مئی 2023 - Page 2 of 4 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

عورت اور بچی کے ساتھ اسلام کے نام پر جو مظالم ہیں وہ قرآن اور حدیث کی وجہ سے نہیں بلکہ غلط فقہی فتوؤں کی وجہ سے ہیں

عورت اور بچی کے ساتھ اسلام کے نام پر جو مظالم ہیں وہ قرآن اور حدیث کی وجہ سے نہیں بلکہ غلط فقہی فتوؤں کی وجہ سے ہیں

پٹھان، بلوچ، پنجابی ، سندھی، مہاجر ،برمی، بنگالی ہر عجمی نسل لڑکی کا اغواء اور ڈرادھمکاکر نکاح جائز !

علماء حق بالکل بھی فکر نہ کریں ، جس طرح مردہ زمین کو زندگی ملتی ہے اسی طرح اسلام کے آفاقی نظام کی نشاة ثانیہ کے ذریعے سے علماء حق اور مسلمانوں کو نئی زندگی ملے گی

___مفتی تقی عثمانی کی بالکل اچھوت والی غلط شریعت___
” جس لڑکی نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اسکا نکاح باطل ہے، باطل ہے ، باطل ہے”۔ یہ حدیث صحیح مگر قرآن حتی تنکح زوجاً غیرہ (یہاں تک کہ وہ نکاح کرے ) سے متصادم ہے”۔
حالانکہ صرف طلاق شدہ اور بیوہ کوقرآن نے خود مختار کہاہے۔فقہ حنفی میں قرآن وحدیث میں تطبیق ہو تو دونوں پر عمل ہونا چاہیے۔ حدیث میں کنواری لڑکی مراد ہے اور قرآن میں طلاق شدہ اور بیوہ کا ذکر ہے ۔
ایک طرف بلاوجہ نبی ۖ کی حدیث کو قرآن کے منافی قرار دیکر مسترد کیا ہے اور دوسری طرف اچھوت ذہنیت کے علماء وفقہاء نے خود کو جعلی عربی نسل بناکر اپنے لئے الگ معیار بنایا ہے اور عوام بیچاروں کیلئے انتہائی غیرفطری شریعت بناڈالی ہے۔ اس ظالمانہ فتوے کو دنیا کا کوئی غیرتمند انسان قبول نہیں کرے گا۔
سوال:ایک آدمی نے عاقلہ بالغہ لڑکی کو اغواء اور ڈرا دھمکا کر نکاح کرلیا۔ لڑکی آرائیں اور لڑکا شیخ ہے۔ دونوں قوم کی شرافت میں فرق ہے۔ آرائیں معزز اور شیخ کھوجہ ذلیل سمجھے جاتے ہیں تو نکاح ہوسکتا ہے؟۔
الجواب : آرائیں اور شیخ دونوں عجمی نسلیں ہیں اور عجمیوں کے درمیان کفاء ت کا اعتبار نہیں ۔ مذکورہ نکاح چونکہ عاقلہ بالغہ نے اپنی اجازت ورضامندی سے کیا۔ اگر لڑکی یا اسکے رشتہ دار نکاح کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو اسکا واحد راستہ یہی ہے کہ لڑکے سے طلاق حاصل کریں۔ مفتی محمد تقی عثمانی (فتاویٰ عثمانی جلددوم صفحہ280)
اگر عثمانی لڑکی بغیر اجازتِ ولی عجمی نسل سے نکاح کرے تو شرعاً معتبر نہیں ۔کیا یہ بے غیرتی دنیا کو قبول ہے؟۔اگر لڑکا سید، صدیقی ، فاروقی ، عثمانی ہو تو بنت صالحین کاکفوء نہیں۔ صالح ہو تو مسلک وعقیدہ اور عرف میں کفوء نہیں۔ حدیث کا انکار اوراچھوت کا اعتبار؟۔ اچھوت مفتی کے فتوؤں کابڑاپوسٹ مارٹم حاضر ہے۔
٭٭

___انگریز عدالت کا فیصلہ بھی بھونڈے فتویٰ سے اچھا ___
صفحہ نمبر2پر مفتی تقی عثمانی کے ” فتاوی عثمانی” کے فتوے اور تضادات کو واضح کردیا ہے۔ پہلے یہ انفرادی فتویٰ فروشی کے دھندے میں ملوث تھے۔ اب یہ عالمی سودی نظام کے جواز پر معاوضے میں ملوث ہیں۔
یہ واضح تھا کہ عاقلہ بالغہ لڑکی کو اغواء کیا اور اس سے ڈرا دھمکاکر نکاح کرلیا مگر جواب دیا گیاہے کہ لڑکی کا یہ نکاح اپنی اجازت اور رضامندی ہے۔ یعنی اگر زبردستی سے مجبور کیا جائے اور اس کو اغواء کیا گیا ہو تب بھی نکاح منعقد ہوگیا ۔ اب اس سے خلاصی کیلئے کسی عدالت سے مدد نہیں لی جاسکتی ہے اور جب تک لڑکا اپنی مرضی سے طلاق نہیں دے گا تو لڑکی اسکے نکاح میں رہے گی۔ کچے کے ڈاکو اس فتویٰ کا فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔
جمعیت علماء اسلام اور پاکستان، جماعت اسلامی، تحریک لبیک ، اہل سنت والجماعت (سپاہ صحابہ) و دیگر مذہبی جماعتیں پہلے مل بیٹھ کر اس جعلی شریعت کا علاج کریں جو موجودہ عدالتی نظام سے بھی بہت بدتر ہے۔
عدالت میں کیس جائیگا تواس شریعت کے مقابلے میں کھربوں گنا بہتر ہے اسلئے کہ اگر لڑکی گواہی دے کہ زبردستی سے اغواء اور نکاح کیااور جنسی زیادتی کی تو اس پر اغواء اور جبری جنسی زیادتی کے دفعات لگیں گے۔ دہشت گردی کی دفعہ بھی لگ سکتی ہے اور معاونت کرنے والوں اورسہولت کاروں کو سزامل سکتی ہے۔
قارئین ! مفتی کی اس شریعت سے انگریزی عدالت کا فیصلہ بہت اچھا ہے۔ جمہوری نظام اچھوتوں کی جعلی شریعت سے جان چھڑانے کیلئے ٹوٹی ہوئی ہڈی کو جوڑنے کی پٹی ہے۔ پاکستان نے وفاقی شرعی عدالت کو زیردست رکھاہے اسلئے کہ یہ اچھوت کی شریعت ہے جس میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ حضرت محمد عربی خاتم الانبیاء ۖ کی شریعت کے خلاف قادیانی اور ان علماء ومفتیان نے سازشیں کی ہیں۔
٭٭

___اصلی اسلامی شریعت کا فیصلہ سب کیلئے قابلِ قبول___
اگر قرآن وسنت کا نظام نافذ ہوگا تو والدین کو اجازت نہ ہوگی کہ بیٹیوں کے نکاح پر فیصلہ مسلط کریں۔ کسی مسلم و غیر مسلم لڑکی کو گھر سے بھاگ کر نکاح کی ضرورت نہ ہو گی ۔ ریاست ذمہ دار ہوگی کہ کسی عورت کو نکاح پر مجبور نہ کیا جائے۔ لڑکیاں والدین کے ناجائز اور غیرفطری روئیے سے گھر بار چھوڑ کر فرار ہوتی ہیں ۔ قرآن نے حکم دیا کہ تمہاری لڑکیاں جب نکاح کرنا چاہتی ہوں تو ان کو بغاوت اور بدکاری پر مجبور مت کرو۔ جبکہ حدیث واضح ہے کہ اگر لڑکی اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے تو اس کا نکاح باطل ہے۔ اسلام نے چودہ سوسال پہلے متوازن معاشرتی نظام کی بنیاد رکھ دی جس کا اچھوت علماء نے کباڑہ کرکے رکھ دیا ۔
اسلام میںجبری جنسی زیادتی پر سرِ عام سنگساراور اسکے معاونین کو فساد فی الارض میں سولی پر لٹکانے ، ہاتھ اور پیر کو مخالف جانب کاٹنے اور قید کی سزا قرآن میں ہے۔ گوانتانا موبے میں مظالم کی انتہاکی گئی ہے ۔ اقبال نے ابلیس کی زباں سے لکھ دیا کہ: جانتاہوں میں یہ اُ مت حاملِ قرآں نہیں…ہے وہی سرمایہ داری بندۂ مومن کا دیں…جانتا ہوں کہ مشرق کی اندھیری رات میں… بے یدِ بیضاء ہے پیران حرم کی آستیں… عصرِ حاضر کے تقاضوں سے ہے لیکن یہ خوف…ہو نہ جائے آشکارا شرع پیغمبر کہیں…الحذر آئینِ پیغمبر سے سو بار الحذر…حافظِ ناموسِ زن مرد آزما مرد آفریں… موت کا پیغام ہر نوعِ غلامی کیلئے …نے کوئی فغفور و خاقاں،نے فقیرِ رہ نشیں…کرتا ہے دولت کو ہر آلودگی سے پاک…منعموں کو مال ودولت کا بناتا ہے امیں…اس سے بڑھ کر کیا فکر و عمل کا انقلاب؟… پادشاہوں کی نہیں اللہ کی ہے یہ زمیں…چشم عالم سے پوشیدہ رہے یہ آئین تو خوب…یہ غنیمت ہے کہ خود مؤمن ہے محرومِ یقیں ( ابلیس کی مجلس شوریٰ )

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

قرآن پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے عذاب اورکورکمانڈر ز کے گھر نذرِ آتش اورGHQپر حملہ؟

قرآن پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے عذاب اورکورکمانڈر ز کے گھر نذرِ آتش اورGHQپر حملہ؟

مفتی تقی عثمانی نے سودی بینکاری کو اسلامی قرار دیا جس سے اللہ اور اسکے رسول ۖ سے جنگ کو جواز بخشا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے امت کو حلالہ کی لعنت سے بچانے کیلئے ہمارا شرح صدر کردیا ۔ دیوبندی بریلوی علماء ومفتیان کی سمجھ میں بات آگئی لیکن مقتدر طبقہ عوام کی عزتوں کو بچانے کیلئے کوئی کردار ادا نہیں کرتا۔ عمران خان اور تحریک انصاف تو بہانہ ہے لیکن اصل میں یہ قدرت کا نشانہ ہے۔ مسلم لیگ ن کے صحافیوں نے اردو اور پنجابی زبان میں فوج کو بدنام کرنے کیلئے آخری حدیں عبور کرلیں۔ راشد مراد نے کھریاں کھریاں میں کہا کہ ” فوج نے عمران خان کو دھرنے سے باعزت اٹھانے کیلئے پشاور آرمی پبلک سکول کا واقعہ کرایا۔ لاہور میں کور کمانڈر ہاؤس کا واقعہ عمران خان اور جرنیلوں کی باہمی رضا مندی سے کتا اور کتی کے جنسی ملاپ کا تماشا ہوا،پھر لوگ پتھر مارتے ہیں”۔
جنرل عاصم منیر قرآن کے پہلے سید حافظ آرمی چیف ہیں اور حدیث میں اس حافظ کی فضلیت ہے کہ جو قرآن کے حلال و حرام کو سمجھ لے اور اس پر عمل کرے۔ آج اُمت عذاب میں مبتلاء ہے ۔ شوہر تین طلاق دیتا ہے تو جاہل مفتی فتویٰ دیتا ہے کہ حلالہ کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا ۔ حلالہ لعنت ہے ۔کچھ ساری زندگی جدائی گوارہ کرلیتے ہیں مگر حلالہ نہیں کرتے۔ کبچھ حرام سمجھ کر بغیر حلالہ رجوع کرلیتے ہیں اور کچھ کسی اہلحدیث یا شیعہ سے فتویٰ لیتے ہیں اور پھر رجوع کرلیتے ہیں لیکن زیادہ تر جاہل مفتی سے فتویٰ لیکر حلالہ کی لعنت کا شکار بنتے ہیں۔
اللہ نے فرمایا: وقل انی انا النذیر المبینOکماانزلنا علی المقتسمینOالذین جعلوا القراٰن عضینOفوربک لنسئلنھم اجمعینOعما کانوا یعملونO” اور کہہ دیجئے کہ بیشک مَیں کھل کر ڈرانے والا ہوں۔ جیسا کہ ہم نے اس کو بٹوارے کرنے والوں پر نازل کیا ۔ جنہوں نے اس قرآن کو ٹکڑے کرڈالا۔ سو قسم ہے تیرے رب کی ہم ان سب سے ضرور پوچھیںگے۔ وہ جو یہ عمل کرتے تھے۔ (الحجر: آیات89سے93)
اللہ تعالیٰ کو پتہ تھا کہ قرآن کے ٹکڑے کرنے والے حلالہ کیلئے قرآنی آیات کیساتھ کیا سلوک کریںگے؟۔ آیت229کے پہلے حصے کے بعدآخری حصے کو نکال کر کیسے بالکل بلاجواز آیت230کے ساتھ جوڑ دیں گے؟۔ تاکہ حلالہ کی لعنت اور امت مسلمہ کی خواتین کی عزتیں لوٹنے کیلئے راستہ ہموار ہوجائے!۔
آرمی جنرل حافظ سید عاصم منیر اور تمام کور کمانڈرز سے استدعا ہے کہ مفتی تقی عثمانی، مولانا فضل الرحمن اور ہمارے درمیان ملاقات کا اہتمام کرائیں۔ ہم حلالہ و سود کی لعنت سے معاشرتی اور معاشی عذاب کا شکارہیں۔ہماری معیشت اور معاشرت دونوں میں قرآن وسنت کی بنیاد پر انقلابی تبدیلی آجائے گی۔
جب اللہ اور اسکے رسول ۖ کے نام پر شادی شدہ خواتین کو عزت لٹانے پر مجبور کیا جائے تو اس سے بڑی بدبختی اور کیا ہوسکتی ہے؟۔ بلوچستان، پختونخواہ، پنجاب ، اندرون سندھ اور کراچی میں قرآنی آیات ، احادیث صحیحہ، اصول فقہ اور حنفی مسلک کی درست تشریح وتعبیر سے تعلیم یافتہ اور ان پڑھ لوگوں کے دل دماغ کھولیں جائیں تو پاکستان کی عظیم قوم پوری دنیا کی امامت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ مولانا عبیداللہ سندھیرکن کانگریس نے تفسیر آخری پارہ المقام المحمود میں سورہ القدر کی تفسیر میں لکھا ہے کہ ” سندھ ، بلوچستان، پنجاب، کشمیر ، فرنٹیئر اور افغانستان میں جتنی قومیں بستی ہیںیہ سب امامت کی حقدار ہیں۔ اسلام کی نشاة ثانیہ پوری دنیا میں اس علاقہ سے ہوگی۔ ایران بھی اس انقلاب کو قبول کرلے گا اسلئے کہ امام ابوحنیفہ بہت سارے اہل بیت کے شاگرد تھے”۔
افسوس یہ ہے کہ مولانا عبیداللہ سندھی نے جس مسلک حنفی کی بنیاد پر قرآن کی طرف رجوع کی دعوت دی تھی تو اس پر ذرہ برابر علماء دیوبند بھی عمل نہ کرسکے اور قرآن واسلام کا حیلہ وحلالہ کے ذریعے بیڑہ غرق کرنے والے مفتی تقی عثمانی جیسے لوگ آخرکار سودی بینکاری کو اسلامی قرار دینے میں کامیاب ہوگئے۔
اگر سورہ بقرہ آیات222سے232اور سورہ ٔ طلاق کی پہلی دو آیات میں ان کا خلاصہ سمجھ لیا جائے تو دماغ روشن ہوگا۔ جس کمالِ ہنر سے دورِ جاہلیت کے سارے مسائل کا زبردست حل نکالا ہے اس کے بالکل برعکس فقہاء ومشائخ نے دورِ جاہلیت سے بھی زیادہ تین طلاق اور حلالہ کے عجیب وغریب مسائل نکال کر امت مسلمہ کو جاہلیت میں دھکیل دیا ہے۔ اسلام نے آخرت سنوارنے کا راستہ بتایا تھا اور علماء ومشائخ نے اسلام کو اپنی دنیا سنوارنے کا ذریعہ بنالیا ہے۔
تبلیغی جماعت کا کام مولانا محمد الیاس نے بہت خلوص سے شروع کیا تھا مگر بستی نظام الدین ہندوستان اور رائیونڈ کے تبلیغی مراکز بھی تقسیم ہوگئے ۔ شیخ الہند مولانا محمود الحسن کے ایک کام ” قرآن کی طرف رجوع” کا بیڑہ مولانا عبیداللہ سندھی نے اٹھایا تھا۔ دوسرے کام ”اتحادِاُمت اور فرقہ واریت کے خاتمہ” کا بیڑہ مولانا محمد الیاس نے اٹھایا تھا۔ مولانا محمدالیاس کے صاحبزادے مولانا محمد یوسف کی وفات سے 3دن پہلے کی تقریر امت کے اتحاد پر تھی۔ حاجی محمد عثمان نے حضرت شیخ الہند کے اتحاد کا مشن مولانا محمد الیاس اور مولانا یوسف کے توسل سے اٹھایا تھا۔ مسجد الٰہیہ، مدرسہ محمدیہ ، خانقاہ چشتیہ، خدمت گاہ قادریہ، یتیم خانہ سیدنا اصغر بن حسین کے ناموں سے دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث اور اہل تشیع کے درمیان توڑ کی جگہ جوڑاتحادواتفاق اور وحدت پیدا کرنے کا پروگرام تھا۔
مولانا عبیداللہ سندھی کے قرآنی انقلاب کی تعلیم بفضل تعالیٰ ہم نے خانقاہ سے شروع کردی تھی۔ شیخ الہند کی تحریک کے اصل وارث حاجی محمد عثمان تھے۔ ہم نے دیوبندیت کا نام استعمال کرنے کو اتحاد امت کے منافی سمجھا تھا۔ تقلید کے خلاف حضرت شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید نے جو کتاب لکھ دی تھی تو اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان بریلوی کے فتوے نے علماء دیوبند کو مجبور کیا تھا کہ وہ تقلید کا اعتراف کریں۔ حالانکہ یہ ایک مجبوری میں لکھی جانے والی کتاب تھی جس میں عبدالوہاب نجدی کی سخت مذمت کی گئی ہے اور جب سعودی عرب کے موجودہ حکمرانوں نے حجاز مقدس پر قبضہ کیا تو دیوبندی اکابر نے اپنامؤقف بدل دیا کہ عبدالوہاب نجدی مقدس ہستی تھے۔ ہم نے غلط فہمی میں مخالفت کی۔
مفتی محمد تقی عثمانی نے اپنی کتاب ” تقلید کی شرعی حیثیت” میں جہالت کے وہ جوہر دکھائے ہیں کہ بہت کم علم اور کم عقل انسان بھی ایسی جہالت کا مظاہرہ نہیں کرسکتا ہے۔ مولانا احمد رضا خان بریلوی نے ” تقلید کو بدعت ” قرار دینے کے خلاف آواز اٹھائی تھی لیکن وہ بھی ” تقلید کے متعلق ” یہ بے سروپا بکواس دیکھ لیتا تو پکار اٹھتا کہ ” یہ کیا گمراہ کن باتیں لکھ ڈالی ہیں”۔ مولانا محمد یوسف لدھیانوی کی کتاب ” عصر حاضر حدیث نبویۖ کے آئینہ میں” جو احادیث موجودہ دور کے بارے میں درج ہیں وہ مفتی تقی عثمانی نے ائمہ مجتہدین کے دور کے بارے میں بطور دلیل پیش کی ہیں۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ ” علم آسمان پر نہیں اٹھایا جائیگا بلکہ علماء ایک ایک کرکے اٹھتے جائیں گے، جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو پیشوا بنالیںگے ۔ وہ ان سے فتویٰ پوچھیں گے تو وہ بغیر علم کے جواب دیں گے اور وہ گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے”۔ (متفق علیہ)
مفتی تقی عثمانی نے اس حدیث پر یہ بات لکھ دی ہے کہ” ائمہ مجتہدین کے بعد علم اٹھ چکاہے۔ اگر ان کے بعد کوئی اجتہاد کرے گا تو وہ خود بھی گمراہ ہوگا اور جو اس کی بات پر عمل کریںگے تو وہ خود بھی گمراہ ہوںگے”۔ اگر مفتی تقی عثمانی کی یہ بات مان لی جائے تو سود کو جواز بخشنے پرمفتی تقی اور اس کو ماننے والے گمراہ ہیں۔
مفتی تقی عثمانی نے دوسری بات یہ لکھ دی ہے کہ ” عوام کا کام تقلید کرنا ہے اور اگر علماء غلط فتویٰ بھی دیں گے تو علماء کو غلطی پر ثواب ملے گا اور عوام کو نقصان نہیں پہنچے گا”۔ حالانکہ حدیث میں تو واضح ہے کہ جو ان کی مانے گا وہ بھی گمراہ ہوگا۔
مفتی تقی عثمانی نے قرآنی آیت اطیعواللہ واطیعوا الرسول واولی الامر منکم فان تنازعتم فی شئی فردوہ الی اللہ والی الرسول ” اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور تم میں سے جو اولی الامر ہیں ۔ اگر کسی بات میں تمہارا تنازع ہوجائے تو اس کو اللہ اور رسول کی طرف لوٹادو” کے حوالہ سے لکھ دیا ہے کہ ”اس میں اللہ اور اس کے رسول ۖ کے علاوہ بعض لوگوں کے نزدیک حکمرانوں اور بعض کے نزدیک علماء کی اطاعت کا حکم ہے۔ زیادہ راجح یہ ہے کہ علماء ومفتیان کی اطاعت مراد ہے اور علماء ومفتیان سے عوام کو اختلاف کا حق بھی نہیں ہے ، ان کا کام صرف اطاعت ہے۔ آیت میں تنازع سے مراد علماء کے آپس کا اختلاف ہے”۔ تقلید کی شرعی حیثیت میں قرآنی آیت و احادیث کے بارے میں مفتی تقی عثمانی نے جو انتہائی غلط ، خود غرضی اور نفس پرستی پر مبنی باتیں لکھ دی ہیں وہ عوام اور علماء ومفتیان کے سامنے آجائیں تو اس کو گدھا گاڑی چلانے کے علاوہ کسی بھی علمی خدمت کے قابل ہر گز نہیں سمجھیں گے۔
قرآن میں یہودی مذہبی طبقہ کے بارے میں گدھے کی مثال اسلئے دی گئی ہے جن پر کتابیں لاد رکھی ہوں۔جب قرآن کی واضح آیات کو چھوڑ کر تقلیدی مسائل کی جستجو میں اپنا وقت ضائع کیا جائے تو مولانا انور شاہ کشمیری جیسے بڑے مخلص علماء کہیں گے کہ ہم نے قرآن وسنت کی جگہ فقہ کی وکالت میں عمر ضائع کی ہے۔ لیکن مفتی محمد شفیع جیسے لوگ اپنی اولاد کیلئے وقف مال خرید کر دین کی خدمت کو منافع بخش تجارت قرار دیں گے اور ان کی اولاد بھی اسی راستے پر چلے گی۔
مفتی شفیع و مفتی تقی عثمانی نے قرآن کے ترجمہ وتفسیر میں بڑی بڑی غلطیاں کی ہیں۔ جب تک حکومت ، علماء اور عوام بڑے پیمانے پر اُٹھ کھڑے نہ ہوں تو یہ اپنی غلطیاں اعلانیہ مان کر اپنی کتابوں سے نہیں نکالیں گے۔ہم نے سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے والی بات کو نکالنے پر مجبور کیا تو ” فتاویٰ عثمانی ” میں فتویٰ ڈال دیا ہے لیکن اس فتوے کی پوری داستان ہے اور اس کے پیچھے بڑے حقائق ہیں۔ جس دن واشگاف انداز میں حقائق سامنے آگئے تو انشاء اللہ دنیا میں مجرم کٹہرے میں الگ نظر آئیںگے۔نبی ۖ نے مختلف ادوار کا ذکر فرمایا:نبوت و رحمت کا دور، خلافت راشدہ کا دور، امارت کا دور ، بادشاہت کا دور، جبری حکومتوں کا دور اورپھر دوبارہ طرزِ نبوت کی خلافت کا دور جس سے آسمان وزمین والے دونوں خوش ہوں گے۔ مولانا آزاد، مولانا مودودی، ڈاکٹر حبیب اللہ مختار شہید نے شیخ عبداللہ ناصح علوان کی کتاب ”مسلمان نوجوان” مولانامحمد یوسف لدھیانوی شہید، ڈاکٹر اسرار احمد نے خلافت کے قائم ہونے کی پیش گوئی کی ۔
نبی ۖ سے پوچھا گیا ”ہمارے پاس یہ خیر آئی۔کیا اس کے بعد شر ہوگا؟۔ فرمایا: ہاں ۔ عرض ہوا کہ اس شر کے بعد خیر ہوگی؟۔ فرمایا: ہاں مگر اس میں اچھے اور برے ہر طرح کے لوگ ہوں گے اور اس میں دھواں ہوگا۔ (یعنی اسلام پر اجنبیت کے آثار نمایاں ہوں گے)۔ عرض ہوا کہ اس خیر کے بعد کوئی شر ہوگا؟۔ فرمایا: جہنم کے دروازے پر کھڑے ہوکر دعوت دیں گے جو ہماری زبان اور لبادہ میں ہوں گے جو ان کی دعوت قبول کرے گا تو اس کو جہنم میں جھونک دیں گے۔ عرض کیا : ان سے بچنے کا طریقہ کیا ہوگا؟۔ فرمایا: مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام سے مل جاؤ۔ عرض کیا کہ اگر نہ مسلمانوں کی جماعت ہو اور نہ امام تو پھر؟ فرمایا: سب فرقوں سے الگ ہوجاؤ ، خواہ درخت کی جڑ میں پناہ لینی پڑجائے”۔
شاہ اسماعیل شہید نے اپنی کتاب ” بدعت کی حقیقت ” میں لکھ دیا کہ ” تقلید چوتھی صدی ہجری کی بدعت ہے اور پہلے تین صدیاں خیر القرون کی ہیں ۔اسلئے تقلید کو چھوڑنا ہوگا”۔ حضرت شاہ ولی اللہ نے لکھ دیا کہ ” خیرالقرون نبیۖ، حضرت ابوبکر وعمر اور حضرت عثمان کے دور تک تھا۔ حضرت علی کے دور میں فتنہ و فساد کا شر پیدا ہوگیا تھا، وہ بھی پہلے تین ادوار میں شامل نہ تھا”۔ حضرت علی نے کہا تھا کہ ” میں نبی ۖ کے مطابق عمل کا پابند ہوں۔ حضرت ابوبکر وعمر کے نقشِ قدم پر نہیں چلوں گا”۔ حضرت عثمان نے کہا کہ ” میں نبی ۖ ، حضرت ابوبکر وعمر کے مطابق چلوں گا”۔ حضرت عثمان اسلئے شوریٰ کی طرف سے منتخب ہوگئے۔
حضرت عثمان کی شہادت کے بعد خلافت راشدہ میں آپس کی لڑائی سے شر پیدا ہوا تھا جس نے خلافت راشدہ سے امارت تک قتل وغارت گری حضرت علی اورحضرت حسین کی شہادت تک دیکھ لی۔ پھر حکمرانوں اور عوام میں حضرت عمر بن عبدالعزیز اور ائمہ اہل بیت وائمہ مجتہدین جیسے اچھے لوگ بھی تھے۔ یزید اور امام ابویوسف جیسے برے لوگ بھی تھے۔ جس کا سلسلہ امارت کے دور سے جبری حکومتوں کے آخری دور تک بدستور قائم رہاہے۔ اب ایک طرف مذہبی لبادے میں فرقہ واریت اور جہنم کے دروازے پر کھڑے ہوکر بلانے والوں کا حال ہے اور دوسری طرف مسلمانوں کی جماعت اور امام کے قیام کی ضرورت ہے۔
مفتی تقی ورفیع عثمانی کے استاذ مولانا عبدالحق حاجی محمدعثمان کے مرید وخلیفہ تھے۔ خانقاہ میں واقعہ بتایا کہ پیر نے مریدوں کو ہاتھی کا گوشت کھانے سے منع کیا۔ جنگل میں راشن ختم ہوا۔ کچھ نے ہاتھی کا بچہ ذبح کیا اور پکاکر گوشت کھایا۔ کچھ نے نہیں کھایا۔ رات کو سب سوگئے توہتھنی نے سوتے میں ایک ایک کا منہ سونگھا۔ جنہوں نے گوشت کھایا ، گردن پر پاؤں رکھ کر ماردیا اور جنہوں نے نہیں کھایا تھا تو ان کو چھوڑ دیا”۔ مولانا خانقاہ چھوڑ کر گئے تو ”ہاتھی کا گوشت” نام پڑا تھا۔فوجیوں میں سینئر خواجہ ضیاء الدین بٹ تھا جس کو آرمی چیف بنایا گیا لیکن انتہائی ذلت اور تکالیف کا سامنا کرنا پڑا ۔اسلئے کہ اللہ والے کو دھوکا دیا تھا۔
حکمرانوں کی سختیاںپہنچیں گی مگر جس نے اللہ کا دین پہچانا اور پھر اس کیلئے زبان ،ہاتھ اور دل سے جہاد کیااور جس نے اللہ کا دین پہچانا اور پھر زبان سے تصدیق کی اور جس نے اللہ کا دین پہچانا ،اللہ کیلئے کسی سے دل میں محبت رکھی اور کسی سے بغض رکھا ،اس کے تمام چھپانے کے باوجود وہ نجات پاگیا، اس کے علاوہ کسی میں رائی کے برابر ایمان نہیں”۔( حدیث :عصر حاضر) ایک عالم دین نے خواب دیکھا کہ جنت کے دروازے پر حسن وحسین ہیں اور صرف حاجی عثمان کی حمایت کرنے والوں کو چھوڑ رہے ہیں، مولانا فقیرمحمد کو بتایا تومولانا فقیرمحمد نے کہا کہ ” علماء کے فتوے کو چھوڑ دو۔ اپنا تعلق حاجی محمد عثمان سے قائم رکھو”۔
نبی ۖ نے ام ہانی سے مشرک شوہر کے تعلق کو حرام کاری نہیں قرار دیا تھا مگر ریورس گیر والے مفتی عبدالرحیم اور مفتی تقی عثمانی چند ٹکوں کی خاطر علماء دیوبند کی اکثریت پر کیا فتویٰ لگارہے ہیں؟۔ یہ قادیانیوںاوراسرائیل کے ایجنٹ میرشکیل الرحمن ، ڈاکٹر انوارالحق اور جنرل قمر باجوہ پر فتویٰ کیوں نہیں لگارہے ہیں؟۔
ایک گمراہ لوگ ہوتے ہیں جن کو ہدایت مل سکتی ہے اور دوسرے جن پر اللہ کا غضب ہے۔ سوئے کو نیند سے جگایا جائے توجاگ جاتا ہے لیکن جاگا ہوا جب خود کو سویا ہوا ظاہر کرے تواس کو جگانا مشکل بلکہ ناممکن ہوتا ہے۔ ایک مذہبی طبقہ گمراہ ہوتا ہے جب اس کو ہدایت کا پتہ چلتا ہے تو راستے پر آجاتا ہے اور دوسرا وہ طبقہ ہوتا ہے جو جان بوجھ کر حق سے منحرف ہوتا ہے۔ مفتی عبدالرحیم اور مفتی تقی عثمانی کا تعلق اس طبقہ سے ہے جس نے جان بوجھ کر حق سے انحراف کیا۔ کوئی ان سے نام لیکر فتویٰ لے کہ جن فوجی افسران یا میڈیا پرسن کی بیویاں قادیانی ہیں تو کیا ان کا تعلق حرام کاری ہے؟۔ انہوں نے ہمیں کمزور سمجھ کر فتوے دئیے لیکن اللہ تعالیٰ کا بہت شکرہے کہ ہمارا مخالف طبقہ ان کو مان کرخود پر فتویٰ لگارہا ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

قرآن وحدیث میں طلاق و رجوع کا مسئلہ حل کردیا اوریہ قادیانی وشیعہ کی اصلاح بھی ہے!

قرآن وحدیث میں طلاق و رجوع کا مسئلہ حل کردیا اوریہ قادیانی وشیعہ کی اصلاح بھی ہے!

مرزاغلام احمد قادیانی ملعون کذاب دجال نے نبوت کا دعویٰ کیا لیکن اس کی سب سے بڑی دجالیت یہ ہے کہ ایک طرف نبوت ومہدویت کا دعویٰ ہے تو دوسری طرف اسلام کا دامن بھی عام مسلمانوں کی طرح پکڑ رکھا ہے۔ قرآن اور سنت کے علاوہ حنفی مذہب کی فقہ بھی تھام رکھی ہے۔ جب علماء ومفتیان نے شیعہ پر کفر کا فتویٰ لگایا تھا تو اس میں لکھ دیا تھا کہ ”شیعہ قادیانی سے بدتر کافر ہیں اسلئے کہ قادیانی ختم نبوت کی آیت میں تاویل کرتے ہیں، باقی قرآن وسنت اور صحابہ و فقہاء اور امت مسلمہ کا سارا سلسلہ مانتے ہیں جبکہ شیعہ کا قرآن وسنت ، فقہ اور نماز وغیرہ سب مسلمانوں سے جدا ہے اور صحابہ کرام کی بھی تکفیر کرتے ہیں”۔
جب اصل فقہ حنفی کے اصولوں کے مطابق قرآن وسنت سے طلاق و رجوع کا مسئلہ واضح ہوجائے گا تو قادیانی دجال کی دجالیت سے مرزائیت توبہ کرے گی اسلئے کہ جس شخص کو قرآن وسنت کے اتنے موٹے احکام بھی سمجھ میں نہیں آئے تو مہدی ونبی تو بڑی دور کی بات ہے ایک اچھا عالم دین وفقیہ بھی نہیں ہوسکتا ہے۔ اسی طرح شیعہ واہلحدیث ، غلام احمد پرویز، جاوید غامدی، ڈاکٹر ذاکر نائیک اور انجینئرمحمد علی مرزا کے پیروکاروں کی بھی قرآن کے ذریعے اصلاح ہوجائے گی۔ اس کا سارا کریڈٹ حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری اور حضرت حاجی محمد عثمان کی شخصیات کو جائے گا جنہوں نے اہل حق کا سلسلہ باطل کے مقابلے میں قائم رکھا اور دنیا پرستی اور دین فروشی کے فتنوں سے اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت کی۔
فتاویٰ عثمانی میں بہت سارے دنیا پرستی اور دین فروشی کے نمونے ہیںمثلاً زکوٰة کے پیسوں سے ان کتب فروشوں سے کتابیں خرید کر غرباء میں تقسیم کردو تو یہ جائز ہے لیکن اگر تبلیغ دین کیلئے مسائل کی کتابیں زکوٰة کے مال سے چھاپ لیں تو یہ جائز نہیں ہے۔ انکے فتوے اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے ہوتے ہیں۔
قرآن میں دو مرتبہ طلاق کے بعد تیسری مرتبہ طلاق کا تصور بھی آیة229البقرہ میں ہے۔ایک صحابی نے پوچھ لیا کہ قرآن میں تیسری طلاق کہاں ہے؟۔ نبی ۖ نے فرمایا:” الطلاق مرتٰن فامساک بمعروف او تسریح باحسان (دو مرتبہ طلاق کے بعد پھر معروف طریقہ سے رجوع ہے یا احسان کے ساتھ چھوڑ دینا ہے۔آیت229) قرآن میں تیسری طلاق احسان کے ساتھ چھوڑ دینا ہے”۔ وفاق المدارس پاکستان کے صدر مفتی تقی عثمانی کے استاذ سابق وفاق المدارس کے صدر مولانا سلیم اللہ خان نے” کشف الباری شرح البخاری ” اور تنظیم المدارس پاکستان کے صدر مفتی منیب الرحمن کے استاذ علامہ غلام رسول سعیدی نے ” نعم الباری شرح البخاری” میں اس حدیث کو لکھ دیا ہے۔
اصول فقہ کی کتاب ”نورلانوار: ملاجیون” میںہے کہ” فان طلقہا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجًا غیرہ (پھراگر اس نے طلاق دی تو اس کیلئے حلال نہیںیہاں تک وہ کسی اور سے نکاح کرلے”۔میں مذکور طلاق کا تعلق الطلاق مرتٰن ( طلاق دو مرتبہ ہے)سے حنفی مسلک کے مطابق نہیں ہے اسلئے کہ ف تعقیب بلامہلت کیلئے آتا ہے۔ اس کا تعلق آیت229البقرہ کے آخر فلا جناح علیھما فیماافتدت بہ ( پھر ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں جو عورت کی طرف سے فدیہ کیا جائے)کیساتھ ہے۔ جس پر حنفی مسلک کے مشہور عالم، شاعر وادیب علامہ تمنا عمادی نے کتاب لکھ ڈالی کہ ” حنفی مسلک کا مؤقف یہ ہے کہ اس طلاق کا تعلق صرف خلع کی صورت سے ہے۔ خلع میں غلطی عورت کی ہوتی ہے اور سزا بھی عورت کو ملتی ہے”۔ علامہ تمنا عمادی نے غیرضروری طور پر احادیث صحیحہ کا انکار کردیا اور قرآن وحنفی مؤقف کو پیش کردیا۔ حالانکہ قرآن و حدیث اور حنفی مؤقف کا تقاضا یہ ہے کہ ” تیسری بار طلاق کو ف تعقیب بلامہلت کی وجہ سے تسریح باحسان کیساتھ ہی منسلک کیا جائے”۔جس سے آیت کا مطلب بھی واضح ہوگا، احادیث صحیحہ کا انکار بھی نہیں کرنا پڑے گا اور حنفی مؤقف کو بھی درست ماننا پڑے گا۔ مفتی تقی عثمانی نے لکھ دیا ہے کہ ” آیت229کا مفہوم بالکل مبہم اور غیر واضح ہے اور اس کو سمجھنے کیلئے مولانا اشرف علی تھانوی کی تفسیر میں حل تلاش کرنا ہوگا”۔ حالانکہ مولانا تھانوی کی تفسیر زیادہ مبہم اور غیر واضح ہے ۔ پشتو میںکہا جاتا ہے کہ ” بارش سے میں بھاگا اور پرنالے کے نیچے رات ہوگی”۔
جب عبداللہ بن عمر نے اپنی بیوی کو حیض میںطلاق دی تو رسول اللہ ۖ کو حضرت عمر نے خبر کردی ۔ نبی ۖ غضبناک ہوگئے۔ پھر رجوع کا حکم دیا ، فرمایا: طہر کی حالت میں اپنے پاس رکھو ،یہاں تک کہ حیض آجائے۔ پھر طہر کی حالت میں اپنے پاس رکھو یہاں تک کہ حیض آجائے۔ پھر طہرمیں چاہو تو رجوع کرلو اور چاہو توہاتھ لگائے بغیر چھوڑ دو۔ یہ وہ عدت ہے جس میں اللہ نے قرآن میں امر فرمایا ہے۔ (بخاری کتاب التفسیر سورہ ٔ طلاق )۔ کتاب الطلاق، کتاب الاحکام اور کتاب العدت میں یہ حدیث لفظی سے اختلاف سے نقل کی گئی ہے۔
جس سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ تین مرتبہ طلاق کا تعلق عدت کے تین مراحل سے قرآن وحدیث میں ثابت ہے۔ جہاں تک اس طلاق کا تعلق ہے جو آیت230میں ذکر کی گئی ہے جس کے بعد جب تک عورت کسی اور شوہر سے نکاح وجماع نہ کرلے تو پہلے شوہر کیلئے حلال نہیں ہے۔ تو اس کا تعلق آےة229کے اس آخری حصہ سے ہے جس میں تین مرحلہ وار طلاقوں کے بعد صلح نہ کرنے کی بھرپور وضاحت ہے۔ حضرت ابن عباس نے بھی اس طلاق کو دو مرتبہ طلاق کے بعد تیسری مرتبہ طلاق کیساتھ فدیہ دینے کی صورت سے سیاق وسباق کے مطابق خاص کیا ہے۔ دیکھئے ابن قیم کی کتاب ”زادالمعاد:ج ٤باب الخلع”۔
صرف علماء ومفتیان اور عوام الناس اس واضح آیت پر اتنا غور کریں کہ اس میں خلع مراد نہیں ہوسکتا ہے اسلئے کہ دو تین مرتبہ طلاق کے بعد خلع کا تصور کہاں سے درست ہوگا؟۔ یہاں وہ صورت ہے کہ جس میں واضح ہے کہ میاں بیوی اور ان کے درمیان فیصلہ کرنے والے اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ نہ صرف دونوں کی جدائی ہو بلکہ آپس میں رابطے کا کوئی ذریعہ بھی نہ چھوڑا جائے جس سے دونوں کو ناجائزجنسی تعلقات میں مبتلاء ہوکر اللہ کے حدود کو قائم نہ رکھ سکنے کا خوف ہو۔
مولانا سیدابولاعلیٰ مودودی اور جاوید غامدی نے بھی یہ غلطی کردی کہ جہاں آیت میں اللہ تعالیٰ نے طلاق کے بعد عورت کے حقوق کی حفاظت کو واضح کردیا ہے تووہاں خلع کے نام پر عورت کی مالی بلیک میلنگ کا راستہ کھول دیا ہے۔ علماء و مفتیان کیلئے میری ذات باعثِ فخر واطمینان ہے کہ مدارس اور درسِ نظامی سے ایک بندہ اللہ نے ایسا بھی پیدا کیا ہے جس نے علمائِ حق کا پرچم بلند کردیا ہے۔
دیوبند ی بریلوی جس درسِ نظامی کو اپنے مدارس میں پڑھاتے ہیں اسکے حنفی مسلک کے اصول کی جیت قرآن وسنت کی طرف رجوع اور اسلام کی نشاة ثانیہ کا ذریعہ ثابت ہوگا۔ مساجد کے منبر ومحراب سے علمائِ حق عوام کو قرآنی ترجمہ وتفسیر پڑھائیںگے تو پوری دنیا کے انسان قرآن و مسلک حنفی کی طرف توجہ کریں گے۔ آیت230البقرہ سے پہلے آیات میں عدت میں صلح و معروف کی شرط پر طلاق کے بعدرجوع کی اجازت ہے اور بعد کی آیات میں عدت کے بعد بھی صلح ومعروف کی شرط پر رجوع کی اجازت ہے۔ جس کا خلاصہ سورہ ٔ طلاق میں موجود ہے۔ البتہ تمام آیات میں باہمی صلح واصلاح اور معروف کی شرط کے بغیر طلاق کے بعدرجوع کی اجازت نہیں ہے۔ قرآن و سنت سے عوام کا بھلا ہوتا ہے لیکن مفتی تقی عثمانی جیسے علماء سوء کی مذہبی اجارہ داری اورتجارت ختم ہوجاتی ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

مفتی شفیع سے مفتی تقی تک کا گھٹیا کردار اور قرآن وحدیث، اجماع وقیاس اجنبیت کا شکار؟

مفتی شفیع سے مفتی تقی تک کا گھٹیا کردار اور قرآن وحدیث، اجماع وقیاس اجنبیت کا شکار؟

متحدہ ہندوستان کے حامی مولانا ابوالکلام آزاد اور تحریک پاکستان کے حامی علامہ سید سلیمان ندوی نے قرآن وسنت کے مضبوط دلائل سے ثابت کیا تھا کہ جاندار کی موجودہ تصویر مذہبی نہیں دنیاوی ہے اور یہ سابقہ اور موجودہ شریعت میں جائز ہے۔ قرآن میں حضرت سلیمان علیہ السلام کیلئے تصاویر اور مجسمے بنانے کا ذکرہے ۔سابقہ شریعتوں میں بھی پوجا پاٹ کی تصاویر اور مجسموں کی ممانعت تھی ۔ یہی صورتحال امت محمدیہ میں بھی ہے۔ جن تصاویر کو کپڑوں پر نقش کیا جاتا تھا تو ان کی حیثیت پوجا پاٹ کی نہیں دنیاوی ہوتی تھی اسلئے ان کی ممانعت بھی نہیں تھی۔ مولانا سید سلیمان ندوی نے ” معارف اعظم گڑھ” کے نام سے ایک موٹی کتابی شکل میں اتنے تفصیلی دلائل دئیے تھے کہ ان کے دیکھنے کے بعد کوئی شخص بھی دنیاوی تصاویر کے عدم جواز کا تصوربھی نہیں کرسکتا تھا۔
مفتی شفیع سے مفتی تقی کا سلسلہ مافیا ہے جس کے پیچھے شیطانی طاقت ہے۔ ڈاکٹر حبیب اللہ مختار نے شیخ عبداللہ ناصح علوان کی کتاب ” مسلمان نوجوان” کا اردو ترجمہ کیا تھا ۔ عربی اور اردو میں یہ کتاب ناپید ہے۔ حالانکہ ”تربیت اولاد” ان کی کتابیں دستیاب ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ”مسلمان نوجوان”میں سودی نظام کے خاتمے اور خلافت کے قیام کی باتیں تھیں۔ علامہ سید محمد یوسف بنوری کے داماد مولانا طاسین ملکی سطح پر مفتی محمد شفیع سے زیادہ شہرت اور قابلیت رکھتے تھے لیکن ان کا نام اور معاشی نظرئیے کی کتابیں مارکیٹ میں نہیں۔ مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید کی مقبول کتاب ” عصر حاضر حدیث نبوی ۖ کے آئینہ میں” غائب ہے۔ علامہ سید سلیمان ندوی کی ”معارف اعظم گڑھ” مارکیٹ کی زینت بنتی تو مفتی شفیع کی جہالت دنیا پر آشکارا ہوجاتی لیکن غائب کردی گئی ہے۔
جب علماء حق انگریز کے خلاف آزادی کی جنگ لڑرہے تھے اور مسلمانوں کو جہالت سے نکال کر علم کی شاہراہ پر ڈالنا علماء حق کی بہت بڑی خدمت تھی۔ تب مولانا ابوالکلام آزاد اور علامہ سید سلیمان ندوی نے مولانا جمال لدین افغانی کی طرح کیمرے کی تصویر کو جائز قرار دیا اور امت کو شعور کی دہلیز پر لانے کی ہمت کی لیکن مفتی شفیع نے جہالت کا توپ خانہ کھول کر دونوں بزرگوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔ زبردست دلائل کے باوجود جاہل سے الجھنے کے بجائے انہوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ پھر اللہ نے مفتی شفیع کو پاکستان بننے کے بعد موقع دیا کہ جس تصویر کو خدا کی خدائی میں شرکت کا خطرناک مسئلہ قرار دیا تھا تو اسلامی ریاست بننے کے بعد اس پر عمل کراتا۔ شیطان مشرکینِ مکہ کو ورغلاء کر لڑنے کیلئے لایا اور پھر گدھا کوز مارتا ہوا بھاگا اور کہا کہ جو میں دیکھتا ہوں وہ تم نہیں دیکھتے۔ مفتی شفیع نے تصویر کی مخالفت کی۔جب پاکستان بننے کے بعد تصویر کو مٹانے کا وقت آیا تو کتاب میں ترمیم کر ڈالی کہ ریاستی اور تجارتی امور کیلئے تصویر جائز ہے۔
مفتی شفیع کو پتہ تھا کہ میں نے کیا کیا گند مچایا ہوا ہے۔ چنانچہ اس نے لکھ دیا کہ میں علامہ سیدسلیمان ندوی کے علمی مقام سے واقف نہیں تھا اور خود بھی عالم و طالب علمی کے درمیانے مرحلے میں تھا۔ اب میں کچھ ترمیمات کرتا ہوں۔
ہونا یہ چاہیے تھا کہ قارونی کتب فروشوں کے مالکان جہاںمولانا اشرف علی تھانوی کی ہڈیوں کا گودا نچوڑ نچوڑ کر مختلف ناموں اور نئے نئے اندازوں سے نئی نئی کتابیں چھاپتے رہتے ہیں تو ایک معارف اعظم گڑھ بھی چھاپ دیتے۔ لیکن ان کو پتہ ہے کہ اس سے ان کے آباء واجداد کی جہالتوں کا پتہ صاف ہوجائیگا۔
صحیح بخاری میں ہے کہ جس صحابی نے تصویر کے خلاف حدیث بیان کی تھی وہ بیمار ہوگئے اور دوسرے صحابہ وہاں عیادت کرنے گئے تو دیوار پر آویزاں گھر میں تصویر دیکھ لی۔ ایک صحابی نے کہا کہ یہ حدیث کی مخالفت ہے ۔دوسرے نے کہا کہ نہیں! اس نے الا رقمًا فی الثوب کپڑے میں نقش کوجائز قرار دیا تھا۔ مفتی شفیع نے اپنی کتاب میں حدیث کی تشریح میں بیوقوفی کی انتہاء کردی تھی۔ بخاری میں نقش تصویر کا جواز ہے۔ ائمہ اہل بیت نے بھی ان تصاویر کو جائز کہا تھا جن میں اُبھارنہ ہو اسلئے کہ ان کا استعمال مذہبی پوچا کیلئے تھا۔ مفتی شفیع نے اس کو درختوں کی تقش قرار دیا۔ ”جوہری دھماکہ” میں پیارے بچو! بلیک بورڈ پر لکھ کر اسکی نالائق ذریت کو سمجھایا تھا۔ تب وہ سمجھے۔ مفتی محمد شفیع نے مزدورکامکانات کی تعمیر کو خدا کی تخلیق میں مداخلت قرار دیا تھا تومیں نے لکھ دیا تھا کہ فارمی مرغیاں تخلیق میں زیادہ مداخلت ہیں یا بچوں کو ڈرائنگ کی کاپی پر تصویر زیادہ مداخلت ہے؟۔ اصل مداخلت کو پیٹ کے پجاری بالکل بھی حرام نہیں کہتے ہیں؟۔
درباری علماء نے ہمیشہ اہل حق کا مقابلہ کیا، مولانا احمد علی لاہوری اور مولانا غلام غوث ہزاروی نے جمعیت علماء اسلام کی بنیاد پر نظام کی تبدیلی کا آغاز کیا مگر مفتی شفیع اور مفتی تقی جیسے درباریوں نے ان پر کفر کا فتویٰ لگادیا۔مفتی محمود و مولانا درخواستی نے مفتی تقی ورفیع عثمانی کو سودی زکوٰة سے روکا تھا۔ حاجی عثمان کے حلقہ ارادت میں علماء ومفتیان ، تبلیغی جماعت ، اہلحدیث، شیعہ اور بریلوی، فوجی افسران ، سول بیوروکریسی، مجاہدین اور عرب وعجم اسلام کی نشاة ثانیہ کیلئے جوق در جوق داخل ہورہے تھے مگر مفتی تقی عثمانی حسد وبغض سے جل بھن گئے۔ان کو یہ پتہ نہیں تھا کہ حاجی محمد عثمان کے جانشین عتیق گیلانی سے اللہ تعالیٰ نے علماء سوء کے پیٹ سے حیلے، حلالے اور سود کی لعنت کے کیڑے گرانے کا کام لیناہے۔
دارالعلوم کراچی نے پہلا فتویٰ بڑا احمقانہ دیا اسلئے انہوں نے اپنی پشت میں چھپالیا۔ ریکارڈ چھاپنے کی ضرورت تھی۔ جرنیلوں نے قادیانی سسروں کی قادیانی بیٹیوں سے شادیاں کیں ،انکے نکاح کو ناجائز نہیں قرار دیا اور نہ ان پر حرامکاری اور اولادالزنا کا فتوی لگایا لیکن حاجی عثمان کے حلقہ ارادت پر فتویٰ لگادیا؟۔ ہمارے کچھ بے غیرت پیر بھائی پھر بھی ان کو معتبر قرار دیکر اپنا نکاح حرامکاری اوراپنے بچوں کو اولاد الزنا قرار دیتے ہیں؟۔ مفتی عبدالرحیم مفتی رشیداحمد لدھیانوی کے فسٹ کزن جنرل قمرجاوید باجوہ کی اولاد پر کیا فتویٰ دیتا ہے جس کا سسر قادیانی ہے؟۔دُم کے نیچے سے دھواں نکلتا نظر آئیگا!۔انشاء اللہ

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

بہشتی زیورکا مسئلہ اور مفتی سید سیاح الدین کا کا خیل کے سوال پر مفتی تقی عثمانی کا جواب!

بہشتی زیورکا مسئلہ اور مفتی سید سیاح الدین کا کا خیل کے سوال پر مفتی تقی عثمانی کا جواب!

جب میں نے قرآن واحادیث کے اندر طلاق ثلاثہ اور حلالہ کے مسئلے پر کوئی خاص توجہ نہیں دی تھی تویہ مجھے یاد ہے کہ تحریک منہاج القرآن کے سابق جنرل سیکرٹری پروفیسر علامہ دلدار احمد قادری نے مجھ سے کہا تھا کہ ” تین طلاق اور حلالہ کے مسئلے پر آپ تحقیق کریں”۔ حلالہ کا نام ایسا تھا کہ اس نام پر لکھی جانیوالی کوئی کتاب ایک شریف انسان اپنے گھر اور مہمان خانے میں بھی لے جانے میں دشواری محسوس کرتا تھا۔ حلالہ کے نام پر کبھی کوئی کتاب کتب خانے میں نظر بھی آئی ہے تو اس کو اٹھاکر دیکھنا اخلاقیات اور شرافت کے منافی لگتا تھا۔ البتہ ایک شریعت کا مسئلہ سمجھ کر قبول کرنا دین، علم اور ایمان کی مجبوری تھی۔ ہمارے کسی ساتھی کے پڑوسی کو مسئلہ پیش آیا تھا تو میں نے مشورہ دیا کہ حلالہ کے بجائے ترک تعلق بہتر ہے لیکن پھر وہ مفتی عبدالسلام چاٹگامی کا فتویٰ بنوری ٹاؤن کراچی سے لیکر دکھا گئے جس پر مجھے تبصرہ کرنا بھی اچھا نہیں لگا۔ پھر ایک عیسائی نے اسلام قبول کیا تھا اور اس کو تبلیغی جماعت والے نے اپنی بیٹی دی تھی۔ وہ گومل ٹانک ڈیرہ اسماعیل خان میرے ہاں آچکا تھا اور زبان سے اس نے تین طلاقیں دی تھیں اور اس مسئلے کا حل چاہتا تھا۔ میں نے مولانا فتح خان ٹانک کے مشہور اور بہت قابل عالم دین کی خدمت میں حاضری دی اور تین طلاق پر تحقیقی مسئلہ پوچھ لیا۔ انہوں نے کہا کہ ” آپ کا دماغ بہت تیز ہے اور اپنے ہاں سے بہت ساری کتابیں دیں کہ مسئلہ دیکھ لو”۔
میں نے دن رات ایک کرکے اپنی بساط کے مطابق بہت کوشش کی کہ کہیں سے مسائل کے علمی دلائل کا سراغ مل جائے لیکن مسئلہ، مسئلہ ، مسئلہ اور اس پر فضول کی بحث اور عبارات کے سوا کچھ نہیں مل رہا تھا۔ مجھے اس پر غصہ بھی آرہا تھا کہ قرآن کی آیات اور احادیث صحیحہ کے الفاظ پر کچھ تحقیقات پر بحث اور دلائل ہوتے۔ لیکن کچھ بھی نہیں مل رہا تھا۔ اتنے میں ہمارے ساتھ مولوی شبیراحمد صاحب نے کہا کہ ” بہشتی زیور” دیکھ لو!۔ مجھے دوسروں کے علمی نام اور فضول کی بحث سے چڑ لگ گئی تھی اور کہا کہ چھوڑدو بہشتی زیور…..پھر احساس ہوا کہ مولوی صاحب کی دل شکنی ہوگئی۔ بہشتی زیورمیںدیکھا کہ ” اگر شوہر بیوی سے کہے کہ طلاق، طلاق ، طلاق تو تین طلاق ہوگئی ہیں اوراگر شوہر کی نیت ایک طلاق کی تھی توایک طلاق رجعی ہے لیکن بیوی پھر بھی سمجھے کہ اس کو تین طلاقیں ہوچکی ہیں اور شوہر کیلئے اب وہ حلال نہیں ہے”۔ مفتی تقی عثمانی نے بہشتی زیور کی بہت زیادہ تعریف لکھ دی ہے ، اگر یہی مسئلہ مفتی تقی عثمانی کو پیش ہو تو اس کے نزدیک طلاق رجعی ہوگی اور رجوع کرنے کے بعد بدستور اس کی بیوی ہوگی لیکن بیگم سمجھے گی کہ حرام ہوچکی ہے اور حلالہ کے بغیر حلال نہیں ہوگی۔ حلالہ بھی نہیں ہوسکے گا اسلئے کہ وہ تو مفتی تقی عثمانی کے نکاح میں ہوگی؟۔ حیلہ ناجزہ میں مولانا اشرف علی تھانوی نے اوربھی زیادہ خطرناک مسئلہ لکھا ہے۔ اگر مفتی تقی عثمانی نے بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دیں تو اس کی بیوی اس پر مغلظہ ہوچکی ہے لیکن اگر وہ مکر جائے تو بیوی کو دو گواہ لانے ہوں گے اور اگر اس کے پاس دو گواہ نہیں ہوئے اور مفتی تقی عثمانی نے جھوٹی قسم کھالی تو اس کی بیگم کو چاہیے کہ خلع لے لیکن اگر مفتی تقی اس کو خلع نہ دے تو وہ حرام کاری پر مجبور ہوگی۔ اس قسم کے مسائل کا مجموعہ مفتی سیاح الدین کا کاخیل کے سوال میں موجود ہے۔ جس کو گھما پھرا کر بھونڈے جوابات دینے کی کوشش کی گئی ہے اور اس کے علاوہ بھی ” فتاویٰ عثمانی”میں اس سے زیادہ بھیانک مسائل ہیں۔ لوگوںکو الجھنوں اور نفسیاتی بیماریوں میں اسلام کے نام پر ڈالا گیا ہے۔
جب میں نے احادیث کی کتابوں پر تین طلاق کے حوالے سے سرسری نگاہ ڈالی تو مجھے لگا کہ تین طلاق اور حلالہ کی بات پر تحقیق کی کوئی گنجائش نہیں ہے لیکن جب قرآن کی طرف توجہ کی تو نہ صرف قرآن بلکہ ساری احادیث صحیحہ کا درست خاکہ بھی دل ودماغ میں بیٹھ گیا۔2007میں ماہنامہ ضرب حق کراچی میں طلاق پر مضامین شائع کئے تو مولانا قاری احمد حسن شکوی خطیب وامام گودام جامع مسجد ٹانک سے اپنے ساتھی کے ذریعے رائے پوچھ لی ۔ انہوں نے میرے بارے میں فرمایا کہ ” میں پیر صاحب سے عقیدت رکھتا ہوں”۔ اس کے بعد ہمارا اخبار بند ہوا اور10سال بعد نوشتۂ دیوار کے نام سے پھر شائع کرنا شروع کیا اور اس لمبے عرصہ میں مسئلہ طلاق پر زبردست تحقیقات کا موقع مل گیا۔ ”ابررحمت ” کے نام سے کتاب شائع کرنے سے پہلے کراچی کے معروف مدارس کو اس کا مسودہ بھیج دیا ۔ میری کتاب ”جوہری دھماکہ” میں جاندار کی تصویر کے جواز سے زیادہ مسئلہ طلاق پر زبردست دلائل تھے لیکن جوہری دھماکہ کو اپنے وسیع تر مفاد میں قبول کیا گیا تھا اور مسئلہ طلاق سے ان کی علمی بنیادیں ختم ہوجاتی ہیں اسلئے اس کو قبول کرنے سے انکاری ہیں۔
پھر ” تین طلاق کی درست تعبیر”کتاب لکھ دی مگر ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ پھر ” تین طلاق سے حلالہ کے بغیر رجوع کا خوشگوارحل” کتاب لکھ دی اور پھر ” عورت کے حقوق” میں اس مسئلے کا حل لکھ دیا لیکن بڑے ڈھیٹ لوگ ہیں۔ جامعہ بنوریہ عالمیہ کے بانی ومہتمم میرے استاذمفتی محمد نعیم اور مدرسہ کے رئیس دارالافتاء نے بھی تائید کی تھی لیکن پھر مفتی محمد نعیم نے بتایا کہ ” مفتی تقی عثمانی نے دباؤ ڈالا کہ اس مسئلے پر بات نہ کرو”۔ استاذ جی نے بتایا کہ وفاق المدارس سے ہمارے جامعہ کا الحاق ختم کردیںگے اسلئے کھل کر تائید نہیں کرسکتا۔
قرآن وسنت میں ان تمام مسائل کا بالکل فطری حل موجود ہے اور صحابہ کرام نے اس فطری حل کی بنیاد پر اپنے دور میں مشرق ومغرب کی دونوں سپر طاقتوں کو شکست دی تھی۔ بہت سارے علماء کرام وطلباء عظام کو قرآن وسنت کے حوالے سے تین طلاق اور اس سے حلالہ کے بغیر رجوع کا مسئلہ اچھی طرح سمجھ میں آیا ہے لیکن طاقتور حلقوں کی طرف سے حقائق کیلئے اٹھ کھڑے ہونے کی ہمت کرنے کی آج بہت ضرورت ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

حرام کے لفظ پر قرآن وسنت کی وضاحت اور عمر و علی کے اختلافات کی وضاحت!

حرام کے لفظ پر قرآن وسنت کی وضاحت اور عمر و علی کے اختلافات کی وضاحت!

”جب رسول اللہ ۖ نے حضرت ماریہ قبطیہ کے حوالہ سے فرمایا: مجھ پر حرام ہے” تو سورہ تحریم میں بھرپور وضاحت آئی کہ بیوی کو حرام کہہ دینے سے حرام نہیں قرار دیا جاسکتا تو کیا یہ کم رہنمائی ہے؟
علامہ ابن تیمیہ کے شاگرد علامہ ابن قیم نے زادالمعاد میںبیوی کو” حرام ” کہنے پر20اجتہادی مذاہب کونقل کیاہے کہ حضرت عمر ایک طلاق اور حضرت علی تین طلاق قرار دیتے

مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی نے کہا کہ امام مہدی کا ظہور قریب ہے۔ ہم یہ فیصلہ نہیں کرسکتے کہ کس کا اجتہاد ٹھیک اور کس کا غلط ہے اور امام مہدی کا فیصلہ حق ہوگااوران کا مخالف باطل ہوگا

جب حضرت معاذ بن جبل یمن کے حاکم بنادئیے گئے تو نبی ۖ نے پوچھا کہ لوگوں کے درمیان کس چیز پر فیصلہ کروگے؟۔ ابن جبل نے عرض کیا کہ قرآن سے۔ نبی ۖ نے پوچھا کہ اگر قرآن میں نہ ملے تو؟ ، معاذ بن جبل نے عرض کیا کہ اللہ کے نبی ۖ کی سنت سے ۔پھر پوچھ لیا کہ اگر سنت میں بھی نہ ملے توپھر؟۔ معاذبن جبل نے عرض کیا کہ پھر میں خود کوشش کروں گا۔ نبی ۖ نے اس پر انتہائی خوشی کا اظہار فرمایا تھا۔
عربی میں اجتھد میںکوشش کروں گا۔ انا مجتھد میں محنتی ہوں ۔ھو مجتھد وہ محنتی ہے۔بدقسمتی سے مسلمانوں کے ذہنوں میں یہ ڈال دیا گیا ہے کہ ” اجتہاد” مستقل مذاہب ہیں جن کی تقلید کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیوی کو ” حرام” کہنے پر علامہ ابن تیمیہ کے شاگرد علامہ ابن قیم نے20اجتہادات کو نقل کیا ہے۔ لکھاہے کہ حضرت عمر کے نزدیک بیوی کو ”حرام” کہنے سے ایک طلاق رجعی واقع ہوگی۔ جبکہ حضرت علی کے نزدیک بیوی کو ” حرام” کہنے سے تین طلاق مغلظہ واقع ہوں گی۔ اہل سنت کا مسلک یہ ہے کہ اجتہادی غلطی پر ایک نیکی ملتی ہے اور اگر اجتہاد ٹھیک ہو تو پھر دو نیکیاں ملتی ہیں لیکن یہ فیصلہ کون کرے گا کہ کس کا اجتہاد ٹھیک ہے اور کس کا اجتہاد غلط ہے؟۔ امام مہدی تشریف لائیں گے تو ٹھیک اور غلط واضح ہوگا۔
علامہ ابن تیمیہ نے ایک کتابچہ لکھا ہے جس میں چاروں فقہاء کی تقلید کو فرقہ واریت اور ناجائز قرار دیا گیا ہے لیکن اس کے شاگرد علامہ ابن قیم نے اپنی کتاب زاد المعاد میں4کی جگہ20اجتہادات لکھ دئیے۔
اہل سنت صحیح بخاری کے بارے میںکہتے ہیں کہ اصح الکتب بعد کتاب اللہ صحیح البخاری ”اللہ کی کتاب کے بعدسب سے زیادہ صحیح کتاب صحیح بخاری ہے”۔ حسن بصری سے صحیح بخاری میں مروی ہے کہ ” بیوی کو حرام کہنا بعض علماء کے اجتہاد کے مطابق تیسری طلاق ہے اوریہ کھانے پینے کی اشیاء کی طرح نہیں ہے کہ کفارہ ادا کرنے سے کام چل جائے بلکہ تیسری طلاق کے بعد بیوی حلال نہیں ہوتی ہے کہ جب تک وہ کسی اور شوہر سے نکاح کرکے ہمبستری نہ کرلے”۔ اورابن عباس نے کہا کہ ” بیوی کو حرام کہنے سے کچھ بھی نہیں ہوتا نہ طلاق اور نہ قسم کا کفارہ۔ یہ سیرت رسول ۖ کا تقاضہ ہے ”۔(سورۂ تحریم ماریہ قبطیہ حرام کرنے پر اتری) بخاری کی ان روایات میں بہت بڑا تضاد ہے۔ کہاں تیسری طلاق اور کہاں کچھ نہیں؟۔
اللہ نے فرمایا کہ ” اپنی زبانوں کو ملوث مت کروکہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے”۔ (القرآن)۔ کیا حضرت عمر، علی اورا بن عباس نے اللہ کی کتاب قرآن کے منافی حلال اور حرام کے اجتہادات کرلئے تھے؟۔ جب سورہ تحریم میں اللہ نے قرآن میں نبی ۖ کی سیرت کے ذریعے اتنی زبردست وضاحت فرمائی ہے تو کیا صحابہ اور خاص طورپر خلفاء راشدین حضرت عمر اور حضرت علی میں اتنے بڑے تضادات ہوسکتے تھے؟۔
امام مہدی حنفی مسلک، علی اور عمر میں کس کی تائید یا تردید کرے گا؟۔ قرآن وسنت اور خلفاء راشدین کی صحت کا فیصلہ کس طرح کرے گا؟۔ اگر ان کی آمد سے پہلے امت نے معقول حل تلاش کیا تو کیا ہوگا؟۔
قرآن وسنت میں طلاق اور اس سے رجوع کرنے کا ایک بنیادی مسئلہ میاں بیوی میں معروف رجوع ہے اور معروف رجوع کا مطلب قرآن وسنت میں بالکل واضح ہے کہ شوہراورعورت رجوع کیلئے راضی ہوں اور یہ مفہوم بار بار قرآن میں اللہ نے واضح کیا ہے۔ یہاں تک کہ جب نبی ۖ نے ایلاء کیا تھا تب بھی اللہ تعالیٰ نے نبی ۖ سے فرمایا کہ رجوع کرنے سے ان کو علیحدہ ہونے کا مکمل اختیار دے دو۔ اصل مسئلہ یہ تھا کہ خلفاء راشدین حضرت عمر اور حضرت علی میں کوئی اختلاف نہیں تھا۔ جب ایک شخص نے اپنی بیوی کو حرام قرار دیا اور اس نے حضرت عمر سے پوچھ لیا کہ رجوع ہوسکتا ہے؟۔ حضرت عمر نے اس کی بیوی کی رضا مندی معلوم کرنے کے بعد رجوع کا فتویٰ دیا۔ پھر حضرت علی کے پاس ایک اور مسئلہ آیا کہ ایک شخص نے بیوی کو حرام قرار دیا۔ حضرت علی نے معلوم کیا تو بیوی رجوع کیلئے راضی نہ تھی اسلئے فتویٰ دیا کہ رجوع نہیں ہوسکتا ۔ اس کو کسی نے تین اور کسی نے تیسری طلاق کا نام دیا لیکن یہ نہیں دیکھا کہ قرآن وسنت کے مطابق بالکل درست فتویٰ دیاتھا۔ حضرت عمر وعلی کی کوشش(اجتہاد) میں تضاد نہیں قرآن وسنت سے مطابقت ہے۔
تحریم کا معنی حرام کرناہے۔سورۂ تحریم اور نبی ۖ کا بیوی کو حرام قرار دینے سے مسئلہ سمجھنا مشکل نہ تھا۔ ”فتاویٰ عثمانی” میں ہے کہ ” بعض علماء کے نزدیک ” میں نے تجھے چھوڑ دیا” طلاق صریح ہے جو طلاق رجعی ہے اور اس میں نکاح کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن” تومجھ پر حرام” سے طلاقِ صریح کیوں واقع نہیں ہوتی بلکہ بائن واقع ہوتی ہے جس میں نکاح کی ضرورت پڑتی ہے؟”۔اس میں کیا فرق ہے؟۔ جواب:” اس فرق کو سمجھنے کیلئے فقہ پڑھنے کی ضرورت ہے، لہٰذا یا تو آپ فقہ کی تعلیم حاصل فرمائیں یا پھر اہلِ علم سے مسئلہ پوچھ کر اس پر عمل فرمائیں اور دلائل کے پیچھے نہ پڑیں۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم ۔ فتاویٰ عثمانی جلد دوم صفحہ ٣٧٤،٣٧٥

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

علماء حق اور علماء سوء میں حدفاصل کیا ہے؟ اور کب سے معاملات زیادہ خراب ہوگئے ہیں؟

علماء حق اور علماء سوء میں حدفاصل کیا ہے؟ اور کب سے معاملات زیادہ خراب ہوگئے ہیں؟

جب مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع ،مفتی تقی ورفیع عثمانی اورمفتی رشیداحمد لدھیانوی نے جمعیت علماء اسلام پر1970میں کفر کا فتویٰ لگایاتو ان کاعلامہ محمد یوسف بنوری نے کوئی ساتھ نہیں دیا تھا

دارالعلوم کراچی نے شیعوں کے خلاف فتویٰ نہیں دیا لیکن جمعیت علماء اسلام اور حاجی محمد عثمان کے خلاف فتویٰ دینے میں ایک سرغنہ کا کردار ادا کیا تھا۔ علماء حق اور علماء سو ء کا معیار یہ تھا؟

علمائِ حق کے سروں پر سینگوں کا تاج نہیں ہوتا کہ ان کو ذوالقرنین کہا جائے اور نہ علماء سوء کی چوتڑ پر لمبی دُم ہوتی ہے کہ اس سے ان کی شناخت کی جائے۔
جب1970میں علماء حق پر ان علماء سوء نے فتویٰ لگادیا تو اس پر ایک بڑا کمیشن تشکیل دیا جانا چاہیے تھا تاکہ عوام کے سامنے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔ پھر1980میں مفتی اعظم پاکستان مفتی محمود نے مفتی تقی عثمانی و مفتی رفیع عثمانی کو جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں بینکوں سے زکوٰة کے مسئلے پر طلب کیا اور دورانِ گفتگو مفتی تقی عثمانی نے کہاکہ ”ہم دونوں بھائی دن میں ایک بار ایک کپ چائے پیتے ہیںاور پھر سارا دن نہیں پیتے”۔ حالانکہ مہمان کا میزبان کی دعوت کا قبول نہ کرنا قرآن وسنت اور اخلاقی اقدار کے منافی ہے۔ مفتی محمود نے کہا تھا کہ ” نبی ۖ نے دودھ کی دعوت قبول کرنے کا حکم فرمایا ہے اور چائے بھی دودھ کے حکم میں ہے”۔ جب حضرت ابراہیم کی دعوت مہمانوں نے قبول نہیں کی تو ان کو خوف محسوس ہوا۔ لیکن پھر انہوں نے بتایا کہ ہم فرشتے ہیں۔ مفتی محمود نے کہا تھا کہ ”میں خود چائے زیادہ پیتا ہوں لیکن اگر کوئی کم پیتا ہے تومیں اس کو پسند کرتا ہوں”۔ مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ ”حضرت ہمارے ساتھ یہ علت لگی ہوئی ہے”۔ (پان کا بٹوا دکھاکر)۔ مفتی محمود نے کہا کہ ” یہ توچائے سے بھی بدتر ہے” اور پھر مفتی تقی عثمانی نے اصرار کرکے پان کھلایا اور جب تھوڑی دیر بعد مفتی محمود کی طبیعت خراب ہوگئی تو مفتی رفیع عثمانی نے دورہ قلب کی خاص گولی اس کے حلق میں ڈال دی اور ڈاکٹر کے پہنچنے سے پہلے رحلت فرماگئے تھے۔ پان کھلانے اور حلق میں گولی ڈالنے کی بات مفتی تقی عثمانی نے اپنی اس تحریر میں نہیں لکھی تھی جو اس نے البلاغ میں مفتی محمود کی وفات کے بعد لکھی تھی لیکن مولانا محمد یوسف لدھیانوی نے دونوں باتیں ماہنامہ بینات بنوری ٹاؤن کراچی میں لکھ دی تھیں اور جب ‘اقراء ڈائجسٹ بنوری ومحمود کا خاص نمبر چھپ گیا تو دونوں تحریرات بھی شائع کی تھیں۔ جب ہم نے ان کا حوالہ دیا تو مفتی تقی عثمانی نے مولانا محمد یوسف لدھیانوی کو ڈانٹ دیاتھا۔ پھر بہت بعد میں مفتی تقی عثمانی کا آڈیو ریکارڈ نیٹ پر آیا کہ مفتی محمودسے بے تکلفی تھی، وہ مجھ سے کہتے تھے کہ بھیا ! تمہارا پان کھائیں گے ، لاؤ مجھے اپنا پان ذرا کھلاؤ۔ مفتی تقی عثمانی کی تحریر اور تقریر میں بہت بڑا تضاد ہے۔ جھوٹ پکڑنے والی مشین کے ذریعے سے بھی اسکا ٹیسٹ کیا جاسکتا ہے۔
مولانا فضل الرحمن پہلے کہتا تھا کہ ” بینکوں کی زکوٰة شراب کی بوتل پر آب زم زم کا لیبل ہے ”۔ لیکن پھر اس کی ترجیحات بدل گئی ہیں۔مولانا سلیم اللہ خان اور مفتی زرولی خان کے علاوہ ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر ، پاکستان کے تمام مدارس کے علماء ومفتیان نے مفتی تقی عثمانی کی طرف سے سودی بینکاری کو اسلامی قرار دینے کی مذمت کی تھی لیکن اب معاملہ یکسر تبدیل ہورہاہے اور کسی دور میں سود کی حرمت مسئلہ نہیں رہے گا۔ ایک ایک بات پر زبردست کمیشن بنانا پڑے گا۔
اہل تشیع پر علامہ بنوری ٹاؤن کراچی اور پاکستان بھر سے تین بنیادوں پر کفر کا فتوی لگایا گیا تھا۔1:تحریف قرآن کے قائل ہیں۔2:صحابہ کرام کی تکفیر کی وجہ سے کافر ہیں۔3:عقیدہ امامت کی وجہ سے ختم نبوت کے منکر اور کافر ہیں۔
مفتی تقی عثمانی نے جمعیت علماء اسلام کے اکابرین اور حاجی عثمانپر فتویٰ لگادیامگر شیعہ پر سرکاری مرغا ہونے کی وجہ سے نہیں لگایا۔ فتاویٰ عثمانی میں ایک طرف شیعہ کیساتھ نکاح کو ناجائز قرار دیا اور دوسری طرف جائز قرار دے دیا۔
علماء حق اس پر متحد ومتفق ہوسکتے ہیں کہ تحریف قرآن کا عقیدہ سنی وشیعہ جو بھی پڑھاتا ہے وہ کفر ہے اور اپنے نصاب کی اصلاح کرلے۔ جب قرآن پر اتفاق رائے ہوجائے گی تو صحابہ کرام و اہل بیت کے بارے میں بھی سب متفق ہوجائیںگے۔ پھر عقیدہ امامت پر بھی کفر وگمراہی کی جگہ اتفاق رائے ہوگی اور مسلمان اتحاد واتفاق اور وحدت کے راستے پر گامزن ہوجائیں گے۔ انشاء اللہ

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

مفتی رشیداحمد لدھیانوی کا حلالہ کوایک لعنت قرار دینا مگر مفتی تقی عثمانی کا لعنت سے انکار

مفتی رشیداحمد لدھیانوی کا حلالہ کوایک لعنت قرار دینا مگر مفتی تقی عثمانی کا لعنت سے انکار

مفتی رشید احمد لدھیانوی مروجہ حلالہ کو حدیث کی وجہ سے لعنت قرار دیتے تھے اور اس وجہ سے دوسرے مفتی صاحبان کے مقابلے میں بہت سارے لوگ بھی ان کو پسند کرتے تھے۔ جبکہ دارالعلوم کراچی حلالے کا سینٹر تھا۔ مفتی محمد شفیع نے دارالعلوم کراچی کی وقف زمین اپنے بیٹوں مفتی تقی عثمانی ومفتی رفیع عثمانی کیلئے گھر خریدلئے تو بھی مفتی رشید احمد لدھیانوی نے ان کے خلاف دو وجہ سے فتویٰ دیا تھا کہ یہ حرام ہے۔ ایک اسلئے کہ وقف مال کی خرید وفروخت جائز نہیں ہے۔ دوسرا یہ کہ ایک شخص بیچنے اور خریدنے والا نہیں ہوسکتا ہے۔
حکومت بھی بغیر ٹینڈر کے ٹھیکہ دے تو یہ خلافَ قانون اور ناجائز ہے جس پر گرفت کی جاسکتی ہے۔ ایک تو وقف مال کی خرید وفروخت بالکل حرام اور ناجائز ہے اور دوسرا یہ کہ کوئی خود بیچے اور خریدے تو یہ ڈبل جرم ہے۔ عدالت میں جب توشہ خانہ کیس چل سکتے ہیں۔ جیو ٹی وی چینل کے صحافی حامد میر اور انصار عباسی جمعیت علماء اسلام کے علامہ راشد سومرو کے سامنے میڈیا پرمولانا فضل الرحمن کی زبردست تذلیل کرسکتے ہیں کہGHQنے ان کو زمینیں دی ہیں۔ جنرل ضیاء الحق نے بھی مفتی تقی عثمانی کو دارالعلوم کراچی کیلئے نقدی اور پلاٹ دئیے تھے اور اس کا ذکر کرنے سے انصار عباسی کا حیض ٹپکنے کا خطرہ ہوسکتا ہے لیکن حامد میر بھی اپنے پروگرام میں اس بات کی وضاحت کیوں طلب نہیں کرتا ہے کہ ” دارالعلوم کی وقف زمین کیسے ذاتی مکانات کیلئے خریدی جاسکتی ہے؟”۔ میڈیا مالکان اور علماء ومفتیان اگر خود چوری میں ملوث نہیں ہیں تو ان کو ضرور مسئلہ اٹھانا چاہیے۔
حلالہ کی نیت سے کئے گئے نکاح کی شرعی حیثیت اور اسے موردِ لعنت قرار دینے کا حکم
سوال : اگر حلالہ کرنے والے مرد اور عورت کو ایک دوسرے کی نیت کا علم ہے مگر عقد میں اس کی تصریح نہیں کرتے تو کیا یہ نکاح بھی ناجائز اور موردِ لعنت ہے؟” احسن الفتاویٰ ” ج :٥ ص: ١٥٥ میں ہے:
ایسے نکاح کی حرمت اور موردِ الزام لعنت ہونے کے لئے شرطِ تحلیل کی تصریح ضروری نہیں بلکہ ایک دوسرے کی نیت کا علم بھی بقاعدہ ”المعروف کالمشروط ” اسی میں داخل ہے۔وھو مفہوم قولہ اذا اضمر لایکرہ ۔
حضرت والا کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟۔
(مولانا) محمد عامر (استاذ جامعة الرشید کراچی)
جواب : احوط تو بیشک وہی ہے جو حضرت نے ” احسن الفتاویٰ” میں لکھا ہے لیکن اس کو موردِ لعنت قرار دینا محلِ نظر ہے۔ فقہاء کے کلام سے اس کی تائید نہیں ہوتی ، علم ہونے اور ”معروف کالمشروط” میں بظاہر فرق ہے۔ معروف اس وقت کہیںگے جب کسی عرف کی بناء پر کوئی بات بغیر صراحت کے بھی مشروط سمجھی جاتی ہو،محض متعاقدین کے علم سے یہ بات حاصل نہیں ہوتی ۔ تمام حیلِ مباحثہ میں متعاقدین کو علم ہوتا ہے مگر اسے مشروط نہیں سمجھاجاتا۔ واللہ اعلم
فتاویٰ عثمانی جلد دوم صفحہ278۔ مفتی تقی عثمانی نے یہ ثابت کرنا چاہاہے کہ مفتی رشیداحمد لدھیانوی نے حدیث سے جس مروجہ حلالہ کو ” اللہ کی لعنت پڑنے کا ذریعہ ” قرار دیا ہے اسلئے کہ اگر زبان سے وہ نیت نہ بھی کریں تو یہ نکاح حلالہ کی لعنت ہے۔ یہ درست نہیں اسلئے کہ فقہاء نے اس کی تائید نہیں کی ہے۔ علامہ بدرالدین عینی اور علامہ ابن ہمام نے لکھ دیا ہے کہ ” اگر حلالہ کی نیت ہو لیکن نیت کا زبان سے اظہار نہ کیا جائے تو پھر نیت کا کچھ اعتبار نہیں ہوگا اور جب تک زبان سے نیت نہ کی جائے تو دل کی نیت لعنت کا ذریعہ نہیں بن سکتا ہے”۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کے برعکس یہ بھی واضح کردیا ہے کہ ” ہمارے بعض نامعلوم بزرگوں نے کہا ہے کہ اگر دو خاندانوں کو ملانے کی نیت سے حلالہ کیا جائے تو یہ باعثِ ثواب بھی ہے”۔ یعنی حلالہ کی لعنت سے بچنے کیلئے نیت کا اعتبار نہ ہوگا مگر حلالہ سے ثواب سمیٹنے کیلئے نیت کا اعتبار ہوگا”۔مفتی تقی عثمانی نے یہ واضح کیا ہے کہ تمام حیلوں میں علم کے باوجود ہم ملوث ہوتے ہیں۔
بریلوی مکتبہ فکر کے مفتی عطاء اللہ نعیمی نے اپنی کتاب ” تین طلاق اور حلالہ کی شرعی حیثیت” میں فقہاء کی ان عبارات کو نقل کیا ہے۔ مفتی نعیمی سمجھ نہیں رکھتا اسلئے اس کی گمراہی عیسائیوں کی طرح ہے اور مفتی تقی عثمانی جان بوجھ کر حق سے منحرف ہیں اسلئے اس پر یہود کی طرح اللہ کا غضب ہے۔ مولانا عبیداللہ سندھی کی تعلیمات میں دونوں طبقات کا یہودونصاریٰ کے نقش قدم پر چلنا واضح ہے۔
جامعہ بنوری ٹاؤن سے حلالہ کیلئے مفتی عبدالسلام چاٹگامی نے فتویٰ دیا تھا تو لکھا تھا کہ” اس شرط پر نکاح کرے کہ طلاق کا اختیار بیوی کے پاس ہوگا”۔ لیکن دارالعلوم کراچی والے تین طلاق واقع ہونے کیلئے تو ہرطرح کے حیل وحجت کرتے ہیں لیکن حلالہ کی لعنت سے بچنے کیلئے اس کو علم کے باوجود بھی لعنت کا سبب نہیں قرار دیتے ہیں۔ اب دوسرے مدارس نے بھی مفتی محمد شفیع ، مفتی تقی عثمانی ، مفتی عبدالرؤف سکھروی وغیرہ کا راستہ اختیار کرنا شروع کیا ہے اسلئے کہ حلالہ کی لعنت نہ صرف لذت اٹھانے کا ذریعہ ہے بلکہ کاروبار بھی ہے۔
مفتی تقی عثمانی اور مفتی عبدالرؤف سکھروی نے کراچی کے لوگوں پر شادی کی رسم میں لفافے کی لین دین پر بھی سود کا فتویٰ لگادیا تھا اور اس کے کم ازکم گناہ کو اپنی ماں سے زنا کے برابر قرار دیا تھا لیکن پھر سودی نظام سے معاوضہ لے کر بینکاری کے سودی نظام کو بھی اسلامی قرار دے دیا۔ پاکستان بھر کے علماء ومفتیان ایک طرف تھے لیکن مفتی تقی عثمانی نے بینکاری کے سودی نظام کو پھر بھی اسلامی قرار دے دیا۔ اب ایک مدرسہ کے بورڈ وفاق المدارس پاکستان کے صدر مفتی تقی عثمانی اور دوسرے بورڈ کے صدر مفتی عبدالرحیم ہیں۔
کورکمانڈرز کانفرنس میں نکاح وطلاق اور سودی معیشت کے حوالے سے علماء حق اور علماء سوء کو دعوت دی جائے اور مجھے بھی طلب کیا جائے۔ اگر سب کی طرف سے تائید نہ ملے تو جو چور کی سزا وہ میری سزا۔مگر جب سب قرآن وسنت پر متفق ہوجائیں اور ایک انتہائی گھمبیر مسئلہ طلاق اور گھناؤنے مسئلہ حلالہ کی لعنت سے اُمت مسلمہ کی جان چھوٹ جائے تو ہمارا معاشرتی نظام بھی درست ہوگا اور معاشی وسیاسی مسائل سے بھی انشاء اللہ بہت جلد جان چھوٹے گی ۔ انشاء اللہ

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

مفتی تقی عثمانی کے ”فتاویٰ عثمانی’ ‘ کا قرآن وسنت سے انحراف اورزبردست آپریشن کا آغاز

مفتی تقی عثمانی کے ”فتاویٰ عثمانی’ ‘ کا قرآن وسنت سے انحراف اورزبردست آپریشن کا آغاز

ہم مفتی تقی عثمانی کے اس فتوے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ پتہ نہیں کتنی خواتین کو اپنے شوہروں پر حلالہ کی لعنت کیلئے انہوں نے ناجائز حرام کردیا ہے،اللہ نے ہمیں قبول کرلیا ہے!

جس طرح نسوار، سگریٹ، حقہ، بھنگ،شراب، چرس، افیم، کوکین ، شیشہ اور ہیروئن کے نشے کی علت لگتی ہے اسی طرح سے ان علماء ومفتیان کوحلال نکاح کو حرام کرنے کی بھی علت لگی ہے

ہمارا مقصد اپنا دفاع یا انتقام نہیں بلکہ ان علماء ومفتیان کے ہاتھوں جس طرح قرآن اور امت مسلمہ کی خواتین کی بے حرمتی ہورہی ہے اس کو روکنا اصل مقصد ہے۔علمائِ حق ہمارا ساتھ دیں!

مولانا فقیر محمد پر گریہ طاری رہتا لیکن حاجی عثمان کی محفل میں وہ وجد میں آکر گھومنا شروع ہوجاتے۔ حاجی عثمان نے کئی بزرگوں سے اکتساب فیض کیا۔ سیدعالم چشتی اور قادری سلسلہ سے خلافت تھی۔ مولانا سید محمد میاں جامعہ مدنیہ کریم پارک لاہور نے ” علماء ہند کا شاندار ماضی ”میں لکھا : ” شیح احمد سرہندی مجدد الف ثانیسب سلسلوں میں مقبول تھے اور سبھی خلافت وبیعت کی نسبت دینے کی کوشش کررہے تھے ، پھر رسول اللہ ۖ نے فیصلہ فرمایاکہ سب سلسلے کی طرف سے اجازت دی جائے لیکن نقشبندی سلسلہ کی خدمت کریں گے”۔
مولانا فقیر محمد نے کسی کے مشورہ پر حاجی عثمان سے خلافت واپس لی ۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے مہتمم مفتی احمدالرحمن اور مفتی ولی حسن نے کہا کہ آپ نے حاجی محمد عثمان کو ورود سے خلافت دی تو مشورے پر شرعاً خلافت واپس نہیں لے سکتے جب تک کہ دوبارہ ورود نہ ہو۔ مولانا فقیر محمد نے جامعة العلوم اسلامیة بنوری ٹاؤن کراچی کے لیٹر پیڈ پر لکھ دیا کہ ” میں نے حاجی محمد عثمان کو ورود کی نسبت سے خلافت دی تھی جو تاحال قائم اور دائم ہے”۔
اس پر مفتی احمد الرحمن، مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن رئیس دارالافتاء جامعہ بنوری ٹاؤن اور مفتی جمیل خان روزنامہ جنگ کراچی کے دستخط ہیں۔
مفتی احمد الرحمن و مفتی ولی حسن غریبوںکو حاجی عثمان کے خلفاء نے گاڑیوں کا مالک بنادیا تھا۔ پھر جب سرمایہ دار مرید مفتی تقی عثمانی کی سازش سے مخالف بن گئے اور دارالعلوم کراچی نے” الاستفتاء ” کے نام سے سوالات اور جوابات کو خود مرتب کیا تو مفتی رشیداحمدلدھیانوی نے حاجی عثمان کو دھمکی دی کہ اگر نہیں آئے تو یکطرفہ فتویٰ دیںگے۔ حاجی عثمان آپریشن کیلئے داخل تھے۔ پیشاب کی تھیلی ہاتھ میں لئے پہنچے تو علماء ومفتیان کی طوطا چشمی دیکھ کر حیران ہوگئے۔
مولانا فقیر محمد نے جن علماء ومفتیان کا شرعی فتویٰ مان کر لکھا تھا کہ مشورے سے ورود کی دی ہوئی خلافت واپس نہیں لی جاسکتی ۔ انہوں نے ہی مولانا فقیر محمد کو مشورہ دیا کہ خلافت واپس لو۔حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ گمراہ پیر کی خلافت پر مولانا فقیر کی پیری تحفظات کا شکار بن جاتی مگر حاجی عثمان کے خلفاء جگر کے ٹکڑے تھے اور مولانا فقیر محمد ورود کی نسبت خلافت دینے کے باوجود معتبر تھے ؟ ۔ اگرحاجی عثمان پیری کے قابل نہیں تھے تو یہی فتویٰ پھر مولانا فقیرمحمد پر لگتا تھا؟۔
مولانا فقیر محمد شیخ و مرشد نہیں تھے بلکہ حاجی عثمان کے بارے میں لکھ دیا کہ ”مولانا اشرف علی تھانوی کے مرشد حاجی امداداللہ مہاجر مکیسے بہت مشابہت رکھتے ہیں اور ان کا بہت شکریہ کہ27رمضان المبارک کی رات مسجد نبوی ۖ مدینہ منورہ میںورود کی خلافت کوقبول فرمالیا ہے”۔اس میں بڑے راز کی بات تھی کہ ورود کی خلافت ،TJابراہیم سے الائنس موٹرز کی کہانی، علماء ومفتیان کے شرمناک فتوے اور اس پر معافی مانگنے سے لیکر دوبارہ انتہائی جہالت اور کمینہ پن سے فتویٰ بازی اور بدمعاشی کے معاملات تک بہت حقائق سامنے آگئے ۔
حاجی امداداللہ مہاجر مکی کے مرید وخلفاء میں اکابر دیوبند تھے اور بریلوی مکتبہ فکر میں بھی حاجی امداداللہ مہاجر مکی کا احترام ہے اور” فیصلہ ہفت مسئلہ” میں بریلوی دیوبندی اختلافات کو حاجی امداداللہ مہاجر مکی نے ختم کیا۔ علماء دیوبند کااس کتاب سے اختلاف تھا بلکہ جلا دیا تھا لیکن مولانا اشرف علی تھانوی نے اس کو شائع کیا تھا۔جب فتویٰ کے بعدمیرا خانقاہ میں قیام تھا تو میں نے خواب دیکھا کہ ” حاجی امداداللہ مہاجر مکی خانقاہ کے مشرقی دروازے سے داخل ہوئے اور کہا کہ میں عتیق کو دیکھنے آیا ہوں۔ میں کمرے میں آرام کررہا تھا ۔پھر کمرے کے دروازے پر آئے تو تھوڑی سی شرمندگی کا احساس ہوا اور دروازہ کھول دیا”۔ حاجی محمد عثمان مجھے حضرت عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر لے گئے لیکن میں نے ایسی کیفیت کی مزاحمت کی کہ مکاشفہ ہوجائے۔ پھر ایک دفعہ خواب دیکھا تھا کہ ”پہاڑ پر چڑھتے ہوئے جس سڑک پر چل رہے ہیں۔ وہ ساری کٹی ہوئی تھی۔ گاڑی کا یہ کمال ہوتا ہے کہ سڑک کی بھرائی بھی کرتی ہے اور مرمت بھی کرتی ہے اور اس پر کارپٹ بھی خود بخود بچھاتی ہے۔ اس میںتقریباً70،80افرادتھے”۔ حاجی محمد عثمان سے خواب کا ذکر کیا تو انہوں نے پوچھ لیا کہ میں بھی اس میں ہوتا ہوں؟۔ میں عرض کرتا ہوں کہ آپ نہیں ہوتے۔ فرمایا کہ ” آپ کیلئے70،80بھی کافی ہیں”۔ یہ بھی فرمایا تھا کہ ” آپ سے اللہ نے دین کا بہت بڑا کام لینا ہے اور آپ کے ذریعے اللہ صدیقین کی جماعت پیدا کرے گا”۔قرآن میں کافروں کا ذکر ہے اور مکذّبین کا ذکر ہے جو جھٹلانے والے ہوتے ہیں۔ایمان والوں کا ذکر ہے اور متصدقین کا ذکر ہے جس کا معنی تکذیب کے مقابلے میں تصدیق کرنے والے ہیں لیکن علماء نے ان سے صدقہ دینے والے مراد لئے۔
ہمارے کئی ساتھی اللہ کو پیارے ہوگئے۔ باقی ہم اس انتظار میں بیٹھے ہیں کہ امت کی بھلائی کیلئے ایک بڑا انقلاب برپا ہوجائے ۔
اللہ نے قرآن میںفرمایا: منھم من قضٰی نحبہ ومنھم من ینتظر ۔ ایک وہ جنہوں نے اپناہدف پورا کردیا اور دوسرے وہ جو انتظار میں بیٹھے ہیں۔
مولانا فقیر محمد سادہ تھے۔ حاجی عثمان کی خلافت قدرت کی ایک چال تھی۔ اللہ نے فرمایا : ومکروا ومکر اللہ واللہ خیر الماکرین ”اور یہ اپنا جال بچھاتے ہیں اور اللہ اپنا جال بچھاتا ہے اور اللہ بہتر جال بچھانے والا ہے”۔
علامہ یوسف بنوری اور دوسرے اکابر علماء جب حج پر مستورات کے ساتھ جاتے تو مستورات کو حاجی محمد عثمان کے ذمہ لگاتے۔ علامہ سید محمد یوسف بنوری نے اپنے صاحبزادے مولاناسید محمدبنوری سے فرمایا تھا کہ ” حاجی محمد عثمان سے خوف رکھو، ان کے ہاتھ میں چھڑی ہے”۔ مولانا سیدمحمد بنوری فتویٰ لگنے کے بعد بھی حاجی عثمان کے پاس آتے تھے اور علماء کرام کو بھی ساتھ لاتے تھے۔ ایک مرتبہ مولانا سید عبدالمجید ندیم کو بھی ساتھ لائے تھے۔ ندیم صاحب نے کہا تھا کہ ” عثمان نام ہے تو مظلومیت کا انداز بھی وہی ہے اسلئے کہ نام کا اثر ہوتا ہے اور جنہوں نے فتویٰ لگایا ہے کہ یہ گند اور بدبو کے ڈھیر ہیں”۔
مولانا فضل الرحمن نے کہا تھا کہ ” یہ سن70کا فتویٰ لگتا ہے۔ علماء ومفتیان نے سرمایہ داروں سے خوب مال کھایا ہوگااور یہ پیر کوئی اچھے آدمی ہوں گے”۔
حاجی عثمان کی بیعت سے پہلے مولانا اللہ یار خان کے مریدوں نے پیشکش کی تھی کہ مولانا اللہ یار خان نے کہا کہ مجھ سے بیعت نہ ہوں بلکہ رسول اللہ ۖ کے ہاتھ میں براہِ راست بیعت ہوگی لیکن میں نے اس پیشکش سے معذرت کرلی تھی اسلئے کہ انکے مریدوں نے کہا تھا کہ ”آپ بیعت ہوجائیں تو دنیا کی ساری ضروریات پوری کردیںگے”۔ مجھے ان کی یہ بات اچھی نہیں لگی تھی۔ مولانا اللہ یار خان کے خلیفہ مولانا اکرم اعوان انقلابی تھے اور بہت سارے فوجی افسران ان سے بیعت تھے اور حاجی محمد عثمان سے بھی فوجی افسران بیعت تھے۔ وہ بھی انقلاب چاہتے تھے لیکن مرید فوجیوں اور علماء نے کوئی ساتھ نہیں دیاتھا ۔
مولانا عبدالقدوس خطیب جامع مسجد یارک ڈیرہ اسماعیل خان نے بتایا کہ ”مولانا اللہ یار خان نے وزیرستان کا سفر کیا تھا اور کہا تھا کہ میں ایک موتی تلاش کرنے آیا ہوں،اگر اللہ نے دیا۔ مجھے لگتا ہے کہ آپ کی تلاش میں گئے تھے”۔
وزیرستان جلسہ عام میں مولانا نورمحمدMNA،مولانا اکرم اعوان اور میں ساتھ تھے ۔مولانا اکرم اعوان خلیفہ مولانا اللہ یار خان نے کہا تھاکہ ”میں کسان ہوں۔ کسان فصل اٹھاتا ہے تو باقی گندم اخراجات رکھتا ہے اور بہترین گندم کوبیج کیلئے محفوظ رکھتا ہے۔ اللہ نے وزیرستان کی عوام کو بیج کیلئے محفوظ رکھا ہوا ہے”۔
مفتی عبدالرحیم نے شیخ سید عبدالقار جیلانی، شاہ ولی اللہ، علامہ سیدیوسف بنوری اور شیخ الحدیث مولانا زکریا کے معتقدات پر بھی کفروگمراہی، الحاد وزندقہ، قادیانیت اور دیگر فتوے لگادئیے تھے۔ مفتی رشیداحمد لدھیانوی نے اس خوف سے اتنی پھوسیاں ماری ہوں گی کہ دارالافتاء والارشاد کو بدبوسے بھر دیا ہوگا لیکن جب ہم نے رعایت کی تو پھر انہوں نے الائنس موٹرز کی نمک حلالی کیلئے اپنا وہی کام شروع کردیا۔ ہمیں بہت خوشی ہے کہ فتوؤں کا کواڑ بالکل کھلا رکھا گیاہے۔
مولانا فضل محمد یوسف زئی استاذ حدیث جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی نے کہا تھا کہ ” مفتی رشید احمد لدھیانوی نے علامہ سید محمد یوسف بنوری سے اذیت ناک سلوک روا رکھا تھا اسلئے اللہ نے تیرے ہاتھوں اس کو عذاب کا مزا چکھادیا ”۔
تصوف وسلوک کے میدان میںعلماء ومفتیان کی نالائقی اپنی جگہ تھی لیکن جب درسِ نظامی کے نصاب کو دیکھا جائے اور اس سے باصلاحیت علماء ومفتیان کی جگہ کوڑھ دماغ شخصیات جنم لینے کا قضیہ دیکھا جائے تو معاملہ بڑا بگڑتا ہے۔ جب دیوبندی ، بریلوی، اہلحدیث اور شیعہ ہماری وجہ سے اس پر متفق ہوجائیں کہ قرآنی آیات کی تفسیر اور احادیث کی تشریح پر اختلاف نہیں رہے بلکہ سب کیلئے قابلِ قبول ہو ۔ حضرت عمر اور حضرت علی کا اختلاف نہیں رہے بلکہ سب کیلئے قابل قبول ہو۔ تمام مذہبی وسیاسی قیادت ایک جگہ جمع ہوکر اسلام کے حقیقی معاشرتی نظام کا نقشہ پاکستان اور پوری دنیا کے سامنے پیش کریں۔ہمارا مشن دیوبندی ، بریلوی، اہلحدیث اور شیعہ کیلئے قابل قبول ہے اور مذہبی طبقہ اس وجہ سے اقتدار کی دہلیز تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ جان لو کہ مولانا فضل الرحمن و مریم نواز کیساتھ عمران خان اور آصف زرداری بھی اس مقدس مشن کا ساتھ دیں گے۔
شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید نے ” بدعت کی حقیقت ” میں تقلید کو عملی بدعت قرار دیا۔ علامہ یوسف بنوری نے اسکے ترجمہ پر تقریظ لکھی ہے اور تقریظ میں دوسری کتاب ”منصبِ امامت” کی بھی بہت تعریف لکھ دی ہے۔ مولانا احمد رضا خان بریلوی نے شاہ اسماعیل شہید کی کتاب ”بدعت کی حقیقت” کی وجہ سے اکابردیوبند پر اسلاف سے انحراف کا فتویٰ لگادیا تھا لیکن علماء دیوبند نے پھر تقلید کا دامن تھامنے پرکتاب لکھ دی۔ علامہ سیدیوسف بنوری کے والد مولانا زکریا بنوری نے لکھا کہ ” ہندوستان میں مذہب حنفی کی بقاء کا سہرا مولانا احمد رضا خان بریلوی کے سر جاتا ہے”۔ اہلحدیث کے مولانا اسحاق نے کہا کہ ”ایک نواب کی تعریف میں مولانا احمدرضا خان بریلوی سے اشعار کا تقاضہ کیا گیا کہ پھر نواب ماہانہ وظیفہ مقرر کردے گا تو مولانا احمد رضا بریلوی نے صاف انکار کردیا کہ” میں نبیۖ کی تعریف میں نعمت پڑھ سکتا ہوں۔ کسی نواب کیلئے قصیدہ گوئی کی توقع مجھ سے مت رکھو”۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ حق کی راہ کے متلاشی افراد کیلئے قرآن وسنت اور اجماع وقیاس کا وہ راستہ کھول دیں جو سب کیلئے قابل قبول ہو۔ فرقہ واریت نے امت کی اکثریت کو مذہبی طبقے سے بہت متنفر کردیا ہے۔ ہم علماء ومشائخ کی عزت کو بحال کرنا چاہتے ہیں۔
نکاح وطلاق کے مسائل کی وجہ سے علماء ومفتیان نے اچھی تعلیم یافتہ اور سمجھدار قوم کو ذہنی مریض بنادیا ہے۔ ”فتاویٰ عثمانی” کے واقعات کاا ندراج کیا جائے تو دنیا دنگ رہ جائے گی کہ گیدڑ سنگھی کے بچے مفتی تقی عثمانی نے اسلام کا تماشہ بنادیا۔ انشاء اللہ دنیا میں اسلام کا نام و کام روشن ہوگا۔ مولانا فضل الرحمن اپنے گھر میں میرے ساتھ مفتی تقی عثمانی کو بٹھادیں تو مولانا کا دماغ کھلے گا۔
میں نے دارالعلوم کراچی میں داخلہ لیا تھا تو اپنے طعام کیلئے نوکری ڈھونڈ لی تھی، جب طلبہ نے اسرار کیا کہ مفت کی سہولت موجود ہے تو مشقت اٹھانے کی کیا ضرورت ہے؟۔ میں نے کہا کہ ”میں سید ہوں اور زکوٰة میرے لئے جائز نہیں ”۔ انہوں نے کہا: ‘ ‘اکابرسادات نے مدارس میں پڑھا اور یہ نہیں کہا”۔ میں نے کہا: ”پھر کیامیرے لئے زکوٰة جائز ہوجائے گی؟ اور انشاء اللہ میں مسجد کی امامت، آذان اور قرآن کا درس دوں گا مگر تنخواہ نہیں لوں گا”۔جب یہ رپورٹ مدرسہ کے انتظامیہ کو دی گئی تو مجھے دفترمیں بلایا اور کہا: ” آپ کا داخلہ نہیں ہوسکا ہے”۔ لیکن اس کے برعکس جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں پہلی تقریر یہ سن لی کہ اگر دنیا کا ارادہ ہے تو دنیا کو دنیا کے طریقے سے کمانا چاہیے اور مدرسہ چھوڑدو۔ پھر وہ وقت آیا کہ میں نے مسجد الٰہیہ میں بغیر تنخواہ کے خدمات انجام دیں تو حاجی محمد عثمان نے فرمایا کہ ”ہماری مسجد کو مسجد نبویۖ کے پہلے دور سے مشابہت مل گئی جس میں امام بغیر تنخواہ کے امامت کرتا تھا”۔
ہم سے اللہ تعالیٰ نے طلاق و حلالہ، عورت کے حقوق، قرآنی آیات کی تفسیر اور احادیث صحیحہ کے علاوہ فقہ واصول فقہ کے حوالے سے دین، علم اور ایمان کی جو زبردست خدمات لی ہے وہ حضرت حاجی محمد عثمان کی شخصیت کو سمجھنے کیلئے کافی ہیں۔ اس داستان میں میرے طالب علمی کے زمانے سے دین کو سمجھ اور اساتذہ کرام کی زبردست حوصلہ افزائی کا بھی بڑا عمل بلکہ بنیادی اور اصلی کمال ہے لیکن اگر یہ حادثہ نہ ہوتا تو شاید ہم سے اللہ تعالیٰ اتنا عظیم کا م بھی نہ لیتا۔سید عتیق گیلانی

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv