پوسٹ تلاش کریں

پشتون، ترک، ہند نے اسلام قبول کیا، سپین پرچھ (6) سوسال حکومت مگر یورپ نے اسلام قبول نہ کیا؟۔ رقیب اللہ محسود!

پشتون، ترک، ہند نے اسلام قبول کیا، سپین پرچھ (6) سوسال حکومت مگر یورپ نے اسلام قبول نہ کیا؟۔ رقیب اللہ محسود!
محسود وزیرستان، ٹانک، ڈیرہ اسماعیل خان، پاکستان میں بڑی تعداد میں ہیں لیکن متحد نہیں ہوتے۔حیات پریغال

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

رقیب اللہ محسود نے سوال کا جواب مانگا اور یہ سوال اٹھا کیوں ہے؟ اور اس کا تسلی بخش تو نہیں مگر سرسری جواب دینے کی اپنی سی کوشش کی ہے، ہمارا مقصد شعور کی منزل کو آگے بڑھانا ہے!

حیات پریغال نے مکین میں ایف سی اھکار خٹک کے ہاتھوں مارے جانے والے افراد میں دھرنے سے خطاب کیا جو حق بجانب ہیں لیکن اپنی قوم سے جو گلہ کیا ہے، اس پر توجہ دلائی ہے !

محترم رقیب اللہ محسود اپنے فیس بک میں لکھتے ہیں جسکا خلاصہ ہے کہ ”پشتون اور ترک قوم نے اسلام قبول کیا، ہندوستان کے لوگوں نے اسلام کو قبول کیا لیکن یورپ نے اسلام کو قبول نہیں کیا؟۔ حالانکہ مسلمانوں نے سپین پر چھ (6) سو برس حکومت کی ہے۔ کیا پشتون کا کوئی مذہب نہیں تھا اور یورپ میں لوگوں کے پاس اپنا مذہب تھا؟۔ میں بھی اس پر لکھ سکتا ہوں لیکن میرے پاس علم کی کمی ہے اسلئے میری چاہت ہے کہ آپ اس موضوع پر کچھ لکھیں”۔
جواب : میرا خیال یہ ہے کہ پشتون لکھے پڑھے جوانوں کو احساس ہوا ہے کہ طالبان نے ہمارا کلچر تباہ کیا ،اسلام کے نام پر قتلِ عام کیا، پشتو نوں کی نیک نامی کو پاکستان اور دنیا بھر میں بدنام کیا تو یہ سوچ پیدا ہوگئی کہ ایسے مذہب کو آخر ہمارے آباء واجداد نے قبول کیوں کیا ؟۔ مصیبت سے ہماری جان ایک عرصہ سے نہیں چھوٹ رہی ہے۔ حوروں کی تلاش میں خود کش حملے آوربے گناہ لوگوں میں دھماکے کرکے کئی افراد شہید کرتے، جس کی وجہ سے گھر، خاندان اور علاقے میں صف ماتم بچھ جاتا تھا اور کسی کو یہ بھی پتہ نہیں چلتا تھا کہ کس گناہ کی پاداش میں وہ مارا گیا، اس کا گھر اجڑ گیا؟۔ بس اسلام پسندوں کی کاروائی کے علاوہ مجرم کا بھی کوئی پتہ نہیں چل سکتا تھا۔ گڈ طالبان اور انکے ماموں سے جان نہیں چھٹتی ہے اور یہ ایک دومہینے اور سال کی بات نہیں بلکہ بہت عرصہ سہتے سہتے گزر گیا ہے۔
اگر آپ کے احساسات کو کچھ غلط رنگ دیا ہو تو پیشگی بہت معذرت۔ آج جو حال اسلام کے نام پر مسلمان شدت پسندوں نے اختیار کیا ہے ،کبھی اس سے ملتا جلتا حال یورپ کا بھی تھا۔ کوئی خواہ کتنا ہی اسلام سے تنگ ہو لیکن اسلام کے چھوڑنے پر اس کو مرتد اور واجب القتل قرار دیا جاتا ہے۔ پورے افغانستان کی امریکہ اور نیٹو نے اینٹ سے اینٹ بجادی مگر عام افغانیوں میں اشتعال نہ پھیلا لیکن جب ایک افغانی کے مرتد ہونے کی خبر افغانستان میں پھیل گئی تو پورا ملک کئی دنوں تک احتجاجی مظاہروں اور جلاؤ گھیراؤ سے بند رہا تھا۔
یورپ مذہبی تعصبات کا شکار تھا تو وہ اسلام کو قبول نہیں کرسکتا تھا؟۔ جس طرح آج ہم مذہبی تعصبات کا شکار ہیں اور اپنا مذہب بدلنے کا سوچ نہیں سکتے۔ جب یہود حضرت عیسیٰ کو والدالزنا اور حضرت مریم کوزانیہ کہتے تھے اور عیسائی ان کو خدا اور خداکی بیوی کہتے تھے تو اسلام نے مشرکانہ اور گستاخانہ عقائد کی خواتین سے نکاح کی اجازت دیدی۔ اہل کتاب مسلمانوں کی اعتدال پسندی اور روشن خیالی کو قبول نہیں کرتے تھے۔ یورپ میںنسلی امتیاز نہ تھا۔ افریقہ میںنسلی امتیاز تھا تو وہاں اسلام کو تیزی کیساتھ قبول کیا گیا۔ امریکہ میں نسلی امتیاز کی وجہ سے کالے گوروں کے مقابلے میں اسلام قبول کرتے ہیں۔ ہندوستان میں بھی نسلی امتیاز تھا ،یہاں زیادہ تر اچھوت، دلت اور نچلی ذات کی وجہ سے لوگوں نے اسلام کو قبول کیا ہے۔ بہت قصائی قریش بن گئے، تیلی عثمانی بن گئے ، میراثی درانی بن گئے۔آج برصغیر میں مسلمان ہونے والوں میں سے کوئی اچھوت اور دلت دکھائی نہیں دیتا۔ جب چنگیز اور ہلاکو نے خلافت عباسیہ کے مرگز بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجادی تو درندہ صفت قوم نے مفتوح قوم کے اخلاقیات سے بھی کچھ سیکھا اور اسلام قبول کرکے ہی وہ دنیا میں کامیاب خلافت عثمانیہ کے نام پر اقتدار کرسکتے تھے،اسلئے ترک قوم نے اپنے وسیع ترمفاد میں اسلام قبول کیا تھا۔ جس طرح شیعہ سنی اور دیگر مسالک کے علماء اپنی دنیا کے وسیع ترمفاد میں اپنا مذہب تبدیل کرلیتے ہیں۔ سلطان عبدالحمید کی ساڑھے چار ہزار لونڈیاں تھیں جن میں ہررنگ ونسل اور عمر کی حوریں شامل تھیں۔ اگر وہ چنگیزی رہتے تو شاید اس کی قوم اتنی بڑی تعداد میں حرام سراؤں کو بھرنے کی اجازت نہ دیتے۔
پشتونوں کی یہ روایت اور فطرت رہی ہے کہ جب کوئی اس کو اپنی مدد کیلئے پکارتا ہے تو بہت فراخ دلی سے اس کی مدد کرنے کو اپنے لئے فخر سمجھتے ہیں۔ جب حضرت خالدبن ولید نے پشتونوں سے مسلمانوں کیلئے کفار کیخلاف مدد مانگی تو پشتون لشکر کی شکل میں مدد کو پہنچ گئے۔ فتح کے بعد مشرف بہ اسلام ہوئے لیکن وہ شخصیت پرستی کا دور تھا۔ نبیۖ کی شخصیت پر ایمان لائے۔کلمہ، نماز، ختنہ ، پردہ ودیگراحکام تبلیغی جماعت نے سکھادئیے۔ تبلیغ والوں نے لطیفہ مشہور کیا کہ مولوی نے فضائل بیان کئے کہ ایک ہندو کو کلمہ پڑھانے کا یہ اجر ملے گا۔ پٹھان نے کہا کہ یہ تو بہت سستا سودا ہے اور تلوار لیکر نکلا ، راستے میں ہندو مل گیا تو اس کو زمین پر پٹخ دیا کہ خو کلمہ پڑھو۔ ہندو نے کہا کہ میں اسلام قبول کرنے کی نیت سے نکلا تھا، کلمہ پڑھادو تو میں پڑھ لوں۔ پٹھان کو خود بھی کلمہ نہیں آتا تھا تو کہا کہ جاؤ منحوس مجھ سے بھلادیا۔ پاکستان بھی کلمہ کے نام پر بناتھا مگر پٹھان کی طرح کلمہ خود بھی نہیں آتا تھا۔ کشمیر میں لڑائی کی ضرورت پڑی تو پٹھانوں نے قائداعظم کی دعوت کو اپنے لئے بڑا اعزاز سمجھ لیا۔ جب افغانستان اور پاکستان سمیت پوری دنیا نے القاعدہ اور طالبان کو کچلنے کا فیصلہ کیا تو پٹھانوں نے ازبک، چیچن، عرب اور سب کو پناہ دینا اپنا اعزاز سمجھ لیا۔ مسلم لیگ کے سینٹر مشاہداللہ خان نے ہمارے اخبار کو بیان دیا کہ ”حلالہ اسلام میں نہیں ہے، یہ لوگ قوالی سن کر مسلمان ہوئے ہیں، ورنہ کہیں بھی حلالہ نہیں ہے”۔ باچا خان گاندھی کیساتھ متحدہ قومیت پر متفق تھے ، علامہ اقبال نے متحدہ قومیت کی وجہ سے شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی پر ابولہب کا فتویٰ لگایا تھا۔ جب باچا خان ہندوستان گئے تھے تو جنگ اخبار میں میاں طفیل محمد امیر جماعت اسلامی نے ان پر کفر کا فتویٰ لگایا ۔ولی خان نے جواب دیا کہ ” اگر ہمارے آبا واجدا د تمہارے اجداد کو مسلمان نہ کرتے تو تمہارا نام طفیل محمد کی جگہ طفیل سنگھ ہوتا۔ امید ہے کہ اس مختصر تبصرے سے خوش ہونگے ۔ محسود قوم کا خاص طور پر اور پختون قوم کا عام طور شعور اجاگر کرنا ہوگا۔صحابہ نے مشکلات برداشت کرکے دنیا کی امامت کی تو محسود قوم کا بھی انتخاب ہواہے۔
معروف شخصیت حیات پریغال نے مکین میں ایف سی اہلکاروں کے ہاتھوں شہید نوجوانوں کے دھرنے سے خطاب میں کہا جس کا مختصر خلاصہ یہ ہے کہ” محسود قوم نے خاص طور پر، پشتون قوم نے عام طور پر خوشی کی خبر کافی عرصہ سے نہیں سنی ہے۔ موت کی خبرہے اور لاشوں کا مسئلہ ہے، ٹارگٹ کلنگ ہے ۔ ایک خاتون کو گھر میں قتل کیا گیا تھا، ایک شخص دوبئی سے آیا تھا اس کو قتل کیا گیا، ایک شخص اپنی بیوی کے کٹے ہوئے بال لفافے میں لیکر آیا تھا۔ اب یہ دو جوانوں کی لاشیں پڑی ہیں۔ انکے والدین نے محسود قوم کو اپنے بچوں کی لاشیں دیدیں لیکن لوگ اکٹھے نہیں ہوئے۔ محسود قوم کا ننگ وناموس خراب ہورہاہے، سب مشکلات میں ہیںلیکن کوئی کھیل رہے ہیں اور کوئی بازاروں اور دکانوں میں لگے ہیں۔ یہاں بہت کم لوگ آئے ہیں۔ پھر بات کرتے ہیں کہ نقیب کے والد نے بیٹے کی قیمت وصول کرلی۔ جب قوم حال تک پوچھنے کیلئے تیار نہ ہو اور طعنے دینے میں پیش پیش ہو تو ہم کیا کرسکتے ہیں؟۔
وزیرستان، ٹانک، ڈیرہ اسماعیل خان اور پورے پاکستان میں محسود قوم کی بڑی تعداد ہے لیکن ہمارا کوئی اتحاد نہیں ہے۔ بیس (20) سے پچیس (25) ہزار افراد قتل ہوگئے اور جس طرح مکین بازار میں پنجروں سے مرغیاں کٹ رہی ہیں اسی طرح ہم بھی مارے جائیںگے اگر متحد نہیں ہوئے۔ ہم نہیں کہتے کہ آئین کو چھوڑ کربغاوت کا قدم اُٹھاؤ لیکن اپنے قتل پر کوئی مؤثر احتجاج تو کرو۔ متحد ہوجاؤ، کب تک ہم ان مشکلات کو برداشت کرتے رہیںگے؟۔جب تک اپنے خلاف ہونے والے ظلم پر متحد نہیں ہونگے تو یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ ایک بچے کو ماں پیٹ میں رکھ کر پیدا کرتی ہے، بچپن سے اس کو بڑی مشکلوں سے بڑا کرتی ہے۔ باپ دھوپ کے اندرمحنت مزدوری کرکے اس کو جوان کرتا ہے لیکن ان جوانوں کو ماردیا جاتا ہے اور یہ بہت بڑی بات ہے کہ ان جوانوں کی لاشوں کو والدین نے قوم کے حوالے کیا لیکن قوم کے افراد یہاں نہیں پہنچے۔ ہم ہر جگہ ہر کسی کے پاس ہر واقعہ پر پہنچ جاتے ہیں اسلئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہماری طرف سے کوئی کمی کوتاہی نہیں ہے۔ جب قوم کے سپرد لاشیں کی جائیں اور قوم ننگ کا مظاہرہ نہ کرے اور پھر باتیں بنائے کہ پیسے لے لئے ہیں تو یہ بہت افسوس کی بات ہے”۔
قابلِ صد احترام حیات پریغال نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ بالکل سوفیصد درست ہیں۔ محسود قوم کیساتھ جتنی زیادتی ہوئی ہے اور جتنی ہورہی ہے تو اس پر اہل وزیرستان، پشتون قوم ، پاکستان اور عالمِ انسانیت کی طرف سے بجا طور پر بہت ہمددردی کی مستحق ہے۔ریاستِ پاکستان کی طرف سے اب بھی یہ مسئلہ ہے کہ وزیرستان کے شناختی کارڈ پر ریاستی اہلکاروں کے تیور بدلتے ہیں۔
میرا تعلق وزیرستان سے تھا، کراچی سے معروف اخبار نکالتا تھا اور طالبان کی طرف سے نشانہ بنایا گیا تھا لیکن اسکے باجود حکومتی اہلکاروں نے بھی میرے گھر پر چھاپے مارے ہیں۔ اپنی ذات کے اعتبار سے گلہ کرنا میرا شیوہ نہیں۔
فطرت کے مقاصد کرتا ہے نگہبانی یا بندہ صحرائی یا مردِ کوہستانی
جو فقیر ہوا تلخئی دوراں کا گلہ مند اس فقر میں باقی ہے ابھی بوئے گدائی
جب مجھ جیسے معروف انسان کیساتھ ریاستی اہلکاروں کا سلوک ایسا تھا جس کو دہشتگردوں نے حملے کرکے عوام سے لاتعلق ہونے پر مجبور کیا تھا تو محسود قوم پر کتنے مظالم کے پہاڑ ڈھائے گئے ہونگے؟۔ چونکہ حیات پریغال نے قوم سے گلہ کیا ہے اسلئے کچھ گر کی باتیں بتاتا ہوں۔ ہمارے عزیز ٹانک میں رہتے ہیں ۔ ان کا جوان بیٹا ناجائز سرگرمیوں میں پڑگیا تو والدین نے خود گولی سے اُڑا دیا۔ اگر وہ اپنے ہاتھ سے اس فتنے کو ختم نہ کرتے تو ایک نہیں کئی بیٹے کھودیتے۔ محرومی کا گلہ الگ کرتے، بے عزت الگ ہوتے، عوام اور ریاست دونوں کی طرف سے نفرت کا شکار بنتے۔ یہ طعنے دینے کے طور پر نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ ہم پر حملہ ہوا تو اس کی پلاننگ چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہمارے عزیزوں کے ہاں ہوئی۔ حملے کے باجود قریبی عزیز کے پاس دہشتگردوں کا آنا جانا تھا اور جب آئی ایس آئی نے چھاپا مارکر طالبان کی پک اپ کو اڑادیا، طالبان کے سپوٹر کو لیکر گئے تو ہم نے ان کی جان چھڑائی۔ جب تک اپنے اندر کی خرابی کے خلاف مؤثر اقدامات نہیں اٹھائے جائیںاس وقت تک ریاست بھی ہماراپیچھا نہیں چھوڑے گی اور لوگوں کی ہمدردی اور متحد ہونے کا خواب بھی شرمندہ تعبیر نہ ہوگا۔ ہم سے محسودقوم کو ساتھ لاکر طالبان نے معافی مانگی تھی لیکن جس دن میرا بس چلے گا تو پوری قوم سے عرض کروں گا کہ طالبان نے ہمارے ساتھ جو کیا تھا اگر اس پر ہمیں معافی دیدو تو یہ تمہاری مہربانی ہوگی اور اگر کچھ قرض سمجھتے ہو تو اس کیلئے بھی ہم تہہ دل سے تیار ہیں اسلئے کہ طالبان کی سپورٹ ہمارا مجرمانہ کردار تھا اور یہ اسلئے نہیں کہ میں گمراہ تھا کیونکہ ٹانک اور پاکستان کے مشہور علماء نے مجھے تحریراور تقریر سے سپوٹ کیا تھا تو چند بدکرداروں کا اسلام پر اجارہ نہیں تھا مگر مجھے اپنے ذاتی کردار اور غلطیوں کی وجہ سے اللہ نے مشکلات سے گزارا تو اس نے ٹھیک کیا ۔ اگر قوم نے مشکلات سے جان چھڑانی ہے تو اپنے سرنڈر اور کلنڈر دہشت گردوں کو خود سنبھالنا ہوگا۔اور اگر ہماری طرح تم لوگ بھی دہشتگردوںاور ان کی حمایت کرنے والوں سے اچھا تعلق رکھوگے تو پھر گلہ خود سے کرنا۔ غالب نے کہا کہ
غالب خوش ہوا مسجد ویراں کو دیکھ کر
کہ میری طرح خدا کا بھی خانہ خراب ہے
ہم پر جو گزری سو گزری ، قوم کازیادہ برا ہوا۔گدھا کنویں سے نہ نکالا جائے تو پانی صاف نہ ہوگا۔ پیغلے یعنی کنواری لڑکیوں کی طرح جوانوں کے شوقیہ بال ہیں، خدا کرے کہ لمبے ناخن بھی رکھیں لیکن قوم کی فکرہے تولاشوں پر گلے سے کام نہیں بنے گا بلکہ اپنی حالت بدلنی ہوگی اور محسود قوم میں یہ صلاحیت ہے۔

