Month: 2024 جون
قال رسول اللہ ۖ المہدی منا اہل البیت یصلحہ اللہ فی لیلة قال ابن کثیر ان یتوب علیہ و وفقہ ویلہمہ و یرشدہ بعد ان لم یکن کذالک
قال رسول اللہ ۖ المہدی منا اہل البیت یصلحہ اللہ فی لیلة قال ابن کثیر ان یتوب علیہ و وفقہ ویلہمہ و یرشدہ بعد ان لم یکن کذالک
فرمایاۖ” مہدی ہم اہل بیت میں سے ہوگا جس کی اللہ ایک رات میں اصلاح کریگا ”۔ ابن کثیر نے کہا :اس پر توبہ کریگا اور اس کو موافقت ، الہام اور رشددے گااور اس سے پہلے ایسا نہیں ہوگا۔
شجرہ سید محمد ابراہیم خلیل شہرکانیگرم وزیرستان بدست سید ایوب شاہ آغا بزبان سید محمد امیر شاہ بابا
سید ایوب شاہ عرف ”آغا”ابن سید احمد شاہ عرف ”گلا” بن سید محمد حسن شاہ عرف ”بابو” بن سید اسماعیل شاہ بن سید ابراہیم خلیل بن سید یوسف شاہ الخ سید شاہ محمد کبیرالاولیائ…سید عبدالقادر جیلانی۔
اسماعیل شاہ کا عرف ”پیاؤ شاہ ” تھا۔ بنوں میں کچھ سادات ہیں جو کہتے ہیں کہ ہمارا نسب کانیگرم کے سید پیاؤ شاہ سے ملتا ہے۔ اگر وہ ہمارے شجرہ کی طرف اپنی نسبت کا دعویٰ کریں تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ ہمارے پاس شجرہ ہے اور مرکز میں بیٹھے ہیں۔ اسی طرح تنگی بادینزئی میں ”یوسف خیل” قبیلہ ہے اور اگر ان کا شجرہ ہمارے ”سیدمحمد یوسف شاہ ” سے ملتا ہے تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ لیکن اگر وہ کسی اور یوسف کی اولاد ہیں تو ہمیں اس کا کوئی پتہ نہیں ہے۔ سید احمد شاہ عرف گلا کا ایک ہاتھ مسلسل ہلتا رہتا تھا جس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اس نے اپنے باپ ”بابو” کی کرامت دیکھ کر کچھ بولا تو ”بابو” نے اسکے ہاتھ کو اپنے ہاتھ سے مارا تھا جس کی وجہ سے ہلنا شروع ہوا اور پھر وہ ہلتا ہی رہا کہ ”بابو” کے ضرب کی کرامت تھی اور اس کی نااہلی کا یہ ثبوت تھا کہ جس چیز کو چھپانا تھا تواس میں چھپاکر سنبھالنے کی صلاحیت نہیں تھی۔ اسلئے کہا جاتا ہے کہ ”بابو” کا جانشین پھر سید محمد امیر شاہ بابا بن گئے۔ کانیگرم شہر انگریز کے خلاف بغاوت کا بڑا مرکز تھا۔1898ء میں انگریز نے جہاز سے پرچی کی شکل میں نوٹس گرائے تھے کہ شہر سے نکل جاؤ ،ہم اس کو بمباری کے ذریعے مسمار کریں گے۔
میرے نانا سلطان اکبر شاہ پوتا سبحان شاہ کا پورا خاندان اس وقت میران شاہ منتقل ہوا تھا اسلئے کہ ان کے انگریز سے اچھے تعلقات تھے ۔ میرے دادا سید امیرشاہ بابا کے خاندان نے انگریز کی دھمکی کا مقابلہ ثابت قدمی سے کیا تھا اور شہر خالی کرنے سے انکار کردیا تھا۔ ان کی ایک بہن پر جہاز کا گولہ بھی گرا تھا جو پھٹ نہیں سکا تھا لیکن زخمی ہوگئی تھیں اور فیروز شاہ کی والدہ تھیں۔ جس کے بیٹے اقبال شاہ اورعبدالرزاق شاہ ہیں۔پیر عبدالغفار شاہ ، حاجی لطیف ،پیر عبدالمنان اور پیر عبدالجبار شاہ فیروز شاہ کے پوتے ہیں۔ فیروز شاہ کے والد سید مظفر شاہ اور اس کا بھائی سید منور شاہ اپر کانیگرم میں چوروں کے خلاف لشکر میں قتل ہوگئے تھے۔ منور شاہ کا بیٹا نعیم اورپوتا پیرخالام تھا جسکے بیٹے عبدالرشید اور گوہر علی ہیں اور مظفر شاہ کے چار بیٹے تھے ۔میر محمد شاہ، فیروز شاہ،سرور شاہ ، پیر کرم حیدر شاہ۔مظفر شاہ مولانا عبد اللہ درخواستی کا پیر بھائی تھا۔ مولانا درخواستی نے پیر عبدالجبار کو دیکھ کرپوچھا تھا کہ مظفر شاہ کا کیا لگتا ہے؟۔ اس نے یہ بھی کہا تھا کہ مظفرشاہ قبائلی جنگ میں قتل نہیں ہوا ہے بلکہ اس کو شہید کردیا گیا ہے۔
تیسرے بھائی صنوبر شاہ کا بھی قتل ہوا، جسکے تین بیٹے سلطان اکبر شاہ ، حسین شاہ اور محمد امین تھے۔ چوتھے سیداکبر شاہ کا انگریز کی کتابوں میںتذکرہ ہے اور یہ سید سبحان شاہ کی اولاد تھے۔ سید سبحان شاہ کی والدہ شاید کانیگرم کی سید اور دوسرے کزن یوسف خیل کی والدہ محسود ہوگی۔ سید اکبرشاہ کی بیوی کانیگرم کے ”خان” کی بیٹی تھی اور باقی تین بھائیوں منور شاہ، مظفر شاہ اور صنوبر شاہ سید حسن شاہ بابو کے داماد تھے۔ جن کے قتل کے بعد ان کی اولاد کانیگرم منتقل ہوگئی۔ سید حسن شاہ نے رہائش کیلئے مکانات اور کھیتی باڑی کیلئے زمینیں دیں اور ساتھ ساتھ اپنے نواسوں کو اپنا بھتیجا بھی قرار دیا اسلئے کہ کانیگرم میں پہاڑوں کی ملکیت کیلئے بہنوئی اور اس کی اولاد کو وراثت میں شریک نہیں کیا جاسکتا تھا اسلئے سید حسن شاہ کو سید سبحان شاہ بھائی اور اسکے بیٹوں کو بھتیجا قرار دینا پڑاتھا۔ لوئر کانیگرم کے تمام قبائل سید حسن شاہ سے عقیدت رکھتے تھے۔سب نے ایک ایک دو دو خاندان کو اپنے ساتھ قبول کیا ۔ سید حسن شاہ نے ”مرئی غلام قوم” کو بھی جائیداد کا حصہ دار بنادیا تھا۔یہ تو پھر نواسے اور جگر کا ٹکڑا تھے۔
سید سبحان شاہ کا ٹانک میں گھر تھا، حسین شاہ کی پیدائش جہاں1872ء کو ہوئی تھی۔ لارڈ میکالے کا سید سبحان شاہ سے اچھا تعلق تھا اور پھر سید سبحان شاہ اور سید اکبرشاہ پر بھروسہ نہیں رہا تھا۔ شاید اسلئے کہ باقی رشتے سید حسن شاہ بابو کی بیٹیوں سے ہوگئے تھے؟جو انگریز کا حامی کبھی ہوہی نہیں سکتاتھا؟۔
تنگی بادینزئی کے یوسف خیل اور کانیگرم کے سبحان ویل کا شجرہ ملتا ہے؟۔سبحان ویل حقائق کی روشنی میں
تنگی بادینزئی کے یوسف خیل کے ہاں یہ بات ہے کہ وہ اور کانیگرم کے سبحان ویل دو بھائیوں کی اولاد ہیں۔ ان کا تعلق کانیگرم کے ”یوسف” سے ہے۔ اگر یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ ان کا تعلق شاہ محمد کبیر الاولیائ کی اولاد میں ”سید محمد یوسف ” سے ہے تو پھر یہ دونوں سادات ہیں مگر بڑا مسئلہ یہ ہے کہ تنگی کے یوسف خیل اپنے آپ کو بادینزئی محسود سمجھتے ہیں اور اپنے عزیز سبحان ویل کو بھی بادینزئی سمجھتے ہیں۔ کانیگرم کے برکی قبائل اور سادات اور پیر بھی ان کو بادینزئی محسود سمجھتے ہیں اور علاقہ گومل کے پڑوسی اور عام لوگ بھی ان کو سادات نہیں سمجھتے ہیں۔ جب کانیگرم کے لاوارث ”خان” کی نوکری پرنقب لگائی تو شمن خیلMNAکل قبائلی ایجنسیوں نے مدد کی پھر مظفر شاہ و منور شاہ کواپر کانیگرم لشکر میں قتل کیا گیا اورصنوبر شاہ عورت کے الزام میں قتل ہوا۔
جب گومل میں جائیداد کی تقسیم ہوئی تو بڑے بھائی صنوبر شاہ کے تین بیٹوں کو پورے تین حصے دئیے گئے ۔ مظفر شاہ کے چار بیٹوں کو مجموعی طور پر چار کی جگہ دو حصے دئیے گئے اور یہ کہا گیا کہ ان بھائیوں کو بہنوں کی طرح شمار کیا گیا۔ حالانکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ جائیداد کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ایک حصہ ایک بھائی کے چار بیٹوں کو دیا جاتا۔ دوسرا حصہ دوسرے بھائی کے تین بیٹوں کو دیا جاتا۔ اس تقسیم نے نفاق کی بنیاد ڈال دی۔ کیونکہ شریعت اور پشتو میں کہیں اس طرح کی تقسیم نہیں ہے۔
کمزور بھائیوں نے ہندو کی زمین آباد کی تھی تو طاقتوروں نے بندوق کے زور سے قبضہ جمالیا۔ کمزوروں کو اپنی حیثیت انتہائی تذلیل آمیز لگنے لگی اور طاقت کے گھمنڈ نے طاقتوروں کو کبھی یہ احساس نہیں دلایا کہ اپنے عزیزوں سے معمولی مفادات کی وجہ سے ہتک آمیز سلوک روا رکھنا اور طاقت کی بنیاد پر ان کو اپنے حقوق سے محروم کرنا بری بات ہے۔
پیر غفار ولد عبد الرزاق شاہ ولد فیروز شاہ جب کانیگرم سے بلدیاتی انتخابات کیلئے کھڑا کیا گیا تو ایک طرف برکی قبائل تھے جن کی بھاری اکثریت تھی اور دوسری طرف پیر تھے جو اقلیت میں تھے۔ وانا کی طرف سے جاتے ہوئے25کلومیٹر راستہ برفباری کی وجہ سے بند تھا۔ الیکشن میں بہت کم لوگ پہنچے اور پیروں کی عزت رہ گئی۔ ضیاء الدین اور منہاج الدین نے اپنے چاچا سعد الدین لالا کے ساتھ بیٹھ کر مجھے اور ڈاکٹر ظفر علی کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی کہ پیر غفار اپنی جائیداد اور گھر وغیرہ کو بیچے اور اس میں زور زبردستی کیساتھ اس کو مجبور کرنا ہوگا۔ میں نے کہا کہ یہ بالکل غلط ہے، پیر غفار ایڈوکیٹ نہ ہوتا تو اپنے بھائی کیلئے بھی برف میں اتنا لمبا سفر نہ کرتا۔ وہ ہر خدمت میں پیش پیش ہوتا ہے اور یہ بات اسلئے ریکارڈ پر لارہا ہوں کہ ضیاء الدین کہتا ہے کہ چاچا کا دماغ بھانجوں نے خراب کیا ہے جو اس کی ہر بات پر ہاں میں ہاں ملاتے ہیںلیکن یہ بات100%غلط ہے اسلئے کہ دوسرے مواقع پر بھی میں نے ماموں سعد الدین لالا کو روکا تھا تو اس نے میری بات بھی مان لی۔ نسل در نسل بیماری منتقل ہوکر فطرت بنتی ہے اسلئے حدیث میں آتا ہے کہ اگر پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائے تو مان لو مگر انسان اپنی فطرت سے نہیں ہٹ سکتا۔
ہمارے اپنے عزیزوں کیساتھ رشتے چٹائی کے پتوں کی طرح بُنے ہوئے ہیں۔ ہماری فطرت تحمل و بردباری ہے ۔ہمارے عزیز سمجھتے ہیں کہ ہمیں اپنے اجداد کی طرف سے مصلہ ملا ہے اور ان کے حصے میں بہادری اور تلوار آئی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ہمارا شجرہ نسب بھی دور دور تک نہ ملتا ہو اسلئے کہ حضرت امام حسن نے امیر معاویہ کیلئے خلافت کی مسند چھوڑ دی تھی اور امام حسین نے یزید کے خلاف کربلا میں جدوجہد کی تھی۔ ہم حسنی اور یہ حسینی سید ہوں۔ لیکن اگر ہمارے اجداد نے ان کے اجداد کو کانیگرم میں جائیداد کیلئے بالکل غلط اقدام کرکے اپنے بھتیجے کے درجے پر فائز کیا ہو تو ہم اپنے اجداد کی غلطی کا ازالہ کرنے کیلئے ہر ممکن طریقہ اپنا سکتے ہیں۔
جب ڈیورنڈلائن سے افغان بادشاہ نے کانیگرم میں قلعہ تعمیر کرنے کی اجازت مانگی تھی تو ہمارے اجداد نے کہا تھا کہ مشورہ کرکے جواب دیں گے اور پھر افغان بادشاہ کو منع کردیا تھا۔اب پاک فوج کو کانیگرم کی بڑی زمین دیدی گئی ہے اور وہ زبردستی بھی شہر کے مختلف جگہوں پر قبضہ کررہی ہے۔
جب جنگ بدر میں قریش مکہ کی طرف سے ہندہ کے باپ ، چاچا اور بھائی میدان میں نکلے تو دوسری طرف سے رسول اللہ ۖ نے اپنے دو چاچا حمزہ و حارث اور چچا زاد علی کو میدان میں اتارا۔ جب ان تین مسلمانوں نے تین کفار مکہ کو ٹھکانے لگادیا تو پھر عمومی جنگ چھڑ گئی لیکن اس کی وجہ سے کفار مکہ کے حوصلے پست ہوگئے اور اللہ نے فتح عطا فرمائی لیکن مسلمانوں نے قیدیوں کو فدیہ لے کر معاف کردیا۔ ان قیدیوں میں نبی ۖ کے چچا حضرت عباس بھی شامل تھے۔ عبد اللہ ابن اُبی نے اپنی قمیص دی تھی تو بدلے میں نبی ۖ نے عبد اللہ ابن اُبی کو اپنا کرتا کفن کیلئے دیا تھا۔ اللہ نے قیدیوں کو فدیہ لے کر معاف کرنے پر ناپسندیدگی کا بھی قرآن میں اظہار فرمایا ہے اور پھر فتح مکہ کے موقع پر نبی ۖ نے ابو سفیان کو نہ صرف معاف کیا بلکہ بہت بڑی عزت سے بھی نواز دیا۔
اگر ابوسفیان کی عزت افزائی نہ ہوتی اور عباس کو غزوہ بدر میں تہ تیغ کردیا جاتا تو اسلام پر بنو اُمیہ اور بنو عباس کا خاندانی قبضہ نہ ہوتا۔ اسلام کی نشاة ثانیہ درمیانہ زمانے کے مہدی کے ہاتھوں ہوگی۔ اس کی صفات میں مسلسل ضربوں سے باطل کو نہ صرف پریشان کرنا ہوگا بلکہ عام فطری اخلاقی حدود سے نکل کر مجرموں کی وہ نقاب کشائی کرے گا جس کو لوگ عام طور سے گناہ اور بداخلاقی سمجھ لیں گے اور واقعتا یہ نیکی بھی نہ ہوگی۔ اسلئے انقلاب کی رات اس کی اصلاح ہوجائے گی۔ جتنے خفا لوگ ہوں گے کچھ تو اسلئے خوش ہوں گے کہ وہ انتقام نہیں لے گا اور کچھ اسلئے کہ پہلے سے ان کا حال بھی ایسا کردیا ہوگا کہ مزید ضرب کی گنجائش نہیں ہوگی۔
رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ جب اسلام کی نشاة ثانیہ ہوگی تو اسلام زمین میں جڑ پکڑ لے گا۔ اسلئے کہ مجرموں کیلئے اپنا منہ چھپانے کی کوئی گنجائش بھی نہ ہوگی۔ حضرت ابوبکر نے حضرت عمر کو خلیفہ نامزد کیا تو صحابہ نے عرض کیا تھا کہ کیا خدا کا تجھے خوف نہیں کہ سخت گیرعمر ہم پر مسلط کرکے جارہے ہو؟۔ حضرت ابوبکر نے کہا کہ خلافت کا بوجھ پڑے گا تو یہ خود بخود نرم ہوجائے گا۔ شاید درمیانہ زمانے کے مہدی پر خلافت کا بوجھ پڑے تو مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں پر ضرب لگانے کی فرصت نہ ملے گی کیونکہ دنیا کے نظام میں محرومیوں کے شکار لوگوں کی داد رسی سے اس کو فرصت نہیں ملے گی اور احادیث صحیحہ کے نقشے میں یہ حقیقت ہے۔ ویسے بھی نیک سیرت اور اخلاق وکردار کا اچھا نہیں ہوگا بلکہ ایک رات میں اس کی اصلاح ہوجائے گی۔
آخری امیر اُمت محمد ۖ نیک سیرت مہدی ہوگا جس کو نشانیوں سے اللہ کے ولی اور علماء پہچان کر منصب امامت پر فائز کریں گے۔ اس کی پہلے سے اصلاح ہوئی ہوگی۔ البتہ یہ بات سمجھنے کی سخت ضرورت ہے کہ درمیانہ زمانے کے مہدی کو ناک ، دانت اور جسم کے نشانیوں سے پہنچاننے کے بجائے وہ اپنا تعارف باطل پر شدید ضربوں سے کرے گا۔ یہاں تک کہ وہ حق کی طرف رجوع کرلیں۔
مفتی نور ولی محسود امیر تحریک طالبان پاکستان جب طالبان کے قاضی تھے تو اس نے کہا تھا کہ ہم سے غلطی ہوئی ہے13افراد ہم نے مارے ہیں اور2موقع پر ہمارے مارے گئے تھے ۔ ہم باقی11کی نفری بھی پوری کردیں گے لیکن ان میں کچھ تمہارے اپنے عزیز بھی ہیں جنہوںنے ہمیں غلط گائیڈ کیا تھا۔ اب ان مجرموں تک پہنچنے کیلئے اللہ کی طرف سے کوئی راستہ نکلے تو جنگ کی تمنا نہیں کرنی چاہیے اسلئے کہ عورتوں کو بیوہ اور بچوں کو یتیم بنانا بڑا تکلیف دہ عمل ہے لیکن اگر کہیں مجبوری میں ایسی ٹکر ہوجائے کہ جہاں3افراد مخالفین سے اور3میں اپنے بیٹوں کو میدان میں اتار دوں تو ہوسکتا ہے کہ طالبان کے سہولت کاروں کو بھی ٹھکانے لگانا ہماری قسمت میں آجائے۔ عنوان خواہ کچھ اور ہو ۔
اگر میرے3بیٹے قتل بھی ہوجائیں تو باقی اپنے دشمنوں سے انشاء اللہ حساب لیں گے اور شہداء کے بدلے میں مجرموں کو ٹھکانے لگانے میں دیر نہ لگے گی۔ میرا ایک پرانا شعر ہے ذرا تبدیلی کیساتھ
یا ایھا الجیش من نساء آل سبحان
ان کنتم رجال فتعالو االی المیدان
ترجمہ:” اے سبحان کی اولاد کے عورتوں کا لشکر اگر تم مرد ہو تو پھر میدان میں آجاؤ”۔جنہوں نے چھپ کر طالبان کو گمراہ کیا تو کھل کر مردوں کی طرح میدان میں کیوں نہ آئے؟۔ طالبان کے بڑے دشمن انکے وہ دوست تھے جنہوں نے حقائق جاننے کے باوجود حقائق سے آگاہ نہیں کیا تھا۔علی نے فرمایا
ان القلوب اذا تنافر ودّھا
مثل الزجاج کسرھا لا یجبر
بیشک دلوں کی جب محبت نفرت میں بدلتی ہے
شیشہ ٹوٹنے کی طرح ہے پلاسٹر نہیں ہوسکتا
مجرموں کے چہروں سے نقاب کشائی کیسے ہوگی اور ان کی معافی کیلئے کیا طریقہ ٔ واردات ہوگا؟
طالبان کے حملے کے بعد شہداء کی لاشیں اُٹھائی جارہی تھیں سب عزیز واقارب شریک تھے۔ خطرہ تھا کہ دوبارہ طالبان حملہ اور جنازے پر خود کش نہیں کریں ۔ مولانا فضل الرحمن کے بھائی مولانا عطاء الرحمن نے نہ صر ف جنازہ پڑھایا بلکہ مسلسل3دنوں تک تعزیت کیلئے دعا میں ساتھ بیٹھے رہے۔ مولانا فضل الرحمن اگرچہ کچھ مہینے بعد دیر سے آگئے لیکن انہوں نے ٹانک سفیدجامع مسجد (سپین جماعت) میں جمعہ کی تقریر کرتے ہوئے طالبان دہشتگردوں کو ”خراسان کے دجال ”کا لشکر قرار دیا تھا۔
یہ مئی2007ء کی آخری تاریخ رات ایک بجے کے بعد کا واقعہ تھا اور یکم جون2007ء کو بڑی بڑی سرخیاں اخبارات میں لگی تھیں۔ طالبان نے کوڑ میں میٹنگ کا چند دن اہتمام کیا۔ پیرکریم کے بیٹے عثمان نے بتایا کہ پیر عبدالرزاق کے بیٹے ملوث تھے جو پیر عبدالغفار کے سوتیلے بھائی ہیں۔ پیر عبدالغفار واقعہ کے بعد مسلسل ہمارے ساتھ تھا۔ عبدالرزاق کے بیٹوں کی طرح طالبان بھی تقسیم تھے۔بیت اللہ محسود امیر تحریک طالبان کی پوری چاہت تھی کہ اس واقعہ میں ملوث قاری حسین اور حکیم اللہ محسود کو بدلہ میں قصاص کی بنیاد پر قتل کیا جائے۔ اگر طالبان یہ کرلیتے تو سرحد میں ان کی حکومت قائم ہوسکتی تھی۔
متحدہ مجلس عمل کی حکومت بالکل برائے نام تھی ۔ جب وزیراعلی اکرم خان درانی پر طالبان نے حملہ کیا تھا تو اخبار میں وزیراعلیٰ اکرم درانی نے بیان دیا تھا کہ کوئی صحافی یہ کہے کہ طالبان نے ہم پر حملہ کیا ہے تو اس کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ کروں گا۔
پیر رفیق شاہ شہید ولد پیر عالم شاہ خان بابا کے بارے میں ڈاکٹر آدم شاہ کے بھائی پیر ہاشم نے مولانا فتح خان سے پوچھا کہ ”لاش کو غسل دینے کی ضرورت ہے؟ ۔” جس پر مولانا فتح خان نے فرمایا کہ ” یہ اتنے اونچے درجہ کے شہداء ہیں کہ غسل دینا تو دور کی بات ہے ،انکے چہروں سے گرد وغبار بھی مت ہٹائیں”۔ مولانا فتح خان، مولانا عبدالروف، قاری محمد حسن شکوی شہیدگودام مسجد ٹانک ،مولانا عصام الدین محسود، مولانا غلام محمد مکی مسجد امیر ضلع ٹانک مجلس تحفظ ختم نبوت، شاہ حسین محسود سپاہ صحابہ اور شیخ محمد شفیع شہید شیخ گرہ امیرجمعیت علماء اسلام ضلع ٹانک مولانا سمیع الحق گروپ سمیت تمام علماء کرام اور اکابرین ہماری حمایت کرتے تھے۔
انگریز کے نمک خوار اور پولیٹیکل انتظامیہ کے لفافہ خور پیر منہاج الدین اور سادات خان لنگر خیل عوامی سطح پر سب حقائق سے واقف تھے لیکن جب ریاست طالبان کیساتھ کھڑی تھی تو یہ لوگ بھی اپنا قبلہ نما طالبان کو سمجھتے تھے۔ ان لوگوں میں ضمیر نام کی کوئی چیز ہوتی تو اپنے دوست طالبان سے کہتے کہ ”تم نے ظلم کیا ہے اور غلط اقدام اٹھایا ہے”۔
مجھے خوشی ہے کہ یہ میرے دشمنوں کے دوست تھے اور کوئی قابل ذکر کردار ادا نہیں کرسکے۔ ورنہ جب ہمیں اللہ کوئی عزت دیتا تو سب سے پہلے کسی بڑی تقریب میں یہ بھی بیٹھتے۔ میں نے اپنا تعلق تو اب بھی برقرار رکھا ہے اور آئندہ بھی برقرار رکھ سکتا ہوں لیکن اپنے ساتھیوں، بھتیجوں اور بیٹوں کے دل ودماغ میں یہ بات بٹھادوں گا کہ ایسے لوگوں کے ساتھ عزت وتوقیر سے پیش آنے کا نتیجہ آنے والی نسلوں میں خطرناک نکل سکتا ہے۔ حسن نے اقتدار امیر معاویہ کیلئے چھوڑ کر اچھا کیا اور امام حسین نے یزید کے کردار کو نمایاں کرکے بہت اچھا کیا تھا لیکن بنوامیہ اور بنوعباس نے اقتدار پر موروثی قبضہ کیا۔
پیر کریم کے بیٹے عثمان نے ضیاء الحق پر گواہی تو دیدی مگر کیا اس کا اپنا بھائی اس میں ملوث نہ تھا؟۔ مجھے100%یہ یقین ہے کہ اب اگر وہ ہاتھ پیر بھی باندھ کر ہمارے پاس لائیںگے تو ہمارا اپنا طبقہ بھی معاف کردے گا۔ البتہ ماموں سعد الدین لالا2مجرموں کو قتل کریں گے کیونکہ اس نے کہا تھا کہ میں اپنے بھتیجے حسام الدین وبھانجے اورنگزیب کا بدلہ لوں گا۔قتل کیلئے ماموں نے استعمال بھی اورنگزیب کے بیٹوں کو کرنا تھا اسلئے کہ اپنے بیٹے اور بھتیجے دن رات طالبان کی خدمت کرتے رہتے تھے۔ جب تک پاک فوج ضیاء الدین کو پکڑکر لے نہیں گئی اور طالبان کی گاڑی کو بارود سے نہیں اڑا دیا تو بہت بے شرمی ، بے ضمیری ، بے حیائی اور بے غیرتی کے ساتھ نہ صرف مجرم طالبان کیساتھ کھڑے تھے بلکہ ان کے دفاع کیلئے بھی ہرممکن کوشش بڑی بے غیرتی کیساتھ کی۔ اگر ان پر فائرنگ ہوتی اور واقعہ رونما ہوتا اور میں اپنے گھر میں ان کے دشمنوں کو رکھتا اور ان کی سپورٹ جاری رکھتا تو سیدھا سیدھا مجھے اپنا دشمن قرار دیتے لیکن ان کی رگوں میں پتہ نہیں کونسا خون گردش کررہاتھا کہ جنازہ کے فوراً بعد بھی دشمن انکے گھر پر آئے اورپھر منہاج نے اسرار کیا کہ دعا کیلئے ہمارے گھر پر بیٹھیں گے۔جو طالبان گڑھ تھا اور انہوں نے کبھی احساس نہیں کیا کہ یہ غلطی ہے۔
ظلم اور ظالموں کی داستانیں ایک جیسی رہتی ہیں ،صرف شکلیں مختلف زمانوں میں بدلتی رہتی ہیں اور پھر وہ تاریخ کے پردوں میںگم ہوجاتی ہیں۔
سیدا کبر شاہ ولد سبحان شاہ نے انگریز کیلئے اپنا کردار اداکیا اور کانیگرم کے خان کی بیٹی سے شادی بھی رچائی۔ اس کے کرتوت کا خمیازہ باقی بھائیوں کو بھگتنا پڑگیا تھا۔ تینوں ساز ش سے قتل ہوئے۔ یہ کتنی مغمو م اور مذموم فضائیں تھیں کہ سبحان شاہ کے تین بیٹوں کا سایہ اپنے بچوں سے اُٹھ گیا تھا؟۔
پھر سیداکبر شاہ کے کردار کا فائدہ سلطان اکبر شاہ نے اپنے بیٹے محمود کی وجہ سے اٹھایا جو سیداکبر شاہ کا نواسہ تھا۔ محمود چوروں کے ہاتھ قتل ہوا تو پھر سلطان اکبرشاہ نے ”خان ” کی نوکری سنبھال لی۔
دوسرے چچازاد پیر فیروز شاہ ، میر محمد شاہ، سرور شاہ اور کرم حیدر شاہ کو اس پر بھی تحفظات تھے لیکن سلطان اکبر شاہ ، حسین شاہ اور محمد امین شاہ کا کھل کر مقابلہ نہیں کرسکتے تھے۔ پولیس کی دو نوکریاں جو انگریز نے سبحان شاہ اور سیداکبر شاہ کو دی تھیں ایک مظفر شاہ کے توسط سے میر محمدشاہ اور اس کی اولاد کو منتقل ہوئی اور دوسری صنوبر شاہ کے توسط سے محمد امین شاہ اور فہیم شاہ تک منتقل ہوئی۔ سرور شاہ کے بیٹے یعقوب شاہ کی نوکری تھی اور ان کا گزر بسر بھی مناسب تھا۔ کرم حیدر شاہ کی بھی نوکری تھی اور گزر بسر اچھی تھی اور بیٹے بھی چھوٹی بڑی نوکری پر لگے۔
فیروز شاہ کے بیٹے اقبال شاہ کی بھی اچھی نوکری اور اچھا رشتہ تھا۔ پیر عبدالرزاق کی شادی اور بچے تو بیٹھ گئے اپنے ماموں کیساتھ۔ پیر عبدالرزاق نے دوسری شادی کی اور بچے بڑے ہوگئے۔ مجھے بھی کہا تھا کہ ایک بیٹا دوبئی بھیج دو۔ میں نے اپنے بھتیجے کامران کو بھی نہیں بھیجا اسلئے کہ کام چور لگتا تھا ، سچ بات ہے کہ عبدالرزاق پر رحم بھی آیا لیکن اس کے بچے بھی زیادہ قابل اعتماد نہیں تھے۔ پھر ساجد کیلئے اورنگزیب بھائی نے کہا کہ میں قرضہ لیکر بھیج دوں گا تو میں نے ساتھی کو دوبئی میں پیغام بھجوادیا کہ ایک بندہ لگانا ہے اور پھر ساجد چھوڑ کر بھی آگیا۔ ہوسکتا ہے کہ عبدالرزاق کے بچوں نے یہ بغض دماغ میں بٹھادیا ہو کہ نالائق کو بھیج دیا اور ہمیں نہیں بھیجاہے۔
عبدالرزاق نے اپنے باپ کیساتھ ہونے والی زیادتیاں بھی دل میں بٹھائی ہوں گی اور بڑی اولاد کا غم بھی دل میں رکھا ہوگا۔ جس کا ذکر اپنے بچوں سے کیا ہوگا۔ جب کانیگرم میں پیر کرم شاہ کے بیٹے اور حاجی عبدالرزاق کے بیٹے ایک دوسرے کیساتھ اسلحہ اور بموں سے لڑائی کے موڈ میں تھے تو میں اور اشرف علی گئے اور ان کو سمجھایا کہ ”اللہ نے والدین اور اقارب کیساتھ انصاف کا حکم نہیں دیا ہے بلکہ احسان کا حکم دیا ہے”۔ اگر انصاف پر عمل کا مطالبہ ہو تو ایٹم کی تقسیم بھی کرنا ہوگا جس سے ایٹم بم پٹھے گا اور پھر کسی کی بھی خیر نہیں ہوگی۔ جس پر دونوں راضی ہوگئے۔ ہم نے کہا کہ اب یہ لڑائی عدالت میں لڑو۔ جس سے فتنہ وفساد کا اندیشہ نہیں ہوگا۔ پھر الیاس کی طرف سے یہ بات آئی کہ اگر ماموں نے کیس جیتا تو اعلیٰ عدلیہ میں وہ لوگ اپیل نہیں کریں گے۔ میں نے کہا کہ ”جس پر بات ہوئی ، مزید شرائط نہیں لگائیں ، اگر قانون میں اپیل کی اجازت ہے تو پھر اپیل کی اجازت ہوگی”۔ جس پر الیاس نے کہا کہ آپ ان کی وکالت کررہے ہیں۔ مجھے پہلے منان لوگوں نے کہا تھا کہ الیاس چلا جائے تو لڑائی نہیں ہوگی۔ پھر میرا دل کٹھا ہوا ، جب لڑائی ہوئی تو موقع پر ہم پہنچ گئے۔ پیر سجاد کوزور سے تھپڑ لگائے تو ہوسکتا ہے کہ یہ بھی ایک سبب بن گیا ہو کہ عبدالرزاق کے بیٹوں نے سمجھا ہو ”میری ہمدردیاں انکے دشمنوں کیساتھ ہیں اوربات دل میں بیٹھ گئی ہو”۔ جب فاروق شاہ کی زمین پر قبضہ ہورہاتھا تو بھی میرے والد نے فاروق شاہ کو تھپڑ مارے اور گالیاں دیں کہ نہیں جاؤگے ورنہ تو ماردیا جاتا۔
عین جنگ کے موقع پر گولیوں کی بوچھاڑ میں آنے والے بدخواہ نہیں خیر خواہ ہی ہوسکتے ہیں اور میرے اندر بھی صرف خیر خواہی کا جذبہ تھا۔ مجھے ان پر اعتماد تھا کہ پیر فاورق شاہ کے بیٹے کا دل کھلا ہے۔ حاجی عبدالرزاق کے بڑے بیٹوں پر بھی اعتماد تھا۔ بہر حال ہوسکتا ہے کہ چھوٹوں کے دماغ میں بات بیٹھ گئی ہو۔ جب کانیگرم میں دو خاندانوں میں ایسی لڑائی چل رہی تھی کہ پورے شہر میں بھی گولیاں برس رہی تھیں۔ مساجد میں لاؤڈ سپیکر پر اعلانا ت کئے گئے اور پورے شہر کے علماء اور بڑے پہاڑ کی اوٹ میں چھپ کر جنگ بندی کا انتظار کررہے تھے تو میں ایک فریق کے مورچے کی طرف گیا ، سب نے منع کیا کہ گولیاں لگ جائیں گی لیکن میں مورچے تک پہنچ گیا اور اسلحہ چلانے والوں کو گھسیٹ کر منع کیا تو ان کے رک جانے سے دوسرا فریق بھی منع ہوگیا۔ ظاہر ہے کہ میرے مکے یا لاتیں مارنے سے یہ نہیں سمجھا ہوگا کہ ہمارے ساتھ کوئی دشمنی ہے۔
یہ1991ء کی بات ہے۔ کانیگرم کے علماء اور تبلیغی جماعت کے کردار کو بھی تفصیل سے لکھ دوں گا تو بات سمجھ میں آئے گی۔ میں تبلیغی جماعت کیساتھ مکین بھی گیا تھا۔ علماء کیساتھ بھی رعایت رکھی اور افہام وتفہیم کے آخری حدود تک پہنچادیا تھا لیکن ماموں نے سرکاری انٹیلی ایجنسیہ کا کردار ادا کرتے ہوئے مجھے جیل میں پہنچادیا تھا۔ اس نے میرے بھائیوں سے کہا تھا کہ محسود قبائل حملہ کرکے ہمیں وزیرستان میں تباہ کردیں گے۔ حالانکہ مولانا حفیظ اللہ محسود ( مکین مولانا عصام الدین کے والد) نے علماء سے کہا تھا کہ سید ہیں ، ان کے پیچھے لوگ پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔ یہ گمراہ نہیں ہوسکتا ہے۔ پھر میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا ، بہت خوش ہوگئے اور جن علماء نے مجھے آکر پہلے بتایا تھا تو ایک مولانا محمد ولی گر ڑائی لدھاتھا اور دوسرا مولانا محمددین تھا۔ اور دونوں فاضل جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک تھے۔ ایک میرا کراچی میں کلاس فیلو رہاتھا اور دوسرا مولانا محمد دین نرسیس میں جعلم برکی لوگوں کا امام تھا۔ مولانا حفیظ اللہ پہلے کٹر تبلیغی تھا اور بعد میں سیف الرحمن کی بیعت کرکے تبلیغی جماعت کا مخالف بن گیا۔ انکے مرید آتے تھے۔ مولانا محمد دین بھی تبلیغی جماعت کا سخت مخالف تھا۔ اس کی عقل اتنی تھی کہ مجھے کہتا تھا کہ فٹ بال مت کھیلو۔ انگریز نے امام حسین کو شہید کیا تھا اورپھر اس کے سر سے فٹ بال کھیلا تھا اور اب کربلا کی توہین کیلئے یہ کھیل ایجاد کیا گیا ہے۔
مجھے کہتا تھا کہ انگریز تمہیں پیسہ بھیجتا ہے کہ فٹ بال کھیلو اور تم سید ہوکر بھی غلط کرتے ہو۔ عربی لغت کا مولانا محمد دین بہت ماہر تھا۔ اس نے18سال تعلیم حاصل کی تھی۔ میں نے ایک دن مذاق میں کہا کہ میرے دسترخوان پر بیٹھے ہو اور انگریز نے پیسہ بھیجا ہے؟۔ تو کہنے لگا کہ دسترخواں تمہارے باپ کا ہے۔ مجھے اس پر بہت خوشی ہوئی کہ میرے خاندان پر کتنا اعتماد ہے؟۔ وہ مفتی فرید کے شاگرد تھے۔
کانیگرم میں ہمارے گھر کی چھت پھٹ گئی تھی۔ جس کی وجہ سے تہ خانہ بھی نکل آیا تھا، تہ خانے کی چھت کو بھی بارشوں اور برف باریوں نے گرایا تھا۔ ایک مرتبہ میں چھت کی لیکیج بند کررہاتھا کہ ایک شخص مدد کرنے آگیا۔ میں نے چائے کیلئے کہا۔ جب چائے پی کر وہ نکل گیا تو پھر لوٹ آیا۔ تہ خانے کے بارے میں معلومات لیں ۔ اس کو بتایا کہ شاید انگریز کی بمباری سے بچنے کیلئے بنایا گیا تھا اور پھر اس کو بند کردیا گیا تھا ، میں نے بھی نہیں دیکھا تھا۔ تو اس نے بتایا کہ یہاں کچھ لوگوں نے آپ کا کہا کہ یہ قادیانی ہے۔ تو میں نے کہا کہ اگر قادیانی ہے تو بھی تم سے اچھا ہے اسلئے کہ اس کا دادا ہے اور تمہارا کوئی دادا نہیں ہے۔ پھر میں نے پوچھ لیا کہ قادیانی کیا ہوتے ہیں؟۔ تو مجھے بتایا گیا کہ ” یہ آدم خور ہیں اور جب لوگ ان کے پاس جاتے ہیں تو پکڑ کر ذبح کردیتے ہیں، گوشت کھالیتے ہیں، ایک کنواں کھود رکھا ہے جس میں ہڈیاں ڈال دیتے ہیں”۔ پہلے تو مجھے یقین نہ آیا لیکن جب چائے پیتے وقت کنویں پر نظر پڑ گئی تو بہت گھبرا گیا۔ جب زندہ سلامت نکل گیا تو پھر خیال آیا کہ یہ لوگ آدم خور نہیں لگتے اسلئے تسلی کرنے کیلئے آگیا کہ یہ کنواں کس چیز کا ہے؟۔
کانیگرم میں ایک ایک گز زمین اور درخت کا پودا بہت قیمتی سمجھا جاتا ہے۔ اپر کانیگرم میں محسود عورت نے لکڑیاں کاٹی تھیں۔ جھگڑے میں سیدم مارا گیا۔ صلح کے باوجود سیدم کے باپ نے موقع پاتے ہی فائرنگ کی تو آخر کار وہ سامنے آگیا تھا کہ مجھے ماردو تو پھر سیدم کے والد نے معاف کردیا۔
ہمارے ہاں قتل کی معافی ایسی ہوتی ہے کہ قاتل سرنڈر ہوکر موقع فراہم کردے تو پھر معاف ہوسکتا ہے اور قتل بھی لیکن اصل معافی یہی ہوتی ہے۔ ان محسودوں کیساتھ فائرنگ ہوئی تھی تو برکیوں کا ایک بندہ قتل ہوا تھا ۔ میرے والد سمیت کانیگرم شہر کے بڑوں نے مردہ اٹھانے کیلئے جانا چاہا تو انہوں نے فائرنگ کردی اور سب کو پیچھے بھاگنا پڑگیا تھا۔ اس وقت کانیگرم کے قومی جرنیل شادی خان نے لاش اٹھائی تھی۔ والد صاحب کہتے تھے کہ یہ میراثی نہیں ہیں بلکہ اصل درانی ہیں۔ میراثی کی خواتین ڈھول بجانے اور دیگر خدمات کیلئے مشہور ہوتی ہیں لیکن یہ خاندان سب سے زیادہ عزت دار ہے۔ ہمارا کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن اگر ان کو اختیار دیا جائے کہ سبحان شاہ کے خاندان میں ہوتے تو زیادہ پسند تھا ؟۔ تو وہ یقینا کہیں گے کہ ہماری قومی جرنیلی اعزا ز ہے۔
ڈھول کی تھاپ پر جنگیں لڑی جاتی تھیں اور فوج میں بھی ڈھول کا کردار ادا کرنے والے ہوتے ہیں لیکن ان کی عزت وتوقیر کا مجھے نہیں معلوم ہے البتہ میں کانیگرم کے اس درانی خاندان کی عزت ، غیرت اور حیاء کی اعلیٰ ترین روایات واقدار کو جانتا ہوں ۔ اور آئندہ کی نسل میں ان کے ساتھ رشتوں کے لین دین کو بھی اپنا اعزاز سمجھوں گا۔ حالانکہ کسی اور کیلئے یہ بات میں قطعی طور پر بھی نہیں کرسکتا ہوں۔
میرا باپ یہ دلی خواہش رکھتا تھا کہ اپنے بیٹوں کیلئے کانیگرم کے برکیوں سے رشتہ لے مگر عورتوں کی طرف سے رشتے طے ہوگئے تو باپ غصہ تھا کہ انڈیا کی جنتا پارٹی نے ہمارے گھر پر رشتوں کا قبضہ جمالیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ میری اس بات سے ان کی روح کو تسکین ملے گی اور میرا یہ بھی یقین ہے کہ درانی خاندان نے ہمارے اجداد کی وجہ سے ہی یہ خدمت انجام دینے کا فیصلہ کیا ہوگا۔ اس کا ازالہ کرنا بھی میں اپنا فرض منصبی سمجھتا ہوں۔
جب اسلام کی نشاة اول ہوئی تھی تونبی ۖ نے حضرت زید کے عقد میں اپنی کزن حضرت زینب کا رشتہ دیا تھا۔ لیکن پھر وہ کامیاب نہیں ہوسکا اسلئے کہ اس پر غلامی کا نام تھا۔ قرآن میں صرف حضر ت زید ہی کا نام ہے۔ میری تحریک میں کانیگرم کے صرف بادشاہ خان قومی جرنیل کا نام ہوگا۔ باقی لوگ بھی یہ سمجھ سکتے ہیں کہ میرے نزدیک کانیگرم ، محسود،وزیر اور پختون کی قدر ومنزلت ہے اور کسی کی تحقیر نہیں۔
سب آدم کی اولاد ہیں ۔ ہابیل قابیل میں کردار کا فرق تھا اور نسل عربی عجمی میں سب برابر ہیں۔
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جون اسپیشل ایڈیشن2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
عدت کی علت کیا ہے؟ جاوید احمد غامدی
عدت کی علت کیا ہے؟ جاوید احمد غامدی
تبصرہ: جاوید غامدی کی فضول بکواس
جاویداحمد غامدی نے کہا کہ ”عدت کی علت استبراء رحم ہے اور قرآن نے واضح کیا ہے کہ اگر ملاقات سے پہلے طلاق دی تو عدت نہیں ہے، اس طرح بچے کی پیدائش دو دن بعد ہوگئی توپھر عدت نہیں ۔ جہاں تک رجوع کا تعلق ہے تو اس میں فائدہ ہے کہ رجوع ہوسکتا ہے لیکن یہ علت نہیں ہے۔ پہلے ایسے ذرائع نہیں تھے کہ حمل کا پتہ چلتا اسلئے تین حیض کی عدت رکھ دی تاکہ اطمینان ہوجائے کہ بچہ نہیں اور بیوہ کیلئے4ماہ10دن ہیں تاکہ اچھی طرح سے اطمینان ہوجائے۔ اب اگر کوئی ایسے ذرائع آگئے جس سے حمل کا پتہ چلے تو عدت کی ضرورت نہیں ہے ”۔
جاوید غامدی کی فضول بکواس
قرآن میں بیوہ کی عدت4ماہ10دن بالکل واضح ہے۔ حضرت علی نے اس حدیث کو مسترد کردیا ،جس میںحمل کے اندر بیوہ کی عدت4ماہ10دن سے کم چنددن بیان کی گئی ہے۔ بیوہ اور طلاق شدہ کی عدت میں اللہ نے ایک مہینہ دس دن کا فرق رکھا ہے۔ طلاق کے احکام میں وضع حمل بچے کی پیدائش ہے۔ بیوہ کی عدت کیلئے وضع بچے کی پیدائش قرآن سے ثابت نہیں۔
حضرت علی نے قرآن کے مقابلے میں حدیث کو مسترد کیا تو مقصد حدیث کی مخالفت نہیں تھی بلکہ قرآن کا تحفظ تھا۔ یہ بہت عجب اتفاق ہے کہ حنفی قرآن کے مقابلے میں حدیث کی مخالفت کریں تو پھر حدیث ناقابلِ اعتماد ہو۔ پرویز اور غامدی حدیث کو قرآن سے متصادم قرار دیں تو وہ قرآن کے تحفظ کی بات ہے لیکن علی کے مسلک کو حدیث کا مخالف قرار دیا جائے؟۔
مجھے شیعہ کی فقہ جعفریہ سے کوئی ہمدردی نہیں ہے اسلئے کہ مجھے کچھ معاملات قرآن کے خلاف ان میں لگتے ہیں لیکن پیمانہ عدل کیساتھ رکھا جائے تو لوگ دین کی سمجھ حاصل کرسکیں گے۔
جاوید غامدی کا لگتا ہے کہ اب دماغ بھی کام کرنا چھوڑ گیا۔ اللہ نے کہا کہ جن عورتوں کو حیض نہیں آتا ہے یا انکے بارے میں تمہیں ارتیاب ہے تو پھر3مہینے کی عدت ہے۔ غامدی نے کہا کہ وان ارتبتم کی صورت میں بھی عدت نہیں ہے۔ حالانکہ جس عورت کو حیض نہ آتا ہو تو وہ معلوم ہے کہ اس کو بچہ نہیں ہوسکتا ہے۔ پھر بھی اس کی عدت تین ماہ ہے اور جس کے حیض میں کمی بیشی کا معاملہ ہو تو پھر اس کے بھی تین ماہ ہیں۔ کیونکہ اگر ایک مہینے میں تین حیض آگئے تو رجوع کی مہلت کے ساتھ زیادتی ہوگی اور اگر زیادہ عرصہ بعد حیض آتا ہو تو عورت کیساتھ انتظار کی مدت میں زیادتی ہوگی۔ ہمارے ہاں قرآن میں تدبر کی جگہ فقہ کے مسائل رٹائے جاتے ہیں۔ جن میں تضادات ہی تضادات ہیں اور پھر ان کا فائدہ اٹھاکر نئے نام نہاداسکالرکھود تے ہیں۔
جہاں صحابہ کرام اور احادیث صحیحہ کے ماننے کی بات ہوتی ہے تو وہاں احادیث اور صحابہ کرام کی بات بھی نہیں مانتے ہیں۔
قرآن وحدیث میں عدت کی اقسام : علت کی وجوہات مولانا فضل الرحمن علم وسمجھ رکھنے والے علماء کرام کو لائیں!
عمران خان کو وزیراعظم بنانے سے زیادہ اہم عدت میں نکاح کے کیس کا حل نکالنا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان نے تحریری طلاق کے بعد جو نکاح کیا ہے وہ پاکستان کے عائلی قوانین کے مطابق درست نہیں ہے اور پھر عمران خان نے دوبارہ بھی نکاح کرلیا ہے۔ جھوٹ کے بجائے سچ کا راستہ اختیار کیا جائے تو قوم کی اصلاح ہوگی۔
قرآن میں ایلاء یا ناراضگی کی عدت4ماہ ہے۔ سب سے پہلے یہی عدت آیت226البقرہ میں واضح ہے۔ اگر طلاق کا عزم تھا تو پھر اس کا دل گناہ گار ہوگا اسلئے کہ عورت کی ایک ماہ اضافی عدت ہو گی۔ طلاق کے اظہار پر عدت3ادوار یا3ماہ ہے۔ جو آیت228البقرہ میں واضح ہے۔ آیت225،226،227اور228البقرہ میں معاملہ بالکل واضح ہے۔ قرآن کی سب سے پہلے اور اہم ترین عدت کو بھی بالکل چھوڑ دیا گیا ہے ، جب بنیاد خراب ہوگی تو اس پر بلڈنگ کی تعمیر کہاں درست بیٹھ سکتی ہے؟۔
چونکہ اللہ تعالیٰ نے عورت کو قرآن میں تحفظ دیا ہے ۔ جب اس تحفظ کو نظر انداز کردیا گیا تو معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ تمام فرقے کسی ایک بات پر متفق نہیں ہوسکے ہیں بلکہ سب نے اپنے لئے جدا جدا گھروندے بنالئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے طلاق اور خلع کے حقوق میں فرق رکھ دیا ہے۔ ہاتھ لگانے سے پہلے کی طلاق میں مرد کو مالی وسعت کے مطابق آدھا حق مہر دینے کا حکم دیا ۔ ہاتھ لگانے کے بعد کی طلاق میں عورت کو گھر سمیت بہت ساری دی ہوئی اشیاء منقولہ وغیر منقولہ جائیداد کا حق دار قرار دیا گیا ۔اسلئے تین ادوار (طہروحیض) کی عدت رکھی گئی ہے۔ عورت کے تمام حقوق کو پامال کرکے صرف مرد کے حق کی بات ہوگی تو پھر اسلام اجنبیت کی وجہ سے کبھی سمجھ میں نہیں آسکتا ہے۔
اگر معاشرے میں یہ رائج ہو کہ عائشہ احد کو حمزہ شہباز طلاق دے۔ حمزہ شہباز مالی وسعت کے مطابق حق مہر اور گھر وغیرہ کا پابند ہو تو پھر عائشہ احد کو عدت تک انتظار کا پابند بنانا بھی سمجھ میں آجائیگا۔اگر عائشہ احد نے خلع لیا ہو تو پھر اسکے مالی حقوق بھی طلاق سے بہت کم ہوں گے۔ صرف دیا ہوامکمل حق مہراور منقولہ اشیاء کو اپنے ساتھ لے جاسکے گی ۔ طلاق میں منقولہ اورغیرمنقولہ تمام دی ہوئی چیزوں سے شوہر کو دستبردار ہونا پڑے گا۔سورہ النساء کی آیت19،20اور21میں دونوں چیزیں واضح ہیں۔
جس دن افغان طالبان یا پاکستان کے مسلمانوں کی سمجھ میں یہ بات آگئی اور قرآن وسنت کے مطابق قانون سازی کرلی تو پوری دنیا اسلام قبول کرے یا نہیںکرے مگر مغرب، مشرق، شمال اور جنوب کی ساری دنیا اسلام کے معاشرتی نظام پر متفق ہوجائے گی۔ خلع کی عدت ایک ماہ ہے۔ خاور مانیکا سے بشریٰ بی بی نے طلاق مانگی تھی اور یہی خلع ہے۔ سعودی عرب میں بھی خلع کی عدت ایک ماہ ہے لیکن ہمارے نام نہاد حنفی فقہاء نے خلع اور طلاق کی عدت میں حدیث صحیح کے فرق کو مسترد کرتے ہوئے قرآن کے منافی قرار دیا ہے ۔ حالانکہ خلع اور طلاق دوبالکل ہی الگ الگ معاملات ہیں۔مالی حقوق میں بھی فرق ہے اور عدت میں بھی فرق ہے۔ حنفی مسلک کی سب سے بڑی بنیاد یہی ہے کہ پہلے قرآن وحدیث میں تطبیق کی جائے۔ قرآن و حدیث میں تضادات نہیں ہیں لیکن حنفی فقہاء نے کم عقلی کی بنیاد پر تراش خراش کرکے نکالے ہیں۔
امام اعظم ابوحنیفہ زندگی میں جیل کے اندر تھے اور پھر ان کو زہر دے کر شہید کردیا گیا۔ اگر نبی ۖ نے کسی بھی عورت کو بیوہ ہونے کے چند دن بعد نکاح کی اجازت دی ہے تو پھر اس کو خلع کا حق دیا ہے ، جس میں مالی حقوق بھی کم ہوتے ہیں۔ قرآن میں4ماہ10دن کی عدت طلاق کے حقوق کیلئے ہوگی جس میں عورت کے حقوق زیادہ ہیں۔
اسلام اور انسانیت کا فطری دائرہ بالکل ایک ہے۔ جب پیرعلاء الدین کی بیوہ عورت نے دوسری جگہ شادی کی اجازت مانگی تو اس سے کہا گیا کہ علاء الدین کا کچھ قرضہ ہے وہ اتارنا ہوگا۔ اس کی بیوہ پر پابندی لگائی گئی کہ برکی قبائل سے وہ شادی نہیں کرسکتی ہے۔ جبکہ میرے بھتیجے سید ارشد حسین شاہ گیلانی شہید نے بھی پیر علاء الدین کی بیٹی سے شادی کی تھی۔ اس کی بیوہ کونہ صرف اجازت دی تھی بلکہ اس کے حقوق سے زیادہ مال واسباب کا مالک بنادیا۔
جب تک عورت کے اسلامی حقوق سمجھ میں نہیں آئیں گے اور اس پر عمل نہیں ہوگا تو مسلمان غلامی کی زندگی سے آزادی کبھی حاصل نہیں کرسکیں گے۔ جن کی عورتوں کو بھی آزادی حاصل نہ ہو تو لونڈیوں کی اولاد کہاں سے آزاد پیدا ہوسکتی ہے؟۔ اللہ تعالیٰ نے طلاق سے رجوع کی علت بھی باہمی رضامندی اور معروف طریقے کی بار بار وضاحت کی ہے لیکن علماء کے دماغ میں ”حتی تنکح زوجًا غیرہ ” اٹک گیا ہے۔ کئی کتابوں اور مضامین کے باوجود بھی ان کا دماغ نہیں کھل رہاہے۔ حالانکہ قرآن بالکل واضح ہے۔
قرآن نے حلالہ کی لعنت سے نکالا ہے اس میں کسی کو دھکیلا نہیں ہے۔ صرف اس صورت میں رجوع نہیں ہوسکتا ہے کہ جب یہ طے ہوجائے کہ دونوں نے رجوع کرنا ہی نہیں ہے لیکن جب لیڈی ڈیانا سے لیکر بیوہ عورتوں پر بھی پابندی لگائی جائے کہ اپنی مرضی سے نکاح نہیں کرسکتی ہیں تو اللہ کی طرف سے یہ آیت عورت کیلئے بہت بڑی نعمت تھی جس کوناسمجھ علماء ومفتیان نے زحمت بنادیا ہے۔ مسلمان حلالہ کی وجہ سے غیرتمند اور بے غیرتوں میں تقسیم ہونگے۔
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جون اسپیشل ایڈیشن2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
میں مدینہ چلی گاگاکراورباریش ہجڑہ ابوہریرہ ،دوپٹہ اوڑھے تلاش سید چمن علی شاہ تبلیغی جماعت نام نہاد سنت زندہ کرتے ہوئے اپنے انجام کی طرف رواں دواں
میں مدینہ چلی گاگاکراورباریش ہجڑہ ابوہریرہ ،دوپٹہ اوڑھے تلاش سید چمن علی شاہ تبلیغی جماعت نام نہاد سنت زندہ کرتے ہوئے اپنے انجام کی طرف رواں دواں
تبلیغی جماعت کے بانی مولانا محمد الیاس اور ان کے فرزند مولانا محمد یوسف بہت اللہ والے لوگ تھے۔ مدارس، خانقاہیں اور جہادی مراکز اس جماعت کے جگائے ہوئے جذبے کی وجہ سے آباد ہیں۔ مدارس برقی نظام ہیں جہاں سے قرآن ، احادیث، فقہی مسائل ، عربی، ناظرہ ، ترجمہ اور قرآن کے درس کا اہتمام ہوتا ہے۔ جس طرح بجلی سے گھر کے بلب، پنکھے، فرج ، ائیرکنڈیشن ، پانی کی موٹر، استری، جوسر اوراو ون چلتے ہیں۔ کارخانے ، فیکٹریاں اور مل چلتے ہیں ، الیکٹرانک اور مواصلاتی نظام میں اسکے بغیر چارہ نہیں ہے اسی طرح مدارس کی افادیت ہرشعبہ میں ہے ۔ سیاست، عقائد کا تحفظ،دین کے ہر شعبے کی رہنمائی مدارس کے علماء کرام ہی کرتے ہیں۔
خانقاہوں کی مثال ہاتھ کے ٹارچ کی طرح ہے جس کی افادیت اپنی جگہ بالکل مسلمہ ہے۔اسکا باطن روشن اور ظاہر بالکل پراسرار ہے۔ بڑے بڑے لوگوں کی معجزاتی اصلاح ہوجاتی ہے یہاںتک کہ علماء بھی بے علم لوگوں کے ہاتھوں بیعت ہوجاتے ہیں۔ صوفی برکت علی لدھیانوی، بابا دھنکا، بابا فرید کے دربارپرسیاسی و ریاستی شخصیات بھرپور حاضری لگانے کو اپنی سعادت سمجھتے ہیں۔ اورنگزیب بادشاہ کے دربار میں500علماء نے فتاویٰ عالمگیریہ مرتب کیا جن میں شاہ ولی اللہ کے والد شاہ عبدالرحیم بھی شامل تھے۔ ایک مرتبہ بہروپیہ نے اپنی خدمات پیش کرتے ہوئے کہا کہ مجھے بھی دربار میں رکھ لو۔ اورنگزیب بادشاہ نے کہا کہ پہلے مجھے آزمائش سے دھوکہ دے دو،پھر رکھ لوں گا۔ متعدد مرتبہ بہروپیہ اپنے لباس واطوار بدلتا مگر اورنگزیب اس کی شناخت بتادیتا۔ ایک مرتبہ کئی خدام اپنے پاس رکھ لئے اور حکمت کی ڈھیر ساری ادویات کے ساتھ اپنا روپ بدل کر اورنگزیب بادشاہ سے کہا کہ فلاں بادشاہ نے مجھے خدمت کیلئے بھیج دیا ہے لیکن اورنگزیب نے فٹ سے پہچان لیا۔ پھر اورنگزیب کو یقین ہوگیا کہ اس ناکامی کے بعد دوبارہ یہ کوشش بھی نہیں کرے گا۔ پھر اورنگزیب محاذ جنگ پر جارہا تھا تو اس کو بتایا گیا کہ اللہ والا ہے۔ اس غار میں عرصہ سے رہتا ہے۔ زاہد اور تارک دنیا ہے، بس عبادت میں مشغول ہے۔ کسی سے کوئی کام غرض نہیں رکھتا۔ جو چل کر آجائے تو اس کو بھی مشکل سے فرصت کے لمحات میں کچھ دیر کیلئے اپنا جلیس بنانے کی اجازت دیتا ہے۔ اورنگزیب بادشاہ نے سوچا کہ بادشاہ کا سن کر خود ہی اپنی اوقات بدل دے گا اور ایک اشرفیوں کا تھیلہ بھی ساتھ لیا جس کے آگے پیروں، علماء اور مجاہدین کی آنکھوں میں چمک آتی ہے۔ اگرچہ یہ ایک حقیقت ہے کہ روزی روٹی کا نتیجہ بہت بدبودار کھاد کی صورت میں نکلتا ہے لیکن زندگی اسی سے قائم ہے کہ آدمی کھا د کی مشین بنارہے۔ اورنگزیب بادشاہ نے اللہ والے کے در پر حاضری دی تو خدام نے بتایا کہ کسی سے بھی نہیں ملتے۔ بادشاہ کا اعتقاد مزید مضبوط ہوا کہ یہ واقعی اللہ والے ہیں۔ پھر جب حاضری دی تو گٹھنے پر سررکھ دیا کہ دعا دیجئے اور اشرفیاں بھی پیش کیں۔ اس نے اشرفیاں واپس کیں اور بتایا کہ وہی بہروپیہ ہوں۔ بادشاہ نے کہا کہ میں نے نوکری پر رکھ لیا ہے تو اس نے کہا کہ نوکری نہیں چاہیے، یہ بہروپ میں اتنی عزت ہے تو اصل کی کتنی عزت ہوگی؟۔ ملاجیون اور مولانا عبدالرحیم بھی موجود تھے لیکن اورنگزیب بادشاہ کسی سے بھی عقیدت نہیں رکھ سکتاتھا اسلئے کہ فتاویٰ عالمگیریہ میں سب کا ایمان دیکھ چکا تھا کہ کس طرح بادشاہ کیلئے قتل، چوری ، زنا اور ڈکیتی کی شرعی سزا معاف کی؟۔
تبلیغی جماعت اور دعوت اسلامی چراغ سے چراغ جلانے کا کام کرتے ہیں۔ خود مٹی کے تیل کی بدبوکی طرح جہالت سے بھرے ہوتے ہیں لیکن لوگوں کو اندھیر نگری کی جگہ دین سے روشناس کرتے ہیں۔
ان میں سب سے بے نفس اور بے غرض ہجڑے ہی ہوسکتے ہیں اسلئے کہ وہ جنسی خواہشات اور اولاد کی فکر سے آزاد ہوتے ہیں۔ چراغ سے زیادہ ان میں ترقی کی کوئی صلاحیت بھی نہیں۔ مولانا محمد یوسف لدھیانوی نے اپنی کتاب ”عصر حاضر حدیث نبوی ۖ کے آئینہ میں” میں لکھا ہے کہ ” پانچواں عالمگیر فتنہ ہوگا جو لوگوں میںپانی کی طرح سرایت کر جائیگا جواس کو چھوڑ دے گا تو کہیں گے کہ اس نے سنت چھوڑ دی۔ حالانکہ وہ سنت پر نہیں ہونگے”۔
طالبان لوگوں کوقتل کررہے تھے تو تبلیغی جماعت نے سپورٹ کیا۔ مولانا طارق جمیل نے سلیم صافی سے کہا کہ طالبان اور ہم ایک ہیں ،راستے جدا مگر منزل ایک ہے لیکن طالبان کو بھی ذولخویصرہ کی اس اولاد نے گمراہ کیا ۔ سعودی عرب کی پابندی تو اپنی جگہ انہوں نے رائیونڈ اور بستی نظام میں ایکدوسرے پر پابندی لگائی ہے اوراللہ کے احکام کو نہیں سمجھتے۔بس حلالہ کی لعنت کی سپلائی کرتے ہیں۔
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جون اسپیشل ایڈیشن2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
محترم حمید اللہ حفی ایک مرد مجاہد،مرد مؤمن تھے ایک روایتی مسلمان نہیں تھے اشعار دیکھئے
محترم حمید اللہ حفی ایک مرد مجاہد،مرد مؤمن تھے ایک روایتی مسلمان نہیں تھے اشعار دیکھئے
محترم حمید اللہ حفی کی گلہائے عقیدت میں قرآنی آیات کی جھلکیاں ہیں۔ قاتلوں کی مذمت قاتلوںکے تاثرات میں جو منصوبہ سازوں کے منہ پرطمانچہ تھا۔ یہ کوئی جذباتی اشعار نہیں بلکہ واقعہ کے8ماہ بعد یہ اشعار قلم بند کئے ہیں۔ اللہ نے قرآن میں فرمایا : وقد مکروامکرھم و عند اللہ مکرھم و ان کان مکرھم لتزول منہ الجبالOفلا تحسبن اللہ مخلف وعدہ رسلہ ان اللہ عزیز ذو انتقامOترجمہ”اور بے شک انہوں نے اپنی سازش کی اور اللہ کے پاس ان کی سازش تھی اور اگرچہ ان کی سازش سے پہاڑ ٹل جائیں پس تم لوگ یہ گمان ہرگز مت کرو کہ اللہ اپنے رسولوں سے وعدہ کی خلاف ورزی کر ے گا۔ اللہ زبردست انتقام والا ہے”۔
سورہ ابراہیم کی ان آیات46اور47میں اللہ تعالیٰ نے اسلام کی نشاة ثانیہ کیخلاف سازش کرنے والوں کی چال کو مضبوط قرار دینے کے باوجود ناکام قرار دینے کی خوشخبری دی۔ اس بین الاقوامی سازش میں چھوٹی سطح سے بڑی سطح تک سب کے سب پلید لعین لوگ نمایاں ہوگئے۔ اگر مختلف مراحل کیساتھ معاملات نہ گزرتے تو بہت سے چہرے بے نقاب نہ ہوتے۔
پشتو اشعار کا ترجمہ:
پہاڑ گر گئے ہیں کیا یہ قیامت ہے کہ نہیں؟
کیا یہ دشمنوں کی شرارت ہے کہ نہیں؟
خون جو جائز قرار دے مؤمن کا تھوڑے مال پر
ایسے ملا سے تمہیں نفرت ہے کہ نہیں؟
جٹی کوٹ کے دامن کو سرخی سے ذرخیز کردیا
یہ کسی کے خون کی حرارت ہے کہ نہیں؟
ہمیشہ جب میں کھڑا ہوں مردوں کی صف میں
یہ میری سرداری کی دلیل ہے کہ نہیں؟
جو سوتے میں بھی شہادت کا مرتبہ پا لے
یہ ہر ایک نیک بندے کی حسرت ہے کہ نہیں؟
جس کی وجہ سے اسلام کا گلستان پھر رنگین ہوجائے
ایسے کردار کی اب ضرورت ہے کہ نہیں؟
تم لوگ ہمیں مردہ مت سمجھو ہم زندہ ہیں
تمہیں یہ حقیقت معلوم ہے کہ نہیں ؟
کالے منہ والا کیا کہتا ہے کہ مجھے کس نے ورغلایا؟
یہ اپنی جان کیساتھ اس نے کیا، ملامت ہے کہ نہیں؟
پیچھے سے وار کرے اورسامنے سے بھاگ دوڑے
یہ شیطان ملعون کی فطرت ہے کہ نہیں؟
مردود شیطان! میں تو تمہارے لئے بیٹھا تھا
تمہارے اوپر خدا نے لعنت کی ہے کہ نہیں؟
یہ میرے ساتھ نہیں تم نے اپنے آپ کیساتھ کیا ہے
میرا قاتل اب مصیبت میں گرفتار ہے کہ نہیں؟
حفی اگر کچھ اور چھپے ہوئے رازوں کو کھول دے
دوستو! تمہاری طرف سے اجازت ہے کہ نہیں؟
(6فروری2008ء ۔ بروز بدھ)
جٹی کوٹ کے شہیدوں کے نام
ایک کا ہاتھ خون سے سرخ ہے اور دوسرے نے جگر لتھڑا ہے
آپ کہہ دینا کہ وہ زیادہ طاقتور ہے کہ یہ زیادہ طاقتور ہے؟
ایک منزل سے گمراہ ہوا، دوسرے نے پھر محبت کی منزل پائی
آپ کہہ دینا کہ یہ بخت کا مالک ہواکہ وہ بخت کا مالک ہوا؟
کربلا کی یاد تازہ کردی جٹی کوٹ کے دامن میں
وہ بھی نبی ۖ کے آل تھے اور یہ بھی آل پیغمبر ۖ ہیں
وہاں حسین کا سر کٹا، یہاں (قاری)حسین کے ہاتھ میں سر تھا
کتنی عجیب مماثلت ہے اور کتنا متضاد طرح کا یہ منظر ہے؟
بہنیں سرخ لتھڑی ہوئی ہیں ،مائیں گود اجڑی کھڑی ہیں
دوام نہیں فانی زندگی ہے ، فانی زندگی پر کیا بھروسہ ہے؟
ایسی شہادت کو مبارک کہتا ہوں جو شیطان پلید کے ہاتھ سے ہو
اللہ پاک بھی اس پر لعنت بھیجتا ہے ، رسول ۖ بھی اس سے ناراض
اورنگزیب ، رفیق، ارشد ہوں یا حسام کے ساتھ9افراددیگر
ہر ایک کو دیکھ رہا ہوں کہ اپنی جگہ پر ستارے کی طرح روشن ہے
اے جٹی کوٹ کے شہیدو! بہت بڑا مقام تمہیں حاصل ہوا ہے
تمہیں گواہ بنادیا ہے جس طرف نشانِ منزل کی راہ گزر ہے
تمہیں تو ہمیشہ کی زندگی مل گئی ،کتنی خوبصورتی کی نیندتم سوگئے
یہ تو چند دنوں کی زندگانی ہے یہاں تو ہر کوئی مسافر ہے
میں ماتم نہیں کررہا بہت خوش ہوں یہ مرثیہ نہیں غزل ہے
جو شہادت تمہیں ملی میں اس کو غم میں شمار نہیں کرتا یہ عید ہے
تمہارے استقبال کیلئے اُحد کے شہداء کی آنکھیں منتظر ہیں
تمہیں ایسی روزی مل جائے جو صرف ایک اللہ کو پتہ ہے
تمہارے مقدر میں سرخروئی آئی ، ایسا راستہ تمہیں مل گیا
جو راستہ صدیق اکبر کا تھا، جو راستہ حضرت عمر کا تھا
آپ کا خون خوشبو بن گیا ہے گومل کی پوری وادی میں
کتنی خوبصورت خوشبو ہے کتنے لوگ اس سے معطر ہوگئے
ویسے بھی یہ دنیا بگڑ رہی ہے کئی طوفان ہیں زلزلے ہیں
حفی آؤ جنازے میں اندھیرا چھاجائے گا عصر کا وقت ہے
(7فروری2008ئ۔ جمعرات)
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جون اسپیشل ایڈیشن2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
اللہ ظلم نہیں کرتا نبیۖ کو عرب سے بھیجا ہے تو مہدی کوعجم سے بھیجے گا ۔مادا(محمد)جان برکی
اللہ ظلم نہیں کرتا نبیۖ کو عرب سے بھیجا ہے تو مہدی کوعجم سے بھیجے گا ۔مادا(محمد)جان برکی
کانیگرم میں خان، سرکاری نوکریوں اور اچھی اچھی جگہوں پر پیرلوگوں نے قبضہ کیا ہے۔ برکی قوم کے جوانو! خوب تعلیم حاصل کرواور ہنر مند بن کر آگے بڑھو۔روشن مستقل کیلئے اپنی اولاد کو اچھی تعلیم وتربیت دو۔ پیچھے رہ گئے ہو
اے برکی قوم !باقی سب چیزوں میں پیر لوگ آگے نکل گئے تھے ، ایک دین رہ گیا تھا لیکن اب اصل چیز پیروں نے لے لی ہے۔ اب تم زندگی بھر بستر اور لوٹے گھماؤ، جماعتوں میں جاؤ مگر تمہیں کچھ نہیں ملے گا
کانیگرم کی معروف شخصیت مادا (محمد) جان اُڑمڑ گئی ایک اچھے انسان تھے۔ جب طالبان اور فو ج کا وزیرستان میں کوئی عمل دخل نہیں تھاتو کہتا تھا کہ ایسا وقت آتا ہوا دیکھ رہاہوں کہ کانیگرم شہر کی ندی پار کرنے کیلئے بھی کارڈ دکھا کر جانا پڑے گا۔
اس کو اپنی برکی قوم سے بہت محبت تھی۔ وہ کہتا تھا کہ پیروں نے کانیگرم کی خانی، اچھی نوکریوں اور اچھی جگہوں پر قبضہ کرلیا ہے اور تم پیچھے رہ گئے ہو۔ محنت کرو، تعلیم حاصل کرو اور پیروں سے آگے نکل جاؤ ، پیر ہر چیز میں تم سے آگے ہیں۔
اس کی قوم کا ذوق اتنا مضبوط تھا کہ برملا کہتا تھا کہ اللہ ظالم نہیں کہ نبیۖ کو عرب سے بھیجاہے تو مہدی کو بھی عرب سے بھیجے گا اور وہ عادل باشاہ ہے ۔مہدی اب عجم سے بھیجے گا۔
جب میرا پتہ چلا کہ اس نے تحریک خلافت شروع کی ہے تو اپنی قوم کے افراد سے کہا کہ پیروں نے دین کو چھوڑ دیا تھا اور تمہارے اندر دینداری تھی لیکن اصل چیز اب پیروں نے لے لی اور اب تم بستر اور لوٹے گھماؤ !۔ اب تمہیں کچھ نہیں ملے گا۔
میرا بھائی نثار میرا سخت مخالف تھا لیکن اس کو چھیڑنے کیلئے کہا کہ اگر یہ اپنے مشن میں کامیاب ہوجاتا ہے تو یہ کانیگرم کی بھی پگڑی ہے؟۔یعنی عزت افزائی کا ذریعہ ہے۔ مادا جان نے کہا کہ یہ صرف کانیگرم کی پگڑی نہیں بلکہ پورے عجم کی پگڑی ہے۔ اللہ تعالیٰ اب اس کوکامیاب کرے تاکہ ہمارا سر بلند ہو۔
ہمارے پاس تو آباء واجداد سے کانیگرم شہر میں جو جگہ تھی تو وہی تھی لیکن تنگی بادینزئی سے آنے والوں نے خانی پر بھی قبضہ کیا ، نئی جگہیں خرید لیں اور اچھی جگہوں پر مکان بنالئے تو اس کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں جلن تھی۔ پھر برکی قوم کے جو کمزور افراد تھے ان کیساتھ بھی زیادتی کرلی تو بغض بڑھ گیا۔ میرے بھائی نثار نے برکی قوم سے کہا کہ اللہ نے تمہارے اندر ساری خوبیاں پیدا کی ہیں۔ بہادر ہو، ذہین ہو، مہمان نواز ہو، کوئی خوبی ایسی نہیں جو تمہارے اندر موجود نہ ہو لیکن ایک خامی ہے کہ تمہاری نیت خراب ہے ،کسی کی ترقی اور اچھائی برداشت نہیں کرتے۔ انہوں نے مان لیا کہ واقعی یہ خامی ہے لیکن ان کو پتہ نہیں تھا کہ تمہارے نانا سلطان اکبرسے یہ خامی منتقل ہوئی ہے اسلئے کہ خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتاہے۔
یہ کوئی بڑی بات نہیں کہ کوئی تمہارے غم میں شریک ہو لیکن یہ بڑی بات ہے کہ کوئی تمہاری خوشی پر خوش ہو۔ پشتون قوم ہی نہیں دوسری قوموں حتٰی کہ مغرب میں یہ خامی موجود ہے۔
میرے برکی دوست نے کہا کہ محسود دوست نے کہا کہ ”تم برکی شیعہ کی طرح بہت قومی تعصب رکھتے ہو!۔ جب سے پیروں کیساتھ طالبان نے واقعہ کردیا ہے تو کانیگرم کے لوگ اب بہت نفرت کرنے لگے ہیں”۔جس کے جواب میں برکی دوست نے کہا کہ ”ہم تو شیعہ ہیں ۔تعصبات تورکھتے ہیں”۔
برکی قوم کے سردار حاجی قریب نے کہا تھا کہ میرا دل جلتا ہے ۔ ایسا ظلم تو کربلا میں یزید کے لشکر نے بھی نہیں کیا تھا”۔ کچھ لوگوں کا دل پھر بھی ہم پر ٹھنڈا نہیں ہوا ۔ طالبان کیساتھ ان کی دوستی بڑھ گئی تھی۔ ان کے دل کی جلن ہند ہ کی طرح بڑھ گئی اور بس نہیں چلا ،ورنہ ہمارا کلیجہ چبانے پر بھی ٹھنڈا نہ ہوتا۔
ڈیرہ اسماعیل خان ٹانک اڈے پر کسی نے کہا کہ ”میں اسکا عزیز ہوں علماء نے فتویٰ لگایا تھا، میرا نام جنگل کا بادشاہ ہے”۔ میرا کوئی بے غیرت عزیز نہیں ہوسکتا یہ کسی گیدڑ کا بچہ ہے۔ اور موقع پر موجود افراد نے بھی اس کو کہا کہ تم شکل سے پیر نہیں لگتے اور ہمیں معلوم ہے کہ لوگوں نے پیسے کھاکر قتل و غارت کی ہے۔
جون2007ء کا واقعہ اور بفضل تعالیٰ ہمارا بڑاکردار
ہم پر2006ء میں قاتلانہ حملہ ہوا۔ جس میں بفضل تعالیٰ ہم تینوں افراد بال بال مگر مکمل بچ گئے۔ ایک عبدالوہاب کو تین گولیاں لگی تھیں مگر ہلکی خراش تھی ۔ ارشد حسین کے سر کے بال جل گئے تھے۔ہم نے اپنے اخبار ضرب حق میں اس کا تذکرہ تک بھی نہیں کیا۔ ماموں ، منہاج موقع پر پہنچ گئے جس میں ان کی جان بھی جاسکتی تھی۔ نثار بھائی کیساتھ پڑوسی غفار بھی آیاتھا۔ بسا اوقات بزدلی کی وجہ سے لوگ ساتھ چھوڑ جاتے ہیں جس میں وہ معذور ہوتے ہیں لیکن حسد کی وجہ سے کرتوت قابل مذمت ہیں۔
روزنامہ جنگ میں2001ء کو جو آواز اٹھائی اخبار نے کماحقہ نہیں پھر بھی بہت کچھ شائع کیا تھا۔ پھر2004ء کو جیو میں پروگرام کیا تھا جو نشر نہیں کیا گیا۔ اس وقت صحافتی آداب یہ تھے کہ کسی اور اخبار اور اس کے صحافی کا نام لینا پیشہ وری کے خلاف تھا۔
اگر سارا ریکارڈ شائع کیا جائے تو آج پاکستان اور طالبان دونوں اس بات پر متفق ہوں گے کہ میرا کردار ، رہنمائی اور تجاویز بالکل درست ہوتی تھیں۔ اصول کی وجہ سے خود کو طاقتور ، ان کو کمزور سمجھتے تھے۔ الحمد للہ آج ہم اپنی جگہ پر کھڑے ہیں۔نبیۖ نے فرمایا” دین خیرخواہی کا نام ہے”۔ کینسر کے مریض کو کیمو لگتا ہے جس سے اسکے بال جھڑ جاتے ہیں مگر اس کی زندگی بچانے کیلئے اسکے بغیر چارہ نہیں ہوتاہے۔
22اگست2003ء کو ”مذہبی انتہا پسندی اور پاکستان کا مستقبل” کے عنوان سے جنگ فورم کے زیر اہتمام منعقدہ سیمینار
شرکائ: پروفیسر غفور احمد (نائب امیر جماعت اسلامی)، سید عتیق الرحمن گیلانی (سربراہ ادارہ اعلاء کلمة الحق)، برجیس حسن خان (سابقہ سفیر) ڈاکٹر طاہرہ شاہد خان (اسکالر تجزیہ نگار)، فادر آر چی ڈی سوزا (مسیحی مذہبی رہنما) تصاویر (ایم آئی انصاری)، میزبان (محمد اکرم خان) روزنامہ جنگ کراچی31اگست2003ء جنگ فورم انٹرنیٹ
آج اگر صحافی سیاستدانوں کی دلالی چھوڑ کر اہم معاملات کی طرف قوم کو متوجہ کریں تو قوم بدل جائے گی۔ صحافت علم وشعور کی دولت عطا کرتی ہے اور دنیا میں شعور سے زیادہ کوئی بڑی نعمت نہیں ۔ اگر دیکھا جائے تو قرآن وسنت سے علم وشعورملتا ہے مگر ہمارے کم بخت جدید اسکالرز بھی پہلے سے اجنبیت کے شکار اسلام کے چہرے پر مزید لپائی سے نقاب ڈال رہے ہیں۔ اگر کانیگرم اور وزیرستان کی عوام کو اسلامی تعلیم سادہ الفاظ میں سمجھادی تو تقدیربدلنے میں دیر نہیں لگے گی۔ حلالہ کی لعنت کا خاتمہ بھی بڑا انقلاب ہے جس میں عوام، خاص طورپر تبلیغی لوگوں کی عزتیں لٹتی رہتی ہیں۔ مفتی عزیز الرحمن جیسے لوگ باریش صابر شاہ کو نہیں چھوڑ رہاتھا تو کیا حلالہ چھوڑ سکتا ہے۔ جو لوگ پانی کا گلاس نہیں پی سکتے ہیں وہ سمندر کو پہاڑوں پر نہیں چڑھا سکتے ۔ ہوشیار بنو۔
تین آوازیں
فیض احمد فیض
ظالم
جشن ہے ماتمِ اُمید کا آؤ لوگو
مرگِ انبوہ کا تہوار مناؤ لوگو
عدمِ آباد کو آباد کیا ہے مَیں نے
تم کو دن رات سے آزاد کیا ہے مَیں نے
جلوۂ صبح سے کیا مانگتے ہو؟
بسترِ خواب سے کیا چاہتے ہو؟
ساری آنکھوں کو تہِ تیغ کیا ہے مَیں نے
سارے خوابوں کا گلا گھونٹ دیا ہے مَیں نے
اب نہ لہکے گی کسی شاخ پہ پھولوں کی حِنا
فصلِ گُل آئے گی نمرود کے انگار لئے
اب نہ برسات میں برسے گی گُہر کی برکھا
ابر آئے گا خس و خار کے ابنار لئے
میرا مسلک بھی نیا راہِ طریقت بھی نئی
میرے قانوں بھی نئے میری شریعت بھی نئی
اب فقیہانِ حرم دستِ صنم چومیں گے
سر و قد مٹی کے بونوں کے قدم چومیں گے
فرش پر آج درِ صدق و صفا بند ہُوا
عرش پر آج ہر ایک بابِ دُعا بند ہُوا
مظلوم
رات چھائی تو ہر اِک درد کے دھارے چھوٹے
صبح پھوٹی تو ہر اِک زخم کے ٹانکے ٹوٹے
دوپہر آئی تو ہر رگ نے لہُو برسایا
دن ڈھلا، خوف کا عفریت مقابل آیا
یا خدا یہ مری گردانِ شب و روز و سحر
یہ میری عمر کا بے منزل و آرام سفر
کیا یہی کچھ مری قسمت میں لکھا ہے تو نے؟
ہر مسرت سے مجھے عاق کیا ہے تو نے؟
وہ یہ کہتے ہیں تو خوشنود ہر ایک ظُلم سے ہے
وہ یہ کہتے ہیں ہر اک ظُلم تیرے حکم سے ہے
گر یہ سچ ہے تو ترے عدل سے انکار کروں؟
ان کی مانوں کہ تری ذات کا اقرار کروں؟
ندائے غیب
ہر ایک اُولی الامر کو صدا دو
کہ اپنی فردِ عمل سنبھالے
اُٹھے گا جب جمعِ سر فروشان
پڑھیں گے دار و رسن کے لالے
کوئی نہ ہوگا کہ جو بچالے
جزا سزا سب یہیں پہ ہوگی
یہیں عذاب و ثواب ہوگا
یہیں سے اُٹھے کا شورِ محشر
یہیں پہ روزِ حساب ہوگا
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جون اسپیشل ایڈیشن2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
احمد شاہ ابدالی کی پہلی دُرّانی آزاد پشتون ریاست تاریخی حقائق کی روشنی میں
احمد شاہ ابدالی کی پہلی دُرّانی آزاد پشتون ریاست تاریخی حقائق کی روشنی میں
کانیگرم میںسید اور یزید کی اولاد سُفا خیل کے درمیان معرکہ آرائی سے خلافت راشدہ کادوبارہ آغاز ہوگا؟ یزیدت کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنا ہوگا۔
ڈھٹائی کی اگر کوئی حد ہے تو اس سے بھی پرے ہو تم
وہی جڑ کاٹتے ہو جس کے ہونے سے ہرے ہو تم
احمد شاہ ابدالی کا تعلق ملتان سے تھا۔ جس نے پختون قوم کی پہلی آزاد ریاست قائم کی۔ ابدالی قبیلہ درانی کا حصہ تھا اسلئے احمدشاہ ابدالی نے اس کا نام درانی حکومت رکھ دیا۔ درانی قبیلہ صحابی قیس عبدالرشید کی نسل سے ہے۔ملتان کے بہادر لوگوں نے ایران اور مغل بادشاہوں کے علاوہ چنگیز خان کی مزاحمت میں بھی بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ ایران کے بادشاہ نادر شاہ نے ہندوستان کو فتح کیا اور پھر احمد شاہ ابدالی نے پہلی مرتبہ پختون قوم کی دنیا میں آزاد حکومت قائم کردی۔ ایک طرف روس پیش قدمی کررہاتھا اور بخارا وسمر قند اسلامی دنیا ہڑپ کرتا جارہا تھا تو دوسری طرف برطانیہ نے ”ایسٹ انڈین کمپنی ” کے نام سے اپنا اقتدار قائم کرلیا تھا۔ جب شجاع پاشا کی افغانستان میں حکومت اندورنِ خانہ چپقلش کا شکار ہوگئی تو برطانیہ کی چاہت تھی کہ ایسی حکومت افغانستان میں قائم ہو کہ روس یہاں قبضہ نہ کرسکے۔ جب ایران نے افغانستان کے ہرات پر قبضہ کرلیا تو برطانیہ نے دوست محمد خان کو پیشکش کی کہ ” اپنی افواج بھیج کر ایران کو ہرات سے نکال دیں گے”۔ افغان بادشاہ دوست محمد خان نے یہ شرط رکھی کہ راجہ رنجیت سنگھ سے خیبر پختونخواہ و بلوچستان کے علاقے وا گزار کرکے دے تو یہ پیشکش قبول ہے ۔ برطانیہ نے کہا کہ راجہ رنجیت سنگھ دوست ہے، اس کے خلاف مدد کی شرط قبول نہیں ہے اور خلیج فارس کے راستے سے اپنی افواج کو ہرات پہنچادیا اور ایران کو وہاں سے مار بھگایا۔ برطانیہ کو خطرہ تھا کہ اگر ایران نے افغانستان کو کمزور کیا تو روس قبضہ کرلے گا۔ پھر1839سے1842تک رنجیت سنگھ کی مدد سے افغانستان پر برطانیہ نے قبضہ کرلیا لیکن بہت بھاری جانی ومالی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ امیر دوست محمد خان کی چاہت تھی کہ روس اور برطانیہ کی پروکسی کا فائدہ اٹھاکر اپنا اقتدار قائم رکھے۔1863میں اس کی وفات کے بعد امیر شیر علی بادشاہ بن گیا جو برطانیہ کا سخت مخالف تھا۔1877میں محسود قبائل کا وفد سیدامیرشاہ کی قیادت میں گیا ۔ پھر چند ماہ بعد بیٹنی قبائل کا وفد سیداحمد شاہ کی قیادت میں گیا۔ امیر شیر علی نے1878میں روس کا وفد کابل بلایا اور پھر برطانوی ہند کے انگریز حکمران نے مطالبہ کیا کہ ہمارا وفد بھی آئیگا لیکن امیر شیر علی نے مستر د کردیا۔ جس کے بعد انگریز نے دوبارہ افغانستان پر قبضہ کرلیا اور پھر دوست محمد خان کے بیٹے یعقوب خان سے معاہدہ کیا۔ برطانیہ کی طرف سے سالانہ6لاکھ گرانٹ طے ہوا۔ افغانستان کی خارجہ پالیسی برطانوی ہند کی پابند بنادی۔ پھر گرانٹ12لاکھ اور آخر میں18لاکھ سالانہ کردی ، ڈیورنڈ لائن کے معاہدہ پر دستخط کرائے ۔ یہ معاہدہ1833میں رنجیت سنگھ اور شجاع پاشا کے درمیان ہوا تھا کہ رنجیت سنگھ شجاع پاشا کو افغانستان کے اقتدار پر بٹھانے میں فوجی طاقت سے مدد کرے گا اور اس کے عوض خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے ان علاقوں کو رنجیت سنگھ کے حوالے کرے گا۔ یہ مقبوضہ علاقہ رنجیت سنگھ نے طاقت کے زور سے فتح کیا تھا۔ پھر انگریز نے رنجیت سنگھ کے بعد قبضہ کرلیا۔ پشتون قوم پرست اور مذہبی طبقے میں نظریاتی کشمکش رہتی ہے جس کی بڑی بہترین ترجمانی شاعرعبدالباری جہانی نے کی ہے۔
”ملا اور پشتون” کے عنوان سے جس طرح کی شاعری کی ہے تو دل چاہتا ہے کہ ملا کی جگہ پشتون قوم پرست بہت اچھا ہے۔ ملا کے بارے میں کہا کہ بہت تقویٰ دار تھا۔ جہنم کے عذاب کا بتاتا تھا کہ کیسے بچھو اور سانپ ہوںگے۔ ایک سانپ کے70ہزار سر اور ایک سر کے70ہزار دانت ہوں گے۔ جنت میں حوروں کی فوجیں ہوں گی اور غلمان خدمت گزار کھڑے ہوں گے اور گھوڑوں کی دوڑ ختم ہوگی مگر ایک ایک جنتی کی زمین ختم نہیں ہوگی۔ملا بہت مقبول تھا ،لوگ بڑی تعداد میں اس کی بات سنتے تھے اور اس کے گرویدہ تھے۔ پشتون نے کہاکہ جب جنت میں کوئی دشمنی نہیں ہے، اپنے عزیزوں کے ساتھ اصل اور کم اصل کا جھگڑا نہیں۔ آباء واجداد پر فخر نہیں اور قتل وغارتگری نہیں ہے تو پھر جنت میں مُلا جائے گا یا مرزا ۔ یا کوئی بے غیرت ۔ پشتون کو مفت کی روٹی اچھی نہیں لگتی۔ جب تک بندوق ، گولیاں اور چیلنج کا سامنا نہ ہو تو ایسی زندگی مجھے نہیں چاہیے۔
پشتون قوم کی پہلی آزاد ریاست احمد شاہ ابدالی سے شروع ہے ۔ جو ایرانی فوج کا عام سپاہی تھا پھرقابلیت سے سپاہ سالار بن گیا اور پھر ایک آزاد افغانستان کی سلطنت قائم کردی تھی۔ افغانستان کے بادشاہوں میں دو کمزوریاں ہمیشہ رہی ہیں ایک آپس کی قتل وغارت گری اور بد اعتمادی اور دوسرا بیرون ملک سے مدد وامداد کے ذریعے اپنے اقتدار کا قیام اور اپنے لوگوں کو دبانے اور کمزور کرنے کی بدترین سازشیں۔ اسلام اور پشتون ولی کا استعمال بھی مفادات کیلئے کیا ہے۔ عبدالصمد خان شہید اور خان عبدالغفار خان کے بچوں اور عام پشتونوں میں بہت فرق تھا۔ ایک طرف تعلیم یافتہ ، مغربی تہذیب کے دلدادہ تھے اور دوسری طرف روٹی کو ترسنے والے جاہل پشتون تھے۔ لیڈر عوام میں سے نہ ہو تو پھر فاصلہ بڑھ جاتا ہے۔یا توپشتون قوم کی بیٹیاں اور بیگمات بھی تعلیم وشعور میں قیادت کے درجے کوپہنچتے اور یا پھر قیادت کی اولاد بھی انہی کی طرح ان پڑھ ،جاہل اور غربت کی لیکر کے نیچے رہتے۔ اقبال نے باغی مریدکا کہا تھا کہ
ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی
گھر پیر کا چراغوں سے ہے روشن
اگر پشتون عورت کو حقوق اسلام اور غیرت کی بنیاد پر دئیے جاتے تو عالمی دلالوں ،مقامی قذاقوں ، بھڑوہ گیری سے نجات ملتی۔اپنی اپنی غلطیوں کا اعتراف اور اپنا حال درست کرنا ہوگا اور اپنے بہتر مستقبل کیلئے ایک لائحۂ عمل تشکیل دینا ہوگا۔تاریخ مرتب کرنی ہوگی کہ پختونوں سے کیا غلطیاں ہوئیں؟ ۔ ہر چیز دوسروں کی گردن پر ڈالنے سے اصلاح نہیں ہوتی بلکہ تکبر و غرور اور اکڑ پن سے زوال کی طرف معاشرہ جاتا ہے۔ اگر موٹر سائیکل ، گاڑی اور جہاز کا سیلینسر خراب ہوجائے تو اس کے ٹھیک کرنے سے موٹر سائیکل اور گاڑی چلے گی اور جہاز بھی زبردست اُڑان بھرے گا۔ عوام میں زوال کی انتہاء ہوگئی ہے لیکن جس دن ان کے سیلینسر کھل گئے تو پھر تخریب وفساد سے نکل کر تعمیر وترقی کی راہ پر گامزن ہونا شروع ہوجائیں گے۔ قبض والے کو پچکاری لگے تو مرنے سے بچت ہوجاتی ہے۔
امیر امان اللہ خان نے وزیرستان میں برطانیہ پر حملہ کیا تو بھاگتے ہوئے انگریز فوج کو قتل کرنا آسان تھا مگر انکے ساز و سامان اور راشن کی طمع میں قتل نہ کر سکے۔ بدرکیلئے نبی ۖ اور صحابہ مال بردار قافلے کی غرض سے گئے لیکن وہاں اپنے سے کئی گنا لشکر کا سامنا اللہ نے کرادیا تو فتح سے نواز دیا ۔البتہ فدیہ لینے کا مشورہ دینے پر بہت سخت ڈانٹ بھی پلادی تھی۔
لاہور کے صحافی انوار ہاشمی نے وزیرستان پر کتاب لکھ دی تو ان کی مہربانی ۔ بہت حقائق بھی پیش کردئیے۔ البتہ اس کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پختونوں کو وحشی کی جگہ مفاد پرست لکھنے میں حرج نہیں لیکن جنگ عظیم دو ئم میں جرمنی کیخلاف آل انڈیا مسلم لیگ نے انگریز فوج کی غیر مشروط حمایت کی۔ کانگریس نے حمایت کیلئے آزادی کی شرط لگائی تھی۔ تاریخ سچی واضح کرنا چاہیے کہ انگریز نے کانگریس کا مطالبہ نہیں مانا اورانکے قائدین کو جیلوں میں بند کردیا مگر کیا جنگ میں فوج کی شمولیت نے آزادی دلائی ہے؟۔یا مسلم لیگ خدا واسطے انگریز کی پٹھو تھی؟
صحابہ کرام میں بدری صحابہ کے درجات بلند ہیں مگرقرآن میں ان کو ڈانٹ اسلئے پڑی کہ انہوں نے موودة فی القربیٰ کے جرم کا ارتکاب کیا تھا؟۔ موودة فی القربیٰ کیا ہے؟۔ : قل لا اسئلکم علیہ اجرًا الا الموّدة فی القربیٰ ” کہہ دو کہ میں تم سے اس پر اجر نہیں مانگتا مگر قرابتداری کی محبت”۔
اگر قریش مکہ قرابتداری کی محبت کے مطابق سلوک کرتے تو مدینہ ہجرت اور مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔یوسف علیہ السلام کو بھائیوں نے حسد سے کنویں میں ڈالا۔ بدر میں نبی ۖ کے چچااور داماد کا لحاظ کرکے قتل نہیں کیا اور پھر فدیہ لیکر چھوڑنے کا فیصلہ کیا تو اللہ نے فرمایا: ماکان للنبی ان یکون لہ اسریٰ حتی یثخن فی الارض تریدون عرض الدنیا واللہ یرید اللہ لاٰخرة ” نبی کیلئے یہ مناسب نہیں کہ اس کے پاس قیدی ہوں یہاں تک کہ وہ زمین میں خوب خون بہائے ۔ تم لوگ دنیا کے معاملات چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے”۔
مشرکین مکہ دشمنانِ اسلام نے فطری قرابتداری کے جذبے کا لحاظ نہیں رکھا تو اللہ نے رسول اللہ ۖ سے فرمایا کہ ان سے کہہ دو کہ میں اپنی تحریک پر کوئی معاوضہ نہیں لیتا لیکن کم ازکم قرابتداری کی فطری محبت کا تو لحاظ رکھو۔ دوسری طرف بدر میں جب مسلمانوں نے اس فطری محبت کا لحاظ رکھا تو ڈانٹ پڑگئی۔ یہی وہ اعتدال کا جذبہ ہے جو صراط مستقیم ہے جس کو نماز کی ہررکعت میں سورہ فاتحہ کے اندر اللہ سے ہم مانگتے ہیں۔
سلطنت عثمانیہ، مغل ، خاندان غلاماں ،درانی، رنجیت سنگھ، انگریز اور موجودہ حکمران تک اعتدال کا لحاظ رکھنا ایک فرض تھا اور اُحد میں مسلمانوں کو زخم پہنچا تو انہوں نے کہا کہ ہم اس کا بہت سخت بدلہ لیں گے۔ اللہ نے کہا کہ ”کسی قوم کے انتقام کا جذبہ یہاں تک نہ ابھارے کہ تم اعتدال سے ہٹ جاؤ” ۔
آدمی غلطی نہیں مانتا تو اصلاح ممکن نہیں ہوتی۔ کانیگرم میں قبائلی جائیداد کا تعلق موروثی نظام سے ہے۔ جو نفع ونقصان کی بنیاد پربھی ہوتا ہے اور اخلاقی اقدار کے رہینِ منت بھی۔
کانیگرم پہاڑی علاقہ میں ہم پیروں کا آٹھواں حصہ ہے۔ سوال ہے کہ آٹھواں کب سے ہے؟۔ ہمارامرکزی کردار تھا۔ پیسوں کے لحاظ سے مضبوط تھے ، نقصان کا آٹھواں حصہ اٹھاتے تھے مگر نفع نہ اٹھاتے ۔ جنگلات کی کٹائی کھلتی تھی تو ہم لکڑیاں کاٹنے کے بجائے خریدتے۔ کانیگرم کی عوام اسلئے اپنے حدود سے زیادہ ہماری عزت وقدر بھی کرتی تھی۔ عزیزوں کی قبریں تھیں اور نہ موروثی جائیداد۔ جو کچھ ہے خریدا ہواہے یا ہماری عطا ہے۔سید تو دور کی بات برکی و پشتون روایت پر پورے نہیں اترتے۔انکے کرتوت سے ہم بھی بدنام ہوگئے ہیں۔دَم تعویذ بیچنے اور بدمعاشی کی ہر حد پارکرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
میرے آباء واجداد نے گدی نشینوں کا نظام نہیں بنایا۔ جو کردارونسل کی بدولت بابائے قوم کا درجہ رکھتے تھے۔ قبائلی لڑائی کے فیصلوں پر عمائدین و علماء باقاعدہ اجرت لیتے تھے۔ ہمارے آباء واجدادنے ہمیشہ بغیر اجرت کے فیصلے کئے ہیں۔
میرے والدکی7پھوپیاں تھیں۔ سبحان شاہ کے تین بیٹے صنوبر شاہ، مظفر شاہ ، منور شاہ کی بیگمات۔ چراغ شاہ کی والدہ جو ڈاکٹر آدم شاہ کے والد تھے ۔محمد علی شاہ کی والدہ جو شیر علی شاہ، نثار (ٹاپو)اور اقرار شاہ کے والد تھے۔ باغ ماما پیر کی والدہ ۔
کانیگرم کی رہائشی پھوپیوں کو جائیداد نہ دی مگر تنگی بادینزئی پھوڑ سے آنے والی تینوں پھوپیوں کو کانیگرم میں زمینیں دیں۔ منورشاہ ،اسکے بیٹے نعیم شاہ ، پوتے پیرخالام کے پا س رہائش اور زمین تھی ۔ مظفرشاہ اسکے بیٹے میر محمد شاہ کے پاس کانیگرم کی زمین پر گھر ہے اور پیر کرم شاہ و سرور شاہ کے پاس زمینیں ہیں۔ صنوبر شاہ کے بیٹوں سلطان اکبر شاہ ، حسین شاہ اور محمد امین شاہ کو جو زمین دی تھی وہ انہوں نے چھوڑی جو ہمارے پاس ہے۔ مگرمیرے نانانوسر باز سلطان اکبر شاہ نے مرکزی گھربیچ دیا۔ تین بھائیوں کو گھر بنانے کیلئے میرے دادا سیدامیر شاہ بابا نے پیسہ دیا تھا۔ چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے۔
کانیگرم کا ایک مشہور بدمعاش مغوب شاہ تھا ،جس نے ان بے وطن یتیموں سے لڑائی کی تو میرے پردادا سید حسن شاہ بابو نے کہاکہ اس کو کالی رات کی بلا کھائے گی اور پھر اس کی بیگم کو بھی اپنے عقد میں لوں گا اور پھر ایسا ہی ہوگیا تھا۔
سبحان شاہ کے یتیموں کو ہم نے سنبھالا تھا، پھر ان کو چوہوں کی طرح شہر کی بدمعاش بلیوں سے بچایا تھا۔ پھر جب انہوں نے اپنی جائیداد خریدی اور اپنے گھر بنانے کیلئے ہمت کی تو ہم نے بھیڑیوں سے ان کو بچایا۔ ہمارے بل بوتے پر شیر بننے والے چوہوں کی اپنی فطرت نہیں گئی ، جہاں بھی موقع ملتا ہے تو اپنے محسنوں کے پروں کو کترڈالتے ہیں۔
مظفر شاہ کے بیٹوں نے کوڑ کی زمین محمد علی شاہ کے پیسوں سے خریدی جب ان سے7ہزار کی رقم مانگ لی تو انہوں نے کہا کہ شیر علی شاہ کی تعلیم پر ہم نے خرچ کردئیے۔ ابھی تک شیر علی شاہ اور اس کے بھائی نثار ٹاپو اپنے حق کو حاصل نہیں کرسکے اور پرائے حق پر کوڑ کی زمین میں سبھی پریشان ہیں۔ فیروز شاہ نے میر ے چچاسید انور شاہ سے600روپے پہلے لئے تھے کہ سستی زمین خرید کر دیتا ہوں۔ پھر فیروز شاہ نے زمین اپنے لئے خرید لی اور پیسے یہ کہہ کر واپس کئے کہ کھلے دوں یا بندے نوٹ؟۔ سید ایوب شاہ کے پیسے پیر فاروق شاہ نے ہڑپ کرلئے جو اس کے بچوں نے اینٹ مارنے کے زور پر زمین پر قبضہ کیا۔ جہاں بھی جس کو موقع ملا اور بس چلاہے تو فراڈ اور دھوکہ دیا ہے۔
ماموں غیاث الدین نے مہمان ماموں افغان مہاجرین کو بھی نہیں بخشا۔ یہ لوگ اس کو بہادری اورکمال فن سمجھتے ہیں۔
ہمارے آباء واجداد نے چوہوں کیساتھ احسان کیاتو طاقت پرواز سے محروم ہوگئے۔ انکے کرتوت اور بداعمالیوں کے نتائج سے ہم بدنام ہوگئے اور لوگوں کی نظروں میں جو قدرومنزلت رکھتے تھے وہ سبھی کھودیا اور آخر کار ان کی بدولت طالبان نے بھی ہمیں مار دیا تھا۔ جب طالبان کو پتہ چلا کہ انہوں نے غلط جگہ ہاتھ ڈالا ہے تو پوری قوم کے ساتھ معافی کیلئے بھی آگئے۔
ایک چوہے نے پیر سے کہا کہ بلی تنگ کرتی ہے بلا بنادو۔ پیرنے شوف کیا تو چوہا بلا بن گیا۔ پھر آیا کہ کتے تنگ کرتے ہیں کتا بنادو۔ پیر نے کتا بنادیا۔ پھر کہا کہ بھیڑیا بنادو،پیر نے بھیڑیا بنادیا اور پھر کہا کہ آئندہ نہیں آؤں گا مجھے شیر بنادو۔ اس نے شیر بنادیا۔ پھر آیا کہ تم نے چوہے کو شیر بنادیا۔اب تجھے ہڑپ کرنے آیا ہوں تاکہ دوسرا شیر نہ بناؤ۔ پیر نے اس کو شوف کرکے چوہا بنادیا۔ میرا ماموں سب سے بڑا شیر تھا اور ہمارے ملنگ دادا نے اس کو چوہا بنادیا تھا۔ پھر اس نے میرے معذور بھائی جلال سے کہا کہ تم نے میرے شہتیر چوری کئے، حلف اٹھاؤ۔ اس نے محسود کا گھر بتایا کہ اس سے لئے ۔محسود نے کہا کہ میں نے ڈیرہ اسماعیل خان میں سرائے لیا، دوسرے افراد کو بھی بیچے ہیں ۔ پھر دوسرے بھائی ممتاز سے ٹانک میں کہا کہ دکان میں مہنگی چیز بیچتے ہو۔ ممتاز نے کہا کہ ابھی تمہاری اوجھڑی کی بد بو تجھے آجائے گی تو اس نے فرار کی راہ اختیار کی۔ پھر اسکے مزارع نے ممتاز کو بھوسہ کی پیشکش کی تو ممتاز نے کہا کہ میرے گھر کے قریب ہے مگرپہلے اپنے مالک سے پوچھ لو ، یہ نہ ہو کہ پھر وہ کوئی معاملہ اٹھائے۔ اس نے غیاث الدین ماما سے پوچھ لیا۔ ماموں نے کہا کہ مجھے ضرورت نہیں۔ ممتاز بھوسہ گھر لایا تو ماموں نے پیغام بھیجا کہ بھوسہ نکالو ، مجھے لینا ہے۔ ممتاز نے کہا کہ صرف اپنی زبان سے بھوسہ کا لفظ میرے سامنے لے تو بھوسہ نہیں میری بیوی بھی اس کی ہوگئی مگر پھر اس نے ہمت نہ کی۔ ایک مرتبہ ماموں سعدالدین لالا نے ممتاز سے کہا کہ تم دو نمبر دوائی بیچتے ہو۔ اس نے دوائی کی بوتل دے ماری جس پر اورنگزیب نے ممتاز پر غصہ کیا۔ ممتاز نے کہا کہ اورنگزیب لاکھوں کا آدمی ہے مگر ماموں کے سامنے ہندو ہے۔
ممتاز سے سریر نے کہاکہ اپنے لئے گھاس اُگاؤ۔ ماموں غیاث الدین نے حاجی سریر سے کہا کہ یہ زمین مجھے دیدو۔ زمین ناکارہ تھی تو اس نے زمین دیدی۔ پھر حاجی سریر نے اپنا مکان قریب میں بنایا اور زمین کمرشل ہوگئی۔ تو کہا کہ میں نہیں دیتا۔ غیاث الدین نے کہا کہ آپ دے چکے ہو۔ سریر نے کہا کہ بدلے میں آپ نے کچھ نہیں دیا۔ غیاث الدین نے کہا کہ ابھی تک زمین کی کہیں تقسیم نہیں ہوئی ۔ حاجی سریر نے ریاض سے کہا کہ مجھ سے زمین کھیتی باڑی کیلئے مانگی ،پھر قابض ہوگیا۔ ریاض نے ماموں سے کہا کہ میں زمین کا مالک ہوں اور تمہارا قبضہ نہیں مانتا۔ ماموں نے کہا کہ زمین میں قدم رکھوتو تمہارے ساتھ…۔ پھر ریاض مشکل میں پڑا تو اشرف علی سے کہا کہ یہ زمین میرے ماموں کے بیٹوں کی ہے۔ میں نے کہا کہ اتنا حصہ تو ریاض کی والدہ کا بھی حق بنتا ہے۔ تمہارے پاس اور حاجی سریر کے پاس جتنی زمین ہے تو دونوں جگہ ہماری بہنوں کا وراثت کا اتنا حق ہے۔ میں نے نثار سے کہا :ریاض نے پیغام دیا اور میں نے یہ جواب دیا تو نثار نے کہا کہ ریاض نے یہ حربہ تلاش کیا ہے۔ پھر ممتاز پر دھاوا بول دیا تو سوچا کہ یہ کمینہ پن کی انتہاء ہے۔ پھر پتہ چلا کہ ریاض نے ممتاز سے بھی کہا تھا کہ ہم نے پیسہ نہیں دیا ، یہ زمین تم لے لو۔ پھر180ڈگری سے بدل جانا کہ ممتاز ہمارے ساتھ زیادتی کررہاہے؟۔
حسین شاہ پاگل نے اپنی بیوی اور مزدور کو قتل کردیا۔ شک تو دوسروں پر تھا لیکن پاگل بھی کمزور شکار تلاش کرتاہے۔ ممتاز بھائی کو پولیس نے ہتھکڑی لگائی تو سکون کی نیند سویا۔ چلو وہ پاگل تھا۔ اسکے دوسرے بھائی سلطان اکبر شاہ اور محمد امین شاہ نے بھی غیرت کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ انگریز کی عدالت میں گھر کی بچیوں کو گواہ بنادیا کہ زنا کرتے ہوئے دیکھا ۔ حالانکہ کوئی غیرتمند، عزتدار اوربا ضمیرہوتے تو پاگل بھائی کو پھانسی دینے پر عزت بچ سکتی تھی۔ محسود بیوی تو گھر کی عزت تھی لیکن کم ازکم بے گناہ مزدور کو تو دیت دیتے لیکن اللہ نے غیرت نہیں دی۔
ماموں لوگ کہتے ہیں کہ بھائیوں کی تعلیم ان کی انویسٹمنٹ ہے۔ حالانکہ یہ بالکل جھوٹ اور دروغ گوئی کی انتہاء ہے۔ ان کو ہمارے بھائیوں کے پیسے کھانے ہوں تو شوق سے کھائیں مگر غلط بات کرنے کا منہ توڑ جواب دینا ہمارا حق بنتا ہے۔
پہلی بار ماموں سعدالدین لالا نے3ہزار والا صوفہ سیٹ لیا تو بھائی اورنگزیب نے5ہزار والا صوفہ لے لیاتھا۔ اورنگزیب رسول کالج منڈی بہاؤ الدین میں تھا تو اسکے ایک کلاس فیلو نے حال سنایا کہ باپ سے رقم کیلئے مجھے بھیجتا تھا اور گالیاں دیتا تھا کہ اتنی زیادہ رقم کا کیا کرتا ہے؟۔ پھر پیسے دیدیتا اور کہتا تھا کہ ”اورنگزیب کو بتاؤنہیں، دریائے سندھ میں خود کشی کرے گا”۔
کانیگرم شہر میں بکری پالنا مشکل کام تھا اور میرا والد دو، دو بھینسیں زیادہ سے زیادہ دودھ دینے والی لے جاتا تھا۔ جب ایک مرتبہ پولیس والے نے زیادہ راشن لے جانے پر تنگ کیا تو اس کو دھمکی دی کہ ”تمہارے پیچھے روس لیکر آتا ہوں”۔ کوئی نیا سپاہی تھا وہ جانتا نہیں تھا اور پھر معذرت بھی کرلی تھی۔
کانیگرم اور گومل میں گھر کے خرچہ سے زیادہ مہمانوں کے خرچے ہوتے تھے۔ ان کی وفات پر دور دراز سے ایسے لوگ آئے تھے جن کی مدد کی تھی اور ان کو کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔ ایک ملاعمر کی قوم” ہوتک” قبیلے کے شخص کو جس کو ”کوتک ” کہا جاتا تھا کانیگرم میں ایک اچھی فیملی کی خاتون سے شادی کرادی تھی۔ دوسروں کے بچے پالنے والے کے بچے کوئی اور پالتا تھا؟۔
ماموں کے ہاں پیر عالم شاہ خان بابا کے گھر کا خرچہ اٹھانے کی بھی غلط الزام تراشی کی گئی ۔ وہ ماموں لوگوں سے زیادہ خود اچھے کھاتے پیتے تھے۔ بس اور ٹرک چلتے تھے۔ ماموں کے گھر کی شفٹنگ میں گومل سے کانیگرم ان کا ٹرک استعمال ہوتا تھا تو کرایہ تو دور کی بات ہے ڈیزل کے پیسے بھی نہ دئیے ہونگے۔
نثار کی شادی پر مجھے کراچی میں بڑا گھر لینے ، بارات کا جہاز کے ذریعے آنے جانے کا اورنگزیب نے کہا تھا۔ ماموں نے کہا کہ بہن نے شادی کیلئے پیسہ مانگے۔ ماموں ، بھانجوں اور عزیزوں نے جھوٹ کا توپخانہ کھول دیا مگر حقائق حقائق ہیں۔
ہم نے کانیگرم وزیرستان سے تحریک خلافت کا آغاز1991ء سے کردیاتھا
شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید نے اپنے مرشد سیدا حمد بریلوی کی قیادت میں خراسان سے خلافت کا آغاز کیا مگر سکھوں کے ہاتھوں شہید ہوگئے۔ کچھ معتقدین کا عقیدہ تھا کہ سیداحمد بریلوی زندہ غائب ہیں اور واپس آکر خلافت قائم کرے گا اور یہ عقیدہ شیعوں کا اپنے امام کے بارے میں ہے۔
میں نے مولانا اشرف خان سے تحریک خلافت کی بشارتوں کا ذکر کیاتھا تو بہت خوش ہوگئے اور کامیابی کا یقین بھی دلانے لگے۔ پھر مولانا شاداجان کے پاس گیا تو اس نے کہا کہ” مولوی محمد زمان نے اگر بات مان لی تو سب ٹھیک ہوجائے گا، مجھ پر اس نے قادیانیت کا فتویٰ لگادیا تھا”۔ میں نے مولوی سے کہا کہ” ڈبل قانون فساد کی جڑ ہے۔ دو فریق میں جس کے مفاد میںہو تو وہ شریعت پر فیصلہ چاہتا ہے اور جس کے مفاد میں ہو تو پشتو پر فیصلہ چاہتا ہے۔ اگر ایک قانون ہوگا تو فساد کی جڑ ختم ہوجائے گی”۔ مولوی محمد زمان نے کہا کہ” یہ تو بڑی زبردست بات ہے۔ صرف شریعت کا قانون ہوگا تو یہ فساد کی جڑ کو ختم کردے گا”۔ میں نے کہا کہ” شریعت میں چور، زنا کار، بہتان اور ڈکیٹ کی سزائیں ہیں۔ قرآن کے مطابق سزا دیں گے تو پھر اللہ کے حکم بھی زندہ ہوجائیں گے”۔ اس پر مولوی محمد زمان کی خوش ہوگئے ۔وزیرستان آزاد تھا۔ شریعت کے نفاذ میں رکاوٹ نہ تھی۔ ریاست پاکستان کی چور ، ڈکیٹ اور بدامنی پھیلانے والوں سے جان چھوٹ جاتی۔ یہی تجربہ دیکھ کر پورے پاکستان میں بھی شرعی عدالتیں قائم ہوسکتی تھیں۔
مولوی محمد زمان نے کہا کہ” یہاں جلسہ میں میرے مدرسہ کیلئے چندے کا اعلان بھی کرنا ہوگا۔ کانیگرم سب سے آگے تھا لیکن اب علم میں پیچھے رہ گیا”۔ میں نے کہا کہ یہ تو چھوٹی بات ہے لیکن اس سے پہلے ہم نے کچھ اقدامات کرنے ہوں گے۔ پہلا اقدام یہ ہوگا کہ پیر، مولوی اور تبلیغی جماعت والے سب سے پہلے اپنے اوپر شریعت نافذ کریں گے۔ وہ کہنے لگے کہ کیا ہم شریعت پر نہیں چلتے ؟۔ میں نے کہا کہ اگر چلتے ہوں تو اچھی بات ہے لیکن اگر نہیں چلتے ہوں تو چلیں گے۔ مولوی محمد زمان نے کہا کہ بطور مثال ۔ میں نے کہا کہ ” بیٹیوں کو بیچنا چھوڑ دیں گے۔ حق مہر زیادہ ہو یا کم لیکن اسکے رکھنے کی والد اور بھائی کو اجازت نہیں ہوگی۔ 70ہزار کی جگہ کروڑ روپے ہو مگر سارے پیسے دلہن کے ہوں گے۔ دوسرا یہ کہ بیٹیوں اور بہنوں کو جائیداد میں شریعت کے مطابق حق دیں گے۔ تیسرا یہ کہ رسمی نہیں شرعی پردہ کرنا ہوگا۔ مولانا رشیداحمد گنگوہی نے فتاویٰ رشیدیہ میں لکھا ہے کہ جو لوگ شرعی پردہ نہیں کرتے ۔وہ فاسق ہیں اور ان کے پیچھے نماز پڑھ لی تو واجب الاعادہ ہوگی”۔ مولانامحمد زمان نے کہا: ”یہ تو بہت مشکل ہے”۔ میں نے عرض کیا کہ” دوسروں کو سنگسار کرنا، انکے ہاتھ کاٹنا، کوڑے مارنا آسان اور اپنی بیٹیوں کو حق دینا مشکل ہے؟۔ہم ہر جمعہ کے خطبہ میں پڑھتے ہیں کہ نبیۖ نے فرمایا: تمہارے اوپر میری سنت اور خلفاء راشدین مہدیین کی سنت لازم ہے۔ ہم اس پر عمل کریں تو بات بن جائے گی”۔ مولوی محمد زمان نے کہا کہ اس پر عمل نہیں ہوسکتا ہے۔ میں نے کہا کہ ہم کرواکر دکھائیں گے ۔ انشاء اللہ العزیز
پھر ہمارے پڑوسی سید بادشاہ کیساتھ کچھ تبلیغی میرے گھر پر آئے۔ ایک نے پوچھا کہ” میرا بیٹا کراچی میں ٹائر پنچر کا کام کرتا ہے ۔کیا میرے لئے اس کی کمائی جائز ہے؟”۔ میں نے کہا کہ ” اگر وہ کوئی فراڈ نہ کرتا تو بالکل جائز ہے”۔ اس نے کہا کہ ”میری بیوی، بہو اور بیٹیوں نے روزمرہ کے فرائض کی تعلیم حاصل نہیں کی ۔ اگر رائے ونڈ سے مستورات کی جماعت آئے اور ہماری خواتین کو فرائض سکھائے تو جائز ہے؟۔ میں نے کہا : ”بالکل نہیں! اسلئے کہ اللہ نے قرآن میں فرمایا کہ ” اپنے آپ کو اور اپنے اہل کو آگ سے بچاؤ”۔ فرائض کی تعلیم تمہارا فرض ہے اور اگر خواتین کی جماعت رائیونڈ سے آگئی اور ڈاکوؤں نے اغواء کرلیا تو پھر اس کی ذمہ داری کس پر ہوگی؟”۔
پھر میرے خلاف انواع واقسام کے پروپیگنڈے شروع کئے گئے کہ قادیانی ہے، بریلوی ہے ، شیعہ ہے۔ آخری مہدی کا دعویٰ کیا ۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ ایک دن مسجد کا امام نہیں تھا ، امامت کیلئے تبلیغی مصلہ پر کھڑا ہوا تو ظفر شاہ نے پکڑ کر پیچھے کردیا اور میرا کہا کہ یہ اتنا عرصہ سے علم کیلئے گیا تھا اور تم چلہ یا چار مہینے لگاکر پھر میڈیکل سٹور بھی کھول دیتے ہو۔ (جس میں جعلی دوائیاں بیچتے ہو) مجھے آگے کردیا تو نماز پڑھانے کے بعد میں نے اپنی زبان میں تقریر کی ۔ جو پشتو نہیں ارمڑی ہے۔ میں نے کہا کہ ” ہمارا عقیدہ بہشتی زیور کے مصنف مولانا اشرف علی تھانوی اور بانی تبلیغی جماعت مولانا محمدالیاس والا ہے۔جو ذکر کرتے ہیں یہ بھی مولانا اشرف علی تھانوی کے سلسلے کا ہے۔ یہاں لوگ کھلی ندی میں ننگے نہاتے ہیں۔ جو حرام اور غیرت کے خلاف ہے۔ سود، ملاوٹ اور دیگر منکرات میں مبتلاء ہیں۔ تبلیغی جماعت فضائل کی تبلیغ کا کام کرتی ہے، اس کا طریقۂ کار فرض، واجب اورسنت نہیں ۔یہ ایک مستحسن کام ہے۔کرلیا تو بھی ٹھیک اور نہیں کیا تو بھی کوئی گناہ نہیں ہے۔ میں وضاحت اسلئے کررہاہوں کہ تم نے میرے پیچھے نماز پڑھی اور مجھ پر لوگ بہتان لگارہے ہیں کہ قادیانی ہے، شیعہ ہے، بریلوی ہے وغیرہ لیکن یہ بہت بے غیرت ہیں جو چھپ کر یہ کام کوتی میںکرتے ہیں اور میرا گریبان نہیں پکڑتے۔ (کوتی لیٹرین کیلئے مخصوص کمرے ہیں جو بند ہوتے ہیں) تبلیغی جماعت کا نائب امیر گل ستار اٹھ گیا اور اس نے کہا کہ ”مفتی زین العابدین نے فتویٰ دیا ہے کہ تبلیغی جماعت کا کام فرض عین ہے۔ میں پہلی بارندی میں ننگا نہایا ہوں”۔ حاضرین کا اتفاق کیا کہ” جس کی بات غلط ہوگی تو اس کو کانیگرم بلکہ وزیرستان سے نکالا جائے گا”۔ میں نے کہا تھا کہ شہر کے علماء کو بلالیتے ہیں۔ لیکن تبلیغی ایسے موقع کی تلاش میں تھے کہ میں میرانشاہ جاؤں تو یہ یہاں علماء سے جلسہ کروائیں۔ ایک دن میں نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ کل میں چلا جاؤں اور پھر دوسرے دن گھر سے نہیں نکلا۔ تبلیغی جماعت نے سمجھا کہ گیا ہوں تو علماء کو جمع کرنا شروع کیا۔ میں نے بھانجے عبدالواحد اور حافظ عبدالقادر شہید کو بلایا اور ٹیپ ریکارڈر ساتھ لانے کا کہا۔ جب میں مسجد پہنچ گیا اور علماء سے کہا کہ مجھ سے بات کرنی ہے تو بتاؤ، ورنہ میرانشاہ جانے کا پروگرام ہے؟۔ تو انہوں نے کہا کہ ہم مشورہ کرلیتے ہیں۔ پھر انہوں نے کہا مسجد کے قریب گھر میں بات کرتے ہیں، میں نے کہامسجد میں بات کریں تاکہ سب کو پتہ چل جائے مگر وہ گھرمیں چلے گئے۔ میں نے سوچا کہ ٹیپ ریکارڈر ساتھ ہے تو بات ٹیپ کرلیتے ہیں۔ وہ ٹیپ کی اجازت نہیں دے رہے تھے تو میں نے کہا کہ میرے مرشد حاجی عثمانسے بھی علماء ومفتیان نے ملاقات کی پھر بہتان باندھا۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایسا نہیں کریں گے۔ میں نے کہا کہ تمہارا یہاں سنت کے بعد کی دعا پر مناظرہ ہوا تھا تو دونوں نے ڈھول بجاکر اپنی جیت کا اعلان کیا تھا۔میں میراثی نہیں کہ ڈھول بجاؤں۔ آپ نے اس پرقادیانی کا فتویٰ لگایا تھا؟۔ جس کا مولوی محمد زمان نے اقرار کیا اور بہت منت سماجت کی کہ جو فیصلہ بھی ہوگا اس کو ہم تحریری لکھیں گے۔ پھر پوچھا کہ آپ نے مہدی آخرزمان کا دعویٰ کیا ہے؟۔ میں نے کہا کہ وہ مدینہ میں پیدا ہوں گے ، نام محمد ، والدین کا نام آمنہ وعبداللہ اور بیت اللہ میں بیعت ہوگی۔ میں نے حجاز دیکھا بھی نہیں ہے تو یہ دعویٰ کیسے کرسکتا ہوں؟۔ البتہ شاہ اسماعیل شہید نے لکھا ہے کہ خراسان سے بھی ایک مہدی آئے گا۔ جب کتاب دکھائی تو مولوی محمد زمان نے کہا کہ یہ وزیرستان ہے خراسان نہیںہے۔ میں نے کہا کہ آپ نے کہا کہ مہدی ایک ہی ہے دوسرا نہیں تو یہ بحث نہیں کہ یہ خراسان ہے یا وزیرستان؟۔ پھر انہوں تبلیغی جماعت کا پوچھا تو میں نے کہا کہ یہ مستحن کام ہے فرض نہیں۔ مولوی زمان نے اپنے ہاتھ سے میری باتیں لکھیں کہ میں نے مہدی آخرزمان کا دعویٰ نہیں کیا۔ تبلیغی جماعت کا کام مستحسن ہے۔ وغیرہ ۔ میرے دستخط کے بعد سب حاضرین نے بھی اس پر دستخط کردئیے۔ تبلیغی جماعت نے پر تکلف کھانا تیار کیا تھا وہ بھی سب نے کھالیا اور دعا خیر کے بعد رخصت ہوگئے۔بعد میں انہوں نے مشہور کیا کہ پیر صاحب کو توبہ کروایا ہے۔ میں نے کہا کہ فیصلے والے کاغذ کی فوٹو کاپی تقسیم کرلیتے ہیں۔ معاملہ تو تبلیغی جماعت کے خلاف تھا اسلئے کہ انہوں نے کہا کہ فرض عین کی بات غلط ہے۔ مولوی زمان نے وہ تحریر دینے سے انکار کیا اور لکھا کہ مسجد کی امامت کرو۔ ہمارے پاس بھی مسجد ہے۔
میں نے جواب میں لکھ دیا کہ بے غیرت ایک لکھا ہے کہ نیا دین نہیں چل سکتا اور دوسری مسجد کی امامت کا کہہ رہے ہو؟۔ نئے دین والے کے پیچھے نماز ہوتی ہے؟۔ میں مسجد نہیں دنیا کی امامت کروں گا۔جب تمام پاکستان کے اکابر علماء ومفتیان بھی حاجی عثمان کے حق میں تھے ،تب بھی تبلیغی جماعت مخالفت کرتی تھی۔ جس کی وجہ سے مفتی تقی عثمانی نے تقریر اور تحریر میں تبلیغی جماعت کے اکابرین اور اصاغرین پر فتویٰ بھی لگایا تھا کہ یہ درس قرآن کے خلاف ہیں اور تبلیغی جماعت کو کشتی نوح سمجھتے ہیں۔ بہر حال انشاء اللہ سب کے چہرے کھل جائیں گے۔
کانیگرم میں یزید کی اولاد مشہور تھی لیکن کیا وہ سفیان خیل سے سفا خیل تو نہ تھی؟ نام کیساتھ سید بادشاہ ، سید عالم شاہ یا پھر ظفر شاہ اور ظاہر شاہ سے نسلی سید مراد نہیں
امریکہ کی ریسرچ اسکالر خاتون نے لکھا:” عباسی دور میں سادات کی نسل کشی ہورہی تھی تو کچھ لوگ انکے ساتھ تحفظ کیلئے وزیرستان کے شہر کانیگرم آگئے۔”۔ سادات سے ان لوگوں کو بہت عقیدت و محبت تھی لیکن پھر بھی مشہور تھا کہ کانیگرم میں یزید کی اولاد ہیں۔ ایک طرف اس بات کی بھی شہرت تھی کہ کانیگرم میں اہل تشیع تھے تو دوسری طرف یہ بھی مشہور تھا کہ کانیگرم میں یزید کی اولاد ہیں۔ ان دونوں باتوںکا تضاد اسلئے قابل قبول تھا کہ کوفہ میں حنفی اور شیعہ موجود تھے لیکن حسین کے دشمن یزیدی بھی کوفیوں کو ہی سمجھا جاتاہے ۔حالانکہ حنفی اور شیعہ اہل بیت و سادات سے بڑی عقیدت و محبت رکھتے ہیں ۔ حال ہی میں جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے ایک فاضل نے امام ابوحنیفہ کے بارے میں کتاب لکھی ہے اور اما م اعظم کو شہید اہل بیت قرار دیا ہے۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے بھی لکھا ہے کہ امام ابوحنیفہ ائمہ اہل بیت کے شاگرد تھے اسلئے یہاں سے برپا ہونے والے قرآنی حنفی انقلاب کو ایران بھی قبول کرلے گا۔
ہزارہ شیعہ اپر کانیگرم میں تھے جبکہ لوئر کانیگرم میں برکی اور پیروں میں روایتی بغض و عناد تھا۔ پیروں کی دو شاخیں ہیں ایک ہماری شاخ بابو ویل جن سے برکی قبائل بہت عقیدت و محبت رکھتے ہیں۔ دوسری شاخ سبحان ویل جن کو لوگ بادینزئی سمجھتے ہیں۔ جب اُلو کے پٹھے آئے ہم عزتِ سادات سے بھی گئے۔ ہمیں قتل بھی کروادیا اور قاتلوں کو صحابہ کرام کا درجہ بھی دے دیا۔ ممکن ہے کہ یزید کی اولاد نے کانیگرم کے سید کا لبادہ اوڑھا ہو اور سفیان خیل سے سفا خیل بن گئے ہوں۔
کمینہ پن ، مفاد پرستی ، خود غرضی اور اپنی طاقت کے غلط استعمال کے بھی کچھ حدود و آداب ہوتے ہیں۔ چڑھتے سورج کے پجاری ،ہر ظالم طاقتور کے ساتھی اور مظلوم کا دشمن بننا بھی بہت بڑا زوال ہے۔ کوڑ والے پیر میدان میں ظالموں کیساتھ تھے اور منہاج کی بزدلی اور نسوانیت مردِ میدان کی نہیں تھی بلکہ گھرمیں قاتلوں کی بہت خدمت کرتاتھا۔کوڑ کے پیر بجا طور پر ان لوگوں کومنافق کہتے تھے۔
مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید لکھتے ہیں :
لیت شعری کیف اُمتی بعدی حین تتبختر رجالھم و تمرح نساء ھم ولیت شعری حین یصیرون صنفین صنفاً ناصبی نحورھم فی سبیل اللہ و صنفاً عمالاً لغیر اللہ
(ابن عساکر عن رجل کنز العمال ص219،ج14)
کاش میں جان لیتا کہ کیسے میری اُمت اس حال کو پہنچے گی کہ جب انکے مرد اکڑ کر چلیں گے اور انکی عورتیں اتراتی پھریں گی۔ کاش کہ میں جان لیتا کہ جب لوگ دو قسموں میں تقسیم ہوجائیں گے۔ایک قسم ان لوگوں کی ہوگی جو اللہ کی راہ میں سینہ سپر ہوں گے اور ایک قسم ان کی ہوگی جو غیر اللہ کیلئے سب کچھ کریں گے۔ (عصر حاضر حدیث نبویۖ کے آئینہ میں)
جب2006ء میں ہمارے اوپر قاتلانہ حملہ ہوا تھا تو اس کے بعد جٹہ قلعہ میں پیر منہاج سفا خیل کی بیٹھک طالبان کے گڑھ کے طور پر استعمال ہونے لگی۔ کالے شیشے والی بغیر نمبر پلیٹ کی گاڑیوں میں کاروائیاں کرتے ،پھرپر تکلف کھانے ، آرام کرنے اور پراٹھے کھانے کیلئے اپنے اس ٹھکانے پر پہنچ جاتے تھے۔ عوام کا دل بے گناہوں کیخلاف دہشتگردی پر بہت دکھی ہوتا تھا لیکن خدمت گزار مرد سڑک پر اکڑ کر چلتے تھے اور ان کی خواتین ظالموں کی خدمت پر اتراتی پھرتی تھیں۔
یہ نسل سید اور پختون تو دور کی بات یزید کی بھی یہ اصلی اولاد نہیں ہوسکتی۔ یزید کے بیٹے معاویہ نے تخت پر بیٹھنے سے انکار کیا تھا۔ استعارہ کے طور پر ان کو یزید کی اولاد کہنا درست ہوگا۔ بنو اُمیہ نے مظالم کے پہاڑ توڑے تو وہ ہر ممکن اپنے مفاد کا تحفظ چاہتے تھے۔ ایک کردار مستقبل میں ائمہ اہل بیت اور سادات کا ہے ،دوسرا انکے مقابل سفیانیوں کا ہے۔ طرز نبوت کی خلافت کے قیام سے پہلے سادات اور ان میں گھس بیٹھئے سفیانیوں کے درمیان امتیاز بہت بڑا مرحلہ ہے۔ حضرت ابوبکر، عمر اور حضرت بلال کا تعلق نبی ۖ کے خاندان سے نہ تھا ۔ ابو لہب نبی ۖ کا چچاتھا وہ اور اس کی بیوی شدید مخالف تھے۔ جس کا قرآن میں بھی اللہ تعالیٰ نے نام لے کر دونوں کا ذکر کیا ہے۔
سورہ القلم میں اللہ تعالیٰ نے زبردست آئینہ دکھایا ہے کہ
” ن ، قلم کی قسم اور جو سطروں میں لکھتے ہیں ، آپ اپنے رب کی نعمت سے مجنون نہیں ہیں۔ اور آپ کیلئے بے شمار اجر ہے۔ اور آپ اخلاق عظیم پر ہیں۔ پس عنقریب آپ دیکھ لیں گے اور وہ بھی دیکھ لیں گے کہ تم میں سے کون فتنہ میں مبتلاء ہے؟۔ بیشک تیرا رب جانتا ہے کہ کون راستے سے گمراہ ہے اور وہ جانتا ہے ہدایت پانے والوں کو۔ پس جھٹلانے والوں کا کہنا نہ مانو۔ وہ چاہتے ہیں کہ آپ چشم پوشی کریں تووہ بھی چشم پوشی کریں۔ اور ہر قسمیں کھانے والے ذلیل کا کہنا مت مانو۔ طعنہ دینے والا، چغلی کرکے چلنے والا، نیکی سے روکنے والا، حد سے تجاوز کرنے والاگناہ گار، گنوار پن کے علاوہ بد اصل بھی۔اگرچہ وہ مال اور اولاد والا ہے۔جب اس کے سامنے ہماری آیات پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتا ہے کہ پہلوں کی کہانیاں ہیں۔ عنقریب ہم اس کو ناک پر داغیں گے۔ بیشک ان کی مثال باغ والوں کی ہے جب انہوں نے قسم کھائی کہ ہم ضرور سویرے اس کا پھل کاٹیں گے لیکن استثناء (انشاء اللہ) نہیں کیا۔ پھر تیرے رب کی طرف سے اس پر ایک جھونکا چلا اور وہ سوئے تھے۔ پھر وہ کٹی ہوئی کھیتی کی طرح ہوگیا۔ پس صبح پکارنے لگے۔ سویرے چلو اگر تم نے پھل توڑنا ہے۔ پھر وہ آپس میں چپکے چپکے یہ کہتے ہوئے چلے کہ تمہارے باغ میں آج کوئی محتاج نہ آنے پائے۔ اور وہ سویرے اہتمام کے ساتھ پھل توڑنے پر قدرت کا خیال رکھتے ہوئے چل پڑے۔ پس جب انہوں نے دیکھا تو کہنے لگے کہ بیشک ہم تو گمراہ تھے بلکہ ہم محروم ۔ان میں سے معتدل مزاج اچھے نے کہا کہ میں نے تمہیں پہلے کہا نہیں تھا کہ اگر ہم تسبیح کرتے۔انہوں نے کہا کہ ہمارا رب پاک ہے اورہم ہی ظالم تھے۔ پھر ایکدوسرے کی طرف متوجہ ہوکر ایکدوسرے کی ملامت کرنے لگے۔ انہوں نے کہا کہ ہم پر افسوس کہ ہم سرکش تھے ہوسکتا ہے کہ ہمارا رب اس کا بدلہ اس سے بہتر دے۔ہم اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ اسی طرح عذاب ہوتا ہے اور آخرت کا عذاب بڑا ہے اگر جان لیں۔پس کیا ہم مسلمانوں کو مجرموں کی طرح کردیں گے؟۔تمہیں کیا ہوا،کیسے حکم لگاتے ہو؟۔ کیا تمہارے پاس کوئی کتاب ہے جس میں تم پڑھتے ہو؟۔ تمہارے لئے اس میں لکھا ہے کہ تم جو چاہو اپنے لئے مرضی کے نتائج مرتب کرو؟۔ (سورہ قلم آیت1سے38)
اس واقعہ میں حق اور باطل کا بھرپور آئینہ دکھایا گیا ہے۔
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جون اسپیشل ایڈیشن2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
نوشتہ دیوار جون 2024
جھوٹ نے قوم کو اندھا کردیا؟
جھوٹ نے قوم کو اندھا کردیا؟
پشتو کی مشہور کہاوت ہے کہ ”جب سچ آتا ہے تو جھوٹ گاؤں کو پہلے سے بہا چکا ہوتا ہے”۔ رات کے آخری پہرکبیرپبلک اکیڈمی میں مولوی شبیر صاحب نے گھر کے دروازہ پر بہت شدت سے دستک دی اور کہا کہ بہت بڑا زلزلہ آنے والا ہے۔ کوہاٹ بالکل غرق ہوجائے گا۔ میں نے اپنے بچوں سے کہا کہ آرام سے نکلو۔ اپنے ساتھ بستر بھی لے جاؤ ۔ سخت سردی تھی ۔ چھوٹے بچے محمد نے زور زور سے اللہ کا ذکر شروع کردیا۔ میں نے کہا کہ گھبراؤ مت زمین جھولا بن جائے گا۔ اس نے کہا کہ زمین کو تو خدا ایسا جھولا بنادے کہ ہمارے لحاف گھر سے باہر جا پڑیں۔ دوسرے بچے عمر نے کہا کہ پانی بھی آئیگا۔ جاپان میں سونامی گزر چکا تھا تو میں نے کہا کہ پانی نہیں آئے گا۔ باہر غازی عبدالقدوس بلوچ کا بیٹا فضیل بھی سردی میں کھڑا تھا۔ میں اس کے ساتھ گیا کہ سردی سے بچنے کیلئے کوئی چیز لے لو اور پھر جٹہ قلعہ اڈے کی طرف گیا۔ وہاں میں نے پوچھا کہ کوئی افواہ تو نہیں ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ پشاور، ڈیرہ اسماعیل خان ، بنوں، کوہاٹ ، ہزارہ ، سوات اور اسلام آباد تک سب لوگوں نے رات باہر گزاری ہے۔ میں نے بچوں سے مکالمہ بتایا تو بڑے بھائی ممتاز شاہ نے کہا کہ تم مسلمان ہو، خدا کا خوف نہیں؟، زمین پر اتنا بڑا عذاب آئے گا اور تم کہتے ہو کہ زمین جھولا بنے گا؟۔ میں نے عرض کیا کہ اگر واقعی کوئی مصیبت آنے والی ہے تو بچوں کا دل نکالنے کے بجائے آزمائش کی گھڑی حوصلے کیساتھ گزاریں۔ اگر جھوٹ ہے تو بھی خوامخواہ کا خوف غلط ہے۔ مجھے کراچی میں صبح دفتر آتے ہوئے رنچھوڑ لائن میں ساتھی نے بتایا کہ ایک افواہ چلی کہ مولانا فضل الرحمن کو قتل کردیا گیا لیکن تصدیق ہوگئی ہے کہ جھوٹ ہے۔ پھر رات کو 11بجے کسی نے خبر سنائی کہ لالو کھیت سے آیا ہوں اور مولانا فضل الرحمن کو قتل کیا گیا ہے۔ میں نے سوچا کہ جب کراچی کا یہ حال ہے جہاں دکانوں میں بھی TVرکھے ہیں تو گاؤں دیہاتوں اور دیگرشہروں کا کیا حال ہوگا؟۔ پھر کسی سے پوچھ لیا کہ زلزلے کی خبر TVمیں آئی ہے؟۔ تو اس نے کہا کہ TVپر یہ خبر نہیں ہے۔ پھر میں نے کہا کہ بس پھر تو صاف جھوٹ ہے اور گھر میں بھی بتادیا ۔
کوئی بھی افواہ اور جھوٹا بہتان کسی کے خلاف پھیلانا ہو تو پہلے زبان کی دیر تھی اور اب سوشل میڈیا نے طوفان برپا کیا ہوا ہے۔ اگر سزا وجزاء کا قانون دنیا میں نہیں ہو تو پھر بہت مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ حکومتوں کو بدلا جاتا ہے۔ ریاست کو بدنام کیا جاتا ہے اور سیاسی جماعتوں کا بیڑہ غرق کردیا جاتا ہے۔ فرقہ واریت کا طوفان اٹھایا جاتا ہے۔ توہین مذہب کے نام پر اشخاص، گھر اور گاؤں تباہ کردئیے لیکن یہ قوم کوئی سبق سیکھنے کو تیار نہیں ہے۔ پنجاب کے اندر جو بل پاس ہواہے تو قانون سازی کی افادیت سے انکار نہیں لیکن مزید خرابیوں کا خدشہ بھی ہے۔
میڈیا کے عنوان میں جھوٹ ہوتا ہے، جس پر جرمانہ لگایا جائے تاکہ یوٹیوب کی کمائی کیلئے یہ شیطان لعین کی طرح جھوٹ سے کام نہ لیں۔اگر قرآن وسنت کا قانون ہتک عزت کے حوالے سے کمزور وطاقتور کیلئے نافذ کردیا جائے تو بڑے انقلاب کی توقع ہے۔ اس قوم کا ضمیر بالکل مرچکا ہے اور لوگ مایوسی کا شکار ہیں۔ قرآن وسنت کے ذریعے مردہ ضمیروں میں روح ڈال کر زندہ کیا جاسکتا ہے اور اس کیلئے بنیاد کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہے۔ حضرت یوسف کے بھائی حضرت یعقوب کے بیٹے، حضرت اسحاق کے پوتے اور حضرت ابراہیم کے پڑپوتے تھے لیکن اپنے نبی بھائی حضرت یوسف کیساتھ انہوں نے حسد کی وجہ سے کیا سلوک کیاتھا؟۔ پاکستان میں سیاسی، طبقاتی، لسانی، فرقہ وارانہ اور مفادپرستانہ کشمکش کا سلسلہ بہت تیزی سے جاری ہے۔ہمارے مہمانوں، قرابتداروں اور گھر کے افراد سمیت 13لوگوں کو شہید کرنے والے طالبان کو ہمارے کچھ عزیز وں نے کیوں غلط راستے پر استعمال کرلیا؟۔نامعلوم سے زیادہ معلوم لوگوں کا اس میں کردار تھا۔
عمران خان کا عدت نکاح کیس اور حسن نثار کی بیہودہ بکواس اور ملک بھر میں جرائم کی داستانیں
قرآن میں عدت کی یہ اقسام ہیں ۔1: ایلاء کی عدت ، 4ماہ۔ البقرہ 226۔ 2: طلاق کی عدت ۔ 3ادوار طہرو حیض یا3 ماہ اور حمل کی عدت وضع حمل۔ 3: بیوہ کی عدت 4ماہ 10دن۔ اور حدیث میں خلع کی عدت ایک حیض یا ایک ماہ ہے۔
ہم عمران خان اور بشریٰ بی بی کی نہ وکالت کرتے ہیں اور نہ مخالفت اسلئے کہ جب اچھے دن تھے تو سب ٹھیک تھا اور برے دن آئے تو سب غلط ہوگیا۔ عدل و انصاف ، غیرت و حمیت اور اخلاقیات کا یہ تقاضہ نہیں کہ اس طرح تلپٹ ہو۔ تاہم حسن نثار اور جاوید غامدی وغیرہ مذہب کے نام پر انتہائی بیہودہ بکواس نہ کریں۔ جب شوہر قرآن و سنت کے مطابق حیض کے بعد پاکی کے دنوں میں ہاتھ لگائے بغیر طلاق دیتا ہے تو اس کو پتہ ہوتا ہے کہ پیٹ میں بچہ نہیں۔ مگر اسکے باوجود عدت کا تصور قرآن و سنت میں بالکل واضح ہے۔ حسن نثار بہت بھونڈے انداز میں کہتا ہے کہ آج کے دور میں الٹراساؤنڈ سے بچے اور بچی کا پتہ چل جاتا ہے تو عدت کی اس دور میں ضرورت دقیانوسی ہے۔ حسن نثار کی صحافت گٹھیا ہے۔ علماء احتجاج وہاں کرتے ہیں جہاں ان کا کوئی فائدہ ہوتا ہے یا کوئی ان کی دُم ہلا دیتا ہے۔
قرآن میں ہاتھ لگانے سے پہلے کی طلاق میں عورت پر عدت نہیں اور مرد پر آدھا حق مہر ہے۔ قرآن میں حق مہر امیر و غریب پر اپنی اپنی وسعت کے مطابق رکھا گیا ہے۔ چند دن پہلے ایک مغربی گوری خاتون کا پاکستانی کے ساتھ نکاح ہوا تو اس میں حق مہر 5ہزار رکھا گیا۔ یہ علماء نے قرآنی احکام کو مسخ کرکے رکھ دیا ہے اور جب تک قرآن کی طرف رجوع نہیں کریں گے تو ہماری اصلاح نہیں ہوگی۔
ہاتھ لگانے سے پہلے کی طلاق میں حرج نہیں۔ عورت کو ہاتھ لگایا جائے تو پھر عدت اسلئے ہے تاکہ حتی الامکان نباہ کی صورت نکلے اور بچوں کیلئے بھی والدین کا ساتھ رہنا عظمت کی بات ہے۔ جب میاں بیوی جدا ہوتے ہیں تو بچوں پر اسکے بہت برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔قرآن میں ہر چیزکا تعلق فطرت سے ہے اور یہ بہت گٹھیا بات ہے کہ بچوں کو عدت اور نکاح ثانی کا پتہ تک بھی نہیں ہو ۔
سعودی عرب سے قاضی صدیق نے اپنے آڈیو پیغام میں کہا ہے کہ اس کی شادی شدہ بھتیجی کا کسی آشنا سے تعلق تھا۔ پھر وہ نکاح میں اس کے ساتھ بھاگی اور لاہور کی عدالت سے اس کو اپنے آشنا کیساتھ جانے کا پروانہ مل گیا۔ یہ کیسا اسلام ہے ؟۔ یہ کیسی عدالت ہے؟۔ یہ کیسی غیرت ہے؟۔ میں آؤں گا تو اپنے بڑے قاضی احسان اور سب ذمہ داروں سے پوچھوں گا۔ میرا یہ پیغام عام کیا جائے۔
پاکستان اپنے پڑوسی اسلامی برادر ممالک میں سب سے زیادہ آزاد ملک ہے اور اس میں سب سے زیادہ آزادی کا تصور ہے۔ لیکن افسوس کہ ہم اپنی آزاد ی کو اچھے مقاصد کیلئے استعمال کرنے کے بجائے اپنے مفادات اور گالی گلوچ کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ سندھیوں کو کچے کے ڈاکوؤں سے مسئلہ ہے ، بلوچستان کے بلوچوں کو سرکاری باوردی فورسز سے مسئلہ ہے۔ صحافی بایزید خروٹی نے ایک ویڈیو بناکر کمال کردیا جہاں پولیس والے اپنے دوستوں کیساتھ لوٹ مار میں مصروف تھے اور یہ پتہ نہیں چل ر ہا تھا کہ انکا تعلق کس محکمے سے ہے؟۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ” خیبر پختونخواہ میں ریاست کی رٹ ختم ہوچکی ہے اگر کچھ مسلح افراد پہنچ جائیں تو جنرل بھی چائے روٹی دیں گے”۔ پنجاب کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پارٹیوں کے ایم این ایز اور ایم پی ایز غنڈوں کو کورٹ کچہری اور پولیس کی مدد فراہم کرتے ہیں جس کی وجہ سے شریفوں کے پنجاب میں شریف لوگوں کا جینا دوبھر ہوگیا ہے۔ تنویر احمد مغل نے مریم نواز کو درخواست لکھی ہے۔ پنجاب میں بدمعاشی ختم کرنے سے مسئلہ حل ہوگا ورنہ توپھر غریب طالبان بن جائیں گے۔ جمہوریت کو جمہوریت کے علمبرداروں نے خراب کیا ہے وہ درست کرسکتے ہیں۔
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جون2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
ہم تمہاری عزتیں ، تمہاری جانیں اور تمہارے مالوں کوبچانے نکلے ہیں آؤ ہمارے ساتھ چلو!
ہم تمہاری عزتیں ، تمہاری جانیں اور تمہارے مالوں کوبچانے نکلے ہیں آؤ ہمارے ساتھ چلو!
وانذرعشریتک الاقربین
اور (اے نبی ۖ!) اپنی قریبی رشتہ داروں کو خوف دلاؤ۔ قرآن
اللہ تعالیٰ نے دورِجاہلیت کے عربوں میں جب آخری نبی حضرت محمد رسول اللہ ۖ کو مبعوث فرمایا تو سب سے پہلے اپنے عزیز واقارب کو ڈرانے کی تلقین کا حکم فرمایا۔ اسلام دنیا میں سب انسانوںکی عزتوں ، جانوں اور مالوں کوتحفظ فراہم کرتا ہے۔
اسلام کو خانہ کعبہ میں 360بتوں سے بڑامسئلہ عزیٰ ، لات اور منات کے نام پرعوام کی جان، مال اور عزتوں کی پامالی تھی۔ عورتیں اور مرد ننگے طواف کرتے، معمولی معمولی باتوں پر قتل وغارتگری کا بازار گرم ہوتاتھا اورلوگوں کے اموال کو سود، مزارعت ، ڈکیتی اور مجرمانہ اندازسے کھانے کا سلسلہ رہتا تھا۔ حلالہ سے لیکر کیا برائی اب باقی رہ گئی ہے؟۔
جب نبی ۖ نے حجاز میں انقلاب برپا کردیا تو سب سے پہلے اپنے چچا کے قتل اور اپنے چچا کے سود کو معاف کردیا۔ حالت جنگ میں بھی عورت اور پرامن لوگوں پر ہاتھ اُٹھانے سے منع کردیا تھا۔
آج پاکستان میں طبقاتی کشمکش نے حالات کو بہت نازک موڑ پر پہنچادیا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک دوسرے سے دشمنی کی انتہاء کی ہے۔ عوام کی مقبول قیادت عمران خان اور فوج کے درمیان محاذ آرائی نے حالات کوبہت نازک موڑ پر پہنچا یا۔ 2008ء سے2013ء تک پیپلزپارٹی ، آصف علی زرداری نے کچھ کیا تھا یا نہیں ؟۔ فوج، طالبان اورن لیگ نے پیپلزپارٹی کیخلاف محاذ آرائی کی۔ خواجہ شریف چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے قتل کا منصوبہ بنایا گیا ۔ صدر مملکت آصف زرداری اور سلمان تاثیر گورنر پنجاب کوملوث قرار دینا تھا۔ شہباز شریف وزیراعلی پنجاب تھا ۔ رؤف کلاسرا نے اپنی تحقیق بھی پیش کی تھی جس میں صحافی انصار عباسی بھی تھا۔
پارلیمنٹ اور سینٹ میں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کھل کر حقائق پر بحث کریں۔ اپنی اپنی غلطیوں کی بھی قوم سے معافی مانگیں۔ صحافیوں کو بھی کٹہرے میں لائیں اور ان سے غلطیوں کی معافی منگوائیں۔ پھر عمران خان، طالبان اور ریٹائرڈ فوجی افسران کی طرف سے بھی کھل کر غلطیوں کا اعتراف آجائیگا۔ اپنی غلطیوں کا اعتراف مسائل کا اصل حل ہے۔
مسلم لیگ وپیپلزپارٹی کا فائدہ کس چیز میں ہے؟
مسلم لیگ کے قائدین کہتے ہیں کہ PDM کی حکومت سے ہمیں فائدہ یہ پہنچا۔ کیس ختم ہوگئے اور عمران خان نے مرضی سے آرمی چیف نہیں بنایا۔ وہ سزائیں دلواتا اور ہماری مشکلات ختم نہ ہوتیں۔ مگر نقصان یہ بھی پہنچ گیا کہ ن لیگ کی مقبولیت کا گراف گرگیا اور عمران خان کو مقبولیت مل گئی ہے۔
2004ء میں ن لیگ اور پیپلزپارٹی کا گراف بہت گرچکا تھا اسلئے کہ دونوں نے ایک دوسرے کے خلاف کیس بنائے اور پروپیگنڈ ہ کیا تھا لیکن جب 2008ء کے بعد ایک مشترکہ حکومت بنائی اور پرویزمشرف کو بھی ہٹادیا تو یہ پھر ایک دوسرے کے پیچھے لگ گئے۔ کس کی غلطی تھی ؟ اور کس کی غلطی نہیں تھی؟۔ دونوں اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں تو عمران خان بھی اپنی غلطیوں کا اسی وقت اعتراف کرلے گااور میں نہ مانوں کا معاملہ ختم ہوگا تو یہ ملک ترقی کی منزل کا سفر طے کرسکے گا۔
زرداری اور سلمان تاثیر کو جسٹس شریف کے قتل کی سازش میں نہیں پھنسایا جاسکا لیکن سلمان تاثیر کا قتل، یوسف رضا گیلانی اور سلمان تاثیر کے بیٹوں کا افغانستان اغواء اس سلسلے کی کڑیاں تو نہ تھیں؟۔ سلمان تاثیر قتل سے علامہ خادم حسین رضوی برآمد ہوا۔پھر صحافی ابصارعالم نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو اسلئے نوازشریف کے ذریعے آرمی چیف بنوایا کہ اس کا سسر قادیانی تھا جس کی وجہ سے فوج میں زیر عتاب تھا۔ نوازشریف جنرل باجوہ کو خوش کرنے کیلئے قادیانیت کے حق میں بل لایا، جس میں اتحادی مولانا فضل الرحمن اور اپوزیشن عمران خان بھی شریک تھے۔ شیخ رشید نے آواز اٹھائی جس کا جماعت اسلامی نے ساتھ دیا تھا۔ پھر فیض آباد دھرنے کا مسئلہ اٹھ گیا اور عمران خان بھی اس میں کود گیا جس میں احسن اقبال کو گولی ماری گئی تھی۔ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی جرائم کا اعتراف کریں تو عمران خان اور فوج جرنیل بھی غلطیوں کا اعتراف کریں گے۔ بلیم گیم کا سلسلہ جاری رہا تو ریاست و حکومت کا سمجھ سے باہر ناقابلِ تلافی نقصان ہوگا۔ اپنی غلطیوں پر اکڑنے سے ہوائیں اکھڑ جاتی ہیں اور اعتراف جرم سے معافی تلافی بھی ہوجاتی ہے۔
پاک فوج و عمران خان کا فائدہ کس چیز میں ہے؟
فوج و عمران خان ایک پیج پر تھے تو رانا ثناء اللہ پر20کلو ہیروئن کا کیس کردیا تھا لیکن یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ کس نے کیس کیا؟۔ رانا ثناء اللہ نے میڈیا کو بتایا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کیس کیا تھا اور جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ میرا اس میں کوئی کردار نہیں تھا؟۔ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ ”اگر ہائی کمان کا کردار نہ ہوتا تو جس فوجی افسر نے مجھ پر کیس کیا تھا تو اس کا کورٹ مارشل ہوجانا تھا”۔
آج تحریک انصاف کے قائدین اور کارکنوں پر جتنے پہاڑمشکلات کے ڈھائے گئے ہیں اس کا سارا ملبہ پاک فوج کے کھاتے میں جارہاہے۔ کچے کے ڈاکو، طالبان اور سیاست گردی کے تمام واقعات پر سوشل میڈیا میں تبصرہ ہوتا ہے تو فوج نشانہ بنتی ہے۔ 2008ء سے2013ء تک پیپلزپارٹی کی قیادت کیساتھ برا ہوا تو سندھ میں فوج کاگراف گر گیا۔ پختون ،بلوچ بہت پہلے سے بدظن تھے۔ 2013 سے 2018ء تک مسلم لیگ ن ، جیو ٹی وی اور دیگر کے خلاف عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کو اٹھایا گیا تو آدھاپنجاب فوج مخالف ،آدھا عمران خان کا حامی بن گیا پھر عمران خان کے خلاف اقدامات ہوئے تو باقی پنجاب بھی فوج کے خلاف کھڑا ہوگیا۔ فوج کا بہت بڑا نقصان ہوگیا اسلئے کہ پنجاب کو بھی ہاتھ سے کھو دیا ہے۔ KP، GB،کشمیر،بلوچستان و سندھ میں پہلے سے معاملہ خراب تھا۔ محمود اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن نے فوجی اہلکاروں پر الیکشن میں اربوں روپے میں قومی وصوبائی اسمبلیاں بیچنے کا الزام لگادیا اور نوازشریف کے قریبی سیاستدان میاں جاوید لطیف نے بھی کہا ہے کہ شیخوپورہ کی5 صوبائی سیٹوں پر 90کروڑ روپے لئے گئے تھے۔
مولانا فضل الرحمن کا گراف بہت گرچکا تھا اسی لئے پشین بلوچستان سے الیکشن لڑکر جمعیت علماء کی ناک کاٹ دی۔ پہلے بھی فیل ہوتا رہاہے اور جب پاس ہوا ہے تو فوج کی مداخلت سے بھی ہوا ہے۔ اب مولانا فضل الرحمن نے غیرت وعزت کا مقابلہ طاقت وجبر کا عنوان دے کر اچھی سیاست کا آغاز کردیا ہے۔ لیکن اس کے عقیدت مند حلالہ کی لعنت سے ایمان اور عزت دونوں کو اب کھورہے ہیں۔
افغانستان اورTTPکا فائدہ کس چیز میں ہے؟
افغان حکومت نے اپنی مدد کیلئے روس کو بلایا تھا تو مجاہدین نے جہاد شروع کیا اور امریکہ ، عرب اور چین سمیت پڑوسی ممالک پاکستان اور ایران نے بھی اس کی مدد کی تھی۔ چین وروس دونوں کمیونسٹ تھے لیکن روس کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈہ کیا گیا کہ وہ ماں بہن کو نہیں پہچانتا۔ حالانکہ یہ بات بالکل ہی غلط تھی۔ روس کے قانون میں نکاح کا بندھن بڑا مضبوط نظام تھا۔ ہمارے دوست ناصر علی نے ایک طلاق شدہ لڑکی سے نکاح کیا تو پتہ چلا کہ ایک سال تک طلاق کے پراسیس کے بغیر کسی اور شخص سے وہ نکاح نہیں کرسکتی تھی۔ اسلام میں طلاق کی عدت 3 ماہ ہے اور سویت یونین میں ایک سال ہے۔ اسی طرح کمیونزم میں محدود پیمانے پر ذاتی ملکیت کی قانونی اجازت تھی مگر لوگوں کو غلط فہمی کا شکار کیا گیا۔ 1970ء میں جمعیت علماء اسلام کے اکابرین نے سودی سرمایہ دارانہ نظام کیپٹل ازم کے مقابلے میں کمیونزم کو اسلام کے قریب قرار دیا تو مفتی اعظم اور شیخ الاسلام لوگوں نے ان پر کفر کے فتوے لگائے۔
افغان طالبان اور تحریک طالبان پاکستان نے امریکہ ، نیٹو اور اس کے اتحادیوں کیساتھ جہاد کیا تو کمالات کی تاریخ رقم کردی۔ امریکہ اور نیٹو نے یہ محسوس کرلیا کہ اس خطے میں سکون کی زندگی کسی بھی قیمت پر نہیں گزار سکتے ہیں۔ نیٹو کے نکلنے کے بعد افغانستان پر طالبان نے قبضہ کرلیا اور پھر TTP کی بڑی تعداد پاکستان آگئی۔ صحافی ہارون الرشید نے کہاتھا کہ” TTPسیاست کرے گی، ظاہر ہے کہ کوئی بنٹے تو نہیں کھیلے گی۔ اگر فوج کے خلاف جنگ کی توپہاڑوں کو ان کے خلاف گرم کیا جائیگا”۔
امریکی اہل کتاب اور پاک فوج مسلمان ہے۔ نبی ۖ نے اسلام کے بڑے دشمن قریش مکہ سے بھی صلح حدیبیہ کا معاہدہ کیا تھا۔ افغان طالبان اور TTPاب 10سال تک ہرقسم کی جنگ بند کریں۔ اور اپنی غلطیوں کا محاسبہ کریں۔ خطے کی مشکلا ت کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کریں۔ امن وسلامتی کا راستہ ترقی وعروج کی منزل اور فتح پر پہنچاسکتا ہے۔ جنگ وجدل میں تباہی وبربادی کے سوا کچھ نہیں رکھا ہے۔ اچھا ماحول کامیابی کی ضمانت بن سکتا ہے۔
گڈ طالبان بیڈ طالبان کا فائدہ کس چیز میں ہے؟
پا کستان میں گڈ اور بیڈ طالبان کی شکلیں بدلتی رہتی ہیں۔ عبداللہ محسود گوانتانا موبے سے جب رہا ہوکر آیا تو اپنا گروپ تشکیل دیا پھر بیت اللہ محسود کا گروپ بھی بن گیا۔ بیت اللہ محسود گڈ اور عبداللہ بیڈ بنادیا گیا۔ پھر ایک وقت آیا کہ بیت اللہ محسود بیڈ اور عبداللہ محسود کی باقیات گڈ طالبان بن گئے جس نے کمیٹی کے نام سے کام شروع کیا۔ کمیٹی کی سرپرستی حکومت کرتی تھی۔ کمیٹی کو فری ہینڈ دیا گیا تو اس میں ہرطرح کے لوگ شامل ہوگئے۔ بدمعاش لوگوں کی طرف سے جہاں طالبان کے ساتھ ظلم وزیادتی کی گئی وہاں شریف و بے گناہ لوگ بھی مارے گئے۔ پھر کمیٹی کے نام سے کام کرنے والے مارے گئے۔
اب تحریک طالبان پاکستان کے بڑے یہاں موجود نہیں ہیں لیکن ایک طرف بے لگام گروپ ان کے نام پر خود ساختہ کاروائیاں کرتے ہیں تو دوسری طرف ریاست نے ان کے خلاف گڈ طالبان بھی پال رکھے ہیں۔ اگر دونوں طرف کے لوگ پہلا کام یہ کریں کہ بندوق رکھیں۔ دوسرا اپنے جائز روزگار کی تلاش اور امن وسکون کی زندگی اپنائیں۔ تیسرا یہ کریں کہ اپنے اپنے چھوٹے بڑے جرائم کا بہت کھل کر اعتراف کریں۔ حضرت وحشی نے نبیۖ کے چچا سیدالشہداء امیر حمزہ کے کلیجے کو نکال دیا اور حضرت ہندہ نے چبا ڈالا تھا جس سے رسول ۖ نے فرمایا تھا کہ ”میرے سامنے مت آؤ ، میرا چچا یاد آتا ہے”۔ لیکن ان کو معاف کیا گیا تھا تو طالبان کی بھی معافی بالکل ہوسکتی ہے۔ دنیا میں توبہ کا دروازہ بالکل کھلا ہے۔ جب افغانستان سے نیٹو نکل گیا اور افغان طالبان نے قبضہ کرلیا تو ہم نے اپنے اخبار میں لکھ دیا تھا کہ طالبان میں بہت اچھے لوگ ہیں۔ بہت سے لوگ اس وقت طالبان بن گئے جب ان کی ساری دنیا اور اچھے لوگ تائید کرتے تھے۔ اب وہ وہاں پھنس گئے ہیں۔ امریکہ نکل چکاہے تو ایسے طالبان کی باعزت واپسی کا راستہ ہموار کیا جائے۔
پھر جب انکے ساتھ معاہدہ ہوا تو پاکستان میں تبدیلی آگئی۔ لوگوں نے بھی جلوس نکالے تھے۔ اب گڈ اور بیڈ دونوں ایک دوسرے کو سمجھتے ہیں لیکن امن وسکون کسی کوبھی میسر نہیں اسلئے ہتھیار رکھیں۔
اقبال جرم یامکرنے میں؟ فائدہ کس چیز میں ہے؟
حضرت آدم و حواء نے بھی اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کی تھی اور ابلیس لعین مردودنے بھی۔ حضرت آدم وحواء نے اقبال جرم کرلیا اور بلند مرتبہ پالیا اور ابلیس نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا اور مردود لعین بن گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ابلیس کو توبہ کی توفیق کیوںنہیں مل سکی ہے جبکہ حضرت آدم وحواء کو توبہ کی توفیق مل گئی۔ دونوں میں بنیادی فرق کیا تھا؟۔
شیطان لعین نے جان بوجھ کر اللہ کی نافرمانی کا ارتکاب کیا تھا اور اس میں تکبر تھا جبکہ حضرت آدم و حواء نے جان بوجھ کر حکم عدولی کا ارتکاب نہیں کیا۔ اسلئے شیطان اپنی غلطی پر ہٹ دھرمی سے قائم رہا تھا اور حضرت آدم وحواء نے جلدازجلد توبہ کرلی تھی۔
جب TTPنے ہم پر حملہ کرکے 13افراد کو شہید کردیا تو اقبال جرم کرلیا، معافی بھی مانگی اور یہ بھی واضح کردیا کہ تمہارے قرابتدار پیروں نے غلط پروپیگنڈہ کیا قاری حسین کا مرکزی کردار تھا لیکن قاری حسین وغیرہ کو کیوں مغالطہ دیا گیا تھا؟۔
طالبان نے اقبالِ جرم کرلیا، معافی مانگ چکے اور انہوں نے یہ پیشکش بھی کی کہ اصل مجرموں کو بھی ہم ٹھکانے لگاتے ہیں ۔ شہداء کے بدلے میں قاتلوں کو بھی قتل کردیں گے۔ لیکن پھر لائن کٹ گئی اب اگر حقائق سامنے آجائیں تو مجرم کے چہروں سے نقاب ہٹ جائینگے اور یہ سزا بھی کم نہیں ہے۔
افغان طالبان، داعش، تحریک طالبان پاکستان اور سارے جنگجو گروپوں کے قائدین ایک جگہ بیٹھ کر اپنی اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں۔ دوسرے کسی اور کی غلطیوں کو نہیں سمجھ سکتے۔ اگر افہام وتفہیم سے کام نہیں لیا گیا تو امریکہ اور دوسری قوتیں لڑائیں گی ۔
محمود خان اچکزئی نے بھی کہا ہے کہ” اس خطے میں بجلی، گیس اور پیٹرول مفت ہے لیکن افغانستان اور پاکستان کو آپس میں ایک ہونا ہوگا۔ میں طالبان اور پاکستان کی صلح کراتا ہوں”۔ اگر صلح نہیں ہوئی تو جنگ ہوگی ۔ ڈرون وجہازوں سے بمباری ہوگی۔ طالبان قیادت رہے گی اور نہ پاک فوج۔ عراق اور لیبیا کی طرح تباہ اور تیل وگیس پر قبضہ کرلیںگے۔ عمران خان اپنی ماں فوج کی گود میں بیٹھا تھا، کالے تیتر وں کی لڑائی صرف آواز تک محدود رہتی ہے۔
حنفی علماء ومفتیان کاعلم!
کانیگرم میں مولانا شاداجانکی مسجد میں پہلے مولانا گل بہادرتھا۔جو علماء سے غصہ میںکہتا تھا کہ ”قرآنی نسخے پرتمہیں پیٹ پیٹ پر اتنا ماروں گا کہ تمہاری بدعات کے سارے کیڑے گر جائیں”۔
وہ مسجد کی امامت اور دینی خدمت پر معاوضہ لینا حرام سمجھتا تھا۔ محنت مزدوری کرتا تھا۔ شاید مزدوری کرنے دوبئی گیا۔بڑا نیک تھا لیکن لوگ اس کو تھوڑا پاگل سمجھتے تھے۔ اگر قرآنی نسخے پر مارنے کی بات پنجاب میں کرتاتو لوگ اس کو گستاخی پر قتل کردیتے مگر ان کو یہ پتہ نہیں کہ ”فتاویٰ شامیہ میں صاحب الھدایہ کی کتاب تجنیس کے حوالے سے لکھا ہے کہ علاج کیلئے نکسیر سے سورہ فاتحہ کو لکھنا جائز ہے اور پیشاب سے بھی سورہ فاتحہ کو پیشانی پر لکھنا جائز ہے۔ اگر یقین ہو کہ اس سے علاج ہوجائے گا”۔
صدر تنظیم المدارس مفتی منیب الرحمن کے استاذ علامہ غلام رسول سعیدی نے لکھا کہ ” علامہ شامی کو قرآن سے عقیدت تھی۔ بال کی کھال اتارنے کے چکر میں یہ غلطی سرزد ہوگئی، اگر سورج کی طرح یقین ہوجائے کہ علاج ہوگا تب بھی سورۂ فاتحہ کوپیشاب سے لکھنے سے مرجانا بہتر ہے”۔علامہ سعیدی نے مجھے بتادیا کہ ” علماء نے میرا گریبان پکڑلیا تھا کہ تم نے علامہ شامی کے خلاف لکھنے کی جرأت کیسے کی؟ اور میں قتل ہوتے ہوتے اور پٹتے پٹتے رہ گیا تھا”۔
کوئٹہ کے سیدفرمان شاہ کو ہم نے جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی بھیج کر سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کے خلاف فتویٰ لیا۔پھر مفتی تقی عثمانی کی کتاب فقہی مقالات جلد چہارم سے بھی حوالہ نقل کرکے اخبار ضرب حق میں شہ سرخیوں کیساتھ شائع کردیا تھا۔
بریلوی مکتب خاص کر دعوت اسلامی والوں نے ہمارے اخبار کے بڑے پیمانے پر فوٹوسٹیٹ کرکے مفتی تقی عثمانی کے خلاف زمین کو بہت گرم کردیا تھا لیکن ان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ان کے اپنے کیا کہتے ہیں؟۔ مفتی تقی عثمانی نے روزنامہ اسلام کراچی میں لکھ دیا کہ ” میں یہ تصور بھی نہیں کرسکتا ۔اپنی کتابوں ”فقہی مقالات” اور” تکملہ فتح الملہم” سے نکالنے کا اعلان کرتا ہوں اور تنبیہ پر شکریہ ادا کرتاہوں”۔
مفتی تقی عثمانی نے خوف کی وجہ سے ”رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ ” کی رکنیت سے استعفیٰ دیا۔ ہم نے بریلویوں کو یاد دلادیا کہ تمہاری کتابوں میں بھی یہ چیز ہے تو پھر انہوں نے مفتی تقی عثمانی کی جان چھوڑ دی تھی۔پھر مفتی سعید خان نکاح خواں عمران خان نے اپنی کتاب ”ریزہ الماس” میں فاتحہ کوپیشاب سے لکھنا جائز قرار دیا ۔ اسلام کا بیڑہ غرق علماء نے کیا اسلئے انکے نام کیساتھ” رح” لکھنا چاہیے۔
ہمارے علماء ومفتیان!
کانیگرم میں مولانا شاداجان نے کہا کہ نماز کی سنتوں کے بعد اجتماعی دعا و حیلہ اسقاط بدعت ہے۔ جس پر مولانا محمد زمان نے قادیانیت کا فتویٰ لگایا۔ ہماری مسجد میں باہر سے علماء بلائے گئے۔ دونوں کی بات سن کر انہوں نے اپنا فیصلہ فارسی میں سنایا لیکن عوام کو فارسی نہیں آتی تھی۔ مولانا محمد زمان کے ہاں ڈھول کی تاپ پر رقص ہوا کہ ہم جیت گئے۔ مولانا شاداجان کے حامیوں نے بھی ڈھول بجاکر اعلان کردیا کہ ہم جیت گئے ۔ہماری مسجد کے امام مولانا اشرف خان نیک اور شریف انسان تھے جو دارالعلوم دیوبند کے فاضل تھے۔ اگر عوام کو اتنا بتادیتے کہ دارالعلوم دیوبند میں سنت نماز کے بعد اجتماعی دعا نہیں ہوتی۔ مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ کی بڑی کتاب ہے کہ سنتوں کے بعد اجتماعی دعا بدعت ہے۔ تو معاملہ حل ہوتا۔ حق بولنے سے خاموش تھا۔ اسلئے کہ خود بھی سنتوں کے بعد اجتماعی دعا کرتا تھا۔
سہراب گوٹھ میں جنت گل کی مسجد میرے کلاس فیلو مولانا عبدالرزاق ژوبی نے پکڑلی تھی اسلئے کہ وہ آبادی حکومت نے مسمار کردی تھی۔ امام بھی چھوڑ کر گیاتھا۔ افغانی نماز پڑھنے آتے تھے ۔ مجھے چنددن ژوبی صاحب نے امامت کی خدمت سپرد کردی ۔ مقتدیوں نے پوچھا کہ” سنتوں کے بعد اجتماعی دعا کیوں نہیں مانگتے؟”۔ جب میں نے دیوبند کا بتایا اور کراچی کے مدارس کا بتایا تو بہت حیران ہوگئے کہ پھر ہمارے افغانستان میں کیوں مانگی جاتی ہے؟۔ میں نے کہا کہ مولوی اپنے بچوں کو بھوکا نہیں مارسکتا ہے ۔ افغانی ان کو بھگا دیں گے کہ نیا دین بنادیا۔ وہ بہت خوش ہوگئے۔ کچھ لوگ اسکے گواہ ہوںگے۔
پنج پیری خود کو دیوبندی سمجھتے ہیں اور دیوبندیوں سے بہت اختلاف رکھتے ہیں۔ ہم دیوبندی اور پنج پیریوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کریں گے۔ مولانا قاسم نانوتوی و مولانا رشیداحمد گنگوہی میں اختلاف تھا۔ ہم دیوبندی بریلوی، حنفی اہل حدیث اور شیعہ سنی کو ایک پلیٹ فارم پر متحدو متفق کرنا چاہتے ہیں۔
لوگوں میں شدت جہالت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ مخلص علماء ومفتیان ایک جگہ بیٹھ کر الزام تراشی کے بجائے اپنی اپنی کتابوں میں غلطیوں کا اعتراف کریں تو پاکستان سے بڑا انقلاب آجائے گا۔ اور پاکستانی آئین کے مطابق قرآن وسنت سے قانون سازی کا آغاز ہوجائے گا۔ لوگوں میں جمود ٹوٹے گا اور فرقہ واریت کی جگہ متفقہ قانون سازی ہوگی۔ سب سے زیادہ وضاحتیں قرآن وسنت میں طلاق و رجوع کے مسئلے پر ہیں۔ اگر مذہبی طبقے نے قرآن کی طرف دیکھا تو فرقہ واریت کی گمراہی ختم ہوگی۔
ریاست مدینہ کا قانون
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی کابینہ نے ایک بل پاس کیا ہے جس پر صحافیوں نے مزاحمت کا اعلان کیا۔ دھاندلی کی پیدوار حکومت قانون سازی اپنے مقاصد کیلئے کرے توکیا مثبت تبدیلی آئے گی؟۔
جب عمران خان، شہبازگل اور اعظم سواتی نے DGCISI فیصل نصیرپرالزام لگائے تو عوام میں بڑی مقبولیت مل گئی۔ صحافی احمد نورانی نے شہباز گل اور اعظم سواتی کے الزامات کو غلط قرار دیا، حالانکہ وہ تحریک انصاف کا بڑا حامی اور فوج کا سخت مخالف نظر آتا ہے۔ بہتان پر سزا ہو تو یہ قرآن کے قانون کے عین مطابق ہے۔ عمران خان کی FIRاس کی مرضی کے مطابق درج نہیںہورہی تھی تو کہتا تھا کہ مجھ سے یہ روش ہے تو عام آدمی کا کیا حال ہوگا؟۔
جب عمران خان ریاست مدینہ کی بات کرتا تھا تو کہتا تھا کہ نبی ۖ نے فرمایا کہ پہلے قومیں اسلئے ہلاک ہوگئیں کہ امیر وغریب اور طاقتور وکمزور کے درمیان فرق کرتے تھے۔ اگر عمران خان اپنے دور میں اس تفریق کو ختم کرکے تھانوں میں عام لوگوں کو بھی اہمیت دے دیتا تو اس پر برے دن نہ آتے۔
حضرت عائشہ پر بہتان لگا تو بہتان کی سزا 80 کوڑے واضح کی گئی۔ یہی سزا کسی غریب خاتون پر بہتان لگانے کی ہے ۔ حضرت عائشہ ہماری ماں، نبیۖ کی زوجہ محترمہ اور خلیفہ اول ابوبکر صدیق کی صاحبزادی پر بہتان کی وہی سزا ہو،جو عام غریب خاتون کیلئے ہو تو پھر کیا پاکستان میں حکمرانوں کے تحفظ کیلئے کوئی ایسی قانون سازی کی ضرورت ہے جس میں عوام کو لوٹنے کا خدشہ موجود ہو؟۔ پنجاب پاکستان کیلئے زیادہ اہمیت رکھتا ہے مگر پنجابی کیساتھ بھی شروع سے زیادتی جاری ہے۔ جہاں مسلم لیگ کے سخت مخالف خضر حیات ٹوانہ کی حکومت 1942 سے1947ء تک قائم تھی، مسلم لیگ اپوزیشن تھی ۔
آج کی طرح انگریز دور میں مقتدرہ کی چلتی تھی اوراگر مریم نواز متنازعہ قانون کی جگہ پر قرآن کے مطابق برابری کی بنیاد پر ہتک عزت کا قانون بناتی تو مریم نواز مقبول بن جاتی۔ جمعیت علماء اسلام، جمعیت علماء پاکستان، جماعت اسلامی قرآن کے مطابق ہتک عزت پر 80 کوڑے کی آواز اٹھائیں توپھر کوئی بہتان نہیں باندھے گا۔ پیسوں کی سزا بھی امیروغریب کیلئے یکساں نہیں ہوسکتی ہے۔ جب کوئی سوشل میڈیا کا صحافی ایک مرتبہ 80کوڑوں کی سزا کھائے تو اس کا چینل بھی پھر کوئی نہیں دیکھے گا۔
ہماری جمہوریت فیصل واوڈا، محسن نقوی ہے اور 6ججوں نے بھی عدالت کا ترازو بگاڑ دیا ہے اسلئے پاک فوج براہ راست قرآن کیلئے آواز اٹھائے۔
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جون2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv