پوسٹ تلاش کریں

نوشتہ دیوار شمارہ ستمبر 2020 کی اہم خبریں

قاتل ہی کارواں کا اگر چیف ہوگیا حیرت نہیں جو قافیہ ردیف ہوگیا

وہ مذہب خوں بہانے کی اجازت دے نہیں سکتا
وضو کے واسطے جو پانی بھی کم بہاتا ہے

جرأتمند ہندو شاعرہ لتا حیاء


شہیدِآرمی پبلک سکول کے نام کھلاخط

فضل خان ایڈووکیٹ


حیات بلوچ کا قتل دلخراش واقعہ ہے۔ قتل کے وقت جو اہلکار موجود تھے ان سب کو بھی شامل تفتیش کیا جائے۔ نواب اسلم رئیسانی کا بلوچستان اسمبلی میں خطاب


قاتلانہ حملے کے بعدمیر کلام وزیرکا اسمبلی میںبڑاخطاب


حسینی برہمن کون ہیں؟تاریخ وتحقیق

عدیل رضا عابدی:قلم کار


لاڑکانہ میں ہندو کی جائیداد پر قبضہ؟

ڈاکٹر بھگوان دیوی کی پریس کانفرنس:


سندھیوں نے مہاجروں کو کیا دیا؟

حقیقتوں کا اعتراف: تحریر: انور مقصود


بلرام پور/ لکھنو: دہلی کے دھولا کنواں سے گرفتار آئی ایس آئی ایس (ISIS) کے مشکوک دہشت گرد ابو یوسف عرف مستقیم کی گرفتاری کے بعد اہلیہ نے انکشاف کیا


مولانا ابوالاعلیٰ مودودی لکھتے ہیںکہ بعض کے مطابق امام مہدی اگلے وقتوں کے مولویانہ و صوفیانہ وضع و قطع کے آدمی ہونگے۔ تسبیح ہاتھ میں لئے مدرسہ یا خانقاہ کے حجرے سے برآمد ہونگے۔ انا المہدی کا اعلان کرینگے۔علماء و مشائخ کتابیں لیے پہنچیں گے اور۔۔۔۔۔۔۔۔


شیعہ خطیب سیدجواد نقوی نے کہا کہ ہمارے کاروباری علماء مذہب کے پلیٹ فارم پر فرقہ وارانہ باتیں کرتے ہیں۔ محرم آرہا ہے جو سب سے زیادہ فرقہ وارانہ باتیں کریگا اس کو سب سے زیادہ مجالس کی دعوت ملے گی۔


تم نے آل محمدسے وفا نہیں کی ہندوستان سے کیا وفا کرو گے؟

تم مسلمان نہیں ہو،تم نے اس دھرتی پر مغلوں اور ہتھیاچاروں کے ڈر سے شلوار پہنی تھی، تم کنورٹڈ ہو
ہندو کا مسلمانوں کو سوشل میڈیا پر سخت ترین طعنہ


مہاجر خاتون کا صوبے کی بات کرنے پر اعتراض کرنے والوں کو جواب


پنجاب میں بال بچے دار خاتون کا اغوا


مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام شمع بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام

تبلیغی جماعت کے ترجمان: حاجی نعیم بٹ


اہل سنت میں ہمارے یہاں ناصبیت گھس گئی ہے۔ مولانا طارق جمیل

ہم نے بغض شیعہ میں اہلبیت کی شان کو گھٹا دیا۔امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ طارق جمیل کو میرا سلام کہنا اور کہناکہ ہم نے صدیق میراثی بنالیا


کلیجہ چیردینے والی غزل ’’ لباس تن سے اتار دینا ‘‘


پاکستان ظلم وجبر کے نظام سے نکلنا چاہتا ہے تو؟

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی


پچھلے شمارے میں کتاب کے پہلے دوصفحات اخبار میں تھے اور شجرہ النسب کو بلیک اینڈ وائٹ کی جگہ رنگدار کرنے کے چکر میں اوراوپر نیچے کی ترتیب تبدیل کرنے کی وجہ سے ناموں کی ترتیب میں تھورا سافرق آگیا تھا۔ ریکارڈ درست کرنے کیلئے شجرہ دوبارہ شائع کردیا۔ اجمل ملک

پختونخواہ کے مسائل کی بنیاد اور انکے حل کیلئے تجاویز

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
ہر گھر میں طالبان میزبان کوئی مہمان تھے۔ بوڑھے، عورت ، بچے جوان سبھی قدردان تھے۔ لوگ دھماکوں، خود کش سے پریشان تھے۔ ہم دلیری پر شادمان تھے۔ پاکستان پر قبضہ اپنے ارمان تھے۔ فضل الرحمن ، عمران خان ایک طالبان خان تھے۔ اپنے سر کی خیر مانگتے جب طوفان تھے ۔کشتی ڈوب جاتی تو قصور وار بادبان تھے۔
آج وزیرستان کاایک محسودپشتو کی اس زبان میں فیس بک پر کہہ رہاہے جس کو دوسرے پختون بھائی سمجھ بھی نہیں سکتے ہیں کہ ”طالبان پھر آگئے ہیں، اب زیادہ نہیں کم ہیں، ہم ان کا راستہ روک سکتے ہیں۔ اگر یہ پھر بڑھ گئے تو پھر جرگہ اور دھرنا سب کچھ بھول جاؤگے۔ یہ صرف مارنا اور ذبح کرنا جانتے ہیں اور کچھ نہیں۔ خود کش حملوں کا مقابلہ کرنا کسی کے بس میں نہیں ۔ ان کی فکر کرو، وقت سے پہلے پہلے”۔
فضل خان ایڈوکیٹ پر کچھ دن پہلے قاتلانہ حملہ ہوا تھا، اللہ تعالیٰ حفظ وامان میں رکھے۔ اسکے کھلے خط کی ایک ایک سطر اپنے بچے کے غم میں دل کے خون سے لکھی ہوئی ہے جس میں بچے کی ماں کا بھی درد پورا پورا جھلک رہاہے۔ ہم وہ نہیں کہ دوسرے کے دکھ پر بے حسی کا مظاہرہ کریں اور فتوے لگانے میں ملوث ہوجائیں لیکن حقائق کو بہت مشکل وقت میں بھی سچائی کیساتھ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
پوری پختون قوم کا جذبہ طالبان کیساتھ تھا اسلئے قتل وغارت کے باوجود ہماری ریاست ، فوج ، پولیس، عدالت اور جمہوری حکومت سب بے بس نظر آتے تھے۔ فضل خان ایڈوکیٹ صاحب! اگر 2014ء میں تمہارے معصوم پھول کی شہادت سے تمہارا اپنا ضمیر جاگ گیا تو بھی بڑی بات ہے۔ جب آرمی نے فیصلہ کیا کہ طالبان کو شمالی وزیرستان سے بھی بے دخل کرنا ہے تو ردِ عمل کا پہلے سے خطرہ تھا۔ عمران خان 2014ء میں پنجاب پولیس کو طالبان کے حوالے کرنے کی دھمکیاں دیا کرتاتھا۔ شمالی وزیرستان میں احتجاجی مظاہرین کی لاشیں گھروں تک پہنچ گئیں لیکن معذرت کیساتھ احتجاج کی نمائندگی کرنے والے علی وزیر اور محسن داوڑ زندہ وتابندہ ہیں۔ شمالی وزیرستان کے ڈاکٹر گل عالم وزیر پہلے بھی اپنے قبیلے کے بڑے خان تھے اور آج بھی ہیں۔ پہلے طالبان کے ساتھی نہیں بلکہ بہت بڑے دلال تھے اور اب PTMکے بڑے رہنما ہیں۔ پہلے مذہب کے نام پر امریکہ نے پختونوں کا کباڑا کیا تھا اوراب قوم پرستی کے نام پر کررہی ہے۔ وائس آف امریکہ ، BBCاور اسکے تمام ذیلی ذرائع ابلاغ کے ادارے قوم پرستی کے مشن کو آگے بڑھارہے ہیں۔ پختون اب مذہب نہیں تو قوم پرستی کے نام پر ایک دفعہ پھر قربانی کیلئے تیار ہورہاہے لیکن جب اس دام کا شکار ہوںگے تو اپنی تمام کوتاہیاں دوسروں کے کاندھے پر ڈالیںگے۔ میرا وائس آف امریکہ نے انٹرویو لیا لیکن نشر نہیں کیا گیااور میں نے پہلے ہی بتادیا تھا کہ نشر نہیں ہوگا، جس طرح جیو نے ہمارا پروگرام ریکارڈ کرنے کے بعد نشر نہیں کیا۔
ہماری ایک عزیزہ اور رشتہ دار نے اپنے لختِ جگر کو اپنے ہاتھوں سے خون میں نہلادیا اور اس کی وجہ صرف اور صرف یہی تھی کہ وہ دوسروں کیلئے فسادی کا کردار ادا کرسکتا تھا۔ بھارت میں بھی ISISداعش والے پہنچے ہیں تو کیا بھارت نے ان کو اپنا مہمان ٹھہرایا ہواہے؟۔ اگر بھارت کی ریاست مسلمانوں کو تباہ کروانے کیلئے یہ سب کچھ امریکہ کے کہنے پر کررہی ہے تو مسلمانوں کو خود استعمال نہیں ہونا چاہیے تھا اور جب داعش کا دہشتگرد پکڑا جائے اور بیگم صاحبہ کہے کہ ” دہشت گردی کا منصوبہ تھا اور میں منع کررہی تھی لیکن میری بات نہیں مانی اور اب اس کو معاف کیا جائے”۔
وزیرستان وقبائل میں پہلے بھی اغواء برائے تاوان وقتل کے کیس ہوتے تھے پھر طالبان کو ایکس ٹینشن ملی تو اپنی فطرت دکھادی۔ دیپالپور پنجاب میں بال بچے دارخاتون ایڈوکیٹ دوسری مرتبہ اغواء ہوئی تویہ ریاستی سازش ہے؟۔ بلوچوں کے گھر جلانے والے پشتو زبان بولتے ہیں۔ میرے دوست واحباب بلوچ بھی ہیں۔ ایک تعزیت میں بیٹھاتھا ۔ پختونوں کا بلوچوں کے ہاتھ قتل بڑی خبر تھی۔ بلوچوں نے کہا کہ یہ ایجنسیوں کا کام ہے۔ میں نے کہا کہ میری گھر والی کا چاچا تربت کا بلوچ ہے ، اس کو پٹھان سمجھ کر بلوچ قتل کررہے تھے۔اپنی غلطی کو ایجنسی کے سر ڈالنا مسئلے کا حل نہیں ۔ایف سی میں وہی لوگ بھرتی ہونگے جن کا کوئی قتل ہواہوگا۔ وزیرستان میں فوج پرحملہ ہوا تو منظور پشتین کے پڑوسی نے بتایا کہ” ایک پنجابی سپاہی شعبان زندہ بچا تھا تو اس نے PCOسے ماموں کو فون کیا کہ قید ہوں، میری ماں کو نہیں بتانا۔ اس خون خرابے کے بعد طالبان سے نفرت ہوگئی”۔اگر اس وقت محسود قوم اٹھ کر دہشتگردی کا خاتمہ کرتی تو بہت برے دن نہ دیکھنے پڑتے۔
جیش محمد کے مولانا مسعود اظہر اور سپاہ ِ صحابہ کے مولانا نیاز محمد ناطق بالحق سے میری جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں اچھی دوستی تھی۔ مولانا مسعود اظہر کہہ سکتا ہے کہ ”میری پچھاڑی اللہ نے بنائی ہے تو کیا اس کا تقدس کعبہ سے زیادہ ہے؟”۔ چوتڑ کو خوشبو لگانے والا ابوجہل فصاحت وحکمت کی بات کرتا تھا لیکن مؤمن عزت کو اللہ نے اپنی عطاء قرار دیاہے ۔ ایک بلوچ بڈھا غصے میں کعبہ مادر، کعبہ مادر کہتا تھا تو ایک چھوٹی بچی نے پوچھا کہ اسکا کیا مطلب ہے؟۔ اس نے کہا کہ مجھے کیا پتہ؟۔ ہندوستان میں امریکہ داعش کے ذریعے دہشت گردی پھیلائے۔ اور ہمارا مولانا مسعود اظہر کعبہ مادر اعتراف کرکے احسان اللہ احسان کی طرح محفوظ مقام پر جائے پھر پتہ چلے کہ امریکی سی آئی اے اور بلیک واٹر نے پاکستان کی ریاست اور بھارت دونوں کو تباہ کرنے کیلئے اپنا پلان بناکر ڈرامہ رچایا تھا۔ فوجی افسران غداری میں تختہ دار پر چڑھ گئے مگریہ بھی حقیقت ہے کہ میڈیا کے امریکی ایجنٹوں کو جب ہماری ریاست نہیں پکڑ سکتی ہے تو فوج میں بیٹھے ہوئے لوگ کس طرح سے کسی کے دسترس میں آسکتے ہیں؟۔بھارت میں مولانا مسعود اظہر آزادی سے ہر ہفتے حالاتِ حاضرہ پر ضربِ مؤمن میں لکھتاتھا، اس سے سازش کی بد بوآرہی تھی۔بھارت میں بھارتی ریاست، امریکی سی آئی اے اور وہ مسلمان خاندان جو داعش کیلئے کام کرتا ہے سب ملکر بھارت اور مسلمانوں کا بیڑہ غرق کرنا چاہتے ہیں لیکن مسلمان سیدھے ہیں۔
وزیرستان کی عوام اور منتخب نمائندے پاک فوج کیساتھ مل کر کھلے عام اپنے بچوں کو اپنے پاس رکھیں۔ حکومت، فوج اور عوام ایک پلیٹ فارم پر مجرموں کو پکڑیں اور کسی بھی ایسے گڈ یا بیڈ کو اجازت نہ دیں جو اپنے ماں باپ سے الگ رہتا ہو۔ جب عوام ریاست کیساتھ بھرپور تعان کرینگے اور اپنے بھائی، بچے اور احباب دہشت گرد کو اپنے ہاتھوں سے انجام تک پہنچائیںگے تو امن وامان کا معاملہ بالکل حل ہوگا۔
بلوچ بڑی تعداد میں مرکھپ گئے اور اب آئندہ اپنی نسل بچانے کی فکر میں لگ گئے ہیں۔ ایک بے گناہ بلوچ سے پہلے ایک بے گناہ پشتون کے قتل پرردِ عمل آتا تو یہ دن دیکھنے نہ پڑتے۔وزیرستان میں قتل وغارت کے شروع میں طالبان پر قابو پایا جاتا تو اتنی تباہی وبربادی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ PTMکے لوگوں کو پتہ ہے کہ صرف فوج کی مخالفت سے طالبان ان کی حمایت کرینگے لیکن جب دوبارہ قومیت کے نام پر یہ کھیل شروع ہوگا تو کسی کے پاس جنت میں جانے ، حوریں پانے کا بھی کوئیسرٹیفکیٹ نہیں ہوگا۔ پشتون غیرت کے نام پر اپنی بیٹیوں، بہنوں، بیویوں اور ماؤں کو اسلامی حقوق دینا شروع کریں تو اس جبر سے نکلنے میں مشکل نہیں ہوگی جو ہم اور پوری دنیا پر مسلط ہے۔ کہیں ایک اور ڈرامے کاہم شکار نہ ہوجائیں۔
فیزبک پر پڑھنے کیلئے اس لنک پر کلک کریں
پختونخواہ کے مسائل کی بنیاد اور انکے حل کیلئے تجاویز

سندھ کے مسائل کی بنیاد اور انکے حل کیلئے ایک تجویز!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
سندھی و مہاجر اپنی الگ الگ تہذیب وتمدن کیساتھ رہتے ہیں۔ مہاجر وطن ہندوستان چھوڑ کر سندھ میں آباد ہوئے اور سندھی پرانی تہذیب کیساتھ رہتے ہیں۔ ایک شیعہ بچہ داد لینے کیلئے کہتا ہے کہ لیڈر دو تھے، ایک محمدۖ اور ایک حسین ۔ جب محمدۖ نے دن کے وقت لوگوں کو بلایا تو کوئی نہیں آیا اور حسین نے رات کی تاریکی میں جانے کا کہا تو کوئی نہیں گیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ بڑا لیڈر کون تھا؟۔
مہاجر بے وطن نہیں،پوراپاکستان مہاجر کا وطن ہے۔سندھی، پنجابی، پختون اور بلوچ اپنے اپنے علاقوں میں رہ سکتے ہیں اور ایکدوسرے پر اپنے علاقوں میں بھی رہائش کے دروازے بند کرسکتے ہیں۔ لیکن مہاجر پورے پاکستان کے باسی ہیں۔
مہاجرصوبہ سندھ کی تقسیم پر بن سکتا ہے جو سندھیوں کیلئے قابلِ قبول نہیں۔ اگر کراچی کو صوبہ بنالیا تو سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں میں فساد بھڑک سکتے ہیں۔ بھارت سندھ سے لگا ہے۔ فسادات کے بعد بنگلہ دیش جیسی صورتحال سندھ میں بھی پیدا ہوسکتی ہے۔ کچھ کٹھ پتلی قسم کے سمیع ابراہیم جیسے صحافی خود کو ملٹری اسٹیبلیشمنٹ کے ایجنٹ ظاہر کرکے نادانستہ طور پر پاکستان کو بحران کی طرف گھیسٹ رہے ہیں۔ فواد چوہدری نے بہت غلط کیا ہوگا کہ اسکے چشمے کو مکا مار کر توڑ دیا تھا لیکن ایسی حرکت نہیں کرنا چاہیے کہ غلط تجاویز اور پروپیگنڈے سے ملک وقوم کو نقصان ہوجائے۔
رسول بخش پلیجو کے گلے شکوے سوشل میڈیا پر پھیل گئے تو انور مقصود نے بھی بہت اچھا بیان لکھ کر مہاجر بھائیوں کو حقائق سمجھانے کی زبردست کوشش کی۔ معاملہ اس وقت صلح ، امن و آتشی اور بھائی چارے کی طرف آئیگا کہ جب ایک دوسرے کی خوبیوں اور فوائد کی طرف نظر کرینگے اور اپنی خامیوں کو اجاگر کرکے اپنی قوم سے ہوا نکالیںگے۔ جب مہاجر صوبے کی بات عروج کی طرف بڑھ رہی تھی تو ایک عورت یا لڑکی کی طرف سے سوشل میڈیا پر بیان آیا جس نے اپنا تعلق حیدر آباد سے ظاہر کیا تھا اور سوشل میڈیا پر جعلی ایڈرس بھی ہوتے ہیں۔ اس کا تعلق الطاف بھائی سے تھا۔ اور بہت مؤثر تحریر لکھی تھی کہ ” اپنا صوبہ بنانے سے اگر مسائل حل ہوتے تو بلوچستان اور پختونخواہ کے لوگ خوشحال ہوتے اور ریاستی جبر اور غلامی کا رونا نہ روتے۔ مہاجروں کو کراچی الگ صوبہ بناکر دیا تو ان کو مزید زیادہ مار پڑے گی۔ یہ بالکل کٹھ پتلی بن کر رہ جائیںگے۔ ہم پاگل نہیں کہ مہاجر صوبہ بنائیںگے بلکہ ہم الطاف بھائی کی قیادت میں سندھو دیش بناکر دم لیںگے”۔ الطاف بھائی کے کارکن عتاب میں ہیں اور ان سے اس قسم کے بیانات خلافِ توقع نہیں۔ پھر الطاف بھائی کا بیان بھی سامنے آگیا ،جس کا لبِ لباب یہ ہے کہ ”ہم نے پہلے بہت بڑی غلطی کردی کہ اپنا وطن ہندوستان چھوڑ دیا ۔ اب ہم سندھی ہیں، ہمارا کوئی دوسرا وطن نہیں ، سندھ سے غداری کی غلطی نہ کرو”۔ یہ معمول کی بات لگی کہ الطاف بھائی ہر اس قدم کی مخالفت کرینگے جسکے پیچھے وہ خود اور اس کی پالیسی کا عمل دخل نہ ہو۔ پھر ہندوستان کی اسمبلی میں پہلی بار سندھی زبان میں تقریر ہوئی اور ایک کروڑ سندھیوں کی ہندوستان میں نشاندہی اور سندھ کے مشترکہ اقدار منجو دھڑو وغیرہ کا ذکر کیا گیا۔ ہندوستان کے پنجاب میں سکھوں کیساتھ پہلی مرتبہ مراسم قائم کئے گئے۔ امریکہ کا حکمران طبقہ اسلحہ سازوں کا ایجنٹ ہے اور اس خطے کے ٹکڑے کرکے گریٹ پنجاب کیساتھ سندھ ، بلوچستان اور پختونخواہ میں بڑے پیمانے پر خونریزی کا چکر چلانا چاہتا ہے۔ ریاست کے دلال قوم پرستوں پر ایجنٹ کا الزام لگاکر خونریزی کی راہ مزید ہموار کررہے ہیں اسلئے کہ ایجنٹ ہونے کا کردار سب سے زیادہ پاکستان کی ریاست نے ادا کیا ہے۔
جب تک ہماری ریاست ہوش کے ناخن نہ لے اور عوام میں بیداری کی لہر نہ دوڑائی جائے ہم ایک نامعلوم اور بہت خطرناک منزل کی طرف جارہے ہیں۔ ایک نوکر پیشہ ملازم اور کٹھ پتلی سیاستدان کو اپنے ماحول کے نشے میں بات اسوقت تک سمجھ نہیں آتی جب تک اس کو سرکے بل پٹخ کر اس کی دنیاتبدیل نہیں کی جاتی۔ ہنوز دلی دور است ۔ ”ابھی دہلی دور ہے ” کی کہاوت بہت پرانی مشہور ہے۔
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں اور منافقوں کا زبردست نقشہ سورۂ نور میں کھینچاہے واذادعوا الی اللہ ورسولہ لیحکم بینھم اذا فریق منھم مغرضونO ” اور جب ان کو اللہ اور اسکے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ ان کے درمیان فیصلہ ہو تو ان میں ایک گروہ ٹال مٹول کرتا ہے” ۔ سندھ لینڈمافیا کا مرکز ہے۔ پیپلزپارٹی کا سب سے بڑا اثاثہ سیکولر ازم ہے۔ اسلامی سوشل ازم کا نعرہ بھٹو نے لگایا تھا۔ آج قرآن وحدیث اور فقہ کے جمہوری مسالک کے مطابق مزارعت کا نظام سندھ میں ختم کیا جائے تو پورے پاکستان نہیں بلکہ دنیا میں انقلاب آئیگا۔ مزارعین کو مفت کی زمین کاشت کیلئے مل جائے تو سندھی عوام کی تقدیر بدلنے میں دیر نہیں لگے گی۔ عوام کو اسلام بھی چاہیے اور اپنا مفاد بھی اور اسلامی مزارعت میں دونوں باتیں ہیں لیکن سیاسی پارٹیاں اور اسٹیبلیشمنٹ دونوں اس میں وہی فریق ہیں جو اسلام سے اعراض میں قومی مفادات کو نظر انداز کرکے اپنے ذاتی وخاندانی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔
اللہ اگلی آیات میں فرماتا ہے کہ ” اگر بات انکے حق میں ہو تو اس میں مطیع اور فرمانبردار ہونے کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہیں۔ کیا انکے دلوں میں مرض ہے یا یہ شک میں ہیں؟ یا ڈرتے ہیں کہ اللہ اور اسکے رسول ان پر خوف مسلط کردیںگے؟۔ بیشک یہی لوگ ظالم ہیں۔ مؤمنوں کی بات یہ ہے کہ جب وہ اللہ اور رسول کی طرف بلائے جائیں تاکہ انکے درمیان فیصلہ ہو تو کہتے ہیں کہ ہم نے سن لیا اور اطاعت کرلی۔ اور یہی لوگ فلاح والے ہیں۔ اور جو اللہ اور اسکے رسول کی فرمانبرداری کرے اور اللہ سے ڈرے اوراس کا پرہیزگار بنے تو یہ لوگ کامیاب ہیں اور یہ لوگ اللہ کی سخت قسمیں کھاتے ہیںکہ ان کو آپ حکم دو تو سب گھروں سے قربانی کیلئے نکل کھڑے ہونگے ،ان کو کہہ دیجئے کہ قسمیں مت کھاؤ، معروف اطاعت کرو، بیشک اللہ جانتا ہے جو تم عمل کررہے ہو۔ ( سورۂ نور آیات۔ آیات48تا53)
جو عام معاملات میں لینڈ مافیا، کرپشن، ظلم وجبر اور ہرطرح کی حرام زدگیوں میں ملوث ہیں وہ ملک وقوم اور اسلام پر مشکل وقت آن پڑنے پر قربانیوں کی قسمیں کھاتے ہیں اور جوش وجذبے کے مظاہرے کرتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے ان کے منہ پر تھپڑ مارا ہے کہ قسمیں مت کھاؤ، معروف اطاعت کرو۔ وقت پر تمہارے بدلنے کی ضمانت تمہاری قسمیں اور عہدوپیمان نہیں ۔ جسکا تم نے حلف اٹھایا، اس کی پاسداری بھی تم سے نہیں ہوتی۔ جب قوم کو محکوم، مجبور، مظلوم اور بہت پسماندہ رکھا جاتا ہے تو ان کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ ایک حکمران اپنی جگہ سے ہٹ جائے اور دوسرا آجائے۔ بنگلہ دیش پاکستان کی بنیاد تھا لیکن پھر آزاد ہوگیا تو آج خوشحال ہے۔ مزارع مزارع ہی رہے گا تو وہ ملک وقوم کیلئے کیوں قربانی دے گا؟۔ محنت کش خون پیسنے کی کمائی سے پیٹ نہیں پال سکتا تو کیوں بیوقوف بنے گا کہ سیاستدان نے ملک کو لوٹا ہے یا فوجی اسٹیبلیشمنٹ، عدالتی اسٹیبلیشمنٹ اور سول اسٹیبلیشمنٹ نے؟ اور کس کی حکومت آئے اور کس کی جائے؟۔ یہ درست ہے کہ جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کے دور میں بیرونی اور اندرونی قرضے نہیں بڑھے لیکن دونوں ادوار میں امریکہ کی جنگ لڑکر قوم کا اخلاقی اور جسمانی دیوالیہ بھی نکال دیا گیا اور افراد نے بہت کمایا لیکن قوم کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آیا۔ مہاجر سندھی بھائی بھائی زندہ پائندہ باد

بلوچستان کے مسائل کی بنیاد اور انکے حل کی ایک تجویز

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
حیات بلوچ کا بے گناہ قتل پوری پاکستانی قوم کا قتل ہے، تمام بلوچوں کا قتل ہے اور سب بے گناہوں کا قتل ہے اور پوری انسانیت کا قتل ہے۔ ایک جوان کی وجہ سے ماںباپ کا گلستان اُجڑتاہے ،بیوی بچوں کی دنیا برباد ہوجاتی ہے۔ انسان کوئی بھی ہو اسکے قتل سے زمین وآسمان پر اس وقت لرزہ طاری ہوتا ہے جب اس بے گناہ کے خون سے زمین رنگین ہوجاتی ہے۔ اسی لئے تو اللہ کی بارگاہ میں فرشتوں نے کہا تھا کہ زمین میں فساد پھیلانے اور خون بہانے والی قوم کو کیوں پیدا کررہے ہو؟۔
کعبہ کا مقام ہے کعبہ حضرت ابراہیم نے بنایا، انسان کو اللہ نے بنایا ہے۔ حضرت عبدالمطلب نے ابرہہ کی لشکر کشی پر خون خرابے کا ماحول پیدا نہ کیا تو اللہ نے ایسا پوتا دیا جو رحمة للعالمینۖ کے نام پر دنیا کیلئے اُسوہ ٔ حسنہ ہے۔ آپۖ نے حضرت امیرحمزہ، سیدنا فاروق اعظم، علی حیدر کرار وابوبکر صدیق اکبر اور حضرت عثمان جیسے جانثاروں کے ہوتے ہوئے مکہ میں خون خرابے کے بجائے ہجرت کو ترجیح دی۔ صلح حدیبیہ کے معاہدے میں دس سال تک خانہ کعبہ کو 360 بتوں کی بھرمار کے باوجود مشرکینِ مکہ کے حوالے کیا۔ جب ابوجہل نے نبیۖ کو گالی گلوچ دی تو امیر حمزہنے ابوجہل کو للکارا کہ ” او چوتڑ پر خوشبو لگانے والے بزدل! تجھ میں یہ ہمت کیسے ہوئی کہ میرے بھتیجے کو گالی دی”۔ (سیرت النبی ۖ:الرحیق المختوم)
حضرت عمر اسکے بعد اسلام لائے اور اس وقت حضرت امیر حمزہ نے اسلام کو قبول بھی نہیں کیا تھا۔ اگر اس وقت مسلمانوں کو جہاد کا حکم ہوتا تو دہشت سے لوگوں کا بہت برا حال ہوسکتا تھا لیکن مکی دور میں جہاد کی اجازت نہیں تھی۔ فاروق اعظم نے اسلام قبول کیا تو اعلانیہ آذان بھی دی اور ہجرت بھی اعلانیہ کی تھی۔ چھاپہ مار جنگ کی اجازت ہوتی تو بدر میں مردار ہونے والے سردار مکی دور میں مارے جاچکے ہوتے۔
حیات بلوچ کی شہادت پہلی نہیں، بہت بڑی تعداد میں بلوچوں کے جوان بوڑھے، خواتین اور بچے شہید ہوئے ہونگے لیکن حیات کیمرے کے سامنے آگئے اور بہت ساروں کی تشدد زدہ لاشوں پر کوئی آواز بھی نہیں اُٹھ سکی۔ وجہ یہ ہے کہ جب ریاست کیخلاف کچھ نوجوانوں نے ہتھیار اُٹھالئے۔ ان کا بس چلتا ہے تو ریاستی اہلکاروں کو مارنے میں آسرا نہیںکرتے ۔جب ریاستی اہلکاروں کی زد میں آتے ہیں تو ریاست بھی ان سے دشمنوں جیسا رویہ روا رکھتی ہے۔ عدالت ، قانون اور انسانیت کی جگہ چھاپہ مار کاروائیاں ہوںتو زور آزمائی میں ایکدوسرے سے آگے نکلناہوتا ہے۔ کب تک یہ جنگ جاری رہے گی اور مزید کتنے بے گناہ اس جنگ کی آگ میں جھونک دئیے جائیںگے؟۔ اسکے آغاز اور خاتمے کا کچھ پتہ نہیں۔ اللہ کرے کہ ظالم اپنے ظلم سے رُک جائے ،حق وصداقت اور امن وامان کا پرچم جلد بلند ہو۔
آصف علی زرداری جب صدر مملکت اور پاک فوج کے آئینی سربراہ تھے تو انہوں نے بلوچوں سے معافی مانگ لی تھی مگر کس بات پر معافی مانگی تھی،اس کی کوئی خبر کسی کو نہیں ۔ جب تک پتہ نہ چل جائے کہ جرم کیا تھا؟۔ اس وقت تک اس معافی میں کوئی وزن بھی رہتا ہے۔ پھر تو استغفار اللہ ہی کی بارگاہ میں کرنا چاہیے۔ بندوں سے معافی مانگی جاتی ہے تو جرم کے ارتکاب پر ہی مانگی جاتی ہے۔
جب ذوالفقار علی بھٹومرکز میں وزیراعظم ،بلوچستان میں عطاء اللہ مینگل اور پختونخواہ میں مفتی محمود وزیراعلیٰ تھے تو بھٹو نے بلوچستان اسمبلی توڑ کر گورنر راج قائم کیا ۔عطاء اللہ مینگل کو ہٹاکر اکبربگٹی کوگورنر بنادیا ۔ کٹھ پتلی وزیراعلیٰ کو ہٹا کٹھ پتلی گورنر نامزد ہوا، اسلئے کہ بلوچستان میں جمعیت علماء اسلام کی اکثریت کو حکومت کا حق تھا۔ مفتی محمود نے ساز باز کرکے بلوچستان میں حکومت نیشنل عوامی پارٹی کو دی اور خود سرحد کے وزیراعلیٰ بن بیٹھے۔ اگر بلوچستان میں جمعیت علماء اسلام کی حکومت بنتی اور سرحد میں نیپ کاوزیر اعلیٰ خان عبدالولی خان ہوتے، تو جس طرح پنجاب سرکاری مسلم لیگ کا مرکزتھا اور سندھ پیپلزپارٹی کا مرکز ہے،اسی طرح پختونخواہ عوامی نیشنل پارٹی اور بلوچستان جمعیت علماء اسلام کا مرکز بنتے۔ اگر یہ مفاد پرستی کی ساز باز نہ ہوتی تو آج پختونخواہ میں مذہبی جماعتوں کے بجائے قوم پرستوں کی حکومت ہوتی اوربلوچستان میں جمعیت علماء اسلام اور مذہبی جماعتوں کا اقتدار رہتا سرحد میں کٹھ پتلی حکومت مذہب کے نام پر قائم ہوئی اور بلوچستان میں کٹھ پتلی حکومت قوم پرستی کے نام پر قائم ہوئی تو کٹھ پتلی تماشے کا جمہوری بنیادوں پر آغاز ہوگیا۔ جمہوریت کٹھ پتلی بن گئی تو قوم پرستوں نے اقتدار کیلئے ریاست سے قوم کو لڑانے پر غور شروع کیا اور مذہب پرستوں کے دماغ میں دہشت گردی نے جنم لیا۔
مریم نوازکے شوہر صفدراعوان نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ”ذوالفقار علی بھٹو نے مرزائیوں کو کافر قرار دیا ، بھٹو شہید کو سلام پیش کرتا ہوں، فوج میں قادیانی بھرے پڑے ہیں، بھٹو کو قادیانیوں نے شہید کیاہے”۔
کوئی صفدر اعوان سے یہ پوچھنے والا نہیں تھا کہ جس بنیاد پرجنرل ضیاء الحق کی مخالفت کرتے ہو، اسی کی پیداوار تمہارا یہ ٹبر ہے جس میں نوازشریف،شہباز شریف اور مریم نواز شامل ہیں، اگر بھٹو کو جنرل ضیاء الحق پھانسی نہ دیتا اور شریف برادران کی سیاسی پرورش نہ کرتا تو آج ریٹائرڈ کیپٹن صفدر اعوان کسی پرائیویٹ کمپنی میں سکیورٹی گارڈ کی خدمت انجام دے رہا ہوتا۔ اگرکیپٹن صفدر اعوان میں سیاسی بصیرت ہوتی تو وہ قومی اسمبلی کے فلور پر بیان دیتے ہوئے کم ازکم حقائق پر بھی بہت غور کرتے۔
حیات بلوچ شہیدکے پسِ منظر میں کٹھ پتلی قوم پرست سیاسی لیڈر شپ کا دامن بھی صاف نہیںہے۔ ریاست سے ملی بھگت کیساتھ خون دینے اور خون لینے کا سلسلہ جاری رکھنے کیلئے محفوظ مقامات پر بیٹھ کر پالیسی بیانات دینے کا معاملہ ہے۔ آزاد بلوچستان کا خواب دیکھنے والے اب درست کہتے ہونگے کہ ریاست بلوچوں کی نسل کشی کرنے میں مصروف ہے لیکن اپنا اور اپنے بچوں کو جنگ سے دور رکھ کر جنگ کی حمایت کرنے والے بھی معصوم خون کو بہانے میں بالکل برابر کے شریک ہیں۔ کوئی شک وشبہ نہیں کہ بلوچ بہادر، انسانی اقدار کے سب سے بڑے محافظ اور بہت شریف ، باغیرت، باضمیر اور سیاسی سمجھ بوجھ سے مالا مال لوگ ہیں ۔ ان کی جرأتمندی ، بہادری اور غیرت بہت مثالی ہے اور پاکستان میں قوم کی حیثیت سے یہ لوگ ہی سب سے زیادہ احترام ، عزت اور بہت پیار دینے کے لائق ہیں۔ ریاست کے کرتوت ایسے ہیں کہ اگر اتنی غیرت دوسری قوموں پنجابی، سندھی اور پختون میں ہوتی تو بنگلہ دیش سے بہت پہلے ہندوستان کی مدد سے نہیں اپنی طاقت کے بل بوتے پر فوج، پولیس، عدالت اور سول بیوروکریسی سمیت سب کو پکڑکر انگریز کی غلامی سے آزادی دلانے میں ستر سال ضائع نہ کرتے۔ قبائل مقبوضہ کشمیر کو ہندوستان کی فوج سے آزاد کرسکتے تھے تو کیا اتنی بڑی عوام اپنی ریاست کو سیدھا نہیں کرسکتی تھی؟۔
بلوچوں سے دست بستہ اپیل ہے کہ بندوق رکھ کر سیاسی راستہ اپنائیں تاکہ بلوچ قوم خونریزی کے اس عذاب سے نکل جائے اور اچھا انقلاب برپا ہوجائے۔ اسلامی منشور سے عرب کے صحراء سے نکلنے والے تہبند کے لباس میں ملبوس ساری دنیا کو فتح کرسکتے ہیں۔ آج بھی حج وعمرہ کیلئے احرام تہبند کا لباس پہننا پڑتاہے تو بہت بڑی بڑی گھیر والی شلوار پہننے والے غیرتمند بلوچ بھی اسلام کی بنیاد پر دنیا فتح کرسکتے ہیں۔ صلح حدیبیہ کا معاہدہ فتح مکہ کیلئے سب سے بڑی بنیاد بن گیا تھا کہ نہیں؟۔

قادیانیت ، شیعت اور قومیت کا مسئلہ اور اسکاحل کیا ؟

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
جاوید احمد غامدی نے اپنا عقیدۂ ختم نبوت کے حوالے سے واضح کیا ہے کہ وہ ”رسول اللہ ۖ کو آخری نبی مانتے ہیں ۔ رسول ۖ نے فرمایا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔اور نبوت میں سے کچھ بھی باقی نہیں مگر مبشرات ،جو رویائے صالحہ ہیں”۔
غامدی نے بتادیا کہ ” جو شخص خود کو مسلمان کہتا ہوتو اس کو وہ کافر نہیں کہتا ”۔ غامدی نے ابن عربی کا بتا دیا کہ ” وہ رسول اللہۖ پر تشریحی نبوت ختم ہونے کے قائل مگر نبوت کے جاری ہونے کا عقیدہ رکھتے تھے”۔ ڈنڈے کے زور پر مفتی محمود نے ایوبی دور میں معافی مانگی لیکن سیدابوالاعلیٰ مودودی نے معافی سے انکار کیاتھا۔
اگر مبشرات سے اصطلاحی نبوت مراد لی جائے تو ختم نبوت کا عقیدہ نہیں رہتا اسلئے کہ لوگ شیطانی جھولوں میں بیٹھ کر نبوت کے دعوے کرینگے۔ نبوت غیب کی خبر بھی ہے۔ وحی میں شیطان مداخلت نہیں کرسکتا۔ رسول ۖ سے سچا خواب کس کا ہوگا۔ حضرت عائشہسے فرمایا کہ آپ کی تصویر مجھے خواب میں دکھائی گئی کہ اس سے شادی ہوگی۔ سوچا کہ خواب اللہ کی طرف سے ہوگا تو پورا ہوجائیگا۔ ( صحیح بخاری)
غیب کی درست خبر رویائے صالحہ ہے ۔ قرآن میں تندرست بچے کی پیدائش کیلئے بھی صالح آیا ہے۔ کشف، الہام، نجوم اور خواب میں غیب کی خبریں بتانے والے شیطان یا انسان کے آلۂ کار ہوسکتے ہیں۔ ڈاکٹر اسرار احمد کی کلپوں کو عام کیا جاتاہے۔ مہاجر، سرائیکی ،بروہی قومیت حقیقت ہے مگر اس کیلئے قرآن کے غلط حوالے دینا بڑی جہالت ہے۔ وقال الرسول یارب ان قومی اتخذا ہٰذالقراٰن مھجورًا ”اور رسول کہیںگے کہ اے میرے رب بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا”۔ مسلمانوں کیلئے قوم کا لفظ اس زیادہ کس دلیل کا محتاج ہے مگر علماء کرام پاکستان کے مخالف اور ہندوستانی قومیت کے ٹھیکہ دار بن گئے تھے۔
علماء کہتے ہیں کہ رسول ۖ کی امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کی طرح ہیں۔ امام غزالی کا خواب یا مشاہدے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام سے مناظرے کی بات بھی کرتے ہیں ،صحابہ کا مقام علماء سے اونچا ہے مگر انبیاء سے اونچا نہیں ۔
مزراغلام احمد قادیانی مجذوبِ فرنگی تھا جس نے نبوت کا دعویٰ تو کیا لیکن دوسروں کو بھی اس کو نہ ماننے پر رنڈیوں کی اولاد قرار دیا۔ آج مرزائی سمجھتے ہیں کہ ان کو رنڈیوں کی اولاد کی طرح مسلمان مانا جائے توبھی بہت بڑی غنیمت ہے۔
جاوید غامدی اور انجینئرمرزا علی محمدالیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر چھائے ہیں۔ مرزا علی محمدنے قادیانیوں کی صف میں دیوبندی اور بریلوی کو بھی شامل کیا کہ اشرف رسول اللہ اور چشتی رسول اللہ کے خوابوں سے جب تک توبہ نہیں کی تو ان پر بھی بابی کا فتویٰ لگتا ہے۔ یہ کہنا باقی ہے کہ مرزائیوں نے کلمہ تو تبدیل نہیں کیاجبکہ جاوید احمد غامدی شیخ ابن عربی کی صف میں مرزا غلام احمد قادیانی کو کھڑا کررہے ہیں۔
علامہ سید جواد نقوی نے آصف علوی کوبرطانیہ کی MI6ایجنسی کا ایجنٹ قرار دیا۔ آصف نے کہا کہ رسول اللہۖ نے حضرت علی کواپنا نفس قراردیااوراماں عائشہ کو طلاق دیدی۔ اگر شیعہ منطقی نتائج اپنے فرقے کیلئے نہ نکالتے تو شیعانِ علی آصف کا جبڑہ توڑ دیتے کہ جب علی نبی کے نفس ہیں تو پھر نبی کی بیٹی حضرت فاطمہ سے نکاح کیسے ہوسکتا تھا؟۔ اہل تشیع کوان کی منطق کا جواب ان کی منطق سے دینا ہوگا۔ تب یہ اپنی مجالس سے داد حاصل کرنے اور اپنے ریٹ بڑھانے کے چکر سے باز آسکتے ہیں۔ایک شیعہ بچہ داد لینے کیلئے کہتا ہے کہ لیڈر دو تھے، ایک محمدۖ اور ایک حسین ۔ جب محمدۖ نے دن کے وقت لوگوں کو بلایا تو کوئی نہیں آیا اور حسین نے رات کی تاریکی میں جانے کا کہا تو کوئی نہیں گیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ بڑا لیڈر کون تھا؟ ہمارا جواب توجو بھی ہوگا سو ہوگا لیکن شیعہ کی اکثریت حسین کوبڑاسمجھ رہی ہے توکلمہ وآذان میں علی کی جگہ حسین کا نام لینا شروع کردیںاورحسینی برہمن کی صف میں شامل ہوجائیں۔ محمدۖ تو حسین کے باپ سے بڑے لیڈر اسلئے تھے کہ رسول اللہۖ نے مدینہ میں رئیس المنافقین کو اپنے ہاتھوں سے دفن کیا اور علی کو کوفہ میں بھی اپنے ہاتھ کے پلے ہوئے خوارج نے شہید کردیا۔ دوسری طرف اپنی دکان چمکانے کیلئے کہہ سکتے ہیں کہ ابوسفیان جب رسول اللہۖ کے سسر تھے تو ان کی بے ادبی اور گستاخی پر ہم کفر کے فتوے لگائیںگے۔ حالانکہ اس سسر کے خلاف صحابہ نے بدر، احدکے معرکے لڑے ہیں جس میں نبیۖ بنفسِ نفیس شریک تھے ۔
علماء کرام و مفتیانِ عظام سے گزارش ہے کہ جب تک آپ کا اپنا مؤقف درست اور مضبوط نہ ہوگا،اس وقت تک اسلام اور مسلمان کو خطرہ لاحق رہے گا۔ شیخ محی الدین ابن عربی نے اپنی کتاب ” فتوحات مکیہ” میں تشریعی اور غیرتشریعی نبوت پر جو بحث کی ہے علماء واکابر کے درجات ،تصوف میں مشاہدے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ نزول کے معاملے میں دلائل دینے ہونگے لیکن جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام تشریف لائیںگے اور نبیۖ کی شریعت پر عمل کرینگے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ علماء کو اپنی شریعت ایجاد کرنے کی اجازت ہوسکتی ہے؟۔ قرآن میں سود کو اللہ اور اسکے رسول ۖ کیساتھ اعلانِ جنگ قرار دیا گیا اور نبیۖ نے 70سے زیادہ گناہوں میں سے کم ازکم گناہ سود کھانے والے کیلئے اپنی ماں سے زنا قرار دیا۔ شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی و مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن نے سودی نظام کو جائز قرار دیا ۔ کیا یہ نئی شریعت کی ایجاد نہیں ؟۔ نبیۖ کو بھی یہ حق نہیں تھاکہ اپنی طرف سے کسی چیز کو حلال اور کسی چیز کو حرام قرار دیتے۔ اللہ ہی حرام و حلال قرار دیتا ہے۔ اللہ کے علاوہ اس مقامِ ربوبیت پر پہلے یہود ونصاریٰ کے علماء ومشائخ فائز تھے اور اب ہمارے علماء ومشائخ اور عوام انہی کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں۔
نکاح وطلاق اور نماز ودیگر معامالات کے حوالے سے حلال وحرام ، فرض اور نافرض اور شرعی حدود کے حوالے سے خود ساختہ تقسیم کیا نئی شریعتوں کی ایجاد نہیں؟۔ اجتہاد کا تعلق وقت کے حکمران، قاضی اور جج کا انصاف دلانے میں فیصلے کے حوالہ سے ہے۔ نت نئے مسائل گھڑنے کیلئے نہیں۔ غسل کے فرائض پر ائمہ کا اتفاق نہیں، بے نمازی کو سزا دینے پر اتفاق نہیں لیکن ایک ہی سزا ہے جس پر سب کا اتفاق بتایا جاتا ہے کہ عورت کو ایک ساتھ تین طلاق مرد دے تو حلالہ کی لعنت سے عورت کی عزت لوٹی جائے اور بس!۔ علماء اب بات سمجھ رہے ہیں لیکن کھلم کھلا تائید سے بڑے بڑے کترا رہے ہیں کیونکہ ان کو اپنا کاروبار ٹھپ ہونے کا اندیشہ ہے۔
اگر نبوت کا چالیسواں یا چھیالیسواں حصہ رہاہے اور اس سے مراد تشریعی علوم ہیں اور وہ فرائض اور شرعی حدود ہیں تو پھر تشریعی نبوت کے باقی ہونے کا عقیدہ ہونا چاہیے تھا۔ الہام کے اچھے برے ہونے کا تصور ہے لیکن شریعت مکمل ہوچکی ہے۔ الہامی بنیادوں پر شریعت کا اجراء نہیں ہوسکتا ہے ۔ خلفاء راشدین اور صحابہ کرام نے بے نمازی کیلئے کوئی سزا تجویز نہیں کی اور ائمہ نے قتل، قید، زدوکوب کی سزاؤںسے اپنی اپنی شریعت ایجاد کرلی۔ علماء نے اجتہاد کا دورازہ بند ہونے پر اتفاق کیا تھا لیکن جاویدغامدی اب مزید اپنی رائے سے نئی شریعت ایجاد کررہے ہیں۔ علامہ اقبال کی بات درست ہے کہ ” علماء ومشائخ کا بڑا احسان ہے کہ ان کے ذریعے ہم تک دین پہنچاہے لیکن دین کی شکل اتنی بگاڑ دی گئی کہ رسول اللہ ۖ، جبریل اور اللہ فرمائیں گے کہ یہ وہ دین تو نہیں ہے جس کو ہم پہچان نہیں رہے ہیں”۔