پوسٹ تلاش کریں

مفتی حسام اللہ شریفی نے مکتب دیوبند اور حنفی مسلک کو سلسلہ حق کا نمونہ بنایا ہے۔ارشاد نقوی

ستمبر کے پہلے عشرے میں 10 ستمبر 2016ء کو انشاء اللہ نئی تصنیف ’’تین طلاق کی درست تعبیر‘‘ منظر عام پر آجائے گی۔ علماء اور مفتیان حضرات اس کو غور سے پڑھیں اور ضد ، انا اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ انکے اپنے حق میں بہتر نہ ہوگا۔ غلط فہمی میں فتویٰ دینا اور بات ہے اور حق واضح ہوجانے کے بعد ضد پر ڈٹ جانا بالکل ہی الگ بات ہے ، ہمارے دل میں علماء کرام اور مفتیان عظام کیلئے بھی بہت احترام ہے ۔ مفتی حسام اللہ شریفی مدظلہ العالی نے دنیا بھر میں طلاق کے حوالے سے مروجہ فقہی مسائل کے مطابق جوابات دئیے لیکن انہوں نے حق کے مقابلے میں اپنی دیرینہ کاوشوں کو انا کا مسئلہ نہیں بنایا۔ یہی علماء حق کی زبردست نشانی ہے ، علماء دیوبند کے اس سرخیل کے علاوہ بریلوی مکتب ، اہلحدیث اور اہل تشیع کے نامور علماء کی طرف سے بھی اپنے مؤقف پر ایسے واضح تبدیلی کے فیصلے پر اہل حق ہی کا اطلاق ہوگا۔ مفتی حسام اللہ شریفی نے مکتب دیوبند اور حنفی مسلک کو سلسلہ حق کا نمونہ بنایا ہے۔ دوسرے مکاتب فکر کے چھوٹے بڑے علماء بھی تائید کررہے ہیں اور انشاء اللہ عنقریب سارے مکاتب فکر کے مشاہیر علماء اتفاق کرینگے۔ ارشاد نقوی

حضرت مولانا مفتی حافظ محمد حسام اللہ شریفی صاحب کی طرف سے سید عتیق گیلانی کی تازہ تصنیف ’’تین طلاق کی درست تعبیر‘‘پر تاثرات

بسم اللہ الرحمن الرحیم، الحمد للہ وحدہ و الصلوٰۃ و السلام علیٰ من لا نبی بعدہ ، اللہ رب العزت نے اپنے پاکیزہ کلام میں اپنے خصوصی فرمانبردار بندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے سورۃ الفرقان میں ارشاد فرمایا :

Ayat_Quranl_sep2016

ترجمہ: اور وہ لوگ کہ جب ان کو ان کے رب کی آیات پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ ان پر اندھے اور بہرے ہوکر نہیں گرپڑتے ۔ (بلکہ تدبر ، تفکر اور غور و فکر سے کام لیتے ہیں)
یعنی جس طرح وہ اپنے دنیاوی معاملات میں اپنی عقل سلیم استعمال کرتے ہیں وہ دینی معاملات میں بھی اپنے سلیم الفطرت ہونے کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔
وہ اللہ تعالیٰ کے دربار میں یہ کہہ کر نہیں چھوٹ سکیں گے کہ ہمیں فلاں مولوی صاحب نے یہ بتایا تھا ہم اس پر عمل کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ہم نے تمہیں بھی عقل سلیم عطا فرمائی تھی۔
تم دنیاوی معاملات میں تو اس سے کام لیتے رہے حتیٰ کہ تم سبزی بھی خریدنے گئے تو یہ دیکھتے رہے کہ سبزی تازہ بھی ہے اور صاف ستھری اور اچھی بھی ہے کہ نہیں۔ کپڑا خریدتے وقت بھی تم اسکی اچھائی دیکھتے رہے
بیٹی کا رشتہ کرتے وقت بھی اپنے ہونے والے داماد میں تمام اچھائیاں ڈھونڈتے رہے پھر تم نے دین کے معاملے میں ان سب باتوں کو کیوں نظر انداز کردیا ؟ اب اس کا نتیجہ بھگتو۔
محترم گیلانی صاحب نے زندگی کے ایک انتہائی اہم معاملے ’’طلاق‘‘ پر عام روش سے ہٹ کر قرآن و سنت کے احکام پر تدبر اور تفکر سے کام لیا اور اس اہم مسئلہ پر جدید انداز میں روشنی ڈالی
اللہ تعالیٰ ان کی مساعی میں برکت عطا فرمائے اور عامۃ المسلمین کو ان سے فیضیاب فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔ خادم علوم قرآن و سنت محمد حسام اللہ شریفی (28 اگست 2016 ء)

رکن مجلس تحقیقات علوم قرآن و سنت رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ
مشیر وفاقی شرعی عدالت حکومت پاکستان مشیر شریعت اپیلٹ بنچ سپریم کورٹ آف پاکستان
کتاب و سنت کی روشنی میں ہفت روزہ اخبار جہاں کراچی(جنگ گروپ)
ایڈیٹر ماہنامہ قرآن الہدیٰ کراچی (اردو انگریزی میں شائع ہونیوالا بین الاقوامی جریدہ)
رجسٹرڈ پروف ریڈر برائے قرآن حکیم مقرر کردہ وزارت امور مذہبی حکومت پاکستان
خطیب جامع مسجد قیادت کراچی پورٹ ٹرسٹ ہیڈ آفس بلڈنگ کراچی

جیو اور جنگ گروپ کا فریضہ، سپریم کورٹ آف پاکستان کا فریضہ، شریعت کورٹ پاکستان کا فریضہ ، رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کا فریضہ اور اسلامی مدارس کا فریضہ. فیروز چھیپا

ماہنامہ نوشتہ دیوار کے مالیاتی امور کے مہتمم فیروز چھیپا نے اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے فرمائش کی ہے کہ حضرت مفتی حسام اللہ شریفی مدظلہ العالی عرصہ چالیس سال سے زیادہ جنگ گروپ کے ہفت روزہ اخبار جہاں کراچی میں قرآن و سنت کی روشنی میں نکاح و طلاق اور دیگر شرعی مسائل کے جوابات دیتے رہے ہیں ۔ مفتی صاحب کا تعلق دیوبندی مکتبہ فکر اور حنفی مسلک سے ہے ۔ ان کا نام بھی شیخ العرب و العجم مولانا حسین احمد مدنی نے رکھا ہے اور ان کو 1962ء میں مولانا احمد علی لاہوری ؒ نے اپنی طرف سے مسائل کے جواب کا فریضہ سونپا تھا۔ روز روز کراچی ، ملک بھر اور دنیا کے کونے کونے میں طلاق کے مسائل رونما ہورہے ہیں ، نکاح ٹوٹا نہ ہو ، حلالہ کی ضرورت نہ ہو اور فتویٰ حلالہ کا دیا جائے تو اس سے آسمان اور زمین والے لرزتے ہونگے۔ جیو اور جنگ گروپ کا فرض بنتا ہے کہ مفتی حسام اللہ شریفی کی طرف سے تائید اور تصدیق کے بعد قرآن و سنت کے مطابق طلاق کے مسائل کی عوام میں زبردست طریقے سے تشہیر کریں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر میاں بیوی کے درمیان جدائی اور حلالہ کے معاملات سامنے آتے ہیں میڈیا بھی حق کو پوشیدہ رکھنے کا ذمہ دار ہوگا ۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس جناب انور ظہیر جمالی اور لاہور، کراچی ، پشاور ، اسلام آباد اور کوئٹہ کے چیف جسٹس حضرات سے اپیل ہے کہ وہ شریعت کورٹ کے مشیر اور سپریم کورٹ کے مشیر حضرت مفتی حسام اللہ شریفی کی تائید اور تصدیق سے مرتب ہونے والی قرآن و سنت کی تحقیقات پر فیصلہ صادر کرنے کیلئے خصوصی طور پر مشاورتی اجلاس بلوائیں یا جو بھی ان کا طریقہ کار ہے۔ اور قرآن و سنت کے ذریعہ سے طلاق اور خلع کے مسائل حل کرنے کے احکام پاکستان بھر میں نافذ کردیں اور ان کی خلاف ورزی کرنے والوں کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کریں۔
جب قرآن و سنت سے روز روشن کی طرح واضح ہے کہ عورت خلع کی حقدار ہے اور مرد کی طرف سے ایک ساتھ تین طلاق کا تصور صرف اس صورت میں ہے جب بیوی صلح کیلئے راضی نہ ہو۔ اسکے علاوہ رجوع کی گنجائش ڈھیر ساری آیات سے ثابت ہے۔ جو لوگ صلح و رضامندی کے باوجود طلاق ، حرمت اور حلالہ کا فتویٰ دیتے ہیں وہ قرآن و سنت کی سراسر خلاف ورزی کرتے ہیں۔ اگر قانون کی طاقت سے ان ظالموں کو نہ روکا گیا تو قیامت میں ذمہ دار بچ نہ سکیں گے۔
سعودی عرب نے کچھ عرصہ قبل ایک مجلس کی تین طلاق پردنیا بھر کے علماء کو بلوا کر فتویٰ طلب کیا تھا جس میں علامہ ابن تیمیہ کے فتویٰ کے برعکس حنفی فقہ کے مطابق ایک ساتھ تین طلاق کے فتوے پر اتفاق کیا گیا۔ اس میں شاید اہل تشیع کو اپنے حدود میں رکھنے کا بھی خیال رکھا گیا۔ رابطہ عالم اسلامی تحقیقات قرآن و سنت کے رکن حضرت مولانا مفتی حسام اللہ شریفی کی طرف سے جس تحقیق کی زبردست تائید و تصدیق ہوئی ہے اس میں دوسرے مسالک کی طرح اہل تشیع اور اہل حدیث کی فکر کو بھی بہترین انداز میں رد کردیا گیا ہے۔ اگر رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ دوبارہ اس فکر پر غور کرلے تو امید ہے کہ نہ صرف ایک ساتھ تین طلاق کے غلط فتوے سے رجوع کا معاملہ سامنے آئے گا بلکہ ایک طرف حضرت عمر فاروقؓ کے اقدام کی زبردست تائید ہوگی کہ بیوی کی رضامندی کے بغیر شوہر رجوع کا حق کھودیتا ہے تو دوسری طرف قرآن و سنت ہی کا بول بالا ہوگا اور تمام فرقے اور مسالک اس کے سامنے بہت خوشی کے ساتھ نہ صرف سرنگوں ہوں گے بلکہ اتحاد و اتفاق اور وحدت ملی کا بھی مظاہرہ کریں گے۔ امت مسلمہ کیلئے یہ اقدام قرآن و سنت کی طرف رجوع کا زبردست ذریعہ ہوگا۔

پندرہ روزہ ’’طبقاتی جد وجہد‘‘ کی کچھ ’’جھلکیاں.. محنت نے دولت کو للکارا ہے!

مئی1886ء کو امریکی سرمایہ دار ریاست کے ہاتھوں شکاگو میں جب مزدوروں کے پرامن جلسے کو خون میں ڈبو دیا گیا۔ مزدوروں کے ریاستی قتلِ عام کے بعد انکے قتل کا مقدمہ مزدور رہنماؤں پر چلاکر ان کو پھانسی دیدی گئی۔۔۔ ایک مزدور کو زندگی کی سہولیات حاصل کرنے کیلئے ایک دن میں کئی جگہ گھنٹہ دو گھنٹہ کام کرنا پڑتا ہے تب زندگی رواں دواں رہ سکتی ہے… معلوم دنیا کی تاریخ’’ طبقاتی کشمکش ‘‘ کی ہے، غلام کی آقا، مزارعہ کی جاگیردار، مظلوم کی ظالم اور مزدور کی سرمایہ دار کے خلاف… یومِ مئی مزدوروں کا عالمی دن، ناقابلِ مصالحت طبقاتی کشمکش کاعلمبردار
تحریر۔قمرزمان خان:اگرچہ محنت کش طبقہ اپنی جدوجہد سے اپنی منزل تک نہیں پہنچا مگرشکستوں اور فتوحات کی مختلف لہروں سے نظر آتا ہے کہ اس کشمکش نے ظلم سے کافی …
فوجی اداروں میں بدعنوانی: فوج میں تطہیر کی حدود…21اپریل کو فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں کے حوالے سے منظر عام پر آنیوالی کاروائی میں لیفٹیننٹ جنرل ایک میجر جنرل3بریگڈئیرزایک کرنل اور 12افسران کو برطرف کیا گیاہے لیکن ابھی واضح نہیں ہواہے کہ کیا ان کا کورٹ مارشل بھی ہوگا یاانکو اس کرپشن میں سزائیں بھی ملیں گی کہ نہیں؟
تحریر: لال خان۔ ویسے تو یہاں میڈیا معمولی واقعات ، خصوصاً معمول بن جانیوالی کرپشن کی خبروں اور افواہوں ہی سے چائے کے کپ میں طوفان کھڑا کردیتا ہے لیکن جنرل راحیل شریف کی جانب سے فوج میں تطہیر کے تأثر سے تو سونامی برپا ہوجائیگا۔۔۔
جنرل راحیل کا یہ بیان تھا کہ ’’ ہرطرف مکمل احتساب کیا جانا لازم ہے….اگر ہم بد عنوانی کی غلاظت کا خاتمہ نہیں کرینگے تو دہشت گردی کیخلاف جنگ نہیں جیتی جاسکتی ہے‘‘ عمومی طور پر حزبِ اختلاف نے اس بیان کو نوازشریف اور انکے خاندان کے حالیہ پانامہ لیکس سکینڈل سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔لیکن چونکہ اس پیسے کی سیاست کے تمام دھڑے کسی نظریاتی بنیاد سے عاری ہیں اسلئے انکے تجزئے و بیان بڑے ہی سطحی اور محدود ہوتے ہیںیہی وجہ ہے کہ یہ سیاستدان کسی دوررس تناظر یا پروگرام یا لائحۂ عمل سے بھی عاری ہیں، انکی چونکہ ساری دلچسپی مال بٹورنے میں ہوتی ہے، اسلئے انکی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اقتدار کے ذریعہ اس لوٹ میں زیادہ حصہ داری رکھنے والے سیاسی دھڑوں کو کسی طریقے سے پچھاڑا جائے ، چاہے فوجی کاروائی کے ذریعہ ہی سے کیوں نہ ہو۔ جمہوریت کے یہ چمپئن تو بوقتِ ضرورت فوجی حکومتوں میں بھی حصہ داری حاصل کرلیتے ہیں اور اس وقت کوئی بھی حاوی سیاسی پارٹی ایسی نہیں ہے جو کسی نہ کسی فوجی اقتدار میں کسی نہ کسی قسم کی شراکت اور مراعات حاصل نہ کرتی ہو۔
جنرل راحیل شریف کی غیرمعمولی کاروائی کسی اور ہی مسئلے اور تشویش کی غمازی کرتی ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام اور اسکی ریاست میں کسی نہ کسی سطح پر کرپشن موجود ہوتی ہے۔ کچھ اداروں میں کرپشن کم اور کچھ میں زیادہ ہوتی ہے لیکن پاکستان کی موجودہ فوج جس کے بنیادی ڈھانچے انگریز سامراج کی برصغیر میں کھڑی کی جانے والی فوج پر مبنی اور انہی کا تسلسل ہیں اس میں کرپشن کی گنجائش کم ازکم انگریز سامراج نے بہت کم چھوڑی تھی، اسلئے نہیں برطانوی سامراج بڑا دیانتدار اور نیک تھا بلکہ اسلئے کہ ریاست کے فوج جیسے کلیدی ادارے میں کرپشن کا بڑے پیمانے پر پھیل جانا پوری حاکمیت کیلئے زہرِ قاتل ثابت ہوسکتا ہے۔ انگریز سامراج نے مارکس کے الفاظ میں’’ ہندوستان پر قبضہ ہندوستان(برصغیر) کی فوجوں کے ذریعہ ہی کیا تھا۔‘‘۔ یہاں تک کہ 1857ء کی جنگِ آزادی میں سکھوں، کشمیر کے مہاراجہ اور دوسرے مقامی قبائلی ، علاقائی اور نسلی لشکروں کی حمایت انگریز کو نہ ملتی تو ان کو یہاں کے مقامی فوجیوں اور عوام نے شکست دے دینا تھی ۔ اور ان کو ہندوستان پر مکمل قبضہ کی بجائے یہاں سے فرار ہونا پڑتا۔انہوں نے بنگال سے آغاز کیا،اور تقسیم اور لالچ کے ذریعے مقامی راجاؤں، مہاراجاؤں کو غداریوں پر راغب کرکے انہیں استعمال بھی کیا اور نوازا بھی۔ پھر یہ پالیسی ہرطرف جاری رکھی۔لیکن پھر انہوں نے یہاں کی برادریوں، نسلوں، ذاتوں کی اقسام اور انکے سماجی کرداروں کی پرکھ بھی حاصل کی اور انہیں استعمال کرنے کی پالیسی بھی اختیار کی۔ اس طرح جغرافیائی لحاظ سے بکھرے ہوئے معاشروں کی معاشی وسماجی خصوصیات اور حتی کہ مختلف خطوں کے افراد کی جسمانی ساخت کی بنیاد پر برٹش انڈین آرمی تشکیل دی۔ ان میں خصوصاً شمال مغربی پنجاب کے سنگلاخ علاقوں اور وادیوں سے ( سنگ دل افرادکی) زیادہ بھرتیاں کی گئیں۔ یہ کوئی حادثاتی امر نہ تھا کہ برطانوی فوج کے عروج میں بھاری نفری سکھ جاٹوں،راجپوتوں اور دھن، بھون،دنہار، کالا چٹاوغیرہ جیسے دوسرے علاقوں سے تعلق رکھتی تھی۔ اسکے ساتھ ساتھ انہوں نے فوجیوں کو سویلین آبادیوں سے الگ سخت ڈسپلن کے تحت چھاؤنیوں میں ہی محدود رکھا، اگر کسی فوجی کو کنٹومنٹ کی حدود سے شہر میں کسی نہایت ضروری کام سے بھی جانا ہوتاتھا تو اس کیلئے نائٹ پاس حاصل کرنا ضروری ہوتا تھا۔ دوسری جانب فوجی سپاہی اور افسران دہقانوں، چھوٹے کسانوں یا درمیانے درجے کے زمیندار گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے اور ان میں نسل در نسل مغرب سے برصغیر آنے والے حملہ آوروں کیلئے لڑنے کی روایات بھی موجود تھیں اور پھر انکے خلاف بغاوتوں کی ریت بھی پائی جاتی تھی۔
پاکستان بننے کے بعد یہاں کا حکمران طبقہ اپنی تاریخی نااہلی، مالیاتی کمزوری،تکنیکی پسماندگی کے تحت جدید صنعتی سماج، سرمایہ دارانہ ریاست اور پارلیمانی جمہوریت قائم کرنے سے قاصر تھااور نظام کو برقرار رکھنے اور اسے چلانے کیلئے روزِ اول سے ہی اقتدار میں فوج کا کلیدی کردار رہا۔ اقتدار میں آکر فوج اور بالخصوص فوجی اشرافیہ یا جرنیلوں کی دو لت اور طاقت کے باہمی رشتے میں شمولیت ناگزیر ہوجاتی ہے۔جوں جوں فوجی اقتدار کی شرح بڑھتی گئی، فوج کا سرمایہ اور کاروبار امور میں کردار بھی بڑھتا چلاگیا۔ اسی طرح یہاں کے سرمایہ دار طبقے کا وجود ہی کرپشن اور چوری سے مشروط ہے، چنانچہ وقت کیساتھ بدعنوانی ریاست کے ہر ادارے میں پھیلتی چلی گئی ضیاء الحق کے دور میں یہ عمل تیز تر ہوگیا۔
جنرل راحیل شریف کا یہ اقدام کرپشن اور کالے دھن کے اس پھیلتے ہوئے زہر کے تریاق کی کوشش معلوم ہوتا ہے جس سے ادارے کے ڈھانچوں اوروجود تک کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ ایسے میں یہ ادارہ نہ اس ریاست کے کسی کام کا رہیگا اور نہ اسکا وجود اور ساکھ برقرار رہ سکے گی۔ فوج کے کرپشن میں ملوث ہونے کی داستانوں کی کتابیں ڈھیروں ہیں لیکن یہ واقعہ حکمرانوں کی شدید تشویش اور سنگین کیفیت کی عکاسی کرتا ہے۔ریاستی نقطہ نظر سے بھی دیکھا جائے تو یہ قدم بہت چھوٹا ہے اور بہت تاخیر سے اٹھایا گیا ہے، تاہم حکمران طبقات کے دانشور ، تجزیہ نگار اور درمیانے طبقے کے کچھ افراد اس سے بھی خوش ہیں کہ چلو کچھ تو ہواہے!۔ راحیل شریف کی اُبھاری گئی ساکھ کا بھی شاید ان کے شعور پر بوجھ ہوگا۔ اس اقدام سے اس ادراک کا یہی کردار ہوسکتا ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ کرپشن اس بحران کی وجہ نہیں بلکہ اسکی ناگزیر پیداوار ہے۔ریاست ، معیشت اور سیاست کے اس بحران کی دو بنیادی وجوہات ہیں پہلے تو پاکستان کے بوسیدہ سرمایہ دارانہ نظام اور سرمایہ دار طبقے میں اتنی سکت ہی نہیں کہ یہاں کے سرمایہ دار ٹیکس اور بل ادا کریں، محنت کشوں کو انسانی اجرت اور سہولیات بھی دیں، ہر کام جائز طریقے سے کریں اور ساتھ ہی اپنا شرح منافع بھی برقرار رکھ سکیں۔دوسری جانب بدترین استحصال ، نابرابری اور غربت سے ذلت اورمحرومی اتنی بڑھ چکی ہے کہ اس میں ہر سطح اور ہر ادارے میں دو نمبری کے بغیر گزارہ نہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اقدام ایک بے قابو ہوتے ہوئے عمل کے خلاف صرف ایک وارننگ ہے لیکن جب بدعنوانی نظام کا ناگزیر جزو بن جائے اور اُوپر سے نیچے تک سماج اور ریاستی مشینری کے رگ وپے میں رچ بس جائے تو جرنیلوں،افسر شاہی اور سیاستدانوں وغیرہ کے خلاف انفرادی کاروائیاں ختم نہیں ہوسکتی۔سوال پھر پورے نظام پر آتا ہے۔ بدعنوانی ختم کرنے کیلئے ذاتی ملکیت اور دولت کا خاتمہ درکار ہے۔ یہ کسی جرنیل کا نہیں سوشلسٹ انقلاب کا فریضہ ہے۔(کامریڈلال خان صاحب)۔
اوکاڑہ میں انجمن مزارعین پر فوجی آپریشن: محافظ یا غاصب؟۔تحریر امان اللہ مستوئی: ایک آپریشن جو پچھلے چندروز میں دوبارہ جاری کیا گیا وہ وسطی پنجاب میں انجمن مزارعین کیخلاف ہے۔ یہ غریب کسان نہ دہشت گرد ہیں نہ بھتہ خوراور سب سے بڑھ کر یہ غیر مسلح ہیں لیکن ان پر بھی ’’نیشنل ایکشن پلان‘‘ کے تحت ’’دہشت گردی‘‘ کے مقدمے ہی درج ہورہے ہیں اور ریاستی جبر پوری وحشت سے کیا جارہا ہے۔ انجمن کے 13کارکنوں کوکئی دنوں سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے ۔ ان میں دو خواتین بھی شامل ہیں۔(جدوجہد)

پندرہ روزہ جدوجہد اداریہ۔۔۔ کرپشن کے کھلاڑی

’’گلی گلی میں شور ہے سارے لیڈر چور ہیں‘‘ یہ نعرہ برصغیر میں کتنی نسلوں سے یہ خلق سنتی آرہی ہے،لگاتی آرہی لیکن جوں جوں کرپشن کے خلاف شور بڑھتا گیا، کرپشن مزید پھیلتی پھولتی گئی ہے۔عمران خان نے اس معمول کو ایک غیرمعمولی کیفیت دیکر اس پرانے نعرے کونئے سرے سے استعمال کرنا شروع کیا ہے۔ لیکن اگر غور کریں تو کرپشن کیخلاف مہم بنیادی طور پر اس نظام زر کے تحفظ اور اسکی المناک بربادیوں پر مزید پردہ پوشی کا کام کرتی ہے، درحقیقت یہ کرپشن کے علاج کا ڈھونگ اور عوام میں شعور پیدا کرنے کی جھوٹی کوشش ہے، یہ بیماری کی بجائے اسکے علامات کا نسخہ ہے۔کرپشن کے شور تلے اس حیوانی نظام کی مشقت و استحصال کے مظالم چھپائے جاتے ہیں۔ دولت کو ’’ جائزطریقوں‘‘ سے اکٹھا کرنے اور اسکی ذخیرہ اندوزی کیلئے راہِ عامہ بنائی جاتی ہے۔کرپشن کے واویلے میں بڑے بڑے امراء، مخیر حضرات ، شرفا اور مذہبی پیشوا دولت کے اجتماع اور منافعوں کی ڈاکہ زنی کو جائز قرار دینے کی اصل واردات کررہے ہیں۔ پہلے تو جائزو ناجائز دولت جمع کرنے میں فرق کرنا مشکل نہیں ناممکن ہے،امارت اور غربت میں بڑھتی ہوئی تفریق اور دولت کے انبار لگاکر بھوک اورغربت کو پھیلانے کو اگر اخلاقی یا قانونی طور پر درست قرار دیا جائے تو پھر کرپشن کو گالی دینے کی کوئی تک نہیں بنتی۔کیا محنت کے استحصال سے حاصل کردہ قدرِ زائد یا منافع خوری جائز ہے؟۔ اگر یہ کرپشن نہیں ہے تو پھر اس سے بڑا جھوٹ کوئی ہوہی نہیں سکتا؟۔ غریبوں کو مزید غریب کرکے اور امارت میں بے ہودہ اضافوں کا عمل اگر جائز ہے تو پھر کرپشن کیسے ناجائز ہے؟۔لیکن المیہ یہ ہے کہ اخلاقیات ہوں یا اقدار، سماجی رجحان ہوںیا مختلف مفروضوں کی تعریف، ایک طبقاتی نظام ان کے بنانے اور بگاڑنے کا حق صرف بالادست طبقات کے نمائندگان اور انکے کاسہ لیس مفکروں اور تجزیہ نگاروں کے حوالے کردیا گیا ہے۔ لیکن ایک محروم معاشرے میں جہاں نظام ترقی کرنے اور دینے سے قاصر ہوجائے وہاں کا سرمایہ دار بجلی اور ٹیکس چوری کیے بغیر سرکاری خزانے کو لوٹے بغیراور محنت کشوں کی روزی روٹی پر لات مارے بغیرتو سرمایہ دار ہو نہیں سکتا۔وہ جیسے جیتے ہیں ویسے ہی مر نہیں سکیں گے۔انکی اوباشی پل نہ سکے گی اور وہ سیاست اور طاقت کو خرید کر حاکمیت نہیں کرسکیں گے۔ لیکن جس معاشرے میں ذلت اور رسوائی ہر طرف پھیلی ہوئی ہواور زندگی کو اذیت ناک بنارہی ہووہاں کرپشن معاشرے کی رگوں اور ہڈیوں میں سرائیت کرجاتی ہے۔کرپشن کے بغیر شناختی کارڈ تک نہیں بن سکتاتو پھر ایسے معاشرے میں کرپشن کے خلاف آواز اٹھانا بنیادی طور پر اس کو تحفظ دینے کے سوا کچھ نہیں ہے جس کی کرپشن ضرورت اور ناگزیر پیداوار ہے۔
فوج میں کرپشن اتنی ہے کہ اس کا وجود اور ڈھانچے بکھر جانے کے خطرے سے دوچار ہے۔ سپریم کورٹ کا ہر نیا چیف جسٹس عدلیہ کی کرپشن کا رونا روتے روتے اپنی مدت پوری کرلیتا ہے اور عدالتی کرپشن کے ذریعہ باقی زندگی عیش وآرام سے گزارتا ہے،صحافت میں کرپشن کیخلاف سب سے زیادہ شور ہے اور جتنی کرپشن اسکے ان داتاؤں نے کی ہے اور کررہے ہیں اس کا مقابلہ کرنے میں پولیس اشرافیہ بھی پیچھے رہ گئی ہے۔معاشرے کی کوئی پرت کوئی ادارہ ، کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جو کرپشن کے بغیر چل سکتا ہویا قائم بھی رہ سکے۔لیکن پھر بھی کرپشن کے خلاف سب سے زیادہ شور ہے۔جہاں ایک کرپٹ عدالتی نظام بدترین کرپشن کے مرتکب حکمرانوں کو بری کردیتا ہووہاں وہی حکمران اور جج پھر کرپشن کیخلاف راگ الاپتے ہیں۔ یہ کیسا کھلواڑ کیسا ناٹک ہے؟۔ نوازشریف خاندان ہو یا باقی حکمران طبقات کے دھڑے ہوں،اگر کرپشن نہیں کرینگے تو اس نظام میں حکمران بنیں گے کیسے؟۔سیاست سے جس جلسے میں کرپشن کے خلاف آگ اگلی جاتی ہے اسی جلسے یا جلوس کو بدترین کرپشن والے ہی فنانس کرتے ہیں، ملک ریاض جیسے نودولیتے اور بلیکیے جرنیلوں سے لیکر عام سیاسی لیڈروں کو کرپشن سے تابع کرلیتے ہیں،ہرادارے کو کنٹرول میں لے لیتے ہیں صحافت انکی داشتہ بن جاتی ہے، ریاست انکی مشکور ہوتی ہے ، سیاست انکے کرموں کے بوجھ تلے دب کر رہ جاتی ہے لیکن
پھر بھی کرپشن کا کھلواڑ جاری ہے۔ کرپشن کے کھلاڑی عوام کو اس کرپشن کے ایشو میں الجھائے رکھنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔لیکن عوام اب اس کرپشن کے ناٹک سے اکتا چکے ہیں۔ انکی سیاسی بیگانگی اس ایشو کے استعمال کی ناکامی کی غمازی کرتی ہے۔ یہ بیگانگی جب پھٹے گی تو پھر جاگے ہوئے محنت کش عوام کی یلغار اس پورے نظامِ زر کو اکھاڑنے اور دولت وطاقت کو نیست ونابود کرنے کا وار بن جائے گی۔پھر نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری! (یکم مئی2016 پیپلزپارٹی اور مزدورتحریک میں سوشلزم کی آواز)

جدوجہد یکم مئی تا15مئی 2016کے’’ اداریہ پر تبصرہ‘‘ فاروق شیخ

محترم کامریڈ لال خان سوشلزم کی اس تحریک کے روحِ رواں ہیں ۔ جہاں قیادت محنت و صلاحیت کی بنیاد پر ہو تو وہاں انسانیت کیلئے اچھی توقعات رکھنے کی امید ہوتی ہے، اس پندرہ روزے میں بڑی اہم بات یہ ہے کہ اس میں کارل مارکس کا نظریہ’’قدر زائد‘‘ کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ اسی نظریہ کی وجہ سے لینین نے روس ’سویت یونین‘کا عظیم انقلاب برپا کیا تھا،چین میں بھی اسی نظریے کی بنیاد پر انقلاب برپا ہوا ہے۔ پاکستان یا برصغیر میں اس نعرے میں تھوڑی سی کشش اسلئے باقی ہے کہ آزادی کے بعد بھی پاکستان اور بھارت کے حالات میں عوام کیلئے کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں آئی ہے، وہی فوج، وہی عدالتیں اور وہی بیوروکریسی اور وہی استحصالی نظام بلکہ پہلے کی نسبت اب زیادہ ظلم وستم اور جبرو زیادتی کا ماحول ہے۔ پہلے فوج سول آبادی میں قدم رکھنے میں خوف محسوس کرتی اور اب اس جنگلی طبقے کا عوام پر راج ہے، سیاست فوج کی باندی، عدالت لونڈی اور بیوروکریسی نوکر اور صحافت چاکر ہے۔ اگر ترکی میں عوام فوجیوں کو بغاوت سے روک سکتے ہیں تو پاکستان کی عوام کیلئے اس نظام کو تہہ وبالا کرنے میں ایک رات کی مار ہے لیکن نظام کو بدلا جائے تو متبادل کیا نظام ہوگا۔عوام نے جمہوریت اور مارشل لاؤں کا بار بار تجربہ دیکھا ہے جو ایک دوسرے سے بدتر اور بدترین ثابت ہوتے ہیں۔
سوشلزم اور اسلامی انقلاب کے خواہاں تبدیلی کے حوالہ سے جو نظریات رکھتے ہیں ، ان میں مکالمہ کی ضرورت ہے۔ اس پندرہ روزہ رسالے میں پیپلزپارٹی کے قائد بلاول بھٹو زرداری کی قیادت سے توقعات وابستہ کی گئی ہیں کہ وہ آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی کی بجائے پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی راہ پر چلیں اور پارٹی کا بنیادی نظریہ سوشلزم کا تھا، پرائیویٹ ملوں اور فیکٹریوں کو بھٹو نے سرکاری تحویل میں لیا تھالیکن یوسف رضاگیلانی نے اس اقدام کو سب سے بڑی گالی دی تھی۔ وغیرہ وغیرہ۔
ہماری سوشلزم کی علمبردار تحریکوں سے صرف اتنی گزارش ہے کہ تمہاری حب الوطنی، انسان دوستی، غریب پروری اور جرأت وبہادری پر کوئی شبہ نہیں ہے لیکن قدرِ زائد کا بنیادی نظریہ ہی موروثی نظام کے خلاف ہے۔ بلاول بھٹو،میر حاصل بزنجو، اسفندیار ولی خان اور دیگر سوشلزم اور کمیونزم کے نظریے کو سپورٹ کرنے، سمجھنے اور اس پر ایمان رکھنے والی جتنی جماعتیں ہیں وہاں سب کی سب قیادتیں موروثیت کی وجہ سے ہیں۔ بلاول بھٹو میں کتنی صلاحیت ہے اور اس نے کتنی محنت کی ہے؟۔ کیا پیپلزپارٹی کی قیادت بذاتِ خود یہ اہلیت رکھتی ہے جو قدرِ زائد کے بنیادی نظریہ پر پورا اترتی ہو؟۔ اس کے بنیادی ڈھانچے کی قیادت ہی قدرِ زائد پر استوار ہونے والے نظریے کی بیخ کنی ہے۔اگر ایسے توقعات اور خواہشات کی بنیاد پر چند محنت کشوں کے جیبوں پر اضافی بوجھ رکھ کر تحریک برپا کرنے کا سلسلہ جاری رہے تو دانشوروں کی میٹنگوں سے معاملہ کبھی آگے نہ جائیگا۔ جن منافقتوں کا رونا رویا جارہاہے،اسی کے آنسو پی کر اپنی پیاس بجھانے کی کوشش کیجائے تو کیا نتائج برپا ہونے کی امید بھر آئیں گے؟۔البتہ اس نظام کی ناکامی کے بعد چند افراد کی تربیت سے بھی اچھے توقعات پوری ہونے کی امید زیادہ بری اور کوئی جرم بھی نہیں ہے۔
رسول اللہ ﷺ ایک محنت کش تھے، اماں خدیجہؓ ایک سرمایہ دار تھیں۔ایمانداری نے وہ نتائج برپا کیے کہ سرمایہ دار خاتونؓ ایک محنت کش پیغمبرﷺ کی اس وقت بیوی بن گئیں اور ان کا سارا مال پھر تحریک کیلئے وقف ہوا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’ انبیاء درہم ودینار کی نہیں علم کی وراثت چھوڑتے ہیں‘‘۔ درہم ودینار کی وراثت چھوڑنے والے بادشاہ اور علماء دنیا ہوسکتے ہیں لیکن انبیاء کے وارث نہیں ہوسکتے۔ جب حضرت داؤد علیہ السلام کی حکومت تھی تو والد کی زندگی میں حضرت سلیمان علیہ اسلام نے اپنی صلاحیت کو بھی منوایا تھا اور کوئی بھی اہلیت والی شخصیت ہو تو اس کو جانشین بنانے پر اتفاق میں حرج نہیں لیکن
پاکستان میں ایک ایسے نظام کی ضرورت ہے جو عوام کی روحانی اور جسمانی ترقی میں بنیادی کردار ادا کرے۔ جو کرپشن کو ہڈیوں کے گودے اور خون کے جرثوموں سے باہر نکال دے۔ جو عوام کی روحانیت اور اخلاقیات کو بھی بدل دے۔ سوشلزم کے نعرے میں جان ہونی چاہیے تھی لیکن افسوس کہ نہیں ہے۔ کرپشن کے نعرے کی طرح نظام کی تبدیلی کا نعرہ بھی خوشنما ڈھونگ کے سوا نتیجہ خیز اسلئے نہیں کہ یہ چلے ہوئے کارتوس کا خول ہے،اگر روس سمٹ گیا، چین نے اپنے نظریہ سے انحراف کیا تو پھر پاکستان میں انقلاب چائے کی پیالی میں وہ طوفان ہوگا جو عجیب بھی ہوگا اور غریب بھی۔ سوشلزم کے حامی اگر اسلام کے آفاقی نظام پر اتنی محنت اور صلاحیت لگاتے تو دنیا میں ایک زبردست انقلاب برپا ہوسکتا تھالیکن اہل فکر ونظر میں مکالمے کی ضرورت ہے، امریکہ نہیں روس سے دوستی ہوجائیگی۔

طلاق کے مسئلے کا بہترین حل

سید عتیق گیلانی نے ایک تسلسل کیساتھ طلاق کے مسئلے پر بہترین مضامین لکھے ، عوام و خواص کی سمجھ میں بھی بات آرہی ہے ، اکابرین کا بھی کچھ نہیں بگڑ رہا اور کوئی خاتون اپنی ناکردہ گناہ کی انتہائی بیہودہ سزا بھگتے یہ بھی انتہائی ظلم ہے۔ لوگ سمجھتے تھے کہ شاید قرآن کی آیات میں اس پر مجبور کیا گیا ہے اور احادیث میں اسکی وضاحت ہے اسلئے اس پر غیب کے ایمان کی طرح سوچے سمجھے بغیر عمل درآمد ہورہا تھا۔ اللہ نے قرآن میں بار بار عقل ، تدبر اور عدل کی بات کی ہے۔ قرآنی آیات پر تدبر کیا جاتا ، عقل سے کام لیا جاتا اور عدل کے تقاضے پورے کئے جاتے تو بہت اچھاتھا ، لیکن اُمت مسلمہ قرآن و سنت کی طرف توجہ کئے بغیر بھول بھلیوں میں پھنستی گئی اور اسلام بھی بہت قریب کے دور سے ہی رسول اللہ ﷺ کی پیشین گوئی کے مطابق اجنبیت کا شکار ہوتا گیا ہے۔
طلاق یکطرفہ مسئلہ نہیں بلکہ میاں بیوی کے درمیان ایک باقاعدہ معاملہ ہے۔ ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دی جائے تو نصف حق مہر اور عدت کے ادوار نہیں جن کی گنتی ہو۔ ازدواجی تعلق کے بعد طلاق دی جائے تو عورت باقاعدہ عدت بھی گزاریگی۔حمل کی صورت میں بچے کی پیدائش تک عدت ہے، حیض آنے کی صورت میں طہرو حیض کے حوالہ سے عدت کے 3 ادوار ہیں، حیض نہ آتا ہو یا اس میں ارتیاب(کمی وبیشی کا شک )ہو، تو3ماہ کی عدت ہے۔ اللہ نے قرآن میں وضاحت کردی کہ عدت کے دوران شوہر صلح کی شرط پر رجوع کرسکتا ہے اور پھر اس حکم کو بار بار دہرایا بھی۔ فقہاء نے لکھا کہ ’’عورت کا بچہ اگر آدھے سے زیادہ نکل آیا تو رجوع نہیں ہوسکتااور کم نکلا تھا تو پھر رجوع درست ہوگا لیکن آدھوں آدھ ہوگاتو مولوی کو خود بھی پتہ نہیں۔اگر یہ مسئلہ یکطرفہ ہو تو معاملہ حل نہ ہوگا لیکن اگر بیوی کی رضامندی شرط ہو تو بچے کی پیدائش سے پہلے اور بعد میں کوئی مسئلہ نہ ہوگا۔ عورت اور مرد کے جنازے کی ایک ہی دعاہے لیکن یہ مشکل خنسیٰ پر لڑتے رہے ہیں۔
نبیﷺ نے وضاحت فرمادی کہ دومرتبہ طلاق کا تعلق دوطہرو حیض کیساتھ ہے، حضرت عمرؓ کا یہ کردار واضح ہے کہ پہلے ایک مرتبہ کی تین طلاق کو بھی ایک سمجھا جاتا تھا، جب شوہر طلاق دیتا تھا تو مصالحت کیلئے عدت کا وقت ہوتا تھا۔ اسلئے اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہ تھی کہ رجوع ہوسکتا ہے یا نہیں؟۔ شوہر کی بالادستی مسلمہ تھی اور عورت کی ضرورت تھی کہ شوہر رجوع کرلے اورمسئلہ نہیں بنتا تھا۔ جب حضرت عمرؓ نے دیکھا کہ شوہر اپنی حیثیت کا ناجائز فائدہ اٹھاتاہے، طلاق دیکر رجوع کرلیتاہے اور عورت بے بس ہوتی ہے تو فیصلہ کردیا کہ آئندہ اس طرح کا معاملہ ہوگا تو ایک ساتھ تین طلاق کے بعد شوہر کو رجوع کا حق نہ ہوگا۔ قرآن میں طلاق کے بعد ویسے بھی شوہر کو یکطرفہ رجوع کا حق نہ تھا، حضرت عمرؓ کا فیصلہ قرآن کی روح کے مطابق اس وقت بھی درست تھا جب شوہر ایک طلاق دیتا اور عورت رجوع پر راضی نہ ہوتی، جبکہ میاں بیوی راضی تو کیا کریگاقاضی وہ آوازِ خلق تھی جس کو واقعی نقارۂ خدا سمجھ لیا گیا تھا۔ معاملہ بعد کے فقہاء اور مفتیوں نے خراب کیا۔
چاروں امام کا فتویٰ درست تھا کہ عدت کے بعد عورت شادی کرسکتی ہے اسلئے کہ تین طلاق یا صرف طلاق کے بعد عدت شروع نہ ہوتو زندگی بھر عورت دوسری جگہ شادی نہ کرسکے گی۔حضرت علیؓ اور دیگر صحابہؓ نے حضرت عمرؓ کی رائے سے صرف اسلئے اختلاف کیا کہ رجوع کا دروازہ بند نہیں ہونا چاہیے لیکن مرد نے طلاق دی ہو اور عورت رجوع نہ کرنا چاہے تو طلاق واقع ہونے کا فتویٰ وہ بھی اسلئے دیتے تھے تاکہ عدت کے بعد عورت کی دوسری جگہ شادی ہوسکے۔ دارالعلوم کراچی نے حضرت عمرؓ کے حوالہ سے تین طلاق کی غلط توجیہ کی ہے کہ پہلے طلاق طلاق طلاق میں شوہر کی نیت کا اعتبار کیا جاتا تھا،پھر لوگ غلط بیانی کرنے لگے،اسلئے حضرت عمرؓ نے تین طلاق کو نافذ کردیا، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بہشتی زیور، بہارشریعت میں حنفی فقہاء کی یہ توجیہ نہ مانی گئی اور فتویٰ دیا گیا کہ ’’طلاق طلاق طلاق پرشوہراپنی نیت پر رجوع کرسکتاہے اور عورت پھر بھی سمجھے کہ اسکو 3طلاق ہوچکی ہیں‘‘۔ قرآن میں طلاق سے رجوع کا تعلق عدت سے بتایا گیا ہے، حدیث میں دومرتبہ کی طلاق کوطہروحیض سے واضح کیا گیا ہے۔ یہ مفتیان قرآن کو مانتے ہیں نہ سنت کو اور نہ ہی حضرت عمرؓ کو مانتے ہیں ، یہ حلالہ کی لعنت کیلئے اسکے جواز کا راستہ ڈھونڈنے میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔
پیپلزپارٹی کے مظفر علی شجرہ نے سورۂ طلاق کے حوالہ سے اپنی باتیں ڈالدیں، سیاسی رہنما کو فرصت نہیں، مذہبی لوگ اپنا الو سیدھا کرتے ہیں، اصحاب حل وعقد کو اپنی پڑی ہے ، امت مسلمہ کا مسئلہ کیسے حل ہوگا، قابل احترام شخصیت شاہد علی نے کہا کہ ’’ جرم تین طلاق ایک ساتھ دینے کا شوہر کرتا ہے تو سزا بیوی کو کیوں ملے؟۔شوہر کو ہی مولوی کے پاس لے جاکر اسکا حلالہ کروایا جائے ‘‘۔ یہ تجویز اسوقت پسند آئیگی جب مسئلہ سمجھ میں آئیگا لیکن مولوی اس پر بھی خوش ہوگا کہ معاشرے کو اپنے ہاتھ میں رکھ سکے گا۔ جب یہ فیصلہ ہوجائے کہ ناجائز حلالہ کا ناجائزفتویٰ دینے والے علماء کو پکڑ کر ان کا ناجائز حلالہ کروایا جائے تو مساجد، مدارس، مذہبی جماعتوں اور طبقات کی طرف سے محشر کا شور اُٹھے گا کہ ’’اللہ واسطے ! قرآن کی آیات کو دیکھو، ایک ساتھ نہیں الگ الگ تین مرتبہ طلاق کے باوجود بھی حلالہ کی ضرورت نہیں ہے، ہم پر خدا رااتنا ظلم نہ کرو ۔ سید ارشادعلی نقوی

پاکستان کے مسائل کا حل اور اہل اقتدار کی ترجیحات وا ہداف

پاکستان کو جن مسائل کا سامنا ہے وہ اہل اقتدار کی ترجیحات اور اہداف ہی نہیں ہیں۔ ہمارا سب سے بڑامسئلہ پانی کا ہے، قدرتی پانی کا بہاؤ پاکستان کی عوام کیلئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خصوصی تحفہ ہے۔ پینے کا صاف اور میٹھا پانی ہمارے لئے نعمت کی بجائے زحمت بن جاتا ہے، کھڑی فصل تباہ اور آبادیاں خانہ بدوشی پر مجبور دکھائی دیتے ہیں، سیلاب ہرسال طوفانِ نوح کا منظر پیش کرتا ہے۔ اللہ کی سب سے بڑی دولت پانی کی نعمت جس سے اللہ نے ہر جاندار چیز کو پیدا کیا ہے، جس کے بغیر زندگی کا کوئی تصور نہیں وہ ہمیں دستیاب ہونے کے باوجود طوفان کی طرح بہاکر سمندر کی نذر ہوجاتا ہے لیکن ہم بوند بوند کو ترس رہے ہوتے ہیں،اگر اہل اقتدار کو عوامی مسائل اور پاکستان کو درپیش چیلنج کی کوئی فکر ہوتی تو پانی کے ذخائز بناکر پاکستانیوں کو کربلائے عصر کی تکلیف سے کوئی تو نجات دلاتا؟۔ اے این پی والوں نے پختون پختون کی رٹ لگاگر مہاجروں میں بھی لسانیت کو ہوا دی، کراچی کو پختونوں کا سب سے بڑا شہر کہنے والوں نے کراچی میں ہی پختونوں کو تعصب کی نذر کردیا۔ حب الوطنی اور قربانیوں کا جذبہ ہوتا تو یہ کہا جاتا کہ نوشہرہ ہم سے زیادہ فوج کی سرزمین ہے جہاں عام لوگوں سے زیادہ فوجی اداروں کی بہتات ہے،اگر کالاباغ ڈیم سے نوشہرہ ڈوب بھی جائے تو کراچی کے پختونوں کیلئے اتنی چھوٹی سی قربانی ہم دینگے۔
کراچی، سندھ ، بلوچستان ، پنجاب اور پختونوں کے مفاد میں دریائے سندھ پر کالاباغ ہی نہیں پورے دریائے سندھ پر ڈیم ہی ڈیم بنائے جاتے تو آج زیرزمین اور سطح زمین پر پانی کے بہت بڑے ذخائر ہوتے، سستی بجلی و انرجی سے پاکستان اور پاکستانی قوم خوشحال ومالامال ہوتی اور صحت وزراعت سمیت ہرشعب ہائے زندگی میں ہم خود کفالت کی زندگی گزارتے۔ ہماری ریاست کا معیار بہت بلند ہوتا، عرب سے تیل خریدنے کی بجائے اپنے تیل وگیس کے قیمتی ذخائرسے فائدہ اٹھاتے۔ آج بھی رونے دھونے کی ضرورت نہیں، ستارایدھی کو فوجی پروٹوکول دینے سے عوام کے مسائل حل نہیں ہوجاتے بلکہ شارعِ فیصل پر کارساز سے ڈرگ روڈ تک سروس روڈ پر قبضہ ختم کرکے چوڑے فٹ پاتھ کی جگہ پر سڑک کی توسیع سے عوام کے دل جیتے جاسکتے ہیں۔پرویز مشرف نے کارساز پر فلائی اُور کیلئے تھوڑی سی فوجی زمین نہ لی ہوتی تو مسئلہ حل نہیں ہوسکتا تھا۔ آج ڈکٹیٹر کے دور میں کراچی کے ترقیاتی کام اور جمہوری دور میں کراچی کا بیڑہ غرق کرنے کا تصور کیا جائے تو جیسے ترقی وعروج کے پہاڑسے زوال وانحطاط کی کھائی میں گرگئے ہوں۔
عوام کامزاج حکمرانوں نے اللہ کی غیب میں پرستش کرنے کے بجائے چڑھتے سورج کے پجاریوں والا بنایا ہے۔ کشمیر میں(ن) لیگ کی جیت جمہوریت کے تابناک مستقبل نہیں بلکہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ عوام چڑھتے سورج کی پوجا کرتے ہیں۔ آج نوازشریف کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا جائے اور پھر کشمیر میں الیکشن ہوجائیں تو نوازشریف کیخلاف ووٹ دیا جائیگا۔ یہ عوام کا مزاج بن گیا ہے کہ جو ٹیم جیتنے کا چانس رکھتی ہے بچے بھی اسی کے طرفداربن جاتے ہیں۔ سعد رفیق دوسروں کو اس بات سے ڈراتے ہیں کہ ’’جائیں گے تو سب ایک ساتھ جائیں گے‘‘۔ سندھ بلوچستان اور پختون خواہ میں تو پہلے سے مارشل لاء نافذ ہے، اگر پنجاب میں لگ جائے تو دوسروں کو کیا فرق پڑیگا؟۔ چوہدری نثار کو سندھ کی بڑی فکر ہے لیکن پنجاب میں اغواء ہونے بچوں کو انسان نہیں شاید کتے کے بچے سمجھا جاتا ہے،اسلئے وہاں رینجرز کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔
جنرل راحیل شریف نے چیف جسٹس سندہ ہائی کورٹ کے بیٹے اویس شاہ کوبھلے ٹانک سے بازیاب کرواکر بڑا کارنامہ سرانجام دیا لیکن کیا لاہوراور دیگر شہروں میں اغواء ہونے والے بچوں کا کوئی حق نہیں، گداگری کے پیشہ کیلئے اغواء کئے جانے والے بچے کسی ستارایدھی کا انتظار کریں؟۔ قصور میں بچوں کیساتھ زیادتی کرکے گھناؤنے کردار والوں کو کیا اسلئے کیفرِ کردار تک نہ پہنچایا جاسکا کہ وہ دہشت گردگروپوں کیساتھ مل کر کاروبارِ سرکار کو چلانے میں معاونت کریں؟۔یہ عجیب مخمصہ ہے کہ انسانیت کی تذلیل کرنے والوں کو دہشت گرد نہیں سمجھا جاتا ہے۔ اس معاشرے کے دن گنے چنے لگتے ہیں جہاں حکمرانوں کا کوئی ضمیر ہی نہ ہو۔ پانامہ لیکس پرتین وزیراعظموں کا استعفیٰ اور پاکستان کے وزیراعظم کی ہٹ دھرمی کوئی معمولی بات نہیں ۔ زرداری ڈھیٹ بن کر رہ جاتا تو اس کی ڈھٹائی سمجھ میں آتی تھی اسلئے کہ دوسروں کے خلاف وہ حبیب جالب کی زبان اور شاعری میں تو بات نہ کرتا تھا۔ ان پارساؤں کا ڈھیٹ بن جانا انتہائی خطرناک ہے،اور اس سے زیادہ خطرناک بات شہبازشریف، چوہدری نثار اور نوازشریف کا جمہوریت کے پردے میں پناہ لینا ہے جن کی ساری زندگی جمہوریت کے خلاف کھلی کتاب کی طرح رہی ہے۔
اصحاب حل وعقد سب سے پہلا کام یہ کریں کہ دریائے سندھ پر خرچہ کرکے جگہ جگہ پانی کو ذخیرہ بنانا شروع کریں،پاکستان،سندھ اور کراچی کو وافر مقدار میں پانی کی سخت ضرورت ہے،پاکستان میں پانی کو ذخیرہ کرنے ،سستی بجلی پیداکرنے کی زبردست صلاحیت ہے ۔
نامزد وزیراعلیٰ سیدمراد علی شاہ نے اگر لوگوں کو دعوت دی کہ دریائے سندھ پر پانی کے ذخائر کیلئے سرمایہ کاری کی ضرورت ہے تو بڑے پیمانے پر لوگ اس نعمت کو عام کرنے کیلئے چندہ دینے پر بھی آمادہ ہوجائیں گے۔ تھرکے لوگوں کی مدد کے نام پر جتناسرمایہ خرچ ہوا ہے، اس سے کم سرمایہ پر دریائے سندھ میں پانی کو ذخیرہ بناکر خوشحالی کی لہر لائی جاسکتی ہے بلکہ مسائل کا مستقل حل بھی نکل سکتا ہے۔ جس موسم میں خشک سالی ہوتی ہے اس وقت دریائے سندھ بالکل خالی ڈیم کا منظر پیش کرتا ہے اور اس میں پانی کو ذخیرہ کیاجائے تو زمین کے اندر میٹھے پانی کے ذخائر سے سندھ کی قسمت بدل جائیگی۔ پھر سندھ کی عوام کا سب سے اہم اور بڑا مطالبہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا ہوگا۔
پانی کے ذخائر سے سندھ کی بنجر زمین کو زرخیزبنانے میں دیر نہ لگے گی اور کراچی کو وافر مقدار میں پانی ملے گا تو عوام کا ایک بنیادی اور دیرینہ مسئلہ حل ہوجائیگا۔ ڈیفنس جیسے علاقہ میں بھی پانی نہیں تو غریب آبادی کے مکینوں کا مسئلہ حل کرنے میں کس کودلچسپی ہوسکتی ہے؟۔ دریائے سندھ کے ذخائرسے نہروں کے ذریعہ بھی کراچی کو پانی دینے کا بندوبست ہوسکتا تھا لیکن آمریت اور اس کی پیدوار جمہوریت نے مل کر اور باری باری کبھی بھی عوامی مسائل کے حل کو ترجیح نہ سمجھابلکہ جن جن ذرائع سے سرمایہ دار زیادہ سے زیادہ منافع کما سکتا تھا وہی حکمرانوں کی بھی ترجیح رہی ہے، حد تو یہ ہے کہ کراچی میں سرکاری زمینوں پربدمعاش لینڈ مافیاز، سرمایہ داروں، حکومتوں، ریاستی اداروں اور غریبوں تک سب نے اپنا ہاتھ صاف کیا ہے، البتہ غریب کو قانون کا سہارا نہ مل سکا،اسلئے وہ کچی آبادی ہے اور طاقت کے بل پربدمعاشوں اور پیسہ پربدقماشوں نے قانون ہاتھ میں لیکر بھی قانون کو ٹشو پیپر کی طرح بڑے احترام کیساتھ اپنا گند صاف کرنے کیلئے استعمال کیا ۔
جب قانون کو طاقت اور پیسوں کی لونڈی بنایا جائے تو اہل اقتدار و حکمران طبقہ کی ترجیحات کو سمجھنا دشوار نہیں ہوتا، ایک طرف چھڑی والوں کااقتدار ہوتا ہے اور دوسری طرف ان کے گماشتوں اور چہیتوں کو جمہوریت کے نام سے حکمران بنایا جاتا ہے۔ سیاستدان سچ کہتے ہیں کہ وہ حکمران تو ہوتے ہیں لیکن انکے پاس اقتدار اور اختیار نہیں ہوتا ۔ نیوی کا شارع فیصل کے سروس روڈ پر قبضہ ہوجائے اور لوگ رل رل کر روز روزٹریفک میں پھنستے رہنے کو معمول کی مجبوری اور حالات کا جبر سمجھیں اور دوسری طرف صدیوں کی آبادیوں کو لیاری ایکسپریس وے کیلئے چند ہزار کی قیمت دیکر ملیا میٹ کردیں تو پتہ چلتا ہے کہ عوام ترجیح نہیں ۔ ایک دن کارساز سے ڈرگ روڈ تک لوگ خالی گاڑیاں چھوڑ کر ایک آدھ دن کیلئے صرف اپنا احتجاج نوٹ کرادیں کہ وہ فٹ پاتھ جس پر کوئی چلتا بھی نہیں ، سروس روڈ کی جگہ پر پہلے نرسیاں بنائی گئی تھیں اور پھردہشت گردی کے خوف نے قبضہ کرایا ۔ جس کی وجہ سے عوام کو روز روز بہت تکلیف ہوتی ہے اور پھر چند دنوں بعد پروٹوکول کیلئے سڑک ،آفس سے چھٹی اور بہت رش کے وقت بند کردی جاتی ہے۔
جنرل راحیل شریف نے اگر واقعی قوم کی خدمت کرنی ہے تو کارسازاور نیشنل اسٹڈیم سے ائرپورٹ کی طرف جانے والے نیوی کے علاقوں میں عوام کیلئے بڑی بڑی شاہراروں کے ذریعہ سے سہولت فراہم کریں۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے اور اسلام میں مسجد اور قبرستان کو کسی بھی صورت میں گرانا جائز نہیں مگر سڑک کی توسیع کیلئے مسجد اور قبرستان کو بھی گرایا جاسکتا ہے۔ یہ پریشر بالکل بھی ختم کردینا ضروری ہے کہ قبرستان سے عوامی ، مسجد سے مذہبی طبقات اور فوجی علاقہ سے اہل اقتدار کے جذبات مجروح ہونگے۔ فوج، مذہبی طبقات اور عوام سب مل کر ایسا کام کریں جس سے ثابت ہو کہ مخلوقِ خدا کیلئے سہولت کے دروازے کھل گئے ہیں ۔ پاکستان میں جمہوریت نہیں بلکہ پیسوں کی حکومت اور تاجروں کی تجارت ہے۔جمہوری پارٹیوں میں جمہوریت نہیں بادشاہت اور ڈکٹیٹر شپ ہے۔ پرویزمشرف کے دور میں میڈیا اور عوام کو رائے کی آزادی ملی، آج ن لیگ کی حکومت نے پی ٹی وی کو(ن: ش: ٹی وی )نواز شریف شہبازشریف ٹی وی بناکر رکھ دیا ہے۔
ہاکس بے غریب عوام کیلئے ایک زبردست تفریح گاہ ہے لیکن جولائی کی آخری اتوار کو مشاہدہ ہوا کہ جگہ جگہ ’’سمندر تمہارا دوست نہیں‘‘ لکھا گیا تھا۔ رینجرز کے سپاہیوں نے دن دھاڑے عوام کو وہاں سے نکالنا شروع کیا، بغیر کسی وجہ کے سڑک پر ٹریفک پولیس اور عام پولیس کے ذریعہ روڈ پر رکاوٹیں کھڑی کی گئیں جس کا مقصد صرف اور صرف یہ لگتا تھا کہ آنے جانے والوں کو شدید تکلیف دہ صورتحال سے دوچار کیا جائے۔ ہاکس بے سے شہر کی طرف جانے والی شاہراہ مکمل طور پر بند کردی گئی تھی اور آنے والی سڑک کی تھوڑی سی جگہ چھوڑ دی گئی تھی جہاں سے ایک گاڑی بمشکل گزرسکتی تھی، باری باری آنے جانے والی گاڑیوں کو گزار کر خواہ مخواہ بیچاری عوام کو تکلیف دی جارہی تھی۔ عراق اور لیبیا کی فوج اور حکمرانوں سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت تھی اگر اپنے ہی اہل اقتدار عوام کو محروم کرنے اور کنارہ لگانے کا سلسلہ جاری رکھیں گے تو کل کلاں اللہ نہ کرے اس فوج کی جگہ غیرملکی فوج بھی قبضہ کرسکتی ہے اور پھر رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