پوسٹ تلاش کریں

اللہ نے حضرت عائشہ پر بہتان کا تدارک ایسے شفاف انداز میں کیا کہ قرآن کی ایک ایک آیت میں زبردست سبق آموز درس وتدریس ہے

اللہ نے حضرت عائشہ پر بہتان کا تدارک ایسے شفاف انداز میں کیا کہ قرآن کی ایک ایک آیت میں زبردست سبق آموز درس وتدریس ہے مگر مذہبی طبقے نے قرآن کو چھوڑ کر اسلام کے چہرے کو بڑی خراب کالک لگائی ہے!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

حضرت عائشہ پر بہتان کے صلہ میں اُمت مسلمہ کو جو خیر ملی تھی وہ قیامت تک آنے والے لوگوں کیلئے ماحول کو درست رکھنے میں بنیادی کردار کی حامل ہے لیکن اس کو غلط رنگ دیا گیا!

قرآن نے عوام کی عدالت کو اصل عدالت قرار دیکر عدل وانصاف اور پاکیزہ معاشرے کے قیام کیلئے بنیادی آیات کو قرطاس میں محفوظ کرلیا مگر ملاؤں نے اسکا بالکل بیڑہ غرق کردیا

قر آن نے حضرت عائشہ کی صفائی جس انداز میں پیش کی ہے وہ قیامت تک ہر آنے والی پاکدامن خاتون کیلئے بہت بڑی دستاویز ہے لیکن افسوس کہ علماء ومفتیان کی شریعت نے کالے بادل بن کر اسلام کے سورج کو دنیا کے سامنے سے چھپا دیا ہے اور جب تک قرآن کی درست وضاحت نہ ہو مسلمانوں کو مشکلات سے نکالنے میں کوئی کوشش بھی کارگر ثابت نہیں ہوسکتی ہے۔ اسلام اعتدال کا دین ہے ایک طرف مردوں اور عورتوں کو اپنی نظروں اور شرمگاہوں کی حفاظت کا حکم دیتا ہے تو پھردوسری طرف عورتوں کو کچھ افراد کو چھوڑکر دوسروںسے اپنی زینت چھپانے کا حکم دیتا ہے۔
دور ِ جاہلیت میں دوپٹے کا تصور بھی ختم ہوچکا تھا۔ جاہل عورتیں برہنہ سینوں کی نمائش سے ماحول کوخراب کرنے میںاپنا کردار ادا کرتی تھیں۔ شرم وحیاء کا ماحول بھی موجود تھا اور خواتین ہی نہیں حضرت عثمان خلیفہ سوم بھی شروع سے مثالی حیاء کے پیکر تھے لیکن جب اسلام نے کچھ افراد کو چھوڑ کر خواتین کو اپنی زینت چھپانے کا حکم دیا تھا تو بات بڑی واضح تھی۔ لایبدین زینتھن الا ماظھر منھا ولیضربن بخمرھن علی جیوبھن ” اپنی زینت کو مت دکھائیں مگر جو اس میں سے ظاہر ہوجائے اور اپنے سینوں پراپنے دوپٹے کولپیٹ دیا کریں”۔
محرم اورکچھ ایسے بے تکلف لوگوں سے خواتین کا واسطہ پڑتا ہے جہاں پر دوپٹے لپیٹنے کا اہتمام بھی عام طور پر نہیں ہوتا ہے لیکن جونہی ماحول میں غیرمحرم یا غیر متعلقہ افراد پہنچتے ہیں تو خواتین اپنے دوپٹوں کو سنبھالنے کا اہتمام کرتی ہیں۔ یہ بالکل ایک فطری بات ہے اور اس فطری بات کو قرآن نے زبردست اجاگر بھی کیا ہے۔ اللہ نے سورۂ نور میں جن لوگوں کے گھروں میں کھانا کھانے کی اجتماعی وانفرادی اجازت دی ہے تو وہ بھی انسانی فطرت کی زبردست عکاسی ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اب اسلام سے دوری کا ماحول جتنا بڑھ رہاہے جاہل اسی کو اسلام سمجھ رہے ہیں۔ آج اس ماحول میں مذہب کی جس طرح کی تشریحات کی گئی ہیں ،اس سے حضرت عائشہ کے حوالے سے بہتان کا معاملہ سمجھ میں بالکل بھی نہیں آسکتا ہے۔ قرآن میں جن افراد کو محرم کی طرح پردے سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے ،ان میں غلام اور وہ تابع مرد بھی شامل تھے جن میں عورتوں کی طرف رغبت کرنے کا کوئی اندیشہ نہیں تھا۔ عربی میں غلام کیلئے عبد کا لفظ ہے اور ماملکت ایمانکم میں جہاں غلام ولونڈی شامل ہیں وہاں اس سے مراد موقع محل کی مناسبت سے کسی طرح کا بھی کوئی ایگریمنٹ والے مراد ہوسکتے ہیں۔ ایک ایگریمنٹ تو وہ ہے جسے ایرانی متعہ اور سعودی مسیار کہتے ہیں لیکن غلامی بھی ایک معاہدہ ہی ہے۔ غلام اور لونڈی کیساتھ بھی نکاح اور متعہ ومسیار کا تعلق ہوسکتا ہے۔ قرآن کے الفاظ میں اتنی وسعت ہے کہ قیامت تک آنیوالے افراد اپنے اپنے ماحول کیمطابق ایک ایک جملے کی زبردست وضاحت سمجھ سکتے ہیں۔
حضرت عائشہ پر جس شخص کیساتھ بہتانِ عظیم کی افواہ اُڑائی گئی تھی تو اس وقت کے مذہبی ماحول کو بھی سمجھنا ضروری ہے۔ جب پنج وقتہ نماز باجماعت میں خواتین پر حاضری کی کوئی پابندی نہیں تھی۔ جس طرح آج بھی خانہ کعبہ میں اپنی فیملی کے سا تھ خواتین نماز پڑھنے جاتی ہیں۔اسی طرح سے ریاستِ مدینہ کی فضاؤں میں بھی آج کا مروجہ مذہبی ماحول نہیں تھا۔ حضرت صفوان نبیۖ کے بااعتماد خادم تھے اور آج بھی انسان کی فطرت میں قرآن کے مطابق ایسے افراد کو محرم کی طرح سمجھ کر ان سے اغیار کی طرح زیادہ پردے کا اہتمام نہیں کیا جاتا ہے۔
سورۂ نور میں سب سے پہلے بدکاری پر کھلے کوڑے برسانے کی آیات ہیں جس سے یہ باور کیا جاسکتا ہے کہ کسی کو سزا سے بچانے کا کوئی سوال پیداہی نہیں ہوتا ہے۔ پھر بہتان لگانے والوں کو بھی سزا دینے کا حکم ہے۔ اسلامی شریعت سازی میں ایک بہت بڑا مغالطہ کافی عرصہ سے چلا آرہاہے کہ زنا کے اصل مجرم اور صحیح گواہی دینے پر بھی گواہوں کو سزا کا کوئی تصورہے یاپھر مجرم کو بچانے کا کوئی اہتمام نہیں ہے؟۔
حضرت مغیرہ ابن شعبہ کے واقعہ کو اسلامی قانون سازی کیلئے بنیاد قرار دیا گیا تھا جس پر فقہی مسالک کے اختلافات ہیں۔ لیکن ابہام کی فضاؤں میں اُمت مسلمہ کی تاریخ بہت تاریک بن گئی جس سے نکالنے کیلئے زبردست تحریک کی ضرورت ہے۔
کسی بھی معاشرے میں نیک وبد کا ایک تصور ہوتا ہے۔ جب کسی کے بارے میں کوئی رائے قائم ہوتی ہے تو معاشرے میں اس کے کردار پر سب کی نظر ہوتی ہے۔ کسی محلے، علاقے اور معاشرے میں کسی خاتون کا کردار مشکوک سے بدکرداری تک پہنچنے کیلئے ایک سفر کا تقاضہ کرتا ہے۔ جب چار شریف لوگ اسکے خلاف گواہی دیں تو پھر قرآن نے پہلے اس کو گھر میں بند کرنے کا حکم دیا تھا۔ کسی بدکردار خاتون کا کردار ایک معاشرے کو خراب کرنے میں بڑی بنیادی حیثیت کا حامل ہوتا ہے۔ جس سے نہ صرف معاشرہ خراب ہوسکتا ہے بلکہ انسانی نسل کے تحفظ کو بھی شدید خطرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ آج ناجائز بچوں کے حوالے سے زمانہ جاہلیت سے بھی زیادہ اس معاشرے میں خرابی پیدا ہوچکی ہے جس کے تدارک کیلئے ریاست بھی کچھ نہیں کرسکتی ہے۔اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ اسلام کے قوانین سے واقفیت نہیں ہے۔
قرآن نے جس صالح معاشرے کی تشکیل میں ایک بنیادی کردار ادا کیا تھا اس کے ذریعے سے طیب وطیبہ اور خبیث و خبیثہ کے درمیان بہت زبردست امتیاز قائم ہوسکتا ہے۔ کانیگرم جنوبی وزیرستان میں ہماری پڑوسن نے ہمارے نوکر پر مرغی چوری کرنے کا دعویٰ کیا۔ جب میرے بڑے بھائی نے اس کی سختی سے تردید کردی تو بعض افراد نے کہا کہ پیر صاحب! اس بات پر ڈٹنے کی غلطی نہ کرو، خاتون کا غصہ بجا ہے۔ ایک دفعہ اس کے ہاتھ میں مرغی دیکھ لی تھی تو میں نے پوچھ لیا کہ کہاں سے لائے ہو؟ اس نے کہا کہ پیرصاحب کے گھر سے بیچنے کیلئے دی گئی ہے۔ میں نے کہا کہ وہ لوگ مرغیاں تو نہیں بیچتے ہیں۔ اب کیوں ضرورت پیش آئی ہے۔ نوکر نے کہا کہ چینی ختم ہوگئی ہے ،اس کیلئے مرغی بیچ رہے ہیں۔ پھر نوکر کی چوری پکڑی گئی اور ہم نے اس کا جرمانہ بھی ادا کردیا تھا۔ انصاف کیلئے معاشرہ بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔
اسلام میں جبری اور باہمی رضامندی سے بدکاری کی سزا میں بھی بہت فرق ہے۔ ایک عورت اپنی رضا سے کسی مرد کیساتھ بدفعلی میں مبتلا ء ہوتی ہے اور پھر اس پر جبر کی تہمت لگادیتی ہے،اس پر تفتیش میں معاشرے کے افراد کی گواہی کا زبردست کردار ہوسکتا ہے۔ عورت اور مرد کا اپنا کردار معاشرے میں بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور اس کی ایک مثال اسلامی جمہوری اتحاد کے دور میں جب IJIکا مرکزی صدر غلام مصطفی جتوئی الیکشن ہار گیا تھا اور سینئر نائب صدر مولانا سمیع الحق وزیراعظم بننے سے دستبردار ہوگئے اور آئی جے آئی (IJI)کے صوبائی رہنما نوازشریف کو وزیراعظم بنادیا گیا تھا، جو مولانا سمیع الحق مولانا عبداللہ درخواستی اورمولانا اجمل خان سے اتحاد کے باوجود مولانا فضل الرحمن کی خاطر جمعیت علماء اسلام کے سیکرٹری جنرل کے عہدے سے بھی ہٹنے کیلئے تیار نہیں تھے وہ نوازشریف کیلئے وزیراعظم کا عہدہ چھوڑ گئے۔
پھر جب مولانا سمیع الحق نے سودی نظام کو ختم کرنے کیلئے تھوڑا سا زور ڈال دیا تو میڈم طاہرہ کے ذریعے سے اخبارات میں الزامات کی زینت بن گئے۔ مجھے اس وقت ڈیرہ اسماعیل خان جیل میں ایک سال قید بامشقت سزا کاچالیس ایف سی آر (40FCR)کے تحت سامنا تھا۔جب جیل میں محمد حنیف پارہ چنار والا اخبار کی خبر سنارہاتھا کہ مولانا عجیب و غریب حرکتیں کررہے تھے تو میں نے کہا تھا کہ اگر یہ سچ ہے تو بھی مولانا سمیع الحق کا نوازشریف سے اتحاد اور اس کے حق میں وزیراعظم کے منصب سے دستبردار ہونے کا فیصلہ بڑا جرم ہے۔ تاریخ کے اندر فاحشہ عورتوں کو الزام تراشی کیلئے استعمال کیا گیا ہے اور یہ کسی نے نہیں دیکھا کہ مولانا سمیع الحق یا میڈم طاہرہ کو اسلامی جمہوری اتحاد نے کیا سزا دی؟۔ افواہوں کا مقصد محض الزام تراشی ہو تو پھر تاریخ آنے والے وقت کو سزا دیتی ہے۔ پھر طاہرہ سید کے حوالے سے نوازشریف کی عزت خراب ہوئی تھی۔
اگر حضرت عائشہ پر تہمت میں تھوڑی بھی صداقت ہوتی تو پھر ایک ماہ تک اس اذیتناک کیفیت سے نکالنے کیلئے کوئی نہ کوئی راستہ ضرور نکلتا۔ نبیۖ نے ازواج مطہرات سے لیکر آخر کار حضرت عائشہ کے والدین اور حضرت عائشہ تک سے بہتان کے معاملے میں پوچھ گچھ میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ ایک شریف النفس انسان پر جھوٹی تہمت لگے تو اس کا اعتراف کبھی نہیں کرسکتا ہے لیکن اگر ذرا سابھی انسان میں خیر کا مادہ غالب ہوتا ہے تو پھرافواہوں کے طوفانوں کی مسلسل زد میں رہنے کی جگہ وہ اعتراف جرم کرنے کو ہی ترجیح دیتا ہے۔ جب حضرت عائشہ نے فرمایا کہ اگر جھوٹ بول کر اعتراف جرم کرلوں تو سب یقین کرلیںگے مگر جب سچ بولوں تو کوئی مانے گا نہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے برأت کا اعلان نازل فرمادیا تھا۔
بہتان کے طوفان کی زد میں رہنے سے جھوٹااعتراف جرم کرکے سزا بھگتنے میں آسانی ہے لیکن کسی پاکیزہ روح کی جب اپنی وابستگی کسی پاکیزہ روح سے ہو تو پھر یہ ممکن نہیں ہوتا کہ جھوٹ سے اعتراف جرم کرکے نہ صرف اپنی عزت کو بلکہ شوہر نامدار کی عزت کو بھی ٹھیس پہنچائی جائے۔ معاشرے کیلئے اس میںبہت بڑا سبق ہے۔
حضرت عائشہ کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے جو آیات نازل کی ہیں، ان میں بڑا زبردست عبرت آموز سبق ہے۔ یہ کس قدر عجیب بات ہے کہ اللہ نے فرمایا کہ اس میں اپنے لئے شر مت سمجھو بلکہ وہ تمہارے لئے خیر ہے۔ کیا اورکونسی خیر ہے؟۔
اللہ تعالیٰ نے معاشرے پر یہ ذمہ داری ڈالی ہے کہ جس چیز کے بارے میں خبر نہیں تھی تو کیوں نہیں کہا کہ ”ہم اس پر کوئی بات نہیں کریںگے”۔ ایک زبان سے دوسری زبان اور ایک منہ سے دوسرے منہ تک کسی تحقیق اور علم کے بغیر بات پہنچانے کی خرابی اتنا بڑا جرم ہے کہ اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہو تو وہ معاشرہ بڑے عذاب کا مستحق بن جاتا ہے۔ یہ قیامت تک کتنا زبردست اُصول ہے۔ کیا نوازشریف اور اسکے خاندان والے مولانا سمیع الحق شہید کے رشتہ داروں اور عقیدتمندوں سے معافی مانگیںگے؟۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت عائشہ کی صفائی کیلئے عوام کو ایک زبردست قاعدہ کلیہ بتادیا تھا کہ ” تم لوگوں نے اپنے نفسوں کے بارے میں اچھا گمان کیوں نہیں رکھا”۔ جب انسان کسی پر بدگمانی کرتا ہے تو اس کی یہ بدگمانی اس کی اپنی ذات پر ہی پلٹ کر آتی ہے۔ جب وہ خود بہت ہی برا ہوتا ہے تودوسروں کیلئے بھی اسی طرح کا گمان رکھتا ہے۔ یہ قاعدہ بہت زبردست ہے جس میں معاشرے کیلئے بہت بڑی عبرت ہے۔ اگر کسی پاکدامن عورت پر کوئی بھی غلط گمان کرتا ہے تو یہ اس کے اپنے نفس کی خباثت کا رہینِ منت ہے۔
معاشرے میں جب کسی کا کردار مشکوک ہوتا ہے اور پھر وہ لمحہ بھی آتا ہے کہ آنکھوں دیکھے حال سے اسکی پاکدامنی داغدار ہوجاتی ہے۔ جس کے بعد اس پر پاکدامنی کا اطلاق بھی نہیں ہوتا ہے۔ ایسے شہرت یافتہ خبیثوں اور خبیثات کا ماحول طیبون اور طیبات سے بالکل الگ ہوتا ہے۔ بدکاروں اور بدکرداروںکو افواہوں کی زد میں آنے سے کسی قسم کے خطرات کا بھی سامنا نہیں ہوتا ہے۔ جب زلیخا کا کردار ایک پاکدامن حضرت یوسف کو داغدار کرنے تک نہیں پہنچ سکا تھا تب زلیخا کی شہرت مصر کے گھروں تک پہنچ گئی تھی اور جیل تک اس کے چرچے تھے۔ دوسری طرف حضرت یوسف کی پاکدامنی پر عزیز مصر تک سب کو اعتماد تھا اور مزید برآں ایک بچے نے زبردست گواہی بھی دی تھی۔
اگر زلیخا پر کسی طرف سے باقاعدہ کوئی تہمت لگ جاتی تو مختلف اطراف سے ایسے چار گواہوں کی گواہی دینے میں مشکل نہ ہوتی کہ یہ عورت ٹھیک نہیں ہے۔ حرکتوں سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ وہ کس حد تک جاسکتی ہے۔ کسی پر بدفعلی کا الزام لگ جائے تو پھر بہتان یا حقیقت کا پتہ چلنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں واضح طور پر تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ”تم نے کیوں نہیں بول دیا کہ یہ بہتان عظیم ہے؟”۔
جس معاشرہ میں افراد زندہ اور جاندار کردار ادا کرتے ہیں تواس معاشرے میں برائی کی جڑیں ناپید ہوجاتی ہیں۔ اگر چار نہیں بیس افراد بھی جھوٹ سے کسی عورت پر چشم دید گواہ بن جائیں لیکن گواہوں سے کچھ بھی توقع ہوسکتی ہو تو اس کی وجہ سے نہ تو سزا ہوسکتی ہے اور نہ ہی شہرت داغدار ہوسکتی ہے مگر جب اعتماد والے لوگ کسی کے خلاف گواہی دیں تو پھر گواہوں کو مارنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اندرونی صفحات پر آیات کی تفسیر دیکھ لیں۔

NAWISHTA E DIWAR March Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

اسلامی شریعت کے نظام عدل کا حلیہ بگاڑ کر پوری دنیا کو ظلم وجور سے بھرنے کی ذمہ دارنام نہاد اُمت مسلمہ ہے۔

اسلامی شریعت کے نظام عدل کا حلیہ بگاڑ کر پوری دنیا کو ظلم وجور سے بھرنے کی ذمہ دارنام نہاد اُمت مسلمہ ہے۔ اگر اُمت کی اصلاح ہوگی تو پوری دنیا کی اصلاح میں دیر نہیں لگے گی۔ مولوی ظلم کی شریعت سے فائدہ اُٹھاتا ہے!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

اگر جبری و رضامندی کی بدفعلی پر چار افراد کی چشم دید گواہی ضروری ہو اور ان سے کم افراد کو گواہی دینے پر کوڑے مارے جائیں اور بدکار پاکدامن ہو تو پھر ماحول کس قدر بگڑجائیگا؟

دنیا نے مسلمانوں کی جابرانہ ذہنیت سے عدل کا نہیں ظلم وجبر کا نظام سیکھا ہے۔ آج اگر پاکستان میں شریعت کی درست تعبیر سامنے آجائے تو ہم ہی نہیں پوری دنیا بھی بدل جائے گی!

جب بنوامیہ نے خلافت کو اپنی لونڈی بنالیا اور پھر بنوعباس اور خلافت عثمانیہ کے خاندانوں نے اپنی اپنی بادشاہت قائم کی تب پوری دنیا کے سامنے اسلامی اقتدار کا سورج بھی آب وتاب کیساتھ چمک رہا تھا۔ دنیا میں اس سے پہلے ادیان اور مذاہب کی بالکل مسخ شدہ شکلیںموجود تھیں۔ اسلام کا مذہب اورنظام عدل دوسروں کے مقابلے میں زیادہ بہتر تھا لیکن حکمرانوں کا طرزِ حکمرانی بہت بگاڑ اور فتنہ و فساد کا آئینہ تھا۔ مولوی حضرات کا مذہب بھی ظالم حکمرانوں کو راستہ دئیے جاتا تھا۔ شریعت کا حلیہ بگاڑنے میںبھی مذہبی طبقات کا بنیادی کردار ہوتا تھا۔ بنی امیہ کے یزید نے حضرت حسین کی کربلا میں شہادت پر انصاف فراہم نہیں کیا اور یہ اس کی اپنی فوج کی کاروائی تھی۔ حضرت عبداللہ بن زبیر کی لاش کو بھی مکہ میں چند دن لٹکائے رکھا جو حضرت ابوبکر کے نواسے تھے۔ دنیا نے اس سے یہی سبق سیکھ لیا کہ حکومت کے استحکام کیلئے ظلم وجبر کا انتہائی قدم بھی ایک مجبوری ہے آزاد مذہبی طبقے نے اس ظلم وجور کو شرعی جواز فراہم نہیں کیا تھا، البتہ اہل اقتدار کے حاشیہ برداروں کا ٹولہ اس کو اسلام کا تقاضہ قرار دیتا تھا۔ پھر ایک وقت آیا کہ لوگوں نے بنی امیہ کو اپنے اقتدار سمیت بہت خراب انجام تک پہنچایا اور پھر بنوعباس اقتدار میں آگئے ۔ پھر ان کا حشر نشر ہوا اور ایک دن سقوطِ بغداد سے بہت برے انجام کو پہنچ گئے۔
جب دنیا میں یہ روایت بن گئی کہ ایک ظالم کو ختم کرنے کیلئے دوسرے ظالم نے اس سے زیادہ مظالم کے پہاڑ توڑ کر اقتدار حاصل کیا تو مسلمانوں اور غیرمسلموں کے درمیان تفریق مٹ گئی۔ اس وقت ہمارا مقصد یہ نہیں ہے کہ تاریخ میں کس طرح ایک بادشاہ نے اقتدار تک پہنچنے کیلئے دوسرے پر مظالم کے پہاڑ توڑے بلکہ ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ظالمانہ اقدامات کیساتھ ساتھ علماء ومفتیان نے شریعت کو بدلنے میں کیا کردار کیا تھا؟۔ جب مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر نے اپنے باپ شاہجہان کو جیل میں قید کرکے اپنے سارے بھائیوں کو قتل کردیا تو سرکاری مذہبی طبقہ اور میڈیا نے اس ظالمانہ اقدام کو کیسے جواز بخشا تھا اور شریعت میں کیا تبدیلی کر ڈالی تھی؟۔ وقت کے پانچ سو علماء ومفتیان نے فتاویٰ عالمگیریہ مرتب کیا تھا جن میں حضرت شاہ ولی اللہ کے والد شاہ عبدالرحیم کے دستخط بھی تھے۔ جب ہمارے خلاف ڈیرہ اسماعیل خان کے ملاؤں نے مولانا فضل الرحمن کی ایماء پر یہ فتویٰ دیا تھا کہ ”مہدی کی بات کوئی مسئلہ نہیں لیکن امت کا اجماع ہے کہ شیعہ کافر ہیں اور یہ شخص اس اجماع کو نہیں مانتا ہے اسلئے گمراہ ہے”۔ اس پر مولانا فتح خان صاحب نے دباؤ میں آکر تائید ی دستخط کئے تھے لیکن مولانا عبدالرؤف امیر جمعیت علماء اسلام ف اور شیخ محمد شفیع شہید امیر جمعیت علماء اسلام س اور تحفظ ختم نبوت کے امیر مولانا غلام محمد نے اس کی کھل کر مخالفت کی تھی۔ مولانا فتح خان سمیت ٹانک کے اکابر علماء کی ہماری کھلی تائید کے باوجود جس طرح مخصوص طبقہ ہمارے خلاف سرگرم تھاوہ بھی ایک بہت بڑا المیہ ہے۔
بہرحال یہاں بنیادی بات کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ” فتاوی عالمگیریہ ” میں یہ لکھ دیا گیا کہ ” بادشاہ پر قتل، زنا ، چوری، ڈکیتی اور ہر طرح کے مظالم ڈھانے کے باوجود کوئی شرعی حد نافذ نہیں ہوگی کیونکہ وہ دوسروں پر حد نافذ کرتا ہے ،اس پر کوئی حد نافذ نہیں کرسکتا ہے”۔
جب انگریز نے ہندوستان پر قبضہ کیا تو اس نے بھی حاکموں اور محکوموں کیلئے جدا جدا قانون نافذ کردئیے۔ لوگوںنے مجبوری میں اسلئے ان قوانین کو قبول کرلیا کہ اکبر بادشاہ کے آئین اکبری سے فتاویٰ عالمگیریہ تک بادشاہوں نے امتیازی رویہ سجدہ تعظیمی سے لیکر قتل کو معاف کرنے تک کیا کچھ نہیں کیا تھا؟۔ غلام در غلام ریاستی مشینری میں پنپنے والے اوریا مقبول جان جیسے لوگ شریعت اور آزادی کی تڑپ ضرور رکھتے ہوں گے لیکن شب کور کیلئے رات کے اندھیرے میں کچھ دکھائی نہ دینا مرض ہے اور اس مرض کا خاتمہ اسی وقت ممکن ہے کہ جب طلوع سورج سے دنیا میں رات کا اندھیرا بالکل ختم ہوجائے۔
جب حضرت امام حسین نے کربلا میں یزید کی بیعت سے انکار کرکے اپنی جان ، کنبے اور ساتھیوں کی قربانی پیش کرکے ذبیح اللہ کی طرح خواب کی تعبیر پیش کردی تو اس وقت کے شیعہ اور سنی دونوں نے صرف تماشائی بننے کا کردار ادا کیا۔ ظالم حکمرانوں سے ٹکرانا حضرات انبیاء کرام کی سنت ہے۔ اس سنت کو زندہ کرنا مشکل کام ہے،اسلئے کہ حکمرانوں نے کچھ بدقماش پال رکھے ہوتے ہیں اور جونہی کسی سے خطرہ محسوس کرتے ہیں تو فوج کشی سے لیکر بدمعاش اور غنڈے طبقے تک ایک اشارے پر سب کچھ کرگزرنے کیلئے تیار ہوتے ہیں۔ سوال اٹھانے کی جرأت بھی کسی میں نہیں ہوتی ہے۔ نوازشریف نے مجھے کیوں نکالا کی رٹ لگائی اور اس کو جرأت کا انتہائی قدم قرار دیا گیا لیکن نوازشریف سے کسی صحافی اور سیاستدان سے لیکر عدالت اور ایوانِ اقتدار تک کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ پارلیمنٹ میں لکھی ہوئی تقریر اور قطری خط لکھنے اور اس سے مکر جانے کی آخر کہانی ہے کیا؟۔
بہر حال ہمارا موضوع حالات کا مرثیہ پڑھنا نہیں بلکہ کچھ ایسے حقائق کی طرف توجہ مبذول کرانی ہے کہ اگر ہم نے بروقت اپنے مفاد کیلئے اس کی اصلاح کردی تو پاکستان کی حالت بہتر ہونا شروع ہوجائے گی۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک وکیل نے بتایا کہ ایک مولوی نے ایک لڑکے کیساتھ زیادتی کی تو وہاں کے مفتی صاحب کوبلایا گیا تاکہ شریعت سے رہنمائی کرے۔ مفتی صاحب نے کہا کہ ” دخول ثابت ہے مگر خروج نہیں”۔ یہ شریعت دین اسلام کی ترجمانی کرتی ہے یا مفتی صاحب کی اپنی خواہش کی وکالت کا آئینہ ہے؟۔ جامعہ دارلعلوم کراچی کے ایک فاضل میرے دوست ایرانی بلوچ نے بتایا کہ ایک عورت کا ایک مولوی نے حلالہ کیا تھا، جب کچھ دنوں کے بعد مولوی صاحب کا اس عورت سے سامنا ہوا تو اس سے پوچھ لیا کہ تجھے مزا آیا تھا، عورت نے کہا کہ نہیں۔ مولوی نے کہا کہ پھر تو آپ حلال نہیں ہوئی ہو،اسلئے کہ حدیث میں آتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کامزا چکھ لیں ۔ پھر دوبارہ اس کو لے جاکر معاملہ کرلیا اور پوچھا کہ اب مزا آگیا؟۔ عورت نے کہا کہ ہاں!۔ جب دوسروں کوپتہ چل گیا تو مولوی کو ڈانٹ دیا کہ یہ کیا خباثت کی ہے۔ تمہارے اوپر دو حق مہر کی رقم بھی ضروری ہے لیکن اس نے کہا کہ میری جیب میں ایک روپیہ تک نہیں ہے۔
یہ انفرادی معاملات بھی چھوڑ دیجئے۔ جب دارالعلوم کراچی سے فتویٰ دیا جاتا تھا تو آیات اور احادیث کو سیاق وسباق اور اصل حقائق سے ہٹاکر نہ صرف حلالے کا فتویٰ دیا جاتا تھا بلکہ شرعی گواہوں کی موجودگی اور فقہ کی کتابوں سے التقاء الخطانین کا حوالہ دے کر یہ تأثر دیا جاتا تھا کہ یہ کام مذہبی طبقہ کے علاوہ دوسرے کے بس کا نہیں ہے۔ جب ہم نے قرآنی آیات اور احادیث صحیحہ کی وضاحت کردی کہ دارلعلوم کراچی کے فتاویٰ میں اس کا بالکل غلط حوالہ دیا جاتاہے تو پھر انہوں نے فتوے کو اس بات تک محدود کردیا کہ ” تمہاری طلاق مغلظہ واقع ہوچکی ہے اورحلالہ ضروری ہے”۔ باقی لوازمات زبانی بتاتے ہیں تاکہ فتوے پکڑ میں نہیں آسکیں۔ طلاق سے بغیر حلالہ کے رجوع کا مسئلہ عوام وخواص پر بہت اچھی طرح واضح ہوجانے کے بعد بہت سے لوگوں کو ہم نے اس لعنت سے بچایا ہے۔
اس وقت ہمارے موضوع کا مقصد اپنے داخلی تنازعات پر گفتگو کرنا نہیں ہے لیکن اس تمہید سے یہ سمجھانا مقصود ہے کہ جس طرح وفاق المدارس کے صدر مولانا سلیم اللہ خان سے لیکر جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی ، مفتی زر ولی خان اور سب اکابر واصاغر علماء و مفتیان نے سود کو جواز فراہم کرنے کے خلاف کتابیں لکھ دیں اور بالمشافہ سمجھایا تھا لیکن ریاست کے علاوہ عالمی قوتوں کی سرپرستی نے مفتی محمد تقی عثمانی کو شیخ الاسلام بنادیا ہے، اسی طرح سے پہلے بھی علمائِ حق کے کردار کو مسترد کرکے درباری ملاؤں نے ہردور میں اسلام کا بیڑہ غرق کیا ہے ، یہاں تک کہ اسلام دین نہیں رہاہے بلکہ مولوی کی خورد بین بن گیا ہے۔
کچھ عرصہ پہلے یوٹیوب پر ایک توہین آمیز فلم بن گئی تھی جس کی وجہ سے بہت سارے اسلامی ممالک میں احتجاجاً یو ٹیوب بند کردیا گیا لیکن یوٹیوب نے کوئی معافی نہیں مانگی اور آخر کار پاکستان، سعودی عرب اور ایران وغیرہ کو اپنا احتجاج ختم کرکے یو ٹیوب کو بحال کرنا پڑگیا۔ اب فرانس کے خلاف حکومت اور تحریک لبیک کے درمیان سفیر کو نکالنے کی تاریخ پر تاریخ دی جارہی ہے لیکن ان سے کوئی یہ نہیں پوچھتا ہے کہ یوٹیوب کے بائیکاٹ کا کیا ہواتھا؟۔ ہمارا اس بات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے کہ فرانس کا سفیر نکالنے کیلئے تاریخ پر تاریخ دینے کا حق کس کو ہے اور کس کو نہیں ہے؟۔ لیکن ایک ایسے موضوع کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے کہ جس سے پوری امت مسلمہ کا ماضی ، حال اور مستقبل وابستہ ہے۔ اچھی قسمت ہماری یہ ہے کہ ہمارے قومی ترانے میں ”ترجمانِ ماضی، شانِ حال ، جان استقبال، سایۂ خدائے ذوالجلال” ہے۔ پاکستان اسلام کا مرہون منت ہے۔
فرانس نے اسلام پر نئی پابندیاں بھی لگادی ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ سلسلہ یورپ اور امریکہ کے ساتھ ساتھ تما م غیر مسلم ممالک تک پھیل جائے۔ دنیا کی نمبر1پاک فوج نے دہشت گردوں سے نمٹنے میں جو کامیابی حاصل کی ہے وہ نیٹو کو افغانستان اور عراق وغیرہ میں حاصل نہیں ہوسکی ہے لیکن جب دنیا کے میڈیا کے سامنے پاک فوج کے ترجمان کو یہ وضاحت دینا پڑتی ہے کہ اب پاکستان میں دہشت گردوں کے کوئی محفوظ ٹھکانے نہیں ہیں اور احسان اللہ احسان کے فرار میں ایک سے زیادہ فوجی ملوث تھے جن کو سزا ئیں دی جاچکی ہیں اور اس کی تفصیلات سے عنقریب ہم میڈیا کو آگاہ کرینگے تو دیکھنا یہ ہے کہ دنیا نے ہم پر ریاستی دہشت گردی کی تہمت لگائی ہے یا حقیقت ہے ؟۔فیصلہ انہوں نے ہی کرنا ہے۔
دنیا یہ جانتی ہے کہ نائن الیون (9/11)سے لیکر دہشت گردی کے خاتمے میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا اپناکردار بھی پاکستان سے زیادہ مشکوک ہے لیکن پاکستان کو جرم ضعیفی کی سزا مل رہی ہے۔ جب تک پاکستان ایک مضبوط اور توانا پوزیشن والا ملک نہیں بن جاتا ہے تو کسی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کرسکتا ہے۔ہمارا اصل موضوع یہ بھی نہیں ہے لیکن اصل موضوع کیلئے یہ ایک ماحول بنانے اور تمہید کی بات ہے۔ اصل موضوع کی طرف تفصیلی رہنمائی اور نشاندہی اندرونی صفحات پر موجود ہے یہاں صرف اس کا خلاصہ اور ان حقائق کی نشاندہی کرنا مقصد ہے جس کی وجہ سے امت مشکل کا شکار ہوسکتی ہے۔
ہمارے ایک مہربان سپین جماعت (سفید مسجد) مردان کے خطیب وپیش امام علامہ پیر شکیل احمد قادری صاحب نے کہا کہ ” شہیر سیالوی اس وجہ سے مصیبت میں آگئے ہیں کہ اس نے اسرائیل کو تسلیم کرنے والے کے خلاف اقدام اُٹھایا تھا”۔ ہمیں اس کہانی سے بالکل بھی اتفاق نہیں تھا لیکن اُمت کو مشکلات سے نکالنے میں کردار ادا کرنا ہوگا اور سب اس میں اپنا حصہ اس وقت ڈال سکتے ہیں کہ جب ہم اس کی نشاندہی میں بخل نہ کریں۔
حضرت عائشہ پر بہتان لگانے سے زیادہ اذیت رسول اللہۖ کو طائف کے اندر پتھروں کی بارش سے بھی نہیں ملی تھی۔ جس کا جتنا بڑا رتبہ ہوتا ہے ،اس کی آزمائش بھی اتنی بڑی ہوتی ہے۔ پہلی اُمتوں میں اہل حق کو آروں سے چیرا گیا۔ اسلام کی پہلی شہیدہ حضرت سمیہ سے کیا سلوک ہوا؟۔ ایک ٹانگ ایک اونٹ اور دوسری ٹانگ دوسرے اونٹ سے باندھ کر زندہ خاتون کو اس طرح جاہلوں نے شہادت کی منزل پر پہنچایا تھالیکن حضرت عائشہ پر بہتان کا معاملہ حضرت عائشہ، رسول اللہۖ اور حضرت ابوبکر کیلئے اس سے بھی زیادہ اذیتناک تھا۔ بچہ جننے کی تکلیف ہر عورت کوہوتی ہے لیکن حضرت مریم نے حضرت عیسیٰ کو جن لیا تو پکار اُٹھی کہ اے اللہ مجھے میری ماں نے جنا نہ ہوتا اور میں اس سے پہلے مر جاتی اور میرا نام ونشان بالکل مٹ کر لوگوں کے ذہنوں سے نکل چکا ہوتا۔
حضرت عائشہ پر بہتان لگا تو اس بہتان سے پاک قرار دینے کیلئے کیا یہ طریقہ اختیار کیا گیا تھا جو مولوی کی خود ساختہ شریعت کا لب لباب ہے کہ اگر چار گواہ نہیں لائے تو پھر جس کے خلاف گواہی دی جائے وہ پاک ہے اور گواہی دینے والے مجرم ہیں؟۔
قرآن وسنت میں حضرت عائشہ کی برأت کیلئے مولوی کی خود ساختہ شریعت کا سہارا نہیں لیا گیا ، جس میں چوری اور سینہ زوری کا تصور اُبھرتا ہے بلکہ ایک ایسا عادلانہ تصور دیا گیا ہے کہ دنیا کو اس کی حقیقت سے آگاہ کیا جائے تو نہ صرف اسلام کے چہرے سے اس اجنبیت کی کالک ہٹ جائے گی بلکہ دنیا میں پاکدامنی اور نظامِ عدل کا ایک ایسا تصور قائم ہوگا کہ پوری دنیا کو ظلم وجور اور بے حیائی سے پاک کرنے میں دیر نہیں لگے گی۔ انشاء اللہ
مولانافضل الرحمن ووٹ مانگتا ہے تو لوگوں سے جمعہ کی تقریر میں کہتا ہے کہ آپ سمجھتے ہو کہ اسلام سخت مذہب ہے۔ اگر دوافراد بدکاری کے مرتکب ہوں۔ ایک آدمی دیکھ لے تو بھی کوئی سزا نہیں ۔ دو آدمی دیکھ لیں تو بھی کوئی سزا نہیں اور تین آدمی دیکھ لیں تو بھی کوئی سزا نہیں ۔ بلکہ بیک وقت چار آدمی یہ ماجراء دیکھ لیں اور اس میں بھی شفاف آئینے کی طرح جو الٹراساونڈ کے بغیر ممکن بھی نہیں ہے اور الٹرا ساونڈ لگاکر دیکھنا معتبر بھی نہیں ہے۔
حالانکہ یہ اسلام نہیں بلکہ اسلام کے نام پر بہت بڑی کالک ہے جس کو واضح کرنا ہے

NAWISHTA E DIWAR March Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

قرآن سے دُوری نے غیر تو غیر مسلمان سے بھی اسلام کو اجنبی بنادیا

اسلام کا قانونی اور معاشرتی نظام پوری دنیا کیلئے رول ماڈل ہے لیکن قرآن سے دُوری نے غیر تو غیر مسلمان سے بھی اسلام کو اجنبی بنادیا، جب خود مؤمن محروم یقین ہوگا تو باقی دنیا کے سامنے اسلام کو پذیرائی کسطرح ملے گی؟

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

یہ سراسر جھوٹ ، منافقت اور کھیل ہے کہ پاکستان کا آئین اسلامی ہے۔ ہمارامعاشرتی، معاشی، قانونی ، سیاسی ، مذہبی، سماجی ، ریاستی اور حکومتی نظام کا اسلام سے دُور کا بھی واسطہ نہیں

جب اسلام کا نظام صحرائے عرب کے بادہ نشینوں نے اپنایا تھاتو دنیا کی سپر طاقتیں اسلام کی شرافت پر نچھاور کرنے کیلئے انسانیت نے قربانی دیں لیکن آج انسانیت ہے ہم انسان نہیں

انسانوں میں فطرتی طور پر خیر کا مادہ زیادہ اور شر کا مادہ کم ہے۔ جنات میں فطری طور پر شر کا مادہ زیادہ اور خیر کا مادہ کم ہے۔ جب انسانوں کو اچھا ماحول ملے گا تو زمین میں ایک اچھی فضاء بھی قائم ہوجائیگی پھر انسانوں کیساتھ ساتھ جنات کا ماحول بھی اچھا ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔ سورۂ فاتحہ کے بسم اللہ اورالحمد للہ رب العالمین سے لیکر سورۂ فلق کے من شر ما خلق اور سورۂ الناس کے من الجنة والناس تک قرآن کا ایک ایک لفظ ،ایک ایک جملہ، ایک ایک آیت اورایک ایک سورت سراپا ہدایت ہے مگرہم نے آنکھیں بند کررکھی ہیں۔
مذہبی طبقات نے قرآن کی صاف صاف اور واضح واضح باتوں کو معاشرے میں رائج کرنے کے بجائے اس کے ساتھ مکڑی کے جالے بُن دئیے ہیں۔ اگر ہمت کرکے ان جالوں کو صاف کرلے گا تو خیر اور شر کی تفسیر کھل کر سامنے آجائے گی۔ جب مولوی نے بھی قرآن کی طرف رجوع کرنے کی بجائے فتوؤں کی کتابوں سے فتویٰ مرتب کرنا ہو کہ باہمی رضامندی کی صورت میں میاں بیوی کا رجوع ہوسکتا ہے یا نہیں؟۔ تو پھر دیگر مسائل کا کیا حال بنارکھا ہوگا؟۔ علمائِ حق کو میدان میں اترنا ہوگا ورنہ جب عوام کا غیض وغضب جہالتوں کی پرورش میں جوش مار کر طوفان کھڑا کرے گا تو پھر بہت دیر ہوجائے گی؟۔ اس سے پہلے پہلے کہ لسانی، فرقہ وارانہ اور دیگر فتنوں کے شعلے سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیں شعور اور بیداری کی فضاؤں کا کھل کر ساتھ دینا ہوگا۔ مذہبی جماعتیں اسلام اسلام تو کرتی ہیں لیکن جمعیت علماء اسلام کے چیتے اور تحریک لبیک کے زیبرے وغیرہ وغیرہ نے موٹر وے کو زیبرا کراسنگ بناکر رکھ دیا ہے۔جہاں ٹریفک کی روانگی کا کوئی سوال نہیں۔ ایک کا اسلام محترمہ مریم نواز کے دوپٹے میں لپٹ یا اٹک گیا ہے اور دوسرے نے فرانس کے سفیر کو ڈیڈ لائن دینے کے مشغلے کو اپنا شغل بناکر رکھا ہے۔ اوریا مقبول جان سے پوچھا جائے کہ جمہوریت کفر ہے لیکن جناب نے جس نظام میں زندگی گزاری ہے اور آج اس کی پینشن کھارہے ہیں یہ اسلامی ہے؟۔ ہمارے ہاں کلمہ پڑھانے کیلئے اوریا مقبول جان اور ڈاکٹر عامر لیاقت کے علاوہ کوئی نہیں ملتا؟۔ جس بھی نوزائدہ نومولود تنظیم کے ایک کان میں آذان دینی ہو تو عامر لیاقت اور دوسرے کان میں اقامت پڑھنی ہو تو اوریا مقبول جان کی خدمات ہی پتہ نہیں کیوں لی جاتی ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر (DGISPR)نے ٹھیک کہاہے کہ جن فوجیوں نے احسان اللہ احسان کو چھوڑنے کا جرم کیا تھا ،ان کو سزا دی جاچکی ہے۔ اگر وہ کسی طرح قید میں رکھے گئے ہیں تو آذان واقامت کیلئے اوریا مقبول جان اور عامر لیاقت بھی ضرور حاضر خدمت ہیں۔ البتہ میڈیا پر ان نالائقوں کو وکالت کی خدمت نہ سونپی جائے۔ شہیر سیالوی پتہ نہیں انگریز کے کونسے بٹ مینوں اور کتے نہلانے والوں کو سبق سکھانے کا کہہ رہے ہیں۔ اوریا مقبول جان نے بھی اس کی تائید کردی ہے۔
اگر واقعی اسلامی نظام ملک میں نافذ ہوتا تو پھر شاہ فیصل مسجد میں امام ، مؤذن ، خادم کی خدمات ڈاکٹرعامر لیاقت، اوریامقبول جان اور شہیر سیالوی سے بھی لی جاتی تو بہترین کام ہوسکتا تھا۔ حالانکہ پیشہ ، تعلیم اور سند کے لحاظ سے عامر لیاقت ڈاکٹر نہیں ہیں بلکہ جس طرح کوئی غیرسید اپنے نام کا حصہ سید کوبھی بنالیتا ہے وہ اسی طرح کے نام کے ڈاکٹر ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اسلامی معاشرے کے قیام کیلئے سورۂ نور کی ایک ایک آیت میں وہ نور بھر دیا ہے کہ اگر اس سے روشن کردیا جائے تو مشرق ومغرب میں طلوع شمس کا منظر ہوگا۔
وانکحوا الایامیٰ منکم والصٰلحین من عبادکم وامائکم ان یکونوا فقرآء یغنھم اللہ من فضلہ واللہ واسع علیمO
” اور نکاح کراؤتم میں جو بیوہ وطلاق شدہ ہیں۔ اور جو تمہارے نیک غلام اور لونڈیاں ہیں ۔ اگر وہ فقراء ہیں تو اللہ ان کو اپنے فضل سے دولتمند بنادے گا اور اللہ وسعت دینے والا جاننے والا ہے”۔
دورِ جاہلیت میں نکاح کی ایک قسم یہ تھی کہ دس (10)یا اس سے کم متعدد افراد کسی عورت سے تعلق رکھتے تھے، جب اولاد پیدا ہوتی تھی تو وہ افراد ایک لائن میں کھڑے ہوجاتے ، جس کی طرف عورت اشارہ کرتی وہی مرد بچے کا باپ بن جاتا تھا۔ دوسری قسم یہ تھی کہ کوئی عورت اپنے گھر پر جھنڈا لگادیتی تھی اور لاتعداد لوگوں کا اس کے پاس آنا جانا ہوتا تھا۔ پھر جب اس کا کوئی بچہ پیدا ہوتا تو چہروں کا علم رکھنے والے ماہرین قیافہ شناسوں کی ٹیم طلب کی جاتی تھی اور جس سے چہرہ ملتا تھا ،بچے کو اسی شخص کا قرار دیا جاتا تھا۔ تیسری قسم یہ تھی کہ کوئی شخص اپنی بیگم کسی اچھے نسل والے کو دے دیتا تھا،پھر جب اس کو حمل ٹھہرتا تو عورت اپنے شوہر کو واپس کردی جاتی اور یہ سمجھ لیا جاتا تھا کہ نسل اچھی ہوگئی ہے۔جاہلیت میں نکاح کی ایک قسم وہ بھی ہے جو درست تھی اور اسلام نے اس کو باقی رکھا۔ (صحیح بخاری)
بخاری کی صحیح حدیث کو نقل کرنے پر بھی بعض لوگ چیں بہ جبیں ہونگے کہ اخلاقیات سے گری باتوں کو یہاں نقل کرنے کی کیا ضرورت ہے؟۔ حالانکہ ہمارا معاشرتی نظام تو جاہلیت سے بھی زیادہ گیا گزرا ہے۔ بغیر ماں باپ کی شناخت والے جھولوں کے بچوں کی بہت بڑی تعداد پیدا ہورہی ہے۔ مولانا عبدالستار ایدھی اور اسطرح کے دوسرے لوگ یہاں ایک مسیحا کے روپ میں بیٹھے ہیں جو بھیک مانگ کر زکوٰة خیرات سے ان بچوں کے باپ بن رہے ہیں۔ ایام جاہلیت میں ماں کے ساتھ ایک باپ پر بھی بچے کی ذمہ داری ڈال دی جاتی تھی تو یہ بچے اور معاشرے کیلئے خوش آئند تھامگر جب ماں باپ دونوں سے محروم بچے معاشرے کا حصہ بن رہے ہوں تو یہ جاہلیت کے معاشرے سے ہزار درجہ بدتر ہے۔
جب دین اسلام آیا تو ناجائز حرام کاری کی روک تھام اور انسانی شرافت کا بہت اعلیٰ ترین معیار قائم کردیا ۔ اس زمانے میں بیوہ وطلاق شدہ سے نکاح کو اتنا معیوب سمجھا جاتا تھا کہ بچے اپنے آباء کی متروکہ منکوحہ عورتوں سے مجبوراً شادی کرلیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ولاتنکحوا مانکح اٰبائکم من النساء الا ما قدسلف ”اورنکاح مت کرو جن عورتوں سے تمہارے آبا ء نے نکاح کیا مگر جو پہلے گزرچکا ہے”۔اصولِ فقہ میں اس پر اتنا گند پھیلایا گیا ہے کہ اگر عوام کو پتہ چل گیا اور ڈنڈے والی سرکار کو حکومت مل گئی تو اسلام کے نام پر غیر فطری تعلیم دینے والوں کو سوٹے مارمارکرباز آنے پر مجبور کریںگے۔ جن خواتین کی ایسی حیثیت ہو ، جو اپنے لئے بیوہ ہونے کے بعد کسی اور شخص سے نکاح کو اپنی توہین سمجھ رہی ہوں تو محرمات کی فہرست مانکح آباء کم اور حرمت علیکم امہاتکم سے شروع ہے تو اس کا خاتمہ والمحصنات من النساء پر کردیا ہے۔ کوئی شخص یہ تصور بھی نہیں کرسکتا ہے کہ جب انسانی معاشرے میں ایک خاتون کو ایسی عزت کا مقام حاصل ہو کہ وہ بیوہ بننے کے بعد شادی نہیں کرنا چاہتی ہو اور لوگ اسکو پیغام ِنکاح کے انبار لگانا شروع کردیں۔ رسول اللہ ۖ کی حیثیت مسلم معاشرے میں مسلمہ تھی تو اللہ نے ہمیشہ کیلئے آپ ۖ کی ازواج سے نکاح کرنے کی بات کو بھی ناجائز اور اذیت کا باعث قرار دیا تھا۔
حدیث میں کنواری کے مقابلے میں الایم کا ذکر آیا ہے۔ کنواری سے شادی کرنے میں کوئی عار اور مشکل نہیں تھی اسلئے اللہ تعالیٰ نے بیوہ وطلاق شدہ کا نکاح کرانے کا حکم دیا ہے لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ جب معاشرے میں ان کو بالکل نظر انداز کیا جاتا ہو تو اس سے بہت مثبت تبدیلی آتی ہے۔ ریحام خان سے عمران خان کا نکاح اس اصول کے مطابق بڑا اچھا فیصلہ تھا۔ البتہ معاشرے میں نکاح کیلئے شادی شدہ سے نکاح کرنے کا اقدام بہت معیوب ہے۔ عورت شوہر سے راضی نہ ہو تو پہلے خلع لیا جائے اور پھر دوسرے سے نکاح کی بات ہو تو پھر بھی مدینہ کی ریاست بنانے میں کوئی حرج نہیں ہوگا۔ جب جوان بچوں کو معلوم نہ ہو کہ ماں نے انکے باپ سے خلع لیکر کسی اور سے شادی رچالی ہے اور پھر وہ میڈیا میں کسی معروف شخصیت سے شادی کی تردید کریں تو اللہ ایسی آزمائش سے ہمارے گرویدہ نہیں بلکہ دشمن ہندؤوں کے بچوں کو بھی بچائیں۔ پھر یہ الزام کہ عدت میں شادی ہوئی ہے اور مولانا فضل الرحمن کا یہ کہنا کہ وزیراعظم عمران خان نے اپنے گھر کو ریگولرائزکردیا ہے اب ایک اور چیز کو ریگولرائز کرنے کا معاملہ باقی رہ گیا ہے۔
جب اللہ نے شادی کی طلبگار اور ضرورت مند بیوہ وطلاق شدہ خواتین کی شادی کرانے کا حکم دیا ہے تو اس سے معاشرے پر کتنے زبردست اثرات مرتب ہوںگے؟ اللہ نے صرف طلاق شدہ وبیوہ خواتین کا نہیں بلکہ غلاموں اور لونڈیوں کا نکاح کرانے کا بھی حکم دیا تھا۔ نوشہرہ کی معروف سیاسی شخصیت ہمارے علاقہ کے مولانا گل حلیم شاہ کنڈی نے ایک مرتبہ بالمشافہہ ملاقات میں مجھ سے کہا کہ ایک عورت بہت بوڑھی تھی، کمزور اور بہت لاغر جسم کی وجہ سے اسکا بیٹا ٹوکری میں رکھ کر اپنے سر پر حج کے دوران گھما رہا تھا۔ ایک شخص نے کہا کہ اللہ کا حکم ہے کہ بیوہ وطلاق شدہ کا نکاح کراؤ، اس نے کہا کہ اتنی بوڑھی کا نکاح سے کیا کام ہے ؟۔ تو بوڑھی اماں نے کہہ دیا کہ میرا نکاح کسی سے کردو۔ مولانا نے فقہ کی کسی کتاب کا حوالہ بھی دیا تھا۔ میں نے کہا کہ اللہ نے ان خواتین کا بھی قرآن میں ذکر کیا ہے جن کوپکی عمر کی وجہ سے نکاح کی حاجت نہیں رہتی ہے۔ بہرحال ہوسکتا ہے کہ بوڑھیا اپنے بیٹے کے سرسے بوجھ ہٹاکر کسی دوسرے کے کاندھے پر ڈالنا چاہتی ہو اور مولوی نے سوچا ہو کہ الشیخ والشیخة اذا زنیا فرجموا ھما کی زد میںکہیں یہ بڑھیا اور کوئی بوڑھا نہ آجائے۔ اسلئے کہ جوانوں پر تو یہ حد نافذ ہونے سے رہی ہے اور نہ اسکے الفاظ یہ تقاضہ کرتے ہیں کہ جوانوں پر اسکا اطلاق ہوکیونکہ یہ اقتضاء النص بھی نہیں ہوسکتا ہے۔
جس معاشرے میں غلاموں اور لونڈیوں کے نکاح کی تعلیم ہو تو وہ معاشرہ سپر طاقت کیسے نہیں بنے گا؟۔ کوئی ملحد یہ بکواس کرسکتا ہے کہ دشمن کو دبانے کیلئے ابوجہل اور ابولہب کے مقابلے میں سیدنا بلال کا درجہ بڑھادیا گیا تھا ورنہ تو مسلمانوں کی حالت یہ تھی کہ مہاجر قریش صحابہ نے اولین سبقت لے جانے والے انصارکے سردار کو بھی خلافت کے قابل نہیں سمجھا تھا۔ رسول اللہۖ کے کفن دفن کو چھوڑ کر خلافت کے استحقاق پر لڑتے لڑتے رہ گئے تھے۔ پھر حضرت عثمان کی شہادت کا سانحہ بہت کم عرصہ میں پیش آیا۔ صحیح بخاری میں حضرت عثمان اور حضرت علی کے جھگڑے کا ذکر ہے ۔ حضرت عثمان نے کہا کہ حضرت عمر نے ایک ساتھ حج وعمرے کا احرام باندھنے پر پابندی لگائی ہے اور کہا ہے کہ میں کسی کو احرام اس نیت سے باندھنے نہیں دوں گا، نہیں دوں گا، نہیں دوں گا۔ حضرت علی نے اعلانیہ طور پر کہا کہ میں رسول اللہۖ کی سنت کے مطابق ایک ساتھ احرام کی نیت کرتا ہوں توکوئی مجھے روک کر دکھائے۔ حضرت عبداللہ بن عمر اور احناف نے بھی حضرت عمر کے اقدام کی مخالفت کی اور بنوامیہ کے ظالم گورنر ضحاک نے جب کہا کہ حج وعمرے کااکٹھا احرام باندھنا جہالت ہے تو حضرت سعد بن ابی وقاص نے فرمایا کہ ضحاک یہ بات مت کرو۔ میں نے نبیۖ کو خود اپنے مشاہدے سے ایک ساتھ حج وعمرے کا احرام باندھتے دیکھا ہے۔
جس قوم کی جہالت کا یہ حال ہو وہ ایک غلام کو کس طرح خلیفہ بناسکتے تھے؟۔ امریکہ نے بہت کم عرصہ ہوا ہے کہ کالوں کو گوروں کی طرح حقوق دیدئیے تو بارک حسین اوبامہ صدر اور مشعل اوبامہ خاتون اول بن گئی ؟۔ خلافت کو خاندانی لونڈی بنانے والے غلام کو کبھی بھی اپنا خلیفہ نہیں بناسکتے تھے۔ کہنے والوں کو بہت کچھ کہنے کا حق ہے لیکن جب اصل حقیقت سامنے آئے گی تو اسلام کی ایک ایک بات سے لوگ مطمئن ہوجائیں گے۔ رسول اللہۖ نے اپنے غلام حضرت زید ہی کو اپنا جانشین بنایا تھا۔ اگر وہ شہادت کی منزل کو نہ پہنچتے تو انہی کو خلیفہ نامزد کرنے پر دل وجان سے اتفاق ہوسکتا تھا جو نہ قریش تھے اور نہ انصارمیں سے تھے۔ رسول اللہۖ نے انہی کے بیٹے اُسامہ کو لشکر کا آخری سپہ سالار بھی مقرر فرمایا تھا۔ جن پر بعض صحابہ نے اعتراض کیا لیکن نبیۖ نے انکا اعتراض مسترد کردیا تھا۔ نبیۖ نے اپنی کزن حضرت زینب سے شادی بھی کرادی تھی لیکن جب اس شادی کی ناکامی میں جاہلانہ ماحول نے اپنا کردار ادا کیا تو نبیۖ نے اس طلاق شدہ کو بھی اللہ کے حکم سے شرف زوجیت بخش کر ام المؤمنین بنادیا تھا۔
جہاں تک ایک ساتھ احرام باندھنے کی بات ہے تو رسول اللہۖ نے رسم جاہلیت توڑنے کیلئے حج وعمرے کا ایک ساتھ احرام باندھا تھا تاکہ جنہوں نے عمرے کی کوئی نذر مانی ہو تو ان کیلئے اس سہولت سے فائدہ اُٹھانے کا موقع ملے۔ منہ بولے بیٹے کی طلاق شدہ بیوی سے شادی کا حکم بھی اللہ نے نبیۖ کو اسلئے دیا تاکہ مؤمنین کیلئے راستہ آسان ہوجائے۔ جس کی قرآن نے وضاحت کردی ہے۔ حضرت عمر نے ایک ساتھ احرام پر جو پابندی لگائی تھی تو حضرت عمر کے دشمن اس سے یہ تأثر پھیلانے کی کوشش میں کامیاب ہیں کہ اسلام کے احکام کی جگہ جہالت لائی جارہی تھی۔ حالانکہ حضرت عمر یہ فیصلہ نہ کرتے تو پھر جاہل سنت سمجھ کر بڑے پیمانے پر حج کی فضاء کو بدبودار پسینوں سے متعفن بناسکتے تھے۔
اسلام کے ہرے بھرے کھیت اور کھلیان کو نااہلوں ،فرقہ بازوں ، مسلک سازوں اور مفاد پرستوں نے کھائے ہوئے بھوس کی طرح روند اور کچل کر رکھ دیا ہے۔

NAWISHTA E DIWAR March Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

گلے کاٹنے والے دہشت گردوں سے بچیوں کا ریپ زیادہ بڑا فتنہ ہے!

پاکستان میں چھوٹی بچیوں کا ریپ کرکے قتل کرنیکا سلسلہ جاری ہے مگر ہم لسانیت، فرقہ واریت، جمہوریت، فوجیت، طالبیت اور اپنے مفاد کی جنگ لڑرہے ہیں۔ گلے کاٹنے والے دہشت گردوں سے بچیوں کا ریپ زیادہ بڑا فتنہ ہے!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

حضرت عائشہ پر بہتان سے بڑی اذیت اور آزمائش رسول اللہۖ کیلئے کوئی نہیں تھی لیکن اس سے جو سبق قرآن نے مسلمانوں کو سکھادیا تھا ،آج ہم تباہی کی کس سمت جارہے ہیں؟

اشرافیہ کے چھوڑے ہوئے کتے صحافی صبح سے بھونکتے ہوئے شام کردیتے ہیں اور شام سے بھونکتے ہوئے صبح کردیتے ہیںلیکن اُمت کی نجات کیلئے حقائق کو سامنے نہیں لاتے ۔

جب حضرت عائشہ پر بہتان لگادیا گیا تو آسمان کے فرشتے بھی اس غم کا بوجھ اُٹھانے کے بجائے معاشرے پر اجتماعی عذاب نازل کرنے کے حق میں ہونگے کہ ام المؤمنین پرہی اتنا بڑا بہتان لگانے سے گریز نہیں کیا گیالیکن اس سے اللہ تعالیٰ کیا سبق دینا چاہتا تھا؟۔
لولآ اذسمعتموہ ظن المؤمنون والمؤمنات بانفسھم خیرًا وقالوا ھٰذا افک مبینO
” کیوں ایسا نہ ہوا کہ جب اس (بہتان) کو سن لیتے تو مؤمنین ومؤمنات اپنے نفسوں کے بارے میں اچھا گمان رکھتے اور کہتے کہ یہ کھلی گھڑی ہوئی بات ہے؟”۔
یہ کمال کی آیت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ مسلمانوں نے حضرت ام المؤمنین کے بارے میں کیوں اچھا گمان نہیں رکھا؟۔ بلکہ یہ فرمایا کہ ”مسلمانوں اپنے نفسوں کے بارے میں اچھا گمان کیوں نہیں رکھا؟”۔ اس کلام میں بہت بڑا کمال یہ ہے کہ عربی کامقولہ ہے کہ المرء یقیس علی نفسہ”آدمی اپنے نفس پر دوسروں کو بھی قیاس کرتا ہے”۔ یعنی جیسا خود ہوتا ہے ،دوسروں کیلئے بھی ویسا ہی خوش گمان یا بدگمان ہوتا ہے۔ یہ حدیث بھی ہے کہ المؤمن مرئآة المؤمن ” ایک مؤمن دوسرے مؤمن کا آئینہ ہوتا ہے”۔اس آیت میں اماں حضرت عائشہ سے بدگمانی نہ کرنے کی بجائے اپنے بارے میں اچھا گمان رکھنے کی تلقین کی گئی ہے اور یہ واضح کیا گیا ہے کہ جنہوں نے اماں عائشہ سے بدگمانی رکھی تھی تو وہ دراصل اپنے نفسوں سے بدگمان تھے جس کا یہ نتیجہ نکلاکہ اللہ نے اس کو من گھڑت کہانی کہنے کیلئے حضرت عائشہ کے حوالے سے کھل کر بات کرنے کا اظہار نہ کرنے پر تنبیہ فرمائی۔
جن تین افراد پر حدقذف نافذ کی گئی تو وہ اس آیت کا نشانہ ہیں۔ ایک طرف حضرت عائشہ کے حوالے سے گھٹیا سوچ رکھنے کی بھرپور مذمت ہے تو دوسری طرف ایک عمدہ ترین سوچ کی دعوت اور عکاسی ہے۔ حضرت علی نے جب دیکھا کہ ایک کشمکش کا معاملہ ہے توپھر نبی ۖ کو مشورہ دیا کہ عورتیں کم تو نہیں ہیں، طلاق دے کر کسی اور سے نکاح کیا جاسکتا ہے اور سورۂ تحریم میں بھی جب حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ کے حوالے سے آیات اتریں تو اللہ نے فرمایا کہ ”اگر انہوں نے توبہ نہ کی توان سے بہتر خواتین بھی نبیۖ کے نکاح میں آسکتی ہیں”۔ حضرت عائشہ سے حضرت علی کی بے نیازی کا مقصد یہ ہرگز بھی نہیں تھا کہ حضرت علی نے ذرہ بھر بھی بدگمانی کی ہو۔ حضرت علی کے کاندھے پر خلافت کی ذمہ داری ڈال دی جاتی تو شاید حضرت عثمان کی شہادت کا سانحہ اور حضرت ابوبکر کا وہ اقدام جس سے اہل سنت کے چاروں ائمہ فقہ کا اتفاق نہیں تھا کہ مانعینِ زکوٰة کیخلاف قتال کیا جائے اور حضرت عمر کے کچھ اقدامات جن پر احناف کا بھی اختلاف ہے جیسے حج وعمرے کے احرام پر ایک ساتھ پابندی اور حضرت مغیرہ بن شعبہ کے خلاف گواہوں کو تائب ہونے کی شرط پر یہ پیشکش کہ پھر ان کی گواہی قبول کی جائے گی۔ اگر خلافت بنوامیہ وبنوعباس کی جگہ حضرت علی کے بعد حسن، حسین اور بارہ ائمہ اہل بیت کے پاس ہوتی تو بھی معاملہ زبردست ہوتا۔ اہل تشیع کو اپنے مؤقف پر بھرپور طریقے سے کھڑا ہونے کا حق کوئی نہیں چھین سکتا ہے۔
سیدابولاعلیٰ مودودی نے سورۂ النساء اور سورۂ نور میں رجم اور سو (100)کوڑے لگانے کا مؤقف بہتر طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے لیکن غلط مؤقف کو بہر حال درست قرار دینے کی کوشش ایک سعی لا حاصل ہوتی ہے۔ مولانا عبیداللہ سندھیاور مولانا مناظر احسن گیلانی کا مؤقف بہت زبردست اور درست تھا۔ اگر کسی عورت پر معاشرے میں چار گواہ مہر تصدیق ثبت کردیں تو اس کو آلودگی پھیلانے سے روکنے کیلئے اپنے گھر میں نظر بند کرنے سے اصل مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ پھر اس کی کسی سے شادی یا سزا کی صورت میں معاملہ بدل سکتا ہے۔ سورۂ النساء میں شادی شدہ لونڈی کیلئے آزاد عورت کے مقابلے میں آدھی سزا سے بالکل یہ ثابت ہوتا ہے کہ پوری سزا رجم نہیں بلکہ سو (100)کوڑے ہیں۔ ازوج مطہرات کیلئے دہری سزا سے مراد دوسو (200)کوڑے ہی ہوسکتے ہیں۔ ڈبل سنگساری یا آدھی سنگساری کا تصور نہیں ہوسکتا ہے۔ چار افراد کی گواہی سے مراد فقہ کی کتابوں میں موجود شرائط ہوں تو پھر شریعت کی وجہ سے نعوذ باللہ من ذالک بے حیائی پھیل سکتی ہے ، ختم نہیں ہوسکتی ہے۔
لولاجآء وا علیہ باربعة شہدآء فاذلم یأتوا بالشہدآء فاولٰئک عند اللہ ھم الکاذبونO
” وہ اس پر چار گواہ کیوں نہیں لائے؟۔ پس جب چار گواہ نہیں لائے تو وہی لوگ اللہ کے نزدیک جھوٹے ہیں”۔ معاشرے میں جو انسان بستے ہیں۔ وہ بہت بڑا پیمانہ رکھتے ہیں۔ صالح وبدکار کی شناخت معاشرے میں کوئی مشکل چیز نہیں۔ سید ابولاعلیٰ مودودی نے تفہیم القرآن میں تفصیل سے لکھ دیا ہے کہ رسول اللہۖ نے حضرت عائشہ سے متعلق مختلف لوگوں سے رائے طلب کی۔ تفتیش اور تحقیق کا حق ادا کردیا۔ جب کسی کے حوالے سے بات اُٹھتی ہے تو پھر معاشرے میں اس کیلئے چار گواہوں کا ملنا اس وقت زیادہ مشکل نہیں ہوتا ہے کہ جب وہ بدفعلی کی انتہائی حرکت تک پہنچ جائے۔ ہر فرد کے حوالے سے معاشرے میں ایک اچھی یا بری رائے بنتی ہے۔ یہ نہیں کہ مولانا صاحب رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہیں مگر موقع پر تین گواہ تھے ، چوتھا گواہ اچھی طرح سے گواہی دینے میں تھوڑا مختلف انداز سے اپنی بات کررہاتھا۔ بس یہ لوگ جھوٹے ہیں اور ان پر بہتان کے کوڑے برساؤ اور جس کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیا گیا ،جس پر مختلف اوقات میں ایک ایک ، دودو گواہوں کا پہلے سے بھی سلسلہ جاری تھا۔ اگرمولوی صاحب کی اس خود ساختہ شریعت کی بنیاد پر کسی بھی فرد کو پاکدامن قرار دیا جائے تودنیا میں اس پر کوئی یقین نہیں کریگا۔ اسلام نے اجنبیت کی طرف اسلئے بہت بڑا سفر کیا ہے کہ ہرچیزبالکل ہی اُلٹ کرکے رکھ دی گئی ہے۔
جب حضرت اماں عائشہکے خلاف بہتان کا بہت بڑا طوفان کھڑا تھا اور مسلمانوں کی اجتماعیت نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے ہوکر اماں عائشہ کے دفاع کا حق ادا نہیں کیا تو اللہ تعالیٰ نے بہت واضح پیغام دیا کہ ولولا فضل اللہ علیکم ورحمتہ فی الدنیا ولاٰخرة لمسکم فی ما افضتم فیہ عذاب عظیمO
”اگر اللہ کا فضل تم پر نہ ہوتا اور اس کی رحمت شاملِ حال نہ ہوتی تو دنیا اور آخرت میں تمہیں عذاب عظیم میں مبتلاء کردیتا جس چیز میں تم بہت بڑھ گئے”۔ بدر کے قیدیوں پر فدیہ لینے کے مسئلہ سے یہ بہت بڑا معاملہ تھا۔ وہاں اللہ تعالیٰ نے اس عذاب کا نقشہ بھی دکھادیا تھا لیکن یہاں اس سے کہیں بڑھ کر معاملہ تھا۔ حساس دل رکھنے والے اس کو سمجھ رہے تھے لیکن غفلت کے شکار لاپرواہی کے مرتکب ہورہے تھے۔ اللہ نے فرمایا: اذ تلقونہ بالسنتکم وتقولون بافواھکم ما لیس لکم بہ علم وتحسبونہ ھےّنًا وھو عنداللہ عظیمO
”جب تم اس کی اپنی زبانوں سے تلقین کرتے اور اپنے منہ سے کہتے تھے جس کا تمہیں علم نہیں تھا۔ اور تم اسے بہت ہلکا سمجھ رہے تھے اور اللہ کے نزدیک بہت بڑی بات تھی”۔
ہماری ریاست کے کتے جس طرح سوشل میڈیا پر لوگوں کی عزتوں کو اُچھالنے میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں ۔ فیک تصویریں اور من گھڑت قصے کہانیاں سناتے ہیں۔ ان کو خدا کا کوئی خوف نہیں ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین بھی ایک دوسرے کے خلاف اس فعل میں ملوث رہے ہیں۔ عورت کی عزت اچھالنا ایک محبوب مشغلہ بن گیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں اسلئے طرح طرح کے عذاب نازل ہورہے ہیں۔ اگر اللہ کی رحمت اور اس کا فضل نہ ہوتا تو تم کب کے غرق ہوچکے ہوتے۔ اللہ نے قرآن کو آئندہ نسلوں کیلئے قیامت تک بہترین سبق بناکر بھیجا ہے۔ اللہ نے فرمایا: ولولا اذ سمعتموہ قلتم ما یکون لنآ ان نتکلم بھٰذا سبحانک ہٰذا بہتان عظیمOیعظکم اللہ ان تعودوا لمثلہ ابدًا ان کنتم مؤمنینOویبین اللہ لکم الاٰےٰت واللہ علیم حکیمO
”کیوں نہیں ایسا ہوا کہ جب تم نے اس کو سن لیا تو کہہ دیتے کہ ہمارے لئے حق نہیں ہے کہ اس پر بات کریں۔ پاکی تیرے لئے ہے یہ بہت بڑابہتان ہے۔اللہ تمہیں وعظ کرتا ہے کہ پھر اس طرح کے کسی بہتان میں ملوث ہوجاؤ،اگر تم مؤمن ہو تو۔ اور اللہ تمہارے لئے اپنی آیات کو کھول کربیان کرتا ہے اوراللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔ (سورۂ نور12تا18)
کسی بھی ماحول اور کسی بھی معاشرے میں مسلمانوں کیلئے کسی عورت پر بہتان کا مسئلہ انتہائی خطرناک ہے۔ جس کی ماں ، بیٹی، بہن اور بیگم پر بہتان لگایا جائے۔تو اس کی حالت کیا ہوگی؟۔ قرآن میں اس واقعہ افک سے کتنے اسباق ملتے ہیں۔ منفی سوچ اس کے اپنے نفس پر کیا اثرات مرتب کرتی ہے۔ کن لوگوں کی سوچ منفی ہوتی ہے۔ منفی سوچ سے معاشرہ کس قدر متأثر ہوتا ہے ؟ اور اللہ نے منفی سوچ سے بچانے کیلئے رسول اللہۖ، اماں عائشہ ، حضرت ابوبکر وحضرت ام رمان اور سب کو کتنی زبردست مصیبت اور آزمائش میں ڈالا؟۔
کسی بھی پاکدامن عورت کیلئے بہتان بہت بڑا جرم ہے ؟۔ لیکن جب ہمارے معاشرے میں بچیوں کیساتھ پیش آنے والے واقعات کی روک تھام کیلئے بھی ہمارے پاس صلاحیت نہیں ہے۔ پوری دنیا میں بھی جبری جنسی زیادتی کے خلاف8مارچ یوم خواتین منایا جاتا ہے اور اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مغرب سے یہ مارچ شروع ہوا تھا جہاں جنسی آزادی کیلئے عورتوں کو مارچ کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے یہاں ایک پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ8مارچ کا دن خواتین جنسی آزادی کیلئے مناتی ہیں۔ حالانکہ پاکستان میں ترقی یافتہ ممالک سے بہت زیادہ نہ صرف بچیوں کیساتھ جبری جنسی تشدد ہوتا ہے بلکہ بے دردی کیساتھ ان کو قتل بھی کردیا جاتا ہے۔ اشرافیہ پر ان واقعات کا کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ وہ اپنے دھندوں کے کام سے کام رکھتے ہیں۔ ان کو اپنے مورال اور سیاست کی فکر ہوتی ہے۔ وہ عقیدے اور نظریاتی لڑائی کے لوگوں سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ یہ نہیں دیکھتے کہ اتنے بڑے مظالم کیخلاف ہمارے یہاں معاشرتی سطح سے لیکر ریاستی سطح تک کچھ بھی نہیں ہورہاہے۔
جس اسلام میں نظروں تک کی حفاظت کا حکم ہے،اس کے ہوتے ہوئے جبری جنسی تشدد کا سنگین جرم بہت تباہ کن ہے۔ بعض کم بخت انسان نظروں کی حفاظت نہ کرنے کے عمل کو جبری جنسی تشدد کو جواز فراہم کرنے کیلئے پیش کرتے ہیں۔ حالانکہ جب نظروں تک کی حفاظت کا حکم ہے تو جبری جنسی تشدد کے جرم کی سنگینی بہت بڑھ جاتی ہے۔ افسوس یہ ہے کہ نام نہاد شیخ الاسلام اور مفتی اعظم نے ریاست کے تنخواہ دار کی حیثیت سے ہمیشہ اسلام کا بیڑہ اپنی غلط تشریح سے غرق کیا ہے۔ آج خود ساختہ طور پر اس جرم کے مرتکب ہیں۔
قل للمؤمنین یغضوا من ابصارھم ویحفظوا فروجھم ذٰلک ازکٰی لھم ان اللہ خبیر بما یصنعونOوقل للمؤمنٰت یغضن من ابصارھن ویحفظن فروجھن ولایبدین زینتھن الا ماظھر منھا ولیضربن بخمرھن علی جیوبھن ولا یبدین زینتھن الا لبعولتہن او اٰبآئھن … وتوبوا الی اللہ جمیعًا ایہ المؤمنون لعکم تفلحونO
” کہہ دیجئے مؤمنوں سے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔یہ ان کیلئے زیادہ پاکیزگی ہے۔ بیشک اللہ جانتا ہے کہ وہ جو کار کردگی کرتے ہیں۔ اور مؤمنات سے کہہ دیجئے کہ اپنی نظریں نیچی رکھیںاور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ اوراپنی زینت کو مت دکھائیں الا یہ کہ جو ازخود اس میں سے ظاہر ہوجائے۔ اور اپنے دوپٹوں کو اپنے سینوں پر لپیٹ لیں۔ اور اپنی زینت کو نہ دکھائیں مگر اپنے شوہروں کو یا اپنے باپوں کو یا اپنے سسر کو یا اپنے بیٹوں کو یا اپنے شوہروں کے بیٹوں کو یااپنے بھائیوں کو یا اپنے بھتیجوں کو یا اپنے بھانجوں کو یااپنی عورتوں کو یا اپنے غلاموں کویا جو مرد تابع ہوں جو عورتوں سے رغبت نہیں رکھتے۔ یا بچہ جو عورتوں کے پوشیدہ رازوں کی خبر نہ رکھتے ہوں۔اور اپنے پاؤں سے ایسی چال نہ چلیں کہ ان کی پوشیدہ زنیت ظاہر ہوجائے۔ اور اللہ کی طرف سے سب توبہ کرو،اے مؤمنو! شاید کہ تم فلاح پاجاؤ”۔
عورتوں کی زینت سے مراد ”حسن النساء ” ہے جس پر دوپٹہ لپیٹنے کا حکم ہے ۔ گھر میں دوپٹہ لینے کا حکم بھی اپنے محرم اور تعلق رکھنے والے لوگوں سے نہیں۔ روایتی پردے اور شرعی پردے میں جس طرح کا توازن ہے وہ معاشرے میں اعتدال قائم کرتا ہے۔ جب ایک طرف اغیار کے سامنے بھی دوپٹے کا تکلف نہ ہو اور دوسری طرف گھروں میں بھی بڑا تکلف ہو تو پھر معاشرہ اعتدال کی جگہ پر افراط وتفریط کا شکار ہوجاتا ہے۔

NAWISHTA E DIWAR March Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

حضرت عائشہ کے خلاف بہتان میں کون لوگ ملوث تھے؟۔

حضرت عائشہ کے خلاف بہتان میں کون لوگ ملوث تھے؟۔ قرآن کی آیت میں تفاسیر کی وضاحت سے لوگوں کا قبلہ بالکل درست ہوجائیگا۔ شیعہ سنی فسادات کے بجائے علمی انداز میں پارلیمنٹ کے فلور پر مسائل حل کرینگے۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

بیشک جنہوں نے بہتان گھڑا،وہ تم میں سے گروہ ہے ، اس کو اپنے لئے شرنہ سمجھو بلکہ وہ تمہارے لئے خیر ہے، ہر ایک نے اپنا گناہ کمایااور جس نے بڑا حصہ اُٹھایا اس کیلئے بڑا عذاب ہے۔

بخاری، طبرانی اور بیہقی میں ہشام بن عبدالملک اُموی کا یہ قول منقول ہے کہ الذی تولّٰی کبرہ کے مصدق علی ابن ابی طالب ہیں( تفہیم القرآن ، جلد سوم :سیدا بوالاعلیٰ مودودی)

سورۂ نور میں اللہ نے فرمایا: ان الذین جآء و ا بالافکِ عصبة منکم لاتحسبوہ شرًالکم بل ھو خیرلکم لکل امریٔ منھم ما اکتسب من الاثم و الذی تولّٰی کبرہ منھم لہ عذاب عظیمO
” اور جو بہتان گھڑ لائے ہیں وہ تمہارے اندر ہی کا ایک ٹولہ ہے۔ اس واقعہ کو اپنے لئے شر مت سمجھو بلکہ اس میں تمہارے لئے خیر ہے۔ ہر آدمی نے اس گروہ میں سے اپنے حصے کا گناہ کمالیا ہے۔ اور جو اس کاروائی کا سرغنہ تھا اس کیلئے بہت بڑا عذاب ہے”۔
بریلوی مکتبۂ فکر کے علامہ غلام رسول سعیدی نے لکھا ہے کہ ” اصل کردار مسلمانوں کا تھا اور رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی نے صرف بہتان کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا”۔ بہتان لگانے والے حضرتوں کو اسّی اسّی (80،80)کوڑوں کی سزا بھی دی گئی تھی۔ جن منافقوںکا اس واقعہ میں اہم کردار تھا نبیۖ نے ان کو سزا نہیں دی لیکن جن مؤمنوں نے یہ کردار ادا کیا تھا ،ان پر حدِ قذف کے کوڑے برسائے گئے۔ مولانا مودودی اور علامہ سعیدی کی تفاسیر میں تفصیلات سے زبردست نتائج اخذ کرکے ہم اپنے موجودہ معاشرتی نظام کو بدل سکتے ہیں۔ ہم کافروں اور منافقوں پر سزاؤں کے نفاذ اور اپنوں پر نرمی برتتے ہیں۔
حضرت ابوایوب انصاری سے جب آپ کی بیوی نے ان افواہوں کا تذکرہ کیا تو پھر اس نے بیوی سے پوچھ لیا کہ ”اگر آپ حضرت عائشہ کی جگہ ہوتیں تو اس جرم کا ارتکاب کرتیں؟۔ اس نے کہا کہ خدا کی قسم ہرگز اس کا ارتکاب نہ کرتی۔ حضرت ابوایوب نے کہا : توحضرت عائشہ بدرجہا آپ سے بہتر ہیں۔ اگر میں صفوان کی جگہ پر ہوتا تو میں ہرگز یہ حرکت نہیں کرسکتا تھا، صفوان مجھ سے بہتر مسلمان ہیں۔ بہتان میں ازواج مطہرات نے کوئی حصہ نہیں لیا۔ حضرت زینب کی سگی بہن حمنہ بنت جحش محض ان کی خاطر ان کی سوکن کو بدنام کررہی تھیںمگر خود انہوں نے سوکن کے حق میں کلمہ خیر کہہ دیا۔ حضرت عائشہ کی اپنی روایت ہے کہ ازواجِ رسول اللہ میں سب سے زیادہ زینب سے ہی میرا مقابلہ رہتا تھا مگر واقعہ افک کے سلسلے میں جب رسول اللہ ۖ نے ان سے پوچھا کہ عائشہ کے متعلق تم کیا جانتی ہو؟۔ انہوں نے کہا کہ خدا کی قسم ! میں اس کے اندر بھلائی کے سوا کچھ نہیں جانتی ہوں۔ حضرت عائشہ کی اپنی شرافتِ نفس کا حال یہ تھا کہ حضرت حسان بن ثابت نے آپ کو بدنام کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا مگر وہ اس سے ہمیشہ عزت وتواضع سے پیش آتی رہیں۔ لوگوں نے یاد دلایا کہ یہ وہ شخص ہیں جس نے آپ کو بدنام کیا تھا۔ تو یہ جواب دیکر ان کا منہ بند کردیا کہ یہ وہ شخص ہے جو دشمنان اسلام شعراء کو رسول اللہۖ اور اسلام کی طرف سے منہ توڑ جواب دیا کرتا تھا۔
حضرت ابوبکر نے اپنے رشتہ دار حضرت مسطح کے سارے گھرکی کفالت لے رکھی تھی اور حضرت حسان ، حمنہ بنت جیش اور حضرت مسطح پر حدقذف لگائی گئی تھی۔ حضرت ابوبکر نے عہد کیا کہ آئندہ میں ان کی مالی مدد نہیں کروں گا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ مالدارمؤمنوں کیلئے مناسب نہیں کہ ضرورت رکھنے والے مؤمنوں کی مدد سے دست کش ہوجائیں۔ پھر حضرت ابوبکر نے مدد بھی بحال کردی۔ ایلاء بھی یمین یعنی عہدوپیمان ہے اور یہ حلف نہیں ہے اسلئے حضرت ابوبکر نے اس کو توڑنے کا کفارہ بھی ادا نہیں کیا تھا۔
عربی میں لاتعلقی کے معاہدے کو ایلاء کہتے ہیں۔ ایلاء وہ یمین ہے جس میں حلف نہیں اٹھایا جاتا ہے۔ سورۂ مائدہ میں یہ واضح ہے کہ یمین پر کفارہ اس وقت ضروری ہے کہ جب حلف اٹھایا جائے۔ سورۂ بقرہ اور سورۂ نور میں ایلاء سے مراد حلف نہیں ہے۔ مولانا مودودی نے بھی فقہ واصولِ فقہ کی کتابوں میں علماء کی وجہ سے مغالطے سے نقل کردیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سورۂ کی آیت میں ایک طرف بہتان طرازی میں ملوث گروہ کی بھرپور وضاحت کردی کہ یہ تم میں سے ایک گروہ ہے۔ ہر ایک نے حصہ بقدر جثہ نہیں بلکہ گناہ بقدر حصہ اس میں کمالیا ہے۔ پھر اس شخص کا ذکر کیا ہے کہ جس نے افواہ سازی میں اپنا بڑا کردار ادا کیا تھا۔ وہ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی تھا ،اس کیلئے آخرت کے حوالے سے عذاب عظیم کا ذکر ہے۔ صحابہ کرام اگر زنا میں ملوث ہوتے تب بھی اپنے اوپر حد نافذ کرواتے اور بہتان طرازی میں حصہ لیتے تب بھی اپنی سزا دنیا میں بھگت لیتے تھے۔
پاکستان کی حکومت و ریاست ایک عظیم الشان اسلامی کانفرنس کا انعقاد کرکے دنیا بھر سے علماء ومفتیان اور اسلامی اسکالروں کو طلب کرے تو بہت سارے مسائل کا حل نکل سکتا ہے۔ بخاری میں ہے کہ سورۂ نور کی آیات نازل ہونے کے بعد کسی پر سنگساری کی سزا کا مجھے یاد نہیں ہے کہ کسی پر نافذ کی گئی ہو۔ رسول اللہۖ نے پہلے کافر ومسلم اور مردو عورت پر یکساں سنگساری کا حکم نافذ کیا تھا لیکن سورۂ نور میں اتنی بڑی وضاحت کے بعد سنگساری کا حکم کیسے نافذ کیا جاسکتا تھا؟۔ ایک ایک واقعہ کو سینکڑوں دفعہ نقل کرنے سے واقعات کی تعداد نہیں بڑھ سکتی ہے۔ المیہ یہی رہاہے کہ ایک واقعہ مختلف انداز اور الفاظ میں نقل کرکے اصل واقعے پر پردہ ڈال دیا گیا ہے۔ امام شافعی، امام مالک اور امام احمد بن حنبل کا مسلک یہ ہے کہ مرد جب تک چار مرتبہ اپنی ذات پر زنا کی گواہی نہیں دے گا تو اس پر حد نافذ نہیں ہوگی لیکن عورت ایک مرتبہ بھی گواہی دے گی تو اس پرحدنافذ کردی جائے گی اور اس کی وجہ ان مسالک کا روایت پرست ہونا ہے جبکہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک ایک واقعہ کی تفصیل تمام روایات کو مدنظر رکھ کر مسئلہ استنباط کیا جاسکتا ہے۔ مختلف روایات میں واقعہ کی تفصیلات سے پتہ چلتا ہے کہ نبیۖ نے عورت کو بار بار لوٹانے اور مختلف مدتوں میں اپنے اوپر اقرار جرم کے بعد آخر کار حد نافذ کرنے کا حکم دیا تھا۔ اگر حقائق کی طرف درست توجہ کی گئی تو عالم اسلام اور دنیا میں اسلامی نظام قابلِ قبول بلکہ ضروری قرار دیا جائے گا۔
قرآن وسنت میں زنابالجبر کی سزا قتل اور سنگساری ہے۔ اگر دنیا میں اس پر عمل ہوا تو پھر دنیا بھر سے جبری جنسی زیادتیوں اور قتل کے واقعات کا قلع قمع ہوسکے گا۔ زنا کی گواہی اور پاکدامن عورت پر بہتان لگانے کی گواہی میں بہت واضح فرق ہے۔ اگر پاکدامن پر کسی نے بہتان لگایا تو معاشرے میں ان کو سپورٹ نہیں مل سکتی ہے اور اگربدکار کیخلاف چار افراد نے گواہی دی تو معاشرے میں کافی لوگ اس کے خلاف کھڑے ہوجائیں گے۔ جب حضرت عائشہ پر بہتان لگا تو ایک ماہ تک وحی نازل نہیں ہوئی۔ حضرت یعقوب سے حضرت یوسف کے فراق کی آزمائش اور پھر آپ پر بہتان لگاکر قیدخانے کی سزا کو بہت عرصہ گزر گیا۔ انبیاء کرام اور اچھے لوگوں کی آزمائشیں معاشرے کیلئے بہترین نمونہ بنتی ہیں اورپھر عرصہ تک لوگ ان سے رہنمائی حاصل کرکے اپنی اصلاح کرتے ہیں۔
جب حضرت عائشہ پر بہتان لگا تو لوگوں نے اپنی اپنی بات کی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایسے موقع پر مؤمنوں اور مؤمنات کیلئے مناسب ہوتا کہ اگر وہ یہ کہتے کہ یہ بہتان عظیم ہے۔ قرآن نے معاشرے کی تعلیم وتربیت کیلئے نبیۖ اور حضرت عائشہ اور آپ کے والدین حضرت ابوبکر اور حضرت ام رمان کو اتنی بڑی آزمائش میں ڈال دیا۔ نبیۖ نے پھر پوچھ لیا کہ آپ کیا کہتی ہیں؟۔ اگر کوئی جرم نہیں کیا ہے تب بھی بتادیں اور جرم کیا ہے تو اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لیں۔ حضرت عائشہ نے یہ سن کر اپنے والدین کی طرف دیکھ لیا کہ وہ جواب دیں۔ لیکن انہوں نے بھی خاموشی اختیار کرلی تو حضرت عائشہ نے عرض کیا کہ اگر میں جھوٹ بول کر کہوں گی کہ میں نے جرم کیا ہے تو لوگ اس پر یقین کرلیںگے اور سچ بولوں گی کہ میں نے کوئی جرم نہیں کیا ہے تو میری بات کا یقین نہیں کیا جائے گا۔
اس دوران وحی نازل ہونا شروع ہوئی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے سورۂ نور میں آپ کے برأت کی بھرپور آیات نازل کیں۔ جس پر والدین نے حضرت عائشہ سے کہا کہ رسول اللہۖ کا شکریہ ادا کرلو۔ حضرت عائشہ نے جواب دیا کہ میں نہ تمہارا شکریہ ادا کروں گی اور نہ رسول اللہ ۖ کا بلکہ صرف اللہ کا شکر ادا کروں گی۔ کیونکہ صرف اللہ نے میرا ساتھ دیا۔یہ توقع مجھے اللہ سے تھی کہ کسی طرح نبیۖ کو مطلع کرد یگا کہ میں بے قصور ہوں لیکن خود کو اس قابل نہیں سمجھ رہی تھی کہ اللہ تعالیٰ میرے بارے میں ایسی وحی نازل کردیگا ۔
جب اللہ تعالیٰ نے قرآن میں رسول اللہ ۖ کی عزت وتوقیر کرنے کا مؤمنوں کو حکم دیا ہے تو یہ کیسے ممکن تھا کہ اللہ وحی میں اس طرح کی آزمائش کے بعد توقیر نہ کرتے؟۔اہل تشیع کے علامہ سید شہنشاہ حسین نقوی نے کہا کہ جب حضرت عائشہ نے حضرت علی سے جنگ کی تو شکست کے بعد حضرت علی نے نقاب پوشوں کا ایک بڑا لشکر ساتھ روانہ کیا تھا۔ (حضرت عائشہ کے بھائی حضرت محمد بن ابی بکر ساتھ تھے) حضرت عائشہ نے اعتراض کیا کہ مجھے اتنے مردوں کے لشکر میں بھیج دیا۔ یہ میری عزت وتوقیر کے خلاف تھا۔ پھر اس لشکر کو حکم دیا گیا کہ اپنے نقاب اٹھالوں۔ جب نقاب اٹھائے تو وہ سب خواتین تھیں۔
شیعہ سنی اختلافات کو بھڑکانے کے بجائے افہام وتفہیم کی طرف لیجانے کی کوشش ہی دونوں کیلئے فائدہ مند ہے۔ حضرت شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی نے بارہ ائمہ اہل بیت کے بارے میں جو کچھ اپنے مکتوبات میں لکھ دیا ہے اس سے زیادہ کے اہل تشیع بھی قائل نہیں ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ نے بھی اہل ولایت کے لئے بارہ ائمہ اہل بیت کو اصل اور تصوف کے سلسلوں کو ان کی فروعات قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے بھی یہی باتیں لکھ دی ہیں۔ اب ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اہل تشیع اپنے ائمہ کو خلفاء راشدین کے مقابلے میں معصوم عن الخطاء سمجھتے ہیں اور انبیاء کرام سے بھی اونچا مقام دیتے ہیں؟۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ولایت کا مقام واقعی ایسا ہی ہے جو معصومیت کا تقاضہ کرتا ہے ۔ حنفی مسلک میں یہ مشہور مسئلہ ہے کہ ایک بات میں سو احتمال ہوں اور ان میں ننانوے(99)احتمال کفر اور ایک احتمال اسلام کا ہو تو اس پر کفر کا فتویٰ نہیں لگایا جائیگا۔ سنی لکھتے ہیں کہ” حضرت علی نے نبیۖ کو مشورہ دیا کہ جب حضرت عائشہ پر بہتان لگا ہے تو طلاق دیدیں”۔ حضرت عمر نے کہا کہ” اللہ کے حکم سے نکاح کیا تھاتو برائی کا امکان نہیں ہوسکتا،وحی کا انتظار کریں”۔
حضرت عمر کی رائے کے مطابق وحی نازل ہوئی جبکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت علی کی اس رائے کو رد کرتے ہوئے واضح فرمایا کہ مؤمنوں نے یہ کیوں نہ کہا کہ یہ بہتان عظیم ہے۔
سنی علماء ومفتیان اور عوام کی رائے یہ ہے کہ منشاء خداوندی کا ادراک جس طرح سے حضرت عمر کو متعدد مواقع پر ہوا تھا ۔ جس میں حضرت عائشہ کی عصمت کے علاوہ بدر کے قیدیوں پر فدیہ نہ لینے کا مشورہ بھی شامل تھا تو کس طرح حضرت علی کیلئے معصومیت کا عقیدہ اس طرح سے درست ہوسکتا ہے کہ انبیاء کرام کیلئے اللہ نے فرمایا ہے کہ ماکان لنبی ان یکون لہ اسریٰ حتی یثخن فی الارض ”نبی کیلئے مناسب نہیں کہ جب آپ کے پاس قیدی ہوں ، یہاں تک کہ زمین پر ان کا اچھی طرح خون بہادے”۔ جب حضرت موسیٰ نے غلطی سے ایک شخص کو قتل کیا ۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو معجزات سے نواز دیا تھا،تب بھی حضرت موسیٰ خوف کھارہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا : رسولوں میں سے کوئی ایسا نہیں گزرا ہے جو معجزات کے باجود خوف کھارہاہو مگر جس نے ظلم کیا۔ آیت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف ظلم کی نسبت کی گئی ۔ اب اگر کوئی یہ منطق بھی بنالے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ” اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا ہے”۔ حضرت آدم ، حضرت یونس اور حضرت موسیٰ کی طرف ظلم کی نسبت قرآن نے کی ہے تو ہدایت کیسے ملی؟۔
اہل تشیع کو چاہیے کہ صحابہ کرام کے بارے میں الٹی سیدھی منطق سے اپنی عوام کے ذہنوں کو نہ بھریں۔ اگر حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کے بارے میں دو فرقے ہوتے تو پھر بات سر اور داڑھی کے بالوں سے پکڑنے تک محدود رکھنے کے بجائے نعوذ باللہ کپڑے اتارنے کی حد تک بھی پہنچادیتے۔ اللہ نے حضرت عائشہ کی برأت اس وقت کر دی جب وحی نازل ہونے کا سلسلہ جاری تھا ورنہ معاندین کہاں تک بات پہنچادیتے؟۔
تاہم اگراہل تشیع اپنے ائمہ کو پیغمبروں سے بڑھ کر بھی معصوم سمجھتے ہیں تو اس میں پھر بھی اسلام کا احتمال اسلئے موجود ہے کہ حضرت موسیٰ نے غلطی سے قتل کردیا تو معافی مانگنے کی ضرورت پڑ گئی ۔ حالانکہ قتل خطاء بڑا گناہ نہیں ہے اور حضرت خضر علیہ السلام نے جب معصوم بچے کو جان بوجھ کر بھی قتل کیا تو آپ کی معصومیت پر کوئی اثر نہیں پڑا تھا۔ ہمارے نزدیک وہ پیغمبر نہیں بلکہ ولی ہیں اور ان کا علم اور تجربہ حضرت موسیٰ سے زیادہ بھی تھا۔
اگرچہ ڈھیر سارے اولیاء کرام کے قصوں میں حضرت خضر کی داستان ملتی ہے ۔ قرآن میں انکے قتل عمد کو بھی معصومیت بلکہ فرض قرار دیا گیا ہے تو اہل تشیع کے امام زمانہ پر یقین رکھنا بھی کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ ہاں اہل سنت کے نزدیک امام ہر دور میں نہیں ہوتا ہے۔ پیغمبروں کے درمیان بھی فترت کا زمانہ ہوتا ہے۔ اگر امام حضرت خضر کی طرح ہی غائب رہے۔ بچے کے قتل کیلئے حاضر ہو اور بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل سے اور عورتوں کو عزت دری سے بچانے کیلئے حضرت موسیٰ کی بعثت ہو تو فی الحال دنیا کو حضرت خضر کے کردار کی نہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کردار کی ضرورت ہے جس سے غلطی کی بنیاد پر کوئی قبطی قتل بھی ہوجائے تو کم ازکم بنی اسرائیل کی نجات کا ذریعہ بن جائے۔
کوئی بات ناگوار لگی ہو تو معذرت چاہتا ہوں ۔ مقصد شعور کی فضاء کو عام کرنا ہے اور جب تک کوئی اچھے دن نہیں آئیں اس وقت تک اپنی کوشش جاری رہے گی ۔ انشاء اللہ

NAWISHTA E DIWAR March Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

شیعہ سنی اتحاد سے ایران، سعودیہ، عراق ، شام ،ترکی عرب وعجم کاپاکستان امام بن جائیگا.

شیعہ سنی اتحاد سے ایران، سعودیہ، عراق ، شام ،ترکی عرب وعجم کاپاکستان امام بن جائیگا ،عالم اسلا م ہی نہیںدنیا کا بھی پاکستان نے امام بننا ہے۔پاکستان لیلة القدر کی رات کو اسلام کی نشاة ثانیہ کا خواب دیکھنے کیلئے وجود میں آیا

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

علامہ سید جواد نقوی نے کہا کہ شیعہ ذاکر نے کہا: میں قرآن سے علم کا جلوس اور اسکاراستہ تک ثابت کرتا ہوں۔ الم نشرح لک صدرک۔ علم کا جلوس نشترپارک سے صدر تک !

شیعہ سنی تفاسیر میں جو جو بیانات مرتب ہورہے ہیں، عوام ان کی نکتہ دانیوں میں الجھ کر رہ جاتی ہے لیکن جو آیات محکمات ان کو بھی متشابہات کے درجے تک پہنچاکر ناقابل عمل بنایاہے!

سورۂ نور میں جتنی تاکیدات سے اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ سورة انزلنٰھاو فرضنٰھا و انزلنافیھا آےٰتٍ بینٰتٍ لعکم تذکرونOالزانیة والزانی فاجلدوا کل واحد منھما مائة جلدة ولاتأخذ کم بھما رأفة فی دین اللہ ان کنتم تؤمنون باللہ والیوم الاٰخر ولیشھد عذابھما طائفة من المؤمنینOالزانی لاینکح الا زانیة او مشرکة والزانےة لاینکحھا الا زانٍ او مشرک و حرم ذٰلک علی المؤمنینOوالذین یرمون المحصنٰت ثم لم یأتوا باربعة شہدآء فاجلدوھم ثمٰنین جلدةً ولاتقبلوا لھم شھادةً ابدًا واولئک ھم الفٰسقون
ترجمہ ” یہ ایک سورت ہے ،اس کو ہم نے نازل کیا ہے اور اسے ہم نے فرض کیا ہے اورہم نے اس میں نازل کی ہیں بالکل واضح آیات شایدکہ تم سبق لے لو۔زانی عورت اور زانی مرد میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور تمہارے دلوں میں ان دونوں کیلئے نرمی نہ ہو ،اللہ کے دین کے معاملے میں۔ اگر تم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو۔اور ان دونوں کے عذاب(سزا) پر مؤمنوں کا ایک گروہ موجود رہے۔ زانی مرد نکاح نہیں کرے مگر زانیہ عورت یا مشرکہ سے اور زانیہ عورت نکاح نہ کرے مگر زانی مرد یا مشرک سے اور یہ مؤمنوں پر حرام کیا گیا ہے۔ اور جو لوگ بیگمات پر تہمت لگاتے ہیں اور پھر چار گواہ نہیں لاتے تو ان کواسی (80)کوڑے مارو اور ان کی گواہی کبھی قبول مت کرو اور یہی لوگ فاسق ہیں”۔
مسلمان معاشرے میں بڑی مدت سے یہ تأثر جم گیا ہے کہ عورت کنواری ہو یا شادی شدہ لیکن جب اس سے بدکاری کا ارتکاب ہوتا ہے تو اس کو جان سے ماردیا جاتا ہے لیکن مردوں کیلئے زنا کار ہونے پر کوئی اخلاقی اور قانونی جرم کی سزا کا کوئی تصور نہیں ہے ۔اسلئے مسلمان معاشرے میں عورتوں کی اکثریت محفوظ اور مردوں کی خطاء کار ہے۔ اگر قرآن کی واضح آیات کے مطابق دونوں کو ایک ہی طرح کی سزاسو (100)کوڑے لگائے جائیں تو اس سے معاشرے میں ایک بہت ہی پاکیزہ ، زبردست اور بہترین فضاء بنے گی۔
سید ابولاعلیٰ مودودی نے اپنی تفسیر تفہیم القرآن میں پہلے زنا سے متعلق یہود ونصاریٰ اور دوسری اقوام کے حوالے سے ایک طویل مضمون پیش کیا ہے۔ پھر اسلام کے حوالے سے بھی فقہی معاملات کا کم وبیش وہی مضمون پیش کیا ہے۔ گویا امت مسلمہ بھی اپنی سابقہ امتوں کے عین مطابق انکے نقش قدم پر اسی طرح اللہ کے دین کے بارے میں گامزن ہے۔
جب معاشرے میں مردوں کا حال بہت خراب ہوگا اور شادی شدہ عورتیں مقید ہوں تو یہ اسلامی معاشرہ کیسے کہلاسکتاہے؟۔ قربان میری گلیوں کے اے وطن کہ خشیت مقید ہیں جہاں سگ آزاد۔ عورت کو سزا مل جاتی ہے لیکن مرد کھلے عام قانون سے بالاتر ہیں۔
جب عورتوں اور مردوں پر اللہ کی بالکل واضح آیت کے مطابق زنا کرنے پر نہ صرف سرعام سو (100)کوڑے برسائے جائیں بلکہ انکا آپس میں نکاح بھی کردیا جائے یا پھر پڑوس کے ملک ہندوستان میں کسی مشرک یا مشرکہ سے نکاح کرایاجائے جہاں وہ فلم انڈسٹری کی مدد سے اپنا پیٹ بھی پالیں تو مسئلہ نہیں ہے ۔معاشرے میں یہ پتہ ہوتا ہے کہ کون بدکار اور کون نیکوکار ہے۔ بدکاروں کی اسلامی معاشرے میں یہی گنجائش ہے کہ وہ آپس میں یا پھر کسی مشرک اور مشرکہ سے اپنا ناطہ جوڑیں۔ اگر قرآن کی ان واضح آیات پر عمل ہوتا توآج مسلم معاشرے میں بے راہ روی اس انتہاء درجہ تک نہ پہنچتی جو کچھ آج ہورہاہے بھارت بھی اپنے ہاں مسلمانوں ہی نہیں بلکہ ہندؤوں پر بھی اس قانون کو جاری کرنے میں دیر نہ لگاتا۔
عورت آزادی مارچ کے شرکاء نے اگر منظم انداز میں خواتین کے تحفظ کیلئے سورۂ نور کا سہارا لیا تو پھر پاکستان میں وہ انقلاب آئیگا جس کا خواب وہ ہزار سال کی جدوجہد کے بعد بھی نہیں دیکھ سکتی ہیں۔ اسلام نے مرد اور عورت کیلئے بدکاری پر یکساں سزا کا حکم دیا ہے اور معاشرے میں عورت کیساتھ نہ صرف یک طرفہ اور بغیر کسی تفریق کے زیادتیاں ہوتی ہیں بلکہ اپنی عزتوں کی حفاظت کرنے والی خواتین انتہائی اذیت کی زندگیاں گزار رہی ہیں اور اس سے نجات کا رستہ قرآن نے دیا ہے۔ پروین شاکر نے عورت کی تہذیب کو نقل کیا ہے کہ ”وہ کہیں بھی گیالوٹا تو مرے پاس آیا، بس یہی بات ہے اچھی مرے ہرجائی کی”۔
جب شرعی اور قانونی طور پر بدکار مردوں کو یہ حق ہی نہیں ہوگا کہ وہ پاکدامن عورتوں کو اپنے نکاح میں رکھ سکیں ۔ اللہ نے ان پر یہ حرام کردیا ہوگا تو معاشرے میں پاکیزہ ماحول قائم کرنے میں دیر نہیں لگے گی۔ بدکارعورتوں کو مرد اپنے نکاح میں رکھنا حرام سمجھتے ہیںمگر خود بدکاری اور بدکرداری کے مرتکب ہونے کا مرد اپنے لئے جواز رکھتے ہیں۔ معاشرے کو اسلامی بنانے کیلئے عورتوں سے زیادہ مردوں کو قربانی کا بکرا بنایا جائے گا۔ انشاء اللہ
بہتان ایک سنگین جرم ہے ، اگر مرد پر لگایا جائے تو اس کی بیوی پر اتنا اثر نہیں پڑتا ہے لیکن جب عورت پر لگایا جائے تو اس کے شوہر پر بھی اس کا اثر پڑتا ہے۔ کیپٹن صفدر بھی کہے گا کہ مجھ پر الزام مسئلہ نہیں لیکن سوشل میڈیا پر چھوڑے ہوئے کتوں کے ذریعے مریم نواز کو نشانہ بنانے سے گریز کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے شادی شدہ خواتین پر بہتان لگانے کا خاص طور پر ذکر اسلئے کیا کہ مردوں کو اذیت پہنچانے کیلئے انکی بیگمات کو جس طرح گالی گلوچ سے کچلنے کی روش اپنائی جاتی ہے ، یہاں تک کہ کلچر میں عورت بھی بسا اوقات دوسرے کو بیوی کی گالی سے نوازتی ہے۔ حالانکہ عورت کے شوہرکو بھی گالی دی جاسکتی ہے۔ اسی طرح مردوں کو نشانہ بنانے کیلئے عورتوں پر ہی بہتان لگایا جاتا ہے۔ قرآن نے اس کا حل پیش کیا ہے۔
اسلام اتنا عظیم دین ہے کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ پر بہتان لگایا گیا تو بھی اس کی سزا اسّی (80)کوڑے رکھی اور ایک ادنیٰ درجے کی غریب عورت پر بہتان لگایا جائے تو بھی اس کی سزا اسّی (80)کوڑے ہے۔ اسلام کی یہ مساوات دیکھ کردنیا اسلامی انقلاب کو قبول کرسکتی ہے لیکن ہمارا میڈیا اس کو عوام تک پہنچانے سے قاصر ہے۔ روزنامہ پیغامات اخبار پشاور کے چیف ایڈیٹر جناب گل احمد مروت سے میں نے اسلام کے اس آفاقی نظام کا ذکر کیا کہ اگر پاکستان میں اس کو نافذ کیا گیا تو امیر وغریب میں مساوات کی فضاء قائم ہوگی۔ کرپٹ امیروں نے انتخابات ، جمہوریت اور اقتدار کو تجارت بنالیا ہے لیکن آئین میں قرآن اور سنت کی بالادستی ہونے کی وضاحت کے باوجود منافق مولوی اور مذہبی طبقہ بھی حقیقت کی بات عوام کے سامنے نہیں لاتاہے۔ یہاں امیر کی ہتک عزت اربوں میں غریب کی ٹکوں میں بھی نہیں ہے۔ وہ جتنی ہتک عزت کا دعویٰ کرسکتا ہے ،اس سے زیادہ وکیل اور عدالت میں خرچہ آئے گا۔ ایک غریب کیلئے دس ہزار بھی بڑی سزا ہے۔ جیلوں میں بہت سے لوگ اس لئے قید پڑے ہوئے ہیں کہ وہ پانچ سو روپیہ جرمانہ نہیں بھرسکتے ہیں جبکہ مریم صفدر نے ایک دن میں دس (10)کروڑ کی ضمانت عدالت میں جمع کرکے رہائی پالی ۔ اب شاید عدالت کے پاس اتنی رقم نہیں ہے کہ واپس کرکے مریم نواز کو دوبارہ گرفتار کرلے ،اسلئے کہ تیمارداری کا مسئلہ تو نہیں، کب کے نوازشریف باہر چلے گئے ہیں؟۔
اگر مذہبی طبقہ اٹھتا اور قرآنی آیات کے مطابق خواتین پر بہتان لگانے کی سزا کے مطابق ہتک عزت میں امیرو غریب کی تفریق کے بغیر ایک سزا مقرر کرتا اور یہ سزا پیسوں میں نہیں کوڑے لگانے کی صورت میں ہوتی تو سوشل میڈیا پر بھی کوئی غلط الزامات لگانے کی جرأت نہیں کرسکتا تھا۔ معاشرے میں جمود بھی ایک زبردست زلزلے کی طرح ٹوٹ جاتا۔ قرآن میں جس یوم دین یا یوم انقلاب کا ذکر ہے وہ دنیا میں جو قومیں عذاب کا مزہ چکھ چکی ہیں اور فتح مکہ کی طرح انقلاب دیکھ چکی ہیں۔ اس سے دنیا ہی میں عذاب مراد ہے لیکن قرآنی آیات میں عذاب و ثواب سے مراد لوگوں نے آخرت ہی لیا ہے۔
حضرت عمر نے اپنے بیٹے کو زنا پر جان سے مار ڈالا۔ بیگم نے بیچ میں سفارش کرنے کی بات کی تو حضرت عمر نے کہا تھا کہ میں سفارش نہیں مانوں گا۔ اس نے کہا کہ صرف سن لیں،پھر ماننا نہ ماننا آپ کا کام ہے۔ سفارش یہ کردی کہ کوڑے والے آدمی کو بدلتے رہو تاکہ بیٹا دنیا میں عذاب پورا کرلے۔ ایک ہی آدمی نے مارا تو وہ تھک کر زیادہ سخت کوڑے پورے نہیں کرسکے گا۔ بیٹے پر گواہوں کو بھی طلب نہیں کیا جبکہ مغیرہ بن شعبہ پر چار گواہ تھے اور اس کو سنگساری سے بچانے کیلئے تین گواہوں کو اسّی اسّی (80،80)کوڑے مروائے تھے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کا چیئرمین مفتی سعید خان کو بنایا جائے۔ پہلے مولانا محمد خان شیرانی اور اب قبلہ ایاز صاحب روٹیاں توڑ رہے ہیں۔ شیعہ سنی علماء اور ذاکرین حقائق کی وضاحت سے بالکل قاصر نظر آتے ہیں۔ علامہ سید جواد نقوی نے کہا کہ شیعہ ذاکر نے یہ اعلان کیا کہ قرآن میں محرم کا جلوس اور اس کا راستہ بھی موجود ہے۔کراچی میں نشترپارک سے صدر کی طرف ایک جلوس نکلتا ہے ۔ لوگ حیران تھے کہ قرآن میں یہ کہاں ہے؟۔ اس نے کہا کہ الم نشرح لک صدرک میں الم سے علم ہے اور نشرح سے مراد نشتر پارک ہے اور مطلب یہ ہے کہ نشتر پارک سے صدر تک علم کا جلوس۔ یہ سن کر سامعین نے زبردست داد بھی دی اور ان پر وجد کی کیفیت بھی طاری ہوگئی کیا زبردست دلیل نکالی ہے۔
والفجرOولیال عشرOوالشفع والوترOوالیل اذا یسرOھل فی ذٰلک قسم الذی حجرO
” فجر کی قسم اور دس راتوں کی قسم ، جفت اور طاق کی قسم اور رات کی قسم جب آسان ہوجائے۔ کیا اس میں عقل والوں کیلئے کوئی قسم ہے؟”۔
شیعہ علامہ نے کہا کہ فجر سے مراد امام مہدی ہیں۔ دس راتوں سے دس امام مراد ہیں۔ جفت سے حضرت علی و حضرت فاطمہ مراد ہیں اور وتر سے رسولۖ مراد ہیں۔ ان میں چودہ معصومین کا ذکر ہے لیکن اس میں عقل والوں کیلئے قسم ہے۔
سنی علامہ کہہ سکتے ہیں کہ فجر سے رسول اللہۖ کا انقلاب مراد ہے۔ دس راتوں سے عشرہ مبشرہ کے صحابہ کرام مراد ہیں۔ اور جفت سے حضرت حسن و حضرت معاویہ مراد ہیں اور وتر سے حضرت امام حسین یا عمر بن عبدالعزیز مراد ہیں۔ علاوہ ازیں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ فجر سے امام مہدی مراد ہیں۔ پھر دس راتوں سے آئندہ آنے والے دس آل بیت امام مراد ہیں جن سے پہلے رات کی طرح ایک ایک مرتبہ اندھیرا چھا جائیگا۔ پھر جفت سے مراد امام مہدی آخر زمان اور حضرت عیسیٰ مراد ہیں ۔ پھر وتر سے توحید مراد ہے کہ اگر ایک بھی اللہ اللہ کہنے والا دنیا میں موجود ہوگا تو قیامت نہیں آئے گی۔ ہرانقلاب کے عمل کو الفجر سے تشبیہ دی گئی ہے۔ جس سے پہلے کی رات آسان ہوجاتی ہے ۔ علامہ اقبال نے طلوعِ اسلام کا ذکر کیا ہے۔ ایران کو مشرق کا جنیوا قرار دینے کی خواہش اور نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر مسلمانوں کو ایک ہونے کی دعوت دی ہے۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے سندھ ، بلوچستان، پنجاب ، کشمیر ، پختونخواہ اور افغانستان میں رہنے والی تمام قوموں میں دنیا کی امامت کی صفت کا ذکر سورۂ القدر کی تفسیر کرتے ہوئے کیا ہے۔ جس کو ایران بھی قبول کرلے گا۔ کیونکہ امام ابوحنیفہ ائمہ اہلبیت کے شاگرد تھے۔ مولانا سندھی کی تفسیرمقام محمود میں تفصیل دیکھی جاسکتی ہے۔ اسلامی انقلاب کیلئے ماحول خوشگوار بنانا بہت ضروری ہے۔

NAWISHTA E DIWAR March Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

آسٹرلوجر سامیہ خان کی پاکستان کے مستقبل کیلئے حیران کن پیش گوئی

پاکستان میں نظام کی تبدیلی
پاکستان صدارتی نظام کی طرف گامزن
آسٹرلوجر سامیہ خان کی حیران کن پیش گوئی

فلآ اقسم بموٰقع النجومOوانہ لقسم لو تعلمون عظیمOسورۂ واقعہ ”پس نہیں! میں قسم کھاتا ہوں ،تاروں کے مواقع کی اور بیشک یہ عظیم ہے اگر تم جان لو تو”
یہ اکیس دسمبر(2020)سے شروع ہوگیا نیا ٹائم میرے رب نے چاہا، کیونکہ مشتری اور زحل کا ملاپ ہوا ہے۔ جو پاکستان میں وہ تبدیلی لائیگا جس تبدیلی کا حکمران وعدہ پورا نہیں کرسکے وہ کہتے ہیں نا کہ اوپر ایک نظام قدرت ہے۔ اور اپنے وقت کے حساب سے اپنے مدار پر چیزیں چلتی رہتی ہیں۔ یہ سچ مچ تبدیلی کا سال ہے۔ تبدیلی کا سہرا کس کے سر آتا ہے یہ الگ بات ہے۔ اللہ کا شکر ہے میں عام آدمی کے ریلیف کی بھی بات کررہی ہوں پاکستان میں نظام حکومت کی بھی بات کررہی ہوں۔ مجھے یہ ضرور لگتا ہے کہ اب اس ملک میں کوئی نیا نظام لایا جائیگا۔ مجھے لگتا ہے کہ اسکا نام صدارتی ، ٹیکنوکریٹس یا نیشنل ہے۔ لیکن4مارچ(2021ئ) سے کچھ ایسی تبدیلی ہے کہ اسکے بعد یہ ملک ایک اسٹیبل زون میں داخل ہوجاتا ہے وہاں ۔ اس حکومت کیلئے (2019)اور ( 2020)میں یہ کہتی تھی کہ خان صاحب کا دور وزارت یہ پھولوں کا سفر نہیں ہے۔ ہنی مون پیریڈ ان کی حلف برداری کیساتھ ہی ختم ہوگیا تھا۔ تین ان پر ایسے دور آئے ہونگے کہ خان صاحب کو لگتا ہوگا کہ میں بند گلی کے اندر جیسے آگیا ہوں۔ لیکن (2021)ایک فیصلہ کن سال ہے اور یہ آر یا پار والی سچویشن ہے۔ اس میں جو بچ جائیں گے وہی لاسٹ کرینگے۔ چھانٹی ہوجائے گی بلکہ ایک اچھی سیاست کی ابتدا ہوگی۔ بڑے عرصے کے بعد ایک با اخلاق اور اچھی سیاست کا یہاں پر پنپنا دیکھیں گے(2021) میں جب ہمارا سفر شروع ہوگا اور اس میں چہرے بھی تبدیل ہونگے۔ میں حکومت کی بات نہیں کررہی کچھ لوگوں پر خطرہ ہوسکتا ہے کچھ چہروں کی تبدیلی ہوسکتی ہے۔ لیکن یہاں سے اس ملک کا ایک اسٹیبل سفر شروع ہوتا ہے۔
میرے پاس بہت بڑی فائل ہے جسکے اندر میں نے ہر سیاستدان کے زائچے بنائے ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم بھی، چیف آف آرمی اسٹاف بھی۔ تو چیف آف آرمی اسٹاف کا زائچہ بہت مضبوط نظر آرہا ہے۔ انکے ہاتھوں شاید کوئی ایسے کام ہوجائیں، شاید وہ کوئی ایسا تھنک ٹینک بنادیں جو کہ ملک کو آگے لے جائے۔ کیونکہ یہ تو ضرور ہوگا کہ ملک اب بہتر ہوگا۔ یہ تو پکا اور یقینی ہے انشاء اللہ۔ اور چیف آف آرمی اسٹاف کا ستارہ بہت دبنگ چل رہا ہے۔ اسکا مطلب یہ نہیں کہ اب مارشائل آجائیگا۔ جب میں ان سب زائچوں پر پڑھ رہی تھی تو میں نے یہ بھی پڑھا کہ جنرل پرویز مشرف کے بعد یہ دوسرے جنرل ہیں جن کا زائچہ بہت طاقتور ہے۔ اور یہ والا سال ان کو مزید طاقت دیتا ہوا نظر آتا ہے۔
کورونا کے حوالے سے سمیہ خان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے خطے میں جب ہم اسٹرولوجی کے سال کو پڑھتے ہیں تو مارچ (2020) سے میں پڑھوں تو میں نے پیشگوئی کی تھی کہ وار زون ہے تو کورونا ہے۔ پہلا مریض مارچ(2020) میں لاہور میںآیا تھا ۔ میرے رب نے چاہا تو اس مارچ(2021) سے بہار کی آمد کیساتھ اس کی بھی رخصتی ہوجائے گی۔ اور ہماری زندگیاں نارمل لائف کی طرف آنا شروع ہوجائیں گی۔ انشاء اللہ رب کے حکم سے۔ اس بہار کے ساتھ یہاں پر اس وبا کی بھی کمی اور خاتمہ ہونا شروع ہوجائے گا۔ پاکستان تو محفوظ ہے مگر یورپی ممالک کیلئے میں یہ بات نہیں کہہ رہی۔
صدر جوبائیڈن کے حوالے سے میں نے پیشگوئی کی تھی کہ ڈونلڈ ٹرمپ الیکشن سے پہلے ایک مشکل وقت میں داخل ہورہے ہیں جس کی وجہ سے مجھے جوبائڈن کے ستارے فیور کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ لیکن مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ پاکستان کے کوئی نئے اتحادی بننے جارہے ہیں۔ پاکستان کے نئے الائنسز بننے جارہے ہیں۔ اور آج میں ایک بات کہنا چاہوں گی کہ مجھے بڑا دکھ ہوتا ہے کہ جب انڈین اسٹرولوجسٹ سے لگتا ہے کہ منصوبہ بندی کے تحت بنائے ہوئے پروگرام ہیں جس میں کہتے ہیں کہ پاکستان کے ٹوٹے ہونے کا وقت آگیا ہے۔ یقین کیجئے اگر پاکستان کو خطرہ تھا تو وہ اُنیس (19)دسمبر(2020) تک خطرہ تھا۔ اب جو لوگ یہ سپنا دیکھ رہے ہیں وہ خود اس گڑھے میں گریں گے کیونکہ امریکہ اور انڈیا کے اندر کے حالات میں بڑی پیچیدگیاں اور خرابیاں آئیں گی۔ کشمیر کا مسئلہ حل ہونے کی طرف سفر شروع ہوگا۔ یہ گڈ نیوز ہے اور خوشی کی خبر ہے۔

NAWISHTA E DIWAR March Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

بڑاسوال ہے کہ اسلام نے لونڈی و غلام کا نظام ختم کیا تو پھر یہ سلسلہ جاری رکھ کر اسلام پر عمل نہیں کیا گیا؟

بڑاسوال ہے کہ اسلام نے لونڈی و غلام کا نظام ختم کیا تو پھر حضرت عمر کے قاتل ابولؤلو فیروز سے محمود غزنوی کے غلام ایاز تک کا معاملہ کیا تھا؟، کیا اتنے عرصے میں غلاموں اور لونڈیوں کا سلسلہ جاری رکھ کر اسلام پر عمل نہیں کیا گیا؟

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

امریکہ کے ابراھم لنکن نے لڑکپن میں غلاموں و لونڈیوں کو دیکھ کر یہ سلسلہ ختم کرنے کا ارادہ کیا اور(1964ئ) میں انسانوںکی غلامی پر پابندی لگائی لیکن اسلام اتنے عرصہ میں نہ کرسکا!

جب قرآن میں لاتعداد لونڈیاں رکھنے کی اجازت ہے تو مسلمان لونڈی کے نظام کو کس طرح سے ختم کرسکتے تھے؟۔دنیا کو خوف ہے کہ اگر خلافت قائم ہوگی تولونڈیاں بنائی جائیں گی

دنیا میں ہماری تباہی وبربادی کی سازشیں ہیں اور ایک وجہ یہ ہے کہ اسلامی خلافت نے سپر طاقتوں فارس و روم کو پہلے ذلت آمیز شکست سے دوچار کیا تھا۔ ان کے ذہنوں میں یہ بات ہے کہ اگر لوگوں کا مذہب کی طرف رحجان ہوتا ہے تو اسلام کے علاوہ کوئی دوسرا مذہب ایسا نہیں ہے کہ تعلیم یافتہ دنیا اس کو قبول کرلے۔ مغرب میں تیزی سے بڑھتے ہوئے اسلام کا مستقبل عالمی خلافت ہوگا تو اس کے نتائج کیا ہوں گے؟۔ جو دہشت گرد بارود سے اپنی مساجد کو اُڑانے اور مسلمانوں کو سنگسار کرنے سے دریغ نہیں کرتے ہیں ،ہماری خواتین کو لونڈیاں بنانے سے پھر وقت آنے پر کیوں گریز کریںگے؟۔
مسلمان خواتین بھی ہرگز نہیں چاہیں گی کہ خلافت قائم ہونے کے بعد کافر خواتین ہمارے مردوں کی لونڈیاں بن جائیں۔ ترقی یافتہ ممالک کے لوگوں کی مثال فارمی مرغوں و مرغیوں اور پسماندہ ممالک میں جنگجو لوگوں کی مثال اصیل مرغوں کی ہے۔ اگر فارمی مرغیوں کی محفوظ پناہ گاہوں میں لڑاکو قسم کے اصیل یا کم اصل دیسی مرغے ڈال دیئے جائیں تو پہلے تو وہ انکے جراثیم سے بیماری میں مبتلاء ہوکر مرکھپ جائیںگے لیکن اگر زندہ بچ بھی گئے تو دیسی مرغے ان کا کیا حشر نشر کریںگے؟۔ مغرب اپنے خوف سے ہماری نسل کشی کو اپنی بقاء کی جنگ سمجھتا ہے۔ وسائل پر قبضہ تو یہودی کمپنیاں کررہی ہیں اور عیسائی ممالک جنگوں میں نقصانات اُٹھا اُٹھا کر دلدل میں پھنستے جارہے ہیں۔ حال ہی میں امریکہ انتخابات کے بعد تباہی سے بال بال بچ گیا ہے۔ اگر مغرب کی عوام کے دلوں سے اسلام کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کا خوف بھی نکل جائے تو عوام اپنے حکمرانوں کو ووٹ اور نوٹ دینا تو بہت دور کی بات ہے۔ سرِعام بازاروں میں منہ کالا کرکے گھمائیں گے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس اسلام نے لونڈی اور غلام کا تصور قرآن میں دیا اور پھر خلفاء راشدین ، ائمہ اہل بیت کے غلاموں سے لیکر محمود غزنوی کے ایاز اور برصغیر پاک وہند میں خاندانِ غلاماں کے اقتدار تک غلام ولونڈی کا تصور ختم نہیں کیا جاسکا ۔ اب دنیا میں اسلامی خلافت قائم ہوگی۔ جنگلی مخلوق سے بدتر علماء ومفتیان ہیں جو حلالہ کی لعنت سے مدارس میں شادی شدہ باعزت خواتین کی عصمت دری سے نہیں رُک سکتے ہیں تو پھر انگریز لڑکیوں اور خواتین کو لونڈی بنانے سے کیسے رُک جائیںگے؟۔
ہمیں دنیا کو سمجھانا ہوگا کہ ہمارے بھوکے وحشیوں کو ایک دوسرے سے لڑانے کا دھندہ چھوڑ دو، یہاں شریف لوگوں کو ٹھگانے، لُٹانے اورمروانے کی ضرورت نہیں۔ شریف لوگ ہی کردار ادا کریں گے تو دنیا کی بچت ہوگی ورنہ تو خیر کی توقع کون رکھ سکتا ہے؟۔ یہود جب مدینے میں اپنے مضبوط قلعوں پر نازاں تھے تو مسلمانوں کوتوقع نہ تھی کہ وہ اتنی جلد بوریا بستر اُٹھانے پر ذلت کیساتھ مجبور ہوکر نکل جائیں گے۔
ابراھم لنکن نے جو نیک کام کیا کہ امریکہ میں غلاموں کی درآمد پر پابندی لگادی تو یہ بہت خوش آئند تھا۔ اس شخص کی نیکی سے ہی آج امریکہ دنیا کی واحد سپر طاقت بن گیا ہے۔ اب تو اقوام متحدہ نے انسانی غلامی پر عالمی پابندی لگادی ہے جو بہت ہی خوش آئندہے۔ مسلمانوں کی تو ایسی اوقات نہیں کہ انکے خوف سے یہ پابندی لگانے کا دعویٰ کیا جائے۔ البتہ ہم نے اسلام کا اصل چہرہ بھی دنیا کو دکھانا ہوگا اور آئندہ کے خوف سے بھی دنیا کو نجات دینے کا سامان بہم پہنچانا ہوگاتاکہ مسلمان سرخرو ہوں۔
اب ایک بے رحم تجزئیے کی طرف آئیے کہ کیا امریکہ نے غلاموں کی درآمد پر جو پابندی لگائی تھی تو کیا اس سے دنیا میں غلاموں کے مسائل حل ہوگئے؟۔ اگر امریکہ کی طرف سے غلاموں کو بنیادی انسانی حقوق دیدئیے جاتے تو کیا اس سے غلاموں کے مسائل حل ہوتے؟۔ جب امریکہ میں کالوں کو حقوق مل گئے تو بارک حسین اوبامہ بھی امریکہ کاکثیرالمدتی آٹھ سالہ صدر بن گیا تھا۔ اس کی کالی بیگم خاتون اول بن گئی تھی اور یہ تصور بھی اس وقت نہیں کیا جاسکتا تھا جب کالوں کو حقوق نہیں ملے تھے۔
اسلام نے دو بنیادی کام کئے تھے۔ ایک غلام اور لونڈی بنانے کی فیکٹریاں ختم کردیں تھیں۔ جاگیردارانہ نظام سے مزارعین لونڈی اور غلام بن کر شہری منڈیوں میں پہنچتے تھے۔ مزارعت کی مشقت سے جہاں اس جدید دور میں بھی بنیادی انسانی حقوق کا کوئی تصور نہیں ہے۔ بھارت میں جابرانہ ڈکٹیٹر شپ نہیں جمہوریت ہے تو کاشتکار اپنے حقوق کیلئے دہلی پہنچ گئے ہیں۔ ہماری عمران خانیہ ڈکٹیٹر شپ نے لاہور میں تشدد سے مزارعین کو حال ہی میںاحتجاج سے رکنے پر مجبور کردیاتھا۔ جاگیرداروں کا ٹولہ پی ڈی ایم (PDM)مزارعین کا آقا ہے جن کی لڑائی ریاست سے اپنے مفادات کیلئے ہے۔
جب قرآن میں سود کی حرمت کے حوالے سے آیات نازل ہوئیں تو رسولۖ نے مزارعت کو سود قرار دیکر مسلمانوں کو اس سے روک دیا تھا۔ مدینہ کی زر خیز زمینوں سے مسلمان مزارعین جلد سے جلد غربت کی لکیر سے نکل کر خوشحال لوگوں کی فہرست میں شامل ہوگئے۔ جب غریب اور امیر کواپنی محنت کا یکساں فائدہ ملنے لگا تو غریب کی غربت ختم ہوگئی اور امیر طبقہ محنت کش ہوگیا۔ مدینے میں جہاں زمیندار اور کاشتکار کی قسمت بدل گئی وہاں تاجروں کیلئے بھی ترقی وعروج کے راستے وسیع تر ہوگئے۔ جہاںمحنتی کاشتکار خوشحال ہوگا وہاں تاجروں کی بھی چاندی ہوگی۔ جہاں مزارعین کی حالت غیر ہوگی اور چندجاگیرداروں کو عیاشی کا موقع ہوگا تو عام تاجر بھی اپنی اشیاء کی فروخت میں مکھیاں مارنے کیلئے بیٹھے گاکیونکہ چند جاگیردار کتنے جوتے، دوائیاں اور کپڑے وغیرہ کے علاوہ اپنی ضروریات کی چیزیں خرید سکیں گے؟۔ جالب نے کہا:
ہر بلاول ہے ہزاروں کا مقروض
پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے
پھران غریبوں نے ہی دہشت گرد بن کر بینظیر بھٹو پر خود کش دھماکے بھی کئے تھے۔
اسلام نے سب سے بڑا بنیادی کام یہ کیا تھا کہ مزارعت کو سودی نظام قرار دیکر غلامی کی بنیادیں ختم کردی تھیں۔ حضرت امام ابوحنیفہ ، حضرت امام مالک اور حضرت امام شافعی سب متفق تھے کہ مزارعت سود ہے۔ جو قرآن میں اللہ اور اسکے رسولۖ سے جنگ ہے۔ اگر ائمہ عظام کے فتوؤں کے مطابق بنوامیہ اور بنوعباس اپنے ہاں اور دنیا میں مزارعت کا نظام رائج کرنے کے بجائے ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے تو پھر خلافت کو اپنے خاندان کی لونڈیاں بنانے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ ہمارے بچپن میں یہ افواہ اُڑائی گئی کہ روس پاکستان پر قبضہ کریگا تو ہمارے مزارع کے چھوٹے بیٹے نے اپنے باپ کا نام لیا کہ اس کی کونسی زمینیں ہیں، روس آئے یا امریکہ ہم نے مزارعت کا کام ہی کرنا ہے۔ جب لوگوں کو انصاف تک نہیں ملتا ہے تو ریاست کیسے چلے گی؟۔
پاکستان میں مزارعت کو ختم کردیا جائے اور لوگوں کو زمینیں مفت میں دی جائیں تو صرف پاکستان نہیں بلکہ ہندوستان اور دنیا کی تقدیر بدلنے میں بھی دیر نہیں لگے گی اور پہلے جہاں افراد کی غلامی ہوتی تھی تو اب خاندان کے خاندان غلام بن گئے ہیں۔ علماء الو کے پٹھوں نے لکھا کہ ” اسلام نے مزارعت کو اسلئے ناجائز قرار دیا تھا کہ اس سے لوگوں میں غلامی پیدا ہورہی تھی، جب غلامی نہیں پیدا ہورہی ہے تو جائز ہے”۔ اب تو شیخ الاسلاموں اور مفتی اعظم پاکستانوں نے بینکاری کے سودی نظام کو جواز بخش دیا ہے۔ سارے مدارس اور علماء ومفتیان کی مخالفت کے باجود یہ فتویٰ اسلئے چل پڑا ہے کہ ریاست کی قوت اس کی پشت پر ہے۔ پہلے فقہ کے ائمہ کو اپنے شاگردوں کی طرف سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ آج مفتی محمدتقی عثمانی اور مفتی منیب الرحمن نے بھی اپنے مسلک کے تمام مدارس اور اپنے اساتذہ کرام کو شکست سے دوچار کیا ہے۔
اسلام نے دوسرا بنیادی کام یہ کیا کہ غلام اور لونڈی کو انسانی حقوق سے نواز دیا۔ حضرت زید نے اپنے چچاؤں اور باپ کیساتھ جانے سے انکار کردیاتھا۔ سیدنا بلال نے آزاد ہونے کے بعد بھی اپنے وطن حبشہ کا رُخ نہیں کیا۔ حضرت اسود نے بڑاسفر طے کرکے اسلام کی آغوش میں پناہ لی تو شادی کی خواہش رہ گئی۔ نبیۖ نے حکم دیا کہ کلاب قبیلے کے سردار سے بیٹی کا رشتہ مانگ لو۔ سردار پہلے اپنی سعادت سمجھ کر بڑا خوش ہوا لیکن رشتے کی بات سن کر خاموش ہوگیا۔ جب وہ واپس جانے لگا تو سردار کی بیٹی نے کہا کہ مجھے رشتہ پسند ہے۔ نبیۖ نے شادی کیلئے ضروری سامان خریدنے کیلئے رقم دی تو جہاد کے منادی کی آواز سن لی۔ دولہے نے سامان حرب خریدا اور ذرا ہٹ کے قافلے کیساتھ چلا، جب میدان جہاد میں شہید ہوا تو پتہ چلا کہ اسود نے ایک نقاب اوڑھ رکھا تھا تاکہ نبیۖ دولہے کو دیکھ کر واپس جانے کا حکم نہ فرمادیں۔ محموداور ایاز کا قصہ تو مشہور ہے کہ سارے مشیروں اور وزیروں میں ایاز کو فوقیت بھی حاصل تھی اور ایاز شاہی محل جیسے گھر میں اپنا پرانا لباس پہن کر آئینے میںخود کو مخاطب کرتا تھا۔
غلام اور لونڈی وہ بے سہارا ہوتے تھے جن کے آبا اور خاندان کا بھی پتہ نہیں ہوتا تھا۔ نبی ۖ نے زید کیلئے فرمایا کہ یہ میرا لڑکا ہے۔ پھر اللہ نے فرمایا کہ جن کے باپ کا پتہ چل جائے تو ان کو انکے باپ کے نام سے پکارو اور جن کے باپ معلوم نہیں ہیں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں۔ اللہ نے آزاد مشرک ومشرکہ پر غلام مؤمن اور لونڈی مؤمنہ کو زیادہ قابل ترجیح قرار دیا اور فرمایا کہ ان سے نکاح مت کرو یہاں تک کہ وہ ایمان لائیں۔ اللہ نے یہ حکم بھی دیا کہ اپنی طلاق شدہ وبیوہ خواتین اور نیک غلاموں و لونڈیوں کا نکاح کراؤ۔ اہل تشیع کے کئی ائمہ کنیزوں کی اولاد ہیں۔ آزاد عورتوں سے نکاح و ایگریمنٹ کی اجازت دی گئی تو یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ لونڈیوں سے بھی نکاح وایگریمنٹ کی اجازت دی گئی ہے۔
جنگ میں قید ہونے والوں کو غلام یا لونڈی بنانا ممکن نہیں۔ کیاحضرت عمر نے قیدی کو غلام سبنایا تھا جس نے شہید کردیا تھا؟۔ قیدیوں کو غلام اور لونڈی ہرگز نہیں بنایا جاسکتا ہے۔ اگر جنگ کا قیدی غلام ہو توپھرموقع ملتے ہی خدمت کرنے کی جگہ جان لے لے گا۔بدر یا احد کے قیدیوں میں کسی ایک کو بھی غلام نہیں بنایا گیا اور نہ اس طرح کا رسک لینا ممکن تھا۔
اللہ تعالیٰ نے دنیا میں جن فتوحات کے بعد جنت کانقشہ پیش کیا تھا لوگوں نے اس کو آخرت پر محمول کردیا ہے۔ سورۂ طور میں جس طرح اسلام کو جھٹلانے والوں کو دنیا میں ہی عذاب کا مژدہ سنادیا گیا ہے جنہوں نے اسلامی فتوحات کے بعد دیکھ لیاتھا کہ اسلام کی پیشین گوئیاں ہوبہو بالکل درست ثابت ہوگئیں۔ اسی طرح مسلمانوں نے بھی دنیا میںہی یقین کرلیا کہ اللہ نے وعدوں کے عین مطابق زبردست نوازشات کی برسات کردی تھی۔ خستہ حال مسلمانوں کے حالات کو بہت کم مدت میں اللہ نے بدل دیا تھا۔
عربی میں ”حور” شہری عورتوں کو کہتے ہیں۔ جب مسلمان دنیا کی امامت کررہے تھے تو اہل کتاب کی خواتین نے بھی نکاح کی پیشکشیں شروع کردی تھیں۔ حضرت عمر نے ان پر پابندی بھی لگادی تھی کہ پھرعرب خواتین شادی کے بغیر رہ جائیں گی۔ عبداللہ بن عمر نے فتویٰ جاری کردیا تھا کہ اہل کتاب بھی مشرک ہیں جو تثلیث کا عقیدہ رکھتے ہیں لیکن ان کی بات کو حرفِ غلط کی طرح رد کردیا گیا تھا۔ فتوحات کے بعد اللہ تعالیٰ نے نبیۖ پر پابندی لگادی کہ آئندہ کسی بھی عورت سے نکاح نہیں کرنا ہے بھلے کوئی اچھی لگے،پھر ایگریمنٹ کی اجازت دیدی۔ علامہ بدر الدین عینی نے نبیۖ کی طرف اٹھائیس (28)ازواج کی نسبت کی ہے لیکن ان میں سے بعض محرم تھیں جیسے حضرت امیر حمزہ کی بیٹی جس کا نبیۖ نے فرمایا کہ یہ میرے دودھ شریک بھائی کی بیٹی ہیں، بعض سے ایگریمنٹ تھا ،ام ہانی جس کیلئے اللہ نے نکاح کے حوالے سے فرمایا کہ وہ چچاکی بیٹیاں حلال ہیں جنہوں نے ہجرت کی۔خیبر کی فتح کے بعد حضرت صفیہ کے حوالے سے بخاری میں تصریح ہے کہ اگر پردہ کروایاتو نکاح ہے اور نہیں کروایا تو پھر ایگریمنٹ ہے۔ کسی عورت کا ایک مرد سے جنسی تعلق ہوسکتا ہے۔ یہ تو ممکن نہیں کہ ایک کی لونڈی یا ایگریمنٹ والی ہو اور دوسرے کے نکاح میں ہو؟۔
جب قرآن میں اللہ نے نکاح اور ایگریمنٹ کا معاملہ جدا جدا کردیا تو بعضوں کو یہ غلط فہمی ہوگئی کہ بعض محرمات کا معاملہ ایگریمٹ کے حوالے سے جدا ہے جس کی واضح نظیر حضرت ام ہانی ہی کا معاملہ تھا۔ ام المؤمنین حضرت ام حبیبہ نے سوتیلی بیٹیوں کو پیش کیا تو نبیۖ نے فرمایا کہ یہ میری بیٹیاں ہیں۔ صحیح بخاری کایہ عنوان ہے۔ علماء کرام کو چاہیے کہ قرآنی آیات ، بخاری کی احادیث اور فقہ کی کتابوں میں غلط فہمی کا ازالہ کرنے کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ اسلام کا معاشرتی نظام بہت مثالی ہے مگر ہمارے مذہبی طبقات پیچیدگیوں کو سلجھانے کے بجائے مزید الجھا رہے ہیں۔ملکت ایمانکم کا اطلاق غلام ولونڈی پر بھی ہوتا ہے اور ایگریمنٹ پر بھی۔ ایگریمنٹ مراد ہو تو ایگریمنٹ لیا جائے اور یہ بھی واضح ہے کہ غلام ولونڈی پر پر بھی ایگر یمنٹ ہی کا اطلاق کیا گیاہے اسلئے کہ اس کی وجہ سے ان کو تمام حقوق حاصل ہیںاور بہت معاملات میں رعایتیں بھی دی گئی ہیں۔

NAWISHTA E DIWAR February BreakingNews Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

اہل تشیع کو علماء دیوبند پر بھرپور اعتماد کرکے فرقہ پرستی کی سازشوں کو ناکام بنانا ہوگا۔

اہل تشیع کو علماء دیوبند پر بھرپور اعتماد کرکے فرقہ پرستی کی سازشوں کو ناکام بنانے میں کردار ادا کرنا ہوگاتاکہ اُمت مسلمہ کو درپیش عالمی سازشوں کا بہت کھلے دل ودماغ سے مقابلہ کرنے میں مشکلات کا بروقت جلداز جلدخاتمہ ہو

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

شیعہ سنی مساجد کے ائمہ اور خطیبوں کاتحفظ صرف ریاست کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ منبر ومحراب سے اتحاد واتفاق اور وحدت کی آواز اُٹھے گی تو دشمن اپنے عزائم میں ناکام ہوجائے گا!

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت ہارون علیہ السلام کو سراور ڈاڑھی سے پکڑلیا۔اگرقرآن کی اس بات پر فرقہ پرستی کی داستان چڑھائی جاتی تو خطیبانہ انداز سے بات کہاں پہنچتی ؟

ہماری قوم میں بداعتمادی کی فضاء ہے۔ اہل تشیع کے علامہ سید جواد حسین نقوی نے علماء دیوبند کے مولانا سرفراز خان صفدر کے بیٹے علامہ زاہدالراشدی کے پیچھے اپنے مدرسہ عروة الوثقیٰ مسجد بیت العتیق لاہور میں نماز پڑھی تو علامہ شہریار رضا عابدی نے علامہ سیدجوادحسین نقوی کا نام لئے بغیر اتحاد کے حوالے سے خبردار کیا کہ دیوبند کے امام مولانا سرفراز خان صفدر کے شیعہ امامیہ اور ایرانی انقلاب کے بارے میں کیا خیالات تھے۔علامہ زاہدالراشدی کے سپاہ صحابہ کے بانی مولانا حق نواز جھنگوی شہید اور قائدین علامہ ضیاء الرحمن فاروقی شہید اور مولانا اعظم طارق شہید کے بارے میں کیا تأثرات تھے۔ ایک تازہ ویڈیو میں سارے حقائق سامنے رکھ دئیے ہیں۔
علماء دیوبند نے اہل تشیع، بریلوی مکتبۂ فکر، اہلحدیث اور آپس میں ایکدوسرے خلاف بہت کچھ لکھا ہے لیکن جب اہل تشیع کے علامہ صاحبان خود ایک طرف حضرت عمر اور اکابرصحابہ پر کفر ونفاق کے فتوؤںکی یلغار کریںگے اور دوسری طرف یزیدکے بیٹے معاویہ کا خلوص بتائیںگے۔ یزید کی دادی ہند کی طرف سے حضرت حسین بن علی سے انتہائی عقیدت ومحبت کا اظہار کرکے اپنے لوگوں کو رُلائیںگے تو اس تضاد بیانی کا کیابنے گا کہ بڑے صحابہ کرام کیلئے نفاق وارتداد اور یزید کے کنبے کیلئے اسلام وایمان کے ثبوت پیش کئے جائیں؟۔ اللہ نہ کرے کہ اہل تشیع آپس میں فساد برپا کریں۔
علماء نے اگر اہل تشیع کی باتوں کا الزامی جواب دیا ہے تو اہل تشیع اپنے روئیے پر بھی نظر ثانی کریں۔ اگر گستاخانِ صحابہ کے مقابلے میں سپاہ صحابہ کا کارکن پھانسی کے پھندے کو چوم رہاتھا تو اسلئے نہیں کہ سعودی عرب کی بھیجی ہوئی زکوٰة کو ہضم کررہا تھا بلکہ وہ اپنے ایمانی جذبے سے موت کو گلے لگاکر خوش ہوتاتھا۔ جب اہل بیت کی خواتین کے نام لیکرشیعہ ذاکر مظلومیت کو خطابت کے آرٹ میں چار چاند لگادیتا ہے تو سامعین کے قلوب سے ظلمت کاماحول آنسو بہابہا کر دھل جاتا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی سے بچنے کیلئے بی بی زینب کے تذکرے تریاق کی حیثیت رکھتے ہیں۔ سنی علماء کے پاس اُم المؤمنین حضرت عائشہ کی طرف سے جنگ میں شرکت کے حوالے سے ایسی داستان نہیں جس پر خطیب حضرات اپنے جوشِ خطابت کے جوہر دکھا سکیں۔
سنی شیعہ خطیبوں کی پنجاب میں فیس ہے۔ ریٹنگ بڑھانے کا دھندہ مقبولیت کی بنیاد پر چلتا ہے لیکن یہ مقبولیت بارگاہِ خداوندی میں نہیں بلکہ عوام کے ہاں جن سے پیسہ بٹورنا ہوتا ہے۔ میں سخت جان انسان تو نہیںاسلئے کہ اللہ نے قرآن میں انسان کو کمزورقرار دیا ہے اور میں اپنی کمزوری کو بخوبی سمجھتا ہوں لیکن بعض اوقات اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے انسان کے دل کو تھام لیتا ہے۔ جب فرعون سے بچانے کیلئے حضرت موسیٰ کوان کی ماں نے دریا میں ڈال دیا اور پتہ چل گیا کہ فرعون کے ہاں پہنچ گیا ہے تو اللہ نے حضرت موسیٰ کی ماں کے دل کو اپنے فضل سے تھام کر سکون عطا فرمایا تھا۔
ایک مرتبہ بلورخاندان کی ایک فیکٹری میں معذور پیر چترالی بابا کے ہاں بریلوی مکتبۂ فکر کے ایک پختون خطیب کے ایک چھوٹے سے کمرے میں بیٹھ کر چندافراد کیساتھ تقریر سنی۔ جب اس نے حضرت زینب دخترِ علی کی کیفیت کا ذکر کیا کہ وہ اپنے سر پر مٹی پھینک رہی تھیں تو میں بے ساختہ اتنا پھوٹ پھوٹ کر رویا کہ عقل دنگ رہ جائے۔ عورت ذات کی تکلیف سن کر کلیجہ منہ کو آنا ایک فطری بات ہے۔ ہمارے ساتھ بھی وہ واقعہ پیش آیا تھا جس نے کربلا کی یاد تازہ کردی تھی۔ میرے بھتیجے ارشد حسین شہید کی یلغار سے گھبرا کر دہشتگرد نے راکٹ لانچر سے اس کا سر مبارک اڑادیا تھا، اس کے سر کا بھیجا درخت میں بکھر گیا تھا۔ ہمارے جنازے پر بھی خود کش کی دھمکی تھی، قاتل اتنے بے لگام تھے کہ جنازہ ختم ہوتے ہی قریبی عزیز کے گھر مسلح ہوکر گاڑیوں میں پہنچ گئے اور سرِ عام دندناتے ہوئے پھرتے تھے۔ ان دہشت گردوں کے سامنے یزید کا دربار انسانیت اور اسلام کے لحاظ سے بہت بہتر لگتا ہے ، حالانکہ کس قدر خطیبانہ آرٹ کے ساتھ زیادہ سے زیادہ بھیانک انداز میں اس کو پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اہل تشیع کے تحفظات اپنی جگہ پر سوفیصد درست ہیں۔ زوال وانحطاط کے انتہائی دور میں معصوم بچیوں اور خواتین کو جس طرح سفاکی و بے دردی سے قتل کیا جاتا ہے تو فرعون بھی حیران ہوگا کہ ہم بچوں کو قتل کرتے تھے اور عورتوں کو عصمت دری کیلئے زندہ چھوڑتے تھے۔ اس قدر ظلم تو اس دور میں بھی نہیں تھا جو آج کے زمانے میں ہورہا ہے اور اگر اس ظالمانہ ماحول میں فرقہ پرستی کے ناسور کا عنصر بھی شامل ہوگیا تو کیا ہوگا؟۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معاشرے کو اس ماحول میں تنہاء چھوڑ کر اس کی طرف مزید دھکیلنے کی کوشش کی جائے یا پھر انسانیت کو اس ظالمانہ ماحول سے باہر نکالا جائے؟۔ رسول خداۖ نے سیدالشہداء حضرت امیر حمزہ کے کلیجے کو نکالنے والے حضرت وحشی اور کلیجہ چبانے والی حضرت ہند کی معافی اسلئے نہیں کی کہ دائرۂ اختیار سے باہر تھے ، یہ کوئی سیاسی منافقت کا تقاضہ تھا یا ان سے آئندہ کوئی خطرات نہ تھے بلکہ رحمة للعالمینی کا تقاضہ تھا، رب العالمین نے جھوٹ موٹ نہیں سچ مچ رحمت للعالمین بناکر بھیجا تھا۔
رسول خداۖ کے اہل بیت نے بھی کسی تقیہ ، مجبوری اور سیاست کے تحت نہیں بلکہ رحمت للعالمینۖ کے سچے اور پکے جانشین بن کر بنوامیہ اور بنو عباس کے دور میں حضرت امام حسین کی شہادت کے بعد معمول کے مطابق زندگی گزاری تھی۔ہمارا کردار یہ ثابت کرے کہ ہم بھی نبیۖ،اہل بیت عظام اور صحابہ کرامکے سچے پکے چاہنے والے ہیں۔ ابوذر غفاری شیعہ سنی دونوں کیلئے قابل احترام ہیں لیکن اگر خلفاء کے دربار کو حضرت ابوذر غفاری نے اپنا ٹھکانہ نہیں بنایا تو وہ اہل بیت کی چوکھٹ سے بھی دور ہی رہے۔ حضرت علی ، حضرت حسن، حضرت حسین کے ڈیرے پر نہیں بیٹھتے تھے جن کو بدری صحابہ کے برابر بیت المال سے حضرت عمر بہت بڑا حصہ دیتے تھے۔
مجھے اپنے اتنے بڑے واقعہ کے بعد بھی خلوت وجلوت میں رونا نہیں آیا۔ کراچی میں ساتھیوں کو دلاسہ دینے ان کے گھروں میں پہنچ گیا اور اپنے پاس بھی بعض افراد کو بلایاتاکہ ان کا یہ احسا س مٹادوں کہ میں غم سے نڈھال ہوں گا۔ کسی کو زیادہ روتا ہوا دیکھ کر یہ بھی کہہ دیا کہ رونا مردوں کا کام نہیں بلکہ عورتوں کے حوصلے کا مقام ہے۔ آج میں پھر متازع معاملات میں دخل اندازی کرکے اپنے سکون کی زندگی کو اُجاڑنے پر تلا نظر آتا ہوں لیکن یہ میری ہمت نہیں اللہ کا فضل اور میری مجبوری ہے۔ صحابہ واہلبیت نے اپنے دور میں جن مشکلات پر قابو پایا تھا وہ بہت اچھے لوگوں کا زمانہ تھا،آج بہت برے لوگوں کا عجیب زمانہ ہے،مفادات نے سبھی کو اندھا اور اندھا دھند بنا رکھا ہے۔
قوموں کے ضمیر کی موت اور تقدیر کو اپنے کردار، گفتار، تکرار اور رفتار سے بدلنے کی کوشش کی جائے تو ہر فرد ملت کے مقدر کا ستارہ بن سکتا ہے۔ علماء دیوبند کے خلوص کو منافقت سے تعبیر کرکے اسکے شر سے بچنے کی کوئی تدبیر کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور مولانا حق نواز جھنگوی شہید کے مخلص ساتھیوں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مولانا سرفراز خان صفدر نے مجھ سے فرمایا تھاکہ ”ہمارا مدرسہ آپ کا مرکز ہے” تو میں نے معذرت سے عرض کیا تھا کہ ” خیمے لگانے کی تکلیف برداشت کرنی پڑے تو اس پر گزارہ کرلیںگے مگر کسی مسلک کی طرف خود کو منسوب نہیں کرینگے”۔ مولانا صفدر نے اس پر انتہائی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ ” یہ بہت زبردست بات ہے ۔ مجھے تمہاری پیشانی کی چمک سے لگ رہاہے کہ خلافت کے قیام میں کامیاب ہوگے”۔
افغانستان میں اہل تشیع نے ملا عمر کا ساتھ نہیں دیا تو بھی اقتدار میں آگئے تھے اور جب امریکہ کے حملے کے بعد اہل تشیع نے افغانستان میں امریکہ کا ساتھ دیا تھا تب بھی ملاعمر نے امریکہ کا ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا، جہاد کے میدان میں خطابت کے ترانے اور ذاکرین کے افسانے نہیں چلتے بلکہ بمباری کی گھن گرج میں اللہ پر بھروسہ کرنا پڑتا ہے جہاں مشرک بھی سمندری طوفانی بھنور میں پھنسنے کے اندیشے پر بتوں کو بھول کراللہ ہی کو پکارتا ہے۔ میں نے جہاد کے میدان میں دیکھا تھا کہ جب ہماری طرف سے روسی ٹینکوں پر میزائل سے تین گولے فائر کئے تو وہاں سے گولے ہم پربرسائے گئے ۔ پنجابی امیر خالدزبیرکے سفید دانت قریب میں لگنے والے گولے کی گرد و غبار میں چمکتے مسکراتے ہوئے دکھائی دئیے تو دوسری طرف حرکة الجہاد الاسلامی کراچی کے کمانڈر اعجاز مردانی کو گولے کی آواز سے گرتے ہوئے دیکھا تو میری ہنسی چُھوٹی،اس نے کہا کہ ہنستے کیوں ہو؟، میں نے کہا کہ گرے کیوں؟۔ اس نے کہا کہ روزہ لگا ہے۔ جب ہم جیپ میں رات کو افغانستان سے واپس آرہے تھے تو کبھی جیپ کی لائٹ جلاتے، کبھی بجھاتے ، روسی ٹینکوں سے گولے آگے پیچھے اور دائیں بائیں لگ رہے تھے جیسا کہ کوئی فلمی سین بن رہا ہو۔ اللہ پر بھروسہ ہو تو جہاد کا میدان گلی ڈنڈے کا کھیل ہے۔
میں مدرسہ عربیہ فیوچر کالونی لانڈھی کراچی میں زیرِ تعلیم تھا تو ایک اہل تشیع کے لواحقین اس کی میت جنازے کیلئے لائے تھے ، انہوں نے بتایا کہ مرحوم نے وصیت کی تھی کہ اس کا جنازہ سنی مکتب والوں سے پڑھایا جائے۔ ہم نے جنازہ پڑھا توانہوں نے خود شرکت نہیں کی۔ میں نے ہمدردانہ جذبے کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کیساتھ میت گاڑی تک لے جانے میں مدد بھی کی اور بہت ہلکا پھلکا وزن تھا اس میت کا۔ مجھے کراچی میں جمعہ کی نماز پڑھنے کیلئے پہنچنا تھا لیکن راستے میں کارساز کے قریب ایک امام باڑہ میں غلطی سے پہنچ گیا۔ دیکھا کہ نماز ہورہی ہے، جماعت میں شامل ہوا،اس شیعہ امام کے پیچھے نماز پڑھ کر یہ احساس ہرگز نہیں تھا کہ کسی گمراہ کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہوں۔ میں نے ہاتھ باندھ کر نماز پڑھی اور یہی سوچا کہ اہل تشیع کی اپنی نماز ہوجاتی ہے تو میرے لئے بھی اس کی نماز ہوجاتی ہے ، فقہی مسائل اور نماز کے طریقۂ کار میں جتنا اختلاف فقہ حنفی اور فقہ جعفری میں ہے اس سے زیاہ ائمہ اربعہ میں بھی ہے۔
کچھ دنوں بعد محرم آگیا اور علامہ آصف علوی کی تقریر پر کراچی کے سنی علماء نہیں بلکہ لاہور اور اسلام آباد کے شیعہ علماء بھی اس کو سازش قرار دے رہے تھے۔ جس دن جمعہ کے بعد دیوبند مکتبۂ فکرکی طرف سے احتجاج تھا تو اس احتجاج کو کامیاب بنانے کیلئے حضرت مولانا قاری اللہ داد صاحب نے بھی مصروف دن گزارے تھے۔ اتفاق تھا کہ میں قاری صاحب کی مسجد کے قریب سے گزر رہا تھا تو میں وہاں پہنچ گیا ۔ قاری صاحب سورۂ فتح کی آیات میں مذکورصحابہ کرام کی صفات کا ذکر فرمارہے تھے۔ جب یعجب الزراع لیغیظ بھم الکفار” کاشتکار ا سے دیکھ کر خوش ہوتا ہے تاکہ کفاراس سے جل کر غصہ ہوں”۔ قاری اللہ داد صاحب نے صحابہ کرام کی اس سے پہلے ایک ایک صفت کو بیان کیا مگران سے کفار کے غصہ کے مارے جلنے کی بات نہیں کی۔
اگر صحابہ کرام کی طرف یہ نسبت کی جائے کہ وہ آپس میں رحم نہ کرنے والی صفات کی وجہ سے صحابیت سے خارج ہوگئے ہیں تو پھر حضرت علی اور ان سے لڑنے والوں سب پر اس کا اطلاق ہوتا ہے لیکن جب سورۂ فتح کے بعد سورۂ حجرات میں آپس کے قتل وقتال کے باوجود بھی دونوں گروہوں کو مؤمن قرار دیا گیا ہے تو پھر ان پر کفر کے فتوے لگانا قرآن کے علاوہ ائمہ اہل بیت کے مسلک سے بھی کھلا انحراف ہے۔
مجھے امید ہے کہ شیعہ سنی ایک دوسرے کو مساجد کے منبروں پر جمعہ کے دن تقریر کا موقع دیںگے اور امت مسلمہ کے خلاف ہونے والی سازشوں کو ناکام بنانے میں منبر ومحراب سے زبردست کردار ادا کریںگے۔ اپنے مسلک کے شدت پسندوں کی مخالفت ہی معیارِ حق ہے تو پھر کیا سنی شیعہ اتحاد کے دعویدار شیعہ علماء اپنے مسلک کیلئے قربانی دینے والوں کی قبروں پرحاضری نہیں دیتے پھرتے ہیں؟۔ یہی شدت پسند وہ ہیں کہ اگر اچھے راستے پر لگ گئے تو امت کا بیڑہ خالد بن ولید کی طرح پار کریں گے۔
مشرکینِ مکہ نے غزوہ اُحد میں پلٹ کر حملہ کیا تو مسلمانوں کو بڑا نقصان پہنچا۔ علامہ شہنشاہ حسین نقوی نے کہا کہ گیارہ (11) افراد رہ گئے تھے۔ علامہ جواد حسین نقوی نے کہا کہ تین افراد رہ گئے تھے ایک اور شیعہ عالم نے کہا کہ صرف علی رہ گئے تھے۔ قرآن میںبدر کے قیدیوں پر فدیہ لینے اور اُحد میں بھاگنے والوں کی سرزنش میں زیادہ فرق نہیں تھا، یہ تربیت کا مرحلہ تھا اور ان آیات میں ہم نے اپنے معاشرے کی تعلیم وتربیت کا اہتمام کرنا ہے اور اگر تفریق وانتشار کا سلسلہ جاری رہا تو پھر وہ خون ریزی ہوسکتی ہے کہ اشتعال انگیزی میں اپنی صلاحیتیں خرچ کرنے والوں کو خوف وہراس میں اپنا مذہب نہیں بدلنا پڑ جائے۔ واعظ اور خطیب مجاہد ہوتو میدانِ جنگ میں گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے گھبراکر بھاگ جاتا ہے۔

NAWISHTA E DIWAR February BreakingNews Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

قرآن میں تاریخی اور زمینی حقائق ہیں اور علماء نے انسان اورپری کو جوڑا بنادیا۔

قرآن میں تاریخی اور زمینی حقائق ہیں اور علماء نے انسان اورپری کو جوڑا بنادیا۔ فتوحات کے دروازے کھل گئے تو اللہ نے مسلمانوں کو نسل در نسل اجتماعی امامت کے مقام پر فائز کردیا،اگر اب رویہ بدلا تو ہماری حالت بدلے گی!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

سینٹر مشاہداللہ خان مرحوم نے کہا تھا کہ قوالی سن کر مسلمان ہونے والوں نے حلالہ کی لعنت سے اسلام کا چہرہ خراب کردیا ورنہ فطری دین میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ۔یہ بیان چھپاتھا

مولاناعطاء الرحمن نے نوشہرہ میں ن لیگ کی حمایت کرکے پی ڈی ایم (PDM)کی قلعی کھول دی تھی،میاں افتخار حسین نے پی ڈی ایم (PDM)کے جلسوں میں نمایاں شرکت کی مگر جمعیت ن لیگ کی دُم چھلہ تھی

والذارےٰت ذروًاOفالحٰملٰت وِ قرًاOفالجٰرےٰت یسراO فالمقسمٰت امرًاOانما توعدوں لصادقOوان الدین لواقعOو السماء ذات الحبکOانکم لفی قول مختلفOیؤفک عنہ مَن افکOقتل الخرّٰ صونOالذین فی غمرة ساھونO ….
امام انقلاب مولانا عبیداللہ سندھی نے مسلمانوں کو قرآن کی طرف متوجہ کرنے کیلئے انقلابی تفاسیر کی طرف توجہ دلائی تھی۔ جب میں نے مسجد الٰہیہ ،خانقاہ چشتیہ، مدرسہ محمدیہ اور یتیم خانہ سیدنا اصغر بن حسین میں حضرت حاجی محمد عثمان کی اجازت سے تعلیم کا سلسلہ شروع کیا تو مولانا سندھی کی انقلابی تفسیرپڑھاتا تھا۔ جب حاجی محمد عثمان کے خلفاء نے سازش کرکے حاجی صاحب کو اپنے گھر میں نظر بند کیا تھا تو ہمیں نہیں پتہ تھا لیکن اس دوران میں مولانا عبیداللہ سندھی کی قبر پر دین پور خان پور گیا اور انقلاب کی دعا مانگی تھی اور انقلاب کا عزم کیا تھا۔ پھر مجلس احراراسلام، مجلس تحفظ ختم نبوت، انجمن سپاہ صحابہ کے مولانا حق نواز جھنگوی ،مولانا فضل الرحمن اور مولانا عبدالمجید ندیم کے دوست فیض محمد شاہین لیہ پنجاب سے مشورہ کیا تو انہوں نے کہا کہ نئی تحریک سے علماء دیوبند کی محنت کو آگے بڑھایا جائے۔ میرا کہنا یہ تھا کہ اکابر نے اپنے کسی مخصوص مکتبۂ فکر کیلئے قربانی نہیں دی تھی بلکہ اسلام اور مسلمانوں کے نمائندے تھے۔ ہم نے ان کو بھی فرقہ، مسلک اور مکتب بناکر بیڑہ غرق کیا ہے۔ پھر سوچا کہ جنت کا سب سے مختصر راستہ جہاد ہے اور افغانستان گیا۔
جب وہاں حرکة الجہادالاسلامی کے کمانڈروں نے پوچھ گچھ کی تو پھر میں نے بھی پوچھ لیا کہ آخر یہ تحقیق کیوں؟۔ انہوں نے بتایا کہ یہاں بہت سارے امریکی ایجنٹ ہیں ، جماعت اسلامی اور گل بدین حکمتیار سے لیکر کسی کو نہیں چھوڑا۔ میں نے کہا کہ پھر تو ایک طرف امریکہ اور دوسری طرف روس ہے؟۔ انہوں نے کہا کہ بات تو یہ یہی ہے ۔ میں نے کہا کہ پھر بہتر نہیں کہ قبائلی علاقوں کو اسلامی خلافت بناکر دونوں سے لڑیں۔ حاجی عثمان صاحب ہمارے مرشد ہیں۔ بڑے فوجی افسران اور مدارس کے اساتذہ بھی ان کے مرید ہیں۔ ایک اعتماد کا رشتہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ تو زبردست بات ہے۔ اور مجھے افغانستان سے پاکستان اسپیشل پہنچا بھی دیا۔ لیکن جب میں کراچی آیا تو پتہ چلا کہ حاجی صاحب کو بند کیا گیا تھا اور ان پر فتوے بھی لگ چکے ہیں۔میں نے اس سے پہلے وزیرستان کے طلبہ کی تنظیم جمعیت اعلاء کلمة الحق کے نام سے بنائی تھی اور اسکی وجہ سے تحریک طالبان بیت اللہ محسود کے ترجمان مولانامحمدامیرنے کہا تھا کہ” آپ نے ہمیں انقلاب پر لگادیا اور جب وقت آیا تو اب آپ پیچھے ہٹ گئے ، ہم آئی ایس آئی (ISI)کے نہیںہیں”۔ میں نے کہا کہ آئی ایس آئی (ISI)کے ہو تب بھی ساتھ دوں گا لیکن یہ مجھے امریکہ ہی کا ایجنڈہ لگتا ہے کیونکہ جو پمفلٹ چھپوایا تھا وہ امریکہ ہی کا ایجنڈہ ہوسکتا تھا۔
مولانا سندھی یوں ترجمہ وتفسیر کرتے کہ ” قسم ہے اس انقلابی جماعت کی جس کی وجہ سے کافروں کے چہرے غبار آلود ہونے والے ہیں۔ پس وہ جماعت جس نے انقلاب کا بارآور بوجھ اٹھا رکھا ہے، جس کی تحریک آسانی کیساتھ جاری ہے۔ جس کی وجہ سے رب کائنات نے کافروں اور مؤمنوں کی تقسیم کا فیصلہ کردیا ہے اور بیشک جو تم سے اللہ نے غلبے کا و عدہ کررکھا ہے وہ سچا ہے۔ اور بیشک جزائے اعمال کا بدلہ مل چکا ہے (فتح مکہ کے دن سے پہلے کی خوشخبری)۔ قسم ہے اس آسمان کی جو رنگ بدلتا رہتا ہے کہ تم لوگ حق کے قول میں مختلف ہو۔ وہی برگشتہ ہے جو پھرا ہواہے۔ مارے گئے قیاس وگمان سے حکم لگانے والے۔ جو جہالت وغفلت میں مدہوش ہیں۔ اس انقلابی دن کے وقت وہ آگ پرفتنے میں پڑیںگے۔پس چکھو اپنے فتنے کو۔ یہ وہی تو ہے جس کو جلد طلب کررہے تھے۔ بیشک پرہیزگار لوگ باغات اور چشموں میں ہونگے۔ وہ ان باغات اور چشموں کو خوشی سے لیںگے کہ ان کے رب کی دَین ہے۔بیشک اس سے پہلے یہ احسان کرنے والے تھے۔ وہ راتوں کو کم ہی سوتے تھے اور پچھلے پہر اللہ سے استفار کرتے تھے۔ ان کے مال میں مانگنے والوں اور محروم طبقے کا حصہ ہوتا تھا۔ اور زمین میں یقین کرنے والوں کیلئے بڑی نشانیاں ہیںاور تمہارے نفسوں میں بھی کیا تم دیکھ نہیں رہے ہو؟”۔
یہ سورۂ ذاریات کی ابتدائی آیات ہیں۔ پھر حضرت ابراہیم کا تذکرہ ہے کہ جب فرشتوں سے خوفزدہ ہوگئے اور جب فرشتوں نے بڑی عمر کے باوجود بیٹے کی خوشخبری سنائی تو آپ کی بیوی چیختی ہوئی آگے بڑھی اور اپنے منہ پر ہاتھ مارا ۔ کہنے لگی کہ بوڑھی بانجھ۔
آگے اللہ نے فرمایا:” اور آسمان کو ہم نے ہاتھ سے بنایا اوربیشک ہم وسعت دے رہے ہیں۔اور ہم نے زمین کو فرش بنادیا اور ہم اچھا جھولا جھلا تے ہیں۔ اور ہم نے ہر چیز کو پیدا کرکے جوڑے بنائے۔ ہوسکتا ہے کہ تم نصیحت حاصل کرلو۔ پس گمراہی کے ماحول سے اللہ کی طرف فرار ہوجاؤ۔ بیشک میں اس کی طرف سے تمہارے لئے کھلم کھلا ڈرانے والا ہوں۔ اور اللہ کیساتھ کسی اور کو معبود مت بناؤ۔ میں ہی بیشک اس کی طرف کھلم کھلا ڈرانے والا ہوں۔ اس طرح اس سے پہلے جن لوگوں کے پاس کوئی رسول آیا تو وہ لوگ کہتے تھے کہ جادوگر اور پاگل ہے۔ کیا انہوں نے یہ اس بات کی وصیت کررکھی ہے بلکہ وہ قوم ہیں سرکش۔پس (اے نبی!) ان سے رُخ پھیر دو۔آپ پر کوئی ملامت نہیں ہے۔ اور اپنی نصیحت جاری رکھیں کیونکہ واعظ سے مؤمنوں کو نفع پہنچتا ہے۔ اور ہم نے انسانوں اور جنات کو پیدا نہیں کیا مگر تاکہ عبادت کریں۔ مجھے ان سے روزی کی چاہت نہیں اور نہ کھلانے کی چاہت ہے ۔ بیشک اللہ بہت روزی دینے والامضبوط قوت والاہے پس ان لوگوں کیلئے جنہوں نے ظلم کرکے بوجھ اُٹھائے ہیںجس طرح ان کے پیشرو ساتھیوں نے بوجھ اُٹھائے تھے ، پس یہ جلدی نہ مچائیں۔ پس ہلاکت ہے جن لوگوں نے اپنے دن سے انکار کیا ،جس دن کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا۔ (سورۂ ذاریات آخری رکوع)
پہلے انبیاء کی قوموں نے اپنے اپنے دور میں حساب اور جزا کا دن دنیا میں دیکھ لیا تھا اور جب مکہ فتح ہوا تو اہل مکہ نے بھی دیکھ لیا۔ ابوجہل، ابولہب اور بڑے بڑے سردار انجام کو پہنچ گئے تھے۔ ابوسفیان ، ہند اور عکرمہ بن ابوجہل وغیرہ نے اسلام قبول کرلیا۔ پھر مسلمانوں نے ایک طویل عرصہ تک باغات کے مزے اُڑائے تھے۔
سورۂ ذاریات کے بعد قرآن میں سورۂ طور ہے۔ جس سے حقائق پیش کرنے تھے اور اس کیلئے سورۂ ذاریات سے کچھ معاملات مقدمہ کے طور پیش کئے ہیں۔ سورۂ ذاریات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر کچھ تفصیل سے ہے جسکا مقصد مشرکینِ مکہ کو متوجہ کرنا ہوسکتا ہے کیونکہ اہل مکہ کے ہاں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کے بعد کوئی نبی نہیں آئے۔ اجمالی ذکر حضرت نوح کا بھی ہے۔ ہندوستان کے ہندو سمجھتے ہیں کہ وہ نوح کی قوم ہیں۔اسلام کی نشاة اول میں حضرت ابراہیم کی قوم نے اہم کردار ادا کیا تھا اور اسلام کی نشاة ثانیہ میں ہندوستان کے ہندو بہت اہم کردار ادا کریںگے ۔ جب مسلمان خود ہی دیوبندی ، بریلوی، اہلحدیث اور شیعہ میں تقسیم ہیں تو پھر بھارت کے ہندوؤں کو اسلامی تعلیمات سے کیسے آگاہ کیا جاسکتا ہے؟۔
موسیٰ علیہ السلام کو یہود ونصاریٰ مانتے ہیں۔ ہزاروں انبیاء بنی اسرائیل میں مبعوث ہوئے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ مولوی اور دانشور طبقہ لڑرہا ہے کہ اللہ نے مسجد اقصیٰ کی زیارت میں جو مشاہدہ کرایا وہ خواب میں تھا یا بیداری میں؟۔ سیدابولاعلیٰ مودودی سے جاویداحمد غامدی کا اختلاف ہے۔ ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ ٹی وی کے چینلوں پر غامدی کو دیکھ رہاہے کہ کون کون سے الجھے ہوئے مسائل کا حل نکال رہاہے لیکن دنیا کو یہ نہیں بتایا جارہاہے کہ اللہ نے مسجد اقصیٰ میں کیا دکھایا تھا؟۔ حرم کعبہ میں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ کے برابر ہے اور بیت المقدس میں پچاس (50) ہزار کے برابر ہے۔ تو مسجد اقصیٰ میں اللہ نے کیا دکھایا تھا؟۔ جاوید غامدی کا عجیب دماغ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی پہلی آیت کے بعد اس میں معاملے پر سکوت اختیار کرلیا۔ پھرساٹھ (60) ویں آیات میں بتایا کہ یہ خوا ب تھا جو ہم نے دکھایا جس کو لوگوں کیلئے آزمائش بنادیا۔ یہ کونسی آزمائش ہے کہ بیداری ہے یا خواب؟۔
حالانکہ اللہ تعالیٰ نے دومرتبہ بنی اسرائیل کے فساد اور بڑائی کے دعوؤں کو زمین بوس کرنے کی زبردست وضاحت فرمائی ہے اور نبیۖ کو یہی تو دکھایا تھا۔ دنیا نے دیکھ لیا کہ قیصر روم کی سپر طاقت کو بھی شکست دی تھی اور آج پھر بنی اسرائیل پر نعمتوں کی بارش ہے لیکن انہوں نے پھر انسانیت کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے اور عنقریب اللہ نے ہی اپنی قدرت سے ان کے غرور کو خاک میں ملانا ہے۔ سورہ حدید میں بھی دوسری مرتبہ کا پھر سے ذکر ہے۔ اگر مسلمان اپنا ایجنڈہ دنیا کو دکھادیں کہ ہم نے لوہے کو اسٹیل مل کا کباڑ خانہ بھی نہیں بنانا ہے اور دنیا میں بھی تباہی نہیں مچانی ہے تو بات بن جائے۔
اللہ تعالیٰ نے مکہ ومدینہ کے کفار ومنافقین کو واصل جہنم کرنے کے بعد مسلمانوں پر فتوحات کے دروازے کھول دئیے تھے۔ سورۂ طور میں اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے کہ
ان المتقین فی جنّٰتٍ وعیونOفٰکھین بما اٰتٰھم ربھم ووقٰھم ربھم عذاب الجحیمٍOکلواواشربواھنیئًا بما کنتم تعملونOمتکین علی سررٍ مصفوفةٍ وزجنٰھم بحورعینٍOوالذین اٰمنوا واتبعتھم ذریتھم بایمان الحقنا بھم ذریتھم و ماالتنٰھم من عملھم من شی ئٍ کل امریٍٔ بما کسبت رھینOوامددنھم بفاکھةٍ ولحمٍ ممایشھونOیتنازعون فیھا کأسًا لا لغو فیھا ولاتأثیمOو یطوف علیھم غلمان لھم کانھم لؤلؤ مکنونOواقبل بعضھم علی بعضٍ یتسآء لونOقالوا انا کنا قبل فی اہلنامشفقینOفمن اللہ علینا و وقٰنا عذاب السمومOانا کنا من قبل ندعوہ انہ ھو البرالرحیم
”بیشک پرہیزگارلوگ باغات اور چشموں میں ہونگے۔ پس وہ خوش ہونگے جو انکے رب نے ان کو عطاء کیا ہے۔ اور ان کے رب نے جحیم کے عذاب سے بچایا ہے۔ کھاؤ پیو مزے سے بسبب جو تم عمل کرتے تھے۔ بیٹھے ہوں گے صفوں میں چارپائیوں پر اور ہم نے ان کی موٹی آنکھوں والی شہری عورتوں سے شادی کرائی۔ اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولادوں نے ان کی اتباع کی اپنے ایمان کیساتھ ان کے ساتھ ملادیا ان کی اولاد کو ۔ ہم انکے اعمال میں سے کوئی چیز کم نہ کرینگے۔ ہر شخص (انفرادی طور پر)اپنے عمل کا رہین ہے۔اور ہم نے (اجماعی حیثیت سے) ان کی مدد کی پھلوں سے اور گوشت سے جو وہ چاہتے تھے۔ وہ تنازع کریںگے پیالوں پر مگر یہ لغو اور گناہ نہیں ہوگا۔ ان کی خدمت پر لڑکے گھوم رہے ہونگے گویا وہ چھپے موتی تھے۔ وہ بعض ان میں سے بعض پر پیش کرینگے، ایک دوسرے سے پوچھیں گے۔ وہ کہیں گے کہ ہم اس سے پہلے اپنوں میں بہت مشکلات میں تھے تو اللہ نے ہمارے اوپر احسان کیا۔ اور ہمیں گرم ہواؤں سے نجات دیدی۔ بیشک ہم پہلے بھی اس کو پکارتے تھے۔ بیشک وہ بڑا محسن رحیم ہے”۔ (آیات 17تا28سورۂ طور )
جو روانی کیساتھ عربی کی تھوڑی بہت سمجھ بوجھ رکھتا ہے وہ قرآن کی تلاوت سے آخرت کے بجائے دنیا میں ہی قرونِ اولیٰ کے ادوار میں مسلمانوں کی اجتماعی خوشحالی کا معاملہ سمجھنے میں دیر نہیں لگائے گا کیونکہ بعض چیزوں سے تو آخرت مراد لینا ممکن نہیں ہے۔ جب مدینہ میں مہاجرین کے دل فطری طور پر اپنے عزیز واقارب کی طرف مائل تھے ۔ ایک بدری صحابی نے اہل مکہ کو خط بھی لکھا تھا جو پکڑا گیا تھا۔ جس پر تنبیہ بھی آئی اور پھر آخر میں اللہ نے یہ مژدہ بھی سنادیا کہ عنقریب سب رشتہ دار مل جائیں گے۔ اور پھر ایسا ہی فتح مکہ کے بعد ہوا تھا لیکن اس دوران جو بڑے بڑے جاہل اور ہٹ دھرم تھے وہ اپنے انجام کو پہنچ گئے تھے اسلئے جس طرح قرآن نے پہلے سے خبر دے رکھی تھی اسی طرح سے ہوا اور پھر مسلمان نسل در نسل خوشحال رہے۔ البتہ انفرادی معاملات سب کے اپنے اپنے تھے انکے ایمان اور اعمال کے حساب سے۔ جب اللہ نے ہر چیز میں جوڑے بنارکھے ہیں تو پھر بھینس اور بیل کا جوڑا نہیں ہوسکتا۔ انسان کا جن و پری سے جوڑا نہیں بن سکتا ہے۔
ان آیات میں غلمان کا ذکر ہے جو چھپے ہوئے موتی کی طرح ہونگے۔ جب انسان میں اچھی صفات ہوتی ہیں اور ایسے ماحول سے نکلتا ہے جہاں اس کی صلاحیتیں مخفی ہوتی ہیں تو چھپا ہوا ہیرا کہلاتا ہے۔ مختلف قوموں سے سلمان فارسی، صہیبِ رومی ، بلال حبشی کی طرح محمود غزنوی کے غلام ایاز کی طرح مسلمانوں نے صدیوں چھپے ہوئے ہیرے ایک دوسرے کو تحفہ کے طور پر پیش کئے ہیں۔
قرآن کے ذریعے پہلے جو انقلاب برپا ہوا تھا ،اس سے زیادہ آج کے دور میںبھی انقلاب برپا ہوسکتا ہے اسلئے کہ آج دنیا میں اعلیٰ اقدار کو خوشی کیساتھ قبول کیا جاتا ہے۔ہم نے عوام کو قرآن کی طرف متوجہ کیا تو قوم زوال سے بہت جلد عروج پالے گی ۔انشاء اللہ

NAWISHTA E DIWAR February BreakingNews Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat