مئی 2023 - Page 3 of 4 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

کفار ، اہل کتاب اور گمراہ فرقوں سے نکاح کا بیان

کفار ، اہل کتاب اور گمراہ فرقوں سے نکاح کا بیان
فصل فی المناکحة بالکفار واھل الکتاب والفرق الضالة

درج بالا عنوان کے تحت7ذیلی عنوان ہیں۔
1:عیسائی عورت سے نکاح کا حکم : عیسائی عورت سے مسلمان کا نکاح منعقد ہوجاتا ہے ۔شرط یہ ہے کہ عورت واقعی عیسائی ہو، دہریہ نہ ہو۔ دوسری شرط یہ کہ نکاح شرعی طریقے پر دوگواہوں کے سامنے ہوا ہو۔
2:لامذہب اور شیعہ سے نکاح کا حکم : صورت مسئولہ میں لڑکا صراحةً سنی ہونے کا انکار کررہاہے اور اسکے والدین واضح شیعہ ہیں تو اب شیعہ ہونے سے انکار کا مطلب یا تو یہ ہوسکتا ہے کہ وہ تقیہ کررہاہے اور حقیقت میں شیعہ ہے۔ یا پھر وہ کوئی مذہب ہی نہیں رکھتا ، لامذہب ہے۔ اور دونوں صورتوں میں اس کا نکاح صحیح العقیدہ سنی لڑکی سے کرنا جائز نہیں۔ اگرچہ لڑکا کہہ رہا ہو کہ وہ شیعہ نہیں ہے۔
3:قادیانی سے نکاح کا حکم اور کیا مسلمان ہونے کیلئے سرٹیفکیٹ ضروری ہے؟: ایک نوسر باز جعل سازقادیانی کے متعلق جواب میں لکھا ہے کہ اگر سوال میں ذکر کردہ واقعات درست ہیں تو مسماة نفیس فاطمہ کا نکاح مذکورہ شخص سے نہیں ہوا ۔ نکاح نامہ کے سادہ فارم پر صرف دستخط کردینے سے شرعاً نکاح منعقد نہیں ہوتا بلکہ اس کیلئے کم ازکم دو گواہوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول ضروری ہے۔ علاوہ ازیں اگر مذکورہ شخص اب بھی قادیانی ہے اور مسلمان ہونے کا سر ٹیفکیٹ جھوٹا ہے تو قادیانی مرد سے مسلمان عورت کا نکاح نہیں ہوسکتا، خواہ دو گواہوں کی موجودگی میں نکاح ہواہو۔ دوسرا یہ کہ قادیانی سے مسلمان ہونا درحقیقت قلبی عقائد کی تبدیلی اور ان کے اعلان پر موقوف ہے۔ اگر کوئی شخص قادیانی عقائد سے واقعةً تائب ہوجائے، زبان سے اس کا اعلان کردے تو وہ مسلمان ہوسکتا ہے خواہ اس کے پاس سرٹیفکیٹ نہ ہو۔ اگر دل سے تائب نہ ہوتو جھوٹا سر ٹیفکیٹ بنوانے سے مسلمان نہیں ہوسکتا۔
4:شیعہ سے نکاح کا حکم : ”ان سے نکاح تو ہوجاتا ہے مگر مناسب نہیں”۔ شیعہ کے بارے یہ کھلے متضاد فتوے دئیے گئے ۔
5:حاجی عثمان کے معتقد سے رشتہ جائز نہیں۔ نکاح کا انجام عمر بھر کی حرامکاری اور اولادالزنا۔
عنوانات6:اور7:کافر کی بیوی مسلمان ہوجائے توقاضی جب تک نکاح فسخ کا فیصلہ نہیں کرتا تو کافر سے نکاح برقرار رہتا ہے۔ومالم یفرق القاضی فھو زوجتہ ( شامی ج : ٢ص:٣٨٩)۔
قادیانی کی بیوی مسلمان ہوجائے توعدالتی فیصلے کے بغیر چھٹکارا نہیں مل سکتا۔ قادیانی نوسر باز مرد کیلئے لکھ دیا کہ” نکاح درست نہیں” ۔یہ نہیں لکھا کہ قادیانی عورت کا مسلمان مرد سے نکاح نہیں ہوسکتا۔ کیا جنرل ضیاء کے بیٹے ڈاکٹر انوار الحق کا قادیانی عورت اور جنرل قمر جاوید باجوہ کا نکاح بچانا تھا؟۔
اللہ نے مشرک اور مشرکہ سے نکاح کا منع کیا ۔ عیسائی عورت تثلیث کی وجہ سے مشرکہ ہوتی ہے لیکن اس سے نکاح کا جواز ہے ۔ نبیۖ نے صلح حدیبیہ کے بعد مسلمان ہونے والی عورتوں کو پناہ دی اور اللہ نے فرمایا کہ ” وہ اپنے شوہر کیلئے حلال نہیں اور نہ شوہر ان کیلئے ہیں” ۔جج سے تنسیخ نکاح کا فیصلہ قرآن کے خلاف ہے۔ البتہ ام ہانی نے مشرک شوہر سے ہجرت نہ کی تو اس پر حرامکاری کا فتویٰ نہیں لگایا گیا۔ مولانا مودودی نے جسم جڑی ہوئی دو بہنوں کو بیک وقت ایک شخص کے نکاح میں جمع کرنا جائز قراردیا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

زرد صحافت، زرد لباس، زرد رومال مہنگائی نے کردیااب قوم کوبدحال

زرد صحافت، زرد لباس، زرد رومال مہنگائی نے کردیااب قوم کوبدحال

موجودہ حکومت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے ازخود نوٹس کی رہین منت ہے۔ عدلیہ کے خلاف طوفان بدتمیزی افسوسناک ہے
آرمی چیف کو بے غیرت بولنا نہیں بنتاہے۔ فرح گوگی کی سہیلی بشریٰ ملک ریاض سے رشوت پر ٹرسٹی نا بنتی تو مسئلہ نہیں تھا

نمرود کی آگ بجھانے والی چڑیا اور بھڑکانے والی چھپکلی بڑا سبق ہے کہ جہاں آگ لگے تو شریف اور کمینے کا اپنا اپنا کردار ہوتا ہے

ایک صحافی نے لکھا تھا کہ” فوج اور نوازشریف کے درمیان اختلاف کی بنیاد مفتی رشیداحمد لدھیانوی( ضرب مؤمن کراچی ) کے خلاف کاروائی تھی۔ مولانا مسعود اظہر تہاڑ جیل ہندوستان سے لکھتاتھا یا ضرب مؤمن میں اس کے نام پر لکھا جاتا تھا؟۔مولانا مسعود اظہر کی یہ فریاد لکھی گئی تھی کہ ”نوازشریف کی ظالم حکومت نے مجاہدین کے گڑھ دارالافتاء والارشاد ناظم آباد کراچی کے مفتی رشیداحمد لدھیانوی کے خلاف اقدامات کا فیصلہ کیا ”۔مفتی رشیداحمد لدھیانوی کا مرید قمر امریکن ایمبسی میں کام کرتا تھا اور وہ کہتا تھا کہ ”مفتی رشیداحمد لدھیانوی اور امریکہ کے درمیان جو کردار ادا کیا وہ اُمید نہیں رکھتا کہ اللہ اس کو بخشے گا”۔
نوازشریف بینظیر بھٹو کوامریکی ایجنٹ اور بینظیر بھٹو اس کو اسرائیلی ایجنٹ کہتی تھی۔ جمعیت علماء اسلام قادری کے صدر مولانا اجمل قادری کو نواز شریف نے اسرائیل بھیجا تھا۔ حامد میر نے کہاکہ بینظیر کے ذریعے امریکہ نے طالبان بنائے اورISIبعد میں شامل ہوگئی۔ اسامہ بن لادن نے بینظیر بھٹو کے خلاف نوازشریف کی مدد کی تھی۔ نوازشریف نے ضرب مؤمن کے خلاف اقدام اٹھایا تو فوج سے تعلق بگڑگیا۔ اگر موٹے موٹے یہ تاریخی ڈاٹ ملانا شروع کردئیے تو بہت سارے سربستہ رازوں سے عوام کے سامنے سے پردہ اُٹھ جائے گا۔
مفتی عبدالرحیم کے پاس کرایہ نہ تھا تو شیخ نذیراحمد سے رقم لی؟۔ جوکہتا ہے کہ” میں واحد مولوی ہوں جو فوجی افسران کوہدیہ دیتا ہوںکسی سے لیتا نہیں ”۔ یہ دولت کہاں سے ملتی ہے؟۔ قیدی ڈاکو کی تبلیغ سے اس کاباپ تبلیغی جماعت میں گیا۔ مفتی احمد ممتاز مفتی رشید لدھیانوی کا خلیفہ سودکی لعنت کا مخالف ہے۔
نوازشریف نے پہلے دورِاقتدارمیںکہا کہ” اگر ہم نے قادیانیت کی آئینی ترمیم ختم کی تو پاکستان کا قرضہ اور ساری مشکلات حل ہوجائیں گی”۔ قادیانیوں کے ذریعے اسرائیل اپنے اہداف تک پہنچے گا۔ تنسیخ جہاد، مہدی ومسیح موعود، وفات عیسیٰ اور اسکے باپ کا وجود اسلام اور عیسائیت کیلئے تباہ کن ہے۔
قادیانی کہتے ہیں کہ عیسیٰ فوت ہیں۔ قرآنی دلائل علماء سے لئے۔کہتے ہیں کہ جب عیسیٰ کی آمد سے ختم نبوت پر اثر نہیں پڑتا تو ہم سمجھتے ہیں” ہرفرعون کیلئے موسیٰ ہے” ۔ عیسیٰ جیساکوئی آئیگا ۔ مہدی و عیسیٰ کو ایک شخص ہے۔ قادیانی عیسیٰ کے باپ کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ یہود سمجھتا ہے کہ اسلامی اور عیسائی عقیدہ ختم ہوگا۔ مرزا دجال کی سازش سے جہاد منسوخ نہ ہوا مگر سود کو اسلامی کہنے کی سازش مفتی تقی عثمانی اورمفتی عبدالرحیم نے کامیاب کردی۔قادیانی شیعہ سنی فرقہ واریت بھڑکاتے ہیں۔جہاد کا نقصان بتاتے ہیں۔ مفتی عبدالرحیم نے جہاد کے خلاف حدیث بیان کی۔مرزا غلام احمد قادیانی کے نام نہیں کام کی اہمیت ہے اور وہ ہے اسلامی معاشی، معاشرتی، سیاسی نظام کی منسوخی۔ مفتی تقی عثمانی اور مفتی عبدالرحیم اس مشن پر لگ گئے۔ مولانا فضل الرحمن کی سیاست جن علماء کے مذہبی معاملات کے خلاف تھی ،اب وہ نہیں رہی ہے۔ سیاست کو مجنون لیلیٰ کا کھیل بنادیا ہے۔
اسلامی جمہوری اتحاد کے دورِ حکومت میں جج نے سودی نظام ختم کرنے کا فیصلہ دیا تو نوازشریف نے اسکے خلاف اپیل دائر کی۔ نوازشریف کو دوسرے دورِ اقتدار میں دہشتگردی کے گڑھ مفتی رشیداحمد لدھیانوی کے خلاف قدم اٹھانے پر اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑاتھا۔ جنرل پرویز مشرف کی جگہ خواجہ ضیاء الدین بٹ کو آرمی چیف مقرر کیا تھا تووہ حاجی عثمان کا مرید تھا۔ کورکمانڈر جنرل نصیر اختر سمیت فوجی افسران حاجی عثمان سے بیعت تھے۔ پیپلزپارٹی کے شفیع جاموٹ نے حاجی شفیع بلوچ سے کہا تھا کہ قادیانی خانقاہ کے خلاف سازش کررہے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق نے بینک کے سود سے زکوٰة کی جگہ سود ی رقم کاٹنی شروع کی تو مفتی اعظم پاکستان مفتی محمود نے مخالفت کی لیکن مفتی تقی عثمانی کے پان اور مفتی رفیع عثمانی کے دورۂ قلب کی خاص گولی نے شہادت کی منزل پر پہنچا دیا ۔ مولانا فضل الرحمن اس زکوٰة کو شراب پر” آبِ زم زم کا لیبل ”قرار دیتا تھا۔ جب جنرل ضیاء الحق نے اسلام کے نام پر ریفرینڈم کرایا تو مفتی تقی عثمانی نے فتویٰ دیا۔ حاجی محمد عثمان نے ریفرینڈم کے فتویٰ کی مخالفت میں رائے دی تھی۔
روزنامہ جنگ میں ” آپ کے سوال اور ان کا حل” کے عنوان سے مولانا محمد یوسف لدھیانوی سے سوال ہوا کہ ” حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے کتنے چچا اور پھوپھیاں تھیں؟۔ جواب میں لکھ دیا کہ ” حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے چچا نہیں تھے لیکن دو پھوپھیاں (باپ کی بہنیں)تھیں”۔ اس پر احتجاج ہواتھا تو مولانا محمد یوسف لدھیانوی نے وضاحت کردی کہ ”یہ جواب میں نے نہیں لکھا ہے”۔
جنگ کے مالک میر شکیل الرحمن کی بیوی مرزا غلام احمد قادیانی کے خلیفہ حکیم نورالدین کی پوتی ہے۔ اس نے میر شکیل الرحمن کو ہدف بنایا۔ اس نے کہا کہ میں مسلمان بنتی ہوں، مجھے قادیانیت کے کفر پر مطمئن کرو۔ مولانا یوسف بنوری، مفتی ولی حسن اور مولانا یوسف لدھیانوی کے دلائل سے وہ مطمئن نہ ہوئی تو مولانا لعل حسین اختر کو پنجاب سے بلایا گیا۔ مولانا لعل حسین سے لاجواب ہوگئی تو قادیانیت سے توبہ کی اور اسلام قبول کیا۔ اصل حال اللہ جانتا ہے مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پھوپھیوں کی خبرسے پتہ چلتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔
صحافی ابصار عالم نے صحافت چھوڑ کر مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کی اور پھر اس کو گولیاں بھی لگیں اور بیٹا بھی مارنے سے معذور ہوگیا ۔ اس نے بتایا کہ ”جنرل راحیل شریف اورDGISIجنرل رضوان اختر نے جنرل قمر باجوہ کا جینا اس کے قادیانی سسر جنرل امجد کی وجہ سے دوبھرکیاتھا۔ اس نے نوازشریف کو جنرل قمر باجوہ کی مظلومیت وبے بسی سے آگاہ کیا تو اس کو آرمی چیف لگایا”۔ پھر جنرل رضوان اختر کو قبل از وقت ریٹائرمنٹ پر مجبور کیا گیا۔ نوازشریف نے جنرل باجوہ کو خوش کرنے کیلئے قادیانیت کے حق میں ترمیم کی سازش کی۔ جس کا جمعیت علماء اسلام، تحریک انصاف ، پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتوں نے ساتھ دیا۔ پہلے حافظ حمداللہ اورپھرشیخ رشید احمد نے آواز اٹھائی۔ البتہ ظفراللہ جمالی بلوچ نے غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے قومی اسمبلی اور مسلم لیگ ن سے استعفیٰ دیا ۔
جب تحریک لبیک نے فیض آباد میں دھرنا دیا تو جسٹس فائز عیسیٰ نے اس کو فوج کی سازش قرار دیا تھا۔حالانکہ یہ سارا کھیل جنرل باجوہ کے سسرال کو خوش کرنے کیلئے تھا تو جنرل باجوہ کیسے اسکے خلاف سازش کرتا؟۔ پھر عمران خان بھی ن لیگ کے خلاف علامہ خادم حسین رضوی کیساتھ کھڑا ہوا۔ اگر قادیانی لابی اور اس کے مخالفین میں گروپ بندی ہے جس پر کیپٹن صفدرذوالفقارعلی بھٹو کو سلام پیش کرتا ہے۔ ن لیگ جنرل قمر جاویدہ باجوہ کی حمایت اورجنرل فیض حمید کی مخالفت کس بنیاد پر کررہی ہے؟۔عمران خان کو اقتدار سے بے دخل کیا جارہاتھا تو علی وزیر نے کہا تھا کہ ” کسی اور کی لڑائی ہے جوپارلیمنٹ میں لڑی جارہی ہے”۔ فوجی افسران میں قادیانیوں اور مسلمانوں کی رشتہ داریاں ہیںلیکن ان رشتوں سے پیدا ہونے والی اولاد پر کیا فتویٰ لگے گا؟۔ حاجی عثمان نے اپنے مرید اصغر علی قریشی سے اس کی قادیانی بیوی چھڑا دی تھی تو آپ کو یہ سزا مل گئی کہ معتقد سے نکاح بھی حرامکاری اور اولادالزنا قرار دیا گیااور مفتی تقی عثمانی نے اپنے پیر ڈاکٹر عبدالحی کے ذریعے معروف قادیانی مبلغ کی بیٹی کا نکاح پڑھایا تو اسکے ذریعے علماء حق کو شکست دے کر شیخ الاسلام کے نام نہاد منصب پر فائز کردیا گیا ہے۔
مولانا محمد یوسف لدھیانوی نے قادیانیوں کو زندیق قرار دیا تھا۔ جو توبہ کرے تو بھی واجب القتل ہے۔ جب مقتدر طبقات میں تقسیم اور ان کی وجہ سے اہم ملکی معاملات اور سیاست میں دخل اندازی ہوگی تو پاکستان کیسے ترقی کرے گا؟۔ مفتی تقی عثمانی نے ” فتاویٰ عثمانی” میں ایسے فوجی افسران کا بھی ذکر کیا ہے جن کی بیگمات ان کی غیرموجودگی میں حرامکاری میں مگن رہتی تھیں۔ ان کی اولاد کی تعلیم وتربیت اور زندگی پر اسکے کیا اثرات مرتب ہوںگے؟۔
سودی معیشت کو اسلامی قرار دیا جائے تو اس سے بڑی بدبختی کیا ہے؟۔ اگر اسلام میں نکاح وطلاق اور عورت کے حقوق کا مسئلہ قرآن وسنت سے اجاگر کیا جائے تو قادیانی سچے دل سے مسلمان بن جائیں گے اور یہ یقین کرلیں گے کہ مرزا غلام احمد قادیانی جھوٹا اور دجال تھا۔ مہدی اور نبی ہونا توبہت دُور کی بات وہ ایک اچھا عالم دین بھی نہیں ہوسکتا تھا۔ اسلامی معاشی نظام کا خاکہ علامہ سید محمد یوسف بنورینے پیش کیا۔ آپ کے داماد مولانا طاسین نے دلائل سے مزین کرکے مرتب کیا تھا۔ہماری معیشت کا حل یہی ہے۔ جب ہمارا معاشرتی نظام درست ہوگا تو علم وشعور کی بلندی پر یہ قوم پہنچے گی۔ نکاح وطلاق کے مسائل نے عوام کو نہیں علماء ومفتیان کے علم وعمل کا بھی کباڑہ کیا ہے۔
فوجی تنصیبات پر حملہ ہوا، عبوری حکومتوں نے کردار ادا نہیں کیا۔ حکومت نے رینجرزسے عدالت کے شیشے تڑوائے ۔ عدالت پر مولانا و مریم نے چڑھائی کردی حالانکہ حکومت کا کام احتجاج کرنا نہیں عدلیہ کو تحفظ دینا ہے۔ ملکی نظام نالائقوں نے تباہ کیا ۔ تباہی وبربادی سے بچنے کیلئے اسلام کے معاشی ومعاشرتی نظام کی طرف آنا ضروری ہے۔ حکومت عمران خان سے خوفزدہ ہے ۔ حالات کی نزاکت کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور ملک کو خانہ جنگی میں دھکیل دینا غلط ہوگا۔
عمران خان و ڈاکٹر طاہرالقادری نے پارلیمنٹ کا دروازہ توڑا،PTVپر قبضہ کیا، پنجاب پولیس نے منہاج القرآن لاہور میں خواتین سمیت14افراد قتل اور بہت کو زخمی کیا تھا۔برطانیہ نے ملک ریاض سے60ارب پاکستان کو واپس کیا، عمران خان نے ملک ریاض پر مہربانی کی۔ عدالت نے چپ کا روزہ رکھا۔ میڈیا، ریاستی ادارے اور سیاسی خانوادے خاموش تھے۔ملک ریاض کو زرداری نے سندھ کی زمین دی تھی اور ملک ریاض نے لاہورمیںبلاول ہاوس بناکر دیا۔
مریم نواز اور نوازشریف کو ہلکی سزا دیکر جیل میں ڈالا گیا تھا اور پھر نہیں چھوڑوں گا کے بے تاج بادشاہ عمران خان نے پکڑے ہوئے افراد کو چھوڑ دیا۔PDMنے مہنگائی کا رونا رویا اور جب اقتدار میں آگئی تو مہنگائی کا طوفان کھڑا کردیا۔ ہمارا دفاعی بجٹ15سوارب اور سودکا بجٹ5ہزار4سو ہے توپھریہ ملک کیسے چلے گا؟۔ پہلے ملک کے تمام محصولات کے مقابلہ میں دگنا بجٹ تھا اور اب پورے محصولات صرف سودکی نذرہورہے ہیں۔ ملک قرضہ سے چلتا ہے۔ سیاستدان، فوجی ، بیوروکریسی اور میڈیا مالکان وعلماء ومفتیان نے جتنی ناجائز دولت بیرون ملک اورضرورت سے زیادہ اندورون ملک جمع کررکھی ہے ، ان سے قرضے چکائے جائیں اور اسلامی معاشی نظام نافذ کیا جائے تو پھراپنی قوم اداروں ، سیاستدانوں ، صحافیوں اور علماء ومفتیان کی عزتیں بحال ہوں گی۔
کھیتی باڑی کیلئے کسانوں کو مفت زمینیں، باغات کیلئے پہاڑ، رہائش کیلئے بغیرکرایہ مکانات دئیے جائیں۔مزدور، محنت کش ، تاجر، نوکر پیشہ افراد ناجائز ٹیکسوں کے بوجھ سے نکل جائیں۔ ایرانی سستاتیل و گیس ،بھارت کو راہداری دیں تو پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔ فوج کیخلاف بنی بنائی فضا عمران خان کی قسمت میں آگئی ۔ پنجاب میں نفرت آخری حد کو پہنچ گئی ۔عثمان ڈار کی خواتین کے خلاف پولیس کی روش پر خواجہ آصف نے معافی مانگ لی ۔
صحافی امتیاز گل کے پروگرام میں ممریز خان نے پاکستان سٹیل ملز کو اُٹھانے کیلئے کہا کہIMFسے قرضہ لینے کی ضرورت نہیں۔ تمام حکومتوں کے کرتے دھرتے کرپشن میں ملوث تھے۔ مافیاز سے جان چھڑائیں۔ منافع بخش ادارے سے ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔قطرہ قطرہ دریا ہے۔ سیاستدان اور ادارے اپنا اُلو سیدھا کرنے کیلئے نہ لڑیں۔ مقتدر طبقہ ہوش کے ناخن لے۔PIA، واپڈا، ریلوے اورتمام اداروں کو منافع بخش بنایا جاسکتا ہے۔ ظالم، جابراورخائن نہیںمضبوط ادارے پاکستان کی ضرورت ہیں۔ فوج و قوم کو لڑانا غلط ہے۔ سیاسی پارٹیاں صلح کریں۔تشدداور الزام نہیں تحمل ودانشمندی کا مظاہرہ کریں ۔ علماء حق ذمہ داریاں پوری کریں۔ انقلاب کا تیارپھل قوم کی گودمیں کرے گا۔انشاء اللہ
عمران خان کو اپنی غیرت کا توازن برقرار رکھنا چاہیے، بیوی تو بیوی ہوتی ہے۔بشریٰ کسی کی بیگم تھی۔جمائما و ریحام پر غیرت کھانا تھی۔رشوت کے پیسوں پر گوگی کی سہیلی کو ٹرسٹی بنایا ہے تو یہ بھگتنا پڑے گا۔ گھریلو خواتین کی کوئی عزت نہیں جو سڑکوں پر احتجاج اور مارکھاتی ہیں ،پولیس کے ہاتھوں گھروں میں بے عزت ہوجاتی ہیں اور جیل جاتی ہیں، حالانکہ انہوں نے کچھ کھایا نہ کمایا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

مولانا یوسف لدھیانوی شہید حاجی عثمان کی قبر پر بیٹیوں اور دامادوں کیساتھ معتقد بن کر جایاکرتے تھے۔

مولانا یوسف لدھیانوی شہید حاجی عثمان کی قبر پر بیٹیوں اور دامادوں کیساتھ معتقد
بن کر جایاکرتے تھے۔
حاجی عثمان کے معتقد سے رشتہ جائز نہیں ،انجام عمر بھر کی حرامکاری اولادالزنا

لایحب اللہ الجھر بالسوء من القول الا من ظلم”اللہ پسند نہیں کرتا کسی کا کھل کر برائی سے بات مگر جس کیساتھ ظلم ہواہو”

ڈاکٹر انوار الحق سے قادیانی کا نکاح پڑھایا،مفتی رشیدکے کزن جنرل قمرباجوہ کا سسر قادیانی ہے تو کیا اولاد پر فتویٰ لگے گا؟

مفتی محمد تقی عثمانی کی کتاب” فتاویٰ عثمانی” پہلے جولائی2007میں چھپی اور طبع جدید ستمبر2022۔ اس میں یہ سوالات بھی مفتی عبدالرحیم نے خود لکھے:
نمبر1:حاجی عثمان کے معتقد سے نکاح جائز ہے؟
نمبر2:اور اگررشتہ کرلیا جائے تو نکاح صحیح ہوجائے گا یا نہیں؟۔
پھرجواب بھی مفتی عبدالرحیم نے دیا۔ اسلئے کہ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی نے فتویٰ دیا کہ ” جوغلط باتیں حاجی عثمان کی طرف منسوب ہیں اگر وہ ان میں نہیں تو ان پر فتویٰ بھی نہیں لگتاہے اور نکاح تو بہرحال جائزہی ہے”۔ مفتی عبدالسلام چاٹگامی اور مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن نے تصدیق کی تھی۔
دارالعلوم کراچی سے فتوے طلب کرنے میں یہ الفاظ تھے کہ ” نکاح منعقد ہوجائے گا یا نہیں؟۔ جس کے جواب میں مفتی تقی عثمانی ومفتی رفیع عثمانی نے لکھ دیا تھا کہ ”نکاح منعقد ہوجائے گا لیکن مناسب ہے ان صاحب کے حالات سے اپنے داماد کو آگاہ کردیں”۔ مفتی رشیداحمد لدھیانوی کے دارلافتاء والارشاد ناظم آباد کراچی سے مفتی عبدالرحیم نے فتویٰ دیا کہ ” نکاح جائز نہیں ہے”۔
مفتی عبدالرحیم نے بنوری ٹاؤن اور دارالعلوم کراچی کے فتوؤں کے ردعمل میں لکھا تھا کہ جس نکاح کو تم نے جائز قرار دیا ہے اس کا جواز تو بہت دور کی بات ہے، صرف یہ سوال اٹھانا بھی کہ نکاح کرلیا جائے تو ہوجائے گا یا نہیں؟ شریعت کی تخفیف وتوہین ہے اسلئے کہ کسی حرام کام کا پوچھ لینا بھی شریعت کا مذاق ہے۔ اللہ کی پکڑ بہت سخت ہے۔ حرام سود کو جواز دیکر شریعت کی دھجیاں بکھیر دیں؟۔
مفتی عبدالرحیم نے اساتذہ کی حیثیت رکھنے والے مفتی تقی ومفتی رفیع عثمانی پر بدمعاش و بدقماش کی طرح فتویٰ لگادیا، مفتی ولی حسن مفتی تقی و رفیع عثمانی کے استاذ تھے۔ استاذا لاساتذہ میں فتویٰ ٹھونک دیا۔ ہم نے دارالعلوم کراچی اور جامعہ بنوری ٹاؤن کی مساجد میں باجماعت نماز مغرب اور باجماعت نماز عشاء کے بعد اعلان کرکے چیلنج کیا کہ یہ فتویٰ تم پر ہی لگتا ہے۔ مفتی رشیداحمد لدھیانوی کو تحریری چیلنج دیا۔ جس پر مفتی عبدالرحیم نے اپنے ہاتھ اور دوسروں سے ہمارے ساتھیوں کی بدترین پٹائی لگائی تھی۔مار کی شدت سے اللہ نکلتا تھا تو یہ کہتا تھا کہ ان کو گٹر کاپانی پلاؤ۔ مفتی ولی حسن ٹونکی تو مجذوب الحال شخص تھے ۔ بنوری ٹاؤن کراچی کے علماء فتویٰ کے مخالف تھے ۔ مفتی تقی ومفتی رفیع عثمانی کے استاذ مولانا عبدالحق ،مولانا اشفاق قاسمی فاضل دارالعلوم دیوبند،جامعہ فاروقیہ کے استاذ اور مولانا فضل محمد یوسف زئی استاذ جامعہ بنوری ٹاؤن حاجی عثمان کے مرید تھے۔
بدشکل دتو مفتی تقی عثمانی وبدنما مفتی عبدالرؤف سکھروی حلالہ کیلئے فتویٰ کا چکر چلاتے۔ جس کی فتاویٰ عثمانی جلد دوم میںکئی نظیر ہیں۔ مولانا اشفاق قاسمی کی بیگم فوت ہوچکی تھی اور فتویٰ کے بعد حاجی عثمان کی خانقاہ میں دارالعلوم کراچی سے آتا رہتاتھا ۔ گمراہ پیر کے گمراہ مرید کا وہاں کیاکام تھا؟، حلالہ سے دارالعلوم والے دوسروں کی عزتوں سے کھیلتے۔ قرآن میں اللہ نے فرمایا: ” خبیث عورتیں خبیث مردوں کیلئے ہوتی ہیں اور خبیث مرد خبیث عورتوں کیلئے ہوتے ہیں”۔ رنڈوے گمراہ مولانا قاسمی کو اپنی عورتوں کیلئے ہی رکھ لینا قرین قیاس ہوسکتا تھا۔
جن کو اپنی حرامکاری کی پرواہ نہیں ہوتی تو وہ دوسروں پر فتوے لگانے میں شرم محسوس نہیں کرتے۔ مولانا یوسف لدھیانوی نے کہا کہ” مفتی جمیل نے لکھ کر میری طرف خط منسوب کیا، یہ خباثت مفتی رشیدلدھیانوی کی ہے”۔ حاجی عثمان کی قبر پر اپنی بیٹیوں اور دامادوں کیساتھ گئے تو کیا ان پریہ فتویٰ لگتا ہے؟۔
جنرل قمر جاوید باجوہ پر قادیانیت کی تہمت لگی ۔ اوریا مقبول جان اور علامہ زاہدالراشدی نے کہا کہ وہ قادیانی نہیں۔ پھر پتہ چلاکہ سسر اور بیگم قادیانی ہے۔ اسلئے وہ خود قادیانی کو کافر قرار دینے کی وضاحت نہیں کرتا۔جنرل ضیاء الحق نے ڈاکٹر عبدالسلام سے کہا تھا کہ ”تم ہم سے بہتر مسلمان ہو”۔ مفتی عبدالرحیم کی جنرل باجوہ سے ملاقات رہتی تھی ۔ مفتی رشیداحمد لدھیانوی کی ماں جنرل قمر باجوہ کی نانی کی سگی بہن تھی۔ سوال یہ ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی اولاد پر مفتی عبدالرحیم عمر بھر کی حرام کاری اور اولاد الزناکا فتویٰ لگائے گا؟ اور مفتی تقی عثمانی تصدیق کریگا؟۔ جنرل ضیاء الحق کے بیٹے ڈاکٹر انوارالحق کا نکاح مشہور قادیانی مبلغ جنرل رحیم الدین کی بیٹی سے مفتی تقی عثمانی نے ڈاکٹر عبدالحی سے پڑھوایا۔ جنرل قمر کے بچوں، جنرل ضیاء کے پوتوں پر کونساحکم لگتا ہے ؟۔ مفتی عبدالرحیم شیخ الحدیث مولانانذیرکا چہیتاتھا، پیسہ لیتااور خدمت کرتا۔ شیخ نذیرکاطلبہ سے جنسی سکینڈل بدنام زمانہ مفتی عزیز الرحمن سے بھی زیادہ بدنام تھا۔ اسرائیل وامریکہ کے ایجنٹ یہی علماء ہیں ۔جرائم پیشہ دہشتگردی کے اڈے چلانے والوں سے ہم سوال کی جرأت نہیں کرسکتے؟۔ جنرل قمر باجوہ کا مفتی عبدالرحیم کی بیگم سے یارانہ تھا؟ ۔کہ اولاد الزنا کا فتویٰ نہیں لگاتا؟ اور مفتی عثمانی کے گھرانہ سے جنرل ضیاء کا کیا ناجائزتعلق تھا کہ قادیانی بہو سے نکاح پڑھانے گیاتھا؟۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

حضرت حاجی محمد عثمان ایک عہد ساز شخصیت اور علماء سوء اور مفتیانِ خران کا بڑابدترین کردار!

حضرت حاجی محمد عثمان ایک عہد ساز شخصیت اور علماء سوء اور مفتیانِ خران کا بڑابدترین کردار!

تبلیغی جماعت کے بانی مولانا محمد الیاس کے صاحبزادے مولانا محمد یوسف نے حاجی محمد عثمان کیلئے یہ رعایت رکھی تھی کہ6نمبروں کے علاوہ جس موضوع پر بھی بیان کرنا چاہیں کرسکتے ہیں۔ حضرت حاجی محمد عثمان ایک بہت بڑے اللہ والے تھے۔ جب حضرت مولانا یوسف کے بعد تبلیغی جماعت کے اندر اکابرین اور عوام کے درمیان فاصلہ پیدا ہونا شروع ہوا تو آپ نے ان کو مشورہ دیا تھا کہ اس طرح اکابرین کی اصلاح بھی نہیں ہوگی۔ تبلیغی جماعت میں پیران طریقت اور علماء کرام کے علاوہ بڑے پیمانے پر دنیا دار اور بڑے لوگ آتے ہیں اور اپنے بستر کو خود اٹھاکر وقت لگاتے ہیں۔ اپنے ہاتھوں سے برتن دھوتے ہیں۔ کھانے پکاتے ہیں اور عوام کی خدمت کرتے ہیں، جس سے ان کی اصلاح ہوجاتی ہے ۔ اگر کچھ اکابر بن کر بیٹھ جائیں اور ان کا مخصوص کھانا پینا ہو ، جماعتوں میں وقت نہ لگائیں اور طبقاتی بیماری میں مبتلا ہوجائیں تو ان کی اصلاح کون کرے گا؟۔
حاجی محمد عثمان نے35سال مسلسل تبلیغی جماعت میں لگائے ، جس میں چلے سہ روزوں کے علاوہ محلے اور بیرون محلے کی گشت اور روزانہ کی تعلیم شامل تھی۔ جب تبلیغی جماعت میں فضائل درود شریف کو اپنے نصاب سے نکال دیا تو حاجی صاحب نے اس کو ہفتہ وار معمول بنادیا۔ حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا نے یہ خواب اپنی آپ بیتی میں لکھا ہے کہ رسول اللہ ۖ نے خواب میں فرمایا کہ شیخ زکریا فضائل درود کی وجہ سے اپنے معاصرین میں سبقت لے گئے ہیں۔ سعودی عرب کے شیوخ کی وجہ سے تبلیغی جماعت نے فضائل درود کو اپنے نصاب سے نکال دیا تھا لیکن پھر بھی وہ پابندی سے نہیں بچ سکیں ہیں۔ اکابرین نے شروع میں حاجی محمد عثمان پر بہت زور ڈالا کہ ہمارے طبقے میں شامل ہوجائیں ، اچھے کھانوں کے عیش اڑائیں اور خود کو عوام کی طرح مشکلات میں نہ ڈالیں۔ لیکن یہ مرد کا بچہ اپنی حق بات اور اپنے عمل صالح پر ڈٹا رہا۔ جب منبر پر تقریر کرتے تو وہ اکابرین کے بھی پیر طریقت لگتے تھے۔ لیکن جب وہ اکابرین کے بیانات سنتے تھے تو عوام کے ساتھ عام مجمع میں بیٹھ جاتے۔ یہ روش اکابرین کو پسند نہیں تھی اور اس کی وجہ سے انکے خلاف طرح طرح کے پروپیگنڈے اندرون خانہ کرتے ۔ سب سے زیادہ مؤثر پروپیگنڈہ یہ تھا کہ حاجی عثمان کی وجہ سے جماعت شخصیت پرستی کا شکار ہورہی ہے۔ حضرت حاجی عثمان نے اپنے مریدوں میں ایک تقریر کی اور اس میں تبلیغی جماعت والوں کو بھی آنے کی اجازت دی۔ خانقاہ کا بیان صرف مریدوں کیلئے ہوتا تھا اور کبھی کبھار علماء کرام بھی اس میں تشریف لاتے تھے۔ تبلیغی جماعت کراچی کے پرانے مرکز مکی مسجد میں جمعرات کے اجتماع میں اعلان کروایا کہ اس مرتبہ اتوار کو حاجی عثمان خانقاہ میں بیان کریں گے تو اس میں تبلیغی جماعت کے افراد بھی شرکت کرسکتے ہیں۔ اس بیان میں شخصیت موضوع تھا۔ حاجی صاحب نے فرمایا کہ جماعت کا مقصد بھیڑ اکھٹا کرنا نہیں ہوتا ہے بلکہ شخصیات بنانا ہوتا ہے۔ رسول اللہ ۖ نے صحابہ کرام میں شخصیات بنائی تھیں۔ پھر یہ بیان شیخ الحدیث مولانا زکریا کے پاس بھی آڈیو ریکارڈ کی شکل میں بھیج دیا تھا۔ مولانا زکریا نے تبلیغی جماعت کے سارے اکابر کو بلاکر یہ بیان سنایا تھا اور ان سے کہا تھا کہ حاجی صاحب کی بات100فیصد درست ہے اپنا رجحان بدلو۔ حاجی صاحب مکی مسجد میں بھی عوام کے ساتھ بیٹھتے تھے اور اجتماعات میں بھی عوام کے ساتھ بیٹھتے تھے۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے دورہ حدیث کا ایک طالب علم مولانا نور زمان ٹانک ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھتا تھا۔ اس نے بتایا کہ لاکھوں کے مجمع میں جب بہت دور سے حاجی عثمان کے اوپر نظر پڑی تو میں نے پوچھا کہ یہ کون شخصیت ہیں؟۔ مجھے بتایا گیا کہ یہ حاجی عثمان صاحب ہیں۔
جب خانقاہ آتے جاتے وقت کبھی راستے میں ٹریفک کی وجہ سے راستے میں نماز پڑھنے کیلئے مسجد میں جاتے تو لوگ جانتے نہیں تھے لیکن نمازی لائن بناکر ان سے مصافحہ کرتے۔ دار العلوم دیوبند کے بہت سے فاضل آپکے مرید تھے۔ جن میں مفتی محمد تقی عثمانی ومفتی محمد رفیع عثمانی کے اُستاذ مولانا عبدالحق صاحب بھی تھے اور دار العلوم کراچی کے مولانا اشفاق احمد قاسمی بھی تھے۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے اُستاذ حدیث مولانا فضل محمد بھی آپ کے مرید و خلیفہ تھے۔
آپ کو سعودی حکومت کی طرف سے اعزازی اقامہ بھی ملا ہوا تھا۔ مدینہ اور مکہ میں آپ کی وجہ سے تبلیغی جماعت کا کام بہت پھیلا۔ کراچی میں زیادہ لوگ آپ ہی کی وجہ سے تبلیغی جماعت میں شامل ہوئے تھے۔ تبلیغی جماعت کے امیر بھائی امین اور ان کے صاحبزادے مفتی شاہد اور مفتی زبیربھی آپ کے عقیدتمند تھے۔ سعودی عرب اور شام کے عربی بھی آپ کے مرید تھے۔3مرید ابراہیم ، جاوید اور طیب نے آپ سے دعا لیکر کاروبار شروع کیا تو اس میں بہت برکت ہوئی۔ کچھ لوگوں نے شمولیت کی درخواست کی تو آپ نے علماء و مفتیان کی رہنمائی میں شریعت کے مطابق کاروبار کی اجازت دی۔ شروع میں اس کا نامTJابراہیم تھا۔ پھر تبلیغی جماعت نے اشتہار دیا کہ ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں اور جب حاجی صاحب نے اشتہار دیکھا تو ان کو کمپنی ختم کرنے کا حکم دیا۔ جس پر انہوں نے کمپنی ختم کرنے کے بجائے الائنس موٹر کے نام سے کام جاری رکھا۔ مفتی تقی عثمانی و دیگر علماء و مفتیان نے بھی کمپنی میں اپنا اور دوسروں کا سرمایہ لگایا ہوا تھا۔ کمپنی کا اصول یہ تھا کہ60فیصد منافع کمپنی کا اور40فیصد سرمایہ کار کا۔ ایجنٹ کے توسط سے سرمایہ لگانے والے2فیصد ایجنٹ کو دیتے تھے۔ مفتی تقی اور دوسرے علماء و مفتیان باقاعدہ ایجنٹ بنے ہوئے تھے۔ مفتی تقی اورمفتی رشید کی طرف سے باقاعدہ رائیونڈ کے تبلیغی اکابرین کے خلاف فتویٰ جاری کیا گیا جس کا مقصد حاجی محمد عثمان کے مشن اور مریدوں کا دفاع تھا۔
جب حاجی عثمان نے اعلان کیا کہ جن مریدوں نے کوئی مشاہدات دیکھے ہیں تو وہ اپنے مشاہدات بیان کریں۔ ہزاروں کے مجمع میں سے اکثریت ان کی تھی جو مشاہدات بیان کرنے کیلئے ایک سائڈ پر ہوگئے۔ میں وہ شخص تھا کہ جب کسی نے بھی کوئی مشاہدہ نہیں دیکھا تھا تو میں نے دیکھا تھا۔ وہ بھی جامعہ بنوری ٹاؤن کے سال اول میں۔ اور غالباً کچھ طلباء کو ان کے اصرار پر اپنا مشاہدہ بتایا ۔ میں نے مشاہدے کے دوران بھی مشاہدے کو دیکھنا منع کردیا تھا کہ میرے لئے لا الہ الااللہ کا پڑھنا کافی ہے۔ میں مشاہدات والوں کے ساتھ نہیں بیٹھا تھا۔
ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے مشاہدات بیان کرنا شروع کئے تو آخر کار صرف ان لوگوں کو مشاہدات بیان کرنے کی اجازت دی گئی جن کے پاس علم کی سند ہو یا تبلیغی جماعت میں چار ماہ لگائے ہوں یا پھر حضرت کے خلیفہ ہوں۔ کئی دنوں تک مشاہدات کا سلسلہ جاری رہا لیکن مشاہدات ختم نہیں ہورہے تھے۔ پھر یہ سلسلہ بند کردیا گیا۔ لیکن حاجی عثمان صاحب نے بتایا تھا کہ ایک آزمائش آنے والی ہے جس میں لوگ تین اقسام پر تقسیم ہوجائیں گے۔ ایک دنیا دار وہ نکل جائیں گے۔ دوسرے آخرت والے اور تیسرے اللہ والے۔ دنیا دارکھدڑے ہیں ، آخرت والے عورتوں کی طرح ہیں اور اللہ والے مرد ِ میدان ہیں۔
پھر اچانک حاجی صاحب کے بارے میں اعلان ہوا کہ بہت سخت شوگر ہے اور جو کوئی کسی اور جگہ پر بیعت ہونا چاہتا ہے تو اس کو حضرت نے اجازت دی ہے۔ کچھ عرصہ بعد پتہ چلا کہ حاجی صاحب کو قید کیا گیا ہے۔ جب ان کو گھر سے رہا کرکے خانقاہ لایا گیا تو الائنس موٹر والے دار العلوم کراچی پہنچے۔ دار العلوم کی طرف سے الاستفتاء کے نام سے ایک سوالات اور انکے جوابات کا فتویٰ مرتب کیا گیا۔ اللہ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ ”سود کھانے والے ایسے اٹھیں گے جیسا کہ جنات کی طرف سے بدحواس کئے ہوئے افراد اٹھتے ہیں”۔ مفتی تقی عثمانی کا یہ کارنامہ تھا کہ جنرل ضیاء الحق نے جب زکوٰة کے نام پر سود کی رقم کاٹنی شروع کی اور مفتی محمود سمیت تمام علماء کرام و مفتیان عظام نے اس کی مخالفت کی تو مفتی تقی عثمانی و مفتی رفیع عثمانی نے اس سُودی رقم کو ہتھیانے کیلئے فتویٰ دے دیا۔ یہ سُودی رقم الائنس موٹر میں بھی لگائی گئی جہاں پر حرام کا مال لینا ممنوع تھا۔ لیکن ان علماء پر اعتبار کرکے یہ مال لیا گیا۔ یہی وجہ تھی کہ کمپنی پر کتیا کی طرح مستی چڑھ گئی اور اس کے پیچھے کتوں کے ریلے لگ گئے۔ شرافت کی دھجیاں بکھیر دی گئیں۔
بدحواس اور خرمست دار العلوم کراچی کے مفتیوں نے پہلا سوال یہ لکھ دیا کہ کیا فرماتے ہیں علماء شرع مبین اس پیر کے بارے میں جس کے خلیفہ اول کا کہنا ہے کہ مجھے حاجی عثمان بار بار مجبور کرتے تھے کہ تم نبی ۖ کو دیکھتے ہو یا نہیں؟۔
کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی پیر اپنے مرید سے کہے کہ میں نبی ۖ کو خود نہیں دیکھ سکتا لیکن تم زبردستی سے ڈنڈے کے زور پر دیکھتے ہو یا نہیں؟۔ حالانکہ اس کا پیر بہت ضعیف العمر اور کمزور ہو اور خلیفہ جوان اور صحتمند ہو۔ یہ تو ممکن ہوتا ہے کہ اگر پیر کہتا کہ مجھے مشاہدہ ہوتا ہے اور آپ کو نہیں ہوتا لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ کہے کہ تم زبردستی سے دیکھتے ہو یا نہیں؟۔ یہ سُود خوری کا پہلا نتیجہ تھا جس نے جن کی طرح مفتی صاحبان کو بدحواس کرکے رکھا تھا۔ پھر ہمیں معلوم تھا کہ انہوں نے پیری مریدی کی الف ب کو بھی نہیں سمجھا ہے۔ جن لوگوں میں درس نظامی کی تعلیم سمجھنے کی صلاحیت نہ ہو وہ ایک ایسے شعبے کے بارے میں کیا جانتے ہیں جس کا ان سے دور دور کا بھی واسطہ نہ ہو؟۔ ہم نے حضرت شیخ عبد القادر جیلانی ، شاہ ولی اللہ ، شیخ الحدیث مولانا زکریا اور علامہ محمد یوسف بنوری کے حوالے سے مستند کتابوں کے کچھ واقعات نقل کئے جن میں ایک عبارت کا تعلق مولانا عبد الحق محدث دہلوی کی کتاب ”اخبار الاخیار” سے تھا۔ جس کا ترجمہ مولانا سبحان محمود نے کیا تھا ۔ جس نے عمر کے آخری حصے میں اپنا نام سحبان محمود کردیا تھا۔ اس میں لکھا تھا کہ جب حضرت شیخ عبد القادر جیلانی وعظ کرتے تھے تو تمام انبیاء کرام بھی تشریف فرما ہوتے اور نبی کریم ۖ بھی جلوہ افروز ہوتے تھے۔ دار العلوم کراچی سے اس کا ترجمہ ہوا تھا ۔ مفتی رشید احمد لدھیانوی نے اس پر فتویٰ لگایا تھا اور مولانا سلیم اللہ خان ، مفتی ولی حسن ٹونکی نے بھی دستخط کئے تھے۔ دار العلوم کی طرف سے اس پر دستخط کرنے سے انکار کیا گیا تو ان سے ہم نے کہا کہ آپ اس کی تائید کریں یا تردید کریں۔ لیکن انہوں نے دونوں سے انکار کردیا تھا۔ جب ہم نے عبارات کے حوالہ جات لکھے تو سب بہت پریشان ہوگئے لیکن حاجی محمد عثمان نے فتویٰ شائع کرنے سے منع کردیا۔ جمعیت علماء اسلام ف اور س دونوں کے علماء کرام اس وقت حاجی صاحب کی تائید کررہے تھے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا تھا کہ چھرا تمہارے ہاتھ میں ہے اگر ان بکروں کو ذبح کردو اور یہ ٹانگ ہلائیں تو ہم پکڑ لیں گے۔ جب کورٹ کی طرف سے ہتک عزت کا دعویٰ کرنے کا نوٹس بھیجا گیا تو مفتی تقی عثمانی نے ساری خدمت اپنے ذمے لی اور نوٹس کا یہ جواب دیا کہ ہم نے حاجی عثمان کے خلاف نام سے کوئی فتویٰ نہیں دیا ہے۔
پھر ایک شخص نے الگ الگ الفاظ سے فتویٰ طلب کیا جس کے جواب میں جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے علماء و مفتیان نے لکھا کہ ”نکاح بہرحال جائز ہے اور جو باتیں حاجی صاحب کی طرف منسوب کی جاتی ہیں اگر وہ ان میں نہیں ہیں تو فتویٰ بھی نہیں لگتا ہے”۔ مفتی رشید احمد لدھیانوی کے شاگردوں مفتی عبد الرحیم وغیرہ نے لکھا کہ نکاح جائز نہیں ہے۔ مفتی تقی عثمانی اور مفتی رفیع عثمانی سے یہ پوچھا گیا تھا کہ نکاح منعقد ہوجائے گا کہ نہیں ؟۔ جس کے جواب میں انہوں نے لکھا کہ نکاح منعقد ہوجائے گا۔ بہتر ہے کہ انکے حالات سے آگاہ کریں۔
پھر سوال جواب ایک قلم سے مفتی عبد الرحیم نے مرتب کئے اور اس میں لکھا کہ ”اس نکاح کا انجام کیا ہوگا عمر بھر کی حرامکاری اور اولاد الزنا”۔ اس پر مفتی تقی عثمانی و رفیع عثمانی نے نوٹس لکھا کہ ”نکاح جائز نہیں گو منعقد ہوجائے”۔
جس پر میں نے دارالعلوم کراچی کی مسجد میں نماز مغرب کے بعد ان کو چیلنج کیا تو وہ سارے بھاگ کر گھروں میں گھسے۔ میں نے ان سرمایہ داروں کے ایجنٹوں کے خلاف ان کی مسجد میں تقریر کی اور طلبہ نے حق زندہ باد کے نعرے لگائے۔
جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے علماء و مفتیان اور مولانا سلیم اللہ خان صاحب اس سازش پر پشیمان تھے ۔دار العلوم کراچی والوں کے ہاتھ میں استعمال ہونے کا افسوس کرتے تھے۔ مولانا عبد اللہ درخواستی کے نواسے مولانا انیس الرحمن درخواستی اس فتوے کے بعد حاجی عثمان صاحب سے بیعت ہوئے تھے۔ مولانا محمد مکی حجازی اور مولانا سیف الرحمن جامعہ صولتیہ مکہ مکرمہ والے بھی حاجی عثمان کی اس فتوے کے بعد بھی حمایت کرتے تھے۔ مولانا سلیم اللہ خان مسجد الٰہیہ بھی اس کے بعد تشریف لائے تھے۔MNAقاری گل رحمن سے بھی مولانا سلیم اللہ خان نے کہا تھا کہ علماء نے اس فتوے پر بہت پیسے کھائے ہیں۔ مولانا محمد یوسف لدھیانوی نے کہا تھا کہ امام مالک پر فتویٰ لگانے والوں کا کوئی نام و نشان نہیں ہے لیکن امام مالک کو دنیا جانتی ہے۔ اسی طرح تاریخ میں حاجی عثمان کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا اور ان پر فتویٰ لگانے والے مٹ جائیں گے۔
آج اللہ تعالیٰ نے ہم سے وہ کام لیا ہے جس کی وجہ سے دینی نصاب کی بھی بہت بڑے پیمانے پر اصلاح ہونے والی ہے۔ دوسری طرف مفتی تقی عثمانی نے عالمی سُودی نظام کو معاوضہ لے کر جائز قرار دیا ہے اور اپنے چہرے پر وہ کالک ملی ہے جس سے نہ صرف مفتی تقی عثمانی فرعون کی طرح یادگار بنارہے گا بلکہ اس کے وہ اسلاف بھی تاریخ میں از سر نو عوام کے نوٹس میں آجائیں گے جنہوں نے حیلہ سازی کے ذریعے سے ہمیشہ درباری بن کر علماء سوء کا کردار ادا کیا ہے۔ جب مفتی محمود کے بارے میں ان کی وفات کے بعد مشہور ہوا کہ ان کوپان میں زہر دے کر شہید کیا گیا ہے تو مجھے بڑا تعجب ہوا کہ مفتی تقی عثمانی نے اپنی تحریر میں لکھ دیا تھا کہ ہم دونوں بھائیوں کو مفتی محمود نے زکوٰة کے مسئلے پر جامعہ بنوری ٹاؤن بلایا تھا اور چائے کی پیشکش کی تو ہم نے کہا کہ دن میں ایک مرتبہ سے زیادہ ہم چائے نہیں پیتے۔ جس پر مفتی محمود نے کہا کہ میں خود زیادہ چائے پیتا ہوں لیکن جو نہیں پیتا تو میں اس کو پسند کرتا ہوں۔ ہم نے پان کا بٹوا دکھایا کہ ہمارے ساتھ یہ علت لگی ہوئی ہے۔ جس پر مفتی محمود نے فرمایا کہ یہ تو چائے سے بھی زیادہ بدتر ہے۔ پھر معمول کی گفتگو لکھی اوریہ تحریر پڑھنے کے بعد مجھے لگا کہ کتنا بڑا جھوٹ گھڑا گیا ہے۔ اس تحریر سے پتہ چلتا ہے کہ مفتی محمود کو پان کھلانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پھر جب اقراء ڈائجسٹ کا” بنوری و محمود نمبر” چھپا تو اس میں مفتی تقی عثمانی کی یہ تحریر بھی تھی جو البلاغ میں شائع ہوئی تھی ۔مولانا یوسف لدھیانوی کی تحریر بھی تھی جو بینات میں شائع ہوئی تھی۔ مولانا لدھیانوی نے یہ بھی لکھا تھا کہ” پھر مفتی تقی عثمانی نے اصرار کرکے مفتی محمود کو پان کھلایا اور جب تھوڑی دیر کے بعد ان پر دورہ پڑا تو مفتی رفیع عثمانی نے ان کے حلق میں دورہ قلب کی خصوصی گولی ڈال دی ”۔ اس پر ہم نے اپنی کتابوں اور اخبار میں معاملہ اٹھایا تو مولانا یوسف لدھیانوی نے بتایا کہ مجھے مفتی تقی عثمانی نے ڈانٹ پلائی ہے کہ اس کے لکھنے کی کیا ضرورت تھی؟۔ اب بدحواسی میں مفتی تقی عثمانی نے ایک آڈیو بیان جاری کیا کہ مفتی محمود سے میری بے تکلفی تھی اور وہ مجھے کہتے تھے کہ بھیا اپنا پان ذرا کھلائیے ۔ انشاء اللہ وہ وقت آئے گا کہ مفتی تقی عثمانی سے جھوٹ اور فتوؤں کا حساب مانگا جائیگا۔ انقلاب آئیگا اور سربستہ راز کھلیں گے۔ عتیق گیلانی

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

احادیث صحیحہ اور صحابہ کرام اور ائمہ مجتہدین کے اقوال کی درست تعبیر اور طلاق کابڑا مسئلہ حل

احادیث صحیحہ اور صحابہ کرام اور ائمہ مجتہدین کے اقوال کی درست تعبیر اور طلاق کابڑا مسئلہ حل

امام ابوحنیفہ کے مسلک کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کو پہلا نمبر حاصل ہے۔پھر احادیث صحیحہ کو دوسرا نمبر حاصل ہے۔ پھر تیسرا نمبر اجماع اور چوتھا قیاس ہے۔
طلاق کے مسئلے کو قرآنی آیات کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس کا خلاصہ یہ نکلتا ہے کہ ” طلاق کے بعد رجوع کیلئے بنیادی شرط اصلاح، صلح ، معروف طریقے سے رجوع ہے،جب بیوی راضی نہ ہو تو کسی صورت میں رجوع نہیں ہوسکتا”۔
حضرت عمر نے یقینی طور پر قرآن کی اس عام فہم اور بنیادی اصول کو سامنے رکھ کر اس وقت ایک ساتھ تین طلاق پر شوہر کو رجوع سے محروم کردیا کہ جب اس کی بیوی راضی نہیں تھی۔ یہ قرآن کے عین مطابق تھا۔ اس پر تین طرح کے لوگ سامنے آئے۔ ایک وہ تھے جنہوں نے حضرت عمر کی زبردست تائید کردی تھی۔ دوسرے وہ تھے جو حضرت عمر کے اس فیصلے کو قرآن کے منافی قرار دیتے تھے۔ تیسرے وہ تھے جنہوں نے حضرت عمر کے اس فیصلے کو اجتہادی غلطی قرار دیا تھا۔
جنہوں نے حضرت عمر کے اس فیصلے کو قرآن کے عین مطابق قرار دیا تھا وہ صحابہ کرام، تابعین اور ائمہ مجتہدین تھے۔ ائمہ مجتہدین میں پھر دو طبقے بن گئے۔ ایک حنفی ومالکی اور دوسرے شافعی۔ جبکہ حنبلی دونوں طرف موجود تھے۔مالکی اور حنفی مسلک یہ بن گیا کہ ” ایک ساتھ تین طلاق دینا بدعت اور گناہ ہے”۔ شافعی مسلک نے کہا کہ ” ایک ساتھ تین طلاق دینا سنت اور مباح ہے”۔ احادیث کی کتب کے پورے ذخیرے میں صرف ایک حدیث حنفی ومالکی مسلک کی دلیل تھی کہ ”محمود بن لبید نے کہا کہ ایک شخص کے متعلق نبی ۖ کو خبر دی کہ فلاں نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دی ہیں۔ جس پر نبی ۖ غضبناک ہوئے اور کھڑے ہوکر فرمایا کہ میں تمہارے اندر موجود ہوں اور تم اللہ کی کتاب سے کھیل رہے ہو۔ ایک شخص نے کہا کہ کیا میں اس کو قتل نہ کردوں”۔ جبکہ شافعی مسلک کی دلیل یہ حدیث ہے کہ ”جب عویمر عجلانی نے اپنے بیوی کیساتھ لعان کیا تو ایک ساتھ تین طلاق دے دیئے”۔ دونوں احادیث سے دلیل جمہور نے یہ لی ہے کہ ”ایک ساتھ تین طلاق دینے سے تین واقع ہوجاتی ہیںاور اگر نہیں ہوتیں تو پھر نبیۖ کیوں غضبناک ہوتے یا عویمرعجلانی کی تردید کیوں نہیں فرمائی ؟۔
اہل تشیع کے نزدیک جب تک دو گواہ کی موجودگی میں طلاق نہ دی جائے تو طلاق نہیں ہوتی ہے اور حضرت عمر کا یہ فعل قرآن وسنت کے منافی ہے۔جبکہ اہل حدیث کے نزدیک حضرت عمر کی یہ اجتہادی غلطی ہے ۔ اکٹھی تین طلاق ایک ہی شمار ہوتی ہے اور حضرت ابن عباس کی روایت سے یہ بالکل واضح ہے۔
اگر ہم یہ مان لیتے ہیں کہ ایک ساتھ تین طلاق ایک طلاق رجعی ہے تو اس سے نکلنے والے مسائل قرآن وسنت کے بالکل منافی ہوںگے اسلئے کہ شوہر ایک ساتھ تین طلاق دے گا اور بیوی راضی نہیں ہوگی لیکن پھر بھی شوہر کو رجوع کا حق حاصل ہوگا۔ تین طلاق تو بڑی بات ہے ،اگر ایک طلاق دینے کے بعد بھی بیوی رجوع پر راضی نہیں ہے تو شوہر رجوع نہیں کرسکتا ہے۔ یہ قرآن وسنت کا واضح حکم ہے۔ بیوی کی رضامندی ، اصلاح، صلح اور معروف کی شرط کو نکال کر ہم نے دین کا بیڑہ غرق کردیا ہے۔ اگر بیوی کی رضامندی کے بغیر شوہر کو رجوع کا حق دیا جائے تو شوہر طلاق دے گا اور عدت کے آخر میں رجوع کرلے گا اور دوبارہ طلاق دے گا اور عدت کے آخر میں رجوع کرلے گا۔ سہ بارہ طلاق دے گا تو عورت کو ایک نہیں تین عدتیں گزارنے پر مجبور کیا جاسکے گا؟۔ شوہر کہے گا کہ میں نے طلاق دی ہے اور پھر کہے گا کہ میں نے مذاق کیا تھا۔ اگر مذاق تسلیم نہ ہو تو پھر اس کو طلاق رجعی قرار دیا جائے گا؟۔ ایک اور تین طلاق کی بحث ہی فضول ہے۔ ایک دی ہو یا تین طلاق لیکن اصل مسئلہ باہمی اصلاح سے رجوع کا ہے۔ عورت راضی نہ ہو تو پھر ایک طلاق سے بھی رجوع نہیں ہوسکتا اور تین طلاق سے بھی رجوع نہیں ہوسکتا ہے اور عورت راضی ہو تو ایک طلاق پر بھی رجوع ہے اور تین طلاق پر بھی رجوع ہے۔ حضرت عمر نے قرآن کے مطابق فیصلہ دیا تھا۔
علامہ ابن تیمیہ کے شاگرد علامہ ابن قیم کی کتاب ” زادالمعاد ” میں بیوی کو حرام کہنے کے لفظ پر20الگ الگ اجتہادی مسائل ہیں۔ صحیح بخاری میں ہے کہ ”امام حسن بصری نے کہااگر بیوی کو حرام کہہ دیا تو بعض علماء کے نزدیک یہ تیسری طلاق ہے۔ جس کے بعد جب تک عورت دوسری جگہ نکاح نہیں کرے گی تو اس کو پہلے کیلئے حرام قرار دیا جائے گا”۔ ایک روایت چھوڑ کر اگلی روایت میں ہے کہ ابن عباس نے فرمایا کہ ” بیوی کو حرام قرار دینے سے کچھ بھی نہیں ہوتا ہے اور یہ سیرت رسول ۖ کا تقاضہ ہے کہ اس میں نہ طلاق ہے اور نہ کفارہ ہے”۔
خلفاء راشدین کے اجتہادات کی کتاب میں لکھا ہے کہ ” بیوی کو حرام کہنا حضرت عمر کے نزدیک ایک طلاق ہے اور حضرت علی کے نزدیک تین طلاق اور حضرت عثمان کے نزدیک ظہار ہے”۔ یہ سعودی عرب سے عربی میں چھپی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت علی کی طرف حرام سے تیسری طلاق یا تین طلاق کی نسبت کیوں کی گئی ہے؟ جواب یہ ہے کہ حضرت علی نے معلوم کیا ہوگا اور جب پتہ چلا ہوگا کہ بیوی راضی نہیں ہے تو فتویٰ دیا ہوگا کہ رجوع نہیں ہوسکتا ہے اور اس کو کسی نے تین طلاق اور کسی نے تیسری طلاق قرار دے دیا ہوگا۔
حضرت عمر سے پوچھا گیا کہ حرام کے لفظ کے بعد رجوع کی اجازت ہے تو معلوم کیا کہ بیوی راضی ہے؟ تو رجوع کا فتویٰ دیا ہوگا اور اس کو ایک طلاق سے تعبیر کیا ہوگا۔ قرآن کی سورۂ تحریم میںہے کہ نبی ۖ نے اپنے اوپر ماریہ قبطیہ کو حرام کیا تھا لیکن کیا صحابہ کرام نے اتنی بڑی سورت کی طرف توجہ نہیں دی؟۔
جب یہ صحابہ کرام کی طرف منسوب ہے کہ حرام کے لفظ سے تین طلاق بھی واقع ہوتی ہیں اور ایک بھی تو پھر یہ بحث فضول بن جاتی ہے کہ ایک اور تین طلاق پر امت مسلمہ کے اندر فضول قسم کے نصاب اور مسائل پڑھائے جائیں۔ مجھے اتنا عرصہ ہوگیا کہ یہ مسائل بیان کررہا ہوں۔ دیوبندی ، بریلوی ، اہلحدیث اور اہل تشیع نے کھلے دل سے میری حمایت کی ہے لیکن مدارس کے وڈیروں نے اس پر چپ کی سادھ لی ہے اور امت مسلمہ کو گرداب سے نکالنا ان کے مفادات کے خلاف ہے یا نہیںمگر ان کو اپنی اجارہ داری کے جانے کا خوف دامن گیر ہے۔
جس شخص کے بارے میں نبیۖ کو خبر دی گئی کہ اس نے ایک ساتھ تین طلاقیں دی ہیں تو وہ حضرت عبداللہ بن عمر تھے۔ جس نے قتل کی پیشکش کی تھی تو وہ حضرت عمر تھے۔ محمود بن لبید کی روایت سے زیادہ مضبوط روایت صحیح مسلم کی ہے جس میں یہ واضح ہے کہ ابن عمر نے ایک ساتھ تین طلاقیں دی تھیں اور اس سے زیادہ مضبوط صحیح بخاری کی ہے جس میں نبیۖ نے غضبناک ہونے کے باوجود حضرت ابن عمر سے رجوع کا ارشاد فرمایا اور عدت و طلاق کا طریقہ بھی سکھادیا تھا۔ عدت کے تین ادوار اور تین مرتبہ طلاق ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتے ہیں لیکن کم عقل مذہبی طبقات نے جس طرح طلاق کے انتہائی احمقانہ مسائل کتابوں میں درج کئے ہیں ، اگر عوام کی نظروں میں آگئے تو علماء ومفتیان کو منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی اور دریائے مردار میں غرق ہونا پڑے گا۔
میں صالحین علماء ومشائخ کی بات نہیں کرتا جیسے موجودہ دور میں تقی عثمانی کی موجودگی میں علماء حق اور صالحین دبا دئیے گئے یہ ہردور میں چلتا آیا ہے اور اب خدا کرے کہ یہ شیخ الاسلام اس حیلہ ساز اور اسلام دشمن علماء سوء کی آخری کڑی ہو اور امت مسلمہ ان حیلہ سازوں اور قرآن وسنت کے مجرموں سے بچ جائے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

حنفی مسلک کے اصول فقہ میں مروجہ حلالے کی زبردست مخالفت اور مفتیوںکی ہٹ دھرمی

حنفی مسلک کے اصول فقہ میں مروجہ حلالے کی زبردست مخالفت اور مفتیوںکی ہٹ دھرمی

ملاجیون کی کتاب”نورالانوار ” بریلوی دیوبندی نصاب میں شامل ہے۔ مجھے بھی جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی اور وفاق المدارس العربیہ پاکستان سے اس کی سند ملی ہے۔ مفتی محمدتقی عثمانی شیخ الاسلام اور مفتی محمد رفیع عثمانی مفتی اعظم کو بھی مولانا بدیع الزمان نے یہ کتاب پڑھائی ہے اور مجھے بھی اس کا شرف ملا ہے لیکن جب مفتی محمد شفیع اور ان کے صاحبزدگان مفتی تقی ومفتی رفیع عثمانی نے اس کے بعد مفتی محمود، مولانا عبداللہ درخواستی، مولانا عبیداللہ انور اور دیگر جمعیت علماء اسلام کے علماء ومشائخ پر1970میں کفر کا فتویٰ لگادیا تھا تو مولانا بنوری کے رفقاء مولانا بدیع الزمانو دیگر اساتذہ نے اپنے نالائق شاگردوں کو عاق کیا تھا اور پھر1988میں جب حاجی محمد عثمان پر اس نالائق ، چالاک، عیار، کم بخت اور بے غیرت وبے ضمیر طبقے نے فتویٰ لگادیا تو بنوری ٹاؤن کراچی کے مجذوب اور مفاد پرست طبقے کو بھی ساتھ ملایا تھا۔ لیکن بنوری ٹاؤن کراچی سے پھر اسکے بعد بھی حاجی عثمان کے حق میں فتوی آیا تھا۔ جس پر مجذوب مفتی اعظم پاکستان کے بھی دستخط تھے۔ ہم نے قریب سے مجذوب ، مفاد پرست اور بزدل طبقے کے حالات دیکھے تھے اسلئے کسی کو حق کی خاطر آواز اٹھانے کی زحمت نہیں دیتے۔
نورالانوار میں ہے کہ البقرہ230فان طلقہا فلا تحل لہ ” اگر پھر اس نے طلاق تو اس کیلئے حلال نہیں ہے ” کا تعلق احناف کے نزدیک ”ف ”تعقیب بلامہلت کی وجہ سے آیت229کے آخر میں فدیہ کی صورت سے ہے کیونکہ اس کی دلیل عربی زباں کا عام قاعدہ کلیہ ہے کہ حرف ” ف” اپنے سے پہلے فاصلے کو قبول نہیں کرتا ہے ۔اسلئے اس طلاق کا تعلق آیت229کے شروع میں دومرتبہ طلاق سے نہیں ہوسکتا ہے۔ دو مرتبہ طلاق کے بعد تیسری طلاق سے پہلے عورت کی طرف سے فدیہ دینے کی صورت سے ہی اس تیسری طلاق کا تعلق ہے۔ جبکہ شافعی مسلک میں فدیہ کی صورت جملہ معترضہ ہے۔ دو مرتبہ طلاق کے بعد جب تیسری مرتبہ خلع دیا جائے تو خلع مستقل طلاق ہے اور تین طلاقوںکے بعد چوتھی طلاق کی گنجائش نہیں رہے گی اور پھر آیت230میں مذکور چوتھی طلا ق بنے گی۔
نورالانوار کا یہ سبق اتنا گنجلک ہے یا پھر علماء ومفتیان مسلک سازی میں اس قدر پاگل بن چکے ہیں کہ اتنی موٹی موٹی باتیں سمجھنے سے بھی قاصر ہیں کہ اللہ کی کتاب قرآن مبین میں اس طرح کے اختلافات کی کوئی گنجائش نہیں ۔ جب حنفی مسلک یہ ہے کہ حلالے کی طلاق کا تعلق فدیہ کی صورت سے ہے تو پھر اسکے بغیر حلالہ کی لعنت کا فتویٰ کیسے صادر کررہے ہیں؟۔ علامہ جاراللہ زمحشری نے تفسیر الکشاف میں لکھ دیا ہے کہ ” اس کا اطلاق دومرتبہ الگ الگ طلاق کی صورت ہی سے ہونا چاہیے”۔ علامہ ابن قیم نے بھی ”زادالمعاد ” میں عبداللہ بن عباس کی تفسیر کو نقل کیا ہے کہ ” قرآنی آیات کا تقاضہ یہی ہے کہ دو الگ الگ مرتبہ طلاق کے بعد فدیہ دینے کی صورت سے اس طلاق کو منسلک کیا جائے جس میں اسکے بعد حلال نہ ہونے کا حکم ہے”۔ان سب سے حنفی مؤقف کی تائید ہورہی ہے۔
علامہ غلام رسول سعیدی نے قرآن کی تفسیر تبیان القرآن اور صحیح مسلم اور صحیح بخاری کی شرحیں بھی لکھی ہیں اور مناظرے میں بھی کمال فن دکھایا ہے مگر یہ لکھ دیا ہے کہ ” اگر آیت230البقرہ میں فان طلقھا کی ف نہ ہوتی ، جس میں تعقیب بلامہلت ہے تو قرآن و حدیث سے الگ الگ مرتبہ طلاق کا حکم ثابت ہوتا”۔ حالانکہ نورالانوار میں بھی تعقیب بلامہلت کا ذکر اس تناظر میں ہرگز بھی نہیں ہے کہ اس سے قرآنی آیت الطلاق مرتٰن میں الگ الگ مرتبہ طلاق کا حکم منسوخ ہوجائے گا بلکہ مطلب ہے کہ اس کا تعلق ماقبل فدیہ دینے کی صورت سے ہے۔ انجینئر محمد علی مرزا کہتے ہیں کہ علامہ غلام رسول سعیدی اس کے استاذ ہیں۔ایک وہ شیخ زبیر علی زئی اہلحدیث سے تعلق رکھتے تھے ۔شیخ زبیر علی زئی کا مؤقف بھی ایک ساتھ تین طلاق کے بعد وہی تھاجو دیوبندی بریلوی علماء کا ہے۔انجینئر محمد علی مرزا کو میں نے بالمشافہہ معاملہ سمجھنانے کی کوشش کی تھی لیکن اس نے انکار کیا تھا اور سوال جواب کی گنجائش سے بالکل سختی سے منع کردیا تھا۔
بریلوی ، دیوبندی، اہل حدیث اور اہل تشیع کے جید علماء کرام سے گزارش ہے کہ طلاق کے مسئلے پر حنفی مسلک کے نقطۂ نظر کی طرف توجہ کریں۔ انشاء اللہ شرح صدر ہوگا کہ” وہی حنفی مسلک درست ہے جس سے حنفی مسلک کے کم عقل طبقے نے اپنی کم عقلی کی وجہ سے انحراف کیا ہے”۔ حنفی مسلک یہ ہے کہ اس طلاق کا تعلق فدیہ کی صورت سے ہے اور فدیہ کی صورت وہ ہے جس میں صلح کی گنجائش ہی نہیں رہتی ہے۔ قرآن کی جس آیت کو بھی بغور دیکھا جائے تو اس میں صلح کی گنجائش ہے اور صلح کی گنجائش کیساتھ اللہ نے بار بار رجوع کو واضح کیا ہے۔
آیت226البقرہ میں صلح کی شرط پر رجوع کی گنجائش واضح ہے۔ جب نبی ۖ نے ایلاء کیا تھا تواللہ نے عورتوں کو اختیار دینے کا حکم بھی واضح کیا تھا۔ آیت228البقرہ میں بھی عدت میں اصلاح کی شرط پر رجوع کی گنجائش ہے۔ آیت229البقرہ میں بھی معروف کی شرط کیساتھ رجوع کی گنجائش ہے۔ آیت231البقرہ میں بھی معروف کی شرط کیساتھ رجوع کی گنجائش ہے۔ آیت232البقرہ میں بھی معروف کی شرط کیساتھ رجوع کی گنجائش ہے۔ آیت2سورۂ طلاق میں بھی معروف کی شرط کیساتھ رجوع کی گنجائش ہے۔
قرآن کی طرف رجوع کیلئے شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے مالٹا کی جیل سے رہائی کے بعد اظہار کیا تھا لیکن موقع نہیں ملا اور مولانا عبیداللہ سندھی نے ان کے مشن پر عمل کیا۔ علامہ انور شاہ کشمیری نے بھی آخری دور میں فرمایا تھا کہ زندگی کو ضائع کردیا۔ اسلئے کہ قرآن وسنت کی کوئی خدمت نہیں کی اور فقہی مسالک میں اپنا وقت ضائع کردیا۔ مولانا محمد یوسف بنوری نے قرآن وسنت کی احیاء کیلئے اپنے مدرسہ کی بنیاد رکھ دی تھی۔ اسلام کا معاشی نظام آپ کے داماد مولانا طاسین نے پیش کیا اور اسلام کے معاشرتی نظام کی خدمت اللہ تعالیٰ بنوری ٹاؤن کے ایک طالبعلم کی حیثیت سے مجھ عتیق گیلانی سے لے گا انشاء اللہ تعالیٰ العزیز۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

بخاری کی روایت میں رفاعة القرظی کی سابقہ بیوی کے قصے سے غلط فتویٰ اور اس کا اِزالہ!

بخاری کی روایت میں رفاعة القرظی کی سابقہ بیوی کے قصے سے غلط فتویٰ اور اس کا اِزالہ!

صحیح بخاری میں ہے کہ رفاعة القرظی نے اپنی بیوی کو3طلاقیں دیں۔ پھر اس سے کسی اور شخص نے نکاح کیا ۔ پھر وہ عورت نبیۖ کے پاس آئی اور عرض کیا کہ دوسرے شخص کے پاس ایسا ہے ، دوپٹے کا پلو دکھایا۔ نبی ۖ نے فرمایا: کیا آپ رفاعہ کے پاس واپس جانا چاہتی ہو؟۔ آپ نہیں جاسکتی ہو جب تک دوسرے شوہر کا شہد (ذائقہ) نہ چکھ لو اور وہ تیرا نہ چکھ لے ۔ جیسے پہلے نے تیرا چکھ لیا اور تو نے اس کا چکھ لیا ہے۔
بخاری کی یہ روایت کو دیکھ کر عوام اور خواص سمجھتے ہیں کہ رفاعہ القرظی نے3طلاق دئیے اور پھر اس کی بیوی نے حلالہ کروایا۔ مباشرت سے پہلے وہ دوبارہ اپنے سابقہ شوہر کے پاس آنا چاہتی تھی تو اس پر نبیۖ نے اجازت نہیں دی کہ جب تک سابقہ شوہر کی طرح اس کا ذائقہ نہ چکھ لیا جائے تو حلالہ نہیں ہوا۔ جب بھی کوئی3طلاق دیتا ہے تو حنفی دیوبندی بریلوی علماء اس حدیث کا حوالہ دیتے ہیں اور ساتھ میں قرآنی آیات کی گردن مروڑ دیتے ہیں کہ اللہ نے فرمایا: الطلاق مرتٰن فامساک بمعروف او تسریح باحسان آیت229البقرہ” طلاق دو مرتبہ ہے ۔ پھر معروف طریقے سے روکنا ہے یا احسان کیساتھ چھوڑنا ہے”۔ یعنی طلاق رجعی دومرتبہ ہے جس طلاق کے بعد رجوع کی گنجائش ہے۔ اس کے بعد اللہ نے واضح فرمایا ہے فان طلقھا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجًا غیرہ آیت230البقرہ ”اور اگر پھر اس نے طلاق دیدی تو اس کیلئے حلال نہیں ہے یہاں تک کہ وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح کرلے”۔ پھر فقہی کتب سے بھی حوالے دئیے جاتے ہیں کہ” اگر غلام نے دو طلاقیں دیں توجب تک اس عورت سے کوئی دوسرا شوہر نکاح نہ کرلے تو وہ حلال نہیں ہوسکتی اور اگر لونڈی کو دو طلاقیں دی گئیں تو جب تک وہ کسی اور شوہر سے نکاح نہ کرلے تو وہ پہلے شوہر کیلئے حلال نہیں ہوسکتی ہے۔ جامعہ دارالعلوم کراچی کورنگی کی مہر اور دستخط ہوتے ہیں۔
کوئی ان بے شرم ، بے غیرت ، بے ضمیر ، بے حس ، بے عقل ، بے ایمان اور انسانیت سے عاری لوگوں سے نہیں پوچھتا کہ جب تم لونڈی و غلام کی دو طلاقوں پر بھی حلالہ کے فتوے جاری کرتے ہو تو پھر اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ تمہارا قرآن کے تین طلاق سے کوئی کام نہیں بلکہ حلالہ کی لعنت کے چکر میں پڑے ہو؟۔یہ جامعہ دارالعلوم کراچی کورنگی کے مفتیان حیلے اور حلالے کے چکر میں مذہب کی نوکری کررہے ہیں۔ جہاد اور خود کش کے فتوے دینے والے ان علماء ومفتیان اور ان کی آل اولاد نے کبھی اللہ کی راہ میں جہاد کیا ہے؟۔ جب ان کو تین طلاق کے بعد حلالے کی ضرورت پیش آتی تو اہلحدیث سے بغیر حلالے کا فتویٰ لیتے تھے۔
بخاری میں یہ واضح ہے کہ رفاعہ نے مرحلہ وار تین طلاقیں عدت کے حساب سے دی تھیں۔ عدت کے بعد اس نے عبدالرحمن بن زبیر القرظی سے نکاح کیا۔ جب اس عورت نے اپنے دوسرے شوہر پر نامردی کا الزام لگایا تو اس سے پہلے اس عورت نے حضرت عائشہ کے سامنے اپنے جسم پراس کے مارنے کے نشانات بھی دکھائے۔ حضرت عائشہ نے تصدیق کی کہ بہت سخت مار پڑی ہے۔ جبکہ صحیح بخاری میں یہ بھی واضح ہے کہ اس کا شوہر اپنے بچوں کو ساتھ لیکر آگیا اور اس نے نامردی کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ میں اس کی چمڑی ادھیڑ دیتا ہوں۔ بخاری کی ان روایات سے واضح ہوتا ہے کہ یہ کوئی مروجہ حلالے کی طرح مسئلہ نہ تھا بلکہ وہ عورت اپنے دوسرے شوہر سے جان چھڑانا چاہتی تھی اور ضروری نہیں تھا کہ پہلا شوہر اس کو قبول کرتا اسلئے کہ سوچ سمجھ کر وہ طلاق دے کر جان چھڑاچکا تھا۔ بخاری کی تمام روایات کو نظر انداز کرتے ہوئے فتویٰ دیناکہ ایک ساتھ تین طلاق دینے کے بعد حلالہ کرنا ضروری ہے ۔حالانکہ نامرد میں حلالہ کی صلاحیت نہیں ہوتی ہے تو نبیۖ کیسے اسی نامرد سے حلالہ کرنے پر مجبور کرسکتے تھے؟۔ کچھ تو خدا کا خوف بھی کرتے؟۔
ہم جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں پڑھتے تھے تو ہمارے استاذ مولانا بدیع الزمان تھے جو مفتی محمد تقی عثمانی کے بھی دارالعلوم کراچی نانک واڑہ میں استاذ تھے۔ جب ہمیں سبق دیا: حتی تنکح زوجًا غیرہ” یہاں تک کہ وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح کرلے” ۔ قرآن میں عورت نکاح کیلئے خود مختار ہے جبکہ خبر واحد کی حدیث صحیحہ ہے کہ ” جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اس کا نکاح باطل ہے ، باطل ہے ، باطل ہے”۔ قرآن کے مقابلے میں حنفی مسلک کے نزدیک اس حدیث پر عمل نہیں ہوسکتا ہے۔
میں نے عرض کیا کہ استاذ جی! حنفی مسلک کی پہلی ترجیح یہ ہے کہ قرآن وحدیث میں تطبیق کی جائے اور قرآن کی اس آیت میں طلاق شدہ عورت کا ذکر ہے اور شریعت میں طلاق شدہ اور کنواری کے احکام الگ الگ ہیں اسلئے حدیث کو آیت سے متضاد ٹھہرانے کی جگہ کنواری مراد لی جاسکتی ہے؟۔ مولانا بدیع الزمان کی نورانی پیشانی پر خوشی سے مزید نور کی جھلک نظر آئی اور فرمایا کہ آپ کی بات میں وزن ہے اور آئندہ کی تعلیم پر کوئی اچھی صورت نکالنے کی پوزیشن میں آسکتے ہیں۔ مولانا بدیع الزمان حاجی محمد عثمان پر فتوے لگانے کے بھی مخالف تھے اور میری طرف سے مزاحمت پر بہت خوش تھے اور فتوؤں کے بعد ان سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا تھا۔ مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید نے بھی فتوؤں کی مخالفت کی تھی اور حاجی محمد عثمان کی قبر پر اپنے داماد کیساتھ بھی گئے تھے۔ حالانکہ ان کی طرف بھی حاجی عثمان کے خلاف وہ جھوٹا فتویٰ منسوب کیا گیا تھا جس سے برأت کے اعلان میں انہوں نے اپنی معذروی اور مجبوری ظاہر کردی تھی۔ مولانا سلیم اللہ خان بھی حاجی عثمان کی وفات کے بعد مسجد الٰہیہ آئے تھے۔ مولانا سلیم اللہ خان نے لکھ دیا کہ ” بخاری کی حدیث خبر واحد ہے۔ احناف کے نزدیک اس کی وجہ سے نکاح پر مباشرت کا اضافہ نہیں ہوسکتا ”۔( کشف الباری)

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

سورۂ بقرہ کی آیت230کا مغالطہ اورسیاق وسباق کی آیات سے فیصلہ کن اِزالہ!

سورۂ بقرہ کی آیت230کا مغالطہ اورسیاق وسباق کی آیات سے فیصلہ کن اِزالہ!

اگر قرآنی آیات سورہ بقرہ224سے232تک کو غور وتدبر کرکے دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی جائے تو دلوں سے نہ صرف زنگ اتر جائے گا بلکہ قرآن کو حلالہ سمیت بہت ساری ان برائیوں کے خاتمے کا ذریعہ بھی سمجھا جائے گا جن میں دورِ جاہلیت کے اندر بھی لوگ مبتلاء تھے اور آج بھی بہت بری طرح اس کا شکار ہیں۔
حلالہ کی لعنت رسم جاہلیت کا مذہبی مسئلہ تھا جسے قرآن نے بالکل ختم کرکے رکھ دیا تھا اور حلالہ کے علاوہ بھی جاہلیت کے بہت سارے رسوم تھے جن سے قرآن نے آزادی دلائی تھی مگر آج پھر ان میں امت کو قرآن کے نام پر مبتلاء کیا گیا ہے۔ اس شمارے میں ایک ایک رسم کی پوری پوری تفصیل بیان کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ امید ہے کہ علماء کرام ، مفتیان عظام اور صلحاء امت اس طرف ضرور توجہ فرمائیں گے۔
جب میں نے جامعہ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی میں داخلہ لیاتو پڑھانے والے بعض علماء ومفتیان کی جہالت نے میرے سامنے رقص کیا۔ داخلہ سے پہلے مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید کے درس میں یہ مسئلہ سن لیا تو حیران ہوگیا کہ ” قرآن کا مصحف کتابی شکل میں اللہ کا کلام نہیں ہے اور اس پر حلف کا کوئی کفارہ نہیں ہے۔ البتہ یہ زبان سے کہا جائے کہ اللہ کے کلام کی قسم ! تو پھر اس کا کفارہ ادا کرنا پڑے گا”۔
جامعہ میں داخلہ لیا تو ہمارے اساتذہ مولانا عبدالقیوم چترالی اور مولانا عبدالمنان ناصر تھے اور دوسرے فریق (سیکشن) کو مفتی عبدالسمیع شہید پڑھاتے تھے۔ مفتی عبدالسمیع اپنے شاگردوں اور ہمارے فریق میں مقابلہ کراتے تھے۔ ایک دن سرِ راہ مجھ سے سوال کیا تو میں نے کہا کہ مجھے نہیں پتہ!۔ پھر میں نے سوال کیا تو انہوں نے درست جواب نہیں دیا۔ مکالمے کا سلسلہ آخر اس حد تک پہنچ گیا کہ انہوں نے کہا کہ قرآن کی کتابی شکل کو آپ اللہ کا کلام نہیں مانتے ؟۔ میں نے کہا کہ نہیں!۔ انہوں نے قرآن منگوایا ،بڑے مجمع میں پوچھا کہ ” یہ اللہ کا کلام ہے؟” ۔ میں نے کہا کہ ” نہیں!”۔ تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ کافر ہوگئے ہو!۔ میں نے کہا کہ مولانا یوسف لدھیانوی کے پاس چلتے ہیں ، ان سے میں نے یہی مسئلہ سنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”تم افغانی لوگ پڑھ کر آتے ہو اور مقصد پڑھنا نہیں بلکہ ہمیں ذلیل کرنا ہوتا ہے”۔ اور بہت برا بھلا کہا۔
اس سے مجھے پتہ چل گیا کہ عوام ہی دینی علوم سے جاہل نہیں ہیں بلکہ علماء کا بھی حال مختلف نہیں ہے۔ پھر اصول فقہ میں قرآن کی تعریف پڑھی کہ ”مصاحف میں مکتوب اللہ کا کلام نہیں ہے” جس پر تعجب نہیں ہوا لیکن جب شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کی کتاب میں دیکھا کہ ” علاج کیلئے سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا جائز ہے ” تو بہت پریشان ہوا۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی سے اس کے خلاف فتویٰ لیا اور دونوں مؤقف کو اخبار میں شائع کردیا۔ جب مفتی تقی عثمانی پر دباؤ پڑگیا تو اپنی دونوں کتابوں سے اس کو نکالنے کا اعلان کردیا اور یہ بھی لکھ دیا کہ ”یہ میرا فتویٰ نہیں، میں نے صرف نقل کیا ، میں اس کے جواز کا تصور بھی نہیں کرسکتاہوں”۔ تو یہ سوچنے پر مجبور ہوا کہ فتاویٰ شامیہ، فتاویٰ قاضی خان اور صاحب ہدایہ نے اپنی کتاب ” تجنیس” میں اس کو پھر کیوں نقل کیا ہے؟۔ پھر اس نتیجے پر پہنچ گیا کہ جو اصول فقہ میں قرآن کی تعریف ہے کہ” مصحف اللہ کی کتاب نہیں ہے” تو یہ یہی غلطی کی بنیاد ہے جس کو شیخ الاسلام سے شہیدالاسلام تک کسی نے بھی نہیں سمجھا ہے ۔ جب لکھائی کی شکل میں نعوذباللہ قرآن اللہ کا کلام نہیں ہے توپیشاب سے لکھنے میں پھر کیا حرج ہوسکتا ہے؟۔
آج بھی پڑھایا جاتا ہے کہ قرآن کا مصحف اللہ کی کتاب نہیں اور اس پر حلف نہیں ہوتا۔ جن کتابوں میں سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھناجائز ہے ان کو مستند مانا جاتا ہے اور علماء ومفتیان انتظار میں لیٹے ہوئے ہیں کہ جب امام مہدی علیہ السلام تشریف لائیں گے تو انکے چوتڑوں پر لاتیں مار مار کر ان کو گمراہی کی دلدل سے نکالیںگے۔اللہ نے قرآن میں فرمایاکہ: زانی اور زانیہ کو کھلے عام100،100کوڑے لگاؤ اور اس پر کچھ لوگوں کو گواہ بھی بنالو۔ جب تک حلالہ کی لعنت میں مبتلاء علماء ومفتیان کو100،100کوڑے سرعام لگانے کا تماشہ لوگوں کو نہیں دکھایا جائے گا تو انہوں نے اس حلالہ کی لعنت اور اس کی لذت آشنائی سے باز نہیں آنا۔
شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کو جب سودی بینکاری پرمعاوضہ اور مراعات مل رہے تھے تو سارے علماء اور مفتیان کے مشوروں ، نصیحتوں، فتوؤں ، وعیدوں اور ملامتوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینک کر ہٹ دھرمی کے مظاہرے پر زبردست طریقے سے ڈٹے رہے۔ جب حاجی محمد عثمان اور انکے معتقدین پر فتوے لگائے گئے تھے تو اس وقت ہم نے ان سب کی علمی اور ایمانی حیثیت کو اچھی طرح سے بھانپ لیا تھا کہ یہ کیا چیز ہیں؟۔
جب آیت224البقرہ میں لوگوں کے درمیان صلح نہ کرنے کیلئے اللہ کو بطور ڈھال استعمال کرنے سے منع فرمایا تو پھر آیت230میں میاں بیوی کے درمیان صلح کا راستہ روکنے کی تضاد بیانی کیسے کرسکتاہے؟۔
جب آیت225البقرہ میں واضح فرمایا کہ اللہ تمہیں لغو عہدوپیمان سے نہیں پکڑتا ہے مگر دل کی کمائی پر پکڑتا ہے تو یہ دلیل ہے کہ صلح کی راہ میں الفاظ کی بنیاد پر رکاوٹ ڈالنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
جب آیت226البقرہ میں طلاق کا اظہار کئے بغیر ناراضگی میں انتظار کی عدت4ماہ ہے جس میں صلح سے رجوع ہوسکتا ہے اور آیت227البقرہ میں ہے کہ ”اگر طلاق کا عزم تھا تو اللہ سننے جاننے والا ہے”۔ جس کا مطلب ہے کہ طلاق کا عزم ہی دل ہی کا گناہ ہے اسلئے کہ اس کا اظہار نہ کرنے کی وجہ سے عدت ایک ماہ بڑھ گئی ۔ اگر طلاق کا اظہار ہوتا تو پھر3ادوار یا3ماہ تک انتظار کرنا پڑتا جوآیت228البقرہ میں ہے۔
ان آیات226اور228البقرہ میں عدت کے اندر باہمی رضامندی سے4ماہ تک اور3اداوار یا3ماہ تک رجوع کی نہ صرف گنجائش ہے بلکہ یہ بھی واضح ہے کہ رجوع کا تعلق طلاق کے عدد سے نہیں بلکہ عدت سے ہے۔ یہ قاعدہ اور کلیہ کسی ان پڑھ ، کم عقل اور انتہائی ضدی شخص کے سامنے رکھاجائے تو بھی یہ وضاحت سمجھ میں آتی ہے کہ صلح کی شرط پر اللہ نے رجوع کا راستہ نہیں روکا ہے اور صلح کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔
آیت229البقرہ میں 3مرتبہ مرحلہ وار طلاق کے بعداس صورتحال کا ذکر ہے کہ جب میاں بیوی اور فیصلہ کرنے والے یہ طے کرلیں کہ آئندہ صلح کیلئے رابطہ کی کوئی ادنیٰ صورت بھی نہیں چھوڑنی ہے تو پھر یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ صلح کی صورت میں رجوع ہوسکتا ہے یا نہیں بلکہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طلاق کے بعدوہ عورت کسی اور شوہر سے اپنی مرضی سے شادی کرسکتی ہے یا نہیں ؟۔ اس رسمِ بد کا خاتمہ کرنے کیلئے اللہ نے یہ واضح کیا کہ اس طرح سے طلاق دی ،جس میں باہمی رضامندی سے صلح کی گنجائش نہیں چھوڑی تو پھر عورت جب تک کسی اور شوہر سے نکاح نہ کرلے تو وہ پہلا شوہر رجوع نہیں کرسکتا ہے۔ آیت230۔ حالانکہ اللہ نے آیت226اور228البقرہ میں بھی یہ واضح کیا تھا کہ طلاق کے بعد بھی عورت کی رضامندی کے بغیر شوہر کیلئے رجوع کرنا حلال نہیں لیکن جب تک آیت230کے سخت الفاظ کا استعمال نہیں کیا تو علماء کو یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ باہمی اصلاح ورضامندی کے بغیر رجوع کرنا حلال نہیں ہے۔ یہ آیت محور بن گئی کہ رجوع نہیں ہوسکتا۔ حالانکہ اسکے بعد آیات231اور232البقرہ میں عدت کی تکمیل کے بعد بھی باہمی رضامندی اور معروف طریقے سے رجوع کا واضح الفاظ میں ذکر کیا ہے لیکن مجال ہے کہ حلالہ کی لذت کے متوالے قرآن کی طرف رجوع کریں اور سورۂ بقرہ کی ان تمام آیات کا خلاصہ سورہ ٔ طلاق کی پہلی دو آیات میں موجود ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

قرآن وسنت اور حنفی مسلک میں حلالہ کی لعنت نہیں مگر نفس پرستوں نے کھیل بگاڑدیاہے!

قرآن وسنت اور حنفی مسلک میں حلالہ کی لعنت نہیں مگر نفس پرستوں نے کھیل بگاڑدیاہے!

طلاق ایک شرعی مسئلہ تھا اور عوام الناس کے دل ودماغ میںقرآن وسنت کی سمجھ نہیں تھی، اب سودی بینکاری معاشی نظام ہے اور عوام بھی اس کی سمجھ رکھتے ہیں مگر پھراس کو کس طرح اسلامی بنادیا؟

اُٹھو، لوگو، آنکھیں کھولو!۔اندھو،گونگو سچ بولو۔ کانوںسے سنو،دِلوں سے سمجھو!۔ عقل سے عاری مت بنو، ٹھیک تولو۔ کم ہنسو اور زیادہ رولو۔اتنا لیٹنا ٹھیک نہیں ہے ، اٹھ بیٹھو اورکروٹ بدلو!

ہم نے بفضل تعالیٰ تین طلاق، اس سے رجوع اور حلالہ کی لعنت کے خاتمہ پر مسلسل کتابیں لکھیں، اخبار میں مضامین شائع کئے اور سوشل میڈیا پر بیانات بھی جاری کئے ہیں لیکن اسکے باوجود رمضان المبارک میں طلاق کے مسئلہ پر تسلسل کیساتھ اسی طرح سے مین اسٹریم میڈیا پرجہالتوں کا سلسلہ جاری رہا ہے۔جس کو جہالت کہا جائے؟۔ دانستہ قرآن وسنت اور امت مسلمہ کا بیڑہ غرق کرنے کا سلسلہ کہا جائے؟۔ بیماری سمجھنے کیلئے یہ بات سمجھ لی جائے کہ مارکیٹ میں سود اور اسلامی بینکاری پر مفتی محمد تقی عثمانی کے خلاف دیوبندی مدارس کے معروف علماء و مفتیان کا فتوی ہے لیکن آج سبھی نے ہتھیار پھینک دئیے البتہ مولانا طارق جمیل نے عید پر میڈیا کو انٹرویو میں کہاہے کہ ” نام بدلنے سے کچھ نہیں ہوتاہے، اسلامی بینکاری اور قسطوں کا کاروبار سود ہے۔جس میں پاکستان سے زیادہ دنیا بھر کے لوگ پھنسے ہوئے ہیں”۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو پھر5سو سال بعدسودی نظام کو اسلامی قرار دیا جائے گا۔ حلالہ کی لعنت کا بھی سلسلہ اسی طرح سے کچھ عرصہ قبل جاری ہوا تھا اور پھر یہ مدارس کا نصاب بن گیا اور آج اس لعنت کو لوگ اسلام کی طرف منسوب کررہے ہیں۔ سعودی عرب میں پہلے علامہ ابن تیمیہ اورابن قیم کے مسلک پر عمل ہوتا تھا پھر انہوں نے بھی مسلک حنفی کے نام نہاد ماہرین کی ٹیم بلاکر نام نہاد حنفی مسلک کے مطابق اکٹھی تین طلاق کا فتویٰ جاری کردیاہے۔
سورۂ طلاق میں مسئلہ طلاق کی بھرپور وضاحت ہے۔ عدت کی تکمیل کے بعد معروف رجوع یا پھر معروف طریقے سے چھوڑنا اور دو عادل گواہ مقرر کرنے کی وضاحت۔ سورۂ النساء میں خلع اور طلاق کی وضاحت ۔ اگر سورۂ طلاق اور سورۂ النساء کی وضاحتوں کو بھرپور طریقے سے سمجھ لیا جاتا تو سورۂ بقرہ کی آیات کا بھی بھرپور طریقے سے خلاصہ سمجھ میں آجاتا۔ پھر امت مسلمہ کو بے انتہاء الجھنوں کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ قرآن کی تمام آیات میں زبردست ربط وضبط ہے اور قرآنی آیات میں کوئی اور کسی قسم کا تضاد نہیں ہے۔ احادیث صحیحہ سے بھی قرآن کا کوئی تضاد نہیں ہے۔ اگر قرآن وسنت اور اجماع کو حفظ مراتب کے ساتھ سمجھنے کی ایک مرتبہ کو شش کی جائے تو پھر امت مسلمہ اور عالم انسانیت کا اسلام کے دین فطرت پرنہ صرف اتحاداور اتفاق ہوجائے گا بلکہ تمام مذاہب اور عالم انسانیت وحدت کی راہ پر گامزن ہوجائیںگے۔ طلاق اور خلع کے مسئلے کو اس غلط طریقے سے الجھادیاگیا ہے کہ عالم انسانیت تو بہت دور کی بات ہے مسلمانوں کے مسالک یا فرقوں کا بھی اس غیرفطری انداز پر کوئی اتفاق نہیں ہوسکتا ہے۔ جس طرح سودی بینکاری کو اسلامی قرار دیا گیا ہے اور لوگ اس کو اچھی طرح سے سمجھ سکتے ہیں اسی طرح بلکہ اس سے زیادہ خطرناک طریقے سے 3طلاق اور حلالے کا مسئلہ الجھایا گیا ہے۔ ریاستی اور حکومتی سطح پر اہتمام ہو تو ہم اس مشکل سے نکل سکتے ہیں۔
مفتی تقی عثمانی نے سودی بینکاری کی قیادت کرکے اپنا نام حیلہ سازوں کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ اب اس کو وفاق المدارس پاکستان کا صدر بنادیا گیا ہے ۔ اس سے پہلے جتنے صدور تھے مولانا سلیم اللہ خان ، ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر سب نے اس نام نہاد اسلامی بینکاری کو سودی نظام قرار دے دیا ہے۔
جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی ، جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی کراچی، مفتی زر ولی خان اور مولانا عبداللہ درخواستی کے جانشینوں کو چاہیے کہ اسلام کے معاشرتی اور معاشی نظام کیلئے اُٹھ کھڑے ہوں اور پورے پاکستان کے علماء کی قیادت کا حق ادا کریں۔ قرآن کے بہت سارے واضح احکام بالکل مسخ کئے گئے ہیں اور ہم نے فقہ واصول فقہ کی کتابوں کے علاوہ احادیث کی کتب سے بھی بہت ساری چیزوں کی ایسی نشاندہی کردی ہے کہ پوری امت مسلمہ اسلام کے جھنڈے تلے متحد ہوسکتی ہے۔ فرقہ واریت اور حیلہ سازی کا ناسور اسلام اور مسلمانوں کا نام و نشان بھی مٹادے گا۔ جب سود اسلامی بن گیا تو کتے کی دم کا داڑھی بننا رہ گیا؟۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv