پوسٹ تلاش کریں

تبلیغی جماعت کہتی ہے کہ لاالہ الا اللہ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے حکموں میں کامیابی کا یقین مگر حلالہ کی کیاکامیابی ہے؟

تبلیغی جماعت کہتی ہے کہ لاالہ الا اللہ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے حکموں میں کامیابی کا یقین مگر حلالہ کی کیاکامیابی ہے؟

تبلیغی جماعت لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا مفہوم بتاتی ہے ” اللہ کے حکمو ں میں کامیابی اور غیروں کے حکموں میںناکامی کا یقین آجائے ۔ نبی ۖ کے طریقوں میں کامیابی اور غیروں کے طریقوں میں ناکامی کا یقین ہمارے دلوں آجائے”۔
تبلیغ کی بدولت مدارس اور خانقاہیں آباد ہیں ۔ چراغ سے چراغ جلتے ہیں۔ بہت سارے خواجہ سراؤں کو عزت ،انسانیت اور دین کی خدمت کا موقع ملا ہے۔ کچھ خرابیاں انسانوں کی اجتماعیت میں افراد سے سرزد ہوجاتی ہیں ۔ نبیۖ کے دور میں ذوالخویصرہ، ابن صائد ، رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی اور بے ایمان قسم کے اعرابی بھی تھے تو انکی وجہ سے صحابہ کی مقدس جماعت کو برا کہنا کتنا برا ہے؟۔
علماء دیوبندنے مدارس، آزادی، تبلیغ اورخانقاہی نظام میں اسلام کی بہت خدمت کی ہے ۔ ہماری تعلیم وتربیت بھی علماء دیوبند سے منسلک ہے۔ اللہ نے قرآن میں فرمایا : وعصٰی اٰدم ربہ ”اور آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی”۔ تاکہ قیامت تک انسان کو اپنی غلطی کو صحیح کہنے پر اصرار نہ کرے ۔بہتر ہے کہ اپنی اصلاح پر زیادہ اور دوسروں کی تردید پر کم توجہ دی جائے ۔ نبی ۖ نے صحابہ کرام کے تزکیہ ،کتاب و حکمت کی تعلیم میں نبوت کا فرض اداکیاتھا۔
چمن کے مولانانے تبلیغی جماعت کے خلاف کہا کہ ” رائیونڈ کے فاضل نے گواہی دی ہے کہ یہ اسرائیل کے ایجنٹ ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ ہم پیغمبروں والا کام کرتے ہیں۔ ایک تبلیغی نے کہا کہ انبیاء سے زیادہ ہم تکالیف اٹھاتے ہیں ۔ یہ لوگ قادیانیوں سے بدتر ہیں۔ ایسی بے غیرت جماعت مسلمانوں کی تاریخ میں بھی نہیں گزری ہے”۔ان بیچاروں کو حلالہ کی لعنت کا شکار بناکر بے غیرت بنایا گیا جو علماء کا قصور ہے۔ ایک اہلحدیث عالم نے بھی گل چاہت معاویہ کی ویڈیو کا کلپ دکھایا کہ ” میرے ساتھ پیغمبری راستے میں زیادتی کی گئی ، جن میں بڑے اکابر بھی شامل تھے لیکن ان کا نام نہیں لوں گا”۔ پھر دیوبندیوں کو برا بھلا کہہ دیا۔
تبلیغی جماعت کے کارکنوں سے علماء کے مدارس، مساجد، مذہبی جماعتوں کے کارکنوں کی تعداد کم نہیں ہے لیکن انہوں نے کونسا تیر مارا ہے؟۔ جو فرائض اور واجبات علماء ومفتیان نے بتائے ہیں تبلیغی جماعت اس پر عمل کرتی ہے۔غسل، وضو اورنماز کے فرائض ، واجبات ، سنتیںاور مستحبات علماء ومفتیان پڑھ کر بالکل بھول جاتے ہیں لیکن تبلیغی جماعت کے کارکن بہت بڑی تعداد میں لوگوں کو تعلیم دیتے ہیں۔ علماء دیوبندجن چیزوں کو بدعات قرار دیتے ہیں تبلیغی جماعت نے نہ صرف عوام الناس بلکہ فضلاء دیوبند کو بھی ان بدعات سے روکنے کی بڑھ چڑھ کر کوشش کی۔ مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ نے ایک ضخیم کتاب لکھ ڈالی کہ” سنت نماز کے بعد اجتماعی دعا بدعت ہے”۔ ہمارے آبائی شہر کانیگرم جنوبی وزیرستان میں جب دیوبندی عالم مولانا شاداجان نے سنت کے بعد دعا کو بدعت قرار دیا تومولانامحمد زمان نے اس پر قادیانی کا فتوی لگایا تھا۔ دارالعلوم دیوبند کے فاضل مولوی اشرف خان ہماری مسجد کے امام سنتوں کے بعد اجتماعی دعا مانگتے تھے۔
ہماری مسجد کا نام ”درس” تھا اسلئے کہ میرے اجداد طلبہ کو یہاں درس دیتے تھے۔ اب تبلیغی جماعت نے رائیونڈ میں اس کو گلزار مدینہ کے نام سے متعارف کیا ہے۔جب میں نے وہاں تقریر کی کہ تبلیغی جماعت فضائل کی تعلیم دیتی ہے۔ اس کا طریقہ کار چار مہینے، چلہ، سہ روزہ، جمعرات کا اجتماع اور گشت وغیرہ ایک مستحسن عمل ہے ۔ یہ فرض ، واجب اور کوئی سنت نہیں ہے تو تبلیغی جماعت کا امیر گل ستار اُٹھا اور کہنے لگا کہ مفتی زین العابدین نے کہا کہ ” تبلیغی جماعت کا کام فرض عین ہے”۔ اس پر یہ طے ہوا کہ علماء کرام کی محفل بلاکر فیصلہ کیا جائے گا اور پھر میری غیر موجودگی کی خبر پاکر شہر کے علماء کو بلایا گیا۔ جب وہ ہماری مسجد میں جمع ہوگئے تو میں بھی ٹیپ ریکارڈر ساتھ لیکر اپنے ساتھیوں کیساتھ پہنچ گیا۔ جس سے وہ گھبرا گئے اسلئے کہ انہوں نے یکطرفہ ٹریفک کا کھیل سمجھ رکھا تھا۔ بہر حال وہ بہت لمبی بات ہوجائے گی۔ علماء نے میری طرف سے لکھ دیا کہ” میں نے آخری مہدی کا دعویٰ نہیں کیا ہے اور تبلیغی جماعت کا کام مستحسن ہے”۔ جس پر سب نے دستخط کئے۔ جب حاجی محمد عثمان کے خلاف تبلیغی جماعت نے پروپیگنڈہ شروع کیا کہ آپ تبلیغی جماعت کے خلاف ہیں تو دارالعلوم کراچی سے مفتی تقی عثمانی اور جامعة الرشید کے مفتی عبدالرحیم و مفتی رشیداحمد لدھیانوی نے دارلافتاء ناظم آباد سے تبلیغی جماعت کے خلاف فتویٰ دیا تھا۔ فتویٰ لینے والے تبلیغی جماعت کراچی کے امیر بھائی امین کے بیٹے مولانا زبیر شیخ الحدیث مولانا زکریا کے خلیفہ تھے مگر انہوں نے عبداللہ کے نام سے فتویٰ لیا تھا۔ جب تبلیغی جماعت کے مرکزی مدنی مسجد کے امام نے ہمارے ساتھیوں سے ملاقات کی تو اس بیچارے کو امامت سے نکال دیا گیا تھا۔ ہماری تبلیغی جماعت سے ہمدردیاں ہیں لیکن وہ سمجھتے نہیں ۔
کئی تبلیغی جماعت کے افراد نے حلالہ کے حوالہ سے ہمارا فتویٰ دیکھ کر بڑی خوشی کا اظہار کیا اور حلالہ کے بغیر رجوع بھی کرلیا ہے۔ سیدھے سادے لوگوں کی عزتیں حلالہ کے نام پر لٹوانے کے بجائے تبلیغی جماعت کو اعلانیہ اللہ کے احکام کی تبلیغ کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ قرآن کے واضح احکام میں صلح اور معروف کی شرط پر حلالہ کے بغیر بار بار رجوع کی گنجائش واضح ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ دسمبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

خلع میں عدالت و مذہبی طبقے کا قرآن وسنت سے انحراف؟

خلع میں عدالت و مذہبی طبقے کا قرآن وسنت سے انحراف؟

مہوش نے پشاور سٹریٹ چائلڈ بھیک مانگتے بچوں ،بچیوں کیلئے ادارہ کھولا۔6سالہ بچی کوباپ فروخت کرنا چاہتا تھا تو ماں نے انکے حوالے کردی۔ مفتی تقی عثمانی کے” فتاویٰ عثمانی جلد دوم”میں ہے کہ باپ نابالغ بچی کو نکاح کے نام پر کسی کو دے سکتا ہے۔ بچی بالغ ہوجائے تب بھی وہ چھٹکارا نہیں پاسکتی۔ سندھ کی یتیم اُم رُباب سالوں سے مقتولین باپ اور چچوں کیلئے انصاف مانگ رہی ہے۔
خلع عورت اور طلاق مرد کا حق ہے۔ ریاست نے عورت کو خلع کا حق دیا۔ علماء ومفتیان یہ حق نہیں دیتے ۔عدالتوں سے خلع لینے والی خواتین کو معاشرتی اور شرعی مسائل کا سامنا ہے۔ ہم بار باریہ مسئلہ اسلئے اٹھارہے ہیں کہ معروف کی جگہ منکر اور منکر کی جگہ معروف نے لی ہے۔ جس دن عوام اورتمام مکاتب فکر کے علماء حق نے یہ معاملہ اٹھایا تو بڑا انقلاب برپا ہو گا۔ اللہ نے قرآن میں فرمایاکہ
”اے ایمان والو! تمہارے لئے حلال نہیں کہ تم عورتوں( بیگمات) کے زبردستی سے مالک بن بیٹھو اور نہ ان کو( خلع سے) روکوتا کہ جو تم نے ان کو دیا ہے ان میں سے بعض واپس لے لو مگر جب وہ کھلی فحاشی کی مرتکب ہوں۔ ان کے ساتھ اچھا سلوک روا رکھو۔ اگر وہ تمہیں بری لگتی ہیں تو ہوسکتا ہے کہ کوئی چیز تمہیں بری لگے اور اللہ اس میں خیر کثیر بنادے ”۔( النساء :آیت19)
اس آیت میں عورت کو خلع کا حق ہے۔ عورت کو شوہر پسند نہیں تو اس کیساتھ رہنے پر مجبور نہیں۔ عورت چاہے تو شوہر کو چھوڑ سکتی ہے ۔ خلع میں حق مہر سمیت جو چیزیں شوہر نے دی ہیں وہ ساتھ لے جاسکتی ہیں مگر کھلی فحاشی کی مرتکب ہوں تو بعض چیزوں سے محروم کیا جاسکتا ہے۔ اس آیت سے دوسری خواتین مراد لینا انتہائی درجہ کی جہالت ہے اسلئے کہ ان کا مالک بننا، دی ہوئی چیزوں سے محروم نہ کرنا مگر کھلی فحاشی میں؟۔ اس سے دوسری خواتین کا کیا تعلق بنتاہے؟۔
جب عورت خلع لیکر جارہی ہو تو شوہر کو برا لگتا ہے اور بدسلوکی کا اندیشہ رہتا ہے اسلئے اللہ نے فرمایا کہ ”ان سے اچھا سلوک کرو، اگر وہ بری لگتی ہوں تو ہوسکتا ہے کہ کوئی چیز بری لگے اور اس میں تمہارے لئے اللہ خیر کثیر پیدا کرے”۔
اگر غور کیا جائے تو قرآن کے ایک ایک لفظ میں بڑی حکمت ہے۔ اللہ نے انسان کیلئے اس کی منکوحہ بیگم میں سب سے بڑی بات عزت کی رکھی ہے۔ جب عورت خلع لیتی ہے تو اس کی عزت پر بات نہیں آتی۔ گھر کاسکون تباہ نہیں ہوتا۔
خلع میں حق مہر نہیں لیکن مکان اور غیرمنقولہ جائیداد سے دستبرداری ہے۔ شرعی عدالت نے فیصلہ دیا ہے کہ خلع کی صورت میں عورت کو حق مہر واپس کرنا ہوگا۔ حالانکہ قرآن میں واضح ہے کہ خلع کی صورت میں شوہر کی دی ہوئی چیزوں کو بھی لیجانے سے روکنے کی گنجائش نہیں ۔ طلاق میں منقولہ و غیرمنقولہ تمام دی ہوئی اشیاء میں سے کچھ بھی واپس لینا جائز نہیں ۔ سورہ النساء کی20،21میں بھرپور وضاحت ہے۔من الذین ھادوا یحرفون الکلم عن مواضعہ ”کچھ یہود ی کلمات کو اپنی جگہوں سے بدلتے تھے”۔ (النساء :آیت46) علماء نے یہود کی پیروی میں قرآن کی معنوی تحریف کلمات کو اپنی جگہ سے ہٹانے کا ارتکاب کرلیا۔ چنانچہ سورہ النساء آیت19کی جگہ سورہ بقرہ آیت229سے خلع مراد لیا ۔ حالانکہ اس سے طلاق مراد ہے خلع مراد نہیں ہوسکتاہے۔ اسرائیل فلسطین پر ظلم کرتاہے، حکمران ظلم کا تدارک نہیں کرے تو مجرم بنتا ہے۔ اُم رُباب انصاف کیلئے ٹھوکریںکھا رہی ہے۔ سب کی اتنی اوقات کہاں ہے؟۔GHQکا محمد بن قاسم سندھی بچی کی دادرسی کیلئے پہنچ گیا۔ یہود سے زیادہ مجرم علماء ہیں جو اسلام کو مسخ اورخواتین کا حق غصب کر تے ہیں، آئین قرآن و سنت کا پابند ہے۔ شرعی وغیر شرعی عدالتوں کے جج اور علماء ومفتیان قرآن وسنت سے جاہل ہیں۔ خلع میں مالی معاملہ یوں ہے کہ اگر عورت خلع لے تو اسکے مالی حقوق کم ہیں جبکہ طلاق میں زیادہ مالی حقوق ہیں۔حق مہرکا تعلق اللہ نے خلع وطلاق سے نہیں رکھا ہے بلکہ عورت کو ہاتھ لگانے سے رکھا ہے ۔ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دی توپھر آدھا حق مہر ہے ۔ عورت کی اتنی بڑی عزت وحرمت اللہ نے رکھی ہے اور ہاتھ لگانے کے بعد طلاق دی تو پورا حق مہر اور دی ہوئی تمام اموال وجائیداد ۔ لعان بھی مالی معاملہ ہے۔ اگر عورت کو کچھ دی ہوئی چیزوں سے کھلی فحاشی میں محروم کرنا ہے تو پھر لعان کرنا ہوگا۔ اسلام پر عمل ہوگا تو پوری دنیا میں میاں بیوی کے حقوق اسلامی و فطری بنانا لوگ شروع ہوجائیں گے جو انقلاب ہوگا۔
اگر شرعی عدالت کے جج نے خلع کا فیصلہ مولوی کی شریعت پر کیا ہے تب بھی وہ جاہل ہے اسلئے کہ علماء ومفتیان کہتے ہیں کہ خلع لینے کیلئے عورت کا عدالت میں جانا شریعت کے خلاف ہے۔ عورت عدالت سے خلع نہیں لے سکتی ہے ۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے مفتی عبدالسلام چاٹگامی نے عدالت سے خلع کے مقدمہ کو درست قرار دیا تھا جس کا علامہ غلام رسول سعیدی نے بھی حوالہ دیا ہے اور مفتی عبدالسلام چاٹگامی اسلامی بینکاری کے نام پر سودی نظام کے بھی خلاف تھے۔
موجودہ بنوری ٹاؤن کراچی کی انتظامیہ اسلاف سے پھرگئی ۔ مدرسہ کاروبار اورگمراہی کا مرکز بنادیا۔ اگر مولانا امداداللہ نے اسلامی بینکاری کانفرنس میں مفتی تقی عثمانی کی تائید کی تو ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر، ڈاکٹر حبیب اللہ مختار شہید،مفتی نظام الدین شہید، مفتی عبدالسلام چاٹگامی، مفتی سعید احمد جلالپوری شہید کے فتوے کہاں گئے؟۔ مولانا سید محمد بنوری شہید کی شہادت پر خراج تحسین پیش نہیں کیا؟۔ حالانکہ شیعہ کافرفتوے کی مخالفت اور مولانا فضل الرحمن کی حمایت میں مولانا بنوری شہید کا کلیدی کردار تھا، جامعہ بنوری ٹاؤن نے بنوری شہیدکا مؤقف اپنایا۔ مولانا فضل محمد نے لکھا کہ ”مولانا عطاء الرحمن سے میری کبھی بھی تلخی نہیں ہوئی ہے”۔ حالانکہ اس کیلئے جرأت درکار تھی جو مولانا فضل محمد میں نہیں تھی۔اب فلسطین کے مسئلے پر اسلام آباد کانفرنس بریلوی، دیوبندی ،اہلحدیث اتحاد نہیں تھا بلکہ شیعہ مخالف قوتوں کی عالمی سازش تھی۔ تاکہ مسئلہ فلسطین کی آڑ میں ایران اور سعودی عرب یا حماس و حزب اللہ کے درمیان تفریق کیلئے راستہ ہموار ہو؟۔
مولانا اشرف علی تھانوی تک نے حیلہ ناجزہ میں لکھ دیا ہے جس کو دارالعلوم کراچی والے اپنے علمی اثاثہ کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ ” اگر شوہر نے ایک ساتھ تین طلاقیں دے دیں اور پھر مکر گیا۔ بیوی کے پاس گواہ نہیں تھے تو خلع لینا فرض ہوگا اور شوہر مال کے بدلے بھی خلع نہ دے تو عورت حرام کاری پر مجبور ہے اور اس صورت میں عورت مباشرت کی پابند ہے لیکن لذت نہ اٹھائے”۔
بنوری ٹاؤن کراچی سے بھی ابھی حال ہی میں فتویٰ جاری ہواہے کہ خلع مالی معاملہ ہے۔ عورت مال کے بدلے میں اپنی جان چھڑاسکتی ہے۔ کاش ! مجھے طالب علمی کے زمانے میں اسباق سے بہت زیادہ دلچسپی ہوتی اور اس وقت ان گمراہانہ مسائل تک پہنچ جاتا تو مولانا بدیع الزمان اور بڑے اچھے اساتذہ کرام کی موجودگی میں ان مسائل سے رجوع بھی ہوجاتا لیکن میری غلطی اور کم نصیبی تھی۔ میرے کلاس فیلو مولانا عبدالرحمن قریشی نے کہا تھا کہ ”اگر آپ تعلیم پر توجہ دیں۔ تصوف کے ذکر اذکار ، سیاست اور انقلابی زندگی کے عمل سے کنارہ کش ہوجائیں تو تعلیمی میدان میں بڑا انقلاب برپا ہوجائے گا۔ اس وقت اساتذہ کی طرف سے حق بات کی تائید بھی ملتی تھی۔ اب تو معاملہ بہت ہی بدل چکا ہے۔
عرب اور پشتون اپنی بیٹیوں کو بیچ دیتے ہیں اور مذہبی طبقے میں زیادہ عرب ہیں یا ہمارے پٹھان ہیں۔ جب لڑکی کو بیچ دیا جائے گا تو خلع کو بھی مالی معاملہ ہی سمجھا جائے گا۔ جب چھوٹی بچیاں بھی بیچنے کا رواج ہوگا تو شرعی مسائل سمجھنے کی صلاحیت بھی ختم ہوجائے گی۔ ہمارے خاندان میں شروع سے الحمد للہ لڑکیوں کو بیچنے کی روایت نہیں ہے اسلئے ہمارے اجداد نے علماء ومشائخ ہونے کے باوجود بھی سیاسی طور پر امیر امان اللہ خان کی حمایت کی تھی۔ افغانستان کے طالبان کی طرف سے لڑکیوں کو بیچنے کے خلاف فیصلہ میڈیا پر آیا تھا۔ اگر افغان طالبان کی طرف سے افغانستان کے اقتصادی مسائل کا حل نکالا گیا لیکن شرعی مسائل کو حل نہیں کیا گیا تو بھی ان سے اقتدار چھن جائے گا اسلئے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے دین کی حفاظت اچھی لگتی ہے۔ اگر طالبان نے اسلام کی نشاة ثانیہ کا آغاز کردیا تو پھر یہ یاد رکھ لیں کہ پاکستان میں بھی اسلام کا آغاز ہوجائے گا۔ اسلام کو مذہبی طبقے کی وجہ سے دنیا میں پذیرائی نہیں مل رہی ہے۔ جنرل مبین کے ناچتے ویڈیو سے کچھ مسئلہ نہیں،اصل بات اسلام کے لبادے میں قرآن سے انحراف کا مسئلہ ہے۔

نوٹ: مکمل تفصیلات جاننے کیلئے اس کے بعد عنوان ” عمران کا نکاح عدت میں نہیں مگر علماء و مفتیان عدت میں نکاح تڑوا کر عورتوںکی عزتیں لوٹتے ہیں مولانا فضل الرحمن اور
علماء کرام فیصلہ کریں! ” ”یتیم بچیوں کو ہراساں…جنسی استعمال…بنی گالہ میں کالے جادو میں ذبح کی بدلتی ہوئی کہا نی :افشاء لطیف کی زبانی”
اور ” بشریٰ بی بی قرآن وسنت کی دوعدتیں گزار چکی تھیں”کے تحت آرٹیکل پڑھیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ دسمبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

بشریٰ بی بی قرآن وسنت کی دوعدتیں گزار چکی تھیں

بشریٰ بی بی قرآن وسنت کی دوعدتیں گزار چکی تھیں

عدتِ ایلاء عدتِ طلاق عدتِ وفات عدتِ خلع

1: عدتِ ایلائ: للذین یؤلون من نساء ھم تربص اربعة اشہر فان فاء وا فان اللہ غفور رحیمOجو لوگ اپنی عورتوں سے ایلاء کریں ان کیلئے چار ماہ کا انتظار ہے پس اگروہ مل گئے تو اللہ غفور رحیم ہے”۔البقرہ:226
ایلاء کی عدت4ماہ واضح ہے۔ بیوی سے قسم کھائی یا لاتعلقی وناراضگی رکھی۔ (تفہیم القرآن: سیدمودودی) اگر طلاق کا عزم ہو تو یہ دل کا گناہ ہے جو اللہ سنتاجانتا اور اس پر پکڑتا ہے ۔ جوالبقرہ آیات225،227میں واضح ہے۔ اسلئے کہ اگر طلاق کا اظہار کیا تو پھر عورت کی عدت3ماہ ہوتی ۔ اس عزم کو چھپانا دل کا وہ گناہ ہے، جس کے نتیجہ میں عورت کا انتظارایک مہینے بڑھ جاتا ہے۔
جمہور فقہائ کے ہاں4ماہ گزرنے کے بعدبھی ایلاء میں نکاح قائم ہے۔ جب تک اظہار نہ ہو، طلاق نہیں ہوگی۔ جس سے قرآنی آیات میں عدت کی ساری اہمیت بالکل ختم ہوجاتی ہے۔امام اعظم ابوحنیفہ زندہ باد کا نعرہ لگے گا۔
جمہور کے نزدیک شوہر نے اپنا حق استعمال نہیں کیا اسلئے طلاق نہیں ہوئی ۔ حنفیوں کے نزدیک شوہر نے4ماہ تک صلح نہیں کی تو طلاق کا حق استعمال کرلیا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عورت کے حق کو دونوں نے نظر انداز کردیا۔ اللہ نے عورت کو اذیت سے بچانے کیلئے ایلاء میں4ماہ کی عدت رکھی جس میں قسم یا ناراضگی کی صورت میں بھی طلاق کی طرح ایک عدت کے بعد عورت کو آزادی ملتی ہے۔
رسول ۖ نے ایلاء کے ایک ماہ بعدرجوع کیا۔ اللہ نے فرمایا کہ رجوع کا حق نہیں عورتوں کو طلاق کا اختیار دو۔ ازواج النبی رجوع پر راضی نہ ہوتیں تو4ماہ عدت سے فارغ ہوجاتیں۔یہ واضح سبق تھا کہ ایلاء میں عورت کا اختیار ہے۔
2:عدتِ طلاق: والمطلقٰت یتربصن بانفسھم ثلاثة قروء ”اورطلاق والیوں کی عدت3ادوار ہیں”۔ (سورة البقرہ :آیت228)
ایلاء کے بعد اللہ نے طلاق کی عدت کو واضح کیا۔ عورت کو حیض آتا ہو تو عدت3ادوارہے اور حیض کی جگہ قائم مقام پھر عدت3مہینے بالکل واضح ہے۔
3:عدتِ وفات: والذین یتوفون منکم ویذرون ازواجًا یتربصن بانفسھن اربعة اشھرٍو عشرًاO”اور جو لوگ تم میں فوت ہوں اور بیگمات چھوڑیں تو وہ خود کو انتظار میں رکھیں4ماہ10دن تک۔ (البقرہ آیت:234)
4:عدت ِ خلع: ثابت بن قیس کی بیوی نے خلع لیا تو نبیۖ نے ایک حیض کی عدت کا حکم دیا۔ (سنن ترمذی حدیث1185) ربیع بنت معوذ بن غفراء نے عثمان کے دورمیں خلع لیا تو حضرت عثمان سے کہا کہ بنت معوذ نے آج خلع لیا تو کیاوہ منتقل ہو ؟۔تو حضرت عثمان نے کہا کہ ”جی ہاں! منتقل ہو۔نہ تو ان کے درمیان وراثت ہے اور نہ ایک حیض کے سواء کوئی عدت ۔صرف حیض آنے تک وہ نکاح نہیں کرسکتی۔کہ اس کو حمل نہ ہواہو”۔(سنن نسائی حدیث نمبر 3497)

نوٹ: مکمل تفصیلات جاننے کیلئے اس کے بعد عنوان ” عمران کا نکاح عدت میں نہیں مگر علماء و مفتیان عدت میں نکاح تڑوا کر عورتوںکی عزتیں لوٹتے ہیں مولانا فضل الرحمن اور
علماء کرام فیصلہ کریں! ”
”یتیم بچیوں کو ہراساں…جنسی استعمال…بنی گالہ میں کالے جادو میں ذبح کی بدلتی ہوئی کہا نی :افشاء لطیف کی زبانی”
اور ”خلع میں عدالت و مذہبی طبقے کا قرآن وسنت سے انحراف؟”کے تحت آرٹیکل پڑھیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ دسمبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

سورہ بقرہ آیت230کا درست ترجمہ اور تفسیر دیکھئے!

سورہ بقرہ آیت230کا درست ترجمہ اور تفسیر دیکھئے!

فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتیٰ تنکح زوجاً غیرہ فان طلقھا فلا جناح علیھما ان یتراجعا ان ظنا ان یقیما حدود اللہ و تلک حدود اللہ یبینھا لقوم یعلمونOآیت230البقرہ
پس اگر اس نے طلاق دے دی تو پھر اس کے لئے حلال نہیں ہے اس کے بعد یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہر سے نکاح کرلے ، پس اگر وہ اس کو طلاق دے تو دونوں پر کوئی حرج نہیں کہ وہ آپس میں رجوع کریں اگر انہیں گمان ہو کہ وہ اللہ کے حدود پر قائم رہ سکیں گے، اور یہ وہ اللہ کے حدود ہیں جس کو اللہ بیان کرتا ہے اس قوم کیلئے جو سمجھ رکھتے ہیں۔

آیت230سے حلالہ مراد نہیں بلکہ آیت229میں3مرتبہ طلاق کے بعد وہ صورتحال واضح ہے جس میں طے ہو کہ صلح کی گنجائش نہیں ہے۔صلح نہ ہونے کی صورت میں عورت کی جان خلاصی کیلئے زور دار الفاظ کااستعمال بڑامعجزہ تھا۔

جبکہ ان دونوں آیات سے پہلے آیت228میں عدت کے اندر اصلاح کی شرط پر رجوع کی بھرپور وضاحت ہے اور ان دونوں آیات کے بعد آیات232-231میں عدت کی تکمیل کے بعد بھی باہمی رضامندی سے اصلاح کی شرط پر رجو ع کی وضاحت ہے۔ جس کا خلاصہ سورہ طلاق کی پہلی دو آیات میں بھی فیصلہ کن طریقے سے بالکل واضح ہے۔

ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حلالہ کی رسم کو ختم کرنا تھا تو پھر آیت230میں ایسے الفاظ کے استعمال کی کیا ضرورت تھی؟۔ بہت زبردست سوال ہے اور اس کا جواب بھی تسلی اور اطمینان سے سمجھ لیجئے گا۔
اگر اسلامی تاریخ میں مثبت اور منفی نتائج کو دیکھ لیں تو ایک ساتھ تین طلاق کے نتائج عورت کے حق میں بہت بہتر نکلیں ہیں اسلئے کہ حلالہ سے متأثرین اور مجرحین کی تعداد بالکل آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔ زیادہ تر ایسی خواتین ہیں جنہوں نے اکٹھی تین طلاق کے الفاظ سے بہت فائدہ اٹھایا ہے اور وہ یہی چاہتی تھیں کہ وہ شوہر سے الگ ہوجائیں ۔
اصل مسئلہ عورت کے حقوق کا تھا اور عورت کے حق کی وضاحت ہی کیلئے آیت230کی وضاحت بہت ضروری تھی ،اگر یہ نہ ہوتی تو پھر کوئی راستہ بھی نہ ہوتا کہ عورت کی جان شوہر سے کبھی چھوٹ جاتی۔
آیت228البقرہ میں اللہ نے واضح کیا کہ طلاق کے بعد عورت کی عدت کے تین مراحل ہیں اور حمل کی صورت میں بچے کی پیدائش ہے اور اس عدت میں ان کے شوہروں کو باہمی اصلاح کی شرط پر رجوع کا حق حاصل ہے۔ اتنی وضاحت کے باوجود بھی اصلاح وصلح کی شرط کو نظرانداز کرتے ہوئے مذہبی طبقات نے ایک طلاق کے بعد شوہر کو غیرمشروط رجوع کی اجازت دے دی اور یہ عورت کی بہت بڑی حق تلفی ہے ۔
پھر آیت229میں دو مرتبہ طلاق کے بعد معروف کی شرط پر رجوع کی اجازت دیدی۔ لیکن مذہبی طبقات نے پھر معروف واصلاح کی شرط کو نظر انداز کرتے ہوئے دو مرتبہ طلاق کے بعد شوہر کو غیرمشروط رجوع کی اجازت دے دی۔ باہمی اصلاح اور معروف کی شرط کوبالکل نظرانداز کیا۔
پھر آیت230میں طلاق کے بعد حلال نہ ہونے کا ذکر کردیا تو حلالہ سمجھ کر مذہبی طبقے کی بانچھیں کھل گئیں۔ اگر اس میں یہ جملہ نہ ہوتا تو عورت کے حقوق کی طرف کبھی توجہ بھی نہ جاتی۔ اتنے زبردست الفاظ سے عورت کے حق کو تحفظ دلانا مقصود تھا لیکن مذہبی طبقے نے ان کی عزتیں لوٹ لیں۔
آیت231میں واضح ہے کہ عدت کی تکمیل کے بعد معروف طریقے سے رجوع ہوسکتا ہے۔ مذہبی طبقہ اتنا ناعاقبت اندیش تھا کہ بجائے یہ سوچنے کے کہ اللہ نے آیت228میں اصلاح، آیت229میں معروف کی شرط پر رجوع کی اجازت دی تو کچھ اس پر غور کرتے کہ اس سے مراد باہمی رضامندی ، صلح واصلاح سے رجوع مراد ہوسکتا ہے؟۔لیکن پھر بھی انہوں نے اس آیت سے دلیل پیش کی کہ ”رجوع شوہر کا اختیار ہے”۔
آیت232میں اندھوں کی آنکھیں ،بہروں کے کان اور ناسمجھوں کے دل کھولنے کیلئے مزید وضاحت کردی کہ اگر تم نے اپنی عورتوں کو طلاق دے دی اور وہ عورتیں اپنی عدت کو پہنچ گئیں تو اگر وہ اپنے شوہروں سے نکاح کرنا چاہتی ہوں معروف طریقے سے باہمی رضامندی کے ساتھ تو ان کے درمیان رکاوٹ کھڑی مت کرو۔
ان ساری آیات کا خلاصہ سورہ طلاق کی پہلی دو آیات میں بھی موجود ہے۔ کوئی ایک صحیح حدیث بھی ایسی نہیں کہ نبی ۖ نے میاں بیوی کی رضا مندی کے باوجود بھی صلح سے منع کیا ہو۔ اگر کوئی بے شرم یہ بات پکڑ کر بیٹھ جائے کہ ”اللہ نے قرآن میں نماز کے قریب جانے سے روکا ہے ”اور اس وجہ سے نماز پڑھنے کی تمام آیات کا انکار کرے تو پھرکیا کیا جاسکتا ہے؟۔
بخاری میں ایک ساتھ تین طلاق پر حلالے کی روایت من گھڑت ہے اسلئے کہ بخاری میں یہ واقعہ اور جگہوں پر نقل ہے ،جن میں الگ مراحل کی طلاق ثابت ہے اور دوسرا یہ کہ عورت نے جس طرح نامرد کا الزام لگایا تھا تو شوہر نے اپنی مردانگی کی وضاحت کی تھی اور یہ باہمی اختلاف مارپیٹ کا مسئلہ تھا ،اس میں حلالے کا کوئی دور دور بھی واسطہ نہیں بنتاہے۔
آیت میں یہ ہے کہ ”اگر دوسرا شوہر طلاق دے تو پہلے شوہر سے اس وقت رجوع میں کوئی حرج نہیں کہ جب دونوں کو گمان ہو کہ وہ اللہ کی حدود پر قائم رہ سکیں گے”۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ دوسرا شوہر اتنی جاذبیت نہیں رکھتا ہو کہ پہلے سے شادی کے بعد بھی جنسی تعلقات کا خدشہ رہے۔

نوٹ: سورہ بقرہ کی آیت230سے پہلے ”سورہ بقرہ آیت229کا درست ترجمہ اور تفسیر دیکھئے!” کے عنوان کے تحت پوسٹ ضرور پڑھیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ نومبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

سورہ بقرہ آیت229کا درست ترجمہ اور تفسیر دیکھئے!

سورہ بقرہ آیت229کا درست ترجمہ اور تفسیر دیکھئے!

الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان ولا یحل لکم ان تاخذوا مما اٰتیتموھن شیئا الا ان یخافا الا یقیما حدود اللہ فان خفتم الا یقیما حدود اللہ فلا جناح علیھما فیما افتدت بہ تلک حدود اللہ فلا تعتدوھا ومن یتعد حدود اللہ فاؤلٰئک ھم الظالمونO
طلاق دو مرتبہ ہے پھر معروف کے ساتھ روکنا ہے یا احسان کیساتھ رخصت کرنا ہے۔ اور تمہارے لئے حلال نہیں کہ جو کچھ بھی ان کو دیا ہے کہ اس میں سے کچھ بھی واپس لو مگر یہ کہ ان دونوں کو خوف ہو اور اگر تمہیں خوف ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو پھر اس چیز کو عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میںدونوں پر کوئی حرج نہیں۔ یہ اللہ کے حدود ہیں پس ان سے تجاوز مت کرو اور جو ان سے تجاوز کرے تو بیشک وہی لوگ ظالم ہیں۔ آیت229البقرہ

آیت میں نیلی لکھائی کے اندر یہ واضح ہے کہ دئیے ہوئے مال میں سے کوئی چیز واپس عورت سے لینا اس وقت جائز ہے کہ جب ان دونوں کو اور فیصلہ کرنے والوں کو خوف ہو کہ اگر وہ چیز واپس نہیں کی تو دونوں اللہ کے حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے۔ یعنی عورت کی طرف سے وہی چیز فدیہ کی جائے گی جو شوہر نے اس کو اپنی طرف سے دی ہے۔

علماء کرام ، حکمران ، دانشور، پروفیسر، طلباء اور عوام تھوڑا تدبر فرمائیں! کیا قرآن کی یہ آیت بالکل واضح نہیں کہ شوہر کی طرف سے دی ہوئی کوئی چیز تیسری طلاق کے بعد واپس لینا جائز نہیں؟۔ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے صدر مفتی تقی عثمانی کے اُستاذمولانا سلیم اللہ خان نے اپنی شرح صحیح بخاری ”کشف الباری” اور تنظیم المدارس کے صدر مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن کے اُستاذ علامہ غلام رسول سعیدی نے اپنی شرح صحیح بخاری ”نعم الباری” میں رسول اللہ ۖ کی یہ حدیث لکھی ہے کہ رسول اللہ ۖ سے صحابی نے پوچھا کہ قرآن میں تیسری طلاق کہاں ہے؟ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ ”سورہ بقرہ آیت229میں تسریح باحسان یعنی احسان کے ساتھ رخصت کرنا ہی تیسری طلاق ہے”۔
اس تیسری طلاق کا فیصلہ کرنے کے بعد جب اللہ نے یہ واضح فرمادیا ہے کہ شوہر نے جو کچھ بھی بیوی کودیا ہے تو اس میں سے کچھ بھی واپس لینا جائز نہیں ہے۔ ان الفاظ سے عورت کے ان مالی حقوق کا تحفظ واضح ہے جو شوہر کی طرف سے ان کو ملے ہیں۔ سورہ النساء آیت21-20میں بھی یہی واضح ہے کہ شوہر کو طلاق کا حق حاصل ہے مگر اگر بیوی کو بہت سارا مال بھی دیا ہے تو اس میں سے کچھ بھی واپس لینا جائز نہیں ہے۔
پھر آیت229میں یہ واضح ہے کہ ”اگر دونوں میاں بیوی کو یہ خوف ہو کہ تیسری طلاق کے بعد دی ہوئی وہ چیز واپس نہیں کی گئی تو اللہ کے حدود پر دونوں قائم نہیں رہ سکیں گے اور فیصلہ کرنے والوں کو بھی یہ خوف ہو کہ اگر وہ دی ہوئی چیز واپس نہیں کی گئی تو وہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو پھر وہ دی ہوئی چیز واپس کرنے میں دونوں پر کوئی حرج نہیں ”۔ یعنی جومال واپس لیناحلال نہیں وہ ایک خاص مجبوری کی وجہ سے جائز ہے۔
اب پاکستان کی حکومت کی مرکزی کابینہ اور ساری صوبائی حکومتیں اس بات کے اوپر غور کریں کہ کیا اس آیت سے ”خلع” مراد ہوسکتا ہے؟۔
اللہ نے عورت کو طلاق کے بعدبڑا مالی تحفظ دے دیا ہے۔ پھرخلع سے عورت کو بلیک میل کرنا کتنا بڑا جرم ہے؟۔یہ جرم علامہ شبیر احمد عثمانی، سید ابو الاعلیٰ مودودی ، مولانا وحید الدین خان اورجاوید احمد غامدی سبھی نے کیا۔ اس کی وجہ مدارس کی تعلیم ہے۔ امام شافعی کے نزدیک تین طلاق کے درمیان یہ خلع جملہ معترضہ ہے اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک دو مرتبہ طلاق کے بعد اس خلع سے تیسری مرتبہ طلاق منسلک ہے۔ حالانکہ یہ اختلاف قرآن و حدیث اور عقل وفطرت کے بالکل منافی ہے۔
فقہ کے امام کہتے ہیں کہ ”جب صحیح حدیث آجائے تو ہماری رائے کو دیوار پر دے مارو”۔ صحیح حدیث میں تیسری طلاق کی وضاحت پہلے سے اس آیت ہی میں موجود ہے۔ تیسری مرتبہ کی طلاق کے بعد خلع مراد لینا تو انتہائی درجے کی حماقت ہے لیکن اگر دو مرتبہ طلاق کے بعد خلع مراد لیا جائے پھر تیسری مرتبہ کی طلاق ہو تو یہ بھی انتہائی درجے کی حماقت ہے۔ کیونکہ خلع اور طلاق دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ دو مرتبہ طلاق کے بعد تیسری مرتبہ طلاق سے پہلے خلع مراد لینا حماقت کی آخری انتہاء ہے۔
بالفرض اگر حنفی مؤقف تسلیم کرلیا جائے تو پھر تیسری طلاق کا تعلق بھی خلع کے ساتھ ہوگا۔ علامہ تمنا عمادی نے اپنی کتاب ”الطلاق مرتان” میں اس مؤقف کو ہی واضح کیا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد مشرقی پاکستان سے علامہ تمنا عمادی قرآن کی تفسیر کا درس دیتے تھے اور سقوط ڈھاکہ کے بعد کراچی منتقل ہوگئے اور علماء نے اس کو گوشہ گمنامی میں دفن کردیا ۔ علماء حق کو حلالہ سے سروکار نہیں تھا اور درباری مفتیان کا یہ بڑاخصوصی شغف رہا تھا۔

نوٹ: سورہ بقرہ کی آیت229کے بعد ”سورہ بقرہ آیت230کا درست ترجمہ اور تفسیر دیکھئے!” کے عنوان کے تحت پوسٹ ضرور پڑھیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ نومبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

حق مہر ”اعزازیہ” نہیں بلکہ گارنٹی و انشورنس ہے

حق مہر ”اعزازیہ” نہیں بلکہ گارنٹی و انشورنس ہے

اگر ترقی یافتہ دنیا میں عورت کے حقوق کے حوالے سے قرآن کا صور پھونکا جائے تو بڑا انقلاب آئے گا۔

توراة میں تحریف کرنے والے یہود کو قرآن نے گدھا قرار دیا اور یہ اُمت بھی ان کے نقش قدم پر چلے گی

قرآن میں طلاق واقعی ایک بڑا حساس معاملہ ہے لیکن کیوں؟۔
اگر عورت کو ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دی جائے تب بھی آدھا حق مہر فرض بن جاتا ہے۔ اگر مقرر نہ کیا ہو تو امیر پر اس کی وسعت کے مطابق اور غریب پر اس کی وسعت کے مطابق دینا ضروری ہے۔ اللہ نے یہ بھی واضح فرمایا ہے کہ اگر عورت نصف سے کچھ کم بھی لے تو حرج نہیں۔ اور مرد نصف سے زیادہ بھی دے تو حرج نہیں لیکن مناسب یہ ہے کہ جس کے ہاتھ میں نکاح کا گرہ ہے وہ زیادہ دے اور آپس میں ایک دوسرے پر فضل کرنا مت بھولو۔
قرآن کی ان آیات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حق مہر شوہر کی وسعت کے مطابق ہونا چاہیے۔ اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حق مہر اتنا ہونا چاہیے کہ جب مرد اس کو ادا کرے تو اس کو اچھی خاصی کلفت کا سامنا ہو۔ یہاں تک کہ عورت سے یہ توقع رکھے کہ وہ اپنے حق میں سے کچھ معاف کرے۔ اگر اعزازیہ ہوگا ایک کروڑ پتی آدمی پانچ دس ہزار یا50ہزار، لاکھ مہر دے گا تو اس میں کیا سوچ بچار ہوگی کہ کون معاف کرے کون نہیں؟۔ اور جب معاملہ طلاق کا ہے اور طلاق مرد ہی کی طرف سے ہوتی ہے تو اللہ کا یہ کہنا بجا ہے کہ جس کے ہاتھ میں طلاق کا گرہ ہے اس کو چاہیے کہ وہ رعایت لینے کے بجائے رعایت دے۔ کیونکہ عورت کے خلع کا معاملہ نہیں ہے۔ ان بیوقوفوں نے اس سے یہ اخذ کرلیا کہ طلاق صرف شوہر کا حق ہے اور خلع عورت کا حق نہیں ہے۔ حالانکہ یہاں چونکہ معاملہ خلع کا نہیں طلاق کا تھا اسلئے گرہ کی نسبت شوہر کی طرف کی گئی ہے۔ جب عورت خلع لیتی ہے تو طلاق کے مقابلے میں اس کے حقوق بہت کم ہوجاتے ہیں۔
البتہ حق مہر تو بہر صورت اس کا حق ہوتا ہے۔ خلع میں گھر اور جائیداد وغیرہ چھوڑنے پڑتے ہیں اور طلاق میں سب دی ہوئی چیزوں کی مالک عورت ہی ہوتی ہے۔ مفتی تقی عثمانی نے اپنے آسان ترجمہ قرآن میںصریح آیات کیخلاف بالکل غلط تفسیر لکھی ہے۔ حق مہر اعزازیہ نہیں ،آئیے میں بتاتا ہوں کہ کیا ہے؟۔
بیمہ اردو میں انشورنس کو کہتے ہیں۔ جب تاجر پرانے دور میں مال کے بدلے میں ایک پرچی لکھتے تھے جو اس قیمت کی ضمانت ہوتی تھی اس کو بیمہ کہا جاتا تھا۔ حق مہر دو قسم کا ہوتا ہے ایک معجل جو فوری طور پر ادا کردیا جاتا ہے اور دوسرا موجل جس میں بیمہ کی طرح گارنٹی ہوتی ہے۔ اس حق مہر کی حیثیت کو ختم کیا گیا تو اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ جب شوہر چاہتا ہے تو عورت سے خدمت لے کر مدتوں بعد چھوڑ دیتا ہے اور اس کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی ہے۔ مفتی تقی عثمانی کے گھر کی ایسی کہانیاں ہیں کہ بھتیجے نے اپنی بیگم کو طلاق دے دی ۔ پھر مرید نی سے اس کی شادی کرائی۔ پھر اس نے ان بچوں کو پالا پوسا اور بڑا کیا ، خدمت کی اور پھر ایسا وقت آیا کہ بچوں کی حقیقی ماں کا دوسرا شوہر فوت ہوگیا تو اس کو دوبارہ لائے اور مریدنی کو گھر سے نکال بھگادیا۔ اگر حق مہر کو اعزازیہ سمجھنے کے بجائے ایک زبردست گارنٹی قرار دیا جاتا تو عورتوں کے ساتھ اس طرح کی زیادتی نہ ہوتی۔ جب عورت کے خلع کا حق چھین لیا گیا تو اس کے نتیجے میں فقہ کے مسائل ناقابل حل ہوگئے۔ مثلاً مفتی محمد تقی عثمانی نے اپنی زوجہ کو ایک ساتھ تین طلاقیں دیدیں۔ پھر مکر گیا۔ اب اگر اس کی بیگم کے پاس دو گواہ نہ ہوئے اور مفتی تقی عثمانی نے جھوٹی قسم کھالی تو مولانا اشرف علی تھانوی کی کتاب ”حیلہ ناجزہ” میں لکھا ہے کہ عورت خلع لے گی لیکن اگر شوہر خلع نہ دے تو عورت حرامکاری پر مجبور ہوگی۔ یہ فقہ کی ان کتابوں کا حال ہے جن میں باقی سب کچھ ہے لیکن فقہ نہیں۔ اسلئے کہ فقہ سمجھ کا نام ہے اور سمجھ انسانوں میں ہوتی ہے گدھوں میں نہیں۔ قرآن نے تورات میں تحریف کرنے والے علماء کی مثال گدھوں سے دی ہے۔ حدیث میں یہ خبر ہے کہ یہ اُمت بھی سابقہ اُمتوں کے نقش قدم پر چلے گی۔
بہشتی زیور مولانا اشرف علی تھانوی کی وہ کتاب ہے جو اکثر گھروں میں بھی ہے۔ اور مفتی تقی عثمانی نے بھی اس کی بہت زیادہ تعریف لکھی ہے۔ اگر مفتی تقی عثمانی نے اپنی بیگم سے کہا کہ طلاق طلاق طلاق ۔ تو بہشتی زیور کے مطابق عورت پر تین طلاقیں واقع ہوجائیں گی۔ لیکن اگر مفتی تقی عثمانی کا ارادہ ایک طلاق کا ہوگا تو پھر ایک طلاق واقع ہوگی اور فتویٰ یہ دیا جائے گا کہ بیگم صاحبہ آپ کے نکاح میں ہیں۔ بہشتی زیور کے مطابق بیگم کو فتویٰ دیا جائے گا کہ وہ یہ سمجھے کہ اس کو تین طلاقیں ہوچکی ہیں۔ اب ایک طرف وہ خاتون مفتی تقی عثمانی کے نکاح میں ہوگی اور دوسری طرف وہ سمجھے گی کہ اس پر حرام ہوچکی ہے۔ اس صورت میں تو حلالہ بھی نہیں ہوسکے گا۔ کیونکہ پہلا نکاح بدستور موجود ہے۔ یہ ہے قرآن کی تعلیم سے انحراف کا نتیجہ۔ اگر خلع کا حق عورت کا مان لیا جاتا تو ایسی تذلیل کیسے ہوتی؟۔ آنے والے دور میں بہت لوگ بہت کچھ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر پوچھیں گے۔ اس سے پہلے پہلے قرآن کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔
ایک عورت نے نبی ۖ سے عرض کیا کہ میں خود کو ہبہ کرتی ہوں۔ ایک صحابی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ۖ ! اگر آپ کو ضرورت نہیں تو مجھے دیجئے۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ آپ کے پاس دینے کیلئے کیا ہے؟۔ اس نے کہا کہ کچھ بھی نہیں۔ نبی ۖ نے حکم فرمایا کہ گھر میں دیکھ کر آؤ، جو کچھ بھی مل جائے۔ وہ واپس آیا اور عرض کیا کہ کچھ بھی نہیں ملا۔ کوئی لوہے کی انگوٹھی تک بھی اس کے پاس نہیں تھی۔ پھر نبی ۖ نے فرمایا کہ آپ کو قرآن کی کچھ سورتیں یاد ہیں؟۔ صحابی نے کہا کہ ہاں۔ نبی ۖ نے حکم دیا کہ اس عورت کو یہ سورتیں یاد کراؤ۔
اس حدیث سے بعض لوگوں نے انتہائی حماقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے لکھ دیا ہے کہ ایک لوہے کی انگوٹھی بھی حق مہر بن سکتی ہے۔ حالانکہ اگر لوہے کی انگوٹھی مل جاتی تو یہ اس شخص کا کل سرمایہ تھا۔ یہ دلّے اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ عورت کا حق مہر کوئی مذاق نہیں ہے بلکہ یہ ایک زبردست گارنٹی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی کہ اے نبی ! یہ آپ ہی کیلئے خاص ہے کہ کوئی عورت خود کو ہبہ کردے۔ قرآن نے اس بات پر پابندی لگادی کہ کوئی عورت خود کو ہبہ بھی کرے تو اس کا حق مہر نہیں مار سکتا ہے۔ جس دن ترقی یافتہ دنیا میں قرآن کا یہ صور پھونکا جائے گا کہ نکاح میں مرد کا کوئی حق نہیں ہے اور عورت کیلئے شوہر کی وسعت کے مطابق ایک معقول گارنٹی ہے۔ سارا خرچہ بھی اصولاً شوہر ہی کے ذمہ ہے۔ خلع کا حق بھی عورت کو حاصل ہے اور خلع میں بھی مرد کی طرف سے دی ہوئی چیزوں اور حق مہر کا تحفظ اس کو ملے گا۔ البتہ دیا ہوا گھر اوردی ہوئی جائیداد سے عورت کو دستبردار ہونا پڑے گا۔ اور طلاق کی صورت میں گھر تو ہوگا عورت کا اور اس کے علاوہ دی ہوئی جائیداد اور تمام اشیاء کی بھی وہ مالک ہوگی۔ کاش قرآن و سنت کے مطابق مسلمان عورتوں کے حقوق اجاگر کریں اور دنیا کو فتح کریں۔

****************
نوٹ:اخبار نوشتہ دیوار خصوصی شمارہ اکتوبر2023کے صفحہ2پر اس کے ساتھ متصل مضامین”حماس اور اسرائیل کی جنگ پر ایک مختلف نظر”
”سنی حدیث ثقلین کا ذکر نہیں کرتے : مفتی فضل ہمدرد”
اور ”ہمارا قبلہ اوّل بیت المقدس نہیںخانہ کعبہ ہے” ضرور دیکھیں۔
****************

اخبار نوشتہ دیوار کراچی
خصوصی شمارہ اکتوبر 2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اہل سنت و اصلی حنفیوں کا مسئلہ تین طلاق پر مؤقف

اہل سنت و اصلی حنفیوں کا مسئلہ تین طلاق پر مؤقف

درسِ نظامی اور فقہ وفتاویٰ کی کتابوں میں جعل ساز علماء ومفتیان نے جھوٹ کی آخری سرحد پار کردی ہے۔ اسلئے کہ ”قرآن سے مراد وہ پانچ سو آیات ہیں جو فقہی احکام سے متعلق ہیں” ۔جن کا فقہ واصول فقہ کی کتابوں میں کوئی نشان تک بھی نہیں ہے۔بس صرف500آیات کا خالی نام ہے لیکن کونسی آیات ہیں ؟ اور کہاں کہاں ہیں؟۔ یہ کسی کتاب میں نہیں اور نہ کسی عالم ، مفسر، محدث اور مفتی کو اس گم شدہ معلومات کے ذخیرے کا کوئی پتہ ہے۔ بس ایک رٹ لگار کھی ہے۔
اصول فقہ اور فتویٰ کی کتابوںمیں چندمنتشر قرآنی آیات کے ٹکڑوں کو بہت انداز میں جوڑ کر اس کے انتہائی غلط نتائج نکالتے ہیں۔ خود تو بے راہ روی کا شکار تھے ،مذ ہب اہل بیت سے تعلق رکھنے والے شیعہ اور حدث وحادثے سے بننے والے اہل حدیث کو بھی بدترین گمراہی میں ڈال دیا ہے۔ اگر قارئین ان مذہبی طبقات کو سمجھ لیں تو شیعہ ،دیوبندی ، بریلوی ،اہلحدیث ، پرویزی، غامدی، ڈاکٹر نائیک ذاکری اور انجینئر محمد علی مرزا جہلمی سب کے سب اپنی اپنی فکر سے توبہ کرکے اصلی مسلک حنفی کو تسلیم کرنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔ انشاء اللہ العزیز اور قادیانی تو مینار پاکستان پر لاؤڈ اسپیکر سے اعلان کریں گے کہ مرزا غلام احمد قادیانی بالکل جھوٹا اور کذاب تھا۔ قیامت تک اب کوئی نبی نہیں آسکتاہے۔
اگر قرآنی آیات ، نبی ۖ کی احادیث اور امام ابوحنیفہ کے اصلی مسلک کو سمجھ لیا تو اہل حدیث اور شیعہ حضرات کہیں گے کہ حضرت عمر کے فاروق اعظم ہونے کیلئے اور کچھ نہیں صرف مسئلہ طلاق کا حل بھی کافی ہے ۔
جس کو چراغ سحر سمجھ کر بجھادیا تھا ہم یہی چراغ جلے گا تو روشنی ہوگی
دورِ جاہلیت میں حلالہ کی لعنت کا تعلق ایک ساتھ تین طلاق ہی کیساتھ تھا۔ دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ ایک طلاق کے بعد عدت میں شوہر رجوع کا سلسلہ جاری رکھ سکتا تھا۔ تیسرا مسئلہ یہ تھا کہ طلاق کے بعد عورت کو دی ہوئی چیزوں سے محروم کیا جاتا تھا۔ چوتھا مسئلہ یہ تھا کہ طلاق کے بعد بھی عورت کو اپنی مرضی سے نکاح کی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔ مسائل تو بہت تھے ، جس میں آج پھر امت مسلمہ کو اسی دورِ جاہلیت میں دھکیل دیا گیا لیکن یہاں قرآن وسنت اور فقہ حنفی کے اہداف سے امت مسلمہ کو قرآن کی طرف رجوع کی دعوت دیتا ہوں۔ شیخ الہند مولانا محمود حسن ، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا عبیداللہ سندھی ،مولانا محمدانور شاہ کشمیری، علامہ سیدمحمد یوسف بنوری، مفتی محمد شفیع اور مفتی محمود کی بھی یہی خواہش تھی۔
طلاق سے متعلق قرآنی آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اس میں تصویر کے دورُخ ہیں۔ تصویر کا پہلا رُخ یہ ہے کہ طلاق کے بعد میاں بیوی باہمی اصلاح وصلح اور معروف طریقے سے رجوع چاہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے پورا پورا زور اس بات پر ہی دیا ہے کہ عدت کے اندر ، عدت کی تکمیل پر اور عدت کی تکمیل کے کافی عرصہ بعد اللہ تعالیٰ نے رجوع کا دروازہ بالکل بھی بند نہیں کیا ہے ۔ایک ایک آیت اس کی دلیل ہے اور کسی ایک حدیث سے بھی ذخیرہ حدیث میں اس کی تردید نہیں ہوتی ہے۔ حضرت عمر اور حضرت علی میں اس مسئلے پر کوئی اختلاف بالکل بھی نہیں تھا۔ تمام صحابہ کرام واہل بیت عظام اس پربالکل متفق اور متحد تھے۔
تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ جب شوہر طلاق دے اور عورت رجوع کیلئے راضی نہیں ہو تو شوہر کو رجوع کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ جب کوئی شوہر پھر بھی اس طلاق کے بعد اپنا اختیار اور حق جتائے تو اس کی طرف یہ فتویٰ متوجہ ہوتا ہے کہ وہ عورت اب اس کیلئے قطعی طور پر حلال نہیں ہے ،یہاں تک کہ وہ عورت اپنی مرضی سے کسی دوسرے شوہر سے نکاح نہ کرلے اور پھر جب وہ اپنی مرضی سے طلاق دے دے تو بھی اس صورت میں آپس کے رجوع کی اجازت ہوگی کہ جب ان کو گمان ہو کہ اب وہ اللہ کی حدود کو قائم رکھ سکیںگے۔ اگر بالفرض دونوں کیلئے اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا گمان ہو تو پھر ان کے لئے اس کے بعد بھی رجوع کی اجازت نہیں ہے۔ اس کی مثال یہ بھی ہوسکتی ہے کہ پہلا شوہر بہت مالدار ہو لیکن خصی ہو اور دوسرا شوہر غریب ہو لیکن مردانہ قوت کا مالک ہو۔ اگر دونوں پڑوس میں رہتے ہوں۔ اگر نامرد مالدار سے نکاح ہوجائے اور مردانہ قوت کے مالک غریب سے رابطے کی کوئی سبیل نکلتی ہو اور اللہ کے حدود ٹوٹنے کا خطرہ ہو تو پھر ان کو گمان ہوسکتا ہے کہ اللہ کے حدود کو پامال بھی کرسکتے ہیں تونکاح جائز نہ ہوگا۔ تصویر کے دوسرے رُخ میں یہ طے ہے کہ جب طلاق کے بعد پہلے شوہر سے صلح کرنے کا کوئی پروگرام نہ ہو تو پھر کسی صورت میں بھی صلح نہیں ہوسکتی ہے ۔
تصویر کا پہلا رُخ سورہ بقرہ کی آیات228،229اور231،232کے علاوہ سورہ طلاق میں بھی یہ پورا نقشہ اچھی طرح سے بہت وضاحتوں کے ساتھ سمجھا دیا گیا ہے۔ عام تعلیم یافتہ اور ان پڑھ بھی اس کا ترجمہ سن کر معاملے کو سمجھ سکتے ہیں۔ قرآن میں کوئی تضادات نہیں ہیں اور سمجھنے کیلئے بہت آسان ہے۔
تصویر کا دوسرا رُخ سورۂ بقرہ کی آیت229اور230کو اچھی طرح تدبر کیساتھ دیکھ کرسمجھ سکتے ہیں۔ جس میں تین مرتبہ مرحلہ وار طلاق کے بعد واضح کیا گیا ہے کہ تمہارے لئے جائز نہیں ہے کہ جو کچھ بھی ان کودیا ہے کہ ان میں سے کچھ واپس لیں مگر یہ کہ جب دونوں کوخوف ہو کہ وہ چیز واپس نہیں کی گئی تو دونوں اللہ کے حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے اور فیصلہ کرنے والوں کو بھی یہ خوف ہو کہ اگر وہ چیز واپس نہیں کی گئی تو معاملہ دونوں کے درمیان اللہ کے حدود کو توڑنے تک پہنچ سکتا ہے تو پھر وہ چیز عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں دونوں پر حرج نہیں ہے۔ یہ اللہ کے حدود ہیں ان سے تجاوز مت کرو، اور جو اللہ کے حدود سے تجاوز کرے تو وہی لوگ ظالم ہیں ۔ پھر اگر اس کو طلاق دے دی تو اس کیلئے حلال نہیں ہے یہاں تک کہ وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح کرلے۔ البقرہ:230-229
اللہ نے عورت کو طلاق کے بعد شوہر کی طرف سے دی ہوئی چیزوں کا مالک بنادیا ہے اور اس کے حق کی حفاظت کو واضح کیا ہے لیکن اگر کوئی ایسی چیز ہو جس سے اس کی عزت محفوظ نہ رہے تو دی ہوئی چیز میں سے اس چیز کو فدیہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اسلئے کہ اس کی عزت سے تو وہ چیز زیادہ قیمتی نہیں ہے۔
علماء ومفتیان تو تقلیدی مرض کا شکار تھے اسلئے قرآن کے متن کی طرف ان کا دھیان نہیں گیا لیکن مولانا مودودی، علامہ وحیدالزمان اور جاوید غامدی بھی اس جہالت کا شکار ہوگئے کہ جہاں اللہ نے عورت کے مالی حق کی حفاظت میں شوہر کے دئیے ہوئے مال کا بھی مالک قرار دیا ہے وہاں یہ خلع مراد لے کر عورت کی بلیک میلنگ کا ذریعہ بنادیا ہے۔ درسِ نظامی کے علماء ومفتیان بہت فخر کریں گے کہ مدارس کی تعلیم سے ایک طالب علم نے امت مسلمہ کو کشتی نوح فراہم کردی۔ سینٹر مشتاق خان اور امیر جماعت اسلامی سراج الحق میں اتنی جرأت بھی نہیں کہ فوج کے خلاف ایک پلیٹ فارم پر بولنا شروع کریں۔ ان کو جماعت اسلامی کی غلط فکر کے سامنے ڈٹنے کی جرأت بھی نہیں ہے کیونکہ یہ اب ایک مافیا بن چکا ہے اور مولوی کے سامنے جماعت مرغی بن کر کھڑی ہے۔
قرآن کے عظیم مقاصد کے خلاف سارا معاملہ صحیح بخاری نے بگاڑ دیا ہے۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک ایک ساتھ تین طلاق دینا گناہ اور بدعت ہے اور شافعی کے نزدیک مباح وسنت ہے۔ بخاری نے رفاعة القرظی کی بیگم کو طلاق دینے کی روایت کوامام شافعی کی حمایت اور امام ابوحنیفہ کی مخالفت میں نقل کیا جس سے تأثر پیدا ہوا کہ نعوذ باللہ نبی ۖ نے نامرد سے حلالے کا حکم دیا۔ حالانکہ بخاری نے دوسری جگہ نقل کیا ہے کہ اس شخص نے نامرد ہونے کو جھٹلایا تھا اور رفاعة نے طلاق بھی الگ الگ مراحل میں دی تھی۔ تمام روایات درج ہوتیں تو مغالطہ نہ ہوتا۔

نوٹ: ” اہل تشیع اور اہل حدیث کا مسئلہ تین طلاق پر مؤقف” کے عنوان کے تحت کے یہ تبصرہ کیا گیا ہے۔مکمل آرٹیکل پڑھنے کیلئے یہ آرٹیکل بھی ضرور پڑھیں۔
*****************************************

ماہ ستمبر2023کے اخبار میں مندرجہ ذیل عنوان کے تحت آرٹیکل ضرور پڑھیں:
1:14اگست کو مزارِ قائد کراچی سے اغوا ہونے والی رکشہ ڈرائیور کی بچی تاحال لاپتہ
زیادتی پھر بچی قتل، افغانی گرفتار ،دوسراملزم بچی کا چچازاد:پشاورپولیس تجھے سلام
2: اللہ کی یاد سے اطمینان قلب کا حصول: پروفیسر احمد رفیق اختر
اور اس پر تبصرہ
عمران خان کو حکومت دیدو تو اطمینان ہوگا اورخوف وحزن ختم ہوگا
ذکر کے وظیفے سے اطمینان نہیں ملتا بلکہ قرآن مراد ہے۔
3: ایک ڈالر کے بدلے میں14ڈالر جاتے ہیں: ڈاکٹر لال خان
اور اس پر تبصرہ پڑھیں۔
بھارت، افغانستان اور ایران کو ٹیکس فری کردو: سید عتیق الرحمن گیلانی
4: مسلم سائنسدان جنہوں نے اپنی ایجادات سے دنیا کو بدلا۔
خلیفہ ہارون الرشید نے فرانس کے بادشاہ شارلمان کو ایک گھڑی تحفہ میں بھیج دی
5: پاکستان76سالوں میں کہاں سے گزر گیا؟
اور اس پر تبصرہ پڑھیں
نبی ۖ کے بعد76سالوں میں کیا کچھ ہوا؟
6: پہلے کبھی کانیگرم جنوبی وزیرستان میں ماتمی جلوس نکلتا تھا،آج اسکا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا!
7: اہل تشیع اور اہل حدیث کا مسئلہ تین طلاق پر مؤقف
اس پر تبصرہ پڑھیں
اہل سنت و اصلی حنفیوں کا مسئلہ تین طلاق پر مؤقف
8: اہل تشیع کا مؤقف خلافت و امامت کے حوالہ سے
اس پر تبصرہ پڑھیں۔
الزامی جواب تاکہ شیعہ سنی لڑنا بھڑنا بالکل چھوڑ دیں

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اہل تشیع اور اہل حدیث کا مسئلہ تین طلاق پر مؤقف

اہل تشیع اور اہل حدیث کا مسئلہ تین طلاق پر مؤقف

شیعہ، اہلحدیث اور دیوبند ی بریلوی حنفیوں کیلئے اخبار حاضر ہے ۔ ہم اپنی طرف سے ان کا مؤقف پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ عوام کی سمجھ قرآن اور سنت کے حوالے سے بالکل کھل جائے۔ شیعہ حضرات نے نسل در نسل اپنے ائمہ اہل بیت کا مذہب نقل کیا ہے اور اس میں صحیح بات ان تک پہنچی ہے یا نہیں؟۔ اس کا جواب شیعہ علماء وذاکرین علامہ سید جواد حسین نقوی اور علامہ شہنشاہ حسین نقوی وغیرہ دے سکتے ہیں۔ ہم مکالمے کیلئے صرف راہ ہموار کررہے ہیں۔
جب حضرت عمر نے ایک ساتھ تین طلاق پر تین کا حکم جاری کردیا تو شیعہ اس کو قرآن وسنت کے خلاف ایک بدترین بدعت سمجھتے ہیں ، جس کا نتیجہ گمراہی ہے اور اس کی وجہ سے لوگوں کے گھر برباد ہوجاتے ہیں اور عورتوں کی عزتیں بھی حلالہ کی لعنت کے نام پر لٹتی ہیں۔ اس بدعت کی حمایت کرنے میں علماء ومفتیان کا اپنا مفاد ہے۔ جس کی وجہ سے اقتدار میں نہ ہونے کے باوجود بے تاج بادشاہ ہیں۔ جس بادشاہ ، خان ، نواب، پیر فقیر اور بڑے چھوٹے طبقے کے انسان کو بھی حلالہ کا فتویٰ دے کر اس کی بیگم کی عزت تار تار کردیتے ہیں تو وہ شخص پھر اس کے سامنے آنکھ اُٹھانے کے لائق نہیں رہتا ہے۔ صحابہ کرام اور تابعین عظام کے ہاں شیخ الاسلام ، مفتی اعظم اور قاضی القضاة( چیف جسٹس) کے عہدے کسی بھی شخص کے پاس نہیں تھے لیکن جب نام نہاد شریعت سے نام نہاد فقہاء نے بادشاہوں کی خواہشات کو درباری بن کر پورا کرنا شروع کردیا اور انہوں نے بادشاہوں کو بھی اپنے دامِ فریب کا شکار کرنا شروع کیا کہ کس طرح اس کے ہاتھ سے بیوی نکل جائے گی اور کس طرح اس کی بیوی کو شریعت میں جانے کی اجازت نہیں ہوگی اور کس طرح حلالہ کی لعنت کے ذریعے بیوی کو واپس لوٹایا جائے گا تو بادشاہوں نے اپنے دربار میں ان خدمات کے عوض زبردست عہدے دینے شروع کئے۔
عبداللہ بن مبارک، علامہ جلال الدین سیوطی اور امام غزالی نے جب لکھ دیا کہ شیخ الاسلام قاضی القضاة مفتی اعظم چیف جسٹس ابویوسف سے وقت کے بادشاہ عباسی خلیفہ نے کہا کہ ”میرا دل باپ کی لونڈی پر آیا ہے۔ کوئی شرعی طریقہ اور اخلاقی سلیقہ ایسا سکھادیجئے کہ وہ میرے لئے جائز بن جائے”۔ ابو یوسف نے کہا کہ ” مجھے اس کاکتنا معاوضہ ملے گا؟”۔ امام ابویوسف کے شاگردوں نے بڑی بڑی کہانیاں مشہور کردیں تھیں کہ مشکل سے مشکل مسائل کا حل نکالنے میں بہت بڑے مشکل کشاء اعظم ہیں۔ جب امام ابویوسف طالب علم تھے تو امیر کبیر شخص سے چندہ مانگ لیا۔ اس نے کہا کہ پیسوں کا کیا کرنا ہے؟۔ چھوٹے سے بچے نے بہت معصومیت کے لہجے میں کہا کہ محترم المقام مجھے علم حاصل کرنا ہے۔ اس مالدار شخص نے انتہائی رعونت سے کہا کہ علم میرے لئے حاصل کرتے ہو یا اپنے لئے ؟۔ جاؤ یہاں سے دفع ہوجاؤ ۔میں ایک پائی بھی نہیں دوں گا۔
وقت گزر تا چلا گیا۔ امام ابویوسف بھی مشہور مشکل کشا بن گئے۔ پیچیدہ اور سنجیدہ مسائل کا حل نکال کر لوگوں سے امام کا لقب بھی پالیا۔ دوسری طرف اس مالدار شخص کی مال ودولت میں بے انتہاء اضافہ ہوا ،اسلئے کہ بہت سخت کنجوس تھا۔ صرف کمانا ہی جانتا تھا، خرچ کرنا نہیں جانتا تھا۔ اس نے شادیاں کرلیں ، بہت ساری عورتوں کو طلاق بھی دے دی اسلئے کہ اس کا بیٹا پیدا نہیں ہورہا تھا ۔ جب ایک دفعہ کسی نے کہا کہ تم بہت بخیل ہو ،اگر بیٹا بھی پیداہوگا تو کوئی خیرات صدقہ نہیں کروگے!۔ اس نے جوش میں کہا کہ اگر میرا بیٹا پیدا ہوگا تو میں بڑا مینڈھا خیرات کروں گا جس کی چکی کا سائز کم ازکم7بالش ہو۔ اہل محفل میں سے کسی نے کہا کہ جب تمہارا بیٹا پیدا ہوگا ،تب بھی تم ایسا مینڈھا ذبح کرکے خیرات نہیں کروگے۔ اس نے کہا کہ اگر میں نے نہیں کیا تو مجھ پرمیری بیوی3طلاق ہوگی۔
ایک دن اس کے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی تو بہت خوش ہوا لیکن پریشانی بھی ہوئی کہ اتنا بڑا مینڈھا کہاں سے لائے گا؟۔ یہ تو دنیا میں موجود نہیں مفقود ہے۔ علماء ومفتیان کے ہاں چکر لگائے کہ کوئی راستہ نکلے لیکن ہر جگہ سے جواب ملتا تھا کہ ایک دفعہ اپنی اس ام ولد بچے کی ماں کو حلالہ کی لعنت سے گزر نا پڑے گا اور وہ سوچتا تھا کہ ایسی بے غیرتی سے اگر گزر بھی گیا تو پھر اگر بیوی مکر گئی تو بڑے برے حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بچہ میرے پاس ہوگا اور اس کی ماں کسی اور کے پاس ہوگی۔ یہ زندگی بھر کی خواری کیسے گزرے گی؟۔ آخر کار کسی نے مشورہ دیا کہ امام ابویوسف کے ہاں جاؤ تو وہ راستہ نکال دے گا۔ امام ابویوسف کے ہاں پہنچ گیا تو اس نے پہچان لیا اور کہا کہ” میں نے علم اپنے لئے حاصل کیا ہے تمہارے لئے نہیں!”۔ پھر جب بہت بڑا معاوضہ طے ہوا تو امام ابویوسف نے کہا کہ تم نے طلاق دیتے وقت یہ نیت کی تھی کہ کس ہاتھ کے مطابق مینڈھے کی چکی7بالش ہوگی؟۔ اس نے کہا کہ نہیں!۔ امام نے کہا کہ نومولود کے بالش سے ناپ لو توتمہاری بیوی طلاق نہیں ہوئی۔ یہ باتیں امام ابوحنیفہ کے بارے میں بھی مشہور کی تھیں کہ بادشاہ نے بیوی سے کہا کہ اگر فجر کی آذان تک بات نہیں کی تو تجھے تین طلاق۔ پھر امام نے صبح کی آذان وقت سے پہلے دی اور عورت نے بات کی تو طلاق نہیں پڑی۔ اس طرح بادشاہ نے کہا کہ اگر میری سلطنت سے صبح تک نہیں نکلی تو تجھے3 طلاق۔ پھر امام صاحب نے مشکل حل کردی کہ مسجد میں کسی کا اقتدار نہیں ۔ وہاں پہنچادی جائے تو طلاق نہیں ہوگی۔
امام ابویوسف نے بادشاہ کو اس کے باپ کی لونڈی حلال کرنے کیلئے پہلے بڑا معاوضہ طے کیا اور پھر فتویٰ دیا کہ لونڈی عورت ہے اور اس کی گواہی قبول نہیں ہے اسلئے تمہارے لئے کاروائی حلال ہے۔ مولانا الیاس گھمن کے ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر موجود ہیں کہ اگر ماں سے بھی نکاح کرکے جماع کرلیا تو اس پر حد جاری نہیں ہوگی۔ سورۂ فاتحہ کو علاج کیلئے پیشاب سے لکھنا جائز ہے۔ وغیرہ
شیعہ علماء وذاکرین نے اسلئے نعرہ لگایا تھا کہ حضرت عمر کی طلاق بدعت اور فقہاء کی خواہشات سے اپنا ایمان، عقیدہ اور عزتیں بچانے کیلئے حضرت علی کے سلسلہ امامت و فقاہت سے استفادہ حاصل کرلو۔ وہی اصل مشکل کشا ہیں۔
تین طلاق کا قرآن وسنت اور مذہب اہل بیت کے فقہ میں مفہوم واضح ہے اور اس کی وجہ سے حلالہ کی لعنت اور فقہاء کی خواہشات پوری کرنے کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ اور وہ یہ ہے کہ پہلے طہر میں جب پہلی مرتبہ طلاق دو تو پھر اس پر نکاح کی طرح دو شرعی اور عادل گواہ بھی بنالو۔ پھر حیض کے بعد دوسرے طہر کی حالت میں دوسری مرتبہ طلاق دو اور اس پر دوعادل گواہ بنالو۔ پھر تیسری مرتبہ بھی طہر کی حالت میں تیسری مرتبہ طلاق دو تو اس پر دو عادل گواہ بھی بنالو۔ اس طرح جب قرآن وسنت کے مطابق طلاق کا عمل پورا ہوگا تو حلالہ کی لعنت سے بچت ہوگی اور حضرت عمر کی رائج کردہ بدعت کے مطابق معاشرے کو تباہی اور بربادی سے ہمکنار کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ قرآن وسنت میں اس طرح کی3بارطلاق کے بعد پھر اگر رجوع کرنے کی ضرورت پڑے گی تو حلالہ سے گزرنا پڑے گا لیکن اہل تشیع کے ہاں حلالے سے پھر عورت حلال نہیں ہوسکتی ہے اسلئے کہ قرآن وسنت میں مستقل نکاح مراد ہے۔
اہلحدیث ایک مجلس کی3طلاق ایک سمجھتے ہیں حضرت عمر نے اجتہاد سے3طلاق کو3طلاق شمار کرنے کا حکم جاری کیا ۔ ان کے پاس اجتہادی شریعت جاری کرنے کا اختیار نہ تھا۔ جس طرح قرآن وسنت میں ایک ساتھ حج کا احرام باندھنے کی اجازت تھی اور حضرت عمر نے پابندی لگائی ۔ صحابہ نے اس کو بہت برا جانا تھا اور حضرت علی نے حضرت عثمان سے بخاری کے مطابق مجادلہ کیا تھا اس طرح طلاق کا مسئلہ بھی غلط تھا جس کی وجہ سے امت بہت گمراہی کا شکار ہوگئی۔

نوٹ: ”اہل سنت و اصلی حنفیوں کا مسئلہ تین طلاق پر مؤقف” کے عنوان کے تحت اس کا جواب اور تبصرہ دیکھیں۔
*****************************************

ماہ ستمبر2023کے اخبار میں مندرجہ ذیل عنوان کے تحت آرٹیکل ضرور پڑھیں:
1:14اگست کو مزارِ قائد کراچی سے اغوا ہونے والی رکشہ ڈرائیور کی بچی تاحال لاپتہ
زیادتی پھر بچی قتل، افغانی گرفتار ،دوسراملزم بچی کا چچازاد:پشاورپولیس تجھے سلام
2: اللہ کی یاد سے اطمینان قلب کا حصول: پروفیسر احمد رفیق اختر
اور اس پر تبصرہ
عمران خان کو حکومت دیدو تو اطمینان ہوگا اورخوف وحزن ختم ہوگا
ذکر کے وظیفے سے اطمینان نہیں ملتا بلکہ قرآن مراد ہے۔
3: ایک ڈالر کے بدلے میں14ڈالر جاتے ہیں: ڈاکٹر لال خان
اور اس پر تبصرہ پڑھیں۔
بھارت، افغانستان اور ایران کو ٹیکس فری کردو: سید عتیق الرحمن گیلانی
4: مسلم سائنسدان جنہوں نے اپنی ایجادات سے دنیا کو بدلا۔
خلیفہ ہارون الرشید نے فرانس کے بادشاہ شارلمان کو ایک گھڑی تحفہ میں بھیج دی
5: پاکستان76سالوں میں کہاں سے گزر گیا؟
اور اس پر تبصرہ پڑھیں
نبی ۖ کے بعد76سالوں میں کیا کچھ ہوا؟
6: پہلے کبھی کانیگرم جنوبی وزیرستان میں ماتمی جلوس نکلتا تھا،آج اسکا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا!
7: اہل تشیع اور اہل حدیث کا مسئلہ تین طلاق پر مؤقف
اس پر تبصرہ پڑھیں
اہل سنت و اصلی حنفیوں کا مسئلہ تین طلاق پر مؤقف
8: اہل تشیع کا مؤقف خلافت و امامت کے حوالہ سے
اس پر تبصرہ پڑھیں۔
الزامی جواب تاکہ شیعہ سنی لڑنا بھڑنا بالکل چھوڑ دیں

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

عورت صلح چاہتی ہو تو مفتی رکاوٹ، علیحدگی چاہتی ہو تومفتی رکاوٹ کیا یہ اسلام ہے یا مولوی کا پاجامہ؟

عورت صلح چاہتی ہو تو مفتی رکاوٹ، علیحدگی چاہتی ہو تومفتی رکاوٹ کیا یہ اسلام ہے یا مولوی کا پاجامہ؟

رسول اللہ ۖ نے فرمایا : یہ امت بھی سابقہ امتوں کے نقش قدم پر چلے گی اگر ان میں سے کسی نے اپنی ماں سے زنا کیا ہوگا تو اس امت میں بھی ایسے لوگ ہوں گے اور اگر ان میں سے کوئی گوہ کے سوراخ میں گھسا ہوگا تو اس میں بھی ایسا شخص ہوگا۔ صحابہ نے پوچھا کہ کیا یہود ونصاریٰ ؟۔ فرمایا کہ پھر اور کون ہیں؟۔
جب قرآن کی آیت نازل ہوئی کہ اہل کتاب نے اپنے علماء ومشائخ کو اپنا رب بنالیا تھا توایک صحابی (جو پہلے یہودی تھا )نے عرض کیا کہ قرآن کی اس خبر علماء ومشائخ کو اپنا رب بنانے کی بات کیسی ہے؟۔ نبی ۖ نے فرمایاکہ کیا تم جس چیز کو وہ حلال یا حرام قرار دیتے تھے تم ان کے حلال کردہ کو حلال اور حرام کردہ کو حرام نہیں قرار دیتے تھے؟۔اس نے عرض کیا کہ یہ تو ہم کیاکرتے تھے۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ ” یہی تو رب بنانا ہے”۔
پورے اسلام کی کایا پلٹ دی گئی ہے ، یہاں تک سودی نظام جس کو قرآن نے اللہ اور اس کے رسول ۖ سے جنگ قرار دیا ہے اور نبی ۖ نے اس کے بہت سارے گناہوں میں ایک گناہ خانہ کعبہ میں اپنی ماں کیساتھ36مرتبہ زنا بھی قرار دیا ہے۔ سراج الحق جماعت اسلامی ، شجاع الدین شیخ تنظیم اسلامی اور مفتی تقی عثمانی کا ٹبر قرآن وحدیث کی وعیدوں کو سناتے ہیں لیکن سود کو معاوضے کے تحت جائز قرار دیا ہے۔ عام آدمی اور علماء کی بھاری اکثریت اس کو سودہی کہہ رہی ہے لیکن پھر بھی سرِ بازار امت مسلمہ سے جھوٹ بولا جاتا ہے جس کی وجہ سے عوام کا علماء اور مذہبی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔
جس طرح یہ بات عوام وخواص کو اچھی طرح سے سمجھ میں آتی ہے کہ سودی نظام سے پاکستان میں اسلام کے نام پر کتنا پیسہ کمایا جارہاہے جس کا سُود عالمی یہودی نظام کے پاس جاتا ہے اور علماء ومفتیان بھی اس میں سے اپنی فیس وصول کررہے ہیں۔ اسی طرح سے فقہ کے نام پر عورت کیساتھ بڑی زیادتیاں ہیں۔
عوام بے حس اسلئے ہوچکی ہے کہ جب ہمارا پورا نظام سود کی وجہ سے مفلوج ہے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ اسلام کا نام دیا جائے یا نہیں دیا جائے؟۔ لیکن وہ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ منحوس لوگوں نے کس طرح دین کے بدلے دنیا خرید لی ہے؟۔ ہم کچھ دوسرے مسائل کی طرف علماء کرام اور عوام کو متوجہ کرنا چاہتے ہیں کہ کس طرح درباری ملاؤں نے حکومتوں کی سرپرستی میں اسلام کا کباڑہ کرکے طاقتور لوگوں کیلئے مظلوم خواتین کو ہوس کا نشانہ بنانے کی اجازت دی ہے؟۔
مفتی عبدالرحیم اورمفتی تقی عثمانی نے لکھ دیا کہ حاجی محمد عثمان کے معتقد کے ساتھ نکاح جائز نہیں ہے اور اس نکاح کا انجام کیا ہوگا ؟۔ عمر بھی کی حرام کاری اور اولاد الزنا۔ مولانا محمد یوسف لدھیانوی ان غلیظ فتوؤں کے بعد حاجی عثمان کی قبر پر اپنے دامادوں اور بیٹیوں کیساتھ جاتے تھے۔ مفتی اعظم امریکہ کہلانے والا مفتی منیراحمد اخون مفتی تقی عثمانی کا شاگرد اور مولانا یوسف لدھیانوی کاداماد اور مرید ہے۔ یہ فتویٰ مفتی اعظم امریکہ سے لیکر میرے جلالین اور مشکوٰة کے استاذ مولانا انیس الرحمن درخواستی شہید پر بھی لگتا ہے جو فتوؤں کے بعد حاجی عثمان سے بیعت ہوگئے تھے۔ اور ان کے بڑے بھائی مفتی حبیب الرحمن درخواستی صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے حاجی عثمان کے حق میں فتوؤں کے بعد فتویٰ دیا تھا۔ مولانا محمد مکی حجازی مدظلہ العالی ، مدرسہ صولتیہ مکہ کے مولانا سیف الرحمن نے بھی فتوؤں کے بعد عقیدت کا اظہار کیا تھا۔ مجھے جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے اپنے استاذ حضرت مولانا بدیع الزمان نے حاجی عثمان کیلئے علماء ومفتیان کے خلاف اہم کردار ادا کرنے پر تھپکی دی تھی۔ جمعیت علماء اسلام ف اور س دونوں کے اکابر نے کھل کر ہمارا ساتھ دیا تھا۔ تبلیغی جماعت کراچی کے امیر ،انکے صاحبزادے مفتی شاہد اور شیخ الحدیث مولانا زکریا کے خلفاء مولانا یحییٰ مدنی بھی حاجی محمد عثمان کے ساتھ تھے۔ ختم نبوت کے مرکزی امیر مولانا خان محمد کندیاں، جمعیت علماء اسلام ف کے امیر مولانا عبدالکریم بیرشریف، مولانا عبداللہ درخواستی اور مولانا سرفراز خان صفدرسیمت سندھ ، پنجاب اور پختونخواہ کے علماء کرام نے ضلعی اور صوبائی سطح سے لیکر مرکزی سطح تک ہماری زبردست تحریری اور بالمشافہہ ملاقات میں تائید فرمائی تھی۔ جن میںہمارے استاذ پرنسپل بنوری ٹاؤن کراچی ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر ، مفتی محمد نعیم جامعہ بنوریہ عالمیہ سائٹ کراچی، مفتی عبدالمنان ناصر لورالائی بلوچستان کے علاوہ تمام مکاتب فکر اور جماعتوں کے اہم قائدین بھی شامل تھے۔ ڈاکٹرا سرار احمد، پروفیسر غفور احمد ، مولانا سمیع الحق شہید ، مولانا شاہ احمد نورانی ، پروفیسر فریدالحق ، علامہ طالب جوہری ، مولانا حسن ظفر نقوی اور تمام مکاتب کے بڑے بڑے حضرات کی ہمارے اخبار میں سرخیاں لگی ہیں۔
جب یکم جون2007کو اخبارات کی زینت یہ خبر بن گئی کہ نامعلوم افراد نے پیر عتیق الرحمن کا پوچھا اور نہ ملنے پر گھر پر حملہ کردیا اور14افراد موقع پر جان بحق اور دوافراد زخمی ہوگئے تو جولائی2007میں مجھے اپنے انجام تک پہنچنے کی توقع پر مولانا محمد زبیر حق نواز نے ” فتاوی عثمانی جلددوم ” میں حاجی عثمان کے معتقد کے خلاف فتویٰ بھی شائع کردیا۔ حاجی عثمان کے خلاف مفتی عبدالرحیم اور مفتی تقی عثمانی نے اپنے مفادات کی وجہ سے فتوے لگائے تھے، ان کا بڑاسرمایہ ڈوب رہا تھا۔ لیکن مفتی زبیر لونڈے نے کس طرح یہ حرکت کر ڈالی؟۔ اس کے محرکات تلاش کرکے مفتی زبیر کو اپنے کئے کی سزا انشاء اللہ ضرور ملے گی۔
جب اپنے خلاف فتویٰ دیکھنے کیلئے فتاویٰ عثمانی جلد دوم لی تو پھر ایسے بہت انکشاف ہوئے کہ تقی عثمانی نے کتنے غلط فتوے دیکر اسلام کا کباڑ بنادیا ہے ؟ اس ذخیرے میں کچھ فتوے دیکھ کر اندازہ ہوا کہ اگر اس کو جلی حروف کیساتھ شائع نہیں کیا تو آخرت میں مواخذہ ہوگا۔ برما سے بے وطن بعض غریب لوگ اپنی بیٹیاں بیچتے تھے، برما کے لوگ بہت اچھے اور غیرتمند مسلمان ہیں لیکن غربت کی وجہ سے بعض لوگ اپنی بچیوں کو دلالوں کے ذریعے فروخت کررہے تھے۔ ایک شخص نے70عورتوں کو فروخت کیا تھا اور باقی بھی کچھ دلال تھے جو نہیں شرماتے تھے۔
سوال : ایک عاقلہ بالغہ مسلمان لڑکی پنچائیت، عدالت وغیرہ ( یعنی بیچنے والے دلالوں کے نکاح کرانے کے بعد یہ بیان دیتی ہے کہ ” اس نے نکاح اپنی بلوغت کی عمر میں اپنی مرضی سے نہیں کیا تھا بلکہ اپنی حقیقی ماں کا دل رکھنے کیلئے کیا تھا تو اس نکاح کی قرآن وسنت کی روشنی میں کیا حیثیت ہے؟۔
جواب : جب لڑکی بالغ ہو اور اس نے نکاح کی منظوری دے دی ہو تو نکاح ہوگیا ، بعد میں یہ کہنا کہ میں نے والدہ کا دل رکھنے کیلئے کہا تھا ،اس سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑتا ، نکاح قائم ہے۔ (فتاویٰ عثمانی جلد دوم صفحہ274)
سوال: ۔………مسئلہ : فرض کیا اگر میری بیوی اور اس کے گھر والے وغیرہ یہ محسوس کرلیتے ہیں کہ اب کسی بھی طریقے سے اور بذریعہ عدالت بھی اس خاوند سے جان نہیں چھوٹ سکے گی تو اگر میری بیوی اور اس کے گھر والے اپنی لڑکی یعنی میری بیوی کی دوسری جگہ شادی کرنے کیلئے مجھے قتل کرادیتے ہیں تو سوال یہ ہے کہ ان حالات میں قتل کا گناہ کبیرہ تو میری بیوی اور اس کے گھر والوں وغیرہ پر ہوگا ہی لیکن کیا مجھے قتل کروانے کے بعد میری بیوی جو بیوہ ہوگی اس کا نکاح کسی دوسرے مرد کیساتھ جائز ہوگا یا نہیں ؟۔
جواب: قتل کا سخت گناہ ہے مگر عدت گزارنے کے بعد دوسرے شخص سے نکاح ہوجائے گا۔ فتاویٰ عثمانی جلد دوم صفحہ(274،275)
اگر فتاویٰ عثمانی جلد دوم کا علمی جائزہ لیا جائے تو اس میں بہت تضادات والے فتوے بھی ہیں جن کو دیکھ کر علماء ومفتیان بھی حیران ہوں گے کہ پیسوں کے لین دین کی وجہ سے مختلف لوگوں کو مختلف اور متضاد فتوے دئیے ہیں۔ جب چاہا لڑکی کے حق میں فتویٰ دیا اور جب چاہا لڑکے کے حق میں فتویٰ دے دیا۔
لیکن یہاں اس بات کی طرف متوجہ کرنا مقصود ہے کہ جب عورت جان کی خلاصی چاہتی ہو تو جب تک اس کے شوہر کو قتل نہ کیا جائے تب تک اس کی جان نہیں چھوٹ سکتی ہو اور جب میاں بیوی صلح کرنا چاہتے ہوں لیکن مولوی فتویٰ دے کہ صلح نہیں ہوسکتی ہے۔ تو کیا اس اسلام کو دین فطرت کہا جاسکتاہے؟۔
مفتی زبیر میڈیا پر عورت کے حقوق کی علمبردار خواتین سے بات کرتا ہے۔ اگر عورتوں کو فتاویٰ عثمانی جلد دوم تھمادی جائے اور پھر مجلس عام میں لوگوں کے سامنے ان فتوؤں کا ذکر کیا جائے تو مفتی زبیر کو لوگ جوتے ماریں گے کہ یہ کیا کیا بکواس اسلام اور قرآن وسنت کے نام سے لکھے ہیں؟۔جو شائع کی گئی ہیں۔
جب اللہ نے سورہ النساء آیت19میں پہلے عورت کو خلع اور پھر مرد کے طلاق کا ذکر آیت20،21میں کیا ہے اور دونوں صورت میں عورت کو مالی تحفظ بھی دیا ہے تو یہ فتوے دینا کہ جب تک شوہر کو قتل نہیں کیا جائے ،کسی صورت بھی عورت فتوے یا عدالت کے ذریعے خلع نہیں لے سکتی ہے ؟۔ اس دشمنی اور قتل کا ذمہ دار طبقہ بھی یہ دین فروش مفتی ہیں۔ اب تو یہ اسلام کے نام پر چندے کھا کھا کر اپنی اوقات بدل چکے ہیں لیکن وہ وقت بھی آنے والا ہے کہ مفتی تقی عثمانی اور دیگر علماء ومفتیان کو اسلئے معاف کردیا جائے گا کہ بڑی عمر کے شریف ہیں لیکن مفتی زبیر جیسے لونڈے زدگی میں مبتلاء افراد کو اوقات یاد دلائی جائے گی۔
ایک طرف سورۂ بقرہ کی آیت229سے غلط خلع مراد لیا گیا ہے اور اس کو ٹکڑے کرکے ایسا ترجمہ وتفسیر مراد لی گئی ہے کہ جو بالکل ممکن ہی نہیںہے۔ جب وہ خلع مراد ہونہیں سکتا ہے تو پھر اس سے خلع مراد لینے سے بہت سے مسائل نے جنم لیا ہے۔ جماعت اسلامی کا منبع تو ایک مولانا مودودی ہے اور اس نے ترجمہ وتفسیر غلط لکھی دی ہے اور اس کی غلطی تسلیم کرنے پر جماعت اسلامی کو اپنی ساری عمارت گرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ جب لوگوں کو پتہ چل جائے گا کہ مولانا مودودی نے بھی قرآن کے متن کو سمجھنے میں اتنا بڑا مغالطہ کھایا ہے تو جماعت اسلامی ایک منافع بخش ادارہ ہے ، اس سے لوگوں کو بڑی مراعات مل رہی ہیں اور اس سے وہ حکومت تک پہنچنے کے وسائل پیدا کرتے ہیں۔ وہ اپنے طرزِ عمل سے ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اسلاف نے مولانا مودودی کو فتنہ قرار دے کر بالکل ٹھیک کیا تھا۔
سوال : لڑکی کی شادی کم سے کم کتنی عمر میں کرسکتے ہیں۔ازروئے شرع مطلع فرمائیں۔
جواب : شادی کیلئے کوئی عمر مقرر نہیں ، ہر عمر میں نکاح کرنا جائز ہے مگر بہتر یہ ہے کہ بلوغ کے بعد نکاح کیا جائے۔ (فتاویٰ عثمانی جلد دوم صفحہ308)
سوال : لڑکی نابالغہ کا نکاح چچا نے کردیا۔ جب تقریباً بائیس سال کی ہوئی تو تنسیخ نکاح کا دعویٰ کیا کہ میرے چچا نے میری مرضی کے مطابق نکاح نہیں کیا ، اب یہ نکاح قابل فسخ ہے یا نہیں ؟۔
جواب : ۔ لڑکی کو خیارِ بلوغ کے تحت فسخ نکاح کا حق اسی وقت حاصل تھا جب اس پر بلوغ کے آثار ظاہر ہوئے تھے، جب اس نے اس وقت نکاح فسخ نہیں کیا تو ا سکے بعد سالہاسال گزنے پر خیار بلوغ کا حق استعمال نہیں کرسکتی ۔ واللہ سبحانہ اعلم احقر محمد تقی عثمانی عفی عنہ (فتاوی عثمانی جلددوم صفحہ287)
اللہ نے قرآن میں یتیم لڑکوں کا فرمایا ہے کہ اس وقت ان کا مال انکے حوالہ کردو جب وہ نکاح کو پہنچ جائیں۔حتی اذا بلغوا النکاح ، اس سے مراد صرف بالغ ہونا نہیں بلکہ ذمہ داری کا فرض ادا کرنے کے قابل ہونا مراد ہے۔
جہاں تک فقہی کتابوں میں مسائل کا ذکر ہے تو مفتی تقی عثمانی نے سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کو جائز قرار دینے والی کتابوں کے حوالے سے بھی عبارت نقل کی تھی لیکن جب جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کا مخالفت میں فتویٰ اور عوام نے پریشر ڈال دیا تو اپنی اردو کتاب ” فقہی مقالات جلد چہارم ” اور عربی کتاب ”تکملہ فتح الملہم شرح صحیح مسلم ” سے اپنی ان عبارات کو ایسے نکال دیا جیسے اپنے منہ کے آگے والے دونوں بدنما دانت نکال دئیے ہیں۔ اگر علماء ومفتیان اور عوام کی طرف سے پریشر پڑے گا تو سب بکواسات سے دستبردار ہوں گے۔
مجھے ایسے دیندار شخص کا پتہ ہے جس نے کہا کہ یہ مشہور ہے کہ دوسالہ بچی کو زیادتی کا نشانہ بنانے میں بڑی لذت ہے۔ پاکستان میں آئے روز کیس میڈیا میں رپوٹ ہوتے ہیں لیکن لوگوں کو یہ معلوم نہیں ہے کہ علماء ومفتیان نے فتوے بھی دے رکھے ہیں۔ اب تو سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کا رعب ودبدبہ بھی نہیں رہاہے لیکن حکومت کو بڑے پیمانے پر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے کہ جب پاکستان کے آئین اور عائلی قوانین میں بچپن کی شادی پر پابندی ہے لیکن جب جماعت اسلامی والے پروپیگنڈہ کریں گے کہ مفتی محمود نے جنرل ایوب خان سے ایک لاکھ روپے کے عوض شور نہ مچانے کا معاہدہ کیا تھا اور دارالعلوم کراچی سے بچپن کے نکاح کیلئے فتوے دئیے جائیں گے۔ غریب الدیار برمی بچیاں اور خواتین دلالوں کے ہاتھوں مفتی تقی عثمانی کے فتوؤں پر بکیں گی تو پاکستان اور اس اسلام کی دنیا میں کیا وقعت رہ جائے گی؟۔
افغان طالبان بھی مفتی تقی عثمانی کے فتاویٰ عثمانی جلد دوم کو اپنے ہاں منگواکر قرآن وسنت پر اس کو تولیں۔ مسلک حنفی کی اصول فقہ اس بات سے بھری ہوئی ہے کہ قرآنی آیات کے منافی احادیث صحیحہ کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا ہے ۔علامہ انور شاہ کشمیری نے کہا کہ قرآن و حدیث کی خدمت نہیں فقہ کی وکالت میں عمر ضائع کردی۔ جب قرآن کے مقابلے میں صحیح حدیث کو مسترد کرنے کا اصول ہو توپھر فقہ کی کتابوں کی کیا اوقات ہے؟۔ مفتی تقی عثمانی پر سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کا دباؤ پڑگیا تو فوراً روزنامہ اسلام کراچی و ہفت روزہ ضرب مؤمن کراچی میں اپنی کتابوں سے نکالنے کا اعلان کردیا۔ اس طرح جب بچیوں اور خواتین کے حوالہ سے بیہودہ اور غلیظ فتوؤں کے خلاف تحریک اٹھے گی تو یہ سرنڈر ہونے میں دیر نہیں لگائیںگے۔ جب عیسائی اور یہودی کے مذہبی طبقات اس حد کو پہنچ گئے تو مغرب کی عوام نے مذہب کو چھوڑ کر سیکولر کا راستہ اختیار کرنے میں راہ نجات ڈھونڈ نکالی۔ ایسے غلط اور بدفطرت مذہبی مسائل سے سیکولر ہونا بہت اچھا ہے۔
صحیح مسلم کی حدیث ہے کہ نبی ۖ نے فرمایا: اہل غرب ہمیشہ حق پر رہیں گے قیامت تک ۔اس حدیث سے ان کا غیرفطری دین سے بغاوت کرنے کی تائید ہوتی ہے۔ نبی ۖ کا دین آخری دین ہے ۔ جو فطرت کے مطابق ہے اور اس سے سیکولر ازم کی طرف جانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ جو بگاڑ پیدا کیا گیا ہے یہ علماء اور مذہبی طبقات کی اپنی اختراع اور صراط مستقیم کے موٹر وے سے گمراہی کا شکار ہونے کی وجہ سے ہے۔ مجھے امید ہے کہ سارے فرقوں کے علماء کرام ایک مرتبہ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر اسلام اور پاکستان کو مشکلات سے بچانے میں اپنا کردار ادا کریں گے ۔پھرافغانی ، ایرانی اور ہندوستانی بھی ساتھ دیں گے۔
کیا افغانی ، ایرانی اور ہندوستانی یہ قبول کرسکتا ہے کہ وہ عرب نہیں۔ اگر اس کی بالغ لڑکی کو اغواء کیا گیا اور ڈرا دھماکر نکاح پر مجبور کیا گیا تو نکاح شرعاً منعقد ہوگیا۔اب اگر لڑکی یا اس کے رشتہ دارنکاح ختم کرنا چاہتے ہوں تو سوائے اس کے کوئی راستہ نہیں ہے کہ وہ لڑکے سے طلاق حاصل کریں۔ فتاوی عثمانی280
لڑکے کو قتل نہ کیا جائے تو خلع بھی نہیں ہو سکتا؟۔ غیرتمند علماء غلط اسلام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوجائیں ورنہ داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

لے لو ایک روپے میں دو فتوے، آٹھ آنے آٹھ آنے ، آ ٹھنڈے ،آٹھنڈے :شربتِ انار

لے لو ایک روپے میں دو فتوے، آٹھ آنے آٹھ آنے ، آ ٹھنڈے ،آٹھنڈے :شربتِ انار

فتویٰ فروشان اسلام بہت کھلے دل کے ساتھ پوری دنیا کو یہ کہہ سکتے ہیں کہ
فتویٰ فروشی کی تمنا ازل سے ہمارے دل میں ہے
باز نہیں آنا لگالو زور جتنا بازوئے قاتل میں ہے

رسول اللہ ۖ کے حوالہ سے انصار مدینہ نے شکایت کی کہ مشکلات کے دور میں ہم نے ساتھ دیا اور اب جب آسانیوں کے دروازے کھل گئے تو مہاجر قریش کو نوازا جارہا ہے۔ نبی ۖ تک بات پہنچی تو انصار کے بزرگوں سے پوچھا انہوں نے عرض کیا کہ ہم نے یہ بات نہیں کی ہے لیکن نوجوانوں کے ہاں گردش کررہی ہے۔ پھر نبی ۖ نے سارے انصار کو بلایا اور ان سے خطاب فرمایا کہ جب میں یہاں نہیں آیا تھا تو تمہارے آپس کے جھگڑے رہتے تھے اب تم شیر و شکر ہوگئے ہو۔ پہلے تمہارا غربت سے بہت برا حال تھا اب دولت مند بن گئے اور پہلے حالت کفر میں تھے اب صاحب ایمان بن گئے ہو، پہلے جاہل تھے اب تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ بن گئے ہو۔ مختلف چیزیں سامنے رکھیں اور انصار نے سب کی تصدیق کی۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ جو مہاجرقریش اپنا گھر بار چھوڑ آتے ہیں تو ان کی مدد کرنا ایک مجبوری ہے اگر تمہاری یہ حالت ہوتی تو تمہیں بھی اسی طرح سے مدد دی جاتی۔ کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ بے سہارا مہاجرین کو مال دیا جائے اور میں خود تمہارے مدینے کا باشندہ بن جاؤں ؟۔ انصار نے تقریر سنی اور ایک ایک بات کو سمجھ کر اس کا جواب دیا تو زار و قطار رونے لگے۔ عرض کیا رضینا باللہ ربًا و بنبیی محمد ًا وبالاسلام دینًا ”ہم اللہ کے رب ہونے پر راضی ہیں ،محمد ۖ کے نبی ہونے پر اور اسلام کے دین ہونے پر ”۔
نبی ۖ نے شکوے شکایت کی وجہ سے انصار پر کفر کا فتویٰ نہیں لگایا بلکہ ان کو اصل صورتحال سے آگاہ فرما کر غلط فہمیاں دور کردیں۔ خوارج نے پہلی مرتبہ خلافت راشدہ کے دور میں کفر کے فتوے شروع کردئیے ، یہ لوگ پہلے حضرت علی کے ساتھی تھے اور پھر علی کیلئے سود اللہ وجہہ (اللہ اس کا چہرہ کالا کرے) کہتے تھے۔ جس کے مقابلے میں کرم اللہ وجہہ (اللہ اس کے چہرے کو تکریم بخشے) کہنا شروع ہوگئے۔ جب حضرت علی اور امیر معاویہ کے درمیان جنگ ہوئی تو شمر علی کا سپہ سالار تھا۔ کسی ریاست میں سول اور ملٹری بیوروکریسی کا کردار ایک ملازم کا ہوتا ہے۔ ہندوستان کو غلام رکھنے والے سول و ملٹری بیورو کریسی آزادی کے بعد پاکستان اور ہندوستان میں تقسیم ہوگئے۔ پہلے دو آرمی چیف انگریز تھے۔ جنرل باجوہ کو نواز شریف نے نامزد کیا اور پھر عمران خان اور سب نے مل کر ایکس ٹینشن دی تو سب کا مشترکہ اثاثہ بن گیا۔ جس کی وجہ سے پھر فوج کے پروجیکٹ عمران خان سے مراسم خاص نہیں رہے بلکہ سب کے ساتھ مشترکہ بن گئے تھے۔
کراچی صدر میں ایک انار شربت فروش تھا جو آواز لگاتا تھا کہ آٹھ آنے، آٹھ آنے … کوئی سیدھا سادہ سمجھ لیتا کہ پانچ روپے کا شربت اتنا سستا مل رہا ہے اور پینا شروع کردیتا تھا تو شربت والا اپنی آواز آٹھ آنے سے آ ٹھنڈے ، آ ٹھنڈے میں بدل دیتا تھا۔ اپنے پاس بدمعاش بٹھائے تھے جو پانچ روپے دینے سے انکار کرتا تھا تو اس سے زبردستی سے بھی لے لیتے تھے۔ کچھ لوگ اپنی شرافت سے پانچ روپے دے دیتے تھے۔ ٹھگوں کا یہ سلسلہ چلتا رہتا تھا۔
سواد اعظم اہل سنت کی تحریک کو عراق نے پیسہ دیا تو اہل تشیع پر کفر کا فتویٰ لگادیا۔ مولانا سلیم اللہ خان نے سپاہ صحابہ کے مولانا اعظم طارق کے سوتیلے والد مولانا زکریا لنگڑے کی ڈنڈے سے پٹائی لگائی تھی اور مولانا زکریا نے سواد اعظم کے رہنماؤں اور مولانا سلیم اللہ خان پر بہت بڑے کرپشن کا الزام لگایا جو مختلف اخبارات کی زینت بنا۔ پھر وہ وقت آیا کہ ہمارے استاذ ڈاکٹر عبد الرزاق سکندر نے دوران تعلیم ہم سے کہا کہ یہ باہر فسادی آئے ہوئے ہیں مولانا بنوری کے وقت میں اہل تشیع کا ماتمی جلوس گزرتا تھا تو ان کے بڑے دفتر میں آتے تھے اور نیوٹاؤن مسجد کے مٹکے صاف کرکے پانی سے بھردئیے جاتے تھے اور غسل خانے صاف کردئیے جاتے تھے تاکہ ماتمی جلوس کے شرکاء کیلئے آسانی ہو۔
پھر جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی سے اہل تشیع کے خلاف فتویٰ لکھا گیا کہ شیعہ تین وجوہات کی بنیاد پر قادیانیوں سے بدتر کافر ہیں۔1:شیعہ پورے قرآن کی تحریف کے قائل ہیں اور قادیانی ایک آیت میں تاویل کرتے ہیں۔2:شیعہ کا عقیدہ امامت ختم نبوت کا انکار ہے۔3:شیعہ صحابہ کرام کو کافر کہتے ہیں۔
دار العلوم کراچی نے سواد اعظم کی تحریک میں پیسوں کی وصولی نہیں کی اسلئے انہوں نے اس پر دستخط نہیں کئے۔ پاکستان ، بھارت اور بنگلہ دیش کے سارے مدارس نے اس فتوے پر دستخط کئے تھے اور آج بھی وہ کتابی شکل میں مارکیٹ کی زینت ہے۔ پھر دار العلوم کراچی نے سودی بینکاری کو اسلامی قرار دیا تو اکیلے رقم وصول کرلی تو باقی مدارس نے مفتی تقی عثمانی اور اسلامی بینکاری کے خلاف متفقہ فتویٰ دیا جو مارکیٹ کی زینت ہے۔ ان فتویٰ فروش علماء و مفتیان کا حال کراچی صدر کے شربت فروش سے مختلف نہیں ہے۔ روپے کے دو فتوے ، آٹھ آنے اور آٹھ آنے سے معاملہ بدل کر آٹھنڈے آٹھنڈے پرآجاتا ہے۔ اہل تشیع پر جن لوگوں نے فتویٰ لگایا تھا انہوں نے اتحاد تنظیمات المدارس کے نام پر شیعہ کے ساتھ اتحاد کرلیا اور کفر کا فتویٰ اسلام میں بدل دیا۔ جن مدارس نے اسلامی بینکاری کے خلاف فتویٰ دیا تھا وہ اسلامی بینکاری کانفرنس میں مفتی تقی عثمانی کی تائید کررہے تھے۔ ان لوگوں کا دین ایمان اور علم صرف پیسہ اور ماحول ہے۔
خلیل جبران نے قصہ لکھا ہے کہ ایک پادری کسی وادی سے گزر رہے تھے تو کسی شخص کے کراہنے کی آواز آئی ، اس نے سوچا کہ کون ہے اور قریب سے دیکھا تو ایک اجنبی بہت شدید زخمی حالت میں پڑا تھا۔ پادری کا نام لے کر اس نے کہا کہ مجھے بچاؤ ۔ پادری نے کہا کہ اپنا تعارف کراؤ ۔ اجنبی زخمی کہہ ر ہا تھا کہ تجھے میں اچھی طرح سے جانتا ہوں اور تو بھی مجھے اچھی طرح سے جانتا ہے، جلدی مجھے اٹھاکر لے جاؤ نہیں تو میں مرجاؤں گا۔ پادری نے کہا کہ اگر تو اپنا تعارف نہیں کرائے گا تو میں تجھے چھوڑ کر جارہا ہوں۔ زخمی نے بتایا کہ میں ابلیس ہوں اور اسرافیل علیہ السلام نے مجھے اپنی دو دھاری تلوار سے شدید زخمی کردیا ۔ پادری نے خوب لعن طعن کی تو ابلیس نے سمجھایا کہ جب میں لوگوں کو ورغلاتا ہوں تو پھر وہ تجھے کفارہ کے طور پر صدقے اور خیرات دیتے ہیں۔ اگر میں نہ رہا تو تیرا بھی گزر اوقات نہیں ہوگا۔ پادری کی سمجھ میں بات آگئی اور اسے کاندھے پر اٹھالیا ، رات کی تاریکی میں ابلیس کاخون رستا رہا اورپادری کے جوتے بھر گئے۔
کراچی میں حاجی محمد عثمان اور ڈیرہ اسماعیل خان میں خود پر لگنے والے فتوؤں کی داستان سامنے رکھ دی تو تاریخ کے ہر موڑ پر علماء حق اور علماء سُو ء کی سمجھ آجائے گی۔ یہ میڈیا کا دور ہے، لوگوں میں تعلیم عام ہے اور علماء و مفتیان نے وقتی مفادات حاصل کرنے کے بعد اپنا اعتماد کھودیا ہے۔ چند افراد کے غلط کردار سے سب کی بدنامی ہوئی ہے اور ہم سب اہل حق کی عزت بحال کرنا چاہتے ہیں

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv