پوسٹ تلاش کریں

جس دن اُمت نے قرآن و سنت کو سمجھ کر اعلان کردیا کہ حلالے کا تصور نہیں تو آدھا چلّہ گزرتے ہیں21ویں دن دنیا میں انقلاب آجائے گا!

جس دن اُمت نے قرآن و سنت کو سمجھ کر اعلان کردیا کہ حلالے کا تصور نہیں تو آدھا چلّہ گزرتے ہیں21ویں دن دنیا میں انقلاب آجائے گا!

پہلے دن حلالے کی لعنت کا خاتمہ ہوگا اور دوسرے دن،تیسرے، چوتھے، پانچویں …… بیسویں دن تک ایک ایک اہم مسئلے کی وضاحت جاری رہے گی تو امت زندہ ہوجائے گی

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

صحیح مسلم کی حدیث ہے کہ ” اہل غرب ہمیشہ حق پر قائم رہیں گے”۔ مغرب کی سب سے بڑی خوبی جمہوری اقتدار، غلامی اور ڈکٹیٹر شپ کا خاتمہ ہے۔ ہمارا خلیفہ بھی جمہوری انداز سے مقرر ہونا چاہیے۔ ڈکٹیٹر شپ سے امریکی ونیٹو فوج کو افغانستان میں کامیابی نہیں ملی۔ طالبان کے جنرل مبین نے کہا کہ” جب تک عوام ساتھ نہ ہو ،افغانستان میں کوئی حکومت کامیاب نہیں ہوسکتی”۔ دہشگردی کا خاتمہ جمہوری حکومت کے ذریعے سے ہی ممکن ہے۔ اگر خواتین کو اسلامی حقوق دینے کی وضاحت اور پھر اس پر عمل درآمد کا اعلان کیا جائے تو جمہوری بنیادوں پر پوری دنیا کی خواتین خلافت علی منہاج النبوت قائم کرنے میں دیر نہیں لگائیں گی۔ پہلے دن اعلان کیا جائے کہ حلالہ کا خاتمہ ہے۔ باہمی رضامندی سے صلح کا راستہ اللہ نے کھلا رکھا ہے۔ تو مسلمانوں کی زندگی میں حرکت شروع ہوگی۔ پھر اگلے دن عورتوں کو اسلام کے مطابق خلع کا حق دیا جائے تو مزید تحریک کامیاب ہوگی۔اسلامی علوم کا بند اور فطری ذخیرہ عوام وخواص کے سامنے کھلے گاتو انقلابی رحجان پیدا ہوگا۔ پھر خواتین اور مردوں کے مخلوط معاشرے کی مثال خانہ کعبہ کے طواف، صفاومروہ کے سعی اور حرم کعبہ میں نمازباجماعت سے دی جائے تو مولوی کا ذہن بھی کھلے گا۔مرد اور عورت کو نظروں اور شرمگاہوں کی حفاظت کا حکم سمجھایا جائیگا تو حجر اسود چومتے وقت نامحرم آپس میں رگڑ ا نہیں کھائیںگے ۔ہر نیا دن انقلابی سورج طلوع ہوگا۔ نکاح میں مردوں پر فرائض اور خواتین کے حقوق سے دنیا بھر کی مسلم اور غیرمسلم خواتین اسلامی نظام کے حق میں ووٹ دیںگی۔پانچ دنوں میں انقلاب کے اثرات ہونگے۔والدین کی علیحدگی کی صورت میں بچوں پر ماؤں کا یکساں حق ہوگا تو مائیں خوشیوں سے سرشارہونگی۔
چھٹے دن پنجاب میں جہیز اور پشتونوں میں عورت کا حق مہر کھانے کا رواج ختم ہوگا اور عرب والدین بھی حق مہر کے مطالبے کی وجہ سے عورتوں کے حقوق کو ضائع کرنا چھوڑ دیںگے۔ افغان طالبان حکومت کو بھی دنیا تسلیم کرے گی اور عرب وعجم کی خواتین میں اسلام کوزبردست قبولیت کا درجہ حاصل ہوجائیگا۔7ویں دن اعلان ہوگا کہ عورت اور مرد کے ریپ پر سنگساری کی سزا ملے گی تو دنیا بھر کے غیور لوگ اسلام کے حق میں کھڑے ہوںگے۔8ویں دن اعلان ہوگا کہ سورۂ نور کے مطابق عورت اور مرد کو بدکاری پر اعلانیہ100کوڑے کی یکساں سزا دی جائے گی اور ماحول کے اعتبار سے کوڑے میں سختی اور نرمی ہوسکتی ہے تو دنیا کے کان کھڑے ہوںگے لیکن تحریک اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہوگی۔ پھر9ویں دن لعان کے قانون کا اعلان ہوگاتو دنیا حیران ہوگی کہ اسلام میں قانون کی بالادستی کا چودہ سو سال پہلے سے یہ تصور تھا کہ جب عورت کیخلاف اسکا شوہر فحاشی کی گواہی دے اور عورت کو نہ صرف اسکے جھٹلانے کا حق ہو بلکہ اس کی وجہ سے سزا کا حکم بھی ہٹ جائے تویہ کتنا زبردست اور بہترین قانون ہے۔ سورۂ نور کی یہ آیت لوگوں کی نظروں سے کیوں اوجھل رکھی گئی؟۔ اگر یہ واضح احکام ہوتے تو مغرب کو ہوس پرستی کیلئے یہ مادر پدر آزادی دینے کے قوانین کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔وہ اسلام کے محفوظ خاندانی زندگی کی طرف دوبارہ پلٹنے میں دیر نہیں لگائیںگے کیونکہ انسان جانور نہیں بن سکتا ہے۔
10ویںدن اعلان ہوگا کہ نہ صرف شوہر کو اپنی وسعت کے مطابق حق مہر دینا ہوگا بلکہ جب عورت کو ہاتھ لگائے بغیر بھی شوہر طلاق دے گا تو نصف حق مہر پھر بھی دینا فرض ہوگا۔ البتہ اگر عورت اپنی طرف سے کچھ معاف کرنا چاہے لیکن ترغیب مرد کو ہے کہ جسکے ہاتھ میں طلاق کا گرہ ہے کہ وہ نصف حق مہر سے زیادہ دے تو بہتر ہے۔آیت کے ان الفاظ سے فقہاء نے جو مسائل نکالے ہیں کہ عورت حرامکاری پر مجبور ہو ،تب بھی عورت کو خلع نہ ملتا ہو تو وہ لذت اٹھانے پر گناہگار ہوگی۔ وغیرہ تو لوگ سابق مخلص علماء وفقہاء کی مغفرت کی دعاکرینگے۔
11ویں دن اعلان ہوگا کہ عدت کے اندر ، عدت کی تکمیل کے بعد اور عدت کی تکمیل کے کافی عرصہ بعد میاں بیوی میں صلح کا دروازہ کھلا ہے تو یہ ایک ایسا انقلاب ہوگا جس کی وجہ سے عوام اور خواص کے خاندانوں میں دشمنی کا خاتمہ ہوجائیگا اورماحول کو بہت پاکیزگی اور تزکیہ مل جائیگا۔12ویں دن اعلان ہوگا کہ بیٹیوں کو باپ کی جائیداد میں بیٹے کے نصف کے برابر حصہ ملے گا تو ظالموں کے کلیجے منہ کو آجائیں گے اور مظلوموں کو انصاف مل جائیگا۔13ویں دن اعلان ہوگا کہ مزارعت ،ٹھیکہ ، مزدوری اور کرائے پر زمینوں کا دینا ممنوع ، ناجائز اور سود ہے تو روس کے دارالخلافہ ماسکو پر اسلام کا جھنڈا لہرائے گا اور سارے کامریڈ اور کمیونسٹ اسلامی نظام کو قبول کرنے کا اعلان کریں گے۔14ویں دن اعلان ہوگا کہ دنیا سے سودی نظام ختم ہے اور اصل رقم قرضہ کی شکل میں واپس کی جائے گی اور سودی لین دین دنیا میں منع ہے جس سے انسان دشمنی کے راستے اور غلامی کے آثار نمایاں ہوئے ہیں تو ایک جشن منایا جائیگا کہ انسانوں کی گردنیں غلامی کی زنجیروں سے آزاد ہیں۔15ویں دن اعلان ہوگا کہ کالے گورے، عرب عجم سب بنی آدم ہیں ۔ کسی کو کسی پر نسل کی وجہ سے برتری حاصل نہیں۔ افضیلت کا معیار کردار ہے تو یہ بہت مثبت اثرات مرتب کرے گا۔16ویں دن اعلان ہوگا کہ وکیلوں کو چھوڑ دیں۔ اپنا مقدمہ خود پیش کریں۔ سیاسی جماعت کے قائدین ، جرنیل ،جج ،ملا، صحافی ، تاجر ، ٹھیکہ دار اور تمام طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد صاف ہونگے تو ان کو دائیں ہاتھ سے اعمالنامہ جاری کیا جائیگا اور آسان حساب لیا جائیگا اور جو حاضر ہونے سے انکار کرے گا تو اس کو پیٹھ پیچھے اس کا اعمال نامہ دیا جائیگا اور وہ اپنی موت پکارے گا۔ کرپٹ عناصر نے ملک وقوم کو لوٹ کر کہاں سے کہاں پہنچادیا ؟۔ بڑے بڑے ہاتھ مارنے والوں سے حساب لیا جائے گا۔17ویں دن اعلان ہو گا کہ زکوٰة کو قرآن وسنت کے نصاب کے مطابق آٹھ قسم کے افراد میں تقسیم کیا جائیگا۔ حادثات کا شکار ہونے والوں میں مسلم و غیرمسلم کی تفریق نہیںہو گی۔مسلمانوں سے نہری اور بارانی زمینوں کا عشر اور غیرمسلموں سے اتنی مقدار میں جزیہ لیا جائیگا۔18ویں دن اعلان ہوگا کہ زکوٰة، حج، نماز اور خواتین کے پردے میں جبری نظام کا تصور نہیں۔ صرف اخلاقیات کی ترغیب ہوگی لیکن قانون اور زبردستی کا تصور قرآن وسنت میں نہیں۔19ویںدن اعلان ہوگا کہ مسلمانوں کی طرح اگر ہندو، بدھ مت، عیسائی، یہودی اور صائبین وغیرہ بھی اپنی مرضی سے اپنے اصل ادیان کی طرف لوٹ کر مسخ شدہ احکام کی اصلاح کرنا چاہتے ہوں تو یہ انکی اپنی مرضی ہے۔ وہ خود اپنی شریعت اور اپنی مرضی ہی کے مطابق اپنے احکام پر عمل کے پابند ہونا چاہیں تو ان کی مرضی ہے لیکن ہماری طرف سے جبر وزبردستی کاکوئی تصور نہیں اور نہ ہم ان کی کتابوں کے مطابق ان کا فیصلہ کرینگے اسلئے کہ اللہ نے منع فرمایا۔20ویں دن اعلان ہوگا کہ دنیا سے ظلم کا خاتمہ اور عدل قائم کریںگے تو مسلمانوں میں روح مکمل ہوجائے گی۔21ویں دن انڈے کا خول توڑ کر مسلم امت کے چوزے دوڑنے کے قابل ہوں گے۔
میری دائیں اور بائیں بازو دونوں سے صراط مستقیم پر چلنے کی نہ صرف ایک درخواست ہے بلکہ یہ یقین ہے کہ اسلامی احکام کی افادیت کے سامنے پوری دنیا کی طرح جلد ازجلد وہ بھی سرجھکائیں گے۔ عورت جب بیاہی جاتی ہے تو وہ کسی قوم، خاندان اور علاقہ میں رعایا کی زندگی بسر کرتی ہے۔ جو مظالم قانون، رسم و رواج اور شریعت کے نام سے عورت پر روا رکھے گئے ہیں ،اگر اسلام کی حقیقت سامنے آجائے تو وللہ باللہ تاللہ سب لوگ حقیقی اسلام قبول کریںگے اور ایمان کو دلوں میں داخل کریںگے۔ مولانا فضل الرحمن ووٹ مانگتا ہے تو کہتا ہے کہ اگر مرداور عورت کو فحاشی کی حالت میں ننگاایک ، دو اور تین مرد دیکھیںگے تو بھی کچھ نہیں کہہ سکتے۔ مگر جب اقتدار ہاتھ میں آتا ہے تو دوپٹہ سرکنے یا چہرے دکھانے پر کوڑے مارے جاتے ہیں حالانکہ حج وعمرہ میں عورتیں چہرہ دکھاتی پھرتی ہیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

انڈوں کو مطلوبہ حرارت فراہم نہ کی جائے تو چوزوں کی زندگی اور نشو و نما کا امکان نہیں ہوتا، مطلوبہ حرارت کے21دن بعد چوزے نکلتے ہیں!

انڈوں کو مطلوبہ حرارت فراہم نہ کی جائے تو چوزوں کی زندگی اور نشو و نما کا امکان نہیں ہوتا، مطلوبہ حرارت کے21دن بعد چوزے نکلتے ہیں!

اللہ کے حکموں میں کامیابی کا یقین اس وقت ہمارے دلوں میں آسکتا ہے جب اللہ کے احکام کو سمجھ لیں۔اگر اللہ کے نام پر جعل سازی ہو تو جعلی احکام پرکامیابی کا یقین نہیں آئے گا

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

نسل در نسل انڈوں اور چوزوں کی طرح علماء ومفتیان، خانقاہوں کے پیر، درگاہوں کے جانشین،مذہبی جماعتوں کے قائدین اور سیاسی جماعتوں کے لیڈر مختلف رنگ ونسل میں ایک پود سے دوسری پود جنم لے رہے ہیں لیکن اسلام کی دنیا میں بالادستی کا کوئی پودا نہیں لگاتے ہیں۔ ایک ایک فرقے میں انواع اقسام کی تنظیمیں، جماعتیں اور شخصیات ہیں لیکن مذہب کو ایک کاروبار بناکر رکھا ہے۔ جب چندے ، ہدئیے ، زکوٰة، خیرات اور فطرے مل رہے ہوں تو دین بھی بہت اچھا لگتا ہے۔ ایسے میں پنج وقتہ نماز، روزکی تلاوت، ذکر اور تہجد میں کیا دشواری ہوگی؟۔ ایسے لوگوں کے ہوتے ہوئے بھی مختلف قوموں پر مختلف ادوار میں کیسے کیسے عذاب آتے رہے ہیں؟۔ آج یہ بخشے بخشائے بدھ مت کے بھکشوبھی اپنے معمولات کے مطابق بس نیکی وبدی کی فکر سے آزاد گشت کرتے پھر رہے ہیں۔ جب پیر وںوملاؤں نے تبلیغی جماعت کی سخت مخالفت کی تھی تو ہمارے خاندان نے ان کی بھرپور حمایت کی تھی اسلئے کہ ہمارے گھرانہ نے دم تعویذ اور مذہب کو اللہ کے فضل سے اپنا کاروبار نہیں بنایا تھا۔ ہم نے مرشد بھی وہ چن لیا جس نے ساری زندگی تبلیغی جماعت کے اکابر میں شمار ہونے کے باوجود کارکنوں کی طرح گزاری تھی۔ تبلیغی جماعت والے مسلک نہیں دین کی خدمت کی وجہ سے بڑے اچھے لگتے تھے۔ تبلیغی جماعت کی طرح دعوت اسلامی نے بھی دین کی خدمت کا بیڑہ اٹھارکھاہے اور یہ چلتی پھرتی خانقاہیں ہیں۔ اللہ کے حکموں میں کامیابی کا یقین کی رٹ لگانے والوں کو یہ پتہ نہیں ہے کہ ” اللہ کے احکام کیا ہیں؟”۔ مجھے تبلیغی جماعت سے جذبہ ملا۔ مدارس میں اللہ کے احکام کو اساتذہ کرام سے سیکھا تو یہ راز فاش ہوگئے کہ سب سے پہلے اللہ کے احکام کی حقیقت جاننا چاہیے ۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

تبلیغی جماعت کا حلالہ؟ ڈیڑھ چلّے پر چھکا 60 x6=360 پورا سال؟

تبلیغی جماعت کا حلالہ؟ ڈیڑھ چلّے پر چھکا60×6=360پورا سال؟

تبلیغی جماعت و دعوت اسلامی کے کارکن چلّہ کشی میں برداشت پیدا کرتے ہیںاور ایک حلالہ کی لعنت کرانے سے ان میں پورے سال کی محنت کے برابر برداشت پیدا ہوجاتی ہے

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

دیوبندی بریلوی علماء کیلئے تبلیغی جماعت و دعوت اسلامی بڑا سرمایہ ہیں۔ انکے کارکن غصے میں بیگمات کو اکٹھی3طلاق دیں تو حلالہ کی لعنت کروانے کیلئے علماء کے پاس پہنچتے ہیں۔ علماء فتویٰ دیتے ہیں کہ ان کیساتھ شب باشی کی لعنت نہ کی جائے تو صلح حرامکاری ہے۔ قرآنی آیت کو سیاق وسباق کے بغیر اور حدیث کوبالکل غلط پیش کرکے بے گناہ خواتین کی عزتیں اسلام کے نام پر لوٹ لی جاتی ہیں۔مفتی حلالہ انجن تبلیغی جماعت و دعوت اسلامی کے ایندھن سے چلتا ہے۔ تبلیغی جماعت ودعوت اسلامی اعمال کو کروڑوں سے ضرب دیتے ہیں اور قوت برداشت پیدا کرتے ہیں، حلالہ سے ڈیڑھ چلہ60دنوں پر چھکے6کی ضرب لگتی ہے تو360دنوں سال کے برابر برداشت کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے۔ علماء نے پہلے لاؤڈ اسپیکر پر نماز و آذان کیخلاف فتویٰ دیا مگر عمل نہ کیا۔ تصویر کا فتویٰ دیا مگر پھر جواز کے قائل ہوگئے۔ اب سود کو جائزقرار دیا۔بے ایمان علماء نے حلالہ کے درست مؤقف کو سمجھ لیا لیکن اس لعنت سے تبلیغی جماعت و دوعوت اسلامی کے کارکنوں کی عزتیں نہیں بچاتے ۔ علماء میںکسی نے توحید وسنت پر زور دیا۔ کسی نے رسول اللہ ۖ کیخلاف گستاخانہ لہجے کا تعاقب کیا۔ کسی نے اقامت دین کو مشن بنایا۔ کسی نے جہاد کی طرف توجہ دی۔کسی نے ختم نبوت کو تحفظ دیا۔ کسی نے صحابہ اور اہلبیت کا تحفظ اپنا فرض سمجھا۔ کسی نے ردِ بدعات کو مشن سمجھا۔ کسی نے تقلید کو تحفظ دیا۔کسی نے تفسیرقرآن اور کسی نے حدیث کو مشن قرار دیا۔ علماء نے مختلف میدانوں میں نمایاں کارنامے انجام دئیے ،علوم وفنون میں ان کی مہارت کا سکہ دنیا مانتی ہے۔قرآن و سنت، فقہ وعقائد، صرف ونحو، منطق و فلسفہ اور عربی ادب کے میدان میں مخصوص کتابوں کے ماہرین سے طلباء اپنی تعلیم کیلئے دور دور سے تشریف لاتے ۔ علمی شخصیات کے علاوہ مدارس کا وجود بھی تھا جن میں مختلف علوم اور کتابوں کے ماہرین طلبہ کو اسلامی علوم پڑھاتے تھے۔
کانیگرم وزیرستان میں ہماری آبائی مسجد کو ”درس” کہتے تھے۔ درس مسجدکو نہیں بلکہ جہاں تعلیم اورتدریس ہو ،اسے درس کہا جاسکتا ہے۔ کانیگرم کی مساجد میں رہائش پذیر طلبہ قرآن وسنت ، فقہ، عربی فارسی کتابیں اور مختلف علوم وفنون سیکھنے کیلئے مرکزی مسجد میں آتے ۔ علماء حکیم تھے۔ طلبہ کو گھروں سے صبح وشام وظائف کی طرح کھانا ملتا تھا ۔ علماء اپنے کاروبار اور حکیم ہونے کی وجہ سے زکوٰة لیتے نہیں تھے بلکہ غرباء کو دیتے تھے۔ طلبہ کو زکوٰة کی ضرورت نہ تھی۔ زکوٰة فقرائ، مساکین ،حادثات کا شکار ہونے والوں، گردنیں آزاد کرنے اور قرآن میں بیان کردہ آٹھ قسم کے افراد میں تقسیم ہوتی تھی۔ جن میں مولفة القلوب شامل تھے۔ لارڈ میکالے کاانگریزی تعلیمی نظام ہندوستان میں متعارف ہوا تو اس میں دینی تعلیم کا اہتمام نہ تھا۔ دنیاوی علوم کیلئے علی گڑھ نے کردار ادا کیا، مذہبی علوم کیلئے دارالعلوم دیوبند نے کردار ادا کیا۔ علی گڑھ کے بانی سرسیداحمد خان کی داڑھی علماء دیوبند سے زیادہ لمبی تھی۔ علی گڑھ نے چندہ اکٹھا کرنے میں بڑا کردار ادا کیا۔ دارالعلوم دیوبند کو لوگ خود چندہ دیتے تھے۔ عمران خان نے شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی کیلئے بڑے پیمانے پر چندہ کیا لیکن مولانا فضل الرحمن نے اپنے مدرسہ جامعہ الشریعہ کیلئے چندہ نہیں کیا۔
دیوبندیوں کے بعد بریلوی، اہلحدیث اور شیعہ کے بھی مدارس بن چکے ہیں اور مدارس نے بہت زبردست کاروبار اور انڈسٹری کی شکل اختیار کرلی ہے۔ دارالعلوم دیوبند طلبہ کو دنیاوی ہنربھی سکھاتا تھا تاکہ دین نہ بیچا جائے۔ کانیگرم ہماری مسجد کے امام مولانا اشرف فاضل دارالعلوم دیوبند درزی اور دکاندار تھے۔ کانیگرم کے دوسرے مولانا شادا جان کے بھائی عبدالرشید کی دکان تھی۔ البتہ کانیگرم کے مولوی محمد زمان اور اسکے بھائی قربانی کی کھالوں پر لڑے تھے۔
مولانا عبدالحق اکوڑہ خٹک نے مدرسہ سے پہلے انگریزی سکول کی بنیاد رکھ دی تاکہ لوگ دین کی بجائے دنیا کمانے کیلئے سکو ل کے ذریعے ہنر سیکھ لیں۔ ہمارے کانیگرم شہر میں دارالعلوم دیوبند کے فاضل پیر مبارک شاہ نے سکول کی بنیاد رکھ دی تھی۔ جن کی وجہ سے وزیرستان میں سکول کی تعلیم کا سلسلہ عام ہوگیا۔
ٹنڈواللہ یار سندھ میں مولانا ظفر احمد عثمانی کا مدرسہ تھا۔ مفتی شفیع نے نانک واڑہ کراچی میں دارالعلوم کراچی کی بنیاد رکھی ۔ مولانا محمد یوسف بنوری پہلے ٹنڈواللہ یار میں تھے۔ پھر نیوٹاؤن کی بنیاد رکھی تھی۔ مفتی ولی حسن ٹونکی اور مولانا بدیع الزمان وغیرہ پہلے دارالعلوم کراچی میں تھے، پھر نیوٹاؤن میں منتقل ہوگئے۔ دارالعلوم کراچی اور جامعہ العلوم اسلامیہ نیوٹاؤن کراچی کے درمیان دنیا داری اور تقویٰ داری کاواضح فرق تھا۔ دارالعلوم کراچی نے مذہب کو کاروباربنایا تھا اور بنوری ٹاؤن دین کی خدمت کا نام تھا۔ موازنہ پیش کرنے کی زبردست ضرورت ہے۔ دونوں جگہ زوال پر زوال آگیا تو اس کے بھی ہم بالکل چشم دید گواہ ہیں۔
پہلے مولانا اور مفتی میں فرق نہیں تھا۔ پھر مدارس نے فتوے کیلئے مفتی اور دارالافتاء رکھنے شروع کردئیے اور تخصص فی الافتاء کے کورس شروع کئے گئے۔ تو مولانا اور مفتی میں حدفاصل قائم ہوگئی۔ اس بدلتی ہوئی صورتحال کا نظارہ بھی کیا ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے پہلے شاگرد شیخ الہند مولانا محمود الحسن اور استاذ ملا محمود تھے۔ مولانا رشید احمد گنگوہی نے مفتی کا کام کیا اور مولانا قاسم نانوتوی نے مفتی کا کام نہیں کیا،جو شیخ الہند کے اساتذہ تھے۔ جنکے پیر حاجی امداد اللہ مہاجر مکی تھے۔ شیخ الہند کے نامور شاگرد مولانا عبیداللہ سندھی، مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا انورشاہ کشمیری، مولانا شبیراحمد عثمانی، مولانا خلیل احمد سہارنپوری، مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا محمد الیاس ، مولانا اعزاز علی اور دیگر حضرات تھے۔ مولانا حسین احمد مدنی جمعیت علماء ہندنے کانگریس اورعلامہ شبیراحمد عثمانی جمعیت علماء اسلام نے مسلم لیگ کی سیاست سنبھالی۔ درس و تدریس کی خدمت مولانا انورشاہ کشمیری ، تصوف وطریقت کی خدمت کو مولانا اشرف علی تھانوی نے اپنے سرلیا اور فتوے کی خدمت مفتی کفایت اللہ نے انجام دی۔ انقلاب کیلئے مولانا عبیداللہ سندھی نے کام کیا۔ تبلیغی جماعت کی بنیاد مولانا الیاس نے ڈال دی۔ مولانا رشید احمد گنگوہی کے شاگرد مولانا حسین علی نے توحید وسنت اور عقائد کے محاذ پر کام کیا ،انکے شاگرد مولانا غلام اللہ خان و مولانا طاہر پنج پیری تھے۔ مولانا غلام اللہ خان اور مولانا پنج پیری کی اشاعت التوحید دو ٹکڑوں میں بٹ گئی۔ مسئلہ توحیدوشرک پر علماء دیوبند ایک دوسرے کے مخالف بن گئے۔ صوابی میں پنج پیر اور شاہ منصور کا اختلاف بریلوی دیوبندی اختلاف سے زیادہ سخت ہے ۔ جامعہ بنوری ٹاؤن میں پنج پیری تقیہ کرتے تھے اور وہ ڈاکٹر مسعودالدین عثمانی کی طرح سمجھے جاتے تھے ،ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی کی کتاب ” توحیدِ خالص” کمال عثمانی کی جماعت ”حزب اللہ” سے مکمل مشابہت کے باوجود بھی پنج پیری ان کو عقائد میں شدت پسند سمجھتے ہیں۔ ڈاکٹر مسعودالدین عثمانی جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی و وفاق المدارس پاکستان کے فاضل تھے۔ اپنے استاذ علامہ یوسف بنوری سے اکابر کی کتابوں تک عبارات نقل کرکے ان پر شرک کے فتوے لگاتے تھے۔ پنج پیری وہی ہیں مگران میں جرأت وہمت نہیں ۔ مولانا طاہر پنج پیری جب کراچی ایک مرتبہ تشریف لائے تو ڈاکٹر مسعود عثمانی کی کتابوں کے حوالے سے کچھ سوالات کرنا چاہے مگر انکے چیلے رکاوٹ بن گئے۔ مجھ سے کہا کہ جامعہ بنوری ٹاؤن سے آپ کو نکلوادیں گے لیکن جب انکے تضادات بتائے تو شرمندہ ہوگئے۔ مولانا حسین علی کی تفسیر مولانا غلام اللہ خان نے لکھی جس میں مشاہدہ بیان کیا کہ ” رسول اللہ ۖ گر رہے تھے اور میں نے سہارا دیکر تھام لیا”۔ اگر یہی مشاہدہ اس کے برعکس ہوتا کہ ” مولاناحسین علی گررہے تھے اور رسول اللہ ۖ نے تھام لیا ” تو پھر اس کو شرک قرار دیتے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات قرآن میں ہیں، اگر مردوں کو زندہ کرنا اور برص ومادر زاد اندھوں کی بیماری کا علاج کرنا شرک نہیں بلکہ معجزہ ہے تو اولیاء کی کرامات کو شرک کہنا بھی اصول اور عقل کے خلاف ہے۔ یا تو سرسیداحمد خان، غلام احمد پرویز اور معتزلہ کی طرح قرآن کے اندر موجود تمام خرق عادت چیزوں کی بھی تأویل کرکے ان کو معجزہ ماننے سے انکار کیا جائے یا پھر قرآن کے معجزات کو بھی شرک قرار دیا جائے ۔یا پھر بزرگوں پر شرک کے فتوے لگاکر یا ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی کا راستہ لیا جائے۔ کچھ تو اصول مان لیا جائے؟۔ نہیں تو دوسروں پر طعن وتشنیع کرنے کے بجائے دُم دباکے بیٹھا ہی رہا جائے گا؟۔
قرآن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کی مثال سے بڑھ کر تصوف کی کتابوں میں بھی زیادہ کوئی بات نہیں کہ بچے کو قتل کر ڈالا اور آخر کار حضرت موسیٰ علیہ السلام صبر کے وعدے پر قائم نہیں رہ سکے اور فراق ہوگیا۔ علماء حق اور اہل تصوف میں فراق قرآن سے ثابت ہے اور اس پر برا منانے کی بھی ضرورت نہیں۔ جسد بشری اور روحانی سفر کا اختلاف مسلمانوں میں معراج پر بھی رہا۔ بعض اسے خواب قرار دیتے تھے اور بعض جسمانی سفر قرار دیتے تھے۔ حضرت سلیمان کے دور میں عفریت جن نے بلقیس کے تخت نشست کے دوران لانے کی بات کی تھی اور کتاب فطرت کے علم سے واقف شخص نے نظر ہٹانے کی دیر میں لانے کا دعویٰ سچ کرکے بتایا۔جنات کے ذریعے حضرت سلیما ن نے جو اشیاء بنائی تھیں اس کی آج کوئی افادیت نہیں ہے لیکن فطری علوم میں کمال حاصل کرنے والوں نے احرام مصر سے آج کے سائنسدانوں کو اوقات بتادئیے ہیں۔ آج دنیا میں جنات والے غائب ہوتے جارہے ہیں اور کتابِ فطرت کا علم رکھنے والوں نے قیامت سے پہلے دنیا میں قیامت ڈھادی ہے۔
تبلیغی جماعت اور دعوت اسلامی کے مخلص کارکنوں کو حلالہ کی لعنت کا شکار ہونے سے بچانے کیلئے ضروری ہے کہ قرآنی آیات اور احادیث صحیحہ کی بھرپور وضاحت کردیں۔ علماء اور مشائخ سے زیادہ چلتے پھرتے مدارس اور خانقاہیں بھی دیوبندیوں میں آج تبلیغی جماعت اور بریلویوں میں دعوت اسلامی ہیں۔ حلالہ کی لعنت کا شکار بھی زیادہ تر ان کے مخلص کارکن ہوتے ہیں۔ جب پہلا فتویٰ یہ پیش کیا جائے کہ اللہ نے صلح پر پابندی لگادی ہے تو پھر حلالہ کی لعنت بھی غنیمت ہے لیکن جب اللہ تعالیٰ نے بار بار واضح فرمایا ہے کہ صلح پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد اور عدت کی تکمیل کے کافی عرصہ بعد رجوع ہوسکتا ہے تو پھر حلالہ کی لعنت سے مخلص لوگوں کو دوچار کرنا بہت غلط ہے۔
شاہ ولی اللہ کو دیوبندی، بریلوی اور اہلحدیث مانتے ہیں۔ وہ ، انکے بیٹے اور پوتے مولانا اور مفتی نہیں کہلائے۔ شیخ الہند مولوی کہلائے لیکن شاگردوں میں دو دو شیخ الاسلام، شیخ العرب والعجم، حکیم الامت، مفتی اعظم ہندکے القابات اور سچے جھوٹے کرامات اور علمی کمالات کا سلسلہ شروع ہوا ۔ قرآن و سنت کی جگہ فقہ وتقلید میں گدھوں کی طرح جت گئے۔حلالہ کے گند میںبیکار فقیہ ملوث تھے۔ علماء حق نے کبھی اس کی طرف نظر التفات نہیں کیا۔ قرآن وسنت سے جب حلالہ کی لعنت کا خاتمہ ہوگا تو پھر دوسرے نقابوں سے بھی پردہ اُٹھ جائیگا۔ انشاء اللہ

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

گدھیڑی سیاسی، مذہبی قیادت اور صحافت ایک دن فوج کے سامنے دُم ہلاتی ہے اور پھر پیشاب کرکے وہ دُم کس کر اسکے منہ پر ماردیتی ہے!

گدھیڑی سیاسی، مذہبی قیادت اور صحافت ایک دن فوج کے سامنے دُم ہلاتی ہے اور پھر پیشاب کرکے وہ دُم کس کر اسکے منہ پر ماردیتی ہے!

جب عمران خان کے منہ سے بات نکلتی ہے تو میڈیا اس کو ایسی یلغار دکھاتا ہے کہ جیسے انتہائی باعزت پاکیزہ کنواری کو آنکھ ماری ہو بلکہ جبری جنسی زیادتی کرکے اسکی بکارت ختم کی ہو

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

عمران خان کی مقبولیت زرداری اور نوازشریف سے عوام کی مایوسی اور عربی کہاوت کل جدید لذیذ ” ہر نئی چیز لذیذ ہوتی ہے” اسٹیبلیشمنٹ نے نئی نویلی دلہن بناکر پیش کیا۔ تبدیلی نہ آئی اور نالائقی کا ریکارڈ توڑا گیا تو مایوسی پھیل گئی۔ عمران خان کھل کر کہتا تھا کہ ” میں اور باجوہ ایک پیج پر ہیں اور فوج کیلئے ڈھال کا کردار ادا کروں گا”۔ عمران خان نے کہا کہ حکومت سنھبالتے ہی فیصلہ کیا تھاکہ باجوہ کو ایکس ٹینشن دینی ہے۔ایوب، ضیاء ،مشرف اورکیانیX10ہوتے رہے اوریہX10”یاد ماضی عذاب ہے یارب، چھین لے مجھ سے حافظہ میرا” تھا۔ عمران خان نے رومانس کا اظہار کیا تو عدالت نے سیاسی قیادت کو امتحان میں ڈالا، عمران خان کی چوتڑ پر فوج کی مہر لگی تھی۔ نوازشریف اور زرداری نے آرمی چیف کیX10کا فیصلہ کیا تو فیصل واوڈا نے میز پر بوٹ رکھا کہ یہ چاٹو۔ سیاسی رہنما کو اپنی بے عزتی کا احساس ہوا تو واوڈا نے کہا کہ ” بے عزتی تو ہوئے گا”۔
پھرPDMکی گدھا گاڑی پر پیپلزپارٹی سمیت کئی پارٹیوں کے نام تھے۔ نوازشریف نے پہلے جلسے میں فوج کیخلاف ڈھینچو ڈھینچو کرنا شروع کیا تو زرداری نے کہا کہ ہماری یہ مجال نہیں، لاڈ پیار والا طبقہ جو بولے تو یہ آپس کی بات ہے۔ مریم نواز کا دروازہ توڑا گیا تو سندھ پولیس کے احتجاج سے آرمی کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ بلاول مریم کی دوستی گڑھی خدابخش تک جاپہنچی۔ قریب تھا کہ چوہدری پرویز الٰہی کووزیراعلیٰ اور شہبازشریف کو وزیراعظم بنادیا جاتا مگرمریم نوازکو یہ قبول نہ تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کے دونوں ایجنٹ پنجاب اور مرکز پر قبضہ کریں۔مولانا فضل الرحمن کو پرویزالٰہی اور زرداری کے پیچھے لگادیا ۔ پیپلزپارٹی اورANPکوPDMسے نکالا ۔ مولانا اور مریم نواز نے اسمبلی سے استعفیٰ دلانا تھا۔ زرداری اورANPپر اسٹیبلشمنٹ ایجنٹ کا الزام لگادیا۔ جیو ، جنگ اور سوشل میڈیا پر تماشہ لگادیا کہ اصل جنگ کٹھ پتلی عمران خان سے نہیں فوج سے آزادی لینی ہے۔ پھر زرداری نے کایا پلٹی کہ اصل کو چھوڑ دو، کٹھ پتلی سے جان چھڑاؤ۔ اقلیت کو جوڑ کر حکومت بنائی ، جعلی اپوزیشن لیڈر چن لیا ، جو بیانیہ فوج سے آزادی کا بنایا وہ ہتھیار عمران خان کے ہاتھ میں آیا۔ کل تک جو نکھٹو ایکدوسرے کو چور، غدار اور مودی کا یار کہتے تھے توآج مجموعہ اضداد مذاق بن گئے ۔ مہنگائی کا شور مگرساڑھے3سال میں اتنی مہنگائی نہ تھی جتنی گدھیڑوں نے4ماہ میں کردی۔ ایک آنکھ کام نہ کرے تو دجالی بیلنس خراب ہوگا۔حکومت و اپوزیشن کی دو آنکھوں سے بیلنس قائم ہوتا ہے۔ مشاورت میں مختلف رائے سامنے نہ ہوں تویہ مشورہ نہیں ہے۔ نزول وحی کے دور میں مشاورت کا عمل تھا اور وحی بند ہوئی تو مشورہ وحی کا نعم البدل ہے لیکن حکومت کوچلنے نہیں دیا جاتا اور اپوزیشن کو دیوار سے لگادیا جاتا ہے۔پہلی مرتبہ جنرل باجوہ کی قیادت میں فوج نے فیصلہ کیا کہ سیاسی مداخلت نہیں کرنی لیکن اب کمبل ان کو نہیں چھوڑ رہاہے۔کسی نے دریا میں ریچھ کو کمبل سمجھ کر پکڑنا چاہا تھا تو ریچھ نے اس کو پکڑلیا ۔یہاں تو75سال گزرنے کے بعدفیصلہ کیا گیاہے۔ اگر پاک فوج نے بہت زیادہ حکمت عملی سے کام نہ لیا تو مشرقی پاکستان سے بھی زیادہ برا حشر ہوگا اسلئے کہ اندر باہر سبھی کواپنا دشمن بنایاہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کو جنرل ایوب نے جنم دیا، جب سقوطِ ڈھاکہ کے بعد بھٹو کو بقیہ پاکستان کا اقتدار مل گیا تو آئین بنا لیکن آئین پر عمل نہ ہوا۔ بلوچستان کی جمہوری حکومت کاخاتمہ کرکے گورنر راج لگایا۔سردار عطاء اللہ مینگل کے19سالہ بیٹے اور اسکے دوست کو اغواء کرکے قتل کیا۔ اپوزیشن جماعتوں کے قائدین پر بغاوت کے مقدمات قائم کرکے پھانسی گھاٹ میں رکھا۔ لاڑکانہ میں بھٹو نے جماعت اسلامی کے رہنما کو الیکشن کے کاغذات جمع کرانے پر اغواء کیا تھا۔ پھر جنرل ضیاء نے جماعت اسلامی کو کڑک مرغی کے انڈوں کی طرح رکھا لیکن نواز شریف کو جنم دیا۔ جنرل ضیاء الحق ساتھیوں سمیت حادثے کا شکار ہوا توMRDکی مدد سے بینظیر بھٹو اقتدار میں آئی لیکن بینظیر بھٹو نے صدارت کیلئے نوابزادہ نصراللہ خان کی جگہ جنرل ضیاء الحق کے جانشین غلام اسحاق خان کو صدر بنوایا۔ پھر جب اس کی حکومت ختم کی گئی تواسلامی جمہوری اتحاد کے نام سے نوازشریف کو اقتدار میں لایا گیا۔پھراس کو کرپشن کی بنیاد پر اقتدار سے باہر کیا گیا۔ بینظیر اقتدار میں آئی تو پھر اسکے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کو ساتھیوں سمیت موت کے گھاٹ اتارا گیا اور حکومت بھی ختم کی گئی۔ پیپلزپارٹی کا جیالا صدر فاروق لغاری بھی ن لیگ سے مل گیا۔ پھر انتہائی بے شرمی اور بے غیرتی کیساتھ نہ صرف نوازشریف اقتدار میں آیا بلکہ اپوزیشن کی زیادہ ترسیاسی قیادت پارلیمنٹ سے باہر کی گئی۔
پرویزمشرف نے نوازشریف کاتختہ الٹا تو سپریم کورٹ نے اس کو تین سال تک قانون سازی کی اجازت دیدی۔ جب متحدہ مجلس عمل نے صوبہ سرحد میں سرکاری زبان اردو کو نافذکردیا تو سپریم کورٹ رکاوٹ بن گئی۔ صحافی عمران ریاض نے عید قربان کی وجہ سے چند دن کی داڑھی رکھی تو جج نے کہا کہ ” آپ کیساتھ داڑھی اچھی نہیں لگتی ”۔ عمران ریاض نے الزام لگایا تھا کہ مطیع اللہ جان کو فوجیوں نے ریپ کیا اور پھر عمران خان نے الزام لگایا کہ ” شہزاد گل سے جنسی زیادتی ہوئی ”۔ حامد میر کی طرف سے جنرل رانی کے طعنہ سے لیکر نواز شریف کی طرف سے تمام خرابیوں کے ذمہ دار ہونے تک کیا کیا الزامات فوج پر کس نے نہیں لگائے ہیں لیکن سورج مکھی کے پھول شعاعوں سے ڈر گئے۔
اس سے پہلے کہ ضابطہ اخلاق کی تمام رسیاں ٹوٹ جائیں تو یہ دیکھنا پڑے گا کہ مخرب الاخلاق الزامات کہاں سے شروع ہوتے ہیں اور یہ کون لگاتا ہے؟۔ جب نوازشریف فوج کے کیمپ میں خرکار تھا تو بھٹو کے باپ پر انگریزوں کے کتے نہلانے کا الزام لگاتا تھا۔ زیادہ دور کی بات نہیں ، جب پنجاب میں زرداری کی مدد سے شہبازشریف پنجاب میں اقتدار میں آیا تب بھی لغت میں ایسی گالی نہیں تھی جس کی پریکٹس جلسوں میں شہبازشریف نے نہ کی ہو۔ پاک فوج زندہ باد کے نام سے چینل دوسروں کی خواتین پر بہتان سے دریغ نہیں کرتے۔ARYاور بول نیوز کے صحافی دم ہلا کر فوج کو سلام کرتے تھے ۔ پھر اپنی دم پیشاب میں ڈبولی تو فوج کے منہ پر مارنا شروع کردی۔ نوازشریف اور عمران خان کو بھی جس لاڈ سے پالا تھا اسی لاڈ سے پیشاب میں دُم بھگو کر فوج کے منہ پر ماری۔
نوازشریف کی زرخرید میڈیا جیو، جنگ گروپ اور سوشل میڈیا کے صحافیوں نے یکطرفہ طور پر عمران خان کا چہرہ بھیانک دکھانا شروع کیا جس کی وجہ سے فوج کے ترجمان نے ناراضگی کا اظہار کیا۔ جب نوازشریف اور دوسرے رہنماؤں کے کلپ دکھائے تو پھر عمران خان کے الفاظ کچھ بھی دکھائی نہیں دیتے ۔ جنرل ضیاء کو ذوالفقار علی بھٹو نے عاجز اور کمزور سمجھ کر منتخب کیا تھا لیکن فوج کی طاقت نے اس کو مضبوط کردیا ۔ جب آئینی شق نہ تھی تب بھی آرمی چیف اپنی مدت میں خود توسیع کرتا تھا،جو جرنیلوں کی صلاحیت پر عدم اعتماد کا اظہاریا مفادپرستی تھی؟۔ پارلیمنٹ نے صدر اور وزیراعظم کی توسیع کیلئے قانون نہ بنایا تو آرمی چیف کیلئے بھی نہیں بنانا چاہیے تھا جہاں ایک کی جگہ پانچ پانچ چھ چھ اہلیت رکھتے ہیں۔ جنرل فیض حمید کی وجہ سے عمران خان اور ن لیگ نے یہ عہدہ بے شرمی کیساتھ متنازع بنادیا۔ فوجی جرنیل نیچ لوگوںکو مفاد کیلئے قوم کی تقدیر کا مالک بنائیں گے تویہی ہوگا۔احسان فراموشی اور احسان کے بدلے برائی کمینہ پن ہے جس کو کم نسل کامیاب سیاست سمجھتے ہیں جو ایکدوسرے کیساتھ بھی جاری رکھتے ہیں۔
پرویزمشرف نے قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی ،افغانستان کے سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کو ننگا کرکے امریکہ کے حوالے کردیا۔ عدالت نے سزا سنائی تھی توISPRنے فیصلے پر افواج پاکستان کو ایک فیملی قرار دیتے ہوئے غم وغصے کا اظہار کیا۔ کیا ریاست یہ ہوتی ہے کہ فوج اور عدالت جو کرے ٹھیک ہے، سب کچھ برداشت کیا جائے؟۔ ایسی ریاست پر آسمان و زمین والے دونوں صبح وشام لعنت بھیجتے ہیں جو عوام کو اپنا مالک سمجھنے کے بجائے اپنا غلام سمجھے۔ ریاستی کسٹڈی میں ریپ برداشت ؟۔ اپنے خلاف گیدڑ بھبکی پر معذرت قبول نہ ہو؟۔ ریٹارئرڈ غیرسیاسی جج اقبال کی بہو کا دروازہ رات کی تاریکی میں توڑ کر ہراساں ہو تو ٹھیک اور مجرم فیملی کی فرد مریم نواز کے ہوٹل کا دروازہ توڑنے پر سندھ پولیس فوج کو جھکنے پر مجبور کرے؟۔ عمران خان مرغا بنتا تو بھی اس سے زیادہ معذرت نہ ہوتی جو اس نے عدالت میںرویہ اختیار کیا۔ اچھا تھا کہ غیرمشروط معافی مانگ لیتا۔ علی وزیر کو رہائی بہت مبارک ہو۔ اسکے وکیل نے پشتو کی تقریر کا غیرپشتون کی مدد سے غلط ترجمہ کرنے کی بات کرکے بہت اچھا پینترا بدل دیا ہے لیکن ایسی بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ جس پر بندہ کھڑا رہنے کی سکت نہ رکھتا ہو۔
افغانستان میںامریکہ جیسا حشر کرنے کی دھمکی پر دُم دبائی جائے۔ تگڑے آرمی چیف کی بات پر ناراضگی ظاہر کی جائے؟۔ جوISIاور آرمی چیف کا نام لیکر تمام خرابیوں کی جڑ کہے تو ٹھیک ؟۔ عمران خان نے کہا کہ نیب کا مجرموں کو پکڑنے اور چھوڑنے کا سلسلہ تھا تو مجھے پتہ نہ تھا کہ یہ مال بنانے کا ذریعہ ہے ۔ مولانا فضل الرحمن نے نیب سوالنامے پر آرمی چیف جنرل قمر باجوہ پر شدید الزامات لگاکر دیگر جرنیلوں اور عمران خان کے کیسوں کا جواب مانگا اور کہا کہ نیشنل احتساب بیورو کی جگہ سیاسی یا اپوزیشن احتساب بیورو نام رکھاجائے۔
لمبی فہرست ہے جس میں تضادات، نالائقی، مفاد پرستی اور انتہائی گھناؤنے صفات ، کرتوت اور نظام کی ناکامی کو سامنے لایا جاسکتا ہے۔ میڈیا کا سب سے زیادہ گھناؤناکردار ہے جو ابلیس بن کر تماشۂ حیات اچھے اچھوں کی نظروں سے چھپا دیتا ہے۔ لائق اور نالائق صحافیوں کی اکثریت جس طرح کی گھناؤنی حرکتیں کررہی ہے لگتا ہے کہ قیامت سے پہلے قیامت آجائے گی لیکن کچھ اچھے صحافی بھی ہیں جن کی زبان میں معیاری صحافت ہے دلالی کا ڈھول نہیں بج رہاہے۔
پاکستان میں سندھی، پختون، بلوچ، پنجابی، سرائیکی، کشمیری، گلگت و بلتی، کوہستانی،ہزارہ اورمہاجر کے علاوہ ایک ایک قوم میں بھی انواع واقسام کے قبائل ہیں۔ جیسے افغانستان میں پختون، ہزارہ، تاجک اور ازبک ہیں ۔ حال ہی میں جب پاکستانی نے افغانی کرکٹ ٹیم کو ہرایا تو کوئٹہ کے پختون افغانیوں پر ہوٹنگ کررہے تھے جس پر ہمارے کوئٹہ کے ساتھی عبدالعزیز نے ان کو روکا تھا۔ المیہ یہ ہے کہ گھر، محلہ ، علاقہ ، ضلع ، صوبہ اور ملک ٹھیک نہیں کرتے، بین الاقوامی حالات پر لگے رہتے ہیں۔ جب ہمارا معاملہ درست ہوگا توبین الاقوامی اور خطے کے حالات بھی ٹھیک ہونگے۔ اسلام نے عورت کے حقوق سے انسانیت کے تمام حالات ایسے درست کرنے کی بنیاد ڈالی ہے کہ ابلیس بھی اسی سے ڈرتا ہے۔ علامہ اقبال نے ابلیس کی مجلس شوریٰ میں سب مشیروں کے بعد ابلیس کا لکھ دیا:
ہر نفس ڈرتا ہوں اس امت کی بیداری سے میں
پادشاہوں کی نہیں، اللہ کی ہے یہ زمیں
ہو نہ جائے آشکارا شرعِ پیغمبر کہیں
حافظِ ناموسِ زن مرد آزما مرد آفریں
پاکستان دنیا میں واحد ایسا ملک ہے کہ جہاں عورت کیساتھ بہت زیادہ بڑی زیادتیاں ہوتی ہیں۔ ان کے حقوق پامال ہیں۔ عدالتوں سے انصاف نہیں ملتا۔ معاشرے میں انکو حقوق میسر نہیں۔ علماء ومفتیان نے انکے حقوق پر ڈاکہ ڈالا ہے۔چوکیدار ، بدمعاش ، بااثرطبقات سبھی کی طرف سے ان پر مظالم ہوتے ہیں اور سکول، کالج، بسوں، راستوں، سڑکوں، بازاروں، گلی کوچوں، گاؤں دیہات اور شہروں میں ، دفاتر میں اور گھروں میں ان کے ساتھ ہرقسم کے مظالم ہیں لیکن پاکستانی قوم پھر بھی عورت کے معاملے میں بہت حساس ہے۔ سندھی، پنجابی اور پشتون ،بلوچ کے علاوہ ہندوستان سے آئے ہوئے مہاجروں کے کلچر میں بھی یہ بڑا حساس معاملہ ہے اور عورت کی ناموس پر لوگ جان تک قربان کرتے ہیں۔
بہت لوگوں کو یہ شکایت ہے کہ طلاق اور حلالہ کے علاوہ کوئی دوسرا موضوع نہیں ملتا؟۔ یہ دیکھ دیکھ آنکھیں جام ہوگئی ہیں اور سن سن کر کان پک گئے ہیں اور ان کی اس بات میں بڑا وزن بھی ہے لیکن جن خواتین، خاندانوں اور علماء حق کو اس حساس معاملے کا سامنا ہوتا ہے اور پھر وہ بیباک ہوکر اس لعنت سے چھوٹ جاتے ہیں تو عزت بچانا ان کی زندگی کا سب سے بڑا سرمایہ ہوتا ہے۔ قرآن کی آیات سے اور احادیث صحیحہ سے اور فقہ حنفی کے دلائل سے جس طرح آج لوگوں کی عزتیں لُٹنے سے بچ رہی ہیں وہ بہت بڑا سرمایہ اسلئے ہیں کہ بنام اسلام جن کی عزتیں نیلام ہورہی تھیں،آج بنام اسلام ان کی عزتوں کو تحفظ مل رہاہے۔ اگر دنیا میں ہمارے چند ساتھی کوئی دوسرا کام نہ بھی کرسکیں تو یہ بھی بہت ہے۔
حنفی مسلک کی بنیاد کو پہلے سمجھنے کی کوشش کرنی ہوگی۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی ابن مفتی اعظم پاکستان مفتی محمدشفیع نے کہاتھا کہ ” حنفی مسلک میں85فیصد مسائل امام ابوحنیفہ کے خلاف اور15فیصد انکے مطابق ہیں”۔ یہ بھی علماء کرام ، مفتیان عظام اور عوام قابل احترام کی اکثریت کو پتہ نہیں کہ امام مالک اورامام شافعیکی طرح احناف کے نزدیک امام ابوحنیفہ کے شاگرد بھی اپنی اپنی جگہ مستقل امام کا درجہ رکھتے ہیں۔ اصول میں اختلاف کی وجہ سے اصحابِ تخریج ایک دوسرے سے متضاد مسائل نکالتے ہیں۔ فقہاء کے7طبقے ہیں۔حنفی فقہاء کا ایک طبقہ اصحاب تخریج ہے جن کا کام اماموں کے اصولوں سے مسائل نکالنا ہے۔ مثلاً ”نورالانوار” میں حرف” ف” تعقیب بلامہلت کے عنوان سے لکھاہے کہ ” اگر ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دی جائے توجملے میں فاء کے حرف کے استعمال سے کس امام کے نزدیک کون کونسی طلاق واقع ہوگی؟۔ اور پھر اصولوں کے اعتبار سے مختلف مسالک لکھے ہیں۔ امام ابوحنیفہ وامام ابویوسف کے اپنے اپنے اصولوں کے مطابق کیا مسائل بن جائیںگے؟۔ کسی کے نزدیک پہلی اور تیسری طلاق واقع ہوگی اور دوسری طلاق واقع نہیں ہوگی اور کسی کے نزدیک دوسری ہوگی پہلی اور تیسری طلاق واقع نہیں ہوگی اور عجیب و غریب قسم کے لایعنی بکواسات ہیں جو پڑھائے جارہے ہیں ۔ ایک ہی کتاب بیس بیس سالوں تک پڑھانے کے باوجود اساتذہ کو خود بھی سمجھ میں بات نہیں آتی ہے کہ کیا پڑھ اور پڑھارہے ہیں؟۔مولانا ابوالکلام آزاد نے لکھا ہے کہ” اگر کسی عقل والے کی نظر ان پر پڑگئی تو اصول فقہ کی کتابیں دھری کی دھری رہ جائیں گی اور سب کم عقلی اور بے اصولی کے راز فاش ہوجائیں گے”۔
سمجھانا یہ مقصود ہے کہ ” جو15فیصد فقہ حنفی کے مسائل امام ابوحنیفہ کی طرف منسوب ہیں وہ بھی دوسروں نے نکال کر ان کی طرف منسوب کئے ہیں”۔ علامہ غلام رسول سعیدی بریلوی مکتب اور فقہ حنفی کی معتبر شخصیت تھے ۔ کئی بڑی جلدوں پر مشتمل شرح صحیح مسلم اور شرح صحیح بخاری لکھی اور کئی جلدوں میں قرآن کی تفسیر ”تبیان القرآن” بھی لکھ دی ۔جب وہ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع پر تنقید کرتے ہیں تو لگتا ہے کہ مفتی محمد شفیع فقہ حنفی سے بالکل نابلد تھے۔ لیکن علامہ غلام رسول سعیدی لکھتے ہیں کہ ” اگر سورۂ بقرہ کی آیت230میں ف تعقیب بلامہلت کی بات نہ ہوتی تو پھر شریعت میں اکٹھی تین طلاق کا جواز نہ ہوتا”۔ حالانکہ اصولِ فقہ کی کتابوں میں دومرتبہ طلاق سے اس طلاق کو جدا کرکے فدیہ سے تعقیب بلامہلت کی وجہ سے جوڑ ا ہے۔ حدیث، تفسیر اور فقہ کے مسائل کا بیڑہ غرق کیا گیا ۔ اتنے متضاد مسائل ومعاملات بنائے گئے کہ تفسیر، حدیث اور فقہ کی شرح بھی آپس میں کوئی جوڑ نہیں رکھتے ۔ علماء کے فکری انتشار کی وجہ سے ڈاکٹر اسرار احمدMBBS، جاوید احمد غامدی، سابق کلین شیو صحافی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اور انجینئر محمد علی مرزا جاہلوں پر راج کررہے ہیں۔
علماء کی ٹیم تشکیل دی جائے جس میں حنفی دیوبندی بریلوی علماء شامل ہوں، میری خدمات حاضر ہیں۔ کچھ عرصہ میں جامع نصاب سے انقلاب لایا جاسکتا ہے۔ میں نے اطلاع دیکر محمد علی مرزا علمی کتابی کی مجلس میں شرکت کی تھی۔اس نے ساتھ تصویر کھینچوانے کیلئے آواز لگائی جس کی میں نے ضرورت نہ سمجھی ، شاید اس وجہ سے اس کی آنکھوں میں ذرا بھینگا پن آیا۔ میرے سوال کا جواب نہ دیا اور سوالات نہیں کرنے دئیے۔ مجھے ان سے مسئلہ نہیں، جس طرح بھی عوام میں دین کا شعور بڑھ جائے تو میں اس رحجان کے حق میں ہوں لیکن دین کو اجنبیت سے نکالنا ہوگا۔ جب علماء واضح نقشہ پیش کریںتو معاشرے میں اس پر عمل کی رغبت پیدا ہوگی اور پھراسکا راستہ دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکے گی۔ جب گھروں اور معاشرے میں دین کا معاملہ مضبوط ہوگا تو اقتدار کی دہلیز تک پہنچنے میں بھی دیر نہیں لگے گی۔پھر منبر ومحراب کا بھی عوام میں بہت مؤثر کردار ہوگا۔
ایک طرف شیعہ صحابہ کرام کی ایسی گھناؤنی تصویر پیش کرتے ہیں کہ علی ، حسن ،امام حسین اور زین العابدین کے کردار پر بھی سوالات اُٹھ جاتے ہیں اور دوسری طرف اہل بیت کی مخالفت پر کمربستہ ایسے لوگ ہیں کہ عربی سوشل میڈیا پر ایک ویلاگ دیکھا جس میں علیکو ایک فرضی اور افسانوی کردار قراردیا گیا ہے۔
قرآن میں اللہ اور اسکے رسول ۖ کی اطاعت کا حکم ہے۔ اولی الامر سے اختلاف کی گنجائش ہے۔ رسول اللہ ۖ اولی الامر تھے تو بھی خواتین سے لیکر بڑے صحابہ ، ذوالخویصرہ سے لیکر رئیس المنافقین عبداللہ ابن ابی اور نبوت کے دعویدار دجال ابن صاید تک سب کیلئے نبیۖ سے اختلاف کا دروازہ کھلا تھا۔ پاکستان کی دھرتی میں ریاست مدینہ کی یاد تازہ ہوسکتی ہے اسلئے کہ پاکستان میں اگرچہ جمہوریت نہیں لیکن جمہوری روح عوام وخواص ، سرکاری سطح پر اور مذہبی حوالوں سے یہاں موجود ہے۔جس کا ہم نے بالکل فائدہ نہیں اٹھایا ۔ کسی بھی مذہبی وسیاسی جماعت کے پاس اپنا پیش کرنے کیلئے کچھ نہیں لیکن دوسروں کی مخالفت پر کمربستہ رہنے کی کوشش میں اپنی زندگی کا مقصدسمجھتے ہیں۔ شیعہ ایک حسین کو چھوڑ کر باقی ائمہ اہل بیت کو ایسا پیش کرتے ہیں کہ موجودہ دور کے لوگ ان ائمہ سے کہیں بہتر ہیں؟۔ معذور ومجبور اور انتہائی بے بس، مظلومیت کی تصویر اور بالکل ہی معاشرے میں بے توقیر؟۔ حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے لیکن شیعان علی نے اپنی صلاحیتین ائمہ اہل بیت کی رفعت وعظمت کی جگہ صحابہ کرام کی مخالفت اور دشمنی پر مرکوز کردی ہیں اور دشمنی بھی ایسی کہ خود ائمہ اہل بیت کے فضائل ومناقب پر بھی ایمان نہیں رہتا ۔ پروفیسر احمد رفیق اختر کی ایک ویڈیو سن کر بڑا مزہ آیا۔ امام حسن نے اپنی وفات سے قبل وصیت کی کہ اگر اماں عائشہ اجازت دیں تو مجھے روضہ رسول میں دفن کردیں اور اگر کوئی رکاوٹ کھڑی کرے تو جھگڑا نہ کریں ،جنت البقیع میں دفن کردیں۔ حضرت عائشہ نے اجازت دی اور جب مروان بن حکم نے رکاوٹ ڈالی تو جھگڑا نہ ہونے دیا۔ یہ وفات سے پہلے بصیرت کا فیصلہ تھا۔ مروان بن حکم کو پتہ تھا کہ اگر امام حسن کی تدفین روضہ رسول میں ہوئی تو بنوامیہ کے مقابلے میں اہلبیت مضبوط ہونگے۔ پروفیسر احمد رفیق اخترصاحب اپنے اعتدال کی وجہ سے بڑارتبہ اور مقام رکھتے ہیں۔
اصحاب شرع و طریقت زیغ وضلالت سے ہٹ کر کردار ادا کریں۔ صوفی یہ نہیں کہ سرمایہ دار مریدمل گئے تو مسلک کی وکالت شروع کی، یہ ایمان نہیں پیسہ بولتا ہے۔ اگر تمام قومیتوں و مسالک کو شعور و کردار کا درس ملا تو شعور کے نور سے ظلمت کا اندھیرا ختم ہوگا۔زمین کا اصل سورج اور آدمی کا اصل نور ہے اور سب سے پہلے اللہ نے نبیۖ کانور پیدا کیا۔سورۂ تین میں ہے کہ احسن تقویم سے انسان کی تخلیق ہوئی پھراسفل السافلین کی مٹی ہوا مگرایمان وعمل صالح والے!۔
انسان ماں باپ کے سفلی جذبات اور نطفۂ امشاج سے پیدا ہواہے تو اپنی شخصیت کیلئے ایمان اور عمل صالح کے علاوہ علوالمرتبت کا کوئی راستہ نہیں دیکھتا ۔ نجات اسی میںہے۔ تواضع کیلئے اپنی تخلیق کی یاد دہانی بہت زیادہ کافی ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

کیا ملکہ برطانیہ سلطان ظل اللہ فی الارض تھی؟ مولانا بانگِ سحر ہے یا پھر مُرغ کی دُم؟

کیا ملکہ برطانیہ سلطان ظل اللہ فی الارض تھی؟ مولانا بانگِ سحر ہے یا پھر مُرغ کی دُم؟

22جنوری1901ملکہ برطانیہ الیگزینڈریا وکٹوریہ کی وفات پر حکیم اُالامت حضرت علامہ سر محمد اقبال کی مرثیہ خوانی
اے ہند تیرے سر سے اٹھا سایہ خدا
اِک غمگسار تیرے مکینوں کی تھی گئی
ہلتا ہے جس سے عرش یہ رونا اُسی کا ہے
زینت تھی جس سے تجھ کو جنازہ اُسی کا ہے
صورت وہی ہے نام میں رکھا ہوا ہے کیا؟
دیتے ہیں نام ماہِ محرم کا ہم تجھے
میت اٹھی ہے شاہ کی تعظیم کیلئے
اقبال اُڑ کے خاک سرِ رہگزار ہو

اقبال نے کہا: ” دیوبند سے حسین احمد کہتا ہے کہ قوم مذہب نہیں وطن سے ہے۔ یہ کیا بولہبی ہے؟”۔اور ملکہ برطانیہ کوسایۂ خدا کہا ۔ اللہ نے فرمایا کہ ”یہود ونصاریٰ کو اپنا ولی نہ بناؤ”۔ ولی سے ولایت و اختیارمراد ہے۔ ولی سے دوست مراد نہیں کیونکہ اہل کتاب کی خواتین کو بیوی بناسکتے ہیں۔بیٹی کا باپ اسکا دوست نہیں ولی ہے۔جس کی اجازت کے بغیر نکاح باطل ہے۔ مدارس کے طلباء اپنے اساتذہ کو مولانا کہتے ہیں۔ نبیۖ نے فرمایا” میں جسکا مولیٰ علی اسکا مولیٰ ہے”۔ کورٹ میرج اور باپ کی اجازت سے نکاح میں فرق ہے اوراغواء کا معاملہ جدا ہے۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا:جس نے زبردستی اقتدار پر قبضہ کرلیا اس پراللہ ، جبریل اور فرشتوں کی لعنتیںہوں۔

مولانا بانگِ سحر ہے یا پھر مُرغ کی دُم؟
نبی ۖ نے فرمایا : السلطان ظل اللہ فی الارض من اھان سلطان اللہ فقد اھان اللہ ”بادشاہ زمین میں اللہ کا سایہ ہے ،جس نے اللہ کے بادشاہ کی توہین کی، اس نے اللہ کی توہین کی”۔ مغل کے بادشاہ سبھی ظلِ الٰہی تھے۔ انگریز کا قبضہ، سلطلنت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا تو جمعہ کی نماز کیلئے ایک شرط خلیفہ یا اسکے نائب کی موجود گی تھی۔ پھر حیلہ نکالا کہ خلیفہ کے بغیر جمعہ پڑھا جائے۔ احتیاط سے ظہر کے فرائض کی جگہ چار سنتیں پڑھی جائیں تاکہ اگر جمعہ نہ ہو تو متبادل چار رکعت ہوں۔ملکہ برطانیہ کو خدا کا سایہ قرار دینے کی جگہ خلیفہ مقرر کرتے۔
شاہ و لی اللہ نے ” فک النظام ” کا نعرہ لگایا تو انگریز کا اقتدار نہ تھا بلکہ قرآن وسنت سے ہٹ کر باطل فقہی مسائل تھے۔ تقلید نہیں شاہ ولی اللہ کے فک النظام پر علماء دیوبند عمل کرتے تو اسلامی نظام نافذ ہوتا۔ مولانا کے معنی ”ہمارا مولا” ہے۔ شیخ الہند مالٹا کی جیل میں تھے۔ شاگرد نے لکھا کہ ”شیخ الہندنے کہاکہ امت کی اصلاح نہ ہوگی، خراسان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ مہدی آئیگا جو اپنی روحانی قوت سے دنیا کے حالات کو بدل دیگا”۔ (امداد المشتاق:مولانا اشرف علی تھانوی ) مولانا عبیداللہ سندھی نے لکھا کہ ” یہ اپنے استاذ شیخ الہند کی بات نہیں مانتے کہ لایعنی مسائل چھوڑ کر قرآن کی طرف رجوع کریںجب مہدی آئیگا تو یہ مخالفین کی صف میں ہونگے”۔سب علماء ”مولانا ” ہیں۔ مولانا طارق جمیل نے حدیث کے مطابق علی کو ” مولا” کہا تو ہم مسلک علماء نے فتوے لگادئیے۔ غائب شوہر کیلئے حنفی مسلک میں80سال کا انتظار عورت کی بغاوت سے مالکی مسلک4سال میں بدل دیا اور شیعہ نے ہزار سال سے زیادہ امام کا انتظار کیا نہ آئے تو خمینی کو امام بنادیا۔ غور کریں کہ ملکہ الزبتھ دوم کئی ممالک کی بادشاہ اور ان کیلئے سایہ خدا تھی تو مسلمان امام کا تقرر کریں۔ نبیۖ نے امیرمعاویہ کیلئے ہادی ومہدی کی دعا کی مگر خلافت راشدہ میں شمار نہ ہوا۔ عمر بن عبدالعزیز پر مہدی و خلافت راشدہ کا اطلاق تھا۔ خلفاء راشدین مہدی تھے۔انصار ومہاجرین کا اختلاف تھا اور زیادہ شدت کا اختلاف شیعہ سنی اور سنیوں میں آپس کا ہے۔ بقول علامہ اقبال
ہے وہی تیرے زمانے کا امام برحق جو تجھے حاضر وموجود سے بیزار کرے
خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا تو مولانا احمد رضا خان بریلوی نے فتویٰ دیا کہ امام کا قریشی ہونا ضروری ہے۔ خلافت عثمانیہ شرعی خلافت نہیں تھی۔ جب انصار نے اپنا خلیفہ نامزد کرنا چاہا تو حضرت ابوبکر و عمر نے کہا کہ نبی ۖ نے فرمایا کہ خلیفہ قریش میں سے ہوگا۔ جب سے اہل سنت کا اجماع تھا کہ غیر قریشی خلیفہ نہیں بن سکتا۔ اگر کوئی بنے تو وہ قانونی ہوگا شرعی نہ ہوگا۔ ملا عمر امیر المؤمنین بنے تو اُستاذ مولانا فضل محمد جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی نے لکھا کہ ”مُلا عمر ہوتک قبیلے سے ہے لیکن ہوسکتا ہے کہ قریشی ہو اور جنکے پاس شجرہ ہے ہوسکتا ہے وہ قریشی نہ ہوں”۔ مُرغ آذان سحر دیتا ہے اسلئے اسکو برا کہنا منع ہے۔مُلا مرغ کی دُم بنتا ہے جو ہوا کے رُخ کیساتھ پھرتا ہے تو اس کی اوقات نہیں ہوتی۔اگر خلیفہ نامزد کیا جائے مگر اس کے پاس قوت نافذہ نہ ہو تو وہ شرعی ہوگا مگر قانونی نہیں۔ حضرت علی کے بعد امام حسن نے اسلئے دستبرداری اختیار کی تھی۔ اگر کوئی قریشی خلیفہ زبردستی سے اپنا تسلط جمالے تو بھی اسکا اقتدار نہ صرف غیر شرعی بلکہ ناجائز بھی ہوگا۔ اسلئے خلفاء قریش کے دور میں بغاوتیں ہوتی رہیں۔ اگر غیر قریشی امیر المؤمنین کو دنیا کیلئے نامزد کیا جائے اور لوگ اس کو برضاو رغبت قبول کرلیں تو اس کی امامت شرعی اور قانونی ہے۔ مسلمان ممالک کو قبضے کے بجائے طرز عمل کو درست کرنا ہوگا۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

محمود خان اچکزئی کے جرگہ سے صحافی رضیہ محسود کا لیڈران کو بہت جھنجھوڑنے والا خطاب

محمود خان اچکزئی کے جرگہ سے صحافی رضیہ محسود کا لیڈران کو بہت جھنجھوڑنے والا خطاب

اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم۔
سب سے پہلے ہمارے بڑے محمود خان اچکزئی ،یہاں بیٹھے دوسرے بڑے ، ہمارے بھائی اور ہماری بہنیں جو بیٹھی ہیں۔ سب کو السلام علیکم کہتی ہوں۔ میں آج اپنے بڑوں اور بھائیوں کے سامنے کھڑی ہوں تو مجھے بہت فخر محسوس ہورہا ہے۔ بہت خوش ہوں کہ ہمارے پختون بھائی سب جرگہ میں شامل ہیں اور اپنی رائے پیش کررہے ہیں۔ اپنے بڑوں اور بھائیوں کی تقاریر سن رہی تھی تو میں معذرت کیساتھ ہم ان لوگوں کو زیادہ پسند کرتے ہیں جو اچھی تقریر کرسکتا ہو، بلند آواز کیساتھ جذباتی باتیں کرسکتا ہو ، اس طرح کہ اسٹیج ہلے۔ ہم اس کو بہت زیادہ داد دیتے ہیں۔ ابھی تک جو ہم برباد ہوئے اور پسماندہ رہ گئے،ان تقاریر اور جذباتی باتوں سے ہم برباد ہوئے ۔ اگر چھوٹے بچے کو یہاں کھڑا کردو تو وہ بڑی اچھی اچھی باتیں کرلے گا مشکلات کو بھی بہت اچھے اندار میں بیان کریگا۔ ہماری مشکلات کا دنیا اور ہر ایک کو پتہ ہے لیکن عملی اقدامات نہیں۔ ہمارے جو بڑے اور بھائی بیٹھے ہیں اگر ان میں آدھے بھی گراؤنڈ پر صحیح کام کرلیں تو بہت زیادہ تبدیلی آئے گی۔ یہاں ہمارے علماء بیٹھے ہونگے آج میں ان سے اپیل کرتی ہوں کہ قبائلی علاقے کے لوگ دنیاوی تعلیم زیادہ پسند نہیں کرتے وہ دینی تعلیم پسند کرتے ہیں۔ ہمارے بچے زیادہ تر دینی مدارس میں ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہاں ہم یہ بات کرتے ہیں کہ ہم امریکہ کو فتح کرینگے بڑی باتیں کرینگے مگر ہماری بہنیں جدید تعلیم سے بھی محروم ہونگی اور ٹیکنالوجی سے بھی محروم ہونگی ۔وہ دنیا کیساتھ چل نہیں سکیں گی۔ جب تک ہم اپنی فکر تبدیل نہ کرلیں اور حقیقت تسلیم نہ کرلیں کہ ہمیں صرف باتیں نہیں کرنی چاہیے ، باتیں بہت کرلیں اور باتیں ہر جگہ ہوتی ہیں۔ ہمیں عملی اقدامات چاہئیں۔ زنانہ کے حوالے سے بات کروں گی۔یہاں اگر ہم دیکھ لیں تو کس تعداد میں ہمارے بڑے اور بھائی موجود ہیں اور کتنی تعداد میں خواتین ہیں؟۔6،7افراد ہیں۔ اس سے بھی اندازہ لگتا ہے کہ ہم نے اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو کتنا محروم رکھا ہے۔ ہم نے ان کو حقوق نہیں دئیے ۔ یہاں پر ایسے بڑے بیٹھے ہیں جن کو میں جانتی ہوں جن کے گھر میں ان کی بیٹیاں تعلیم سے محروم ہیں۔ اس کی اتنی ہمت نہیں کہ گھر کے پاس نزدیک لڑکیوں کا سکول فعال بنادے، ہم اس پر کبھی نہیں سوچتے۔ ہمارے ہاں بڑوں میں علماء بہت زیادہ ہیں مفتی بہت زیادہ ہیں اور ایسے لوگ بھی بہت زیادہ ہیں جو عبادات میں بہت آگے ہیں ۔ لیکن اگر انکے معاملات کی طرف دیکھیں تو ہم بہت پیچھے رہ گئے ۔ ہم بیٹیوں ، بہنوں کو وہ حقوق نہیں دیتے جو اسلام نے دئیے ۔ اس میں تعلیم شامل ہے۔ اسلام نے کہا ہے کہ اپنی بہنوں بیٹیوں کو تعلیم کی روشنی دو۔ جائیداد کا حق ہم قبائلی علاقے میں بہنوں اور بیٹیوں کو نہیں دیتے ۔ جب اس پر کوئی بات کرتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ یہ ہماری روایات نہیں۔ رسم و رواج میں یہ بات نہیں، کس پختون نے بیٹیوں اور بہنوں کو حق دیا ہے؟۔ افسوس ہے کہ مفاد کی بات آتی ہے تو پھر ہم اسلام کو آگے لاتے ہیں۔ جب ہم محسوس کرتے ہیں کہ اگر اپنی بہن بیٹی کو حق دیا تو یہ ہمیں نقصان ہے کیونکہ وہ بہن بیٹی کسی اور گھر میں جارہی ہے۔ اگرچہ وہ نقصان نہیں لیکن اپنے مفاد کیلئے ہم رسم و رواج کو پیش کرتے ہیں۔ بڑا افسوس ہے کہ میں جہاں بھی جاتی ہوں اور جہاں گراؤنڈ پر دیکھتی ہوں تو عملی اقدامات نظر نہیں آتے۔ یہ جو جذباتی تقریریں ہیں یہ جو داد ہم وصول کرتے ہیں جس پر واہ واہ لوگ کررہے ہوتے ہیں لیکن جب اس شخص کے عمل کو دیکھیں تو اس میں وہ خود کو شمار نہیں کرے گا۔ ہم کس سے گلہ کریں گے؟۔ میں تو اس بات پر حیران ہوں اردو میں کہتے ہیں کہ ایک بار آزمائے ہوئے کو دوبارہ آزمانا بیوقوفی ہے۔ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ کون ہمارے ساتھ کررہا ہے اور کس طریقے سے کررہا ہے۔ ہم پھر بھی ان سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ ہمارے لئے ترقیاتی کام کریں گے؟ وہ ہمیں حقوق دیں گے؟۔ ہم کبھی بھی اس طرح گلے شکوے سے اپنی پسماندگیوں کو ختم نہیں کرسکتے ہیں۔ جب تک ہم اپنے حالات خود نہیں بدلیں اور اپنے آپ کو نہ پہچان لیں۔ پہلے خود کو پہچانو کہ ہم میں کونسی ایسی خصوصیات ہیں کس طرح سے ہم اپنے لوگوں کو اپنے علاقے کو فائدہ پہنچاسکتے ہیں؟۔ ہم اس پر کام کریں۔ ہم تعلیم پر کام کریں کہ اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو تعلیم کی روشنی دیں۔ میں نے بہت دیکھا کہ قبائلی علاقے میں جب کوئی اِکا دُکا کیس ہوتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ یہ موبائل کا نتیجہ ہے جب موبائل بیٹیوں اور بہنوں کو دیا تو یہ ہوگا۔ ہم ٹیکنالوجی کو الزام دیتے ہیں۔ جب سیاحت کی بات ہوتی ہے کہ باہر سے لوگ آئیں گے جو وزیرستان اور دوسرے قبائلی علاقوں کی خوبصورتی دیکھیں تو پھر ہم کہیں گے کہ یہ لوگ ہمیں نہیں چاہئیں۔ اسلئے کہ خوف ہے کہ اگر یہ آگئے تو ہماری خواتین راستے سے ہٹ جائیں گی۔ ہم یہ نہیں سوچتے کہ اپنی خواتین کو تعلیم اور تعلیم کیساتھ ان کو ایک پختہ فکر دیں، پختہ فکر اچھی تربیت سے ملے گی۔ وہ خالی گھر کے کاموں تک محدود نہ ہوں بلکہ ایک ایسی سوچ دی گئی ہو کہ وہ جس طرح کے حالات بھی ہوں تو اس پر اثر انداز نہ ہوں۔ کب تک ڈریں کہ وہ آگئے اور ہماری خواتین کو راستے سے ہٹادیا۔ ہم ٹیکنالوجی پر الزام لگاتے ہیں۔ چیخ کر چھلانگیں لگائیں گے کہ انٹر نیٹ نہیں چاہئے اسلئے کہ اس کی وجہ سے ہماری عورتیں یا کوئی اور ایسا کام ہوگا جس کی وجہ سے بدنامی ہوگی۔ یہ موبائل یہ انٹرنیٹ ہمارے ہاتھ میں ہے ہم جیسے استعمال کرنا چاہیں اگر ہماری سوچ مثبت ہو تو نیٹ سے ہم علاقے کو بہت زیادہ فائدہ پہنچاسکتے ہیں۔ اگر ہم اچھے نہ ہوں اور ہماری سوچ اچھی نہ ہو تو پھر نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ مجھے موقع ملا ہے کہ اپیل کروں کہ تم اپنی بہنوں ، بیٹیوں پر اعتماد کرلو۔ ان کو تعلیم دو ان کیساتھ کھڑے ہوجاؤ یہی بہنیں بیٹیاں تمہاری طاقت بنیں گی۔ ہمیں شرم آتی ہے کہ اپنی بہنوں ،بیٹیوں کیساتھ جائیں کہ لوگوں کو پتہ چل جائے کہ یہ اس کی بیوی یہ بیٹی ہے کہ لوگ کیا باتیں کریں گے۔ اسی نے ہمیں پسماندہ رکھا ہواہے۔ ہم یہ نہیں سوچتے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے؟۔ یہاں بیٹھے لوگ ایک بھی گراؤنڈ پر کام کرے تو وہ تبدیلی لاسکتا ہے۔ میں اس حق میں نہیںکہ ہم شور کریں، چلائیں اور گلے کریں۔ ہمیں شعور چاہئے۔ ہمارے پاس ڈگری والے بہت ہیں لیکن ہمیں نہیں چاہئیں۔ ہمیں تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ چاہئیں۔ قبائلی علاقوں کے بڑے جن کا تعلق حکومت سے ہو جنکے پاس پاور ہو۔ ان سے اپیل ہے کہ وہ ہمارے اسکولوں کو عورتوں اور بچیوں کیلئے فعال کریں ۔ اگر ہسپتالوں کو دیکھیں تو ہم جنگوں میں اتنے نہیں مرے، جتنے غیر فعال ہسپتالوں کی وجہ سے خواتین وبچے فوت ہوتے ہیں، ہمیں عملی اقدام کی ضرورت ہے۔ علماء سے خاص درخواست ہے کہ دینی مدارس میں بچیوں کودینی تعلیم کیساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم بھی دو۔ جدید ٹیکنالوجی سکھاؤ تاکہ ہر پہلو میں مکمل تربیت یافتہ ہوں۔ بیت الاسلام تلہ گنگ مدرسہ میں دینی تعلیم کیساتھ جدیدتعلیم اور ٹیکنالوجی پر کام ہوتا ہے ،ایسے مدرسہ سے بچیاں فارغ ہوں تو وہ ہماری طاقت ہونگی۔ ہمیں اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا اور بہنوں کوتعلیم دینی ہوگی۔ ہمیں ان کی طاقت بننا چاہیے اور ان کا سہارا بننا چاہیے۔ پھر وہ طاقتور مائیں بنیں گی اور طاقتور قوت بنیں گی اگر تمہاری سپورٹ ہو اور محبت ہو اور تمہاری ہر طرح سے ان پر نظر ہو اور ان کو ایک پختہ سوچ دو اور اچھی تربیت کرو ۔ میں بہت شکریہ ادا کرتی ہوں میں زیادہ وقت بھی نہیں لیتی بس یہ میری ایک سوچ تھی اور میں نے سمجھا کہ تمہارے ساتھ شیئر کروں اور میں اُمید رکھتی ہوں کہ یہ جو ہمارے بڑے ہیں اور جو ہمارے بھائی ہیں تو وہ ہماری بہنوں کیلئے کچھ سوچیں گے اور ان کیلئے کچھ راستہ ہموار کریں گے۔ بہت بہت شکریہ۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

ساؤتھ ایشیاء میں جمہوریت کو پروان چڑھانے کیلئے عوام اور خاص طور پر نوجوانوں پر زور۔

ساؤتھ ایشیاء میں جمہوریت کو پروان چڑھانے کیلئے عوام اور خاص طور پر نوجوانوں پر زور۔

عمار :یہاں جو ہیرو بنائے جاتے ہیں ۔سعدیہ بلوچ : چھوٹا سا ہی آنسر دونگی ہم نے تو انہیں ہمیشہ قاتل کی نظر سے دیکھا ہے ہمارے تو وہ محافظ کبھی تھے ہی نہیں۔
منظور پشتین :ہمارے وطن پر خود کو طاقتور سمجھنے والے آئے لیکن آج وہ نہیں ہیں اور ہم ہیں۔ چنگیز سے انگریز تک اور فرنگ سے اورنگ تک سب واپس گئے۔

پروگرام کا تعارف صحافی منیزے جہانگیر: ساؤتھ ایشیاء میں جمہوریت کو پروان چڑھانے کیلئے عوام اور خاص طور پر نوجوانوں پر زور۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ پاکستان کے پسماندہ علاقوں سے ان لوگوں کو لیکر آئیں جن کی آواز آپ نے مین اسٹریم میڈیا پر کبھی نہیں سنی۔ عمار جان آپ کا بہت بہت شکریہ اور اپنا پروگرام اب شروع کریں۔ عمار جان نے کہا کہ اس وقت یوتھ کا سوال صرف ایج سے نہیں جڑا ہے بلکہ وہ اس سے بھی جڑا ہے کہ کیا مستقبل ہے برصغیر کا؟ اور اوور آل ساؤتھ ایشیاء کا؟۔ کیونکہ ایسا لگ رہا ہے کہ انکے جو آج سے15،20سال پہلے بہت سارے خواب تھے ۔نوجوان کیا سوچ رہے ہیں، ایک لہر ہے جو ہراول دستہ ہے وہ چاہے آپ سری لنکا میں چلے جائیں ، چاہے آپ نیپال میں چلے جائیں یا آپ ہمارے یہاں فاٹا میں چلے جائیں، بلوچستان میں چلے جائیں تو وہ نوجوان ہی ہیں جو اس وقت مزاحمت کررہے ہیں۔ میں پہلے سعدیہ بلوچ کو دعوت دوں گا جو کہ ایکٹی وسٹ ہیں اور خاص طور پر مسنگ پرسنز کے حوالے سے انکا بہت کام ہے اور بلوچ اسٹوڈنٹ رائٹس کے حوالے سے۔ یہاں پر لاہور میں صحیح طرح پتہ نہیں چلتا یہاں پر بجلی کا مسئلہ یا مہنگائی کا مسئلہ ہوتا ہے ، بلوچ خواتین کو کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو سیاست میں ایکٹو ہیں ۔
سعدیہ بلوچ: میرا تعلق بلوچستان سے ہے اور مسنگ پرسن کیلئے کام کرتی ہوں۔ مسنگ پرسن میں90فیصد سے زیادہ تعلیم یافتہ نوجوان اور طالب علم ہیں جو ٹارچر سیلوںمیں ہیں ، زندانوں میں ہیں اور غائب ہیں۔ میری خواہش ہے کہ ہمارے پاس ڈگریاں ہوتیں تو ہمیں استحکام ملتا۔لیکن جونہی ہمیں ڈگریاں ملتی ہیں تو ہماری مائیں فکر مند ہوتی ہیں کہ میرے بیٹے کو کہیں لاپتہ نہ کردیں یا اسکی لاش نہ گرادیں۔ ہمارے یہاں یہ سلسلہ چلتا ہے۔ اب میں بلوچ خواتین کی بات کرتی ہوں جو اس وقت سیاسی طور پر ایکٹو ہیں۔ میں ابھی50دنوں کے دھرنے سے اُٹھ کر آئی ہوں ، فلڈ کی وجہ سے بھی ہمارے لئے مشکلات ہیں۔ بلوچ عورتیں اپنا حصہ ڈالتی ہیں۔ اسٹیٹ کا ٹارچر برداشت کرتی ہیں ، دھمکیاں اور خوف و ہراس بھی۔ اگر آج میرا بھائی لاپتہ ہے تو اس کو بچانے کیلئے میں نہیں آؤں گی تو کون آئیگا۔ اگر سمی نکلتی ہے تو پیچھے سیما آئیگی اور سب کی امیدیں وابستہ ہوتی ہیںکہ اگر ایک جدوجہد ہورہی ہے تو سب کا حصہ ہوتا ہے ۔
عمار جان: آپکا شکریہ ۔ آپ لوگوں کو آئیڈیا ہوگیا ہوگا کہ کس قسم کے مسائل کا یہ لوگ سامنا کررہے ہیں۔ جبری گمشدگی کی تحریک کی خاصیت یہی ہے کہ اس میں خواتین لیڈنگ رول ادا کررہی ہیں۔ چاہے وہ آمنہ جنجوعہ پنجاب میں ہوں یا بلوچستان میں سعدیہ، سمی اور ماہ رنگ ہیں۔ اس طرح بہت ساری خواتین ہیں۔ پھر منظور کو دعوت دی اور کہا کہ امید ہے کہ آپ منظور احمد پشتین کو جانتے ہوں گے اور اگر نہیں جانتے تو پھرARYنیوز پر کافی ساری معلومات ان کے متعلق مل جائیں گی۔ قہقہہ۔جب منظور احمد نے تحریک شروع کی2018میں تو اس وقت ملک میں قبرستان جیسی خاموشی تھی۔ اور اس وقت ایسا لگ رہا تھا کہ یہاں پر شہری آزادی پر بات کرنا مشکل ہوجائے گا اور ان کا نام لینا مشکل ہوجائیگا جو ہمارے اصل حکمران ہیں۔ اس تحریک نے نہ صرف اس ادارے کو بے نقاب کیا جو75سال سے حکمرانی کررہا ہے اور ایک طرح سے ہم پر انہوں نے ذلت نافذ کی ہوئی ہے اس کیخلاف یہ بغاوت تھی ۔ لاہورمیں بھی جلسے ہوئے، کراچی میں بھی ہوئے اور جہاں جہاں منظور گئے ہزاروں لوگوں نے انکا استقبال کیا۔ آپ سے سوال ہے کہ نوجوانوں کا اس تحریک میں کیا کردار تھا سوشل میڈیا کا کیا کردار تھاBOLاورARYآپ کو کوریج دیتے تھے اسکے علاوہ کوئی نہیں دیتے تھے۔ اور وہ کس قسم کی دیتے تھے آپ کو معلوم ہے۔ اور علی وزیر کے بارے میں بھی کچھ بات کریں جو اس وقت جیل میں ہیں۔
منظور پشتین: میں یوتھ کی بات کروں گا ،یوتھ کا مطلب میل اور فی میل دونوں۔ فی میل پر تو پہلے ہی روایات اور دوسرے ناموں سے ایک قسم کی پابندی ہے اور جرنل سیاست کی بات کروں گا،اس پر بھی پابندی ہے۔ ریاست نے ایک فریم بنایا ہے اسکے اندر اگر کوئی سیاست کرنا چاہے تو ایک حد تک اجازت ہے کہ یہاں تک جاسکتے ہیں اور یہاں تک نہیں جاسکتے۔ ایک آئین ہے اور باقی انکے اپنے ریڈ لائنز ہیں۔آئین کی بات تو نہیں، بات ہے اصل میںانکے ریڈ لائنز کی۔اس ریڈ لائن کے اندر فریم بنادیا گیا۔ اس ریڈ لائن سے باہر اگر کسی نے بھی سیاست کرنا چاہا تو پھر تشدد ہے، مسنگ پرنسز ہے اور لاپتہ کردیا جاتا ہے یا اسکو مار دیا جاتاہے۔ میں کس کی مثال دوں؟، آپ کی مثال دوں گا کہ جبPTMنے بالکل آئینی حقوق مانگے آپ نے ساتھ دیاتو آپکے اوپر چھاپے اورFIRکاٹی گئی آپ کو یونیورسٹی سے نکال دیا گیا۔ نہ آپ نے کسی کو تھپڑ مارا تھا اور نہ کوئی غیر قانونی کام کیا تھا۔ انسانی حقوق مانگے تھے۔ میرا مطلب ہے کہ ایک قوم کے اوپر سیاست ہوتی ہے اور ایک قوم کیلئے سیاست ہوتی ہے۔ قوم کے مفادات اور انکی زندگی کیلئے سیاست کرنا انتہائی مشکل ہے ۔ یہاں پر اسٹوڈنٹس ہونگے ان کو پتہ ہے کہ جو قوانین بنتے ہیں اور برٹش دور میں جو قوانین بنائے گئے تھے وہ اپنی کالونیاں بنانے کیلئے انہوں نے بنائے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ اگر ہم نے ان کو سیاسی آزادی تو یہ بلاسٹ ہوجائیں گے۔ آپ نے بات کی کہ وہی علاقے جن کی آواز ممنوع ہے وہاں پر تویہ بہت مشکل ہے ۔پہلے تو تعلیم نہیں، سیاست کو سمجھنے کیلئے تعلیم بہت ضروری ہے۔ پھر نہ کالج ہیں نہ یونیورسٹیاں ہیں، تعلیم نہیں ہے تو ایک جو دوکاندار ہے ، جو ریڑھی والا ہے ، ایک نوجوان ہے وہ اس کو اس سیاست اور اپنے لیول میں بہت فاصلہ محسوس ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میری تعلیم نہیں میں سیاست کو کیا کروں گا۔ جب میں نے تحریک شروع کی تو میری عمر23سال تھی۔ آج میری27سال ہے شناختی کارڈ بلاک ہے، پاسپورٹ بلاکFIRبہت سارے۔ECLمیں نام ہے۔اور ایک سم کارڈ رہ گیا تھا وہ بھی چند مہینے پہلے بند ہوگیا۔ یہ یہاں پر سیاست میں حصہ لینے کے ثمرات ملتے ہیں۔ آپ نے یہاں ”ساؤتھ ایشیاء میں پارٹی سپیشن ”کے موضوع پر بات رکھی ، ہم آپس میں ایک دوسرے سے بات نہیں کرسکتے۔ میرے بلوچستان جانے پر پابندی ہے، کشمیر جانے پر پابندی ہے۔گلگت بلتستان پر پابندی ہے۔ آپ لوگوں نے نوٹیفکیشن دیکھیں ہوں گے سوشل میڈیا پر۔ بونیر سے لیکر کرم ضلع تک پابندی ہے۔ یہ جو آپ لوگ ساؤتھ ایشیاء کی بات کررہے ہیں اس میں کسی بھی ملک کا نام بھی لیا تو آپ غدار ہیں۔ نہیں لیا تو بھی آپ کواسکے ساتھ جوڑ کر غدار بنادیں گے۔ اتنی مشکل سچویشن میں جو آپ نے عنوان رکھا اس کا نام لینا بھی جرم ہے۔ یہاں تو بلوچ کا نام نہیں لے سکتے ، اگر پاکستان کے اندر کے کشمیر میں یوتھ سے آپ نے بات کی تو آپ کو انداز ہ لگ جائیگا۔میرا مطلب سیاست سے اگر آپ اس سے ہٹ کر بات کررہے ہو تو وہ غداری ہے وہ ایک ایسی ناروا حرکت ہے جس کا معاشرے میں کوئی تصور نہ کرے۔ اور پھر ایسی سزائیں دی جاتی ہیں کہ لوگوں کیلئے مثال بن جائے۔ مجھے یقین ہے کہ لاہور میں کافی نوجوان ہونگے جوPTMکو چاہتے ہونگے مگرPTMکیساتھ اپنے کو ایفی لیٹ نہیں کرسکتے۔ کیونکہ اس کیلئے مثال بنادی گئی عمار علی جان کی طرح نوکری چلی جائے گی اورFIRہونگے وغیرہ وغیرہ۔ بیروزگاری میں رکھ کر بے تعلیم معاشرہ رکھ کر تشدد کے ذریعے یہ جو نظام چلایا جارہا ہے اس میں اگر کوئی عوام کیلئے حقیقی سیاست کرنا چاہے جو صرف سیٹ جیتنے کی بات نہیں کررہے بلکہ عوام کو کچھ دینے کی کوشش کررہے ہیںتو ان میں کافی مشکلات ہوتی ہیں لوگ مسنگ پرسن بن جاتے ہیں۔ سعدیہ بلوچ بیٹھی ہیں۔ کافی سارے بلوچ ایکٹیوسٹ ڈاکٹر ہیں ابھی وہ کیا کرے کونسے پیشنٹ کی بات کرے معاشرہ ابھی ایک مریض بن چکا ہے اور پورے معاشرے کی بات کرنا انتہائی بڑا جرم قرار دیا گیا ہے۔
عمار علی جان: ہندوستان پنجاب میں کسانوں کی بڑی مشہور تحریک نے دلی جاکر دھرنا دیا۔ نئی بڑی عام آدمی پارٹی وجود میں آئی۔ چیف منسٹر کا جو کینڈیڈیٹ تھا اسکے خلاف صفائی کرنیوالے کا بیٹا موبائل شاپ پر کام کرتا تھا چند ہزار روپے لگا کر الیکشن جیت گیا۔ یہ بڑی کامیابی تھی۔ سعدیہ بلوچ یہ بتائیں کہ بلوچستان میں سیلاب سے کیا تباہی آئی ہے؟ اور کل پرائم منسٹر گئے اسلام آباد ہائیکورٹ اور انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ ہم مسنگ پرسن پر کوئی کاروائی کریں گے۔ اس سے کیا آپ کو کوئی امید ملی ہے اور بلوچ موومنٹ کے کیا تاثرات ہیں؟۔
سعدیہ بلوچ: ماضی میں بھی بہت سارے پرائم منسٹر اور کمیٹیاں ہمارے پاس آئی ہیں ، کمیشن بنے ہیں ، ری کنسی لیشن تک بات پہنچی ہے۔ قرآن پر بھی ہاتھ رکھا ہے بہت کچھ ہوا ہے لیکن جب بلوچ کی بات ہوتی ہے تو جو اسٹیٹ کے اندر اسٹیٹ ہے وہ چاہتی نہیں کہ مسئلہ حل ہو یا اس پر کام کیا جائے۔ جب تک اُن کی مرضی نہ ہوگی میرا نہیں خیال کہ کوئی پرائم منسٹر ، کمیٹی، جوڈیشل کمیٹی یا کوئی بھی ادارہ کچھ کرسکتا ہے جب بات بلوچ مسنگ پرسن کی ہو۔ بلوچ مسنگ پرسن کا معاملہ اتنا سادہ نہیں جتنا ہمیں دکھتا ہے ، مسنگ پرسن کے ٹیک ٹکس کو بلوچ یوتھ میں خوف پھیلانے، ایک ٹریلر دینے کیلئے استعمال کیا گیا۔ جو ٹیک ٹکس اسٹیٹ نے اپنایا وہ اتنی آسانی سے کبھی نہیں چھوڑے گا۔ بلوچ نوجوان آج سے نہیں سالوں سے سیاست کررہے ہیں،ریڈیکل نیشنلسٹ پالیٹکس بھی کررہے ہیں۔ اسٹیٹ نے ہر پالیسی اپنائی کہ یوتھ کو خوفزدہ کریں۔ میں اس جنریشن سے ہوں جوایک جنریشن کی ماس کلنگ کے بعد آئی ۔ ہمارے رہنما ذاکر بلوچ ، زاہد بلوچ لاپتہ ہیں۔ بہت سارے رہنماؤں کو مارا گیا، لاپتہ کیا گیا۔ ہم شاید اسی لئے بچ گئے کہ تب ہم بچے تھے۔ بڑے ہوئے تو دیکھا کہ ہمارے پاس گراؤنڈ میں کچھ نہیں بچا ۔ ہمارے دانشور ، اسٹوڈنٹس لیڈر ، رہنما سب کی ماس کلنگ ہوئی صرف اسلئے کہ وہ بلوچ قوم کیلئے سیاست و بات کررہے تھے ۔ مجھے نہیں لگتا کہ ریاست کے اندر ریاست کبھی چاہے گی کہ بلوچ مسنگ پرسن یا بلوچ مسئلے پر بات یا کام ہو، تب تک پرائم منسٹر کچھ نہیں کرسکتے۔ خیر پرائم منسٹر کو تو یہ بھی نہیں پتہ کہ ہم بلوچ ہیں بلوچی نہیں۔ سیلاب پر بات ہوتو بلوچستان میں نقل و حرکت اسلئے زیرو ہوئی کہ برٹش کا انفرااسٹرکچر چلا گیا۔ ہم کنگ کا انتظار کریں کوئن تو چلی گئی ۔ ہر10سال بعد سیلاب آتا ہے یہ نئی بات نہیں لیکن جہاں ریاست ہمیں مار رہی ہے وہاں کلائمیٹ چینج ہمارے لئے اسی طرح خطرناک ہے۔ میرا تعلق جھل مگسی سے ہے، ہیٹ ویو ہر سال بڑھتی ہے۔ نہیں لگتا کہ ریاست کچھ کام کریگی۔ جو ریاست سیدھا روڈ بناتی ہے وہ پانی لیجاتا ہے تو کلائمیٹ چینج پر کیا کام کریگی؟۔ بلوچستان کے گرین بیلٹ جہاں پر سیلاب نے زیادہ متاثر کیا وہاں پر اسٹیٹ کے تعاون سے قبائلی اشرافیہ پیدا کیاگیا، اشرافیہ کبھی نہیں چاہے گی کہ وہاں کے عام کسان ، عام بلوچ تک کچھ پہنچے۔ قبائلی اشرافیہ اپنا اسٹاک جمع کررہی ہے، پی ڈی ایم اے انہیں دے رہی ہے۔ انکے ویئر ہاؤسز تو ابھی تک بھرگئے، لوگوں تک تو خیر ریلیف نہیں پہنچا مگر سوشل میڈیا کی مدد سے ہم ڈونیشن وصول کررہے ہیںہم رضاکارانہ طور پر کام کررہے ہیںاور اس پر بھی کل گورنمنٹ نے پابندی لگادی ہے کہNOCکے بغیر کوئی بھی رضاکارانہ طور پر کام نہیں کرسکتا۔
عمار علی جان: بالکل ٹھیک بات کی کہ ریاست ایکٹو ہونے کی علامت ملتی ہے وہviolenceکے ذریعے سے لیکن جب لوگوں کے خیال رکھنے کا ٹائم آتا ہے تو کافی عرصے سے ریاست غائب ہے بلکہ آپ کو بتاتے چلیں کہ جولائی میں یہ فلڈ شروع ہوچکے تھے۔ میڈیا ، سوشل میڈیا پر ماسوائے حمزہ شہبازبمقابلہ چوہدری پرویز الٰہی ، شہباز شریف بمقابلہ عمران خان جی ٹی روڈ کی جو سیاست تھی اسکے علاوہ کوئی بات نہ ہوئی۔23اگست کو پہلی دفعہ ایک ٹی وی چینل پرفلڈ کے حوالے سے ہیڈ لائن آتی ہے تب تک ڈھائی کروڑ لوگ متاثر ہوچکے تھے۔ اس لیول کی سنسر شپ ہے میڈیا پر کہ بہت بڑا سیلاب آیا مگر توجہ نہ دی گئی، جی ٹی روڈ کی سیاست ہی چلتی رہی۔ اب میں منظور پشتین کی طرف آؤں گا۔PTMپہلی موومنٹ دیکھی ہے پاکستان میں جس میں کوئی خان ، سردار، وڈیرہ اس کو لیڈ نہیں کررہا۔ آپ کے والد صاحب ایک ٹیچر ہیں۔ اور آپکے ارد گرد کے لوگ بھی کچھ مڈل کلاس، کچھ ورکنگ کلاس سے ہیں۔ اتنی جلدی یوتھ کو آرگنائز کیسے کرلیا۔ ایک تو ہمارے پاسARYکا بیانیہ ہے کہ کوئی سازش چل رہی تھی۔ علی وزیر کیلئے ہم ادھر کیا کرسکتے ہیں اورPTMکو کس طرح سپورٹ کرسکتے ہیں؟۔
منظور پشتین: لوگ تنگ تھے ان کو ایک آواز چاہیے تھی ۔ ایک دن بحث تھیKPKمیں کہ فلانی پارٹی طالبان کو بھتہ دیتی ہے۔ فلانی پارٹی کے لیڈرز کو کال آتی ہیں مگر بھتہ نہیں دیتے۔ موقع نہیں ملا مگر میں یہ بات کرناچاہتا تھا کہ ہمارے کسی لیڈر یا ورکر کو کال نہیں آتی۔ وہ یہ چار آنے ہم پر ضائع نہیں کرنا چاہتے کہ انکے پاس کیا ہے جو ہمیں دیں گے۔ انتہائی غریب طبقہ ہے۔PTMکے پاس وسائل نہیں اگرچہ افرادی قوت انتہائی زیادہ ہے۔ انتہائی قابل، ایم فل، پی ایچ ڈی اسٹوڈنٹ ہیں۔ لوگ سمجھ رہے تھے کہ آواز اٹھائی تو مار دئیے جائیں گے مگر انہوں نے اتنا مارا کہ لوگوں کو پتہ چل گیا کہ اگر آواز نہ اٹھائی تو مار دیں گے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ تم لوگ اینٹی اسٹیٹ ہو۔ بھائی کوئی اسٹیٹ کو کنٹرول کرے وہ ہمیں مار رہے ہیں ہم ان کو نہیں مار رہے۔ کس اسٹیٹ کے ہم اینٹی ہیں یہاں تو اسٹیٹ اور نظام نہیں سچ پوچھو تو مکمل غنڈہ گردی ہے۔ آج بات کرو آپ کے پیچھے ویگو ڈالا آئیگا ، قانون حرکت میں آجائیگا ، آئین وغیرہ یہ نہیں بتایا جائیگا۔ یہ غنڈہ گردی ہے۔ لوگ کہتے ہیں یہ نظام فرسودہ ہوچکا ہے۔ کونسا نظام؟ نظام ہے ہی نہیں۔ ابھی تو ہمیں فوج کے علاوہ باقی سارے نان اسٹک ایکٹرز لگتے ہیں۔ جیسا چاہیں وہ ان سے کام لیں۔ علی وزیر پارلیمان کو مان رہا تھا۔ سیاسی پارٹیاں پارلیمان کو نہیں کسی اور کو مان رہی ہیں۔ ان سے پوچھتے ہیں کہ کیا کرنا ہے کیا نہیں کرنا ؟ ریاست پارلیمنٹ کو نہیں مان رہی۔ ابھی وزیر اعظم کہہ رہے ہیں کہ میں مسنگ پرسنز کو رہا کردوں گا۔ بھائی آپ علی وزیر کے پراڈکشن آرڈر نہیں جاری کرسکتے ہو تو مسنگ پرسنز کو کیسے رہا کرو گے؟۔ اختلاف نہیں مگر یہ حقیقت ہے مخصوص لوگ ہیں ، مخصوص مائنڈ سیٹ ہے۔ وہی برطانیہ کی غلامی، جہاں سے جیسے ہو آج تک ان کو مراعات مل رہی ہیں۔ آج تک وہی خان، وہی سردار، وہی وڈیرے ہیں۔ انکے بچے کوئی جرنیل ہے تو کوئی سیاستدان۔ لیکن ملک کے بڑے وہی ہیں۔ عام عوام کی بات کیا کہیں۔ ہمیں تو بتایا جاتا ہے کہ اگر فلانا کرسی سے ہٹ گیا اور فلانا آگیا تو پھر حقوق ملیں گے ۔ سب آگئے سب چلے گئے کچھ نہیں ملا ہمیں تو۔اگر پاکستان کی عدالتوں کے نظام کو اسٹڈی کرنا ہو تو پھر علی وزیر کے کیس کو اسٹڈی کریں۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ130نمبر پر عدالتوں کی جو بات ہورہی ہے تو اتنا اچھا گریڈ کیسے ملا ان کو؟۔ وہ تو بیٹھے ہیں کہ کب اشارہ ملنا ہے اسلئے تاریخ پر تاریخ دیتے ہیں۔ یہ جو محکوم و مظلوم لوگ ہیں انکے ساتھ جو مذاق سیاسی طور پر کیا گیا وہ تاریخی ہے۔ انتہائی بے اختیار لوگوں سے ہم سن رہے ہیں کہ مسائل حل کریں گے۔ سچ میں اگر ان کو الگ سے بٹھا کر پوچھیں کہ آپ کے کیا کیا مسائل ہیں تو ہم سے زیادہ انکے اپنے مسائل ہونگے۔ تو آرگنائزڈ ہونے کے سوا ہمارے پاس راستہ نہیں۔ مسائل حد سے زیادہ غنڈہ گردی انتہاء پر ہے مگر ایک بات سنیں شاید یہ بات آپ کو جھوٹی لگ رہی ہو ہمیں مکمل یقین ہے انقلاب کا، ہم لائیں گے ضرور لائیں گے۔ ابھی جدوجہد کا وقت ہے مصائب تو آتے ہیں ہمیں جلدی نہیں جو لوگ ظلم جبر بربریت کررہے ہیں یا کروڑوں کی تعداد میں جو لوگ ہم کو کمزور اور خود کو طاقتور سمجھ رہے ہیں ہم ان کو اتنا کہتے ہیں کہ ہماری سرزمین پر دنیا کی ہر طاقت آئی ہے چنگیز سے لیکر انگریز تک، اورنگ سے لیکر فرنگ تک، ہم کو کمزور سمجھتے تھے اپنے کو طاقتور۔ آج ہم اپنی سرزمین پر رہ رہے ہیں وہ نہیں ۔ ٹرائی کرلیں جتنا ظلم کریں اتنا ری ایکشن ہوگا۔ ری ایکشن ان آرگنائز اور غنڈہ گردی پر مبنی نہ ہوگا انسانی حقوق کا لحاظ رکھا جائیگا۔ علی وزیر کو جیل میں رکھا اگر وہ کمزورتھا اب اتنا (طاقتور) ہوگیا۔ اس کو تقویت ملی ہے۔ ایک بارمظلوم اُٹھ گیا، صدا بلند کی اسکے بعد ظالم کا ہر طریقہ کار اسکی ناکامی کی طرف لیکر جائیگا۔ وہ ہمیں محدود کرنا چاہتا تھا، ہم نے اسکی سوچ کو محدود کیا۔ ہمارا سوچ پھیلا، مزید پھیلے گا۔ عوامی، سیاسی نظرئے کو طاقت سے کوئی نہیں دبا سکتا۔
سوال نمبر1:میں لاء کا اسٹوڈنٹ ہوں۔ سعدیہ بہن نے کہا کہ بلوچستان میں ہر دس سال بعد فلڈ آتا ہے ،بھائی نے کہا کہ انتشار بہت گندی سیاست ہے پاکستان میں۔ اگر ہم نے اسٹینڈ نہ لیا تو یہ آگے بھی چلتا رہے گا۔ تو آپ کالاباغ ڈیم بنانے پر بات کیوں نہیں کرتے جس سے تینوں صوبوں کو فائدہ ملے گا؟۔
سوال نمبر2:میرا نام عباس علی، ڈیجیٹل میڈیا کا اسٹوڈنٹ ہوں پنجاب یونیورسٹی لاہورمیں۔ آپ نے مسنگ پرسن کی بات کی تو آپ کیلئے کتنا مشکل ہوتا ہے اپنے وطن پاکستان کے محافظوں کیخلاف آپ کو لڑنا پڑتا ہے۔ جنکے ہم ترانے سنتے ہیں23مارچ کو۔ دوسرا سوال منظور سے ہے کہ آپ پر الزام لگایا جاتا ہے کہ آپ کو فارن فنڈنگ خصوصاً انڈیا کی طرف سے فنڈنگ ہوتی ہے۔ اورKPKاور بلوچستان کی جتنی بھی آرگنائزیشن ہیں ان پر را سے فنڈنگ کا الزام لگایا جاتا ہے ۔ تو یہ فارن فنڈنگ ہے یا ویسے ہی الزام لگایا جاتا ہے؟۔
منظور پشتین کا جواب: اب ”را” والے اتنے پاگل ہیں کہ پاکستان کے آئین کو مضبوط کرنے کیلئے ، حقوق مانگنے کیلئے کسی کو پیسے دیں گے کہ آپ وہاں امن کی بات کریں ، آپ لینڈ مائنز کو نکالنے کی بات کریں، مسنگ پرسنز کی بحالی کی بات کریں، پاکستان میں کوئی ایکسٹرا جوڈیشنل کلنگ نہ ہو اس کیلئے پیسے دیں کسی کو، یہ کونسی بات ہے۔ اگر پاکستان کے اداروں کو واقعی یہ لگ رہا ہے کہ یہاں پر آئین کی بالادستی کیلئے سب سے زیادہ کام انڈیا کی ایجنسی ”را” کررہی ہے۔ تو پھر وہ ڈائریکٹ ججز کو پیسے دیں باقی جو اسٹیٹ چلانے والے ہیں انکو پیسے دیں کیونکہ وہ زیادہ انوال ہیں۔ فارن فنڈنگ والی بات میرے خیال میں یہ33بلین ڈالر لینے والے لوگ کررہے ہیں۔ آج تک انہوں نے پیسے لئے ۔ ایک بادشاہ کی بیٹی بھوکی تھی تو بادشاہ نے کہا بیٹی کیا حال ہے اس نے کہا کہ پورا شہر بھوکا ہے۔ اس کو کھلایا پھر پوچھا کہ کیا حال ہے تواس نے کہا کہ شہر کو اب بھوک نہیں۔ یہ جو خود کھارہے ہیں ان کو لگ رہا ہے کہ سب کھا رہے ہیں۔ ہم چیلنج کرتے ہیں کہ فارن فنڈنگ ہم پر ثابت کردیں جو بھی سزا مجرم کی ہو وہ ہمیں دیں مگر ہم ثابت کرینگے اس پر فارن فنڈنگ دنیا کے ہر ملک سے لیا۔
عمار جان: مختصر سا جواب دے دیجئے کہ کیا یہاں پر جو ہیروز بنائے جاتے ہیں وہ وہاں پر اس طرح کی ایکٹی ویٹیزکرتے ہیں۔
سعدیہ بلوچ: چھوٹا سا ہی آنسر دوں گی ہم نے تو انہیں ہمیشہ قاتل کی نظر سے دیکھا ہے ہمارے تو وہ محافظ کبھی تھے ہی نہیں۔
عمار : سوال جو کالاباغ ڈیم پر کیا تو کوئی ایکسپرٹ اس پر بات نہیں کررہا۔ چھوٹے ڈیم کیساتھ جو آپکا ریئل اسٹیٹ ہے اس کو ریور بیلٹ سے دور کیسے کرنا ہے۔ کالاباغ ڈیم سے پاکستان کے تمام مسائل کیا حل ہو جائینگے ۔ ایک نے سوال کیا کہ ٹائم لگے گامگر انقلاب آئیگا۔ ہم نے دیکھا کہ مسنگ پرسنز کا مسئلہ ہو تو ناکام ہوئے، کووڈ آیا تو ایکسپوز ہوئے۔ تخت سلیمان کے جنگلات میں آگ لگی تو ایران سے جہاز آئے آگ بجھانے کیلئے۔ ریاست ایکسپوز ہوئی۔ فلڈ آیا تو ریاست ایکسپوز ہوئی سسٹم ایکسپوز ہوا کام نہیں کررہا۔ تو سر وہ کونسا ٹائم ہے کہ عوام اس حد تک بھر جائے گی کہ پھر انقلاب آئیگا۔ یہ منظور سر سے سوال ہے۔
سعدیہ بلوچ: جب تک جوڈیشری کو آزاد نہیں کیا جائے گا مجھے نہیں لگتا ہے مسنگ پرسنز کا معاملہ حل ہوسکے۔ ایک اور بات ہمیں ضرور کرنی چاہئے چاہے جتنی خطرناک ہو مگر حقیقت ہے کہ بلوچستان میں تنازعہ ا ور شورش ہے جب تک اس پر بات نہیں ہوگی اس وقت تک کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔
منظور پشتین: سوال تھا کہ کب آئیگا چینج؟ دیکھو! جب تک عوامی شعور نہ ہو ، جب تک قومیں بیدار نہ ہوں، تب تک اگر انقلاب آئے بھی تو انقلاب کے ثمرات پر ایکدوسرے کیساتھ لڑیں گے۔ اس کیلئے باشعور طبقہ چاہیے۔ ہم پہلے دن سے ایک ہی سوچ میں ہیں کہ ہم وہ مورچے نہیں لے سکتے ہیں ہم نے یہی مورچے لینے ہیں(دماغ کی طرف اشارہ کرکے کہا)۔ یہاں اگر سوچ مضبوط ہو، تقویت ہو، شعور ہو عوام میں پھر انقلاب آسانی سے آسکتا ہے۔ ظالم لوگوں کیلئے5،10بندوقیں کنٹرول کرنا اتنا مشکل نہیں ہوتا مگر قومیں بیدار ہوجائیں باشعور ہوجائیں اس کو کنٹرول کرنا ان کیلئے بہت مشکل ہوتا ہے۔ جدید فلاسفی بھی یہی کہتی ہے کہ انقلاب عوام کی فکر ی تبدیلیوں میں آتا ہے۔ تو ہم نے کوشش کرنی ہوگی کہ عوامی سطح پر شعور زیادہ ہوجائے اور پڑھے لکھے لوگ ہوں۔ اور ہمارے دوست زیادہ ہوجائیں۔ ہماری تعداد بڑھ جائے۔ دوسرا سوال یہاں پر پی ٹی ایم غیر سیاسی ہے۔ ایک توPTMغیر سیاسی نہیں۔ میرے خیال میں اس وقت بہترین سیاستPTMہی کررہی ہے۔ عوام کو شعور دلانا ہوگا، اگر اسٹیبلشمنٹ کو پریشرائز رکھنا ہو، اگر اس کو کوئی سیاست کہتا ہے عوام کے مسائل کو اجاگر کرنا ، عوام کو اجتماعی کام میں لگا کر اجتماعیت کیساتھ محبت پیدا کردینا۔ لوگوں کو لیڈر شپ کا احساس دلانا کہ جہاں بھی مسئلہ ہو آپ انکے ساتھ ہو۔ اگر یہی سیاست ہے تو میرے خیال میںPTMبہترین سیاست کررہی ہے۔PTMغیر سیاسی نہیں غیر پارلیمانی ہے۔PTMکے غیر پارلیمانی رہنے کے کچھ اُصول ہیں۔ عوام میں نفاق پارلیمانی سیاست کی وجہ سے ہے۔ اس وجہ سے وہ ایکدوسرے کیساتھ لڑتے ہیں۔ ہم نے وہ عنصر سائڈ پر کردیا۔ پی ٹی ایم سیاسی ہم آہنگی قائم کرتی ہے۔ اتحاد و اتفاق میں لوگوں کو زیادہ لانا یہ کام بھی اس سے ہوجاتا ہے۔ البتہ میں گرینڈ الائنس کا جو اتحاد ہے اسکے حق میں ہوں۔ جتنی بھی محکوم قومیں ہیں ان کا ایک ساتھ چلنااور ایک ساتھ جدوجہد کرنا انتہائی فائدہ مند سمجھتا ہوں۔
سوال: میرا آپ سے سوال ہے کہ جتنے بھی لاہور یں لیفٹ ونگ کی تنظیمیں ہیں، مارکسسٹ ہیں، بائیں بازو کی تنظیمیں ہیں وہ آپ کا ساتھ دینے کیلئے بالکل تیار ہیں آپ لاہور میں ممبر شپ اسٹارٹ کریں۔ اگر آپ کو براہ راست یا کھلے عام ایکٹی ویٹیز کرنے میں مسئلہ ہے تو آن لائن ممبر شپ اسٹارٹ کریں۔
منظور پشتین: پنجاب کے جو دوست کہہ رہے تھے کہ ہم بھی ساتھ ہیں۔ پورے پنجاب نے اٹھنا ہوگا سب نے ساتھ دینا ہوگا۔ محکوم لوگوں کے جو مسائل ہیں اس سے کم از کم لوگوں کو آگاہ کریں۔ لوگوں کا مائنڈ بنادیںتاکہ عوامی سطح پر یکجہتی پیدا ہوجائے۔ڈیرہ اسماعیل خان پولیس سب سے زیادہ ٹارگٹ کلنگ میں ماری جارہی ہے۔ سرائیکی بیلٹ سب سے زیادہ مشکل میں ہے۔ آپ خود سرائیکی ہو آپ بتاسکتے ہیں یہاں شرکاء کو کہ مدینہ کالونی میں جو طالبان رہ رہے تھے کیا وہ فوج کے انڈر نہیں تھے؟۔ سچ بتائیں یار(قہقہے)۔ دہشتگردی کو اگر اسٹڈی کرنا ہو تو ڈی آئی خان کا چکر لگائیں اگر میں نے ان کو نہیں بتایا کہ یہ جو کالے شیشوں میں گاڑی کینٹ سے آرہی ہے اس میں نوکنگ کرو اندر کون بیٹھا ہے پھر آپ کو پتہ چلے گا کہ یہ جو ہم باتیں کررہے ہیں کیوں کررہے ہیں اسکی وجوہات ہیں؟۔ ڈی آئی خان کے شہری اٹھیں کیوں اپنے نوجوانوں پر خاموش ہیں؟۔ ڈی آئی خان اور دوسرے شہروں میں مذہبی فرقہ واریت کی بنیاد پر مختلف گروپس بنادئیے گئے جو لوگوں کو مار رہے ہیں۔ ہم آواز اٹھائیں گے اور ڈی آئی خان والوں کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کریں گے۔
سعدیہ: اگرآپ بڑے لیول پرہمارے لئے کچھ نہیں کرسکتے توکم از کم احساس رکھیں درد کا۔یہ بھی بہت بڑا رشتہ ہے اور یہی ہمارے لئے کافی ہے۔
عمار جان: بہت بہت شکریہ۔ اسکے ساتھ ہم پروگرام کا اختتام کرتے ہیں اس امید کیساتھ کہ جو منظورکی جدوجہد ہے، سعدیہ صاحبہ کی، پرابودھا(سری لنکا) کی، سدھو صاحب کی ، ہمارے پنجاب کے لیبر لیڈر بابا لطیف، یہ تمام لوگ جو یہاں پر موجود ہیں وہ ایک بہتر ساؤتھ ایشیاء کی بنیاد بھی رکھیں گے اورپاکستان کو مضبوط کریں گے اور جس طرح سعدیہ نے بہت خوبصورت بات کی کہ دکھوں کا رشتہ ہے اگر دکھ ملیں گے تو یہ مزاحمتیں بھی انقلاب میں بھی تبدیل ہوں گی۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

بلوچستان زیرو ہے، برٹش کا انفرا اسٹرکچر چلا گیا، کنگ کا انتظار کریں کوئین چلی گئی۔ سعدیہ بلوچ

بلوچستان زیرو ہے، برٹش کا انفرا اسٹرکچر چلا گیا، کنگ کا انتظار کریں کوئین چلی گئی۔ سعدیہ بلوچ

حجاج بن یوسف ظالم نے لاکھوں بے گناہ مسلمانوں کو قتل کیا مگر اسکے خلاف مسلح جہاد کاکوئی فتویٰ کسی نے نہ دیا۔ مفتی عبدالرحیم

جو زبان عمران خان، نوازشریف فوج کے خلاف بولتے ہیں وہ ہم نےPTMاور بلوچ بہن بھائیوں کی زبان سے نہیں سنی :اصغر خان اچکزئی

پختونخواہ میں نہتے عوام کی مسلح طالبان آمدکیخلاف احتجاج،خوف وہراس اور نفرت ومایوسی کا اظہار جاری ہے۔ چین امریکہ گریٹ گیم میں پختونوں کی تباہی پر میڈیا خاموش ہے!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

دور نبوی ۖ میں6قسم کے لوگ :مؤمن، مسلم، کافر ،مکذبین ، منافق اور جن کو پیغام نہ پہنچاتھا۔ وماکنا معذبین حتی نبعث رسولًا ” اور ہم کسی کو عذاب نہیں دیتے جب تک کسی رسول کو مبعوث نہ کردیں” ۔ ویل یوم اذن للمکذّبین ”تباہی ہے اس دن جھٹلانے والوں کیلئے”۔یہ انقلاب کے دن کی دھمکی تھی۔ قل عسٰی ان یکون قریبًا ” کہہ دو ہوسکتا ہے کہ قریب ہو”۔ اس سے قیامت مراد نہیں۔ انبیاء کو جھٹلانے پر دنیاوی عذاب تھا۔ شاہ اسماعیل شہید نے لکھا کہ ” رسول اتمام حجت ہے اور امام کا جھٹلانا عذاب کا ذریعہ ”۔ شیعہ عقیدہ ہے کہ امام کی بعثت اللہ کرتاہے مگرامام نبی نہیں ہوتا۔ مرزا غلام ملعون کو قادیانی نبی مانتے ہیں۔ رسول ۖ کی تکذیب پر مشرکین مکہ و یہود مدینہ پر عذاب آیا۔ سپہ سالارحر نے حسین کیلئے وہ قربانی دی جو زین العابدین نہ دے سکے۔ حسین کے بعد سے مہدی غائب تک کسی امام نے قیام کیا اور نہ قیام جائز سمجھا ۔ عظمت اہل بیت کے قائل شیعہ اور صحابہ کی تکفیر والے رافضی ہیں۔پشتون حقوق اور امن مانگتے ہیں اور کچھ بلوچ نے ہتھیاراُٹھائے ہیں ۔بیرسٹراعتزاز احسن نے پارلیمنٹ میں کہاتھاکہ” تھانے میں بدمعاش کو خوب مارا تو اس نے پکارا، اماں اماں۔ ماں نے تھانیدار سے کہا کہ شکریہ کہ میرے بیٹے کو ما ںیاد دلادی۔ عمران خان کا شکریہ کہ نوازشریف کو پارلیمنٹ یاد دلادی”۔ ریاستی مظالم نے سعدیہ بلوچ کوملکہ برطانیہ یاد دلادی۔ پہلے خوارج لڑے تھے ۔ مفتی عبدالرحیم نے کہا: حجاج نے لاکھوں قتل کئے لیکن اسکے خلاف مسلح جہادجائز نہ تھا ۔جب ضرورت میں عضوء کاٹنا ، خنزیر کھانا جائز ہے تو اجتماعی مفاد کیلئے ریاست کچھ بہت کرسکتی ہے، یعنی پٹھان مٹھان بلوچ ملوچ مفادکیلئے قربان کرسکتی ہے۔
جامعة الرشید کے مفتی عبدالرحیم کو اس انداز میں سلیم صافی نے پیش کیا جو دین اور صحافتی تحقیق پر سوالیہ نشان ہے؟۔یہ کس کا جانشین ہے؟۔ مفتی رشیداحمد لدھیانوی بدنامِ زمانہ تھا ۔ مولانا یوسف بنوری سے مفتی محمود تک ، تبلیغی جماعت سے حاجی عثمان اور حکیم اختر تک، مفتی شفیع سے مفتی احمد ممتازاور مولانا مسعود اظہر تک کون شر سے محفوظ رہا؟۔ مفتی عبدالرحیم کے جھوٹ اور کرتوت کے ثبوت ہمارے پاس ہیں۔سودی نظام کو جائز قرار دیا تو مولانا احتشام آسیاآبادی ومفتی احمد ممتاز نے بھی اسلامی بینکاری کی مخالفت کی جو مفتی رشید لدھیانوی کے خلفاء اور مفتی عبدالرحیم کے سینئر تھے۔ یہ شخص مذہب اورریاست کا اثاثہ نہیں بلکہ کلنک کا ٹیکہ ہے۔ جیو نے عمران خان کے بغض میں اسکے مکروہ چہرے سے عوام کو دھوکہ دینا شروع کیا ہے۔ عوام غلط کام کرتی ہے تو وہ بھی غلط ہے اور اگر ریاست غلط کام کرتی ہے تو اس کو جواز نہیں بخشا جاتا بلکہ اس پر ڈبل گرفت ہوتی ہے۔
شیعہ کہتے ہیں کہ علی کی موجودگی میں ابوبکر ، عمر اور عثمان کو اقتدار کا حق نہ تھا۔ اگر علی نے ان تینوں کے مقابلے میں خود کو زیادہ حقدار سمجھاتھا توصحابہ جنگ تک بھی پہنچے ہیں اور سنی ان کی کماحقہ تأویل کرتے ہیں۔ نہج البلاغہ کو مصر کے سنی عالم علامہ عبدہ نے مرتب کیا اور عبارات کی تصحیح وتحقیق کی جس کا شیعہ عالم نے ترجمہ کیا۔ علامہ سید جواد نقوی نے اس پر اچھی گفتگو کی ہے۔ پہلی اور آخری مرتبہ ایک ہی دفعہ علی نے اپنے استحقاق خلافت کیلئے دلائل دینے شروع کئے تو کسی نادان نے غیرمتعلقہ سوال کیا، جس کے بعد علی نے بحث چھوڑ دی۔ ابن عباس نے کہا کہ اپنی بات مکمل کریں لیکن علی نے کہا کہ نہیں۔ بس دل میں جو ابھار آیا تھا ،اب وہ نہیں رہا۔ اس سے پہلے اور اسکے بعد پھر کبھی اس موضوع پر بات نہیں کی تھی۔ شیعوں کی تمنا ہم پوری کردیںگے کیونکہ علی کے بیٹے میں اللہ نے صلاحیت پیدا کی ہے لیکن شیعہ انتشار کو چھوڑ کر اتحاداور وحدت کی طرف اب آجائیں۔
سنی کہتے ہیں کہ ہم سعد بن عبادہ کیلئے اچھا جذبہ رکھتے ہیں جو ابوبکر و عمر کے پیچھے نمازتک نہ پڑھتے تھے ۔جنّات یا نامعلوم خلائی مخلوق نے قتل کیا ؟۔ خلافت راشدہ دور میں ایک جلیل القدر صحابی کو انتشار پھیلانے پر عدالت میں پیشی کے بجائے قتل کیا گیا؟تویہ گناہگار ریاست کرسکتی ہے؟۔ سعد بن عبادہ نے منظم حملے نہیں کئے۔ بلوچ سرماچارفوج کو دشمن کہیں اور حملہ آوروں کی مذمت نہ کریں؟۔ تعلیم یافتہ شاری بلوچ نے چینی خواتین اساتذہ پر خود کش کیا۔ اگرچہ کئی بلوچوں اور شاری بلوچ کی فیملی نے مذمت کی لیکن کئی اس کو اعزاز سمجھتے ہیں۔ ایک طرف مہمان اساتذہ پر خود کش اور دوسری طرف واویلا کہ ریاست بلوچ دشمن ہے تعلیمی اداروں میں پڑھنے نہیں دیتی ؟۔ یہ دوغلاپن غیرتمند بلوچ پر دھبہ ہے۔ انصار عباسی، ہارون الرشید،اوریا مقبول افغانستان کیلئے طالبان کا نظام اور پاکستان کیلئے نسل در نسل انگریز کے غلام جرنیل، انکے بنائے گئے سیاستدان اور خاندانی غلام پیروں اور چوہدریوںکے خانوادوں کے غلامانہ نظام کو بہترین قرار دیں تو جیسا دیس ویسا بھیس اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس میں یہی چل سکتا ہے۔
سعد بن عبادہ کے قتل کو جواز بخشناغلط ہے۔ بے گناہ صحابی کے قتل کی سزا پوری خلافت کو مل گئی۔انصارمدینہ اقتدار سے باہر تھے توحضرت عثمان چالیس دن محاصرے کے بعد شہید کئے گئے۔ علی نے مدینہ چھوڑ کر کوفہ کو دارالخلافہ بنایا۔ بنو امیہ نے دارالخلافہ شام میںدمشق کو بنایا۔ بنوعباس نے عراق میں بغداد کو دارالخلافہ بنایا۔چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان نے بغداد کو تہس نہس کردیا۔ پھر ترکیوں نے دارالخلافہ استنبول منتقل کیا ۔ حجاج دورمیں ہمت ہوتی تو بنوامیہ کا خاتمہ جائز تھالیکن بعد میں ہمت کی گئی۔اگر حسین کیساتھ لوگ کھڑے ہوجاتے تو یزیدی خاندانی نظام اور عباسی خاندانی نظام مسلمانوں پر مسلط نہ ہوتا۔ آج بھی انکے اثرات سے مسلمان نکل نہ سکے ۔ مولوی لمبی سایڈ کی جیب میں ہدیہ وصول کرکے منبر رسول پر خطبہ دیتا ہے کہ ظالم بادشاہ زمین پر خدا کا سایہ ہے ۔ اگر کافر عادل بادشاہ کو زمین میں خدا کا سایہ کہا جائے تو مسئلہ نہیں۔ حدیث میں مسلم کی قید نہیں۔حبشہ کے بادشاہ نجاشی صحابہ کے سائبان بنے تو سایہ خدا کہنے میں حرج نہ تھا۔ مگر ظالم ، جابر اور بربریت والے حکمران کو اللہ کا سایہ قرار دینا گھٹیا پن ہے۔ اسد طور نے مولانا طارق جمیل پر پروگرام کیا ہے، مفتی عبدالرحیم پر بھی تحقیق کرکے لوگوں کو آگاہ کردے۔ مفتی عبدالرحیم کا تعلق اس مذہبی ٹبر سے ہے جو ہلاکو خان اور چنگیز خان کے مظالم کو بھی ضرور سپورٹ کرتا۔ الطاف حسین نے کہا کہ ” نوازشریف دور میں آئی ایس آئی چیف جنرل ضیاء الدین بٹ کے متعلق ڈان میں کامران خان کی رپورٹ شائع ہوئی کہ اس نے حکیم سعید کو شہید کروایا تھا اور پھر نوازشریف کو پرچی تھمادی تھی کہ ایم کیوایم کارکنوں کا نام لو۔
ظلمت کو ضیائ، صر صر کو صبا ،بندے کو خدا کیا لکھنا
پتھر کو گہر، دیوار کو در، کرگس کو ہما کیا لکھنا
ایک حشر بپا ہے گھر میں دم گھٹتا ہے گنبد بے در میں
ایک شخص کے ہاتھوں مدت سے رسوا ہے وطن دنیا بھر میں
اے دیدہ ور! اس ذلت کو قسمت کا لکھا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیائ، صر صر کو صبا ،بندے کو خدا کیا لکھنا
لوگوں پہ ہی ہم نے جاں واری ،کی ہم نے ہی انہی کی غمخواری
ہوتے ہیں تو ہوں یہ ہاتھ قلم شاعر نہ بنیںگے درباری
ابلیس نما انسانوں کی اے دوست ثنا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیائ، صر صر کو صبا ،بندے کو خدا کیا لکھنا
حق بات پہ کوڑے اور زنداں باطل کے شکنجے میں ہے یہ جاں
انساں ہیں کہ سہمے بیٹھے ہیںخونخوار درندے ہیں رقصاں
اس ظلم وستم کو لطف وکرم ،اس دکھ کو دوا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیائ، صر صر کو صبا ،بندے کو خدا کیا لکھنا
ہر شام یہاں شام ویراں،آسیب زدہ رستے گلیاں
جس شہر کی دھن میں نکلے تھے وہ شہر دل برباد کہاں
صحرا کو چمن بن کو گلشن بادل کوردا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیائ، صر صر کو صبا ،بندے کو خدا کیا لکھنا
اے میرے وطن کے فن کارو! ظلمت پہ نہ اپنا فن وارو
یہ محل سراوں کے باسی قاتل ہیں سبھی اپنے یارو!
ورثے میں ہمیں یہ غم ہے ملا،اس غم کو نیا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیائ، صر صر کو صبا ،بندے کو خدا کیا لکھنا
فتح مکہ سے قبل اور بعد والے صحابہ میں فرق تھا۔ ابوسفیان، امیر معاویہ اور یزید سیدنا بلال کے پیروں کی خاک کو نہیں پہنچتے تھے۔ جبر سے خلافت کو خاندانی لونڈی نہ بناتے تو بلال میں زیادہ قابلیت تھی۔ سعد بن ابی وقاص عشرہ مبشرہ کے ہوتے ہوئے ظالم جابر وں کا اقتدار غلط تھا۔ البتہ حر اور یزید کے بیٹے معاویہ نے جو قربانی دی، مفاد پرست شیعہ انکو نہیں پہنچ سکتا۔ان میں لیلیٰ کیلئے قربانی کا جذبہ رکھنے والے بھی بہت ہیں لیکن جو نمایاں ہیں وہ دودھ پینے والے مجنون ہیں۔
بلال حبشیسیدنا تھے۔ شیدی بلال کی وجہ سے سیدی تھے۔ س کو ش بنادیا۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے لکھا کہ ” عرب میں عجم غلام تھے۔ اسلام نے ہم وطن چار خواتین سے شادی کی اجازت دی اورغیر ملکی لونڈیوں سے شادی کی تعداد متعین نہیںکی ”۔ مولانا سندھی سے اتفاق نہیں لیکن مغربی پاکستان نے بنگالیوں کو دل سے قبول نہ کیا۔ گو وزیراعظم محمد علی بوگرہ، حسین شہید سہروردی بنگالی تھے اور صدر سکندرمرزا بھی بنگال کے غدار میر جعفر کے پڑپوتے تھے۔جن گٹرصاف کرنے والے پنجابیوں کو کراچی والے چوہدری کہتے ہیں، عزت کی بنیاد پر نہیں کہتے ہیں۔ اسلام نے سیدنا بلال اور حبشیوںکو واقعی بہت عزت بخشی تھی۔
شیعہ ائمہ اہل بیت اور پشتون قوم پرست باچا خان وصمد خان شہید اچکزئی کے خاندانوں کو امام مانتے ہیں۔ جب یزید کا لشکر حسین کے کٹے سر اور قافلہ اہل بیت کو قید کرکے دمشق شہر لایا تو سپاہی کھانے پینے کی خریداری میں لگ گئے۔ ایک حبشی خاتون فضاء نے یہ منظر دیکھا تو قیدیوں کیلئے کھانے پینے کا سامان اور دوپٹے ، چپل، سامان ضرورت تحفہ میں دئیے۔ مشکل وقت میں خواتین آگے آتی ہیں۔ عثمان کے بدلے کا مطالبہ اماں عائشہ نے کیا۔ یہاں سالارکا کردار زینب نے ادا کیا۔ زینب نے پوچھا : یہ مدد کیوں کی؟۔ پورے راستے میں کسی نے ہمیں نہیں پوچھا ؟۔ فضاء بولی: فاطمہ کی خادمہ تھی، رخصتی لیکر شام آرہی تھی تو نصیحت کی کہ جب قیدیوں کو دیکھو تو خوراک ، پوشاک اور ہرممکن خدمت کرنا۔ مجھے پہلی مرتبہ ان کی نصیحت پر عمل کا موقع ملا ”۔ زینب بولی: بدلہ دینا ممکن نہیں مگر ہم دعا کرسکتے ہیں۔ بتاؤ کیا دعا کریں؟۔ فضاء بولی: فاطمہ کے تین بچے حسن، حسین اور زینب کی زیارت کا بڑاشوق ہے۔ جب دیکھا تھا تو چھوٹے چھوٹے تھے۔ آپ میرے لئے ان کی زیارت کی دعا کرنا۔ زنیب بولی: تمہاری تمنا پوری ہوگئی یہ کٹا ہوا سر حسین کا ہے ، میں زینب ہوں۔ یزید نے دربار میں قافلہ اہل بیت سے بدتمیزی شروع کردی کہ بدر کا بدلہ ہم نے لیا ۔ تو فضاء نے یزید کو سخت جواب دیا کہ ” شرم نہیں آتی کہ اسلام کے نام پر خلیفہ بن بیٹھے ہو، نبیۖ کی اولاد سے یہ کہتے ہو؟۔ یزید نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ گستاخ عورت کو عبرت کا نشان بنادو۔ کچھ سپاہی لپکے تویزیدی لشکر میں حبشی سپاہیوں نے بپھر کر دھمکی دی کہ خبردار ! یہ خاتون ہماری ناموس ہے ۔ اگر تم نے تکلیف پہنچائی تو تمہاراتیاپانچا کریں گے۔ مشتعل حبشیوں کو دیکھ کر یزیدنے پینترا بدلا۔ زینب نے کہا کہ ” کیا رسول ۖ کیلئے کوئی قربانی دینے والا نہیں؟”۔ تنخواہ دار سپاہی قوم پرستی کیلئے سب کچھ کرنا اپنی قومی غیرت سمجھتے تھے لیکن ریاست اور حکومت نے دین کا جذبہ مٹادیا تھا۔
جب طالبان نے ٹانک سے ایک پشتون لیڈی ڈاکٹر کو اغواء کیا اور مظالم کا سلسلہ جاری رکھا تھا اگر فوجی آپریشن سے پہلے محسود قوم غیرت کرتی تو ذلت کے انتہائی دن دیکھنے نہ پڑتے۔ حبشیوں نے عورت پر غیرت کی توسیدی بن گئے۔
پختونوں کے بارے میں ہے کہ رسول اللہ ۖ کے دور میں مکہ کو فتح کیا تھا اور بلوچوں کے بارے میں ہے کہ اسلامی لشکر کا حصہ بعد میں بن گئے لیکن جب امام حسین کی شہادت کا واقعہ پیش آیا تو انہوں نے دوبارہ اپنے وطن مکران کا رخ کیا تھا۔ محمد بن قاسم سے پہلے بلوچ اورکافی سندھی پہلے سے مسلمان تھے۔
راشدمراد کھریاں کھریاں نے جرنیلی نظم پڑھی:اک آمر تخت پر بیٹھا تھا
میرے دریا جب نیلام ہوئے اور بنجر میرے کھیت ہوئے اک آمر تخت پہ بیٹھا تھا
میرے لشکر کو جب مات ہوئی اور دیس میرا تقسیم ہوا، اک آمر تخت پہ بیٹھا تھا
جب مذہب اک ہتھیار بنا اور کلمہ گو ہی قتل ہوئے ۔ایک آمر تخت پہ بیٹھا تھا
سچ بولنے والے لوگوں کو جب کوڑے مارے جاتے تھے،ایک آمر تخت پہ بیٹھا تھا
ایک ظالم لشکر کے ہاتھوں ایک سورج جب مصلوب ہوا،اک آمر تخت پہ بیٹھا تھا
جب ایک بہادر عورت پر اپنوں نے چھپ کر وار کیا،اک آمر تخت پہ بیٹھا تھا
جب گلیوں میں بارود بچھا گھر گھر میں قتل عام ہوا،ایک آمرتخت پہ بیٹھا تھا،پھر بھی سادہ لوگوں کوآمر اچھے لگتے ہیں جھوٹوں سے بڑھ کر یہ جھوٹے اب بھی سچے لگتے ہیں
راشد مراد نے نوازشریف کے ایما پر جنر ل قمر باجوہ کو دبانے کیلئے نظم پڑھی مگر باجوہ کو ایکس ٹینشن کس نے دی ؟۔ کیا سیاسی طرم خانوں کیلئے عوام فوج سے لڑے؟۔اقتدار ہوتو فوج سے محبت اور اقتدار چھن جائے تو خرابیوں کی جڑ ؟۔ آرمی، قومی ، سیاسی و مذہبی قیادت جلد ازجلد مثبت فیصلہ کرنے میں اپنا کردار ادا کرے ورنہTTPاورپشتون ریاست کیلئے وہ مشکل کھڑی کرسکتے ہیں جس کا تصور بھیانک ہے۔افغان اور پاکستانی طالبان ایک ہیں۔ بلوچ، مہاجر ، سندھی اور پنجابی سبھی میں خوبیاں ہیں لیکن بیکار کرداروں نے ان کی شکل مسخ کی ہے۔
اللہ نے فرمایا؛” بیشک جولوگ مسلمان، یہودی ، نصاریٰ اور صائبین ہیں۔ جس نے اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لایا اور اچھا عمل کیا تو ان کیلئے اجر ہے، ان پر خوف نہیں ہوگا اور نہ وہ غمگین ہونگے”۔ (البقرہ آیت62) اسلام واحد دین اور نظام ہے جو دنیا کو قبول ہے لیکن مذہبی وحکمران طبقے نے مسخ کردیا۔
اعرابیوں سے کہا ” یہ نہ کہو کہ ہم ایمان لائے بلکہ کہو! ہم اسلام لائے اسلئے کہ ابھی ایمان دلوں میں داخل نہیں ہوا”۔یہ مسلمان اور صحابہ سچے مؤمن تھے۔ کچھ منافق اور کافر تھے۔ صرف کچھ جھٹلانیوالے دشمن تھے۔ کافی دنیا تک اسلام نہ پہنچاتھا۔ مقابلہ جھٹلانے والوں سے تھا۔ جھوٹی نبوت کے دعویدارابن صائد اور رئیس المنافقین عبداللہ ابن ابی اور ذوالخویصرہ گستاخ سے بھی جنگ نہیں تھی۔
وزیرستان محسود ایریا میں طالبان کی رٹ ہے۔ ننگے سر کعبہ کا طواف ہوسکتا ہے مگرکوئی وزیرستان میںٹوپی نہیں اتارسکتا ۔دنیا بھر کی طرح امریکیCIAکے بلیک واٹر نے پنجابی لڑکیوں کو شام میں داعش کیلئے بھرتی کیا۔ فوج نےTTP،PTMاور عوام کو ایکدوسرے کے رحم وکرم پر چھوڑ اہے۔ قوم جب تک دین کی درست تشریح کی طرف نہ آئے، مظالم سے بچنے کا راستہ نہیں۔ مرکزمیں شہبازشریف وزرداری اور پنجاب میں عمران خان و پرویزالٰہی کاا قتدار ہے۔ اگر طالبان کو بھارت کی سرحد پر گھر بناکر دیدئیے اور شیڈول فور میں رکھاتو فتنے پر قابو پانا آسان ہوگا۔ پنجاب ، اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی جماعتوں کا پختون قوم پر نہ صرف احسان ہوگا بلکہ گزشتہ غلطیوں کا ازالہ بھی ہوگا۔افغانستان اور پاکستان کو فتنے وفساد سے نہیں بچایا تو کشت وخون ہوگا اسلئے کہ طالبان کے ہمدرد بھی اس مرتبہ زبردست طریقے سے بہت بے دردی کیساتھ نشانہ بنائے جاسکتے ہیں۔
موٹے مولوی نے طالبان سے کہا کہ جہاد کی بڑی فضیلت ہے لیکن میری ٹانگیں کام نہیں کررہی ہیں۔ حالانکہ اس کی ڈگی میں طالبان بارود بھر کر خود کش کرواسکتے ہیں۔ جب تک سہولت کاری کے نتائج نہ بھگتنے پڑیں ظالم اورسہولت کار بے گناہوں کو نشانہ بنائیںگے۔ فوج اچھے اور بروں کے علاوہ وفادار آلۂ کار اور اغیار کے آلۂ کارمیں تمیز نہیں کرسکتی اسلئے کچھ لوگ رکھنے پڑتے ہیں۔ جب عوام کی طرف سے فیصلہ ہوگا کہ گندے کرداروں کو ہم نے نہیں چھوڑنا ہے تو ریاست بھی کسی آلۂ کار کو ٹھکانے دینے کی مجبوری سے باز آجائے گی۔ رضیہ محسود صحافی نے سکولوں اور ہسپتالوں کی بحالی کیلئے آواز اٹھائی تو قوم پرست بہت برا مان گئے۔ ان کی تقریر کو بھی نشر نہیں کیا۔ قدرت نیوز مختلف قسم کا موادنشر کرنے میں دیر نہیں لگاتی ہے لیکن خاتون صحافی کی مثبت باتوں کو بھی سنسر کردیا ہے۔
شہبازگل اور علی وزیر کی بات میںفرق تھا۔ منظور پشتین اور علی وزیر کی تقریر میں بھی تضاد ہے۔ تضادات کو دور کئے بغیر دوسروں کو تنقید کا نشانہ بنانا سب سے آسان کام ہے۔ خطرناک یہ ہے کہ ریاست ظلم کرے اور مفتی جواز فراہم کرے لیکن اسکے خلاف آواز نہ اٹھائی جائے اور اس سے زیادہ خطرناک یہ ہے کہ جب مولوی حضرات ریاست کی سپورٹ کے بغیر اسلام کی غلط تشریح سے معاشرے کے اندر کمزورعورت کو کمزور تر کردیں اور طاقتورمرد کو مزید ناجائز طاقتور بنادیں اور اس پر خاموشی ہو تو کوئی تنظیم اپنے نام ونمود اور اللے تللے کیلئے کام کرے تو کرے لیکن یہ دعویٰ کرنے کا حق نہیں کہ وہ عوام میں شعور اجاگر کرنے کی خدمت کررہی ہے۔ کامیابی کادعویٰ تو دور کی بات، خدشہ یہ ہے کہ آج بلوچ خواتین اور لڑکیاں مسنگ پرسن کیلئے پنجابی اور پختونوں کیساتھ کھڑی ہیں کلPTMکے رہنماؤں کیلئے ان کی خواتین اور لڑکیاں مسنگ پرسن کیلئے کھڑی ہوں گی۔ پشتو فلموں کی فحاشی کے سین پنجاب میں بھی مشہور تھے۔ بلوچ سینما کو بلوچی فلم چلانے پر آگ لگاتے تھے۔ بلوچ قوم پرست وطن کو آزاد نہ کراسکے لیکن لڑکیوں کو دنیا کے سامنے لاکھڑا کیا ۔ بلوچ پہاڑوں میں لڑ یں تولڑکیوں کی مجبوری ہے کہ مسنگ پرسن کیلئے نکلیں ۔ علی وزیر نے صرف ایک بار دھمکی دی کہ میں بندوق اٹھاؤں گا لیکن پھر ا س کے وکیل نے کہا کہ تقریر کا ترجمہ غلط کیا ۔ غلط بیانی سے معافی مانگنا بہتر ہے۔ اسلام کی درست تشریح سے ریاست، مولوی، دہشتگرد،قوم پرست اور سب نمونے اپنی اپنی جگہ پر درست ہوسکتے ہیں۔ عمار علی جان جیسے قابل اور غیرمتعصب لوگ اپنا قبلہ درست کرکے اچھا کردار اداکرسکتے ہیں۔ عمار جان کی یہ بات غلط ہے کہ ”ریاست نے میڈیا پرسنسر شپ لگایا کہ سیلاب کے معاملات کی جگہ جی ٹی روڈ کی سیاست میں عمران خان، شہباز گل ، نوازشریف اور مریم نواز کے گرد خبروں کا فوکس رکھا جائے”۔ عوام سندھ کے سیلاب متأثرین ، پختونوں اور بلوچوں کے دھرنوں سے زیادہ اداکارہ ایان علی کی عدالت میں کیٹ واک کو دیکھنا چاہتی تھی تو ریٹنگ سے میڈیا کو اشتہارات کے ریٹ ملتے ہیں اور دنیا پیٹ اور جنسی خواہش پر جی رہی ہے۔باقی قبروں کی طرح دنیا میں بھی سب کا اپنا اپنا معاملہ ہے۔حقیقی اسلام کیلئے لوگ اپنے مفاد کیلئے اٹھیں گے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

فرقہ وارانہ دلائل کی یک طرفہ وکالت سے معاملہ پیچیدہ بنا مگر حل نہیں ہوسکا۔

فرقہ وارانہ دلائل کی یک طرفہ وکالت سے معاملہ پیچیدہ بنا مگر حل نہیں ہوسکا۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

شیعہ سمجھتے ہیں کہ وہ خود کچھ بھی ہیں لیکن انکے بارہ ائمہ اہل بیت بنوامیہ وبنوعباس کے ادوار میں بھی مظلوم تھے اور خلافت راشدہ کے دور میں بھی انکے ساتھ ظلم وزیادتی ہوئی ہے!
جب شیعہ کے وہ موٹے موٹے دلائل منبر ومحراب پر بیان ہوں جن سے صرفِ نظر ممکن بھی نہیں تو اہل تشیع کی شدت میں خاطر خواہ کمی آئیگی اور اتحاد واتفاق کی راہ بھی ہموارہوگی
جب سنی اپنی اصلاح کریں اور شیعہ کو چھوڑ دیں تو دنیا میں خلافت کانظام قائم کرنے کے اہل بن جائیںگے۔پھر شیعہ بھی صحابہ کرام کا پیچھاچھوڑکر اپنی اصلاح کرنے لگیںگے!

علی سے یہودی نے سوال کیا کہ تمہارے نبی (ۖ) کا انتقال ہوا تو غسل دینے ،کفنانے اور دفنانے سے پہلے تم جانشینی پر لڑے اور فتنے کا خدشہ پیدا ہوا ؟، تفریق وانتشار کے اختلاف کا کیا جواز تھا؟۔ اس پر ذرا بھی شرمندگی کا احساس نہیں ؟۔ حضرت علی نے تاریخی جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ ہمارا فروعی مسئلے پر اختلاف ہے۔ اولی الامر کیساتھ اختلاف کی گنجائش اللہ نے رکھی ہے۔ خلافت کا مسئلہ عقیدے کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ انتظامی مسئلہ ہے جس میں اختلاف کی گنجائش بھی ہے لیکن تمہارے تو ابھی دریائے نیل سے پیر بھی خشک نہیں ہوئے تھے کہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیھماالسلام کی موجودگی میں سامری کی سازش سے بچھڑے کو اپنا معبود بنالیا۔ جس پر یہودی بہت زیادہ شرمندہ ہوگیا تھا۔
آج ہم نے اپنے عقیدے ومسلک کا دفاع نہیں کرنا بلکہ اپنی اصلاح کرنی ہے۔ اقبال نے کہاکہ” علماء و مشائخ کا احسان ہے کہ ہم تک دین اسلام پہنچایا مگر جس اللہ نے جبرائیل کے ذریعے حضرت محمدۖ پر یہ دین نازل کیا تھا جب وہ اس کی حالت دیکھیں گے تو حیران ہوں گے کہ کیا یہ وہی اسلام ہے؟۔
یہ انتہائی خطرناک ہے کہ اپنی اصلاح کی بجائے دوسروں کا کردار بھیانک پیش کرکے اپنی غلطی پر پردہ ڈالا جائے۔ بارہ ائمہ اہل بیت کی بدولت شیعہ بہتر ہوتے مگر بے جا تنقید نے ان کو دنیا کے سامنے تماشا بنادیا ہے۔ رسول اللہ ۖ کی وفات پر انصار کے سعد بن عبادہ نے اپنا لشکر جمع کرکے نبیۖ کا جانشین بننے کا اعلان کرنا تھا تو یہ درست تھا؟ اور اس کی وجہ سے بعد میں بھی حضرت سعد بن عبادہ نے کبھی حضرت ابوبکر و عمر کے پیچھے نماز تک نہیں پڑھی۔ کیا یہ ٹھیک تھا؟۔ حالانکہ حضرت سعد بن عبادہ السابقون الاولون کی پہلی صف میں کھڑے تھے۔ تبلیغی جماعت کے بانی مولانا محمد الیاس کے بیٹے مولانا محمد یوسف نے اپنے وفات سے تین دن پہلے ”اُمت پن” کے نام سے اتحاد امت کیلئے آخری تقریر کی تھی جس میں انتہائی دردناک اور غم آمیز لہجہ ہے۔ اس میں سعد بن عبادہ کے کردار کا ذکر ہے جس نے امت میں توڑ پیدا کرنے کی کوشش کی تھی اسلئے ان کو جنات نے قتل کردیا، جب اللہ نے صحابی پر رحم نہیں کیا تو امت میں انتشار پیدا کریںگے تو ہماری خیر ہوگی؟۔ مولانامحمد یوسف کی یہ تقریر بہت مشہور ہے۔
سوال یہ ہے کہ جب رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ قلم اور کاغذ لیکر آؤ ۔ میں تمہیں ایسی چیز لکھ کر دیتاہوں کہ میرے بعد تم گمراہ نہ ہوجاؤ۔ حضرت عمر نے کہا کہ ہمارے لئے قرآن کافی ہے۔ (صحیح بخاری ) اگر انصار نے اپنی خلافت کیلئے ایک مجلس کا اہتمام کیا اور حضرت ابوبکر و عمر نے وہاں پہنچ کر اپنا مؤقف پیش کیا کہ ” خلافت قریش کا حق ہے اور نبی ۖ نے فرمایا: الائمة من القریش (امام قریش میں سے ہوں گے)” ۔ توسوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر نبیۖ نے مجمع عام میں یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح کردینی تھی۔ جب نبیۖ کی وصیت لکھوانے کی ضرورت نہیں تھی اور قرآن کافی تھا تو پھر یہ حدیث انصار مان سکتے تھے؟۔ لیکن انصار کی اکثریت نے بات مان لی اور حضرت ابوبکر سے ہنگامی بنیاد پر بیعت قابلِ قبول قرار دے دی گئی۔ صحابہ کرام نے نبیۖ کی تدفین پر خلیفہ مقرر کرنے کا مسئلہ مقدم کردیا لیکن وہ خود فرماتے ہیں کہ ابھی قبر کی مٹی ہمارے ہاتھوں میں تھی کہ خود کو فتنوں میں مبتلا محسوس کررہے تھے۔حضرت علی و ابن عباس اور کچھ دیگر صحابہ نے بھی اس اقدام کو ناگوار سمجھا کیونکہ عام قریش کے مقابلے میں اہل بیت کو زیادہ حق دارسمجھتے تھے۔ اہل بیت کے فضائل کی احادیث بھی ہیں اور ابوسفیان نے بھی علی سے کہا تھا کہ اگر آپ چاہو تو ابوبکر سے یہ مسند چھین لیتے ہیں لیکن علی نے نہیں مانا۔ پھر حضرت ابوبکر نے حضرت عمر کو خلیفہ نامزد کردیا اور حضرت عمر نے خلافت کیلئے جو شوریٰ بنائی تھی اس میں ایک بھی انصاری نہ تھا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حضرت عثمان کا 40دنوں تک محاصرہ ہوا۔ پانی پہنچانے میں رکاوٹ اور نماز کیلئے نہیں جاسکتے تھے۔ حضرت علی نے کوفہ کو دارالخلافہ بنالیا ۔
پاکستان میں محمد علی جناح، لیاقت علی خان ،محمد علی بوگرہ، خواجہ نظام الدین ، حسین شہید سہروردی اور سکندر مرزا کا تعلق ہندوستان یا بنگال سے تھا۔فیروز خان نون اور ایوب خان کا تعلق پنجاب و پختونخواہ سے تھا۔ 75سالوں سے جو پاکستان کیساتھ ہوا اورسواچودہ سو سال سے جو اسلام کیساتھ ہوا، دونوں کی کہانی ایک ہے۔ قرآن میں انصار ومہاجرین کے مقام ومرتبہ میں فرق نہیں تھا مگر جس طرح سامری نے بچھڑے کو معبود بناکر حضرت موسیٰ وہارون کی موجود گی میں بنی اسرائیل کو آزمائش میں ڈال دیا اور اس کی وجہ سے حضرت موسیٰ نے پیغمبر بھائی حضرت ہارون کو داڑھی اور سر کے بالوں سے پکڑ لیا۔ اسی طرح سقیفہ بنی ساعدہ کی میٹنگ نے صحابہ کرام میں ایک وسیع تر مشاورت کا موقع گنوادیا تھا۔
فتح مکہ سے پہلے اور بعدکے صحابہ کرام میں قرآن وسنت نے فرق رکھا تھا۔ 30سالہ خلافت راشدہ کے بعد فتح مکہ سے پہلے مسلمان ہونے والے حضرت حسن و حسین اور دوسرے صحابہ کی موجودگی میںفتح مکہ کے بعد مسلمان ہونے والے امیرمعاویہ نے اقتدار پر قبضہ کیا۔ حضرت علی کیلئے باقاعدہ بیعت غدیر اور پھر حدیث قرطاس سے انحراف کا معاملہ سنی شیعہ کے درمیان متنازع فیہ ہے۔بنوہاشم پر حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان کی ترجیح پہلا مرحلہ تھا لیکن اس وقت خاندانی بنیاد پر قبضہ نہ تھا۔ بنوامیہ کے بعد بنوعباس واہل بیت کے درمیان ترجیحات کی بات آئی تو فیصلہ علی ، حسن اور حسین کی اولاد کے حق میں نہیں ہوابلکہ بنوعباس کے حق میں ہوا۔ دلیل یہ دی گئی کہ حضرت عباس نبیۖ کے چچا اور علی چچازاد تھے اور چچا کے ہوتے ہوئے چچا زاد وارث نہیں بن سکتا ہے۔ لیکن یہ بھی نہیں دیکھا گیا کہ پھر حضرت ابوبکر، عمر، عثمان اور بنوامیہ کا کیا بنے گا جو چچا تھے اور نہ چچازاد تھے؟۔ پھر جب سلطنت عثمانیہ قائم ہوگئی تو قریشی کی شرط بھی نظرانداز کی گئی تھی۔
اگر غدیر خم پر علی کی بیعت کا لحاظ رکھا جاتا۔ صحیح مسلم کی حدیث کے مطابق قرآن کیساتھ دوسری بھاری چیز اہل بیت کو تھام لیا جاتا جس کی وضاحت ہے کہ اہل بیت سے ازواج مطہراتیہاں مراد نہیں تو بھی بات ہوتی، حدیث قرطاس لکھنے دی جاتی تو بھی معاملہ بن جاتا۔ خلافت راشدہ کے دور میں عثمان کی تخت خلافت پر شہادت ، علی کا دارالخلافہ چھوڑ دینا اور پھر بنوامیہ وبن عباس کا خاندانی بنیاد پر قبضہ کرنا بالکل بھی معقول بات نہیں تھی لیکن بعد میں جب سلطنت عثمانیہ، مغلیہ سلطنت، بادشاہوں ،خانقاہوں ،مدارس ، درگاہوں اور جماعتوں کی روش بھی موروثی بن گئی تو ایک طرف خلافت راشدہ سے زیادہ بنوامیہ کا دفاع کیا گیا اور دوسری طرف خلافت راشدہ پر ایمان کو متزلزل کردیا گیا۔ حالانکہ ایران میں امام آیت اللہ خمینی کے بعد اس کی اولاد کوجانشین نہیں بنایا گیا۔ جب اہل بیت کے چھٹے امام جعفر صادق کی اولاد اورماننے والوں میں انکے بڑے بیٹے اسماعیل اور چھوٹے بیٹے امام موسیٰ کاظم کے درمیان خلافت کے مسئلے پر اختلاف ہوا تھا تو شیعہ دو گروہوں میں تقسیم ہوگئے۔ اسماعیلی شیعہ جماعت خانے میں نماز کو ممنوع قرار دیتے ہیں اور اثناعشریہ کی جگہ سنی مکتبۂ فکر کی مساجد میں نماز پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ جب امام جعفر صادق کو اقتدار نہیں ملا تھا تب بھی ان کے انکے پیروکار اور اولاد تقسیم ہوگئے تو پھر صحابہ کیلئے بھی ان کو نرم گوشہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ جب علی، حسن، حسیناور دیگر ائمہ اہل بیت کے قریبی ساتھیوں سے شیعہ خوش نہیں تھے تو نبیۖ کے ساتھیوں سے بھی خوش نہیں ہوسکتے ہیں۔
ہمیں ایک نکتہ سمجھانے کی کوشش کرنی چاہیے کہ جب ائمہ اہل بیت کو مظلوم سمجھنے کے باوجود بھی اہل تشیع کا ایک بڑا طبقہ اپنے ہی دوسرے طبقے کو مشرک اور نصیری کہتا ہے تو پھر اگر ان کو خلافت ملتی تو سبھی نصیری بن جاتے۔ جس پیریڈ میں بنی اسرائیل بچھڑے کو معبود بنانے سے گمراہ ہوگئے تھے تو اس میںوہ حضرت ہارون کی صحبت میں تھے۔ حضرت موسیٰ نے ان کو مشرک بنتے دیکھ کر حضرت ہارون کی داڑھی اور سر کے بالوں سے پکڑلیا تھا۔قدرت نے مہربانی کی کہ امت مسلمہ کی تقدیر میں شرک کی جگہ تفریق کا بیج بودیا تھا۔نبیۖ نے فرمایا کہ کسی قسم کا عذاب امت پر نہیں آئے گا لیکن آپس کی تفریق وانتشار سے بچانے کا اللہ نے وعدہ نہیں کیا ہے۔ تبلیغی جماعت کے مرکز بستی نظام الدین انڈیا میں مولانا الیاس کے پڑپوتے مولانا سعد اور رائیونڈ کے درمیان بھی انتشار ہے اور مولانا حق نواز جھنگوی کے بیٹے کو بھی سپاہ صحابہ نے سائیڈ لائن پرلگادیاہے۔
حضرت علی نے فرمایا تھا کہ ” مور مرغ کی طرح مورنی پر چڑھتا ہے” لیکن مور حرام ہے یا حلال ہے؟۔ اس پر شیعہ اثناعشریہ کے مجتہدین کا اتفاق نہیں ہے اور دونوں اپنی اپنی روایات ائمہ اہل بیت کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ بہت سارے دیگر مسائل وفرائض میں بھی اہل تشیع میں حلال وحرام اور جائز وناجائز کا اختلاف ہے۔ حالانکہ تین سو برس تک ائمہ اہل بیت کا سلسلہ موجود تھا۔ سنی مکتبۂ فکر کے ائمہ بھی اہل بیت کے شاگرد تھے۔ ایک دوسرے پر تنقید کے نشتر چلانے سے زیادہ اپنی اصلاح اور حقائق کی طرف رُخ کرنے سے معاملہ بنے گا۔ جب خمینی کے بعد ایران میں جمہوریت ہے اور نبیۖ کے بعد خلافت راشدہ نے جمہوری انداز میں خلفاء مقرر کئے تھے تو اس پر بات ہوسکتی ہے کہ کونسی جمہوریت بہتر ہے اور کونسی بہتر نہیں ہے لیکن جمہوری نظام کے ذریعے بیعت خلافت سے معاملہ حل ہوسکتا ہے۔ مذہبی جماعتوں ، مدارس اور خانقاہوں نے دو دو انچوں کے گھروندے بناکر اپنے بال بچوں کی روزی کا بندوبست کر رکھا ہے اور ہر فریق اپنے عیش وعشرت اور اللے تللے پر خوش ہے لیکن امت مسلمہ کی اجتماعیت کی کوئی بھی فکر نہیں کرتا ہے۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ ” اہل غرب ہمیشہ حق پر رہیں گے ”۔ (صحیح مسلم)۔ امریکہ میں جمہوری نظام کے ذریعے سے بارک حسین اوبامہ ایک سیاہ فام اجنبی مسلمان کا بیٹا دو مرتبہ صدر بن سکتا ہے۔ لندن کا میئر ایک پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور کا بیٹا بن سکتا ہے تو حق کی روایت اسلام نے دنیا میں ڈالی تھی جب بڑے بڑے سرداروں سے سیدنابلال حبشی کا مقام بڑا تھا۔
پاکستان نے جنرل ایوب خان سے پہلے میر جعفر کے پڑپوتے سکندر مرزا سے پہلے جن لوگوں کو اپنا حکمران تسلیم کیا وہ بھی بڑی قربانی اور اچھائی تھی اور پھر ایوب خان سے پرویزمشرف تک فوجی حکمرانوں اور انکے کٹھ پتلی سیاستدانوں کو آج تک برداشت کررہے ہیں تو بھی بڑی بات ہے لیکن اب عوام کے جم غفیر کو نکل کر خانقاہوں سے رسم شبیری ادا کرنا ہوگی۔ بیعت کے ذریعے سے سچوں کو پارلیمنٹ تک پہنچانا ہوگا ۔ اللہ نے حکم دیا کہ یا ایھا الذین اٰمنوا اتقوا اللہ و کونوا مع الصادقین ”اے ایمان والو! اللہ کیلئے تقویٰ اختیار کرو اور سچو ں کیساتھ ہوجاؤ”۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے جھوٹے اور سچوں میں تفریق کرنا اب کوئی مسئلہ نہیں رہاہے۔ نبیۖ نے اقتدار پر قبضہ نہیں کیا تھا، کسی سے زبردستی سے زکوٰة نہیں لی تھی اور نہ کسی کو زبردستی سے نماز پڑھنے پر مجبور کیا تھا اور افغان طالبان نے بھی ملاعمر کے وقت سے اپنے اندر بہت تبدیلی پیدا کرلی ہے اور اب مزید بھی بدلنے میں زیادہ دیر نہیں لگائیںگے۔ انشاء اللہ العزیز۔
پاکستان کا ماحول ، ریاست، علماء ومشائخ اور سیاستدان وسیاسی کارکن اور عوام دنیا بھر میں بہت زبردست اور الگ تھلگ ہیں۔ یہ سبھی امامت کے حقدار ہیں لیکن اب بہت نااہل بھی بن گئے ہیں۔JUIکے سابق سینٹر صوبائی امیر مولانا گل نصیب خان نے کہا کہ ” مولانا فضل الرحمن نے اسرائیل مردہ باد کا نعرہ لگایا ہے اسلئے مسلمان نہیں رہا۔ اسرائیل یعقوب کا نام تھا”۔جن چرواہوں اور نوابزادوں کو جمعیت میں شامل کیا گیا پھر ان کا کیا ہوگا؟، ذرا سوچئے توسہی!۔
یزیدکے دور میں شہداء کربلا کیساتھ کیا ہوا تھا؟۔ اور خان عبدالقیوم نے بھی بابڑہ میں ایک کربلا برپا کیا تھا۔ روس کی مخالفت کے نام پر پیسے لیکر مجاہد پیدا کئے اور امریکہ سے پیسہ لیکر مجاہدین کو سپرد کیا۔ بیرونِ ملک جائیدادیں بنائیں۔ اب سو چوہے کھا کر بلی حاجن بن گئی ہے۔ کہیں لگڑ بگاکے شکار نہ ہوجائیں۔ وقت کی مہلت سے فائدہ نہیں اٹھایا جاتاہے تو ”لمحوں نے خطاء کی ہے صدیوں نے سزا پائی ” کے مصداق بھی بن سکتے ہیں۔ اگر فتح مکہ کے بعد صحابہ کرام مقدس تھے تو فتح مکہ سے پہلے تھوڑے لوگوں کی وجہ سے سب اچھے بن گئے۔ پاکستان کا تھوڑا اشرافیہ ٹھیک نہیں، عوام اور اداروں کی اکثریت بڑی اچھی ہے اور جب خوشگوار انقلاب آجائے گا تو پوری دنیا کی کایا بھی پاکستانی پلٹ دیں گے اور افغانستان، ایران، بنگلہ دیش اپنے بلاک کا حصہ بنیںگے اور عرب ہمارا ساتھ دیں گے۔ ہندوستان دوستی سے مسلمان ہوجائیگا اور روس نظام سے دوست بن جائیگا۔ کچھ اچھاکرکے ہی اچھا بن سکتے ہیں۔ سب سے پہلے ملک اور غریب کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنا ہوگا۔اسلام کی یہی خوبی سب سے زیادہ دنیا کیلئے قابل قبول ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

جیسے دوسرے مذاہب مسخ کردئیے گئے اسی طرح اسلام بھی مسخ کردیا گیا۔

جیسے دوسرے مذاہب مسخ کردئیے گئے اسی طرح اسلام بھی مسخ کردیا گیا۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

اسلام کی ایسی حالت مولوی نے کردی جیسے لاوڈ اسپیکر پر خراب سبزی اور پھل ریڑی پر بیچنے کی ہوتی ہے کہ کچھ لاچار وغریب لوگ اسکے خریدار ہوتے ہیںمگراور کوئی نہیں پوچھتا

تازہ پھل خوش رنگ، خوش ذائقہ اور صحت بخش ہوتے ہیں لیکن جب ان کا حلیہ بگاڑ دیا جائے، باسی ، بدرنگ اور بدذائقہ ہوجائیں تو وہ مضر صحت بن جاتے ہیں۔ فیروز بھائی نے بتایا کہ بھارت میںان کا گاؤں غریب تھا، سبزی والا پکارتا تھا کہ خراب سبزی لے لو۔ آج مختلف فرقوں، جماعتوں، مسلکوں اور دانشوروں کا اسلام انسانوں کیلئے قابلِ التفات نہیں ۔ایک مولوی نے گاؤں میں نمازِجمعہ کی تقریر کرنے سے گریز شروع کردیا۔ عربی خطبہ پڑھ لیتا تھا، پہلے لوگ خوش تھے کہ جلد جان چھوٹ جاتی ہے لیکن پھر ان میں مولوی صاحب کی سریلی آوازنے تشنگی کا احساس پیدا کردیا۔ ہاتھ جوڑ کر لوگوں نے فرمائش کی کہ مولوی صاحب کچھ ہمیں بتائیں، وعظ کریں، نصیحت کریں،ہماری تعلیم وتربیت کریں۔ جب مولوی صاحب نے دوبارہ منبر پربیٹھ کر تقریر کرنیکا فیصلہ کیا تو جمعہ کے دن عوام سے مسجد کھچاکھچ بھر گئی۔ مولوی صاحب کے دل ودماغ پر یہ بات چھاگئی تھی کہ یہ لوگ مردہ ضمیر بن چکے ہیں۔ ان کی آنکھیںہیں مگر اس سے دیکھتے نہیں۔ انکے کان ہیں مگر ان سے سنتے نہیں۔ ان کے دل ہیں مگر اس سے سمجھتے نہیں۔ ان کی مثال جانوروں کی بن چکی ہے بلکہ ان سے بھی یہ لوگ بدتر حالت پر پہنچے ہیں۔ چنانچہ مولوی صاحب نے جب تقریر شروع کی تو لوگ ورطہ حیرت میں پڑگئے۔ فرمایا : حاضرین مجلس! میری بات غور سے سن لو!۔ دوسروں تک بھی میرایہ پیغام پہنچادو۔ آج کے بعد زنا کرو، قوم لوط کا عمل کرو، قوم ثمود اور قوم عاد کا عمل کرو۔ جو غلط کام جی میں آئے ،بالکل بلاسوچے سمجھے کر گزرو۔ چوری ، ڈکیتی، قتل، رشوت اور جس گناہ کا بس چلے تو موقع ہاتھ سے مت جانے دو۔ مولوی نے وہ ایک ایک برائی گن گن کر اس پر عمل کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے اپنی تقریر ختم کی تو لوگ بہت حیران تھے۔ نمازِ جمعہ کے بعد لوگوں نے پوچھا کہ آج آپ کو کیا ہوا تھا کہ ساری باتیں الٹ کررہے تھے؟۔ مولوی نے کہا کہ تمہیں معلوم تھا کہ یہ سب باتیں غلط ہیں؟۔ انہوں نے کہا کہ بالکل ۔ کچھ تو پہلے سے پتہ تھیں اور کچھ آپ سے سنی تھیں کہ غلط ہیں۔ مولوی نے کہا کہ پھر تمہارا عمل کیا تھا؟۔ انہوں نے کہا کہ ہم ان سب منکرات میں ملوث ہیں۔ مولوی صاحب نے کہا کہ جب آپ کو سب معلوم ہے اور منع نہیں ہوتے تو خوامخواہ مجھے کیوں بھونکواتے ہو؟۔
جب انسانوںپر برائی کے کاموں سے موت کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے تو اللہ بھی قرآن میں کبھی بنی اسرائیل سے فرماتا ہے کہ ” اپنے نفسوں کو قتل کرو”۔ کبھی قرآن کے مخالف دشمنوں سے فرماتا ہے کہ ” اپنے غصے کے سبب مرجاؤ”۔ انسانی ضمیر مردہ ہوجاتا ہے تو اس کو جگانے اور بیدار کرنے کیلئے حکمت عملی سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ اسلام نے انسانوں کو جان ، مال اور عزت کا تحفظ دیا ہے لیکن جب اسلام پر عمل نہیں ہوگا تو جان ، مال اور عزت کو تحفظ نہیں مل سکتا ہے اور آج کشمیراور فلسطین کے مسلمانوں کی بات صرف نام کی حد تک ہے۔ مسلمان دہشتگردوں سے مسلمانوں کی جان ، مال اور عزتوں کو تحفظ حاصل نہیں تو امریکہ کے افغانستان، عراق، لیبیا اور شام کی کاروائی پر کیا ماتم کیا جائے؟۔سراج الحق کہتا ہے کہ سود کو اللہ نے اپنی ماں سے 36مرتبہ زنا کے برابر گنا ہ قرار دیا ہے۔
لاہور کے مولانا محمد مالک کاندھلوی نے کہاتھا کہ ” جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء اسلام کے مطابق ہے۔ پہلا مارشل لاء حضرت ابوبکر صدیق نے لگایا تھا”۔ حضرت ابوبکر صدیق نے جبری زکوٰة لینے کا حکم نافذ کیا تھا اور چاروں فقہی ائمہ امام ابوحنیفہ، امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل نے جبری زکوٰة کو ناجائز قرار دیا لیکن جبری نماز پڑھانے کو فرض قرار دیا۔ جنرل ضیاء الحق نے زکوٰة کے حکم پر عمل کو زندہ کیا یا اس کو مزید ملیامیٹ کرکے رکھ دیا؟۔ جب جنرل ضیاء الحق نے بینکوں سے زکوٰة کی کٹوتی کا حکم جاری کیا تو اہل تشیع نے احتجاج کیا جس کی وجہ سے شیعہ کے اکاؤنٹ سے زکوٰة کی کٹوتی روک دی گئی اور پھر ایسے دیوبندی عالم کو بھی ہم جانتے ہیں جس نے اپنی بیگم کو جھوٹ سے شیعہ لکھ کر اکاونٹ کھولا، تاکہ اس کی زکوٰة نہیں کٹے۔ شیعوں کی اس تحریک سے لوگوں نے سمجھا کہ شاید وہ زکوٰة کے منکر ہیں۔ حالانکہ زکوٰة کے منکر کو کون مسلمان سمجھ سکتا ہے؟۔
اسلام کے اجنبی بننے کی کہانی تو بہت پہلے شروع ہوئی تھی۔ جن ائمہ فقہ نے حضرت ابوبکر صدیق سے جبری زکوٰة پر اختلاف کیا اور نماز کیلئے جبری تصور گھڑ لیا وہ ہدایت کے مقابلے میں گمراہی کی بڑی سیڑھی پر چڑھ گئے تھے۔ جنرل ضیاء الحق اور اس کی تائید کرنے والے مفتی محمد تقی عثمانی ومفتی محمد رفیع عثمانی نے اسلام کو اجنبیت کی آخری حد تک پہنچانے میں زبردست کردار ادا کیا۔ سود اور زکوٰة ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ 10لاکھ کی رقم پر سالانہ 25ہزار زکوٰة بنتی ہے۔ اور اگر 10لاکھ پر بینک سے ایک لاکھ سود ملے تو یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے کی بالکل اُلٹ اور ضد ہیں۔ جنرل ضیاء الحق نے جب بینکوں سے زکوٰة کی کٹوتی کا حکم جاری کیا تو 10لاکھ پر ایک لاکھ سود کی رقم ملتی تھی اور 25ہزار زکوٰة کے نام سے کٹتے تھے۔ نتیجے میں اصل رقم 10لاکھ اپنی جگہ پر محفوظ رہتی تھی اور 75 ہزار مزید سود کی رقم بھی ملتی تھی اسلئے زکوٰة کی ادائیگی کی جگہ سود میں تھوڑی کمی تھی۔
ایک پانچویں جماعت کے بچے اور ان پڑھ شخص کو بھی یہ معاملہ سمجھ آسکتا تھا اور مفتی اعظم پاکستان مفتی محمود نے مفتی تقی عثمانی اور مفتی رفیع عثمانی کو سمجھایا بھی تھا لیکن جب انسان کے دل ودماغ پر مفادات کے پردے پڑجائیں تو اس کی آنکھیں، کان اور دل سب چیزیں کام کرنا چھوڑدیتی ہیں اسلئے کہ دماغ میں اپنا مفاد اٹکا ہوا ہوتا ہے۔ کہاں حضرت ابوبکر کی طرف سے جبری زکوٰة کی ہدایت؟ اور کہاں سود کے نام سے زکوٰة کی کٹوتی اور زکوٰة کی عدم ادائیگی کی بڑی بدترین گمراہی ؟،دونوں مارشل لاء میں آسمان وزمین کا فرق تھا۔ مولانا فضل الرحمن کہتا تھا کہ ”مدارس یہ زکوٰة نہ لیں ، یہ آب زم زم کے لیبل میں شراب کی بوتل ہے”۔
مفتی محمد تقی عثمانی نے کروڑوں روپے ، مدرسے کی لائبریری اور ایک بہت بڑا پلاٹ لیکر فتویٰ جاری کردیاتھا۔ جب بات مالی مفادات کی آتی ہے تو اس پر علم وفہم کے اختلاف کی بات کرنا بھی فضول ہے۔حاجی عثمان ایک بڑے اللہ والے تھے اور ان کے مریدوں کا صاف ستھرا کاروبار تھا لیکن جب مفتی محمد تقی عثمانی نے اس میں یہ گندے پیسے ڈال دئیے تو کاروبار سودی لین دین میں بدل گیا۔ پھر مفتی تقی عثمانی نے ان کے ساتھ مل کر انتہائی بیہودہ اور ناممکن الزامات بھی لگا دئیے تھے۔ پہلے مالدار لوگ زکوٰة کو فرض سمجھ کر ادا کرتے تھے تو غریبوں کو اس کا بہت فائدہ پہنچتا تھا۔ دیندار لوگ بینکوں کا سود بھی علماء کو لیٹرین بنانے کیلئے دیتے تھے۔پھر جب زکوٰة کی ادائیگی بھی نہیں رہی اور حکومت کے مختلف اداروں میں زکوٰة کے نام پر وہ سودی رقم بھی حرام خوری کیلئے استعمال ہونے لگی تو پاکستان سے دینداری کا نام ونشان بھی ایک خول کی طرح رہ گیا لیکن اس میں مغز نہیں رہا۔ اب یہ معاشرہ بے روح وجان لاش کی طرح بن کررہ گیاہے۔
پھر کرائے کے مجاہدین نے روس کے جانے کے بعد افغانستان میں بڑی بدمعاشی اور غنڈہ گردی قائم کی جس کے خلاف طالبان میدان میں آگئے تھے۔ طالبان نے جبری نماز کے فقہی مسئلے پر عمل کرکے جس کو اسلام کی نشاة ثانیہ سمجھ لیا تھا وہ تصور بھی مزید دنیا میں اسلام کا تماشا کرگیا۔ اسی طرح سنگساری کرنے کا مسئلہ دنیا کیلئے بالکل ناقابلِ قبول تھا۔ جس کی وجہ سے طالبان کے مثالی امن کو بھی ایک خوف کی علامت قرار دیا گیا۔ تصاویر پر پابندی بھی دنیا کیلئے عجوبہ تھی۔ زبردستی داڑھی رکھوانے کا عمل بھی تاریخ اسلامی کی پہلی نادر چیز تھی۔ عورتوں پر زبردستی سے شٹل کاک کی پابندی اور بچیوں کی تعلیم پر پابندی بھی ناقابل فہم تھی۔
افغان طالبان نیٹو افواج کے انخلاء اور برسر اقتدار آنے کے بعد اگرچہ کچھ تو بدل گئے ہیں لیکن جدت اور قدامت پسندی کے درمیان پھنسے ہوئے ہیں۔ افغان طالبان اور دارلعلوم دیوبند کے اساتذہ کے درمیان ایک اعتماد کا رشتہ ہے اور پاک فوج سے بھی افغان طالبان کو زبردست مدد ملتی رہی ہے۔ کچھ کم بختوں نے اپنے مفادات اٹھائے اور بے ضمیری کے ریکارڈ قائم کئے لیکن ایسے لوگ ہر معاشرے، طبقے اور جگہ میں ہوتے ہیں۔ جب نیٹو کی سپلائی کراچی سے کابل جاتی تھی تو پاکستان کے حدود میں ان کو زیادہ خطرات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔قطر سے ڈرون اُڑ سکتے ہیں تو قطر سے طالبان کابینہ نے بھی پرواز کرکے افغانستان کے اقتدار تک پہنچنے تک براستہ پاکستان اڑان بھری۔ اسامہ بن لادن پرحملہ کیا گیا تو امریکہ کو پاکستان اپنی سرزمین پر کاروائی سے نہیں روک سکا۔ بھارت نے میزائل چھوڑ دیا تو پاکستان نہیں روک سکا۔ امریکہ کے خلاف جو جنگ طالبان نے افغانستان میں لڑی ہے وہ دراصل پاکستان ہی میں لڑی گئی ہے۔ پاکستان کا ایک ایک فرد سرکاری ،غیر سرکاری، مرد ، عورت، بوڑھا، جوان اور بچہ نے کھل کر طالبان کا ساتھ دیا۔ اس کی سزا بھی قوم نے بھگت لی۔ اب اگر طالبان کوپاک فوج سے لڑایا گیا جس کے بھرپور خدشات ہیں تو پھر اس خطے کے باسی نیٹو لڑائی کو بھول جائیںگے۔ شیروں ، چیتوں، بھیڑیوں اور لگڑ بگھا کی لڑائی میں جنگل کے معصوم جانوروں کی خیر نہیں ہوگی۔ فضائی حملوں اور دہشت گردانہ کاروائیوں میں آبادیوں کو نقصان پہنچانے میں جو ہولناک مناظر ہوں گے اس کا فائدہ انہی قوتوں کو جائے گا جن کا منصوبہ ہے کہ یہاں کے وسائل پر قبضہ جمایا جائے ۔
اسلام دشمن طاقتوں کو سب سے بڑا خطرہ اصلی اسلام سے ہے اور طالبان بھی اصلی اسلام کا نام لینے سے نہ صرف ڈرتے ہیں بلکہ مکمل توبہ بھی کرچکے ہیں اور اصلی اسلام پوری دنیا میں خلافت کے نظام کا قیام ہے۔اغیار دہشت گردوں سے خوف زدہ نہیں بلکہ دہشت گرد پیدا کرتے ہیں۔ دہشت گردی پر مجبور کرتے ہیں تاکہ مسلمان آپس میں لڑ جھگڑ کر عالمی اسلامی خلافت کے قیام سے پہلے نابود ہوجائیں یا اس قابل نہیں رہیں کہ وہ خلافت نافذ کرسکیں۔ ان کے نزدیک دشمنی کی بنیاد یہ ہے کہ مسلمان زبردستی سے اسلام قبول کرنے پر مجبور کریںگے یا جزیہ لیںگے اور اگر ان دونوں باتوں میں سے کوئی بات نہیں مانی جائے تو عورتوں کو لونڈیاں اور مردوں کو غلام بنایا جائیگا۔ جب تک مسلمان اس تصور سے دستبردار نہیں ہوتے ہیں اس وقت تک غیر مسلموں نے اسلام اور مسلمان دشمنی کا تصور قائم رکھنا ہے۔ شیعہ سمجھتے ہیں کہ برمودہ ٹرائی اینگل سے امام مہدی غائب برآمد ہوں گے اور وہ اصلی اسلام کو دنیا میں نافذ کریںگے اور سنی سمجھتے ہیں کہ کوئی عام مسلمان خلافت قائم کرکے امام مہدی کا کردار ادا کریںگے۔ اغیار نے یہ تصور نوٹ کرلیا ہے اور شیعہ سنی تفریق کے علاوہ ممالک ، علاقوں ، قوم پرستی اور مختلف بلاکوں میں بٹے رہنے کو غنیمت سمجھ رکھا ہے۔ اگر چہ کسی بھی ملک میں خلافت کے قیام کی ہمت نہیں ہے اور ترکی وغیرہ نے اسرائیل تک کو تسلیم کیا ہے لیکن طالبان کو تسلیم کرنے سے بھی اسلامی ممالک کتراتے ہیں اور طالبان کو بھی مسلم ممالک سے زیادہ اغیار کے تسلیم کرنے کا فائدہ لگتا ہے۔ جب طالبان کو سعودی عرب، عرب امارات اور پاکستان نے تسلیم کیا تھا تب بھی امریکہ ونیٹو نے کیا حشر کیا؟۔ عراق ولیبیا، شام ویمن اوردیگر ممالک کا کیا حشر ہوا؟۔ پاکستان کٹھ پتلی کی طرح استعمال ہوا لیکن پھر بھی کیا حشر ہوا؟۔ اگر دیکھا جائے تو اسلامی ممالک کی عوام کو بھی اسلامی نظام سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ طالبان اس خوف سے انتخابات بھی کرانے کو تیار نہیں ہیں۔ پاکستان میں مذہبی پارٹیاں اپنے اسلام کو چھوڑ جائیں تو بھی عوام کیلئے ان کا کردار قابلِ قبول نہیں ۔ عورت کی آواز کو پردہ کہنے والوں کی خواتین کو قومی اسمبلی کی مخصوص نشستوں اور ٹی وی اسکرین پر دیکھ کر طالبان کو عبرت پکڑنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں اب بھی علماء خود کو محکوم سمجھتے ہیں۔ جب سود کے طاغوتی نظام کے خلاف ناکامی ہوئی تو سود کو اسلامی قرار دے دیا۔
امت مسلمہ پر پوری دنیا میں موت کی سی کیفیت طاری ہے۔ ان میںروح دوڑانے کیلئے ایسے اقدام کی ضرورت ہے کہ جس سے ان میں زندگی کی رمق دوڑ جائے۔ انڈوں کو مہینوں، سالوں اور صدیوں محفوظ کرکے رکھ لو تو وہ مردہ ہی رہیں گی لیکن جس دن اس کو مطلوبہ حرارت مل جائے اور پھر اس کو مسلسل قائم بھی رکھا جائے تو ٹھیک 21دن بعد چلتے پھرتے ، کھاتے پیتے اور دوڑتے ہوئے چوزیں دکھائی دیں گے۔ جن برائیوں کا پتہ ہونے کے باوجود بھی لوگ اس کے مرتکب بنتے ہیں تو وہ وعظ ونصیحت اور تلقین وتقریر سے نہیں نظام بدلنے سے رک سکتے ہیں۔ حلالہ ایک ایسی لعنت ہے کہ جو پوری دنیا کے کسی مذہب، ملک اور قوم کیلئے قابل قبول نہیں لیکن طالبان کے اساتذہ اس کے مرتکب ہیں۔ جب فیصلہ ہوجائے کہ حلالے کا تصور غلط ہے اور قرآن نے حلالے کے بغیر رجوع کو واضح کیا ہے تو اُمت میں زندگی کی حرارت پیدا ہوجائے گی اور پھر عورت کے حقوق کے حوالے سے سب چیزیں اجاگر ہوں گی تو امت مسلمہ اٹھ کھڑی ہوگی۔
ڈاکٹر اسرار احمد نے کہا کہ جنرل پرویز مشرف نے 9/11کے 5دن بعد 16ستمبر 2001کو علماء و مشائخ اور صحافیوں کو بلایا تو مجھے بھی دعوت دی۔ میں نے کہا کہ(1) جب تک طالبان پر جرم ثابت نہ ہو تو ان کو سزا دینا غلط ہے۔ یہی بات دوسروں نے بھی کی تھی۔ (2) امریکہ کے کہنے پر ہم نے طالبان کو بنایا ۔ وہ بینظیر کا دور تھا اور نصیر اللہ بابر وزیر داخلہ تھے۔ تو اب ہمارے لئے یہ بے غیرتی بھی ہے کہ ان کے کہنے پر طالبان سے لڑیں۔ (3) یہ اسلام کے خلاف ہے کہ مسلم ملک پر غیر مسلم کا اتحادی بن کر لڑیں۔ پرویز مشرف نے کہا کہ امریکہ ہمیں کشمیر دلادے گا اور ایٹمی پروگرام میں مدد کرے گا۔ میں نے کہا یہ ٹھیک ہے لیکن امریکہ کے پیچھے اسرائیل ہے اور اسرائیل پاکستان کا اصل دشمن ہے اسلئے ایک دن ہماری باری بھی آئے گی۔ ڈاکٹر اسرار نے اپنی آنکھیں نکال نکال کر بہت تفاخر کے ساتھ یہ باتیں کہیں لیکن کہنا یہ چاہیے تھا کہ امریکہ کے کہنے پر جہاد بھی بے غیرتی تھی، طالبان کو کھڑا کرنا بھی بے غیرتی تھی اور اب اس بے غیرتی کے تیسرے مرحلے میں پہنچنا بھی بے غیرتی ہے۔ ہندوستان کیخلاف امریکہ کا اس طرح ساتھ دینا بھی بے غیرتی ہے۔ اپنے مفادات کیلئے دوسروں کو قربان کرنا اگر بے غیرتی نہیں ہے تو غیرت پھر کس چیز کا نام ہے؟۔ علامہ اقبال نے کہا تھا
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کردے کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
اقبال کے شاہینوں نے خود کو طوفان سے آشنا کرنے کے بجائے دوسروں کو آزمائش میں ڈال کر اپنی بچت کا سامان کیا ہے۔ جب شہر میں بارش زیادہ ہوتی تو نبی ۖ فرماتے کہ ہم پر نہیں ہمارے ارد گرد پر بارش برسا۔ ہمارے کم عقل یہ دیکھ رہے تھے کہ ارد گرد والے ڈوب رہے ہیں پھر بھی یہی دعا کررہے تھے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv