پوسٹ تلاش کریں

آپ کی بچی خود اسکے پیچھے بھاگ رہی تھی: رانا ثناء اللہ

aap-ki-bachi-khud-us-ke-peeche-bhag-rahi-thi-Rana-Sanaullah

yeh-maluoon-hein-jahan-paye-jayen-pakar-kr-qatal-krdia-jaye-surah-ahzab-Rabia-Anam-Program-Geo-Tv

نوشتۂ دیوار کے چیف ایڈیٹرمحمد اجمل ملک نے کہاہے کہ میڈیا پر دکھایا جانے والے منظر بڑا ہی افسوسناک تھا جس میں رانا ثناء اللہ نے ننھی معصوم مظلوم شہیدبچی زینب کے والدہی کو غصہ میں ڈکٹیشن دی کہ ’’ تیری بچی ویڈیومیں خود ہی اسکے پیچے بھاگ رہی تھی‘‘۔کوئی جواں لڑکی ہوتی اور معاملہ قتل کا نہ ہوتا تو راناثناء اللہ کا حق بنتاتھاکہ تیری بچی شریک مجرم تھی ،ہونا تویہ چاہیے تھاکہ زینب کا والد راناثناء اللہ کے منہ پر زور دار طمانچہ مارتا کہ یہ بکواس کرنے کی ضرورت کیاہے؟، ثابت کرناچاہ رہے ہو؟۔ لیکن شاید شہباز شریف نے زینب کے والد کو کچھ زیادہ ہی رقم تھما ئی ہوگی۔ مظلوم کیلئے پہلے تو کوئی آواز اُٹھتی ہی نہیں اور جہاں لوگ کچھ غیرت کا مظاہرہ کرتے ہیں تومظلوم چند ٹکے لیکرخاموش ہوجاتا ہے ، شاہ زیب قتل کیس پر جو کچھ ہوا قوم نے دیکھ لیا۔ زینب کی معصومیت پردو افراد شہید ہوئے ہیں۔
قصور کی ایک زینب کا مسئلہ نہیں ، قرآن کہتاہے کہ جو ایک انسان کوبے گناہ قتل کرتاہے جیسے وہ تمام انسانوں کو قتل کردے۔ پاکستان کے تمام بچے اور بچیوں کی عزتوں کا مسئلہ ہے۔ غریب اور بے بس کے پاس آواز اٹھانے کی ہمت بھی نہیں ہوتی ہے۔ زینب کا قاتل پکڑا گیااور قصور کی دہرتی میں رہنے والے بہت سے بے قصوروں کیساتھ جبری زیادتیوں کی داستانیں میڈیا کی زینت بن گئیں۔ جنسی روحجانات میں اضافہ ہوا؟ یا میڈیا نے یہ واقعات اٹھانے شروع کردئیے؟۔ بہرحال مردان، مظفر گڑھ اور اٹک وغیرہ میں بھی واقعات ہوئے۔ کوئی بااثر شخص اپنی بیٹی کو جیل کی قیمت پر جنسی زیادتی کا نشانہ بننے دے گا؟۔
رانا ثناء اللہ نے ڈاکٹر شاہد مسعود سے بالکل ٹھیک لہجہ سے کہا کہ اگر الزام ثابت نہ کرسکو تو یہ تمہارا آخری الزام ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹر شاہد مسعود نے بینظیر بھٹو پر کارساز میں حملے کو پیپلزپارٹی کی اپنی سازش قرار دینے کی کوشش کی تھی، اور بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد اس کی ذمہ داری زرداری ہی پر ڈال رہاتھا مگر پی ٹی وی کا چیئرمین بننے کے بعد خود زرداری کا خادم اور پیپلزپارٹی کا پرانا جیالا بتانا شروع کردیا۔ گندی اور بلیک میلنگ کی صحافت کرنیوالوں کو کھلے عام قرار واقعی سزا دی جائے تو زرد صحافت کا خاتمہ ہوگا۔ روزنامہ جنگ کراچی میں یہ شہہ سرخی لگی کہ ’’وزیرمذہبی امور حامد سعید کاظمی نے خود کرپشن کا اعتراف کرلیاہے‘‘۔ حامد سعید کاظمی اسی دن کی ٹاک شوز میں یہ حلفیہ بیان دے رہاتھا کہ اس نے پائی کی کرپشن بھی نہیں کی مگر حامد سعید کاظمی نے کئی برس جیل بھی کاٹی اور جرم بھی ثابت نہیں ہوا۔ اسکے برعکس نوازشریف نے پارلیمنٹ کے اندردستاویزی ثبوت لہرا کر دکھائے اور پڑھ کر سنائے مگر عدالت میں قطری خط آگیا، جیو اور جنگ نے نوازشریف کی صفائی میں سب نظر انداز کرکے یہ تأثر قائم کرنے کی کوشش کی کہ فوج اور عدلیہ ہی نواز شریف کے خلاف سازش کررہے ہیں۔ ریاست کے پاس اگر واقعی عدل کا پیمانہ ہوتا تو زرد صحافت اور حکومت سے اشتہارات کا حساب بھی لیا جاتا، قوم کا پیسہ اسلئے نہیں کہ حکمران اپنی کرپشن چھپانے کیلئے صحافیوں اور میڈیا چینلوں کو بھی خریدیں۔
چیف جسٹسوں کو چاہیے کہ قوم کو گمراہ کرنے والے صحافی و میڈیا چینلوں کا بھی ازخود نوٹس لیں۔ شاہ زیب خانزادہ نے جو صلاحیت نوزشریف و شہبازشریف کی حمایت میں لگائی، اس کی بنیاد پر وہ گدھے سے بھی کئی بالٹی دودھ نچوڑ لیتا۔ وہ نوازشریف اور شہباز شریف سے اتنا پوچھ لیتا کہ پارلیمنٹ میں بیان سیاسی تھایا قطری خط کیلئے معقول مقدمہ تھا تو مجھے کیوں نکالا کا جواب بھی مل جاتا۔ ن لیگ کے رہنماؤں کی طرف سے لندن فلیٹ کی ساری کلپوں کو چلا کر ایک صحافتی عدالت لگادیتے تب بھی یہ پتہ چل جاتا کہ نوازشریف کو کیوں نکالا گیا۔ جب میڈیا چینل کی طرف سے صحافت نہیں وکالت شروع کردی جائے تو یہ صحافت کے بنیادی اصولوں کے علاوہ قانون کی بھی خلاف ورزی ہے۔ ایسا صحافتی کاروبار بھی قانون کے اندر جائز نہیں بنتاہے اور قوم کی اخلاقی حالت ایسی زرد صحافت سے بالکل تباہ ہوجاتی ہے۔ سنسنی پھیلانے والے شاہد مسعود، جھوٹی مہم جوئی جیو کرنے والا جیو چینل ، پارلیمنٹ میں دروغ گوئی کرنے والا نوازشریف اور سفاکانہ انداز میں جبری جنسی زیادتی اور قتل کے مرتکب افراد کو قرارِ واقعی و کھلے عام سزا دی جائے تو قوم کی تقدیر بدل جائے۔

قتل کی سزا قتل اور جبری زنا کی سزا بھی قتل ہے۔ سورۂ احزاب کی آیت:61میں یہ سزا بالکل واضح ہے۔ فیروز چھیپا

yeh-maluoon-hein-jahan-paye-jayen-pakar-kr-qatal-krdia-jaye-surah-ahzab

نوشتۂ دیوار کے ڈائریکٹرمالیات محمد فیروز چھیپا نے کہا: پاکستان اسلام کے نام پر بنامگر خوفناک حد تک جبری زیادتی کے چونکا دینے والے نمایاں واقعات کا تناسب بڑھ رہاہے۔ اس کا حل قرآن و حدیث میں موجود ہے۔ قتل کی سزا قتل اور جبری زنا کی سزا بھی قتل ہے۔ سورۂ احزاب کی آیت:61میں یہ سزا بالکل واضح ہے۔ یہ انسانی فطرت اور غیرت کا بھی تقاضہ ہے۔ بدفطرت و بے غیرت مذہبی طبقہ نے قرآن کی اس آیت سے واضح روگردانی کی۔ جماعتِ اسلامی کے ڈاکٹر فرید پراچہ نے اس آیت کو توہین رسالتؐ پر فٹ کردیا حالانکہ اس آیت سے آگے پیچھے کی آیات میں خواتین کی بے حرمتی ہے،اگر مدارس ومساجد کے علماء ومفتیان اُٹھ کھڑے ہوں، زنابالجبر کے حوالہ سے قرآن و سنت کے مطابق قتل اور سرِعام سنگساری کاحکومت سے مطالبہ کریں تو عوام کے دلوں پر راج کرنا شروع کردینگے۔ پھر مدارس ومساجد سے بھی اس برائی کا خاتمہ ہوگا اور مسلمانوں کی عبادتگاہیں پھر اخلاق، کرداراور بھروسے کے مراکز بن جائیں گی۔ کالی بھیڑیں ہر جگہ ہیں مگرکردار سازی کیلئے سزا کا قانون ضروری ہے۔منصورہ لاہوربھی فرید پراچہ کی تردیدکردے۔
دنیا کی کوئی ریاست بھی سزا کے قانون کے بغیر نہیں چلتی ہے۔قرآن و حدیث میں سزا کا قانون موجود ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مذہبی طبقے نے اس قانون کا حلیہ بگاڑ دیا۔ پرویزمشرف کے دور میں زنا بالجبر کے نام نہاداسلامی قانون سے جان چھڑانے کیلئے اس کو تعزیرات میں شامل کرنے کا کہا گیا تو مفتی تقی عثمانی اور جماعتِ اسلامی نے طوفان کھڑا کردیا کہ قرآن میں تحریف کا ارتکاب ہورہاہے۔ صحافی منیزے نے ٹی وی چینل پر بتایا کہ ’’ کوٹ لکپت جیل میں وہ کئی ایسی خواتین سے ملی ہیں جن کیساتھ جبری زیادتی کی گئی تھی لیکن شکایت کی تو تھانہ میں بند کرکے جیل بھیج دیا گیا کہ اچھا تمہارے ساتھ کچھ ہوا ہے تو اس شکایت کا نتیجہ بھی بھگت لو۔ پھر پیپلزپارٹی کے دور میں یہ قانون ختم کیا گیا اور اب شکایت کرنے پر سزا نہیں ملتی‘‘۔
یہ کتنی شرمناک بات ہے کہ ایک خاتون سے جبری زیادتی ہوجائے اور شکایت کرنے پر سزا بھی اسی کو دی جائے؟۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے خواتین کو اس طرح نکلنے کا حکم دیا ہے کہ’’ چادر کا حصہ اپنے اوپر ڈالیں تاکہ پہچانی جائیں کہ شریف ہیں۔ اور ان کو اذیت نہ دی جائے۔ مدینہ میں منافق اور جنکے دلوں میں مرض ہے نہیں رہیں گے مگر کم عرصہ۔ پھر آپ ان سے نمٹ لوگے۔ یہ ملعون ہیں جہاں بھی پکڑے جائیں ان کو پکڑ کر قتل کیا جائے گا۔ یہ اللہ کی پہلی قوموں میں بھی سنت رہی ہے‘‘۔ سورۂ احزاب آیت61میں اللہ تعالیٰ نے جبری زنا کی سزا واضح کی ہے اور نبیﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں اس پر عمل بھی کیا ہے۔ ایک خاتون نے رسول اللہ ﷺ سے کسی شخص کی شکایت کردی کی اس نے راستے میں پکڑ کر چادر میں لپیٹ لیا اور جبری زنا کیا تو رسول اللہ ﷺ نے اس کو پکڑ کر لانے کا حکم دیا اور پھر سنگسار کرادیا۔ قرآن میں قتل کا حکم زنا بالجبر اور حدیث میں سنگساری کا حکم بھی زنا بالجبر ہی کیلئے ہے۔ جب مسلمانوں نے اس سزا کے نفاذکو ترک کردیا تو قرآن وسنت کے احکام مختلف فقہی مسالک میں اختلاف در اختلاف کا شکار ہوگئے۔ پاکستان نہیں امریکہ و اسرائیل اور دنیا بھر کے انسانوں کے سامنے زنا بالجبر کی یہی سزا تجویز کی جائے تو عالم انسانیت کے تمام لوگ جمہوری بنیادوں پر متفقہ طور پر اس کو نافذ کردیں گے۔مفتی محمد تقی عثمانی نے لکھ دیا تھا کہ’’ سورۂ نور کی آیت میں زنابالجبر اور زنا بالرضا کی سزا میں کوئی فرق نہیں ۔ دونوں کیلئے حد کا ذکر ہے‘‘۔ حالانکہ سورۂ نور کی آیت میں زنا بالرضا ہی کا حکم واضح ہے اسلئے کہ مرد وعورت کو ایک ہی سزا صرف اسی صورت میں دی جاسکتی ہے کہ جب وہ دونوں راضی ہوں۔ عورت پر جبر ہو تو اس کو سزا نہیں دی جاسکتی ہے۔ البتہ سورۂ نور کی آیت میں شادی شدہ و غیر شادی شدہ کی کوئی تخصیص نہیں ۔ شادی شدہ لونڈی کا قرآن میں نصف سزا کا حکم ہے جو50کوڑے بنتے ہیں تو اس سے شادی شدہ آزاد کیلئے بھی100کوڑے سزا متعین ہوجاتی ہے۔ سورۂ نور کی آیت کے بعد بخاری شریف کی روایت کے مطابق کسی کو بھی سنگسار نہیں کیا گیا ۔ قرآن نے واضح کردیا کہ قتل کا حکم صرف زنا بالجبر کیلئے ہی ہے۔ مفتی تقی عثمانی نے اپنی تفسیر ’’ آسان ترجمہ قرآن‘‘ میں سورۂ احزاب کی اس آیت کی غلط تفسیر لکھ ڈالی ہے کہ ’’ جب مسلمانوں کی ریاست مستحکم ہوجائے تو منافقوں سے بھی کافروں جیسا سلوک روارکھا جائیگا ‘‘۔ حالانکہ قتل کا تعلق اس بنیاد پر بیان کیا گیاہے کہ جو عورتوں کو ستائیں، یہی منافق ہیں۔

قائد اعظم نے ٹیکنوکریٹ کی حکومت بنائی تھی، ہندو وزیر قانون اور قادیانی وزیر خارجہ تھا. عبد القدوس بلوچ

quaid-e-azam-ne-technocrats-ki-hukumat-banai-thi-Abdul_Quddus-Baloch

نوشتہ دیوار کے کالم نگار عبدالقدوس بلوچ نے کہاہے کہ اسٹیبلیشمنٹ نے کوئی دوسرا قصور نہیں کیا ، سول و ملٹری بیوروکریسی نے جنگ کی تو جنرل ایوب خان نے سول بیوروکریسی سے اقتدار چھین لیا۔ پھر پیپلزپارٹی کے ذوالفقار علی بھٹو کو جنم دیا۔بھٹو کو ختم کرنے کیلئے محمد خان جونیجو اور نوازشریف کو جنرل ضیاء الحق نے جنم دیا۔ قائداعظم محمد علی جناح نے کانگریس سے اپنی سیاست کا آغاز کیا تھا، اپنی کابینہ میں ہندو وزیرقانون و قادیانی سر ظفر اللہ کو وزیرخارجہ بنا دیا تھا۔یہ لوگ فوجی قیادت کی پیدوار نہ تھے۔ نوازشریف و شہباز شریف جنرل ضیاء الحق کی پیدوار ہیں۔ اب جمہوریت و ڈکٹیٹرشپ کے درمیان میں ہیں۔ مرد اور عورت کے درمیان میں ہجڑہ ہوتاہے، ہجڑے کو تالی بجانے کے علاوہ کچھ نہ آتا ہو تو حج میں ٹھوکر لگنے پر بھی وہ تالی بجاتاہے۔ منافقوں کیلئے فرمایاکہ وہ ادھر کے ہیں نہ ادھر کے، درمیان میں متذبذب رہتے ہیں۔زینب کے قاتل پرBetven شہباز شریف کا تالی بجانا عادت سے مجبوری تھی،محترم غوث بخش بزنجو بابائے جمہوریت کہلاتے تھے، فوج کا گودی بچہ بننے اور ناجائز رقم بٹورنے کے بعد سیاسی کھدڑا لیڈر بنے تو یہ قوم کی بہت بڑی بدقسمتی ہے۔
بلوچستان میں نواب ثناء اللہ زہری کی ناکامی تھی، جمہوری نظام چلانا سیاسی کارکنوں کا کام ہے نوابوں کا نہیں۔ عبدالمالک بلوچ ایک سیاسی کارکن تھے اسلئے کامیابی سے حکومت کی۔ محمد خان اچکزئی کے پیچھے بھی محمود خان اچکزئی کا ہاتھ ہے، ان کے والد عبدالصمد خان شہید بلوچستان کے گاندھی اور سیاسی کارکن و رہنما اور قائدتھے۔ اب یہ سیاسی خانوادہ خانزادہ بن چکاہے مگر سیاسی کارکن نہیں رہاہے۔ ایم پی اے عبدالمجید اچکزئی نے کس طرح رمضان کی شام کو کھلے عام پولیس اہلکار کو شراب میں ٹن مار دیا اور پھر فرار ہوگیا۔ کیمرے کی آنکھ نہ پکڑتی تو پولیس کے ہاتھ بھی نہ آتا۔ غلطی پر انسان کا شرمندہ ہونا ایک فطری بات تھی لیکن عبدالمجید اچکزئی پر ضمانت ملنے کے بعد جس بے شرمی اور بے غیرتی کیساتھ پھولوں کی بارش برسائی گئی کوئی سیاسی کارکن تو بہت دور کی بات ہے کسی انسان کا غیرتمند بچہ یہ نہیں کرسکتاتھا محمود خان اچکزئی سے قومی اسمبلی میں پوچھ لیا جائے کہ پٹھانوں کی یہ روایت ہوسکتی ہے؟۔ ڈیوٹی پر شہید اہلکار کی بیوہ اور بچوں پر پھول نچاور کرنے سے کیا گزری ہوگی؟۔ اس نے کیا فتح کیا تھا جس کی خوشی میں اس پر پھول برسائے جارہے تھے؟۔ اگر خورشید شاہ اپوزیشن لیڈر ایک سید کا خون ہے تو جس طرح سے شہبازشریف کی طرف سے تالی بجانے کے عمل پر اسمبلی میں وہ مذمت کررہا تھا،یہی مذمت پھول نچاور کرنے کے عمل پر بھی وہ ضرور کرکے دکھائے۔ محمود خان اچکزئی سے معافی منگوائے۔
سیاسی خانوادے اور پارٹیاں بدل بدل کر سیاسی لوٹے تو بہت بدنام ہوچکے ہیں۔ نگران سیٹ اپ کیلئے پنجاب میں خیبر پختونخواہ سے کوئی شخصیات گورنر اور وزیراعلیٰ کے عہدوں پر فائز کی جائیں ، اس طرح بلوچستان، سندھ اور پختوخواہ میں دیگر صوبوں سے ماہر ، باضمیر اور باغیرت افراد کے ہاتھوں میں کچھ دنوں کیلئے حکومتوں کو سپرد کیا جائے تاکہ عوام کو دکھایا جائے کہ حکومت کس طرح سے ہوتی ہے۔ رعایت اور انتقام نہیں بھرپور عدل وانصاف سے عوام کی عزت نفس کو بحال کیا جائے۔ جہاں جہاں بدمعاش و بدکار طبقات خواتین کیساتھ زیادتی کے مرتکب ہوں ، ظلم وزیادتی مسلط کی گئی ہو اورشریف لوگوں کا جینا دوبھر ہو وہاں قانون کے شکنجے سے ان کو ایسا سبق سکھایا جائے کہ عوام کو احساس ہوجائے کہ حکمران مسیحا ہوتا ہے طاقتور قوتوں کا دلال نہیں ہوتا۔ جب سب سے بڑی سیاسی جماعت اور برسر اقتدار ن لیگ کا یہ حال ہو کہ ٹی وی کے ٹاک شوز سے لیکر پارلیمنٹ اور قطری خط تک جھوٹ ہی جھوٹ بولتے ہوں ، سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے فیصلے کو بھی اپنے خلاف سازش قرار دیتے ہوں تو یہ جمہوریت اور قانون کی بالادستی نہیں بلکہ بدترین قسم کی انارکی کا ماحول ہے۔ جمہوریت ایک آزاد ماحول میں آزادی سے رائے دہی کا نام ہے، یہاں تو گدھے کو بھی کھڑا کردیا جائے تو بھوکے بھوک مٹانے کیلئے پیسوں اور مفادات کیلئے بک جاتے ہیں۔
میڈیا ہاوس اور صحافی بھی کرایہ پر دستیاب ہیں۔سیاست خدمت نہیں ایک منافع بخش کاروبار ہے۔عوام بڑے عذاب میں مبتلا ء ہیں، لوگوں کی جان، مال اور عزتیں محفوظ نہیں ہیں اور سیاستدانوں کو اپنے کاروبار کی پڑی ہوئی ہے۔ جمہوریت سے عوام کو غلامی سے نکالا جاتاہے اور یہاں جمہوریت کے نام پر مافیا کا کردار ادا کرنے اور عوام کو غلام بنانیوالے جمہوریت کے چمپئین بنے ہوئے ہیں ۔ اب قوم کو بچانے کا وقت آگیا ہے۔

پولیس پر اعتماد کریں ریاست مارتی نہیں: چیف جسٹس ثاقب نثار

police-per-aitemad-karen-riasat-marti-nahi-chief-justice-saqib-nisar

نوشتہ دیوار کے خصوصی ایڈیٹر سید ارشاد علی نقوی نے کہا ہے کہ عوام کو تمام ریاستی اداروں پر تہہ دل کیساتھ اعتماد کرنے کی ضرورت ہے ۔ پاک فوج ، عدلیہ ، پولیس ، سول انتظامیہ کے علاوہ پارلیمنٹ سب ہی قابل احترام ہیں لیکن ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات۔ عوام ہی کی جان، مال اور عزت و آبرو ٹکے کی نہیں اور جب تک مخصوص مقاصد کی خاطر انکے حال پر رحم نہ کیا جائے تو ان کی فریاد عرش الٰہی کو سنائی دیتی ہے اور بس۔ محترم چیف جسٹس صاحب ! آپ ٹھیک فرماتے ہیں کہ راؤ انوار کو چھپانے والے بہت ہیں لیکن اگر ماڈل ٹاؤن پولیس کو استعمال کرنے والوں کی خبر لی جاتی تو ان چھپے ہوئے پھنے خانوں کو نکالنا بھی مشکل نہ ہوتا۔ لواحقین کو طفل تسلیاں مبارک ہوں۔ معروف صحافی مظہر عباس نے ایک پروگرام میں بتایا کہ ’’جنرل نصیر اللہ بابر کی قیادت میں ایک اجلاس ہوا جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ایم کیو ایم کے دہشت گرد عدالتوں سے چھوٹ جاتے ہیں ، ان کو پولیس مقابلے میں ماردیا جائے۔ اس اجلاس میں سول اور ملٹری کے تمام اداروں نے اتفاق رائے سے فیصلہ کیا لیکن آئی جی پولیس افضل شگری واحد انسان تھا جس نے اس سے اختلاف کیا جس کی وجہ سے ان کا تبادلہ بھی کردیا گیا۔ پھر راؤ انوار ، چوہدری اسلم اور دیگر دہشت والے تھانیداروں کی خدمات لی گئیں اور ماورائے عدالت خوب قتل و غارت گری ہوئی ۔ اس قتل و غارت میں ایک فوجی افسرکا نام آیا اور اسے پھر فوجی عدالت نے پھانسی کی سزا سنائی اور پھانسی دے بھی دی‘‘۔
راؤ انوار نے ایم کیو ایم کے بعد طالبان دہشتگردوں کا صفایا کرنے میں بھی زبردست اور اہم کردار ادا کیا۔ راؤ انوار جیسے بہادر پولیس افسر نہ ہوتے تو امن کی فضاء ہوتی ،نہ طالبان سے کراچی چھٹکارا پاتا۔ طالبان کیوجہ سے محسود قوم کیساتھ جو سلوک فوج نے روا رکھا اس پر محسود قوم بجا طور سے کوئی شکوہ نہیں کرتی ہے۔ پولیس نے دہشت گردوں کے علاوہ شریف لوگوں کو بھی بہت ستایا اور اللہ کرے کہ اب محسودوں کا گناہ معاف ہو ، آئندہ کسی اور طوفان سے گزرنا نہ پڑے۔ پٹھانوں نے طالبان اور بلوچوں نے قوم پرستوں ، مہاجروں نے ایم کیو ایم کی وجہ سے جو دکھ درد سہے ہیں اللہ نہ کرے کہ ہمارے پنجابی بھائی ان سے گزریں۔ قصور کے بے قصور بچوں اور بچیوں کیساتھ جو کچھ ہوا ، اس طرح توبلوچ قوم پرستوں ، ایم کیو ایم کے دہشتگردوں اور طالبان دہشتگردوں کے خواب و خیال میں بھی نہ گزرا ہوگا۔ یہ ریاست کا بہت بڑا احسان ہوگا کہ قرآن و سنت کیمطابق جبری جنسی تشدد کیخلاف پارلیمنٹ کھلے عام سنگساری کے احکام نافذ کردے۔ پارلیمنٹ قانون پاس کرے عدالت چند دنوں میں ان کیسوں کو نمٹائے اور حکومت اس پر عمل درآمد کرائے۔
عدالت عالیہ نے چاہا تو وقت گزرنے کے باوجود میاں نواز شریف ان کیسوں میں بری کردیا جن میں عدالت نے سزا دی تھی۔ عدالت عالیہ نے چاہا تو حدیبیہ پیپر ملز کے تمام دستاویزی ثبوت موجود ہونے اور باقاعدہ فیصلہ نہ ہونے کے باوجود کیس کو دفن کردیا۔ عدالت عالیہ نے چاہا توپارلیمنٹ میں اثاثہ جات کے اقرار کے تحریری بیان اور قطری خط میں کھلا تضاد تھا تو بھی اپنا فیصلہ اقامہ پر سنایا۔ جس سے چیف جسٹس کے سابق مؤکل محترم نااہل نواز شریف کوسپریم کورٹ کے لارجر بنچ کو خوب تر صلواتیں سنانے کا موقع فراہم کیا۔ نقیب اللہ محسود بے گناہ تھا تو قرآن میں ایک بیگناہ کے قتل کو انسانیت کا قتل قرار دیا گیا ہے۔ لیکن یہاں تو بڑے بڑے شہروں میں چھوٹی چھوٹی باتوں کی کئی داستانیں ہیں جو کسی شمار و قطار میں نہیں۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر کی نیت پر انسانی حقوق کے حوالے سے کوئی شک نہیں مگر نصیر اللہ بابر ہی نے جمہوری دور میں طالبان پیدا کئے اور پولیس مقابلوں میں ماورائے عدالت عام شہریوں کو قتل کی اجازت دی۔ ہمارا مقصد تنقید برائے تنقید اور مخصوص لوگوں کی طرفداری نہیں لیکن قرآن و سنت کے احکامات سے ہمارے مردہ معاشرے میں نئی روح پھونکی جاسکتی ہے۔ قتل کے بدلے قتل اور زنا بالجبر پر سر عام سنگساری کی سزا جمہوری بنیادوں پربھی عالم انسانیت کیلئے قابل قبول ہوگی اور دنیا کے تمام کمزور لوگ اس کو سپورٹ کرینگے۔

police-per-aitemad-karen-riasat-marti-nahi-chief-justice-saqib-nisar-2

police-per-aitemad-karen-riasat-marti-nahi-chief-justice-saqib-nisar-3

قرآنی آیت میں جاہلوں کو بھی مخاطب کے لفظ سے سلام کرنے کا ذکر ہے، جاہل سے مراد کھلے کافر ہیں۔ عتیق گیلانی

Quran-mein-jahil-(Kafir)-ko-mukhatib-kr-ke-Salam-karne-ka-Zikr-hei-Atiq-Gilani

فقہاء نے کہا تھا کہ داڑھی منڈھے فاسق ہیں، ان کو سلام کرناجائز نہیں۔ شروع میں فقہی مسئلہ کو شریعت سمجھتے ہوئے اس پر عمل کیا ، اسوقت غالباً ہمارے خاندان میں کم ہی لوگوں کی داڑھی تھی،کسی دن میرے کزن ڈاکٹر آفتاب نے پوچھ لیا کہ میں نے محسوس کیا ہے یہ غلط ہے یا درست کہ آپ سلام کرتے ہو اور نہ جواب دیتے ہو؟۔ میں نے بتایا کہ فقہی مسئلہ ہے کہ داڑھی منڈھے کو سلام نہیں کرسکتے، وہ کہنے لگے کہ شرعی مسئلہ ہے تو ٹھیک ہے۔ کافی عرصہ بعد میں نے سوچا کہ سلام عام کرنے کا حکم ہے، جب فقہاء کی طرف سے یہ مسئلہ آیا ہوگا تو اسوقت کم ہی لوگ داڑھی نہیں رکھتے ہونگے ، اب تو سلام کا رواج بھی ختم ہوجائیگا۔ اسلئے سلام کرنا شروع کیا تو ڈاکٹر افتاب کو وجہ بھی بتادی۔ اب مندرجہ بالا قرآنی آیت میں جاہلوں کو بھی مخاطب کے لفظ سے سلام کرنے کا ذکر ہے، جاہل سے مراد کھلے کافر ہیں۔ نبی ﷺ نے حضرت عائشہؓ کو سلام نہیں سام کا جواب دینے سے روکا تھا۔ قرآن کی مندرجہ بالا آیت میں بھی برائی کے جواب کو اچھائی سے ترغیب ہے۔ اگر یہودی سلام کرتا تو نبیﷺ سلام کا جواب دینے سے نہ روکتے۔ مولوی زدہ مذہبی طبقہ کا مسئلہ قرآن نے حل کیا ہے اور ایکدوسرے کو سلام میں مسلک وعقیدہ کا خیال ہرگز نہ رکھنا۔ عتیق گیلانی

1400 سو سال پہلے سورہ حج میں اللہ نے مشینی ذبیحہ کو روز روشن کی طرح‌ واضح کیا: عتیق گیلانی

1400-saal-pehle-Allah-ne-surah-hajj-mein-machini-zibah-roz-e-roshan-ki-tarah-wazeh-kia

شیخ العرب و العجم حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی ؒ نے لکھا ہے کہ’’ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ومن یشتری لھو الحدیث (جو لغو باتوں کو خریدتے ہیں)جس وقت قرآن نازل ہوا تھا تو اس دور میں لغو باتیں خریدنے کے حوالے سے کوئی آثار بھی نہیں تھے۔ آڈیو ریکارڈ بہت بعد کی پیداوار ہے۔ موجودہ دور میں فحش گانے ، فلمیں و دیگر اشیاء پر اس آیت کا اطلاق ہوتا ہے۔ یہ قرآن کی صداقت اور کلام الٰہی ہونے کی دلیل ہے کہ 14سو سال پہلے جس چیز کا کوئی وجود نہیں تھا اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اس کا ذکر کردیا‘‘۔ قرآن میں کتاب ینطق بولنے والی کتاب کا بھی ذکر ہے۔ نظریہ اضافیت کا بھی قرآن میں ذکر ہے۔ یہاں کے ایک دن اور چڑھنے کے 50ہزار سال کی مقدار کے برابری سے واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چودہ سو سال پہلے نظریہ اضافیت نہ صرف واضح کردیا تھا بلکہ معراج کے اندر اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو مشاہدہ بھی کروایا تھا۔ البرٹ آئین اسٹائن نے بہت بعد میں نظریہ اضافیت کو ریاضی اور سائنسی بنیاد پر دریافت کیا۔ حج کے دوران مشینی ذبح پر علماء و مفتیان اجتہادات کی رٹ لگاتے رہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے 14سو سال پہلے سورہ حج میں مشینی ذبح کو روز روشن کی طرح واضح کیا۔
اس آیت کی تفسیر میں فقہاء کے اختلافات دیکھ کر ہنس ہنس کر پیٹ میں بل پڑ جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے مذہبی قربانی پر اللہ کا نام لینے کا ذکر کیا ہے کیونکہ مشرکین اپنے بتوں کا نام لیتے تھے۔ قرآن میں ان ذبیحوں کو جن پر بت کا نام لیا جائے حرام قرار دیا گیا ہے۔ شکاری کتے اور باز جن کو شکار کی تعلیم دی جائے ان کے شکار کردہ جانوروں یا پرندوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا ہے۔ اہل کتاب کے طعام کو بھی حلال قرار دیا ہے۔ اہل کتاب میں مشرکوں کی طرح غیروں کے نذرانے اور بتوں کے آستانے پر ذبح کرنے کا رواج نہیں تھا۔قرآن کو سمجھنے کی کوشش کیجئے

عمران خان وزیر اعظم کا خواب پورا نہ کرسکا تو پنجاب کا صوفی بن سکتا ہے. محمد حنیف عباسی

imran-khan-wazir-e-azam-ka-khuwab-pura-na-kar-saka-to-panjab-ka-sufi-ban-sakta-hei-Haneef-Abbasi

پنجابی مسلمان : علامہ اقبال

مذہب میں بہت تازہ پسند اس کی طبیعت
کرلے کوئی منزل تو گزرتا ہے بہت جلد
تحقیق کی بازی ہو توشرکت نہیں کرتا
ہو کھیل مریدی کا تو ہرتا ہے بہت جلد
تاویل کا پھندا کوئی صیاد لگادے
یہ شاخِ نشیمن سے اترتا ہے بہت جلد
زیرو پوائنٹ کے کالم نگار معروف صحافی جاوید چوہدری نے اپنے کالم میں عمران خان، بشریٰ مانیکا،اسکے سابق شوہر خاور مانیکاکے بارے میں کچھ حقائق لکھ دئیے ہیں۔ خاور مانیکا ایک بُری شہرت کا افسر لیکن روحانی شخصیت کا مالک بھی تھا،ماڈرن بشریٰ مانیکا پابند صوم وصلوٰۃ،روحانیت اور علم نجوم کی ماہر ہے۔1988ء میں بینظیربھٹو وزیراعظم بن گئیں،پھر تحریک عدمِ اعتماد میں چانگا مانگا کے اندر ن لیگ کی منڈی لگائی، پیپلزپارٹی کی بچت ہوئی اور خاور مانیکا کے والد غلام محمد مانیکا نے تحریکِ عدم اعتماد کے دوران مسلم لیگ کو چھوڑکر پیپلزپارٹی کا ساتھ دیا۔ جاویدچوہدری نے لکھ دیاہے کہ غلام محمد مانیکا خاندان بہت عرصہ سے سیاست میں ہے اور پاکپتن کے شاہ فریدشکر گنج ؒ کے یہ مرید بھی ہیں۔ عمران خان انکا مرید ہے۔ اب عرصہ ہوایہ خاندان پی ٹی آئی میں ہے۔ عائشہ گلالئی کی آفت آئی تو بشریٰ مانیکا عمران خان بابا فریدؒ کے مزار پر لے گئی۔ بشریٰ نے خواب میں رسول اللہﷺ کے حکم پر سرور مانیکا سے خلع لے لیاجو اب بشریٰ وٹو بن چکی ہیں۔ شادی ہوچکی ہے یا ہونے والی ہے اس کا اعلان کسی ایسی گھڑی میں کیاجائیگا کہ جو علوم نجوم کے حوالہ سے مناسب بھی ہو۔
جاوید چوہدری نے لکھ دیا ہے کہ ’’پاکستان کیلئے جس خوشخبری کا ذکر ہے اس کا آغاز بھی آئندہ بشریٰ اور عمران خان کی شادی اور وزیراعظم بن جانے کے بعد ہوجائیگا‘‘۔پنجاب کی مٹی میں خاص طور سے پیری مریدی کا کھیل کامیاب رہتاہے ۔ ڈبل شاہ کی کامیابی بھی اس وجہ سے ممکن ہوسکی تھی۔ قائداعظم اور فاطمہ جناح پیری کی شکل میں آتے توپنجاب ان کی عقیدتوں، کرامات اور بڑی روحانی قوت کا معترف رہتا۔ جنرل ایوب خان کی طاقت بھی نہ ہوتی کہ وہ فاطمہ جناح کو پنجاب میں شکست دیتے۔ تحریک طالبان پوری قوم کیلئے امریکہ کیخلاف بہت بڑا سرمایہ تھا،امریکہ آج تک نیٹو کیساتھ مل کر بھی شدت پسندقوتوں کو شکست نہیں دے سکا لیکن پاک فوج نے دہشت گردوں پر قابو پالیاہے۔ مسلم لیگ ن کی مقبولیت کا گراف فوج کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے مگر ن لیگ کو لگادم دینے کیلئے پی ٹی آئی سے کام لیا جارہاہے۔ اگر بشریٰ کی روحانی قیادت میں تحریک انصاف کی حکومت آئی تو پاک فوج کی سیاسی مداخلت کا رستہ بھی مکمل طور سے رُک جائیگا۔ جس طرح عمران خان روحانی بنیادوں پر اپنے مسائل کے حل کیلئے بشریٰ کے دروازے پر پہنچ گئے اسی طرح سے پنجاب ہی نہیں پاکستان بھر میں مسائل کے شکار عوام اس آستانے پر سجدہ تعظیمی بجا لاسکتے ہیں۔
تحریک انصاف کے قائد عمران خان کو جس کی روحانی قوت ، مشوروں اور سعادت کی گھڑیوں میں کامیابی کے راز بتانے سے وزیراعظم کے منصب پر فائز کیا ہو یا پھرسیاست سے کنارہ کشی کرکے صوفیت کی گدی پر بٹھادیا ہو تو اس کی کرامت پر کس کو یقین نہ آئیگا؟۔ اگر عمران خان شادی کرکے بھی وزیراعظم کے منصب پر نہ پہنچ سکے تو پھر آخری کھیل یہ ہوگا کہ سیاست کو حقارت کی ٹھوکر مار کر پنجاب میں آستانہ عالیہ سجادیں گے۔ جہاں لوگوں کے دینی ،روحانی،مالی،نفسانی اور ہر قسم کے مسائل حل کرنے کیلئے ٹھکانہ بن جائیگا۔بینظیر بھٹو اور وزیراعظم نوازشریف بھی تنکے والے ننگے بابا کے پاس عقیدت سے پہنچتے تھے اور جتنی تعداد میں ڈنڈیاں ماری جاتی تھیں اتنے اتنے سال حکومت کرنے کیلئے ملتے تھے۔جب ہندو اور مسلمان پنجاب کے پیروں کو قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھتے تھے تو سکھ مذہب کے روحانی بانی بابا گرونانک نے ایک نیا مذہب ایجاد کیا۔ برصغیر پاک وہند راجہ رنجیت سنگھ کا اقتدار انگریز کے مقابلہ میں سب سے زیادہ مضبوط تھا۔ اورنگزیب عالمگیر بادشاہ کے پاس ایک بہروپیہ آیا اور شاہی دربار میں بھرتی ہونے کی خواہش ظاہر کی۔ بادشاہ نے کہا کہ پہلی شرط آزمائش ہے۔ بہروپیہ نے مختلف لبادے بدل بدل کر قسمت آزمائی کی لیکن بادشاہ ہر بار اس کو پہچان کر شرمندہ کردیتا تھا۔ آخر کار بادشاہ ایک مشکل مہم پر جارہاتھا،پتہ چلا کہ کوئی درویش عرصہ سے گوشہ نشین ہے، اورنگزیب بادشاہ نے بھی دعاکی غرض سے خدمت میں حاضری کا فیصلہ کیا، قریب جاکر پتہ چلا کہ درویش غنودگی کے عالم میں ہے جب تک ہوش میں نہ آئے بادشاہ بھی حاضری نہیں دے سکتا۔ اورنگزیب بادشاہ کی عقیدت میں اضافہ ہوا کہ واقعی کوئی بڑی بزرگ شخصیت ہے، اس ویرانے میں بادشاہ کی بھی پروا نہیں ہے۔ پھر جب پیرصاحب ہوش میں آگئے تو اورنگزیب بادشاہ نے اپنے ساتھ بڑا سرمایہ لیکر خدمت میں حاضر ہوا، درویش سے دست بستہ دعا کی درخواست کی اورنذرانہ بھی پیش کردیا، اس نے کہا کہ میں تمہاری دولت کو پائے حقارت سے ٹھوکر مارتا ہوں لیکن آپ نے مجھے پہچانا نہیں؟، میں وہی بہروپیہ ہوں۔ بادشاہ نے کہا کہ آپ نے اپنے فن کا کمال ثابت کیا ہے اور اس رقم کو بطور انعام لے لو، مگر درویش نے کہا کہ میں تمہاری نوکری پر لعنت بھیجتا ہوں، جب درویشی کی نقل میں اتنی عزت ہے کہ میری داڑھی سے دھوکہ کھاکر میرے پاؤں کو بھی چھو رہے ہو، عاجزی ونکساری بھی کررہے ہو تو اصلی درویشی کیوں اختیار نہ کرلوں؟۔
اگر پنجاب کی عوام کو ن لیگ کے رحم وکرم پر چھوڑدیا گیا تو عمران خان درویشی کی راہ پر چل سکتے ہیں اور عمران خان کو حکومت دیدی گئی تو طالبان سے زیادہ یہ رنگ وروپ خطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔ دونوں صورتوں میں وہ انقلاب نہیں آسکتا جس کیلئے قوم کو اُمید ہے۔

ڈاکٹر شاہد مسعود کی خبر پر ضروری نوٹ: فاروق شیخ

dr-shahid-masood-ki-khabar-per-zaruri-note-Farooq-Shaikh

ڈاکٹر شاہد مسعود نے آرمی چیف ، چیف جسٹس اور دیگر ذمہ دار افراد سے اپیل کی کہ مجھے اپنے پاس بلالو ، میں انتہائی اہم خبر دے رہا ہوں کہ عمران علی کا تعلق عالمی گینگ سے ہے ، اس کے 37بینک اکاؤنٹس ہیں جن میں لاکھوں ڈالر ، یورو اور پونڈز وغیرہ موجود ہیں۔ اگر خبر غلط ثابت ہو تو مجھے پھانسی دیدو ! کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ جس قوم کو اُلو کے پٹھے نے اُلو بنانے کی کوشش کی تو یہ قوم کے ساتھ ہوتا رہتا ہے مگر ایسی خبر اپنے پیٹ میں چھپاکر رکھنے کا کیا جواز ہے۔ کیا خبر کو بھی چیونٹی کی طرح پر لگ جاتے ہیں اور برسات میں اڑنے سے مرنے کا اندیشہ ہوتا ہے، ایسی صورت میں ضرور اپنی ڈگی میں چھپا کر مخصوص شخصیات کے ہاں پیش کرکے بحفاظت لیجانا ضروری تھا۔ خبر دینا ہو تو میڈیا میں اپنی پوری تفصیل کیساتھ عام کی جاتی ہے۔ کسی کو بلیک میل کرنا ہو تو پھر کہا جاسکتا ہے کہ میں تمہاری خبر مخصوص افراد تک پہنچادوں گا، دعوے کرنیکی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ پارلیمنٹ میں نواز شریف کی جھوٹی تقریر سمجھ میں آسکتی ہے لیکن ڈاکٹر شاہد مسعود کاافواہ چھوڑنا سمجھ سے بالاتر ہے۔جیل میں ہیروئنی پیشی کے بعد دوبارہ داخل ہوتے ہیں تو بعض پاخانے کی جگہ میں ہیروئن رکھ کر جاتے ہیں۔ پولیس والے کہتے ہیں کہ ان کی ڈگی چیک کرو۔ ڈاکٹر شاہد مسعود نے جس طرح کی سنسنی ایک خبر سے پھیلائی ہے اور اس کو جس انداز سے پیش کیا ہے ، کہیں آئندہ اس کو بھی چیک نہیں کیا جائے کہ کہیں خاص خبر تو لیکر نہیں جارہا۔ الیکٹرانک میڈیا میں جھوٹ تو دوسرے بھی بولتے ہیں لیکن ڈاکٹر شاہد مسعود نے جھوٹ کیلئے جو انوکھا انداز اختیار کیا ہے اس پر تمام میڈیا چینلوں کو مل کر ایک خصوصی پروگرام کرنا چاہیے ۔ جو اس روش کو روکنے میں آئندہ مددگار ثابت ہو۔

عمران علی کے اکاؤنٹ کی خبر نکال رہا ہوں:‌ڈاکٹر شاہد مسعود

imran-ali-ke-account-ki-khabar-nikal-raha-hun-dr-shahid-masood

سائل :ڈاکٹر شاہد مسعود صاحب !بیچ چوراہے یہ آپ کیا کررہے ہیں؟
ڈاکٹر شاہد مسعود کا نرالہ جواب: عمران علی کے اکاؤنٹ کی خبر نکال رہا ہوں
سائل: اگر تحقیق کرنا میرا کام ہو اور تلاش بسیار کے باوجود اس میں کوئی خبر نہیں مل سکی تو جناب کیا ہوگا؟
ڈاکٹر شاہد: میں اپنی خبر پر قائم ہوں ، مجھے اپنے پیٹ کے کیڑوں کی خبر ہے اگر آج نہیں ملی تو 6ماہ بعد سہی
سائل: آپ اپنے اس بدبودار خبر کے ذریعے سے صحافت کو بدنام کررہے ہیں ، جیو پر واویلا مچا ہوا ہے۔
ڈاکٹر شاہد: اسی گارڈ فادر سے تو میں نے یہ سیکھا ہے ، حامد سعید کاظمی کے اقرار جرم کی خبر اسی نے لگائی تھی
سائل: مہم جوئی کیلئے آپکے مزاج سے جیو ٹی وی چینل جوڑ کھارہا تھا تو بھاگ کر پی ٹی وی کیوں گئے؟
ڈاکٹر شاہد: بینظیر بھٹو پر کارساز دھماکے اور زرداری پر بینظیر کو قتل کرنے کا الزام لگایا تھا وہی کام آیا تھا۔
سائل: آپ نے من گھڑت خبر پھیلا کر سوشل میڈیا کے جھوٹوں کو بھی مات دی تو حاصل کیا ہوا؟
ڈاکٹر شاہد: میں ان سب کا امام بن گیا ، اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر قافلے ملتے گئے کارواں بنتا گیا۔
سائل: آپکی عزت ، وقار ، توقیر ، احترام ، برد باری ۔۔۔شرم ، حیاء ۔۔۔ اعتماد ۔۔۔ پر کوئی اثر نہ پڑا؟
ڈاکٹر شاہد: نہیں نہیں میں اس جنگل میں منگل اور منگل میں جنگل تھا۔ پہلے سے کسی شمار و قطار میں نہ تھا ۔
سائل: اگر خبر جھوٹی ثابت ہوئی تو آپ کو کیا سزا ملنی چاہئے؟ ۔ اپنے لئے خود ہی کوئی سزا تجویز کرلیجئے۔
ڈاکٹر شاہد: جو چور کی سزا وہ میری سزا۔ پھانسی دیجئے گا مگر نواز شریف کو پارلیمنٹ کی غلط بیانی پر سزا ملی؟
سائل: ڈاکٹر شاہد مسعود صاحب! معاف کیجئے گا ، آپ جیو ٹی وی چینل اور نواز شریف کو کیوں گھسیٹتے ہیں؟
ڈاکٹر شاہد: تاکہ مجھے دوبارہ جیو میں ملازمت ملے یا پی ٹی وی کا چیئر مین بنادیا جائے ورنہ چھوڑونگا نہیں
سائل: آخری اور بے لاگ سوال یہ ہے کہ جناب آپ کی دُم کو کس نے قابو میں رکھ کر یہ خبر لیک کی ہے؟
ڈاکٹر شاہد: کوئی اتنا پاگل نہیں ، یہ میرے اپنے اندر کا کیڑا ہے اور کیڑوں کی بیماری کافی لوگوں کو ہے۔

چٹ نکاح پٹ مذاق یا چٹ نکاح پٹ طلاق؟ تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

گنج بخش فیض عالم مظہر نورخدا ناقصاں را پیرکامل کامل رارہنما
حضرت علی ہجویری داتا گنج بخشؒ ایک بڑے صوفی، اللہ والے اور حنفی عالم تھے۔
ڈاکٹر شبیر احمد کی کتاب ’’ اسلام کے مجرم‘‘ُ پر’’پیش لفظ‘‘شیخ عبدالعزیز بن باز مفتی اعظم سعودیہ عربیہ کا مکتوب ہے۔شیخ الحدیث مفتی محمدارشاد نظامی، آگرہ نے اپنا ’’ابتدایہ‘‘ لکھ دیا ہے، علامہ اقبال کے فرزندڈاکٹر جاوید اقبال لاہورنے ڈاکٹر شبیر احمد کو اپنی رائے میں علامہ اقبال کا صحیح ترجمان قرار دیا ہے۔ معروف صحافی مجید نظامی چیف ایڈیٹر روزنامہ نوائے وقت لاہور نے بھی ڈاکٹر شبیر احمد فرزندِ پاکستان مقیم فلوریڈا امریکہ کو زبردست الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ہے۔ مجلس شوریٰ کی کمیٹی کے 14ارکان کے نام بھی اس میں درج ہیں۔ محمد نسیم ربانی R.PH نیویارک نے لکھا ہے کہ وہ دیوبند کے مولانا عبد الحلیم قاسمی ، اہلحدیث کے مولانا غلام اللہ اور جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودی ، ڈاکٹر اسرار احمد کی تنظیم اسلامی اور تبلیغی جماعت سے وقتاً فوقتاً وابستہ اور فیض یاب ہوتے رہے، مگر بقول اقبال
اُٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غم ناک نہ زندگی نہ محبت نہ معرفت نہ نگاہ
علم و ادب کے سمندر میں کشتی رانی کرتے ہوئے عمر بیت گئی میں حیران تھا کہ تشنگی کم کیوں نہیں ہوتی۔ بڑھتی کیوں جاتی ہے۔ کوئی ایک سال گزرا ’’اسلام کے مجرم‘‘ کا پہلا ایڈیشن میرے مطالعے میں آیا مجھے اپنی حیرتوں کا فوری جواب مل گیا دین حق کے دشمنوں نے اصل اسلام کو عجمی اسلام بناڈالا ہے۔ یوں کہئے کہ اسلام کی روح کھینچ لی ہے ۔ یہ سانحہ کیسا ہوا ، کس نے برپا کیا آپ کے ہاتھوں میں اس وقت جو کتاب ہے اس سوال کا شافی جواب دیتی ہے کہ درحقیقت اسلام ہے کیا؟۔ سر سید احمد خان ، علامہ عنایت اللہ مشرقی ، علامہ اقبال اور خصوصاً غلام جیلانی برق اپنی تحریروں میں جو اشارے دے گئے تھے اس کتاب میں وہ اشارے بین اور واضح ہوکر آپ کے سامنے آجاتے ہیں۔ ڈاکٹر شبیر احمد نے جو عرق ریزی اور تحقیق کی ہے وہ صدیوں پہلے ہمارے علماء کو کرنی چاہئے تھی۔ خدا کرے کہ اہل عالم خالص اسلام کی برکتوں سے فیض یا ب ہوسکیں۔ پریزیڈنسی آف البانی مسلم کمیونٹیز ، یو ایس اور کینیڈا بانی صدر کی جانب سے ڈاکٹر شبیر احمد بن عبد الرشید کے نام لکھے گئے الفاظ یہ ہیں ’’پہلے میں اپنا تعارف پیش کرتا ہوں ۔ میں البانیہ میں پیدا ہوا ، دینیات اسلامی (اسلامک تھیولوجی) میں جامعۃ الازہر قاہرہ سے تعلیم مکمل کی، پھر شعبہ کا صدر رہا۔ 1949میں مسلم کمیونٹیز کی خدمت کیلئے امریکہ آگیا۔ جامعہ مسجد ڈنرائٹ کے امام نے مجھے آپ کی کتاب ’’اسلام کے مجرم‘‘ (انگریزی) عنایت فرمائی۔ میں نے اس کتاب کو بہت دلچسپی اور غور سے پڑھا ہے اور اس کے حوالہ جات بھی ڈبل چیک کئے ہیں میں آپ کو اتنی انقلابی کتاب لکھنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ یہ کتاب صاف بتاتی ہے کہ اسلام کیا نہیں ہے اور ہماری مقدس سمجھی جانے والی کتابوں میں کیسی کیسی خرافات داخل کردی گئی ہیں۔ میں مکمل طور پر اس کتاب کے مندرجات سے متفق ہوں۔ اللہ کے فضل سے آپ نے اسلام کی زبردست خدمت انجام دی ہے آپ کی نوازش ہوگی اگر آپ مجھے اپنی تصنیفات کی فہرست ارسال کریں۔ امام وہبی اسماعیل (سابق مفتی دینی مجلس شوریٰ البانیہ)۔
ڈاکٹر شبیر احمد لکھتے ہیں : داؤد ؑ اپنی آنکھ ہی کے باعث مبتلا ہوئے یعنی اپنے پڑوسی کی بیوی سے گناہ کیا۔ (امام غزالی ؒ کیمیائے سعادت ، صفحہ 497)انبیاء کرام تو صاحبو! بے گناہ اور بے داغ کردار کے مالک ہوتے ہیں اور سید علی ہجویریؒ المعروف داتا گنج بخش لکھتے ہیں کہ داؤد ؑ کی نظر وہاں پڑی جہاں پڑنی نہ چاہئے تھی ۔ یعنی نہاتی ہوئی حسین عورت پر جو یوریا کی بیوی تھی۔ حالانکہ وہ ان پر حرام تھی۔ جیسے حضور ﷺ کی نظر زیدؓ کی بیوی زینبؓ پر پڑی (کپڑے بدلتے ہوئے) تو وہ دونوں عورتیں اپنے اپنے شوہروں پر حرام ہوگئیں۔ (علی ہجویری داتا گنج بخشؒ ، کلام المرغوب، صفحہ 349) اور انبیاء کے نکاح میں آگئیں۔
فاضل علوم دینیہ مولانا مسعود الدین عثمانی صاحب اپنی کتاب ایمان خالص صفحہ 113 پر تحریر فرماتے ہیں کہ علی ہجویری صاحب نے اپنی کتاب میں تاریخ طبری کی ان روایتوں کی تصدیق فرمائی ہے کہ داؤد ؑ اور آنحضرت ﷺ ان دو عورتوں کو برہنہ دیکھ کر عاشق ہوگئے تھے (نعوذ باللہ)۔ امام طبری نے بھی یہی لکھا ہے۔ (اسلام کے مجرم ، صفحہ 30، 31)
تاریخ طبری میں ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ زیدؓ سے ملنے کیلئے ان کے گھر گئے ۔ زیدؓ موجود نہ تھے ، زینبؓ کپڑے پہن رہی تھیں ، اسی حالت میں رسول اللہ ﷺ نے ان کو (برہنہ) دیکھ لیا اوریہ الفاظ کہتے ہوئے باہر نکل آئے ، سبحان اللہ سبحان اللہ یا مصرف القلوب ! اے وہ اللہ جو دلوں کو پھیر دیتا ہے ۔ حضرت زیدؓ کو جب حالات معلوم ہوئے تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کی کہ زینبؓ اگر آپ کو پسند آگئی ہو تو میں ان کو طلاق دے دوں (علامہ شبلی نعمانی، سیرت النبی ، جلد اول، صفحہ 258) پھر ایسا ہی ہوا۔
حافظ ابن حجر ، امام ابن ابی حاتم اس روایت کو آگئے بڑھاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ زینبؓ کا جسم انتہائی حسین تھا ، لہٰذا رسول اللہ ﷺ کا ایک نظر میں عاشق ہوجانا کوئی غیر انسانی بات نہیں۔ اور داتا گنج بخش فرماتے ہیں کہ داؤد ؑ اور محمد رسول اللہ ﷺ ایک ہی نظر میں مبتلا ہوئے۔ جنید بغدادیؒ نے کہا کہ یوریا کی بیوی سے شادی کرکے داؤد ؑ کے ہاں ان کے بیٹے سلیمان ؑ ناجائز طور پر پیدا ہوئے۔ اور شیخ سیرین لکھتے ہیں سورہ احزاب میں جہاں اس بات کا ذکر ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے دل میں کچھ چھپا رہے تھے تو اس سے مراد آپ ﷺ نے زینبؓ کا عشق اپنے دل میں چھپا رکھا تھا۔( ملفوظات الغسل ، صفحہ 219)
رسول اللہ ﷺ نے زید بن حارثہؓ سے فرمایا تم میرے بھائی اور میرے مولا (آقا) ہو تو وہ خوشی سے ناچنے لگے (کیمیائے سعادت، امام غزالیؒ ، صفحہ 419) (یہ تو رسول ﷺ نے ابوبکرؓ و عمرؓ کیلئے بھی نہیں فرمایا ) یہ اسلئے کہ زیدؓ نے رسول اللہ ﷺ کو اپنی بیوی دیدی تھی۔ (ملفوظات مکی، اشرف علی تھانویؒ ) ۔ اسلام کے مجرم : ڈاکٹر شبیر احمد۔ صفحہ 33، 34، 61
کہکشاں 6440 NW, 53 ST
LAUDERHILL, FL33319, USA
27اگست 1999، یہ کتاب آپ کو دعوت فکر دیتی ہے ۔۔۔ نقل کفر کفر نہ باشد، اللہ تعالیٰ آپ کے ذوق سلیم میں اضافہ فرمائے ہمیں صراط مستقم پر چلائے اور ہم سب کو دونوں جہانوں میں فوز و فلاح سے نوازے۔ ڈاکٹر شبیر احمد ( نوٹ: کسی دن بھی دوپہر12 بجے سے پہلے یا شام 5بجے کے بعد E.S.Tبلا تکلف کال کیجئے :746-2115 (954)
Galaxy Publications www.galaxydastak.com
قارئین خاص طور پر حضرات علماء کرام اور مفتیان عظام کو بڑی حیرت ہوگی کہ حضرت علی ہجویریؒ المعروف داتا گنج بخش کس طرح سے یہ لکھ سکتے ہیں کہ اجنبی خواتین پر جب انبیاء کرام علیہم السلام کی نظر پڑ گئی جو نہیں پڑنی چاہئے تھے اور حرام تھی لیکن نظر پڑنے سے وہ اپنے شوہروں پر حرام ہوگئیں اور انبیاء کے نکاح میں آگئیں؟۔
عام طور سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ صوفیائے کرام اپنی وجدانی کیفیت کی وجہ سے معذور ہوتے ہیں اور ان سے بے سرو پا کلمات وارد ہوتے ہیں جو شریعت کے دائرے میں نہیں آتے۔ مگر یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حضرت علی ہجویریؒ ایک حنفی عالم دین تھے اور اس کی یہ بات حنفی فقہ اور اُصول فقہ کے عین مطابق ہے ۔ البتہ دین میں یہود و نصاریٰ کی طرح غلو کے مرتکب فقہاء نے اسلام کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے جس کی تصحیح کرنی پڑے گی۔

قرآن و سنت اور اُم المؤمنین حضرت زینبؓ کے واقعہ کا خلاصہ

حضرت زید بن حارثہؓکو چوری کرکے بیچ دیا ۔ جب رسول اللہ ﷺ کے پاس غلام کی حیثیت سے تھے تو آپؓ کے چاچوں کو پتہ چلا ، وہ مکہ آئے اور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں منہ مانگی قیمت کی پیشکش کردی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مفت میں لے جاؤ مگر اس شرط پر کہ زید خودجانے کیلئے راضی ہو۔وہ بہت خوش ہوئے لیکن جب زیدؓ نے جانے سے انکار کیا تو زیدؓ کو طعنہ دیا کہ آپ آزادی پر غلامی کو ترجیح دیتے ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے وقت کے رسم کے مطابق حضرت زیدؓ کی دلجوئی کیلئے اعلان کردیا کہ زیدؓ میرا بیٹا اور جانشین ہے۔ جس پر زیدؓ کے خاندان والوں کو بھی احساس ہوا کہ حضرت زیدؓ نے ٹھیک فیصلہ کیا ہے۔ روایات میں یہ بھی آتا ہے کہ اگر زیدؓ زندہ ہوتے تو رسول اللہ ﷺ آپؓ کو جانشین نامزد کردیتے۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنی کزن حضرت زینبؓ کا نکاح بھی حضرت زیدؓ سے کردیا۔ ایک طرف نبی ﷺ نے عالم انسانیت کو ایک آدم علیہ السلام کی اولاد قرار دیکر عربی عجمی ، کالے گورے اور ہر طرح کے نسلی امتیازات مٹانے کااعلان کیا تو دوسری طرف لوگ اس ماحول سے نہیں نکل پارہے تھے۔ قریش و انصار اور اوس و خزرج کے علاوہ قریش و اہل بیت کے نسلی امتیاز اور مسابقت میں خلافت وغیرہ پر بھی تصادم کے خطرات تاریخ کا حصہ رہے۔ زیدؓ سے نکاح کے باجود نسلی تفوق کا احساس زینبؓ کے دل و دماغ پر چھایا تھا، نبی ﷺ نے فرمایا : اگر اسلام میں تعظیمی سجدے کی اجازت ہوتی تو بیوی کو حکم دیتا کہ شوہر کو سجدہ کرتی۔ خوشگوار تعلق کیلئے میاں بیوی کے درمیان اس حدیث کی حیثیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور شوہر کو بیوی پر اللہ تعالیٰ نے جنسی لحاظ سے جو ایک درجہ دیا ہے اس میں فاعل اور مفعول کی حیثیت کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں ۔ بھارت کے اداکار عامر خان نے بچوں کو گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ سے آگاہی کی مہم چلائی، جو بھارتی فلموں میں بیڈ ٹچ کی مہم جوئی کو عام کرنے میں سب سے زیادہ بدترین کردار ادا کررہا ہے۔ میڈیا اندھوں میں کانا راجا نہیں اندھوں میں اندھا ہے ۔
حضرت زیدؓ نے حضرت زینبؓ کا وہ رویہ ملاحظہ کیا جس میں خاندانی اونچ نیچ کا اثر نمایاں تھا تو حضرت زینبؓ کو طلاق دینے کا فیصلہ کرلیا۔ طلاق کے بعد ایک خاتون کی حیثیت پر کتنا اثر پڑتا ہے ؟ ۔ مغرب میں مرد کو آدھی جائیداد سے محروم ہونا پڑتا ہے اور قرآن میں ہاتھ لگانے سے پہلے کی طلاق میں آدھا حق مہر اور ہاتھ لگانے کے بعد پورا حق مہر اور جو کچھ بھی اس کو دیا ہے چاہے خزانے دئیے ہوں سب دینے پڑتے ہیں، طلاق شدہ اور کنواری میں واضح فرق ہوتا ہے۔ نبی ﷺ کی منشاء سے زینبؓ جب زیدؓ سے شادی کرسکتی تھیں تونبی ﷺ سے پہلے نکاح کرنے میں بہت عزت محسوس کرتیں۔ نبی ﷺ نے زیدؓ کو طلاق دینے سے بار بارروکاکہ اللہ سے ڈرو ، ایسا نہ کرو لیکن زیدؓ کو زینبؓ کا رویہ ناگوار اور ناقابل برداشت محسوس ہورہا تھا۔ حضرت زیدؓ نے طلاق دینے کا فیصلہ کیا تو نبی ﷺ نے حضرت زینبؓ کی دلجوئی کی خاطر سوچا کہ زینبؓ کا دکھ دور کرنے کیلئے ان سے نکاح کرلیں۔
جاہلیت کا ماحول اس قدر بگڑا ہوا تھا کہ لوگ سر عام اپنی سوتیلی ماؤں سے نکاح کرلیتے تھے مگر منہ بولے بیٹے کی منکوحہ سے طلاق کے بعد بھی نکاح کرنے کو ناجائز سمجھتے تھے۔ اس بری رسم کو مٹانے کیلئے اللہ تعالیٰ نے ایک طرف یہ واضح کیا کہ اپنے آباء کی منکوحہ خواتین سے نکاح مت کرو مگر جو پہلے گزر چکا ہے۔ دوسری طرف یہ وضاحت کی کہ ان بیٹوں کی بیویاں تم پر حرام ہیں جو تمہارے اپنے صلب سے ہیں۔ جاہلیت کی شریعت کو مٹانے کیلئے یہ کافی تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کے اُسوہ حسنہ کو مثالی بناکر اُمت مسلمہ کیلئے راہ ہموار کرنی تھی۔ رسول اللہ ﷺ کے ذہن و دل پر بھی یہ بات چھائی ہوئی تھی کہ زینبؓ جب زیدؓ کی بیوی رہی ہے جو رسول اللہ ﷺ کا منہ بولا بیٹا ہے تو لوگ کیا کیا باتیں اڑائیں گے؟، اس واقعہ کی پوری تفصیل سورۂ احزاب میں ہے۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے ظہار یعنی بیوی کی پیٹھ کو ماں کی پیٹھ سے تشبیہ دینا جس سے بیوی کو حرام سمجھا جاتا تھا اور منہ بولے بیٹے کی بیوی کے حوالے سے بھرپور وضاحت کردی۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ سے فرمایا و اذ تقول للذی انعم اللہ علیہ و انعمت علیہ امسک علیک زوجک و اتق اللہ و تخفی نفسک ما اللہ مبدیہ و تخشی الناس و اللہ احق ان تخشٰہ فلم قضیٰ زید منھا و طرًا زوجنٰکھا لکی لا یکون علی المؤمنین حرج فی ازواج ادعیاءھم اذا قضوا منھم و طرًا و کان امر اللہ مفعولا (اور اے پیغمبر! یاد کرو جب آپ کہہ رہے تھے اس شخص سے جس پراللہ نے احسان کیا تھا اور آپ نے بھی احسان کیا تھا کہ اپنی بیوی کو اپنے ساتھ رہنے دو ۔ اور اللہ سے ڈرو۔ اور اس بات کو اپنے دل میں چھپارہے تھے جس کو اللہ تعالیٰ نے واضح کرنا تھا۔ آپ لوگوں سے ڈرتے ہیں ، اللہ اس بات کا زیادہ حق رکھتا ہے کہ اس سے ڈرو۔جب زید نے اپنی بیوی سے تعلق ختم کردیا تو ہم نے اس کو تیرے نکاح میں دینے کا انتظام کیا تاکہ مسلمانوں کیلئے اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں سے نکاح کرنے میں اس وقت مشکل محسوس نہ ہو جب وہ اپنی بیویوں سے تعلق کو ختم کرلیں۔ اور اللہ کا حکم نافذ ہوکر رہتا ہے۔احزاب: 37)۔ اس آیت سے واضح ہے کہ کوئی صحابیؓ اتنی ہمت نہیں رکھتا تھا کہ وہ اپنے منہ بولے بیٹے کی طلاق شدہ بیوی سے شادی کرلیتا۔ پھر اللہ نے یہ بھی واضح کردیا کہ اس واقعہ کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ مسلمانوں پر منہ بولے بیٹوں کی طرف سے بیویوں کے طلاق کے بعد نکاح کرنے میں حرج نہ ہو۔
سورہ مجادلہ کی آیات میں ایک خاتون کا رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں اپنے شوہر کے حوالے سے مجادلے کا ذکر ہے۔ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد ناخلف جانشینوں نے ہر دور میں یہود و نصاریٰ کے علماء و مشائخ کی طرح اللہ تعالیٰ کے دین میں غلو کا ارتکاب کرتے ہوئے حقائق بگاڑنے میں انتہائی کردار ادا کیا ہے۔ ایک ساتھ 3طلاق پر حلالہ کی لعنت کا عمل ہوتا تھا۔ بیوی کی پیٹھ کو ماں کی پیٹھ سے تشبیہ دینے کے بعد حلالہ کے ذریعے بھی حلال ہونے کی گنجائش نہیں ہوتی تھی اسلئے حضرت خولہ بنت ثعلبہؓ نے ظہار کے بعد اپنے شوہر کیلئے مجادلہ کیا۔ رسول اللہ ﷺ بار بار فرماتے تھے کہ آپ حرام ہوچکی ہیں مگر وہ مسلسل بحث و تکرار کررہی تھیں جس پر اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی کہ قد سمع اللہ قول التی تجادلک فی زوجھا ’’بیشک اللہ نے اس کی بات سن لی جو آپ (ﷺ) سے اپنے شوہر کیلئے جھگڑ رہی تھی اور اللہ سے شکوہ کررہی تھی۔۔۔ مائیں وہ ہیں جنہوں نے ان کو جنا ہے ۔ منہ سے بولنے پر بیویاں مائیں نہیں بنتیں یہ منکر اور جھوٹ قول ہے‘‘۔(سورہ مجادلہ)
دورِ جاہلیت میں بیوی کو کھلی فحاشی کی صورت میں قتل کیا جاتا تھا ، قرآن نے گھر سے ان کو نکالنے اور نکلنے کی اجازت دی اور قتل کرنے کے بجائے لعان کا حکم جاری کیا۔ انصار کے سردار حضرت سعد بن عبادہؓ نے برملا کہا کہ میں قرآن کی آیت پر عمل کے بجائے قتل کرونگا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں سعد سے زیادہ غیرتمند اور اللہ مجھ سے زیادہ غیرتمند ہے اور جب نبی ﷺ کو پتہ چلا کہ آپﷺ کی لونڈی ماریہ قبطیہؓ سے اس کا ایک ہم زبان ملتا رہتا ہے تو حضرت علیؓ کو اس شخص کے قتل کا حکم دیا تھا۔ حضرت علیؓ اس کو قتل کرنے کیلئے گئے تو اسکو مقطوع الذکر پایا جس کی وجہ سے قتل کرنے کے حکم پر عمل نہیں کیا۔ حضرت سعد بن عبادہؓ کی طرف سے طلاق شدہ بیوی کو دوسرے سے شادی کرنیکی اجازت نہیں دی جاتی تھی اور اللہ نے نبی ﷺ کی ازواج مطہراتؓ کو اُمہات المؤمنین قرار دیتے ہوئے کبھی ان سے نکاح کی اجازت نہ دی۔ لیکن جب حضرت عائشہؓ پر بہتان لگا تو نبی ﷺ نے اللہ کے حکم کے مطابق گھر سے نکالنے کا فیصلہ کیا مگر رسم جاہلیت کے مطابق قتل کرنے سے گریز کیا۔ آج معمولی شبہ کی بنیاد پر بیگمات کو قتل کیا جاتا ہے اور اللہ کے حکم کو نا قابل عمل سمجھا جاتا مگر علماء و مفتیان کے غلط فتوؤں کی بنیاد پر بیگمات کو خود ہی حلالے کیلئے پیش کیا جاتا ہے۔ رسم جاہلیت لوٹ کر آئی ہے اور اس کی وجہ معروف اسلام کا اجنبی بن جاتا ہے ، جس میں سب سے زیادہ کردار مذہبی کتابوں کا غلط در غلط نصاب اور علماء و مشائخ کا اسلام کی حقیقت سے دور ہونا ہے۔

فقہ حنفی کے اُصول و فروع اور حضرت علی ہجویریؒ کے علم کا اعتبار

ایک ہوشمند ، با فطرت، با صلاحیت اور با ہمت انسان کا خون کھولنے لگتاہے کہ یہ کونسی بکواس ہے کہ حضرت داؤد ؑ کی نظر اپنے مجاہد پڑوسی حضرت اوریا کی بیگم پر پڑی تو وہ اپنے شوہر کیلئے حرام ہوگئی اور حضرت داؤد ؑ کے نکاح میں آگئی۔ جیسے حضرت زیدؓ کی بیوی زینبؓ پر رسول اللہ ﷺ کی نگاہ پڑگئی اور وہ حضرت زیدؓ پر حرام ہوگئی اور نبی ﷺ کے نکاح میں آگئی۔
افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حنفی اُصول و فروع جو اُصول فقہ ، فقہ اور فتاویٰ کی کتابوں میں پڑھے اور پڑھائے جاتے ہیں اور ان پر فتوؤں کی شکل میں عمل درآمد کرایا جاتا ہے اس کا تقاضہ یہی ہے کہ حضرت علی ہجویری داتا گنج بخش کی بات سو فیصد درست ہو۔ کیونکہ حنفی مسلک میں یہ اصول پڑھایا جاتا ہے کہ و النکاح للوطی دون العقد ای یکون النکاح المذکور فی قولہٖ تعالیٰ لا تنکح ما نکح اٰبائکم من النساء محمولاً علی الوطی دون العقد فیشمل الوطی الحلال و الحرام و الوطی بملک الیمین ایضاً ۔۔۔۔۔۔ حقیقۃ النکاح الوطی و العقد مجازً ومن حیث الشرع بالعکس فالشافی حمل النکاح ھٰھنا علی معناہ المتعارف فلا یثبت حرمۃ المصاھرۃ بالزنا و نحن نحملہ علی حقیقۃ اللغویۃ فنثبت حرمۃ المصاھرۃ بالزناترجمہ’’اور نکاح کا لفظ جماع کیلئے ہے نہ کہ عقد نکاح کیلئے۔ اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا ہے کہ ان عورتوں سے نکاح مت کرو جن سے تمہارے آباء نے نکاح کیا ہے۔ آیت سے مراد ہمارے نزدیک عقد نکاح نہیں بلکہ جائز اور ناجائز ہر طرح کا تعلق جماع مراد ہے۔ جو نکاح ، زنا اور لونڈی سے تعلق سب کو شامل ہے۔ لغت میں نکاح کا حقیقی معنی جماع ہے۔ اور مجازاً اس کو عقد کہا جاتا ہے۔ شرع میں یہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ امام شافعیؒ کے نزدیک یہاں نکاح کا معنی عرف عام کے مطابق ہے پس وہ ثابت نہیں کرتا زنا سے حرمت مصاہرت کو اور ہم حقیقت لغوی کا اعتبار کرتے ہیں اور حرمت مصاہرت کو زنا سے بھی ثابت کرتے ہیں‘‘۔ (نور الانوار : جلد ثانی۔مُلا جیون)
اس اختلاف کی بنیاد پر معاملہ بڑھاتے بڑھاتے فقہ و اصول فقہ کی کتابوں میں یہاں تک لکھ دیا گیا ہے کہ شہوت کے ساتھ ہاتھ کا لگنا اور نظر کا پڑجانا بھی نکاح و زنا کے حکم میں ہے۔ ساس سے جسم شہوت کے ساتھ لگ جائے تو بیوی حرام ہوجاتی ہے ، اس طرح اپنے بچوں پر غلطی سے شہوت کا ہاتھ لگ جائے تو بیوی حرام ہوجاتی ہے۔ ساس کی شرمگاہ کو باہر سے شہوت کے ساتھ دیکھنے میں عذر ہے لیکن اندر کی طرف سے شہوت کی نظر پڑ جانے سے بھی وہ نکاح کے حکم میں آجاتی ہے اور بیوی حرام ہوجاتی ہے۔ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے ادارہ تحقیقات اسلامی نے جو فتویٰ مرتب کیا ہے اس پر پاکستان کے 840 علماء و مفتیان نے دستخط کئے ہیں جو جہاد اور خود کش حملوں کے حوالے سے ہے۔ جس پر تمام مسالک اور پاکستان کے ریاستی اداروں کا اعتماد ہے۔ اسی ادارہ تحقیقات اسلامی نے ایک کتاب ’’احکام طلاق، مصنف حبیب الرحمن‘‘ مرتب کرکے شائع کی ہے اور اس میں یہ بھی لکھا ہے کہ ’’اگر عورت عدت میں بیٹھی ہو تو شوہر کو چاہئے کہ اگر رجوع نہ کرنا چاہتا ہو تو پھر گھر میں داخل ہونے سے پہلے دروازے پر دستک دے تاکہ عورت سنبھل کر بیٹھ جائے اور ایسی جگہ شوہر کی نظر نہ پڑے جس سے شوہر کی آنکھوں میں شہوت آئے اور نہ چاہتے ہوئے بھی رجوع ہوجائے اور معاملہ گھمبیر بن جائے‘‘۔ حرمت مصاھرت کے حوالے سے یہاں تک غلو سے فقہ حنفی میں کام لیا گیا ہے کہ اپنی بیوی کو بھی اولاد جننے کے بعد شوہر کے جسم کا بیٹی کی طرح حصہ قرار دیا گیا ہے لیکن اُصولی طور پر ناجائز ہونے کے باوجود ضرورت کی وجہ سے اس سے ازدواجی تعلق جائز قرار دیا گیا ہے۔ اُصول فقہ ، فقہ اور فتاویٰ کی کتابوں میں یہ باتیں خفیہ نہیں ہیں بلکہ کھلے عام پڑھنے پڑھانے اور ان پر عمل درآمد کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ درس نظامی سے وابستہ علماء و مفتیان دن رات یہ مسائل پڑھتے پڑھاتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہاتھ کا زنا کسی کو شہوت سے ہاتھ لگانا ہے ، آنکھ کا زنا دیکھنا ہے اور پاؤں کا زنا اس فعل بد کی طرف چلنا ہے۔ حنفی مسلک میں شہوت کے ساتھ دیکھنے پر بھی زنا کے ساتھ ساتھ نکاح کا اطلاق بھی کیا گیا ہے۔ حرمت مصاھرت کے تمام مسائل اسی کے گرد گھومتے ہیں ۔ ان حقائق کے تناظر میں حضرت علی ہجویری ؒ داتا گنج بخش کی بات سمجھنے میں کوئی دشواری اسلئے نہیں ہے کہ جب شہوت سے نگاہ پڑنا زنا و نکاح کے حکم میں ہو ، اور کسی نبی کی نگاہ کسی اجنبی عورت پر پڑجائے تو حنفی مسلک کے مطابق وہ عورت نبی کے ہی نکاح میں آجائے گی اور نبی کے نکاح میں آنے کے بعد وہ اُمتی کیلئے ماں بن جائے گی اور اس امتی پر وہ عورت حرام ہوجائے گی۔ حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ ایک صوفی عالم تھے اور ان کی تردید اسلئے علماء و مفتیان نے نہیں کی کہ جو کچھ علماء و مفتیان اپنے نصاب میں پڑھا رہے ہیں وہ اسکے عین مطابق تھا۔ حنفی مکتبہ فکر کے علماء و مفتیان کو اپنا نصاب ٹھیک کرنا ہوگا۔
اگر حرمت مصاھرت کے حوالے سے جزئیت اور بعضیت کا مسئلہ درست ہے ۔ جب ایک مرتبہ بچہ جننے کے بعد بیوی شوہر کیلئے بیٹی اور جزء بدن بن جاتی ہے جو اُصول فقہ میں پڑھایا جاتا ہے اور ضرورت کی وجہ سے بیوی شوہر کیلئے جائز قرار دی گئی ہے لیکن اصولی طور سے وہ شوہر کیلئے حرام ہے تو پھر جب شوہر بچوں کی ماں کو طلاق دیتا ہے تو حلالہ کی لعنت کے ذریعے سے بھی اس عورت کو حلال نہیں ہونا چاہیے جو بچوں کی وجہ سے اس کی بیٹی تھی۔ بہت بڑے بڑے علماء کرام اور مفتیان عظام کو علمی حقائق روز روشن کی طرح سمجھ میں آگئے ہیں مگر ان میں جرأت اور ہمت نہیں کہ حق کا بول بالا کرنے کیلئے اپنے ماحول کے خلاف جسارت کرسکیں۔ مساجد اور مدارس کو رشد و ہدایت کی آماجگاہیں بنانے کیلئے لازم ہے کہ نصاب کو درست کرنے کے اقدامات کئے جائیں۔ پہلی وحی تعلیم بالقلم اور قرآن کی واضح آیات میں کتاب مسطور اور ہاتھ سے لکھی ہوئی کتاب سے لیکر ایک ایک چیز میں مدارس کے اندر ایک گمراہانہ نصاب تعلیم پڑھایا جارہا ہے۔ متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے اس نصاب تعلیم کو درست کرنے کی کوشش کی جائے جس کیلئے ہماری خدمات حاضر ہیں تو انقلاب آجائے۔
ایک طرف جدید اسلامی دانشور طبقہ علماء و مفتیان کے تعلیمی نصاب کو سراسر گمراہی سے تعبیر کررہا ہے اور دوسری طرف انتہا پسند تنظیموں کی طرف سے اسلامی ممالک کے علاوہ ان مدارس اور مساجد کو بھی دہشت گردی کا نشانہ بنایا جارہا ہے جو حکمران طبقہ کے کہنے پر فتوے جاری کررہے ہیں۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی نے میڈیا پر کہا تھا کہ ’’ہم خود کش حملوں کو ناجائز نہیں قرار دے سکتے‘‘۔ اب انکا نام بھی خود کش حملوں کو ناجائز قرار دینے کے فتوے میں شامل ہوگیا ہے لیکن جب اسلامی بینکاری پر علماء و مفتیان ایک دوسرے کی بات نہیں مان رہے ہیں تو دہشت گرد تنظیموں کی طرف سے ان علماء و مفتیان کے فتوؤں کو کون مانے گا جن کی حیثیت ہلال کمیٹی کی چیئر مینی سے زیادہ نہ ہو۔ چاند نظر آتا ہو اور ہلال کمیٹی کا چیئر مین کہے کہ میرا فیصلہ ہے کہ نہیں نظر آیا ۔ پوری دنیا میں عید الفطر ہی نہیں عید الاضحی منائی جاتی ہو اور پاکستان کی ریاست آٹھ آٹھ نمبر چشمہ رکھنے اور اس سے زیادہ موٹا دماغ رکھنے والے علماء و مفتیان کے رحم و کرم پر ہو تو یہ فتوے کس طرح سے مؤثر بن سکتے ہیں؟۔
پاکستان کے اصحاب حل و عقد موٹی موٹی باتوں پر اتفاق رائے سے وہ اسلامی نصاب تشکیل دیں جو قرآنی آیات ، احادیث صحیحہ اور درست اجتہادات کے تقاضوں کے عین مطابق ہو۔ جس سے پاکستان میں عالم اسلام اور عالم انسانیت کیلئے ایک بہترین معاشرتی نظام پیش کیا جائے۔ امریکہ ، بھارت اور اسرائیل پاکستان کو تباہ کرنے کے درپے ہیں اور ان کا راستہ روکنے کیلئے ہمیں شیعہ سنی ، حنفی اہل حدیث اور بریلوی دیوبندی فرقہ وارانہ اور متعصبانہ خیالات سے نکل کر اُمت وسط اور صراط مستقیم پر چلنا ہوگا۔ مدارس اور مساجد سے حقائق کی بنیادپر ایک ایسا انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے جو ہمارے سیاسی و معاشرتی ڈھانچے کو بدل کر رکھ دے گا لیکن سب سے پہلے مذہبی طبقات نے اپنے آپ کو بدلنا ہوگا۔

شیطانی القاء اورخیالات کو بدلنے کیلئے انقلابی راستہ اپنانا ہوگا

وما ارسلنا من قبلک من رسول ولا نبی الا اذا تمنیٰ القی الشیطان فی امنیتہٖ فینسخ اللہ ما یلقی الشیطان ثم یحکم اللہ اٰیٰتہٖ و اللہ علیم حکیم O لیجعل اللہ ما یلقی الشیطان فتنۃ للذین فی قلوبھم مرض و القاسیۃ قلوبھم و ان الظٰلمین لفی شقاق بعیدO ولیعلم الذین اُتوا العلم انہ الحق من ربک فیؤمنوا بہٖ فتخبت لہ قلوبھم و ان اللہ لھادالذین اٰمنوا الیٰ صراط مستقیم O ’’اور ہم نے آپ سے پہلے نہیں بھیجا کسی رسول کو اور نہ کسی نبی کو مگر یہ کہ جب اس نے خواہش ظاہر کی تو شیطان نے اس کی خواہش میں اپنی بات ڈال دی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے شیطان کی ڈالی ہوئی بات کو مٹادیا اور اپنی آیات کو محکم کردیا۔ اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔ تاکہ شیطان کی ڈالی ہوئی بات کو ان لوگوں کیلئے فتنہ بنادے جن کے دلوں میں مرض ہے اور جن کے دل ڈھیٹ ہیں۔ اور ظالم لوگ دور کی کمبختی میں پڑے ہوئے ہیں۔ اور اسلئے کہ تاکہ جن لوگوں کو سمجھ دی گئی ہے وہ جان لیں کہ حق آپ کے رب کی طرف سے ہے اور اس پر وہ ایمان لائیں اور ان کے دل حق کیلئے جھک جائیں۔ اور بیشک اللہ ہدایت دینے والا ہے ایمان والوں کو سیدھی راہ کی طرف‘‘۔ (سورۃ الحج)
یہ سورت مدنی ہے اور القاء شیطانی سے مراد یہ نہیں ہے کہ شیطان انبیاء کرام ؑ کے دل میں پھونک مار کر اپنی باتیں ڈالتا تھا ، البتہ شیطان کے پھیلائے ہوئے جال اس قدر مضبوط ہوتے تھے کہ پورا ماحول شیطان نے اپنی لپیٹ میں لیا ہوتا تھا۔ ظہار کے بارے میں سورہ مجادلہ اور لے پالک (منہ بولے بیٹے) کے بارے میں سورہ احزاب کی آیات اس کا واضح ثبوت ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آیات کے ذریعے سے ظہار اور لے پالک کے احکام کو واضح کردیا ۔ جبکہ نبی اور رسول کے علاوہ کسی اور کے پاس وحی کا کوئی ذریعہ نہیں جس کے ذریعے سے وہ شیطانی ماحول سے محفوظ ہوسکے۔ تمنا اور اُمنیت کا تعلق ظاہری الفاظ سے نہیں بلکہ یہ اندرونی کیفیت اور خواہش کا نام ہے۔ اُمنیت کی جمع عربی میں امانی ہے۔ قرآن میں بار بار تلک امانیھمکا ذکر ہے۔ ماحول کے اثرات سے جو خواہشات لوگوں کے دلوں میں جڑ پکڑ لیتی ہیں اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اس کی جگہ جگہ تردید کی ہے۔ یہود و نصاریٰ کے مذہبی طبقات نے بھی اپنے اپنے طور پر ماحول کے اثرات سے خواہشات پال رکھی تھیں۔
سورۂ نجم مکی دور میں نازل ہوئی تھی ۔ سورۂ نجم میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ جو وحی حضرت محمد ﷺ پر نازل ہوتی ہے اس میں شیطان کا کوئی عمل دخل ممکن نہیں ہے۔ ایک طاقتور فرشتے جبرائیل ؑ کے ذریعے تمام خطرات سے یہ محفوظ ہے۔ افسوس کہ سورۂ نجم کے محور ہی کے برعکس ہماری تفاسیر اور روایات میں شیطانی آیات کا تصور بھی داخل کردیا گیا ہے۔ چنانچہ بعض مترجمین نے سورہ حج کی مندرجہ بالا آیت کا ترجمہ بھی یہ کیا ہے کہ ’’اور ہم نے تم سے پہلے جتنے رسول یا نبی بھیجے سب پر کبھی یہ واقعہ گزرا ہے کہ جب انہوں نے پڑھا تو شیطان نے ان کے پڑھنے میں لوگوں پر کچھ اپنی طرف سے ملادیا تو مٹا دیتا ہے اللہ تعالیٰ اس شیطان کے ڈالے ہوئے کو پھر اللہ اپنی آیتیں پکی کردیتا ہے‘‘۔ یہ ترجمہ مولانا احمد رضا خان اعلیٰ حضرت بریلوی نے کنز الایمان میں کیا ہے۔ حالانکہ سورہ حج مدنی سورت ہے اور سورہ نجم مکی سورت ہے۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ عوام اور نبی کے درمیان شیطان آیات میں بھی دخل اندازی دے سکتا ہے تو یہ سورۂ نجم اور قرآن کے مقاصد سے کوئی مناسبت نہیں رکھتا ہے۔ سلمان رشدی کی کتاب ’’شیطانی آیات‘‘ بھی ان واقعات سے متعلق تھی۔ اُمت مسلمہ کو شیطان سے بچنے کیلئے فرقہ واریت سے نکلنا ہوگا۔
واقعہ یہ تھا کہ سورہ نجم میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ کے ان عجیب و غریب خیالات کی تردید کی تھی کہ وہ اپنے لئے بیٹوں کو پسند کرتے ہیں اور اللہ کیلئے بیٹیوں کو پسند کرتے ہیں۔ لات منات اور عزیٰ مشرکین مکہ کی مختلف دیویاں تھیں۔ سورہ نجم میں ان کا ذکر بھی ہے اور سورہ نجم کے آخر میں سجدے کی آیت ہے ، یوں تو رسول اللہ ﷺ معمول کے مطابق سجدے سے پہلے رکوع کرتے تھے اور رکوع کے بعد قومہ کیلئے کھڑے ہوتے اور پھر سجدہ کرتے مگر سورہ نجم میں سجدے کی آیت کی وجہ سے اچانک سجدے میں چلے گئے تو مشرکین مکہ نے بھی اس غیر معمولی سجدے کو دیکھ کر اچانک سجدہ کرلیا۔ جس طرح موجودہ دور میں کوئی اچانک لیٹ جائے یا بھاگے اور ساتھ والے غیر ارادی طور سے اس کی اتباع کریں تو یہی ہوتا ہے۔ مشرکین مکہ نے اپنی اس خفت کو مٹانے کیلئے پروپیگنڈہ شروع کردیا کہ نبی ﷺ نے لات منات اور عزیٰ کیلئے تلک الغرانیق العلیٰ فان شفاعتھن ترتجی ’’یہ کنواری لڑکیاں بلند مقام رکھتی ہیں اور ان کی شفاعت کی اُمید ہے‘‘ تلاوت میں پڑھا جس کی وجہ سے ہم نے بھی سجدہ کرلیا۔ اس پروپیگنڈے کے نتیجے میں حبشہ ہجرت کرنے والے مسلمان بھی واپس آگئے لیکن مکہ کے قریب پہنچ کر ان کو غلط پروپیگنڈے کا پتہ چل گیا۔ بعض واپس چلے گئے اور بعض مکہ میں رک گئے۔ جو سیرت کی کتابوں میں بھی موجود ہے۔ سورہ حج میں شیطان کے القاء کے حوالے سے سورہ نجم کی من گھڑت شیطانی آیات کا کوئی تعلق نہیں۔ البتہ داتا گنج بخش کی عبارت ، مولانا احمد رضا خان بریلوی کے ترجمے ،شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے جو سُود کو جواز بخشنے اور مختلف ادوار میں اسلام کی حقیقت کو مسخ کردینے والے افراد کی ان باتوں کو شیطانی القاء قرا ردیا جائے جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد ؑ کے حوالے سے فرمایا ہے کہ لی نعجۃ ولہ تسع و تسعون نعجۃ۔۔۔ ’’میرے پاس ایک دنبی اور اس کے پاس 99دنبیاں ہیں اور وہ چاہتا ہے کہ ایک بھی مجھ سے واپس لے۔ جب ایک شخص نے حضرت داؤد ؑ کو اپنا واقعہ بتایا کہ میرا بھائی میرے ساتھ یہ ظلم کررہا ہے اور حضرت داؤد ؑ نے فرمایا کہ اگر واقعی وہ ایسا کررہا ہے تو وہ غلطی پر ہے ۔ پھر اس کی وجہ سے حضرت داؤد ؑ کو تنبیہ ہوئی اور اپنی بات پر اللہ سے مغفرت مانگی اور اللہ نے معاف کردیا‘‘۔ اس واقعہ کے ضمن میں یہ لکھا گیا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام کی نظر حضرت اوریا کی بیگم پر پڑی اور دل میں خواہش ہوئی کہ ان سے نکاح کرلیں۔ پھر جب وہ محراب میں بیٹھے تھے اور دروازے بند تھے آنے کی کوئی راہ نہ تھی ، کچھ لوگوں کو آتے دیکھ کر گھبرا گئے اور پھر انہوں نے اپنا قصہ سنایا تو اس کی وجہ سے تنبیہ ہوئی اور اللہ سے معافی مانگ لی اور اللہ نے معاف کردیا۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی نظر کسی خوبرو خاتون پر پڑی تو نبی کریم ﷺ اپنے گھر میں تشریف لے گئے اور اپنی گھر والی سے جماع کرلیا اور فرمایا کہ جس کسی کے ساتھ ایسا ہو تو اپنی بیوی کے پاس جائے ، جو چیز کسی اور عورت کے پاس ہے وہ اس کی بیوی کے پاس بھی ہے۔
قرآن و سنت معاشرے کی اصلاح کیلئے بہترین سرمایہ ہیں۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور جہاد کے علاوہ معاشرتی احکامات کے ذریعے سے معاشرتی اقدار کا تحفظ بھی ان میں موجود ہے۔ بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے خواب میں حضرت عائشہ صدیقہؓ کی تصویر دکھائی گئی تھی کہ یہ تمہاری زوجہ ہوگی، میں نے سوچا کہ اگر یہ خواب اللہ کی طرف سے ہے تو پورا ہوگا اور شیطان کی طرف سے ہے تو پورا نہیں ہوگا۔ اس حدیث سے سبق لیتے ہوئے علماء و مشائخ کو بھی چاہئے کہ شیطانی القاء اور اجتہادات سے بچنے کے راستے تلاش کریں۔ اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے سے 14سو سال پہلے جسطرح ماحول کی اصلاح کردی تھی آج دور جاہلیت کے مقابلے میں انسانی شعور زیادہ بیدار ہے اور قرآن و سنت پر عالم انسانیت کو عمل کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہے۔ جاہل تو جاہل جن کی اٹھک بیٹھک اور اوڑھنا بچھونا مذہب سے تعلق رکھتا ہے وہ بھی قرآن کے فطری احکامات کی طرف رجوع نہیں کررہے ہیں۔ جب بڑے مدارس ناجائز حلالے کی لعنت کے فتوے دینگے جس سے لوگوں کی بیویوں ، ماؤں ، بیٹیوں اور بہنوں کی عزتیں تار تار ہونگی تو کسی اور سے کیا اُمید رکھی جاسکتی کہ وہ اپنے معاش اور نفسانی خواہش کیلئے کچھ نہ کریں۔عتیق گیلانی