اسلام کا مذہبی طبقہ نے بیڑہ غرق کردیا،ڈاکٹر سید وقار حیدر شاہ سیالکوٹی
فوجی، سیاستدان، عام آدمی، پڑھالکھا،ان پڑھ، ڈاکٹر،انجینئر، سائنسدان، بینکار اور مذہبی طبقہ سے تعلق رکھنے والا بالکل عام وہ شخص جو مولوی نہ ہو یہ تصور بھی نہیں کرسکتا ہے کہ اسلام فطری دین ہے جسے ہر فرد بخوبی سمجھ سکتا ہے مگرمولوی کے دل پر اللہ نے تالا لگا دیا ہے ۔غیر مسلم سکھ، ہندو، یہودی، عیسائی، بدھ مت ، مجوسی اور دنیا کے کونے کونے میں رہنے والے انسانوں کو اسلام پوری آب وتاب کیساتھ سمجھ میں آجائیگا مگرعلماء ومفتیان کی اکثریت زنگ آلودہ دل، ضد، ہٹ دھرمی، کوتاہ ذہنی،قاصر دماغی ، مفادپرستی، فرقہ وارنہ عصبیت ، طبقاتی عناد ، کورنگاہی اور معصومانہ حماقت کے سبب اسلام کو سمجھنے میں دیرلگادیگی، جانور تو سب ہی جانور ہیں لیکن گدھا ضرب المثل ہوتاہے، اللہ نے یہود ی علماء کو گدھے سے تشبیہ دی اور نبیﷺ نے انکے نقش قدم پر چلنے کی پیشگوئی فرمائی تھی جو بالکل درست ثابت ہورہی ہے اور آج تمام طبقے اپنے احوال میں علماء سمیت زیادہ مختلف نہیں ہیں۔
عورت صنفِ نازک اور مرد طاقتورہے، دونوں میں لڑائی ہوتو عورت زبان کی تیز اور مرد ہاتھ چھوڑہوگا۔ یہ ایک غیرمعمولی کیفیت ہوتی ہے کہ زبان درازی کے مقابلہ میں ہاتھ چلنے اور مارکٹائی تک بات پہنچ جاتی ہے۔اگراللہ شوہر پر پابندی لگادیتا کہ بیوی پر ہاتھ نہیں اٹھا سکتے تو باتونی لڑائی کا بازار گرم ہوتا اور زندگی اجیرن بن جاتی،چرب زبانی کا مقابلہ ہاتھ سے ہوتا ہے، اللہ نے شوہر کو اجازت دیدی واضربوھن ’’اور انکو مارو‘‘۔ ایک عام انسان سوچتا ہے کہ نعوذباللہ یہ کتنا ظلم ہے کہ اللہ نے شوہر کو ٹھنڈا کرنے کی تعلیم دینے کی بجائے الٹا بیوی کو مارنے کا حکم دیا ، مذہب سے زیادہ سیکولر و سوشلسٹ نظام میں عافیت ہے لیکن کیا وہاں عورت پر تشدد نہیں کیا جاتا ہے؟۔ اسلئے تویہ قوانین بھی بنائے گئے ہیں کہ ’’عورت مار کھانے کی بجائے فوری طور سے پولیس کو اطلاع کردے‘‘۔
قرآن نے حکمت اور فطری تقاضوں کو پورا کرکے عورت کو شوہر کی مار سے بچانے کا نسخۂ کیمیا بتادیا۔ شوہر کی بیوی سے دشمنی نہیں ہوتی ،مارکٹائی اور تشدد کی عادت فطری تعلیم سے جہالت کا نتیجہ ہے۔ اللہ نے پہلے مرحلے میں شوہر کو پابند بنایا کہ وہ بیوی کو سمجھائے۔ پھر دوسرے مرحلہ میں بستر الگ کرلے، پھر تیسرے مرحلہ میں مارنے کی بات ہے۔یہ مارنا سزا نہیں بلکہ عورت کی توہین ہے۔کوئی معزز انسان اپنی توہین و اہانت برداشت نہیں کرسکتا۔ہلکی ماربھی رسوائی ہے۔ بدکاری پر100کوڑے کی سزا میں مؤمنوں کے ایک گروہ کوگواہ بنانے کا حکم جسمانی سزا سے زیادہ روحانی اذیت اور شرمندگی کا احساس ہے۔ عورت کی سرکشی کا خطرہ ہو اور مار سے اطاعت کرلے توفرمایا:’’ ان کیلئے (مارکٹائی ، باتیں سنانے کی) راہیں تلاش نہ کرو‘‘۔اللہ نے یہ بھی فرمایاہے کہ ’’اگر ان دونوں میں جدا ہونے کا خوف ہو تو دونوں طرف سے ایک ایک رشتہ دار کو فیصلے کیلئے حَکم بنایا جائے۔۔۔‘‘
فوج کی حکمرانی اسلئے غلط ہے کہ انکی تربیت دشمن کیلئے ہوتی ہے ،انکا عوام سے برتاؤ اچھا نہیں ہوسکتا ، البتہ سیاسی قائدین آمریت کی پیداوارہیں۔ ریاست ماں جیسی مگرماں انسان نہیں کتیا جیسی ہے ، ریاست کے اہلکاروں کا اپنی عوام سے سلوک کتوں کے بچوں کا ہوتاہے،اگرہم قرآن کیمطابق مہذب بن کر ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کو انکے حقوق دینگے تو ہماری ریاستی اداروں کا رویہ بھی درست ہوگا، کشمیر وفلسطین اور سب ہی آزاد ہونگے۔
بیوی کوشوہر کی شکل ،کرداراور سلوک پسند نہ ہواورچھوڑنے کی اجازت ہوتو شوہر ایسا سلوک روانہ رکھے گا کہ عورت اسکو چھوڑ کر جائے،رویہ کی وجہ سے شکل بھی بری لگتی ہے۔ یہ اسلام نہیں کہ شوہر کے ہرطرح کے ناروا رویے کے باوجود لفظِ طلاق کا پابند بنایا گیا ہو۔ اس میں شبہ نہیں کہ نکاح کا عقدہ بہت مضبوط اور شوہر کا اختیار ہے لیکن اس دائرہ اختیار کے بھی حدود ہیں۔ طلاق کی ایک صورت الفاظ کی ہے، دوسری صورت عمل سے طلاق کی ہے ، پہلے اللہ نے طلاق کی عملی صورت کو واضح کیا اور پھر طلاق کے اظہار کو واضح کیا ۔پہلے اللہ نے عورت کی طرف سے شوہر کو چھوڑنے کی وضاحت کی پھر شوہر کی طرف سے بیوی کو چھوڑنے کے اختیار کی وضاحت کی۔ ہاں ہاں! مولوی سمجھے گا نہ مانے گا۔مذہبی طبقہ تو قرآن وسنت کیخلاف ایک طلاق کے بعددوطلاقوں کے باقی رہنے کا تصور دوسری شادی کے بعد بھی رکھتا ہے حالانکہ دو مرتبہ طلاق کاتعلق طہروحیض کے ادوار سے واضح ہے۔
قرآن گنجلک،الجھی ہوئی اور بھول بھلیوں کی کتاب نہیں بلکہ اسکی آیات بینات کی فصاحت و بلاغت اتنی واضح ہے کہ عام انسان بھی بات کی تہہ تک پہنچ جاتا ہے فرمایا: عورتوں کے زبردستی مالک نہ بن بیٹھو!،اور اسلئے ان کو نہ روکو، کہ جو تم نے انکو دیااس میں سے بعض واپس لے لو، الایہ کہ وہ کھلی فحاشی کا ارتکاب کریں۔ انکے ساتھ اچھا معاملہ کرو، اگر وہ تمہیں بری لگیں تو ہوسکتا ہے کہ کسی چیز کو تم برا سمجھو اور اللہ اس میں تمہارے لئے بہت سارا خیر رکھ دے‘‘(سورۂ النساء آیت19)۔ ہٹ دھرم اورغیرت وحسِ انسانی سے عاری علماء کی اکثریت کے علاوہ اس آیت کے افہام وتفہیم کا ادراک ہر بنی نوع انسان بخوبی کر سکتا ہے۔ پہلے واضح فرمایا: عورت کے زبردستی مالک نہ بن بیٹھو، بیوی کی ملکیت کا تصور باطل قرار دیا، پھر وہ چھوڑ کر جانا چاہیں تو اسلئے نہ روکو ،کہ دی ہوئی چیزمیں سے بعض واپس لے لو مگر فحاشی کی صورت مستثنیٰ ہے۔ عورت کھلی فحاشی کی مرتکب نہ ہو تو شوہر کی طرف سے بعض دی ہوئی چیزوں سے محروم کرنے کے اقدام کو بھی غلط قرار دیا ہے۔ ایسے موقع پر بیوی پر غصہ و بدسلوکی کا اندیشہ ہوتا ہے اور ممکن ہے کہ وہ بری بھی لگیں مگر اللہ نے پوری صورتحال کا زبردست طریقے سے احاطہ کرکے تمام پہلوؤں کو واضح کردیاہے کہ ’’پھر بھی انکے ساتھ اچھا برتاؤ کرو، وہ تمہیں بری لگ رہی ہوں تو ہوسکتا ہے کہ کوئی چیز تمہیں بری لگے اور اللہ تمہارے لئے بہت سارا خیر رکھ دے‘‘۔ بالفرض عورت شوہر سے نباہ نہیں کرنا چاہ رہی ہے، چھوڑ کر جانا چاہ رہی ہے تو اس کو انا کا مسئلہ بناکر بدسلوکی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے ٹھنڈا پانی پی کر برداشت کرنا چاہیے۔ اگر وہ اس طرح چھوڑ کر نہ جائے یا اس کیلئے رکاوٹ پیدا کی جائے اور کل کلاں عزت تارتار ہوجائے، زندگی اجیرن رہے، بدمزگی کی صورتحال دائمی طور سے رہے تو اس کی بجائے ان کو حسنِ سلوک سے چھوڑنے کی بات میں بہت سارا خیرپنہاں اور چھپا ہوا نہیں بلکہ عیاں اور واضح ہے۔
غیرت یہ ہے کہ عورت کی وفاداری مشکوک ہوجائے تو بھی چھوڑنے میں لمحے کی دیر نہ لگائی جائے لیکن جب عورت چھوڑ کر جانا چاہتی ہو اور شوہر اس کو رکنے پر مجبور کرے تویہ شوہر کی غیرت نہیں حد درجہ بے غیرتی بھی ہے، اللہ نے اس آیت میں غیرت ہی کی تعلیم دی ہے مگر بے غیرت قسم کے معاشرے میں بے غیرتی کو ہی بڑی غیرت سمجھ لیا جاتاہے ۔ مذہبی طبقہ کی اکثریت کو چھوڑ دو، یہ قرآن سمجھنے کی صلاحیت سے ہی خود کو عاری کرکے دل اور دماغ پر زنگ چڑھا چکی ہے، کسی حسنی اور حسینی مہدی اور امام برحق کے انتظار میں ان کو بیٹھے رہنے دو،جو گمراہی کے قلعے مدارس اور ان زنگ آلودہ دلوں کو فتح کرے گا۔
اگلی آیت میں اللہ نے شوہر کو بیوی چھوڑنے کی اجازت دی فرمایا : ’’اگرکوئی بیوی کی جگہ دوسری بیوی کرنا چاہے تو اگر کسی ایک کو بہت سارا مال دیا ہو تو بھی اس میں سے کچھ لینا جائز نہیں ۔کیا تم بہتان اور کھلے ہوئے گناہ کے ذریعہ سے بعض مال واپس لوگے؟‘‘۔ (آیت20سورۂ النساء)۔ عورت چھوڑ کر جانا چاہے تو بھی دیے ہوئے مال میں بعض کی واپسی کو صرف فحاشی کی صورت میں مستثنیٰ قرار دیا ، اسی آیت کے ذیل میں خلع کی احادیث کو درج کرنا تھا، عورت چھوڑ کر جانا چاہتی ہوتو اس کو خلع کہتے ہیں۔شوہر چھوڑ نا چاہتا ہوتو بہتان لگاکر عورت کو بعض چیزوں سے محروم کرنے کے کھلے گناہ سے روکا گیا ہے۔ فرمایا: کیا تم ان پر بہتان لگاؤگے اور وہ تم سے لے چکیں میثاق غلیظ پکا عہدوپیمان۔ آیت21
اللہ تعالیٰ نے انبیاء سے میثاقِ غلیظ لینے کا ذکر کیا ہے اور بیوی کا شوہر کو امانت سونپ کر رازداری کے مقدس عمل کو بھی میثاقِ غلیظ قرار دیا ہے۔ کم عقل علماء و مفتیان نے نکاح کے اس مقدس عہدوپیمان کی ضد کو طلاق مغلظہ کا نام دیکر اسکے مفہوم کا بھی ستایاناس کردیا ہے۔ یہ بیوقوف ہٹ دھرم اورانتہائی معصوم احمق طبقہ کہتا ہے کہ ایک ساتھ تین طلاق دینا عورتوں کو مغلظہ یعنی اپنے اوپر غلیظہ بنانا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے طلاق نہیں نکاح میں مباشرت کے مقدس عمل کو ہی میثاقِ غلیظ (پکا عہدوپیمان) قرار دیا تھا۔ جو اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ اس کی مثال دینی بھی مشکل ہے۔ عدت تک قائم رہتا ہے، عدت حمل کی صورت میں ہو وضع حمل تک اور طہرو حیض کی شکل میں ہو تو تینوں مراحل میں تین مرتبہ طلاق کے باوجود عدت کے خاتمے تک باہمی رضامندی اور صلح سے معروف طریقے پر اللہ نے بار بار روجوع کی وضاحت کی ہے۔ سورۂ البقرہ،النساء، المائدہ، الاحزاب، المجادلہ اور سورہ طلاق کی آیات کو دیکھا جائے تو عالم انسانیت قرآن کی عظیم انسانی منشور کے سامنے سجدہ ریز ہوجائیگی۔
امام ابوحنیفہؒ کا مسلک اقرب الی الحق اسلئے ہے کہ اللہ نے ایلاء پر چار ماہ کے انتظار کا حکم دیا اور طلاق کے عزم کے باوجود اظہار نہ کرنے پر مواخذے کی وضاحت کی ۔ علامہ ابن قیم اور جمہورائمہ و محدثین کے نزدیک نعوذباللہ چار ماہ کا انتظارمحض ایک شوشہ، فضول اور بکواس ہے، جبتک شوہر طلاق نہ دے عورت چارماہ کیا زندگی بھر انتظار کریگی۔ جبکہ امام ابوحنیفہؒ نے کہا’’ چارماہ تک انتظار عزم کا اظہار ہے اسلئے طلاق ہوجائیگی‘‘۔ قرآن میں اختلاف کی گنجائش نہیں، عورت کے حق کابیان ہے کہ طلاق کے اظہار کی صورت میں تین مراحل یا تین ماہ انتظار کرنے کی پابند ہے اور عزم کا اظہار نہ کرنے پر ایک ماہ کا اضافہ ہے اگر عورت کاحق ملحوظِ خاطر رہتا توآیت میں اختلاف کی گنجائش نہ رہتی۔مرد طلاق دے اور عورت انتظارکی پابندہو تو اس سے بڑھ کر درجہ کیاہوسکتاہے؟۔ حقوق نسواں کی بحالی سے مغرب اسلام کی طرف راغب ہوگا اورہر قسم کا غلام آزادی پر آمادہ ہوگا۔