NAWISHTA E DIWAR May Edition. 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

نماز میری نماز ہے نہ وضو کوئی وضو آتی ہے انقلاب کی مسلسل کوئی خوشبو

ایک وقت تھا جب روز روز دھماکے ہوتے تھے، کچھ مخصوص طبقے محفوظ تھے لیکن اب فسادات برپاہونے کا ایسا خدشہ ہے کہ یہ پتہ بھی نہیں چلے گا کہ کون کس کو کیوں مار رہاہے؟، پاکستان اور پوری دنیا میں خون خرابے کے خطرات ہیں

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

کرونا (COVID-19)نے غریبوں کو بے حال اور امیروں کا کاروبار تباہ کیا ، ہمیں باہر سے زیادہ اندر کے معاملات سے بڑاخطرہ ہے ، سیاسی جماعتیں سکیورٹی رسک کا کام کررہی ہیں!

قرآن کے بڑے بڑے اور واضح احکام کی طرف رجوع کرنے میں سب مسلمانوں اور عالمِ انسانیت کی بھلائی ہے لیکن مسلمان قوم اس آسان فطری راستے کی طرف نہیں دیکھ رہی ہے

نماز میری نماز ہے نہ وضو کوئی وضو
آتی ہے انقلاب کی مسلسل کوئی خوشبو
دریائے دہشت سے پیر نہ سوکھ پائے
کر گیا میرا وطن پھر کوئی لہو لہو
عالمگیر فتنوں کا ہے یہ علاج
قرآن جو کہے وہی کرو تم ہُو بہُو
دل رکھتے ہیں نہ دماغ، جگر اور نہ روح
جس میں نہ ہو انقلاب وہ سر نہیں ٹوٹے کدو
عشق مصطفی سے انکار نہیں اے سرکار
نظام مصطفی سے فرار ہے تجھے رو برو
اہل سیاست و صحافت کا یہ کردار
لڑتا ہے روز سرِ شام بدخو سے بدخو
سفیر نکالنا تھا تو نکال چکے ہوتے
خون خرابے کی فضاء بنائی کو بہ کو
جو وعدے کا پاسدار نہیں وہ دین دار نہیں
عاشقوں کے چرچے ہیں اب چار سُو
پان کھاؤ یا چقندر، اے باتوں کے سکندر!
منہ کو خون لگا، آئی درندے کی بدبو
یہ پارلیمنٹ ہے یا کوئی بکرا منڈی؟
اسپیکر، سابق وزیراعظم بھی ہیں دوبدو
امن کا دامن چھوڑا، سلامتی کا بھگوڑا
قتل و غارت کی لگ رہی ہے جستجو
کلاسرا کی کتاب ”ایک قتل جو ہو نہ سکا”
دیکھ لو مگرمچھ کے چند آنسو
سلمان تاثیر قتل ہوا شہباز تاثیر اغوائ
بکتا رہا جوں مارنے کا بازار میں شیمپو
شرم ہے نہ غیرت، حیاء نہ انسانیت
گونج رہی ہے بس، بھانڈوں کی گفتگو
مذہبی ہو یا سیاسی، فوجی ہو یا صحافی
قریہ قریہ چپہ چپہ نکٹو نکٹو
گیدڑ بھبکی مارے لومڑی کا بچہ
شیرو ویرو کوئی نہیں یہ خرو گیدڑو
ناموس رسالت کے نام پر بھی سیاست؟
بھونکو نہیں، کرو ڈھینچو ڈھینچو
عتیق کس پر کرے عوام بھروسہ؟
بس نام باقی رہ گیا اللہ ھو اللہ ھو
پاکستان اوردنیاکی یہ فضاء نہ بن جائے کہ مذہبی، نسلی، لسانی، طبقاتی، نظریاتی بنیاد پر عوام کو پتہ نہ چلے کہ کون کس کو کیوں مار رہا ہے؟۔ پختونخواہ بلوچستان،کراچی کے بعد پنجاب کو خطرات لاحق ہیں۔ COVID-19 نے دنیا کا کاروبار تباہ کردیا ۔ غربت وافلاس اور نفرتوں کی ہرجانب دھوم مچی ہے۔ جسکا جتنا بس چلتا ہے وہ اپنی محرومی اور جہالت کا اتنا ہی دوسروں سے انتقام لیتا ہے۔شرافت کی زباں صرف مجبوری کی حد تک ہے اور تھوڑا بہت موقع ملتا ہے تو فرعون، ہامان اور قارون کی یادیں تازہ ہوجاتی ہیں۔
احتجاج کرنا مغربی طرز عمل ہے اور احتجاج اسی وقت کیا جاتا ہے جب عوام کے جذبات مشتعل ہوں۔ اوریا مقبول جان نے فرانس کے سفیر کو نکالنے کیلئے تین ماہ کے بعد پر معاملہ ڈال کرثابت کرنے کی کوشش شروع کردی کہ یہ حکومت اور تحریک لبیک کا ذاتی معاملہ ہے ،پاکستان کی عوام اور دوسری پارٹیوں سے اس کا کوئی تعلق نہیں پھر تین ماہ بعد دو ماہ مزید وقت دیدیا۔ پانچ ماہ بعد اگر فرانس کا سفیر نکال بھی دیا جاتا تو یہ وہ تھپڑ ہوتا جو لڑائی ختم ہونے کے بعد یاد آتا ہے۔
پنجاب پولیس اور لبیک کے کارکنوں کا خون بہانے کے بعد یہ قرار داد پیش کرنی تھی تو لبیک کے قائد ین کا مواخذہ کرنا چاہیے۔ عشق رسولۖ کسی نے اپنی سیاسی مقبولیت کیلئے استعمال کرکے مخلص کارکنوں کے خون سے بے وفائی کا مظاہرہ کیا ہو تو یہ ناقابلِ معافی جرم ہے۔ جو یہ کہتا تھا کہ فرانس کے سفیر کو نکالے بغیر ہم لاشیں دفن نہیں کرینگے اس نے اس حقیر سی قرارداد پرمعاملہ طے کرلیا؟۔
اگر کارکنوں کو فرانس کے سفیر کو نکالنے سے کام نہیں تھا بلکہ اپنے قائدین کا حکم ماننا تھا تو پھر یہ عشق رسول نہیں ان قائدین سے وفاداری ہے جنہوں نے تحریک لبیک یارسول اللہ سے اپنا نام بدل کر تحریک لبیک پاکستان رکھ دیا ہے۔
جب کئی دنوں تک فتنہ وفساد کا بازار گرم تھا تو اوریامقبول جان بلے کی طرح مگرچوہے کے بل میں دودھ پی کے سویا رہا۔ پھر جب قتل وغارت کے بعد اس تحریک پر پابندی لگ گئی تو سوشل میڈیا پر بیان داغ دیا کہ ”پاکستان کو سازش کیلئے بنایا گیا تھا تاکہ سیکولر فوج اور سول بیروکریسی اسلام کے نام پر پہلی مرتبہ بننے والی تحریک لبیک پر پابندی لگائے۔ طالبان کو عالمی قوتوں نے ختم کردیا”۔ اوریا مقبول جان کو سو چوہے کھا کر حاجی بننا تھا؟۔ نوکری چھوڑکر طالبان کے پاس جاتے۔طالبان کے جہاداور تحریک لبیک کے عشق پر مفت میں پھوسیاں مارکر کریڈٹ لیتاہے؟۔ بیشک طالبان نے امریکہ کو چین سے بیٹھنے نہیں دیا اور امریکہ سے دوستی پر پاکستان اور افغانستان میں جو جہاد یا فساد کرسکتے تھے وہ کیا لیکن تم جیسے لوگوں نے کیا کیا ؟۔ باتوں کے سکندر کھانے کے چقندر تمہیں کیا پتہ ہے کہ پختون قوم ، پاک فوج، افغانستان اور پاکستان کے لوگوں نے اس کی کیا قیمت چکائی ہے؟۔ نوازشریف اور عمران خان بھی طالبان طالبان کرتے تھے لیکن انکے اصل چہرے بے نقاب ہوگئے۔ کٹھ پتلی کی آذان مرغی کی آذان ہے۔ ہمارے ہاں کہتے ہیں کہ جب مرغی آذان دے تو اس کو ذبح کردو۔ مولانا فضل الرحمن اورمسلم لیگ ن نے جس بیانیہ کی وجہ سے پیپلزپارٹی کو پی ڈی ایم (PDM) سے نکالا تھا وہ بیانیہ نوازشریف اور شہباز شریف کے درمیان بھی کھلے عام موجود تھا۔
مریم نواز نے کھل کر کہا کہ عمران خان کو ہم مدت پوری کرنے دینگے۔ جس کے جواب میں پیپلزپارٹی کے چوہدری منظور نے کہا ہے کہ ” اب ہمیں سمجھ میں بات آئی ہے کہ پی ڈی ایم (PDM) کو کیوں توڑا تھا؟ لیکن ن لیگ یہ واضح کرے کہ جب حکومت کو نہیں گرانا تھا تو لانگ مارچ کا ڈرامہ کیوں کیا ؟”۔
پہلے مولانا فضل الرحمن اور مریم نواز ٹو چین رہتے تھے لیکن اب فاصلہ نظر آتا ہے اسلئے کہ مریم بی بی حمزہ شہباز کیساتھ ٹو چین ہوگئی ۔ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف وہ بیانیہ کہاں گیا جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی کو نکال باہر کرنے کا دعویٰ کیا تھا؟۔
شہباز شریف نے کہا کہ ”سترسالہ بوڑھا ہوں۔ضمانت پر رہا، علاج کیلئے بیرون ملک جانے دیا جائے ،پہلے بھی واپس آگیا” تو یہ نوازشریف کے منہ پر زوردار طمانچہ تھا کہ اسٹیبلیشمنٹ کی گدھاگاڑی میں دونوں کھوتوں کی طرح زندگی بھر جتے رہے ہیں۔ جیو ٹی وی کی رپورٹ کارڈ میں یہ سوال کیوں نہیں اٹھایا گیا؟۔ شاہ زیب خانزادہ نے سوالات اٹھانے کی زحمت کیوں گوارا نہیں کی؟۔
حکومت و تحریک لبیک نے اپنی دُموں کو باندھ کر زوردارپدو مارا، تو فضاء میں بدبو پھیل گئی۔ ن لیگ ، جے یو آئی اور پیپلزپارٹی لاوڈ اسپیکر لگاکر اس کی گونج سے دنیا کو آگاہ کررہی ہیں لیکن وہ یہ نہیں سوچتے کہ اگر واقعی اتنے عاشق رسول ہیں اور ناموس رسالت پر ایمان ہے تو ن لیگ دور میں ختم نبوت پر کیوں حملہ کیا؟۔ جب فرانس نے گستاخی کرلی تو تم نے اپنا احتجاج اس وقت کیوں تحریک لبیک کیساتھ شامل نہیں کیا؟۔ حکومت کو شکست دینے کیلئے جو اندازاپنایا جا رہا ہے ،اس سے ملک وقوم میں پھر قتل وغارتگری کی فضا ء ہموار ہورہی ہے۔
تحریک لبیک کے قائد حافظ سعد رضوی کو گرفتار کرکے حکومت نے اشتعال پھیلایا لیکن پنجاب پولیس کیساتھ جو تحریک لبیک کے کارکنوں نے کیا وہ انتہائی قابلِ مذمت تھا اور اگر تھانہ پر حملہ کرکے پولیس ورینجرز کے اغواء پر بھی راست اقدام نہ اٹھایا جاتا تو بھیگی بلی بننے والی تحریک لبیک کی شوریٰ اپنی حدوں کوپار کر دیتی۔ احتجاج نبیۖ کی سنت یا قرآن کا حکم نہیں ۔ حضرت عائشہ پر بہتان لگاتو رئیس المنافقین عبدللہ بن ابی کو شہر بدر نہیں کیا گیا۔ بیشک خون کی ہولی کھیلنے کا سارا کریڈٹ نااہل اور جاہل حکمرانوں اور وزیروں کے سر ہی جاتا ہے لیکن اتنا پتہ چل گیاہے کہ جان لڑانے والے جان کی امان پاکر کیسے بیٹھ گئے ہیں؟۔

NAWISHTA E DIWAR May Edition. 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

اسلامی احکام کو پشتون قوم نے اگر من حیث القوم رائج کرنیکی کوشش شروع کردی جواپنی پشتوں میں بارود ڈال کر خودکُش دھماکوں سے زیادہ آسان ہے تو اس سے پاکستان، افغانستان اور ہندوستان میں اسلام کی نشاة ثانیہ کی رُوح دوڑ جائے گی

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

قرآن میں شجرہ ملعونہ کو فتنہ قرار دیا گیا ہے، سورۂ نور میں لعان کے حکم پر پشتون عمل نہیں کرسکتے مگرسورہ ٔ بقرہ میں حلالہ کی لعنت کے فتنے سے فقہاء نے دوچار کیا جس سے نکل جائیں گے!

قرآن کی وجہ سے صحابہ کرام نے عروج حاصل کیا،آج قرآن پر دنیا عمل پیرا ہے لیکن مسلمان اندھیر نگری کا شکار ہیں اور جب قرآن کی طرف رجوع ہوگا تو عروج ملنے میں دیر نہ لگے گی !

ایک شخص اپنی بیوی کو کہتا ہے کہ تجھے تین طلاق۔ جب علماء ومفتیان اس کو فتویٰ دیتے ہیں کہ جب تک کسی اور شخص سے حلالہ نہیں کروائے گا تو اس کیلئے یہ بیوی حلال نہیں ہوگی۔ جب وہ دیکھتا ہے کہ اگر بیوی سے حلالہ کی لعنت کیساتھ رجوع کرتا ہے تو عزت خراب ہوجاتی ہے لیکن ایمان بچ جاتا ہے تو وہ عزت کی قربانی دے کر اپنا ایمان بچانا ضروری سمجھ لیتا ہے۔ مدارس میں قرآن وسنت، صحابہ اور اہل حق کے خود کو بڑے علم بردارسمجھنے والے حنفی علماء کی اکثریت ہے۔ میرا اپنا اور میرے آبا واجداد کا بھی حنفی مسلک سے تعلق ہے۔ میں نے جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں شیخ التفسیر مولانا بدیع الزمان سے اصولِ فقہ کی کتابیں پڑھی ہیں اور وفاق المدارس پاکستان سے ان کی سند بھی حاصل کرلی تھی۔
اصولِ فقہ میں حنفی مسلک کی بنیاد یہ ہے کہ پہلے قرآن کو اولیت حاصل ہے، دوسرا نمبر سنت کا ہے، تیسرا نمبر اجماع کا ہے اور پھر قیاس ہے۔ قیاس کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ قرآن ، سنت اور اجماع میں سے کوئی دلیل ہو تو اس پر مسئلے کو قیاس کیا جاسکتا ہے۔ قیاس کی ایسی ہی مثالیں پڑھائی جاتی ہیں۔ جب قرآن میں کوئی بات ہو تو سنت کی ضرورت نہیں ہے اور سنت میں کوئی بات ہو تو اجماع کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ طالب علمی میں درسِ نظامی پڑھانے کا مقصد طلبہ میں علم پڑھنے اور سمجھنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا ہے کہ وہ علم کی تحصیل سے فارغ ہوگیا ہے۔ یہ جاہلوں کا شیوا ہے کہ خود کو فارغ سمجھیں۔
حنفی مسلک کا یہ بنیادی اصول ہے کہ اگر حدیث کی خبر واحد قرآن کی آیت سے ٹکرائے تو پہلے تطبیق یعنی موافقت کی کوشش کی جائے گی تاکہ قرآن و حدیث دونوں پر عمل ہو۔ لیکن اگر دونوں میں تضاد ہو تو پھر قرآن پر عمل ہوگا اور اس کے مقابلے میں خبرواحد کو چھوڑ دیا جائے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ قرآن کی سورۂ بقرہ آیت (230) میں اللہ نے فرمایا: حتی تنکح زوجاً غیرہ ” یہاں تک کہ وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح کرے”۔ قرآن کی اس آیت میں عورت کو نکاح کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اسکے مقابلے میں حدیث ہے کہ ” جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اس کا نکاح باطل ہے، باطل ہے، باطل ہے”۔ قرآن کی اس آیت اور حدیث میں تطبیق نہیں ہوسکتی ہے کہ دونوں پر عمل ہو اسلئے حنفی مسلک کے مطابق یہ حدیث ناقابلِ عمل ہے۔
اصول فقہ کی تعلیم کے وقت طلبہ قرآن وحدیث سے واقفیت تو دُور کی بات عربی پڑھنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے ہیں اسلئے اصول فقہ کی کتابوں ”اصول الشاشی ”اور” نورالانوار” میں یہ سمجھنابھی بڑی بات ہوتی ہے کہ کتاب کی عبارت کا مفہوم کیا ہے؟۔ نسبتاً ذہین طلبہ تکرار کی بنیاد پر بڑی مشکلوں سے خود بھی ترجمے کا مفہوم رٹ لیتے ہیںاور دوسروں کو بھی رٹا دیتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے میرے اندر ذہنی صلاحیت رکھی تھی ۔ مجھے یہ خیال آیا کہ قرآن وحدیث میں پہلے تطبیق کی کوشش کرنی چاہیے اور پھر اگر قرآن کے مقابل حدیث ہو تو حدیث کو چھوڑنا چاہیے۔ قرآن کی آیت (230)کے ان الفاظ میں طلاق شدہ عورت کو نکاح کی اجازت دی گئی ہے جبکہ طلاق شدہ اور کنواری کے احکام معاشرے اور شریعت میں بھی مختلف ہوتے ہیں۔ لہٰذا قرآنی آیت سے مراد طلاق شدہ اور حدیث سے کنواری لڑکی مراد لی جائے۔ مولانا بدیع الزمان نے میری بات میں بہت وزن قرار دیکر آئندہ کیلئے حوصلہ افزائی فرمادی تھی۔
مفتی عبدالمنان ناصر اور قاری مفتاح اللہ صاحب بھی ہمارے اساتذہ کرام تھے اور میری طرف سے کتابوں پر اعتراض ہوتا تھا تو فرماتے تھے کہ عتیق زیادہ ذہین اور درست بات کہنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس حوصلہ افزائی کا نتیجہ تھا کہ جب درسِ نظامی کے ساتویں درجے میں تفسیر کی آخری کتاب” بیضاوی شریف” پڑھی تو اس میں سورۂ بقرہ کی تفسیر میںلکھا ہے کہ المO سے کیا مراد ہے؟۔ اللہ ہی اس کو جانتا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ الف سے اللہ، لام سے مراد جبریل اور میم سے مراد محمدۖ ہیں۔ یعنی اللہ نے جبریل کے ذریعے یہ کتاب محمد ۖ پر نازل کی ہے۔ میں نے عرض کیا ہے کہ اس تفسیرمیں دو تضادات ہیں۔ جب اللہ کے سوا کسی کو الم میں پتہ نہیں تو پھر یہ کہنا کہ اس سے یہ مراد ہے کہ اللہ نے جبریل کے ذریعے اس کو حضرت محمدۖ پر نازل کیا ہے تو یہ سب کو معلوم ہے۔ متضاد چیزیں تو نہیں ہوسکتی ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ پھر تو الف ، جیم ، میم ہونا چاہیے تھا اسلئے کہ جبریل کا پہلا حرف جیم ہے لام نہیں ہے۔ استاذ نے کہا کہ عتیق کی بات ٹھیک ہے اور بیضاوی نے بالکل غلط لکھ دیا ہے۔ یہ متضاد تفسیر نہیں بنتی ہے۔
سورۂ بقرہ کی طلاق و رجوع سے متعلق آیات میں مسلکی تضادات کی تفسیر کو مسلمانوں اور کفار کے سامنے پیش کیا جائے تو پوری دنیا ہم پر تعجب کرے گی کہ قرآن جیسی عظیم الشان کتاب میں جو تعلیم دی گئی ہے جس کی وجہ سے صحابہ کرام نے پوری دنیا کو اندھیر نگری سے نکال دیا تھا ،آج مسلمان خود کتنے اندھیرے کی فضاء میں قرآن کی تعلیم کے نام پر رہتے ہیں؟۔ جے یوآئی کے قائد مولانا فضل الرحمن میرے بڑے بھائی کی طرح ہیں۔ مجھے مفتی محمد تقی عثمانی اور دیگر علماء کرام کے سامنے بٹھادیں اور پھر دیکھ لیں کہ کس کی بات میں وزن اور کس کی بات میں جہالت ہے؟۔ پاکستان میں مدارس اور علماء کرام کی کمی نہیں ۔ مولانا سمیع الحق کا بیان ہمارے اخبار ”ضرب حق ” میں شہ سرخی کیساتھ چھپا تھا کہ” درس نظامی کا نصاب کوئی قرآن وسنت نہیں ۔اس میں تبدیلی کی گنجائش ہے اور غلطیوں کو دور کرنا چاہیے”۔جب تحریک طالبان نے میری وجہ سے میرے گھر پر حملہ کیا تھا تو مولانا فضل الرحمن نے جامع مسجد ٹانک جمعہ کی تقریرمیں طالبان کو خراسان سے نکلنے والے دجال کا لشکر قرار دیا تھا۔ محسود قوم کو پتہ تھا کہ جب ٹانک اور پاکستان کے معروف علماء اپنی تقاریر اور تحریر کے ذریعے میری حمایت کررہے ہیں تو چند ملوثی قسم کے دہشت گردوں کو حملہ کرکے دہشت گردی کا حق نہیں پہنچتا ہے۔
آیت (230) البقرہ میں بنیادی بات یہ ہے کہ اس سے پہلے کی آیات میں بھی تسلسل کیساتھ عورت کو اس کے شوہر کی دسترس سے باہر نکالنے کی وضاحتیں کی گئیں ہیں اور یہ واضح کیا گیا ہے کہ ناراضگی اور طلاق کے بعد جب تک عورت راضی نہ ہو تو شوہر کو رجوع کا کوئی حق نہیں پہنچتا ہے۔ اگر علماء یہ وضاحت کرتے کہ باہمی اصلاح اور معروف طریقے کے بغیر رجوع کرنا حلال نہیں حرام ہے تو بہت مناسب ہوتا اور یہی قرآن کی آیات کا واضح ترجمہ اور مفہوم بھی ہے۔
حدیث میں ولی کی اجازت کواس آیت سے ٹکرانا بھی موقع محل کی مناسبت سے بالکل غلط ہے۔ طلاق کے بعد ولی اسکے نکاح میں رکاوٹ نہیں بنتا ہے بلکہ اس کا شوہر بنتا ہے اور شوہر کی دسترس سے باہر نکالنے کیلئے تسلسل کیساتھ اصلاح اور معروف کی شرط بالکل واضح ہے۔ جب تک اس انتہائی درجے کے الفاظ کا استعمال نہ کیا جاتا تب تک عورت کی جان شوہر نے نہیں چھوڑنی تھی۔ قرآن کی اس آیت (230) کے ان الفاظ نے بہت سی خواتین کی جان انکے شوہروں سے بھی چھڑائی ہے۔ صحابہ کرام نے اپنی زبان میں قرآن کو سمجھا تھا اسلئے وہ رجوع کیلئے عدت میںاور عدت کی تکمیل کے بعد باہمی رضامندی سے رجوع کا معاملہ سمجھتے تھے۔ باقی دنیا میں اہل کتاب عیسائیوں کی بہت بڑی تعداد تھی جنکے ہاں طلاق کا شرعی تصور بھی نہیں تھا۔ عورت شادی کے بعد زندگی بھر طلاق نہیں ہوسکتی تھی اور یہی تصور ہندو، یہود اور دوسرے مذاہب میں بھی تھا۔ لوگوں کا کلچر بھی یہی تھا۔
جب قرآن نے بار بار واضح فرمایا ہے کہ عدت میں باہمی اصلاح کی بنیاد پر رجوع ہوسکتا ہے، معروف طریقے سے عدت میں رجوع ہوسکتا ہے اور عدت کی تکمیل کے بعد رجوع ہوسکتا ہے تو کوئی ایسی ٹھوس حدیث اس کے مقابلے میں ہونا چاہیے کہ رسول اللہۖ نے رجوع سے منع فرمایا ہو۔ اگر کوئی حدیث ہوتی بھی کہ نبیۖ نے ایک ساتھ تین طلاق کے بعد رجوع سے منع فرمایا ہو تو اسکے مقابلہ میں قرآن کی آیات کو نصاب کا حصہ بنانا چاہیے تھا کہ جب قرآن رجوع کی مشروط اجازت دیتا ہے اور یہ شرط باہمی اصلاح اور معروف طریقے کی ہے تو اگر نبیۖ نے واضح طور پر رجوع سے منع بھی فرمایا ہوتا تو حنفی مسلک میں پھر بھی قرآن کے مقابلے میں احادیث کو چھوڑ دیا جاتا ۔ لیکن حلالے کی لعنت نے اس امت کو بہت بڑے فتنے اور آزمائش میں ڈال دیا ہے اور اس کی وجہ سے یہ فائدہ بھی ہوا ہے کہ بہت ساری خواتین جو جان چھڑانا چاہتی تھیں ان کی جانیں اپنے ناپسندیدہ شوہروں سے چھوٹ گئی ہیں۔
قرآن کی سورۂ بنی اسرائیل آیت (60) میں شجرہ ملعونہ کو لوگوں کیلئے فتنہ قرار دیا گیا ہے۔ سورہ نور کی آیت میں لعان کرنے کا حکم ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کو کسی کیساتھ کھلی ہوئی فحاشی میں دیکھ لے تو قتل نہیں کرسکتا ہے بلکہ لعان کے ذریعے دونوں ایکدوسرے کی جان چھڑائیں گے۔ یہ حکم بھی لوگوں کیلئے بڑی آزمائش تھی۔ پشتونوں نے اجتماعی اسلام قبول کیا تھا مگر اللہ کی کتاب کو سمجھا نہیں تھا اور جب سمجھ لیا تو کہا کہ پشتو نیم کفر ہے ۔ہم اس پر عمل نہیں کرینگے۔ پشتون قوم بنی اسرائیل کا قبیلہ تھا اور اہل کتاب کا یہ ٹریک ریکارڈ تھا کہ” بعض کتاب پر ایمان لاتے تھے اور بعض کتاب کا انکار کرتے تھے”۔
پشتون اور سکھ میں قومیت کا فرق تھا لیکن مزاج میں یہ ہم آہنگی تھی کہ پہلے کام کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں اور بعد میں سوچتے ہیں۔ پشتونوں نے اسلام اور سکھ نے گرونانک کے نئے دین کو قبول کرلیا۔ سکھ اپنے مذہب کی بنیاد پر حکومت کرچکے ہیں، پشتون نے ابھی اسلام کے نام پر دنیا میں حکومت قائم کرنی ہے ۔ جب پشتونوں کو پتہ چلے گا کہ حلالہ کی لعنت اسلام میں نہیں ہے تو علماء ومفتیان کو متحرک کرینگے اور حلالہ کی لعنت کو جڑ سے ختم کرینگے ۔ خواتین کو بھی قرآن کے مطابق حقوق دینگے۔ پشتوں میں بارود بھر کر خود کش حملوں سے زیادہ آسان یہی ہے کہ اسلام کے نام پر بے غیرتی کا خود ساختہ معاملہ ختم کیا جائے۔ پختونخواہ ، بلوچستان اور افغانستان کے پشتون اجتماعی فیصلہ کرینگے تو اس کے اثرات پنجابی، بلوچ، سرائیکی، سندھی، مہاجر، کشمیری اور خطے پر پڑیںگے۔ پھر ہندوستان کے برہمن جو اپنے اصل کے اعتبار سے یہود اور ابراہیمی ہیں اسلام کو قبول کرلیں گے۔ اچھوت تو بہت پہلے ہی مسلمان ہوگئے لیکن قریش نے قومی حیثیت سے اسلام کو قبول کیا تو پھر دنیا نے اسلام کو قبول کیا، اسی طرح سے ہندوستان کے برہمن بھی اسلام کو اپنی مرضی اور خوشی سے قبول کرینگے تو علامہ اقبال کا قومی ترانہ ”ساری دنیا سے اچھا ہندوستان ہمارا میرعرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے” ہم سب مل کر پڑھیںگے۔ کرونا نے انسانیت جگانے کی بنیاد رکھ دی ۔ انگریز نے زبردستی سے ہندو رسم ”ستی” کا خاتمہ کردیا تھا اور اب ہندو قوم کو مردے جلانے کی رسم کا بھی از خود خاتمہ کرنا چاہیے اسلئے کہ بیمارہندو جب لاش جلانے کے ڈھیر دیکھتے ہیں تو پھر ڈپریشن بھی موت کا باعث بنتی ہے۔ اسلام نے لاش کی حرمت کی بنیاد انسانیت کی وجہ سے رکھی ہے۔ مسلمانوںمیں یہ تعصبات جاہلیت کی وجہ سے تھے کہ ہندوؤں کی لاشوں کو جلانے پر خوش ہوتے تھے۔
مذہبی لوگ جب قرآن کی طرف رجوع کریںگے تو حکومت، اپوزیشن اور اسٹیبلیشمنٹ کیلئے آلۂ کار کے طور پر استعمال نہیں ہوںگے بلکہ مسلمان عوام مرد اور خواتین کے دل جیت لیںگے۔ عدالت، سیاست ، قوم پرست اور مذہبی طبقے اسٹیبلیشمنٹ کی گرفت سے نکل چکے ہیں۔ تحریک لبیک آخری مہرہ تھا جس نے پنجاب پولیس کے خلاف تاریخی کاروائی کی ۔ فوجی سپاہی اور لبیک کے کارکنوں نے ایکدوسرے کے حق میں نعروں سے سوشل میڈیا میں ہیجان پیدا کردیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو انصاف ملا ، اسٹیبلشمنٹ کو شکست دی یا ججوں نے اپنے پیٹی بند کو رعایت دی؟۔ یہ سوال بڑا اہم ہے ۔ الطاف بھائی نے شاید نوازشریف سے پیسہ لیکر فوج کیخلاف محاذ کھول دیا۔ ایم کیوایم کے رہنماؤں کی وقعت نہیں ۔ سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر فوج کے حامی صحافیوں نے اپنی اور اسٹیبلیشمنٹ کی مٹی پلید کرکے رکھ دی ۔نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن اسٹیبلشمنٹ کے خلاف نہیں ہیں بلکہ اپنے لئے اقتدار کا راستہ تلاش کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
ماڈل ٹاؤن لاہور میں اپنے اقتدار کیلئے چودہ (14) افراد کو قتل کرنے والے نواز شریف اور شہبازشریف کو پنجاب والے بھی مسترد کردینگے لیکن پشتونوں کو بڑی جاندار اور غیرمتعصبانہ تحریک چانے کا پاکستان اور دنیا کیلئے آغاز کرنا پڑے گا۔

NAWISHTA E DIWAR May Edition. 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

شیطانی القا کے مقابلے میں قرآن اور حدیث کی وضاحتیںاور اُمت مسلمہ کا بتدریج فتنے کا شکار ہونے کے مراحل کی وجوہات کا زبردست ، معقول اور قابلِ قبول جائزہ۔ جس دن اُمت مسلمہ نے شیطانی القا کی جگہ قرآنی آیات کو دیکھا تو انقلاب آجائے گا!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

حلالہ کی لعنت اللہ کی سنت نہیں شیطان کی کنت ہے، قرآن میں اللہ نے اس کو مٹادیا ہے مگر رسول اللہۖ کی تمنا میں شیطان نے اپنا القا کرکے اُمت کو سابقہ اُمتوں کی طرح گمراہ کردیا

ہندوستان کی ہندو خاتون رکن پارلیمنٹ نے قرآن پڑھ کر طلاق اور اس سے رجوع کا معاملہ سمجھ لیا لیکن مریم نواز کا سرپرست مولانا فضل الرحمن اس کو سمجھنے کیلئے جان بوجھ کر تیار نہیں ہوتا

اب سوال یہ ہے کہ مسئلہ طلاق پر قرآن کی طرح احادیث میں بھی یہ وضاحتیں موجود ہیں؟۔ تو جواب یہ ہے کہ قرآن میں مسائل کی وضاحت کے بعد کیا احادیث کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟۔ قرآن تسلسل کیساتھ صحابہ کرام و تابعین اور تبع تابعین کے ادوار میں موجود تھا جبکہ احادیث کے ذخائر مدینہ کے سات مشہور فقہاء قاسم بن محمد بن حضرت ابوبکر، عروہ بن عبداللہ بن حضرت زبیر ، سعید بن المسیب وغیرہ کے دور میں بھی نہیں تھے جن میں ایک حضرت ابوبکر کے پوتے اور دوسرے حضرت ابوبکر کے نواسے تھے۔ ان کے بعد پھر ائمہ اربعہ کے دور میں احادیث مرتب ہونا شروع ہوگئیں ۔ ائمہ اربعہ کے عرصہ بعد صحاح ستہ احادیث کی چھ کتابیں مرتب ہوئی ہیں۔ قرآن کو اولیت دینے پر اتفاق ہے۔
حضرت عمر نے نبیۖ کو خبر دی کہ ابن عمر نے حیض کی حالت میں طلاق دی ہے تو رسول اللہۖ غضبناک ہوگئے اور پھر اس کو رجوع کا حکم دیا اور فرمایا کہ پاکی کے دنوں میں پاس رکھو یہاں تک کہ حیض آجائے۔ پھر پاکی کے دنوں میں پاس رکھو یہاں تک کہ حیض آجائے۔ پھر پاکی کے دنوں میں رجوع کرنا چاہو تو رجوع کرلو اور طلاق دینا چاہو تو ہاتھ لگائے بغیر چھوڑ دو۔ یہ وہ عدت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اس طرح طلاق کا امر کیا ہے”۔( بخاری کتاب التفسیر سورۂ طلاق)۔
ابورکانہنے ام رکانہ کو طلاق دی اور دوسری خاتون سے نکاح کیا تو اس نے نبیۖ سے اسکے نامرد ہونے کی شکایت کی۔ نبیۖ نے فرمایا کہ یہ اسکے بچے کس قدر ابورکانہ سے مشابہت رکھتے ہیں؟۔ اس خاتون کو طلاق کا حکم دیا اور اُم رکانہ سے رجوع کا فرمایا۔ انہوں نے عرض کیا وہ تین طلاق دے چکا ، نبی ۖ نے فرمایا مجھے معلوم ہے اور سورۂ طلاق کی آیات کی تلاوت فرمائی۔ (ابوداؤد)
قرآن اور احادیث میں بالکل بھی کوئی تضاد نہیں ہے۔ابن عباس نے کہا ہے کہ رسول ۖ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے دور میں ابتدائی تین سال تک ایک ساتھ تین طلاق کو ہم ایک شمار کرتے تھے۔ پھر حضرت عمر نے فیصلہ کیا کہ آئندہ جو بھی ایک ساتھ تین طلاق دے گا تو اس پر تین ہی جاری کروں گا،جس چیز میں اللہ نے تمہیں سہولت دی ،اسکا تم غلط فائدہ اُٹھارہے ہو۔ (صحیح مسلم)
صحیح بخاری کی احادیث میں تین مرتبہ طلاق کو عدت کے تین مراحل کا فعل قرار دیا گیا ہے۔ بخاری کی کتاب التفسیر سے واضح ہے کہ قرآن کی یہ تفسیر ہے۔ کتاب الاحکام ، کتاب الطلاق اور کتاب العدت بخاری میں بھی یہ حدیث ہے جس کامطلب یہی ہے کہ قرآن وسنت میں تین مرتبہ طلاق عدت کافعل ہے۔
امام ابوبکر جصاص حنفی رازی نے طلاق سنت کی وضاحت میں لکھ دیا ہے کہ ”قرآن میں الطلاق مرتان (طلاق دو مرتبہ ہے ) سے یہ واضح ہے کہ طلاق عدد نہیں فعل ہے۔ عدد اور فعل میں فرق واضح ہے۔ 2 روپیہ کو 2مرتبہ روپیہ نہیں کہا جاسکتا ۔2مرتبہ حلوہ کھانے کو 2حلوہ کھانا نہیں کہاجاسکتا ۔( الاحکام القرآن)
نکاح فعل ہے۔ تین (3)بار قبول کیا، قبول کیا، قبول کیا کہنے پرتین (3) نکاح نہیں ہوتے اور تین (3)بار حلوہ کھایا، حلوہ ، حلوہ کھایا سے تین حلوئے کھانے نہیں سمجھے جاتے ہیں۔ اسی طرح تین (3) طلاق کہنے سے تین مرتبہ طلاق کے الگ الگ فعل کا تصور نہیں ہوتا۔
اب سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عمر نے اکٹھی تین طلاق کا حکم کیسے جاری کیا؟، کیا آپ نے قرآن وسنت اور عربی لغت کو نہیں سمجھاتھا؟۔ اس کا جواب بہت سادہ ہے کہ حضرت عمر اقتدار میں تھے اور اقتدار میں فریقین کا جھگڑا سامنے آتا ہے۔ حضرت عمر نے جھگڑے میں فیصلہ دیا اسلئے کہ قرآن میں تنازع کی صورت میں رجوع نہیں ہوسکتا ہے بلکہ صلح کی شرط پر رجوع ہے۔
بہت بڑا سوال یہ ہے کہ محمود بن لبید سے روایت ہے کہ رسول اللہۖ کو خبر دی گئی کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دی ہیں تو اس پر نبیۖ غضبناک ہوکر کھڑے ہوگئے۔ فرمایا کہ میں تمہارے درمیان میں ہوں اور تم اللہ کی کتاب سے کھیل رہے ہو؟۔ ایک شخص نے کہا کہ کیا میں اسے قتل کردوں؟۔
اگر اکٹھی تین طلاق کے بعد رجوع ہوسکتا تھا تو نبیۖ غضبناک ہونے کے بجائے رجوع کا حکم دیتے۔ رسول اللہۖ کے ”غضبناک ” ہونے کا یہی مطلب نکلتا ہے کہ تین طلاق کے بعد رجوع نہیں ہوسکتا تھا؟۔ یہ بات معتبرعلماء اور مفتیان نے اپنی اپنی کتابوں میں حلالہ کے حوالے سے لکھ دی ہے؟۔
جواب یہ ہے کہ اللہ نے فرمایا:” آپ سے پہلے کوئی رسول اور نبی نہیں آیا مگر جب اس نے تمنا کی تو شیطان نے اس کی تمنا میں القا کردیا، پس اللہ مٹادیتا ہے جو شیطان نے القا کیا اورپھراپنی آیات کو استحکام بخش دیتا ہے ”۔(الحج:52)
نبیۖ کا غضبناک ہونا اس وجہ سے نہیں تھا کہ اکٹھی تین طلاق کے بعد رجوع نہیں ہوسکتا تھا۔ نبیۖ کی یہ تمنا تھی کہ قرآن کے مطابق مرحلہ وار طلاق دی جائے۔ جنہوں نے کہاکہ نبیۖ کا غضبنا ک ہونا دلیل ہے کہ پھر رجوع نہیں ہوسکتا ہے انہوں نے شیطانی القا کو مذہب بناکر دین کا تحفظ نہیں کیا بلکہ دین کا بیڑہ غرق کردیا ہے اور پہلے انبیاء کرام کی تمناؤں کا بھی شیطانی القاؤں نے بیڑا غرق کیا ۔ اگر نبیۖ کا غضبناک ہونا اسلئے تھا کہ رجوع نہیں ہوسکتا تو پھر عبداللہ بن عمر پر غضبناک ہونے کے بعد رجوع کا کیوں حکم دیا تھا؟۔
جس شخص نے نبیۖ سے عرض کیا تھا کہ کیا میں اس کو قتل کردوں؟۔ تووہ حضرت عمر ہی تھے اور جس شخص کے بارے میں خبر دی تھی کہ اس نے اکٹھی تین طلاقیں دی ہیں تو وہ حضرت عبداللہ بن عمر تھے۔ صحیح مسلم کی روایت محمود بن لبید کی روایت سے زیادہ مضبوط اور واضح ہے کہ عبد اللہ بن عمر نے اکٹھی تین طلاق دی تھیں اور بیس سال تک کوئی دوسرا مستند شخص نہیں ملا جو اس بات کی تردید کرتا۔
ایک مضبوط سوال یہ ہے کہ چاروں اماموں نے اس پر کیوں اتفاق کیا تھا کہ ایک ساتھ تین طلاق واقع ہوجاتی ہیں؟۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اصل مسئلہ تو تنازع میں رجوع کے حق کا تھا لیکن پھر شیطان نے اپنے القا سے معاملہ بگاڑ دیا۔ شیعہ اور اہلحدیث کہتے ہیں کہ ایک ساتھ تین طلاق کے بعد شوہر کو رجوع کا حق ہے اور یہ قرآن کی روح کے خلاف ہے ، حضرت عمر اور ائمہ اربعہ کے مؤقف کی تائید قرآن سے ہوتی ہے کہ تنازع کی صورت میں رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔ جہاں تک باہمی صلح معروف طریقے سے رجوع کا تعلق ہے تو قرآن میں اللہ نے اس شیطانی القا کو مٹادیا ہے اور اپنی آیات کو استحکام بخش دیا ہے۔ قرآن کے مقابلے میں شیطانی القا کچھ نہیں ہے۔
قرآنی آیات میں بڑے تسلسل کیساتھ طلاق کے بعد رجوع کیلئے عورت کی رضامندی ، صلح کی شرط اور معروف طریقے کی وضاحت ہے لیکن شیطانی القا نے قرآنی آیات کی روح کے خلاف عورت سے ناراضگی ،ایک یا دومرتبہ طلاق کے بعد باہمی اصلاح اور معروف رجوع کا حق چھین کر مسائل کا ستیاناس کردیا ہے۔ ان آیات کی تفاسیر میںشرمناک فقہی اختلافات اور تضادات کو بیان کردیا جائے تو علماء ومفتیان خود بھی اس بیوقوفی کی تعلیمات پر ہنس پڑیںگے۔
سورہ حج آیت (53) میں علماء سو کا ذکر ہے ”تاکہ جنکے دلوں میں مرض ہے ان کیلئے شیطانی القا اور مستحکم آیات فتنہ بن جائیںاور جنکے دل سخت ہوچکے ہیں اور جوبدبخت دور کی گمراہی میں جاپڑے ہیں” ۔ اور سورۂ حج آیت (54) میں علماء حق اہل علم کا ذکر ہے ” تاکہ اہل علم جان لیں کہ حق نبیۖ کے رب کی طرف سے ہے اور مؤمنوں کیلئے اس فتنے میں صراط مستقیم کی رہنمائی مل جائے”۔
قرآن سورۂ طلاق میں فحاشی پر عورت کو ایک دم فارغ کرنے کی اجازت ہے۔ حضرت عویمرعجلانی نے بیوی سے لعان کا معاملہ کرنے کے بعد اکٹھی تین طلاق دینے کا اظہار کیا۔ ظاہر ہے کہ فحاشی کے بغیر اکٹھی تین طلاق دینا قرآن کے منافی اور غلط ہے۔ البتہ اگر ایک ساتھ فارغ کیا جائے تو گناہ اور غلط ہونے کے باجود اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ پھر رجوع بھی نہیں ہوسکتا ہے۔ دونوں باتیں افراط وتفریط کی انتہاء اور شیطانی القا ہے۔ یہ بھی غلط ہے کہ فارغ نہیں ہوسکتی ہے اور ایک ساتھ تین طلاق واقع نہیں ہوسکتی ہیں اور یہ بھی غلط ہے کہ اس کے بعد رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔ جب عورت صلح کیلئے راضی نہ ہو تو ایک ساتھ تین طلاق تو اپنی جگہ پر ایک مرتبہ طلاق کے بعد بھی رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔ اور جب عورت راضی ہو تو اکٹھی تین طلاق کے بعد عدت میں رجوع کا ہونا تو بہت معمولی بات ہے جو قرآن میں بالکل واضح ہے بلکہ اگر مرحلہ وار تین مرتبہ طلاق دی ہو ، عدت کی تکمیل کے کافی عرصہ بعد بھی اللہ نے رجوع کو واضح کیا ہے۔
جہاں تک رفاعة القرظی سے طلاق کے بعد عبدالرحمن بن زبیرالقرظی سے نکاح کے بعد اس عورت کے واقعے کا تعلق ہے جس سے نبیۖ نے فرمایا کہ ”آپ رفاعة کے پاس لوٹنا چاہتی ہو؟۔ آپ نہیں لوٹ سکتی ،یہاں تک کہ دوسرا شوہر تمہارا شہد( ذائقہ) چکھ لے اور آپ اس کا ذائقہ چکھ لو”۔ ( صحیح بخاری) تو یہ روایت بھی صحیح بخاری میں پوری تفصیل کیساتھ موجود ہے۔ جب یہ عورت اپنی شکایت لیکر نبیۖ کے پاس پہنچی تھی تو حضرت عائشہ نے اس کے جسم پر مارنے کے نشانات دیکھے تھے۔ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ جسم پر تشدد سے نیل کے نشانات پڑگئے تھے۔ اس نے اپنے شوہر کے نامرد ہونے کی شکایت کی تو اس کا شوہر عبدالرحمن بن زبیر القرظی اپنے بچوں کو لیکر پہنچ گئے۔ نبیۖ سے عرض کیا کہ یہ جھوٹ بولتی ہیں، میں نامرد نہیں ہوں۔ مباشرت میں اس کی چمڑی ادھیڑ کے رکھ دیتا ہوں۔ ان کے بچوں کو دیکھ کر اور ان کی بات سن کر نبیۖ نے فیصلہ کیا کہ عورت اس کے ساتھ رہے۔ (صحیح بخاری)
روایت کی تفصیل سے یہ واضح ہے کہ معاملہ حلالہ کروانے کا نہیں تھا بلکہ شوہر کی طرف سے تشدد اور عورت کی طرف سے نامرد کے جھوٹے الزام کا تھا۔ نبیۖ نے تشدد سے روکا تھا اور میاں بیوی کے درمیان صلح صفائی کروائی تھی۔ ہمارے ساتھیوں میں بھی یہ واقع ہوا تھا کہ عورت نے اپنے شوہر پر نامرد ہونے کا جھوٹا الزام لگادیا اور طلاق کا مطالبہ کیا۔ شوہر نے طلاق دیدی اور پھر عورت نے بعد میں اپنے جھوٹ کا اعتراف کیا اور پھر دونوں کی آپس میں صلح ہوگئی۔ ان کی طلاق سے پہلے بھی ایک بچی تھی اورصلح کے بعد بھی کئی بچے پیدا ہوگئے ۔ اس حدیث کو میاں بیوی کے درمیان صلح کی آخری حد تک کوشش پر محمول کرنا چاہیے تھا لیکن حلالہ کے خوگروں نے قرآن وسنت کی حدود پھلانگتے ہوئے شیطان کو خوش کیا ہوا ہے اور خود بھی سراپا شیطان بنے ہوئے ہیں۔
محدث العصر مولانا سلیم اللہ خان نے لکھا ہے کہ ” یہ روایت خبر واحد ہے اور اس میں اتنی صلاحیت بھی نہیں کہ قرآن کے لفظ نکاح پر جماع کا بھی اضافہ کیا جاسکے ۔ حنفی فقہاء اس حدیث کی بنیاد پر جماع کا فتویٰ نہیں دیتے ہیں بلکہ نکاح کو جماع کے معنی میں لیتے ہیں”۔( کشف الباری شرح صحیح البخاری)
امام ابوحنیفہ کے مسلک میں جہاں تک ہوسکے تو ضعیف حدیث پر بھی عمل کیا جائے اور اگر قرآن کے مقابلے میں صحیح حدیث ہو تو بھی اس کو ناقابل عمل قرار دیا جائے۔ حضرت فاطمہ بنت قیس کے متعلق صحیح احادیث سے یہ ثابت ہے کہ ان کو الگ الگ مراحل میں تین طلاقیں دی گئیں تھیں اور ضعیف روایت میں ہے کہ اکٹھی تیں طلاقیں دی گئیں تھیں۔ دونوں میں تطبیق یہی ہوسکتی ہے کہ ایک ساتھ تین طلاقیں دی ہوں اور پھر ان کا ایک شمار کیا ہو۔اسلئے الگ الگ بھی تین مرتبہ میںتین طلاق دی گئی ہوں۔ بعض روایات تو بالکل من گھڑت بھی ہیں جن میں ایک ساتھ تین طلاق کے عجیب الفاظ ہیں ۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ حلالہ کیلئے راہیں ہموار کرنے والوں نے اتنا زور لگادیا کہ نبیۖ پر جھوٹ باندھنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ علاوہ ازیں مسئلہ یہ بھی تھا کہ حضرت عمر کیخلاف بدعت کی طلاق ایجاد کرنے والوں کو جواب دینا تھا لیکن من گھڑت احادیث میں بدعت کی طلاق جاری ہونے کے الفاظ بھی بنائے گئے ہیں۔بہت ساری احادیث میں زمین کو مزارعت پر دینا سود قرار دیا گیا جس پر چاروں اماموں کا اتفاق بھی تھا لیکن بعد کے فقہاء نے احادیث اور ائمہ اربعہ سے کھلم کھلا انحراف کیا ہے۔

NAWISHTA E DIWAR May Edition. 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

البقرہ کی آیات (224سے232) اور سورۂ طلاق کی دو آیات میں طلاق اور اس سے رجوع کے علاوہ عورت کے حق کا جو نقشہ پیش کیاگیا ہے ، اگر صرف یہ قرآنی احکام علماء حق سمجھ کر دنیا کے سامنے رکھ دیں تو انقلاب عظیم کا آغاز ہوگا!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلان

رسول ۖ اللہ سے شکایت کرینگے کہ ” بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا” تو اس میں سرِ فہرست طلاق کے بعد رجوع کا مسئلہ ہوگا اسلئے کہ قرآن نے یہ بہت ہی واضح کیاہے

جب اُمت مسلمہ کے علماء ومفتیان ، دانشور ، وکلائ، جج، صحافی، اساتذہ ، لیکچرار، پروفیسراور تعلیم یافتہ وان پڑھ لوگ ان حقائق کی طرف توجہ دینگے تو خود کو بہرے و اندھے محسوس کرینگے!

قرآن میں اَیمان جمع یمین کا لفظ مختلف معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ عربی میں لفظ ”یمین ”عہدو پیمان کو کہتے ہیںاور عہدوپیمان توڑنے کوبھی کہتے ہیں اور حلف کو بھی کہتے ہیں اور حلف توڑنے کو بھی کہتے ہیں۔ فتاویٰ قاضی خان کے اندر شوہر کی طرف سے طلاق کیلئے بھی یمین کا لفظ استعمال ہوا ہے اور لونڈی کے آزاد کرنے کیلئے بھی یمین کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ یمین پختہ ہونے کے بعد کفارے کا حکم اس وقت ہے کہ جب حلف ہو ۔ ذٰلک کفارة ایمانکم اذا حلفتم ”یہ تمہارے یمین کا کفارہ ہے کہ جب تم نے حلف اٹھایا ہو”۔(سورة المائدہ) یمین سے مراد حلف نہ ہو تو پھر معاہدہ کرنے یا اسکے توڑنے پر کفارہ نہیں ۔
غلام ، لونڈی اور کاروبار وغیرہ میں معاہدے کیلئے بھی ملکت ایمانکم ”جن کے مالک تمہارے معاہدے ہیں” کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جہاں جملے اور سیاق وسباق میں یمین کا لفظ استعمال ہواہو،اسکے مطابق معنی مراد ہوتا ہے۔
سورۂ بقرہ آیت (224، 225) میں یمین سے مراد طلاق ہے، فتاویٰ قاضی خان میں طلاق کیلئے یمین کا لفظ استعمال ہواہے ۔البقرہ آیت (226) سے (232) تک کا تمام مضمون طلاق سے متعلق ہے اسلئے آیات (224اور 225) میں اَیمان جمع یمین طلاق اور میاں بیوی میں صلح کے حوالے سے ایک زبردست مقدمہ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا” اور اپنے عہدوپیمان کو اللہ کیلئے ڈھال مت بناؤ کہ تم نیکی اختیار کرو اور تقویٰ اختیار کرو اور لوگوں کے درمیان صلح کراؤ” (آیت224 )
یہ آیت مقدمہ ہے طلاق کے مسائل کیلئے۔ نیکی، تقویٰ اور صلح کرانے کیلئے اللہ نے واضح منع فرمایا کہ اللہ کو ڈھال کے طورپر استعمال مت کرو کہ میاں بیوی کے درمیان صلح کروانے سے رُک جاؤ۔ اگر سورۂ بقرہ کی ان آیات کو سادہ الفاظ میں سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش ہوتی تو مولوی اپنے فتویٰ خانے بند کردیتے ۔
طلاق صریح اور طلاق کنایہ کے جتنے الفاظ دورِ جاہلیت میں تھے اور ان پر جتنے اختلافات اور تضادات بنار کھے تھے، اب اسلام کے حوالے سے جاہلیت کو بھی فرقوں ، مسلکوں اور شخصیات کے اقوال نے بہت پیچھے چھوڑ دیاہے۔ اگر بیوی سے حرام کا لفظ کہہ دیا تو اس میں علامہ ابن تیمیہ کے شاگر علامہ ابن قیم نے اپنی کتاب ” زاد المعاد” میں بیس مختلف شخصیات کے اقوال نقل کردئیے ہیں۔
قرآن نے جاہلیت کے تضادات اور الجھنوں کو جڑ وںسے بالکل ملیامیٹ کرتے ہوئے ان مذہبی طبقات کیلئے کوئی راستہ نہیں چھوڑا تھا جن کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ کمثل الحمار یحمل اسفارا ”ان کی مثال گدھوں کی طرح ہے جنہوں نے کتابیں لاد رکھی ہوں”۔ اللہ کو پتہ تھا کہ امت محمدۖ کے مذہبی طبقات نے بھی سابقہ قوموں کے نقشِ قدم پر چل کرقرآن کے احکام کو اسی طرح جعل القراٰن عضین پارہ پارہ کرنا ہے جس طرح یہود و نصاریٰ نے اپنی اپنی کتابوں کیساتھ کیا تھا اور آئندہ کسی نبی نے نہیں آنا ہے اسلئے قرآن میں ایک ایک بات کھول کھول کر ایسی بیان کردی کہ گدھے نما انسانوں کو بھی سمجھ میں آجائے اور اس کیلئے کسی نئے نبی کی بعثت کی ضرورت نہیں پڑے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا” تمہیں پکڑتا نہیں اللہ تمہارے لغو عہدوپیمان پر مگر تمہیں پکڑتا ہے جو تمہارے دلوں نے کمایا ہے”۔(البقرہ آیت225 )
اس آیت میں طلاقِ صریح اور کنایہ کے الفاظ سے قطع نظر صرف دل کے گناہ پر پکڑنے کی بات واضح ہے لیکن یہ اللہ کی طرف سے پکڑنے کی نفی ہے ۔ کوئی ایسے الفاظ طلاق کے حوالے سے نہیں جو اللہ نے صلح کیلئے رکاوٹ بنائے ہوں۔ البتہ اگر ان الفاظ پر بیوی پکڑنا چاہے تو وہ پکڑنے کا حق رکھتی ہے۔ آیت میں اللہ کی طرف سے نہ پکڑنے کی وضاحت ہے ۔
اللہ نے فرمایا کہ ” جن لوگوں نے اپنی عورتوں سے نہ ملنے کا عہد کیا ہو تو ان کیلئے چار ماہ ہیں۔ اگر وہ آپس میں مل گئے تو اللہ غفور رحیم ہے۔ (آیت226 )
اس میںناراضگی کا ذکر ہے جب شوہر طلاق کا اظہارنہ کرے تو عورت چارماہ انتظار کی پابند ہے اور باہمی رضامندی سے صلح کرسکتے ہیں۔ ناراضگی شوہر کا حق ہے لیکن صلح دونوں کے اختیار میں ہے۔یہ نکتہ دنیا نے سمجھ لیا تو اسلام کی افادیت کا پتہ چل جائے گا کہ عورت کو کس قدر شوہر کے جبر سے بچایا ہے۔
اللہ نے فرمایا کہ ” اگر انہوں نے طلاق کا عزم کیا ہو تو پھراللہ سننے جاننے والا ہے۔( آیت227البقرہ )
چونکہ طلاق کے اظہار کے بعد عورت کی عدت تین ادوار یا تین ماہ ہے اور طلاق کا اظہار نہ کرنے کی صورت میں چار ماہ ہے ۔ اگر طلاق کا عزم رکھنے کے باجود اس کا اظہار نہیں کیا تو پھر یہ دل کا گناہ ہے اور اس پر اللہ کی پکڑ ہوگی۔
علیحدگی مرد کی طرف سے ہو تو یہ طلاق ہے اور اگر علیحدگی عورت کی طرف سے ہو تو یہ خلع ہے۔ سورہ النساء میں آیت(19) میں خلع اور آیات (20 ،21) میں طلاق کی وضاحت ہے۔ خلع میں عورت گھر بار چھوڑ کر نکلنا چاہے تو شوہر اس کو جبری طور سے روک نہیں سکتا اور حدیث صحیحہ میں خلع کی عدت ایک حیض ہے۔ خلع میں دی ہوئی منقولہ جائیدادعورت کا حق ہے اور طلاق میں دی گئی منقولہ وغیرمنقولہ جائیداد عورت کا حق ہے۔ عورت طلاق کا دعویٰ کرے تو دو گواہ لانے پڑیںگے۔ اگر دو گواہ یا شواہد نہیں ہوں تو پھر خلع کے حقوق عورت کو ملیں گے۔
فقہ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ” اگر شوہر نے تین طلاقیں دیدیں اور پھر اپنی بات سے مکر گیا تو عورت کو دوگواہ لانے پڑیںگے اور اگر عورت کے پاس دو گواہ نہ ہوں تو شوہر قسم کھائے گا اور اگر اس نے قسم کھالی تو عورت اس کیلئے حرام ہوگی پھر عورت خلع لے لیکن اگر عورت کو خلع نہ ملے تو وہ شوہر کیلئے حرام اور حرامکاری پر مجبور ہوگی”۔ قرآن کریم سے انحراف کے اتنے بھیانک نتائج نکلے ہیں۔
عورت جان چھڑانا چاہے تو شوہر کیلئے حرام ہے ، چاہے شوہر نے طلاق دی ہویا ناراض ہوا ہو یا عورت خلع لے ۔ قرآن میں یہ احکام واضح الفاظ میں بیان کئے گئے ہیں ۔مذہبی طبقہ کبھی اس انتہاء پر پہنچتا ہے کہ عورت جان چھڑانا چاہتی ہے مگر مذہب کے نام پر اس کی جان نہیں چھٹتی ہے اور کبھی میاں بیوی صلح کرنا چاہتے ہیں تو مفتی جہالت کافتویٰ لیکر کھڑے ہوتے ہیں کہ صلح نہیں ہوسکتی ہے۔
آیت (230) البقرہ کی اگلی اور پچھلی آیات کے ظاہری الفاظ کو سمجھ لیا جائے تو پھر دنیا میں قرآن سارے انسانوں کیلئے ہدایت کا مقتدیٰ بن جائے گا۔ ہماری قوم قیامت کے دن مجرم بن کر کھڑی ہوگی اور نبیۖ شکایت فرمائیں گے کہ ”اے میرے رب! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا”۔ (القرآن)
اللہ نے واضح کیا کہ ” عورت تین ادوار تک خود اپنی جانوں کو انتظار میں رکھیں اور اگر ان کو حمل ہو تو پھر اس کو نہ چھپائیں اگر وہ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہیں اور اس مدت میں ان کے شوہر ان کو لوٹانے کے زیادہ حقدار ہیں، بشرط یہ کہ اگر وہ اصلاح کرنا چاہتے ہوں اور عورتوں کے مردوں پر ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے ان پر ہیں اور مردوں کا ان پر درجہ ہے”۔( آیت228)
مرد کو طلاق کا حق ہے تو عورت کو خلع کا حق ہے۔ مرد کو رجوع کا حق ہے تو عورت کا اس کیلئے راضی ہونا ضروری ہے۔ البتہ مردوں کا عورتوں پر ایک درجہ ہے اور وہ یہی ہے کہ مردوں کی کوئی عدت نہیں لیکن عورت کی عدت ہے۔
جب آیت (226)میں ناراضگی اور (228) میں طلاق کے بعد عورت کی رضا مندی کے بغیر شوہر رجوع نہیں کرسکتا تو کیا اللہ نے آیت (229) میں ایک نہیں بلکہ دومرتبہ طلاق کے بعد بھی شوہر کو غیرمشروط رجوع کا حق دیدیا ؟۔ نہیں ہرگز نہیں معروف کا معنی اصلاح و باہمی صلح کی بنیاد پر مشروط رجوع ہے۔ اور جب اللہ نے معروف کی بنیاد پر رجوع کا حکم دیا ہے تو پھر اسکا عورت کی رضا کے بغیر رجوع کرنا حلال نہیں ہے۔ ان تمام آیات میں عورت کی رضامندی کی شرط کے باوجود بھی معروف رجوع کو نظر انداز کیا گیا ہے اور پھر آیات (228 اور 229) میں جس طرح ایک ایک بات کھول کے واضح کردی کہ تین ادوار میں تین مرتبہ طلاق کے بعد آخر کار اس حدتک پہنچ جانا کہ وہ دونوں اور فیصلہ کرنیوالے ڈریں کہ وہ حدود پر قائم نہ رہیںگے تو اگر چہ شوہر کی دی گئی کوئی چیز واپس لینا جائز نہیں مگر جب دونوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ بنتی ہو تو عورت کی طرف سے اس چیز کو فدیہ کرنے میں دونوں پر کوئی حرج نہیں۔ پھر ایسی صورت میں آیت (230) میں طلاق کے بعد کی صورتحال سے یہی واضح ہوتا ہے کہ مرد اس طلاق کے بعد عورت کو اپنی مرضی سے جینے کا حق دے۔ اپنی مرضی سے کسی اور شوہر سے نکاح کرنے دے۔ جبکہ مردوں کا دستور یہ ہے کہ عورت کو طلاق کے بعد بھی اپنی مرضی سے نکاح کرنے کے مخالف ہوتے ہیں جیسے لیڈی ڈیانا کو بھی طلاق کے بعد برطانوی شاہی خاندان نے کسی اور سے نکاح پر قتل کردیا تھا۔
پھر اللہ نے عدت کی تکمیل پر آیت (231 اور آیت232) میں معروف طریقے اور باہمی رضامندی کی بنیاد پر رجوع کی اجازت دی ہے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیاقرآن میں یہ تضاد ات نہیں کہ پہلی آیات میں عدت کے اندر ہی رجوع کی اجازت دی اور بعد کی آیات میں عدت کی تکمیل کے بعد رجوع کی اجازت دی ہے؟۔ اس کا جوا ب بہت واضح ہے کہ اللہ نے پہلی آیات میں عورت کا حق بیان کیا ہے کہ عدت تک انتظار فرض ہے جس میں باہمی رضامندی سے رجوع ہوسکتا ہے تاکہ عورت عدت کے بعد انتظار پر خود کو مجبور نہیں سمجھے۔ بعد کی آیات میں یہ واضح کردیا ہے کہ عدت کی تکمیل کے بعد باہمی رضامندی سے رجوع کی اجازت ہے۔ علماء وفقہاء نے اپنی معتبر کتابوں میں طلاق رجعی کیلئے ان آیات کو بھی دلیل بنایا ہے جن میں عدت کے بعد معروف رجوع کی اجازت ہے۔ جس کے حوالے ” طلاق ثلاثہ : حبیب الرحمن ”۔ادارہ تحقیقات قرآن وسنت انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد میں بھی دئیے گئے ہیں۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی اور موجودہ چیئرمین قبلہ ایاز کو بالمشافہہ ملاقاتوں میں ان معاملات سے آگاہ بھی کردیا تھا۔
سورۂ طلاق کے حکم کے مطابق عدت کے تین ادوار میں تین مرتبہ طلاق دی جائے تو پہلی آیت سورۂ طلاق کے مطابق عدت کو پورا کیا جائیگا، عورت اسکے گھر سے نہیں نکلے گی اور نہ اس کو نکالا جائے گا۔ مگر یہ کہ وہ کھلی فحاشی کی مرتکب ہو۔ (تواس کو گھر سے نکلنے اور نکالنے کی اجازت ہے) یہ اللہ کی حدود ہیں ،ان سے تجاوز نہیں کیا جاسکتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ باہمی اصلاح کی کوئی صورت اس بگاڑ کے بعد نکالے۔ (سورہ طلاق)
اس پہلی آیت کے مطابق پاکی کے دنوں میں طلاق دی جائے یہاں تک کہ حیض آجائے۔ پھر پاکی کے دنوں میں دوسری مرتبہ طلاق دی جائے یہاں تک کہ حیض آجائے۔ پھر پاکی کے دنوں میں تیسری طلاق دی جائے یہاں تک کہ حیض آجائے۔ عدت وطلاق کے ان تمام ادوار میں اللہ تعالیٰ نے صلح کی بھی گنجائش رکھی ہے۔ سورۂ بقرہ کی آیات اور سورۂ طلاق کی آیات میں کوئی تضاد بھی نہیں ہے۔ جب عدت کے ادوار میں تین مرتبہ طلاق کے باوجود بھی رجوع کی گنجائش اللہ تعالیٰ نے رکھ دی تو کیا عدت کی تکمیل کے بعد بھی رجوع کی گنجائش اللہ تعالیٰ نے رکھی ہے؟۔ پھر اللہ تعالیٰ نے سورہ ٔ طلاق کی آیت2میں یہ فرمایا کہ ”جب ان عورتوں کی عدت پوری ہوجائے تو ان کو معروف طریقے سے روک لو یا معروف طریقے سے الگ کردو”۔سوال ہے کہ اسکا مطلب یہ ہوا کہ عدت کی تکمیل کے بعد معروف طریقے سے رجوع کی گنجائش اللہ نے رکھی ہے؟۔ جواب یہ ہے کہ بالکل ان واضح الفاظ کے بعد کیا شک باقی رہ جاتا ہے۔ یہی الفاظ سورہ ٔ بقرہ آیت (231) میں بھی اللہ تعالیٰ نے استعمال کئے ہیں۔
سورۂ طلاق کی دوسری آیت کے مطابق اگر عدت کی تکمیل پر عورت کو الگ کرنے کا فیصلہ کیا تو پھر اللہ تعالیٰ نے دو عادل گواہ مقرر کرنے کا حکم دیا ہے اور ان کو انصاف کیساتھ گواہی کی تلقین فرمائی ہے اور ساتھ میں مژدہ بھی سنایا ہے کہ ومن یتقی اللہ یجعل لہ مخرجًا ” اور جو اللہ سے ڈرا،اس کیلئے اللہ نکلنے کا راستہ بنادے گا”۔ (سورہ طلاق آیت2) جس طرح سورہ بقرہ آیت (232) میں عدت کی تکمیل کے بعد ایک عرصہ گزرنے کے بعد رجوع کی اجازت باہمی رضامندی اور معروف طریقے سے دی گئی ہے اسی طرح سے سورۂ طلاق میں بھی اللہ نے رجوع کا راستہ بالکل نہیں روکا ہے لیکن مفتی سمجھنا نہیں چاہتا ہے تو؟۔

NAWISHTA E DIWAR May Edition. 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

سورۂ بنی اسرائیل میں معراج مصطفیۖ کے خواب اورقرآن میں شجر ہ ملعونہ کا ذکر ہے ۔سورۂ بقرہ آیت(230) میں حلالہ کی لعنت ہے ۔ سورۂ حج میں القائے شیطانی کو منافقوں کیلئے فتنہ اور اہل علم کیلئے رہنمائی کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

جامعہ دارالعلوم کراچی کورنگی کے ایریا (K-AREA)والے اپنے سودی کاروبار کی وجہ سے ہی حلالے پر ڈٹ گئے ہیں، باقی بڑے مدارس اور جامعات کے بڑے علماء ومفتیان حلالے کا حل چاہتے ہیں!

جب تک مدارس سے حلالہ کی لعنت کا اعلانیہ خاتمہ نہیں ہوگا تو معاشرے سے بے ایمانی، فحاشی اور بے حسی کا کبھی خاتمہ نہیں ہوسکے گا۔ رشد وہدایت کے مراکز گمراہی کے قلعے بن گئے ہیں!

شاہ ولی اللہ، مولانا ابوالکلام آزاد، سید مودودی،شیخ عبداللہ ناصح علوان، ڈاکٹر حبیب اللہ مختاراور علامہ سید ریاض حسین شاہ وغیرہ نے اسلام کے عالمگیر غلبے کی احادیث کو درست قرار دیا ہے اور قرآن میں اسلام کے تمام ادیان پر غلبہ پانے کی پیش گوئی ہے۔ اسلام کے عالمگیر غلبے کا خواب اللہ تعالیٰ نے نبیۖ کو معراج کے جیتے جاگتے مشاہدے میں دکھایا تھا۔ واقعہ معراج سورۂ بنی اسرائیل میں ہے۔ اردو اور عربی میں خواب کی دوقسمیں ہیں۔ ایک نیند کی حالت میں کوئی خواب دیکھنا اور دوسرا بیداری کی حالت میں نصب العین کا تعین کرنا۔ قرآن نے رسول اللہۖ کی بعثت کا نصب العین یہ بیان کردیا کہ ”تاکہ آپۖ کی بعثت سے دین حق تمام ادیان پر غالب ہوجائے” ۔واقعۂ معراج میں تمام انبیاء کرام کی امامت اس نصب العین کی جیتی جاگتی تصویر تھی۔ غامدی نے اپنے روحانی باپ مولانا مودودی سے اختلاف کیا کہ واقعہ معراج بیداری کا واقعہ نہیں تھا جبکہ مولانا مودودی نے اس کو بیداری کا واقعہ قرار دیا۔ مولانا مودودی بہر صورت اسلام کے غلبے کا خواب دیکھنا چاہتے تھے ،چاہے اس کیلئے جمہوریت اور ڈکٹیٹر شپ کے علاوہ جس طرح سے بھی ناک رگڑنی پڑے اور جاوید غامدی کو اپنے باپ سے اتنی الرجی ہوگئی ہے کہ وہ اسلام کے غلبے کی ذہنیت ہی کو اسلام کے اساسی اصولوں اور معروضی حقائق کے بالکل منافی قرار دے رہے ہیں۔
سورۂ بنی اسرائیل میں اللہ نے دو چیزوں کا ذکر کیا ہے کہ ان کو لوگوں کیلئے فتنے کا سبب بنایا گیا ہے ۔ایک نبی ۖ کا وہ خواب جو اللہ نے آپۖ کو دنیا میں دکھایا تھا۔ دوسرا قرآن میں شجرہ ملعونہ کا ذکر۔ آج پوری دنیا پرکفار کا غلبہ ہے اور مسلمان مغلوب ہیں،اللہ سے نصرت کی دعائیں مانگ رہے ہیںاور مایوسی کا شکار ہورہے ہیںتو رسول ۖ کے اس خواب کوکیسے پورا ہوتے ہوئے دیکھنے کی اُمید کرسکتے ہیں کہ اسلام کا پوری دنیا کے ادیان پر غلبہ ہوگا؟۔ دوسری بات قرآن میں لوگوں کیلئے فتنے کا باعث شجرہ ملعونہ کا ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں طلاق کی ایک ایسی صورت کا ذکر کیا ہے جس کے بعد عورت اپنے پہلے شوہر کیلئے حلال نہیں رہتی ،یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہر سے نکاح کرلے۔پھر اگر وہ طلاق دے تو اگر دونوں کو گمان ہو کہ اللہ کی حدود پر قائم رہ سکیںگے تودونوں پر رجوع کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔( آیت230البقرہ )
آیت میں حلالے کا ذکر ہے اور نبیۖ نے حلالہ کو لعنت قرار دیا، حلالہ کرنے اور کروانے والوں پر اللہ کی لعنت بھیجی اور ان کو کرایہ کا بکرا قرار دیا ہے۔
جب کوئی بیوی کو اچانک غصے میں تین طلاق دیتا ہے تو اسکے سامنے قرآن کی یہ آیت(230) البقرہ رکھی جاتی ہے اور حنفی مسلک کی غلط تشریح کافتویٰ رکھ دیا جاتاہے اور احادیث سے غلط نشاندہی فراہم کی جاتی ہے جس کی وجہ سے اچھے بھلے انسان اپنی بیگمات کو مولوی کے پاس حلالہ کی لعنت کیلئے چھوڑ جاتے ہیں۔
حالانکہ آیت(230) البقرہ سے متصل آیت(229) البقرہ میں اس طلاق کی کیفیت بہت زبردست طریقے سے بیان کی گئی ہے کہ ” طلاق دو مرتبہ ہے ، پھر معروف طریقے سے رجوع یا احسان کیساتھ رخصت کرنا ہے”۔ نبیۖ نے یہ واضح فرمایا ہے کہ تین مرتبہ طلاق کا تعلق قرآن کے مطابق عدت کے تین ادوار کیساتھ ہے اور آیت(229)البقرہ میں تیسری طلاق احسان کیساتھ رخصت کرنا ہے۔ جسکے بعد اللہ نے فرمایا کہ ”پھر تمہارے لئے حلال نہیں ہے کہ جو کچھ بھی شوہر نے دیا ہے کہ اس میں سے کچھ بھی واپس لے۔ مگر یہ کہ دونوں کو یہ خوف ہو کہ اس کی وجہ سے رابطہ ہوگا، دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے اور اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ وہ اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو دونوں پر کوئی حرج نہیں کہ پھر وہ چیز عورت کی طرف سے فدیہ کی جائے۔ یہ اللہ کی حدودہیں۔ اور جو اللہ کی حدود سے تجاوز کرے تو وہی لوگ ظالم ہیں”۔ (البقرہ آیت229)
آیت (229) میں ایک تفصیل یہ ہے کہ عدت کے تین مراحل میںتین بار طلاق دی گئی ہو اور دوسری تفصیل یہ ہے کہ میاں بیوی اور فیصلہ کرنے والے اس بات پر متفق ہوں کہ آئندہ رابطے کا کوئی ذریعہ نہ چھوڑا جائے یہاں تک کہ شوہر کی طرف سے دی ہوئی کوئی چیز بھی واپس کرنا جائز نہیں لیکن جب رابطہ کا ذریعہ، حدود توڑنے کا خوف ہو تو پھروہ عورت کی طرف سے فدیہ کی جائے۔ اس واضح کیفیت میں حنفی مسلک یہ ہے کہ آیت (230) البقرہ میں جس طلاق کا ذکر ہے اس کا تعلق آیت (229) البقرہ کے اس آخری حصہ میں فدیہ کیساتھ ہے۔ حضرت ابن عباس نے بھی اس کی تصریح کردی جس کو علامہ ابن قیم نے اپنی کتاب ”زاد المعاد ” میں نقل کیا ہے لیکن مفتیان حضرات حنفی مسلک کے متفقہ اصولوں سے انحراف اور اللہ کی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے ایک بار میں تین طلاق پر بھی قرآن وسنت اور حنفی اصول کے خلاف حلالے کا فتویٰ جاری کرتے ہیں۔
ہم نے اپنی ایک کتاب ”عورت کے حقوق ” میں دارالعلوم کراچی کے اس فتوے کا بھی حوالہ دیا ہے جس میں شرعی گواہوں کی موجودگی میں نکاح اور پھر اس طرح کا جماع ضروری ہے کہ حلالہ کرنے والے شخص اور جس عورت کا حلالہ کیا جارہا ہو دونوں میں جماع اس طرح ہو کہ التقاء ختانین ہوجائے ۔ یعنی دونوں کی ختنوں کی جگہوں کا آپس میں ملاپ ہوجائے۔ یہ صورتحال باقاعدہ فقہ کی کتب کا حوالہ دیکر بتائی جاتی ہیں۔ عام لوگوں کو پتہ نہیں ہوتا کہ شرعی گواہوں اورباشرع لوگوں میں کیا فرق ہے؟ اور ختنوں کی جگہوں کے ملاپ سے کیا مراد ہے؟۔
لوگوں کو قرآنی آیات ، احادیث صحیحہ اور فقہی کتابوں کے حوالہ جات سے ایسا مغالطہ دیا جاتا ہے کہ اچھے خاصے لوگ بھی اور سیدھی سادی عورتیں اس بات پر مجبور ہوجاتی ہیں کہ جب تک حلالہ کی لعنت سے گزرنا نہ پڑے تو اکٹھی تین طلاق کے بعد وہ عورت اپنے پہلے شوہر کیلئے حلال نہیں ہوسکتی ہے۔
آیت کا ترجمہ یہ لکھتے ہیں کہ ” اگر پھر اس نے طلاق(تیسری) دی تواس کیلئے حلال نہیں یہاں تک وہ کسی اور شوہر سے نکاح کرلے”۔ (البقرہ :230)
اور ساتھ میں آیت (229)کا ترجمہ لکھتے ہیں کہ ” طلاق دو مرتبہ ہے پھر اس کو معروف طریقے سے چھوڑنا یا احسان کیساتھ رخصت کرنا ہے”۔ اس کی یہ تشریح لکھ دیتے ہیں کہ طلاق رجعی دو ہی مرتبہ ہے پھر معروف رجوع ہے یا پھر رخصت کردینا ہے۔ اگر دوطلاق کے بعد تیسری طلاق دیدی تو پھر اس کیلئے وہ عورت حلال نہیں یہاں تک کہ وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح کرلے”۔ فتوے میں آیات (229) اور(230)کے اندر دو طلاق رجعی اور تیسری طلاق مغلظہ کے بعد مفتی صاحبان یہ حکم نکالتے ہیں کہ اب طلاق مغلظہ ہوچکی ہے اسلئے حلالہ کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔ جب ہم نے دارالعلوم کراچی کے فتوؤں کو علمی انداز میں رد کرنا شروع کیا تو انہوں نے فتوے میں آیات اور احادیث کے حوالہ جات دینے کے بجائے صرف یہ لکھ کر دیناشروع کیا کہ ” صورت مسئولہ میں طلاق مغلظہ واقع ہوچکی ہے اسلئے حلالہ کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا ہے”۔
حالانکہ آیت (229)میںدو مرتبہ کی طلاق نہیں بلکہ تین مرتبہ کی طلاق ہے۔ نبیۖ سے پوچھا گیا کہ قرآن میں تیسری طلاق کہاں ہے؟ ۔ فرمایا کہ” آیت (229) میں اوتسریح باحسان (یا احسان کیساتھ رخصت کرنا) ہی تیسری طلاق ہے”۔ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ دو طلاق کے بعد تیسری طلاق ہو تو پھر رجوع کی گنجائش ختم ہوجاتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے آیت (228) میں اس بات کی وضاحت کردی ہے کہ ” عدت کے تین مراحل تک طلاق شدہ عورت نے انتظار کرنا ہے اور ان مراحل میں اسکے شوہر کو اصلاح کی شرط پر اسکے لوٹانے کا حق ہے” تو اس میں دو باتیں واضح ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ عدت کے تین ادوار ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ صلح کی شرط پر ان ادوار میں رجوع کا حق ہے۔
آیت (228) میں جن تین ادوار تک عورت کوطلاق کے بعد انتظار کا حکم ہے آیت (229) میں ان تین ادوار میں تین مرتبہ طلاق کی وضاحت ہے۔آیت (228) میں عدت کی پوری عدت میں صلح کی شرط پر رجوع کی اجازت ہے اور آیت (229) میں معروف یعنی صلح کی شرط پر رجوع کی اجازت ہے۔
یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی فقہاء اور علماء ومفتیان کی طرح نہ صرف کم عقل بلکہ ہٹ دھرم بھی بن جائے کہ آیت (228) میں تین ادوار کی مدت تک انتظار اور اس میں رجوع کی اجازت دے اور آیت (229) میں اس سے متضاد بات کرے کہ دومرتبہ طلاق کے بعد تیسری طلاق ہوتو رجوع کی گنجائش نہیں ؟۔ قرآن کا یہ چیلنج ہے کہ ” اگر قرآن کسی غیر کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت سا اختلاف (تضادات) وہ پاتے”۔ مخالفین ایک تضاد ثابت نہیں کرسکے تھے لیکن علماء ومفتیان ان دونوں آیات میں جس طرح کا تضادبتاتے ہیں تو بقول علامہ اقبال کے کہ اللہ تعالیٰ، جبریل اور حضرت محمدۖ بھی حیران ہونگے کہ یہ وہ اسلام تو نہیں ہے جو اللہ نے جبریل کے ذریعے نبیۖ پر نازل کیا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی ایک ایک آیت میں جاہلیت کا قلع قمع کردیا ہے۔ جب جاہلیت میں ایک ساتھ تین طلاق کے بعد حلالے کا تصور تھا اور ایک طلاق کے بعد عدت میں بار بارغیرمشروط رجوع کا حق تھا۔ شوہر عورت کو طلاق دیکر عدت میں بار بار رجوع کرسکتا تھا تو اللہ نے ایک تیر سے جاہلیت کے دونوں مسائل کو شکار کردیا۔ عدت میں صلح کی شرط پر رجوع کا حق دیدیا تو ایک ساتھ تین طلاق پر حلالے کی بات ختم کردی اور جب رجوع کو صلح واصلاح سے مشروط کردیا تو پھر اس بگاڑ کا مکمل خاتمہ کردیا کہ بار بار عدت میں رجوع کی اجازت تو بہت دور کی بات ہے صرف ایک بار طلاق کے بعد بھی شوہر کو غیرمشروط رجوع کا حق نہیں دیا ہے۔
اگر شوہر بیوی کو طلاق دئیے بغیر ناراض ہو تو بھی عورت کی رضامندی کے بغیراللہ نے شوہر سے رجوع کا حق چھین لیا ہے۔ البتہ ناراضگی میں عدت تین ماہ کی جگہ چار ماہ ہے اور اللہ نے یہ واضح کردیا ہے کہ جب ناراضگی میں طلاق کا عزم تھا تو یہ دل کا گناہ ہے اور اس پر اللہ کی پکڑ ہے اسلئے کہ عورت کو عدت تین ماہ کی جگہ چار ماہ گزارنی پڑتی ہے ایک ماہ بلاوجہ انتظار کی اذیت دینے پر اللہ نے پکڑ کا فرمایا جو آیات (225،226اور227) البقرہ میں بھرپور طریقے سے واضح ہے۔
آیت (224) البقرہ طلاق کا مقدمہ ہے کہ” اللہ کو صلح میں رکاوٹ نہ بناؤ”۔ آیت (230) کے سیاق وسباق کو دیکھا جائے تودماغ کی بندگرہ بھی کھل جائیگی۔ قومی اسمبلی میں حلالہ سے چھٹکارے کیلئے اورسورۂ نور کی آیات کا بل پیش کردیا جائے تو عالمی فورم پر وزیراعظم بات کرسکے گا۔ہماری خدمات حاضر ہیں۔ جب اسلام کی طرف مسلمانوں کا رجوع ہوتو مدینہ کی ریاست کا ماحول بن جائے گا۔

NAWISHTA E DIWAR May Edition. 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

کالعدم تحریک لبیک کا دھرنا ختم!۔۔۔۔ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

راولپنڈی میں ذوالفقار علی بھٹو نے پنجابی پختون فسادات کیلئے لاشیں گرائیں تھیں،ماڈل ٹاؤن لاہورنوازشریف اور شہباز شریف نے اپنے اقتدار کیلئے لاشیں گرائیں۔طاہر القادری اور عمران خان نے پولیس افسر کی پٹائی، پی ٹی وی (PTV) پر قبضہ اورپارلیمنٹ پر حملہ کیا ، تحریک لبیک و عمران اتحادی تھے مگر دشمن بن گئے۔
فرانس کے سفیر کو نکالنے کیلئے 3ماہ کا معاہدہ دلّوں نے کیاپھر2ماہ کا معاہدہ دلّوں کے دلّوں نے کیا۔امجدخان نیازی نے پارلیمنٹ میں جو قرار داد پیش کی وہ جنرل نیازی کا بنگلہ دیش میں بھارتی فوج کے آگے ہتھیار ڈالنے اور مولانا عبدالستار نیازی کی تحریک ختم نبوت میں داڑھی منڈانے کی تضحیک سے بھی زیادہ جمہوری پارلیمنٹ کا مضحکہ خیز منظر تھا۔ مذہبی اور فوجی حلقے کو ہمیشہ تضحیک وتوہین ، طعن وتشنیع اور تنقید وتردید کا نشانہ بنایا گیا۔ اب پارلیمنٹ میں حکومت واپوزیشن کے اس روئیے نے جمہوریت کی دُم کے نیچے سے گوبرکو فوارے کی طرح پوری قوم اور دنیا کے سامنے خارج کرکے رکھ دیا، جو انقلاب کے بغیر صاف نہ ہوگا۔
سیاست میںمنافقت کی انتہاء اور مذہب کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا اس سے زیادہ بھیانک منظر شایدہی تاریخ نے کبھی دیکھا ہو۔ جے یو آئی اور ن لیگ اس بات پر سیخ پا تھیں کہ تحریک لبیک سے معاہدہ کیوں ہوگیا؟۔ حالانکہ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ، احسن اقبال اور مولانا اسعد محمود کو اس بات کا خیرمقدم کرنا چاہیے تھا کہ حکومت اور تحریک لبیک کا معاہدہ ہوگیا کہ ” فرانس کے سفیر کو نکالنے پر بحث کی جائے”۔ اور تحریک لبیک نے مان لیا کہ یہ قرار داد آزاد رکن کی حیثیت سے پیش ہوگی۔ میاں بیوی راضی تو کیا کریگا قاضی؟۔ مظاہرین پر امن منتشر ہوگئے تو ن لیگ اور جے یو آئی کو کیا تکلیف ہے؟۔ منافق صحافیوں نے مؤکلوں کی فیس کا حق نمک ادا کیا اور یہ نہیں کہا کہ” فرانس کے سفیر کو نکالنے کا مطالبہ کرنے والے پر امن طور پر منتشر ہوگئے تو ہمیں کیا پریشانی ہے؟”۔جب جے یو آئی اور ن لیگ نے بڑاپریشربنالیا توپیپلزپارٹی بھی کود گئی مگریہ نہ دیکھا کہ اس سیاست کا انجام آخر کار وہ قتل وغارت ہوگی جس کا تصوربھی نہیں ہوسکتا۔
قتل وغارت کے بعد ریت کی ناک بنائی گئی۔ دونوں سرکے بل مرغے بن کر دُم سے دُم باندھ کرگو خارج کرگئے۔ اگر ن لیگ یا جے یو آئی کا مسئلہ ہوتا تو وہ پہلے فریق بن جاتے۔ پرائے گو برپر پدو مارکر مزید گوبر خارج کیا۔جب پولیس اور سادہ لوح کارکنوں کا خون بہایا گیا تو جے یوآئی اور ن لیگ جنازوں میں شرکت کرتے مگر پارلیمنٹ میںفساد برپا کرنے کی غرض سے مشاورت کے بعد پہنچے۔ اسپیکر اسد قیصر کا اپوزیشن کیساتھ ایسا رویہ ہوتا ہے کہ اگر پٹائی بھی لگے تو شاید لوگوں کو تعجب نہ ہوگا ، مہذب ممالک میں ایسی فضاء بنتی ہے لیکن شاہد خاقان عباسی کا اس مرتبہ اسپیکر اسد قیصر کو جوتا مارنے کی دھمکی دینا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ اگر اسد قیصر غیرتمند پختون ہوتا تو کم ازکم مائک اسکے سر پر مارتا کہ یہ کیا بکواس کرتے ہو؟۔ یا اسمبلی سے باہر نکالتا اور نہیں تو اسپیکر کی کرسی اور اسمبلی کو لات مار کر چھوڑ دیتا کہ جہاں عزت نہیں وہاں اس کرسی پر وزیرداخلہ شیخ رشید کی زبان میں لعنت بھیجتا ہوں، لعنت بھیجتا ہوں ، لعنت بھیجتا ہوں۔
پیپلزپارٹی ، ن لیگ ، جے یو آئی نے اظہار یکجہتی کیااور لبیک کی شوریٰ نے سب کا شکریہ ادا کیا۔ تحریک لبیک کے رہنماکارکنوں کے ہاتھوں مار کھائیں گے۔ قومی اسمبلی میں فرانس کے سفیرنکالنے کا پلے کارڈ مسلم لیگ ن نے اٹھایا اور نعرہ لگایا کہ تاجدار ختم نبوت زندہ باد ۔ حکومت نے وعدہ خلافی کی، پنجاب پولیس اور تحریک لبیک کے کارکنوں کا خون بہانے کے بعد پسپائی اختیار کی گئی تو پنجاب میں بڑے پیمانے پر قتل وغارت گری کا بازار گرم ہوسکتاتھا ۔ ن لیگ کو انتقام لینے کا موقع ہاتھ آگیا۔ دلیل کی بنیاد پر عوام کو قائل نہ کیا تو مذہبی سیلاب بہت کچھ بہا سکتا ہے۔ ن لیگ کی حکومت آئی تو لیڈر نشانہ بنیںگے کہ تمہاراضمیر جاگ گیا؟ اوریا مقبول جان نے معاہدہ کرواکر کہا کہ” پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے ایمان کا پتہ چل جائیگا”۔ حکومت نے پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی مخالفت کے باوجود فوج کے تحفظ کا بل پاس کیا تو کیا فرانس کا سفیر نہیں نکال سکتی تھی؟۔عوام کا جذبہ ٹھنڈا ہونے تک معاہدہ کیوں کیا؟ دوسروں کو دلّے کہنے والوں نے دلّا گیری کی کیا کسر باقی چھوڑی؟۔ ن لیگ کے ایم این اے (MNA) پرویز کو ڈاکٹر نعیم باجوہ نے غلطی سے امتحان میں دوسرا بندہ بٹھانے پر پکڑا تو اسکا عابد شیرعلی نے کیا حشر کیا؟۔سوچئے!

NAWISHTA E DIWAR May Edition. 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

اگر دنیا دیکھے کہ سورۂ نور میں حضرت عائشہ پر بہتان کی وہی سزا ہے جو عام خاتون کی ہے تو گنبد خضراء کو سجدہ اسلئے نہیں کرینگے کہ نبیۖ نے فرمایا” اے اللہ! میری قبر کو سجدہ گاہ نہ بنانا” عمران خان بھی پاکپتن کی طرح کلٹی ہوجاتا!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

قرآن کے عادلانہ نظام کیلئے اقتدار میں آنا ضروری نہیں ہے ، مولانا عبدالشکور بیٹنی قومی اسمبلی میں کسی من گھرٹ یا ضعیف حدیث کو قرآن کہنے کے بجائے سورۂ نور کی آیات پیش کریں

نبیۖ نے نبوت کے دعویدار گستاخ ابن صائد دجال کے قتل کی اجازت نہ دی جبکہ یہاں اسلام کو جاہل بلیک میلنگ کیلئے استعمال کرتے ہیںاورارباب اختیاربھی پشت پناہی کرتے ہیں

علامہ اقبال نے اپناکہا تھاکہ ” مجموعۂ اضداد ہوں اقبال نہیںہوں”۔ ہمارا حال بھی ” مجموعۂ اضداد” سے مختلف نہیں ۔” فرقہ بندی ہے اور کئی ذاتیں ہیں”۔ سنجیدگی سے مسائل کا حل نہ نکالا تو ہماری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں۔ جس قائدا عظم کے پاکستان کی بات وزیر مملکت علی محمد خان نے قومی اسمبلی میں پیپلزپارٹی کے سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف و جمعیت علماء اسلام کے مولانا عبدالشکور بیٹنی کے مقابلے میں کی تو اس کا وزیر خارجہ سر ظفر اللہ قادیانی ، وزیر قانون ہندو، پہلے دو آرمی چیف انگریز تھے جو اپنے وقت پر ریٹائرڈ ہوگئے ، پہلا مسلمان آرمی چیف جنرل ایوب خان تھا جس نے صدر پاکستان سکندر مرزا سے اقتدار چھین کر پاکستان پر قبضہ کیا، مادرملت فاطمہ جناح کو دھاندلی سے ہراکر غدار قرار دیا اور قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کو وزیرخارجہ بناکر سیاست کی پہلی نئی جنم بھومی کا آغاز کیا اور پھرجنرل یحییٰ خان قزلباش جیسا عیاش آرمی چیف آیا۔ قائداعظم کا پاکستان دولخت ہوا، حقیقی جمہوریت میں شیخ مجیب نے اقتدار سنبھالنا تھا لیکن بھٹو نے ادھر ہم اُدھر تم سے یہ پاکستان دولخت کردیا اور فوج نے ہتھیار ڈال کر مشرقی پاکستان بھارت کے حوالہ کردیا۔ پہلے سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں جمہوری اسلامی آئین (1973) ء میں بن گیا لیکن بھٹو مارشل لاء کا پالتو تھا اسلئے بدترین قسم کی ڈکٹیٹر شپ کی ذہنیت بھی رکھتا تھا۔ لاڑکانہ میں اپنے خلاف الیکشن لڑنے کی اجازت کسی کو نہیں دی، حالانکہ اس کی جیت یقینی تھی، کراچی سے جماعت اسلامی کے رہنما نے الیکشن کیلئے کاغذات جمع کرانے چاہے تو کمشنر کے ذریعے اغواء کیا۔ جمہوری قیادت کو جیل میں ڈال کر بغاوت کا مقدمہ چلایا۔ سیاسی پارٹیوں کو کالعدم قرار دیدیا۔ جس کی وجہ سے لوگوں نے جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء وقتی طور پر قبول کیا مگر سیاسی جماعتوں نے ایم آر ڈی (MRD)کے نام پر جدوجہد شروع کی ۔ نوازشریف کو تحریک استقلال سے اٹھاکر ضیاء الحق نے گودی بچہ ، الطاف بھائی کو قوم پرست بچہ، جماعت اسلامی کو جہادی بچہ بنایا۔ اسلامی جمہوری اتحاد کے نام پر جنرل ضیاء کے باقیات کو (1990) میں حکومت دلائی گئی تو جماعت اسلامی کے جنرل سیکرٹری پروفیسر غفور احمدتک سے معاملہ خفیہ رہا۔ (93) الیکشن میںجماعت اسلامی نے ”قاضی آرہا ہے” کی مہم چلائی مگربینظیراقتدار میں آگئی اور مولانا فضل الرحمن اتحادی تھے۔ نواز شریف پرلندن فلیٹ کا مقدمہ بن گیا۔ مرتضیٰ بھٹو کو مارنے کے بعد بینظیر کی حکومت ختم کی گئی اورنوازشریف کو اقتدار دیا گیا توسیاسی قائدین کو اسمبلی سے باہر رکھا گیا۔ نوازشریف نے فوج کے آرمی چیف پرویز مشرف پر پیٹھ پیچھے وار کیا لیکن فوج نے اس کو ناکام بناکر اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ جنرل ایوب کی ڈکٹیٹر شپ سے ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاء کی ڈکٹیٹر شپ سے نواز شریف اور جنرل پرویز مشرف کی ڈکٹیٹر شپ سے عمران خان پروان چڑھا ۔ جب پرویز مشرف کے ریفرینڈم کی حمایت عمران خان کررہاتھا تو تحریک انصاف کا جنرل سیکرٹری معراج محمد خان مخالفت کررہا تھا۔ پرویزمشرف کے دور میں متحدہ مجلس عمل اور ق لیگ اقتدار اور اپوزیشن میں تھے۔ پھر پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی حکومتوں میں مولانا فضل الرحمن بھی شریکِ اقتدار تھا۔ نوازشریف دور میں ختم نبوت کا مسئلہ آیا تو قومی اسمبلی نے بل پاس کیا۔ مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ مجھے خوف تھا کہ کہیں میری صدارت میں بل سینیٹ سے پاس نہ ہوجائے۔ چیئرمین سینیٹ کی غیر حاضری میں ڈپٹی چیئرمین سینٹ کی حیثیت سے مجھے مرزائی نواز بل پر دستخط کرنے پڑتے، یہ شکر ہے کہ بل پاس نہیں ہوا۔ پھر حکومت نے قومی اسمبلی و سینیٹ کے مشترکہ اجلاس میں بل پیش کیا تو شیخ رشید نے جمعیت علماء اسلام کے رہنماؤں کو پکارا کہ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کو تم جواب کیا دوگے؟۔ شیخ رشید نے قائداعظم کا نام نہیں لیا بلکہ سید عطاء اللہ شاہ بخاری ہی نے ختم نبوت کیلئے قربانی دی تھی۔ پھر تحریک لبیک والوں نے فیض آباد چوک پر قربانی دی توعمران خان نے بھی ان کا ساتھ دیا، مسلم لیگ ن کو اپنے ذمہ دار وزیر کو فارغ کرنا پڑگیاتھا۔
آئین پاکستان میں قرآن وسنت کی بالادستی ہے لیکن قرآن کے جو احکام نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ پوری دنیا کو بھی اندھیر نگری سے نکال سکتے ہیں تو ان پر کوئی سیاسی ، مذہبی جماعت یاشخصیت اور صحافی بات کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ مفتی محمدتقی عثمانی کے شاگرد مفتی زبیر نے بول نیوز پر کہا کہ اسلام نے تمام انبیاء کی گستاخی پر سزائے موت رکھی، حالانکہ یہ سراسر جھوٹ اور جہالت ہے۔ یہود عیسیٰ علیہ السلام پرولد الزنا اور حضرت مریم پرزنا کا بہتان لگاتے تھے ۔جب گستاخانہ اعتقاد رکھنے والی یہودن سے اسلام نے نکاح کی اجازت دیدی تو قتل وغارت ، تشدد اور شدت پسندی کے خاتمے کا اصل سبب دنیا میں اسلام بنا تھا۔ حضرت عائشہ پر بہتان لگا۔ حضرت حسانبن ثابت، حضرت حمنا بنت جحش اور حضرت مسطح شامل تھے تو ان کو قتل کا حکم نہیں دیا بلکہ جو سزا ایک عام خاتون پر بہتان لگانے کی اسّی (80) کوڑے ہیں وہی سزا ان کیلئے بھی تھی۔ گستاخ کفار کوپتہ چلے تو گنبد خضراء کو سجدہ کرینگے لیکن ہمارے نبیۖ نے فرمایا کہ ” اے اللہ ! میری قبر کو سجدہ گاہ نہیں بنانا”۔یہ دعا نہ ہوتی تو وزیراعظم عمران خان بشریٰ بی بی کی ہدایت پربابافریدپاکپتن کی راہداری کی طرح گنبدخضراء پر کلٹی ہوسکتاتھا۔
ڈرامہ باز وںکی بیگمات پر زنا کا بہتان لگے تو قتل یا اربوں کی ہتکِ عزت کا دعویٰ کرینگے مگر نبیۖ کی توہین پر جھوٹ بولیں گے کہ ناموس پرہم قربان لیکن فرانس کا سفیر نہیں نکال سکتے۔ حکومت وریاست اور سیاسی ومذہبی رہنماؤں کو بروقت سچ بولنے کی ضرورت ہے ورنہ فتنہ وفساد سے سب تباہ ہوسکتے ہیں۔ آج عاشق رسول اپنے قیدی چھڑانے کی فکر میں ہیں اور سیاستدان حالات سے فائدہ اٹھاکر عشق رسول کے جذبات کا دورہ پڑنے کی ڈرامہ بازی کررہے ہیں۔
جنرل باجوہ کی صحافیوں سے ملاقات مسائل کا حل نہیں۔ صحافیوں نے جنکا کھانا ہے انکا گن گانا ہے۔ ریاست مدینہ کیلئے سورۂ نور کو پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے۔ اندھیرے کو لاٹھی گولی کی سرکار نہیں روشنی ہی بھگاسکتی ہے۔ ہمیں توقع ہے کہ ستائیس (27) رمضان کوسورۂ نور قانون سازی کیلئے پارلیمنٹ میں پیش کی جائیگی۔

NAWISHTA E DIWAR May Edition. 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

اسلام کے عروج وزوال کے بعد عروج شروع اور اب پودوں پر پھول، درختوں پر پھل نظر آئیں گے

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

اس پر مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ آج اُمت مسلمہ زوال وپستی کی انتہاء تک پہنچ چکی ہے لیکن عنقریب عروج کے آفتاب کا منظر پیش ہوگا۔بیت المقدس فتح ، پوری دنیا پر اسلامی خلافت قائم ہوگی اور دنیا کے ہر بنگلے و جھونپڑی میں اسلام پہنچ جائیگا

ہم نے دیکھنا ہوگا کہ ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟، قرآن میں لعان کی آیت سے زوال کی ابتداء ہوئی اور حلالہ کی لعنت پر اس کی انتہاء ہوئی اب ہم عروج کی انتہاء تک پہنچیں گے انشاء اللہ

سورۂ نور کی آیات سے آئین کے دفعہ(62، 63) پر عمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور مساوات کے اعلیٰ ترین قوانین سے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا میں اندھیر نگری و شدت پسندی کا خاتمہ کرناہوگا

ہماری تحریک کا جو بیج ہم نے لگایا تھا،اب انشاء اللہ گلاب کے کانٹے دار پودوں پر پھول اور کھجور کے نوکدار درختوں پر پھل نظر آنا شروع ہوجائیںگے تو لوگ مایوسی سے بھی نکل جائیں گے !

حکومت اورریاست فوری طور پر قرآن وسنت کے مطابق حلالہ کی لعنت کا خاتمہ کرنے کیلئے علماء کا نمائندہ اجلاس بلائے۔ سورہ ٔ حج کی آیات (52، 53) اور (54)کی روشنی میں حقائق منظر عام پر لائے جائیں۔تاکہ علماء سوء اور علماء حق میںفرق واضح ہوجائے۔ سورۂ بنی اسرائیل آیت(60) کے مطابق نبیۖ کے خواب اسلام کے غلبے اور قرآن میں شجرملعونہ پر لوگوں کے درمیان آزمائش شروع ہو اور اہل حق کامیاب اور اہل باطل مغلوب ہوکر منہ کی کھائیں۔
سورۂ نور میں زنا کار مرد اور زنا کار عورت کیلئے (100،100) کوڑے کی سزا ہے۔ سب سے پہلے عیاش لیڈر شپ کو اسمبلی کے اندر خود کو پیش کرکے سورۂ نور کی ابتدائی آیت پر عمل کرنے کا مظاہرہ کرنے کی دعوت دی جائے۔ صحابہ نے اپنے اوپر حد نافذ کرنے کیلئے خود کو پیش کیا تھا جبکہ ہم دوسروں کو سزا دیتے ہیں۔
سورۂ نور میں بے گناہ عورت پر بہتان کی سزا(80)کوڑے ہیں۔ حضرت عائشہ پر بہتان لگا تھا تو بہتان لگانے والوں کو (80، 80)کوڑے لگائے گئے۔ آج کسی کی بیگم پر بہتان لگ جائے تو جس کا بس چلے تو اس کو قتل کردے لیکن رسول ۖ نے دسترس رکھنے کے باجود بہتان لگانے والوں کو قتل نہیں کروایا تھا۔ اسلام میں امیر وغریب کی عزت وناموس میں فرق نہیں۔پاکستان کا عدالتی نظام آئین کے مطابق نہیں ہے۔ کرپٹ حکمران اپنی ہتک عزت کا دعویٰ اربوں اور کروڑوں میں کرتے ہیں جبکہ غریب کو ہتک عزت میں وکیل اور کورٹ کی فیس بھی نہیں مل سکتی ہے۔ غریب کیلئے تھوڑے پیسوں کی سزا بہت اور امیر کیلئے زیادہ پیسوں کی سزا بھی کچھ نہیں ہوتی لیکن(80،80)کوڑے کی سزا برابر ہے۔ہمارا حکمران طبقہ پارلیمنٹ میں سورۂ نور پر بحث بھی نہیں کرسکتا ہے اسلئے کہ ان کے مشہوراسکینڈل ہیں۔ میڈم طاہرہ، طاہرہ سیداور سیتاوائٹ۔ بازار میں دودھ ملتا ہو تو بھینس رکھنے کی کیاضرورت ؟۔ پارلیمنٹ سے بازارِ حسن تک کی کتاب۔
آئین کے دفعہ(62، 63) کے معیارپر بڑے بڑے پارلیمنٹ میں پورا نہیں اترتے۔ پارلیمنٹ کے بیان، معروضی حقائق، قطری خط اور اس سے مکر جانے کی کہانیاں صادق وامین کی اہلیت پر پورا نہیں اُترسکتے ہیں۔ سورۂ نورسے شدت پسندی کا مکمل خاتمہ اور اسلام کا روشن چہرہ دنیا کے سامنے آجائے گا۔
عورت کو غیرت کی بنیاد پر قتل کرنے سے سورۂ نور میں لعان کے حکم سے روکا گیا مگر مسلمانوں نے اللہ کی بات نہیں مانی اور مولوی کی مان کرحلالہ کی لعنت کو فتویٰ بنایا۔ ہندو شوہر کے پیچھے بیوہ کو زندہ جلا ڈالتے تھے۔ اس رسم کو ”ستی” کہا جاتا تھا۔ نئے دین کے بانی اکبرمغل،عیاش محمد شاہ رنگیلا، بھائیوں کے قاتل اورنگزیب عالمگیر جس نے (5)سوعلماء سے فتاویٰ عالمگیریہ میں لکھوادیا کہ ” بادشاہ چوری، زنا، قتل کرے تو اس پر حد جاری نہیں ہوسکتی” ۔تاکہ بدلے میں قتل نہ ہو ۔
یہ مغل بادشاہ ہندوستانی ریاستوں پر آپس میں لڑتے رہے ۔ پنجاب میں سکھ راجہ رنجیت سنگھ نے حکومت بنائی تھی جو پختونخواہ تک پھیلی ہوئی تھی۔ جب انگریز آیا تو موجودہ پاکستان کی عوام خوش تھی کہ ظالم رنجیت سنگھ سے چھٹکارا مل گیا ہے جس کا کام مغل بادشاہوں کی طرح صرف ٹیکس وصول کرنا تھا۔ انگریز نے عوام کو ریلوے کا نظام دیا، پکی سڑکیں تعمیر کیں، ٹریفک کا نظام لائے ۔ نہریں، بجلی ،جدید تعلیم، عدالت، پولیس، فوج وسول بیوروکریسی کا نظام دیا۔ علامہ خادم حسین رضوی نے کہا کہ ایک مجذوب نے کہا کہ افغانستان کا بزرگ کہتا ہے کہ انگریز یہاں سے نکلے اور داتا گنج بخش کی چاہت ہے کہ کچھ عرصہ مزید رہے تو پیر مہر علی شاہ نے کہا کہ دلّے بڑوں کی بات بڑے جانیں تو اپنے کام سے کام رکھ ۔ جسٹس فائز عیسیٰ کیس کے فیصلے نے نظام کے حوالہ سے آخری حد پار کردی۔
اقبال نے ”محراب گل افغان” کے عنوان سے محسود اور وزیر کا ذکر کرتے ہوئے خانزادگانِ کبیر سے توقع کا اظہار کیا کہ لاکھوں میں ایک صاحبِ یقین پیدا ہو تو انقلاب آجائے گا۔ انگریز برصغیر میںاپنی نالائق باقیات چھوڑ کر گیا۔ رنجیت سنگھ اور مغل بادشاہوں کی باقیات عوام اور مولوی کمزور تھے ۔ سیاستدانوں نے بھی نالائقی کی انتہاء کردی۔ میرے کلاس فیلو مفتی اعظم امریکہ منیراحمد اخون نے حضرت خضر سے ملنے اور نبیۖ کا مشاہدہ بیان کیا ہے۔پاکستان کو قرآن کے ظاہری احکام کی طرف رجوع کرنے سے ہی اب بچایا جاسکتا ہے۔
لعان کا حکم انگریز نے ہندوستان میں مسترد کردیا۔ کیا یہی وہ خوشبو تھی جو میر عربۖ کو اسلام کی نشاة ثانیہ کے حوالے سے آئی تھی؟۔ ہندوستان کے برہمن اورپختون کی غیرت بہت مثالی تھی۔ انڈیا کی فحش فلموں نے ہندی برہمن کو غیرت سے محروم کردیا۔ طالبان جنگ نے پختون کی غیرت کو پامال کردیا۔ وزیرستان سے سوات تک جو لوگ معمولی بات پر خون خرابے کیلئے تیارہوجاتے تھے وہ طالبان کی دہشت سے غیرت کھو بیٹھے۔ پنجابی زبان والی فوج کے معمولی سپاہیوں نے اچھے عزتدار پختونوں کی غیرت کوملیامیٹ کردیا۔لاہور ہائیکورٹ نے (15) روپے فی کلوچینی سستی دینے کیلئے عوام کی قطاریں لگانے کو توہین اور آئین کیخلاف قرار دیا۔ قبائل سالوں سال راشن کیلئے سحری کے وقت سے دوپہر تک لائن لگاتے اور فوجی سپاہی ڈسپلن کے نام پرتشدد کرتے مگر کسی کو آئین میں پختونوںکی تذلیل دکھائی نہیں دی۔ کاش ہماری عدالتوں کو عدالتی رویے میں عوام کی تذلیل وخواری کا بھی احساس ہوجائے اورہمارابھی ریاست سے نشئی شاعر ساغر صدیقی کی طرح عشق ہوجائے کہ محبوبہ کے نام پر غزلیں گائیں اور محبوبہ تک پہنچنے کو بھی اپنی دسترس سے باہر سمجھیں تو پھرباغی نہیں بنیں گے۔
جارج فلائیڈ قتل عدالتی فیصلے پرامریکی صدر جوبائیڈن نے کہا کہ منظم نسل پرستی ہماری قوم پر دھبہ ہے۔ حالانکہ امریکہ ظلم اور منافقانہ پالیسی سے داغ داغ ہے۔ امریکی فوج نے افغانستان میں مردوں کو بھی تذلیل کیلئے ریپ کیا ہے۔ کاش ہمارامیڈیا بھی بی بی سی کی طرح جرأت کرکے اسکے کرتوت سامنے لائے۔
جس دن ہماری ریاست، حکومت، اپوزیشن، مذہبی وسیاسی جماعتوں کے قائدین ، کارکن اور میڈیا نے حلالہ کی بے غیرتی اور سورۂ نور سے اندھیر نگری کے خاتمے کا اعلان کردیا تو برصغیر پاک وہند سے جو خوشبو نبی پاک ۖ کو آئی تھی وہ سامنے آئے گی اور پوری دنیا میں اسلام کی نشاة ثانیہ کا ڈنکا بجے گا۔قرآن کے نظام سے انقلاب آئیگا اور عرب قرآن کو چھوڑ کر مہدی کے خواب دیکھتے ہیں۔

NAWISHTA E DIWAR May Edition. 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat