پوسٹ تلاش کریں

وزیرستان کو ڈویژن بنادو اور کانیگرم جنوبی وزیرستان کو اس کا مرکز

وزیرستان کو ڈویژن بنادو اور کانیگرم جنوبی وزیرستان کو اس کا مرکز

ملک ربنواز نے چھڑی لہرا کر کہا کہ ہم اسکے ساتھ لڑ نہیں سکتے ہیں خود کو قتل کیلئے پیش کریں گے،30ہزار مریں تو ختم نہیں ہونگے!
بیٹے کو20لاکھ میں خودکش کیلئے بیچ دینا اتنی بڑی بے غیرتی نہیں جتنی اپنی بیٹی پر نکاح کے نام پر لینا مگر عرب اور پشتون نہیں سمجھتے

ڈاکٹرماہ رنگ بلوچ کو امید ہے کہ دنیا اُٹھے گی اور بلوچ پر ہونے والے مظالم کو روکنے کا اقدام اٹھائے گی لیکن ہمارے حکام انہی کے تو پروردہ ہیں۔ شمالی وزیرستان اتمانزئی وزیر کے قبائلی ملک حاجی ربنواز نے جو گفتگو کی ہے وہ بھی جان پر کھیلنے کی مجبوری کی یہ بات کررہے ہیں کہ ”ہمارے ساتھ دھوکہ مت کرو، ہم نے تمہاری بادشاہی مان لی ، تمہیں مسلمان سمجھا ، ہم تمہیں برا بھی نہیں کہتے لیکن ہمارے ساتھ مسلمان بن کر چلو، دھوکہ نہ دو، جتنے وعدے تم نے کئے کوئی پورا نہیں کیا۔ لاٹھی کے سوا لڑنے کیلئے ہمارے پاس کچھ نہیں لیکن ہم جانوں کو قربانی کیلئے پیش کرسکتے ہیں۔30ہزار مرینگے تو کم نہیں ہوں گے”۔طالبا ن ایک حقیقت ہیں تو علاج کیا ہے؟۔
وزیرستان کا امن اتنا مثالی تھا کہ پاکستان کے عام علاقے اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے ہیں لیکن پھر آہستہ آہستہ وہ بدامنی آئی جس کی مثال بلوچستان سمیت کہیں پر نہیں۔ وزیرستان کا مسئلہ طالبان اور فوج حل نہیں کرسکتے۔ کانیگرم کی سب سے قیمتی زمین کچھ لوگوں سے دستخط کرا کر پاک فوج کو دی۔ اب فوج نے مقامی باشندوں کو عارضی نقل مکانی کراکے اپنے قلعے تعمیر کرنا شروع کردئیے ہیں ۔ اگر پاک فوج مہربانی کرے اور دی ہوئی زمین بھی واپس کردے اور اس پر ایک زبردست ائیر پورٹ بنایا جائے ۔ پھر کانیگرم سے لدھا تک کی زمین سرکاری عمارات کمشنر آفس،گھر اور دیگر اداروں کے افسروں کے دفاتراور گھر تعمیرکئے جائیں تو کلاس فور کی نوکریوں سے بھی بے روزگار طالبان باروزگار بن جائیں گے۔ میرانشاہ کے گیس کو بھی عوام اور سرکاری لوگوں کی خوشحالی کیلئے انگور اڈہ تک پہنچایا جائے۔ امریکہ اور نیٹو کو شکست دینے سے لیکر اپنے علاقے اور خاندانوں تک کوتباہ کرنے میں لوگوں نے لازوال قربانیاں دی ہیں۔ وزیرستان کو ڈویژن کا درجہ دلائیں ۔شرعی مسائل کو معاشرتی سطح پر اجاگر کریں۔اپنے بیٹے کو20لاکھ میں خود کش کیلئے بیچنے سے زیادہ بڑی بے غیرتی اپنی بیٹی کو نکاح کے نام پر بیچنا ہے مگرافسوس ہے کہ عرب اور پشتون نہیں سمجھتے ہیں۔حقائق کی طرف لوگوں کو توجہ دلائیں۔

گوادر و تربت میں ایسا لگتا ہے کہ کسی اور ملک نے قبضہ کیا ہو، ہودبائی

فوج ہی فوج ،چیک پوسٹ ہی چیک پوسٹ،ہر پہاڑی پر مشین گنیں لگائی ہیں، مورچے بنائے ہیں!
گوادر میں جو میں نے دیکھا تربت میں دیکھا ۔ فوج ہی فوج چیک پوسٹ ہی چیک پوسٹ۔ ایسا لگتا ہے کہ کسی اور ملک نے آکر قبضہ کیا ہوا ہے اس پر۔ تو ہر پہاڑی کے اوپر مشین گنیں لگائی ہیں ، مورچے اور قلعے بنائے ہیں اور ہر سڑک پر آپ ادھر سے اُدھر جائیں پوچھ کر روکتے ہیں کون ہیں آپ؟، کہاں سے ہیں ؟۔ ٹھیک ہے، وہ مجھے نہیں روکتے کیونکہ میں باہر کا ہوں ناں۔ باہر کے لوگوں کیلئے ٹھیک ہے لیکن ادھر کے جو مقامی لوگ ہیں ایسا لگتا ہے کہ ان پر قبضہ ہوا ہے کسی باہر کی …۔ گوادر کے اطراف میں دیکھیں ، زمینوں پر جو قبضہ کیا ہے یہاں فوج، یہاں کسٹمز ، یہاں نیوی، یہاں کوسٹ گارڈ، یہاں پیراملٹری، سب نے اتنی زمین وہاں پر گھیری ہوئی ہے اور اُدھر یہ بنائیں گےDHAاور اسی طرح کی چیز۔ آخر لینڈ مافیا تو ہر طرف ہے۔ اب جو اُدھر کے گوادری ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہمیں تو اِدھر سے دھکیلا جارہا ہے۔ آپ کو پتہ ہے کہ وہاں مچھیرے ہیں ۔ صدیوں سے یہی کام کرتے چلے آرہے ہیں۔ اب ادھر جو انہوں نے بندرگاہ بنائی ہے اس بندرگاہ سے تو ان کو ایک طرف کردیا۔ ادھر جو سڑک جاتی ہے تو سڑک کے ایک طرف یہ کشتیاں بناتے ہیں اب اس سڑک کو وہ استعمال کرنے نہیں دیتے اور دھمکی دی ہے کہ یہاں سے ہم ایک اور سڑک نکالیں گے جو ٹھیک بندرگاہ کی طرف جائے گی تو اب آپ لوگ یہ استعمال نہیں کرسکیں گے۔ تو وہ پھر کہتے ہیں کہ ہم لوگ اپنی کشتیاں کیسے بنائیں؟۔ یعنی ادھر جو ہم صدیوں سے کرتے آئے ہیں۔ کہتے ہیں جاؤ تمہیں جدھر بھی جانا ہے جاؤ۔ یہ بے حسی جو ہے ناں یہ مارڈالتی ہے۔ اب یہ کیسا پاکستان ہے جو صرف پنجاب کیلئے بنا ہے؟۔ یہ نہیں چلے گا، نہیں چلے گا۔

ٹیپو سلطان لتا حیائ

ہمارے جو ہیرو ہیں چونکہ وہ مسلمان تھے اسلئے ان کو بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ نام بدلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بڑے دم خم کے ساتھ جب یہ فیشن چلا ہوا ہے کہ ٹیپو سلطان کو بدنام کیا جائے تو لتا حیاء اسٹیج سے ٹیپو سلطان پر نظم کہتی ہے آپ سب کے سامنے سنئے گا۔ کہنے کی کوشش کی ہے سنئے۔ جب میں میسور گئی اور ٹیپو سلطان کے مزار پر گئی تو مجھ پر یہ نظم ہوئی اجازت ہے سنئے گا اور آخری مصرعے پر غور کیجئے گا۔
جس کا ہے اتحاس سنہرا یہ وہ ہندوستان ہے
سمے سے کب ہے کوئی جیتا سمے بڑا بلوان ہے
لیکن جس کے نام سے سہمے بڑے بڑے بلوان کئی
تھرائیں بندوقیں جس سے سہمے تیرکمان کئی
کرناٹک کی دھرتی پر ایک شیر دہاڑا کرتا تھا
دشمن کے سینوں کو اپنی تیغ سے پھاڑا کرتا تھا
جس کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے بندوقیں تھراتی تھیں
اس کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے پربت تک ہل جاتے تھے
دانتوں تلے فرنگی اپنی انگلی سنا چباتے تھے
کوئی کچھ بھی بولے سچ کہنا میری پہچان ہے
وہ شیر میسور ہے بھارت کا ٹیپو سلطان ہے
صدیوں میں پیدا ہوتا ہے اک ٹیپو جیسا راجہ
جو نہ کیول ہمت والے تھے عالم فاضل بھی تھے
جس نے کرناٹک کی شیروں کی طرح رکھوالی کی
پر اس کے لوگوں نے اس کے ساتھ حیاء غداری کی
اس کی یوں بے خوف شہادت تاریخی بلدان ہے
وہ شیر میسور ہے بھارت کا ٹیپو سلطان ہے
ٹیپو کی درگاہ پہ آکر آج عجب احساس ہوا
مرے رونگٹے کھڑے ہوگئے دل میں بھی کچھ خاص ہوا
دفن نہیں ہے فقط یہاں پر جسم کسی سلطان کا
دفن ہے اک اتحاس یہاں پر پورے ہندوستان کا
جس کی دو تلوار دیکھ کے دشمن کی جان نکلتی تھی
جس کی لاش بھی چھونے سے انگریزی سینا ڈرتی تھی
راکٹ سے لے کر ماڈرن کلینڈر کے موجد ٹیپو
کم پڑ جائے گا ان کے بارے میں جتنا بھی لکھو
نظم ہے میری بالکل چھوٹی ٹیپو بڑا مہان ہے
وہ شیر میسور ہے بھارت کا ٹیپو سلطان ہے

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ فروری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

مذہبی جماعتوں نے کبھی پاکستان میں ایک مرتبہ بھی قرآن وسنت کے مطابق قانون سازی نہیں کی!

مذہبی جماعتوںنے کبھی پاکستان میں ایک مرتبہ بھی قرآن وسنت کے مطابق قانون سازی نہیں کی!

اس الیکشن میں جو کوئی بھی برسراقتدار آئے تو پہلے سے یہ طے کرلے کہ قرآن کے مطابق پارلیمنٹ میں قانون سازی کرنی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کو مفت کی روٹیاں توڑنے کیلئے چھوڑو

حضرت عمر نے بدری وغیر بدری، فتح مکہ سے پہلے و بعد والے صحابہ کے علاوہ حضرت حسن و حسین اور عبداللہ بن عمر کے وظائف یا تنخواہوں میں فرق رکھا تھا تو پھر ہم کیسے انگریز دور کی پیداوار طبقاتی نظام میں مراعات یافتہ طبقات کی مراعات کو ختم کرسکتے ہیں؟۔ ایک غریب کی بچی کا دوپٹہ ہوا نے سرکایا تو اسکو کوڑا ماردیا اور پھر حضرت عمر نے معافی بھی مانگ لی لیکن جب بصرہ کے گورنر حضرت مغیرہ ابن شعبہ کے خلاف چار افراد نے گواہی دی تو ایک کی گواہی کو ناقص قرار دیکر گورنر کی جان بخشی ہوئی اور تین گواہوں کو80،80کوڑے بھی لگائے اور پھر یہ پیشکش بھی ہوئی کہ اگر اتنا بول دو کہ ہم نے جھوٹ بولا تھا تو پھر تمہاری گواہی بھی قبول ہوگی۔ جمہور فقہاء اہل سنت کے ہاں حضرت عمر کی پیشکش درست تھی اسلئے اگر کوئی جھوٹی گواہی دیکر توبہ کرے تو پھر اس کی گواہی قبول ہوگی۔ لیکن مسلک حنفی نے حضرت عمر کی پیشکش کو قرآنی آیات کے خلاف قرار دیا کہ اس کے بعد جھوٹے کی گواہی کبھی قبول نہیں ہوگی۔
چار گواہ میں واحد گواہ صحابی حضرت ابوبکرہ تھے جس نے آئندہ گواہی قبول کرنے کی پیشکش ٹھکرادی ۔ صحیح بخاری میں بھی یہ واقعات ہیں اور ان سارے گواہوں کے نام بھی ہیں۔ کیا پارلیمنٹ میں اس واقعہ اور اسکے وسیع تناظر میں حنفی اور دوسرے مسالک کے درمیان قانون سازی پر بحث ہوسکتی ہے۔ اس پر اسلامی نظریاتی کونسل کچھ لیپا پوتی کرے تو کرے ۔ مولانا مودودی نے لکھ دیا ہے کہ جس خاتون کو پکڑا گیا تھا وہ حضرت مغیرہ ابن شعبہ کی اپنی بیوی تھی۔
جب یہود نے تورات کے احکام میںتحریف کی تو اللہ نے کہا کہ تورات کی سیدھی سیدھی باتوں پر بھی عمل نہیں کرتے۔ تورات میں جان کے بدلے جان اور اعضاء کان، ہاتھ ، دانت وغیرہ کے بدلے میں کان ہاتھ اور دانت وغیرہ ہیں اور زخموں کا بدلہ ہے۔ لیکن یہود اس پر عمل نہیں کرتے تھے۔ طاقتور لوگ کمزور لوگوں کے اعضاء کاٹ دیتے تھے تو اس کے بدلے میں ان کے اعضاء کو نہیں کاٹا جاتا تھا۔ انصاف کا سیدھا سادہ نظام ظلم میں بدل گیا تھا۔ قرآن میں بھی تورات کے ان احکام کا ذکر ہے اور آج ہم ان پر عمل نہیں کرتے۔ اگر کسی غریب کے کان ، ناک ، دانت ، آنکھ کے بدلے طاقتور ظالم کے کان ، ناک ، دانت اور کان کو ضائع کیا جائے گا تو کبھی بھی کسی کے اوپر کوئی ظلم نہیں کرے گا۔ علماء اور حکمران طبقے نے قرآنی احکام کو الجھا کر رکھ دیا ہے۔
خاور مانیکا کے ملازم نے عمران خان اور بشریٰ بی بی پر زنا کا الزام عدالت میں لگادیا۔ تمام مکاتبِ فکر کے علماء ومفتیان سیاسی مفادات سے بالاتر ہوکر فیصلہ کریں کہ ” اس جھوٹی گواہی کی وجہ سے اس پر80کوڑے لگتے ہیں یا نہیں؟”۔ اگر لگتے ہیں تو1973کے آئین اور قرآن کے حکم پر عمل کا آغاز بھی کیا جائے۔ اور اگر زنا ثابت ہو تو قرآن کے مطابق پھر عمران خان اور بشریٰ بی بی کو100،100کوڑے لگائے جائیں۔
سورہ نور میں زنا کی سزا مرد اور عورت دونوں کیلئے100،100کوڑے ہیں۔ صحابی نے کہا کہ” سورہ نور کی آیات نازل ہونے کے بعد کسی کو سنگسار کی سزادی گئی یا نہیں ؟ اسکا نہیں معلوم ” ۔( صحیح بخاری) حضرت عمر نے کہا کہ ”اگر مجھے خوف نہ ہوتا کہ لوگ کہیں گے کہ عمر نے اللہ کی کتاب میں اضافہ کیا ہے تو سنگسار کرنے کا حکم قرآن میں لکھ دیتا”۔ (صحیح مسلم) حضرت عائشہ سے منقول ہے کہ بڑے آدمی کو دودھ پلانے اور سنگسار کرنے کی آیات نبی ۖ کی وفات کے وقت بکری نے کھاکر ضائع کردیں”۔(ابن ماجہ) ۔ قرآن کے واضح احکام کو بہت غلط رنگ دیا گیا ہے ۔پارلیمنٹ کے فیصلے ضروری ہیں۔
قرآن کی سورۂ نور میں لعان کا مسئلہ بھی ہے۔ اگر خاور مانیکا نے قابلِ اعتراض حالت میں دیکھا ہے تو عدالت میں لعان کیا جائے اور اگر بشریٰ بی بی اس کو جھٹلا دیتی ہے تو پھر بشریٰ بی بی کو قرآن کے مطابق کوئی سزا نہیں ہوگی۔ قرآن نے واضح کیا ہے کہ زنا کاروں کا آپس میں نکاح کرایا جائے۔ اگر گواہی آگئی تو پھر سزا کے بعد شادی بحال رہے گی۔ کیونکہ یہ قرآن کے حکم پر عمل ہوگا۔ اس سے وہ تصور بھی ٹھکانے آجائے گا کہ اسلام میں سنگساری کا حکم ہے یا نہیں ؟۔ علامہ مناظر احسن گیلانی نے اپنی ایک کتاب ”تدوین القرآن” میں اس پر اچھا خاصا تذکرہ کیا ہے۔ جو جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی نے بھی شائع کردی ہے۔
طالبان حکومت کے ایک عالم دین نے مردکا مرد سے جنسی تعلق پر سزا کے اندر بڑے اختلاف کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے ثابت ہے کہ قرآن وحدیث میں کسی سزا کا ذکر نہیں۔ حالانکہ قرآن میں دونوں کو اذیت دینے کا حکم ہے اور پھر وہ توبہ کرلیں تو ان کو طعنہ دینے اور پیچھے پڑنے سے روکا گیا ہے۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ قتل کا حکم نہیں۔ طالبان جو چاہتے ہیں وہ قرآن میں موجود ہے لیکن مدارس کا نصاب رکاوٹ ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ فروری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

کیا بلوچستان میں آتش فشاں کا لاوا پھٹ سکتا ہے؟

کیا بلوچستان میں آتش فشاں کا لاوا پھٹ سکتا ہے؟

قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے طلباء و طالبات سے بانو ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی فکر انگیز تقریر
پڑھی لکھی یوتھ کوجدوجہد کی دعوت 

ہماری تحریک کو60 دن کا عرصہ مکمل ہونے والا ہے اگرآپ سب جاننا چاہتے ہیں کہ پاکستان اور اس کی اسٹیٹ فورسز بلوچستان میں کیا کر رہی ہیں آپ شروع دن سے اس تحریک کو پڑھیں کہ کس طرح ایک پرامن تحریک جس کی تعداد ہم عورتیں ہیں اور اس میں بچے بھی شامل ہیں اس کو کیسے ایکTerrorisedNarrativeکے ذریعے ہم سب کو دہشت گرد قرار دیا جا رہا ہے اور پوری اسٹیٹ کی مشینری جوInvestigativeJournalistتھے جن کو انویسٹی گیٹ کرنا چاہیے تھا وہ بھی ریاست کا بیانیہ لے کر جا رہے ہیں آگے ۔ہم اسی پر اپنے فورتھ فیس کو آگے لے جا رہے ہیں اور اس میں ہمیں آپ کے ساتھ کی سب سے زیادہ ضرورت ہے ۔ہم ایجوکیٹ کرنا چاہتے ہیں پاکستان کی یوتھ کو کیونکہ میں اس یونیورسٹی میں کھڑی ہوں جہاں پہ پاکستان کے ہر طبقے کا کوئی نہ کوئی بندہ موجود ہے تو آپ اپنے طبقے کو یہاں پر اون کر رہے ہیں اس موومنٹ کوآگے لے جانے کے لیے ہمیں آپ سب کے ساتھ کی ضرورت ہے۔اس مقام پر اسٹیٹ ایک ایساNarrativeہمارے سامنے لے کرآئی ہے جس کے تحت اسلام آباد پریس کلب کے سامنے ہمارا جو دھرناہے اس کو خدشات لاحق ہیں ۔ہم نے10دن پہلے کہا تھا کہ ا سٹیٹ ہم پر اٹیک کرنے والی ہے اور وہ خدشہ اب بھی ظاہر ہے۔اس کے تحت سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں پرFIRکیے گئے ہیںجو پرامن تحریک کا حصہ بنے رہے ہیں۔لیکن پھر بھی ہم ڈٹے ہوئے ہیں اور پھر بھی ہم اس موومنٹ کو لے کر جا رہے ہیں اس میں بلوچ خواتین کا سب سے بڑا کردار رہا ہے۔آپ سب سے یہی گزارش ہوگی ہماری فورتھ فیز میں آپ سب نے ہمارا ساتھ دینا ہے موبلائز کرنا ہے ایجوکیٹ ہونا ہے پڑھنا ہے اور سمجھنا ہے کہ اسٹیٹ وائلنس کیسے استعمال ہوئی ہے دہائیوں سے۔ اسٹیٹ نے وائلنس کے ذریعے کیسے ایک خوف کا ماحول پیدا کیا ہے۔ اسٹیٹ نے وائلنس کے ذریعے کیسےJustifyکیا ہے جبری گمشدگی کو؟۔ اسٹیٹ نے تشدد کے ذریعے کیسےJustifyکیا ہے ماورائے عدالت قتل کو اور اسی اسٹیٹ کے چلتے ہوئے بلوچ ہو، پشتون ہو، سندھی ہو، گلگتی ہو، وہاں پر عام جوPeacefulMovementsہیں ان کو بھی خدشات لاحق ہیں۔اور آپ کے لیے ہمارا پیغام یہی ہے کہ ہم نے ایکPetitionدرج کیا ہے اس کوآپ جتنا فارورڈ کریں گے اتنا ہی ہمارے لئے آسانی ہوگی کیونکہ ان60دنوں کے دوران اسٹیٹ کی کوشش یہی رہی ہے کہ ہم اپنی موومنٹ کو ختم کر دیںاور ہم پر ہراسگی کی ،ہمیں مارا بھی گیا ٹارچر بھی کیا گیا۔افسوس کی بات یہ ہے کہ اس چیز پر کوئی کمیشن نہیں بنائی گئی کوئی انکوائری نہیں ہوئی کہ عورتوں کو مارنے والی قوتیں کون تھیں؟۔اور ان کو ہراساں کرنے والی قوتیں کون تھیں؟ اور آج مجھ سمیت میری تحریک کی ہر خواتین کارکن کو ہراساں کیا جارہا ہے اور ہمارے خلافFIRلگائے گئے ہیں۔ ہم یہاں رکنے والے نہیں ہیں۔ میں سمجھتی ہوں اگر اس تحریک میں ہمیں کچھ بھی نقصان پہنچا تو آپ ہمارے ہم آواز ضروری بنیں گے اور آگے بھی اس موومنٹ کا اسی طرح ساتھ دیں گے جس طرح آپ نے ساتھ دیا ہے۔ ہماری تحریک موبلائزیشن کیلئے ہے، ہماری تحریک سیاسی بنانے کیلئے ہے۔ ہم یوتھ کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اسٹیٹ مشینری کے ذریعے بینکنگ ایجوکیشن کے ذریعے ہمیں جو پڑھایا جاتا ہے جس کے ذریعے ہر یوتھ کو یہی پیغام دیا جاتا ہے کہ آپ انفرادی زندگی کی طرف جاؤ۔ سوسائٹی سے ہمیں کٹ آف کیا گیا ہے۔ یہ حل نہیں ہے، سب سے بڑا کردار ہمیں اور آپ کو ادا کرنا ہے۔ جب تک ہم آگے نہیں بڑھیں گے جب تک ان قوتوں کے خلاف آگے نہیں بڑھیں گے جن کی وجہ سے عام لوگوں کی کلنگ کوJustifyکیا جاتا ہے ، سویلین کی کلنگ کوJustifyکیا جاتا ہے ، بچوں کو مارا جاتا ہے۔ تو کسی بھی انسان کا سب سے پہلا فرض یہ بنتا ہے کہ وہ اپنی سوسائٹی میں انصاف لاسکے۔ ہماری ایجوکیشن کسی بھی کام نہیں آئے گی جب تک ہم اس کو یوٹیلائز کرنے کا طریقہ نہیں سمجھتے ہیں۔ یہ سب سے بڑی ذمہ داری ہماری ہے۔ بلوچستان کے کونے کونے سے آئے ہوئے لوگ جو تعلیمافتہ نہیں ہیں لیکن پھر بھی وہ اس تحریک کا حصہ ہیں۔ پھر بھی وہ عزم کے ساتھ کھڑے ہیں۔ آج بھی جب میں کیمپ سے آرہی تھی تو کچھ ایسے خاندان تھے جن کو باقاعدہ ڈیتھ اسکواڈ نے دھمکی دی ہے اور انکے گھر میں ان کے بچوں کو مارنے کیلئے بھی ان کو ہراساں کیا جارہا ہے۔ لیکن پھر بھی وہ بیٹھے ہوئے ہیں پھر بھی وہ ڈٹے ہوئے ہیں۔ تو یہ تحریک آپ کی ذمہ داری بنتی ہے۔ کسی بھی سماج میں تعلیمافتہ یوتھ تبدیلی کا باعث بنتی ہے۔ اگر آج ہم نے اس تحریک اور جتنی بھی پاکستان میں تحریکیں ہیں اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ نہیں لیا تو آج اور آنے والے وقتوں میں ہماری سوسائٹی اور زوال پذیر ہوجائے گی۔ اور اس زوال پذیری کی ذمہ دار تعلیمافتہ یوتھ ہوگی۔ کیونکہ ان میں سوچنے سمجھنے کی سکت تھی۔ ایجوکیشن عملی زندگی میں ایک پریکٹس کرنے کا کام ہے جو ہم سمجھتے ہیں جو تھیوری ہم لے کر آئے ہیں انسانیت کیلئے اور ہمارے لوگوں کیلئے۔ اس چیز کا آپ نے حصہ بننا ہے۔ خاص کر جو خواتین ہیں میں ان سے بھی مخاطب ہوتی ہوں کیونکہ کوئی بھی قوم دو حصوں سے بنتی ہے جس میں مرد اور خواتین دونوں برابر ہیں۔ یہاں پر اسٹیٹ کی جو مشینری ہے انہوں نے خواتین کو یکسر طور پر الگ کیا ہوا ہے جہاں پر شدت پسندی پھیلائی گئی ہے۔ یہ پیغام بھی ہم انہی کیلئے لے کر آئے ہیں کیونکہ بلوچ خواتین پچھلے60دنوں سے سردی میں بیٹھے ہوئے ہیں اور اپنے پیاروں کے لیے آپ اگر ان کی موومنٹ کو دیکھیں گے20سالوں سے یہ لوگ ،آج1خاندان آیا ہے جو کہتا ہے کہ18سال سے میرے بیٹے کو اغوا کیا گیا ہے اور اس کی ماں کہیں بھی نہیں گئی ہے اپنے بیٹے کیلئے۔ تو یہ ہماری ذمہ داری بنتی ہے ان خواتین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ آئیں اور اس تحریک کا حصہ بنیں اورآپ سب لوگوں کے پاس آنے کا سب سے بڑا مقصد یہ تھا کہ آپ وٹنس کر سکیں کہ بلوچستان کے کونے کونے میں کیا ہو رہا ہے بلوچستان میں کس طرح عام لوگوں کو مارا جاتا ہے نیشنل سیکیورٹی کے نام پہ۔ بلوچستان میں کس طرح بچوں کے مارنے پر خوشیاں منائی جاتی ہیں۔ بلوچستان میں کس طرح سویلینزInnocentلوگوں کو مارا جا رہا ہےInnocentلوگوں کے مارنے پر ہم سب کو آپ لوگوں کے ساتھ کی زیادہ ضرورت ہے اور میں آپ سب کو یہی پیغام دینا چاہتی ہوں اس موومنٹ کے بعد بھی آپ سب لوگ اپنی اپنی کونسلز میں جہاں جہاں آپ کیGatheringہوتی ہے وہاں وہاں یوتھ کوPoliticizedکرنا ہے ۔یوتھ کو وہ تبدیلی لانی ہے جو ان کرپٹ سیاست دانوں نے ہمیں لانے نہیں دی ہے جس کے تحت یوتھ کو ہمیشہ جو جتنی سٹوڈنٹس یونینز ہیں ان کو اپنا پاکٹ آرگنائزیشن بنا کے رکھا ہے جو صرف اور صرف ان کی ووٹنگ مہم ہے اس میں اس کا ساتھ دیتے ہیں اس کے علاوہ ان کوSkillfilledنہیں کیا گیا ہے اس کے علاوہ ان کو پولیٹیکل ایجوکیشن ہے اس سے بہت دور رکھا گیا ہے جس کے تحت یوتھ اتنی کرپشن کا شکار ہو جاتی ہے کہ وہ خود اپنے آپ کو سوشل سوسائٹی سے الگ کر کے انفرادیت کی طرف لے کر جاتی ہے۔ تو ہمارا پیغام آپ سب لوگوں کے لیے ہے۔ آپ سب لوگوں نے اس مہم میں، یہ موومنٹ ہے باقاعدہ طور پر اور اس موومنٹ میں ہر وہ شخص جو انسانیت پر یقین رکھتا ہے ہر وہ شخص جس کے پیارے ہیں اور وہ سمجھتا ہے کہ اس کے باپ کو18سال تک4×4کی کوٹھری میں بغیر کسی عدالت میں پیش کرنے کے اسے رکھنا نہیں چاہیے ۔جو بلوچNarrativeکے ساتھ ہے بلوچNarrativeجو یہ کہتا ہے کہ میرے معصوم بچوں اور عورتوں کو نہ مارا جائے اپنے قانون کے لیے ان کو عدالتوں میں پیش کیا جائے تو اس میںآپ ہمارا ساتھ دیں گے ہمارے پٹیشن کو سائن کریں۔21تاریخ کو اوپی سی (OppresedPeoplesOfAsia)کے نام پر ہماری کانفرنس چل رہی ہے جس میں ہم باقاعدہ طور پر ہم ریاست اور اس کی مشینری کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم ایک ڈسپلن موومنٹ چلا رہے ہیں اس میں ہر طبقے کی آواز بنیں گے جو اس وقت تک ریاستی جبر کا شکار رہا ہے اس وقت تک جو قانون اور عدالتیں بنی ہیں کس طرح متعصب بن کر صرف اسٹیٹ وائلنس کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ اسٹیٹ وائلنس کے لیے یہ قانون بنائے گئے ہیں ان سب کے خلاف ہم ڈیبیٹ کریں گے ڈسکشن کریں گے ہم ایجوکیٹ کرنا چاہتے ہیں بنیادی طور پر ۔ہم چاہتے ہیں کہ آپ سب جو جس کمیونٹی سے تعلق رکھتا ہے وہ اپنے علاقے میں ہونے والے سیاسی تحریک کا حصہ بنے۔ سوچیں سمجھیں ہماری ایجوکیشن صرف کورس کی تعلیم حاصل کرنا نہیں ہے آپ جب تک سوسائٹی میں ہونے والے سب سے بڑی تبدیلی جو آرہی ہے اس میں اپنا حصہ نہیں ڈالیں گے تو یہ تمام ایجوکیشن میرے خیال سے فالتو ایجوکیشن ہوگی۔تعلیم یافتہ یوتھ پر سب سے بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ تو آپ سب کا بہت شکریہ ۔ اور ہماریOPCکے جو وینیو ہے وہ اسلام آباد سٹنگ ہوگا ۔ اس موقع پرمیں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ ایک بہت بڑی پروپیگنڈہ مہم چلائی جا رہی ہے ہمارے خلاف جس کے تحت جوپہلے دن سے ہم نے کہا تھا کہ اسٹیٹ پیس فل موومنٹ کوبرداشت نہیں کرتی ہے ۔ آج تک وہ لوگ جنہوں نے اسٹیٹ انسٹیٹیوشنز کے جو غیر قانونی طریقے ہیں ان پر جب بات کی تو اس کو بھی کرش کیا گیا۔ یہ آپ سب کے سامنے ہے ۔ہم عورتیں سردی میں وہاں بیٹھے ہوئے ہیں اور شروع سے لے کر اب تک ہمیں دہشت گرد قرار دیا جا رہا ہے۔ شروع سے لے کر اب تک صوبائی حکومتوں کے ساتھ ساتھ جو وزراء ہیں، اور ابھی تو حدیہ ہوگئی ہے کہ جرنلسٹ بھی مسنگ پرسنز کو جبری گمشدگی کو جواز بخش رہے ہیں تو یہ آپ سب کی ذمہ داریاں ہم آپ سب کے پاس یہ پیغام لے کر آئے ہیں کہ اس موومنٹ کو آپ کی عملی شمولیت کی ضرورت ہے ہم ہر طرح کے تشدد کے خلاف ہیں۔ کوئی بھی تشدد ہو ہم اس کے خلاف ہیں۔ لیکن ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ سب سے بڑا وائلنس جو پیدا گیا ہے اس خطے میں پاکستان میں وہ ریاستی تشدد ہے۔ اس کو کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ میں بولتی ہوں سب سے پہلا جو گند مچایا ہوا ہے وہ ریاستی تشدد نے مچایا ہوا ہے اور کسی بھی اسٹیٹ میں جب تک اس کی جو پاور ہے اس کو ایکسرسائز کرنے کے لیے احتساب کا طریقہ کار نہیں ہوگا مانیٹرنگ کا پروسیس نہیں ہوگا تو سوسائٹی میں اسی طرح ایک نا انصافی پر مبنی معاشرہ تخلیق ہوگا جس کے تحت ایک وہ قانون ہے جو طاقتوروں کا ساتھ دیتا ہے اور ایک وہ قانون ہے جو مظلوم کی نسل کشی کوJustifyکرتا ہے اور اس کو اور زیادہ بڑھاتا ہے۔ آپ سب سے یہی گزارش ہے ہماری مہم کا ساتھ دیں اور ہماری تحریک میں اپنا پریکٹیکل حصہ بنیں۔ اور جو ہمارے خلاف ایک فیکnarrativeکی سوشل میڈیا میں ایک جنگ چل رہی ہے اس میں بھی آپ اپنا پوائنٹ آف ویو لے کر آئیں۔ ہم اپنے ہر پوائنٹ پر ہر ڈیمانڈ پر بیٹھنے کے لیے ڈیبیٹ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اسی وجہ سے ہمارا بنیادی مطالبہ یہی ہے کہUNبلوچستان میں ہونے والے انسانی حقوق کی پامالیوں کا نوٹس لے۔کم از کم پاکستان سمیت انٹرنیشنل دنیا کو سمجھنا ہوگا کہ بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے؟۔ بلوچستان میں کیوں لوگ محفوظ نہیں ہیں ؟۔آپ سب کے کلاس رومز میں بلوچ سٹوڈنٹس بھی پڑھتے ہیں، آپ ان کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کو دیکھیں کہ کس طرح بلوچ کو اس کی شناخت کی بنیاد پر یہاں اس پاکستان کے سب سے بڑے انسٹیٹیوٹ پر بھی پروفائلنگ کی جاتی ہے۔ گرفتار کیا جاتا ہے اورآج اس سطح پر جب یہ موومنٹ پہنچی ہے تو اسلام آباد میں موجود جتنے بھی بلوچ سٹوڈنٹس ہیں ان کی زندگی کو خطرہ لاحق ہے۔ جیسے ہی یہ موومنٹ یہاں سے ختم ہوگی ان کو پکڑا بھی جا سکتا ہے اغوا بھی کیا جا سکتا ہے۔ تو اس کے بعد یہ ذمہ داری آپ پر عائد ہوتی ہے کہ آپ ان کے ہم آواز بنیں۔ اور جو بلوچ نسل کشی کاایک سلسلہ جاری رہا ہے اس کے خلاف مؤثر آواز کے طور پر ہمارا ساتھ دیں بہت بہت شکریہ انشااللہ۔

تبصرہ نوشتہ دیوار

جب1991میں ڈیرہ اسماعیل خان جیل کے اندرمجھے قید با مشقت کا سامنا تھا اور قبائل کے40FCRکے کالے قانون کو کسی عدالت میں بھی چیلنج نہیں کیا جاسکتا تھا تو جیل میں بھی اپنے مشن کو جاری رکھا۔ وہاں پر135سال کے سزا یافتہ محمد حنیف شلاؤزان پاڑا چنار اور اس کے3ساتھی بھی موجود تھے۔ جس نے72دن بھوک ہڑتال کرکے زندہ لوگوں میں عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ ایک سکھ نے73دن بھوک ہڑتال کی تھی مگر وہ چل بسا تھا۔ جبکہ کئی کئی سالوں تک قید کی سزائیں کاٹنے والے بہت لوگ تھے۔ وہاں پر میں نے اسلامی نکتہ نظر پیش کیا کہ قتل کے بدلے میں قتل یا دیت ہو تو مقتول کی بیوہ اور بچوں کو ایک لمبے عرصے تک انتظار نہیں کرنا پڑتا ہے۔ یہ سزائیں اسلام اور انسانیت کے منافی ہیں۔ جبری گمشدگی پر مفتی تقی عثمانی نے بھی آواز اٹھائی ہے۔ لیکن اس کے اپنے فتوے میں انسانیت و اسلام کے خلاف اتنا مواد ہے کہ ریاست بھی اس کا تصور نہیں کرسکتی ہے۔ جس دن ریاست پر بلوچ ، پشتون، سرائیکی اور سندھی کے علاوہ مہاجر اور دوسرے طبقات یلغار کریں گے تو یہ مفتیان حضرات اور جماعت اسلامی ریاست کیخلاف فتوے دینے میں پیش پیش ہوں گے۔ سینیٹر مشتاق اور مولانا ہدایت الرحمن نے قوم پرستوں کی مقبولیت کو دیکھ کر جمپ لگائی ہے اور سراج الحق سُود کے خلاف محض ڈھونگ رچارہا ہے۔ اسلئے کہ اسلامی بینکاری کے نام سے عام بینکاری میں سُود کم ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسرائیل میں2.5%سُود ہے جبکہ ہم پاکستان اور اسلام کے نام پر22%سے بھی معاملہ آگے لے گئے ہیں تو کیا قرآن میں جس سُود کے خلاف اعلان جنگ ہے اس کا اطلاق اسلامی بینکاری پر ہوتا ہے یا اسرائیلی بینکاری پر؟ اور اسرائیل جس درندگی کا ثبوت دے کر فلسطینیوں کو شہید کررہا ہے اور وہاں کے فلسطینی بچے کہہ رہے ہیں کہ ہمیں امن دو ، قتل مت کرو، پڑھنے دو، کھانے پینے کی سہولیات فراہم کرو، آزادی سے جینے دو مگر مفتی تقی عثمانی جس نے20سال روس کیخلاف اور20سال امریکہ کے خلاف کبھی جہاد میں حصہ نہیں لیا اور اب یہ کہہ رہا ہے کہ میری خواہش ہے لیکن وہاں جا نہیں سکتا کہ فلسطین میں جان دوں۔ جب جانے کا وسیلہ بن جائے تو کہتا ہے کہ میری اور میرے ٹبر کی ٹریننگ نہیں ہے۔ ہم نیٹو و امریکہ کے بھی خلاف تھے۔ اسرائیل کے بھی خلاف ہیں۔ پاکستان کی ریاست اگر اپنے لوگوں کے ساتھ ظلم و جبر روا رکھتی ہے تو اسکے بھی خلاف ہیں لیکن یہ نہیں کرسکتے کہ خود اپنے گھروں میں بیٹھ جائیں اور دوسروں کو قربانی کا بکرا بنانے کی دعوت دیں۔
جب طاقتور اور کمزور کا مقابلہ ہوتا ہے تو فطری طور پر کمزور کا ساتھ دینا انسانیت کا تقاضہ ہوتا ہے۔ بلوچ کمزور ہیں ریاست طاقتور ہے۔ اس لڑائی میں بلوچوں کو کافی عرصہ سے بہت زیادہ نقصان اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بلوچ دھرنے میں شریک سید صبغت اللہ شاہ جی نے کہا کہ اب ریاست اور بلوچ قوم کے درمیان دشمنی کی صورتحال پیدا ہوچکی ہے۔ بلوچ جب فوج پر وار کرتے ہیں تو فوج اس کا بدلہ عام بلوچ سے لیتی ہے اور یہ صورتحال اس وقت درست ہوسکتی ہے کہ جب فوج اپنی بیرکوں میں جائے اور تمام ادارے اپنی اپنی جگہ پر درست کام کریں۔ شاہ جیMAپولیٹکل سائنس ہے ۔ ہماری استدعا یہ ہے کہ پاکستان گمشدہ افراد کی صحیح صورتحال سے بلوچ کمیونٹی کو آگاہ کردے یہ اسلام اور انسانیت کا تقاضہ ہے۔ اور ڈاکٹر ماہ رنگ کو سیاسی جدوجہد کرنے دے تاکہ حالات ٹھیک ہوں۔
بلوچستان میں ایک آزادی کی فضاء قائم کی جائے جس میں ماحول کو بہتر بنانے کیلئے کام کرنے والے اپنی خدمات انجام دے سکیں۔ ریاست اور شدت پسند تنظیموں کی طرف سے کسی کو کام کا موقع نہیں ملے گا تو اسکا سارا خمیازہ بلوچ قوم بھگتے گی۔ انڈے کی غلطی ہے کہ چوزہ پیدا ہوا یا پھر مرغی کی غلطی ہے کہ انڈہ دے دیا۔ یہ بحث کبھی ختم نہیں ہوگی۔ پر امن فضاء سے یہ مائیں ،بہنیں اور بیٹیاںعزت و سکون کی زندگی گزاریں گی۔

1
انعام کھیتران ولد عبدالرحمن کھیتران نے انکشاف کیا کہ مری خاندان کی نشاندہی کرنے والی یہ کھیتران لڑکی شہید کی گئی

جس بلوچ عظیم لڑکی نے اپنے ظالم سردار کے خلاف ویڈیو وائرل کرکے غریب مری خاندان کو موت سے بچایا تھا وہ خود شہید کردی گئی اور پولیس نے اس کی لاش کنویں سے برآمد کرکے کوئٹہ پہنچایا تھا۔ سندھ اور کراچی سمیت بڑی تعداد میں مظاہرہ کرنے والے مری قبائل کوسب لوگوں نے بھرپور سپورٹ کیا۔ سینیٹر مشتاق خان بھی پہنچا تھا مگر ویڈیو کی وجہ سے مری قیدی رہاہوگئے تواس شہید لڑکی کو ایدھی نے لاوارث دفن کردیا۔بانوماہ رنگ بلوچ، بانو ھدیٰ بھرگڑی، فرزانہ باری، طاہرہ عبداللہ اور افراسیاب خٹک ، فرحت اللہ بابر، سینیٹرمشتاق اس لاوارث لاش کو ورثاء تک پہنچادیں تو اچھا ہوگا۔

2
دوستو! دنیا کے تمام مذاہب ایک نجات دہندہ کا انتظار کررہے ہیں۔ماجد ملک

دوستو! دنیا کے تمام مذاہب ایک نجات دہندہ کا انتظار کررہے ہیں۔ ہندو37سو سال سے کالکا کا انتظار کررہے ہیں۔ کنفیوشس (چین کا مقامی مذہب) اور تا ؤ25سو سال سے کسی نجات دہندہ کا انتظار کررہے ہیں۔ پارسی26سو سال سے زرتشت ثانی کا انتظار کررہے ہیں۔ بدھ مت25سو سال سے متریا کا انتظار کررہے ہیں۔ یہودی34سو سال سے مسیحا کا انتظار کررہے ہیں۔ عیسائی2ہزار سالوں سے مسیحا کا انتظار کررہے ہیں۔ سنی مسلم14سو سال سے حضرت عیسیٰ کا انتظار کررہے ہیں۔ شیعہ مسلم1ہزار80سال سے مہدی کا انتظار کررہے ہیں۔ بہائی مسلم 1ہزار سال سے حمزہ ابن علی کا انتظار کررہے ہیں۔ دروس3ہزار5سو سال سے شعیب علیہ السلام کا انتظار کررہے ہیں۔ یعنی بیشتر مذاہب ایک نجات دہندہ کے خیال کو قبول کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دنیا برائی سے بھری رہے گی جب تک وہ نجات دہندہ آکر اسے اچھائی اور انصاف سے نہ بھردے۔ اس کرہ ارض پر ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ لوگ اس انتظار میں ہیں کہ کوئی دوسرا آئے اور ہمارے مسائل حل کردے۔ ہم اپنے مسئلے خود کبھی حل نہیں کرسکتے۔

انصاف کے بغیر تو ایک گھر نہیں چل سکتا۔پھرآپ ریاست کیسے چلا سکتے ہیں ؟۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ

45 سالہ عربی خاتون تحیات فیدال عمدہ لکھتی تھی اسکا گما ن تھا کہ” دابة الارض عام انسان ہے جو عورت مہدی ہوسکتی ہے ۔ مردانگی بہادری کی صفت ہے ”۔ قاسم بن عبدالکریم کے مہدی سے بہترہے کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کولاہوری اپنا مسیحا بنادیں۔

3
پولیس کی تحویل میں بلوچ بچی کی فریاد

نہ ہمیں گیس دیا جائے نہ ہمیں بجلی دیا جائے نہ ہمیں سیندک کا سونا چاہیے نہ ہمیں گوادر کے وسائل چاہئیں۔ نہ ہمیں کوئلے چاہئے نہ ہمیں فیسی لیٹیز چاہئے۔ ہمیں ہمارے بھائی چاہئیں۔ ہمیں جینے کا حق چاہئے اور ہم کچھ نہیں چاہتے اور ہم کچھ …

ہمارادشمن خدا کی قسم اسرائیل سے بدتر

بلوچ خاتون رہنماکی تقریر۔خدا کی قسم فلسطین وہ خوش قسمت قوم ہے جنہیں ایسا دشمن ملا جو کھلے عام ان کی نسل کشی کررہا ہے۔ ان کیساتھ جنگ لڑ رہا ہے۔ آپ کتنے سالوں سے بلوچ قوم کی نسل کشی کررہے ہیں۔ آج ہم آپ کو بے غیرت اور بے ضمیر کہنا بھی گوارہ نہیں کرینگے۔ آپ وہ دشمن ہیں ہمارے۔ آئیں آپ اپنے اور اپنے تعلق کا اظہار کریں کھلے عام اور کہہ دیں کہ آپ جو بلوچ قوم کی نسل کشی کررہے ہیں اس کے بعد ہم بھی دیکھیں گے کہ باقی آپ رہتے ہیں یا پھرہم رہتے ہیں؟۔

ارمان شہید کی بہن وڑانگہ کا خطاب

چمن لغڑیان دھرنے سے ارمان لونی شہید کی بہن وڑانگہ نے تقریرکرتے ہوئے کہا کہ قوموں کے درمیان جنگ وسائل کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ پنجاب کے فوجی جرنیلوں اور سیاستدانوں نے بیرون ملک بڑی دولت بنائی ہے۔ ہم سے روٹی کا نوالہ بھی چھینا جارہا ہے۔ ان کو ہماری شکل اچھی نہیں لگتی پشتون وطن کے وسائل اچھے لگتے ہیں۔ اگر دہشت گردی وغیرہ سے بچنے کا کوئی مسئلہ ہے تو مل بیٹھ کر بات کرلیتے ہیں۔ دنیا میں ریاست و عوام کے درمیان مسائل اور وسائل قوانین سے طے ہوتے ہیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ فروری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

یہ الیکشن8فروری جمہوریت کی تاریخ میں آخری کیل ٹھوکنے کیلئے پرعزم تو نہیں؟

یہ الیکشن8فروری جمہوریت کی تاریخ میں آخری کیل ٹھوکنے کیلئے پرعزم تو نہیں؟

وزیرستان کچہری میں ووٹوں کا دھاندلا
جنوبی وزیرستان کے الیکشن8فروری2024کیلئے بڑا فراڈ پکڑ لیا گیا۔ جب بڑے پیمانے پر بیلٹ پیپر ز لانے کی عالم زیب خان محسود کو اطلاع ملی تو اس نے سوشل میڈیا کے ذریعے سے خبر کو عام کردیا۔ رنگے ہاتھوں کھلی دھاندلی پکڑی گئی تو حاجی سعید انور محسود آزاد امیدوار قومی و صوبائی جنوبی وزیرستان نے جلسہ عام میں کہاکہ جمعیت علماء اسلام پہلے بھی دھاندلی سے یہ الیکشن جیتی تھی اور یہ حربے اب ہم کامیاب نہیں ہونے دینگے۔ بغیر نمبر پلیٹ ٹویوٹا فیلڈر گاڑی میں بیلٹ پیپرز لائے گئے جو پھر ٹانک ڈاکخانے میں پہنچائے گئے ۔ ملکی سطح پر کیا دھاندلی ہوگی؟

جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
تاریخ کے پتوں پہ ہم کو تم مردم بولانی لکھنا
گمنام ہماری قبروں پہ تم چکیں بلوچانی لکھنا
صدرجمعےة علماء ہند مولانا حسین احمد مدنی نے انگریز فوج میں بھرتی کے خلاف فتویٰ دیا ،انگریز جج نے عدالت میںپوچھا کہ آپ نے یہ فتویٰ دیا ؟۔ مولانا نے کہا : ہاں، اب بھی دیتا ہوں، آئندہ بھی دیتا رہوں گا۔ مولانا محمد علی جوہر پاؤں میں پڑگئے کہ اپنا فتویٰ واپس لو۔ جج نے کہا کہ پتہ ہے کہ اس کی سزا کیا ہے؟، بغاوت میں موت کی سزا دے سکتا ہوں۔ مولانا حسین احمد مدنی نے کہا کہ مجھے پتہ ہے ۔اگر تم مجھے لٹکادوتو میں دیوبند سے نکلتے ہوئے کفن ساتھ لایا ہوں۔ مولانا جوہر نے کہا
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لئے ہے
کیا غم ہے اگر ساری خدائی ہو مخالف
کافی ہے اگر ایک خدا میرے لئے ہے
مولانا حسین احمد مدنی اپنے استاذ شیخ الہند مولانا محمود الحسن کیساتھ1920میں مالٹا کی جیل سے رہا ہوکر آئے تھے۔ وہ مقدمہ میں مطلوب نہ تھے ،اپنی خوشی سے استاذ کیساتھ گئے۔
مولانا مدنی نے کہا کہ قوم وطن سے بنتی ہے تو اقبال نے کہا کہ ” یہ دیوبند کا حسین احمد ا بولہب ہے”۔نبی ۖ عربی تھے ۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر
انگریز ”لڑاؤ اور حکومت کرو” پر عمل پیرا تھا۔مشرقی بنگال کو الگ انتظامی صوبہ بنایا توہندو نے برا منایا۔ نواب وقار الملک نے1906میں آل انڈیا مسلم لیگ بنائی ۔ سر آغا خان کو صدر بنادیا۔ قائداعظم نے ہندیوں کو برطانیہ کی طرح انسانی حقوق دلانے کیلئے کانگریس میں شمولیت اختیار کی اور سقوطِ خلافت کے بعد بحالی خلافت کیلئے ہندؤں نے مسلمانوں کا ساتھ دیا۔ علامہ اقبال نے خطبہ الہ آباد1930میں انگریز سے مطالبہ کیا کہ” مسلمانوں کو خود مختار صوبے دو”۔1947میں مشرقی بنگال کا صوبہ پاکستان اور موجودہ پاکستان معروضِ وجود میں آیا تو ہندوستان کے تین ٹکڑے ہوگئے۔ سندھ میں5قومی اسمبلی کے ممبر تھے۔GMسید نے قراردادِ پاکستان پیش کی جو 2 کے مقابلے میں3سے پاس ہوگئی۔ صوبہ سرحد میں کانگریس کی حکومت تھی اور مکران کے ممبر میرغوث بخش بزنجو کمیونسٹ پارٹی کے تھے۔جو بلوچستان کا الحاق ہندوستان سے چاہتے تھے۔ جبکہ خیر بخش مری کے دادا خیر بخش مری نے1916میں بلوچ قوم کی انگریز کی فوج میں بھرتی کی مخالفت کی تو انگریز سے مل کر خان آف قلات نے ان بلوچوں کے خلاف سخت اقدام کیا۔
قائداعظم اور قائد ملت لیاقت علی خان نے پاکستان بنایا مگر اپنا وطن ہندوستان قربان کرکے۔ پاکستانی قومیت بنائی مگر ہندوستانی قومیت کو ذبح کرکے۔ انگریز برصغیر پاک و ہند کی مٹی اور قوموں کا دشمن تھا۔ انگریز گیا تو ریاستی ڈھانچہ وہی رہا اور ہندوستان کی سیاسی قیادت نے وطن اور قوم سے محبت کی۔ مگرہماری سیاسی قیادت نے مٹی اور قوم سے محبت کرنے والوں کو انگریز کی طرح غدار قرار دیا۔ پشتون اور بلوچ قوم پرستوں کو جیلوں میں بند رکھا اور بندوقوں کی گولیوں کا نشانہ بنایا۔ حبیب جالب نے بہت انقلابی اشعار گائے مگرریاست کے ملازمین کو اپنی ڈیوٹی اور تنخواہ سے کام تھااور پنجابی عوام کو نہیں جگاسکے۔
قائداعظم و قائدملت سے سکندر مرزا تک جتنے گورنر جنرل اور وزیراعظم گزرے ، جمہوریت ڈھونگ تھی۔پھر جنرل ایوب نے قبضہ کیا تویہ پہلا باوردی عوامی الیکشن تھا۔ باچا خان، غوث بخش بزنجو،مولانامودودی سب نے فاطمہ جناح کا ساتھ دیا ۔1970الیکشن میں اکثریت کو حکومت دینے سے انکار ہوا، جس سے ملک ٹوٹا۔بیگم راعنا لیاقت علی کو تحفے میں پیرس کے اندر مکان ملا تو پاکستان کو دیا۔اب ریاست جذبہ حب الوطنی، قوم پرستی ، جمہوریت، دیانتداری سے عاری چاروں شانوں چت ہونے کے بجائے حقائق کو دیکھے۔سارا ملبہ سیاستدانوں اور فوج پر ڈالنے کے بجائے قوم اپنے اجتماعی ضمیر کو جگائے۔
نہرو کو امریکہ نے بلایااورامریکی بلاک میں شمولیت کی دعوت دی جو نہرو نے مسترد کردی اور غیر جانبدار ی کا فیصلہ کیا۔ لیاقت علی خان کو دعوت نہیں ملی تو روس کو چٹھی بھیجی کہ مجھے بلاؤ۔ روس نے بلایا تو امریکہ نے بھی دعوت دی، قائدملت نے روس کو چھوڑ کر امریکہ کی دعوت قبول کی اور بلاک کا حصہ بن گئے۔
نوازشریف نے کوئٹہ سے سی پیک کا روٹ چھین لیا۔ آرمی چیف کی ملازمت اسکی رہین منت ہے مگر پنجاب کا اعتماد کھو دیا۔ بلوچ کی مٹی سے وفاکووہ فوجی و سیاسی قیادت نہیں سمجھ سکتی جو اپنی مٹی چھوڑ آئی ۔جنرل عاصم منیر اور نواز شریف دونوں کی جو پاکستان سے محبت ہوسکتی ہے وہ وطن اور قومیت کی بنیاد پر نہیں ہوسکتی۔ اسلئے کہ دونوں کا تعلق بھارتی پنجاب سے ہے۔ جب ان کے آباو اجداد نے پنجاب اور ہندوستان کو تقسیم کردیا تو پھر کس طرح پاکستان کی مٹی اور قومیت سے فطری طور پر محبت رکھ سکتے ہیں؟۔ یہ نہیں سمجھتے کہ سندھ ، بلوچستان ، پختونخواہ ، کشمیر اور پنجاب کے جن لوگوں نے اپنے وطن ، مٹی اور قومیت کی کوئی قربانی نہیں دی ہے ان کے جذبات کیا ہیں؟۔ ایک ہجڑے کو ماں باپ کی بچوں سے محبت کا جس طرح سے ادراک نہیں ہوتا اسی طرح یہ لوگ بھی وطن اور مٹی کی محبت کے احساسات سے محروم ہیں۔ یہی حال قائد اعظم محمد علی جناح، قائد ملت لیاقت علی خان اور انگریز کی ریاست میں ملازمت کرنے والے فوجی اور سول ملازمین کا شروع سے ہے۔ اس لئے انہوں نے ہمیشہ آزادی کے مجاہدین غفار خان ، میر غوث بخش بزنجو، عطاء اللہ مینگل ، خیر بخش مری ، فیض احمد فیض اور حبیب جالب کا جذبہ کبھی نہیں سمجھا۔ جب ان لوگوں نے مادر ملت فاطمہ جناح کی حمایت کی تو جنرل ایوب خان نے اس کو بھی غدار قرار دیا تھا۔
جس لا الہ الا اللہ کے نام پر ملک بنا تھا اس لا الہ الا اللہ کے نام لیوا مذہبی طبقات نے قرآن و سنت کا بیڑہ غرق کیا ہے تو پھر فوجی و سول بیروکریسی اور سیاسی جماعتوں کے قائدین کا بھی کیا قصور تھا؟۔ جب نواز شریف کیخلاف خلائی مخلوق استعمال ہوئی تو ہم نے غلط قرار دیا تھا اور نواز شریف کیلئے سارا نظام استعمال ہورہا ہے تو بھی یہ انتہائی قابل مذمت اور خطرناک ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ فروری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

پاک ایران جنگ اور اس کا خاتمہ ہوا؟

پاک ایران جنگ اور اس کا خاتمہ ہوا؟

ایران نے پاکستان پر حملہ کیا، پاکستان نے جوابی حملہ کیا۔ سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان نے میڈیا پرواضح بتادیا کہ ”ایران نے کافی عرصہ سے صبر وتحمل کا مظاہرہ کیا ہوا تھا، آخر میں مجبور ہوکر یہ قدم اٹھایا اسلئے کہ امریکہ و اسرائیل نے ایران کیخلاف پاکستان میں اپنے ایجنٹ پال رکھے ہیں۔ جو دہشت گردانہ کاروائیاں کرتے ہیں۔ ایران نے پاکستان، عراق اور شام پر حملہ کرکے امریکہ واسرائیل کو پیغام دیدیا کہ ایران کس حد تک جاسکتا ہے؟”۔ عمران خان کیساتھDGISIحافظ سید عاصم منیر ایران کے دورے پر گیا تھا تو وہاں عمران خان نے کھلی بات کی کہ ”ہماریISIنے تمہارے خلاف اور تم نے ہمارے خلاف دہشت گردیاں کی ہیں اور یہ آئندہ نہیں ہونا چاہیے”۔ عمران خان نےARYنیوز پر کاشف عباسی کو بتایاتھا کہ ”سپاہ صحابہ کے لوگوں نے کہا کہ شیعوں سے ہماری دوستی کراؤ۔ISIنے ہمیں انکے خلاف استعمال کرکے ہماری دشمنی بنارکھی ہے”۔
اسلام آباد میں مولانا مسعود الرحمن عثمانی کے قاتل پکڑے گئے اور ایران میں دھماکے اور پولیس اہلکاروں پر حملے کا بدلہ شام ، عراق اور پاکستان سے لیاگیا۔ پاکستان نے جواب میں بلوچ سرمچاروں کو نشانہ بنایا؟۔ تعجب ہے کہ دہشت گرودں کے خلاف کاروائی کی جگہ تک میڈیا کو رسائی نہیں دی جاتی ۔ پہلے پشتونوں کو دہشت گردی کے نام پر تباہ کیا گیا اور اب بلوچ بھی دو طرفہ کاروائیوں کا نشانہ بن رہے ہیں؟۔ پاکستان اور ایران تیل ، گیس ، تجارت اور راہداری کیلئے اچھا ماحول نہیں بناسکتے مگر بھارت ، اسرائیل اور امریکہ کی جنگ یہاں لڑی جارہی ہے؟۔
کچھ تجزیہ کاروں نے کہا کہ اسرائیل نے بھارت کو اکسایا اور مقصد پاکستان وایران جنگ تھا۔ ہمارے ٹانک شہر میں ایک پاگل تھا جس کو ”لیوان ” کہتے تھے ۔ اس کو کوئی پیچھے سے چھیڑتا تووہ سامنے والے پر حملہ کردیتا تھا”۔ مسلم ریاستوں کے نااہل حکمرانوں کا بھی حال لیوان والا بن گیا۔ کچھ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ عمران خان کو اسلئے ہٹادیا گیا کہ امریکہ پاکستان کو ایران اور افغانستان سے لڑانا چاہتاہے۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ یہ آگ تمہارے گھروں تک بھی پہنچ سکتی ہے جس میں بلوچ اور پشتون کو عرصہ تک تباہ وبرباد کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ فروری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

آواز آئی کہ تمہاری طلاق نہیں ہوئی ،قرآن کھول کردیکھ لو!

آواز آئی کہ تمہاری طلاق نہیں ہوئی ،قرآن کھول کردیکھ لو!

مفتی اکمل ، مفتی کامران شہزاد ، جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی اور دار العلوم کراچی وغیرہ سے فون کرکے فتویٰ پوچھ لیا
جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی اور مفتی کامران شہزاد نے کہا کہ رجوع کرلو اور دارالعلوم کراچی نے کہا کہ نہیں ہوسکتا۔

محمد خرم رحیم یار خان نے بیگم کو طلاق دی۔ اس نے خواب دیکھاکہ ”آواز آئی ،تمہاری طلاق نہیں ہوئی۔ قرآن سورہ بقرہ آیت228کھول کر دیکھ لو۔ آنکھوں کے سامنے قرآن کھلا دکھائی دیا اور آیت228البقرہ کو دیکھا ” تسلی ہوگئی مگر مختلف مدارس و علماء سے رابطہ کیا۔ خرم صاحب کو جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی اور مفتی کامران شہزاد سے فون پر رجوع کا فتویٰ مل گیا۔ دارالعلوم کراچی سے رجوع کا فتویٰ نہ ملا ۔ مفتی تقی عثمانی اور مفتی رشیداحمد لدھیانوی نے کراچی اور حیدر آباد کے کوؤں کو کھانا جائز قرار دیا تھا۔ اگر انکے مدارس میں کو ؤں کا گوشت کھلایا جائے اور رقم فلسطین کو بھیج دی جائے تو بڑاشعوری انقلاب آجائے گا۔ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر نے لکھا کہ میزان بینک کا سود حرام ہے۔ مزدور بھی گدھے کا گوشت نہ کھائے گا۔
دورجاہلیت میں بیوی سے کوئی کہتا تھا کہ”3طلاق” توپھر اس کو حلالہ کرنا پڑتا تھا۔یہ غصے اور غضب کی حالت میں انتہائی ملعون عمل تھا۔ نبی ۖ نے اس پر اللہ کی لعنت فرمائی تھی اور اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت228میں اس کا خاتمہ کردیا تھا۔
المطلقٰت یتربصن بانفسھن ثلاثة قروء …… وبعولتھن احق بردھن فی ذٰلک ان ارادوا اصلاحًا ”طلاق والی عورتیں3ادوار (طہرو حیض) تک انتظار کریں… اورانکے شوہر اس میں اصلاح کی شرط پر رجوع کے زیادہ حقدار ہیں”۔ (سورہ البقرہ آیت228)حنفی مسلک کا بنیادی تقاضا یہ تھا کہ شوہرکو عدت میں صلح کی شرط پر رجوع کا فتویٰ دے دیتے۔اسلئے کہ جب اللہ تعالیٰ نے بہت واضح الفاظ میں رجوع کو صلح و اصلاح کی شرط پر عدت کے تینوں ادوار میں جائز قرار دے دیا تو پھر اس کے بعد قرآن کی کوئی ایسی آیت بھی نہیں ہوسکتی تھی کہ صلح و اصلاح کی شرط کے باوجود بھی عدت میں رجوع کا راستہ روکے ،اسلئے کہ قرآن میں تضاد نہیں ہے۔
بڑی زبردست بات یہ تھی کہ قرآن کی اس آیت228البقرہ نے صرف حلالہ کی لعنت کو ختم نہیں کیا ہے بلکہ عدت کے اندر بھی صلح و اصلاح کی شرط کے بغیر رجوع کا راستہ بھی روکا ہے۔ کیونکہ دورِ جاہلیت میں ایک طرف حلالہ کی بھی لعنت تھی تو دوسری طرف شوہر کو بھی عدت میں رجوع کی اجازت تھی۔اللہ تعالیٰ نے جاہلیت کی دونوں رسموں کو اس آیت میں بالکل ختم کرکے رکھ دیا تھا۔
پروفیسر احمد رفیق اختر نے کہا کہ امام باقر نے فرمایا کہ قرآن کی ہر آیت کا ایک ظاہر ہے اور پھر ایک ظاہر ہے۔ ایک باطن ہے اور پھر ایک باطن ہے۔
آیت228البقرہ کاایک ظاہرتو یہ ہے کہ ” طلاق کے بعد عورتوں کی عدت کے3ادوار ہیں یا پھر اگر حمل ہو تو حمل اس کی عدت ہے اور اس میں شوہروں کو انکے لوٹانے کا زیادہ حق ہے بشرط یہ کہ اصلاح چاہتے ہوں”۔
دوسرا ظاہر یہ ہے کہ ” دورِ جاہلیت کا مسئلہ تھا کہ ایک ساتھ3طلاق کے بعد رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔اس آیت سے اس جہالت کا خاتمہ کردیا اور یہ بھی مسئلہ تھا کہ عدت میں شوہر جتنی بار چاہتا تھا تو رجوع کرکے عورت کو ستا سکتا تھا اس جاہلیت کو بھی ختم کردیا اور بیوی کی رضامندی کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا”۔
اس آیت کا ایک باطن یہ ہے کہ ” جب حضرت عمر نے ایک ساتھ3طلاق پر رجوع نہ کرنے کا فیصلہ کیا تو وہ بالکل ٹھیک تھا اسلئے کہ بیوی رجوع کیلئے راضی نہیں تھی ۔ لیکن حضرت عمر کے اس فیصلے کے دفاع میں قرآن سے دوری کی وجہ سے حضرت عمر کے عقیدتمندوں نے یہ مراد لیا کہ باہمی رضامندی سے بھی پھر رجوع نہیں ہوسکتا۔ جس کی وجہ سے حلالے کی لعنت کا دروازہ کھل گیا ہے”۔
اس آیت کا دوسرا باطن یہ ہے کہ ” اگر بیوی راضی نہ ہو تو پھر شوہر رجوع کا حق نہیں رکھتا ہے ۔ شیعہ حضرت عمر کے بغض کی وجہ سے گمراہی کا شکار ہوں گے اور وہ عورت کی رضامندی کے بغیر بھی شوہر کو رجوع کا حق دیں گے”۔
اگر قرآن کے ظاہر اور باطن کا ادراک کرتے ہوئے شیعہ سنی قرآن وسنت کی طرف رجوع کریں گے تو دونوں گمراہی سے نکل جائیں گے۔ قرآن میں شبہ نہیں ہے لیکن احادیث کی روایات100سال بعد لکھی گئی ہیں۔ دونوں طبقات نے قرآن کو چھوڑ کر اپنی اپنی مسلکانہ روایات کو بھی بالکل گمراہی کی بنیاد پر لیا ہے اور اس سے چھٹکارہ پانے کیلئے فرقہ واریت کو چھوڑ کر انسانیت کو اپنانا ہوگا۔
جو آیت جس مقصد کیلئے نازل ہو۔ اگر اس کو اپنے محور سے ہٹادیا جائے تو پھر معاملات بگڑ جاتے ہیں۔ حلالہ کے خاتمے کیلئے آیت228البقرہ ہے اور اس میں طلاق کے بعد باہمی اصلاح کے بغیر رجوع کا دروازہ بند ہونا بھی شامل ہے۔ دیگر آیات اور احادیث بھی اس کو سپورٹ کرتی ہیں۔ اکٹھی تین طلاقوں کا تصور حلالہ کیلئے خطرناک تھا اسلئے عدت میں باہمی اصلاح سے رجوع کا دروازہ کھول دیا تو اب حلالہ کیلئے راستہ نہیں بن سکتا تھا۔ حضرت عمر نے حلالہ کی لعنت کا دروازہ کھولنے کیلئے اکٹھی تین طلاق پر رجوع کا فیصلہ نہیں کیا بلکہ عورت رجوع کیلئے راضی نہ تھی تب یہ فیصلہ کیا تھا۔ حضرت عمر نے فتویٰ نہیں دینا تھا بلکہ فیصلہ کرنا تھا ۔ فیصلہ فریقین کی رائے سن کر کیا جاتا ہے اور حضرت عمر نے عورت کے حق میں قرآن کے مطابق فیصلہ کیا تو یہ فاروق اعظم کے اعزاز کو باقی رکھنے کیلئے تھا۔ کچھ عرصہ قبل بنوں پختونخواہ میں ایک شخص نے دوبئی سے بیوی کو فون پر3طلاقیں دیں اور پھر پشیمان ہوا۔ مولوی سے فتویٰ لیکر شوہر کے بھائی نے عورت کو زبردستی سے حلالے پر مجبور کیا تو عورت نے کیس کردیا جس کی وجہ سے مولانا صاحب کو بھی جیل میں بھیج دیا گیا تھا۔ حضرت عمر نے اسلئے واضح کیا تھا کہ اگر حلالے کی خبر مل گئی تو اس پر حد جاری کروں گا کہ مرد زبردستی بھی کرسکتے تھے۔
جب شیعہ عورت کو مرحلہ وار شیعہ مسلک کے مطابق طلاق مل جائے اور پھر کچھ عرصہ بعد دونوں کا پروگرام بن جائے کہ آپس میں رجوع کرلیں تو قرآن نے حلالہ کے بغیر رجوع کی اجازت دی ہے ۔ شیعہ کو بھی میں نے حلالہ کی لعنت سے بچایا ہے۔ شیعہ بھی اعلان کردیں کہ جب آیت231اور232البقرہ اور آیت2سورہ طلاق میں عدت کی تکمیل کے کافی عرصہ بعد بھی باہمی رضامندی سے رجوع کی اجازت ہے تو بالکل کرسکتے ہیں۔ فقہ جعفریہ والوں نے دوسروں کی دیکھا دیکھی مسائل گھڑ لئے ہیں۔ اگر ان کے ائمہ نے بھی ماحول میں اجتہاد کیا ہے تو سورہ مجادلہ سے رہنمائی لیکر اس کو غلط قرار دے سکتے ہیں۔
قرآن کے مقابلے میں حنفی اور جعفری کسی مسلک کی کوئی حدیث یا روایت ہے تو وہ من گھڑت اور باطل ہے۔ ایران اور سعودی عرب کے علاوہ دنیا بھر کے مسلمان ایک دوسرے کیساتھ حق اور قرآن کیلئے اکٹھے ہوسکتے ہیں۔ اسرائیل و امریکہ نے فرقہ واریت کی آگ بھڑکاکر شیطان ہونے کا ثبوت دینا ہے۔ اتنا تو سورہ طلاق میں بھی واضح ہے کہ ” اگر عدت کے مطابق مرحلہ وار تین مرتبہ طلاق دے دی تو بھی عدت کی تکمیل کے بعد معروف طریقے سے رجوع یا معروف طریقے سے الگ کرنا ہوگا اور اس پر دوعادل گواہ بھی مقرر کرنے ہوں گے”۔ جس سے شیعہ اور سنی دونوں کا طریقہ طلاق باطل ہوجاتا ہے اسلئے کہ شیعہ مرحلہ وار گواہوں کو مقرر کرکے عدت کی تکمیل کے بعد رجوع کی گنجائش نہیں چھوڑتے اور سنی طلاق میں بدعت کے نام سے عدت میں بھی رجوع کی گنجائش نہیں بنتی۔
یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ طلاق اور خلع میں حقوق کا فرق ہے ۔ طلاق شوہر دیتا ہے تو اگر ایک طلاق غلطی سے یا مذاق میں بھی دیدی تو اگر عورت راضی نہیں ہے تو پھر شوہر کو رجوع کا حق نہیں ہے ۔ پھر یہ طلاق ہے اور طلاق کی عدت تک عورت کو انتظار کرنا پڑے گا۔ اگر شوہر نے راضی کرلیا تو ٹھیک نہیں تو وہ پھر جہاں چاہے شادی کرسکتی ہے۔ پھر اس کو طلاق کے مالی حقوق بھی ملیں گے لیکن اگر شوہر نے طلاق دی اور عورت نہیں چاہتی تو پھر عدت میں رجوع ہوسکتا ہے اور عدت کی تکمیل کے بعد بھی۔ قرآنی آیات کو پڑھ لیں سب سمجھ میں آئے گا۔ اگر عورت خلع لینا چاہتی ہے تو اس کو بالکل اجازت ہے لیکن اس کے مالی حقوق پھر کم ہوں گے۔ خلع کی عدت بھی ایک ماہ ہے۔ سورہ النساء آیت19دیکھ لیں اور اس میں عورت کو شوہر کی ان چیزوں کا بھی حقدار قرار دیا گیا جسے ساتھ لے جاسکتی ہے۔ اس آیت کا ترجمہ اس بات کیلئے بہت کافی ہے کہ علماء نے تفسیر کے ذریعے اس پر کس طرح سے ٹوکا چلایا ہے۔ خلع میں گھر اور غیر منقولہ جائیداد سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ اس بات کا امکان ہے کہ عورت جھوٹا دعویٰ کرے کہ مجھے طلاق دے دی گئی ہے تو چونکہ اس میں مالی معاملے کا عمل دخل ہے۔ عورت کی نیت میں فرق آسکتا ہے کہ خلع لینا چاہتی ہو اور طلاق کا دعویٰ کرے۔ اسلئے اس میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ عورت گواہوں کو پیش کرے ۔ اگر اس کے پاس گواہ نہیں ہوئے تو شوہر حلف اٹھائے گا کہ اس نے طلاق نہیں دی ہے۔ پھر طلاق کی ڈگری جاری نہیں ہوگی ۔ عورت کو خلع کے مالی حقوق ملیں گے۔
اگر شوہر کہے کہ مذاق میں طلاق دی تھی اور عورت رجوع پر راضی نہیں ہو تو پھر بھی عورت کو طلاق کے مالی حقوق ملیں گے ۔اسلئے کہ طلاق میں مذاق معتبر ہے۔البتہ اگر عورت صلح کیلئے راضی ہو تو پھر طلاق مذاق میں ہو سنجیدگی میں اس سے رجوع ہوسکتا ہے۔ قرآن ، احادیث اور صحابہ کرام میں کوئی اختلاف نہیں ۔ نبی کریم ۖ نے کسی کو بھی رجوع سے منع نہیں کیا ہے۔ صحیح بخاری کی روایت کا کمال ہے کہ غلط فہمیوں کے پہاڑ کھڑے کردئیے گئے ہیں۔
صحیح بخاری نے ایک ساتھ تین طلاق کے جواز پر باب باند ھ کر لکھ دیا ہے کہ ”من اجاز طلاق ثلاث ”جس نے تین طلاق کو ایک ساتھ جائز قرار دیا اور پھررفاعة القرظی کی بیوی کا واقعہ نقل کیا ہے کہ اس کو شوہر نے تین طلاقیں دیں اور پھر اس نے زبیرالقرظی سے نکاح کیا اور نبی ۖ کو اپنے دوپٹے کا پلو دکھا کر کہا کہ میر ے شوہر کے پاس ایسی چیز ہے۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ کیا آپ رفاعہ کے پاس جانا چاہتی ہو۔ آپ نہیں جاسکتی یہاں تک کہ وہ تیرا ذائقہ چکھ لے اور آپ اس کا ذائقہ چکھ لیں”۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ طلاق ایک ساتھ تین دی تھیں اور یہ بھی کہ حلالہ کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا ؟۔
جب زبیرالقرظی نامرد تھا تو نامرد میں حلالے کی جب صلاحیت نہیں ہوتی ہے تو مفتی تقی عثمانی دے تو دے کوئی اور یہ فتویٰ نہیں دیتا۔ پھر نبی ۖ کیسے اس طرح کا فتویٰ دے سکتے تھے؟۔ لوگوں کے ذہن میںیہ بات بیٹھ گئی ہے کہ نبی ۖ کے وقت میں حلالے کا دھندہ موجود تھا؟۔ توبالکل غلط ہے۔
جب اللہ نے حلالہ کی لعنت کو ختم کرنے کیلئے آیات بھی نہیں اتاری تھیں تو نبی ۖ نے حلالہ کرنے اور کرانے والے پر لعنت فرمائی تھی۔ قرآن کی آیات اترنے کے بعد تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ حلالہ کی لعنت میں ملوث ہونے کا حکم دیا جاتا۔اسلئے حقائق کو سمجھ کر قبول فرمائیے ورنہ خیر نہیں ہوگی۔
بخاری میں یہ واضح ہے کہ زبیرالقرظی نے الگ الگ تین طلاقیں دی تھیں اور یہ بھی ہے کہ زبیر القرظی نے نبی ۖ کے سامنے کہا تھا کہ یہ میرے بچے ہیں اور مجھ میں اتنی مردانگی ہے کہ اس کی چمڑی ادھیڑ کر رکھ دیتا ہوں ۔ یہ جھوٹ بولتی ہے کہ میں نامرد ہوں۔ اگر بخاری کی ان تینوں روایات کو دیکھا جائے تو حلالہ کا ادھار کھائے بیٹھے رہنے والوں کے خواب خاک میں مل جاتے ہیں۔ بخاری کی امام ابوحنیفہ سے نہیں بنتی تھی اسلئے امام شافعی کی حمایت میں اس حلالے والی غلط روایت کو غلط جگہ پر پیش کردیا۔ امام شافعی نے خود اس روایت کو ایک ساتھ تین طلاق کیلئے دلیل نہیں قرار دیا۔ بخاری نے مدعی سست گواہ چست کا کام کیا ہے۔ تینوں احادیث عوام کے سامنے لائی جائیں تو علماء ومفتیان کیلئے ٹھیک ہوگا۔
جہاں تک لعان کے بعد عویمر عجلانی کی طرف سے اکٹھی تین طلاق والی روایت ہے جس کا بخاری میں ذکر اور امام شافعی کی بھی یہی دلیل ہے تو قرآن میں فحاشی کی صورت میں عدت کے اندر بھی گھر سے نکالنے کی اجازت ہے۔ اس روایت سے یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ نبی ۖ نے رجوع سے روک دیا تھا۔ اور اکھٹی تین طلاق کے حوالے سے آخری روایت یہ ہے جو امام ابوحنیفہ و امام مالک کے نزدیک ایک ساتھ تین طلاق دینے کیلئے گناہ اور عدم جواز کی دلیل ہے۔ محمود بن لبید سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ۖ کو خبر دی کہ فلاں نے اپنی بیوی کو3طلاقیں دیں۔ جس پر رسول اللہ ۖ غضبناک ہوکر کھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں اور تم اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیل رہے ہو؟۔ ایک شخص نے کہا کہ کیا میں اس کو قتل نہیں کردوں؟۔ اس روایت سے یہ استدلال پیش کیا جاتا ہے کہ اگر ایک ساتھ 3طلاق سے رجوع ہوسکتا تھا تو پھر نبی ۖ نے غضبناک ہونے کے بجائے رجوع کا حکم کیوں نہیں فرمایا؟۔
یہ استدلال بوجوہ غلط ہے۔ نبی ۖ نے اس حدیث سے اور زیادہ مضبوط حدیث میں غضبناک ہونے کے باوجود رجوع کا حکم فرمایا۔ بخاری کتاب التفسیر سورہ طلاق میں ہے کہ حضرت عمر نے نبی ۖ کو خبر دی کہ عبد اللہ ابن عمر نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دی ہے۔ نبی ۖ اس پر بہت غضبناک ہوگئے اور پھر عبد اللہ ابن عمر سے فرمایا کہ پاکی کی حالت میں اپنے پاس رکھو یہاں تک کہ اس کو حیض آجائے۔ پھر پاکی کی حالت کے بعد حیض آجائے اور پھر پاکی کی حالت میں چاہو تو رجوع کرلو اور چاہو تو ہاتھ لگانے سے پہلے اس کو چھوڑ دو۔ یہی وہ عدت ہے جس میں اللہ نے اس طرح طلاق دینے کا حکم دیا ہے۔ بخاری کی یہ حدیث کتاب الاحکام ، کتاب الطلاق اور کتاب العدت میں بھی ہے۔
غضبناک ہونے کے باوجود رجوع کا حکم فرمایا۔ اس لئے یہ استدلال غلط ہے کہ محمود بن لبید کی روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ رجوع نہیں ہوسکتا۔ محمود بن لبید کی روایت بہت کمزور ہے اسلئے امام شافعی نے اس کو ایک ساتھ3طلاق کا جواز پیش کرنے کیلئے اپنا مسلک نہیں بنایا۔ دوسری روایات سے یہ ثابت ہے کہ محمود بن لبید کی روایت میں طلاق دینے والے عبد اللہ ابن عمر اور طلاق کی خبر دینے اور قتل کی پیشکش کرنے والے حضرت عمر تھے۔ صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ حسن بصری نے کہا کہ مجھے ایک مستند شخص نے کہا کہ عبد اللہ ابن عمر نے بیوی کو3طلاقیں دی تھیں۔ پھر20سال تک کوئی دوسرا مستند شخص نہیں ملا جس نے اس کی تردید کی ہو۔20سال بعد ایک اور زیادہ مستند شخص ملا جس نے کہا کہ ایک طلاق دی تھی۔ صحیح مسلم کی اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ بخاری نے دوسرے مستند شخص کی روایت نقل کی ہے لیکن حسن بصری کے زمانے میں20سال تک جو معاملہ رائے عامہ میں بالکل مختلف تھا اور پھر اس میں تبدیلی کیسے آئی ؟۔ آئیے حقائق سمجھ لیجئے۔ حسن بصری سے صحیح بخاری میں روایت ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو حرام کہے تو جو وہ نیت کرے ۔ بعض علماء کا اجتہاد ہے کہ یہ تیسری طلاق ہے ۔ یہ کھانے پینے کی طرح نہیں کہ کفارہ ادا کرنے سے حلال ہوجائے۔
حضرت علی سے کسی نے پوچھا کہ بیوی کو حرام کہہ دیا ہے تو رجوع ہوسکتا ہے؟۔ علی نے فرمایا کہ نہیں۔ اسلئے خلفاء راشدین کے اجتہاد میں یہ لکھا ہے کہ علی حرام کے لفظ سے تیسری یا3طلاق مراد لیتے تھے۔ اور حضرت عمر ایک طلاق۔ حالانکہ ان میں حلال و حرام کا یہ اختلاف نہیں تھا۔ حضرت علی سے جس نے پوچھا تھا تو اس کی بیوی رجوع کیلئے راضی نہیں تھی اور جب رجوع کیلئے عورت راضی نہ ہو تو حرام کا لفظ یا3طلاق تو بڑی بات ہے ایلاء میں بھی رجوع نہیں ہوسکتاہے۔ جیسے نبی کریم ۖ کے حوالے سے قرآن میں وضاحت ہے۔ اسلئے حضرت عمر و حضرت علی کے مسلک، فرقے اور اجتہاد میں کوئی تفریق نہیں تھی۔ بیوی راضی ہو تو حرام کے لفظ کے باوجود رجوع ہوسکتا ہے۔ سورہ تحریم میں اس کی وضاحت ہے۔ ابن تیمیہ کے شاگرد علامہ ابن قیم نے حرام کے لفظ پر20اجتہادات لکھے ہیں۔ حالانکہ بخاری میں ابن عباس سے یہ روایت بھی ہے کہ نبی ۖ کی سیرت کا تقاضہ یہ ہے کہ حرام کے لفظ سے طلاق ، حلف، کفارہ کچھ بھی نہیں ہوتا ہے۔
سورہ تحریم اور نبی ۖ کی سیرت کو دیکھنے کے بجائے آیات کے اجتہادات کے نام پر کتنے ٹکڑے کئے گئے ہیں۔ ابن تیمیہ نے4فقہی مسالک کو4فرقے قرار دیا ہے لیکن ان کے شاگرد نے زاد المعاد میں سورہ تحریم کی آیت کو بجائے4کے مزید20ٹکڑوں میں تقسیم کردیا ہے۔ حرام کے لفظ پر خلفاء راشدین کے4مسالک اوراماموں کے4مسالک کے علاوہ دیگر فقہاء و محدثین کے مسالک اور اجتہادات سے قرآنی آیت کو بوٹی بوٹی بنانے کا جواز ہے ؟۔ ہرگز نہیں۔
خلفاء راشدین میں حضرت عمر و حضرت علی کے اندر اتفاق تھا اور قرآن ہی کے مطابق دونوں کا فتویٰ اور فیصلہ تھا مگر بعد میں آنے والے لوگوں نے ان کی باتوںکے اصل مفہوم کو درست نہیں سمجھا اور غلطیوں پر غلطیاں کرڈالیں ہیں۔ ہماری تحریک سے اکابر صحابہ پر اعتماد بھی بڑھے گا اور قرآن کی طرف بھی لوگ آئیں گے۔ حضرت عمر نے عمرہ و حج کے احرام کو اکھٹے باندھنے پر پابندی اسلئے لگائی کہ اگر دونوں احرام کو سنت سمجھ کر بڑے اجتماع میںگرمیوں کے موسم میں باندھا جاتا تو فضاء بہت متعفن ہوجاتی۔ یہ کوئی مذہبی اختلاف نہیں تھا۔
جس اسلام کو دیکھ کر سپر طاقتیں فارس اور روم کے بادشاہوں کے پیروں سے زمین نکل گئی تو اس کی وجہ قرآن و سنت کے عام فہم قوانین تھے۔ جبکہ دوسری طرف ہمارے مسلم ممالک اور مسلمان معاشرے اسلام کی سواری پر چڑھنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ جب قرآن نے بار بار رجوع کی بات کی ہے اور ہمارے ہاں 3 طلاق کو حلالہ کیلئے لعنت کی شکل دی گئی ہے تو کون گدھے پر سواری کرسکتا ہے؟۔ وہ بھی جب پانچوں ٹانگیں اوپر کی طرف اٹھائے چت گلاٹیاں کھارہا ہو۔ مذہبی طبقات نے اگر قرآن کے اصل احکام لوگوں کو بتانے شروع کردئیے تو مسلمان حکمران ہی نہیں مغرب و مشرق اور شمال و جنوب میں تمام مذاہب اور ممالک کے لوگ اس کو اپنے اقتدار اور معاشرے میں نافذ کرنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ فروری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اگر گاڑی کوالٹا کرکے اسکے پہیے چلائیں تو پھر کیاگاڑی چلے گی؟ یہی حال قرآن کا کیا!

اگر گاڑی کوالٹا کرکے اسکے پہیے چلائیں تو پھر کیاگاڑی چلے گی؟ یہی حال قرآن کا کیا!

وقل انی انا النذیرالمبینOاور کہہ دیں کہ بیشک میں کھلا ڈرانے والا ہوں
کما انزلنا علی المقتسمینOجیسے ہم نے تقسیم کرنے والوں پر نازل کیا
الذین جعلوا القراٰن عضینOجن لوگوں نے قرآن کو بوٹی بوٹی بنادیاہے
الحجر آیت89،90،91۔ کیاقرآن کو بوٹی بوٹی کرنے والے یہ علماء ہیں ؟
وقال الرسول یاربّ ان قومی اتخذوا ھذا القراٰن مھجوراًO”اور رسول کہیں گے کہ اے میرے رب بیشک میری قوم نے اس قران کو چھوڑتے ہوئے پکڑ رکھاتھا”۔الفرقان آیت30۔ قرآن کو تھامنا ہوگا۔

جمعیت علماء اسلام بلوچستان( درخواستی گروپ) کے امیر مولانا امیر حمزہ بادینی نے ہمیں بیان دیا تواتنی سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑگیاکہ مدینہ منورہ استخارے کرنے پہنچ گئے۔ جب وہاں سے ڈٹ جانے کا حکم مل گیا تو پھر دوبارہ حمایت میں بیان دیا جس کو ماہنامہ ضرب حق میں شہہ سرخی سے لگادیا۔ بلوچستان جماعت اسلامی کے صوبائی امیر مولانا عبدالحق بلوچ نے جب ہماری حمایت میں بیان دیا تو بلوچستان کی امارت سے ہٹادئیے گئے۔ حالانکہ پروفیسر غفور ، اتحاد العلماء کے مولانا عبدالرؤف نے بھی دیا تھا۔ تمام مکاتب فکر کے بڑوں نے حمایت کی ہے۔ لیکن جماعت المسلمین پختونخواہ کے صوبائی امیر حفیظ الرحمن نے ہمیں بیان دیا کہ کھڑی گاڑی کو مسلمان ہر طرف سے دھکا لگارہے ہیں جس کی وجہ سے چل نہیں رہی ہے ۔ اگر ایک طرف سے دھکا لگادیںگے تو گاڑی چلے گی۔ قرآن و سنت اور اسلام کیلئے فرقہ پرست مسلمانوں کا یہی حال ہے۔ جس پرجماعت المسلمین نے صوبائی امارت سے بیچارے کو فارغ کیاتھا۔
اصل میںگاڑی کو الٹا کردیا گیا ہے۔ مسلمان ٹائروں کو چلاکر مست ہیں۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ گاڑی کوسب مل کر چلائیں یا انفرادی مگر جب تک یہ کلٹی پڑی ہے تو چلے گی نہیں۔ قرآن میں ان یہودی علماء کی مثال گدھوں کی دی گئی جنہوں نے تورات کومسخ کردیاتھا۔ قرآنی آیات حلالہ کی لعنت کو ختم کرنے کی تھیں ۔ احادیث اور صحابہ کے فتوؤں اور فیصلوں میں بڑی وضاحت تھی۔مگر انہوں نے پھر حلالہ کو قرآن اور حدیث سے بر آمد کیا؟ لیکن بہت بڑی غلط فہمی اور علماء کو علی الاعلان اس سے امت کی جان چھوڑناہو گی نہیں تو ہرمیدان میں چیلنج ہوں گے۔ حلالہ سے لیکرہرچیز کو الٹا کرکے رکھ دیا ۔قرآن کی تعریف، احکام سب کو بوٹی بوٹی کردیا۔حنفی کے ہاں تحریری کتاب قرآن نہیں۔ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا جائز ہے ۔ مصحف پر حلف نہیں ہوتا۔ غیرمتواتر آیات قرآن ہیں۔شافعی کے ہاں غیر متواتر آیات قرآن نہیں۔ جنابت سے نہانے کا حکم ہے جو ہرانسان سمجھتا ہے ائمہ نے فرائض گھڑ کرقرآن بوٹی بوٹی کردیا۔
قرآن میں عبادات کے احکام ہوں مثلاً غسل، وضو، نماز، حج یا معاشرت کے احکام ہوں مثلاً نکاح، ما ملکت ایمانکم کے حوالے سے مسیار و متعہ ، طلاق، خلع ، عورت کے حقوق ، یا پھر شرعی حدود کا مسئلہ ہو لعان ، حد زنا، جبری بدکاری، دو مردوں کی آپس میں بدکاری کی سزا، پاکدامن عورت پر تہمت کی سزا اور قتل کے بدلے قتل ، اعضاء کے بدلے اعضاء یا پھر معیشت کے مسائل ہوں جیسے سُود اور مزارعت وغیرہ سب کو ملیامیٹ کردیا گیا ہے۔ اگر ایک طرف قرآنی آیات و احادیث کو دیکھیں اور دوسری طرف فقہی مسالک کے نام پر ان احکام پر تقسیم اور فرقہ واریت کو دیکھیں تو نظر آئے گا کہ قرآن کیساتھ قصائیوں والا سلوک مذہبی طبقات نے کیا ہے۔ موجودہ سعودی حکومت سے پہلے خانہ کعبہ میں چاروں سنی مسالک کے مصلے بھی الگ الگ تھے۔ مسجد نبوی ۖ میں6محرابیں تھیں۔ جن میں ایک حنفی مسلک کے امام کا الگ سے محراب بھی تھا۔ یہ فرقہ بندی نہیں تو کیا ہے؟ قرآن کو بوٹی بوٹی بنادیا۔
قرآن میں اللہ نے ایک ایک چیز کی وضاحت کی فرمایا: وانزلنا الکتٰب تبیانًا لکل شئی ” اور ہم نے کتاب کو نازل کیا ہر چیز کو واضح کرنے کیلئے ”۔
نمبر1:حنفی وشافعی کا حلف کے کفارے پرلغو اختلاف۔ لایؤاخذکم بالغو فی ایمانکم ولکن یؤاخذکم اللہ بما کسبت قلوبکم واللہ غفور حلیمO”اللہ تمہیں نہیں پکڑتا تمہارے لغو عہد سے مگر جو تمہارے دلوں نے کمایا ہے۔ اللہ مغفرت والا اور برداشت والا ہے ”۔( آیت225البقرہ )
یمین عربی میں عہدوپیمان کو کہتے ہیں اور معاہدہ توڑنے کو بھی ۔البتہ یہ بھی ہوتا ہے کہ کبھی یمین سے حلف یا قسم مراد ہوتا ہے۔کفارہ حلف پر ہی ہوتا ہے۔
لایؤاخذکم بالغو فی ایمانکم ولکن یؤاخذکم اللہ بما عقدتم الایمان فکارتہ اطعام عشرة مساکین من اوسط ما تطعمون اہلیکم أو کسوتھم أو تحریر رقبة فمن لم یجد فصیام ثلاثة ایام ”ذٰلک کفارة أیمانکم اذا حلفتم” واحفظوا ایمانکم کذٰلک یبین اللہ لکم آیاتہ لعکم تشکرونO( المائدہ آیت89)
آیت میں اللہ نے واضح کیا کہ ” یہ تمہارے یمین کا کفارہ اس صورت میں ہی ہے جب تم نے حلف اٹھایا ہو”۔ اندھا بھی سمجھتا ہے کہ یمین حلف ہو تو تب کفارہ ہے ۔ یمین سے حلف مراد نہ ہوتو پھر کفارہ نہیں ہے۔ جیسے اللہ نے فرمایا: فانکحوا ماطاب لکم من النساء مثنی وثلاث ورباع وان خفتم ان لاتعدلوا فواحدہ او ماملکت ایمانکم ” پس تم نکاح کرو،جن کو تم عورتوں میں سے چاہو۔ دودو، تین تین اور چار چار اور اگر تمہیں خوف ہو کہ عدل نہیں کرسکوگے تو پھر ایک یا جن سے تمہارا عہدوپیمان ہوجائے ”۔ یہاں یمین سے معاہدہ مراد ہے حلف نہیں۔ کفارے کا بھی کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا ہے۔
اللہ نے یمین کو عہدوپیمان اور حلف کی صورتوں کو واضح کردیا تو حنفی شافعی جھگڑوں میں آیت کے حکم میں بٹوارہ اور بوٹی بوٹی کرنا بہت بڑی بدنصیبی ہے۔
سورہ مجادلہ میں60دن کے روزوں کا کفارہ متتابعات (تسلسل کیساتھ) ہے ۔ اگر حنفی مسلک اس کا حوالہ دیتے تو شافعی بھی مان جاتے مگر خبرواحد آیت کا عقیدہ قرآن میں تحریف ہے۔ عبداللہ بن مسعود نے بھی متعہ یا معاہدے کی تفسیر حدیث سے لکھ دی تھی جس کو حنفی الگ آیت مانتے ہیں لیکن متعہ کو پھر کیوں جائز نہیں سمجھتے؟۔ درسِ نظامی کی تعلیم صرف یہ نہیں کہ جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں بلکہ فقہی مسالک کے نام پرقرآن کو بوٹی بوٹی بنایا جارہاہے۔ قرآن میں استنجوں کے ڈھیلے نہیں بلکہ کائنات کو مسخر کرنے کیلئے سائنس کی دعوت ہے۔ اللہ نے قرآن کے سائنسی حکم پر عمل سے مغرب کو بلند اور مسلمان کو پست کردیا۔
مغرب نے اپنے پادریوں کے مسخ شدہ مذہب کو گرجوں تک محدود کرکے پارلیمنٹ کے ذریعے انسانی حقوق نکاح وحق مہر اور خلع وطلاق پر قانون سازی کی تو وہاں انسانی حقوق نظر آتے ہیں۔ مغرب نے ڈکٹیٹر شپ اور بادشاہت کی جگہ جمہوری نظام کے ذریعے سیاست کو فروغ دیا تو اقتدار پر زبردستی قبضہ کرنے اور انتقال اقتدار کیلئے خون خرابہ اور قتل وغارت گری کا ماحول ختم ہوگیا۔ صحیح مسلم میں حدیث ہے کہ ” اہل غرب ہمیشہ حق پر رہیںگے” ۔آج ہمارے مسلمانوں کی حکومتوں میں انسانی حقوق کی زبردست پامالی ہے اور مغربی ممالک پر رشک ہے تو اس کردار کی بدولت ہے۔ قرآن کے الفاظ محفوظ ہیں لیکن اس کے معانی اور احکام کی بوٹی بوٹی کرکے معنوی تحریف کی آخری حدیں پار کی گئی ہیں۔ مولانا انور شاہ کشمیری نے اپنی فیض الباری میں اس معنوی تحریف کا اعتراف کیا ہے۔
سورہ بقرہ آیت224میں یمین سے مراد حلف نہیں بلکہ طلاق وایلاء کیلئے مقدمہ ہے کہ اللہ کو اپنے یمین کیلئے ڈھال مت بناؤ، کہ تم نیکی کرو، تقویٰ اختیار کرو اور لوگوں کے درمیان صلح کراؤ”۔ شیطان سب سے زیادہ اس کارکردگی پر خوش ہوتا ہے کہ جب میاں بیوی کے درمیاں صلح میں کوئی رکاوٹ ڈال دے اور آج کل سب سے زیادہ مذہبی طبقہ علماء ومفتیان شیطان کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں اور میاں بیوی کے درمیاں صلح میں رکاوٹ ہیں۔
آیت225البقرہ سے حلف مراد نہیں بلکہ شوہر کا ناراضگی کیلئے کوئی بھی لفظ مراد ہے جوواضح الفاظ میں طلاق کا نہ ہو۔ اللہ نے واضح کیا کہ” لغو بات پر تمہاری پکڑ نہیں ہوگی مگر تمہارے دلوں نے جو کمایا ہے اس پر اللہ پکڑتاہے”۔دل کی اس کمائی پر پکڑنے کی وضاحت اگلی آیات226،227میں بالکل واضح ہے۔
آیت226البقرہ میں واضح کیا ہے کہ ” ان لوگوں کیلئے چار ماہ ہیں جنہوں نے اپنی عورتوں سے لاتعلقی اختیار کررکھی ہے۔ پھر اگر وہ آپس میں مل گئے تو اللہ غفور رحیم ہے”۔ پھر آیت227میں واضح کیا ہے کہ ” اگر طلاق کا عزم کیاہے تو اللہ سننے جاننے والا ہے”۔ یعنی طلاق کے عزم کے باوجود بھی طلاق کا اظہار نہ کرنا دل کا گناہ ہے جو اللہ سنتااور جانتا ہے اور اس پر پکڑتا ہے۔ اسلئے کہ طلاق کا اظہار کردیا تو عورت کو 4مہینے کی جگہ3مہینے انتظار کی عدت گزارنی پڑے گی۔ جو آیت228البقرہ میںواضح ہے۔ایک مہینے اضافی عدت گزارنے پرعورت کو مجبور کرنا دل کا وہ گناہ ہے جو طلاق کا اظہار نہ کرنے کی وجہ سے ملتا ہے۔
آیت226البقرہ میں اللہ نے ایلاء اور ناراضگی کی ”عدت” کو واضح کیا۔ طلاق کا واضح الفاظ میں اظہار نہ ہو تو پھر کتنی مدت تک شوہر کیلئے عورت کا انتظار ہے؟۔ قرآن میں4ماہ واضح ہیں۔ قرآن کا بٹوارہ کرنے والوں نے آیت226البقرہ میں4ماہ کی عدت کو عدت سے نکال دیا۔ پھر ایک طبقہ کہتا ہے کہ چار ماہ کے بعد بھی زندگی بھر عورت کو انتظار ہی کرنا پڑے گا۔ اس طبقے میں جمہور فقہاء اور علامہ ابن تیمیہ اوراس کے شاگرد ابن قیم شامل ہیں۔ جبکہ حنفی کہتے ہیں کہ چار ماہ بعد طلاق پڑگئی۔ اس آیت کی بوٹیاں ان لوگوں نے ہوا میں اچھال دیں ہیں۔ ایک عورت چار ماہ بعد بدستور خود کو ایک شخص کے نکاح میں مقید سمجھے گی اور دوسری طرف وہ سمجھے گی کہ نکاح سے نکل چکی ؟۔ یہ عورت اور اللہ کے کلام قرآن کیساتھ بہت بڑا گھناؤنا کھلواڑ ہے جو فقہاء ومحدثین نے کردیاہے ۔ جب دنیا کو قرآن کا صحیح پیغام پہنچے گا کہ ناراضگی میں عورت کی عدت چار ماہ ہے تو بڑامعاشرتی انقلاب برپا ہوگا۔ شوہر اپنی بیویوں کی حق تلفی نہیں کریںگے۔
قرآن کو بوٹی بوٹی کرنے کی بہت مثالیں ہیں۔ اللہ نے وضو میں سر کے مسح کا حکم دیا۔ ومسحوابرء و سکم ”اورسروں کا مسح کرو” ۔ حنفی کے نزدیک سر کے ایک چوتھائی کا مسح فرض ہے اسلئے کہ ب الصاق یعنی ہاتھ لگانے کیلئے ہے۔ شافعی کے نزدیک ایک سر کے بال کا مسح کرنے پر فرض پورا ہوگا ۔ب بعض کیلئے ہے۔ مالکی کے نزدیک پورے سر کا مسح فرض ہوگا ایک بال رہ جائے توبھی فرض پورا نہیں ہوگا۔ اسلئے ب زائدہ ہے۔ حالانکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ جب چہرہ بھی دھویا جائے ، ہاتھ کہنیوں اور پیر ٹخنوں تک دھوئے جائیں تو سر پر ہاتھ پھیرنا بھی فطری بات ہے۔ جہاں تک اس کے ڈھکوسلہ فرائض اور بدعات کا تعلق ہے تو اللہ نے تیمم کی آیت میں ان کے چہروں پر کالک مل دی ہے اسلئے کہ اس ب کا استعمال کرتے ہوئے فرمایا : ومسحوا بوجوھکم ”اور چہروں کو مسح کرو”۔ اس میں تو بال برابر اور ایک چوتھائی کی تقسیم نہیں ہوسکتی ہے۔ مفتی محمد شفیع نے لکھا کہ مولانا انورشاہ کشمیری نے فرمایا کہ ”میں نے قرآن وسنت کی کوئی خدمت نہیں کی بلکہ اپنی ساری عمر ضائع کردی کیونکہ فقہ کی وکالت کی ہے”۔ مفتی محمدشفیع دارالعلوم کراچی سے قرآن وسنت کی خدمت چاہتے تھے تو پھر درس نظامی کی یہ تعلیم کیوں رائج کردی جس کی مولانا انورشاہ کشمیری نے آخرمیں مخالفت کی؟۔
مولانا یوسف بنوری نے مدرسہ ایک انقلاب کیلئے بنایا تھا اور اللہ نے مجھے وہاں تعلیم کیلئے ایک طالب علم کی حیثیت سے ڈال دیا تو ان کی خواہش بھی پوری ہوگئی۔ ہمارے مرشد حاجی محمد عثمان ان کے دوست تھے۔ کچھ لوگوں نے پیسوں کی خاطر اپنا دین ایمان بیچ کر حاجی عثمان پر فتوے لگائے اور کچھ نے مولانا محمد بنوری کو شہید کرکے ظلم کی انتہاء کردی۔ دین فروش اور ظالموں سے اللہ دین کی خدمت کا کام نہیں لیتاہے۔ قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کرنیکی عمدہ مثالیں یہ ہیں کہ
سورہ بقرہ کی آیت228میں اللہ نے واضح کیا ہے کہ ” طلاق والی عورتیں تین ادوار تک انتظار کریں……. اور ان کے شوہر اس میں ان کو اصلاح کی شرط پر لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں”۔ ٹوکے والی سرکار حضرت نے پہلا وار یہ کیا ہے کہ شوہروں سے زیادہ مولوی کے فتوے کا حق ہے۔ دوسراوار یہ کردیا کہ طلاق رجعی ہو تو شوہر کو دومرتبہ رجوع کا غیرمشروط حق حاصل ہے۔ یعنی اللہ نے ایک دفعہ بھی صلح کے بغیر رجوع کا حق نہیں دیا اور ٹوکے والی سرکار2دفعہ رجوع کا حق دیتی ہے۔ اگلی آیت229البقرہ میں دو مرتبہ طلاق کیساتھ رجوع کیلئے معروف کی شرط ہے۔اللہ تو اپنی کتاب میں تضادات کا شکار نہیں ہے کہ ایک آیت میں عدت کے اندر اصلاح کی شرط پر رجوع کا حق دے دیا اور دوسری آیت میں پھر اس سے چھین لیا کہ ایک نہیں دومرتبہ غیرمشروط کرسکتے ہو؟۔ قرآن پر تیسراوار یہ کردیاکہ ایک ساتھ تین طلاق دئیے تو عدت میں رجوع کا حق باہمی اصلاح سے بھی ختم ہوگیا، اب حلالہ کرنا پڑیگا۔ چوتھا وار یہ کہ اللہ نے3ادوار تک انتظار کا حکم دیا تھا جس سے ایک عدت بنتی تھی مگر مولوی نے دو دفعہ طلاق رجعی کا حق دیا اور شوہر کو تین عدتوں کا حق دے دیا۔ ایک بار طلاق دی اور عدت کے آخری لمحے میں رجوع کرلیا، پھر دوسری بار طلاق دی ،پھر عدت کے آخرمیں رجوع کیا اور پھر طلاق دی تو عورت کی تین عدتیں گزارنی پڑیں گی۔ علاوہ ازیں اگر عورت کو ایک یا دو طلاق دیکر فارغ کردیا اور پھر اس نے کسی اور شوہر سے نکاح کیا اور وہاں سے طلاق ہوگئی تو سوال یہ پیدا ہوگا کہ نئے سرے سے پہلاشوہر3طلاق کا مالک ہوگا یا پھر جو پہلے سے ایک یا دو طلاق موجود ہیں اسی کا مالک ہوگا؟۔ اس پر امام ابوحنیفہ وجمہور کا بھی اختلاف ہے اور احناف کا آپس میں بھی؟۔ اگر ایک عورت کو10اشخاص ایک ایک طلاق دیکر فارغ کریں تو ان سب کی جیب میں اس عورت کی2،2طلاق کی ملکیت کا بھی پروانہ ہوگا۔ قرآن کو بوٹی بوٹی کیا تو یہ لوگ شیخ چلی سے بھی بدتر ہوگئے ہیں۔ ہمیں جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی سے عقیدت ومحبت اسلئے ہے کہ زمانہ طالب علمی میں علماء حق نے نصاب کے خلاف نہ صرف سپورٹ کیا تھا بلکہ کتاب لکھنے والے ملاجیون کے لطیفے بھی سنائے تھے۔
آیت229البقرہ کو بھی ایسی بوٹی بوٹی بنادیا ہے کہ جب سنتے جائیں گے تو شرماتے جائیں گے۔ اللہ نے واضح کیا کہ ” طلاق دو مرتبہ ہے۔ پھر معروف طریقے سے روکنا ہے یا احسان کیساتھ چھوڑنا ہے”۔ یہ آیت228کی تفسیر ہے کہ عدت کے تین مراحل میں سے پہلے دو مراحل میں دو مرتبہ طلاق ہے اور پھر رجوع کرنا ہو تو معروف کی شرط پر کرسکتے ہو اور چھوڑنا ہو تو تیسرا مرحلہ آخری ہی ہے۔ پھر اس کی عدت پوری ہوگی اور کسی اور شوہر سے نکاح کرسکے گی۔ جب نبی ۖ سے پوچھا گیا کہ قرآن میں تیسری طلاق کونسی ہے تو فرمایا ہے کہ یہی کہ احسان کیساتھ چھوڑنا ہی تیسری طلاق ہے آیت229البقرہ میں۔ حنفی مسلک نے ٹوکا اٹھایا کہ اگر عدت میں نیت کے بغیر بھی شہوت کی نظر پڑگئی ،چاہے مرد یا عورت رجوع نہ بھی کرنا چاہتے ہوں تو یہ رجوع ہے۔ شافعی مسلک میں ہے کہ اگر رجوع کی نیت نہ ہو تو تب جماع بھی کیا جائے تو رجوع نہیں ہوگا۔ باہمی رضا مندی اور معروف رجوع کے تصورکو ٹوکے مار مار کر بوٹی بوٹی بنادیا۔ حالانکہ اس کی احادیث صحیحہ میں زبردست وضاحتیں ہیں کہ پہلے طہر میں اپنے پاس رکھو ،حتیٰ کہ حیض آجائے۔ پھر دوسرے طہر میں پاس رکھو ، حتی کہ حیض آجائے۔ تیسرے طہر میں اگر رجوع چاہتے ہو تو رجوع کرلو اور چھوڑ نا چاہتے ہو تو ہاتھ لگائے بغیر چھوڑ دو اور یہی وہ عدت ہے جس میں اس طرح طلاق کا اللہ نے حکم دیا ہے۔
قرآن و احادیث کی وضاحتوں کے باوجود کم عقلی کے ٹوکے سے قرآن کا حکم بوٹی بوٹی بنادیا۔ پھر اگر تینوں مراحل میں چھوڑنے کے عزم پر قائم رہے تو اللہ نے کہا کہ ”جو کچھ بھی ان کو دیا ہے ، اس میں سے کچھ بھی واپس لینا جائز نہیں ہے مگر جب دونوں کو خوف ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے اور اگر تمہیں خوف ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو عورت کی طرف سے وہ چیز فدیہ کرنے میں دونوں پرحرج نہیں ”۔(البقرہ آیت229)
اللہ نے تین طلاق کے بعد یہاں عورت کے حق کی حفاظت کی کہ دی ہوئی کوئی چیز واپس نہیں لے سکتے مگر اگر خدشہ ہو کہ کوئی چیز ملاپ اور رابطے کا ذریعہ بنے گی تو پھر وہی دی ہوئی چیز فدیہ کرسکتے ہیں۔ یہ خلع نہیں ہے کہ ٹوکے والی سرکار نے اس کو خلع بنایا۔ یہاں حق مہر مراد نہیں اسلئے کہ حق مہر تو ہاتھ لگانے سے پہلے صرف نکاح کرنے سے آدھا گیا اور جب شب زفاف گزاری تو عورت کو تکلیف کے بدلے پورا حق مہر مل گیا۔ دوسری دی ہوئی چیزوں کو بھی طلاق میں نہیں لے سکتے۔ جس کی آیت20،21النساء میں بڑی وضاحت ہے۔ٹوکے والی سرکار حق مہر اور منہ مانگے خلع کی رقم مراد لیکر قرآن کو بوٹی بوٹی کررہی ہے اور عورت کی بدترین حق تلفی کررہی ہے شوہر جب بھی چاہے گا ،مارپیٹ کر اس کے باپ سے بھی پیسے نکلوائے گا اور خلع لینے پر مجبور کرے گا۔ حالانکہ خلع عورت کی اپنی چاہت سے جدائی کا نام ہے۔ آیت19النساء میں اس کی بھرپور وضاحت کی ہے لیکن ٹوکے والی سرکار نے اس آیت کو بھی ٹکڑے ٹکڑے کرکے شرمناک کردار ادا کیا ہے۔ اللہ نے بار بار یہ واضح کیا ہے کہ عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد باہمی رضامندی سے رجوع ہوسکتا ہے۔ جس میں سورہ بقرہ کی آیات228،229اور231،232بھی شامل ہیں اور سورہ طلاق کی آیت1اور2بھی شامل ہیں۔ ان میں یہ بھی واضح ہے کہ باہمی رضامندی کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔ لیکن ٹوکے والی سرکار باہمی رضامندی، معروف کی شرط اور باہمی اصلاح کی وضاحتیں نظر نہیں آتی ہیں۔ اسلئے آیت230البقرہ میں یہ واضح کردیا کہ جب دونوں طرف سے جدائی کا حتمی فیصلہ ہو تو فیصلہ کرنے والے بھی فیصلہ کن جدائی پر پہنچ جائیں ، جہاں رابطے کے خوف سے بھی کوئی چیز نہیں چھوڑی جائے کہ پھر جائز نہیں ناجائز تعلقات میں مبتلاء ہوں گے۔ تواللہ نے واضح کیا کہ اس طلاق کے بعد پھر عورت پہلے کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہر سے نکاح کرلے۔ یہ آیت229البقرہ سے مربوط ہے لیکن قرآن کی بوٹیاں بناکر سارے حدود توڑ دئیے گئے ہیں۔ حالانکہ اللہ نے ان تمام حدود کو زبردست وضاحتوں کیساتھ بیان کیا تھا لیکن قرآن کی بوٹی بوٹی بنانے والوں نے ظالموں کا ثبوت دیا۔ اس میں طلبہ کو لگادیا کہ ادوار سے مراد حیض ہے یا طہر؟ اور خلع جملہ معترضہ ہے یا تیسری طلاق کیلئے مقدمہ ؟۔ جس جاہلیت سے قرآن نے امت کو نکال دیا ،اس میں لوگوں کو دوبارہ ڈال دیا گیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ فروری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

ہم پر الزام لگائے کہ فارن فنڈنگ مگر فارن فنڈنگ پر آپ کاملک، فوج، مولوی چلتے ہیں: بانوہدیٰ بھر گڑی

ہم پر الزام لگائے کہ فارن فنڈنگ مگر فارن فنڈنگ پر آپ کاملک، فوج، مولوی چلتے ہیں: بانوہدیٰ بھر گڑی

بانوہدیٰ بھرگڑی نے کہا: ماہ رنگ اور اسکے ساتھ آئی ہوئی خواتین نے یہ جواب دیا کہ اگر ہمیں پتہ ہو تا کہ ہمارے مرد کہاں ہیںتو ہم ادھر اسلام آباد میںاس ٹھٹھرتی سردی میں اپنے گھر چھوڑ کے اپنے معصوم بچوں کو گودوں میں لیکریہاں کیوں آتے؟۔ یہی تو وہ سوال ہے جو ہم ریاست سے پوچھنے آئے ہیںکہ بلوچ عورتوں کے گھروں کے مرد کہاں ہیں؟۔ دوسرا سوال آج ہمیں نظر آیا اسلام آباد پاکستان کے سیاسی منظر نامے پہ ۔وہ یہ تھا کہ عورتیں اس طرح سے بات نہیں کرتیں۔SHOشفقت صاحب آئے تھے انہوں نے کہا کہ کیا عورت اس طرح بات کرتی ہے؟۔ تو میں ان سے ،ان کی ریاست سے اور اپنی ریاست سے یہ سوال پوچھنا چاہوں گی آپ انکے بیٹوں کو اٹھائیں،آپ ان کے بھائیوں کو اٹھائیں ،آپ انکے صوبے کے اندر موجودہ سوئی گیس کا استعمال کریں، آپ انکے ذخائر بیچیں سی پیک کے نام پر، آپ انکی زمینیں گروی رکھ دیں چائنا کے ہاتھ میں، آپ انکے بچے، آپ ان کے انٹیلی جینسیا، آپ انکے وکیل ،آپ ان کی مائیں ، معصوم بچے، آپ ان سب کو اٹھاتے جائیں انہیں قتل کرتے جائیں ان کی لاشوں کو کئی کئی سالوں کے بعد پھینک دیں اور اسکے بعد یہ کہیں کہ عورتیں اس طرح سے بات نہیں کرتیں،عورتیں اس طرح سے سوال نہیں اٹھاتیں؟۔ توآپ پر، آپ کی ریاست، آپ کے اس قانون کے تحت جس قانون کے تحت آپ ادھر بیٹھے ہیں اور ہمیں ہمارا احتجاج نہیں کرنے دیتے سب پر لعنت ہے۔ لعنت ہے ایسے قانون کے اوپر، لعنت ایسی ریاست کے اوپر جو کہ عوام کے ساتھ نہیں کھڑی لعنت، لعنت ہے ایسے چیف جسٹس کے اوپر، ایسے پرائم منسٹر کے اوپر، ایسی فوج کے اوپر جو کہ مظلوم کا استحصال کر کے مظلوم کا خون بہا کے پھر مظلوم سے یہ تقاضا بھی کرے کہ تم نے اُف نہیں کرنی۔ تم نے آواز نہیں اُٹھانی، تم نے سڑک پہ نہیں نکلنا اور اگر تم سڑک پہ نکلو گے اگر اپنے گھروں کو چھوڑ کے اگر اپنے بچوں کا مستقبل تباہ کر کے کیمپوں میں آکے بیٹھو گے تو تم پہ ٹھنڈا پانی برسایا جائے گا، تمہیں جیلوں میںبھیجا جائے گا ،تمہیںاس سردی کے اندر ہر طرح کا وہ ٹارچر دیا جائے گا۔ جس ٹارچر کی کسی بھی مہذب معاشرے میں کوئی بھی جگہ نہیں ہوتی۔ یہ وہ میسج ہے جو کہ ہمیں انہوں نے دیا ہے میرا تعلق سندھ سے ہے۔ میں یہاں پر اپنی سندھی دھرتی اور اپنے سندھ کے ان لوگوں کی آواز بن کے آئی ہوں کہ ہم نے پاکستان کے ساتھ جڑنے کا اسی لیے فیصلہ کیا تھا کیونکہ ہم چاہتے تھے کہ سندھ ایک خود مختار صوبہ ہوگا۔ بلوچستان نے پاکستان کے ساتھ جڑنے کا اسلئے اسٹیٹمنٹ دیا تھا کیونکہ انہوں نے کہا تھا کہ ہم ایک خودمختار فیڈریشن کے حق میں تھے ۔ہم اس ون یونٹ کے حق میں نہیں تھے۔ یہ جو پورے کا پورا نظام ہے جسکے اندر صرف جبر ہے جسکے اندر صرف ظلم ہے جسکے اندر صرف وحشت ہے جسکے اندر صرف دہشت ہے ہم ایسے نظام کو ہم ایسے قانون کو ہم ایسی ریاست کو نہیں مانتے۔ ہمیں یہ لگتا ہے کہ پاکستانیت کا جو تصور ہے اس پاکستانیت کے تصور کو ری ڈیفائن ہونا ہوگا، یہ پاکستانیت کیا ہے کیا پاکستانیت یہ ہے کہ بلوچ کا قتل کرو، بلتیوں کو نکال دو، گلگستان پر قبضہ کرو کشمیریوں کے حقوق پہ قبضہ کرو، سندھیوں کو بند کرتے جا ؤ ، ان کی آوازیں بھی ختم کرتے جاؤ، بلوچوں کی تو مسخ شدہ لاشیں پھینکتے جا ؤ۔ تو کیا یہ پاکستان صرف پنجاب اور پنجاب کے اوپر مبنی آرمی کا پاکستان ہے اگر یہ ان کا پاکستان ہے تو بتائیں یہ ہم سے ٹیکس لینا چھوڑ دیں، ہم سے یہ پیسے لینا چھوڑ دیں۔ یہاں پہ جتنے یہ میرے بھائی کھڑے ہوئے ہیں وردیوں کے اندر ہم یہ سب اپنی اپنی تنخواہوں سے ٹیکس دیتے ہیں جن سے آپ لوگوں کے گھر چلتے ہیں آج آپ لوگوں کے پاس بھی ایک موقع تھا۔ آپ اپنے فرض کے ساتھ تو کھڑے رہے لیکن کل کو جب مریں گے تو دیں گے تو خدا کو جواب۔ بتائیے مجھے کہ ان عورتوں نے آخر کیا قصور کیا ہے کہ جن کو یہ نہیں پتہ کہ وہ اب تک بیوائیں ہیں یا سہاگنیں ہیں؟۔ مجھے بتائیے ان معصوم بچوں کا کیا قصور کہ آپ کے بچے تو اسکول جائیں وہ اس سردی میں یہاں پہ کیوں بیٹھے ہیں؟۔یہ بچہ یہ بلوچ بچہ جب بڑا ہوگا تو کیا یہ پاکستان کو مانے گا؟۔ یہ جو سندھ کا بچہ ہے جو بڑا ہوگا کیا وہ پاکستان کو مانے گا؟۔ کیا وہ پاکستانیت کو مانے گا ؟۔آپ لوگوں کے ہاتھ میں ہے اس ملک کو بچائیں،اس کو ٹوٹنے سے روکیں، اپنے اندر کے انسان کو جگائیں اور ہماری اس جدوجہد میں ہمارا ساتھ دیں۔ ہم کسی فارن فنڈنگ ایجنڈے کے ذریعے یہاں پر نہیں آئے ہیں۔ ہم پر یہ الزام لگا لگا کے آپ لوگوں نے بڑے اپنے بنالئے ہیں سوشل میڈیا پر آپ نے پیج بھی چلالئے ہیں کہ فارن فنڈنگ فارن فنڈنگ۔ چلتا تو آپ کا ملک ہے فارن فنڈنگ کے اوپر، چلتی تو آپ کی فوج ہے فارن فنڈنگ کے اوپر، چلتے تو آپ کے مولوی ہیں فارن فنڈنگ کے اوپر۔ ہم یہاں پہ انسانیت کی خاطر کھڑے ہیں اور ہمارے پاس ہارنے کیلئے کچھ نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہاں پر بول رہے ہیں اسکے اوپر بھی قدغن لگا دو۔ زیادہ سے زیادہ آزادی سے سانس لے رہے ہیں یہ بھی ہم سے چھین لو۔ لیکن تم یہ سوچ نہیں توڑ سکو گے۔ اس سوچ نے جس نے یہ تھوڑے بہت بھی لوگ اکٹھے کیے ہیں، یا وہ جو مائیں بیٹیاں وہ بلوچوں کی عزتیں جو کبھی گھروں سے نہیں نکلتی تھی اگر آج بھی وہ نکلنے کیلئے آگئی ہیں تو آپ سوچ لیں کہ وہ کس قدر مجبور ہیں؟۔ اور اس قدر مجبور کرنے میں صرف اور صرف ریاست کا اور ریاستی اداروں کا ہاتھ ہے۔
میں بحیثیت عورت، بحیثیت ایک سندھی عورت اور بحیثیت ممبر آف عورت مارچ اسلام آباد میں اپنی بلوچ بہنوں کے ساتھ کھڑی ہوں اور اس طرح کے ہر جبر کے خلاف ہم اور ہماری پوری کی پوری تحریک ہمیشہ آواز اٹھاتی رہی ہے ہمیشہ آواز اٹھاتی رہے گی۔ ہم سے یہ توقع نہ کی جائے کہ ہم کسی فوجی ،کسی ٹینک، کسی کالی ویگو کے ڈر کے خوف سے اپنے گھروں میں جا کے چھپ کے بیٹھ جائیں گے۔ ہم یہاں پہ مزاحمت کرنے آئے ہیں۔ اور ہم اپنی آواز یہاں پہ سب کو سناکے جائیں گے ۔بے شک آپ کتنی بھی قدغن لگائیں۔ بے شک آپ خار دار تاروں سے یہ پوری کی پوری شاہراہ ہی بھردیں۔ اس سے زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا؟۔ ایک پروٹیسٹ روک پائیں گے۔ آواز اس عوام کی اب نعرہ علی الحق بن چکی ہے اور وہ اب آپ کو سننی پڑے گی۔ یہ آپ کو ماننا پڑے گا کہ اب آپ لوگوں کی جو رٹ ہے جس کا نام آپ لیتے ہیں یہ رٹ اب کسی کام کی نہیں ہے کیونکہ اب یہ عوام کے خلاف ہو چکی ہے۔ یہ اس مظلوم طبقے کے خلاف ہو چکی ہے۔ اور جو ریاست مظلوم طبقے کے ساتھ نہیں کھڑی وہ ریاست کسی کام کی نہیں اس ریاست کو ہونا ہی نہیں چاہیے۔ بہت بہت شکریہ

تبصرہ : نوشتۂ دیوار

جب یہ بیان بلوچ قوم کے پاس پہنچ جائے گا تو اس کے بعد ہدیٰ بھڑگڑی کا نام بانو ہدیٰ بھرگڑی یا بانوک ہدیٰ بھڑگڑی رکھ دیں گے۔ جب عورت مارچ کے خلاف ریاستی مشینری نے جامعہ حفصہ، لال مسجد اور تمام مذہبی اور سیاسی جماعتوں کو لگایا تھا تو وہ دن بہت مشکل تھا۔ ہم نے مظلوم خواتین کا ساتھ دیا تھا لیکن جب تک یہ سارے انقلابی قرآن و سنت کے ٹھوس احکام کی طرف نہیں آئیں گے ان کے وقتی اُبال سے کچھ بننے والا نہیں ہے۔ انسانیت کیلئے قرآن کے ٹھوس احکام میں سب کچھ موجود ہے اور جو اگر مولوی نے مسخ کیاتو ہم نے علاج کردیا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ فروری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv