Month: 2023 مئی
شیخ الہند کے جانشین مولانا الیاس وحاجی عثماناور مولانا سندھی اورہم ہیں!
شیخ الہند کے جانشین مولانا الیاس وحاجی عثماناور مولانا سندھی اورہم ہیں!
اکابر دیوبندکے مرشد حاجی امداد اللہ مہاجر مکی تھے ۔ مولانا قاسم نانوتوی و مولانا گنگوہی مولانا محمود حسن کے اساتذہ تھے۔ دیوبند کیلئے شیخ الہند محمود الحسن کو سمجھنا ہوگا۔ مشاہیر دیوبند شیخ الہند کے شاگرد تھے۔تصوف کے مولانا اشرف علی تھانوی او دعوت وتبلیغ کے مولانا الیاس کاندھلوی قائد تھے۔ قومی سیاسی قائد صدر جمعیت علماء ہند شیخ العرب والعجم مولانا حسین احمد مدنی تھے ۔درس کے استاذ اعلیٰ علامہ انورشاہ کشمیر ی تھے۔ انقلابی قائد مولانا عبیداللہ سندھی تھے۔ مذہبی سیاسی قائد شیخ الاسلام علامہ شبیراحمد عثمانی تھے۔ مفتی اعظم ہند مولانا مفتی کفایت اللہ سمیت سب مشاہیر شیخ الہند کے شاگرد تھے۔ مولانا رسول خان ہزاروی بھی شیخ الہند کے شاگرد تھے۔ جن کے شاگرد مولانا مفتی محمد حسام اللہ شریفی حیات ہیں ۔
مولانا رسول خان کے شاگردوں میں مفتی شفیع ، قاری طیب ، مولانا یوسف بنوری ، مولانا عبدالحق اکوڑہ خٹک، علامہ سید محمد میاں جامعہ مدنیہ لاہور اورمولانا محمدادریس کاندھلوی ہیں۔ مفتی شریفی ومفتی شفیع نے قاری طیب سے پڑھا۔ شیخ الہند کے شاگرداور شاگردوں کے شاگردمشہور تھے۔ کانیگرم ہماری مسجد کے امام مولانا اشرف ، سکول ٹیچرناظم استاذاور پیرمبارک شاہ شامل تھے۔مفتی حسام اللہ شریفی جنگ ہفت روزہ اخبار جہاں کراچی میں قرآن وسنت کی روشنی میں مسائل کا حل لکھتے ہیں۔ وفاقی شرعی عدالت و سپریم کورٹ کے شرعی اپیلیٹ بینچ کے مشیر ہیں اور رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ تحقیقات قرآن وسنت کے رکن ہیں۔
دارالعلوم دیوبند کاایک شعبہ خانقاہی نظام ہے ۔ جسکے سرخیل حاجی امداداللہ مہاجر مکی اور مولانا اشرف علی تھانوی تھے۔ دوسرامدارس ہے جسکے سرخیل مولانا انورشاہ کشمیری تھے۔ تیسرا سیاست ہے جسکے سرخیل مولانا حسین احمد مدنی تھے۔ چوتھا انقلاب ہے جسکے سرخیل مولانا عبیداللہ سندھی تھے اور پانچواں تبلیغ ہے جسکے سرخیل مولانا محمد الیاس تھے۔سوال یہ تھا کہ کون کون شیخ الہند کے جانشین تھے؟۔ شیخ الہند1920عیسوی میں مالٹا سے رہا ہوئے تو مدارس کا نصاب ، فرقہ واریت ، قرآن سے دوری کا احساس تھا۔ امت کے زوال کے دواسباب بیان فرمائے۔ ایک قرآن سے دوری اور دوسرا فرقہ واریت ۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع ۔
رجل رشید مولانا عبیداللہ سندھی نے قرآن کی طرف علماء کو متوجہ کیا تو ان کو دارالعلوم دیوبند سے نکال دیا گیا۔ مولانا محمدالیاسنے اُمت مسلمہ کے اتحاد کیلئے مسائل وعقائد کو چھوڑ کر فضائل کی تحریک ”تبلیغی جماعت” شروع کردی۔ سیاست پر مولانا حسین احمد مدنی کو اقبال نے ابولہب کہہ دیا تو علامہ شبیراحمد عثمانی نے جمعیت علماء اسلام کے نام پر مسلم لیگ کی حمایت کی۔ جبکہ جمعیت علماء ہند کانگریس کی حامی تھی۔ شیخ الہند نے مولانا ابوالکلام آزاد کو امام الہند کا لقب دیا۔ مولانا عبیداللہ سندھیسیاسی میدان میں جمعیت علماء ہند اور جمعیت علماء اسلام کے الگ الگ تشخص کے قائل نہ تھے۔ جمعیت علماء اسلام کا علامہ شبیر احمد عثمانی نے یہ نقصان اٹھایا کہ قائداعظم کے غسل و جنازہ تک محدود تھے۔ یہی حال جمعیت علماء ہندکے اندرگاندھی سے جلسے کی صدارت تک تھا۔ جبکہ مولانا ابوالکلام آزاد قومی لیڈر وزیرتعلیم تھے۔ ان کی تدفین شاندار قومی اعزاز کیساتھ ہوئی تھی ۔ بے شرم حکمرانوں بشمول عمران خان اور مقتدر طبقہ نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی وہ عزت نہ کی ، جسکے محسنِ پاکستان مستحق تھے۔ سیاسی پارٹی کے علماء ونگ کی طرح جمعیت علماء ہند کانگریس اور جمعیت علماء اسلام مسلم لیگ کے علماء ونگ تھے ۔پھر مولانا احمدعلی لاہوری نے جمعیت علماء اسلام کی تشکیل نو کردی جس میں مولانا غلام غوث ہزاروی، مولانا عبیداللہ انور، مولانا عبداللہ درخواستی اور مفتی محمود نے جمعیت علماء ہندو جمعیت علماء اسلام کے ملغوبے کا کردار ادا کیا اور مفتی محمد شفیع کی جمعیت علماء اسلام مرکزی کے نام پر درباری علماء کا ٹولہ بن کر ختم ہوگیا۔
مولانا مدنی نے مدرسہ وسیاست کو یکجا کیا تو تدریس کے شہسوار علامہ انور شاہ کشمیری کو دارالعلوم دیوبند سے ڈھابیل پہنچادیا۔ بہاری سید کا کشمیری سید سے یہ سلوک تھا۔مولانا سندھی سے زیادتی کی سزا کھائی تو کشمیری نے سندھی سے معافی مانگ لی اور کہاکہ اپنی ساری زندگی درسِ نظامی کی فضول تدریس میں ضائع کردی۔ جس سے ثابت ہوا کہ شیخ الہند کے جانشین مولانا سندھی تھے۔ آخر میں قاری طیب کو مولانا مدنی کے فرزندوں نے آوٹ کیا۔ جس پر دارالعلوم دیوبند تقسیم ہوگیا۔ ایک کا نام دارالعلوم دیوبند وقف رکھ دیا ۔ قاری محمد طیب اپنے والد حافظ محمد احمد اور دادا مولانا قاسم نانوتوی کے جانشین اور مہتمم دارالعلوم دیوبند تھے۔ جس طرح پروین شاکر نے شوہر کی بے وفائی سے اردو شاعری کو انمول خزانہ دیا جو سودا گھاٹے کا نہیں۔اسی طرح قاری طیب نے اپنے دکھ اور تکلیف سے ذخیرہ نعت میں ایک عظیم الشان اضافہ کرکے قیمت وصول کی ۔
نبی اکرم شفیع اعظم ۖدکھے دلوں کا سلام لے لو ،پیام لے لو۔
دیوبندی بریلوی مساجد میں ایک ماہ یہ نعت پڑھی جائے تو انقلاب آئیگا۔ یہ سورہ واقعہ کی اس آیت کی تفسیر ہوگی کہ سلام لک من اصحاب الیمین ”سلام ہو آپ کیلئے اصحاب یمین کی طرف سے ”۔ جمعیت علماء اسلام کے جلسے میں یہ نعت پڑھی گئی۔ جس سے اتحاد کا راستہ ہموار ہو ا۔ مہاجر مکی کا” فیصلہ ہفت مسئلہ” میں دیوبندی بریلوی اختلاف کاحل تھا ۔ مولانا اشرف علی تھانوی کو پسند تھا لیکن مفتی شفیع کی وجہ سے اس پر عمل نہ ہوسکا۔ لیگی علماء اندرون خانہ قادیانیوں کے حامی تھے۔ مولانا احتشام الحق تھانوی کو ختم نبوت والوں نے مارا پیٹا بھی تھا۔
مفتی رفیع عثمانی کی ” علامات قیامت اور نزول مسیح ” میں مفتی شفیع کی تحریر ہے کہ ” اس کا نام مرزا غلام احمد ، ماں اور باپ کا نام فلاں تھے تو کیسے وہ حضرت عیسیٰ کا دعویٰ کربیٹھا؟، جسکا نام عیسیٰ ،ماں مریم تھی اورباپ نہیں تھا”۔ حالانکہ اس سے مرزائیت کو تقویت ملتی تھی، وہ کہتے تھے کہ” قادیانی عیسیٰ کا مثل ہے”۔ مفتی رفیع عثمانی نے حدیث نقل کی کہ ” دجال سے بدتر حکمران اور لیڈر ہیں” اور وجہ یہ تھی کہ جمعیت علماء پر کفر کا فتویٰ لگادیا توان کو قادیانیوں سے بدتر قرار دیا۔
مولانا ابوالکلام آزاد نے کہا تھا کہ ” لوگوں کو شکایت ہے کہ مدارس سے اچھے استعداد وصلاحیت کے علماء پیدا نہیں ہورہے ہیں مگر یہ نصاب تعلیم ایسا ہے کہ اس سے اچھے خاصے ذہین لوگ کوڑھ دماغ بن جاتے ہیں”۔ علامہ یوسف بنوری نے کوشش کی کہ نیا نصاب تعلیم ہو جس میں علماء کے اندر استعداد پیدا ہو۔ فقہ ، اصول فقہ، حدیث ،تفسیر کیلئے کورس رکھا۔ کوڑھ دماغ مزید کوڑھ دماغ تو پیدا کرسکتے تھے لیکن انقلاب کیلئے مولانا عبیداللہ سندھی کہاں سے ڈھونڈ لاتے؟۔
حاجی محمدعثمان کو سناتو مولانا شیرمحمد امیر جمعیت علماء اسلام کراچی نے کہا کہ ” یہ تو الیاس ثانی ہیں”۔ پھر وقت آیا کہ خانقاہ چشتیہ مسجد الٰہیہ خدمت گاہ قادریہ مدرسہ محمدیہ میں مولانا سندھی کی کتابوں سے قرآن کی طرف رجوع کا آغاز کیا۔ مولانا الیاس کے اتحادامت اور مولانا سندھی کے قرآن کی طرف رجوع میں شیخ الہند کے اصل جانشین ہم ہیں۔ مدارس تجارتی کمپنیاں قتل گاہیں بن چکی ہیں۔ علامہ یوسف بنوری کے فرزندمولانا محمد بنوری کومدرسہ میں شہید کیاگیا۔ روزنامہ جنگ نے جھوٹی خبر لگائی کہ ”مولانا محمد بنوری کہتے تھے کہ میں خود کشی کرلوں گا اور آخر خود کشی کرلی”۔ تحریک ختم نبوت کے قائد علامہ بنوری کو تحفہ ملا۔ مولانا یوسف لدھیانوی ، مفتی نظام الدین شامزئی، ڈاکٹر حبیب اللہ مختار ، مولانا عبدالسمیع اور مفتی عتیق الرحمن کو شہیدکیاگیا اور ڈاکٹر حبیب اللہ مختار کی بیوہ علامہ بنوری کی چہیتی بیٹی کو بھی دھوکے سے انتہائی المناک ظالمانہ طریقے سے شہیدکیا گیاتھا۔
سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے ”احرار” اور ”تحفظ ختم نبوت ” کی تحریک میں بریلوی ، اہلحدیث اور شیعہ کو ساتھ رکھا۔ علامہ ابوالحسنا ت احمد قادریبریلوی کو تحفظ ختم نبوت کا مرکزی امیر بنایا۔ مولانا یوسف بنوری نے اپنے والد مولانا زکریا بنوری کے متعلق لکھا:” صاحبِ کرامت ولی تھے ۔ کہتے تھے کہ برصغیر میں مسلک حنفی کا سہرااعلیٰ حضرت مولانا احمد رضاخاںبریلوی کے سر ہے”۔
حاجی عثمان اتحاد میں مولانا الیاس و شیخ الہند کے جانشین تھے۔ علامہ سید یوسف بنوری نے تقویٰ پرمدرسہ کی بنیاد رکھی تھی۔ہم نے مدرسہ اور خانقاہ دونوں کا فیض پایا ہے، حاجی محمد عثمان پر فتوے کا مقابلہ بفضل تعالیٰ ہم نے خوب کیاتھا۔
گلہ تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے تیرا کہاں سے آئے صدا لااِلٰہ الا اللہ
میرے آباء و اجداد اہل مدرسہ وخانقاہ کے استاذالاساتذہ و پیرانِ پیر تھے۔ اقبال نے اہل مدرسہ و مزاج خانقاہی کا ذکر کیا لیکن ہم مزاج خانقاہی میں پختہ تر ہوئے اور نہ اہل مدرسہ ہمارا گلہ گھونٹ سکے ۔ جب اہل فتویٰ کے رعب ودبدبہ اور اہل دنیاکی چمک دمک سے خانقاہ میںبھگڈر مچی اور رونقیں ماند پڑگئیں ۔ علماء ومفتیان اور فوجی افسران بھاگے۔ تب میں اس اُمید کیساتھ افغانستان کے میدان ِ جہاد سے کراچی آیا تھا کہ ہم مجاہدین کیساتھ مل کر وزیرستان اور قبائل سے اسلامی خلافت کا آغاز کریں گے۔ جہاد سے پہلے مولانا عبیداللہ سندھی کی قبر پر انقلاب کیلئے دعا مانگنے گیااور اس سے پہلے جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کا طالب علم تھا تو طلبہ تنظیم ” جمعےة اعلاء کلمة الحق ” بنائی ۔جب علماء کی طرف سے مولانا فضل الرحمن پر ”متفقہ فتویٰ” کا اشتہار چھپا تو میں نے اشعار لکھ کر منہ توڑ جواب دیا تھاجن کی کتابت مولانا شیر محمد نے کروائی تھی اور فتوے کے اس اشتہار کو تلف کرنے کی شرط پر اشعار نہیں چھپے۔ اس سے پہلے علماء ومفتیان نے ضیاء الحق کے ریفرینڈم کے حق میں فتویٰ دیا ۔علماء وطلبہ اورعوام میں یہ تأثر قائم کیاتھاکہ ریفرینڈم کے حق میں ووٹ نہ دینا کفرہے تب جماعت اسلامی بھی دُم چھلہ تھی توطلبہ پلیٹ فارم سے ریفرینڈم کی طالب علمانہ مخالفت کی تھی کہ اعراب کی16اقسام میں یہ نئی قسم ہے۔ ضیاء الحق کی جگہ ضیاع الحق سے روشنی ضائع ہوگی۔ اس سے پہلے مولانا سمیع الحق و قاضی عبداللطیف نے سینٹ میں ”شریعت بل” پیش کیا۔ مولانا فضل الرحمن نے مخالفت کی تو حاجی محمد عثمان نے مسجدالٰہیہ میں جمعہ کی تقریر میں کہا تھا کہ ”علماء حق نے شریعت بل پیش کیا اور ایک بڑے مفتی کے بیٹے (مولانا فضل الرحمن) نے اس کی مخالفت کی تو اسکا نکاح کہاں باقی رہا”۔ عوام کا دل ہلااور چیخ کر اللہ کا نام نکلا اور میری بے ساختہ ہنسی نکلی۔ حاجی صاحب سے عرض کیا کہ ”شریعت بل نہیں نظام ہے اور یہ مارشل لاء کو طول دینے کا بہانہ ہے”۔ حاجی عثمان نے طالب علم مرید کی بات مان لی تھی۔بسااوقات فرماتے کہ ”بھیا! میں تو جاہل ہوں”۔ غلط بات پر ڈٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ میں ریفرینڈم کا مخالف تھا کہ”یہ ان مفتی گدھوںنے فتویٰ دیا”۔ علماء واساتذہ نے کہا کہ ”حاجی عثمان اس گستاخی پر خانقاہ سے نکال دیں گے”۔ میں نے کہا کہ ” کچھ نہیں ہوتا، یہ انکا بھی کام نہیں ”۔کسی سوال پر حاجی محمد عثمان نے کہا ” فتویٰ پرنہ جاؤ،جنرل ضیاء کو 8 سال تک تم آزما چکے ہو، اگر تمہارا دل مانتا ہے تو ووٹ دو،نہیں مانتا تو نہ دو،اور میرا دل نہیں مانتا ”۔ جمعیت علماء اسلام (ف) کے علماء کو پتہ چلا توبہت خوش ہوگئے کہ پیر حاجی عثمان ان علماء ومفتیان سے دین کو زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔پھر وہ وقت آیا کہ مولانا فضل الرحمن لیبیا سے کراچی آئے۔ علماء و مفتیان جیل میں تھے اور مدارس کے طلبہ کو استقبال کیلئے ائیرپورٹ بھیجا تھا۔ درخواستیکی جمعیت ف سے الگ تھی ۔ اس وقت میںانوار القرآن آدم ٹاؤن نیو کراچی درخواستی کے مدرسہ میں تھا۔ مزدا گاڑی طلبہ کو استقبال میں لیجانے کیلئے ملی تھی ۔ مولانا فضل الرحمن کے ٹرک پرمیری ذمہ داری تھی۔ درجہ اولیٰ سے موقوف علیہ تک نصاب کے مقابلے میں تائید ملی۔ اساتذہ فرماتے کہ” عتیق امام ابوحنیفہ وا مام مالک کی طرح ہوگا”۔ مولانا شیرانی نے کہا کہ ” آپ نصاب بنالو، مدارس میں وہی پڑھایا جائیگا۔ علماء کا کباڑ ہ بنادیاہے ”۔مولانا سرفرازخان صفدر نے اپنا مدرسہ مرکز بنانے کا کہا۔ مولانا خان محمد امیر تحفظ ختم نبوت اور مولانا عبداللہ درخواستی نے دعا دی۔ مولانا عبدالکریم بیر شریف امیر جمعیت علماء اسلام، ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر پرنسپل جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی سمیت دیوبندی ، بریلوی، اہل حدیث، اہل تشیع، جماعت اسلامی کے پروفیسر غفور احمد، ڈاکٹرا سرار احمد ،ہفت روزہ تکبیر کراچی کے صلاح الدین،پروفیسر شاہ فریدالحق جمعیت علماء پاکستان، مولانا ایوب جان بنوری ، علامہ طالب جوہری ، علامہ عون نقوی، علامہ حسن ظفر نقوی اور بے شمار ولاتعداد لوگوں نے حمایت کی۔ خاص طور پر ضلعی علماء ٹانک نے بڑی تائید کی۔
بفضل تعالیٰ مدارس کے دل ہمارے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ تبلیغی جماعت کہتی ہے کہ ” اللہ کے حکموں میں کامیابی اور غیروں کے حکموں میں نا کامی کا یقین ہمارے دل میں آجائے”۔ ان کی حلالہ کے نام پرعصمت لوٹی جاتی ہے تو یقین کا ستیاناس ہوجاتا ہے۔ حاجی عثمان دعا کرتے تھے کہ:” ہم چھوٹے ہیں، اللہ تو بڑا ہے، ہم ناپاک ہیں، تو پاک ہے،ہم گمراہ ہیں،تو ہدایت والاہے”۔فرماتے تھے کہ ” اگر اللہ کی بھی پاکی بیان کریں اور خود کو بھی پاک سمجھیں ، اللہ کو بڑا کہیں اور خود کو بھی بڑا سمجھیں ۔اللہ کو ہادی کہیں اور خودکو بھی ہادی سمجھیں تو ہماری محنت کو اللہ قبول نہیں کرے گا۔ ہم بندے ہیں اور بندہ بن کر ہی رہنا پڑے گا”۔
اگر بات اپنی ذات تک ہو تو اپنی بہت ساری خامیاں اور دوسروں کی بہت ساری خوبیاں سامنے آتی ہیں۔ دوسروں کو برا بھلا کہنے کے بجائے خود کو براسمجھتے ہیں مگر جب بات قرآن وسنت اور امت کے اجتماعی مفادات کی آتی ہے تو پھر ایک بڑے بت کے کاندھے پر کلہاڑی رکھ کرسارے توڑ دئیے توبرا نہیں ہوگا۔
مدارس ، خانقاہیںاور تبلیغی جماعت تینوں مذہبی خدمات کے زبردست شعبے ہیں۔ مدارس کی مثال بجلی کی طرح ہے ،جوکارخانے، گھر اور بازار چلاتے ہیں۔ دین کی خدمت کا سب سے بڑا شعبہ بجلی کے محکمہ کی طرح یہی ہے۔ ہم دل سے ان کی قدر کرتے ہیں۔ خانقاہوں کی مثال ہاتھ کی ٹارچ کی طرح ہے جس کا اندر اس کے ظاہر سے زیادہ خوبصورت ہوتا ہے اور اس کی لائٹ بجلی کے بلب کوبھی ماند کردیتی ہے۔ تبلیغی جماعت کی مثال چراغوں کی طرح ہے جو ایک سے دوسرا روشن ہوتا ہے لیکن اندر مٹی کے تیل کی جہالت بھری ہوتی ہے۔ اگر زیتون کا تیل ہو تو پھر بہت خوب ہے۔ اب تبلیغی جماعت دو ٹکڑوں میں تقسیم ہے اور یہ امت کو کیا جوڑے گی؟۔ شیخ الہند ، مولانا الیاس اور مولانا یوسف کی جانشینی تو دور کی بات ہے مولانا انعام الحسن کے راستے سے بھی ہٹ گئے ہیں۔ مدارس کے حالات بھی دگرگوں ہیں اور مشائخ طریقت بھی دنیا کے لش پش میں لگ گئے۔ قرآن وسنت کی طرف رجوع کئے بغیر ہدایت کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ عتیق گیلانی
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
حضرت حاجی محمد عثمان پر لگنے والے فتوے کے ایک ایک نکتے پر زبردست ومدلل جوابات!
حضرت حاجی محمد عثمان پر لگنے والے فتوے کے ایک ایک نکتے پر زبردست ومدلل جوابات!
1:حاجی عثمان اپنے استخارے کو قطعی سمجھتے تھے؟۔2:مرید کے مشاہدے پر حدیث صحیحہ کاانکار کیا؟۔3:مولانا فقیرمحمد نے خلافت سلب کی اوریہ تصوف کے اصولوں کیخلاف ہے؟
اگر اپنا استخارہ قطعی سمجھتے تو مرید کے مشاہدے پر کیوں اعتبار کیا؟۔ یہ دونوں نکات آپس میں متضاد ہیں۔ مولانا فقیر محمد نے دوبار خلافت کیسے دی تھی؟۔ سچ کیوں نہیں بتایا اے دتو جھوٹے !
ایک طرف علماء ومفتیان نے ”الائنس موٹرز” کی وجہ سے حاجی عثمان پر فتوی لگایا تھا اور دوسری طرف سید عبدالقادر جیلانی، شاہ ولی اللہ، علامہ یوسف بنوری اور شیخ الحدیث مولانا زکریا اس کی زد میںآگئے۔ حوالہ دئیے بغیر فتویٰ طلب کیا تو ان اکابر پر کفر ،زندقہ ، قادیانیت کا فتویٰ لگایا، ہفت روزہ تکبیر کراچی کو بھی دیا کہ ” یہ خاص مرید سید عتیق الرحمن گیلانی نے اپنے پیر حاجی عثمان کے بارے میں لیا ”۔ ہفت روزہ تکبیر نے بھی یہاں تک لکھ دیا کہ اس طرح کے عقائد رکھنے والے پیر کی خانقاہ پر حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پرپابندی لگادے۔
جبکہ حوالہ جات کے ساتھ اہل فتویٰ کو اس شعر کیساتھ خبردار کردیا تھا کہ
ہم ضبط کی دہلیز سے اترے تو سمجھ لو پھر شہرِ پراَسرار میں تم چل نہ سکوگے
مفتی رشیداحمد لدھیانوی اور مفتی عبدالرحیم کی جان نکلی تھی کہ اہل شریعت و تصوف دونوں پر ہم نے کس درجہ جہالت کا ثبوت دیکر فتویٰ لگادیا اور عوام کو پتہ چلے تو ہمارا کیا بنے گا؟۔ علماء کو فتویٰ چھاپنے سے روکنے کیلئے دیگر علماء کی خدمات حاصل کی تھیں اور کرایہ کے پالتو دہشت گرد بھی رکھے ہوئے تھے۔
ہمارا ظرف تھا کہ سال کے بعد ہفت روزہ تکبیر کراچی کو حقائق سے آگاہ کیا تو انہوں نے لکھ دیا کہ ”علماء ومفتیان سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو غلط بیانی سے کام لینے کے بجائے کھل کر معذرت کرلیں،اسی میں عزت کا راستہ ہے”۔
ہتک عزت کا دعویٰ کرنے پروکیل کے نوٹس پر مفتی تقی عثمانی نے لکھا کہ ” ہم نے حاجی عثمان پر نام سے کوئی فتویٰ نہیں لگایا ”۔ کسی نے اپنے داماد کے بارے میںالگ الگ فتویٰ طلب کیا۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی نے لکھا کہ ” نکاح بہرحال جائز ہے”۔ دارالعلوم کراچی نے لکھا کہ ” نکاح منعقد ہوجائے گا”۔ مفتی عبدالرحیم نے لکھ دیا کہ ”نکاح جائز نہیں ہے” اور حوالہ کفو کا دیا،حالانکہ کفو کا مسئلہ تو اس وقت ہوتا جب لڑکی ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرتی۔ پھر مفتی عبدالرحیم نے سوال جواب خود مرتب کرکے فتویٰ لکھ دیا جس کی جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے دیگر مفتیان نے تصدیق نہیں کی کیونکہ جائز قرار دے چکے تھے اور فتویٰ ان پر لگ رہا تھا۔ البتہ مفتی ولی حسن ایک مجذوب الحال تھے۔ اسلئے دستخط کردئیے۔ اگر کوئی دوسرا فتویٰ لاتا تو بھی اس نے یہی دستخط کرنے تھے۔ مولانا بدیع الزمان مدرس جامعہ بنوری ٹاؤن مفتی تقی عثمانی کے بھی استاذ تھے۔ فتویٰ کی مخالفت میں میرے کردار پربہت خوش تھے اور ملنے انکے گھر بھی گیا تھا۔
اگر حاجی عثمان پر مکاشفات کی بنیاد پر فتویٰ لگتا تو علماء کا یہ منصب تھا۔پھر ہر فراڈیہ مکاشفہ بیان کرتا اور جاہلوں کی مزید گمراہی کا سبب بنتا۔ ان علماء و مفتیان کا اصل مسئلہ شریعت وتصوف نہ تھا بلکہ الائنس موٹرز میں سرمایہ لگایا تھا۔ الائنس کا اصول یہ تھا کہ ماہانہ منافع میں40فیصد سرمایہ کار اور60فیصد کمپنی کو جاتا اور ایجنٹ کے ذریعے سرمایہ آتا تھا تو38فیصد سرمایہ کار اور2فیصد ایجنٹMDکو ملتا تھا۔ سرمایہ ڈوبنے میں مفتی عبدالرحیم کا کردار تھا۔ اسلئے کہ کمپنی کا اصول یہ تھا کہ ” رقم واپس لینے کیلئے سرمایہ کار ایک ماہ پہلے اطلاع دے گا اور اس کا منافع نہیں ملے گا”۔ مفتی عبدالرحیم نے فتویٰ دیا کہ اطلاعی مدت کمپنی یکطرفہ3ماہ کرسکتی ہے۔پھر فتویٰ دیا کہ ” اطلاعی مدت6ماہ ہے”۔ الائنس موٹرز کو ان فتوؤں کے ذریعے فرار کا موقع ملا اور شریعت کو بالکل ناجائز استعمال کیا گیا تھا۔
___ فتویٰ کے چیدہ نکات اور ان پر تبصرہ ___
1:فتوے میں بیعت وارشاد کی اہلیت کی نفی ہے۔ حالانکہ بہت بڑی تعداد میں مدارس کے علماء اور ان کے اساتذہ کے علاوہ عرب وعجم کے تعلیم یافتہ لوگ بیعت تھے اور ان کی اصلاح وتزکیہ کا سلسلہ مثالی طور پر جاری تھا۔ یہ فتویٰ اصل میں مولانا فقیر محمد اور تھانوی سلسلے کی خلافت کے خلاف ہے جہاں بیعت وارشاد کی تصدیق ایک مرتبہ نہیں بلکہ دوبار کی گئی ۔ ہونا تو یہی چاہیے تھا کہ مولانا فقیرمحمد سے کہہ دیا جاتا کہ آپ نے ورود کی نسبت سے خلافت دیکر گمراہی پھیلائی ہے ۔
2: اگر بیعت کا سلسلہ جاری رکھا تو شدید گمراہی پھیلنے کا خطرہ ہے۔ حالانکہ فتویٰ خدشہ پر نہیں امر واقع پر دیا جاتاہے اور جو دارالعلوم کراچی والے شادی بیاہ میں لفافے کی لین دین پر سود کا فتویٰ بھی لگاتے تھے اور70سے زیادہ گناہوں میں سے کم ازکم گناہ اپنی سگی ماں سے زنا کے برابر قرار دیتے تھے، پھر انہوں نے عالمی بینکاری کے سودی نظام کو اسلامی قرار دیکر کتنی بڑی گمراہی کا ثبوت دیا؟۔ اگر مفتی تقی ورفیع عثمانی اپنے استاذ مولانا عبدالحق فاضل دارالعلوم دیوبند اور مولانا اشفاق احمد قاسمی کی طرح حاجی عثمان سے بیعت ہوتے تو کئی علتوں سے بچ جاتے۔ مفتی محمود کی چائے سے انکار نہ کرتے۔ جب یہ کہہ دیا کہ حضرت ہمارے ساتھ یہ (پان کا بٹوہ دکھاکر) علت لگی ہے اورجواب میں مفتی محمود نے کہا کہ ”یہ توچائے سے بھی بدتر ہے”۔ اسکے باوجود اصرار کرکے پان نہ کھلاتے اور نہ حکیم تھا اور نہ دورہ قلب کا مریض لیکن مفتی رفیع عثمانی نے دورہ ٔ قلب کی گولی مفتی محمود کے حلق میں ڈال دی۔ حاجی عثمان سے بیعت کا شرف حاصل ہوتا تو یہ حرکتیں نہ کرتے ۔نہ اپنی تحریر میں چھپاتے اور مولانا یوسف لدھیانوی کے لکھنے پر ڈانٹ نہ پلاتے ۔ جھوٹ نہیں بولتے کہ مفتی محمود سے بے تکلفی تھی اور وہ بھیا کہہ کر پان مانگ کر کھاتے تھے۔ مفتی شفیع نے فتنہ اولاد کیلئے دارالعلوم کی وقف زمین میں مکانات خریدے اور مفتی تقی عثمانی نے استاذ کو اسکے خلاف فتویٰ دینے پر ماراپیٹا ۔ مکان واپس کرتے اور مفتی رشیداحمد لدھیانوی سے اعلانیہ معافی مانگتے۔ ڈاکٹر عبدالحی سے جنرل ضیاء کے بیٹے ڈاکٹر انوارالحق کا نکاح قادیانی جنرل رحیم کی قادیانی بیٹی سے نہ پڑھواتے۔ جنرل ضیاء الحق کو غلط فتویٰ دے کر اسلام کے نام پر ریفرینڈم نہ لڑواتے۔ اپنے فتاویٰ عثمانی میں گمراہ کن فتوے شائع نہ کرتے اور نہ لوگوں کو گمراہ کرتے۔ سودی نظام کیلئے علماء حق کا بھی مقابلہ کرنے تک پھر نوبت نہ پہنچتی۔ حاجی محمد عثمان سے عقیدت ومحبت کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے ہم سے رشد وہدایت کا وہ کام لیا ہے جس کو دنیا مانتی ہے۔
3: آپ کے بعض معتقدات اہل حق کے معتقدات کے خلاف ہیں ۔
1: اپنی تحقیق یا استخارہ کو بالکل قطعی اور یقینی سمجھنا۔
2: ایک خلیفہ کے مشاہدے کی بنیاد پر ایک صحیح حدیث کا انکار کرنا۔
اس سلسلے میں20نکات لکھ دی ہیں جن میں تضادات اور بار بار ایک ہی بات پر زور دیا گیا ہے کہ آپ میں اہلیت نہیں ، گمراہ ہیں اوراپنی اصلاح کریں۔ حالانکہ گمراہی الگ اور اصلاح الگ چیز ہے۔ گمراہی کی ضد ہدایت اور بدعملی کی ضداصلاح ہے۔ اگر عورت کو حلالہ کی ضرورت نہیں مگر حلالہ کا فتویٰ دیا جاتاہے تو یہ گمراہی ہے اور حلالہ لعنت ہے۔ کوئی حلالہ کو پیشہ بناتا ہے تو اس کو توبہ اوراصلاح کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر حاجی عثمان کے ہاتھ پر بیعت کرلیتے تو حلالہ کی لعنت سے توبہ کرکے اصلاح حاصل کرلیتے اورپھر آج ہماری علمی رہنمائی سے حلالہ کے غلط فتوؤں کو چھوڑ کر رشد وہدایت کے راستے پر لگ جاتے۔
اگر حاجی عثمان اپنی تحقیق یا استخارے کو قطعی سمجھتے تو پھرخلیفہ کے مشاہدے کی بنیاد پر رائے قائم کرنے کی کیا ضرورت تھی؟۔ ان پہلی دونوں باتوں میں بڑا تضاد موجود ہے۔ جواپنی تحقیق یا استخارہ کو قطعی سمجھتا ہو تو وہ خلیفہ کے مشاہدے پر رائے کیوں قائم کرے گا؟۔ دونوں باتوںمیں کوئی ایک بات ہی ہوسکتی ہے۔
حاجی عثمان شریعت کے معاملہ میں بہت پابند تھے۔ مسئلے مسائل میں علماء کا فتویٰ ضروری سمجھتے تھے۔ مشاہدے ، مکاشفے اور خواب کے بارے میں کہتے تھے کہ شیطانی بھی ہوسکتے ہیں۔ فرماتے تھے کہ شیطان کے ایک لاکھ نورانی حجابات ہیں جن میں بندوں اور بڑے بڑے اللہ والوں پر نیکی کی شکل میں وار کرتا ہے۔
انبیاء کرام اور رسول اللہۖ گناہوں اور لغزشوں سے پاک ہیں۔ حضرت عائشہ نے نبی ۖ سے عرض کیا کہ ” اللہ نے آپکے اگلے پچھلے گناہ معاف کئے ” گناہ کے الفاظ پر حاجی عثمان نے خلیفہ سے کہا کہ ”حدیث کا پوچھ لو”۔ اسلئے کہ وہ مکاشفات بیان کرتا رہتا تھا۔ اس نے بتایا کہ ” نبی ۖ نے فرمایا حدیث صحیح ہے مگر الفاظ میں ردو بدل ہے”۔ مولانا عبدالستار رحمانی ڈیرہ غازی خان والے نے کہا کہ ” یہ الفاظ قرآن میں ہیں”تاکہ اللہ آپ کے اگلے پچھلے گناہ معاف کردے”۔ اس وقت میں موجود تھا اور مشکوٰة شریف میں یہ حدیث پڑھی تھی اور اس کی توجیہات بھی مولانا انیس الرحمن درخواستی شہید نے بیان کی تھیں۔ جن کا تفصیل سے مجلس میں ذکر کیا۔ مولانا شہید نے فتوؤں کے بعد حاجی عثمان سے بیعت کی اور ان کے بڑے بھائی مفتی حبیب الرحمن درخواستی نے حاجی عثمان کے حق میں فتوے بھی لکھے ۔ پہلی بات یہ ہے کہ الائنس موٹرزوالوں نے ایک چال کھیلنے کی کوشش کی تھی اور بروقت ناکام بھی ہوئے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ قرآن کے اس ترجمہ پر بڑا اختلاف ہے۔ جس کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ نصاب کی کتابوں میں غلط بنیاد پر صحیح حدیث کا انکار کیا جاتا ہے تو اس گمراہی کو روکنا ضروری ہے۔ چوتھی بات یہ ہے کہ الحمدللہ حاجی عثمان کے استخارے کی برکت سے صحیح حدیث کے انکار کا دروازہ بند ہونے کی سبیل پیدا ہوگئی لیکن آپ ا ستخارہ کو قطعی نہ سمجھتے تھے۔کمال کی بات یہ ہے کہ جس طرح مولانا فقیر محمد نے بار بار ورود کی نسبت سے خلافت کی پیشکش کی اور پھر مسلسل انکار ہی کرتے رہے اور پھر مسجد نبوی ۖ میں رمضان لیلة القدر کو ورود کی انتہاء ہوگئی ۔ پھر آپ کو بھی اجازت مل گئی اور تحریری شکل میں لکھ کر دینے کا کہا۔ اس تحریر میں جو جملے اور الفاظ ہیں وہ بڑے کمال کے ہیں۔ مولانا فقیر محمد نے اپنے مرشد مولانا اشرف علی تھانوی کے نہیں بلکہ ان کے مرشد حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے مشابہ لکھ دیا ہے۔ پھر خلافت کو کسی کے مشورے سے واپس لینے کا اعلان اور پھر خلافت کو دائم اور قائم قرار دینے کی بات آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ علماء ومفتیان کی اپنی شریعت سے اس میں قلابازیاں بھی ایک زبردست اور واضح ثبوت ہیں کہ مخالفین کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق تھے؟۔ مولانا یوسف لدھیانوی معتقد تھے لیکن ان کی طرف جھوٹا خط لکھ کر منسوب کیا گیا تھا۔
سب سے بڑی بات یہ ہے کہ قرآن کے ترجمہ میں گستاخانہ الفاظ یا تحریف کی ایک بڑی بحث فرقہ وارانہ بنیادوں پر موجود ہے۔ نبیۖ کی طرف گناہ کی نسبت کے مفہوم سمجھنے کیلئے قرآنی آیات کے سیاق وسباق کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ کیا یہ ہوسکتا ہے کہ ” کسی سے کہا جائے کہ میں فتح مبین کا انعام اسلئے دے رہا ہوں کہ تیرے گناہ معاف ہوجائیں”۔ اس کیلئے تو مصیبت کھڑی ہونے کا لفظ ہونا چاہیے کہ اس آزمائش میں اسلئے مبتلا ء کررہا ہوں کہ تیرے گناہ معاف ہوجائیں۔ آیت میں ذنب کا معنی گناہ نہیں بلکہ بوجھ ہے اور اس بوجھ کا اللہ نے فرمایا کہ ”ہم نے وہ بوجھ اٹھالیا جس نے آپ کی کمر دوہری کردی تھی” توڑنے کا لفظ مناسب نہیں توگناہ کا لفظ کیسے مناسب ہوگا۔ حاجی عثمان کا خلیفہ مشاہدات دیکھتا اور مولانا فقیر محمد نے بھی ورود کا تحریری بیان دیا۔ وہ دونوں اچھے قرار پائے اور حاجی عثمان پر فتوے لگے کیونکہ آپ کو ہدف بنانے کا بھاڑہ وصول کیا گیا تھا۔ مشاہدات میں تو بڑے بڑے علماء حضرات بھی شامل تھے تو ان کا کیا بنتا؟۔
اصل بات یہ تھی کہ مولانا مسعودالدین عثمانی نے ”توحید خالص” کتاب لکھ کر علامہ بنوری سے اسلاف تک سب کو مشرک قرار دیا تھا۔ علماء ومفتیان جواب دینے کے بجائے اپنی دُموں سے اپنے لتھڑے ہوئے چوتڑ صاف کرتے پھر رہے تھے۔حاجی عثمان کی خانقاہ کو اللہ نے اسلاف سے عقیدت قائم رکھنے کا بڑا وسیلہ بنالیا لیکن فتویٰ فروشان اسلام نے اہل حق پر فتوے لگانے والوں کی تاریخ زندہ کردی کہ کیسے دنیاوی مفادات کیلئے آنکھیں بند کرکے بلعم بن باعوراء کتے کا کردار ادا کیا جاتا ہے؟۔ آج بھی علماء سوء اور علماء حق کا کردار بالکل واضح ہے۔
حاجی عثماننے فرمایا: ” یہ رشتہ مقدر میں ہے۔ اللہ والے لوح محفوظ کو پڑھ لیتے ہیں”۔میں نے بات نہیں مانی۔مجھے استخارہ کرنے کا کہا میں نے استخارے سے بھی انکار کیا اور ایک ساتھی عارف بھوجانی نے کہا کہ حضرت نے استخارہ کیا ہے تو اس پر میں بہت شدید غصہ ہوا کہ تمہارا کیا کام ہے،پھر وقت آیا کہ تقدیر کی بات حاجی عثمان کی وفات کے بعد غیرمتوقع انداز میںپوری ہوئی۔پہلی وحی کی حدیث اقراء اور ماانا بقاری پر منکرینِ حدیث نے اتنے جاندار اعتراض کئے کہ اہلحدیث اور حنفی بھی اس کا انکار کرنے لگے۔ مگر حاجی عثمان کے استخارہ سے یہ رہنمائی مل گئی کہ ”حدیث میں لوح محفوظ کا دل سے پڑھنا مراد ہے”۔ جس پر جاندار اعتراض بالکل ٹھس ہوجاتا ہے۔ اللہ نے فرمایا: ” اندھا دل کا اندھاہے” اور انہی کیلئے فرمایا کہ ” جو اس دنیا میں اندھا ہے وہ آخرت میں بھی اندھا ہے”۔ دنیاوی مفادات قرآن کی موٹی موٹی باتوں کو سمجھنے سے بھی اندھا کردیتے ہیں۔
”جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اسکانکاح باطل ہے، باطل ہے ، باطل ہے”۔ یہ حدیث قرآن سے متضاد نہیں، طلاق شدہ عورت کا ولی نہیں ہوتا۔ بیوہ کو واضح الفاظ میں قرآن نے اختیار کامالک کہا۔ جعلی عربی نسل عثمانی اچھوت کی لڑکی کیلئے الگ فتویٰ ہو۔ درخواستی ، لاہوری اور سندھی کے علاوہ مولانا فضل الرحمن اور طالبان کی لڑکیوں کیلئے الگ فتوی ہو۔ اس کو تسلیم کرنا سرائیکی، پشتون، پنجابی، بلوچ، سندھی اور مہاجروں کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔فوج کے غیرتمند جرنیلوں ، علماء حق اور عوام الناس کو اس کا نوٹس لینا ہوگا۔ سیدعتیق گیلانی
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
عورت کی حق تلفی اور انتہائی بے غیرتی کا مثالی فتویٰ۔ عورت کے حقوق کیلئے کھڑے ہوں
عورت کی حق تلفی اور انتہائی بے غیرتی کا مثالی فتویٰ۔ عورت کے حقوق کیلئے کھڑے ہوں
___باپ کا کیا ہوا نکاح فسخ نہیں کیا جاسکتا___
سوال :۔ رحیم بخش نے اپنی حقیقی لڑکی کا نکاح بحالت نابالغی بعمر9،10سال کے خوشی و رضا مندی کیساتھ کردیا ، کچھ عرصہ بعد شیرمحمد باہر چلا گیا اور عدم الخبرہوا۔ عرصہ چار پانچ سال بعد لڑکی کے باپ نے عدالت میں تنسیخ نکاح کا دعویٰ دائر کیا۔ مقدمہ سات آٹھ ماہ چلتا رہا، عدالت نے شیرمحمد کے وارثوں کو حکم دیا کہ تین ماہ کے اندر اندر حاضر کریں، ورنہ حکم تنسیخ کردیا جائیگا، چنانچہ اس قلیل وقت میں لڑکے کو عدالت میں حاضر نہ کیا جاسکا تو عدالت نے تنسیخ نکاح کا حکم دے دیا۔ تنسیخ سے قبل عدالت نے سرکاری طور پر شیرمحمد کو تلاش نہیں کیا، نہ تو عدالت نے کوئی نوٹس دیا اور نہ اعلان یا اخبار میں اشتہار دیا، تنسیخ کے بعد دوسری شادی کی اجازت دیدی گئی۔ چنانچہ بعد تین ماہ عدت گزارنے کے لڑکی کے باپ نے اس کی شادی ایک اور شخص محمد شفیع سے کردی ، نکاح کے دو تین ماہ بعد شیرمحمد آگیا اور اس نے اپنی بیوی کا مطالبہ کیا مگر لڑکی کے والد نے انکار کردیا اور کہا کہ لڑکی دوسرے شخص محمد شفیع کے گھر میں رہے گی، کیونکہ عدالت نے نکاح ثانی کی اجازت دے دی ہے اور اب تک بضد قائم ہے۔ لہٰذا اب صورت مذکورہ میں کیا نکاحِ اول منسوخ ہوگیا یا نہیں؟۔
جواب :۔ اس سوال کیساتھ عدالت کا جو فیصلہ منسلک تھا،اس میں فسخِ نکاح خیار بلوغ کی بناء پر کیا گیا ہے ، جس پر تنقیحات کی گئیں، ان تنقیحات کے بعد مندرجہ ذیل اُمور ثابت ہوئے۔1:لڑکی کا نکاح خود باپ نے کیا تھا ۔2:لڑکی نے آثار بلوغ ظاہر ہوتے وقت نکاح نامنظور کرنے کیلئے کوئی اقدام نہیں کیا۔
لہٰذا اولاً تو یہ نکاح چونکہ باپ کا کیا ہوا ہے (اور اس کے سیئی الاختیار ہونے کا دعویٰ لڑکی نہیں کرتی) اسلئے اس میں لڑکی کو خیارِ بلوغ سرے سے حاصل ہی نہیں ہے، کما ھو مصرح فی سائر کتب الفقہ ، دوسرے اگرحاصل ہوتا تب بھی لڑکی نے خیارِ بلوغ کے حق کو استعمال کرنے کا وقت گزار دیا، لہٰذا شرعاً خیارِ بلوغ کی بناء پرعدالت کو نکاح فسخ کرنے کا اختیار نہیں تھا اور شریعت کی رو سے اس کا فسخِ نکاح صحیح نہ ہوا ، لہٰذا محمد شفیع سے اس کا نکاح باطل وکالعدم ہے اور اصل خاوند شیرمحمد بدستور لڑکی کا شوہر ہے۔البتہ اگر محمد شفیع لڑکی کیساتھ صحبت کرچکا ہو تو جب تک تین حیض نہ آجائیں شیر محمد کیلئے اس سے صحبت کرنا جائز نہیں ۔واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم احقر محمد تقی عثمانی ٤/٢/١٣٨٨ھ (فتویٰ نمبر٢١٢/١٩ الف ) الجواب صحیح بندہ محمد شفیع عفااللہ عنہ
فتاویٰ عثمانی جلد دوم صفحہ282۔283
سوال اور اس کا جواب دارالعلوم کراچی والوں نے خود مرتب کیا ہے اور اس میں کمالِ فن دکھانے کا بھی مظاہرہ کیا ہے لیکن اس سب کے باوجود جب شوہر مفقود الخبرتھا تو اصل فتویٰ یہ بنتا تھا کہ4سال انتظار کے بعد مولانا اشرف علی تھانوی اور برصغیر پاک وہند کے حنفی علماء ومفتیان کا فتویٰ یہ تھا کہ نکاح فسخ ہوچکا ہے اور4ماہ10دن کی عدت گزارنے کے بعد وہ لڑکی شادی کرسکتی تھی۔ طلاق کی عدت بھی تین ماہ نہیں بنتی تھی اس لئے کہ لڑکی کی رخصتی نہیں ہوئی تھی۔ عدالت سے منسوخ نکاح کروانے اور اتنی مدت گزارنے کے بعد اگر رخصتی ہوچکی ہوتی اور عورت بچوں کی ماں بھی ہوتی تب بھی اس کو دوسری جگہ نکاح کرنے کا حق تھا اور اس پر یہ فتویٰ لگانا کہ نکاح نہیں ہوا ہے اور یہ تعلق بھی جائز نہیں تھا ،انتہائی افسوس کی بات ہے۔ محمد شفیع کوئی بہت غریب بندہ ہوگا اور اس کا باپ بھی بے بس ہوگا اور شیرمحمد کوئی امیر ہوگا اور اس نے پیسہ بھی ان فتویٰ فروشوں کو دیا ہوگا۔ ان لوگوں نے دین اور فتوے کو کاروبار بنالیا ہے۔ انفرادی فتوے بھی ان کے بہت متضاد ہیں۔ ایک فتویٰ لکھ دیا کہ شیعہ سے سنی لڑکی کا نکاح جائز نہیں اور دوسرا لکھ دیا ہے کہ جائز ہے مگر مناسب نہیں ۔
جب حاجی عثمان پر انہوں نے فتویٰ لگایا تھا تو مولانا فضل الرحمن نے کہا تھا کہ یہ پیر کوئی اچھا آدمی ہوگا اور ان مفتیوں نے اس پر1970 عیسوی کے فتوے کی طرح مال کمایا ہوگا۔ دارالعلوم کراچی نے اس وقت بھی یہ کھیل ایسا کھیلا تھا کہ الاستفتاء میں لکھ دیا تھا کہ ” خلیفہ اول کہتا ہے کہ مجھے پیر بار بار مجبور کرتا تھا کہ تم نبیۖ کو دیکھتے ہو یا نہیں؟”۔ حالانکہ ایسا عملاً نہیں ہوسکتا ہے کہ پیر خود تو نبی ۖ کو نہیں دیکھتا ہو لیکن مرید سے کہے کہ تم نے دیکھا ہے یا نہیں؟۔ اور زبردستی دیکھنے پر مجبور کرتا ہو۔ اگرایک خلیفہ ہوتا تو پھر بات ہوتی یہاں تو علماء ومفتیان ، بہت سارے خلفاء ،تبلیغی جماعت میں چار ماہ لگانے والوں کی ایک بہت بڑی فہرست تھی اور عام ہزاروں کی تعداد میں مکاشفات دیکھنے والے ان کے علاوہ تھے جن میں اہلحدیث بھی شامل تھے۔
دارالعلوم کراچی نے حاجی عثمان سے مطالبہ کیا کہ اگر آپ نہیں آئے تو ہم یک طرفہ فتویٰ دیں گے اور پھر وہ فتویٰ جس پر کوئی یقین نہیں کرتا شائع کردیا اور علماء ومفتیان بکاؤ مال نے کہنا شروع کیا کہ ہم نے حاجی عثمان سے تفتیش کے بعد فتویٰ دیا اور یہ نہیں بتایا کہ خلیفہ اول کے علاوہ جن علماء اور دیگر لوگوں نے مشاہدات دیکھے تھے تو وہ تمہاری بیویوں ، ماؤں اور بیٹیوں کے پاس چرنے گئے، چڑھنے گئے یا کیا کرنے گئے؟۔ ایک پر تو زبردستی کی لیکن دوسروں کا کیا بنے گا کالیا؟۔ ہم فوجی حکام ، مقتدر، علماء حق اور عوام الناس سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان غلیظ علماء ومفتیان کا راستہ روکنے کیلئے بندوبست کرنا چاہیے ۔ہماراذاتی معاملہ تو ایک بہانہ ہے لیکن ہمارا اصل نشانہ غریب وبے بس لوگوں کو حلالہ ، سود ، حلال نکاح کو حرام قرار دینے ، جھوٹ ، فریب اور فتویٰ فروشی کی لعنتوںسے بچانا ہے اور بس!۔ہم پر حرامکاری اور اولاد الزنا کا غلط فتویٰ بہت مہنگا پڑاہے۔
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
قرآنی آیات و احادیث صحیحہ کے مطابق ان افراد کا نکاح بلاشبہ درست تھا حلالہ کی ضرورت نہ تھی
قرآنی آیات و احادیث صحیحہ کے مطابق ان افراد کا نکاح بلاشبہ درست تھا حلالہ کی ضرورت نہ تھی
اللہ تعالیٰ نے رجوع کا تعلق طلاق کی تعداد سے نہیں بلکہ عدت کیساتھ باہمی صلح واصلاح سے جوڑا ہے جو اتنا واضح ہے کہ سود خور مفتی تقی عثمانی اورمفتی عبدالرؤف سکھروی جیسوں کو بھی نظرآسکتا ہے
سندھ کی ایک بیٹی کیلئے محمد بن قاسم اس پورے خطے کو فتح کرسکتا ہے لیکن کیا ہماری فوج، ہمارے حکمران اور علماء ومفتیان اپنی خواتین کی عزتوں کو بچانے کیلئے کچھ نہیں کرسکتے ؟
محمود شوکت اور فرحت کو ساڑھے چار سال کے بعدشک کی بنیاد پر حلالے کا فتویٰ دیا گیا، اس دوران اولاد بھی پیدا ہوئی ہوگی۔ سوال میں بیگم کا نام نہیں لیکن جواب میں ہے،دیدار بھی کیا ہوگا۔ اگر قرآنی آیات سے اُمت کو دور نہ رکھا جاتا تو سورہ ٔ طلاق کی پہلی آیت بھی رہنمائی کیلئے کافی تھی۔علماء میں یہ صلاحیت بھی نہیںکہ اس کا ترجمہ کرسکیں۔ اللہ نے فرمایا” جب تم عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت تک کیلئے طلاق دو”۔ طلاق کوئی ٹوپی اور دوپٹہ نہیں کہ مخصوص وقت کیلئے دی جائے۔ علماء کے نزدیک عورت کی عدت تین حیض ہیں۔ یہ تو نہیں ہوسکتا کہ عورت کو حیض کیلئے طلاق دی جائے۔ حیض میں تو ویسے بھی مقاربت نہیں۔ عورت کی طہارت کے دنوں کو علماء نے عدت الرجال یعنی مردوں کی عدت قرار دیا ۔ جس میں مرد طلاق دیتے ہیں۔ جبکہ اللہ نے عورتوں کی عدت کیلئے طلاق دینے کی وضاحت کردی تو علماء کے پاس اس کا جواب تک نہیں۔
بیوی کوچھوڑ نا طلاق ہے اللہ نے فرمایا: ” جب تم عورتوں کو چھوڑنا چاہو تو عدت تک کیلئے ان کو چھوڑ و”۔ پھر فرمایا: ” ان کوانکے گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ خود نکلیں مگر جب کھلی فحاشی کریں”۔ وجہ یہ بتائی کہ ” ہوسکتا ہے کہ اللہ نئی صورت پیدا کردے”۔ یعنی عدت میں دونوں آپس میں اکٹھے رہنے پر راضی ہوجائیں۔ اگر ہم مان لیں کہ اللہ نے حکم دیا کہ”عدت کیلئے طلاق دو” سے مراد یہ ہے کہ” پہلے طہر میں پہلی طلاق ، دوسرے طہر میں دوسری طلاق اور تیسرے طہر میں تیسری طلاق”۔ تو پھر اگر ایسا کربھی لیا تو اللہ نے اگلی آیت2سورہ ٔ طلاق میں فرمایا: ”جب وہ عورتیں اپنی عدت پوری کرچکیں تو معروف طریقے سے ان کو روک لو یا معروف طریقے سے الگ کردو۔ اور اس پر اپنے میں سے دو عادل گواہ بھی بنالو۔ اللہ کیلئے گواہی قائم کیا کرو۔ اور جو اللہ سے ڈرا تو اس کیلئے پھر بھی (اس مشکل ) صورت سے نکلنے کا راستہ بنادے گا”۔ (آیت2سورۂ طلاق )
آیات میں یہ بالکل واضح ہے کہ اگر مرحلہ وار تین مرتبہ طلاق کے بعد عدت کے اندر رجوع نہیں کیا اور پھر عدت کی تکمیل کے بعد آپس کی رضامندی سے رجوع کرلیا تو بھی ٹھیک ہے اور اگر چھوڑنے کا فیصلہ کیا تواس پر دو عادل گواہ مقرر کریں ، تاکہ طلاق کی صورت میں عورت کو مالی حقوق سے محروم نہ کیا جائے۔ پھر بھی اللہ نے واضح کیا ہے کہ اگر کوئی اللہ کا خوف رکھے گا تو اللہ اس کیلئے اس مشکل سے نکلنے کا راستہ نکال دے گا۔
رکانہ کے والد نے رکانہ کی ماں کو تین طلاقیں دیں، دوسری عورت سے شادی کی،اس نے اسکے نامرد ہونے کاکہا تو نبی ۖ نے فرمایا کہ اسکے بچے اسکے مشابہ ہیںاور اس کو چھوڑنے کا حکم دیا اور فرمایا : ام رکانہ سے رجوع کرلو؟ ۔ عرض کیاگیا کہ وہ تو تین طلاق دے چکا۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا : مجھے علم ہے اور سورۂ طلاق کی آیات تلاوت فرمائی۔ (ابوداؤد شریف) رکانہکے والد نے سورہ ٔ طلاق کے مطابق مرحلہ وار تین طلاق دی تھیں۔ آخر میں دو عادل گواہ بناکر عورت کے حقوق کی پاسداری کی تھی اسلئے اللہ نے راستہ بنادیا۔
مفتی محمد شفیع جیسے لوگ مدرسہ کے وقف مال میں اپنے بیٹوں کیلئے ناجائز مکانات خریدتے ہیں تو جب وہ تین طلاق اپنی بیگمات کو دیتے ہیں تو فقہ کی کتابوں سے حلالہ کی تجویز کے بغیر چارۂ کار نہیں پاتے ہیں۔وہ اپنے معتقدین کے ساتھ بھی حلالہ کی لعنت کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ مفتی تقی عثمانی نے سود کیلئے تمام شبہات اور دلائل کو مسترد کرتے ہوئے حلال قرار دے دیا لیکن لوگوں کی عصمت کو بچانے کیلئے کھلی آیات نہیں دیکھتا۔
جب محمود شوکت اور فرحت نے صلح کی شرط پر عدت میں رجوع کرلیا تویہ درست تھا۔ سورۂ طلاق کے علاوہ سورۂ بقرہ آیت228میں بھی اللہ نے واضح کیا ہے کہ وبعولتھن احق بردھن فی ذٰلک ان ارادوا اصلاحًا ” اور ان کے شوہر اس عدت میں ان کو اصلاح کی شرط پر لوٹانے کے زیادہ حقدار ہیں”۔
اس آیت میں ایک ساتھ تین طلاق کے بعد حلالہ کے غلط مذہب اور جہالت سے بھی امت مسلمہ کی اللہ نے جان چھڑائی ہے اور طلاق رجعی کے غلط تصور سے بھی جان چھڑائی ہے اسلئے کہ رجوع کو عدت میں صلح کیساتھ مشروط کردیا۔ صلح کیساتھ عدت میں اکٹھی تین طلاق ہو یا پھر مرحلہ وار تین طلاق ہو رجوع کا حکم واضح کردیا ہے۔ علماء بنی اسرائیل کی طرح ہمارے علماء ومشائخ نے بھی گدھوں کا کردار ادا کرنا تھا۔ اسلئے کہ صحیح حدیث میں اس کی وضاحت ہے اور ان گدھوں سے امت کو بچانے کیلئے رجوع کا مسئلہ واضح کیا۔
سورہ بقرہ آیت229میں مزید واضح کردیا کہ ” طلاق دو مرتبہ ہے ۔پھر معروف طریقے سے روکناہے یا احسان کیساتھ چھوڑ دینا ہے”۔ جس طرح تین دن میں تین روزوں کا تصور واضح ہے کہ دن کو روزہ رکھا جاتا ہے اور درمیان میںرات کا وقفہ آتا ہے۔ اسی طرح آیت228البقرہ میں عدت کے تین مراحل کو واضح کیا ہے اور آیت229میں مرحلہ وار تین طلاق کا ذکر ہے۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ ” احسان کیساتھ چھوڑ دینا ہی تیسری طلاق ہے جس کا ذکر229البقرہ میں ہے۔ پھر آیت229کے آخر میں اس صورت کا ذکر ہے کہ جب عدت بھی پوری ہوجائے، عورت کو اس کے مالی حقوق بھی دئیے جائیں اور دونوں اور صلح کرانے والے فیصلہ کرلیں کہ آئندہ ان دونوں میں رابطے کا کوئی ذریعہ بھی نہ چھوڑا جائے۔ اسی صورت کے بعد آیت230البقرہ کا معاملہ ہے۔ لیکن اگر عدت کی تکمیل کے بعد بھی صلح کرنا چاہتے ہوں تو آیات231اور232البقرہ میں پھر بھی عدت کے فوراً بعد رجوع اور کافی عرصہ بعد بھی آپس کے نکاح سے نہ روکنے کے احکام واضح ہیں۔
احادیث صحیحہ، صحابہ کے فتوے اور فیصلے قرآن کے عین مطابق تھے۔ صلح کی شرط پر رجوع کا انکار نہیں کیا جاسکتاتھا۔ فقہاء اس فضول بحث میں لگ گئے کہ اکٹھی تین طلاق واقع ہوتی ہیں؟، بدعت ہے؟ یا سنت؟۔
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
طلاق کی تعداد میں شک ہو تو کیا حکم ہے؟۔حلالہ کی لعنت پر زور کیلئے کیسے حدیں پار کردیں؟
طلاق کی تعداد میں شک ہو تو کیا حکم ہے؟۔حلالہ کی لعنت پر زور کیلئے کیسے حدیں پار کردیں؟
سوال:قریباً ساڑھے4سال میں (محمود شوکت ) میری بیوی اور بیٹی عمر6ماہ کے ہمراہ اپنے سسرال میں قیام پذیر تھا۔ میرا اپنا گھر پنجاب میں ہے، یہاں کراچی میں رہنے کی وجہ سے مجھے گیس ٹربل کی تکلیف تھی ۔ایک روز شدید تکلیف کا دورہ ہوا ، چھوٹی سالی سے تکرار کر بیٹھا، اس کی باتوں کو اپنی توہین سمجھتے ہوئے بیوی سے الجھا، اس سے پیشتر بیوی سے تعلقات اچھے تھے، کوئی جھگڑا نہ تھا، لیکن اس وقت شدید غصے میں اور مرض کی تکلیف میں مبتلا ہوتے ہوئے نادانی میں تحریراً طلاق لکھ دی، یہ عمل صرف سسرال پر دباؤ ڈالنے کیلئے تھا، اسلئے مجھے طلاق کی تعداد کا کامل یقین نہیں کہ کتنی دفعہ دی ۔ دوسرے روز اپنی حرکت پر اس قدر پریشان ہوا اور اپنے سسر سے اپنی پشیمانی کا ذکر کیا،بیوی سے معافی مانگی، اس کو اپنے ہمراہ پنجاب چلنے پر آمادہ کیا ، میرے بار بار اصرار پر میری بیوی نے مجھے معاف کردیا، چونکہ اپنی بیوی سے تعلقات ختم کرنے پر آمادہ نہیں تھا اسلئے بیوی و بیٹی کو لیکر اپنے بھائی کے گھر چلا گیا اور لیٹر بھی (طلاق نامہ) پھاڑ دیا، اس واقعے کے چوتھے روز میں خود مفتی محمد شفیع مرحوم کی قیام گاہ پہنچا ،انہوں نے تعداد کے یقین کے بارے میں پوچھا لیکن میں خود بھی تعداد کے بارے میں یقین نہیں رکھتا تھا اور اسی دن اپنی بیوی اور بچی کو لیکر پنجاب چلا گیا۔
آج واقعے کو گزرے تقریباً ساڑھے4سا ل گزر چکے لیکن سسر صاحب مطمئن نہیں ہوئے، انہوں نے مجھ سے اور اپنی بیٹی سے تعلقات منقطع کرلئے۔ یہ حالات ہمارے خاندان کی رسوائی کا موجب ہیں، ہمارے حالات اور میری نیت کو دیکھتے ہوئے شرعی فیصلہ دیں تاکہ ہم آئندہ زندگی سکون سے گزار سکیں ۔ نہ ہی میری بیوی کو تعداد کا یقین ہے کہ کتنی مرتبہ لکھی ہیں ، دو دفعہ یا تین دفعہ ۔
جواب:۔ صورت مسئولہ میں محمود شوکت اور فرحت دونوں کو پوری احتیاط اور غور وفکر کیساتھ یاد کرنا چاہیے کہ کتنی بار طلاقیں لکھی تھیں؟ جو دوسرے لوگ موجود تھے یا انہوں نے تحریر پڑھی تھی تو ان سے بھی تحقیق کرنی چاہیے، اگر خود یاد آجائے یا پڑھنے والے کے بیان سے گمان غالب ہو کہ تین طلاقیں دی تھیں تو فرحت شوہر پر حرام ہوگئی ، تین طلاقیں واقع ہوگئیں اور حلالہ کے بغیر دونوں کے درمیان دوسرا نکاح نہیں ہوسکتا، دونوں پر فرض ہے کہ فوراً ایکدوسرے سے علیحدگی اختیار کرلیں اور جتنا عرصہ طلاق کے بعد ساتھ گزرا ،اس پر توبہ واستغفار کریں، لیکن اگر غور وفکر اور تحقیق کے بعدیاد نہ آئے کہ کتنی طلاقیں لکھی تھیں اور نہ کسی طرف گمان غالب ہو تو صورت مسئولہ کا حکم یہ ہے کہ محمود شوکت کی بیوی پر دو طلاق رجعی واقع ہوگئی ہیں اور چونکہ محمود شوکت نے عملاًاس سے رجوع کرلیا ۔ اسلئے فرحت بدستور اسکی بیوی ہے ، البتہ اب محمود شوکت کو صرف1طلاق کا اختیار باقی ہے۔ یعنی اب وہ اگر ایک طلاق بھی دے گاخواہ غصہ میں دے یا مذاق میں دے تو اس کی بیوی اس پر حرام ہوجائے گی اور حلالہ کے بغیر حلال نہیں ہوگی۔
مذکورہ صورت میں اگرچہ محمود شوکت کو اپنی بیوی کو رکھنے کا اختیار ہے لیکن چونکہ حلال وحرام کامعاملہ نازک ہے اور اس کو تردد پیدا ہوگیا ہے اور بعض فقہاء ایسی صورت میں بھی تین طلاقوں کے وقوع کا فتویٰ دیتے ہیں۔لہٰذا احتیاط اسی میں ہے کہ وہ بہر صورت بیوی سے علیحدگی اختیار کرلے اور اس کی عدت گزار کر بیوی کسی اور جگہ نکاح کرلے، پھر اگر کسی وجہ سے شوہر خود طلاق دیدے تو اس کی عدت کے بعد محمود شوکت بھی اس سے نکاح کرسکے گا۔
والدلیل علی کل ذٰلک ما یأتی1:قال اللہ تعالیٰ ” فان طلقہا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ ”۔ (سورة البقرہ آےة٢٣٠)2:عن علی قال : سمع النبی ۖ رجلًا طلق البتة فغضب وقال : تتخذون اٰیات اللہ ھزوًا أو لعبًا من طلقھا البتة الزمانہ ثلاثًا فلاتحل لہ حتی تنکح زوجًا غیرہ ….وفی حدیث ابن عمر قال : قلت یا رسول اللہ ! ارأیت لو طلتھا ثلاثًا ، قال : اذًا عصیت ربک وبانت منک امرأتک (المغنی لابن قدامة ج ٧ ص ١٠٣) وقد اخرج البیھقی قصة طلاق حسن بن علی امرأتہ ثلاثا وفی حدیث مرفوع الی النبی ۖ3:قال ابن نجیم: شک انہ طلق واحدة أو اکثربنی علی الاقل کما ذکرہ الاستیجابی الا ان یستیقن بالاکثر او یکون اکبر ظنہ علی خلافہ وان قال الزوج عزمت علی انہ ثلاثًا یترکھا…….
آخر میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ مفتی کو علم غیب نہیں ہوتا، اسکے سامنے جیسا سوال کیا جا ئے گا وہ اس کے مطابق جواب دے گا، سوال کی صحت کی ذمہ داری سائل پر ہے اور چونکہ معاملہ حلال وحرام کا ہے اور ہر شخص کو آخرت میں اپنی جوابدہی کرنی ہے لہٰذا بہت احتیاط اور غور وفکر کے ساتھ یہ متعین کیا جائے کہ کتنی طلاقیں دی تھیں؟ اگر ذرا بھی گمان غالب تین طلاقوں کا ہو تو دونوں کا ساتھ رہنا جائز نہیں ہے ۔ واللہ سبحانہ اعلم (فتاویٰ عثمانی جلد دوم صفحہ346تا248)
کہاں قرآن کی واضح آیات میں بار بار بلا شبہ رجوع کی اجازت اور کہاں اس طرح گھیر گھار کر اس غریب کی بیگم کو حلالہ کا شکار بنانا؟۔ پہلے لکھا کہ دو طلاق ہوئی ہیں اب ایک باقی ہے اور سمجھایا یہی ہوگا کہ جب حلالہ کرو گے تو نئے سرے سے تین طلاق کے مالک بن جاؤ گے اور پھر صبر نہیں آیا شک پر تین کا فتویٰ دیا۔
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
عجمیوں کے درمیان نسب میں کفاء ت کا اعتبار نہیں:مفتی تقی عثمانی و مفتی شفیع کی جہالت!
عجمیوں کے درمیان نسب میں کفاء ت کا اعتبار نہیں:مفتی تقی عثمانی و مفتی شفیع کی جہالت!
سوال:۔ ایک آدمی نے عاقلہ بالغہ لڑکی کو اغواء کیااور اسے ڈرا دھمکاکر نکاح کرلیا، لڑکی کے والدین اس پر ناراض ہیں، کیونکہ لڑکی آرائیں قوم سے ہے اور لڑکے کا تعلق شیخ قوم سے ہے۔ (شیخ سے مراد کھوجہ قوم ہے) اور دونوں قوموں کی شرافت میں فرق ہے۔ آرائیں معزز سمجھے جاتے ہیں اور شیخ ذلیل، تو کیا اس صورت میں نکاح ہوسکتا ہے؟۔
جواب :۔ آرائیں اور کھوجہ دونوں عجمی نسلیں ہیں اور عجمیوں کے درمیان کفاء ت میں نسل کا اعتبار نہیں ہے اور مذکورہ نکاح چونکہ عاقلہ بالغہ نے اپنی اجازت ورضامندی سے کیا ہے اسلئے نکاح شرعاً منعقد ہوگیا، اب اگر لڑکی یا اس کے رشتہ دار نکاح ختم کرنا چاہتے ہیں تو سوائے اس کے کوئی راستہ نہیں ہے کہ وہ لڑکے سے طلاق حاصل کریں ۔ قال فی الدر المختار واما فی العجم فتعتبر حرےة واسلاما (شامی ج ٢، ص ٣١٩) واللہ سبحانہ اعلم
احقر محمد تقی عثمانی عفی عنہ الجواب صحیح بند ہ محمد شفیع عفااللہ عنہ
فتاوی عثمانی جلد دوم صفحہ ٢٨٠
درج بالا سوال میں واضح ہے کہ لڑکی کو اغواء کیا گیا اور ڈرا دھمکا کر نکاح پر مجبور کیا گیا۔ جواب میں بک دیا گیا کہ آرائیں اور شیخ عجمی نسلیں ہیں اور ان میں کفاء ت کا اعتبار نہیں ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر لڑکی عربی نسل عثمانی ہوتی تو والداور اولیاء کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہوا۔ مولانا عبداللہ درخواستی کی قوم آرائیں ہے۔درخواستی حضرات کواسلام اور حق کیلئے کھڑے ہونا چاہیے۔
دوسری جگہ تقی عثمانی اسکے بالکل برعکس ایک اور طرح کا رباب بجاتا ہے۔
تنقیح:1:احمد کی لڑکی نے جس مرد سے نکاح کیاہے، وہ قومی اور خاندانی اعتبارسے احمدکا کفو ہے یا نہیں؟۔ یعنی دونوں خاندان میں اتنا فرق ہے کہ ایک خاندان دوسرے خاندان میں شادی بیاہ کو عرفاً عار اور عجیب سمجھتا ہو؟۔ یا اتنا فرق نہیں ہے اور دونوں خاندانوں میں بغیر کسی عار کے شادی بیاہ ہوتے ہیں۔
( اس میں سائل نے کچھ معاوضہ دیا ہوگا اسلئے عرف کا اعتبار کرلیا، دوسرے فتوے میں شیخ کھوجہ نے کچھ دیا ہوگا اسلئے معاملہ اسکے برعکس لکھا ۔عتیق گیلانی)
2:کیا دینداری کے اعتبار سے احمد کے گھرانے اور اس مرد کے گھرانے میں کوئی فرق ہے؟۔ ان دو سوالوں کا جواب لکھ کر بھیجئے ۔ محمد تقی عثمانی
جواب تنقیح: وہ مرد اور اس کے گھرانے میں اتنا فرق دینداری کے اعتبار سے ہے کہ احمد اور احمد کے گھرانے موحد ہیںاور جس مرد سے احمد کی لڑکی کا نکاح کیا گیا وہ مرداور اس کے گھرانے بدعتی ہیں، اور ان میں مشرکانہ صفتیں بھی ہیں۔ چند صفتیں یہ ہیں : حضور ۖ کو حاضر وناظر سمجھتاہے، مشکلات میں پیر کو پکارتا ہے، مرنے کے بعد عہدنامہ قبر میں دفن کرتا ہے ، نماز جنازہ پڑھ کر دائرہ بناکر اسقاط کرتا ہے، احمد ان باتوں کے خلاف ہے۔
جواب:۔ صورت مسئولہ میں احمد کی لڑکی کا نکاح جس شخص سے کیا گیا وہ احمد کا کفو نہیں ہے، فانھم قالوا لایکون الفاسق کفو لبت الصالحین (شامی ج ٢،ص ٣٢٠ باب الاکفائ)اور فسق اعتقادی فسق عملی سے اشد ہے ۔ لہٰذا مذکورہ صورت میں احمد کی رضامندی کے بغیر جو نکاح کیا گیا ہے وہ باطل ہے۔ احمد کی بیٹی کو چاہیے کہ وہ فوراً اس شخص سے الگ ہوجائے۔ ولہ اذاکان عصبة الاعتراض فی غیر الکفو ما لم تلد منہ ….. شامی ج ٢ ص ٢٩٧)
جب حاجی عثمان کے معتقد کے بارے میں پہلا فتویٰ مفتی عبدالرحیم نے دیا تھا تو یہی حوالہ تھا۔جس میں ایک تو لڑکی کا باپ نکاح پر راضی تھا اسلئے کفو کا مسئلہ نہیں تھا ، دوسرا یہ کہ لڑکی والے زیادہ صالحین تھے۔ شامی میںبچے کی پیدائش سے پہلے کا ذکر ہے ، جس میں اولاد لزنا کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔ اور یہ کہ ایک طرف عرفاً کفو کا اعتبار ہے اور دوسری طرف عجم نسل میں کفو کا انکار ہے؟۔ کیا فسق اعتقادی میں کفوء کا مسئلہ اسلئے ہے کہ اگر ولی راضی ہو تو پھر نکاح جائز ہے؟۔یہ قادیانیوں کو رشتہ دینے کیلئے راستہ ہموار کیا گیا ہے یا کچھ اور ہے؟۔
حضرت عائشہ کے بارے میں کتابیں ہیں کہ ان کی عمر نکاح کے وقت16سال اور رخصتی کے وقت19سال تھی او ر جو9سال کا کہتے ہیںتو وہ ان کی اس عمر میں بلوغت کو ثابت کرتے ہیں۔ مفتی تقی عثمانی کا ایک اورفتویٰ دیکھ لیں۔
سوال :۔ زید بعمر5سال کا، سعیدہ بعمر2سال سے نکاح ہوا۔ بالغ ہونے پر سعیدہ نے نکاح کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا، زید نے نوٹس کے ذریعے سعیدہ کی رخصتی کا مطالبہ کیا، تو سعیدہ نے نوٹس کے جواب میں زید کو اپنے فیصلے سے آگاہ کیااور عدالت عالیہ سے درخواست کی کہ اسکے اس حق کو تسلیم کیا جائے اور نکاح کو منسوخ قرار دیا جائے، سات سال کی مقدمہ بازی کے بعد عدالت نے اس حق کو تسلیم کرلیا اور اس بات کی تصدیق کردی کہ نکاح منسوخ ہوگیا ہے ، اس کیخلاف اپیل کی جو مسترد ہوگئی ، اب فرمائیں نکاح شرعاً منسوخ ہوگیا یا نہیں؟۔
جواب: صورت مسئولہ میں اگر سعیدہ کا نکاح خود اسکے باپ نے کیا تھا تو اب بالغ ہونے کے بعد سعیدہ کو اسکے فسخ کرنے کا اختیار نہیں ہے ،تاوقت یہ کہ وہ سوئے اختیار کو ثابت نہ کرے اور اگر سعیدہ کا نکاح کرنے والا خوداس کا باپ نہیں تھا، خواہ باپ کا وکیل ہی کیوں نہ ہو تو لڑکی کو نکاح فسخ کرنے کا اختیار ہے۔ اس صورت میں عدالت کا منسلکہ فیصلہ شریعت کے مطابق ہوگا۔ ولزم النکاح ولوبغبن فاش…. اوبغیر کفوء ان کان والولی ………واللہ تعالیٰ اعلم
احقر محمد تقی عثمانی عفی عنہ الجواب صحیح بندہ محمد شفیع عفااللہ عنہ
سینیٹر مشاہداللہ خان نے کہا تھا کہ ”یہ قوالی سن کر مسلمان ہوئے ہیں ،اسلام میں حلالہ نہیں ”۔ مفتی تقی عثمانی کی شکل اور دانت بھی قوال کی طرح ہیں۔سودی نظام کو جواز دینے تک بتدریج پہنچا ہے۔ پہلے فتوے بیچتا تھا، پھر زکوٰة کا فتویٰ بیچ دیا اور پھر الائنس موٹرز کیلئے فتویٰ فروشی کا منصب سنبھال لیا۔ علم پر دنیا کو ترجیح دی تو بعلم بن باعوراء کودرجہ بہ درجہ استدراج کے ذریعے کتے کے درجہ تک پہنچادیا۔
یہ مولانا اشرف علی تھانوی کانام بدنام کرتے ہیں۔صفحہ ہٰذا کے نچلے نصف پر انتہائی گھناؤنے اٹکل پچو کا فتویٰ دیکھ لیں جس میں مولانا اشرف علی تھانوی کا فتویٰ بھی چھوڑ دیا ہے۔ حکومت وریاست کو چاہیے کہ مدرسہ ان لوگوں سے چھین کر اچھے علماء حق کے سپرد کردیں۔ یہ اب بینکوں کے موروثی ملازم اورغلام ہیں۔
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
3 طلاق اور اس سے رجوع پر فقہی اختلافات اور احادیث صحیحہ گدھوں کو سمجھانے کا نیا انداز
3 طلاق اور اس سے رجوع پر فقہی اختلافات اور احادیث صحیحہ گدھوں کو سمجھانے کا نیا انداز
اگرقرآن وسنت میں واضح ہے کہ تین طلاق کا تعلق عدت کے تین مراحل سے ہے پھراحادیث ، حضرت عمر اور ائمہ مجتہدین کے ہاں اکٹھی3طلاق واقع ہونے کا کیا مطلب ہے؟
اہل تشیع اور اہلحدیث حضرت عمر کے فیصلے کو کیوں نہیں مانتے؟۔ ٹھیک کرتے ہیں یا غلط ؟۔ حنفی ومالکی کے ہاں اکٹھی تین طلاق بدعت و گناہ اور شافعی کے نزدیک سنت ومباح کیوں ہے؟
اللہ نے فرمایا:” طلاق والی عورتیں3مراحل تک انتظار کریں اور انکے شوہر اس عدت میں ان کو اصلاح پر لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں”۔البقرہ:228
اللہ نے فرمایا:” طلاق دو مرتبہ ہے ۔ پھر معروف طریقہ سے رجوع کرنا ہے یا احسان کیساتھ چھوڑ نا ہے”۔ البقرہ:آیت:229۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ” قرآن میں تیسری طلاق احسان کیساتھ چھوڑنااسی آیت میں ہے”۔ جس کو مولانا سلیم اللہ خان اور علامہ غلام رسول سعیدی نے اپنی شرح بخاری میں بھی نقل کیا ہے۔ جب قرآن وسنت سے یہ ثابت ہے کہ تین طلاق کا تعلق عدت کے تین مراحل سے ہے تو پھر اختلاف کیا ہے؟۔جب حضرت عبداللہ بن عمر نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دی تو رسول اللہ ۖکو حضرت عمر نے اس کی خبردی۔ رسول اللہ ۖ اس پر بہت غضبناک ہوگئے۔اور عبداللہ سے فرمایا کہ اس عورت کو اپنے پاس پاکی کے دنوں میں رکھو یہاں تک کہ حیض آجائے اور پاکی کے دنوں میں اپنے پاس رکھو یہاں تک کہ حیض آجائے۔ پھر پاکی کے ایام میں طلاق دینا چاہتے ہو تو اس کو ہاتھ لگائے بغیر چھوڑ دواور یہی وہ عدت ہے کہ جس میں اللہ نے اس طرح طلاق کا حکم دیا ۔ (بخاری کتاب التفسیر سورہ طلاق) یہ حدیث بخاری کتاب الاحکام ، کتاب الطلاق اور کتاب العدت میں بھی ہے۔
قرآن وسنت میں یہ بالکل واضح ہے کہ تین مرتبہ طلاق ایک عدت کا عمل ہے جس کے تین مراحل ہیں اور اس سے آگے پیچھے معاملہ نہیں ہوسکتا ہے۔
پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عمر نے حنفی ، شافعی، مالکی اور حنبلی فقہاء کیلئے اکٹھی 3 طلاق کی بدعت یا سنت کیسے اس اُمت میں جاری کردی ہے؟۔
ہماری سب سے بڑی بنیادی غلطی یہ ہے کہ حفظ مراتب کا خیال رکھے بغیر حضرت عمر کے اس فیصلے کو قرآن پر پیش کرنے کی جگہ احادیث میںڈھونڈتے ہیں۔ جب احادیث میں ڈھونڈتے ہیں تو پھر حنفی ومالکی اس کو بدعت وگناہ قرار دیتے ہیں۔ شافعی اس کو سنت ومباح قرار دیتے ہیں اور حنبلی کا قول مختلف ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ سنت ومباح ہے اور دوسرا یہ ہے کہ بدعت وگناہ ہے۔
جس بات پر فقہاء آپس میں متفق نہ ہوسکتے ہوں تو اس بات پر امت مسلمہ کو کیسے متفق کیا جاسکتا ہے؟۔اگر پہلے قرآن کی طرف رجوع کرتے اور پھر اس کا حل احادیث میں تلاش کرتے تو اختلافات کا بالکل خاتمہ ہوسکتا تھا۔ دیوبندی مکتبہ فکر کے شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے کافی عرصہ درسِ نظامی کا نصاب پڑھایا اور جب مالٹا میں سوچ وبچارکا موقع مل گیا تو امت کے زوال کے دو اسباب کی وضاحت کردی ۔ایک قرآن سے دوری اور دوسرا فرقہ واریت ۔ علامہ انور شاہ کشمیری نے آخری دور میں فرمایا کہ مسلکوں کی وکالت میں اپنی ساری زندگی ضائع کردی۔ قرآن وسنت کی کوئی خدمت نہیں کی ہے۔
میں نے اپنی جوانی اور صلاحیتیں الحمد للہ بہت زیادہ تو نہیں لیکن کچھ نہ کچھ قرآن وسنت اور دینی تعلیم میں خرچ کی ہیں اور فرقہ واریت کو ختم کرنے میں اپنا زبردست کردار ادا کیا ہے۔ میرا ماحول اور اساتذہ کرام کی تعلیم و تربیت دیوبندی مکتب والی تھی ، ہے اور رہے گی لیکن فرقہ بندی اور مسلک پرستی کو کبھی اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیا۔ ہمارے مرشد حاجی محمد عثمان کا تعلق بھی تبلیغی جماعت اور دیوبندی مکتبہ فکر سے تھا لیکن اتحاد امت کے بہت بڑے علمبردار تھے۔
میرے اساتذہ کرام جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی،جامعہ یوسفیہ شاہو ہنگو کوہاٹ، مدرسہ عربیہ فیوچر کالونی کراچی، دارالعلوم الاسلامیہ واٹر پمپFBایریا کراچی،انوار القرآن آدم ٹاؤن نیوکراچی، جامعہ فاروق اعظم بفر زون اور توحید آباد صادق آباد رحیم یار خان پنجاب نے میری زبردست رہنمائی وحوصلہ افزائی کی ہے۔ اللہ نے ذہن اور صلاحیت دی ہے تو اس کو بروئے کا ر لایا ہے۔
جب حضرت عمر نے ایک ساتھ تین طلاق پر میاں بیوی کے درمیان جدائی کا فیصلہ دیا تھا تو اس کی تاریخی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اہل حدیث نے یہ فیصلہ اسلئے مسترد کردیا کہ حدیث میں ہے کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا: رسول اللہ ۖ ، ابوبکر اور عمر کے ابتدائی تین سال تک اکٹھی تین طلاق کو ایک شمار کیا جاتا تھا پھر حضرت عمر نے ایک ساتھ3طلاق کو نافذ کردیا ۔( صحیح مسلم)
اہلحدیث سمجھتے ہیں کہ جب رسول اللہ ۖ اور بعد کے ادوار میں اکٹھی تین کو ایک طلاق شمار کرتے تھے تو حضرت عمر نے یہ فیصلہ اجتہادی اور غلط کیا تھا۔
حالانکہ ذخیرہ احادیث میں ایک ساتھ تین طلاق کا ذکر بھی موجود ہے لیکن اہلحدیث نے ان روایات کو چھوڑ کر تعامل کی سنت کو قابل ترجیح قرار دیا ہے۔
اہل تشیع نے حضرت عمر کے فیصلے کو قرآن وسنت ، فقہ وحکمت کے منافی قرار دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ طلاق کاواحد طریقہ یہ ہے کہ عدت کے پہلے مرحلہ میں پہلی طلاق مکمل شرعی صیغوں کیساتھ اور اس پر دوعادل گواہ کا مقرر کرنا لازمی ہے۔ اس طرح تین مرحلے میں تین مرتبہ کی طلاق ہے اور بغیر جانے بوجھے اس طرح طلاق کا واقع کرنا شریعت کیساتھ مذاق ہے ۔ اس سے معاشرہ تباہ ہوگا۔
اہل تشیع اپنے اس مسئلے کو اپنی فہم وفراست اور اہل بیت عظام کا بہت بڑا کمال اور دوسرے مذاہب کا بہت بڑا زوال سمجھنے میں حق بجانب بھی ہیں۔ لیکن جب شیعہ اپنے فقہ ومسلک کے مطابق اس طرح سے طلاق دیتے ہیں توپھر صلح و رجوع کا دروازہ بالکل بند سمجھتے ہیں یہاں تک کہ کوئی مستقل نکاح کرلے اور پھر اتفاق سے اس کی طلاق ہوجائے اور پھر پہلے سے دوبارہ نکاح ہوجائے۔
حالانکہ شیعہ کا یہ فقہ قرآن کے مطابق نہیں بلکہ سنی مکاتب فکر کے مقابلے میں ہے۔ قرآن کی سورۂ طلاق میں عدت کے تین مراحل اور اس کی تکمیل کے بعد بھی معروف طریقے سے رجوع کی اجازت ہے۔ اور جب اس کو معروف طریقے سے الگ کرنے کا فیصلہ کیا جائے تو پھر اس پر دو عادل گواہ مقرر کرنے کا حکم ہے اور اسکے بعد بھی سورۂ طلاق میں رجوع کا دروازہ بند نہیں کیا گیاہے۔
پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عمر نے جو فیصلہ کیا تھا وہ قرآن وسنت کے مطابق تھا؟۔ اس کا جواب یہ ہے کہ بالکل قرآن وسنت کے مطابق تھا۔
قرآن کے مطابق اسلئے تھا کہ اللہ نے عدت میں رجوع کی اجازت دی ہے اور عدت کی تکمیل کے بعد رجوع کی اجازت دی ہے لیکن صلح واصلاح اور باہمی رضامندی کی شرط پر۔ اگر عورت رجوع کیلئے راضی نہ ہوتو شوہر کو رجوع کا حق حاصل نہیں ہے۔ تین طلاق تو بہت بڑی واضح بات ہے بلکہ ایک طلاق کے بعد شوہر کو بیوی کی رضامندی کے بغیر رجوع کا حق حاصل نہیں ہے۔ حضرت عمر نے قرآن کے عین مطابق فیصلہ دیا لیکن یہ فتویٰ نہیں تھا اسلئے کہ حکمران فیصلے کرتا ہے اور مفتی فتویٰ دیتا ہے۔ فیصلہ دو افراد کے درمیان ہوتا ہے۔ جب کوئی تنازع میاں بیوی آپس میں حل کرنے میں ناکام ہوں تو پھر معاملہ وقت کا حکمران حل کرتا ہے۔ جب شوہر نے ایک ساتھ تین طلاقیں دے دیں اور بیوی رجوع پر راضی نہیں تھی تو معاملہ حضرت عمر کے دربار تک پہنچا۔ حضرت عمر نے قرآن کے عین مطابق فیصلہ دیا کہ ” شوہر کو رجوع کا حق حاصل نہیں ہے اور فرمایا کہ آئندہ بھی کوئی ایک ساتھ تین طلاق دے گا تو اس پر یہی فیصلہ جاری کروں گا اور اس کو کوڑے مارنے کی سزا بھی دوں گا”۔ حضرت عمر نے قرآن کی پاسداری کرنے کا ریکارڈ قائم کردیا۔ اگر صلح نہ کرنے کے باوجود بیوی کو لوٹادیتے تو قرآن وسنت کے بالکل منافی ہوتا۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ اکٹھی تین طلاق ایک طلاق رجعی ہے اور شوہر کو لوٹانے کا اختیار ہے تو اس سے قرآن وسنت اور فقہ کا کباڑہ کرتے ہیں اور ان کی یہ شریعت انسانی فطرت کے بھی بالکل منافی ہے اور شیعہ واہلحدیث دونوں کا فقہی مسلک اس کی زد میں سراسر غلط ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ قرآنی آیات کے مطابق محض طلاق کے بعد صلح واصلاح کے بغیر یعنی بیوی کی مکمل رضامندی کے بغیررجوع کی اجازت نہیں ہے اور یہ قرآن میں بالکل واضح ہے۔ سورہ البقرہ آیت228میں اس کی بھرپور وضاحت ہے۔
جب قرآن میں یہ واضح ہے کہ الگ الگ تین مراحل میں تین مرتبہ طلاق کے بعد بھی عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد بھی باہمی رضامندی اور معروف طریقے سے رجوع کا دروازہ اللہ تعالیٰ نے بند نہیں کیا ہے۔ حضرت عمر نے اسلئے تین طلاق کا فیصلہ کیا تھا کہ بیوی صلح کیلئے راضی نہیں تھی تو پھر یہ بات بتادی جائے کہ حضرت محمود بن لبید سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول ۖ کو خبر دی کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دے دی ہیں ، جس پر رسول اللہ ۖ غضبناک ہوکر کھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں اور تم اللہ کی کتاب سے کھیل رہے ہو؟۔ ایک شخص نے کہا کہ کیا میں اس کو قتل نہ کردوں؟۔ اس حدیث کا پھر کیا جواب اور پس منظربنتا ہے؟۔
یہ وہی حدیث ہے جس کو صحیح بخاری میں ابن عمر کے واقعہ میں نقل کیا گیا ہے لیکن یہاں افراد کے نام مخفی رکھے گئے ہیں اور روایات میں یہ وضاحت بھی ہے کہ جس شخص نے تین طلاق دی تھیں وہ عبداللہ بن عمر تھے اور جس نے پیشکش کی تھی اسکو قتل کرنے کی ،وہ حضرت عمر ہی تھے۔ صحیح مسلم کی ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر نے ایک ساتھ تین طلاقیں دی تھیں جس سے رجوع کا نبی ۖ نے حکم فرمایا تھا۔ صحیح مسلم کی وہ روایت حضرت محمود بن لبید کی روایت سے زیادہ مستند ہے۔ اس بات میں کوئی ابہام نہیں ہے کہ رسول اللہ ۖ ابن عمر پربہت غضبناک ہوئے مگر رجوع کرنے کا حکم بھی دیاتھا اور پھر طلاق اور عدت کو ایک دوسرے کیساتھ لازم وملزوم بھی قرار دیا تھا جس میں ابہام پہلے بھی نہیں تھا لیکن قرآن کی وضاحت کو نبی ۖ نے کم عقلوں کیلئے بھی مزید واضح کردیا تھا۔
اب یہ ابہام ہے کہ پھر مجتہدین اور جمہور کا اجماع اس پر کیسے ہوگیا کہ اکٹھی تین طلاق واقع ہوجاتی ہیں؟۔حالانکہ امت کا اجماع گمراہی پر نہیں ہوسکتا؟۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اکٹھی تین طلاق کا واقع ہونا الگ بات ہے اور اس کی وجہ سے باہمی اصلاح کے باوجود رجوع کا دروازہ بند کرنا الگ بات ہے۔ جب قرآن نے باہمی اصلاح کی شرط پر اللہ نے رجوع کا دروازہ کھلا رکھا ہے تو اس پر پابندی لگانے کا کوئی جواز نہیں بنتا ہے۔ ائمہ اہل بیت کا اصل معاملہ تو اس حد تک تھا کہ اکٹھی تین طلاق واقع نہیں ہوسکتی ہیں تاکہ رجوع کا دروازہ بند نہ ہو اورحلالہ کی لعنت سے امت مسلمہ کو بچایا جائے۔ لیکن بعدکا رنگ پھرشیعہ فقہاء نے خود ہی چڑھادیا ہے۔حنفی فقہاء جب طلاق سنت کی بات کرتے ہیں تو ان کا بھی مؤقف اہل تشیع کے موقف کے عین مطابق ہوتا ہے۔
البتہ احناف بالکل حق بجانب ہیں کہ ایک ساتھ تین طلاق دینا مصلحت اور قرآن وسنت کے خلاف ہے۔ اسلئے کہ سورۂ طلاق میں اللہ تعالیٰ نے مرحلہ وار عدت میں چھوڑنے یا طلاق دینے کا حکم دیا ہے اور سورہ بقرہ میں بھی الگ الگ مراحل میں تین مرتبہ طلاق واضح ہے اور نبی ۖ نے بھی اس کے برعکس عمل پر سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا ہے۔ کوئی بلاوجہ اکٹھی تین طلاق دیکر فارغ کرنے کا فیصلہ کرے تو طلاق وعلیحدگی ہوجائے گی لیکن یہ ناپسندیدہ عمل ہے۔ البتہ فحاشی و لعان کی صورت میں اکٹھی تین طلاق اور فارغ کرنے میں حرج نہیں ہے۔
حضرت عویمر عجلانی کی طرف سے لعان کے بعد اکٹھی تین طلاق دینے کا واقعہ صحیح حدیث میں ہے اور اس کی بنیاد پر امام شافعی کے ہاں اکٹھی تین طلاق کا فیصلہ سنت ومباح ہے۔ احناف کے نزدیک دونوں الگ الگ صورتحال ہیں۔
بڑا سوال یہ ہے کہ نبی ۖ نے رفاعہ القرظی کی بیوی کو ذائقہ چکھ لینے کے بغیر رجوع کیوں نہیں کرنے دیا؟۔جواب یہ ہے کہ وہ کسی اور کی بیگم تھی۔ بخاری کی احادیث میں تفصیلات ہیں کہ رفاعہ نے الگ الگ مراحل میں تین طلاق دیکر فارغ کیا تھا، عدت کی تکمیل کے بعد اس کی دوسرے قرظی سے نکاح ہوا جس نے بہت مارپیٹ کی تھی۔ اس خاتون نے زخموںکے نشان حضرت عائشہ کو دکھائے تھے۔ دوسرے شوہر نے انکار کیا تھا کہ وہ نامرد ہے۔ اگربخاری کی تمام روایات کو نقل کیا جائے تو تین طلاق پر حلالہ کا تصور بھی ختم ہوگا اور اس حدیث سے حلالے کا باطل استدلال بھی کوئی نہیں لے گا۔ ایک نامرد کاکیسے حکم دیا گیا کہ اس کا ذائقہ چکھ لو جیسے پہلے شوہر کا چکھا ہے؟۔ مولانا فضل الرحمن کو چاہیے کہ مجھے اور مفتی تقی عثمانی کو اکٹھے بٹھادے تاکہ دودھ کا دودھ پانی کاپانی ہوجائے۔
مولانا سلیم اللہ خان نے کشف الباری شرح صحیح البخاری میں لکھ دیا ہے کہ اس حدیث کی وجہ سے احناف حلالے کا حکم نہیں دیتے بلکہ قرآن حتی تنکح یعنی نکاح سے ہم جماع مراد لیتے ہیں۔ صفحہ نمبر2میں قرآنی آیات اور اس آےة کی تفصیل لکھ دی ہے۔ اس طلاق سے مراد تیسری طلاق نہیں کیونکہ تیسری طلاق تو آیت229میں ہے بلکہ یہ وہ طلاق ہے کہ جس سے پہلے نہ صرف مرحلہ وار تین مرتبہ طلاق کا فیصلہ کیا گیا ہو بلکہ آئندہ دونوں کے درمیان دونوں خود بھی رابطے کا کوئی ذریعہ نہ چھوڑیں اور فیصلہ کرنے والے بھی ،یہاں تک کہ عورت شوہر کی طرف سے دی ہوئی وہ چیز بھی فدیہ کردے جس کا فدیہ کرنے کو عام حالات میں قرآن نے ناجائز قرار دیا ہے۔ جب یہ کنفرم ہو کہ ان دونوں نے صلح نہیں کرنی ہے تو پھرایک غلط رسم عورت کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے کہ اس طلاق کے باوجود بھی شوہر کی طرف سے پابندی کا شکار نہ ہوجائے۔ اللہ نے اس غلط رسم کو توڑنے کیلئے زبردست تدبیر کرکے یہ حکم نازل کیا مگر اس کا غلط مطلب لیا گیا اسلئے کہ سیاق وسباق اور آگے پیچھے کی آیات چھوڑ کر فتویٰ سازی کی گئی۔
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
اسلام کے جعلی فتوؤں کے نام پر معصوم بچیوں سے نکاح کے نام پر بدترین کھلواڑکب تک؟
اسلام کے جعلی فتوؤں کے نام پر معصوم بچیوں سے نکاح کے نام پر بدترین کھلواڑکب تک؟
عجمیوںکی کوئی نسل ،خاص طور پر برمی بنگالی عورتوں اور بچیوں کو دلالی کے نام سے فروخت کیا جاتا تھا ، جس میں بالغ لڑکیوںاور نابالغ بچیوں کا دلال کے ذریعے نام نہاد نکاح بھی شامل تھا
دارالعلوم کراچی کے ” فتاوی عثمانی جلد دوم ، طبع جدید ستمبر2022 عیسوی” برمی کالونی کورنگی میں باقاعدہ عورتوں کی منڈی لگتی تھی ۔ ڈارک ویب اور جنسی تسکین کا دھندہ فتوؤں کی آڑ میں ہوتا تھا۔
عوام الناس کی زبان میں سادہ الفاظ کے اندر پیچیدہ معاملے کو سمجھنانے کی سخت ضرورت ہے۔پچھلے شمارے میں کچھ حوالہ جات دئیے اور اب مزید تفصیل کیساتھ کچھ دیگر معاملے کو بھی علماء حق اور عوام الناس کے سامنے لاتے ہیں۔
دنیا بھر میں معصوم بچیوں کیساتھ جنسی درندگی کا مکروہ دھندہ ہوتا ہے اور کوئی مہذب قوم ، ملک اور قانون اس کی اجازت نہیں دے سکتا ہے۔ پاکستان میں یہ دھندہ کراچی کے اندر مظلوم برمی اور بنگالی عورتوں کے ساتھ جاری رہتا تھا۔ اور اس میں مولوی طبقہ دلال بن کر پیسے بٹورنے میں مصروف رہتا تھا۔
پاکستان میں16اور18سال سے کم عمر بچی کیساتھ نکاح قانوناً منع اور مجرمانہ فعل ہے جس میں پولیس کی مداخلت سے ایسے جرم میں ملوث افراد کو قانون کے مطابق سزا دی جاسکتی ہے۔ ریاستِ پاکستان نے اس پر پابندی لگائی ہے۔ تاہم14اور15سال کی عمر میں بھی بچیاں جوان اور شادی کے قابل ہوتی ہیں، جس پر حکومت کی طرف سے نظر انداز کرنے کی بات سامنے آسکتی ہے۔
اسلام نے چودہ سو سال پہلے جن قوانین کا اجراء کیا تھا وہ معاشرے میں بڑا اچھا کردار ادا کرنے کے قابل تھے ، تب ہی دنیا کی دونوں سپر طاقتیں فارس اور روم خلافت راشدہ کے سامنے سرنگوں ہوگئیں۔ عرب زیادہ طاقتور نہیں تھے بلکہ اسلام کے فطری قوانین میں یہ صلاحیت تھی کہ دنیا نے ان کو اپنے لئے بہترین سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں لگائی اور یہی وجہ تھی کہ1924عیسوی تک کسی شکل میں خلافت کا نظام قائم تھا۔ اگرچہ بہت ساری خوبیاں دوسروں نے اپنالی تھیں اور خامیاں ہم نے اپنی بنالی تھیں اسلئے تو علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ” یورپ میں مسلمان نہیں ہے لیکن اسلام ہے اور یہاں مسلمان ہیں لیکن اسلام نہیں ہے”۔
آج بھی مسلمانوں سے دنیا میںزیادہ آبادی عیسائیوں کی ہے اور عیسائی مذہب میں اسلام کی آمد کے وقت طلاق کا کوئی تصور نہیں تھا۔چند سوسال سے بادشاہ نے ایک ترقی پسند فرقہ بناکر طلاق کو جواز بخش دیا اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ عیسائیوں نے معاشرتی مسائل نکاح ، طلاق ، عورت کے حقوق اور شوہر کے حقوق کیلئے جمہوری بنیادوں پر پارلیمنٹ کے ذریعے قانون سازی کرنا شروع کردی اور آج انہوں نے مذہبی طبقات کو عبادت گاہوں تک محدود کردیا ہے۔
اسلام ایک عظیم دین ہے اور قرآن وسنت میں اپنی اصلی حالت میں محفوظ بھی ہے۔ قرآن میں لڑکے کیلئے نکاح کی خاص عمر کا معاملہ بالکل واضح ہے۔ یتیم لڑکوں کو اس وقت ان کا مال سپرد کرنے کا حکم ہے کہ جب وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں۔ حتی اذا بلغوا النکاح ( یہاں تک کہ وہ نکاح تک پہنچ جائیں)۔
لڑکی کے ساتھ کم عمری میں نکاح بہت بڑی زیادتی ہے۔ دورِ جاہلیت میں بھی بچپن کے اندر اگر کہیں رشتہ پکا کیا جاتا تھا تو رخصتی بلوغت اور نکاح کے عمر تک پہنچنے کے بعد ہی ہوتی تھی اور آج بھی یہ رسم ورواج معاشرے میںکہیں نہ کہیں موجود ہے جس میں دوستوں یا رشتہ داروں کا اچھا تعلق کارفرماہوتا ہے۔
پاکستان کے شہر کراچی اور خاص طور پر کورنگیKایریا وغیرہ میں برمی و بنگالی غریب الوطن افراد کی ایک اچھی خاصی تعداد ہے۔ پہلے دارالعلوم کراچی میں بھی غربت کا سماں ہوتا تھا۔ مفتی محمد تقی عثمانی اس کو بھی بڑی سعادت سمجھتا تھا کہ کوئی امیر اس کو اپنے فوت شدہ باپ کے بدلے حج بدل کی مزدوری پر بھیج دے۔ ان لوگوں کا ایک دھندہ غریب لوگوں کو پھانس کر فتویٰ فروشی بھی ہوا کرتا تھا۔
برمی و بنگالی بچیوں و خواتین کو جب دلال دوسری قوموں کے پاس بیچ دیتے تھے تو پاکستان کے قانون کے تحت انسانی سمگلنگ کی اجازت نہیں ہوتی تھی اس کیلئے ان کو شرعی فتوے کی ضرورت ہوتی تھی۔
دارالعلوم کراچی نے یہ فتوی عام دیا تھا کہ
نابالغ بچیوں کا نکاح باپ دادا کرے تو یہ شریعت کے عین مطابق ہے۔
اور اگر نابالغ بچیوں کا نکاح دلال کرے تو بھی شریعت کے مطابق ہے۔
بالغ لڑکی کو اغواء کرکے یا خرید کر اس کو نکاح پر مجبور کرے تو بھی یہ نکاح لڑکی کی اجازت اوررضامندی کہلائے گا اور شریعت میں منعقد ہوجائے گا۔
لڑکی کا خاندان عرف میں کمتر ہو تو پھر اس میں ولی کی اجازت ضروری نہیں ہے۔ لڑکی اپنی مرضی سے نکاح کرے، دلال کے ذریعے کرے یا اس کو اغواء اور زبردستی سے نکاح پر مجبور کیا جائے ، یہ سب رضامندی ہے اور شرعاً جائز ہے۔
ملک کے طول وعرض میں کتنی برمی اور بنگالی عورتوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھا گیا ہے؟۔ اس کے اعداد وشمار کو اکٹھا کرنا بہت مشکل ہے۔ چھوٹی بچیوں کے سیکس کو کاروبار بنانے والے اور اس کے خریداروں پر پروگرام لوگوں نے ریکارڈ کئے ہیں۔ ڈارک ویب میں بھی ایسی مظلوم خواتین کو مظالم کے لئے استعمال کرنے کے کرتوت کو خارج ازامکان نہیں قرار دیا جاسکتا ہے۔ بلکہ انہیں بے سہاراخواتین کے ذریعے ایسی خوفناک ویڈیوز کا رواج عمل میں آسکتا ہے۔
ٹانک شہر میں ایک برمی یا بنگالی پاگل عورت تھی ، جس کیساتھ کسی نے زیادتی کی تھی اور پھر اس کو حمل ہوا تھا اور جب اس نے بچے کو جن لیا تھا تو کسی نے بچہ اس سے چوری کیا تھا۔ ٹانک شہر پر دہشت گردی کا عذاب بھی اس انسانی المیہ کی وجہ سے آسکتا تھا۔ فتاوی عثمانی جلد دوم کے کچھ فتاویٰ جات کا مطالعہ کرنے کے بعد پتہ چلا ہے کہ نابالغ بچیوں اور بالغ لڑکیوں کو اسلام کے نام پر کس طرح سے انسانی حقوق کو پامال کرتے ہوئے ” شرعی نکاح منعقد ہوگیا ” کے فتوے ملوث کئے گئے ہیں؟۔ مفتی محمد شفیع تک کا اسلام یہ تھا کہ ” بیوی بیمار ہوجائے تو اس کا علاج کرنا شوہر کے ذمہ نہیں ہے”۔ مفتی تقی عثمانی نے پھر بھی اس فتوے کو بدلنے کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔ جب برمی یا بنگالی عورت ٹانک شہر میں پاگل ہوگئی تھی اور اس کا علاج شوہر کے ذمہ نہیں تھا تو اس نے چھوڑ ہی دینا تھا اور جب دلال کے ذریعے عورت خرید لی جاتی ہے تو اس کا والدین کے پاس واپس جانے کا بھی کوئی خاص امکان نہیں ہوتا ہے اسلئے کہ یہ دلال کا دھندہ ہوتا ہے۔ برمی اور بنگالی قوم کو چاہیے کہ ان غلط فتوؤں کے خلاف حکومت کے سامنے پرامن احتجاج کریں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کیلئے رونا بالکل بجا ہے اسلئے کہ قوم کی بیٹی ہے لیکن ہماری مسلمان برمی وبنگالی بہنیں، بیٹیاں اورمائیں بھی خنزیرکی اولاد نہیں ہیں کہ ان کیساتھ جو کچھ بھی غیرانسانی سلوک ہو تو اس کو جواز بخشا جائے۔
برمی بنگالی بچیاں اور خواتین تو عرفاً دوسری قوموں کی برابری بھی نہیں رکھتے اور مفتی تقی عثمانی نے عرف کو بھی واضح کردیا ہے لیکن دوسری قوموںکو بھی فکر مند ہونے کی بہت سخت ضرورت ہے اسلئے کہ پختون، بلوچ، سندھی، ہندی، پنجابی اور افغانی سب کے سب عجمیوں کیلئے بھی شیخ الاسلام ومفتی اعظم پاکستان مفتی تقی عثمانی کے فتوؤں میں کوئی خیر کی خبر نہیں ہے۔ جب ان پر ظالم وجابر کا تسلط ہوگا اور ان کی بہنوں اور بیٹیوں کو اغیار اٹھاکر لے جائیں۔ ڈرادھماکر ان سے نکاح کرلیں تو پھر شرعی نکاح منعقد ہوگا اوروہ ان کی بیویاں ہوں گی۔ پھر عدالتوں سے بھی انصاف نہیں لے سکیں گے۔
ایک طرف عالمی سودی نظام کو اسلامی قرار دیا گیا ہے اور دوسری طرف اس طرح نابالغ بچیوں اور بالغ لڑکیوں اور عورتوں کے حوالے سے بھی بدترین انداز کی غلامی کا پورا پورا پروگرام موجود ہے۔ مجھے100فیصد معلوم ہے کہ ہمارے بڑے بڑے مدارس کے بڑے بڑے علماء ومفتیان کو بھی ان غلاظت سے بھرپور فتوؤں کا علم نہیں ہے اور مولانا فضل الرحمن اور ان کے بھائیوں کو تو اس کی بھنک بھی نہیں پڑی ہے۔ جب عالمی دہشت گردوں نے مظالم کے پہاڑ گرائے تھے تو مولانا فضل الرحمن نے ان پر خراسان کے دجال کی حدیث فٹ کردی تھی۔
سوات میں لڑکیوں اور خواتین کیساتھ زبردستی سے نکاح کا معاملہ میڈیا پر سامنے آیا تھا اور انہوں نے مفتی تقی عثمانی کے فتاویٰ سے اپنے لئے جبری نکاح کا معاملہ اخذ کیا ہوگا۔ فتاوی عثمانی جلد دوم کی پہلی اشاعت جولائی2007کو ہوئی تھی۔ سوات میں طالبان کی کاروائیاں2008کے بعد شروع ہوئی تھیں اور فتاوی عثمانی جلد دوم سے جبری نکاح کے شرعی مسائل اخذ کئے ہوں گے۔
سب سے پہلے کسی چیز کے جواز اور عدم جواز پر بحث ہوتی ہے اور پھر اس کو عملی جامہ پہنایا جاتا ہے۔2008سے2013تک پانچ اضلاع کی حالت ایسی خراب تھی کہ لوگوں نے اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو بیچنا شروع کردیا تھا۔ ایک قرارداد خیبر پختونخواہ کی حکومت میں متفقہ طور پر منظور ہوئی تھی کہ ان پانچ اضلاع سے خواتین اور لڑکیوں کو نکاح کے نام پر بیچنے کا کاروبار بند کیا جائے اور قرار داد جمعیت علماء اسلام کے رہنما مفتی کفایت اللہ صاحب رکن صوبائی اسمبلی نے پیش کی تھی۔ مولانا فضل الرحمن کو چاہیے کہ جن لوگوں کے خطرناک دانت ہم نے توڑ دئیے، ہمیں طلب کریں اور ہم صورتحال کو سمجھادیں گے۔ اگر قومی اسمبلی و سینٹ میں غلط فقہی مسائل کے خلاف بل اتفاق رائے سے منظور ہوں گے تو الیکشن میں ملک کی سطح پر جمعیت علماء اسلام و جمعیت علماء پاکستان جیت سکیں گے۔
مذہبی طبقات کو یہ گلہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن اور مولانا اویس نورانی نے اسلام کی تعلیمات چھوڑ کر مسلم لیگ ن کا دوپٹہ پکڑلیا ہے۔لیکن جب ان کو یہ پتہ چل جائے گا کہ خرابی مدارس کے ان فتوؤں میں ہے جن کو پان کی طرح چبایا اور چیونگم کی طرح گھمایا جاتا ہے اور اپنی مرضی سے جس ڈسٹ بن میں ڈالا جائے تو کوئی بات نہیں ہوتی ہے لیکن حقائق اس کے بالکل برعکس ہوتے ہیں۔
برصغیر پاک وہند میں عورت اور بچیوں کا تحفظ ایک بنیادی مسئلہ ہے اور اس میں باطل فتوؤں کی بہتا ت نے معاملے کو مزید مشکلات میں دھکیل دیا ہے۔
افغان طالبان کے ہاں بھی فقہ کے بنیادی مسائل رکھ دئیے جائیں جو حنفی اصولِ فقہ کے منافی معاملات ہیں ان کو بھی سدھاردیا جائے تو اسلام دنیا کی سطح پر سب سے زیادہ محبوب اور قابل قبول دین بھی بن جائیگا۔ حضرت عائشہ صدیقہ کی عمر نکاح کے وقت16سال اور جب رخصتی ہورہی تھی تو19سال تھی۔ جس پر متعدد کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ان میں ایک حکیم نیاز احمدفاضل دارالعلوم دیوبند کی کتاب کشف الغمہ عن عمر عائشہ ہے ۔دیگر کتابیں بھی ہیں۔ بہت موٹی موٹی یہ ہیں کہ طبقات ابن سعد اور صحابہ کرام پر تاریخ کی مستند کتابوں میں موجود ہے کہ حضرت ابوبکر کی ام رومان سے دو بیٹے اور دو بیٹیاں بعثت نبی ۖ سے پہلے تھے۔ جن میں حضرت عائشہ اور اسماء بنت ابوبکربیٹیاں تھیں۔ حضرت اسماء عمر میں10سال حضرت عائشہ سے بڑی تھیں۔ نبی ۖ نے بعثت کے بعد پہلے5سال دارارقم میں گزارے اور ان میں یہ دونوں بہنیں بھی موجود ہوتی تھیں۔
اگر یہ مان لیا جائے کہ11نبوی کو حضرت عائشہ سے نکاح ہوا اور اس وقت ان کی عمر6سال تھی تو پھر ماننا پڑے گا کہ بعثت کے5سال بعد حضرت عائشہ پیدا ہوئیں۔ پھر مشرکین مکہ کیساتھ اتنے سخت خراب حالات کے باوجود اس عمر کے بعد ایسے دشمن سے رشتہ کیسے ہوا؟۔ حضرت عائشہ کی بہن16سالہ حضرت اسماء موجود تھیں تو خاتون نے6سالہ بچی کی پیشکش کیسے کی تھی؟۔ البتہ حضرت عائشہ کی عمر16سال اور حضرت اسماء کی عمر26سال ہو تو پھر یہ معقول بات تھی۔اللہ تعالیٰ نے مشرک کے نکاح کی اذیت سے بھی بروقت چھڑادی تھی اور جب رخصتی ہوگئی تو نبی ۖ نے فرمایا کہ ” اللہ نے مجھے خواب میںاس کی تصویر دکھائی تھی،میں نے سوچا کہ اگر خواب شیطان کی طرف سے ہوگا تو پورا نہیں ہوگا اور اللہ کی طرف سے ہوگا تو پورا ہوگا”۔ ( صحیح بخاری)۔ مرزا غلام احمد قادیانی کا محمدی بیگم کو تنگ کرنا کس قدر بے غیرتی تھی؟۔ جھوٹے نبی اور سچے دجال نے یہ بھی نہیں سوچا کہ شیطان کی طرف سے ہوسکتا ہے اور جعلی وحی کی عربی بھی غلط لکھ ڈالی۔اللہ نے قرآن میں فرمایا کہ ” ہم نے کسی رسول کو نہیں بھیجا مگر اس کی قوم کی زباں سے”۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کیا تو وحی پنجابی میں نازل کروانی تھی؟۔ اس نے کہا کہ ” جو میری نبوت پر ایمان نہیں لاتا ہے تو وہ رنڈی کی اولاد ہے”۔ حالانکہ باپ کا کیا قصور تھا؟۔ پھر تو جو بعد میں قادیانی بن گئے تو ان کے آباء واجداد پر بھی رنڈی کی اولاد کا فتویٰ لگے گا۔
مفتی عبدالرحیم اورمفتی تقی عثمانی نے حاجی عثمان کے معتقد کیساتھ نکاح کو عمر بھر کی حرام کاری اور اولاد الزنا قرار دیا۔ اس فتوے کا شکار مفتی منیراحمد اخون مفتی اعظم امریکہ سے لیکر کتنے لوگ بنیں گے؟۔مسجد الٰہیہ کا امام وہ بنے جو مفتی تقی عثمانی اور مفتی عبدالرحیم کے اس فتوے سے برأت کا اعلان کرے ۔ورنہ اس کی ذات کیلئے بھی یہ بہت بڑی بے غیرتی ہے۔؟۔اگرچہ یہ غیرت نہیں رکھتے۔
اسلام کے نام پر بڑا دھبہ یہ ہے کہ بچیوں کا نکاح باپ دادا کے ذریعے اور دلال کے ذریعے معتبر قرار دیا اور بالغ لڑکی کے اغواء اور ڈرادھمکا کر نکاح کو بھی اجازت ورضامندی قرار دیا ۔
نکاح منعقد ہونے کیلئے سب سے بنیادی شرط عورت کی رضامندی ہے ۔ لیکن مفتی تقی عثمانی اور کم عقل فقہاء نے عورت کا یہ حق اس سے چھین لیا ہے۔ نکاح کو برقرار رکھنے کیلئے سب سے بنیادی شرط بھی عورت کی رضامندی ہے۔ عورت خلع چاہتی ہو تو عورت کو نکاح میں رکھنے پر کوئی مجبور نہیں کرسکتا ہے۔ نکاح سے نکلنے کیلئے عدت ہے لیکن کم عقلوں نے عدت کاتصور ختم کردیا ہے۔ قرآن میں پہلی عدت 4ماہ کی ہے جس میں شوہر نے طلاق کا اظہار نہ کیا ہو۔ قرآن گنجلک ،بے بنیاد، غلط فقہی مسائل وتضادات سے نکلنے کا بڑاراستہ ہے۔
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
فوج نے پالے دو بٹیر…عمران ٹائیگر نواز شیر…دوسرے کو سزا ہوگی تربوز…گرپہلے کوڈالی گئی بیر؟
فوج نے پالے دو بٹیر…عمران ٹائیگر نواز شیر…دوسرے کو سزا ہوگی تربوز…گرپہلے کوڈالی گئی بیر؟
ایک بادشاہ نے ایک شخص کو پیچھے سے بیر ڈالنے کی سزا دی تو وہ پہلے رویا اور پھر ہنسا۔ پوچھنے پر بتایا کہ بیر ڈالنے پر تکلیف ہوئی مگر پیچھے والے کے پاس تربوز ہے ،سزا پر اس کا کیا بنے گا؟
خاتون صحافی ثمینہ پاشا کی بہادری پاکستان کیلئے قابل فخر ہے۔ مجاہد بریلوی نے کہا کہ اب میں عمران خان کے خلاف نہیں بولوں گا۔ عمران ریاض کو سزا دینا آزادی پر دھبہ ہے
سیاستدان جمہوری لڑائی جاری رکھیں لیکن ملک وقوم کو نقصان نہ پہنچائیں!۔علماء کی جعلی شریعت کو درست کرنے کیلئے پارلیمنٹ میں بحث اور قانون سازی ہوگی تو بہت بڑا انقلاب آئے گا !
ایک بادشاہ اپنی اکلوتی شہزادی کے رشتہ کے پیغامات سے تنگ تھا۔ وزیر نے مشورہ دیا کہ” کوئی ایسی چیز لائے جو بادشاہ نے نہ کھائی ہو تو رشتہ ملے گا۔ اگر کھائی ہو توپھر پیچھے سے ڈالی جائے گی”۔ لوگوں نے آزمایا۔ چیز پیچھے ڈال دی جاتی توبہت شرمندگی محسوس کرتے۔ لوگوں کی بے عزتی ہوئی تو رشتہ آنا بند ہوگیا۔ پھر تماشا دکھانے کیلئے دوافراد کو تیار کرلیا۔ ایک بیوقوف اور دوسرا سادہ تھا۔ بیوقوف کو تربوز تھمادیا اور سادہ کو بیر دی گئی۔ دونوں ریس میں پہنچ گئے اور چرچا ہوا کہ اب ان میں کوئی داماد، ولی عہد اورپھر بادشاہ بن جائے گا؟۔
بادشاہ نے کہا کہ ”یہ بیر فلاں جگہ سے لائے؟” اور ذائقہ بھی بتادیا۔ پھر اپنے نوکر چاکروں کو حکم دیا کہ ”اس کو پیچھے سے بیر ڈال دو”۔ وہ بہت چیخا چلایا ، رویا دھویا اور آنسو بہائے ۔ پھر بہت قہقہ مارکر ہنسنے لگا۔ لوگوں نے کہا کہ رونا سمجھ میں آتا ہے کہ بہت تکلیف اور شرمندگی محسوس ہوئی ہوگئی لیکن یہ بتاؤ کہ” قہقہ کیوں لگایا؟”۔ اس نے کہا کہ” میرے پیچھے والے کے پاس بڑے سائز کا تربوز ہے ۔ اس کو سزا ملے گی تو کیا بنے گا؟”۔چودھری افتخار کو جنرل پرویزمشرف نے بالوں سے گھسیٹا تھا تو اس وقت ہم نے یہی لطیفہ لکھ دیا تھا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ چودھری افتخار سے زیادہ پرویزمشرف کو وقار سیٹھ نے عبرتناک سزا کاحکم سنادیا۔ اگر عمران ریاض خان جانبدار صحافی ہیں اسلئے سزا کے مستحق ہیں تو پھر دوسری جانب بڑی لمبی فہرست میں جیو کا بڑا طبقہ، اسدطور،بلال غوری، عمران شفقت ، مطیع اللہ جان، افتخاراحمداورکئی سارے مشکل میں پڑیںگے۔
عمران خان پر توشہ خانہ ، عدت میں نکاح ، بیٹی کو تسلیم نہ کرنے اور القادر ٹرسٹ کے کیس چلے اور آخر میں اس کے ساتھیوں پر فوجی عدالتوں میں سزا کی تجویز ہے جس کا عمران خان کو بھی سامنا کرنا پڑسکتا ہے لیکن اس طرح کے کیس دوسروں پر کھلے۔ جنہوں نے توشہ خانہ سے گاڑیاں بیچ کھائی ہیں جس کی آئین میں اجازت بھی نہیں تھی۔ رنگیلا وزیراعظم نوازشریف کے بارے میں کتاب مارکیٹ میں آئی تھی۔ پارلیمنٹ میں جھوٹ بولا کہ الحمدللہ میرے پاس تمام دستاویزات ہیں۔ پھر قطری خط سے جھوٹ کھلا۔ ارشد شریف نے اس پر مکمل ڈاکو مینٹری فلم بنائی ہے۔ اگر یہ سب نوازشریف کے خلاف کھل گیا اور پھر آصف زرداری، مولانا فضل الرحمن اور دوسرے لوگوں کے خلاف کرپشن اور دوسری چیزوں کے معاملات کھل گئے تو بہت کچھ ہوجائے گا۔
انگریز کے نظام کی غلامی سے جان چھڑانے کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ غداری کا مقدمہ، پولیس، عدالت اور سیاسی حکومت کا رویہ برداشت کے قابل نہیں ہوتا۔ تحریک انصاف کے رہنما شہباز گل جلسہ عام میں کہتا تھا کہ ” ہماری شلواریں اتارکر ہرزاویہ سے تصویریں لی گئیں، کیا میں اور اعظم سواتی اب شلوار پہن لیں؟”۔ ہیرہ منڈی کی رنڈی بھی ایسی سرِ عام عصمت دری برداشت نہیں کرے گی۔ تحریک انصاف کوچھوڑ نے والی اکثریت پر عمران خان کوافسوس نہیں ہو ااسلئے کہ ہواؤں کے رُخ پر اڑنے والے موسمی پرندوں سے یہی توقع تھی۔ ایک عامر کیانی پر افسوس کا اظہار کیا جس نے کہا کہ میرے دادا نے جنگ عظیم اول میں انگریزی فوج میں شرکت کرنے کا اعزاز حاصل کیا ۔حالانکہ یہ غزوہ بدر اور غزوہ ہند کا معرکہ تو نہیں تھا؟۔ جنگ عظیم دوم میں میرے دادا سیدمحمد امیرشاہ کا بھانجا پیر کرم حیدر شاہ شریک ہوا تھا تواس کے زندہ سلامت واپسی کیلئے بڑا بیل نذر میں ماناتھا تاکہ مردار نہ ہوجائے۔ سلیم صافی نے امیر جماعت اسلامی کے منور حسن سے امریکیوں کے اتحادی پاک فوج کے خلاف فتویٰ پوچھا ۔پھراس کو امارت سے ہٹاکرتابعدارسراج الحق کو بنادیاگیا۔
موجودہPDMمیں ن لیگ خوش ہے کہ تحریک انصاف کے رہنماؤں کو پاک فوج سے لڑا دیا اور تحریک انصاف کے رہنما دھڑا دھڑ پارٹی چھوڑ رہے ہیں۔ لیکن اس سے عمران خان مزید مضبوط ہوتا جارہاہے اور کہہ رہا ہے کہ جس کو میں ٹکٹ دوں گا ،اسی کو لوگ ووٹ دیں گے۔ فوج کے خلاف شف شف کرنے والے شفتالو نہیں بول رہے تھے اور عمران خان کے چہیتوں نےGHQ، جناح ہاؤ س لاہور اور قلعہ بالا حصار پشاور میں کاروائی کر ڈالی۔ ہماری قوم بہادروں اور مظلوموں کو بہت پسند کرتے ہیں اور چوہے سے زیادہ کمزور حافظہ رکھتے ہیں۔ پہلے تحریک انصاف کے کارکنوں ، رہنماؤں اور قیادت کو بہادری پر داد کے قابل سمجھا اور جب وہ تحریک انصاف سے علیحدگی کے اعلانات کرنا شروع ہوگئے تو مظلوم سمجھ کر پذیرائی بخشنا شروع ہوگئے۔ انور مقصود کی زبان قوم کی نبض پر رہتی ہے۔ اگر پہلے کسی پروگرام میں مدعو ہوتے تو یہ کہہ کرسامعین کو محظوظ کرتے کہ بلوچ، پشتون، اہل کراچی ، عوام اور سیاستدان ہمیشہ مار کھاتے ہیں ،ابھی تو فوج نے بھی اس کا مزہ چکھ لیا ہے۔ ابPTIچھوڑنے والوں کی مجبوریوں کی عکاسی کرتے ہوئے قوم کے حسِ مزاح کو جگارہے ہیں۔
قوم قائدین کی کتی نہیںکہ فوج سے بنے تو اچھی اور نہ بنے تو بھڑے۔ عوام مہنگائی سے تنگ ہے۔ حکومت کے متضاد کردار کارومانوی پیار دیکھ کر بھڑک جاتی ہے ۔ طالبان تو مذہب کے نام پر خود کش کرتے ہیں اور فوج ملک کیلئے قربانی پیش کرتی ہے۔اگر قوم کرپشن اور بھیک سے نکلے تو حالات ٹھیک ہوسکتے ہیں ورنہ نہیں۔
اسد عمر اور زبیر عمر جیسے سیاست میں آئے توARYنیوز نے دونوں کا ایک ساتھ انٹرویو دکھایا۔ ظلے شاہ تحریک انصاف کا سرمایہ تھا مگر ایک طرف عمران خان سے ملاقات کا شرف نہیں ملتا۔ دوسری طرف موت کی وادی میں دھکیل کر مقدمہ عمران خان پر بنادیاگیا۔ تحریک انصاف میں واحد اور بے گناہ زبردست سیاسی رہنما شیریں مزاری کا سیاست کو چھوڑدینا افسوسناک ہے لیکن اس نے رہائی کے بعد وکٹری کا نشان بنایا اور ایمان مزاری نے اس کا ہاتھ زبردستی سے نیچے کردیا، پھر شیریں مزاری نے دوبارہ وکٹری کا نشان بنایا۔ حکومت نہیں ایمان مزاری نے شیریں مزاری کو سیاست چھوڑنے پر مجبور کیا۔فواد چوہدری نے اپنی بچیوں کیساتھ رہائی کے بعد ویڈیو بنائی۔عمران خان کے ایسے بیوی بچے نہیں۔ البتہ جس طرح مصطفی کمال کی پارٹی میں شامل ہونے والا کارکن اور رہنما پاک صاف ہوجاتا تھا ،اسی طرح تحریک انصاف چھوڑنے پر رہائی ملے تو اس سے یہ تأثر جاتا ہے کہ اصل جرم عمران خان سے وابستگی ہے ۔
عمران خان سے والہانہ محبت رکھنے والے طالبان کی طرح ہیں، ایک عورت نے موٹر سائیکل پر بیٹھ کر کہا کہ میرے چار بیٹے ہیں اور چاروں کو طالبان کی طرح عمران خان پر قربان کردوں گی۔شاید حکومت نے عمران خان کو اسلئے چھوڑ دیا کہ لندن میں نوازشریف بھی غیر محفوظ ہوگا۔ عام جذباتی لوگوں پر تشدد کیا جائے تو بلوچوں میں قوم پرستی، پختونوں میں طالبان پرستی کے بعدپھر پنجابیوں میں عمران پرستی اور نظریات پرستی کی بنیاد پر تشدد کا نیا راستہ کھل سکتا ہے اور اب حکومت اور ریاست پر عالمی قوتوں کا دباؤ بھی آ سکتا ہے۔
نہتے لوگوں نے کس طرح فوجی تنصیبات پر حملہ کرکے نذر آتش کیا؟۔اور جن کو گولیاں ماری گئی ہیں،ان کی حیثیت کیا ہے؟۔ غلطی اور سازش کہاں ہوئی ہے؟۔ قوم، سیاسی جماعتیں ، ریاستی ادارے اور حکومت اعتماد کھوچکے ہیں۔ اگر بروقت کسی اور طرف رُخ نہیں موڑا گیا تو نتائج بہت خطرناک بھی ہوسکتے ہیں۔
شیریں مزاری نے بیٹی کی خاطر سیاست چھوڑ دی۔ عمران خان کے ہزاروں کارکن خواتین و حضرات جیل میں ہیں۔ کچھ زخمی، کچھ قتل اور کچھ پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلنے کا اندیشہ ہے۔10افراد کی کمیٹی بناکر عمران خان کی پیشکش قابلِ غور ہے ۔ عمران خان کو سیاست سے الگ کرنے کا نقصان ملک وقوم اور جمہوریت، ریاست اور سیاسی جماعتوں سب کو ہوگا۔ اگر فوج در گزر سے کام لے تو الزام آئیگا کہ خود ملوث تھے اور عمران خان کو راستے سے ہٹاکر دم لیا اور حکومت الیکشن کے خوف سے عدالت کو بھی معاف نہیں کرتی جس نے اس حکومت کا راستہ ہموارکیاتھا تو عمران خان کو کہاں معاف کرے گی جس سے موروثی سیاسی کاروبار ختم ہوگا اور اگرعمران خان نے فوجی عدالت یا رضاکارانہ طورپر سیاست چھوڑ دی تو سب کچھ ماند ہو گا۔ ریاست ، عدالت قوم ، حکومت اور اپوزیشن نازک موڑ پر آگئے لیکن اس کا بہت فائدہ بھی ہواہے کہ شعور کی منزل مل گئی۔
فتاویٰ عثمانی سے چند نمونے دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسلام کے نام پر انسانیت کیساتھ کتنا بڑا ظلم ہے؟۔ لوگ اتنے جذباتی ہیں کہ کاٹلنگ مردان میں ایک مولوی کو کس طرح جذباتی انداز میں قتل کیا گیا اور پھر سیاسی جماعتوں کے کارکن بھی اس قتل کی حمایت کررہے تھے۔ حالانکہ علماء حدیث بیان کرتے ہیں کہ ”میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کی طرح ہے”۔پھر تمام علماء کرام کو منبر ومحراب میں قتل کردیا جائے گا؟۔ نبیۖ کی طرف گناہوں کی نسبت اور علماء کو معصوم سمجھنے کا عقیدہ بلکہ قرآن کے مطابق رب بنانے کا طرزِ عمل خطرناک ہے۔ گستاخی کو غلط رنگ میں پیش کرنے سے جذباتی لوگ مشتعل ہوتے ہیں۔
قرآن کی آیت229البقرہ میں خلع کا تصور نہیں بلکہ صلح نہ کرنے کی صورت ہے۔ اس کے بعد نہ صرف آیت230البقرہ کا مفہوم سمجھ میں آتا ہے کہ حلالے کا کوئی تصور نہیں بلکہ دوسری آیات بھی سمجھ میں آتی ہیں کہ عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد صلح کی شرط پر رجوع کا دروازہ کھلا ہے۔ جس سے طلاق و رجوع کے حوالے سے تمام لایعنی تضادات کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔کاش علماء حق اس طرف بھی توجہ دے دیں ۔عدالتی اور مقامی سطح سے لیکر بین الاقوامی سطح تک بچیوں کے حقوق کا معاملہ ہر فورم پر اٹھانا چاہیے کہ اگر کم عمری میں باپ یا دادا نکاح کردے تو بلوغت کے بعد بچی کو فسخ نکاح کا حق نہ ہو اور اگر دلال کردے تو بلوغت پر اس کو فسخ نکاح کا حق حاصل ہو۔ مفتی تقی عثمانی کے دار العلوم کے پیچھے برمی بنگالی عورتوں کی منڈی لگتی تھی۔
علماء ایک طرف عورت کی مرضی ، ان کے سرپرستوں کی مرضی اور عدالتی فیصلے کے باوجود عورت کا نکاح سے جان نہیں چھوڑتے، اگرچہ دوسری جگہ اس کی شادی بھی ہوجائے ۔ دوسری طرف میاں بیوی صلح کرنا چاہتے ہیں اور علماء صلح کرنے نہیں دیتے ہیں۔ ان دونوں اور غیرفطری فتوؤں کی وجہ سے مسلمان تباہ ہیں اور یہ دونوں صورتحال قرآن کی تفسیر کو غلط رنگ دینے اور ناقابل تأویل آیات کو غلط رنگ میں پیش کرنے کا نتیجہ ہے۔ سورہ النساء آیت19میں خلع کا قانون ہے لیکن علماء نے صاف اور واضح ترجمہ اور مفہوم کے برعکس غلط مفہوم پیش کیا ہے۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ عورت کو بالکل غیر فطری انداز میں حقوق سے محروم کردیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ عورت حرام کاری پر مجبور کی جاتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن، درخواستی ، سندھی، لاہوری اور دیگر عجمی عوام کی بالغ لڑکیوں کو کوئی زبردستی اغواء کرلے ، ڈرا دھمکاکر نکاح کرے تو پھر عدالت میں اس لڑکی اور اسکے ورثاء کو خلع کا حق نہیں ہوگا اور اسکا ایک ہی راستہ ہوگا کہ اغواء کار سے طلاق لی جائے۔
مفتی تقی عثمانی کے بارے میں مصدقہ اطلاع تھی کہ اس کی بیٹی نے ٹیوشن پڑھانے والے سے نکاح کرنا چاہا تھا لیکن پھر اس کو مجبور کرکے دوسری جگہ شادی کرائی۔ جس طرح سندھ کے وڈیرے اور عرب بادشاہ اپنی بیٹیوں کا نکاح جائیداد کی وجہ سے مشکل سے کرتے ہیں۔ مفتی تقی عثمانی اور مفتی رفیع عثمانی ایک بڑے وقف جائیداد کے مالک بن گئے ۔ ایک بہنوئی مفتی عبدالرؤف سکھروی کو بھگت رہے ہیں جس کو مفتی شفیع نے گھر داماد بنالیا تھا۔ مفتی تقی عثمانی نے کمپیوٹر کی تصویر کو جائز قرار دیا تھا اور مفتی عبدالرؤف سکھروی نے اپنا تقویٰ ثابت کرنے کیلئے مریدوں سے کہنا شروع کیا کہ ”شادی بیاہ میں تصاویر کی ویڈیوز بہت خطرناک گناہ ہے۔ اس طرح لفافے کی لین دین بھی سود اور اس کا کم ازکم گناہ اپنی ماں سے زنا کے برابر ہے”۔ پھر بینک کے سودی نظام کو بھی مفتی تقی عثمانی نے معاوضہ لیکر جواز بخش دیا ۔ ان کا فتویٰ عیاری ، ان کا تقویٰ عیاری۔ ان کی طریقت عیاری اور ان کی شریعت عیاری۔ اگر پنجابی، سرائیکی، پشتون، بلوچ، سندھی اور مہاجر لڑکی کو کوئی زبردستی اغواء کرلے اور ڈرا دھمکاکر نکاح کرے تو یہ نکاح صحیح ہو اور مفتی تقی عثمانی کی اجازت کے بغیر اسکے خاندان کی لڑکی کا نکاح دوسرے مہاجر سے غیر شرعی ہو اور یہ قوم اتنی بے غیرت بن جائے کہ اس فتوے کو قبول کرے تو ایسے بے غیرت غلامی سے نہیں نکل سکتے ۔ عربی میں غلامی بندگی کو کہتے ہیں۔ ان علماء کے یہ بندے و غلام ہیں۔ جب کمزور طبقہ سے جان نہیں چھڑاسکتے تو عالمی قوتوں سے کیسے جان چھڑائیں گے؟۔ سیاسی جلسے جلوس کیلئے جو سڑک بند کرنا جائز نہیں سمجھتے مگر دارالعلوم کراچی میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہوئی تو سڑکوں پر طلبہ کو نکال دیا ۔ تقی عثمانی بھی اپنی فیس وصول کرکے طلبہ کو جلوسوں میں بھیج سکتا ہے۔ سیاسی جماعتیں جلوسوں کیلئے بھاڑہ دیتی ہیں۔PDMاور حکومت کو مولوی طبقہ احتجاج کیلئے ملتا ہے۔مدارس کو اس کیلئے استعمال کیا جائیگا۔ بنوں اور تربت میںغریب امامِ مسجد کی ماہانہ تنخواہ3ہزارہے جبکہ احتجاج میں دیہاڑی3ہزاردی جاتی ہے۔
آرمی چیف حافظ سید عاصم منیر بڑی میٹنگ کا اہتمام کریں اور ملک وقوم کو مشکل حالات سے نکالیں۔
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv