے نکلتے ہیں اور ہم نکلیں گے یہ جو انکے حربے یا جو پلاننگ یا جو عورت دشمن نظریہ ہے ان کا حل صرف مزاحمت ہے یہ غریب کی بات کرے گی، جبری ریاست کا گھناؤنا خونی چہرہ دکھائے گی۔ اگر خاردار تاریں لگانی، پتھر برسانے ہیں، توہین رسالت کے جھوٹے مقدمات کرنے ہیں۔ عورت مارچ اسلام آباد کا راستہ روکنے کیلئے5،6بڑی بڑی قیدیوں کی وین لائی گئی تاکہ خواتین کو گرفتار کیا جائے صرف اسلئے کہ وہ اپنا حق رائے رائٹ ٹو پروٹیسٹ ،رائٹ ٹو پیس فل اسمبلی استعمال کریں گی جو پاکستان کی آئین کا حصہ ہے۔ دستور میں جو حقوق آپ نے ہر کسی کو دیے۔ مولوی اسکا استعمال کر سکتا ہے، ریاستی ادارے، آپ کے مرداس کو استعمال کر سکتے ہیں تو پاکستان کی خواتین استعمال کیوں نہیں کر سکتی؟۔ آپ عورت مارچ کو سپورٹ کریں یا نہ کریں لیکن یاد رکھیے گا کہ جو مشینری ایک پیس فل پروٹیسٹ کو روکتی ہے وہی کل آپ کی سیاست کو روکنے کیلئے استعمال ہو گی۔ ہم پرپہلے بھی ریاستی جبر تھے اور ایسے فیمینسٹ نظریے کو آگے نہیں لیکر چلیں گے جو ہماری شناختیں چھینتا ہو۔ ہماری شناخت پر مبنی جو ہم پہ جبر ہو۔ یہی پاکستانی فیمینسٹ تحریکوں کا سب سے بڑا نکتہ ہے۔ ہم سامراجیت، ریاستی جبر، ہر طرح کی پالیسی کو اس نظرئے کو ، اس اپروچ کو جو عورت سے عورت ہونے کا حق چھینے، سیاست کا حق چھینے اور یہ توقع کرے کہ وہ عورت اپنی سیاست ریاست کی ڈکٹیشن پہ کرے گی ہم ایسی سیاست کو ایسی تحریک کو رد کریں گے۔ ایسی تحریک کا نہ حصہ بنیں گے نہ اپنی تحریک کو اس سانچے میں ڈھلنے دیں گے کہ جس میں ریاست ڈکٹیٹ کرے کہ کونسی بات کرنی ہے کونسی نہیں کرنی؟۔ آپ کی اپنی پولیٹیکل، فلاسفی اور آئیڈیولوجی ہے اس ریاست کی ڈکٹیشن میں کوئی فیمنسٹ تحریک نہیں چلی اور نہ وہ چلے گی۔ یہ ہماری نو آبادیاتی آگاہی ہے یہ ہماری نو آبادیاتی میراث جو انہوں نے بنائی ہوئی ہیں یہ ان سب کا توڑ فیمینس تحریک ہے۔ آپ سے گزارش ہے کہ حقائق کو سامنے رکھیں ان کو پروموٹ کریں اور صرف اور صرف یہ جانیں کہ اگر عورت مارچز کو اس قدر ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ عورت مارچز کچھ نہ کچھ بہتر اور کچھ نہ کچھ اچھا کہہ اور کر رہے ہیں۔ یہ کم عورتیں ہی سہی لیکن یہ نظریاتی طور پر بہت با اختیار ہیں یہ نظریاتی طور پر بہت سٹرانگ عورتیں ہیں اور جیسے ہم نے دیگر ممالک میں دیکھا کہ عورتوں نے کس طرح سے ریاستی جبر کا سامنا کیا ہے پاکستانی عورتوں کو فخر ہونا چاہیے کہ آپ کے ملک کے اندر بھی ایسی عورتیں ہیں جنہوں نے ریاست کو نہ صرف ٹکر کی ہے بلکہ ریاستی ادارے کی سرپرستی میں موجود مولوی جس کی سیاسی شروع ہوتی ہے عورت کو ایک بچہ بنانے کی مشین سمجھ کر ایک ایسی ان کو گونگی بہری عورت جو ان کو چاہیے یا جو ان کو پسند ہے یا ایسی عورت جو کہ صرف اور صرف ان کی بتائی ہوئی بات کو مان کر آنکھیں بند کر کے آگے بڑھے ہم عورت کی اس طرح کی شکل کو یا جو جینڈر کا ایک ڈائنمک بنایا گیا ہے کہ جب تک عورت غیر فعال نہیں ہوگی جب تک عورت روئے گی نہیں جب تک عورت مرد کی ڈکٹیشن میں نہیں آئے گی تب تک وہ عورت عورت نہیں ہے ہم ان تمام ڈیفینیشنز کو نہ صرف رد کریں گے بلکہ ان کو ری کنسٹرکٹ کریں گے۔ تو اس وقت اگر آپ بحیثیت پاکستانی شہری ریاستی جبر کو ریکگنائز کرتے ہیں ایتھنک اورنیشنلسٹ کوئسچن جو ہے اگر آپ اس کو ریکگنائز کرتے ہیں تو مجھے لگتا ہے کہ آپ سب کو یہ چاہیے کہ اپنی اپنی سیاسی صفوں سے نکل کر عورت مارچز کا حصہ بنیں انکے اندر رضا کار بنیں۔ ان کے اندر پورا سال اس تحریک کو مضبوط کرنے میں مدد کریں ہمیں بہت زیادہ ضرورت ہے ایک الٹرنیٹو ڈسکورس کو بلڈ کرنے کی وہ ڈسکورس جو کہ مولوی اور ریاست کی ڈکٹیشن میں نہیں بلکہ ہماری اپنی جو گراس روٹ پولیٹیکل آرگنائزنگ ہے اس کی فائنڈنگز پہ مبنی ہو ۔بہت بہت شکریہ

(نوٹ: اس پوسٹ کے بعد عنوان” عورت مارچ کیلئے ایک تجویز” کے تحت پوسٹ پڑھیں۔)

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ مارچ2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv