اللہ نے حضرت عائشہ پر بہتان کا تدارک ایسے شفاف انداز میں کیا کہ قرآن کی ایک ایک آیت میں زبردست سبق آموز درس وتدریس ہے
اللہ نے حضرت عائشہ پر بہتان کا تدارک ایسے شفاف انداز میں کیا کہ قرآن کی ایک ایک آیت میں زبردست سبق آموز درس وتدریس ہے مگر مذہبی طبقے نے قرآن کو چھوڑ کر اسلام کے چہرے کو بڑی خراب کالک لگائی ہے!
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
حضرت عائشہ پر بہتان کے صلہ میں اُمت مسلمہ کو جو خیر ملی تھی وہ قیامت تک آنے والے لوگوں کیلئے ماحول کو درست رکھنے میں بنیادی کردار کی حامل ہے لیکن اس کو غلط رنگ دیا گیا!
قرآن نے عوام کی عدالت کو اصل عدالت قرار دیکر عدل وانصاف اور پاکیزہ معاشرے کے قیام کیلئے بنیادی آیات کو قرطاس میں محفوظ کرلیا مگر ملاؤں نے اسکا بالکل بیڑہ غرق کردیا
قر آن نے حضرت عائشہ کی صفائی جس انداز میں پیش کی ہے وہ قیامت تک ہر آنے والی پاکدامن خاتون کیلئے بہت بڑی دستاویز ہے لیکن افسوس کہ علماء ومفتیان کی شریعت نے کالے بادل بن کر اسلام کے سورج کو دنیا کے سامنے سے چھپا دیا ہے اور جب تک قرآن کی درست وضاحت نہ ہو مسلمانوں کو مشکلات سے نکالنے میں کوئی کوشش بھی کارگر ثابت نہیں ہوسکتی ہے۔ اسلام اعتدال کا دین ہے ایک طرف مردوں اور عورتوں کو اپنی نظروں اور شرمگاہوں کی حفاظت کا حکم دیتا ہے تو پھردوسری طرف عورتوں کو کچھ افراد کو چھوڑکر دوسروںسے اپنی زینت چھپانے کا حکم دیتا ہے۔
دور ِ جاہلیت میں دوپٹے کا تصور بھی ختم ہوچکا تھا۔ جاہل عورتیں برہنہ سینوں کی نمائش سے ماحول کوخراب کرنے میںاپنا کردار ادا کرتی تھیں۔ شرم وحیاء کا ماحول بھی موجود تھا اور خواتین ہی نہیں حضرت عثمان خلیفہ سوم بھی شروع سے مثالی حیاء کے پیکر تھے لیکن جب اسلام نے کچھ افراد کو چھوڑ کر خواتین کو اپنی زینت چھپانے کا حکم دیا تھا تو بات بڑی واضح تھی۔ لایبدین زینتھن الا ماظھر منھا ولیضربن بخمرھن علی جیوبھن ” اپنی زینت کو مت دکھائیں مگر جو اس میں سے ظاہر ہوجائے اور اپنے سینوں پراپنے دوپٹے کولپیٹ دیا کریں”۔
محرم اورکچھ ایسے بے تکلف لوگوں سے خواتین کا واسطہ پڑتا ہے جہاں پر دوپٹے لپیٹنے کا اہتمام بھی عام طور پر نہیں ہوتا ہے لیکن جونہی ماحول میں غیرمحرم یا غیر متعلقہ افراد پہنچتے ہیں تو خواتین اپنے دوپٹوں کو سنبھالنے کا اہتمام کرتی ہیں۔ یہ بالکل ایک فطری بات ہے اور اس فطری بات کو قرآن نے زبردست اجاگر بھی کیا ہے۔ اللہ نے سورۂ نور میں جن لوگوں کے گھروں میں کھانا کھانے کی اجتماعی وانفرادی اجازت دی ہے تو وہ بھی انسانی فطرت کی زبردست عکاسی ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اب اسلام سے دوری کا ماحول جتنا بڑھ رہاہے جاہل اسی کو اسلام سمجھ رہے ہیں۔ آج اس ماحول میں مذہب کی جس طرح کی تشریحات کی گئی ہیں ،اس سے حضرت عائشہ کے حوالے سے بہتان کا معاملہ سمجھ میں بالکل بھی نہیں آسکتا ہے۔ قرآن میں جن افراد کو محرم کی طرح پردے سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے ،ان میں غلام اور وہ تابع مرد بھی شامل تھے جن میں عورتوں کی طرف رغبت کرنے کا کوئی اندیشہ نہیں تھا۔ عربی میں غلام کیلئے عبد کا لفظ ہے اور ماملکت ایمانکم میں جہاں غلام ولونڈی شامل ہیں وہاں اس سے مراد موقع محل کی مناسبت سے کسی طرح کا بھی کوئی ایگریمنٹ والے مراد ہوسکتے ہیں۔ ایک ایگریمنٹ تو وہ ہے جسے ایرانی متعہ اور سعودی مسیار کہتے ہیں لیکن غلامی بھی ایک معاہدہ ہی ہے۔ غلام اور لونڈی کیساتھ بھی نکاح اور متعہ ومسیار کا تعلق ہوسکتا ہے۔ قرآن کے الفاظ میں اتنی وسعت ہے کہ قیامت تک آنیوالے افراد اپنے اپنے ماحول کیمطابق ایک ایک جملے کی زبردست وضاحت سمجھ سکتے ہیں۔
حضرت عائشہ پر جس شخص کیساتھ بہتانِ عظیم کی افواہ اُڑائی گئی تھی تو اس وقت کے مذہبی ماحول کو بھی سمجھنا ضروری ہے۔ جب پنج وقتہ نماز باجماعت میں خواتین پر حاضری کی کوئی پابندی نہیں تھی۔ جس طرح آج بھی خانہ کعبہ میں اپنی فیملی کے سا تھ خواتین نماز پڑھنے جاتی ہیں۔اسی طرح سے ریاستِ مدینہ کی فضاؤں میں بھی آج کا مروجہ مذہبی ماحول نہیں تھا۔ حضرت صفوان نبیۖ کے بااعتماد خادم تھے اور آج بھی انسان کی فطرت میں قرآن کے مطابق ایسے افراد کو محرم کی طرح سمجھ کر ان سے اغیار کی طرح زیادہ پردے کا اہتمام نہیں کیا جاتا ہے۔
سورۂ نور میں سب سے پہلے بدکاری پر کھلے کوڑے برسانے کی آیات ہیں جس سے یہ باور کیا جاسکتا ہے کہ کسی کو سزا سے بچانے کا کوئی سوال پیداہی نہیں ہوتا ہے۔ پھر بہتان لگانے والوں کو بھی سزا دینے کا حکم ہے۔ اسلامی شریعت سازی میں ایک بہت بڑا مغالطہ کافی عرصہ سے چلا آرہاہے کہ زنا کے اصل مجرم اور صحیح گواہی دینے پر بھی گواہوں کو سزا کا کوئی تصورہے یاپھر مجرم کو بچانے کا کوئی اہتمام نہیں ہے؟۔
حضرت مغیرہ ابن شعبہ کے واقعہ کو اسلامی قانون سازی کیلئے بنیاد قرار دیا گیا تھا جس پر فقہی مسالک کے اختلافات ہیں۔ لیکن ابہام کی فضاؤں میں اُمت مسلمہ کی تاریخ بہت تاریک بن گئی جس سے نکالنے کیلئے زبردست تحریک کی ضرورت ہے۔
کسی بھی معاشرے میں نیک وبد کا ایک تصور ہوتا ہے۔ جب کسی کے بارے میں کوئی رائے قائم ہوتی ہے تو معاشرے میں اس کے کردار پر سب کی نظر ہوتی ہے۔ کسی محلے، علاقے اور معاشرے میں کسی خاتون کا کردار مشکوک سے بدکرداری تک پہنچنے کیلئے ایک سفر کا تقاضہ کرتا ہے۔ جب چار شریف لوگ اسکے خلاف گواہی دیں تو پھر قرآن نے پہلے اس کو گھر میں بند کرنے کا حکم دیا تھا۔ کسی بدکردار خاتون کا کردار ایک معاشرے کو خراب کرنے میں بڑی بنیادی حیثیت کا حامل ہوتا ہے۔ جس سے نہ صرف معاشرہ خراب ہوسکتا ہے بلکہ انسانی نسل کے تحفظ کو بھی شدید خطرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ آج ناجائز بچوں کے حوالے سے زمانہ جاہلیت سے بھی زیادہ اس معاشرے میں خرابی پیدا ہوچکی ہے جس کے تدارک کیلئے ریاست بھی کچھ نہیں کرسکتی ہے۔اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ اسلام کے قوانین سے واقفیت نہیں ہے۔
قرآن نے جس صالح معاشرے کی تشکیل میں ایک بنیادی کردار ادا کیا تھا اس کے ذریعے سے طیب وطیبہ اور خبیث و خبیثہ کے درمیان بہت زبردست امتیاز قائم ہوسکتا ہے۔ کانیگرم جنوبی وزیرستان میں ہماری پڑوسن نے ہمارے نوکر پر مرغی چوری کرنے کا دعویٰ کیا۔ جب میرے بڑے بھائی نے اس کی سختی سے تردید کردی تو بعض افراد نے کہا کہ پیر صاحب! اس بات پر ڈٹنے کی غلطی نہ کرو، خاتون کا غصہ بجا ہے۔ ایک دفعہ اس کے ہاتھ میں مرغی دیکھ لی تھی تو میں نے پوچھ لیا کہ کہاں سے لائے ہو؟ اس نے کہا کہ پیرصاحب کے گھر سے بیچنے کیلئے دی گئی ہے۔ میں نے کہا کہ وہ لوگ مرغیاں تو نہیں بیچتے ہیں۔ اب کیوں ضرورت پیش آئی ہے۔ نوکر نے کہا کہ چینی ختم ہوگئی ہے ،اس کیلئے مرغی بیچ رہے ہیں۔ پھر نوکر کی چوری پکڑی گئی اور ہم نے اس کا جرمانہ بھی ادا کردیا تھا۔ انصاف کیلئے معاشرہ بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔
اسلام میں جبری اور باہمی رضامندی سے بدکاری کی سزا میں بھی بہت فرق ہے۔ ایک عورت اپنی رضا سے کسی مرد کیساتھ بدفعلی میں مبتلا ء ہوتی ہے اور پھر اس پر جبر کی تہمت لگادیتی ہے،اس پر تفتیش میں معاشرے کے افراد کی گواہی کا زبردست کردار ہوسکتا ہے۔ عورت اور مرد کا اپنا کردار معاشرے میں بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور اس کی ایک مثال اسلامی جمہوری اتحاد کے دور میں جب IJIکا مرکزی صدر غلام مصطفی جتوئی الیکشن ہار گیا تھا اور سینئر نائب صدر مولانا سمیع الحق وزیراعظم بننے سے دستبردار ہوگئے اور آئی جے آئی (IJI)کے صوبائی رہنما نوازشریف کو وزیراعظم بنادیا گیا تھا، جو مولانا سمیع الحق مولانا عبداللہ درخواستی اورمولانا اجمل خان سے اتحاد کے باوجود مولانا فضل الرحمن کی خاطر جمعیت علماء اسلام کے سیکرٹری جنرل کے عہدے سے بھی ہٹنے کیلئے تیار نہیں تھے وہ نوازشریف کیلئے وزیراعظم کا عہدہ چھوڑ گئے۔
پھر جب مولانا سمیع الحق نے سودی نظام کو ختم کرنے کیلئے تھوڑا سا زور ڈال دیا تو میڈم طاہرہ کے ذریعے سے اخبارات میں الزامات کی زینت بن گئے۔ مجھے اس وقت ڈیرہ اسماعیل خان جیل میں ایک سال قید بامشقت سزا کاچالیس ایف سی آر (40FCR)کے تحت سامنا تھا۔جب جیل میں محمد حنیف پارہ چنار والا اخبار کی خبر سنارہاتھا کہ مولانا عجیب و غریب حرکتیں کررہے تھے تو میں نے کہا تھا کہ اگر یہ سچ ہے تو بھی مولانا سمیع الحق کا نوازشریف سے اتحاد اور اس کے حق میں وزیراعظم کے منصب سے دستبردار ہونے کا فیصلہ بڑا جرم ہے۔ تاریخ کے اندر فاحشہ عورتوں کو الزام تراشی کیلئے استعمال کیا گیا ہے اور یہ کسی نے نہیں دیکھا کہ مولانا سمیع الحق یا میڈم طاہرہ کو اسلامی جمہوری اتحاد نے کیا سزا دی؟۔ افواہوں کا مقصد محض الزام تراشی ہو تو پھر تاریخ آنے والے وقت کو سزا دیتی ہے۔ پھر طاہرہ سید کے حوالے سے نوازشریف کی عزت خراب ہوئی تھی۔
اگر حضرت عائشہ پر تہمت میں تھوڑی بھی صداقت ہوتی تو پھر ایک ماہ تک اس اذیتناک کیفیت سے نکالنے کیلئے کوئی نہ کوئی راستہ ضرور نکلتا۔ نبیۖ نے ازواج مطہرات سے لیکر آخر کار حضرت عائشہ کے والدین اور حضرت عائشہ تک سے بہتان کے معاملے میں پوچھ گچھ میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ ایک شریف النفس انسان پر جھوٹی تہمت لگے تو اس کا اعتراف کبھی نہیں کرسکتا ہے لیکن اگر ذرا سابھی انسان میں خیر کا مادہ غالب ہوتا ہے تو پھرافواہوں کے طوفانوں کی مسلسل زد میں رہنے کی جگہ وہ اعتراف جرم کرنے کو ہی ترجیح دیتا ہے۔ جب حضرت عائشہ نے فرمایا کہ اگر جھوٹ بول کر اعتراف جرم کرلوں تو سب یقین کرلیںگے مگر جب سچ بولوں تو کوئی مانے گا نہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے برأت کا اعلان نازل فرمادیا تھا۔
بہتان کے طوفان کی زد میں رہنے سے جھوٹااعتراف جرم کرکے سزا بھگتنے میں آسانی ہے لیکن کسی پاکیزہ روح کی جب اپنی وابستگی کسی پاکیزہ روح سے ہو تو پھر یہ ممکن نہیں ہوتا کہ جھوٹ سے اعتراف جرم کرکے نہ صرف اپنی عزت کو بلکہ شوہر نامدار کی عزت کو بھی ٹھیس پہنچائی جائے۔ معاشرے کیلئے اس میںبہت بڑا سبق ہے۔
حضرت عائشہ کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے جو آیات نازل کی ہیں، ان میں بڑا زبردست عبرت آموز سبق ہے۔ یہ کس قدر عجیب بات ہے کہ اللہ نے فرمایا کہ اس میں اپنے لئے شر مت سمجھو بلکہ وہ تمہارے لئے خیر ہے۔ کیا اورکونسی خیر ہے؟۔
اللہ تعالیٰ نے معاشرے پر یہ ذمہ داری ڈالی ہے کہ جس چیز کے بارے میں خبر نہیں تھی تو کیوں نہیں کہا کہ ”ہم اس پر کوئی بات نہیں کریںگے”۔ ایک زبان سے دوسری زبان اور ایک منہ سے دوسرے منہ تک کسی تحقیق اور علم کے بغیر بات پہنچانے کی خرابی اتنا بڑا جرم ہے کہ اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہو تو وہ معاشرہ بڑے عذاب کا مستحق بن جاتا ہے۔ یہ قیامت تک کتنا زبردست اُصول ہے۔ کیا نوازشریف اور اسکے خاندان والے مولانا سمیع الحق شہید کے رشتہ داروں اور عقیدتمندوں سے معافی مانگیںگے؟۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت عائشہ کی صفائی کیلئے عوام کو ایک زبردست قاعدہ کلیہ بتادیا تھا کہ ” تم لوگوں نے اپنے نفسوں کے بارے میں اچھا گمان کیوں نہیں رکھا”۔ جب انسان کسی پر بدگمانی کرتا ہے تو اس کی یہ بدگمانی اس کی اپنی ذات پر ہی پلٹ کر آتی ہے۔ جب وہ خود بہت ہی برا ہوتا ہے تودوسروں کیلئے بھی اسی طرح کا گمان رکھتا ہے۔ یہ قاعدہ بہت زبردست ہے جس میں معاشرے کیلئے بہت بڑی عبرت ہے۔ اگر کسی پاکدامن عورت پر کوئی بھی غلط گمان کرتا ہے تو یہ اس کے اپنے نفس کی خباثت کا رہینِ منت ہے۔
معاشرے میں جب کسی کا کردار مشکوک ہوتا ہے اور پھر وہ لمحہ بھی آتا ہے کہ آنکھوں دیکھے حال سے اسکی پاکدامنی داغدار ہوجاتی ہے۔ جس کے بعد اس پر پاکدامنی کا اطلاق بھی نہیں ہوتا ہے۔ ایسے شہرت یافتہ خبیثوں اور خبیثات کا ماحول طیبون اور طیبات سے بالکل الگ ہوتا ہے۔ بدکاروں اور بدکرداروںکو افواہوں کی زد میں آنے سے کسی قسم کے خطرات کا بھی سامنا نہیں ہوتا ہے۔ جب زلیخا کا کردار ایک پاکدامن حضرت یوسف کو داغدار کرنے تک نہیں پہنچ سکا تھا تب زلیخا کی شہرت مصر کے گھروں تک پہنچ گئی تھی اور جیل تک اس کے چرچے تھے۔ دوسری طرف حضرت یوسف کی پاکدامنی پر عزیز مصر تک سب کو اعتماد تھا اور مزید برآں ایک بچے نے زبردست گواہی بھی دی تھی۔
اگر زلیخا پر کسی طرف سے باقاعدہ کوئی تہمت لگ جاتی تو مختلف اطراف سے ایسے چار گواہوں کی گواہی دینے میں مشکل نہ ہوتی کہ یہ عورت ٹھیک نہیں ہے۔ حرکتوں سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ وہ کس حد تک جاسکتی ہے۔ کسی پر بدفعلی کا الزام لگ جائے تو پھر بہتان یا حقیقت کا پتہ چلنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں واضح طور پر تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ”تم نے کیوں نہیں بول دیا کہ یہ بہتان عظیم ہے؟”۔
جس معاشرہ میں افراد زندہ اور جاندار کردار ادا کرتے ہیں تواس معاشرے میں برائی کی جڑیں ناپید ہوجاتی ہیں۔ اگر چار نہیں بیس افراد بھی جھوٹ سے کسی عورت پر چشم دید گواہ بن جائیں لیکن گواہوں سے کچھ بھی توقع ہوسکتی ہو تو اس کی وجہ سے نہ تو سزا ہوسکتی ہے اور نہ ہی شہرت داغدار ہوسکتی ہے مگر جب اعتماد والے لوگ کسی کے خلاف گواہی دیں تو پھر گواہوں کو مارنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اندرونی صفحات پر آیات کی تفسیر دیکھ لیں۔
NAWISHTA E DIWAR March Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat