پوسٹ تلاش کریں

تحریک لبیک اور حکومت میں لڑائی، مذہبی انتہا پسندی اور ریاستی منافقت کا علاج

تحریک لبیک اور حکومت کی لڑائی؟__

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

آج اوریامقبول جان کہتا ہے کہ تحریک لبیک کے مطالبات میں فرانس کے سفیر کو نکالنے کا مطالبہ شامل نہیں ہے۔ وزیرداخلہ شیخ رشید کہتا پھرتا ہے کہ فرانس کے سفارت خانے کو ہم بند نہیں کرسکتے ہیں اور یہ کہ فرانس کا سفیر پاکستان میںموجود نہیں ہے۔ اوریا مقبول جان کہتا ہے کہ ان کے تین مطالبات ہیں۔ سعد رضوی اور دیگر ساتھیوں کو رہا کیا جائے۔ کالعدم کا لیبل ہٹایا جائے اور عدالتوں میں قائم مقدمات واپس لئے جائیں۔
حکومت اور اپوزشن کی نااہلی اور مفاد پرستی نے پاکستان کو تباہی کے دہانے پہنچادیا ہے۔ حکومت کی طرف سے فرانس کے سفیر کو نکالنے کی قرارداد پیش ہونا تھی تو ن لیگ اور مولانا فضل الرحمن تحریک لبیک کیساتھ کھڑے ہوگئے تھے۔ اور ان کا مقصد تحریک انصاف سے اپنا بدلہ چکانا تھا۔ جب دونوں نے اپنی مشترکہ حکومت میں قادیانیوں کے حق میں ترمیمی بل پاس کیا تھا تو تحریک انصاف نے تحریک لبیک کا ساتھ دیا اور شیخ رشید گھیراؤ جلاؤ کی باتوں میں شریک تھا۔ اب ان کی سمجھ میں بات نہیں آتی ہے کہ تحریک لبیک کیساتھ کیا کیا جائے؟۔حالانکہ معاملہ بہت ہی آسان ، سادہ اور قابلِ حل ہے۔
پہلا مطالبہ یہ ہے کہ ” گرفتار ملزموں کو رہا کیا جائے”۔ موجودہ حکومت مجرم نوازشریف اور مریم نواز کو رہائی دے سکتی ہے تو تحریک لبیک کے ملزموں کو رہا کرنا کونسا مشکل کام ہے؟۔ پہلا مطالبہ حکومت مان سکتی ہے کہ جب طاقتور طبقہ پشت پر ہو تو ضمانت پر رہائی ملنے میں دیر نہیں لگتی ہے۔ دوسرا مطالبہ دونوں کے درمیان50،50فیصدکا معاملہ ہے۔ جب تک حکومت سپریم کورٹ میں کالعدم قرار دینے کی درخواست دائر نہیں کرتی ہے تو حکومت کی طرف سے کالعدم قرار دینے کا معاملہ ویسے بھی ادھورا ہے۔ الیکشن کمیشن نے بھی اسلئے تحریک لبیک کو کراچی کے ضمنی انتخابات میں حصہ لینے سے نہیں روکا تھا۔موجودہ حکومت نے جمعیت علماء اسلام کی ڈنڈا بردار فورس انصار الاسلام پر پابندی کا علان کیا تھا مگر اس پر عمل درآمد نہیں کرایا جاسکا۔ ریاست نے تحریک لبیک کو تحریک طالبان اور انصار الاسلام جیسی تنظیموں کے مقابلے میں زندہ رکھنا ہے۔ اسلئے آدھا مطالبہ خود حکومت نے پہلے سے تسلیم کیا ہے اور باقی آدھے پر بھی عمل کرے تاکہ حکومت اپنے دوغلے پن سے باہر نکل آئے۔ تیسرا مطالبہ عدالتوںسے کیس واپس لینے کا ہے تو اس سے تحریک لبیک دست بردار ہوسکتی ہے اسلئے کہ عدالت کرپشن اور ریپ کے کیسوں میں شواہد نہ ملنے کا رونا روکر ملزموں کو باعزت رہا کروارہی ہے تو مقدمات چلنے میں کیا حرج ہے؟۔ لیکن حکومت وریاست نااہل ہے یا اس کی نیت درست ہے یا غلط ہے مگر ہے کچھ اور۔ اسلئے کہ مسائل پیدا ہونے کا اندیشہ بھی ہوسکتا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان سے بہت زیادہ تحریک لبیک خطرناک ثابت ہوسکتی ہے اسلئے کہ مولانا احمد رضا خان بریلوی نے دیوبندی، اہلحدیث، جماعت اسلامی ، شیعہ اور دیگر فرقوں اور غیرمسلم قادیانیوں کو برابر سب کو گستاخ بھی قرار دیا ہے۔ اگر یہ لوگ اپنے ان تین چھوٹے مطالبات کیلئے پولیس والوں کو جان سے مار سکتے ہیں تو پھر عشق رسول ۖ کے نام پر گستاخوں کے خلاف کیا کچھ نہیں کرسکتے ہیں؟۔ اوریامقبول جان اسلام کی روح اور سیاست کو سمجھنے کے بجائے ریاستی پالیسی کی روح رواں کو سمجھنے کیلئے اپنی ذہنیت بوسیدہ کرچکا ہے۔

_ مذہبی شدت و ریاستی نفاق کا علاج! _
جب حضرت عائشہ پر بہتان لگایا گیا تو ایک عرصہ تک وحی کا سلسلہ بند رہا۔ افواہوں کی گردش نے نبیۖ اور صحابہ کو بہت بڑی آزمائش میں ڈال دیا تھا۔ جب وحی نازل ہوئی تو افواہ پھیلانے والوں کی سرزنش کی گئی اور افواہوں سے متأثر ہونے والوں سے کہا گیا کہ تم نے یہ کیوں نہیں کہا کہ یہ بہتان عظیم ہے؟۔ اور بہتان لگانے والوں کو اسی اسی کوڑے مارنے کی سزا دی گئی۔
جب تقسیم ہند کے وقت مسلمانوں کا خون بہایا جارہاتھا ، جارحیت کے ارتکاب میں زیادہ تر ہندو اور سکھ ملوث تھے اسلئے کہ وہ گائے ماتا کی طرح وطن کی تقسیم کو بھی ناقابلِ قبول سمجھتے تھے جبکہ مسلمانوں کی اکثریت نے ان سے چھٹکارا پانے کیلئے تقسیم ہند کے ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانے میں اپنا کردار ادا کیا تھا۔ جب قائداعظم نے دیکھا کہ مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں تو فرمایا کہ ”مسلمان مصیبت میں گھبرایا نہیں کرتے ”۔ ہندو شدت پسندوں نے مہاتماگاندھی کو بھی اسلئے قتل کیا کہ گاندھی نے مسلمانوں کے حق میں ہندو قوم کی شدت پسندی کے خلاف بھوک ہڑتال کا اعلان کررکھا تھا۔
ہندوؤں کے پاس اپنا کوئی نظام نہیں تھا اسلئے وہ حکومت برطانیہ کے نظام کو قائم رکھنے پر مجبور تھے لیکن پاکستان میں مسلمانوں کے پاس اسلام کانظام قرآن وسنت کی شکل میں موجود تھا۔ خاتون اول ام المؤمنین حضرت عائشہ پر بہتان کی سزا قرآن میں 80کوڑے کا حکم نازل ہوا تھا اور اس میں ایک غریب عورت کیلئے بھی وہی سزا تھی جو ام المؤمنین کے خلاف بہتان لگانے کی تھی۔ غلام احمد پرویز نے احادیث صحیحہ کا انکار کردیا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ام المؤمنین پر بہتان لگانے کی سزا صرف80کوڑے ہو۔ اس کی سزا تو قتل ہونا چاہیے تھا، یہ کوئی عام عورت تھی جس پر بہتان لگایا گیا تھا اور یہ اس کی سزا تھی۔ آج پنجاب میں پرویز کی فکر نے شدت پسندی میں نہلے پر دہلا کردیا ہے۔ اگر قرآن وسنت کی درست تعبیر دنیا کے سامنے پیش کی جائے تو نہ صرف شدت پسندی کا خاتمہ ہوگا بلکہ اس سے دنیا میں غریب وامیر کے درمیان تفریق کا بھی خاتمہ ہوجائے گا۔
ایک20اور22گریڈ کے افسر اور غریب کی آدمی کی بیگمات میں بہتان لگانے کے حوالے سے اسلامی قانون کے مطابق کوئی فرق نہیں ہے ، اسی طرح کرپٹ سیاستدانوں اور غریب پارٹی کارکنوں کے درمیان عزت اور قتل کے حوالے سے اسلام نے کوئی فرق نہیں رکھا ہے لیکن ہمارا سارا ماحول بدل گیا ہے۔ ہمارا مذہبی اور سیاسی طبقہ بھی اپنے آپ کو کرپٹ نظام کے ذریعے ترقی اور عروج کے نام پر ایک الگ ماحول بنارہاہے۔80کوڑے کی سزا امیر وغریب کیلئے یکساں ہے لیکن ہتک عزت کے دعوے میں اربوں روپے اور کوڑیوں کے دام کا فرق ہے۔ غریب کی عزت کوڑیوں کی نہیں ہوتی اور کرپٹ لوگوں کی عزت اربوں میں ہوتی ہے۔ غریب کیلئے چند ہزار بڑی سزا ہے اور امیر کیلئے لاکھوں اور کروڑوں کی سزا میں بھی مشکل نہیں ہے۔
المیہ یہ ہے کہ سول وملٹری بیوروکریسی، کرپٹ سیاستدان اور آلۂ کار کے طور پر استعمال ہونے والے مذہبی لوگوں میں سے کسی کو بھی طبقاتی تقسیم کا خاتمہ کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ قرآن وحدیث سے بھی کوئی غرض نہیں ہے اور امن وسلامتی سے بھی کوئی سروکار نہیں ہے۔ بس صرف اپنی نوکری پکے کرنے اور زیادہ سے زیادہ مفادات اٹھانے کے چکر میں زمانے کے بدترین گرداب کے شکار نظر آتے ہیں۔ اس سے پہلے پہلے کہ کوئی حادثہ پورے معاشرتی اور ریاستی نظام کا خاتمہ کرکے رکھ دے۔ ہم سنجیدگی سے اپنی ماحولیاتی آلودگی کو ختم کرنے کی طرف متوجہ ہوجائیں۔ ہمارے بدلنے سے پوری دنیا کے تبدیل ہونے میں بھی دیر نہ لگے گی۔ ہم صرف خیرخواہی میں مفت کے مشورے دے سکتے ہیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

علامہ تمنا عمادی عظیم عالم دین ہیں، شیعہ فرقہ میں طلاق کا غلط تصور، مفتی تقی عثمانی کی غلط تشریح و تشریح، قرآن میں طلاق کا عظیم تصور

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

علامہ تمنا عمادی بہت بڑا عالم_
علامہ تمنا عمادی ایک بہت بڑے حنفی عالم دین تھے جو ہندوستان سے پہلے مشرقی پاکستان بنگلہ دیش ہجرت کرچکے تھے اور پھر کراچی میں سکونت اختیار کرلی تھی اور کراچی ہی میں بہت خاموشی کیساتھ انتہائی شہرت یافتہ ہونے کے باوجود گمنامی کی قبر میں دفن ہوگئے۔ آپ کی کتاب ” الطلاق مرتان” کا نام میں نے طالب علمی میں اپنے ایک استاذ مولانا سراج الدین شیرانی ڈیرہ اسماعیل خان والے سے غالباً سنا تھا اور استاذ جی نے یہ بھی بتایا تھا غالباً کہ اس کتاب کا جواب کسی بھی عالمِ دین کے پاس نہیں ہے۔ علامہ تمنا عمادی ایک بہت جید عالم تھے اور آپ نے دوسرے نام نہاداسلامی اسکالروں کی طرح تقیہ کا غلاف اور نقاب نہیں اوڑھ رکھا تھا بلکہ قرآن کے مقابلے میں اہل سنت کی احادیث کی کتابوں کو ایک بہت بڑی عجمی سازش قرار دیا تھا۔ آپ کے دلائل حنفی اصولوں کے بالکل عین مطابق تھے۔ آپ نے قرآن وحدیث میں طلاق کے حوالے سے بڑافرق واضح کردیا تھا۔ آپ کے نزدیک بنیادی بات یہ تھی کہ ”قرآن میں دو طلاق ہیں اور جس طلاق کے بعد حلالے کاحکم ہے وہ خلع کی صورت ہے۔ جب عورت ہی کا قصور ہو تو پھر اسی صورت میں عورت کو حلالے کی سزا دی جاسکتی ہے۔ جرم مرد کرے اور سزا عورت کو دی جائے تو غلط اور غیرفطری بات ہے”۔
فقہ ، اصول فقہ ، عربی لغت اور عربی مدارس کے مروجہ علوم کے حوالے سے علامہ تمنا عمادی کے دلائل واقعی لاجواب تھے۔ علامہ ابن تیمہ کے شاگرد ابن قیم نے زادالمعاد میں حضرت ابن عباس کا جو قول نقل کیا ہے اوردرسِ نظامی میں اصولِ فقہ کی کتابوں میں جو حنفی مؤقف پڑھایا جاتا ہے اس کا بھی تقاضہ یہی ہے کہ اس طلاق کو جس میں حلالے کا حکم ہے وہ صرف اور صرف خلع ہی کی صورت مشروط کیا جائے۔ غلام احمد پرویز ، جاوید غامدی اور ڈاکٹر ذاکر نائیک وغیرہ اگر دینی علم کے ماہر ہوتے تو اس مسئلے میں علامہ تمنا عمادی ہی کی تقلید کرتے لیکن سب نے اپنی اپنی دکان کھولنے کا فرض پورا کرکے ایک بے ہنگم ماحول میں خود کو فقہ کا امام بنانے کی اپنی سی کوشش فرمائی ہے۔ اس سلسلے میں جاویداحمد غامدی نے بہت ہی جہالت کا مظاہرہ کیا ہے اور غلام احمد پرویز نے حنفی مسلک کے طلاق احسن ہی کو قرآن کی اصل اور حتمی تفسیر قرار دیا ہے جبکہ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے غلام احمدپرویز کی فکر کو اس مسئلے میں صحیح قرار دیا ہے۔ علامہ تمنا عمادی نے اصولِ فقہ کی بنیاد پر اپنا مؤقف پیش کیا ہے جبکہ غلام احمد پرویز نے فقہ کی بنیاد پر اپنا مؤقف پیش کیا ہے۔ ایک درسِ نظامی کے عالم اور غیرعالم میں یہی فرق ہوسکتا تھا۔
اہل حدیث نے ذخیرہ احادیث سے بہت ساری مرفوع احادیث صحیحہ کو چھوڑ کر ایک موقوف روایت کی بنیاد پر اپنے مسلک کی بنیاد رکھی ہے جو خوش آئند اسلئے ہے کہ دوسروں کو منکر حدیث کہنے والے خود بھی منکرِ حدیث بن گئے ہیں۔ جبکہ امام ابن تیمیہ نے اپنے مسلک کی بنیاد اس بات پر رکھی تھی کہ جب تک33،33مرتبہ سبحان اللہ دہرایا نہ جائے کہ سبحان اللہ، سبحان اللہ ، سبحان اللہ………. تو صرف33مرتبہ سبحان اللہ کہنے سے تسبیح پوری نہیں ہوگی ،اسی طرح 3طلاق کہا جائے تو3طلاق واقع نہیں ہوگی لیکن جب امام ابن تیمیہ سے کہا جاتا ہے کہ اگر طلاق ، طلاق ، طلاق تین مرتبہ دہرایا جائے تو3طلاق واقع ہوجائیں گی تو اس کا کہنا تھا کہ یہ طلاق ہے اور وہ تسبیح ۔دونوں کا حکم ایک کیسے ہوسکتا ہے۔ اگر طلاق کا لفظ3بار دہرایا جائے تب بھی ایک ہی طلاق ہوگی۔
سعودی عرب پہلے ابن تیمیہ کے مسلک پر تھا لیکن پھر اپنا سرکاری مؤقف تبدیل کرکے یہ بنالیا ہے کہ ایک مجلس کی تین مرتبہ طلاق سے3طلاق پڑیگی۔ اگر قرآن واحادیث کی طرف دیکھا جاتا تو یہ اختلافات وتضادات نہ ہوتے۔

شیعہ مسلک میں طلاق کا غلط تصور
حنفی مسلک میں طلاق کی تین اقسام ہیں۔نمبر1:طلاق احسن۔ عورت کو ایک طلاق دے کر چھوڑ دیا جائے۔ پھر عدت میں رجوع کیا جائے یا نہ کیا جائے لیکن یہ ایک ہی طلاق شمار ہوگی۔ نمبر2:طلاقِ حسن ۔ عورت کی پاکی کے ایام میں تین طہر کے اندر تین مرتبہ طلاق دی جائے۔ نمبر3:طلاقِ بدعت۔ایک دم تین طلاق دی جائے، ایک مجلس میں تین طلاق دی جائے یا حیض کی حالت میں طلاق دی جائے۔ طلاقِ بدعت واقع ہوجاتی ہے لیکن اس کا گناہ ہے۔
شافعی مسلک کے نزدیک ایک ساتھ تین طلاق سنت اور مباح ہے۔ جبکہ امام مالک اور امام ابوحنیفہ کے مسلک والے اس کو بدعت اور گناہ کہتے ہیں اور امام احمد بن حنبل کا ایک قول ایک طرف اور دوسرا قول دوسری طرف کی تائید کرتا ہے۔ علامہ ابن تیمیہ اور اہل حدیث کے نزدیک ایک مجلس کی تین طلاق ایک ہی طلاق ہے۔ سب کے ہاں اپنی اپنی احادیث اور روایات کے دلائل ہیں۔
اہل تشیع کے نزدیک طلاق حسن میں بھی سخت شرائط ہیں۔ ایک طہر میں کوئی طلاق دی جائے تو اس پر دو عادل گواہ مقرر کرنا ضروری ہیں۔ گواہوں کے بغیر طلاق واقع نہیں ہوگی۔ پھر دوسرے طہر میں دو گواہوں کی موجودگی میں دوسری مرتبہ طلاق دینی ہوگی اور پھر تیسری مرتبہ تیسرے طہر میں دوگواہوں کی موجودگی میں تیسری طلاق دینی ہوگی۔ اس کے بعد عدت کے مراحل پورے ہونے تک رجوع نہیں کیا جائے تو پھر وہ عورت اس کیلئے حلال نہیں ہوگی یہاں تک کہ اس کا کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ ہو اور پھر اسی طرح طلاق کے مراحل سے نہیں گزرے۔ دوسروں کے مقابلے میں بظاہر اہل تشیع کے طلاق کا تصور سب سے زیادہ بہترین ہے جس میں بہت سارے تضادات سے بچت ہوجاتی ہے لیکن اس خود ساختہ فقہی مسلک کے بہت سارے نقصانات بھی ہیں۔ قرآن میں مرحلہ وار تین مرتبہ کی عدت اور طلاق کا تصور ضرور ہے لیکن ہر بار دو گواہوں کا معاملہ نہیں ہے بلکہ سورۂ طلاق کی آیت نمبر2میں عدت کی تکمیل پر رجوع یا پھر چھوڑنے کے اختیار کا ذکر ہے اور چھوڑنے کی صورت میں دو عادل گواہوں کے مقرر کرنے کا بھی حکم ہے اور اس کے بعد بھی رجوع کی گنجائش کی وضاحت ہے اور اہل تشیع کا خود ساختہ تصور بھی قرآن وسنت اور حقائق کے بالکل منافی ہے۔
قرآن وسنت، حضرت عمراور ائمہ اربعہ کے مؤقف کی درست ترجمانی کی جائے تو پھر اہل تشیع اور اہل حدیث سمیت پوری امت مسلمہ کا اس پر بڑااجماع ہوسکتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جب قرآن کی آیات کا درست ترجمہ پیش کیا جائے اور اس کی درست تفسیر کی جائے تو تمام احادیث صحیحہ میں کسی ایک بھی روایت کے انکار کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی۔ صحابہ کرام کے متضاد مسالک کی بھی ایسی درست توجیہ ہوگی کہ ان میں اس مسئلے پر کسی قسم کا تضاد نہیں ہوگا ۔
آیت230البقرہ کی درست تفسیر سمجھنے کے بعد قرآن کی طرف لوگ بہت متوجہ ہوں گے اور حیران ہوں گے کہ ہم نے اپنی زندگی کے قیمتی لمحات کیوں کر ضائع کردئیے؟۔ آج سودی بینکاری کا مسئلہ علماء نے خود ساختہ شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کے ذمے چھوڑ دیا ہے اور مختلف ادوار میں سودی حیلہ سازی کیلئے علماء دستیاب ہوتے تھے،اسی طرح حلالے کے مسائل بھی ایسے علماء ومفتیان ہی کے ذمے چھوڑ دئے جاتے تھے۔کوئی شریف عالم دین اس حوالے سے سوچنے کی بھی ہمت نہیں کرسکتا تھا۔ یہ لوگ ایک طرف تصویر کے جواز کو خدا کی خدائی میں بھی مداخلت قرار دیتے تھے تو دوسری طرف تجارت اور حکومت کی غرض سے اس کو جوازبھی عطاء کرتے تھے۔ داڑھی کٹانے کو غیرشرعی قرار دینے والے نے اپنے بے ڈھنگے دانت تک نکلوا ڈالے ہیں لیکن مکافاتِ عمل کا وقت قریب لگتا ہے۔

_ مفتی تقی عثمانی کا غلط ترجمہ اورتفسیر_
جماعت اسلامی کے بانی مولانا سید مودودی نے علماء کے تراجم اور تفاسیر کو نہ صرف سلیس انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے بلکہ اپنی طرف سے غلطیوں کے ازالے کیلئے بھرپور طریقے سے حق ادا کرنے کی بھی زبردست کوشش کی ہے لیکن شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے اپنے ترجمہ” آسان قرآن” میں اللہ کے کلام کا بالکل غلط اور متضادترجمہ جان بوجھ کر کیا ہے اورغلط تفسیر میں بھی کم عقلی کی انتہاء کردی ہے۔ مختلف آیات میں اذابلغن اجلھن کا ترجمہ بھی اپنے ہی مقصد کیلئے تبدیل کرکے رکھ دیا ہے ۔ حالانکہ اپنے مسلک پر غور کرنا چاہیے تھا۔
خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق
ا یک جگہ پر اللہ نے مؤمنوں سے اس جنت کوپانے کا کہا ہے جس کا طول ہی نہیں عرض بھی زمین سے آسمان تک کی طرح ہے۔ دوسری جگہ اللہ نے فرمایا کہ ”فرشتوں کو اہل زمین پر اتنا غصہ آتا ہے کہ قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑے اور نافرمانوں کو اپنے انجام تک پہنچایا جائے لیکن جب اللہ کی طرف سے ان کو اجازت نہیں ملتی ہے تو وہ اللہ کی حمد اورتسبیح بیان کرتے ہیں اور زمین والوں کیلئے مغفرت مانگتے ہیں”۔ سود کو جواز فراہم کرنے والے شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کو وفاق المدارس کا صدر بنادیا جائے اور مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن کو تنظیم المدارس کا صدر بنادیا جائے تو فرشتے کس قدر غضبناک ہوں گے؟۔ اور حلالہ کے نام سے قرآن وسنت کی طرف رجوع کرنے کے بجائے شادی شدہ خواتین کی عزتیں لوٹی جائیں تو فرشتے کس قدر غضبناک ہوں گے؟۔اللہ نے ایک مقررہ مدت تک ان کو ڈھیل دے رکھی ہے لیکن ڈھیل کا وقت موت کی شکل میں اور دنیا میں اسلامی انقلاب کی صورت میں ختم بھی ہوسکتا ہے۔ مفتی تقی عثمانی نے تفسیر لکھی کہ ” فرشتے آسمان پر عبادت کرتے ہیں تو ان کا اتنازیادہ وزن ہوتا ہے کہ قریب ہے کہ آسمان ان کا وزن برداشت نہ کرپائے اور پھٹ جائے”۔
دارالعلوم کراچی والوں نے اپنے دو قسم کے معیار قائم کررکھے ہیں۔ مفتی محمد تقی عثمانی کا بہنوئی مفتی عبدالرؤف سکھری تصوف کے نام پرعوام کو ورغلاتا ہے اور تصویر نہیں کھنچواتا ہے اور تصاویر کو سخت عذاب کا ذریعہ قرار دیتا ہے اور شادی بیاہ میں لفافے کے لین دین کو سود قرار دیتا ہے جس کے ستر سے زیادہ گناہوں میں کم ازکم اپنی سگی ماں سے زنا کے برابر قرار دیتا ہے اور دوسری طرف مفتی تقی عثمانی تصویر کو جائز قرار دیتا ہے اور بینکنگ کے سودی نظام کو معاوضہ لیکر جائز قرار دیتا ہے۔ دونوں کے فکر وعمل کے تضادات سے یہ بات اچھی طرح سے عیاں ہوگئی ہے کہ اصل مسئلہ دین کا نہیں تجارت کا ہے اور تاجر اپنی کامیابی کو دیکھتا ہے۔
وفاق المدارس کے سابق صدر اور ہمارے استاذ ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر، مفتی تقی عثمانی کے استاذ وفاق المدارس کے سابق صدر مولانا سلیم اللہ خان اور مفتی زرولی خان وغیرہ سمیت پاکستان کے دیوبندی مدارس کے علماء ومفتیان کی طرف سے مفتی تقی عثمانی کے سودی نظام کو جواز عطاء کرنے پر سخت مخالفت ہوئی لیکن اب اندھوں میں کانا راجا کی طرح مفتی تقی عثمانی کو وفاق المدارس کا منتخب صدر بنایا گیا ہے۔ مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ ”ہم چودہ اگست اسلئے مناتے ہیں کہ یہ دنیاوی بات ہے اور میلاد النبیۖ اسلئے نہیں مناتے ہیں کہ مذہبی معاملہ ہے اور جو چیز نبیۖ کے دور میں نہ ہو ،وہ مذہبی مسئلہ بدعت ہے”۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ سودی نظام کا جواز بھی بدعت ہے یا نہیں؟۔ یہ تو رسول اللہۖ کے دور میں نہیں مفتی محمد شفیع اور وفاق المدارس کے سابق صدر تک بھی نہیں تھا۔ پھر یہ بدعت ہے یا سنت ہے؟۔اگر بدعت نہیں تو پھر کس چیز کا معاوضہ لیتے ہیں؟

قرآن میں طلاق کا زبردست تصور
قرآن میں طلاق کے حوالے سے جتنی وضاحت ہے شاید بلکہ یقینا کسی دوسرے معاملے کی اتنی وضاحت نہیں ہوئی ہے۔ مسلکوں کی وکالت اور آیات پر غور وتدبر کرنے کی جگہ خوامخواہ کی دماغ سوزیوں نے علماء ومفتیان، دانشوروں، فقہاء ومحدثین اور اُمت مسلمہ کو مسئلہ ٔ طلاق میں قرآن سے دور کردیا ہے۔
پہلی غلطی یہ ہوئی ہے کہ طلاق اور خلع کی آیات میں بڑا زبردست مغالطہ کھایا گیا۔ آیت229البقرہ میں دومرتبہ طلاق اورتیسری مرتبہ میں رجوع کرنے یا احسان کیساتھ رخصت کرنے کے بعد اور آیت230میں تیسری بار طلاق سے پہلے خلع کے تصور نے مسئلے کا حلیہ بگاڑنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ جس پر امام شافعی وامام ابوحنیفہ کے مسالک میں اختلاف اور علامہ ابن قیم سے لیکر علامہ تمناعمادی تک بڑے بڑے لوگوں نے بڑی بڑی ٹھوکریں کھائی ہیں۔
مولانا سید مودودی نے سلیس اور قابل فہم ترجمہ کرنے کے چکر میں دومرتبہ طلاق اور تیسری مرتبہ رخصت کرنے کا فیصلہ کرنے کے بعد تفہیم القرآن میں لکھ دیا ہے کہ ” کچھ معاوضہ دے دلاکر خلع لیا جائے” جو سراسر گمراہی کی بہت بڑی بنیاد ہے۔اگر قرآن کے مطابق آیت229البقرہ میں تین بار طلاق کے بعد حقوق کا معاملہ مراد لیا جائے جس کے بغیر دوسرا کوئی امکان بھی نظر نہیں آتا ہے اور سورۂ النساء آیت19سے خلع مراد لیا جائے تو جس کے بغیر کوئی دوسرا امکان بھی نہیں ہے تو بہت سارے مسائل اپنی بنیاد سے حل ہوجائیں گے اور بہت سارے مسلکی تضادات کا حل بھی نکل آئے گا اور اپنی کم عقلی پر شرم بھی آئے گی اور قرآن کی طرف لوگ دوڑنا بھی شروع کردیں گے۔امام مہدی سے زیادہ اہمیت یقینا قرآن کی ہے اور قرآن کے ذریعے ہدایت بھی ملے گی۔
جب خلع اور طلاق کے حقوق میں بہت بڑا واضح فرق معلوم ہوگا تو پھر اس کی وجہ سے طلاق کی اصل اہمیت بھی معلوم ہوجائے گی اور طلاق کے مسائل بھی واضح طور پرسمجھنے میں آسانی ہوگی۔ یہ انتہائی غلط تصور ہے کہ جس طرح شوہر اپنا حق مہر دے کر نکاح کرسکتا ہے، اسی طرح منہ مانگی قیمت دے کر عورت خلع لے سکتی ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

تحریک لبیک کے پیچھے کون ہے؟ اس کی مقبولیت کا راز کیا ہے؟

تحریک لبیک کے پیچھے کون ہے؟ اور اس کی مقبولیت کاراز کیا ہے؟، جب ن لیگ کے دور میں ختم نبوت کے قانون میں ترمیم کی سازش ہوئی تو کس کس کو اس سازش کا پتہ تھا؟لیکن اس کھیل کو کیا رنگ دیا جارہاہے اور اس کا انجام کیا ہوسکتا ہے؟۔وزیراعظم اور آرمی چیف کی طرف سے آپس کے اختلاف میں صحیح اور غلط کون ہے؟اور اس رسہ کشی کے نتیجے میںPDMکی ن لیگ اور جے یو آئی کس ڈگر پر چل رہی ہیں؟۔آئیے کچھ حقائق سمجھ لیں!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

آج کا وزیراعظم عمران خان اور شیخ رشید وہی ہیں جو2017ء میں تحریک لبیک کی حمایت کرتے تھے یا بدلے ہیں؟
عمران خان نے کنٹینرپر چڑھ کر اپنی ریاست بنارکھی تھی،18گریڈ کے پولیس افسر کی پٹائی بھی لگائی ۔حافظ حمد اللہ

حافظ حمداللہ کی طرف کئی اہم سوالات
بول نیوز پر اینکرامیر عباس کے پروگرام میں جمعیت علماء اسلام ف کے رہنما حافظ حمد اللہ صاحب نے تحریک لبیک کی موجودہ صورتحال پر کئی زبردست سوالات اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ میں پوچھتا ہوں کہ یہ وہی عمران خان ہے جو2017ء میںتحریک لبیک کی حمایت کررہاتھا؟ یا پھر بدل گیا ہے؟۔عمران خان نے اس وقت اپنے کارکنوں سے تحریک لبیک کے فیض آباد دھرنے میں شرکت کا کہا تھا اور شیخ رشید وحدہ لاشریک اسلئے کہہ رہا ہوں کہ ون مین شو ہے، اس وقت خود دھرنے میں بیٹھا تھا، آج وہی عمران خان اور وہی شیخ رشید ہیں یا بدل گئے؟۔
میں یہ نہیں کہتا ہوں کہ تحریک لبیک ٹھیک ہے یا غلط ہے ،یہ میرا کام نہیں۔ اس وقت جو صورتحال پیدا ہوئی ، اس کی ذمہ داری موجودہ حکومت پر پڑتی ہے۔ اگر چہ میں اس حکومت کو حکومت بھی نہیں مانتا ہوں۔ سوال یہ ہے کہ جب نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی کی حکومت تھی تو تحریک لبیک کی حمایت عمران خان اور شیخ رشید نے کی تھی، اس وقت دھرنے کے شرکاء میں پیسے بھی بانٹے گئے تھے، (شرکاء کو واپس جانے کیلئے کرایہ دیا گیا تھا۔اینکرپرسن امیر عباس کی وضاحت) لیکن دہشت گردوں میں پیسے نہیں بانٹے جاتے ہیں۔ نیک محمد اور بیت اللہ محسود کو مارا گیا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ تحریک لبیک والوں کو مارو، یہ مسلمان ہیں اور جو پولیس والے مارے جاتے ہیں وہ بھی شہید ہیں اور تحریک لبیک کے کچھ لوگ بھی شہید ہوئے ہیں۔ ان سب کی ذمہ داری عمران خان اور اس کو لانے والوں پر ہی پڑتی ہے۔ عمران خان نے کنٹینر پر عدالت کے سامنے اپنی ریاست بنا رکھی تھی۔18گریڈ کے پولیس افسر کی پٹائی لگائی۔اس نے کیا نہیں کیا؟۔ لیکن لاڈلے کو حکومت میں لایا گیا۔ آج اس کے ذمہ دار یہ لوگ خود ہیں اور اپنے اعمال نامے کی جزا وسزا کیلئے اپنی ذمہ داری بھی پوری کریں۔ کل تحریک لبیک ،عمران خان اور شیخ رشید ایک پیج پر تھے تو آج کیوں بدل گئے ہیں؟ کیا یہ ہے تبدیلی سرکار؟۔

حافظ حمد اللہ کو حقائق کا کراراجواب
ایک معروف شخصیت نے کہا تھا کہ میں بیل سے ڈرتاہوں۔ دوستوں نے کہا کہ شیر، چیتے اور لگڑبگڑ سے ڈرنے کا کیوں نہیں کہتے؟۔ اس نے جواب دیا: جنگلی جانور سے ڈرنا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے،ان سے تو سبھی ڈرتے ہیںمگر بیل سے ڈرنے کی بات اسلئے کرتاہوں کہ بیل کے سر پر سینگ ہوتے ہیں لیکن دماغ نہیں ہوتا۔ معروف شیعہ عالم علامہ سید جواد حسین نقوی نے کہا کہ مذہبی طبقہ بھی دماغ نہیں رکھتا ہے اسلئے ان سے مجھے ڈرلگتا ہے۔ آج شیعہ مذہبی طبقہ علامہ سید جواد کے پیچھے پڑگیا ہے۔ تحریک لبیک کی قیادت سے کوئی اتنا پوچھے کہ فرانس کا سفیر جب نہیں نکالا گیا تو پہلے اس پر آپ حضرات نے اتنے عرصے خاموشی کیوں اختیار کررکھی تھی؟۔ ناموس رسالتۖ کسی خاص گروہ کے مفادات نہیں تو پھر اتنے عرصے تک منظر سے غائب ہونے کا کیا جواب ہے تمہارے پاس؟۔
جب نواز شریف نے طاہرالقادری کے مرکز میں گولیاں برساکر14افراد کو قتل کردیا تھا تو اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ ڈی چوک کے دھرنے میں پولیس افسر کی پٹائی کا معاملہ اٹھاسکے۔ نوازشریف نے آرمی چیف جنرل باجوہ کو قادیانی سمجھ کر منتخب کیا تھا اسلئے قومی اسمبلی میں قادیانیت کے حق میں ترمیمی بل لایا گیا۔ اس حکومت میں حافظ حمداللہ کی جماعت اور اس کی قیادت بھی شریک تھی۔ جب شیخ رشید نے اسمبلی میں آواز اٹھائی تو سیدعطاء اللہ شاہ بخاری کے نام پر بھی حافظ حمد اللہ کی جماعت اپنے کولہے ہلانے کیلئے تیار نہیں تھے،البتہ جماعت اسلامی کو غیرت آگئی تھی۔ قومی اسمبلی سے وہ بل پاس ہوکر پھر سینٹ سے پاس نہیں ہوسکا تھا جس پر مولانا عبدالغفور حیدی نے کہا تھا کہ ”مجھے خوف تھا کہ اگر یہ بل سینٹ سے پاس ہوا تو مجھے قائم مقام چیئرمین کی حیثیت سے دستخط کرنے پڑیں گے”۔
علامہ خادم حسین رضوی نے استقامت دکھاکر بل کے محرک کو ذمہ داری سے ہٹانے پر حکومت کو مجبور کیا ، جنرل فیض حمید نے صلح میں اپناکردار ادا کیا تھا۔

طاقت کو غلط استعمال کرنا چھوڑدو
جب پارلیمنٹ میں قادیانیوں کے حق میں بل پاس کرنے کا انکشاف ہوگیا تو پنجاب بھر میں تحریک لبیک نے علامہ خادم حسین رضوی کی قیادت میں بڑازور پکڑ لیاتھا۔ عمران خان بھی اس میں کود پڑا تھا اور مولانا فضل الرحمن نے بھی کہا تھا کہ” علامہ خادم حسین رضوی کو چاہیے تھا کہ ہمیں بھی اعتماد میں لیتے،یہ ہم سب کا مشترکہ مسئلہ ہے اور ختم نبوت کے خلاف ہم کسی کو سازش نہیں کرنے دیں گے”۔
جب شیخ رشید اکیلا اسمبلی میں سب کو چیخ کر للکار رہاتھا تو جمعیت علماء اسلام حکومت میں شریک تھی اور تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی بت بن کر خاموشی کا لطف اٹھارہے تھے۔ پیپلزپارٹی کے ارکان بھی سکوت اختیار کئے ہوئے تھے مگر جب پنجاب میدانِ جنگ بن گیا تو سب نے ختم نبوت کیلئے جان دینے تک کی بات کرنا شروع کردی تھی۔ ہماری سیاست ایک منافقت سے تعبیر ہوسکتی ہے۔ جب طالبان اور تحریک لبیک والے جذبات اور اشتعال کا ماحول بناتے ہیں تو یہ لوگ مذہبی بن جاتے ہیں اور جب ان کی دُم کے نیچے کوئی انگل ہوتی ہے توپھر ان کا رُخ کسی دوسری طرف ہوجاتا ہے۔ باشعورپاکستانیوں نے اگر اُٹھ کر کوئی کردار ادا نہیں کیا تو افغانستان کا عالمی قوتوں اور ان کی پروردہ قوتوں نے جو حال کیا ہے ،پاکستان کی ریاست اور اس کی سیاسی ومذہبی قیادت اپنے کرتوت کے باعث اس انجام کو پہنچ سکتے ہیں کہ جس کا تصور بھی ہم نہیں کرسکتے ہیں۔
یہاں مہاتماگاندھی کو قتل کرنے والے ہندؤوں سے زیادہ مسلمانوں کے درمیان آپس کی فرقہ واریت اور نفرت ہے۔ یہاں لسانی تعصبات ہیں۔ یہاں سیاسی قائدین کی بھڑکائی ہوئی نفرتیں ہیں۔ اپوزیشن لیڈرشہباز شریف بھول رہا ہے کہ کل وہ کس قسم کی گفتگو کرتا تھا لیکن عمران خان کو یاد دلاتا ہے۔یہاں صرف اور صرف مفادات ہیں۔ صحافی ملک وقوم اور عوام کیلئے نہیں کسی مفادپرست لیڈر اور اسٹیبلشمنٹ کیلئے اپنی خدمات انجام دیتے ہیں اور راستہ ہموار کرتے ہیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

پاکستان کی سیاسی قیادت کی مثال دودھ کی کریم جیسی ہے لیکن یہ حرام جانوروں کے دودھ کی کریمیں ہیں۔

گیدڑ شیر کی کھال پہنے سے شیر نہیں بن جاتا، عمران خان نوازشریف بننے کی کوشش نہ کرے،مریم نواز۔ کہنا یہ چاہیے تھا کہ گدھا گیدڑ کی کھال نہیں پہن سکتا ہے۔ جنرل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویزمشرف نے پیپلزپارٹی،مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کی قیادت کا کریم معاشرے کو دیامگر بدقسمت اسٹیبلشمنٹ نے یہ سب مکھن قیادت حلال دودھ سے نہیں بلکہ کتیا،گیدڑ اور گدھی کے دودھ کو مشکیزے میں ڈال کر نکالا ہے جس نے قوم کو تباہ کردیا

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام اور جمہوریت برائے نام ہے اور اس کا نظام اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار کی وجہ سے پیدا گیری ہے ۔جب تک پیداگیری سے اس کو پاک نہیں کیا جائے یہ اسم بامسمّیٰ پاکستان نہیں بلکہ پلیدستان رہے گا۔ خان، وڈیروں ، نوابوں اور انگریز کے پیداکردہ ملا شوربازاراور پیران شیر آغا نے عوام کو تباہ کیا، سیاستدانوں اور سول وملٹری بیوروکریسی نے آخری حدپارکردی ہے۔
وزیراعظم عمران خان کا ماضی ،حال اور مستقبل سب ڈھینچو ڈھینچو کے سواء کچھ نہیں ہے۔ پہلے خودکار ناکارہ نظام کی وجہ سے آرمی چیف کی مدت توسیع میں جو جگ ہنسائی ہوئی تھی وہ سمجھ میں آتی تھی کہ اس سے پہلے جتنے ڈکیٹیٹر مسلط ہوئے تھے ،وہ سب اس فوجی ایکٹ کے تحت ہوئے تھے کہ ” جب کوئی ریٹائرمنٹ کے بعد مجرم ثابت ہوتا تو اس کو بحال کرکے سزا دی جاتی تھی” لیکن جب کوئی ڈکٹیٹر قبضہ کرتا تھا تو ہمارے سیاستدان اور عدلیہ مل بانٹ کر کہتے تھے کہ ” اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا”۔ کبھی کسی نے قانون کا جائزہ تک لینے کی زحمت نہ کی۔
اب وزیراعظم عمران خان کہتا ہے کہ” مجھ سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کی قیادت سے کسی کے اچھے تعلقات نہیں ہیں ۔کسی تیکنیکی خرابی کی وجہ سے آئی ایس آئی چیف کی تقرری میں توسیع ہورہی ہے”۔ گدھے کو یہ پتہ نہیں کہ یہ جہانگیر ترین کا جہاز یا پاکستان ریلوے کا انجن تو نہیں ہے کہ اس میں تیکنیکی خرابی کی وجہ سے کوئی تاخیر ہوجائے۔ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سول سپرمیسی کی آواز اٹھانے والیPDMکی قیادت کو بہت بڑی خارش شروع ہوگئی ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کی بدنامی کا باعث عمران خان بن رہاہے۔ پرائی شادی میں عبداللہ دیوانے کو اصل مسئلے کا بھی پتہ نہیں کہ فوج کا اندورنی معاملہ ہے یا عمران خان سے چپقلش ہے؟۔ حکومت کے ترجمان بک رہے ہیں کہ اپوزیشن قومی اداروں کے تقدس کے ساتھ کھیل رہی ہے۔ حالانکہ کونسی ہتھنی کی ڈیلوری کس آپریشن سے ہورہی ہے؟۔ ابھی تویہ بھی معلوم نہیں کہ نوراکشتی ہے یا واقعی کوئی مسئلے مسائل ہیں؟۔
جب بھوک اور اقتدار کی جنگ شروع ہوجائے تو پھر ملک وقوم کا اللہ ہی حافظ ہے۔ مقتدر طبقات طاقت اور بھوک کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ جنرل ایوب خان کو طاقت کا شوق تھا تو اس نے ذوالفقار علی بھٹو کو جنم دیا۔ ذوالفقارعلی بھٹو نے طاقت کا کھیل اپنے ہاتھ میں لینے کیلئے سب کچھ کیا لیکن پھر جنرل ضیاء الحق کے ہاتھوں شکار ہوگیا۔ جنرل ضیاء الحق نے نوازشریف کو جنم دیا۔ نوازشریف تجارت پیشہ انسان تھا ، اس نے آئی ایس آئی ، اسامہ بن لادن اور جہاں جہاں سے بن پڑا تو اپنی تجارت بڑھائی۔ ملک وقوم میں کرپشن کرپشن کی رٹ لگی تو گہماگہمی میں پیپلزپارٹی اور نوازشریف کی باری باری حکومتوں کا بتدریج خاتمہ کرکے خان صاحب کو لایا گیا۔ بہت ہی معذرت کیساتھ لیکن قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے بعض انسانوں کو کتوں اور گدھوں سے بھی تشبیہ دی ہے۔ کتا بڑا کارآمد اور وفادار جانور ہے لیکن اس میں لالچ اور اپنی چوہدراہٹ جمانے کی کمزوری ہوتی ہے۔ گیڈر سے تشبیہ عام طور پربزدلی کی وجہ سے دی جاتی ہے اور گیدڑ کا کام یہ بھی ہوتا ہے کہ بہت ہنر مندی سے ڈرپوک ہونے کے باوجودبڑی صفائی سے چوری کرتا ہے اورایک ساتھ جمع ہوکرعجیب و غریب آواز نکالنے کی مہارت رکھتا ہے جس کو گیڈر بھپکی کہتے ہیں۔ گدھا بوجھ اٹھانے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن اس کی آواز سب سے بدترین ہوتی ہے اور کوئی عقل اور عزت بھی نہیں رکھتا ہے۔
جب مشرقی پاکستان میں مجیب نے اکثریت حاصل کرلی اور ذوالفقار علی بھٹو کے پاس مغربی پاکستان میں اکثریت تھی تو بھٹو نے اسٹیلشمنٹ کیساتھ مل کر ہی اس ملک کو دولخت کردیا۔ جب93ہزار فوجی بھارت نے قید کرلئے تو بھٹو نے وفاداری دکھائی اور ان کو چھڑانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ جنرل ضیاء الحق کو اپنا وفادار ،بزدل اور کمزور سمجھ کر آرمی چیف بنایا لیکن جب اپنی چوہدراہٹ کے چکر میں پڑگیا تو اپنے انجام کو جائز یا ناجائز بہرحال پہنچادیا گیا۔ حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ ”کتے میں10صفات ایسی ہیں جو ہر مؤمن میں ہونی چاہئیں” اور ذوالفقار علی بھٹو میں بہت سی خوبیاں تھیں لیکن انسانیت کا کوئی معیار نہیں تھا ۔ جنرل ضیاء الحق نے گیڈر نوازشریف کو پالا ۔ گیدڑ میں انسان بننے کی صلاحیت تو دور کی بات ہے کتا بننے کی صفات بھی نہیں ہے۔جب بینظیر بھٹو نے جمہوریت کیلئے مولانا فضل الرحمن اور دیگر سیاسی جماعتوں سے مل کرMRDمیں جدوجہد شروع کی تو نوازشریف جنرل ضیاء الحق کی برسی پر گیڈر کی طرح آوازیں نکالتا تھا کہ ”تم شہید ضیاء الحق سے انگریز کے کتے نہلانے والے بھٹو کا مقابلہ کرتے ہو؟ اور پاک فوج زندہ باد اور جمہوریت مردہ باد ”۔ پھر جب اسلامی جمہوری اتحاد کے نام پر آئی ایس آئی نے پیسہ دیکر اس کو اقتدار میں لایا تو کرپشن کی بنیاد پر ہی صدر غلام اسحاق خان نے برطرف کردیا۔ رحمن ملک نے اس وقتFIAکے ذریعے تمام ثبوت اکٹھے کرکے ایون فیلڈ لندن کے فلیٹ کا پتہ لگایا تھا۔ پھر جب مرتضیٰ بھٹو کو قتل کرکے اس کی بہن بینظیر بھٹو کے اقتدار کا خاتمہ کیا گیا تو آصف علی زرداری کو جیل میں ڈال کر دوبارہ مرکز میں نوازشریف کو لایا گیا۔ بینظیر بھٹو پر بھی کرپشن کے کیس بنائے گئے اور نوازشریف کی گیدڑ بھبکیاں جاری رہیں۔ پھر نوازشریف نے گیڈر کی طرح اقتدار پر قبضہ کرنے کیلئے پرویزمشرف کو ہٹادیا لیکن اس کی چال ناکام ہوگئی۔ پھر گیدڑ سعودیہ کی جلاوطنی پر دستخط کرکے گیا تھا تو اس نے معاہدے کا انکار کیا۔ جب معاہدہ اس کے مطالبے پر سامنے لایا گیا تو اس نے کہا کہ10سال نہیں5سال کا معاہدہ کیا تھا۔ ایون فیلڈ کے کیس دوبارہ اس کے خلاف کھول کر بند کئے گئے۔ سزائیں بھی سنائی گئیں تھیں اور گیدڑ کی بچی مریم نواز نے گیدڑ بھبکی ماری تھی کہ ”میرے پاس بیرون ملک تو کیا ملک کے اندر بھی کوئی جائیداد نہیں ہے اور کچھ بھی میرے پاس نہیں، باپ پال رہا ہے”۔
جب یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بن گیا تو شہباز شریف رات کی تاریکیوں میں گیدڑ کی نمائندگی کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ سے ملاقات کرتا تھا اور گیڈروں نے پھر جمہوریت پر یلغار کردی۔ بجلی کے کھمبوں، چوکوں پر لٹکانے اور سڑکوں پر گھسیٹنے کی بھپکیاں جاری رہتی تھیں۔ پھر جب اقتدار میں آگئے تو اسمبلی میں گیدڑ بھپکیوں سے پرہیز نہیں کیا۔ ایون فیلڈ کے فلیٹوں کا تحریری بیان جاری کیا کہ اللہ کے فضل وکرم سے الحمد للہ2005ء میں سعودیہ کی مل اور وسیع اراضی اور دوبئی کے مل کو بیچ کر اس رقم سے2006ء میں یہ فلیٹ لئے۔ جس کے تمام دستاویزی ثبوت الحمد للہ میرے پاس ہیں جو عدالت کو عند الطلب دکھا سکتا ہوں”۔ پھر جب عدالت میں پیش کرنے کا وقت آیا تو قطری خط سے سب حقائق کو جھٹلادیا تھا اور پھر اس قطری خط سے بھی انکار کردیا تھا۔ یہ سب گیدڑ بھپکیاں اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ نوازشریف شیر نہیں گیدڑ ہے ۔ ووٹ کو عزت دو کے نام پر فوج ہی کو مودرد الزام ٹھہرایا کہ ”مجھے کیوں نکالا” لیکن جب عمران خان کے دور میں بھی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو ایکسٹینشن کی ضرورت پڑی اور آئینی ترمیم بھی ضروری تھی تو گیدڑ نوازشریف نے لندن سے ترمیم کی حمایت کردی اور پھر آرمی چیف کا نام لیکر بک بک بھی شروع کردی اور پھر خاموشی بھی اختیار کرکے نام لینا بھی چھوڑ دیا۔ اسلئے مریم نوازشریف کو چاہیے کہ عمران خان سے کہے کہ گدھا گیدڑ کی کھال نہیں پہن سکتا ہے۔ شیر کو بدنام کرنا بند کردیا جائے۔
حضرت علی اور حضرت امیر حمزہ جیسے مقدس صحابہ کرام کو شیر کہنا مناسب ہے مگر نوازشریف کی وہ کونسی ادا ہے جس پر اس کو شیر کہا جائے؟۔ اگر پارلیمنٹ میں اس کو زبردستی سے کسی نے ایون فیلڈ کا جھوٹا بیان پڑھنے پر مجبور کیا ہے تو پھر وہ بتائے لیکن اس کی پوری زندگی جھوٹ اور کرپشن سے عبارت ہے۔ ہمارے مولانا فضل الرحمن کوPDMکی قیادت کے نام پر ن لیگ کے دُم چھلے کا کردار ادا کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ جس طرح آرمی چیف کی مدت توسیع کیلئے پتہ چل گیا کہ جس قانون کے تحت ڈکٹیٹر شپ پر قبضہ کرکے اپنی مدت بڑھاتے تھے تو یہ قانون ہی غلط تھا، اسی طرح سے فقہ کے نام پر جومسلکانہ مسائل بنائے گئے ہیں وہ اس سے بھی زیادہ غلط ہیں۔ روزنامہ جنگ میں ” آپ کے مسائل اور ان کا حل” میں جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے رئیس دارالافتاء نے ایک سوال کے جواب میں لکھا تھا کہ ” میاں بیوی میں سے ایک کا انتقال ہوجائے تو نکاح ٹوٹ جاتا ہے اسلئے دونوں ایک دوسرے کیلئے اجنبی بن جاتے ہیں”۔ جس طرح عدلیہ کا قانون فوج کے جرنیلوں، سیاستدانوں اور بیوروکریٹوں کیلئے الگ ہے اور غریب عوام کیلئے الگ ہے۔ اسی طرح علماء کی شریعت بھی طاقتور اور کمزوروں کیلئے الگ الگ تھی۔ معاشرے میں کمزور اور طاقتور کیلئے قانون الگ الگ ہے لیکن اسلام نے کمزوروں اور طاقتوروں کیلئے یکساں قانون بنائے تھے۔ ہماری جمہوریت اس وقت کامیاب ہوسکتی ہے کہ جب ہم اسلام کے مطابق کمزور اور طاقتور کیلئے ایک ہی قانون بنائیں۔ مذہبی جماعتیں پاکستان کے آئین سے بھی کوئی فائدہ نہیں اُٹھاتی ہیں اسلئے کہ انہوں نے خودہی اسلام کو مسخ کردیا ہے۔
شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے اسلام میں پردے کے تین اقسام کے احکام بتائے۔نمبر1یہ ہے کہ گھر کی چاردیواری سے باہر نہ نکلا جائے اور حجاب کے پیچھے بات کی جائے۔ نمبر2یہ کہ چہرے اوراندر کے کپڑوں سمیت پورے جسم کا نقاب کیا جائے اور نمبر3یہ ہے کہ چہرے اور ہاتھوں کو کھلا رکھ کر باقی جسم کا پردہ کیا جائے۔( فقہی مقالات :جلد چہارم )
اسلام میں کوئی ابہام نہیں ہے لیکن نالائق نام نہاد علماء نے ابہام پیدا کیا ہے اور اگر یہ بات کوئی نہیں مانتا ہے تو علماء سے پوچھا جائے کہ تم خود اور تمہارے گھر کی خواتین کس قسم کا پردہ کرتے ہو؟۔ ٹی وی کے اسکرین، جہازوں اور بیرون ملک سفر کرنے والے کی اکثریت نے اپنے گھر والوں کو بھی سیر کروائی ہے۔ ان کے عمل وکردار سے ان کے شرعی پردے کا تصور بھی واضح ہوجائے گا۔ جب ان کی خواتین مساجد اور مدارس کی چاردیواری میں فل پیک ہوکر نکلتی ہیں اور بازار ، مارکیٹ ، شاپنگ مال اور پارک میں جانے سے پہلے اپنا برقعہ اتار دیتی ہیں تووہ یہ ثابت کرنا چاہتی ہیں کہ جس طرح سعودیہ اور ایران کی خواتین جہازوں میں بیٹھتے ہی اپنا برقعہ اپنے ہینڈ بیگ میں ڈال دیتی ہیں اسی طرح مدارس کے ماحول سے نکل کر ان علماء کی خواتین بھی وہی کردار ادا کررہی ہیں۔
جب اسلام آباد میں ایک پختون بچے کو اغواء کرکے قتل کیا گیا تھا اور تھانے کا عملہ رپورٹ درج کرنے کی بجائے بچے کے والدین سے جھاڑو لگوارہا تھا تواس وقت معروف فیمنسٹ ہدیٰ بھرگڑی بھی وہاں مجمع اکٹھا ہونے پر پہنچی تھی اور دوپٹہ بھی اوڑھ لیا تھا۔ یہ اسلئے کہ اس ماحول کا تقاضہ تھا۔ اگر وہ مدارس میں داخل ہوتو ہوسکتا ہے کہ اپنے پورے جسم کو ڈھانپ کر آجائے اسلئے کہ وہاں ماحول کا بھی یہ تقاضہ ہوگا۔ عورت جہاں ماحول کو دیکھتی ہے تو اپنے تحفظ کیلئے اس طرح کا قدم بھی خود اٹھالیتی ہے۔ قرآن میں عورتوں کو جہاں جہاں پردے کا جس طرح سے بھی حکم دیا گیا ہے تو وہاں ماحول کے لحاظ کو سامنے رکھ کر حکم دیا گیا ہے۔
پاکستان میں بہت بھکاری عورتیں بھی پھرتی ہیں لیکن کسی نے نہیں دیکھا ہوگا کہ سرعام کسی عورت نے اپنے بچے کو دودھ پلایا ہو۔ حرم کعبہ کے پاس بھکاری عورتیں اپنے بچوں کو دودھ پلانے کیلئے اپنی چھاتیوں کو گریبان کے اوپر سے ہی نکال کر دودھ پلادیتی ہیں۔ دبئی کے کتب خانوں میں بسا اوقات برقعہ پوشوں کا منہ چھپا ہوا ہوتا ہے لیکن سینہ کھلا ہوا ہوتا ہے۔ پردہ کے شرعی اور رواجی تصورات میں بہت فرق ہے۔ پختون، بلوچ، پنجابی ، مہاجراور سندھی اپنے اپنے کلچر کے مطابق ہی پردہ کرتے ہیں۔شریعت کی غلط تشریحات کو بہت ٹھیک طریقے سے درست کرنے کی بہت سخت ضرورت ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ ” بیوہ کو چار ماہ دس دن کی عدت سے بھی پہلے اشارے کنائے میں نکاح کا پیغام دے سکتے ہیں لیکن اس سے کوئی پکا عہدو پیمان نہیں کرسکتے”۔(سورۂ البقرہ ) سورہ ٔ طلاق میں عورتوں کی عدت وضع حمل یعنی بچے کی پیدائش ہے۔ اس پر اختلاف ہے کہ اگر حمل کی عدت چار ماہ دس دن سے کم ہو تو پھر بھی بیوہ کی عدت چار ماہ دس دن ہے یا نہیں؟۔ حضرت علی کی طرف یہ منسوب ہے کہ وہ کم ازکم چارماہ دس دن اور حمل کی صورت میں اس مدت ہی کو عدت کیلئے ضروری قرار دیتے تھے۔ جبکہ حدیث میں عورت کو بچے کی پیدائش کے بعد چند روز کے بعد بھی نکاح کی گنجائش دی گئی ہے اور اس پر فقہاء نے فتویٰ بھی دیا ہے۔ اگر چارماہ دس دن کے بعد حمل والی کو بھی نکاح کرنے کی ضرورت پڑتی تو نبیۖ اس کی بھی اجازت دے سکتے تھے۔ خلع کی عدت ایک حیض حدیث صحیحہ میں ہے لیکن بعض فقہاء نے اس کو اسلئے مسترد کیا ہے کہ قرآن میں طلاق کی عدت تین حیض کے یہ منافی ہے، حالانکہ حمل کی صورت میں عدت کی مدت چند لمحات بھی ہوسکتی ہے۔ قرآن میں عدت کے حوالے سے اعداد و شمار اور احادیث کی رہنمائی پر فقہاء متفق بھی ہوسکتے ہیں۔
اللہ نے بیوہ کو چار ماہ دس دن کی عدت پوری ہونے کے بعد اپنی مرضی کا مالک بنایا ہے۔وہ اپنے مردہ شوہر سے نکاح برقرار رکھ کرقیامت کے دن تک اس کی بیگم رہ سکتی ہے اور عدت کے بعد وہ کسی اور سے بھی نکاح کرسکتی ہے۔ فقہاء نے جس طرح انتقال کے فوراً بعد نکاح ٹوٹنے کا تصور بنایا یہ قرآن وسنت کیخلاف ہے۔ حضرت عائشہ سے نبیۖ نے فرمایا کہ آپ مجھ سے پہلے فوت ہوگئیں تو میں غسل دوں گا، حضرت ابوبکر کو ان کی بیگم نے غسل دیا اور حضرت فاطمہ کوحضرت علی نے غسل دیا۔ مفتی طارق مسعوداور علماء کے دل ودماغ سے جہالت نکالنے کی سخت ضرورت ہے۔اگر علماء ومفتیان کی مائیں اپنے شوہروں سے پہلے فوت ہوگئیں یا بعد میں تو نکاح ٹوٹنے کے بعد ان کی قبروں میں فلاں کی زوجہ بھی نہیںلکھنا چاہیے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

حضرت علی اور جاوید غامدی، اسلام میں نسب کا مقام، حسینی اور یزیدی کا فرق، قریش کے بارہ خلفاء میں سے ہوں گے

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

حضرت علی اور جاوید غامدی
معروف اسلامی اسکالر جاویداحمد غامدی نے بالکل درست کہا ہے کہ عرب میں داماد اہل بیت میں سے نہیں ہوتا ہے۔ حضرت ابوسفیان کے داماد نبیۖ تھے لیکن نبیۖ ان کے اہل بیت نہیں تھے۔ مسئلہ یہ ہے کہ صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ نبیۖ نے فرمایا کہ ” میں تمہارے اندر دوبھاری چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ، ایک قرآن اور دوسرے میرے اہل بیت”۔ ایک صحابی نے دوسرے صحابی سے پوچھا کہ اہل بیت سے مراد ازواج مطہرات ہیں؟۔ جس کے جواب میں فرمایا کہ ” ازواج مطہرات اہل بیت ہیں لیکن یہاں نبیۖ کے دادا کے خاندان والے مراد ہیں”۔ دوسری روایت میں ہے کہ ” اس صحابی سے پھر پوچھا گیا کہ ” کیا ازواج مطہرات اس اہل بیت میں شامل نہیں ہیں؟۔ پھر صحابی نے عرض کیا کہ نہیں ، جب شوہر بیوی کو طلاق دیتا ہے تو وہ اپنی قوم کی طرف لوٹ جاتی ہے”۔ صحیح بخاری کے بعد صحیح مسلم ہے۔ نبیۖ نے خطبہ حجة الوداع کے موقع پر بھی یہ فرمایا تھا کہ ” میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑے جارہاہوں ایک قرآن اور دوسری میری عترت، جب تک ان دونوں کو مضبوط پکڑے رکھوگے تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے”۔ جامع ترمذی۔ جس کامقام بخاری ومسلم کے بعد ہے۔ اور علامہ البانی نے تحقیق کرکے ان احادیث کو بالکل صحیح قرار دیا ہے۔
علماء وفقہاء نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ نبیۖ کے جن اہل بیت پر زکوٰة کا مال حرام ہے وہ نبیۖ کے دادا کی طرف سے وہ خاندان ہے جنہوں نے اسلام قبول کیا تھا اور ان کی وجہ سے ان کی ازواج وغیرہ بھی شامل ہیں۔ان میں حضرت علی اور آپ کے سب بھائی اور ان کے آل شامل ہیں۔
جاویداحمد غامدی صاحب نے اپنا نام شوقیہ غامدی رکھا ہے۔ قصائیوں نے قریش، تیلیوں نے عثمانی، جولاہوں نے انصاری اور دیگر لوگوں نے بھی خاندان کے نام بدلے ہیں۔ جب سورۂ نور کی آیات نازل نہیں ہوئیں تھیں تو نبیۖ نے اہل کتاب کے مطابق غیرمسلم اور مسلموں پر زنا کی حد سنگساری کی جاری کی تھی۔ صحیح بخاری میں ہے کہ جب تک کوئی حکم نازل نہیں ہوتا تھا تو نبیۖاہل کتاب کے مطابق اس پر عمل کرتے تھے۔ ایک یہودی کی عورت کو بھی سنگسار کیا تھااور ایک مسلمان مرد اور ایک مسلمان عورت بھی سنگسار کی گئی تھی۔ جس صحابیہ کوسنگساری کی سزا دی گئی تھی تو وہ غامدی قبیلے سے تھی جس کو غامدیہ کے نام سے ہی یاد کیا گیا ہے، جب اس کا بچہ اس قابل ہوا کہ وہ روٹی کھا سکتا تھا تو نبیۖ نے اس کے بعد حد جاری کرنے کا حکم دیا تھا۔ جب جاوید احمد غامدی کو یاد دلایا گیا کہ غامدی کی طرف نسبت کرنے سے یہ امکان بھی ہوسکتا ہے کہ اسی بچے کی نسل سے ہو۔ تو اس نے وضاحت کردی کہ میں نے غامدی شوقیہ نام رکھا ہے۔
نبیۖ کا قبیلہ بنوہاشم تھا تو ہاشمی وہی کہلاسکتا ہے جو ہاشم کی اولاد سے ہو۔ ابوسفیان سے قیصرروم نے پوچھا تھا کہ جس شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اس کا خاندان کیسا ہے؟۔ حضرت ابوسفیان نے جواب دیا تھا کہ قریش میں سب سے معزز اور شریف ترین خاندان سے تعلق ہے۔ اگر غامدی صاحب کھل کر کہتے کہ میں احادیث صحیحہ پر یقین نہیں رکھتا ہوں تو کوئی بات نہیں ۔بہت سارے لوگ احادیث کو نہیں مانتے۔ حضرت عمر فاروق اعظم نے حدیث قرطاس میں عرض کیا تھا کہ ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے۔ حنفی مسلک میں بہت سی احادیث کی تردید کی جاتی ہے لیکن غامدی صاحب عرب وعجم کے خاندانی نظام کو سمجھنے سے ہی قاصر لگتے ہیں۔ اگر ان کے خاندان والے غامدی ہوتے تو چچازاد کی حیثیت کا بھی پتہ ہوتا۔ اب شاید ان کے داماد کو بھی بعد میں شوقیہ غامدی ہی لکھنا پڑے گا۔ میرا مقصد کسی کی توہین نہیں ہے لیکن حقائق کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے۔

_ اسلام میں نسب کا ایک مقام _
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے کہا ہے کہ ” اے بنی اسرائیل ! یاد کرو ، میری اس نعمت کو ،جو میں نے تم لوگوں پر کی تھی اور تمہیں تمام جہاں والوں پر میں نے فضیلت بخشی تھی”۔ جب اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے یہ فرمایا ہے کہ ”میں نے قومی حیثیت سے تمہیں نعمت بخشی تھی اور تمام جہاں والوں پر تمہیں فضلیت بخشی تھی ” ۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قوموں اور خاندانوں کو من حیثیت القوم نعمت بخشنے کا اعزاز دیا ہے۔ ہندوستان پر مغل خاندانوں نے حکومت کی ہے تو آج مغل برادری سے تعلق رکھنے والے بڑے فخر سے مغل ہی لکھتے ہیں۔ ہندوستان پر کچھ عرصہ تک خاندانِ غلامان نے بھی حکومت کی ہے مگر کوئی اپنے آپ کو خاندانِ غلامان کی طرف منسوب کرنے کی جسارت نہیں کرتا ہے اسلئے کہ لوگ صرف حکومت کو نہیں بلکہ خاندانی حیثیت کو بھی دیکھتے ہیں۔
رسول اللہۖ کو اللہ تعالیٰ نے قریش کے معزز ترین خاندان سے مبعوث فرمایا تھا لیکن آپ ۖ کے چچا ابولہب اور اس کی بیوی کی مذمت بھی قرآن میں آئی ہے۔ بنی اسرائیل کو جہان والوں پر اسلئے فضیلت بخشی گئی تھی کہ انبیاء کرام اور بادشاہوں کی کثرت اللہ تعالیٰ نے اس قوم میں پیدا کی تھی لیکن پھر قرآن میں ان کے بارے میں یہ بھی واضح ہے کہ ضربت علیھم الذلة والمسکنة والباء بغضبٍ من اللہ ”ان پر ذلت،دربدری اور پھٹکار ان پر اللہ کے غضب کی وجہ سے مسلط کی گئی”۔ یہود نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا کہ ”جاؤ ، آپ اور آپ کا ربّ خود ہی لڑو، ہم تو یہاں بیٹھے ہوئے ہیں”۔ القرآن۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اپنے زعم کے مطابق تشدد کرکے پھانسی پر چڑھایا تھا مگر اللہ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بہت زیادہ اتباع کرنے والے عطاء کردئیے۔ یہود اپنے اعلیٰ نسب کے زعم میں پوری دنیا میں دربدری کا عذاب کھا رہے ہیں۔
رسول اللہۖ نے فرمایا کہ ” سب آدم کی اولاد ہیں اور آدم کی تخلیق مٹی سے کی گئی تھی، کسی کالے کو گورے پر اور گورے کو کالے پر، عجم کو عرب پر اور عرب کو عجم پر کوئی فضلیت حاصل نہیں ہے، فضلیت کا معیار تقویٰ (کردار)ہے”۔
انصار ومہاجرین میں خلافت کے مسئلے پر اختلاف ہوا تو حضرت ابوبکر اور حضرت عمر نے اپنا مقدمہ اس حدیث کی بنیاد پر جیت لیا کہ نبیۖ نے فرمایا کہ ” امام قریش میں سے ہوںگے”۔ رسول اللہۖ نے فرمایا” قیامت تک ائمہ قریش میں سے ہوںگے چاہے دو آدمی باقی رہیں”۔(بخاری ومسلم )انصار کے سردار حضرت سعد بن عبادہ حضرت ابوبکر و عمر سے خلافت کے مسئلے پر سخت ناراض تھے ،یہان تک کہ انکے پیچھے نماز تک نہیں پڑھتے تھے۔ جنات نے ان کو قتل کردیاتھااسلئے ان کے قاتلوں کو تلاش کرکے سزا نہیں دی جاسکی تھی۔ حضرت ابوبکر و حضرت عمر نے اپنے بعد اس بات کا خیال رکھا تھا کہ کسی کو نامزد کرکے اس خلافت کے مسئلے کو حل کیا جائے۔ حضرت علی اور حضرت عبداللہ بن عباس بہت شاکی رہتے تھے کہ جس طرح انصارسے زیادہ خلافت کا استحقاق قریش کا تھا تو اس طرح اہل بیت کی حدیث سے قریش میں خلافت کیلئے زیادہ اہلیت ان میں تھی۔ حضرت ابوبکر نے اپنے بیٹے کی بجائے حضرت عمر کو خلیفہ بنانا مناسب سمجھا اور اگر وہ اپنے بیٹے کو نامزد بھی کردیتے تو اس کو کثرت رائے سے مسترد کیا جانا تھا۔ حضرت عمر نے بعض لوگوں سے مشاورت کی تھی تو انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر کی نامزدگی کا مشورہ بھی دیدیا۔ حضرت عمر نے ان پر پابندی لگادی کہ آپ کو خلیفہ نہیں بنایا جاسکتا ہے اور یہ بھی فرمایا کہ ” جو طلاق کا مسئلہ نہیں سمجھ سکا اس کو امت میں خلافت کا مسئلہ کیسے سپرد کرسکتے ہیں”۔ بنوامیہ اوربنوعباس نے قبضہ کیاتو آج یزیدیوں کاعراق وشام میں اپنا الگ مذہب اور قوم بھی ہے۔

حسینی ویزیدی میں فرق کیا؟
عراق وشام میں ایک فرقہ ہے جو خود یزیدی کہتے ہیں۔ وہ قرآن کومانتے ہیں اور توراة وانجیل اور حضرت ابراہیم و نوح سب کو مانتے ہیں۔ عام مسلمان بھی سب کو مانتے ہیں لیکن وہ خود کو مسلمان نہیں کہتے ہیں۔ ان کے نزدیک وہی اہل حق ہیں اسلئے کہ تمام مذاہب کا ملغوبہ ہیں۔ جب بنو امیہ کے اقتدار کو بہت ظالمانہ طریقے سے بنوعباس نے ختم کردیا تو شاید یزیدی اسلام سے کنارہ کش ہوگئے۔ مشرکینِ مکہ ، یہود اور نصاریٰ سب دعویٰ کرتے تھے کہ وہ ابراہیمی ہیں اور حضرت ابراہیم ان کے تھے، جس کی اللہ نے قرآن میں نفی کی ہے۔ داعش کی طرف سے عراق وشام میں یزیدی مذہب کی خواتین کو زبردستی لونڈی بھی بنایا گیا تھا اور اس پر دستاویزی ویڈیوزبھی موجود ہیں۔ تحقیق کرنے والوں نے اس پر قسم قسم کے تجزئیے کئے ہیں کہ یزیدی مذہب کا تعلق کس سے ہے؟۔
اہل تشیع اپنے آپ ہی کو حسینی سمجھتے ہیں لیکن ہندوؤں میں حسینی موجود ہیں۔ اہل سنت کی اکثریت بھی یزیدی کے مقابلے میں خود کو حسینی قرار دیتی ہے ۔ شیعہ میں آغاخانی اور بوہری ایک شاخ کی دو کڑیاں ہیں۔ان کے نزدیک حضرت حسن حضرت علی کے بعد امام نہیں تھے بلکہ حضرت حسین امام تھے۔ جب ایک امام نے اپنے بیٹے کو اپنا جانشین نامزد کردیا تو وہ اپنے والد کی وفات سے پہلے ہی فوت ہوگئے، جس کی وجہ سے فرقہ امامیہ اثنا عشریہ کے نزدیک امام نے دوسرے بیٹے کو اپنا جانشین نامزد کردیا۔ جس سے مہدی غائب تک بارہ اماموں کا سلسلہ پورا ہوگیا۔ جبکہ آغاخانیوں اور بوہریوں کے نزدیک ایک دفعہ امام مقررہوگیا تو اس کو منصب سے نہیں ہٹایا جاسکتا تھا،اسلئے اسماعیل کی اولاد میں امامت منتقل ہوگئی۔ اسماعیلیوں نے فاطمیوں کے نام سے تاریخ میں حکومت بھی کی ہے جبکہ امامیہ اثنا عشریہ پہلی مرتبہ ایران میں برسرِ اقتدار آئے ہیں۔
ایک معروف شیعہ کی معروف کتاب ”الصراط السوی فی احوال المھدی” میں ایک روایت لکھی ہے کہ ” حضرت آدم سے حضرت عبدالمطلب تک نبوت و ولایت کا نور ایک ساتھ منتقل ہوتا رہاہے۔ پھر نور نبوت حضرت عبداللہ سے منتقل ہوکر حضرت محمدۖ کی بعثت سے دنیا کو پہنچا اور ولایت کا نور حضرت ابوطالب سے منتقل ہوکر حضرت علی کی شکل میں دنیا کو پہنچا”۔ ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب حضرت حسن میں ولایت کا نور منتقل ہوا تو پھر امام حسن سے ان کے بھائی امام حسین میں کیسے منتقل ہوسکتا ہے؟۔ اگر براہِ راست حضرت امام حسین کی شکل میں منتقل ہوا تو امام حسن کی ولایت کہاں سے ثابت ہوگی؟۔اور اگر دونوں میں منتقل ہوا تھا تو پھر دونوں کی اولاد میں اپنی اپنی حیثیت میں باقی رہنا چاہیے۔ اور جب ایک مرتبہ ایک امام نے اپنے بڑے بیٹے اسماعیل کو نامزد کردیا تھا توپھر نورولایت کسی دوسرے بیٹے کی طرف کیسے جاسکتا تھا؟۔ شیعہ منطقی لوگ ہیں اور اس منطق کا وہ خود ہی بہتر جواب دے سکتے ہیں اور یہ انکے آپس کا معاملہ ہے۔
حضرت شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی اور حضرت شاہ ولی اللہ نے ولایت کے اعتبار سے اثنا عشریہ کو اپنی کتابوں میں جو اہمیت دی ہے ، وہ بھی اپنی جگہ بہت ہے اور اس سے زیادہ شاید اہل تشیع بھی تصور نہیں کرسکتے ہیں لیکن افغانستان میں جس طرح داعش نے پہلے جمعہ کو قندوز اور پھر قندھار میں شیعوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا ہے تو یہ صورتحال بہت خطرناک ہے۔ اسلام میں حسینیت کا دعویٰ کرنے والے شیعوں کو تو بہت دور کی بات ہے،یزیدی مذہب کو دہشت گردی کا نشانہ بنانا بھی جائز نہیں ہے جو اسلام کھلم کھلا چھوڑ چکے ہیں۔ہم امید رکھتے ہیں کہ تہذیب کے دائرے میں اپنے اپنے دین پر قائم رہتے ہوئے فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے سے گریز کیا جائیگا،ورنہ پھر سب کا نقصان ہوگا۔

بارہ خلفاء قریش میں ہونگے
اہل سنت کیلئے سب سے مشکل حدیث یہی ہے کہ رسول اللہۖ نے جس کی وضاحت فرمائی ہے کہ ”بارہ خلفاء قریش میں ہونگے” لیکن تاریخ میں ایسی کوئی بارہ شخصیات نہیں ہیں جن کو امتیازی حیثیت حاصل ہو۔ خلفاء راشدین اور امام حسن کے تین سالہ دور کوخلافت راشدہ میں شمار کرتے ہیں ۔پھر حضرت امیرمعاویہ کے بعد یزیداور بنوامیہ وبنوعباس میں حضرت عمر بن عبدالعزیز کے علاوہ ایسی ممتاز شخصیات کو ڈھونڈ نکالنے میں ناکام ہیں جن کو مہدی آخری زمان سے ملاکر بارہ کی تعداد پوری کی جاسکے۔ جبکہ خلافت عثمانیہ والے قریش نہ تھے۔ جب اہل تشیع اہل سنت کو اس حدیث میں لاجواب پاتے ہیں تو ان کے لہجے میں سختی ، تلخی اوردرشتی آجاتی ہے۔جب اہل سنت ان کو معقول جواب نہیں دے سکتے ہیں تو ان کے خلاف غلط پروپیگنڈے سے بھی دریغ نہیں کرتے ہیں۔
اہل تشیع کے ہاں ”الصراط السوی فی احوال المہدی” بہت معتبر کتاب ہے اور اس میں ایک روایت یہ بھی ہے کہ ”مہدی آخرزمان کے بعد گیارہ ایسے افراد بھی اہل بیت میں سے آئیں گے جن کو حکومت ملے گی”۔ لیکن پھر وہ اس پر اپنی تشویش کا اظہار کرتا ہے کہ مہدی کے بعد گیارہ افراد آئیںگے تو اس کا آخری امیر ہونا کیسے ثابت ہوگا؟ روایت کو صحیح ماننے کے باوجود اپنے مسلک کی خلاف ورزی کی وجہ سے اس پر سوال کھڑا کردیا ہے۔ جس حدیث میں ہے کہ” وہ امت کیسے ہلاک ہوسکتی ہے جس کا اول میں ہوں، اس کے درمیان میں مہدی اور آخر میں عیسیٰ ہیں”۔ اس کوبھی الصراط السوی فی احوال المھدی نے صحیح مانا ہے لیکن مہدی آخرزمان کا تعلق تو آخری زمانے اور حضرت عیسیٰ کے دور سے ہوگا اسلئے الصراط السوی فی احوال المھدی کے مصنف نے لکھ دیا ہے کہ ”ہوسکتا ہے ، اس درمیانہ زمانے کے مہدی سے مراد بنوعباس کے دور کے مہدی ہوں”۔ مولانا بدر عالم میرٹھی مہاجر مدنی نے اپنی کتاب ” ترجمان السنة” میں وضاحت کی ہے کہ ”بنوامیہ کے عمر بن عبدالعزیز بھی مہدی تھے مگران کے دور میںانصاف پورا قائم نہیں ہوسکا تھا اور مہدی کے تمام صفات اس میں نہیں تھے اسلئے اصل مہدی بعد میں آئیںگے”۔ علامہ جلال الدین سیوطی اور پیر مہر علی شاہ گولڑہ شریف نے الحاوی للفتاویٰ اور تصفیہ مابین شیعہ وسنی میں واضح کیا ہے کہ” بارہ امام آئندہ ہی آئیں گے جن پر امت کا اجماع بھی ہوگا۔ ابھی تک کوئی بھی ایسا خلیفہ نہیں گزرا ہے جس پر امت کا اجماع ہوا ہو”۔الحاوی للفتاویٰ میں علامہ سیوطی نے روایت نقل کی ہے کہ ” مہدی کے بعد قحطانی امیر ہوگا، جسکے کانوں میںسوراخ ہونگے اور وہ مہدی سے ہدایت میں کم نہیں ہونگے۔ پھر اللہ تعالیٰ اس امت کے آخری امیر کی بعثت کریںگے جو نیک ہوں گے اورجن کے دور میں عیسیٰ ہوں گے”۔
مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی اور شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنی کتابوں میں مندرجہ بالا روایت میں سے آخری امیر کا ٹکڑا نقل کیا ہے مگر مہدی اور قحطانی امیر کی بات چھوڑ دی ہے اور یہ بہت بڑی خیانت ہے اور اس پر آنکھیں بند کرنے کی گنجائش بالکل بھی نہیں ہونی چاہیے ۔ قحطانی امیر سے پہلے کے مہدی کو درمیانہ زمانے کا مہدی قرار دیا جائے تو شیعہ سنی کا اس پراتفاق بھی ہوسکتا ہے۔ اسی طرح درمیانے زمانے کے مہدی کے بعد گیارہ افراد کو مہدی قرار دیا جائے تو شیعہ سنی روایات اور مسلکوں پر کوئی اثر نہیں پڑیگا۔ علامہ طالب جوہری نے ایک روایت نقل کی ہے کہ مشرق سے دجال نکلے گا اور اسکے مقابلے میں اہل بیت کا فرد ہوگا۔ یہ کوئی دوسرا دجال ہوگا اور اہل بیت سے مراد سید گیلانی ہوسکتا ہے جو امام حسن کی اولاد سے ہوگا۔ (ظہور مہدی: علامہ طالب جوہری)
پیش گوئیوں پر یقین کرنے والوں کو حقائق چھپانے کی کیا ضرورت ہے؟۔

اسلام کی بیخ کنی میں فقہاء کا کردار!
کراچی کی معروف مذہبی شخصیت علامہ شاہ تراب الحق قادری نے جمعہ کے دن، رمضان کے مہینے میں اپنے مقتدیوں سے یہ ایک فقہی مسئلہ بیان کیا تھا کہ ”روزے کی حالت میں پوٹی کی جائے تو مقعد سے آنت نکلتی ہے جو پھول کی شکل میں ہوتی ہے۔ اس پھول کو دھونے کے بعد کپڑے سے نہ سکھایا جائے اور وہ پانی سے گیلا اندر چلا جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔ فطری طور پر آنت خود بخود اندر چلی جاتی ہے تو سانس پھلا کر اس کو مقعد کے اندر جانے سے روکا جائے اور اگر پانی سے دھونے کے بعد اس کو مقعد کے اندر جانے سے نہیں روکا گیا تو روزہ ٹوٹ جائے گا”۔ علامہ شاہ تراب الحق قادری کے معتقد نے شاہ صاحب کے ہاں جمعہ پڑھا تھا اور وہ میرے پاس آیا۔ میں نے اس وقت ماہنامہ ضرب حق میں اس کو مین صفحے پر جگہ دی اور اس غلط مسئلے کی تردید کردی اور بریلوی دیوبندی علماء نے ہمارے اخبار کے توسط سے اس کی تردید کردی تھی۔ لیکن بدقسمتی سے یہ مسئلہ فقہاء کی معتبر کتابوں میں موجود ہوگا اسلئے مذہبی طبقات نے اپنی مساجد اور مدارس کے پلیٹ فارم سے اس کی تردید نہیں کی۔ پھر دعوت اسلامی کے مفتیوں نے اپنی مجالس اور سوشل میڈیا کے ذریعے سے اسی مسئلے کو دوبارہ خوب پھیلادیا اور اس میں یہ اضافہ بھی کیا کہ ”استنجاء کرتے وقت سانس روک دی جائے اسلئے کہ اس بے احتیاطی کی وجہ سے پانی مقعد میں داخل ہوکر روزہ ٹوٹ سکتا ہے”۔
جب ہم نے2004ء میں مفتی محمد تقی عثمانی کی کتاب سے مسئلہ اٹھاکر اخبار میں شہہ سرخی سے شائع کیا کہ ” سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے علاج کیلئے لکھنا جائز ہے” اور عوام کی طرف سے اس کے خلاف ردِ عمل سامنے آیا تو مفتی تقی عثمانی نے اپنی کتابوں ” فقہی مقالات جلد چہارم” اور ” تکملہ فتح المہلم” سے اس کو نکالنے کا اعلان کردیا اور توجہ دلانے پر شکریہ بھی ادا کردیا۔ لیکن ایک دو دن بعداس نے پھر اسی روزنامہ اسلام میں اشتہار دیا کہ ” مجھ پر بہتان لگانے والے اللہ کا خوف کریں”۔ اور پھر ہفت روزہ ضرب مؤمن کراچی میں اپنی کتابوں سے مسئلے کو نکالنے کی وضاحت والا مضمون اور بہتان لگانے والا اشتہار دونوں ایک ساتھ شائع کردئیے۔ یہ سب میڈیا کے ریکارڈ کا حصہ تھا۔ پھر ایک وقت آیا کہ عمران خان کے نکاح خواں مفتی محمد سعید خان نے اپنی کتاب ” ریزہ الماس” میں اپنے مسلک کی تائید کرتے ہوئے سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کا دفاع کیا اور سوشل میڈیا پر مولانا الیاس گھمن نے بھی حنفی مسلک کی تائید کردی ہے۔
جاہل مذہبی طبقے کو جاہل علماء ومفتیان نے جاہل فقہاء کی کتب کے ذریعے جس طرح قرآن وسنت کے رشد وہدایت سے دور کردیا ہے،اگر فرقہ وارانہ اور مسلکی تعصبات سے نکل کر عوام فطری دین اسلام کی طرف راغب ہوگئی تو بہت بڑا انقلاب آجائیگا۔ قرآن نے جاہل اور ہٹ دھرم عربوں کو اس وقت راہِ حق پر ڈال دیا تھا جب دنیا بے شعوری کی اندھیرنگری میں ڈوبی ہوئی تھی۔ آج فکر وشعور کے عروج کا دور ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچے موبائل فون کے کمالات سے آگاہ ہیں تو قرآن وسنت کی فطری تعلیمات عالمِ انسانیت کو کس طرح اس ظلم وجبر کے نظام سے نجات نہیں دلاسکتی ہے؟۔ بھونکنے والا لیڈر، گیدڑ بھبکیاں مارنیوالی عورت اورڈھینچو ڈھینچو کرنے والے حکمران ابھی اپنے آپ زندہ باد کا نعرہ لگاکر عوام کو اسلئے بیوقوف بنارہے ہیں کہ مذہبی طبقات نے اپنے لوگوں کو ان سے بھی زیادہ بیوقوف بنارکھا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کو چاہیے کہ مذہبی طبقے کے جھوٹ کو اور مقتدر طبقات کے لوٹ کھسوٹ کو عوام کے سامنے لائیں۔ جاہلیت، مفادات اور تعصبات کا خاتمہ کرکے پاکستان کو ترقی وعروج کی طرف لے جائیںگے تویہ دور اور پاکستان ایک عظیم انقلاب کابہت بڑا پیش خیمہ ثابت ہوسکتاہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں میلاد النبی کا کوئی وجود نہیں تھا۔ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اسلامی بینکاری موجود تھی؟

میلادالنبیۖ ہم اسلئے نہیں مناتے کہ یہ مذہبی تقریب ہے جس کا نبیۖ کے دور میں وجود نہیں تھااور14اگست جشن آزادی کی تقریب ہم اسلئے مناتے ہیں کہ دنیاوی تقریب ہے۔شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نومنتخب صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان۔پھرسوال بنتا ہے کہ رسول ۖ، خلفاء راشدین، ائمہ اربعہ ، مفتی تقی عثمانی کے والدمحترم مفتی محمد شفیع کے دور میں اسلامی بینکاری کا وجود تھا،وفاق المدارس کے سابقہ صدور بھی مخالف نہ تھے؟

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

الحمد للہ وزیراعظم کی زبان پر نقاب کا ذکر آیا۔ مہاجرات صحابیات بہت قابلِ احترام تھیں جب پردے کا حکم آگیا تو انہوں نے لنگ (ازار) پھاڑ کر اپنا سر اور سینہ ڈھانپا تھا۔ مولانا محمد انور جمعیت علماء اسلام کا قومی اسمبلی میں خطاب

میلاد النبی ۖ اورمفتی تقی عثمانی
ہندوستان اور پاکستان میں بریلوی دیوبندی اختلافات نئے نہیں ہیں لیکن ذمہ دار حلقوں نے اپنی سمجھداری سے کام لیکرہمیشہ فرقہ واریت میں ہوا بھرنے سے گریز کیا ہے۔ علماء دیوبند کے اکابر کے پیرومرشد حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی نے بھی اپنی کتاب ” فیصلہ ہفت مسئلہ” میں تمام متنازع امور کوبہت ہی خوبصورتی کیساتھ ختم کرنے کی زبردست کوشش فرمائی تھی۔ مولانا قاسم نانوتوی نے کہا تھا کہ میں علم کی وجہ سے حضرت امداد اللہ مہاجر سے بیعت ہوا ہوں۔لیکن مولانا رشیداحمد گنگوہی نے فرمایا تھا کہ میں ان کے علم سے نہیںتقویٰ کی وجہ سے بیعت ہوا ہوں۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے حاجی امداداللہ مہاجر مکی سے عرض کیا کہ مولانا رشیداحمد گنگوہی سے میری سفارش کرلیں کہ مجھے وہ بیعت کرلے۔ حضرت امداد اللہ مہاجر مکی نے فرمایا کہ ” میں تجھے خود بیعت کرتا ہوں ”۔ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے خانقاہی نظام کو سب سے زیادہ مولانا اشرف علی تھانوی ہی نے پھیلایا ہے۔ آپ کی کتاب ” فیصلہ ہفت مسئلہ ” کو بھی مولانا تھانوی نے ہی چھاپ دیا تھا ، ورنہ مولانا رشید احمد گنگوہی کے شاگردوں نے اس کو پھاڑ دیا تھا۔
مولانا رشید احمد گنگوہی کے ایک شاگرد مولانا حسین علی تھے جن کے شاگرد شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان اور شیخ القرآن مولانا محمد طاہر پنج پیری تھے۔ پھر ان کے بھی دو دھڑے بن گئے۔ مولانا غلام اللہ خان عام دیوبندی علماء سے مل گئے لیکن مولانا طاہر پنج پیری دوسرے دیوبندی علماء کو بدعتی قرار دیتے تھے۔ آج بھی اختلافات کا یہ سلسلہ نہ صرف جاری ہے بلکہ اب یہ ایک نیا موڑ اختیار کر گیا ہے۔ مفتی محمد تقی عثمانی میلاد النبیۖ کے منانے کو بدعت قرار دیتا ہے لیکن مفتی اعظم پاکستان مفتی محمود اور جمعیت علماء کے قائد مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں دیوبندی اکابر علماء بہت اہتمام کیساتھ میلاد کا جلوس ڈیر ہ ا سماعیل خان میں بھی نکالتے ہیں۔ کیا مفتی محموداور ڈیرہ کے اکابر علماء دیوبند اس وجہ سے بدعتی ہیں ؟۔

دیوبندی اور بریلوی اختلافات
بدعت اور سنت کے حوالے سے دیوبندی بریلوی اختلافات بہت عروج پر رہتے ہیں۔ مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ نے ایک بہت بڑی کتاب لکھ ڈالی کہ جس میں سنت نماز کے بعد اجتماعی دعا کو بدعت قرار دیا۔ ہندوستان، پنجاب اور کراچی میں علماء دیوبند کے اکابر اس پر عمل کرتے تھے اور سنتوں کے بعد اجتماعی دعا کو بدعت سمجھ کر چھوڑ دیتے تھے مگراندورنِ سندھ امروٹ شریف، بیر شریف اور ہالیجی شریف سنت نمازوں کے بعد بھی اجتماعی دعا ہوتی تھی۔ پختونخوا اور بلوچستان کے علاوہ افغانستان میں سنتوں کے بعد اجتماعی دعا مساجد میں ہوتی تھی۔اکوڑہ خٹک کے جامعہ حقانیہ اور پنج پیر کا اختلاف سنت کے بعد اجتماعی دعا اور حیلہ اسقاط وغیرہ سے زور وشور کیساتھ جاری رہتا تھا۔ جامعہ العلوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی میں بھی پنج پیری طلبہ کو اپنی شناخت چھپانی پڑتی تھی۔ اسلئے کہ مولانا سیدمحمدیوسف بنوری کا تعلق پختونخوا سے تھا۔ پنج پیری علماء اپنے مخالف دوسرے علماء کو حق چھپانے کا مرتکب قرار دیتے تھے اور دوسرے دیوبندی علماء پنج پیری علماء کو سب سے بڑا فتنہ قرار دیتے تھے۔ یہ جنگ ابھی جاری ہے۔
مولانا فضل غفور نے جب ایک عالمِ دین کا خواب اپنی جمعیت علماء اسلام کی تائید کیلئے بیان کیا تو پنج پیری علماء کی اکثریت نے اس پر رسول اللہۖ کی شان میں گستاخی کا فتویٰ لگادیا لیکن انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ مولانا حسین علی کی تفسیر” بلغة الحیران” میں لکھا کہ ” نبیۖ گر رہے تھے اور میں نے تھام لیا”۔ مولانا خضر حیات بھکروی اور دیگر پنج پیری علماء ان پر گستاخی کا فتویٰ کیوں نہیں لگاتے تھے؟۔ شمالی اتحاد کے احمد شاہ مسعود پنج پیری اور طالبان سنت کے بعد بھی اجتماعی دعا مانگنے والے بدعتی ہیں لیکن شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی طالبان سے نہیں کہتے ہیں کہ ” تم بدعتی ہو”۔ بریلوی دیوبندی اختلاف کی نوبت اس وقت آئے گی جب دیوبندی آپس میں کسی اچھے نتیجے پر نکل کر کبھی متفق بھی ہوجائیں گے۔

مفتی محمد تقی عثمانی اور سودی بینکاری؟
پاکستان میں پہلے سرکاری سطح پرربیع الاول کا اہتمام سیرت النبیۖ کے نام سے ہوتا تھا۔ دیوبندی علماء بھی ربیع الاول کا سیرت النبیۖ کے نام سے اہتمام کرتے تھے۔پہلی مرتبہ وزیراعظم عمران خان نے اپنے گھر بنی گالہ اور سرکاری سطح پر عیدمیلالنبیۖ کا اہتمام کیا ہے۔دوسری طرف سے شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے پہلی مرتبہ میلاد النبی ۖ منانے کو بدعت قرار دے دیا ہے۔
پاکستان میں پہلے دنیا پرستی کے نام پر سودی لین دین اور بینکاری کا اہتما م ہوتا تھا لیکن مفتی محمد تقی عثمانی نے مذہبی روپ میں سودی بینکاری کو اسلامی قرار دیا ہے؟۔ کیا یہ بدعت نہیں ہے؟۔ رسول اللہۖ اور خلفاء راشدین کے ادوار میں کوئی مذہبی پیشواء شیخ الاسلام نہیں ہوتا تھا لیکن پھر بنوامیہ کے بعد بنوعباس کے دورمیں شیخ الاسلام کا سرکاری عہدہ اور منصب بھی سامنے آگیا اور اب اس نے مذہب کا روپ ہی دھار لیا ہے کیا یہ بھی بدعت نہیں ہے؟۔کیا نبیۖ اور صحابہ کے دور میں غسل اور وضو کے فرائض اور ان پر اختلافات کا تصور تھا؟۔ یہ بدعت نہیںہیں؟۔ دیوبندی علماء مفتی تقی عثمانی اور اس کے آباء واجداد کو سرکاری مرغا قرار دیتے تھے۔ تھانوی گروپ کو آزادی کے علمبرداروں جمعیت علماء ہند کا دشمن سمجھا جاتا تھا۔ پھر جنرل ایوب خان کے پروردہ اس گروپ نے مشرقی اور مغربی پاکستان میں دیوبندی اکابر علماء پر1970ء میں کفر کا فتویٰ لگادیا۔ پھر تھانوی گروپ نے بھٹو کے برسر اقتدار آنے پر ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاء الحق کے دور میں جنرل ضیاء کا ساتھ دیا۔ مفتی محمود نے جنرل ضیاء الحق کی سرکاری زکوٰة کو سود قرار دیا اور پھر مولانا فضل الرحمن اس کو شراب کی بوتل پرآب زم زم کا لیبل قرار دیتے رہے۔ آج سرکاری مرغے نے حکومت کے برعکس کوئی آذان دیدی ہے تو یہ بہت زریں موقع ہے کہ سرکاری سطح اور عوامی سطح پر دین اسلام کی حقیقت کو سیاست سے پاک کرکے پوری قوم کو فرقہ واریت کے چنگل سے نکالا جائے۔

مولاناانور کی قومی اسمبلی میں تقریر
لکی مروت سے جمعیت علماء اسلام کے منتخب رکن نے قومی اسمبلی میں اپنے خطاب میں کہا ہے کہ ” شکر ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی زبان پر بھی نقاب کا لفظ آگیا۔ جب قرآن کی آیت نازل ہوئی ولیضربن بخمرھن علی جیوبھن ولایبدین زنیتھن الا لبعولتھن او لآبائھن…… ”عورتیں اپنے دوپٹوںکو اپنے سینوں پرڈال لیا کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر اپنے شوہروں کے سامنے یا اپنے باپوں کے سامنے…”۔تو اولین مہاجرات صحابیات نے جو بہت ہی قابلِ احترام تھیں ،لنگ (ازار ) پھاڑ کر اپنے سروں اور اپنے سینوں کو ڈھانپ لیا”۔ سوشل میڈیا پر خطاب دیکھ لیں۔
مروت قوم کا قومی لباس پہلے لنگ (ازار)ہوتا تھا جس کو تہبند، دھوتی،لنگی، لنگوٹ بھی کہا جاتا ہے۔ جب سے مولانا محمد امیر بجلی گھر نے لنگ دھوتی کو صرف پنجابی لباس قرار دینا شروع کیا ہے اور اس کو بے غیرتی سے تعبیر کیا ہے تو تہبند کا احترام بھی ختم ہوگیا،حالانکہ حج اور عمرے میں لنگوٹ (تہبند) پہنا جاتاہے۔
جے یو آئی کے رکن قومی اسمبلی مولانا محمدانورعالم ہیں۔ مولانا سید مودودی نے بھی اپنی تفسیر میں لکھا کہ ”عرب میں دوپٹے کا رواج نہیں تھا، قرآنی آیات کے بعد مسلمانوں نے دوپٹہ اوڑھنا لینا شروع کیا”۔ جب یہ بحث آتی ہے کہ عربوں میں دوپٹے کا رواج نہ تھا اور مشرکینِ مکہ تہبند پہنا کرتے تھے اسلئے بعض مہاجرصحابیات نے تہبندوںکو پھاڑ کر اپنادوپٹہ بناکر سر وں اور سینوں پر ڈالا۔ مگرقرآن سے یہ واضح ہے کہ پہلے سے دوپٹے کا رواج تھاکیونکہ آیت میں اپنے دوپٹوں کو اپنے سینوں پر ڈالنے کا حکم واضح ہے۔ البتہ دوپٹوں سے سینے ڈھانپ لینے کا رواج ختم ہوگیا ہوگا۔ پختون معاشرے میں برقعے اور نقاب کی روایت زیادہ عرصے کی بات نہیں۔ حج وعمرہ میں بھی خواتین دوپٹے سے سینوں کو ڈھانپ لیتی ہیں لیکن چہرے کا پردہ نہیں۔

_ سودی نظام سے پاکستان کی تباہی؟_
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں سودی نظام کو اللہ اور اس کے رسول کیساتھ اعلانِ جنگ قرار دیا ہے۔ جب1947ء میں پاکستان بن گیا تو اس میں اسلامی نظام کو قراردادِ مقاصد تک محدود کیا گیا۔ پھر اسلامی نظام کیلئے متفقہ22نکات پیش کئے گئے۔ پھر جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا تو1973ء میں ایک اسلامی جمہوری آئین تشکیل دیا گیا لیکن آج تک اسلام پر عمل ہوااور نہ جمہوری نظام کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوسکا ہے۔ جو جمہوری پارٹیاں ڈکٹیٹروں کی پیداوار ہیں اور موروثی نظام کی حامل ہیں تو ان کے ذریعے جمہوریت کیسے آسکتی ہے؟۔
آج سول وملٹری بیوروکریسی ، سیاستدان اور عوام سب مل کربھی اتنا نہیں کھاتے ہیں جتنا سودی نظام کے تحت سودی قرضہ لیکر سودی رقم ادا کررہے ہیں۔ یہ اللہ کیساتھ اعلانِ جنگ کی سزا ہم بھگت رہے ہیں۔ نوازشریف نے جتنا قرضہ لیکر سودی نظام کو تقویت دی تھی تو اس کو پورا کرنے کیلئے عمران خان نے مزید اور زیادہ سودی قرضے لے لئے ہیں۔ یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا اور اس وجہ سے تمام ریاستی ادارے اور حکومتی شخصیات زیادہ سے زیادہ قرضے لیکر ملک وقوم کو ڈبونے میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کی لڑائی زیادہ سے زیادہ لوٹ مار اور اقتدار کیلئے ہے اسلئے آئی ایس آئی چیف کی تقرری کے حق میں یا مخالفت میں کوئی بھی نہیں نکل رہاہے۔ ملکی مفادات کا مسئلہ ہوتا تو بہت سارے لوگ نکل آتے۔ پھر یہ بھی ممکن ہے کہ کل نئے آرمی چیف کی تقرری میں اس سے بھی زیادہ وقت لگے اور پوری دنیا پاکستان کی حکومت اور ریاست کا تماشہ دیکھنے لگ جائے۔ عوام کی بد دعائیں سب کو لگ رہی ہیں اور کھاؤ پیو معاملہ انجام کو پہنچنے والا ہے۔
سیاسی اقتدار کیلئے سب مررہے ہیں اور بڑے عہدے والے منصبوں کیلئے مررہے ہیں لیکن عوام کی غربت اور غریبوں کے بھوکے مرنے کا خیال کسی اقتدار والے کے دل ودماغ کو اپیل نہیں کرتا ہے۔ جن کا نام پانامہ پنڈورا میں بھی آیا ہے تو وہ میڈیا پر بڑی بے شرمی سے کہہ رہے ہیں کہ ہماری اولاد غیرملکی باشندے ہیں اور ان پر پاکستان کے قوانین کا کوئی اطلاق نہیں ہوتا ہے۔ جج ، جرنیل اور سیاستدان اپنی بیوی اور اپنے بچوں سے لاتعلق اسلئے بنتے ہیں کہ کرپشن میں ان پر کوئی ادارہ گرفت بھی نہ کرسکے۔ جو اپنے والدین، بچوں اور بیویوں تک سے لاتعلقی کا اعلان کریں تو اپنے ملک اور قوم کے کیسے خیرخواہ ہوسکتے ہیں؟۔
سودی نظام کے نتائج ہم اللہ سے اعلانِ جنگ کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ جب اسلامی جمہوری اتحاد کے سینئر نائب صدر مولانا سمیع الحق شہید نے سودی نظام کے خاتمے پر زور دیا تو اس وقت کے رنگیلا وزیراعظم نوازشریف نے اس کے خلاف میڈم طاہرہ سکینڈل اخبارات کی زینت بنادیا۔ میڈم طاہرہ سے زیادہ طاہرہ سید کے معاملات میڈیا کے سامنے واضح تھے لیکن سودی نظام کے خلاف آواز اٹھانے کی مولانا سمیع الحق شہید کو سزا دی گئی تھی۔ اگر گیدڑ کی طرح چیخم دھاڑ کرکے اچانک خاموشی اختیار کرنے اور گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والا بھی ہماری قوم کا مقبول سیاسی قائد ہو تو پھر اس قوم کا اللہ ہی حافظ ہے۔
رسول اللہ ۖ نے آخری خطبے میں سودی نظام کے خاتمے کا اعلان کردیا۔ سب سے پہلے اپنے چچا حضرت عباس کے سود کو معاف کردیا۔ اور دوسرے چچا کے خون کو معاف کردیا۔ اللہ کرے کہ پاکستان کی بھی جان چھوٹ جائے۔

مزارعت سے سودی نظام کا خاتمہ؟
جب سود کی حرمت کے بارے میں آیات نازل ہوئیں تو نبیۖ نے مزارعت کو بھی سود قرار دیدیا۔مزارعت کی وجہ سے دنیا میں غلامی کا نظام رائج تھا اور خاندان کے خاندان غلام بنتے رہتے تھے۔ جاگیردار اپنے غلام بچوں، بچیوں کو تربیت دے کر مہنگے داموں منڈیوں میں فروخت کرتے تھے۔ غلام ولونڈی بنانے کے سب سے بڑا ادارہ جاگیردارانہ نظام تھا۔ بدر میں70افراد کو قیدی بنایا گیا اور ان میں کسی ایک کو بھی غلام نہیں بنایا گیا اور نہ غلام بنانا ممکن تھا اسلئے کہ دشمن سے گھر کی خدمت لینا مشکل نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے۔ بھارت کے کلبھوشن اور ابھی نندن کو کون اپنے گھر کا غلام بناسکتا تھا؟۔
جب نبیۖ نے مزارعت کو سود اور ناجائز قرار دے دیا تو جاگیرداروں کی اولاد بھی محنت کش بن گئی اور مزارعین کو مفت زمینیں مل گئیں تو وہ بھی خوشحالی سے زندگی بسر کرنے لگے اور جب محنت کشوں میں قوتِ خرید کی صلاحیت پیدا ہوگئی تو تاجر حضرات بھی خوشحال ہوگئے اور جب تاجروں نے زکوٰة اور زمینداروں نے عشر دینا شروع کردیا تو بہت سارے لوگوں نے خمس دینا بھی شروع کردیا تھا اور جن کی زمینیں بارانی تھیں تو ان سے بیسواں حصہ وصول کیا جانے لگا۔ غیرمسلم کو جزیہ کے نام سے اپنا ٹیکس دینا پڑتا تھا اور مسلمان اپنی مرضی سے اپنا فرض سمجھ کر زکوٰة ، خمس ، عشر اور بیسواں حصہ دیتے تھے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے دور میں جب سالانہ بجٹ پیش کیا گیا تو بہت سارا مال بچ رہا تھا۔ انہوں نے رعایا کے تمام قرض داروں کا قرض ادا کرنے کا حکم دیا۔ عرض کیا گیا کہ وہ پہلے سے ادا کیا گیا ہے۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ جن لوگوں نے اپنی بیگمات کے حق مہر ادا نہیں کئے ہیں ان کے حق مہر ادا کئے جائیں۔ وزیرخزانہ نے عرض کیا کہ پہلے سے اس پر عمل ہوچکا ہے، سب کے حق مہر بھی دیدئیے گئے ہیں۔ عمربن عبدالعزیز نے حکم دیا کہ جن جوانوں کی شادیاں نہیں ہوئی ہیں ،بیت المال سے ان کی شادیاں بھی کروادو۔ عرض کیا گیا کہ اس پر بھی عمل ہوچکا ہے۔ غرض بیت المال کے پاس اتنا پیسہ تھا کہ رعایا پر خرچ کرنے کیلئے کوئی بہانہ ڈھونڈنے سے نہیں ملتا تھا۔
مشرکینِ مکہ اور دشمنان اسلام کو یہ گمان تھا کہ مسلمانوں کا مختصر گروہ وقت کی تاب نہ لاکر ختم ہوجائیگا لیکن ان کواندازہ نہیں تھا کہ حجاز میں جہاں بہت مشکل سے پانی کے کنویں بھی نہیں ملتے تھے۔ آب زم زم تھا یا مدینہ کے کچھ چشمے تھے ۔ لیکن پھر وہ دور بھی آیا کہ مصروشام، عراق اور ایران اور برصغیرپاک وہند تک بھی مسلمانوں کا اقتدار پھیل گیا اور اسپین وروم بھی ان کے زیرتسلط آگئے تھے۔ جب ایران کو فتح کیا گیا تھا تو حضرت عمرفاروق اعظم کے دور میں کسریٰ ایران کے محل سے جو شہزادیاں ملی تھیں ان سے حضرت امام حسن ، امام حسین اور محمد بن ابی بکر کی شادیاں کرائی گئیں۔ لگتا ایسا ہے کہ جس طرح حضرت ابراہیم کی زوجہ حضرت سارہ کی خدمت میں ایک ظالم بادشاہ نے اپنی ایک لونڈی حضرت حاجرہ پیش کی تھی جو اصل میں شہزادی تھی۔ اسی طرح ایران کے بادشاہ کو شکست دینے کے بعد یہ شہزادیاں بھی بادشاہ کے دربار میں رہ گئی ہوں گی۔ اسلام میں آزاد عورتوں کو لونڈی بنانے کا کوئی تصور نہیں ہوسکتا تھا۔ قرآن میں مسلمانوں کیساتھ بہت سارے وعدے کئے گئے تھے جن میں اقتدار اور خلافت کا وعدہ بھی تھا۔ وقت کی سپر طاقتوں روم وایران کو شکست دی گئی اور نہروں اور باغات کے دنیا میں بھی مالک بن گئے تھے۔ غلمان اور لونڈیوں سے بھی دنیا میں نوازا گیا تھا۔ اسلام نے لونڈی بنانے کا نہیں لونڈی وغلام کو آزاد کرنے اور سہولت دینے کا تصور دیا تھا۔
قرآن میں ان غلمانوں کا ذکر ہے جو ایکدوسرے پر تحفہ میں پیش کرینگے اور وہ اللہ کا شکر ادا کرینگے جن کو سخت دھوپ اور گرم لُو سے نجات دیکر اچھے مالکوں تک پہنچایا۔ علی کے مالک اشتر سے غزنوی کے محمود تک زبردست تاریخ ہے۔

اسلام کا غیرسودی بڑامعاشی نظام؟
کارل مارکس نے جو کیمونزم کا نظریہ دیا تھا ،اس نے روس کو دنیا کی دوسری سپر طاقت بنادیا تھا۔ اگر چین اور اسلامی دنیا اس کا ساتھ دیتے تو اس کا مقابلہ امریکہ اور یورپ نہیںکرسکتے تھے۔ امریکہ نے پہلے پاکستان اور اسلامی دنیا کو روس کے خلاف استعمال کیا اور اب خدشہ ہے کہ بھارت اور افغانستان کو چین کے خلاف بھی استعمال کرسکتا ہے۔ایسی صورت میں پاکستان کا بھرتہ نکل جائے گا۔ پاکستان کا اپنا کوئی معاشی نظام نہیں ہے۔ سستی بجلی پیدا کرکے اپنی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا لیکن ہمارے بڑے لوگوں نے غیرملکی سودی قرضے لے لے کر بیرون ملک اپنے اثاثے بنالئے ہیں۔ اسلام کی معیشت میں کسانوں کو مزارعت کے بغیر زمینیں مفت میں دینا اور سود سے پاک نظام کی بنیادی اہمیت ہے۔ کیمونزم اور کیپٹل ازم کے درمیان اسلامی معیشت کا درمیانہ نظام دنیا کو تباہی کے کنارے پہنچانے سے بچانے میں اہم کردار بھی ادا کرسکتا ہے۔ دریائے سندھ سمیت تمام دریاؤں پر چھوٹے بڑے ڈیم تعمیر کرنے سے پاکستان کی زمینوں کو باغات اور کھیتی باڑی سے بھی سرسبزوشاداب کرسکتے ہیں اور اس پر بجلی بنانے کے آلات لگاکرسستی بجلی بھی پیدا کرسکتے ہیں۔
جب ہمارا محنت کش زمیندار خوشحال ہوگا تو وہ بجلی خریدنے اور ضروریات کی اشیاء اور اپنے بچوں کے اعلیٰ تعلیم وتربیت کے بھی قابل بن جائے گا۔ ان کی خوشحالی سے تاجر بھی اپنی صنعتیں لگاکر اپنے مزدوروں کو اچھی دیہاڑی دے سکیں گے اور نہ صرف ہمارا ملک خود کفیل بن جائے گا بلکہ ترقی وعروج میں پوری دنیا کو بھی پیچھے چھوڑ جائے گا۔ جب زمین کے محنت کش کھیتی باڑی اور باغات سے خوشحال بن جائیں گے تو معاشرے میں باصلاحیت طبقہ انجینئر، ڈاکٹر، پائلٹ، سیاستدان، پروفیسر اورجج بن سکے گا۔ ہمارے یہاں بھی مثالی انصاف دیکھنے کو ملے گا اور دنیا کی ترقی میں مسلمان بھی اپنا حصہ ڈال سکیں گے۔ اصل چیز محنت اور اس کی قدر ہے۔ عرب ممالک میں پیسہ ہے لیکن محنت سے عاری ہونے کی وجہ سے وہ دنیا میں ترقی کی دوڑ سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ جب ہمارے ہاں محنت کش طبقے کو مواقع مل جائیں گے تو دنیا بھر سے ہمارا محنت کش طبقہ اپنے وطن میں کمائی کی سہولت سے فائدہ بھی اٹھائے گا اور دنیا میں عزت بھی کمائے گا۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ ” مردوں کا وہی حصہ ہے جو انہوں نے کمایا ہے اور عورتوں کیلئے وہی حصہ ہے جو انہوں نے کمایا ہے”۔ حضرت خدیجہ ایک بہترین تاجر تھیں اور حضرت فاطمہ نے اپنے ہاتھوں کی دستکاری سے اپنا گھر چلانے کیلئے کمایا تھا اورآپ اپنی کمائی غریبوں میں بھی بانٹ دیتی تھیں۔ مزارعین خاندان مرد اور خواتین اپنی اپنی محنت کے مالک ہوں تو ان کا گھر آباد ہوگا لیکن جب ان کے ہاتھوں کی کمائی کے مالک جاگیردار ہوں تو پھر وہ ہمیشہ غریب سے غریب تر بنتے چلے جائیں گے۔ بلاول بھٹو زرداری، مریم نواز، شاہ محمود قریشی، عمران خان اور مولانا فضل الرحمن اسلامی معیشت کی طرف آجائیں اور مذہبی جماعتیں مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن اور شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کی طرف سے سود کے جواز کی بھرپور مذمت کریں تو انقلاب آجائے گا۔ ایک سید زادہ اکیلا کھڑے ہوکرانقلاب کی دھائی دے رہاہے اور لوگ اپنی ہی دھن میں مگن ہیں لیکن کوئی بات نہیں ،اللہ ایک اچھا وقت بھی لائیگا۔انشاء اللہ

_ چہر وں کونہیں نظام تبدیل کرناپڑیگا! _
سیاسی جماعتوں اور فوجی جرنیلوں کے پیٹ ابھی تک پاکستان کو کھانے سے نہیں بھرے ہیں اور نہ کبھی بھرسکتے ہیں جب تک کہ اللہ نہ بھر دے۔ اسلام کی ریاست عوام کو بیوقوف بنانے اور لوگوں سے ان کے وسائل چھین لینے کیلئے نہیں ہوتی ہے بلکہ ظالموں ،جابروں اور تیار خوروں سے مظلوم عوام کو نجات دلانے کیلئے ہوتی ہے۔ جب غریب مزارع اور محنت کش سے اس کی بیوی اور بچوں کی کمائی بھی ہمارا بااثر طبقہ کھانے میں کوئی تکلیف محسوس نہیں کرتا ہے تو پھروہ مفت کے اندورنی قرضے اور بیرونی قرضوں پر ہاتھ صاف کیوں نہیں کرے گا؟۔یہ سب کچھ وہ عوام کو ریلیف دلانے کے جھوٹے وعدوں اور دعوؤں پر کرتا ہے۔
آج اگر امریکہ ایک خفیہ فنڈ جاری کرے کہ افغان طالبان کو چین سے لڑانا ہے تو ہماری ریاست اور حکومت کے وارے نیارے ہوجائیںگے۔ مفاد پرستی اور دہشت گردی کا کوئی مذہب ، اصول اور قانون نہیں ہوتا ہے۔ اگر ڈیورنڈ لائن کے مسئلے پر پختونوں اور پنجابیوں کے درمیان امریکہ جنگ برپا کردے تو بہت سے لوگ اپنی اپنی دُم اٹھاکر بے غیرتی اور بے ضمیری کے چھتر کھانے کو بھی تیار ہوجائیںگے۔ سیاسی جماعتیں گیدڑوں کی طرح احتجاج کیلئے وقت اور موقع کی تلاش میں رہتی ہیں۔ عوام کو ان کی چیخوں کی آوازیں عجیب مسخرہ لگتی ہیں۔ قادر پٹیل نے قومی اسمبلی میں تقریر یںکی ہیں، وہی ہر جانب سے دہرائی جاتی ہیں۔
شیعہ سنی ، بریلوی دیوبندی ، حنفی اہل حدیث اور یہاں تک تبلیغی جماعت کی دھڑا بندیوں میں بستی نظام الدین بھارت اور رائیونڈ کے مرکز کے کارکنوں میں بھی تصادم اور نفرت بھڑکانے کا بازار گرم رہتا ہے۔ پنجابی، پختون، سندھی ، بلوچ اور مہاجر تعصبات کو ہوادی جاتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے رہنما، کارکن اور برسراقتدار طبقات بھی ہمیشہ زخموں پر نمک پاشی کیلئے سرگرم رہتے ہیں۔ کوئی مثبت سرگرمیاں کرنا بھی چاہے تو لوگ اس کو اہمیت نہیں دیتے ہیں۔
سرکاری اور غیرسرکاری زمینوں پر قبضے کا کاروبار جاری رہتا ہے۔ بلڈنگ بننے اور بیچنے کے بعد مکینوں کو لوٹ مار کی طرح بے گھر کردیا جاتا ہے۔ عدالت کو وقت نہیں ملتا ہے کہ عوام کو انصاف فراہم کرسکے۔ مجرموں کو سزا دلوانے کیلئے کوئی ٹھوس قوانین بھی نہیں ہیں کہ مخلص جج بھی کوئی اقدامات اٹھا سکیں۔ پارلیمنٹ کی کارکردگی طاقت اور دولت کے حصول کے علاوہ کوئی معنی نہیں رکھتی ہے۔ نفرت کسی ایک طبقے سے نہیں ہوسکتی ہے اسلئے کہ پورانظام بگڑا ہوا ہے اور اس بگاڑ کی ذمہ داری کوئی لینے کو تیار نہیں ہے لیکن طاقت کے حصول کی دوڑ میں ضرورت سے زیادہ شرکت کیلئے عوام کو ورغلانے میں سب لگے بندھے رہتے ہیں۔
دنیا مسلمانوں سے خوف کھا رہی ہے کہ ان کے اشرافیہ کا بس چلے تو دوسری قوموں کی خواتین کولونڈی بنانے سے بھی دریغ نہیں کریں گے اسلئے کہ قرآن کا حکم ان کو ایسا ہی لگتا ہے۔ حالانکہ قرآن نے دودو، تین تین، چار چار شادیوں کی اجازت دینے کے بعد فرمایا ہے کہ اگر تمہیں خوف ہو کہ انصاف نہیں کرسکوگے تو پھر ایک یا جن سے تمہارا ایگریمنٹ ہوجائے۔ متعہ ومسیار سے بھی زیادہ بڑی بھیانک چیز لونڈیوں کا تصور ہے لیکن مسلمانوں نے قرآنی آیات سے لونڈیاں مراد لی ہیں اور پھر یہ تصور قائم کیا ہے کہ جنگوں کے بعد دشمنوں کو غلام ولونڈیاں بنایا جاسکتا ہے۔ قرآن وسنت اور صحابہ کرام کی سیرت کے مطابق نکاح میں مرد کو تمام اخراجات اور گھر سب کچھ کا پابند کیا گیا ہے لیکن ایگریمنٹ میں باہمی رضامندی سے معاہدے کرنے کی بات ہے۔ آج مسلمان عورتوں کو نکاح کے بھی حقوق حاصل نہیں ہیں۔ ان پر حرامکاری کا اطلاق نہیں ہوتا ہے لیکن ان پر ایگریمنٹ کا اطلاق ضرور ہوتا ہے۔ اسلامی حق مہر اور جہیز کی جگہ معاشرے میں خود ساختہ رسوم کے ذریعے عورت کے تقریباًتمام حقوق سلب کئے گئے ہیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv