پولیس پر اعتماد کریں ریاست مارتی نہیں: چیف جسٹس ثاقب نثار
نوشتہ دیوار کے خصوصی ایڈیٹر سید ارشاد علی نقوی نے کہا ہے کہ عوام کو تمام ریاستی اداروں پر تہہ دل کیساتھ اعتماد کرنے کی ضرورت ہے ۔ پاک فوج ، عدلیہ ، پولیس ، سول انتظامیہ کے علاوہ پارلیمنٹ سب ہی قابل احترام ہیں لیکن ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات۔ عوام ہی کی جان، مال اور عزت و آبرو ٹکے کی نہیں اور جب تک مخصوص مقاصد کی خاطر انکے حال پر رحم نہ کیا جائے تو ان کی فریاد عرش الٰہی کو سنائی دیتی ہے اور بس۔ محترم چیف جسٹس صاحب ! آپ ٹھیک فرماتے ہیں کہ راؤ انوار کو چھپانے والے بہت ہیں لیکن اگر ماڈل ٹاؤن پولیس کو استعمال کرنے والوں کی خبر لی جاتی تو ان چھپے ہوئے پھنے خانوں کو نکالنا بھی مشکل نہ ہوتا۔ لواحقین کو طفل تسلیاں مبارک ہوں۔ معروف صحافی مظہر عباس نے ایک پروگرام میں بتایا کہ ’’جنرل نصیر اللہ بابر کی قیادت میں ایک اجلاس ہوا جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ایم کیو ایم کے دہشت گرد عدالتوں سے چھوٹ جاتے ہیں ، ان کو پولیس مقابلے میں ماردیا جائے۔ اس اجلاس میں سول اور ملٹری کے تمام اداروں نے اتفاق رائے سے فیصلہ کیا لیکن آئی جی پولیس افضل شگری واحد انسان تھا جس نے اس سے اختلاف کیا جس کی وجہ سے ان کا تبادلہ بھی کردیا گیا۔ پھر راؤ انوار ، چوہدری اسلم اور دیگر دہشت والے تھانیداروں کی خدمات لی گئیں اور ماورائے عدالت خوب قتل و غارت گری ہوئی ۔ اس قتل و غارت میں ایک فوجی افسرکا نام آیا اور اسے پھر فوجی عدالت نے پھانسی کی سزا سنائی اور پھانسی دے بھی دی‘‘۔
راؤ انوار نے ایم کیو ایم کے بعد طالبان دہشتگردوں کا صفایا کرنے میں بھی زبردست اور اہم کردار ادا کیا۔ راؤ انوار جیسے بہادر پولیس افسر نہ ہوتے تو امن کی فضاء ہوتی ،نہ طالبان سے کراچی چھٹکارا پاتا۔ طالبان کیوجہ سے محسود قوم کیساتھ جو سلوک فوج نے روا رکھا اس پر محسود قوم بجا طور سے کوئی شکوہ نہیں کرتی ہے۔ پولیس نے دہشت گردوں کے علاوہ شریف لوگوں کو بھی بہت ستایا اور اللہ کرے کہ اب محسودوں کا گناہ معاف ہو ، آئندہ کسی اور طوفان سے گزرنا نہ پڑے۔ پٹھانوں نے طالبان اور بلوچوں نے قوم پرستوں ، مہاجروں نے ایم کیو ایم کی وجہ سے جو دکھ درد سہے ہیں اللہ نہ کرے کہ ہمارے پنجابی بھائی ان سے گزریں۔ قصور کے بے قصور بچوں اور بچیوں کیساتھ جو کچھ ہوا ، اس طرح توبلوچ قوم پرستوں ، ایم کیو ایم کے دہشتگردوں اور طالبان دہشتگردوں کے خواب و خیال میں بھی نہ گزرا ہوگا۔ یہ ریاست کا بہت بڑا احسان ہوگا کہ قرآن و سنت کیمطابق جبری جنسی تشدد کیخلاف پارلیمنٹ کھلے عام سنگساری کے احکام نافذ کردے۔ پارلیمنٹ قانون پاس کرے عدالت چند دنوں میں ان کیسوں کو نمٹائے اور حکومت اس پر عمل درآمد کرائے۔
عدالت عالیہ نے چاہا تو وقت گزرنے کے باوجود میاں نواز شریف ان کیسوں میں بری کردیا جن میں عدالت نے سزا دی تھی۔ عدالت عالیہ نے چاہا تو حدیبیہ پیپر ملز کے تمام دستاویزی ثبوت موجود ہونے اور باقاعدہ فیصلہ نہ ہونے کے باوجود کیس کو دفن کردیا۔ عدالت عالیہ نے چاہا توپارلیمنٹ میں اثاثہ جات کے اقرار کے تحریری بیان اور قطری خط میں کھلا تضاد تھا تو بھی اپنا فیصلہ اقامہ پر سنایا۔ جس سے چیف جسٹس کے سابق مؤکل محترم نااہل نواز شریف کوسپریم کورٹ کے لارجر بنچ کو خوب تر صلواتیں سنانے کا موقع فراہم کیا۔ نقیب اللہ محسود بے گناہ تھا تو قرآن میں ایک بیگناہ کے قتل کو انسانیت کا قتل قرار دیا گیا ہے۔ لیکن یہاں تو بڑے بڑے شہروں میں چھوٹی چھوٹی باتوں کی کئی داستانیں ہیں جو کسی شمار و قطار میں نہیں۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر کی نیت پر انسانی حقوق کے حوالے سے کوئی شک نہیں مگر نصیر اللہ بابر ہی نے جمہوری دور میں طالبان پیدا کئے اور پولیس مقابلوں میں ماورائے عدالت عام شہریوں کو قتل کی اجازت دی۔ ہمارا مقصد تنقید برائے تنقید اور مخصوص لوگوں کی طرفداری نہیں لیکن قرآن و سنت کے احکامات سے ہمارے مردہ معاشرے میں نئی روح پھونکی جاسکتی ہے۔ قتل کے بدلے قتل اور زنا بالجبر پر سر عام سنگساری کی سزا جمہوری بنیادوں پربھی عالم انسانیت کیلئے قابل قبول ہوگی اور دنیا کے تمام کمزور لوگ اس کو سپورٹ کرینگے۔