پوسٹ تلاش کریں

دھرتی ماں اور فرقے کی رٹ چھوڑ کر حقائق اپنائیں؟

دھرتی ماں اور فرقے کی رٹ چھوڑ کر حقائق اپنائیں؟

رسول فرمائیں گے کہ اے میرے ربّ! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا( قرآن کا پیغام)

دھرتی ماں ،دھرتی ماں، دھرتی ، دھرتی ماں ……….کی رٹ لگانے والوں کو اپنی دھرتی سے واقعی اتنی محبت ہوتی تو آرمی چیف سید عاصم منیر کے والدین نے اپنی دھرتی ماں ہندوستان سے کیوں ہجرت کرکے لال کرتی کے پسماندہ علاقہ میں تنگ وتاریک مکان اور گلیوں کا انتخاب کیا؟۔ یہ نیک والدین ہی تھے جنہوں نے لال کرتی طارق آباد میں مسجد بنائی اور دوسری طرف بہت خراب ماحول تھا۔ سینیٹر عرفان صدیقی کا تعلق بھی لال کرتی سے ہی ہے لیکن اس نے جب کہا تھا کہ ”نواز شریف کو برطرف کرنے کے بعد 5جرنیلوں نے صدر رفیق تارڑ پر بندوق تان لی کہ استعفیٰ دیدو مگر بہادر صدر مملکت نے انکار کردیا”۔ جس پر حامد میر نے بڑی شرارت کے ساتھ خوشگوار انداز میں پوچھا کہ ” رفیق تارڑ نے ”۔ مقصد کھلا جھوٹ بے نقاب کرنا تھا۔ رفیق تارڑ میں اتنی جرأت بھی نہیں تھی کہ احتجاجاً بھی استعفیٰ دیتا۔ جب پرویزمشرف نے چاہا تو استعفیٰ دے دیا تھا۔
جب نوازشریف اور جنرل عاصم منیر کے درمیان عرفان صدیقی جیسے لوگ رابطے اور اعتماد کا ذریعہ ہوں تو اللہ ہی اس ملک کا حافظ وناصر ہو۔ حضرت علی سے کسی نے کہا کہ ”آپ کے دور میں فتنہ وفساد اور بداعتمادی ہے جبکہ پہلے خلفاء کی خلافت میں سکون واعتماد کی زبردست فضاء موجودتھی،اس کی کیا وجہ ہے”۔ علی نے جواب دیا کہ ” ان کا مشیر میں تھا اور میرے مشیر آپ ہیں”۔ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کی صفت مشاورت بیان کی تھی۔ وامرھم شوریٰ بینھم ” وہ اپنے امور باہمی مشاورت سے طے کرتے ہیں”۔ اللہ تعالیٰ نے نبی ۖ سے فرمایا : وشاورھم فی الامرفاذا عزمت فتوکل علی اللہ ”اور ان سے مشورہ لیا کریں خاص امور میں ،جب عزم کرلیں تو اللہ پر توکل کریں”۔ جب نبیۖ نے فرمایا: قلم اور کاغذ لاؤ، ایسی چیز لکھ کر دوں کہ میرے بعد کبھی گمراہ نہ ہوگے”۔ حضرت عمر نے عرض کیا کہ ” ہمارے لئے اللہ کی کتاب قرآن کافی ہے”۔ بخاری
رسول اللہ ۖ نے اپنی بات کو صحابہ پر مسلط نہیں فرمایا۔ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی خلافت پر صحابہ نے رضامندی ظاہر نہ کی ہوتی تو حضرت علی سرتسلیم ہونے کے بجائے اس طرح نکلتے جیسے حضرت حسین یزید کیخلاف نکلے ۔ حضرت عثمان اور حضرت علی کے درمیان جس شوریٰ نے فیصلہ کیا اس میں اکثر کی رائے حضرت عثمان کے حق میں تھی جس کو حضرت علی نے بھی قبول فرمایا۔ پھر حضرت علی کے بعد حضرت حسن نے مسلمانوں کے اتحاد کیلئے حضرت معاویہ کے حق میں دستبرداری اختیار کی۔ جب حضرت معاویہ نے یزید کو نامزد کردیا تو اس سے امت مسلمہ میں تفریق وانتشار کی فضا پیداہوئی۔ ابوسفیان ومعاویہ دونوں صحابی تھے اور جب یزید کے بعد اس کے بیٹے معاویہ کی باری آئی تو اس نے پھر تخت پر بیٹھنے سے انکار کردیا۔ پھر مروان بن حکم نے اقتدار سنبھالا۔ ان دونوں باپ بیٹے کو نبی ۖ نے ملک بدر کردیا تھااور بنو امیہ کی بادشاہت کا سلسلہ یہاں سے چلا تھا۔ ان کی نسل میں عمر بن عبدالعزیز تھے جن کی سنی وشیعہ تعریف کرتے ہیں۔ پھر بنوعباس اور سلطنت عثمانیہ کا سلسلہ چلا۔ پھر 1924ء سے خلافت ختم ہوگئی اور اس کوختم کرنے میں عربوں کا بڑا عمل دخل تھا۔ انگریز نے خلافت عثمانیہ کے ہوتے ہوئے ہندوستان پر قبضہ کیا۔ خلافت عثمانیہ کے ہوتے ہوئے اسرائیل کی داغ بیل پڑچکی تھی۔ شیعہ حضرت علی سے مہدی غائب تک اپنا اعتقاد رکھیں۔
چلو ہم نے مان لیا کہ حضرت عمر نے غلط کیا، رسول اللہ ۖ کی بات مانتے اور وصیت لکھنے دیتے۔ وصیت یہی ہوتی کہ بارہ امام علی سے مہدی غائب تک مان لو۔ صحابہ، تابعین ، تبع تابعین اور مہدی غائب تک مسلمانوں نے نبیۖ کا وصیت نامہ نہیں مانا۔اہل تشیع کے گیارہ اماموں کی مجموعی عمر 550سال ہے اور صرف مہدی غائب کی عمر1174سال ہے۔ رسول اللہ ۖ شروع سے ہی نبی تھے لیکن منصب نبوت کا فریضہ 40سال بعد شروع ہوا۔ حضرت ابوبکر وعمر کے دور میں حضرت علی 40سال کے نہیں تھے۔ حضرت عثمان کے بعد خلافت ملی۔
شیعہ کا مؤقف درست تسلیم کرلیا تو پھر آج کی صورتحال کیا ہے؟۔ فلسطین کے مسلمانوں پر مظالم کیخلاف سب متحد ہیں ، فرقہ واریت کا سب خاتمہ چاہتے ہیں۔ نبیۖ نے فرمایا ”جس نے اپنے زمانے کے امام کو نہیں پہچانا وہ جاہلیت کی موت مرا”۔ شیعہ سنی متفقہ قرار داد پیش کریں کہ امام زمانہ تشریف لائیں۔ اگر تشریف نہیں لاتے تو مسلمانوں نے کیا کرنا ہے؟۔ شیعہ اپنے احادیث کے ذخائر کو بھی مکمل طور پر صحیح نہیں مانتے تو پھر قرآن کی طرف توجہ کرنی پڑے گی؟۔ قرآن میں کچھ ذمہ داری عوام پر ہے تو پھر کچھ ذمہ داری امام پر نہیں؟۔ اگر ہزار سال سے زیادہ ہوا کہ امام غائب تو سابقہ اماموں کے کردار کو بھی دیکھنا پڑے گا۔ اگر امت کا نہیں گھرکے افراد کا بھی آپس میں اتفاق نہیں تھا تو پھر ؟۔ اگر گیارہ میں سے کسی ایک نے بھی امت مسلمہ کو کشتی نوح کی طرح نجات نہیں دلائی تو پھر بارویں کا انتظار کیسے کریں گے؟۔ مفتی زرولی خان، مفتی اعظم امریکہ مفتی منیر احمد اخون کو جب حضرت خضر کے فیوض وبرکات سے استفادہ مل سکتا ہے تو شیعہ بھی امام مہدی غائب پر جس طرح چاہیں ایمان رکھیں لیکن فی الحال امت کے مسائل کا حل نکالنے کیلئے قرآن کی طرف توجہ کریں گے تو معاملہ حل ہوجائے گا۔
جماعت اسلامی کے مولانا عبدالاکبر چترالی نے تحفظ صحابہ واہل بیت بل پیش کیا تھا۔ مولانا مودودی کی کتاب ” خلافت وملوکیت” پر ایمان رکھنے والے جب سمجھتے ہیں کہ خلافت راشدہ کے بعد امیرمعاویہ کی وجہ سے خلافت ملوکیت میں بدل گئی تھی۔ ناصبی سمجھتے ہیں کہ حضرت حسن و حضرت حسین کے درجات امیر معاویہ ویزید سے بلند تر تھے۔ مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ فتح مکہ کے بعد اسلام میں داخل ہونے والوں سے وہ افضل تھے جو بعد میں داخل ہوئے تو یہ بھی سب مانتے ہیں کہ ان کے ہوتے ہوئے خلافت کو ملوکیت میں بدلنا درست نہیں تھا۔ جب خلافت کو ملوکیت میں بدلنا درست نہیں تھا تو اہل تشیع کو بھی یہ پورا پورا حق پہنچتا ہے کہ وہ خلافت راشدہ میں بھی حضرت علی کو زیادہ حقدار مان لیں۔ انصار کے سردار حضرت سعد بن عبادہ کے پیروکاروں کو بھی حق تھا کہ وہ انصار کی حقداری کے معتقد ہوتے اسلئے کہ جس صحابی کی بھی اقتداء کی جائے تو ہدایت پر ہونے کی حدیث پیش کی جاتی ہے۔ ذوالخویصرہ بھی نبیۖ کا ایک صحابی تھا۔ آج کل بہت لوگوں کی اکثریت اس کی اقتداء کرتے نظر آتے ہیں اور اپنے ہی کو ہدایت پر سمجھتے ہیں۔ ان ساری باتوں کو چھوڑ کر قرآن کی طرف آنا پڑے گا۔
جب قرآن کی موٹی موٹی باتوں کی طرف شیعہ سنی آجائیں گے تو پھر بہت بڑا احساس ہوگا کہ جس قرآن کے بارے میں رسول اللہ ۖ نے قیامت کے دن امت مسلمہ کی شکایت کرنی ہے اس کو تو دونوں نے چھوڑ دیا۔ کچھ کی مثال تو یہود کی طرح ہے جو سمجھ بوجھ رکھنے کے باوجود بھی اللہ کا ان پر غضب ہے ۔ قرآن کے واضح احکام اور حق سے انحراف کررہے ہیں اور کچھ کی مثال نصاریٰ کی طرح ہے جن کی سمجھ کم ہے اور وہ گمراہ ہیں۔ نبیۖ نے اس کی نشاندہی فرمائی تھی۔ شیعہ سنی ، بریلوی دیوبندی ، مودودی اور اہلحدیث قرآن کی طرف توجہ کریں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ نومبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

محنت اورایمانداری سے عروج ملتا ہے۔ ڈاکٹر اسدمحمود

محنت اورایمانداری سے عروج ملتا ہے۔ ڈاکٹر اسدمحمود

درسِ نظامی کا نصاب علماء ومفتیان بنانے کیلئے نہیں ہے بلکہ علوم و فنون میں صلاحیت حاصل کرنے کیلئے ہے۔ فاضل اور فارغ التحصیل کا لفظ جہالت ہے۔ طلب علم کی تشنگی دور اسلئے نہیں ہوسکتی ہے کہ فوق کل ذی علم علیم (ہر علم والے پر بڑا عالم ہے )کی حقیقت موجود ہے۔ درس نظامی کے مدارس، خانقاہیں اور مذہبی سیاسی جماعتیں اور تبلیغی تنظیمیں اسلام کی بقاء میں اہم کردار ادا کرتی ہیں اور انہی کے فیوض وبرکات سے دین کے خدوخال اور نقوش وچھاپ موجود ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اب دین وایمان کم اور پیٹ کا مسئلہ زیادہ ہے۔
سکول، کالج ، یونیورسٹی، مدرسہ کے باوجود ترقی وعروج نہیں مل رہاہے بلکہ ہم پستی وخواری کی جانب گامزن ہیں۔ موٹیویشن اسپیکر ڈاکٹر اسد محمود کی یہ بات بھی بہت اچھی لگی کہ فٹ پاتھ پر جوتے گانٹھنے والے موچی نے بڑے دانشور سے پوچھا کہ مجھے عروج مل سکتا ہے؟۔ تو دانشور نے جواب دیا کہ بالکل !۔ پہلی شرط یہ ہے کہ تم محنت کرو۔ صبح سویرے سے رات دیر تک محنت کرو تو کامیابی مل سکتی ہے اسلئے کہ 30فیصد لوگ سستی کی وجہ سے نا کام اور 30فیصد لوگ محنت کی وجہ سے کامیاب ہیں۔ مسلسل محنت کرنے اور سستی چھوڑنے سے تم 30فیصد ان لوگوں میںشامل ہوجاؤگے جو کامیاب ہیں۔ گویا 30فیصد کامیابی تمہارے اپنے ہاتھ میں ہے جو محنت سے مل سکتی ہے۔ 50فیصد کامیابی ایمانداری سے مل جاتی ہے۔ دنیا میں 50فیصد لوگ ایماندار ی کی وجہ سے کامیاب زندگی گزارتے ہیں ۔ ایمان دار بن جاؤ تو محنت وایمانداری کی وجہ سے 80فیصد عروج ملے گا۔ ایمانداری یہ ہے کہ وعدہ کرو تو اس کو پورا کرو۔ جھوٹ نہ بولو ،جھوٹ سے نفرت کرو۔ عہد شکنی مت کرو، دھوکہ مت دو اور سچ بولو، سچ سے محبت کرو اور سچ کا بھرپور ساتھ دو۔ محنت اور ایمانداری کی بدولت 80فیصد کامیاب اور عروج پانے والوں کی فہرست میں شامل ہوجاؤگے اور باقی 20فیصد ہنر سے کامیابی مل جائے گی اور ہنر کوئی بھی ہو تواس کی زیادہ سے زیادہ اہمیت 20 فیصد ہے۔
رسول اللہ ۖ نے فرمایاہے الکاسب حبیب اللہ ” محنت کش اللہ کا دوست ہے”۔ اور فرمایا کہ ”سچے تاجروں کا حشر انبیائ، صدیقین، شہداء ، صالحین کے ساتھ ہوگا”۔ ہمارے مذہبی طبقہ ایماندار نہیں تو دنیادار کیسے ہوگا؟۔
مذہبی طبقہ محنت اور ایمانداری سے کام لیں تو 100فیصد نہیں ہزار فیصد ان کی کامیابی یقینی ہے اسلئے کہ جب رسول اللہ ۖ نے دورِ جاہلیت کی بے ایمانی اور تعصبات کو ختم کردیا تو نبیۖ کے جانشینوں کیلئے موجودہ دور میں کوئی مسئلہ بھی نہیں ہے۔ پوری دنیا سودی نظام کی وجہ سے غربت کا شکار ہے۔ سودی نظام محنت کشوں، ایمان داروں اور مسلمانوں کیلئے سب سے زیادہ خطرناک ہے۔
دنیا کے بینکوں اور اسلامی بینکاری سے صیہونی عالمی مالیاتی اداروں کو جوسود ملتاہے اسی سے امریکہ واسرائیل نے دنیا اور عالم اسلام کو گرفت میں لیا ہے۔ مدارس میں فاضل اور فارغ التحصیل تیار ہورہے ہیں لیکن مفتی اعظم پاکستان مفتی تقی عثمانی صدروفاق المدارس پاکستان اور مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن صدر تنظیم المدارس پاکستان دیوبندی بریلوی اسلامی سودی بینکاری کی تائید کررہے ہیں۔ ایمانداری گئی بھاڑ میں اور محنت اور فن بھی گئے جھاڑ میں۔اسلام اور مذہبی طبقات سے اسلئے نفرت بڑھ رہی ہے کہ آج یہ آلۂ کار بن گئے ہیں۔
صرف دیوبندی مکتبہ فکر کے لوگ مولانا مناظر احسن گیلانی کی ایک کتاب ”تدوین القرآن” سے استفادہ کرکے علماء کرام اور طلباء عظام میں عام کردیں اور اپنے نصاب کے دائرے میں داخل کردیں تو ان کی محنت کارُخ درست بلکہ تندرست ہوجائے گا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ عتیق گیلانی ڈرتا نہیں ہے لیکن غلط کہتے ہیں۔میں بالکل ڈرتا ہوں۔ اسلام اسلئے نہیں تھا کہ نبی ۖ نے فتح مکہ کے بعد جن لوگوں کو معاف کیا تھا ،وہ بنی امیہ فتح مکہ سے پہلے والے مسلمانوں کو اپنے تابع بناکر یزید اور بنومروان کو حکومت سونپ دیں یا بنوعباس اور ترکی خلافت عثمانیہ کی بادشاہت کھڑی کردیں اور اب مدارس، پیری مریدی ، سیاست و جہاد کے نام پر دنیاوی مفادات کیلئے اپنی اپنی فنکاریاں کریں۔ اس کیلئے اگر حسن نے زہر سے شہادت پالی اور حسین نے کربلا کے میدان ساتھیوں اور بچوں سمیت اپنی جان دیدی تو ان کو بھی قربانی کا شوق نہیں تھا لیکن مجبور کیا گیا تھا۔ صرف یزید کی بیعت قبول نہیں کی تھی ۔پھر ہم یزید کے مذہبی دکانداروں کے ہاتھ پر کیسے بیعت کرسکتے ہیں؟۔ بیعت انسانوں کے ہاتھ پر انسانوں کی ذات کیلئے نہیں ہوتی ہے بلکہ انسانوں کے ہاتھ پر اپنی اصلاح اور اجتماعی فریضے کیلئے ہوتی ہے۔
بیعت اللہ کیلئے ہوتی ہے۔ کسی ظاہری خلیفہ کے ہاتھ اللہ کے احکام کی بجا آوری کیلئے کی جائے یا کسی مرشد کے ہاتھ پر اپنی اصلاح کیلئے کی جائے تو اس کا مطلب اللہ کے لئے اپنے فرائض یا اپنی اصلاح کرنا ہوتی ہے۔ نبی ۖ اصلاح کیلئے بیعت فرماتے تھے اور لوگ اپنی اصلاح اور اللہ کیلئے بیعت ہوتے تھے۔ بیعت خلافت حضرت ابوبکر سے شروع ہوئی اور بیعت اصلاح حضرت علی اور ائمہ اہل بیت کے ہاتھ پر لوگ کرتے تھے۔ شریعت کے ظاہری وباطنی امور سے انسان اللہ کے نظام اور اپنی اصلاح کی طرف جائے تو بہت اچھا ہے۔
نبی ۖ نے جہاد کیلئے بیعت رضوان میں درخت کے نیچے بیعت لی تھی اور اب اطلاعات یہ ملتی ہیں کہ پاکستان کے خلاف طالبان نے جہاد کی بیعت لے لی ہے۔ جب ہمارے گھر پر طالبان نے اٹیک کیا تھا تو میٹنگ کوڑ قلعہ کے پاس ہمارے عزیزوں کے ہاں ہوئی تھی۔جہاں سے پاک فوج کے سپاہی قریب قلعہ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ حملے کے بعد بھی ایک طرف فوج ڈیوٹی دے رہی تھی اور دوسری طرف حملے میں ملوث لوگ دندناتے پھررہے تھے۔ عوام اسلئے فریق کا کردار ادا نہیں کرسکتے ہیں کہ گڈ اور بیڈ کی تمیز بھی لوگوں کے پاس نہیں ہے۔
دیوبندی مکتب ضلع ٹانک کے سارے علماء جمعیت علماء اسلام (ف + س) مجلس تحفظ ختم نبوت ، سپاہ صحابہ اور سبھی کے بڑے میرے دوست اور حامی تھے۔ محسود اور وزیر علماء بھی حمایت کرتے تھے۔ واقعہ کے بعد بیت اللہ محسود نے قاری حسین اور حکیم اللہ محسود کو قصاص میں قتل کرنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن انہوں کہا کہ ہم بھی قصاص ہوں گے کہ بے گناہوں کو قتل کیا ہے اور تم بھی ہوگے اسلئے کہ ملک خاندان اور اس کی فیملی کو تمہارے حکم پر بے گناہ قتل کیا ہے جس کی وجہ سے بیت اللہ محسود کو پیچھے ہٹنا پڑا تھا۔ منظور پشتین سے زیادہ شرافت کی شہرت رکھنے والے پالم خان ٹھیکیدار بھی طالبان کیلئے پھررہاتھا کہ اگر ان سے صلح ہوگئی تو پختونخواہ کی حکومت طالبان کو مل جائے گی۔ ہمارے عزیز پیر زبیر شاہ امریکن کو اسامہ کے پیچھے ڈھونڈنے کیلئے کانیگرم لے گیا تھا اور جب سوات میں طالبان نے ایک اور صحافی سرمرو کیساتھ پکڑلیا تو اسی وقت طالبان کے ترجمان نے چھوڑنے کا مژدہ ٹی وی اسکرین پر سنادیا تھا۔ امریکہ ریفری تھا اور کھلاڑیوں کو اپنی مرضی سے ہی میدان میں کھیلنے کا حکم دیتا ہے۔مدارس اور علماء ومفتیان کی اکثریت کو اسلام کی طرف آنا ہوگا ورنہ وہ بھی ایک دن مکافات عمل کا پھر شکار ہوسکتے ہیں۔
ڈاکٹر اسد محمود نے ”لارڈ میکالے” کا بتایاکہ تباہی کیلئے1835ء سے یہ نظام تعلیم آج تک کامیابی سے چل رہاہے لیکن وہ نہیں جانتا کہ فتاویٰ عالمگیری اور فتاویٰ شامی نے ہی مسلمانوں کا بیڑہ غرق کرنے میں کیا کردار ادا کیا؟۔ جس کا شاہ ولی اللہ نے بجا فرمایاتھاکہ فک النظام ”اس نظام تعلیم کی کایہ پلٹ دو”۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ نومبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

قرآن کی طرف رجوع فرقہ واریت اور مسائل کا حل؟

قرآن کی طرف رجوع فرقہ واریت اور مسائل کا حل؟

خلفاء راشدین ، ائمہ مجتہدین اور حنفی مسلک کی بھرپور تائیداور اہل تشیع و اہلحدیث کی طرف سے حمایت؟

اس سے بڑھ کر کیا چاہیے کہ قرآن کی طرف رجوع بھی ہو اور اہل سنت کا مؤقف تمام فرقے مان لیں؟

قرآن ، سنت ، اجماع اور قیاس اصول دین کے چار بنیادی اجزاء ہیںاور اس میں قرآن کو متن اور سنت کو شارح کی حیثیت حاصل ہے۔ اجماع اور قیاس بھی معیار بنائے گئے ہیں۔ امام ابوحنیفہ، امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبلنے اجماع کیا تھا کہ ایک ساتھ تین طلاق منعقد ہوجاتی ہیں ۔ جبکہ شیعہ و اہل حدیث کی طرح امت مسلمہ میں پہلے بھی ایسے لوگ تھے جو اس اجماع کو نہیں مانتے تھے۔ اس میں حق پر کون اور باطل پر کون تھے؟۔ نتائج ملاحظہ فرمائیں!۔
سیدجواد حسین نقوی نے اپنی بیگم سے کہا کہ تجھے تین طلاق۔ اب یہ تنازعہ عدالت میں پہنچ گیا۔ علامہ جواد نقوی رجوع کرنا چاہتا ہے اور اس کی بیوی راضی نہیں کہ رجوع ہوجائے۔ اہل سنت کے چاروں فقہی مسالک کا اجماع ہے کہ ”اب رجوع نہیں ہوسکتا ہے”۔ شیعہ واہلحدیث کے ہاں علامہ جواد نقوی کو حق حاصل ہے کہ وہ رجوع کرلے ،اسلئے کہ یہ ایک طلاق رجعی ہے۔ حضرت عمر کے اجتہاد کو اہل تشیع اور اہل حدیث درست نہیں سمجھتے ہیں۔
عورت کا فائدہ اہل سنت کے اجماع میں ہے اور شوہر کا فائدہ شیعہ مسلک میں ہے۔ دونوں کے پاس دلیل اہل سنت اور اہل تشیع کے مسلک کی ہے۔
اہل سنت کہتے ہیںکہ ایک ساتھ تین طلاق دینا اچھی بات نہیں ہے مگر نافذ ہوجاتی ہیں ۔ رسول اللہ ۖ کے سامنے عویمر عجلانی نے لعان کے بعداپنی بیوی کو تین طلاق دئیے۔ ایک شخص کی اطلاع دی گئی کہ اس نے بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں تو رسول اللہ ۖ غضبناک ہوگئے۔اسلئے اکٹھی3طلاق پر3طلاق ہی کا حکم لگتا ہے۔ حضرت عمر نے قرآن وسنت کے خلاف اجتہاد نہیں کیا ہے۔
اہل سنت نے اپنے مؤقف پر فقہ کی دنیا میں بڑی بڑی کتابیں مرتب کردی ہیں اور اہل تشیع نے اپنا مسلک یہاں تک پہنچادیا کہ عدت کے تین ادوار میں بھی صیغہ طلاق اور دو دو گواہوں کے بغیر طلاق نہیں ہوتی ہے۔ البتہ اگر ہر مرحلے پر دو دو گواہ بناکر طلاق دے دی تو پھر حلالہ نہیں ہوگا بلکہ مستقل نکاح کے بغیر رجوع نہیں ہوسکے گا۔ سنی اور شیعہ دونوں نے ایک دوسرے سے اس مسئلے پر شدت کا اختلاف کیا ہے۔ فقہی مسالک کی درسی کتابوںاور فتاویٰ کے سمندر میں غرقاب علماء ومفتیان نے مسلک پرستی کے پیچھے قرآن کو بھی چھوڑ دیا ہے۔ قرآن وسنت اہل سنت کیلئے بنیاد تھے اور اہل تشیع کیلئے قرآن واہل بیت بنیاد تھے۔ اہل سنت نے فقہاء کے7طبقات میں خود کو قرآن وسنت سے دور کردیا ہے اور اہل تشیع کی نظروں سے بھی ائمہ اہل بیت کے آخری امام مہدی1174سالوں سے غائب ہوگئے۔ قرآن پر دونوں فرقوں کا اتفاق تھا مگر قرآن کی طرف توجہ چھوڑ دی۔
نتیجے میں اہلسنت نے اکٹھی 3 طلاق پر باہمی صلح و اصلاح کے باوجود حلالہ کی لعنت کا فتویٰ دیکر شادی شدہ خواتین کی عزتوں کو چھلنی کرنا شروع کردیا۔
بادشاہوں کے دربار میں لونڈیوں کی جھرمٹ ہوتی تھی اور درباری مفتیان حلالے کی لعنت سے اپنے منہ کالے کرتے تھے۔ جس طرح سادات ، صدیقی، فاروقی، عثمانی ، علوی و انصاری وغیرہ نسل اور شجرۂ نسب کی بنیاد پر ہوتے تھے اس طرح کچھ درباری خاندان خود کو خلافت عثمانیہ کی طرف منسوب کرکے عثمانی کہلانا پسند کرتے تھے۔لیکن ان کا شجرۂ نسب حضرت عثمان سے نہیں ملتا تھا ۔علامہ شبیر احمد عثمانی مولانا فضل الرحمن عثمانی کے فرزند تھے اور ان کا شجرہ نسب بھی حضرت عثمان تک موجود تھا لیکن مفتی تقی عثمانی شجرۂ نسب والا نہیں درباری عثمانی ہے۔
بڑے چھوٹے مدارس کے علماء ومفتیان حلالہ کے خلاف ہیں لیکن مفتی تقی عثمانی کے خوف سے کھلم کھلا تائید سے گھبراتے ہیں۔ مفتی نعیم جامعہ بنوریہ عالمیہ سائٹ کے بانی ومہتمم میرے استاذ تھے اور بالمشافہہ ملاقاتوں میں طلاق کا مسئلہ سمجھنے کے بعد علماء ومفتیان سے بات کرنے کا کہا لیکن پھر مفتی تقی عثمانی نے ان کو خوفزدہ کردیا۔ مفتی محمد نعیم نے بتایا تھا کہ میںخود فتویٰ دینے کی جرأت نہیں کرتا ہوں۔ اہلحدیث سے فتویٰ لینے کیلئے لوگوں کو بھیج دیتا ہوں، دارالعلوم کراچی کے مفتی صاحبان نے بھی حلالہ سے بچانے کیلئے کچھ افراد کو ہمارے پاس بھیجا تھا۔
دورہِ جاہلیت میں اکٹھی تین طلاق پر حلالہ کرنا پڑتا تھا۔ قرآن نے باہمی اصلاح اور رضامندی سے رجوع کی بار بار وضاحت کرکے اکٹھی تین طلاق پر حلالے کی لعنت کو بیخ وبنیاد سے اکھاڑ پھینکا تھا۔ قرآن نے خلع کا حق عورت کو دیا تھا اور مرد کو طلاق کا حق دیا تھا۔ خلع میں بھی عورت کے مالی حقوق تھے مگر طلاق میں خلع کی نسبت سے زیادہ تھے۔ اگر عورت طلاق کا دعویٰ کرے اور شوہر انکار کرتا ہو تو مالی حقوق کی وجہ سے عورت کو طلاق کیلئے گواہوں کی ضرورت ہے ۔ گواہ نہ ہوں تو شوہر کو طلاق کے مالی حقوق سے عورت کو محروم کرنے کیلئے حلف اٹھانے کا شرعی حکم ہے۔ کیونکہ خلع اور طلاق مالی معاملہ ہے اسلئے دوسرے مالی معاملے کی طرح اس کو بھی حل کرنا انہی اصولوں کے مطابق ضروری ہے۔
جس طرح حضرت عمر نے اکٹھی تین طلاق پرفیصلہ عورت کے حق میں کیا تھا،اسی طرح جب ایک شخص نے حضرت علی کے سامنے لفظ حرام کہنے پر مقدمہ پیش کیا تو حضرت علی نے فیصلہ دیا کہ شوہر کو رجوع کا حق حاصل نہیں ہے۔ جب عورت راضی ہو تو حضرت عمر کے نزدیک حرام کہنے پر رجوع ہوسکتا تھا۔ یہ تضاد کتابوں میں لکھا ہے لیکن یہ تضاد نہیں قرآن وسنت کے عین مطابق فیصلہ اور فتویٰ ہے۔ ہم بار بار اسلئے توجہ دلارہے ہیں کہ اس وجہ سے غیرتمند،ایمان اور فطرت کے محافظ علماء ومفتیان بڑے پیمانے پر قرآن وسنت اور فطرت کی طرف رجوع کرنا شروع ہوجائیں گے تو فرقہ واریت سے بیزار اور ملحد بھی اسلام کی آغوش میں آجائیں گے اور امت مسلمہ میں ایک نئی روح اور انقلاب کا آغاز ہوگا۔
ویستفتونک فی النسآء قل اللہ یفتیکم فیھن وما یتلیٰ علیکم … (النسائ:127) ”اور تجھ سے فتویٰ پوچھتے ہیں عورتیں کے بارے میں کہہ دو کہ اللہ فتویٰ دیتا ہے انکے بارے میں اور جو تم پر تلاوت کی جاتی ہے ”۔
قرآن میں طلاق اور اس سے رجوع کے بارے میں مختلف حوالہ جات سے اتنے فتوے موجود ہیں کہ کسی قسم کا بھی کوئی واقعہ ہو تو اس کی بھرپور رہنمائی اللہ نے قرآن میں براہ راست کی ہے۔ جہاں رجوع کیلئے عورت راضی ہو تو پھر شوہر کی طرف سے اصلاح کی شرط پر رجوع کا فتویٰ ملے گا۔ اور جہاں عورت کی رضامندی نہ ہو تو وہاں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے رجوع کی قطعی طور پر اجازت نہ ہوگی۔ عدت کے شروع میں، عدت کے اندر ، عدت کی تکمیل پر اور عدت کے کافی عرصہ بعد عورت کی رضامندی کی وضاحت ہے۔ جب مسلمان طلاق کے غلط اور غلیظ فتوؤں کو قرآن و سنت کی روشنی میں سمجھ کر مسترد کردیں گے تو ان میں اتنی وسعت قلبی آجائے گی کہ انسانیت کو وہ رحمة للعالمین کے اُمتی لگیں گے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ نومبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

آج شیعہ سنی اختلافات کا خاتمہ بالخیر کیسے کرسکتے ہیں؟

آج شیعہ سنی اختلافات کا خاتمہ بالخیر کیسے کرسکتے ہیں؟

اصل مسئلہ صحابہ کرام و اہل بیت کی توہین ہے؟یا خلافت وامامت پر اختلاف یا یہ عقائد پر اختلاف ہے؟

مسجد وامام بارگاہ اور خانقاہ کے منبرسے اورپرنٹ،الیکٹرانک اور سوشل میڈیا سے ہرفورم پر حل پیش کرنا ہوگا

پارلیمنٹ سے تحفظ صحابہ واہل بیت بل منظور ہوا مگر کیا3سال سے بڑھاکر سزا10کی گئی تومسئلہ حل ہوا؟۔ عشرہ مبشرہ ، بدری صحابہ ،السابقون الاولون کے مہاجرین وانصار، حضرت علی و حضرت عائشہ نے ایک دوسرے سے جنگیں لڑی ہیں جس کی متتازع تاریخ احادیث کی کتابوں میں بھی موجود ہے۔ کیا اختلافات کو بیان کرنا بھی توہین ہے؟۔ پھر تو قرآنی آیت پر پابندی لگائی جائے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت ہارون علیہ السلام کو داڑھی اور سر کے بالوں سے پکڑلیا ؟۔کیا آیت بیان کرنا پیغمبروں کی توہین ؟۔ اگر ایک فرقہ حضرت موسیٰ اوردوسرا حضرت ہارون کے نام پر بنتا تو پھر روایات ،تفسیر،تاریخ کی کتابوں میں یہ معاملہ کہاں سے کہاں تک پہنچادیاجاتا؟، اس کا اندازہ لگایا جاسکتاہے۔
صحابہ کرام کی تعریف وتوصیف قرآن میں بھی موجود ہے اور اہل سنت مکتبہ فکر میں بھی نسل در نسل ان کی عظمت وتوقیر کی عقیدت ہے۔ اگر ان کی کوئی توقیر نہیں ہو تب بھی توہین اسلئے اہل تشیع کے مراجع اور مجتہدین نے حرام قرار دی ہے کہ اس سے مسلمانوں میں نفرت کو ہوا ملتی ہے اور نتیجہ قتل وغارت تک پہنچ جاتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں باطل معبودوں کو بھی اسلئے برا بھلا کہنے کی ممانعت کردی ہے کہ وہ پھر معبود برحق کو بھی برا کہنا شروع ہوجائیں گے۔
کیا اہل تشیع اس بات کو برداشت کرسکتے ہیں کہ ان کے امام زمانہ غائب مہدی کو اہل سنت برا بھلا کہیں؟۔ ہرگز نہیں۔ سپاہ صحابہ کے مولانا اعظم طارق نے جب مہدی غائب کی توہین کی کہ وہ اہل سنت کے امام نہیں شیعہ کے ہیں تو اس پر کتنے قاتلانہ حملے ہوگئے؟۔ آج تک سپاہ صحابہ کے کسی قائد میں پھر توہین کرنے کی جرأت نہیں ہوئی۔ جب شیعہ اپنے مقدسات کی توہین برداشت کرنا گوارا نہیں کرتے تو اہل سنت سے کیسے امید رکھ سکتے ہیں کہ برداشت کریں؟۔
اگر انصار ومہاجرین اور قریش واہلبیت میںمسئلہ خلافت پر اختلاف تھا تو امام حسین کے بیٹے زین العابدین کے بیٹوں امام زید اورامام باقر میں بھی بہت بڑا اختلاف تھا۔ حضرت زید نے امام حسین کے راستے پر چل کر مزاحمت کی لیکن امام باقر نے امام حسن کی طرح مفاہمت کا راستہ اختیار کیا۔ پھر امام جعفر کی اولاد میں بھی مسئلہ امامت وخلافت پر اختلاف آیا۔ ایک طرف امام اسماعیل کے بیٹے سے موجودہ آغا خانی اور بوہرہ فرقوں نے جنم لیا ، جنہوں نے فاطمی خلافت قائم کی تھی اور دوسری طرف امام باقر سے امامیہ نے جنم لیا جس کی شیعہ اکثریت ہے۔
اسماعیلی آغا خانی اور بوہری امام حسن کی امامت کے قائل نہیں جو خلافت سے دستبردارہو چکے تھے اور ان کا عقیدہ یہ ہے کہ امامت وہ نور ہے جو نسل در نسل منتقل ہوا ہے۔ حضرت علی سے حضرت حسین، پھر موجودہ آغا خان یا بوہری کے امام تک۔ اگرچہ آغا خانی اب پھنس چکے ہیں اسلئے کہ بیٹا بھی نااہل ہے اور بیٹی کو امام بنائیں تو بھی مسئلہ ہے اور بوہریوں میں بھی کچھ عرصہ پہلے مسئلہ کھڑا ہوا تھا کہ بیٹے یا بھائی کو امام بنایا جائے ؟۔دوسری طرف شیعہ امامیہ کا عقیدہ ہے کہ بارہ امام کو نور امامت ایک دوسرے سے پشت در پشت منتقل ہوتا رہاہے۔ البتہ حسن سے یہ نور پھر حسین اور ان کی اولاد میں کیسے منتقل ہوا؟۔ اس کا جواب حسن الہ یاری نے خوب دیا کہ محمد بن ابی بکر اصل میں علی کے بیٹے تھے ،جس کو ابوبکر کے شجرہ خبیثہ سے شجرہ طیبہ میں منتقل کیا گیا۔ غیر مہذب گفتگو علامہ شہریار رضا عابدی کا بھی کرتا ہے کہ ابوبکر کے باپ کی اپنی بھتیجی سے شادی ہوئی تھی لیکن تاریخی مغالطوں کو توڑ مروڑ کرمنطقی نتائج نکالنا غلط ہے۔ اگر کوئی ملحد ابراہیم کے خلاف توہین آمیز منطق بنائے کہ دو باپ تھے ۔ایک آذر اور دوسرا تارخ۔تو چچا بھی باپ تھا اور باپ بھی باپ تھا؟۔ عبد المطلب اپنے بھائی مطلب کا بھائی نہیں غلام تھا اور ہاشم کا پوتا نہیں شیبہ کو کہیں اور سے لایا گیا تھا؟۔یا نکاح نہیں متعہ کی اولاد تھا؟۔ تو ایسی توہین آمیز گفتگو اور منطقی نتائج سے سادات اور بنوہاشم کو کتنی تکلیف ہوگی؟۔ اگر ابوطالب علیہ السلام اور حضرت عبداللہ علیہ السلام پیدائشی مسلمان تھے جو بالکل ہوں گے اسلئے کہ اہل کتاب کو بھی قرآن میں پہلے سے ہی مسلمان قرار دیا گیا ہے تو یہودونصاریٰ کی طرح مشرکین عرب میں بھی مسلمان تھے۔مگر ابوطالب نے اپنی بیٹی ام ہانی کا رشتہ طلب کرنے کے باوجود بھی نبی ۖ کو نہیں دی اور حضرت ابوبکر نے اپنی16سالہ کنواری بیٹی کا رشتہ مشرک سے توڑ کر نبیۖ کو دیا تھا۔ حسن الہ یاری کی بات درست ہو تو حضرت ابراہیم کیلئے آذر یا تارخ کے بیٹے کا مسئلہ نہیں بنتا ہے جو اہل تشیع بناتے ہیں؟۔جب شیعہ کے ائمہ کے گھرسے ہی اختلافات اٹھے ہیں اور بارہ ائمہ پر ان کا آپس میں بھی اتفاق نہیں ہے تو بہتری اس میں ہے کہ سب مل جل کر چلیں۔ توہین وتذلیل کی جگہ عزت وتوقیر کی راہ پر خود بھی چلیں اور دوسروں کو بھی گامزن کریں۔ شیعہ کے سنی بننے اور سنی کے شیعہ بننے سے فرق نہیں پڑے گا بلکہ خطیبوں کامزید بوجھ بڑھے گا۔ اپنے خطیبوں کا بوجھ نہیں اٹھتا تو دوسرے کے چاچا خوامخواہ نہ بنیں۔
جہاں تک بارہ امام اور خلفاء کا تعلق ہے تو اہل تشیع سے زیادہ اہل سنت کے پاس اس کا نقشہ موجود ہے۔ پیر مہر علی شاہ گولڑہ شریف نے اپنی کتاب ” تصفیہ ما بین شیعہ وسنی” میں لکھا بھی ہے کہ ”یہ بارہ خلفاء آئندہ آئیں گے، جن پر سب کا اتفاق واتحاد ہوگا اور ان کو حکومت بھی ملے گی ”۔ علامہ جلال الدین سیوطینے یہ اپنی کتاب ”الحاوی للفتاویٰ” میں واضح کردی تھی ۔ مشکوٰة کی شرح ”مظاہر حق” میں بھی واضح ہے کہ ان خلفاء کا تعلق نہ صرف قریش بلکہ اہل بیت حضرت حسن و حضرت حسین کی اولاد سے ہوگا۔ اہل تشیع کی کتابوں میں بھی درمیانہ زمانے کے مہدی اور مہدی کے بعد گیارہ مہدیوں کو حکومت ملنے کی بڑی وضاحت ہے لیکن اہل تشیع اپنی کتابوں سے بھی امت مسلمہ کو اتحادواتفاق اور وحدت کا درس نہیں دیں گے اور اختلافات کو اچھالیں گے تو دہشتگردی کے سوا کیا ملے گا؟۔
سب سے زیادہ خطرناک نصیری فرقہ علی کو خدا مانتا ہے۔جب ایک طرف علی، حسن ، حسین کی انتہائی مظلومیت کا عقیدہ رکھا جائے اور دوسری طرف علی ہی کو خدا اور مشکل کشا مانا جائے تو اس بڑے تضاد کو دور کرنے کی کوشش میں بھی جاہل نصیری سے لیکر مناظرانہ صلاحیت رکھنے والوں کی بڑی اصلاح ہوسکتی ہے ۔ پھر شیخ احمدسرہندی المعروف مجدد الف ثانی سے شاہ ولی اللہتک اور حضرت شاہ اسماعیل شہید سے علامہ یوسف بنوری تک کے عقائد سے اہل تشیع کو بہت بڑی ڈھارس مل سکتی ہے۔ فتویٰ لگاکر دیکھ لیا۔ قتل و غارتگری بھی ہوگئی۔ پارلیمنٹ میں بل پاس کرلیا اور اب ایک خوشگوار فضاء بھی بنائی جائے تو کیا حرج ہے؟۔ عباسی خلیفہ مامون الرشیدکے داماد اور جانشین امام رضا شہیدشیعہ امام تھے تو اب اتحاد و اتفاق اور وحدت کی راہ میں کونسی رکاوٹ باقی رہ گئی ہے؟۔آئیے بسم اللہ کیجئے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ نومبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

سوات سے وزیرستان ، بلوچستان کے آزاد علاقہ جات

سوات سے وزیرستان ، بلوچستان کے آزاد علاقہ جات

انگریز نے جب افغانستان کیساتھ ڈیورنڈلائن کا معاہدہ کیا تو یہ علاقہ جات پہلے سے خودمختار اورآزادتھے

وزیرستان پر تو کبھی کسی کا بھی باقاعدہ اقتدار نہیں رہاہے۔پاکستان سے محبت نے اقتدار کو تسلیم کیا ہے؟

سوات کے بزرگ رہنما حاجی زاہد خان نے تفصیل سے ان علاقوں کی آئینی حیثیت سوشل میڈیا پر بتائی ہے کہ یہ ٹیکس سے مستثنیٰ ہیں۔مسلم لیگ ن سندھ کے صدر سابق ڈی جیFIAکے گھی مل پر مقدمہ تھاجس میں نام کو غلط استعمال کرنے کا مسئلہ تھا۔ جس کو وزیرستان سے رجسٹرڈ کیا گیا تھا۔ جب وزیرستان کے اپنے باشندے نقل وحمل نہیں کرسکتے تھے تو ان لوگوں نے گھی کے مل لگائے تھے؟یا پھرمتأثرین میں گھی کی تقسیم کا جب معاملہ چل رہا تھا تو ان لوگوں نے گھی تقسیم مفت تقسیم کرنے والوں سے پیسہ بٹورنے کیلئے ایک پروگرام بنایا تھا؟۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم ڈیورنڈ لائن سے پہلے بھی افغانستان میں شامل نہ تھے۔انگریزنے روڈ،قلعے اور کیمپ بنائے۔لوگوں کو نوکریاں دیں اور انگریز کے جانے کے بعد پاکستان کے ساتھ آزادی کی خوشی منائی ۔معین قریشی کے دور عبوری حکومت تک پارلیمنٹ کانمائندہ بالغ حق رائے دہی نہیں13سو ملکان کے ووٹوں سے منتخب ہوتا تھا۔سرکاری نوکریوں،سکول،ہسپتال اور کوٹہ سسٹم سے لوگوں کو بہت فوائد پہنچے۔ انگریز کے وقت سے حساب کتاب ہو تو پھر اس کی بھاری قیمت بنتی ہے ۔لیکن اسکے عوض جتنی خدمات انجام دی ہیں اس کا معاوضہ بھی کم نہیں بنتا ہے۔اگر قوم نے فیصلہ کیا کہ عالمی عدالت انصاف سے اپنے لئے الگ وطن کا مطالبہ کرنا ہے تو بہت مشکل میں پڑ جائیں گے اسلئے کہ ہم شمالی اور جنوبی وزیرستان کو ایک کرنے کی بات بہت دور کی ہے جنوبی وزیرستان کے محسود اوروزیرقبائل کو اکٹھا کرنا بھی بہت مشکل کام ہے۔
لیکن اگرحکومت وریاست کی پالیسیوں نے مجبور کیا اور قوم اٹھ کھڑی ہوئی توسنبھالنا بہت مشکل ہوگا۔وزیرستان کی پرامن فضائیں ریاستی پالیسیوں سے بدامنی کی بھینٹ چڑھ گئیں۔فوج نے امریکہ کا ساتھ دیا اور امریکہ کے خلاف ایک طرف طالبان کو کھلی چھوٹ دے دی گئی تھی۔اور دوسری طرف عوام آپریشن سے متأثر ہورہے تھے۔ جس کی وجہ سے فوج اورطالبان کو ایک صف میں پانے والے لوگ دونوں سے بدظن ہوگئے اسلئے کہ ایک طرف طالبان کے ہاتھوں وہ مررہے تھے اوردوسری طرف فوج کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کررہے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ عوام میں اس بات نے قبولِ عام کا درجہ حاصل کرلیا تھا کہ” طالبان اور فوج صحابہ کرام اور انبیاء عظام ہیں بس کا فر تو عام عوام ہیں ان کو قتل کرو”۔
سابقMNAعلی وزیر نے قومی اسمبلی کے فلور پر کہا تھا کہ ”ہمارا خاندان پاک فوج کیلئے قربان ہوچکا ہے”۔سابقMNAمحسن داوڑ نے کہا تھا کہ ”پروگرام یہ تھا کہ خیبرپختونخواہ میں تحریک طالبان پاکستان کی صوبائی حکومت قائم کی جائے اور پھر افغان حکومت کے خلاف یہاں سے پروکسی لڑی جائے لیکن پھر قطر میں مذاکرات کی وجہ سے معاملہ بدل گیا ”۔طالبان کی پاک فوج سے قربتیں کوئی مخفی بات نہیں تھی۔ اسٹیبلشمنٹ کے قریب سیاسی جماعتوں کو بھی طالبان نے کبھی نشانہ نہیں بنایا۔ مسلم لیگ ن اورتحریک انصاف کے بعدPTMکو بھی طالبان نے نشانہ نہیں بنایاتواس کو شک کی نظر سے دیکھنے لگے اسلئے کہ یہ عام بات تھی کہ فوج اپنے مخالفین کو طالبان کے ذریعے نشانہ بناتی ہے۔PTMنے طالبان کے مسنگ پرسن کیلئے بڑا کام کیا ہے اور ”یہ جو دشت گردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے” کانعرہ لگانے والے خود بھی اچھے رابطہ کار کی طرح تھے۔
نوازشریف کوگوجرانوالہ کے جلسہ اور مریم نواز کو بلوچی کپڑے پہن کرفوج کے خلاف آواز اٹھانا پڑتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن اور سیاسی قیادت پا رلیمنٹ سے باہراور نوازشریف کوسن1997میں بھاری مینڈیٹ کیساتھ حکومت ملتی ہے تو جمعیت علماء اسلام انتخابی سیاست چھوڑکر انقلابی سیاست کا اعلان کرتی ہے اور جب مولانا فضل الرحمن کو ضرورت پڑتی ہے توفوج کو دھمکی دیتے ہیں کہ امریکہ جیسا حشر کردیں گے۔ پیپلزپارٹی سندھ کارڈاورMQMمہاجر کارڈاستعمال کرتی ہے لیکن کیا قبائلی علاقہ جات ، سوات اور بلوچستان کے آزاد علاقوں سے بغاوت کا علم بلند کرنے کا خوف نہیں ہوسکتا ہے؟۔جن پر عرصہ حیات تنگ کیا گیا ہے؟۔ لیکن یہ لوگ بہت سنجیدہ اور سمجھدار ہیں۔ان کو پتہ ہے کہ پاکستان کے میدانی علاقے، حکومت پاکستان کی حکومت وریاست ہمارے لئے مفید ہے۔
جہاں تک افغانستان سے ملنے کا تعلق ہے تو افغانستان میں ابھی تک کوئی ایسی حکومت قائم نہیں ہوئی ہے کہ خود افغانی اس سے مطمئن ہوں۔افغانی بھی خود افغانی کے دشمن ہیں تو پاکستان کے افغان سے ملنے کی امید رکھنا ایک مشکل کام ہے۔اللہ کرے کہ پاکستان ،طالبان اور سارے افغان مل کر اس خطے کو جنت نظیراوراسلام کا قلعہ بنادیں۔اگر تعصبات اور نفرتوں کو ہوادی گئی تو کابل کو لاہور اور لاہور کو کابل فتح کرنا مشکل بھی ہوگا مگر ہمیں چکی کے دوپاٹوں میں پیسنے کا عمل جاری رہے گا۔ وزیرستان کے لوگ آزاد تھے اور سوات کی اپنی حکومت تھی اور آج وزیرستان سے سوات تک لوگ بدحالی کا شکار ہیں۔ سوات کے لوگوں کی خوشحالی اور روزگار چھن گیا اور وزیرستان کے لوگوں کی آزادی چھن گئی ہے۔
تصویر کا پہلا رُخ یہ ہے کہ حامد میر نے میرانشاہ معدنیات کا کہا کہ اس سے پورا پاکستان چل سکتاہے۔بلوچستان کے ذخائر سے پاکستان چل سکتا تھا لیکن ہمارا مقتدر طبقہ سیدھی نہیں ٹیڑھی انگلی سے گھی نکالنے کا عادی مجرم بن چکا ہے۔ ہندوستان و چین اور اپنے آپ کو ایران کے سستے تیل وگیس سے مالامال کرتا اور افغانستان پر قبضہ کرتا کہ احمدشاہ ابدالی کے ظلم اور محمود غزنوی کا سومنات لوٹنے کا بدلہ لینا ہے ،علامہ اقبال نے کہا کہ میں سومناتی ہوں اور افغانستان کی عوام کو بھی سکون مل جاتا کہ وہاں جمہوریت سے خواتین کو تعلیم کا موقع ملے گا۔ جب انگریز سے مجبوری میں افغانی معاہدے کرسکتے ہیں تو پنجاب اور پاکستان کے لوگ وہی مسلمان ہیں جنہوں نے40سال سے40لاکھ افغانیوں کو پناہ دی اور کبھی ان کی روس کے خلاف مدد کی اور کبھی امریکہ کی مدد کرکے بھی ان پر احسان کیا؟۔
تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ” اگر صرف امریکہ کا منصوبہ ہے اور چین کو گوادر سے بھگانے کے بعد افغانستان میں بھی راستہ بند کرنا ہے تو یہ تیسری مرتبہ کی غلطی ہوگی ۔ روس کے خلاف جہاد کے نام پہلی غلطی کرچکے ہیں، دوسری مرتبہ امریکہ کو اڈے دیکرافغان سفیر تک بھی حوالے کرچکے ہیں ۔ یہ Uٹرن نہیں بلکہ پہلے بھی امریکی راہ پر چل رہے تھے اور پھر دوسری مرتبہ امریکہ نے موٹر وے پر لگایا تھا۔ تیسری مرتبہ پھر امریکہ کے کہنے پر افغانستان میں چین کا پیچھا کیا تو بہت بڑی غلطی ہوگی۔ ہماری پاکستان اور خطے سے محبت ہے ۔اللہ مشکلات سے بچائے۔ لیکن پاکستان قرضوں میں خود کو بھوک سے مارے یا اس جنگ کی پاداش میں امریکہ کو وزیرستان وغیرہ کے معدنیات پر قبضہ کرنے کا موقع فراہم کردے؟۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ نومبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

مغرب اورعالمِ اسلام کی جنگ یہودکا عالمی منصوبہ

مغرب اورعالمِ اسلام کی جنگ یہودکا عالمی منصوبہ

یہود کا شیطانی نظام سودی معیشت ہے ۔کمیونزم کے بعد اسلامی معیشت سے اس کو زبردست خطرہ ہے

مفتی تقی عثمانی ، جماعت اسلامی ، جمعیت علماء اسلام وغیرہ یہودی سودی نظام کے آگے بالکل ڈھیر ہوچکے

جب امریکہ کا9/11ہوگیا تو افغانستان پر حملہ آور امریکہ نے اسامہ کے بہانے افغانستان میں لاکھوں افراد کو مارڈالا۔ اسامہ بن لادن کی تلاش میں سارا وطن چھان مارا۔ کافی عرصہ بعد جب افغانستان اور پاکستان کی بربادی ہوچکی تھی تو پاکستان کے ایبٹ آباد میں مارا گیا یا لے گئے؟۔ اس کا انحصار امریکہ اور میڈیا پر ہے۔طالبان کے کچھ لوگ گوانتا ناموبے لے جائے گئے۔ جن میں افغان سفیر ملاعبدالسلام ضعیف بھی شامل تھے جبکہ اس کے نائب حبیب اللہ فوزی نے طالبان کے خلاف پریس کانفرنس کی تھی۔ جس کا مطلب طالبان میں بھی اقسام وانواع کے افراد تھے۔ کچھ پاکستان کے مہمان تھے۔ کچھ پاکستان سے جہاد کی سرپرستی کررہے تھے اور افغانستان میں لڑرہے تھے اور کچھ قطر میں بیٹھ کر امریکہ کے ساتھ برابری کی سطح پر مذاکرات کررہے تھے۔ اس انڈسٹری کے مختلف شعبہ جات اپنا اپنا کام کررہے تھے۔20سال میں چار لاکھ افغان،80ہزار پاکستانی مارے گئے جبکہ صرف ڈھائی ہزار امریکی فوج مر گئے یا مارے گئے؟۔
اب اگر20سالوں تک غزہ میں اسرائیل کی کاروائی جاری رہی تو اس کے نتیجے میں فلسطین کے مسلمانوں کی کیا حالت ہوگی؟۔ شمالی فلسطین سے جنوبی نقل مکانی کرنے والوں کے حالات انتہائی ناگفتہ بہ ہیں۔ گدھا گاڑی میں جگہ ملے نہیں تو پیدل میلوں کا سفر اپنے مختصر سامان کیساتھ کرنا پڑرہاہے۔ سب کی جامع تلاشی بھی لی جاتی ہے اور جوان مردوں کو سب کے سامنے الف ننگا کیا جاتا ہے۔ لاشیں بکھری پڑی ہیں اور عمارتوں تلے دبنے والی لاشوں کا کچھ اتہ پہ نہیں ہے۔
جماعت اسلامی کے سراج الحق خوش ہیں کہ حماس نے فتح حاصل کرلی ہے لیکن فلسطین کے بے گناہ مسلمانوں کیساتھ جو ہورہاہے اس کو فتح کا نام دینا بڑی سفاکی ہے۔ کشمیر اور افغانستان میں ہندوستان، روس اور امریکہ کے خلاف جہاد میں بچ جانے والے سراج الحق اور سینیٹر مشتاق خان کا بس نہیں چلتا ہے کہ شہید ہونے کیلئے کس اڑن طشتری پر بیٹھ کر اسرائیل پہنچ جائیں؟۔ تاکہ کچھ یہودیوں کو قتل کر ڈالے اور خود بھی قتل ہوں۔پتہ نہیں کتنے ہندو، روسی اور امریکن ان کے ہاتھوں سے واصل جہنم ہوئے ہیں جو اب یہودیوں کو ماریں گے؟۔
جب روس کے خلاف جہاد تھا تو قاضی حسین احمدامیر جماعت اسلامی نے بڑے ذوق سے کراچی میں اپنی قیام گاہ کانام بھی وائٹ ہاؤس رکھا تھا۔ہماری تنبیہ پر اس نام کی تشہیر ختم ہوگئی ،نہیں تو امریکہ جب افغانستان میں لڑرہاتھا تب بھی اس کی بازگشت سنائی دیتی تھی۔ ڈرامہ بازی ختم کرکے فلسطین کے لوگوں کی مشکلات کوختم کرنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر کام کرناچاہیے۔مولانا فضل الرحمن نے سن2007میںطالبان کو خراسان کے دجال کالشکر قرار دیا تھالیکن میڈیا نے اس بیان کو کوریج نہیں دی ۔حالانکہ مولانا فضل الرحمن نے جمعہ کی تقریرمیں خراسان سے نکلنے والے دجال کی حدیث پڑھ کر سنائی تھی اور طالبان پراس کے لشکر کی نشانیوں کی نشاندہی کی تھی۔یہ دیکھناہوگاکہ ملا عمر پر خراسان کے دجال یا خراسان کے مہدی کی نشانیاں صادق آتی ہیں۔بعض علماء نے ان پر خراسان کے مہدی کی روایت بھی فٹ کی ہے۔مہدی بھی ایک کردار کا نام ہے اور دجال بھی ایک کردار کا نام ہے۔آخری خطبہ کی حدیث صحیح بخاری میں ہے کہ نبیۖ نے فرمایاکہ مجھ سے پہلے جتنے بھی نبی آئے انہوں نے دجال کے فتنے سے اپنی امت کو ڈرایا۔ وہ تم میں سے ہی ہوگا۔اگر تم اس کو نہ پہچان سکو تو اللہ ضروراس کو جانتا ہے۔اس کی ایک آنکھ کانی ہوگی اوردوسری انگور کے دانے کی طرح ابھری ہوئی ہوگی۔مسلمانوںکی جان ،مال اورعزت کی حرمت تم پر ایسی ہے جیسے آج کے دن (یوم عرفہ) کی حرمت اس مہینے (ذوالحجہ) اور اس شہر(مکہ مکرمہ) میں ہے۔خبردارمیرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو”۔
اس حدیث میں دجال کی ایک نشانی ایک آنکھ کا اندھا ہونا اور دوسری کا انگور کے دانے کی طرح ابھرا ہونا بھی اہم نشانی ہے لیکن اصل چیز یہ ہے کہ شاید اس کو خود بھی پتہ نہ ہو کہ وہ دجال کا کردار ادا کررہاہے اور مسلمان بھی نہیں جانتے ہوں کہ وہ دجال ہے ۔البتہ اس کا اصل کردار مسلمانوں کا آپس میں قتل وغارت ہے۔افغانستان میں افغانی افغانی کو قتل کررہے تھے اورپاکستان میں پاکستانی مسلمان پاکستانیوں کو قتل کررہے تھے۔لال مسجداسلام آبادکے آپریشن سے پھرطالبان کی مردہ روح میں جان ڈالی گئی۔جاویدچوہدری ،عرفان صدیقی اور انصار عباسی طرح کے لوگ دہشت گردوں کی حمایت میں پیش پیش ہوتے تھے اور رؤف کلاسرا جیسے لوگوں کو سچ لکھنے پر جان کے لالے پڑے رہتے تھے۔
علماء دیوبند میں کچھ لوگ سرمایہ دارانہ سودی نظام کے مقابلے میں کمیونزم کو اسلام کے قریب سمجھتے تھے۔سن1970میں اسلئے مولانا غلام غوث ہزاروی ، مولانا عبداللہ درخواستی ،مفتی محمود اور جمعیت علماء اسلام پر مفتی اعظم پاکستان مفتی محمدشفیع، مولانا رشیداحمد لدھیانوی ، مولانا سلیم اللہ خان اور مفتی تقی عثمانی سے لیکر دارالعلوم کراچی کے چوکیداروں نے بھی مفتی کے نام پر دستخط کئے تھے اور اس کی اصل محرک اور پروپیگنڈہ مہم جماعت اسلامی تھی۔جبکہ مولانا یوسف بنوری اور جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی اس فتوے کا حصہ نہیں تھے۔
کمیونزم کوشکست دینے کے بعد سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلے میں اسلامی نظام معیشت بہت بڑا چیلنج تھا۔جہاد اور دہشت گردی کی لہر میں جامعہ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی کے علماء ومفتیان کی پوری ٹیم اڑادی گئی۔مولانا سیدمحمد بنوری شہید اپنے گھر میں قتل ہوئے اور خودکشی کا الزام بھی جنگ اخبار میں لگایا گیا تھا۔مفتی تقی عثمانی نے یہودی نظام کے سود کو اسلامی قرار دیا اور سب علماء نے متفقہ فتویٰ کے عنوان سے مخالفت کی لیکن جب عالمی قوت کا سہاراتھاتو پھروہ سب ملکر بھی کچھ نہیں بگاڑسکے۔اسلام نے سودکو حرام اور اللہ اور اسکے رسول ۖ سے اعلان جنگ قرار دیا ہے۔اس کو حیلے کے ذریعے حلال کرنے کی چارہ جوئی کا حکم نہیں دیا ہے۔سود کی حرمت کے بعد رسول اللہ ۖ نے مزارعت کو بھی سود قرار دے دیا۔مولانا سیدمحمد یوسف بنوری کے داماد مولانا طاسین نے مزارعت پر اپنی مکمل تحقیقات بھی شائع کی ہیں اور مولانا فضل الرحمن نے ان کی حمایت میں اپنے تأثرات بھی قلم بند کئے ہیں۔کرائے کے جہادی کلچر کے ذریعے ان علماء حق کو مارنے کا پروگرام ہے جو اسلامی نظام معیشت کا نام لیتے ہیں۔
اسرائیل کی پوری کوشش یہی ہے کہ مغرب اورعالم اسلام کی جنگ چھڑ ے اورچین وعرب اورہندوستان ہمارا کے ترانے گانے والے علامہ اقبال کی امید پر پانی پھر جائے۔معیشت پر مکمل کنٹرول کے بعد مسلمانوں کو مغربی تہذیب اور تمدن سے ٹکرانے کی خواہش رکھنے والے امریکہ واسرائیل کو ناکام کیا جائے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ نومبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

پاکستان اور فلسطین کے مسائل کا حل حقیقی اسلامی تعلیمات ہیں مگر مذہبی طبقہ بھی محروم ہے

پاکستان اور فلسطین کے مسائل کا حل حقیقی اسلامی تعلیمات ہیں مگر مذہبی طبقہ بھی محروم ہے

پاکستان اور اسلام کو غلط استعمال کرکے روسی کمیونزم کو شکست دی گئی اور اب فلسطین کو استعمال کرکے اسرائیل اور مغربی دنیا سے اسلام اور مسلمانوں کو شکست دینے کا شیطانی منصوبہ ہے جس کو سمجھنے کی ضرورت ہے

پاکستان ، افغانستان ،ایران اور سعودی عرب اپنے ہاں درست اسلامی نظام نافذ کردیں تو اسرائیل وامریکہ سمیت پوری دنیا اسکے سامنے سرنگوں ہوجائے گی اور خلافت کا نظام پھر سے پوری دنیا میں نافذ ہوجائیگا

جرمنی اورجاپان کو شکست کے بعد پاکستان سے روسی کمیونزم کو شکست دی گئی ۔ اب اسرائیل سے اسلام کو شکست مقصود ہے۔فلسطین اور افغان مہاجرین کیساتھ جو کچھ ہورہا ہے یہ انسان نہیں درندوں کیساتھ بھی جائز نہیں ہے مگر کیوں ؟اس صورتحال کو پہلے سمجھ لیں، پھر اس سے نکلنے کی ضرورت پرسب مل کر زور دیں!

اقبال نے کہا:
اُٹھو! مری دنیا کے غریبوں کو جگادو
کاخِ امراء کے درودیوار ہلا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہرخوشہ گندم کو جلادو
اقبال نے اپنے شاہینوں کو ”فرشتوں کا گیت” کے ذریعے کمیونزم کا انقلاب لانے کا کہا تھا مگر پاکستان کی ریاست ، حکومت اور مذہبی طبقات اس کی راہ میں رکاوٹ بن گئے۔شاعرفیض احمد فیض، حبیب جالب ، حسن ناصر شہید،بائیں بازو کے شعراء و سیاستدان چلاتے رہے مگر لاالہ الااللہ کے نام پر معرض وجودمیں آنے والا پاکستان سرمایہ دارانہ نظام کے تحفظ کیلئے استعمال ہوگیا۔جمعیت علماء اسلام مولانا غلام غوث ہزاروی، مفتی محمود، مولانا عبیداللہ انور اور مولانا عبداللہ درخواستی پر وہ مرکزی جمعیت علماء اسلام فتویٰ لگارہی تھی جس کے بانی علامہ شبیراحمد عثمانی تھے اور جو ہندوستان میں شیخ الہند کی جماعت جمعیت علماء ہندکے مقابلے میں بنائی گئی تھی۔ معراج محمد خان بھی کہتے تھے کہ وہ علماء حق کے پیروں کی خاک ہیں اور ان کی والدہ خالص پشتون تھی جس نے مذہب کی محبت ان کے دل میں کوٹ کوٹ کر بھری۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھی کہتے تھے کہ میں خالص یوسفزئی پٹھان ہوں۔ علامہ اقبال نے ”محراب گل افغان” کے نام سے ایک اچھا تخیل پیش کیا تھا۔ نسل پرستی کی بنیاد پر لوگوں کی نفرت کا فائدہ ظالم طبقات کو ہی پہنچتا ہے۔ سیدعطاء اللہ شاہ بخاری اور سیدابوالاعلیٰ مودودی دونوں سادات بھی تھے اور پنجابی بھی۔ دونوں کی آپس میں بنتی بھی نہیں تھی۔ جب کشمیر کے جہاد کا مسئلہ آیا تو سیدعطاء اللہ شاہ بخاری نے کہا کہ” مجھے مولانا حسین احمد مدنی سے عقیدت ومحبت ہے لیکن اگر وہ بھی سامنے آگئے تو کشمیر میں وہ اپنے وطن کا دفاع کررہاہوگا اور میں اپنے وطن کا۔ اس کے سینے میں گولی اتاردوں گا”۔ جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودی نے کہا تھا کہ ” اسلامی جہاد پرائیویٹ تنظیم کا کام نہیں بلکہ ریاست کا شرعی فریضہ ہے۔ اگر ریاست جہاد نہیں کرتی تو پھر یہ جہاد نہیں کٹ مرنے کی بات ہے”۔ بعد میں جماعت اسلامی نے مولانا سید مودودی کی وفات کے بعد اپنی ساری زندگی ہی کشمیر اور افغانستان کے نام پر پرائیویٹ جہاد میں گزار دی۔ ولی خان کہتا تھا کہ” میں جہاد مانتا ہوں پاکستان کے پاس فوج، جہاز اور میزائل ہیں ،اپنی قوت کو افغانستان میں روس اور کشمیر میں بھارت کے خلاف استعمال کرے لیکن یہ کونسا جہاد ہے جو ہمارے ہاں ہورہاہے اور مال غنیمت منصورہ لاہور میں بٹتا ہے؟۔ جنرل ضیاء الحق کہتا ہے کہ اگر تم اسلام مانتے ہو ؟۔ تو مجھے وردی میں صدر بناؤ۔ میں کہتا ہوں کہ اسلام کا تقاضا ہے کہ تم وردی اتاردو اور لوگوں کو اپنا حکمران منتخب کرنے دو۔ وہ اسلام کو نافذ کردیں گے”۔ بھٹو کے خلاف قومی اتحاد اور نظام مصطفیۖ کے نام پر مشترکہ تحریک چلائی گئی تو جمعیت علماء اسلام کے مولانا غلام غوث ہزاروی نے اس کو فراڈ قرار دے دیا تھا۔
علامہ اقبال نے کہا:
جانتا ہوں یہ امت حامل قرآں نہیں
ہے وہی سرمایہ داری بندہ مؤمن کا دیں
جانتا ہوں کہ مشرق کی اندھیری رات میں
بے یدِ بیضاء ہے پیرانِ حرم کی آستیں
عصر حاضر کے تقاضوں سے ہے لیکن یہ خوف
ہو نہ جائے آشکارا شرعِ پیغمبر کہیں
الحذر آئینِ پیغمبر سے سو بار الحذر
حافظِ ناموسِ ،زن مرد آزما، مرد آفریں
اس سے بڑھ کر اور کیا فکر وعمل کا انقلاب
پادشاہوں کی نہیں اللہ کی ہے یہ زمیں
چشم عالم سے پوشیدہ رہے یہ آئیںتو خوب
یہ غنیمت ہے کہ خود مؤمن ہے محرومِ یقیں
ہے یہی بہتر الٰہیات میں الجھا رہے
یہ کتاب اللہ کی تاویلات میں الجھا رہے
مذہبی و جہادی طبقے کا دین سرمایہ داری تھا ۔فلسطین کے ڈاکٹر عبداللہ عزام نے عرب کو اسرائیل سے لڑانے کے بجائے سعودیہ کے اسامہ اور مصر کے ایمن الظواہری کو روس سے لڑا دیا۔ پاکستان بن رہاتھا تو پختونخواہ میں باچا خان کے بھائی ڈاکٹر خان کانگریس کی حکومت تھی۔ پنجاب میں مخلوط حکومت تھی ، بلوچستان آزاد اورسوات آزاد ریاست تھی ۔باجوڑ سے وزیرستان تک 7ایجنسیاں قبائلی علاقہ جات آزادو خودمختار تھے۔ سندھ کے5میں سے3ارکان کی حمایت اور2کی مخالفت تھی۔ گویا سندھ کے ایک ووٹ سے یہ پاکستان انگریز اسٹیبلشمنٹ کی خواہش پر وجود میں آیا۔ امریکہ کو اڈے دینا۔4لاکھ افغانی،80ہزارپاکستانیوں کو موت کے گھاٹ اُتارنا ۔57ہزار ڈورن اور جہازوں نے یہاں سے اڑکر بمباری کردی توجائزتھا۔ ہم نے بھی مختلف ادوار میں بڑی زیادتیاں کی ہیں۔
ایک افغانی نے کہا کہ میں نے14سال روس کیخلاف جہاد کیا ،اب سوچتا ہوں کہ اگر ہم صدر نجیب اللہ کو مارنے اور اس کی ریاستی مشینری کو ختم نہ کرتے اور اس طرح اشرف غنی کی ملی اردو کو اپنے ساتھ رکھتے تو آج پاکستان ہمارے ساتھ زیادتی نہ کرتا۔ ایک گنڈہ پور کو اپنے بیٹے کی نالائقی کی شکایت تھی تو اس نے کہا کہ کاش یہ میری بیٹی ہوتی اور کوئی اس کے اوپر دل کے آبلے تو پھوڑ لیتا۔ یہی افغان مجاہد ین سے کہنا پڑے گا کہ کاش! تم افغانی لڑکیاں ہوتیں اور اس طرح اپنی قوم کیخلاف غلط استعمال ہونے کے بجائے دوسروں کیلئے دل کے آبلے پھوڑنے کا ذریعہ بنتیں تو اتنا برا نہ ہوتا۔
نوازشریف مغربی کوریڈورگوادر کا راستہ نہ بدلتا تو چین عرب سے کنکٹ ہوتا۔ پاکستان ٹول ٹیکس سے قرضہ واپس کرچکا ہوتا۔ایران سے تیل وگیس کی سپلائی ہوتی تب بھی حالات بدلتے۔ جو پاکستان اپنا بھلا خود نہیں چاہتا ہے تو اس سے کسی اور کو کیا امید ہوسکتی ہے۔ ڈنڈا مار سیاست کی جگہ پر درست جمہوری عمل ہی پاکستان کے مفاد میں ہے۔ پنجاب، بلوچستان، پختونخواہ، سندھ اور کراچی کا سیاسی ماحول ڈنڈے کے زور سے بگاڑا گیا ہے لیکن سیاسی قوتوں کا بھی بالکل مزہ نہیں ہے۔
اسرائیل کو برطانیہ نے پاکستان کے9ماہ بعد جنم دیا تھا۔ اسرائیل کے ذریعے مغرب نے اسلام کوصفحۂ ہستی سے مٹانے کا پروگرام بنایا ہے۔ غزہ کی پٹی اوربیت المقدس کے پاس بڑے فلسطین کی حیثیت ایک تجربہ گاہ کی ہے۔ حماس نے مجاہد یا دہشتگرد کا روپ دھارلیا اور محمود عباس نے ہیجڑہ طرز پر مسلمان حکمرانوں کا روپ دھارلیا ۔ جس سے مسلمانوں کی درست عکاسی دنیابھر میں ہورہی ہے۔
علامہ اقبال نے ”ابلیس( اپنے مشیروں سے)” میں اس کی خوب ترجمانی کررکھی ہے۔
ہے مرے دستِ تصرف میں جہانِ رنگ وبو
کیا زمیں، کیا مہر وماہ ،کیا آسماں توبتو
دیکھ لیں گے اپنی آنکھوں سے تماشا غرب وشرق
میں نے جب گرمادیا اقوامِ یورپ کا لہو
کیا امامانِ سیاست ،کیا کلیسا کے شیوخ
سب کو دیوانہ بناسکتی ہے میری ایک ہو!
کارگاہ شیشہ جو ناداں سمجھتا ہے اسے
توڑ کر دیکھے تو اس تہذیب کے جام وسبو
دست فطرت نے کیا ہے جن گریبانوں کو چاک
مزد کی منطق کی سوزن سے نہیں ہوتے رفو
کب ڈراسکتے ہیں مجھ کو اشتراکی کوچہ گرد
یہ پریشاں روزگار،آشفتہ مغز، آشفتہ ہو
ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اس امت سے ہے
جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرارِ آرزو
خال خال اس قوم میں اب تک نظر آتے ہیں وہ
کرتے ہیں اشکِ سحرآ گاہی سے جو ظالم وضو
جانتا ہے ،جس پر روشن باطنِ ایام ہے
مزدکیت فتنہ فردا نہیں ،اسلام ہے
امریکہ نے افغانستان، عراق ، لیبیا کا جو حشر کیا تو کس اسلامی ملک نے مدد کی؟۔ داعش نے یزیدی و کرد خواتین کی عصمت دری کرکے بھیڑ وں کی طرح بیچ دیا، میڈیا پر تشہیر ہوئی تو کس مفتی نے کیا فتویٰ دیا؟۔آج کون فلسطین پر رحم کھاکر میدان میں اُترے گا؟۔دہشتگرد خود کوئی کم ظالم ہیں؟۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ نومبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

سورہ بقرہ آیت230کا درست ترجمہ اور تفسیر دیکھئے!

سورہ بقرہ آیت230کا درست ترجمہ اور تفسیر دیکھئے!

فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتیٰ تنکح زوجاً غیرہ فان طلقھا فلا جناح علیھما ان یتراجعا ان ظنا ان یقیما حدود اللہ و تلک حدود اللہ یبینھا لقوم یعلمونOآیت230البقرہ
پس اگر اس نے طلاق دے دی تو پھر اس کے لئے حلال نہیں ہے اس کے بعد یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہر سے نکاح کرلے ، پس اگر وہ اس کو طلاق دے تو دونوں پر کوئی حرج نہیں کہ وہ آپس میں رجوع کریں اگر انہیں گمان ہو کہ وہ اللہ کے حدود پر قائم رہ سکیں گے، اور یہ وہ اللہ کے حدود ہیں جس کو اللہ بیان کرتا ہے اس قوم کیلئے جو سمجھ رکھتے ہیں۔

آیت230سے حلالہ مراد نہیں بلکہ آیت229میں3مرتبہ طلاق کے بعد وہ صورتحال واضح ہے جس میں طے ہو کہ صلح کی گنجائش نہیں ہے۔صلح نہ ہونے کی صورت میں عورت کی جان خلاصی کیلئے زور دار الفاظ کااستعمال بڑامعجزہ تھا۔

جبکہ ان دونوں آیات سے پہلے آیت228میں عدت کے اندر اصلاح کی شرط پر رجوع کی بھرپور وضاحت ہے اور ان دونوں آیات کے بعد آیات232-231میں عدت کی تکمیل کے بعد بھی باہمی رضامندی سے اصلاح کی شرط پر رجو ع کی وضاحت ہے۔ جس کا خلاصہ سورہ طلاق کی پہلی دو آیات میں بھی فیصلہ کن طریقے سے بالکل واضح ہے۔

ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حلالہ کی رسم کو ختم کرنا تھا تو پھر آیت230میں ایسے الفاظ کے استعمال کی کیا ضرورت تھی؟۔ بہت زبردست سوال ہے اور اس کا جواب بھی تسلی اور اطمینان سے سمجھ لیجئے گا۔
اگر اسلامی تاریخ میں مثبت اور منفی نتائج کو دیکھ لیں تو ایک ساتھ تین طلاق کے نتائج عورت کے حق میں بہت بہتر نکلیں ہیں اسلئے کہ حلالہ سے متأثرین اور مجرحین کی تعداد بالکل آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔ زیادہ تر ایسی خواتین ہیں جنہوں نے اکٹھی تین طلاق کے الفاظ سے بہت فائدہ اٹھایا ہے اور وہ یہی چاہتی تھیں کہ وہ شوہر سے الگ ہوجائیں ۔
اصل مسئلہ عورت کے حقوق کا تھا اور عورت کے حق کی وضاحت ہی کیلئے آیت230کی وضاحت بہت ضروری تھی ،اگر یہ نہ ہوتی تو پھر کوئی راستہ بھی نہ ہوتا کہ عورت کی جان شوہر سے کبھی چھوٹ جاتی۔
آیت228البقرہ میں اللہ نے واضح کیا کہ طلاق کے بعد عورت کی عدت کے تین مراحل ہیں اور حمل کی صورت میں بچے کی پیدائش ہے اور اس عدت میں ان کے شوہروں کو باہمی اصلاح کی شرط پر رجوع کا حق حاصل ہے۔ اتنی وضاحت کے باوجود بھی اصلاح وصلح کی شرط کو نظرانداز کرتے ہوئے مذہبی طبقات نے ایک طلاق کے بعد شوہر کو غیرمشروط رجوع کی اجازت دے دی اور یہ عورت کی بہت بڑی حق تلفی ہے ۔
پھر آیت229میں دو مرتبہ طلاق کے بعد معروف کی شرط پر رجوع کی اجازت دیدی۔ لیکن مذہبی طبقات نے پھر معروف واصلاح کی شرط کو نظر انداز کرتے ہوئے دو مرتبہ طلاق کے بعد شوہر کو غیرمشروط رجوع کی اجازت دے دی۔ باہمی اصلاح اور معروف کی شرط کوبالکل نظرانداز کیا۔
پھر آیت230میں طلاق کے بعد حلال نہ ہونے کا ذکر کردیا تو حلالہ سمجھ کر مذہبی طبقے کی بانچھیں کھل گئیں۔ اگر اس میں یہ جملہ نہ ہوتا تو عورت کے حقوق کی طرف کبھی توجہ بھی نہ جاتی۔ اتنے زبردست الفاظ سے عورت کے حق کو تحفظ دلانا مقصود تھا لیکن مذہبی طبقے نے ان کی عزتیں لوٹ لیں۔
آیت231میں واضح ہے کہ عدت کی تکمیل کے بعد معروف طریقے سے رجوع ہوسکتا ہے۔ مذہبی طبقہ اتنا ناعاقبت اندیش تھا کہ بجائے یہ سوچنے کے کہ اللہ نے آیت228میں اصلاح، آیت229میں معروف کی شرط پر رجوع کی اجازت دی تو کچھ اس پر غور کرتے کہ اس سے مراد باہمی رضامندی ، صلح واصلاح سے رجوع مراد ہوسکتا ہے؟۔لیکن پھر بھی انہوں نے اس آیت سے دلیل پیش کی کہ ”رجوع شوہر کا اختیار ہے”۔
آیت232میں اندھوں کی آنکھیں ،بہروں کے کان اور ناسمجھوں کے دل کھولنے کیلئے مزید وضاحت کردی کہ اگر تم نے اپنی عورتوں کو طلاق دے دی اور وہ عورتیں اپنی عدت کو پہنچ گئیں تو اگر وہ اپنے شوہروں سے نکاح کرنا چاہتی ہوں معروف طریقے سے باہمی رضامندی کے ساتھ تو ان کے درمیان رکاوٹ کھڑی مت کرو۔
ان ساری آیات کا خلاصہ سورہ طلاق کی پہلی دو آیات میں بھی موجود ہے۔ کوئی ایک صحیح حدیث بھی ایسی نہیں کہ نبی ۖ نے میاں بیوی کی رضا مندی کے باوجود بھی صلح سے منع کیا ہو۔ اگر کوئی بے شرم یہ بات پکڑ کر بیٹھ جائے کہ ”اللہ نے قرآن میں نماز کے قریب جانے سے روکا ہے ”اور اس وجہ سے نماز پڑھنے کی تمام آیات کا انکار کرے تو پھرکیا کیا جاسکتا ہے؟۔
بخاری میں ایک ساتھ تین طلاق پر حلالے کی روایت من گھڑت ہے اسلئے کہ بخاری میں یہ واقعہ اور جگہوں پر نقل ہے ،جن میں الگ مراحل کی طلاق ثابت ہے اور دوسرا یہ کہ عورت نے جس طرح نامرد کا الزام لگایا تھا تو شوہر نے اپنی مردانگی کی وضاحت کی تھی اور یہ باہمی اختلاف مارپیٹ کا مسئلہ تھا ،اس میں حلالے کا کوئی دور دور بھی واسطہ نہیں بنتاہے۔
آیت میں یہ ہے کہ ”اگر دوسرا شوہر طلاق دے تو پہلے شوہر سے اس وقت رجوع میں کوئی حرج نہیں کہ جب دونوں کو گمان ہو کہ وہ اللہ کی حدود پر قائم رہ سکیں گے”۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ دوسرا شوہر اتنی جاذبیت نہیں رکھتا ہو کہ پہلے سے شادی کے بعد بھی جنسی تعلقات کا خدشہ رہے۔

نوٹ: سورہ بقرہ کی آیت230سے پہلے ”سورہ بقرہ آیت229کا درست ترجمہ اور تفسیر دیکھئے!” کے عنوان کے تحت پوسٹ ضرور پڑھیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ نومبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

سورہ بقرہ آیت229کا درست ترجمہ اور تفسیر دیکھئے!

سورہ بقرہ آیت229کا درست ترجمہ اور تفسیر دیکھئے!

الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان ولا یحل لکم ان تاخذوا مما اٰتیتموھن شیئا الا ان یخافا الا یقیما حدود اللہ فان خفتم الا یقیما حدود اللہ فلا جناح علیھما فیما افتدت بہ تلک حدود اللہ فلا تعتدوھا ومن یتعد حدود اللہ فاؤلٰئک ھم الظالمونO
طلاق دو مرتبہ ہے پھر معروف کے ساتھ روکنا ہے یا احسان کیساتھ رخصت کرنا ہے۔ اور تمہارے لئے حلال نہیں کہ جو کچھ بھی ان کو دیا ہے کہ اس میں سے کچھ بھی واپس لو مگر یہ کہ ان دونوں کو خوف ہو اور اگر تمہیں خوف ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو پھر اس چیز کو عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میںدونوں پر کوئی حرج نہیں۔ یہ اللہ کے حدود ہیں پس ان سے تجاوز مت کرو اور جو ان سے تجاوز کرے تو بیشک وہی لوگ ظالم ہیں۔ آیت229البقرہ

آیت میں نیلی لکھائی کے اندر یہ واضح ہے کہ دئیے ہوئے مال میں سے کوئی چیز واپس عورت سے لینا اس وقت جائز ہے کہ جب ان دونوں کو اور فیصلہ کرنے والوں کو خوف ہو کہ اگر وہ چیز واپس نہیں کی تو دونوں اللہ کے حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے۔ یعنی عورت کی طرف سے وہی چیز فدیہ کی جائے گی جو شوہر نے اس کو اپنی طرف سے دی ہے۔

علماء کرام ، حکمران ، دانشور، پروفیسر، طلباء اور عوام تھوڑا تدبر فرمائیں! کیا قرآن کی یہ آیت بالکل واضح نہیں کہ شوہر کی طرف سے دی ہوئی کوئی چیز تیسری طلاق کے بعد واپس لینا جائز نہیں؟۔ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے صدر مفتی تقی عثمانی کے اُستاذمولانا سلیم اللہ خان نے اپنی شرح صحیح بخاری ”کشف الباری” اور تنظیم المدارس کے صدر مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن کے اُستاذ علامہ غلام رسول سعیدی نے اپنی شرح صحیح بخاری ”نعم الباری” میں رسول اللہ ۖ کی یہ حدیث لکھی ہے کہ رسول اللہ ۖ سے صحابی نے پوچھا کہ قرآن میں تیسری طلاق کہاں ہے؟ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ ”سورہ بقرہ آیت229میں تسریح باحسان یعنی احسان کے ساتھ رخصت کرنا ہی تیسری طلاق ہے”۔
اس تیسری طلاق کا فیصلہ کرنے کے بعد جب اللہ نے یہ واضح فرمادیا ہے کہ شوہر نے جو کچھ بھی بیوی کودیا ہے تو اس میں سے کچھ بھی واپس لینا جائز نہیں ہے۔ ان الفاظ سے عورت کے ان مالی حقوق کا تحفظ واضح ہے جو شوہر کی طرف سے ان کو ملے ہیں۔ سورہ النساء آیت21-20میں بھی یہی واضح ہے کہ شوہر کو طلاق کا حق حاصل ہے مگر اگر بیوی کو بہت سارا مال بھی دیا ہے تو اس میں سے کچھ بھی واپس لینا جائز نہیں ہے۔
پھر آیت229میں یہ واضح ہے کہ ”اگر دونوں میاں بیوی کو یہ خوف ہو کہ تیسری طلاق کے بعد دی ہوئی وہ چیز واپس نہیں کی گئی تو اللہ کے حدود پر دونوں قائم نہیں رہ سکیں گے اور فیصلہ کرنے والوں کو بھی یہ خوف ہو کہ اگر وہ دی ہوئی چیز واپس نہیں کی گئی تو وہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو پھر وہ دی ہوئی چیز واپس کرنے میں دونوں پر کوئی حرج نہیں ”۔ یعنی جومال واپس لیناحلال نہیں وہ ایک خاص مجبوری کی وجہ سے جائز ہے۔
اب پاکستان کی حکومت کی مرکزی کابینہ اور ساری صوبائی حکومتیں اس بات کے اوپر غور کریں کہ کیا اس آیت سے ”خلع” مراد ہوسکتا ہے؟۔
اللہ نے عورت کو طلاق کے بعدبڑا مالی تحفظ دے دیا ہے۔ پھرخلع سے عورت کو بلیک میل کرنا کتنا بڑا جرم ہے؟۔یہ جرم علامہ شبیر احمد عثمانی، سید ابو الاعلیٰ مودودی ، مولانا وحید الدین خان اورجاوید احمد غامدی سبھی نے کیا۔ اس کی وجہ مدارس کی تعلیم ہے۔ امام شافعی کے نزدیک تین طلاق کے درمیان یہ خلع جملہ معترضہ ہے اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک دو مرتبہ طلاق کے بعد اس خلع سے تیسری مرتبہ طلاق منسلک ہے۔ حالانکہ یہ اختلاف قرآن و حدیث اور عقل وفطرت کے بالکل منافی ہے۔
فقہ کے امام کہتے ہیں کہ ”جب صحیح حدیث آجائے تو ہماری رائے کو دیوار پر دے مارو”۔ صحیح حدیث میں تیسری طلاق کی وضاحت پہلے سے اس آیت ہی میں موجود ہے۔ تیسری مرتبہ کی طلاق کے بعد خلع مراد لینا تو انتہائی درجے کی حماقت ہے لیکن اگر دو مرتبہ طلاق کے بعد خلع مراد لیا جائے پھر تیسری مرتبہ کی طلاق ہو تو یہ بھی انتہائی درجے کی حماقت ہے۔ کیونکہ خلع اور طلاق دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ دو مرتبہ طلاق کے بعد تیسری مرتبہ طلاق سے پہلے خلع مراد لینا حماقت کی آخری انتہاء ہے۔
بالفرض اگر حنفی مؤقف تسلیم کرلیا جائے تو پھر تیسری طلاق کا تعلق بھی خلع کے ساتھ ہوگا۔ علامہ تمنا عمادی نے اپنی کتاب ”الطلاق مرتان” میں اس مؤقف کو ہی واضح کیا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد مشرقی پاکستان سے علامہ تمنا عمادی قرآن کی تفسیر کا درس دیتے تھے اور سقوط ڈھاکہ کے بعد کراچی منتقل ہوگئے اور علماء نے اس کو گوشہ گمنامی میں دفن کردیا ۔ علماء حق کو حلالہ سے سروکار نہیں تھا اور درباری مفتیان کا یہ بڑاخصوصی شغف رہا تھا۔

نوٹ: سورہ بقرہ کی آیت229کے بعد ”سورہ بقرہ آیت230کا درست ترجمہ اور تفسیر دیکھئے!” کے عنوان کے تحت پوسٹ ضرور پڑھیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ نومبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv