پوسٹ تلاش کریں

خلافت،اسلام ، جمہوریت، اقدار اور شدت پسندیاں

such-tv-tehreek-e-khilafat-maulana-abul-kalam-azad-liaquat-ali-khan-shaykh-ul-islam-ptm-ahle-bait-fatawa-alamgiri-khilafat-e-usmania-ameer-muawiya-maulana-fazal-ur-rehman-fatawa-alamgiri

ایک مذہبی شدت پسندی ہے اور دوسری لسانی شدت پسندی ہے۔پختون خواہ میں مذہبی اور بلوچستان میں لسانی شدت پسندی کا بیج کس نے بویا؟۔ اس حقیقت سے انکار کی گنجائش نہیں کہ بے اصولی اور محرومی شدت پسندانہ جذبوں کو فروغ دیتے ہیں۔ مفتی محمود ؒ اگر سرحد کے وزیراعلیٰ بننے کے بجائے ولی خان کو ہی وزیراعلیٰ بننے دیتے توپختون خواہ میں باچا خان کا نظریہ عوام پر غالب رہتا۔ اس طرح بلوچستان کا وزیراعلیٰ عطاء اللہ مینگل کے بجائے کوئی عالم دین ہوتا تو اب بلوچستان میں پختون اور بلوچ دونوں بیلٹوں میں مذہبی طبقہ حکمرانی کرتا۔ ایک طرف ناجائز حکومت دینے سے بلوچوں کے اندر شدت پسند پیدا ہوگئے ،دوسری طرف پختونوں میں طالب دہشت گرد پیدا ہوگئے۔ خاندانوں کو فائدہ پہنچالیکن عوام شدت پسندوں کے ناجائز نرغوں اور پروپیگنڈے کا شکار ہوگئے۔ علماء کرام بلوچستان میں اپنے مینڈیٹ کیساتھ حکومت کرتے اور سرحد میں قوم پرست اپنے مینڈیٹ کیساتھ حکومت کرتے تو ذوالفقار علی بھٹو کو عوامی حکومت کیساتھ کھیلنے کی اجازت بھی کوئی نہ دیتا۔ اصولوں کی دعویدار بے اصول لوگوں کی اولادیں ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنا جانشین نامزد کرنا چاہا تو حدیث قرطاس کی وجہ سے روک دیا۔ اللہ تعالیٰ نے جمہوریت کے ذریعہ انسانیت پر رحم کرنا تھا اسلئے رسول اللہ ﷺ کو مردوں میں سے کسی کا باپ نہ بنایا۔ نرینہ اولاد کو بچپن میں اٹھالیا ۔پہلی خلافت کیلئے انصارؓ و مہاجرینؓ کے درمیان چپقلش ہوئی ۔جمہور انصارؓ پھر قریشؓ کے حق میں دستبردارہوئے۔ حضرت ابوبکرؓ کیلئے پہل ہوئی تو جمہور نے تائید کی تھی اور اہلبیتؓ نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ پھر حضرت عمرؓ جب نامزد ہوئے تو جمہور صحابہؓ نے تائید کردی، چاہتے تو حدیث قرطاس کیطرح راستہ روکا جاسکتا تھا اور حضرت عمرؓ نے چھ افراد کی شوریٰ مقرر کردی۔ دو تین دن تک نتیجے پر نہ پہنچ سکے تو حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے کہا کہ مجھے اختیار دیدو تو مسئلہ حل کردونگا، سب نے اتفاق کیا تو آپؓ نے فرمایا کہ تین افراد اپنے ساتھیوں کیلئے دستبردار ہوجاؤ تو مسئلہ آسان ہوگا۔ ایک فوراً حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کے حق میں دستبردار ہوا، دوسرا حضرت علیؓ ،تیسرا حضرت عثمانؓ کے حق میں دستبردار ہوا۔ حضرت ابن عوفؓ خود حضرت علیؓ اور حضرت عثمانؓ کے حق میں دستبردار ہوگئے۔ دونوں میں انتخاب ہوا تو حضرت عثمانؓ کے حق میں زیادہ ووٹ پڑے ،اسلئے منتخب ہوگئے۔
جمہوری نظام ہوتا تو اکثریت کی بنیاد پر منتخب ہونیوالے حضرت عثمانؓمطالبہ پر الیکشن کراتے اور شہید نہ ہوتے۔ حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کے درمیان جنگیں ہوئیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓنے افسوس کا اظہار کیا تھا کہ مجھے غیرجانبدار ہونے کے بجائے حضرت علیؓ کا ساتھ دینا چاہیے تھا، جبکہ حضرت عمرؓکے ایک بیٹے حضرت معاویہؓ کے ساتھ تھے۔ حضرت امام حسنؓ نے صلح کرکے معاہدہ کیا کہ جانشین مجھے بنایا جائیگا۔ حضرت حسنؓ کی وفات ہوئی ۔ حضرت معاویہؓ نے یزید کو جانشین نامزد کردیا۔ حکومت مضبوط تھی ۔حکومت کے زور پر یزید نے خود کو مستحکم کیا۔ حضرت حسینؓ نے کوفہ والوں کے اعتماد پرکربلا کا سفر کیا جس کو آج بھی ماتم زنی کے ذریعے سے یادگار بنایا جارہا ہے۔
یزیدکی وفات کے بعد اس کا بیٹا معاویہ تخت پر بیٹھامگرضمیر نے گورا نہیں کیا۔ چالیس دن کے اندر استعفیٰ دیدیا۔ جماعتیں عوام کی امانت ہوتی ہیں لیکن موروثی جماعتوں کی حیثیت یزید کے بیٹے حضرت معاویہؒ کے مقابلے میں کتنی خستہ حال دکھائی دیتی ہیں؟۔ خانقاہوں کے سجادہ نشین ، مدارس کے ارباب اہتمام ، مذہبی جماعتوں کے خانوادے یزید کے بیٹے معاویہؒ کے سامنے آخرت میں شرمندہ اپنا سر اٹھانے کے قابل نہ ہونگے،سیاست ومذہب کو منافع بخش تجارت بنالیاہے۔
بنی امیہ، بنی عباس کے بعد خلافت عثمانیہ نے بھی خاندانی اقتدار کو قائم رکھا۔ اسلام کو بھکشو قسم کے لوگوں کے حوالے کیا گیا۔ قرآن میں حکومت سے متعلق بہت واضح احکام ہیں۔ فتاویٰ عالمگیریہ کو 5 سو علماء کرام نے مرتب کیا تھا، حضرت شاہ ولی اللہؒ کے والد شاہ عبدالرحیمؒ بھی ان میں شریک تھے۔ فتویٰ عالمگیریہ میں بادشاہ کیلئے چوری، قتل، زنا، ڈکیتی اور کسی بھی طرح کی کوئی حد نہیں ہے اسلئے کہ بادشاہ تو خود یہ کام کرتا ہے کوئی دوسرا یہ حد اس پر کیسے جاری کریگا؟۔ خلافت راشدہؓ میں حضرت علیؓ نے یہودی کیخلاف عدالت کے دروازے پر دستک دی ۔ فیصلہ آپؓ کیخلاف آگیا تھا۔ دہشت گردوں نے حضرت علیؓ کوپھر بھی شہید کردیا تھا۔
ایک ایسی بنیادی جمہوری جماعت کی ضرورت ہے جو دنیا میں اسلامی نظام کو بحال کردے، اسرائیل اور کشمیر سمیت دنیا بھر کے مظالم کو روک دے۔ اس کیلئے تین تین افراد اور چھ چھ افراد کے گروپ تشکیل دئیے جائیں۔ صوبائی اسمبلی کیلئے تین تین اور قومی اسمبلی کیلئے چھ چھ افراد سے رکن سازی کی جائے۔مثلاً صوبائی میں 3افراد کا ایک امیر ہوگا اور پھر9افراد کا ایک امیر ہوگا، پھر27افراد کا ایک امیر ہوگا۔ پھر81افراد کا ایک امیر ہوگا۔ پھر 243کا ایک امیر ہوگا۔ ہر عدد کو 3سے ضرب دیتے ہوئے ایک صوبائی اسمبلی میں کامیابی کیلئے زیادہ سے زیادہ افراد کی رکن سازی، تنظیم سازی اور تربیت پر بھرپور توجہ دے جائے۔ قومی اسمبلی کی نشست کیلئے 6افراد کا ایک امیر ہوگا۔ پھر36افراد کا ایک امیر ہوگا۔216 افراد کا ایک امیر ہوگا۔ پھر1296کا ایک امیر ہوگا۔ ہر گروپ کو3اور6سے ایک ایک مرتبہ ضرب دے کر مطلوبہ تعداد تک پہنچنے میں آسانی ہوگی۔
بنیادی افراد سے استصوابِ رائے کے بعد قیادت آئیگی توبھی وزیراعظم کی حیثیت ایک وزیر کی ہوگی اور براہِ راست عوام کے ووٹوں سے صدر کا انتخاب ہوگااور اختیارات کا آخری منبع بھی وہی ہوگا۔ مقصد عالمی سطح پرنظام خلافت ہے اور پوری دنیا کے مسلمان اپنے اپنے ممالک میں قانون وآئین کا احترام کرتے ہوئے دنیا کو ایکدوسرے قریب لانے میں اپنا خوشگوار کردار ادا کرینگے۔ شدت پسندوں کو بھی یہ سمجھا دینگے کہ اسلام قانون سازی کا سبق دیتا ہے، قانون شکنی نہیں سکھاتا ہے۔اولی الامر سے مراد بھی قانون شناس ، قانون دان اور قانون کے پاسدار ہیں۔ قائداعظم محمد علی جناح کو کامیابی اسلئے ملی کہ وہ قانون دان تھے۔ قانون شناسوں نے ساتھ دیا اور قانون کے پاسدار وں نے کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کی۔اسلام کا مستقبل روشن ہے ،قانون کی حکمرانی سے دنیاکو فتح کرینگے۔
منشور کے نکات واضح اور دو ٹوک ہونگے۔ اسلام کی بنیادی تعلیم سے قرآنی آیات اور احادیث صحیحہ مرتب کرکے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی بھرپور کوشش ہوگی اور فرقہ وارانہ منافرت، شدت پسندی، قوم پرستی، علاقہ پرستی ، لسان پرستی اور ہر قسم کے تعصبات سے عوام کو نکالا جائیگا۔ آئین میں رہ کر وہ قانون سازی کی جائے گی کہ موجودہ ریاست کایہ بوسیدہ ڈھانچہ معاشرے میں مؤثر کردار ادا کرے۔ پانی،بجلی، تعلیم، صحت، بیروزگاری ، غربت اورتمام بنیادی اور ضروری مسائل کے حل کیلئے عوام کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرکے ایک مفید معاشرہ تشکیل دیا جائیگا۔ جس کی روشنی پاکستان سے نکل کر پوری دنیا میں پھیلے گی۔ انشاء اللہ العزیز عتیق گیلانی

پی ٹی ایم اگر مظلوم تحفظ موومنٹ ہوتی تو اقتدار میں آتی

general-zia-ul-haq-zulfiqar-ali-bhutto-mrd-murtaza-bhutto-mufti-mehmood-ghulam-ghaus-hazarvi-islami-referendum-ayub-khan-establishment-ptm

بانی پیپلزپارٹی ذوالفقار بھٹو نے جنرل ایوب کے ہاں سیاسی پرورش پائی ۔ آزادانہ انتخاب کے نتیجے میں پاکستان دو لخت ہوا۔ مجیب الرحمن کو اقتدار نہ دیا گیا تو بنگلہ دیش میں بغاوت پیدا ہوئی یا پھر اقتدار مل جاتا تو بنگلہ دیش کو الگ کرنا تھا؟ یہ الگ بحث ہے۔ کہا یہ جارہاہے کہ فوج اور سیاستدان خود ہی بنگلہ دیش سے جان چھڑانے کیلئے کوشاں تھے۔ مجیب کے چھ نکات بھی خود بناکردئیے تھے۔ 65ء کی جنگ میں بھی اپنوں کی سازش پر بھارت چڑھائی کرکے آیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے مسلم اتحاد کیلئے آغاز کیا مگر سیاسی حریفوں کو انتقام کا نشانہ بنایا اور اپنا اقتدار قائم کرنے کیلئے دھاندلی کا سہارا لیا، جنرل ضیاء نے جمہوریت کو بھٹو سمیت کچلا، نوازشریف کاطویل المدت تجربہ ہے۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نے باری باری اقتدار سنبھالا اور تحریک انصاف کو اقتدار مل گیا یا اقتدار میں لایا گیا ؟۔ دونوں باتوں کی اپنی اپنی جگہ اہمیت ہے۔ جس مسلم لیگ کیخلاف ولی خان لڑائی لڑ رہے تھے، ولی خان مرحوم نے لیگ سے اتحاد کیا تو ان کی نظریاتی سیاست ختم ہوگئی۔ مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی نے ن لیگ کیساتھ اتحاد کرکے نظریہ دفن کیا۔ جن کیخلاف کھڑے تھے ان کی گود میں بیٹھنے کے بعدکہنے کیلئے کچھ نہ رہا۔
عمران خان نظریاتی نہیں، کھلاڑی نے میدان اسلئے مار دیا کہ ن لیگ نے اسٹیبلشمنٹ کیساتھ مل کر جو بیانیہ زرداری کیخلاف تیار کیا، اسکے دلدل میں خود بھی پھنس گئی ۔ ایم کیوایم نے قائد الطاف سے مجبوری میں بغاوت کی ،جن رہنماؤں نے کٹھن حالات میں الطاف حسین کو نہ چھوڑا ، دیواروں پر نعرے لکھے کہ جس نے قائد کو بدلا اس نے باپ کو بدلا، برطانوی پولیس نے الطاف سے بڑی غیر قانونی رقوم برآمد کرلی، لیکن پھر بھی رہنماؤں کو بدعنوانی پر کارکنوں سے پٹوادیا۔ایم کیوایم نے قوم کو جس حال میں رکھا ، اگر فوج کا سخت گیر رویہ نہ ہوتا تو یہ آپس میں ایکدوسرے کی جان عذاب میں ڈالتے۔الیکشن میں کچھ تو نئے چہرے آتے۔
پاکستان میں متعدد لسانی اکائیاں ہیں، مذہبی افرادنے ایکدوسرے کیخلاف فرقہ وارانہ فصیلیں کھڑی کرکے مذہبی جماعتوں کو محدود کردیا ۔ اسلام کمزور اور فرقہ واریت طاقتور ہے۔ پاکستان اسلام کی بنیاد پر بنا، فرقوں نے نظریات کی طرف دھکیل دیا۔ جمعیت علماء ہند گانگریس اور جمعیت علماء اسلام مسلم لیگ کی دم چھلہ جماعتیں تھیں۔ مجلس احرار نے انگریز کیخلاف قربانیاں دیں اور پاکستان بنا توکشمیر جہاد کے حق میں اور قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی جدوجہد کی۔ اس وقت اسٹیبلشمنٹ اور سرکاری علماء ومشائخ نے انکا ساتھ نہ دیا ۔ جن لوگوں نے ساتھ دیا ،ان کو بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
پشتون تحفظ موومنٹ کی قوم پرستی سے نظریاتی اختلاف ہوسکتا ہے لیکن ایجنٹ کا الزام لگانے سے پرہیز کیا جائے۔ اگر وہ مظلوم تحفظ موومنٹ سے اپنی تحریک کا آغاز کرتے تو پاکستان بھر میں انکے مشن کو پذیرائی حاصل ہوسکتی تھی۔ فاطمہ جناح پر بھی غداری کا الزام لگا اور مادرملت فاطمہ جناح کے فرزندوں کو اس ماں کے دوپٹے میں چھپ کر کسی پر غداری کا الزام لگانے میں شرم کرنی چاہیے جس پر فوجیوں نے غداری کا الزام لگایا تھا۔ تحریک انصاف کے علاوہ عوام کے پاس کوئی دوسری چوائس نہ تھی۔ اسٹیبلشمنٹ کی بھی پوری ہمدردیاں پی ٹی آئی کیساتھ تھیں۔ پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی متبادل ملٹی نیشنل کمپنی اب صرف تحریک انصاف ہے۔ اشتہارات سے ملٹی نیشنل کمپنی جس طرح اپنی مارکیٹنگ سے دھاک بٹھا دیتی ہے وہ دیسی کمپنیوں کی اوقات نہیں ہوتی ،اسی طرح ملٹی نیشنل سیاسی جماعت بھی اپنا مقام پیدا کرتی ہے۔ یہ قوم کی ضرورت و مجبوری بھی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کو جب دوسروں کی وفاداری پر یقین نہ ہوگا اور تحریک انصاف شفاف انداز میں واحد قومی سیاسی جماعت کا کردار ادا کرنے کی یقین دہانی کرائے گی تو اسٹیبلشمنٹ اسی کو سپورٹ کریگی۔الزامات لگیں نہ لگیں مگر فضاء ایک ہی ہے۔
بے خودی کو کر بلند اپنا کہ ہر الیکشن سے پہلے
تیری اوقات سے زیادہ سیٹوں کی بھرمار مل جائے
جسطرح نسوار، سگریٹ، چرس، کوکین، ہیروئن، حقہ،بھنگ، افیون اور دیگر نشہ آور اشیاء کی علت ماحول سے پڑ جاتی ہے ،اسی طرح اشتہارات کا ماحول ملٹی نیشنل کمپنیوں کی چیزوں کو معاشرے میں مقبول کردیتا ہے۔ تحریک انصاف نے اشہارات، ٹی وی چینلوں اور مقابلے میں کسی دوسری اچھی جماعت نہ ہونیکی بنیاد پر صرف اپنے بل بوتے پر کامیابی اسلئے حاصل نہ کی کہ پرانے چورن کووہ نئی پیکنگ میں بیچ رہی تھی۔ سمجھ دار لوگ اپنے پرانے اسٹاک پر گزارہ کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ بلاول بھٹو زرداری کا نظریہ بھی اسکے نام کی طرح مکس تھا۔ جیل میں بند نوازشریف کے بارے میں لوگوں کو یقین تھا کہ اسٹیبلشمنٹ سے کسی نظریاتی جنگ پر نہیں بلکہ اپنے کرپشن کے مقدمات میں محصور ہوگیا ہے۔
ایک آواز بہت واضح تھی جس کو میڈیا نے بالکل نظر انداز کیا لیکن سوشل میڈیا نے اس کو کچھ نہ کچھ پذیرائی ضرور بخشی۔شمالی اور جنوبی وزیرستان سے PTM کے محسن داوڑ اور علی وزیر نے اپنی قومی اسمبلی کی نشستیں جیت لی ہیں۔ بعض چینل پر بیٹھ کر صحافی کہتے ہیں کہ پشتونوں نے غداروں کی سیاست ختم کردی ۔ محمود خان اچکزئی ، اسفندیارولی، مولانا فضل الرحمن، سراج الحق سب کو شکست دیکر تحریکِ انصاف کو بھاری اکثریت سے جتوادیا ۔ کیا ہم کہہ سکتے ہیں اگر وہ بھی PTMکی طرح کھل کر آواز بلند کرتے تو وہ بھی کامیاب ہوجاتے؟۔ ایسے کم عقل صحافی دانشور نہیں بلکہ گویے،بک بک ،چرب زبانی اور کرایے کے پالشی و مالشی ہیں جنکا مال مسالہ نہیں بکتا اور ملک کو بہت زیادہ نقصان پہنچا رہے ہیں۔
چند چینل، صحافی اور فوج کے ریٹائرڈ افسران کھل کر تحریک انصاف و دھاندلی کی حمایت نہ کرتے تو فوج الزامات کی اس طرح سے لپیٹ میں بھی نہ آتی۔ اس سے ملک وقوم کا زبردست نقصان ہے کہ یہ تأثر عام کیا جائے کہ فوج کسی سیاسی جماعت کا ساتھ دے رہی ہے۔ سندھ کے ڈی جی اے، مصطفی کمال اور تحریک لبیک کے الزامات نے PTMکے نعروں سے زیادہ پاک فوج کو نقصان پہنچایا۔
فافن نے50قومی اسمبلی اورغالباً127 صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں بڑی بے قاعدگیوں کی رپوٹ دی ہے۔ ہنگ پارلیمنٹ کو بے قاعدگیوں سے دھکا نہ ملتا تو ہینگ ہوجاتا۔اور پھر بھی الزام خلائی مخلوق کے کھاتے میں جانا تھا۔ عمران خان کو چاہیے تھا کہ بیگم اور خواتین مزاج مردوں سے مشاورت کے بجائے واضح کہہ دے کہ پنجاب اور مرکز میں مجھے سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں۔ سینٹ کی طرح قومی اسمبلی میں بھی آزاد علی وزیریا محسن دواڑ کو وزیراعظم بنالیتے ہیں جبکہ پنجاب میں آزاد محسن جگنو کو وزیراعلیٰ بنادیتے ہیں۔ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی سپورٹ بھی حاصل کی جائے تو یہ قومی حکومت جمہوری انداز میں قانون اور اصول کو بالادست رکھ کر قومی مجرموں کو بلاامتیاز کٹہرے میں لاسکتی ہے۔ عسکری پارک کراچی کا جھولا چین سے خریدا کس نے تھا؟۔ جس نے ایک جان لی ۔ مجرم کو سزا ملنی چاہیے۔

اسٹیبلشمنٹ مخالف اور اسٹیبلشمنٹ سے ہمدردانہ بیانیہ

such-tv-tehreek-e-khilafat-maulana-abul-kalam-azad-liaquat-ali-khan-shaykh-ul-islam-ptm-ahle-bait-fatawa-alamgiri-khilafat-e-usmania-ameer-muawiya-maulana-fazal-ur-rehman-mustafa-kamal

برصغیر پاک وہند کا قبضہ انگریز اسٹیبلشمنٹ نے چھوڑا ۔ ووٹ کی طاقت سے اس کو تقسیم کیا ۔ MQM کے خالد مقبول صدیقی نے الیکشن مہم کی آخری تقریر میں کہا کہ ’’ قربانیاں مہاجروں مولانا محمد علی جوہر، مولانا حسرت موہانی،سر سید احمد ۔۔۔ نے دی اور فوائد انگریز کے بہترین غلاموں نے اٹھائے۔ بہترین غلام ہی بدترین حاکم ہوتا ہے۔ انگریز کے غلام ہم پر اقتدار کیلئے مسلط ہوگئے ہیں‘‘۔
سچ ٹی وی کے نصرت مرزا نے لکھاکہ ’’ برطانوی سامراج نے ملک کی تقسیم کو اپنے مفاد میں اسلئے سمجھا کہ مغربی پاکستان کے ذریعے روس کا رستہ روکناتھا‘‘۔ تحریک آزادی چل رہی تھی تو کانگریس و مسلم لیگ میدان میں تھے۔ اسفندیار ولی کے دادا باچا خان سرحدی گاندھی اور محمود اچکزئی کے والد عبد الصمد خان شہید بلوچستان کے گاندھی کہلاتے تھے۔ جمعیت علماء ہند کانگریس کی حامی جماعت تھی اور مولانا فضل الرحمن کے والد مفتی محمود کا نظریہ بھی جمعیت علماء ہند والا تھا ، بقول انکے پاکستان بنانے اور ہند کو تقسیم کرنے کے گناہ میں وہ شریک نہ تھے۔ سول و ملٹری بیوروکریسی کا نظریہ نہیں بلکہ ملک کی خدمت اور استحکام انکا فرض ہوتا ہے ۔ آزادی سے پہلے پاک وہند کی فوج ایک جان اور ایک قالب تھے۔ ہماری فوج انگریز کی غلام نہیں بلکہ انگریز حکمران تھا اور فوج اس کی ملازم تھی البتہ برصغیر پاک وہند پر انگریز کا قبضہ تھا اور اس میں مقامی فوج اور گورے ملازم ہوا کرتے تھے۔ پاکستان آزاد ہوا تو پہلے دو آرمی چیف انگریز تھے۔انگریز کیخلاف جن لوگوں نے قربانی دی، ان میں گانگریس ، جمعیت علماء ہند، تحریک خلافت، احرار،حر، خاکسار اور مرزا علی خان فقیر اے پی،وزیر محسودقبائل اور بلوچ وپنجابی قبائل شامل تھے۔
آزادی کیلئے برطانیہ نے جنگ عظیم میں جرمنی کی شکست کو شرط قرار دیا تو برصغیر کے مذہبی و سیاسی رہنماؤں کا اس پر اپنا اپنا مؤقف تھا۔ انگریز مخالف اور آزادی کیلئے قربانی دینے والے کھل کر جرمنی کیخلاف انگریز کی مدد کرنے میں کیا کردار ادا کرتے؟ جبکہ ان کو انگریز کیخلاف مالی سپورٹ بھی جرمنی کی طرف سے ملتی تھی؟۔جو انگریز کیخلاف عدمِ تشدد کی جنگ لڑرہے تھے وہ جرمنی کیخلاف جہاد کرنے کا اعلان نہیں کرسکتے تھے۔ برصغیر کی فوج آزادی کے جذبے سے گئی یا یہ ملازمت کی مجبوری تھی یاانعام واکرام کی طمع تھی جو غرض تھی سوتھی ۔ فوجیوں کا فلسفیانہ نہیں شارٹ کٹ دماغ ہوتا ہے، جرمنی کو شکست ہوئی تو انگریز نے برصغیر پاک وہند کو آزاد کرنے کا فیصلہ کیا۔ عدمِ تشدد کی تحریک انگریز کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی اسلئے کہ پردیسی حکمران کہہ سکتے تھے کہ ’’جب تم مقبوضہ ہوکر نہیں شرماتے تو ہم قابض ہوکر کس بات سے شرم کھائیں؟‘‘۔ ہمارے عزیز پیرکرم حیدر شاہ مرحوم فوج میں جرمنی سے لڑنے گئے تھے ۔ نیک ،سادہ اور پاکستان سے انتہائی محبت رکھتے تھے۔یورپ سے ٹیپ ریکارڈر لائے اور مولوی صاحب سے پوچھا کہ یہ ممکن ہے کہ آواز ٹیپ ہوسکے تو مولوی نے اس کو کفرکا فکرکہا۔ مولوی نے مشاہدہ کرلیا تو اس کو جادو قرار دیدیا۔ سائنس کی ترقی سے اسلام پر اثر نہیں پڑتا بلکہ مزید مضبوط ہوتاہے مگر مولوی کا خود ساختہ اسلام سائنسی علوم سے دباؤ میں ہے۔ مولانا فضل الرحمن سے سلیم صافی نے پوچھ لیا کہ ’’ تصویر جائز نہیں تو آپ کی محفل میں تصاویر ہیں؟‘‘۔ مولانا نے کہا کہ ’’ تصویر حرام ہے اور قطعی حرام ہے مگر بعض علماء نے کیمرے کی تصویر کے جواز کی گنجائش نکالی اور ہم اسکا فائدہ اُٹھاتے ہیں‘‘ مولانا فضل الرحمن اور شرکاء مجلس نے اس برجستہ جواب پر خوب قہقہہ بھی لگایا۔
مولانا ابوالکلام آزاد اور علامہ سید سلیمان ندویؒ نے پہلے کیمرے کی تصویر کو جائز قرار دیا اور پھر رجوع کرلیا۔ مولانا ابوالکلام آزادؒ نے اپنے ہاتھ سے پیر کرم حیدر شاہ مرحوم کو اپنی تفسیر ’’ترجمان القرآن ‘‘ کا نسخہ دستخط کرکے دیاتھا، بھارت میں کانگریس نے اقتدار سنبھالا تو وائس رائے ، سول و ملٹری بیوروکریسی کی بھاگ دوڑ میں ہاتھ نہ ڈالا۔ جمہوری لیڈرشپ کی وجہ سے آج تک جمہوری نظام وہاں مضبوط ہے۔ جبکہ پاکستان کی برسراقتدارسیاسی قیادت پہلے وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان نے اپنی بیگم رعنا لیاقت علی خان کو اعزازی طور پر درجہ اول کے فوجی جرنیلوں میں شامل کردیا ، سیاسی قیادت جمہوری نظام کی پوزیشن میں نہ تھی۔ جرمنی کی شکست اور آزادی کے بعد جن سیاسی جماعتوں کا نظریہ متحدہ ہندوستان تھا، ان کو غدار کہا جانے لگا۔ جرمنی کی مدد بند ہوچکی تھی، کانگریس وجمعیت علماء ہند کی قیادت بھارت تک محدود تھی، تقسیم کے بعد فوج پاک وہند میں میں بٹ گئی۔ مسلم لیگی قیادت اسٹیبلشمنٹ کے سہارے قائم تھی، وزیراعظم لیاقت علی خان کو شہید کیا گیا جنکا باقی مسلم لیگیوں سے یہ جھگڑا تھا کہ سرکاری عہدے کیساتھ مسلم لیگ کی صدارت کا عہدہ مت رکھو۔ جمہوریت کا دور دور بھی کوئی نام ونشان نہ تھا، پہلے سول بیوروکریسی کا قبضہ تھا پھر جنرل ایوب خان نے بنگال کے معروف غدار نواب میر جعفر کے پوتے سکندر مرزا کو صدارت سے ہٹایا اور اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ فوج براہِ راست اقتدار کررہی تھی تو وزیرخارجہ ذوالفقار علی بھٹو کو بنایا۔ جنرل ایوب خان نے بنیادی جمہوریت کیلئے AD اور BDکے ممبر بنائے تھے۔ فاطمہ جناح نے بھی صدارتی امیدوار کی حیثیت سے حصہ لیا تھالیکن مادرملت پر غداری اور غیرملکی آقاؤں کی ایجنٹ کے الزامات لگائے گئے تھے۔
آخر میں ایوب خان کو جمہوری قیادت کے ہاتھوں صدارت چھوڑ نا پڑی ۔ مولانا مودودیؒ نے فاطمہ جناح کا ساتھ دیا، مفتی محمودؒ غیر جانبدارتھے مگر مشہور تھا کہ مفتی محمود عائلی قوانین کے حق میں ووٹ ایک لاکھ روپے میں بیچا ، پھر بھٹو سے مفتی محمود اور مولانا غلام غوث ہزارویؒ کے علاوہ کسی بھی سیاسی جماعت کے رہنما نے اسلام آباد میں پلاٹ کو قبول نہیں کیا۔ سرحد میں نیپ کی اکثریت تھی اور بلوچستان میں جمعیت علماء اسلام کی اکثریت تھی۔ بے اصول سیاسی قیادت نے اقلیت کا وزیراعلیٰ مفتی محمودؒ اور سردار عطاء اللہ مینگل کو بنایا۔ بھٹو نے جمہوریت پر شبِ خون مارا، بلوچستان حکومت کو چلتا کردیا اور مفتی محمود کو جانا پڑگیا۔ سیاست اور مذہب کو مفادات کیلئے استعمال کرنے کا کھیل یزید اور پہلے شیخ الاسلام قاضی القضاۃ امام ابویوسف ؒ سے شروع ہوا تھا، رسول اللہﷺخودکو اسلام کا پیغمبر، نبی، رسول اور اللہ کا بندہ کہتے تھے، حلال حرام، فرض اور کسی چیز کی تخلیق میں کوئی کردار ادا نہیں کیا لیکن درباری علماء نے شیخ الاسلام کے القاب بھی اپنانے شروع کیے۔ مزارعت سے لیکر سودی نظام تک اسلام کو مسخ کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہے تویہ شیخ الاسلامی ہے۔ نبیﷺ نے اسلام کے اجنبی ہونے کی پیش گوئی فرمائی تھی۔
مرحومین علماء ومفتیان کیساتھ رح کانشان اس وجہ سے ضروری ہے کہ اسکے بغیر پتہ نہیں چلتا کہ کون صاحب ہیں ،دوسرا یہ کہ ان کیلئے مغفرت ورحمت کی دعا بہت ضروری ہے، اسلام کیلئے انکا زبردست کردار ہوسکتا تھا مگر توجہ نہ دے سکے۔ ایصالِ ثواب کیلئے ان کی اولاد اور لواحقین غفلت برتنے کے بجائے قرآنی احکام کو عملی جامہ پہنانے کیلئے معاشرے میں اپنا زبردست کردار ادا کریں۔ ہمارا اپنا گھرانہ بھی سیاست، مسجد اور خانقاہ کا محور تھا اور عوام تک حقائق پہچانا ہونگے۔

جمہوریت اور پاکستان میں جمہوری اقدار کا پسِ منظر

general-zia-ul-haq-zulfiqar-ali-bhutto-mrd-murtaza-bhutto-mufti-mehmood-ghulam-ghaus-hazarvi-islami-referendum-ayub-khan-establishment

پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے بعد تحریک انصاف نے پارٹی کی حیثیت سے اپنا مقام بنالیا۔ ایک وقت تھا کہ پیپلزپارٹی کے مقابلے میں قومی اتحاد کے نام پر تمام مذہبی و سیاسی جماعتیں اکٹھی ہوگئیں پھر جنرل ضیاء نے 11سال اقتدار پر قبضہ کیا۔ 1985ء میں غیرجماعتی الیکشن کا سیاسی جماعتوں نے بائیکاٹ کیا تو بڑے پیمانے پر عام لوگ بھی اسمبلی کی زنیت بن گئے۔ قائداعظم کے بعد قائد عوام کا خطاب ذوالفقار علی بھٹو کو ملا، غیرجماعتی الیکشن نے محمد خان جونیجو کو قائد جمہوریت بنادیا۔جبکہ MRDکے نام سے بحالی جمہوریت کی تحریک چل رہی تھی۔ جنرل ضیاء نے جونیجو کی حکومت کا خاتمہ کردیا۔ جنرل ضیاء حادثے کا شکار ہوگئے توفوج نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بجائے جمہوریت بحال کردی۔ 1980ء میں عام انتخابات میں عوام نے پاکستان کی پہلی مسلمان وزیراعظم بینظیر بھٹو کومنتخب کیا تھا جبکہ امریکہ، برطانیہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں بھی اس کی مثال نہیں ملتی تھی۔
بدقسمت عوام کی نمائندہ وزیراعظم بینظیر بھٹو نے لالچ میں بحالی جمہوریت کے ساتھی نوابزادہ نصراللہ خان کے مقابلے میں جنرل ضیاء کے ساتھی غلام اسحاق خان کو صدر بنانے میں کردار ادا کیا، بینظیر بھٹو کی اس روش نے مرتضیٰ بھٹوشہید کو علیحدہ پارٹی بنانے پر مجبور کیا۔ بینظیر بھٹو نے بیرون ملک سے آمد کے بعد اپنے دیرینہ ساتھی غلام مصطفی جتوئی کو چھوڑ دیااور جنرل ضیاء کے ساتھی سید یوسف رضا گیلانی سے دوستی اپنالی۔حالانکہ بحالی جمہوریت کے مشکل ترین دور میں جب بینظیر بھٹو بیرونِ ملک ایک آزادانہ اور پر آسائش زندگی گزار رہی تھی توغلام مصطفی جتوئی نے پیپلزپارٹی کی قیادت سنبھالی تھی۔ مولانا فضل الرحمن پر دیوبندی علماء نے ایم آرڈی میں شمولیت کی وجہ سے گمراہی وکفر کا فتویٰ لگایا، ایم آرڈی میں وہی قومی اتحاد کی جماعتیں تھیں جس کی قیادت نظام مصطفی کے قائد مفتی محمودنے کی تھی مگر ایک پیپلزپارٹی کا اضافہ ہوا تھا اور جماعتِ اسلامی کی اس میں کمی تھی۔
مولانا فضل الرحمن کیلئے یہ فتویٰ نیا نہ تھا بلکہ 1970ء میں جماعت اسلامی سے مل کر بڑے دیوبندی علماء ومفتیان نے جمعیت علماء اسلام کے اکابر پر بھی کفر کا فتویٰ لگایا تھا۔ قومی اتحاد میں جماعتِ اسلامی کی شرکت سے ناراض ہوکر مولانا غلام غوث ہزاروی نے اپنا دھڑا بناکر پیپلزپارٹی کیساتھ اتحاد کرلیا۔ ایرانی نژاد نصرت بھٹو نے دم تعویذ اور جھاڑ پھونک کے بہانے غلام غوث ہزاروی کو قریب کرلیا تھا۔ ایم آر ڈی کے دور میں جب جماعت اسلامی جنرل ضیاء الحق کیساتھ تھی تو مولانا فضل الرحمن کہتے تھے کہ مولانا غلام غوث ہزاروی کی رائے درست تھی ، قومی اتحاد میں جماعت اسلامی کو شریک کرنا مفتی محمود کا فیصلہ بالکل غلط تھا۔
مولانا فضل الرحمن نے 1981ء جمن شاہ لیہ پنجاب میں تقریر کی ’’ پاکستان میں فوج کی حیثیت آنکھوں کیلئے پلکوں کی طرح ہے۔ پلکوں کے بغیرآنکھیں بدنما اور غیرمحفوظ ہیں۔فوج نہ ہو تو ملک کی خوبصورتی اور حفاظت نہ ہو اگر پلکوں کا ایک بال بھی آنکھ میں گھسے تو ناقابلِ برداشت ہے۔ اب تو ساری پلکیں آنکھوں میں گھسی ہیں۔ یہ دلیل غلط ہے کہ پاک فوج اس ملک کی حفاظت کرتی ہے اسلئے کہ وہ اس ملک پر حکمرانی کی حقدار ہے۔ لوگ تنخواہوں سے چوکیدار رکھ لیتے ہیں تو کیا اپنے تھمائے ہوئے بندوق سے چوکیدار گھر کے مالک کو پرغمال بنانے کا حق رکھتا ہے؟۔ ہرگز نہیں!۔ چوکیدار کا کام اپنی ڈیوٹی انجام دینا ہوتا ہے اور بس‘‘۔
جنرل ضیاء نے شرعی بل نافذاوراسلامی ریفرینڈم کیاتو مولانا فضل الرحمن نے بھرپور مخالفت کی۔ مولانا سمیع الحق کا جنگ میں انٹریو شائع ہوا ، جس میں مولانا سمیع الحق نے کہا کہ شریعت بل میں کچھ منافق روڑے اٹکا رہے ہیں، پوچھا گیا کہ انکے خلاف آپ کیا کرینگے؟۔ مولانا سمیع الحق نے کہا کہ انکے خلاف جہاد کرینگے۔ پوچھا گیا کہ یہ منافق کون ہیں؟ تو مولانا سمیع الحق نے کہا کہ موجودہ دور میں منافق کا پتہ نہیں چلتا ، نبیﷺ کے دور میں منافق تھے۔
بینظیر بھٹو حکومت کاتختہ الٹنے کیلئے اسلامی جمہوری اتحاد قائم ہوا ، صدر غلام مصطفی جتوئی اور سینئر نائب صدر مولانا سمیع الحق تھے، نواز شریف پنجاب کے صوبائی صدر تھے۔بینظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تھی اور دونوں طرف سے خریدوفروخت جاری تھی۔ جمعیت علماء اسلام کے ارکان بھی تحریک عدم اعتماد کا حصہ تھے لیکن وہ آزاد گھوم رہے تھے۔ چانگا مانگا میں مسلم لیگ نے منڈی لگار کھی تھی اور سوات میں بینظیر بھٹو نے اپنے ارکان کو محصور رکھا تھا۔ خاتونِ اوّ ل بشریٰ پنکی مانیکا کے سسر غلام محمد مانیکا نے نوازشریف کی جماعت سے نکل کر تحریکِ عدم اعتماد کو ناکام بنایا تھا اور پیپلزپارٹی نے اس کو ایک اور ساتھی سمیت خرید لیا تھا۔پھر صدرغلام اسحاق خان نے بینظیر بھٹو کی حکومت ختم کی اور اسلامی جمہوری اتحاد کا صدر الیکشن میں ناکام ہوا۔ مولانا سمیع الحق نے اپنا حق نواز شریف کو دیا، نوازشریف وزیراعظم بن گئے۔ اسلامی جمہوری اتحاد میں زیادہ اہم کردار جماعت اسلامی کا تھا، جماعتِ اسلامی کے جنرل سیکرٹری پروفیسر غفور احمد نے بعد میں میڈیا پر بتادیا کہ وہ بالکل خفیہ کردار اور سازش سے لاعلم تھے۔ یہ جماعت اسلامی کا کمال تھا کہ اپنے جنرل سیکرٹری کو بھی لاعلم رکھا گیا تھا۔ مشرف کا ریفرینڈم ہوا تو تحریک انصاف کے جنرل سیکرٹری معراج محمد خان مخالف تھے، عمران خان نے اپنی غلطی بھی تسلیم کرلی مگر پارٹی سے معراج محمد خان کو چلتا کر دیا، تحریک انصاف کے صدر جاوید ہاشمی نے عمران خان کے کہنے پر پارلیمنٹ سے استعفیٰ دیدیا مگرعمران خان سمیت تحریک انصاف کا کوئی ممبراستعفیٰ نہ دے سکا۔
ذوالفقار علی بھٹو کو جنرل ایوب خان نے بنایا اور فوج کی طرف سے فری ہینڈ ملنے کے بعد پہلے مارشل لاء ایڈمنسٹریر بن گئے۔ پاکستان کو اتفاق رائے سے ایک آئین دیا جس میں اپوزیشن اور فوج کا اتنا کردار تھا جتنا بھٹو کا تھا لیکن بھٹو نے سول بیوروکریسی کو اپنے ہاتھ میں لینے کیلئے اعلیٰ افسران کو نکال دیا، فوج میں قادیانیوں کی بڑی طاقت تھی ، پارلیمنٹ کے ذریعے قادیانیوں کو کافر قرار دیکر فوج کو بھی ہاتھ میں لینے کی کوشش کی، دھاندلی کے ذریعے الیکشن کے نتائج بدل دئیے اور تمام سیاسی قائدین کو بغاوت کے مقدمے میں بند کردیا۔پھر جنرل ضیاء الحق نے تختہ الٹ دیا تو عوام اور سیاسی رہنماؤں نے سمجھا کہ ایک فرعون سے دنیا نے نجات حاصل کرلی۔جنرل ضیاء نے اقتدار کیلئے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنا شروع کئے تو عوام جو پاک فوج کو دل وجان سے چاہتی تھی، 1965 ء کے شہداء کی توقیر، 1971ء کے قیدیوں سے ہمدردی کا جذبہ بھی بہت متأثر ہوا ۔
جنرل ایوب خان نے کہا کہ ’’ ایک فوجی اچھا سپاہی بن سکتاہے مگر اچھا لیڈر نہیں ہوسکتا‘‘۔ ذوالفقار علی بھٹو، محمد خان نیجو، میاں نوازشریف اور موجودہ عمران خان سبھی بنائے ہوئے لیڈر ہیں۔ان کی پارٹیاں سیاسی چورن ہیں جوعوام کیلئے اقتدار کی صورت میں ٹیسٹ بدلنے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی ہیں۔ باقی سیاسی جماعتوں کا حال ان سے بھی زیادہ برا ہے جن کا دُم چھلہ بن کر رہنا ایک مجبوری کا عمل ہے۔ حقیقی جمہوریت کیلئے جمہوری مزاج کے حامل لیڈرکی ضرورت ہے۔

ہندو نیٹ ورک سائبر سپاہی کی طرف سے جاری کردہ ایک ویڈیو میں ایک ہندو لڑکی کا خطاب

yahoodi-muhammad-hindu-hindu-network-hindu-girl-mudi-sarkar-quran-us-aid- cybersipahi-org

مسلمانوں کیخلاف آگ اگلنے والی تقریر

کیا اس میں پڑھایا جارہا ہے جس ملک میں 3لاکھ سے زیادہ مدرسے چل رہے ہوں جس ملک میں 2لاکھ سے زیادہ مسجدیں ہوں دن رات بول رہے ہیں لا الہ الا اللہ ، پانچ بار بولتے ہیں اور پانچ بار نماز پڑھی جاتی ہے اور شروعات ہی اسی سے کرتے ہیں کہ کوئی نہیں ہے لا معنی نہیں ہے کوئی بھی اللہ کے جیسا اور محمد رسول اللہ محمد ہی اس اللہ کا رسول ہے ان دو کے علاوہ اور کسی کو ہم پوجیں گے نہیں مانیں گے نہیں۔ اب یہ بتادو جس انسان کو پانچ بار یہی بتایا جارہا ہو دن میں تو اس کی مینٹیلٹی کیا بنے گی۔ وہ سیدھے آپ کے اوپر تلوار لے کر کھڑا ہوگا۔ اور یہ صرف آذان ہے نماز الگ ہوتی ہے ۔ یہ آذان ہے آؤ آؤ اپنی نیند کو چھوڑ کربیٹھو یہاں اس کے بعد ایک مولوی بولتا ہے ، ایک مولوی کے اشارے پر سب جھکتے ہیں کھڑے ہوتے ہیں اس کے بعد وہاں آیتوں کا پاٹ( ورد) ہوتا ہے ۔ آیتیں ۔۔۔۔ ہم کیا سمجھتے ہیں جیسے ہم مندر میں گھنٹا بجاتے ہیں ویسے ان کی نمازیں چل رہی ہیں بالکل غلط سوچ ہے،
وہ نماز اسی لئے پڑھ رہا ہے کہ ہمارا وناش (ہمیں ختم) کرنا ہے۔ اگر ہمیں ختم کرنے کیلئے کوئی دن میں پانچ بار تیاری کرتا ہو او رہر پڑوسی تیاری کررہا ہو دن میں پانچ بار اور ہماری نیند نہ کھلے تو یاد رکھو ہم نے ہمارا ریموٹ کنٹرول ان کے ہاتھوں میں دے دیا ہے۔ ان کو پروبلم ہماری گائے سے نہیں ہے ان کو پرابلم ہماری ماتاؤں بہنوں سے بھی نہیں ہے ان کو پرابلم ہے صرف ہمارے وجود سے۔ جب تک ایک بھی ہندو بچا ہوا ہے تب تک ان کو پرابلم ہے۔ ان کو تب تک لگاتار جہا د کرنے کیلئے کہا گیا ہے۔اور لگاتار ہماری ماتاؤں (ماؤں) بہنوں کے ساتھ ظلم اور زنا کرنے کیلئے کہا گیا ہے۔ کوئی پڑھ کر تو دیکھے انہیں وہ روزہ کس لئے رکھتے ہیں۔ روزہ کوئی نوراترو (ہندو عورت شوہر کی زندگی کیلئے) جیسا ورت (روزہ) نہیں ہے ۔ آج ہم روزے کو نوراترو کے ساتھ جوڑ رہے ہیں۔ ہم نوراترو میں اپنی ماں دُرگا (ہندوؤں کا ایک بت) کا تصور کرتے ہیں اس کو اپنی زندگی میں اتارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جتنی محمد نے لڑائی لڑی تھی ساری روزے کے ٹائم پر لڑی تھی۔ اور ساری تیاری روزے میں کی تھی۔ روزہ اسلئے رکھا جاتا ہے کہ آپ لڑائی لڑو گے جنگ لڑو گے تو بھوکا رہنا پڑے گا تو اب اس بھوک اور پیاس کو کیسے برداشت کرو گے ۔ آپ روزے کے اصلی معنی ڈھونڈ کر لائیے ۔ ان کی عربی میں اس کے ایک معنی گھوڑے کو ہنکانے کے ہیں۔ گھوڑے بھی تیار کرنا اور خود اپنے جسم کو مضبوط کرنا۔ اگر اس روزے کی افطار پارٹی میں سارے کے سارے ہندو جاکر بیٹھتے ہیں ۔۔۔ آسچنیو ہوتا ہے ۔۔۔ جب لکھنؤ کے مندر کے ۔۔۔ مٹھادی شیوجا ۔۔۔ کرکے روزے کی افطار پارٹی مندر کے اندر کراتے ہیں اور ہم سب صرف فیس بک پر غصہ نکال کر رہ جاتے ہیں۔ میں آپ سب سے درخواست کرنا چاہتی ہوں یاد رکھو ان کے پانچ ۔۔۔ استنبھ ۔۔۔۔۔۔ ایک ہی ایشور ہے ایک اللہ ہے اس کے علاوہ ہم کسی کو مانتے ہی نہیں۔ہم کہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ارے لعنت ہے ہمارے اوپر 14سو سال سے جنہوں نے صرف قتل عام کیا ہو آج بھی ہم ان کو ۔۔۔۔۔۔دھارمک ۔۔۔۔۔۔ کہتے ہیں۔ وہ اللہ کے علاوہ او رکسی کو نہیں مانیں گے۔ وہ ہر ۔۔۔ استپل ۔۔۔ کریں گے وہ داڑھی رکھ کر بھی کریں گے ، وہ پینٹ شرٹ پہن کر بھی کریں گے وہ عربی بول کر کے کریں گے وہ ہندی بولیں گے وہ انگلش بولیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ ہے جب تک ایک بھی کافر زندہ ہے اللہ کا کام رکے گا نہیں۔ اور جو لوگ کہتے ہیں جنہوں نے بولا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لعنت ہے ہمارے اوپر ہم نے کبھی پڑھ کر کے نہیں دیکھا اللہ کہتے کس کو ہیں ۔ ہم نے ایشور کے برابر اللہ کو رکھ دیا۔ ارے ہمارا ایشور دیالو ہے۔ ۔۔۔۔۔۔کرپا ۔۔۔ کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔پرنتو ۔۔۔۔۔۔ اللہ کا آدیش ہے۔۔ کہاں پڑھو گے قرآن پڑھو گے ۔ اللہ کا صاف ۔۔۔آدیش ۔۔۔ ہے جو میرے کو نہیں مانتا جبرائیل میکائیل کو نہیں مانتا جو محمد کو نہیں مانتا وہ کافر ہے۔ اور کافر واجب القتل ہے۔ وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہے ۔ اتنا ہی نہیں جہاں تک رمضان کا مہینہ ختم ہوجائے ان کو گھات لگا کر کے مارو۔ پڑھو سورہ توبہ پڑھو سورہ البقرہ ۔ ساری کی ساری قرآن کی یہ آیتیں پڑھ کر کے دیکھو آپ کو صاف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پتا چل جائے گا ۔ ہم سوچتے ہیں کہ ان کی ہر عبادت ہماری ہر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عبادت جیسی ہے۔ ارے پڑھو بھائیو! اگر ان کی ہر عبادت ہماری ۔۔۔۔۔۔ جیسی ہوتی تو وہاں پر سب لوگ جاسکتے تھے۔ صرف مسلمان ہی کیوں جاتے ہیں۔ آج وہ ان کے اوپر ہمارے پاس پیسہ بھیجتے ہیں اور وہاں سے وہ اپنی ۔۔۔۔۔۔ کو بھیجتے ہیں۔ ان کو کوئی ایمبسی میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں ہے کہ بھارت میں آپ ہمارے عربی کلچر کی تشہیر کیجئے۔ یہ سارے بڑھائے ہوئے داڑھی یہ سارے اونچا پاجامہ اور نیچا کرتا پہن کر کے سارے وہاں سے سیکھ کر کے آتے ہیں اور اپنے آپ یہاں آکر کے سکھاتے ہیں۔ یاد رکھو! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کا یہ دھرم اور آبرو بھی جائے گی تمہارے نام سے دنیا کو شرم آئے گی۔
اگر آج نہیں جاگے تو کوئی ہمیں بچانے والا نہیں ہے۔ یہ نماز خلافت کا منی ٹرائل ہے۔ یہ نماز اسلئے کہتا ہے کہ ایک خلیفہ بٹھائیں گے۔ اور اس کا راج چلے گا۔ پہلے بھی ہمارا ملک آزادی کیلئے ۔۔۔۔۔۔ رہا تھا اور ساری مسلم دنیا خلافت کیلئے ۔۔۔۔۔۔ رہی تھی۔ تاریخ پڑھ کر دیکھو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں جو معرکہ ہوا ہمارے لوگ تو مارے گئے ہماری عورتوں کے ساتھ۔ کیونکہ خلافت ۔۔۔۔۔۔ فیل ہوگیا ۔ ترکی میں خلیفہ تھا اس کی خلافت چلی گئی خلیفہ چھوڑ کر انگلینڈ بھاگ گیا۔ وہاں سے ان کو غصہ آیا ۔۔۔۔۔۔ہماری ہندو ماں بہنوں کے اوپرنکالا۔ وہ جو لیڈی ریڈنگ کو خط لکھا تھا ہماری ہندو عورتوں نے کبھی پڑھ کر دیکھو۔ انہوں نے لکھا ہماری کتنی ۔۔۔۔۔۔ درگشا۔۔۔۔۔۔ہوئی ہے۔ ہمارے سامنے ہمارے دودھ پیتے بچوں کو بھالے کے سامنے اچھال کر اوپر ٹانگ دیا گیا۔ ہماری بیٹیوں ماؤں کے ساتھ بے پناہ ۔۔۔۔۔۔ ہوئے ۔ ایک ایک ماں کے ساتھ زنا کرنے کیلئے دس دس جہادی تھے۔ اور وہ دس دس جہادی کے بیچ میں پھنسی ہوئی عورت یہ سوچ رہی تھی کہ کس کیلئے دکھ برداشت کروں اپنے بیٹے کیلئے یا اپنے جسم کیلئے۔ کس کیلئے روئیں گے۔ درد کو بھی درد آئے گا۔ وہ ایسی خوفناک ۔۔۔۔۔۔ استتی ۔۔۔۔۔۔ ہے۔ اور یہ صرف ایک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں ہیں یہ سب اوپر سے سکھایا ہوا ہے۔
بھائیو! آپ سب لوگ جو فیس بک میں اس کو ریکارڈ کررہے ہیں یا اپنے موبائل میں ریکارڈ کررہے ہیں یہ موبائل میں ریکارڈ کرنے کی چیز نہیں ہے دل میں ریکارڈ کیجئے۔ اس کو اپنی بہنوں ماؤں اور بچیوں بچوں کو بتائیے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہتا ہے۔

اسلام دہشتگردی کا راستہ روکتا ہے

متعصبانہ تقریر کا مثبت جواب۔ از سید عتیق الرحمن گیلانی

یہ بہت بڑی بدقسمتی ہے کہ اسلام کی حقیقت کو نہیں سمجھا جارہاہے۔ جمہوری نظام کی روح اسلام نے دنیا میں پھونکی۔ بنی اسرائیل کے پیر دریا سے خوش نہ ہوئے کہ سامری کی سازش سے بچھڑے کو معبود بنا ڈالا ۔ جس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت ہارون علیہ السلام کو داڑھی اور سر کے بالوں سے پکڑلیا۔ حضرت ہارون علیہ السلام نے عرض کیا کہ میں نے اسلئے ایک نئے معبود بنانے اور پوچنے سے نہیں روکا، تاکہ بنی اسرائیل میں تفریق پیدا نہ ہوجائے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام بہت جلالی مزاج کے تھے۔تفرتق وانتشار کا ماحول پیدا کرنابھی بڑا جرم ہے۔ یہودونصاریٰ کی مشرک خواتین سے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں مسلمانوں کو نکاح کرنے کی اجازت دی ۔ مارنااور قتل کرنا تو بہت دور کی بات ہے ، دین اور مذہب میں کسی قسم کے جبرواکراہ نہیں ۔ جہاد اور غصہ کرنا انسانی فطرت ہے۔ فرمایا: جاہدالکفار والمنافقین واغلظ علیھم’’کفاراور منافقوں سے جہاد کرو اور ان پر سختی کرو‘‘۔ نبی ﷺ رحمت للعالین تھے ۔ منافقوں اور کافروں کیساتھ آپ ﷺ کا برتاؤ کیا تھا؟۔ آپﷺ کو جو حکم سورۂ تحریم کی اس آیت میں دیا گیا ، اسکا پسِ منظر کیا ہے اور سیاق وسباق سے اس جہاد کے حدودوقیود کیا ہیں؟۔ حضرت عائشہؓو حضرت حفصہؓ نے دوسری ازواج مطہراتؓسے مل کر نبی ﷺ سے حضرت ماریہ قبطیہؓ اور شہد کے حوالے سے ناگوار قسم کا مذاق کیا۔ لونڈی اور شہد اپنی ازواجؓ کی خواہش پر اپنے اوپر حرام کرنے سے منع فرمایا اور دونوں ازواج مطہراتؓ کو ڈانٹ کر فرمایا کہ تم سے بہتر ازواج نبی کو مل سکتی ہیں۔ اس پس منظر میں کافروں کی مثال حضرت لوطؑ اور حضرت نوحؑ کی ازواج کا ذکرکیا، دونوں کافر تھیں۔مؤمنات کی مثال حضرت مریم اور فرعون کی بیوی تھیں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت نوحؑ اور حضرت لوطؑ نے اپنی بیگمات پر کس قسم کی سختی کی اور کس قسم کا جہاد کیا؟۔ حضرت مریم اور فرعون کی بیوی نے کیا سختی کی اور کس قسم کا جہاد کیا؟۔ پسِ منظر، سیاق وسباق اور نتائج کو چھوڑ کر آیات کے ایک جملے سے غلط نتائج مرتب کرنے سے مجاہدین دہشت گردی کے دھانے پر پہنچ گئے ہیں۔ اگر ازواج مطہراتؓ کے مذاق کو سنجیدہ نہ لیا جاتا تو معاشرے میں سنجیدہ گھریلو ماحول کے بجائے مذاق کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا بھی سنت بن جاتی۔اسلام متوازن ، معتدل اور سنجیدہ نظام کے ذریعے سے دنیامیں گھراور معاشرے کو جنت نظیر بناتاہے افسوس کہ ہم نے اسلامی تعلیمات کو بالکل پیشہ ور مذہبی طبقے کے سپرد کیا۔
ایک ہندو لڑکی کی تقریر مودی سرکار کی شاہکار ہے لیکن اس سے ہندوستان بالکل تباہ ہوجائیگا۔ اسلام کے نام پر حکمرانوں اور دہشتگردوں نے جو کچھ بھی کیا، اسکا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ ہندو لڑکی نے سورۂ توبہ اور البقرہ کا حوالہ دیا کہ اس میں دوسرے مذاہب والوں کو قتل کرنا اللہ کا حکم ہے۔ حالانکہ سورۂ توبہ میں ان مہینوں کا ذکر ہے جن میں دشمن ایکدوسرے کیخلاف لڑنے سے گریز کرتے تھے اور اس کی تائید سورۂ توبہ میں ہے۔ دورانِ جنگ دشمن ایکدوسرے کو قتل کرتے تھے۔ سورۂ توبہ میں لڑائی کے دوران گھات لگاکر محاصرے کی ترغیب دی گئی ہے اور پھر ایمان لانے ،نماز اور زکوۃ دینے پر چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔ سورۂ محمد میں قیدیوں کو فدیہ اور بغیر فدیہ چھوڑنے کی وضاحت ہے۔ سورۂ توبہ میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ اگر مشرکوں میں سے کوئی پناہ لینے کیلئے خود آئے تو اس کو پناہ دو، یہاں تک کہ اللہ کے کلام کو سن لے کیونکہ یہ جاہل قوم ہے اور پھر اس کو وہاں پہنچادو، جہاں اسکے اپنے وامان کے ٹھکانے ہیں۔ خواتین ، بچوں اور بوڑھوں پر جنگ کے دوران بھی اسلام ہاتھ اٹھانے سے منع کرتا ہے۔ ہندو لڑکی کو اسلام سمجھنے کیلئے قرآن کا مطالعہ کرنا چاہیے۔سورۂ بقرہ کی آیت62 میں ہے کہ ان الذین اٰمنواوالذین ہادوا والنصٰریٰ وصائبین من امن باللہ والیوم اٰخر و عمل صالحًا فلھم اجر ولاخوف علیھم ولاھم یحزنون ’’بیشک جو لوگ مسلمان ہیں، اور جو یہودی ہیں اور جو نصاریٰ ہیں اور جو صائبین ہیں۔ جو بھی ایمان لایا اللہ پر اور آخرت کے دن پر تو ان کیلئے اجر ہے اورنہ ان پر خوف ہوگا اور نہ وہ غم کھائیں گے‘‘۔ مسلمانوں نے اس بات کی وضاحت کردی ہے کہ جو انبیاء کو نہیں مانتے وہ صائبین ہیں اور بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ ہندو صائبین ہیں جو حضرت نوح علیہ اسلام کی قوم ہیں۔
دنیا میں کوئی ایسا مذہب نہیں کہ آخرت میں دوسرے مذاہب کے ایماندار اور نیک لوگوں کو بشارت دیتا ہو۔ یہودونصاریٰ کو اسلام نے ان خیالات سے منع کیا جو صرف اپنے لئے جنت کا خیالی تصور رکھتے تھے۔ مسلمانوں میں جو گمراہ لوگ ہیں وہ یہودونصاریٰ کے ان مذہبی طبقوں کے نقشِ قدم پر چل پڑے ہیں جن کی قرآن نے مذمت کی تھی۔آخرت کے حوالے سے دوسرے مذاہب کیلئے قرآن نے بڑی بات کہی جس کے مسلمان فرقے بھی ایکدوسرے کیلئے روادار نہیں ۔ اس سے بھی بڑھ کردوسروں کی عبادتگاہوں کو بھی محفوظ بنانے اور ان میں اللہ کے نام کو یاد کرنے کی گارنٹی دی ۔ ولولادفع اللہ الناس بعضھم ببعض لھدمت صوامع وبیع وصلوٰت ومسٰجد یذکرفیھااسم اللہ فیہ کثیرا’’اگر اللہ بعض لوگوں کو بعض کے ذریعے نہ ہٹاتا تو مجوسی، یہودی، عیسائی اور مسلمانوں کی عبادتگاہوں کو گرا دیتے جن میں اللہ کا نام کثرت سے لیا جاتا ہے‘‘ سورۃ الحج آیت40 دنیا کو مذہبی جنونیوں سے بچانے کیلئے اللہ تعالیٰ نے اسلام نازل کیا ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا تھا کہ ’’اے اللہ ! میری قبر کو سجدہ گاہ نہ بنانا‘‘۔ اللہ نے یہ دعا قبول کرلی۔ ہمارے ہاں درگاہوں پر جبینِ نیاز جھکانے کی عادت ہندوؤں سے آئی تھی۔ عمران خان نے روضہ رسول ﷺ پر سجدے کی شکل نہیں بنائی اور اگر نبیﷺ دعا نہ فرماتے تو تحریک انصاف کے رہنماء صف در صف بشریٰ پنکی کی امامت میں سب سے پہلے روضہ رسولﷺ پر جبینِ نیاز جھکا تے۔مشرکینِ مکہ نے اجتماعی طور پر اسلام قبول کرلیا اور دہشتگردی سے بچاؤ کی خاطر شرپسندوں کو اللہ نے کعبہ سے روکا ہے۔
مشرکینِ مکہ نے بت شکن ابراہیم ؑ کی طرف سے اللہ کے بنائے ہوئے گھر کو بتوں سے بھردیا۔ ہندو گائے کی پوجا کرتے ہیں، دنیا کے لوگ گائے کو کھا جاتے ہیں۔ ہندو کس کس سے نبرد آزما ہونگے؟۔ سورہ بقرہ میں بنی اسرائیل کو گائے ذبح کرنے کے حکم میں معجزے کا ذکرہے اور انہوں نے نقلی بچھرے کو پوجا تھا۔ اسلام دنیا کیلئے امن وسلامتی کا ضامن ہے۔البتہ مسلمان قرآن کی تعلیم سے بالکل بہت دور ہٹ گئے ، اسلام مسلمانوں کے گمراہ عقائد کا نام نہیں ۔اسلام دہشتگردی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔مسلمانوں نے مشرکینِ مکہ سے جانوں کی حفاظت کیلئے مال ومتاع ، گھر باراور جائیدادسب کچھ چھوڑ کر ہجرت کی مگر مشرکینِ مکہ نے پھر بھی پیچھا نہیں چھوڑا۔ بدر کا غزوہ بھی شام سے آنیوالے مال بردار قافلے سے اپنا حق چھین لینے کی مجبوری تھی۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے نہ چاہتے ہوئے بھی وہ قافلہ ہاتھوں سے نکالا اور اپنے سے کئی گنا زیادہ لڑائی کیلئے آنیوالے لشکر سے سامنا کردیا پھر لڑائی میں جیت بھی دی۔ 70قیدیوں کو قتل کرنے کے بجائے فدیہ ، تعلیم کے بدلے اور کسی کو مفت میں رہا کیا۔ اللہ تعالیٰ نے جاہلوں کو ڈرانے کیلئے آیات نازل کیں کہ ’’نبی کیلئے مناسب نہیں کہ اسکے پاس قیدی ہوں یہاں تک کہ زمین میں خوب خونریزی کرے، تم دنیا چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے‘‘۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ کا مقصد قیدیوں کو قتل کرنا ہوتا تو ایک بھی بچ کر نہیں جاتا۔ اللہ نے مشرکینِ مکہ کو اپنی حکمتِ عملی سے ڈرایا کہ دوبارہ لڑائی میں فدیہ سے چھوٹ جانے کو خاطر میں نہیں لانا۔ پھر بھی ان قیدیوں میں سے بعض غزوہ احد کی صورت میں مدینہ پر حملہ کرنے آئے جن میں وہ شخص بھی شامل تھا جس کو فدیہ کے بغیر چھوڑ دیا گیا تھا اور پھر اس کو قتل بھی کردیا گیا۔
مسلمانوں نے سمجھا کہ ہم نے غزوہ بدر کے قیدیوں کو چھوڑ کر غلطی کی اور سخت بدلہ لینے کا فیصلہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے واضح کیا کہ حدود سے آگے نہ بڑھو، اگر تمہیں زخم پہنچا ہے تو پہلے ان کو بھی زخم پہنچا ۔ کسی قوم کے انتقام کا جذبہ تمہیں اعتدال سے نہ ہٹائے۔ جتنا انہوں نے کیا ہے اتنا تم بھی کرسکتے ہو اور اگر معاف کردو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے، بلکہ معاف ہی کردو اور یہ معاف کرنا بھی اللہ کی توفیق کے بغیر ممکن نہیں۔ صلح حدیبیہ کا معاہدہ اور میثاقِ مدینہ اس بات کے بین ثبوت ہیں کہ داخلی اور خارجی معاملات میں مسلمان غیرمسلموں کیساتھ امن وسلامتی کی زندگی کے پابند ہیں، فتح مکہ کے وقت مسلمانوں کا رویہ عالیشان تھا، دشمنوں کے سردار ابوسفیانؓ سے عزت کا سلوک روا رکھا۔ کسی کو ریپ نہ کیا گیا، کسی کو لونڈی اور غلام نہیں بنایا گیا۔ اسلام نے زمانوں کے دستور ، انسانوں کی خصلتیں اور جاہلانہ رسوم ورواج کو اپنے اعلیٰ اقدار سے بدلا ہے لیکن کسی پر عقیدہ بدلنے کی زبردستی نہیں کی۔ امریکہ کو اپنی نالائقی کی سزا مسلم ممالک اور مسلمانوں کو دینی تھی۔ افغانستان، عراق، لیبیا اور شام کا کیا حال کیا؟ جدید ترین ہتھیاروں سے تباہی وبربادی پھیلانے کا مقابلہ خود کش حملوں کے علاوہ کسی اور طریقے سے ممکن نہیں تھا ۔ روس کو جہاد کے ذریعے روکنے کے بعد نیٹو کا مقابلہ بھی افغانستان میں مجاہدین نے کیا۔ ہمارے حکمرانوں کی مجبوری تھی اور بڑے نقصان سے بچنے کیلئے امریکی سی آئی اے کا پلان قبول کرکے آپس میں بھی قتل وغارتگری کا بازار گرم کرنے میں اپنی ایجنسیو ں نے غلط کردار ادا کیا۔ پاکستان نے فرقہ واریت، دہشتگردی اور عالمی ایجنسیوں کے کردار کو جس خوش اسلوبی سے برداشت کیا یہ اللہ کی مہربانی ہے ورنہ کوئی اورملک ہوتا،کسی دوسری قوم پر یہ آزمائش پڑتی اور کسی دوسرے مذہب کو اس سے واسطہ پڑتا تو کب کا ملیامیٹ ہوچکا ہوتا۔ پاکستان سے اللہ نے دنیا کی امامت کا کام لینا ہے اسلئے تمام سازشوں کے باوجود بڑی تیزی سے دلدل سے نکل گیا۔ بھارت کو 65ء کی جنگ میں شکست دی 71ء میں بھارت سے شکست کھائی۔ غزوہ بدر پر اللہ نے اترانے کی اجازت دی اور نہ غزوہ احد میں شکست کھانے پر طعنہ دیا۔ صلح حدیبیہ کے شرائط قبول کرنے کیلئے آج بھی ہم تیار ہیں۔پاکستان کے شدت پسند مسلمانوں کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ ہم اور ہماری ریاست مظلوم کشمیریوں کیلئے کچھ نہیں کرسکے اور اگر خدانخواستہ جاہل ہندوں کی طرف سے کروڑوں مسلمانوں کو بھارت کی ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بناکر اپنی بڑھتی ہوئی آبادی اور وسائل ، مال اور جائیدادوں پر قبضہ کرلیا تو اسکے نتائج بہت خطرناک ہونگے۔ دنیا بھر میں ہندو مسلم فسادات عرب وعجم کی زمین کو خون سے بھر دینگے اور مغرب ہماری اس لڑائی کا فائدہ اٹھائیگا۔کئی مسلم ممالک ہیں اسلئے مسلمانوں کا خاتمہ ممکن نہیں، بھارت کے ہندوؤں کو عرب ممالک سے جس قدرسپورٹ ملتی ہے اگر اسکا رستہ بھی بند ہوگیا تو انڈیا میں بھوک وافلاس کی تباہی مچے گی۔
عمران خان سے سعودیہ کے حکمران پاک پتن کے مزار پر جبینِ نیاز جھکانے پر ناراض نہیں تواپنی ضروریات کیلئے بھارت ایران گیس پائپ لائن پر ناراض نہ ہوگا۔ ایران سے بھارت گیس پائپ لائن گئی تو بھارت امریکہ کے سامنے ڈٹ سکتا ہے۔ کھربوں ڈالر بھارت امریکہ کو دے رہا ہے ہماری طرح یوایس ایڈ کی زکوٰۃ امریکہ سے نہیں لے رہاہے۔ پیٹرول کی ناجائز سپلائی بلوچستان کی مجبوری ہے لیکن ہم جائز طریقے سے پورے پاکستان میں ایران کے تیل کا فائدہ اٹھائیں اور بھارت کی سرحدوں پر سمگلنگ کے ذریعے جن بھوکوں کا پیٹ بھرناہو بھریں۔ بھارت بھی اپنی عوام کو سستے گیس وتیل کی فراہمی پر خوش ہوگا اور ہم نالائقوں کو کشمیر بنے بنائے ڈیم سمیت دینے پر بخوشی راضی ہوگا۔کسی کی نالائقی پر قیمت وصول کرکے کرایے کاکام چھوڑنا ہوگا۔ امریکہ نے بہت مدد بھی کی اور کام بھی بہت لیا ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا ڈومور سے انکار اس وقت مؤثر ثابت ہوسکتا ہے کہ جب ہم اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کیلئے متبادل بھی تلاش کریں۔ساری غیرملکی امداد اور قرضے مقتدر طبقات کی طرف سے بیرون ملک منی لانڈرنگ کی نذر ہوگئے ہیں۔ دفاعی بجٹ سے زیادہ قرضوں پر سود کی ادائیگی کا معاملہ آگیا ۔ عمران خان نے کنٹینر پر چڑھ کر جمہوریت کو ختم کرنے کی سازش کی لیکن قومی اسمبلی سے استعفیٰ تک نہیں دے سکا تھا۔ اب وزیراعظم بن کر کیا تیرماریگا؟۔ یہ اس کے بس کی بات نہیں۔ پاکستان میں ایگزیٹ اور عمران خان کے ذریعے بہت پیسہ باہر سے آگیا لیکن ایک جیل میں ہے اور دوسرا سیاسی کھیل میں ہے۔سیاسی جماعتوں نے جس طرح دھاندلی اور مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے سے جمہوریت کو یرغمال بنار کھا تھا اور عوام کا جمہوریت کے ذریعے تبدیلی کا خواب بھی نہیں رہا تھا، یہ عمران خان کا نہیں اس کو استعمال کرنے والی طاقت کا کمال ہے کہ یرغمال شدہ جمہوریت کو بازیاب کرایا ہے۔پہلے حکومتوں کا رونا ہوتا تھا کہ خزانے خالی ہیں اور اب قرضوں کا بوجھ رونا بن گیا ہے۔ سودی قرضے اور سازشی امداد جاری رہے گی اور آخر یہ حال ہوگا کہ ہزاروں سے لاکھوں کامقروض ہونے سے فرق نہیں پڑتا تو کروڑوں سے بھی فرق نہیں پڑتا ہے۔ مقتدر قوتیں اپنے اہل وعیال کیساتھ باہر ہیں اور غریب عوام اور غریب ملازمین کو رگڑنے کا سلسلہ جاری ہے۔ عابد شیر علی نے جعل سازی کا امتحان دینے پر محکمہ تعلیم کے افسر ڈاکٹرنعیم باجوہ کی میڈیا پر تذلیل اور سرزنش کی تھی اور اب فیصل واوڈا نے الیکشن میں دوبارہ گنتی کے سوال پر کامران شاہد کے پروگرام دنیا نیوز میں مظہر عباس کی توہین و تذلیل کردی۔ میاں شاہد لطیف نے کہا کہ عزیز ہم وطنو! والے اپنا رستہ ہموار کرنے کیلئے تحریک انصاف کو لائے۔ جمہوری حکومت ناکام ہوگی اور فوج آجائے گی۔
ہمارے سیاستدانوں کے رویے فوجی ڈکٹیتروں کی نسبت زیادہ بدتر ہیں۔ جس طرح عمران خان کیلئے سعید مراد اپنی ماں بہن کی گالیاں بھی کھاتا ہے، فوج کے ٹاؤٹ لوگ اس حد تک اپنے باس کیلئے گری ہوئی حرکت نہیں کیا کرتے ہیں۔ یہ ملک اور قوم زیادہ جھٹکوں کا متحمل نہیں ہوگا اور اگر قرضوں اور امداد کے بجائے ملک وقوم کو اپنے پیر پر کھڑا کیا گیا تو شریف لوگ آگے آئیں گے اور جن کو تعلیم وتربیت کے ذریعے سدھارنے یا سزاؤں کے ذریعے ان کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے یہ لوگ اہم قومی معاملات پر بات کرنے کیلئے کتوں کی طرح ٹی وی اسکرین پر نہیں چھوڑے جائیں گے۔ جمہوریت کا تقاضہ ہے کہ بہت ہی خوش اسلوبی کیساتھ اخلاقیات کا ایسا مظاہرہ کیا جائے کہ کارکنوں اور عوام کے دل ودماغ ٹھنڈے رہیں۔ نوبت یہ آگئی ہے کہ صدر زرداری کو پشاور، لاہور، کوئٹہ اور کراچی کی سڑکوں پر گھسیٹنے کی باتیں کرنے والے شہباشریف اب اپوزیشن لیڈر بن جائیگا اور عمران خان وزیراعظم۔ خوب چلے گی مل جائیں گے جب اخلاقیات کے دیوالیے دو۔
بھارت سے تعلقات بہتر کرنے میں ایرانی گیس کا بڑا کردار ہوگا۔ سعودیہ کی امداد سے زیادہ بہتر عوام کیلئے سستے گیس و تیل کی ضرورت ہے۔ بھارت وایران سے بہتر تعلق امریکہ وافغانستان کے بحران میں کام آئے گا۔

مفتی ریاض حسین صاحب، مفتی دارالعلوم قادریہ رضویہ ملیر سعود آباد کراچی،کی طرف حلالہ سے متعلق یہ جواب طلب تحریر

halala-teen-talaq-fatawa-mujaddidiyah-naeemia-talaq-e-salasa-jamia-binori-town-dars-e-nizami-noor-ul-anwar-allama-tamanna-imadi-khula-reham-khan-imran-khan-usool-us-shashi-saleem-ullah-khan-mufti-akmal

فان طلقہا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجًا غیرہ البقرہ 230
اگر شوہر نے بیوی کو طلاق دیدی تو وہ اس شوہر کیلئے حلال نہ ہوگی جب تک کہ اس کے علاوہ دوسرے شوہر سے نکاح( وطی یعنی جماع) نہ کرے۔سید صاحب سے گزارش ہے کہ اس کی وضاحت کریں۔ جب تین طلاق کے بعد بھی انکے نزدیک رجوع ہوسکتا ہے تو اس آیت کا معنی کیا ہے؟۔یہ آیت قرآن کا حصہ ہے یا نہیں ہے؟۔ الطلاق مرتان طلاق دوبار ہے، جب شوہر نے دوبار طلاق دے دی تو رجوع کرسکتا ہے، عدت کے اندر بغیر تجدیدِ نکاح اور عدت کے بعد تجدیدِ نکاح کیساتھ۔چودہ صدیوں سے علماء کرام قرآن کی ان آیات مقدسہ کی اسی طرح وضاحت کرتے آئے ہیں آپ نے یہ کونسا اچھا کام کیا ہے کہ اللہ کے حرام کردہ کو حلال قرار دے رہے ہیں۔تین طلاق کے بعد رجوع حرام ہے اس کو جائز کہتے ہیں، آپ اللہ سے زیادہ حقوق نسواں کے خواہاں ہیں۔قرآن پاک میں جہاں جہاں آپ نے رجوع ثابت کیا ہے، اس میں کوئی ایک آیت بتائیں جس میں تین طلاق کے بعد رجوع ثابت ہو۔ آیت230میں جہاں رجوع سے منع کیا گیا اس کی وضاحت کرنے سے آپ نے گریز کیا، کیوں؟ ۔اگر آپ اس کی وضاحت کردیتے تو آپ کی ساری تحقیق (ریت کی دیوار) پر پانی پھر جاتا کیونکہ اس آیت میں واضح طور پر لکھا ہے کہ اگر شوہر نے تیسری طلاق دیدی تو وہ عورت اس کیلئے حلال نہ ہوگی جب تک کہ اسکے علاوہ دوسرے شوہر سے وطی(جماع) نہ کرے، تین طلاق کے بعد رجوع حرام ہے۔ اس موضوع پر احادیث مبارکہ غوث وقت مفتی اعظم سندھ مفتی عبداللہ کے فتویٰ فتاویٰ مجددیہ نعیمیہ میں ملاحظہ فرمائیں اور اپنے غلط فتویٰ سے رجوع کریں۔ ورنہ جتنے لوگ آپ کی وجہ سے گمراہ ہونگے انکا گناہ بھی آپکے سر ہوگا۔حدیث رکانہؓ جسکا ذکر سید عتیق الرحمن نے کیا ہے، اسکا جواب مفتی وقار الدین علیہ الرحمۃ نے دیا ہے کہ حضرت رکانہؓ کے والد نے طلاق البتہ دی تھی، طلاق البتہ ایک کو بھی کہتے ہیں اور تین طلاق کو بھی کہتے ہیں،راوی نے روایت بالمعنی کردی اور البتہ کو طلاق ثلاثہ کہہ دیا، اپنا مدعی ثابت کرنے کیلئے آپ نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور ایک حدیث ڈھونڈ لائے لیکن آپ کا باطل مدعی ثابت نہ ہوسکا۔جاء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقا’’حق آگیا اور باطل ختم ہوگیا، بے شک باطل ختم ہونے والا ہے‘‘۔مفتی ریاض حسین صاحب
جناب مفتی محمد یوسف سابق ناظم مدرسہ دارالخیر گلشن اقبال کراچی نے کہا ہے کہ آپ کے رسالہ کا مطالعہ کیا ہے جس میں تین طلاق کے متعلق جو کچھ بھی آ پ نے لکھا ہے میں اس کی تائید کرتا ہوں۔ سید عتیق الرحمن گیلانی صاحب اور احمد جمال صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ جزاکم اللہ خیراً کثیرا واحسن الجزاء

الجواب
ازسید عتیق گیلانی

محترم جناب حضرت مولانا مفتی ریاض حسین صاحب دامت برکاتکم العالیہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ آپ نے دو ٹوک انداز میں آیات وسوالات کا انتخاب کیا۔اس شمارہ میں شامل جامعہ بنوری ٹاؤن کے فاضل کا بیان بھی ضرور ملاحظہ فرمائیں۔
اللہ بذات خود اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ وانزلنا الکتاب تبیانا لکل شئی ’’ہم نے کتاب کو ہر چیز کے واضح کرنے کیلئے نازل کیا ہے‘‘۔ علماء نے قرآنی وضاحتوں کی طرف ایک بار بھی دیکھا تو ان کے چودہ طبق روشن ہوجائیں گے۔ جس آیت کو پیش کیا ہے تو سیاق وسباق دیکھنے کی اجازت ہے؟۔ کیا نبیﷺ نے تیسری طلاق مراد لیاتھا؟۔ کیا درسِ نظامی میں جو آپ پڑھاتے ہیں کہ اس کا تعلق اپنے متصل سے ہے وہ غلط ہے؟۔کیا آپ بتائیں گے کہ جواب سے مطمئن ہیں یا کونسی بات آپ کو دلیل کیساتھ ٹھیک نہ لگی؟۔
آیت230البقرہ میں بالکل واضح ہے کہ اس طلاق کے بعد عورت اس شوہر کیلئے حلال نہیں، جب تک کہ کسی دوسرے شوہر سے شادی نہ کرلے۔ آیت کا منکر کافر ہے۔ آیت229میں یہی ہے کہ الطلاق مرتٰن طلاق دو مرتبہ ہے۔ کوئی مسلمان یہ سمجھنے میں عار محسوس نہیں کرسکتاکہ قرآن کی آیت 229اور230کے جن الفاظ کا حوالہ دیا گیا ہے کہ انکے درمیان کو زیرِ بحث لانے کی ضرورت ہے ۔ یہ بہت بڑی خیانت ہوگی کہ ضرورت موجود ہو لیکن اس سے آنکھیں چرائی جائیں۔ جاہل کے سامنے قرآنی آیات مقدسہ کی اہم ترین درمیانی کڑی کو چھوڑ کر فتویٰ دیا جائے تو وہ مفتی صاحب کا فتویٰ قابلِ اعتماد سمجھ کر سوچے سمجھے بغیر اپنی بیگم کا حلالہ کروانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔
قرآن کے جو الفاظ جناب نے نقل کئے ہیں ،اگر اجازت ہو تو انکے درمیان کا معاملہ بھی قارئین کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ مسئلے میں بالکل بھی کوئی ابہام نہ رہے۔!
الطلاق مرتٰن فامساک بمعروف او تسریح باحسان فلایحل لکم ان تأخذوا مما اتیتموھن شئیا الا ان یخافا الا یقیما حدود اللہ فان خفتم ان لا یقیما حدود اللہ فلا جناح علیھما فیما افتدت بہ تلک حدود اللہ فلا تعتدوھا ومن یتعد حدود اللہ فاؤلٰئک ھم الظٰلمونOفان طقہا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجًا غیرہ
’’طلاق دو مرتبہ ہے۔ پھر معروف طریقے سے روک لینا ہے یا احسان کیساتھ چھوڑ دینا ہے اور تمہارے لئے حلال نہیں کہ جو کچھ بھی ان کو دیا ہے کہ اس میں سے کچھ بھی واپس لو، مگر یہ دونوں کو خوف ہو کہ وہ اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے، اور اگر تمہیں یہ خوف ہو تو کہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو دونوں پر حرج نہیں کہ جو عورت کی طرف سے فدیہ کیا جائے۔ یہ اللہ کے حدود ہیں،پس ان سے تجاوز مت کرو اور جو اللہ کے حدود سے تجاوز کرے تو وہی لوگ ظالم ہیںOپھر اگر اس نے طلاق دیدی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح کرلے ۔۔۔‘‘۔ البقرہ آیات 229اور230
جناب بتائیے کہ درمیان کی کڑی چھوڑ کر قرآن کے الفاظ سے مفہوم نکالنا درست ہے؟ جبکہ درسِ نظامی میں اصولِ فقہ کی کتاب ’’ نورالانوار: ملاجیون‘‘ کے اندر یہ حنفی مسلک کا مؤقف ہے کہ آیت 230میں فان طلقہا کا تعلق اپنے متصل عورت کی طرف سے فدیہ کی صورت سے ہے اسلئے کہ ف تعقیبِ بلامہلت کیلئے آتا ہے اور اس وجہ سے اس کو الطلاق مرتان کیساتھ جوڑناغلط ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ فدیہ کی جو صورتحال بیان کی گئی ہے وہ کیاہے؟۔ تحقیق اور اجتہاد کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے کہ جب قرآن و سنت میں کوئی مسئلہ یا صورتحال واضح نہ ہو، جبکہ قرآن میں صورتحال واضح ہے۔
آیت229میں دو مرتبہ طلاق کے بعد ایک صورت یہ ہے کہ معروف طریقے سے رجوع کرلیا جائے ۔ معروف رجوع میں میاں بیوی صلح کرلیتے ہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ تسریح باحسان اچھے طریقے سے چھوڑ دیا جائے۔ ایک صحابیؓ نے نبیﷺ سے پوچھ لیا کہ قرآن میں تیسری طلاق کہاں ہے؟۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ تسریح باحسان تیسری طلاق ہے۔ اگردومرتبہ طلاق کے بعد عدت کے تیسرے مرحلے میں عورت کو چھوڑنے (طلاق ) کا فیصلہ کیا جائے تو اسی صورت کی اللہ تعالیٰ نے مزید وضاحت فرمائی ہے کہ ’’تمہارے لئے حلال نہیں کہ جو کچھ بھی ان کو دیا ہے ،اس میں سے کچھ بھی واپس لومگر یہ کہ دونوں کو خوف ہو کہ (اس دی ہوئی چیز کے واپس کئے بغیر) دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے اور (اے فیصلہ کرنے والو!) اگر تمہیں خوف ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو پھر اس چیز کو عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں کوئی حرج نہیں‘‘۔
یہ وہ صورتحال ہے جس میں میاں بیوی اور فیصلہ کرنے والے رشتہ دار سمجھ لیتے ہیں کہ اگرچہ شوہر کی طرف سے دی ہوئی کسی چیزکا واپس کرنا حلال نہیں مگر جب یہ خوف ہو کہ اگر وہ چیز شوہر کو واپس نہیں کی گئی تو دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے ، پھر اس چیزکو عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں دونوں پر حرج نہیں۔ مثلاً مکان میں شوہر نے بیوی کو ایک کمرہ دیا ، طلاق کے بعد عورت سے وہ کمرہ لینا جائز نہیں لیکن جب اتفاقِ رائے سے یہ خوف ہو کہ شوہر کے پاس مکان کے اس کمرے کو خریدنے کی صلاحیت نہیں۔ عورت نے کسی دوسرے سے شادی کرنی ہے،یہ کمرہ رابطے کا ذریعہ ہے اور دونوں پہلے سے ایکدوسرے سے لذت آشنا ہیں، اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا خوف رکھتے ہیں تو اس کمرے کا عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں اللہ کی طرف سے دونوں پر حرج نہیں۔
اب مفتی ریاض حسین صاحب کو بتادینا چاہیے کہ کیاقرآن میں صورتحال واضح نہیں، کیا یہ قرآن کا حصہ نہیں، کیا عقل مانتی ہے کہ اس کو چھوڑ کر آیت230میں حلال نہ ہونے کا تصور لیا جائے؟ کیا اصولِ فقہ میںیہ حنفی مسلک درسِ نظامی کے نصاب میں نہیں پڑھایا جاتا ہے؟ کیا جو پڑھایا جاتا ہے یہ غلط ہے؟ اور کیا نصاب کو سمجھے بغیر مفتی باکمال سمجھا جائیگا؟۔بات میری بات نہیں ،بات ہے اللہ کی کتاب اور تیرے نصاب کی۔ میٹھے بھائی!
علامہ تمنا عمادی حنفی عالمِ دین تھے، اس نے اپنی کتاب ’’الطلاق مرتان‘‘ میں بہت تفصیل سے لکھ دیا کہ اصولی طور پر یہی صورت ہے جسے ’’خلع‘‘ کہتے ہیں کہ اسکے بعداگر طلاق دی جائے تو طلاق لینے کا قصور عورت کا ہوتا ہے اسلئے حلالہ کی صورت میں اس کو سزا دی جائے گی۔ یہ کتاب بازار میں دستیاب ہے۔ غلام پرویز و دیگر لوگوں کیلئے یہ احادیث سے انکار کی بنیاد بن گئی حالانکہ مسئلہ طلاق پر کسی صحیح حدیث کے انکار کی ضرورت نہیں ۔
فقہ حنفی کے نصاب تعلیم میں جو موقف پڑھایا جاتا ہے کہ اس طلاق کا تعلق فدیہ کی صورت سے ہے تو یہی موقف علامہ ابن قیمؒ نے حضرت ابن عباسؓ کے حوالے سے بھی لکھا ہے کہ آیت230میں فان طلقہا فلاتحل لہ کا تعلق اس سے متصل فدیہ کی صورت سے ہے جب شوہر دومرتبہ طلاق دے اور پھر فدیہ ہی کی صورت بھی بن جائے۔ قرآن کو سیاق وسباق اور اصل مقام کے تقاضوں سے نہیں ہٹایا جاسکتا ہے۔ حضرت ابن عباسؓ وہ شخصیت ہیں جسے رسول اللہﷺ نے قرآن کی تفسیر سمجھنے کی دعا کی اور لامحالہ آپﷺ کی یہ دعاقبول ہوئی ہے۔ (زادالمعاد: باب الخلع، جلد چہارم)
حنفی مسلک اور جمہور کا اس پر اختلاف ہے کہ دومرتبہ طلاق کے بعد فدیہ کی صورتحال جملہ معترضہ ہے یاایک تسلسل کا کلام ہے۔ احناف کے نزدیک یہ تسلسل ہے فان طلقھا کی ف کا تقاضہ ہے کہ فدیہ سے یہ متصل ہو۔ اور جمہور کے نزدیک یہ جملہ معترضہ ہے اسلئے کہ اگر دومرتبہ طلاق دی جائے پھر خلع دیا جائے تو آیت230کی طلاق چوتھی طلاق بن جائے گی۔ اسکے جواب میں حنفی کہتے ہیں کہ خلع کوئی مستقل طلاق نہیں بلکہ دومرتبہ طلاق کے بعد تیسری طلاق کیلئے ایک ضمنی چیز ہے۔ عورت فدیہ دے تو شوہر خلع دیتا ہے اسلئے قرآن میں چوتھی طلاق کا تصور لازم نہیں آئیگا۔( دیکھئے درسِ نظامی کی نورالانوار وغیرہ )
درسِ نظامی اور فقہ وتفسیر کی کتابوں میں فدیہ سے جو خلع مراد لیا گیا تو کیا دومرتبہ طلاق کے بعد بھی خلع کا تصور ہوسکتا ہے؟، یہ کتنا احمقانہ بحث مباحثہ ہے؟ ۔ یہ خلع ہوہی نہیں سکتا بلکہ عدت کے دومراحل میں دومرتبہ طلاق کے بعد تیسری مرتبہ طلاق کا فیصلہ کرنے کے بعد باہوش وحواس اس صورتحال کا ذکر ہے کہ شوہر نے جو چیزیں دی ہیں ان میں سے کوئی چیز واپس کرنا حلال نہیں البتہ جب دونوں کو اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا خوف ہو تو اس چیز کو فدیہ کرنے میں دونوں پر حرج نہیں۔
جہاں تک خلع کا تعلق ہے تو اس کا واضح الفاظ میں ذکر سورۂ النساء کی آیت19 میں ہے۔ اگر امت مسلمہ کے زعما نے اقتدار اور دنیاوی معاملات ذہین لوگوں کے سپرد کردئیے اور سیدھے سادے اللہ والوں کو دین کا معاملہ سونپ دیا تو قصور سادہ خیلوں کا نہیں بلکہ امت کا ہے قرآن نے واضح کیا کہ رسول اللہ ﷺ کو قیامت کے دن امت سے یہ شکایت ہوگی ، جن میں عوام ،خواص، علماء ، مشائخ ، فقہاء، محدثین سب شامل ہیں۔
وقال رسول یا ربی ان قومی اتخذوا ھٰذالقرآن مھجوراً ’’ اور رسول کہیں گے کہ اے میرے ربّ ! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا‘‘۔
طلاق وہ معاملہ ہے کہ جدائی کیلئے اللہ تعالیٰ نے نہ صرف میاں بیوی بلکہ معاشرے کے افراد خاص طور پر رشتہ داروں کو بھی ایک واضح کردار دیا ۔ اسلئے یہ واضح کردیا ہے کہ جدائی کے بعد نہ صرف میاں بیوی بلکہ فیصلہ کرنے والوں کو بھی یہ خوف ہو کہ دونوں اسکے بعد وہ دی ہوئی چیز واپس کئے بغیراللہ کے حدودپر قائم نہیں رہ سکیں گے تو فدیہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ یہ صورتحال حضرت ابن عباسؓ نے بھی واضح کی تھی اور فقہ حنفی کے اصول میں بھی اس کی وضاحت ہے، حضرت ابن عباسؓکا قول اورہمارا نصابِ تعلیم غلط ہے؟۔
اس صورتحال میں میاں بیوی کی طرف سے رجوع کا سوال پیدا نہیں ہوتا اسلئے کہ آئندہ بھی وہ رابطے کے خوف سے حلال نہ ہونے کے باوجود اس چیز کو فدیہ کررہے ہیں جس کے بغیر اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا خوف ہو اور اللہ نے اس وجہ سے دونوں پر اس لین دین میں حرج نہ ہونے کی بھی وضاحت فرمادی لیکن ہوتا یہی تھا کہ ایسی طلاق کے بعد بھی پہلا شوہر عورت کو دوسرے شوہر سے اس کی مرضی پر نکاح نہ کرنے دیتا تھا۔ آج بھی معاشرے میں یہ صورتحال رائج ہے اور یہ بہت بڑی بات ہے کہ کوئی طلاق دے اور عورت اڑوس پڑوس اور قریب میں کسی اور سے نکاح کرلے مگر پہلا شوہر اس میں رکاوٹ اور بدمزگی پیدا کرنے سے گریز کرے۔ عمران خان نے ریحام خان کو طلاق دی اور وہ رجوع بھی نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن اسکے باوجود میڈیا میں ریکارڈ پر ہے کہ ریحام خان کہہ رہی تھی کہ اپنی جان پر کھیل کر پاکستان آئی ہوں اسلئے کہ عمران خان کے جیالے پاکستان واپس آنے پر قتل کی دھمکیاں دے رہے تھے۔ شہزادہ چارلس نے لیڈی ڈیانا کو طلاق دی لیکن دوسرے کیساتھ گھومنے کے بعد حادثہ ہوا تو آج تک اس پر قتل کا مقدمہ چل رہاہے کہ طلاق شدہ بیوی سے دوسرے شوہر کیساتھ گھومنا برداشت نہ ہوا ۔
قرآن میں نبیﷺ کی ازواج مطہرات امہات المؤمنینؓ کیلئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ’’ کبھی ان سے نکاح نہ کرو، اس سے نبی کو اذیت ہوتی ہے‘‘۔ انسان ہی نہیں حیوانات اور پرندوں میں بھی یہ غیرت موجود ہوتی ہے کہ اپنی بیوی سے کسی دوسرے کا تعلق برداشت نہیں کرسکتے۔ اسی انسانی فطرت کو ملحوظِ خاطر رکھ کر اللہ تعالیٰ نے ایک خاص صورتحال کی اچھی وضاحت کرنے کے بعدواضح کردیا کہ ’’پھراگر اس نے طلاق دی تو اس کیلئے حلال نہیں یہانتک کہ وہ کسی اور سے نکاح نہ کرلے‘‘۔ قرآن وسنت کے سیاق و سباق سے ہٹ کر فتویٰ دینا غلط ہے۔تیسری طلاق تو تسریح باحسان ہے ۔نبیﷺ نے واضح فرمایا اور سمجھایا کہ پہلے طہر وحیض، دوسرے طہر وحیض اور طہرمیں تیسری طلاق ہے۔
پوری دنیا کیلئے یہ آیت ہدایت کا ذریعہ بن سکتی ہے کہ اسلام نے معاشرے پر کتنا بڑا احسان کیا ہے کہ جہاں مرد کو طلاق کا حق دیا، وہاں عورت کو اپنی مرضی سے نکاح کرنے کی اجازت بھی دیدی ۔ آیت کا اصل مدعی عورت کا اپنی مرضی سے دوسرے شوہر کیساتھ نکاح کرنے کی اجازت ہے تاکہ پہلے شوہر کی دسترس سے طلاق شدہ عورت باہر نکل جائے۔ حنفی مسلک میں یہ مفہوم پڑھایا جاتاہے مگرافسوس کہ استاذ اور شاگرد سمجھ نہیں رکھتے۔
درسِ نظامی میں اصولِ فقہ کی پہلی کتاب ’’ اصول الشاشی‘‘ میں پہلا سبق یہ ہے کہ فان طلقہا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجًا غیرہ میں عورت کو اللہ تعالیٰ نے نکاح کیلئے آزاد کردیا ہے جبکہ حدیث ہے کہ ’’ جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرلیا تو اس کا نکاح باطل ہے باطل ہے باطل ہے‘‘۔ اسلئے حنفی مسلک میں قرآن پر عمل کیا جاتا ہے اور حدیث قرآن سے متصادم ہو تو اس کو رد کردیا جاتا ہے۔ اگر کوئی عورت ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرلے تو اس کے نکاح کو جائز قرار دیا جائے جبکہ جمہور کے نزدیک عورت کا نکاح جائز نہیں ہوگا۔
ایمانداری سے بتائیے کہ آیت میں یہ ہے کہ کنواری لڑکی بھاگ کر شادی کرلے تو اس کا نکاح جائز ہے، ولی اگر اس کو اجازت نہ دے، تب بھی نکاح ہوجائیگا اور نبی کریم ﷺ نے باطل، باطل اور باطل تین مرتبہ تاکید سے فرمایا ہو تو یہ آیت سے متصادم ہے؟۔ یا آیت میں واضح ہے کہ اگر شوہر نے باہوش وحواس طلاق دیدی ہو ، رجوع کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، پھر اگر کسی اور شوہر سے شادی کرنا چاہتی تو پہلا شوہر رکاوٹ نہ ڈالے؟۔ اگر آیت میں ولی کا ذکر ہوتا تو پھر حدیث کو متصادم قرار دینا درست ہے لیکن آیت میں پہلے شوہر کا ذکر ہے تاکہ وہ اسکے دوسرے شوہر سے نکاح میں رکاوٹ نہ بن جائے۔
اس معاشرتی مسئلے کو قرآن نے جس طرح سلجھایا ، اس میں حلالہ کی لعنت کارستہ نہیں کھولا بلکہ یہ واضح کیا کہ پہلے بھی اس لعنت کا تصور غلط لیا گیا تھا اور قرآن نے ان آیات سے پہلے اور ان آیات کے بعد علی الاطلاق عدت کے اندر اور عدت کے بعد بہر صورت باہمی رضا اور معروف طریقے سے رجوع کا راستہ کھلا رکھا ہے ۔
رفاعۃ القرظیؓ کی بیوی کے حوالے سے ہے کہ جب اس کو طلاق ہوئی ، طلاق بتہ ہوئی تو کسی اور سے نکاح کیا اور نبیﷺ سے عرض کیا کہ دوسرے شوہرکے پاس دوپٹہ کے پلو کی طرح چیز ہے، نبی ﷺ نے فرمایا کہ کیا تو اسکے پاس لوٹنا چاہتی ہے؟ نہیں جب تک تو اس کا ذائقہ چکھ نہ لے اور وہ تیرا ذائقہ نہ چکھ لے‘‘۔ محدث العصر مولانا سلیم اللہ خان ؒ صدروفاق المدارس پاکستان نے اپنی ’’ کشف الباری شرح صحیح بخاری‘‘ میں حنفی مسلک کے دالائل میں ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہوئے لکھ دیا کہ ’’ یہ حدیث خبر واحدہے، اس سے قرآن کے الفاظ پر مباشرت ( وطی) کا اضافہ ہم نہیں کرسکتے، اسلئے کہ خبر واحد سے قرآنی آیت پر اضافہ کرنا جائز نہیں۔ البتہ حنفی مسلک میں نکاح کا معنی ہی مباشرت (وطی) ہے اسلئے ہم مباشرت مراد لیتے ہیں‘‘۔
اصولِ فقہ میں ہے کہ حنفی مسلک میں نکاح مباشرت کا نام ہے چاہے وہ جائز ہو یا ناجائز ؟۔ جمہورکے نزدیک حلالہ کی لعنت سے عورت سابق شوہر کیلئے جائز نہ ہوگی لیکن 900سال کے بعد حنفی فقہاء نے یہ دریافت کرلیا کہ جب تک زبان سے حلالہ کی نیت نہ کی جائے تو نیت معتبر نہ ہوگی اور حلالہ لعنت نہ ہوگا۔ اور یہی نہیں بلکہ غیر معروف اور غیر معتبر مشائخ اور کتابوں کے حوالہ جات نقل کرکے لکھ دیا کہ ’’ اگر نیت دونوں خاندانوں کو ملانے کی ہو تو حلالہ سے ثواب بھی ملے گا‘‘۔ علامہ بدرالدین عینی اور علامہ ابن ھمام حنفی کی وفات 950ھ اور 980ھ ہجری میں ہوئی ہے۔ اہلسنت والجماعت کی اشاعت نمبر100 میں ’’طلاق ثلاثہ اور حلالہ‘‘ کے عنوان سے جس ہرزہ سرائی کا ارتکاب کرتے ہوئے لکھا کہ ’’ حلالہ کو بے غیرتی کہنا ان لوگوں کا وطیرہ ہے جنکے ایمان وایقان کی جگہ بے غیرتی نے لی ہو‘‘۔ کیا اسکا اثر حدیث پر نہیں پڑتا ،جس میں حلالہ کی لعنت کرنیوالے کو کرایہ کا بکرا کہا گیا ہے؟۔ اسی کتاب میں یہ وضاحت بھی کی گئی ہے کہ غیرت کی قلت کی وجہ سے ہی حدیث اس کو شخص کو کرایہ کا بکرا قرار دیا گیا ہے۔
مفتی محمد اکمل صاحب کی ویڈیو نیٹ پر دستیاب ہے، جس میں حلالہ کو امام ابوحنیفہؒ کی طرف سے باعثِ ثواب قرار دیا ہے۔ حالانکہ کسی حدیث میں بھی یہ فتویٰ نہیں دیا گیا ہے کہ میاں بیوی کا رجوع نہیں ہوسکتا اور حلالہ کی بنیاد پر اتفاقِ رائے تھی کہ ناجائز ، لعنت اور حرام ہے۔ہاں جب فقہ حنفی کے فقہاء نے حرمتِ مصاہرت کے خود ساختہ مسائل گھڑنے شروع کئے تو نکاح کو جماع (وطی) قرار دیا گیا اور اس میں زنا، ناجائز اور جائز مباشرت کو نکاح قرار دیا گیا تو حلالہ کی لعنت کو بھی ناجائز ہونے کے باوجود اس کے ذریعے سے دوسرے شوہر کیلئے حلال ہونے کا ذریعہ قرار دیا گیا۔ کیونکہ حنفی مسلک میں ناجائز اور زنا پر نکاح کا اطلاق ہوتا ہے۔ باقی مسالک میں حلالہ سے عورت پہلے شوہر کیلئے جائز بھی نہیں۔امام ابوحنیفہؒ نے بھی جائز نہ کہا۔
حرمت مصاہرت کے غلط مسائل ہی بعد میں گھڑے گئے ۔ قرآن میں حرمت مصاہرت کی ایک صورت کیلئے بہت واضح الفاظ میں نکاح اور اسکے بعد دخول کا ذکر ہے۔ عوام کے سامنے مفتی صاحبان من گھڑت مسائل سے بھی گھبرا جائیں گے، طلاق کا معاملہ بھی بڑا بھیانک ہے۔
قرآن میں طلاق کا مقدمہ سورۃ البقرہ آیت224 سے شروع کیا گیا ۔ حنفی مسلک کی سب سے معتبر فتاویٰ کی کتاب ’’ قاضی خان ‘‘ میں ہے کہ ’’ ایک شخص نے بیوی سے کہا کہ اگر تیری ۔۔۔ میری ۔۔۔ سے خوبصورت نہیں تو تجھے طلاق، عورت نے کہا کہ اگرمیری ۔۔۔ تیری ۔۔۔ سے خوبصورت نہ ہو تومیری لونڈی آزاد۔ امام ابوبکر بن فضل نے کہا کہ کھڑے ہونے کی صورت میں مرد کی طلاق واقع ہوگی اور بیٹھنے کی صورت میں عورت کی لونڈی آزاد ہوگی ۔ اگر مرد کھڑا ہو، عورت بیٹھی ہو تو مجھے بھی پتہ نہیں مگر مناسب یہ ہے کہ دونوں حانث ہوں اسلئے کہ دونوں نے یمین سے شرط بریت رکھی ہے۔( فتاویٰ تاتارخانیہ سرکی روڈ کوئٹہ)
اس عبارت کو نقل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ طلاق سے بھی یمین مراد لیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آیت224میں فرمایا کہ ’’ اللہ کو اپنے یمین کیلئے ڈھال مت بناؤ کہ تم نیکی کرو،تقویٰ اختیار کرو اور لوگوں کے درمیان صلح کراؤ‘‘۔
اس آیت سے یہ ثابت ہے کہ میاں بیوی کیلئے اللہ نے کوئی بھی ایسی صورت نہیں رکھی کہ اللہ کے نام پر صلح کا دروازہ بند کیا جائے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ایلاء کی صورت میں چار ماہ تک صلح کا دروازہ کھلا رکھا مگر اسکے بعد بھی صلح پر پابندی نہیں لگائی ہے۔ عدت کا تقرر نہ ہو تو طلاق کے بعد عورت کے انتظار کا بھی پتہ نہیں چلے گا۔ پھر اسکے بعد اللہ نے طلاق کی عدت تین قروء ( طہرو حیض ) بتائی ہے۔ پھر اس میں صلح کی شرط پر رجوع کی وضاحت کی ہے اور پھر اللہ نے عدت کے تین مراحل میں تین مرتبہ طلاق کو واضح فرمایا۔ جس کی بخاری کی احادیث میں مزید وضاحت بھی ہے۔ کیا یہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرمائے کہ’’ عدت میں صلح کی شرط پر رجوع شوہر کا حق ہے‘‘ ، دوسری آیت میں کہے کہ نہیں عدت میں بھی رجوع نہیں ہوسکتا؟ اور شوہر کے بجائے مفتی صاحب کو حلالہ کیلئے حوالہ کرنا ہوگا؟۔
قرآن کا دعویٰ ہے کہ اس میں تضاد نہیں ،اس کو اللہ نے ہر چیز کے واضح کرنے کیلئے نازل فرمایا تو کیا طلاق کا مسئلہ اللہ نے ان ساری آیات کے باوجود بھی واضح نہیں کیا ہے؟۔ یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ خبر واحد سے جس حلالہ کو ثابت کیا جارہاہے، اس میں وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح کرچکی تھی۔ پہلے شوہر نے عدت میں مرحلہ وار تین طلاقیں دی تھیں، اس کی طلاق بتہ ہوچکی تھی یعنی وہ اپنے شوہر سے تعلق منقطع کرچکی تھی۔ بخاری میں ہے کہ فبتہ طلاقی ’’ پھر میری طلاق منقع ہوچکی تھی‘‘اسکے معنی یہ نہیں کہ ایک طلاق بھی مراد ہوسکتی ہے اور تین طلاق بھی ۔
ابوداؤد شریف کی روایت میں یہ وضاحت ہے کہ نبی کریم ﷺ سے کہا گیا کہ وہ تین طلاق دے چکا ہے ، جس پر نبیﷺ نے فرمایا کہ مجھے معلوم ہے اور آپ ﷺ نے سورۂ طلاق کی تلاوت فرمائی۔ سورۂ طلاق میں عدت کے اندر مرحلہ وار طلاق اور عدت گننے کا حکم ہے۔ عدت کے اندر بھی رجوع کی گنجائش کا ذکر ہے اور عدت کی تکمیل پر بھی اور عدت کی تکمیل کے بعد ہمیشہ کیلئے اللہ نے راستہ کھلا رکھا ہے۔ سورۂ بقرہ کی آیات 224سے 232تک اور سورۂ طلاق کی پہلی دوآیات کا متن دیکھ لیجئے گا۔
اللہ تعالیٰ نے عدت کے اندر جہاں صلح کی گنجائش کا ذکر کیا ہے تو اسکا مطلب یہ نہیں کہ صلح کے بعد یہ گنجائش ختم ہوجاتی ہے بلکہ عدت سے شوہربیوی کے درمیان صلح کیلئے لازمی پیریڈ رکھا گیا ہے۔ صلح کیلئے باہمی رضاضروری قرار دی ہے اور جہاں بھی رجوع کرنے کی اجازت ہے وہاں معروف طریقے سے رجوع کی وضاحت ہے۔ معروف طریقہ باہمی صلح اور رضامندی ہے۔ لیکن فقہاء نے جن منکر صورتوں کا ذکر کیا ہے انسان حیران وپریشان ہوجاتا ہے کہ قرآن کو چھوڑ کر کس اندھیر نگری میں دور کی گمراہی کا شکار ہوگئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت دے۔
نبی کریم ﷺ، صحابہ کرامؓ، تابعینؒ ، تبع تابعینؒ ، ائمہ مجتہدین ؒ ، محدثینؒ اور پہلے کے فقہاء میں سے کسی نے بھی حلالہ کا فتویٰ نہیں دیا ۔ اب رہ گیا بہت بعد کے دور کا مسئلہ تو حلالہ کی لعنت سے انکے مقام ومرتبہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے اسلئے کہ اگرچہ نبیﷺ نے اس کو لعنت اور کرائے کا بکرا بھی قرار دیا تھا۔ یہ بھی اس دور کی بات ہے جبکہ قرآن کی واضح آیات نازل نہیں ہوئی تھیں۔ سورۂ مجادلہ میں ظہار کی صورتحال بھی بعد میں واضح ہوئی، اسی طرح یہ بھی کہ سورۂ احزاب میں مزید تنبیہ کیساتھ ظہار و منہ بولے بیٹے کا مسئلہ واضح کیا گیا۔ حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ نے شجرہ ممنوعہ کے پاس جانے سے روکا۔ جب شیطان نے دونوں کو ورغلایا تو حضرت آدم علیہ السلام و حواء علیہا السلام نے عرض کیا کہ ہم نے اپنے ارادہ واختیار سے ایسا نہ کیا۔ جب حضرت آدم علیہ السلام کے مقام پر کوئی اثر نہیں پڑتا تو بعد کے بزرگوں کے مقام ومرتبہ پر بھی اثر نہ پڑتا ہوگا۔ البتہ معاملہ واضح ہوجانے کے بعد اس عمل سے اجتناب نہ کرنا اور قرآنی آیات سے انحراف کرنا دنیا وآخرت کی پکڑ کا باعث ہوسکتا ہے۔ اللہ ہماری حفاظت فرمائے۔
اہلحدیث ، اہل تشیع، غلام احمد پرویز، جاوید غامدی، ڈاکٹر ذاکر نائیک ، علامہ تمنا عمادی اور دیگر تمام لوگوں کے مقابلے میں طلاق کے حوالے سے درسِ نظامی کے نصاب سے استفادہ کرنیوالا طالب عتیق گیلانی تمام اہل حق کیلئے اعزاز ہے۔ افسوس ہے کہ ہم نے قرآن کے احکام سے متعلق کبھی آیات پر غور ہی نہ کیا ۔ کوئی ایک بھی صحیح حدیث نہیں جو قرآن کے منافی اور میاں بیوی کیلئے رجوع سے رکاوٹ ہو۔ بخاری میں اہل فارس کے فرد یا چند افراد کا ذکر ہے جو علم، ایمان اور دین کو ثریا سے واپس لانے میں اپنا کردار ادا کرینگے۔درسِ نظامی کے علماء کرام میرے محسن ہیں، بریلوی دیوبندی نصاب ایک ہے ، سب امت کو انقلاب کی طرف لایا جائے۔ خواتین کو عزتیں لٹانے پر مجبور کرنیوالا طبقہ انشاء اللہ جلد آنکھ کھلنے کی نوید سنادیگا۔

عمران خان کہہ رہا ہے کہ دلوں اور بے غیرتوں مجھے نا اہل کرکے دکھاؤ

پانامہ کے اندر عمران خان کا نام آیا تو جمائما نے اس بینک کی اسٹیٹمنٹ تیار کی جس کا کافی عرصے سے وجود ہی نہیں تھا لیکن عدالت نے اس کو قبول کرکے کہا کہ عمران خان صادق اور امین ہے۔ پھر عمران خان نے بنی گالہ کی تعمیرات پر کیس کیا کہ یہ غیر قانونی ہیں تو عدالت نے لوگوں کی تعمیرات پر پابندی لگادی اور انکوائری شروع کی۔ جب عدالت نے عمران خان کے مکان کا پوچھا تو اس کے پاس بھی قانونی کاغذات نہیں تھے ۔ پھر اس نے جعلی کاغذات بنوائے اور ایسی تاریخ میں کاغذات بنوائے جس تاریخ میں کاغذات بن ہی نہیں سکتے تھے لیکن عدلیہ نے اس کو نااہل قرار نہیں دیا۔ عمران خان نے کہا تھا کہ ٹیکس سے حاصل ہونے والی آمدن پر حکمران عیاشی کرتے ہیں لیکن جب عمران خان کے پر سرکاری ہیلی کاپٹر استعمال کرنے کا کیس بنا تو ججوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ عمران خان نے کہا تھا وزیر اعلیٰ ہاؤس اور گورنر ہاس کو تعلیمی ادارے بنائیں گے پھر نتھیا گلی میں وزیر اعلیٰ ہاؤس خود استعمال کیا اور اس کا کرایہ بھی نہیں دیا۔ پھر عمران خان نے الیکشن کے بعد پہلی تقریر میں کہا کہ جو حلقہ کھلوانا چاہو میں رکاوٹ نہیں بنوں گا۔ جب عدالت نے خواجہ سعد رفیق کی درخواست پر الیکشن کمیشن کو حکم دیا کہ دوبارہ گنتی کروائی جائے تو عمران خان نے اس حکم کیخلاف اسٹے آرڈ لینے کا فیصلہ کیا اور بزبان حال کہا کہ دلوں اور بے غیرتوں مجھے نا اہل کرکے دکھاؤ۔

پی ٹی ایم کے علی وزیر اور محسن داوڑ جیت گئے، مصطفی کمال ہار گئے کیوں؟: عبد القدوس بلوچ کا تبصرہ

ali-wazir-ptm-mohsin-dawar-mqm-syed-mustafa-kamal-establishment-bacha-khan-mian-iftikhar-hussain-hafiz-saeed-justice-shaukat

ادارہ اعلاء کلۃ الحق کے امیر عبدالقدوس بلوچ نے کہا: شمالی و جنوبی وزیرستان سے قائد PTM منظور پشتین کے دست وبازو محسن داوڑ و علی وزیر جیت گئے، PSP کے مصطفی کمال ہار گئے۔ آخر یہ کیوں ہوا؟۔ بعض باتوں میں لوگ شر سمجھتے ہیں مگر اللہ نے خیر رکھی ہوگی۔ اگر مینڈیٹ چوری ہواتو ٹینشن اقتدار سے محروم سیاسی طبقہ نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ لے۔ بلوچوں میں قومی پرستی اور پختونواہ میں دہشتی گردی کی ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ ہے اور اب پورے ملک کو اس کی طرف دھکیل دیا ۔ بیچ بویا جائے تو فصل تیار ہوتی ہے۔ سیاسی جماعتیں عدمِ استحکام کے کھیل میں برابر کی حصہ دار ہیں۔عدالتیں کام کی نہیں۔ نواز شریف نے پارلیمنٹ میں کہا کہ ’’ سعودیہ کی وسیع اراضی و دبئی کی مل کو بیچ کر 2006ء میں لندن فلیٹ خریدے جسے میں بلاخوفِ تردید ہر فورم ، ہر عدالت میں ثابت کرسکتا ہوں۔دستاویزی ثبوت موجود ہیں‘‘۔ جس طرح جج اپنی توہین پر ویڈیو ریکارڈ ملزم کے سامنے چلادیتاہے، اسی طرح قوم وملک کا پیسہ کھانے پر ویڈیو کو چلادیتے تو مجھے کیوں نکالا؟ کی تحریک نہ چلتی۔ کوئی کارکن یا رہنما کہہ دیتا کہ جس نے پالا اس نے نکالا۔ ووٹ کو عزت جھوٹ کا منہ کالا۔ اگر نوازشریف کانام نظریہ ہے تو مریم نواز بھی اس بنیاد پر نہیں چل سکتی ۔ موروثی سیاست والو! خدا کا خوف کرو، ٹبر نظریہ نہیں خاندان ہے۔ باچا خان نظریہ تھا مگر اسکا پوتا ، پڑ پوتا معذور ، منحوس اور بیکار ہو تب بھی پارٹی کی صدارت کریگا؟۔ کیا میاں افتخار حسین کو پارٹی کا سربرا ہنہیں بناسکتے اور جب اسفندیارولی کہے کہ عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کے گدھے پر سوار ہوکر اقتدار تک رسائی حاصل کی تو کہاجائیگا کہ تم نے گدھے کی دُم پکڑی تھی تو پھر لات ہی پڑناتھی۔بلوچستان میں اے این پی اسی کیساتھ کھڑی ہے جس کی شکایت ہے کہ گدھے پر سوار ہے۔ مصطفی کمال نے ایم کیوایم کے دورِ عروج میں پرورش پائی، علی وزیر اور محسن داوڑ نے مشکل پہاڑ سر کئے۔ بچیوں کیساتھ زیادتوں کا معاملہ جاری ہے اور معاشرہ غفلت کا شکارہے، بڑا عذاب نہ آئے! جسٹس شوکت نے ISI پر الزام لگایا۔ ISI عمران خان کی پشت پر تھی تو نااہل قرار دیدتا۔ مذہبی قومی شدت پسندوں کو سیاست میں لانے پرکسی کے ووٹ کٹ جائیں تو ناک بھی کٹ جائے۔ حافظ سعید سے کہلوایا جائے کہ سعودی بادشاہت کی طرح جمہوری نظام بھی کفر نہیں ۔

پیپلز پارٹی اور ن لیگ سے لوگ تنگ تھے تحریک انصاف کا حکومت میں‌آنا قدرت کا کرشمہ ہے: اجمل ملک

tehreek-e-insaf-hamid-mir-mma-mullah-military-alliance-imran-khan-maulana-fazal-ur-rehman-election-1985-boycott-taliban-nawaz-sharif-zardari-bailout-prime-minister-house

ایڈیٹر نوشتۂ دیوارمحمد اجمل ملک نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اچھے کی امید رکھنے کی ضرورت ہے۔ جمہوریت اثرو رسوخ اور بھاری بھرکم پیسوں سے نتائج برآمد کرے یا مقتدر قوت مرضی کا نتیجہ۔ بہر حال ڈگری ڈگری ہے جعلی ہو یااصلی کی طرح جمہوری نظام بھی جمہوری نظام ہے۔ بدمعاشی ہویا پیسوں سے یا مقتدر قوت کے اشاروں پر، عوام بڑی مشکل سے ووٹ کیلئے نکلتے ہیں اور تبدیلی چاہتے ہیں۔1985ء کاالیکشن ہوا تو سیاسی جماعتوں نے بائیکاٹ کیا تھا۔ عوام نے بڑی تعداد میں ووٹ ڈالا، تاکہ سیاسی جماعتوں سے جان چھوٹ جائے۔ محمد خان جونیجو کو قائدجمہوریت کہا گیا، پھر جنرل ضیاء کو جلن ہوئی، حکومت ختم کردی، جنرل ضیاء کے پرخچے اُڑ گئے تو جمہوریت بحال ہوگئی ۔ 1988سے 2018 تک پیپلزپارٹی، ن لیگ نے باریاں لگائیں۔ عوام نے MMA کو ووٹ دیا۔ پیپلز پارٹی دو لخت تھی، مولانا فضل الرحمن کو ظفر جمالی نے ایک ووٹ سے ہرایا۔ ن لیگ ، عمران خان نے MMAکو ووٹ دیا مگر ملٹری ملا الائنس مشہورہوا۔حامد میربھولا مگر بھارتی صحافی کویادہے ۔ MMA ٹوٹ گئی ، مولانا فضل الرحمن اور قاضی حسین احمد پر خود کش حملے ہوئے۔ عمران خان پھر بھی طالبان کیساتھ رہا۔ حامد میر بھارتی صحافی کو بتاتا کہ عمران خان اکیلا طالبان کا حامی نہ تھا، نواز شریف بھی شامل تھا۔ زرداری کی حکومت آئی تو مولانا فضل الرحمن نے ڈولفن کی طرح اس میں چھلانگ لگائی۔ ن لیگ اور پی ٹی آئی کو دہشتگردوں نے 2013کے الیکشن میں کھلی چھوٹ دی ۔ ن لیگ حکومت میں مولانا فضل الرحمن نے پھر چھلانگ لگا دی ۔ حکومتوں کا مزا لیا،جمہوریت کو چلنے دیں، جمہوری نظام کے نام پر خاندانی بادشاہت کو انجام تک پہنچے پراللہ کی قدرت خوش ہوگی۔ عمران خان کے اصول بے نقاب ہوگئے ۔پہلی تقریر کرتا کہ’’ اکثریت نہیں،اپوزیشن کرونگا، دوبارہ الیکشن کی حمایت کرتا ہوں۔‘‘ تو عزت بچتی۔ نواز شریف کی طرح قرضہ لیا تو جمہوریت کی آخری اُمید بھی عالمی سازش کا حصہ ہوگی۔خبریہ ہے کہ بڑا قرضہ ملے گا اور امریکہ نے اب بیل آؤٹ کا طعنہ بھی پاکستان کو دیا ہے ۔ وزیر اعظم، وزیراعلیٰ کا عہدہ اہمیت نہیں رکھتابلکہ قومی خدمت ضروری ہے۔اگر تانگے مانگے سے سادہ اکثریت حاصل ہو جائے تو کوئی ترمیم نہ لائی جاسکے گی۔ محسن جگنو کا وزیراعلیٰ پنجاب اور محسن داوڑ کا وزیراعظم بننے کے بعد یہ معمہ حل ہوجائیگا کہ سرائیکی صوبہ بن جائے۔ گورنرہاؤس، وزیراعلیٰ ہاوس، وزیر اعظم ہاوس اور باقی تمام اداروں کے بڑوں کے اخراجات کو کم کیا جائے۔زرعی زمینین کاشت کرنیوالوں کو محنت اور کمائی کیلئے دی جائیں تو روس و چین بھی اسلامی نظام کے قریب آ جائیں گے۔

دو گھنٹے میں شاہ محمود قریشی کا نتیجہ آیا جبکہ دوسرے اور تیسرے دن بھی گنتی کا سلسلہ جاری رہا. اشرف میمن

shah-mehmood-qureshi-dawn-news-noon-league-pti-zardari-sohail-warraich-mazhar-abbas-the-party-is-over-imran-khan-wusatullah-khan-mubashir-zaidi-hamid-saeed-kazmi-amir-liaquat-bol-news-altaf-ahmed

پبلشر نوشتۂ دیوار اشرف میمن نے کہا پچھلی بار ہوا کارُخ ن لیگ کا تھا موسمی پرندوں نے الیکشن سے قبل پی ٹی آئی کو چھوڑ ا، ن لیگ میں شامل ہوگئے۔ زرداری کیخلاف میڈیا نے ہوا بنائی ۔ مظہر عباس نے سہیل وڑائچ کی کتاب ’’دی پارٹی از اوار‘‘ میں کہا کہ ’’الیکشن سے پہلے دھاندلی میں فضا ایسی بنائی جاتی ہے کہ رُخ کسی کی طرف ہو، جیو اور باقی چینلوں میں یہ فرق ہے کہ ہم سچ یا جھوٹ کہنے پر مجبور نہیں، ہم دیکھ لیتے ہیں تب اپنی مرضی سے سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہتے ہیں۔ جمہوریت قربانی مانگتی ہے، ابھی بڑاسفر باقی ہے، یہ جمہوریت کی جیت ہے کہ الیکشن کے ذریعے مقتدر طبقہ کسی کو اقتدار دینے پر مجبور ہوا، کتاب کے نام سے کہانی کا پتہ چلتاہے، نوازشریف کو ناقابل برداشت سمجھا گیا، کل عمران خان بھی ناقابلِ برداشت ہوسکتے ہیں‘‘۔ ڈان نیوز پر ’’ ذرا ہٹ کے‘‘ میں بتایا ’’ ظفراللہ جمالی کے مقابلے میں مولانا فضل الرحمن کو ایک ووٹ سے ہرایا گیا۔ پانچ آزادمزید ارکان آئے تو اُن سے کہاگیا کہ بس آپ کی ضرورت نہیں، جمالی کو زیادہ ووٹ مل گئے تو ہاتھ سے نکل جائیگا‘‘۔وسعت اللہ خان، ضرار کھوڑو اور مبشر زیدی صحافت میں بڑے معتبر نام ہیں۔جیو، ڈان و دیگر چینل اور صحافیوں کو اللہ سلامت رکھے۔ یہ بڑی نعمت ، احسان اور غنیمت ہیں عوام کا شعور بڑھا رہے ہیں۔ روزنامہ جنگ نے سب سے بڑی سرخی لگائی ’’حامد سعید کاظمی نے کرپشن کا اعتراف کرلیا‘‘ کرپشن کا اعتراف کیا تھا؟ ۔ نواز شریف نے پارلیمنٹ میں جن دستاویزی ثبوتوں کا دعویٰ کیا،درست تھے؟۔ ایک ایسا پروگرام صحافی حضرات پوری قوم کے سامنے رکھیں کہ عوام کا شعور بڑھے اور عوام کا صحافت ریاست ، عدالت اور سیاست پر اعتماد بحال ہو ۔ مظہر عباس اچھے صحافی ہیں جو لکیرکے ایک طرف ہیں، ڈاکٹر عامر لیاقت دوسری طرف ہیں۔ عامر لیاقت ڈاکٹر نہیں،جھوٹ کا کریڈٹ جیو کو جاتا ہے۔ عامر لیاقت نے اعتراف کیا کہ ’’ بول نیوز نے جھوٹ کہلوایا ، دل آزاری پر معذرت چاہتا ہوں‘‘۔ حامد سعید کاظمی پر اعتراف جرم کو جس انداز میں پھیلایا گیا تھا،کیا یہ جیو، جنگ کی غلط فہمی ہوسکتی تھی؟ ، نوازشریف کی طرف سے پارلیمنٹ کے بیان کو جیو، جنگ نے اس انداز میں پیش کیا جو اسکا حق تھا؟۔ صحافت کا یہ طریقہ واردات قوم کے مفاد میں ہے؟۔ یہ قابلِ فخر ہے؟۔ یہ غلط فہمی کا ہی نتیجہ ہے؟۔ ذاتی ، مالی اور دوستانہ مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنانے کی مہم جوئی قوم، ملک ، سلطنت اور صحافت کا مفاد نہیں ہوسکتا ۔ جیو دونوں قسم کی مہم جوئی پر عوامی عدالت کے کٹہرے میں کھڑی ہوگی۔وسعت اللہ خان، ضرار کھوڑو اور مبشر زیدی بتائیں کہ جو معیار آپ لوگ دوسروں کے بارے میں رکھتے ہیں ،کیا اپنے بارے میں بھی سوچا ہے؟۔ قومی اسمبلی کے ممبر وں کا غائب ہونا نظر کیوں نہ آیا؟۔ جمالی ایک ووٹ سے جیتا اور مولانا فضل الرحمن ایک ووٹ سے ہارا تھا ،یہ 5 ارکان کون تھے؟، کہاں گئے اور کس کو ووٹ ڈالا؟۔ایک ووٹ سے ہار جیت کا مسئلہ تھا اور 5آزاد ارکان پارلیمنٹ ایسے بے وقعت ہوئے تو ان کا نام گینزا بک ریکارڈ میں ڈالنے کی ضرورت ہے۔ خلائی مخلوق تو نظر نہیں آتی مگر یہ تو آج بھی دریافت ہوسکتے ہیں، سوشل میڈیا اور بے پر کی باتیں اُڑانیوالے اعترافِ جرم کے مرتکب ڈاکٹر عامر، سزایافتہ ڈاکٹر شاہد مسعود بیڈ صحافیوں کی فہرست میں لکیر کی دوسری جانب ہیں مگر وسعت اللہ خان ، مظہر عباس تو گڈ صحافیوں میں سرِ فہرست ہیں۔اعتراف جرم یا سزا ہونی چاہیے؟۔ جیوکی مہم جوئی سے اسٹیبلشمنٹ کے ہمدردوں کا رخ بھی ری ایکشن میں بدل گیا۔ صحافت میں وکالت کا کریڈت جیو جنگ کو جاتا ہے۔ ری ایکشن میں ARY نیوز اچھا ہوا کہ ن لیگ کی اپوزیشن میں آئی۔ جیو جنگ مہم جوئی کرتے کہ نوازشریف پارلیمنٹ میں جھوٹ پر مجبور نہ تھا اور قطری خط کھلا فراڈ ہے تو کوئی ن لیگ کیخلاف کھڑا نہ ہوتا۔جنگ جیو جھوٹی مہم جوئی نہ کرتے کہ حامد کاظمی نے اعتراف کیا تو دوسروں کو مہم جوئی کرنے کی ہمت نہ ہوتی۔ پاؤں کی انگلی کانوں کو لگاکر معافی مانگی جاسکتی تو بھی دریغ نہ کریں۔ن لیگ کی مخالفت اور پی ٹی آئی کی حمایت میں فضا کے رُخ بدلنے میں جیو جنگ کی بے شرمی سے مہم جوئی کا وطیرہ بنیادی اہمیت کا حامل تھا۔ صحافت کپڑے اتارکر شیشے میں شفاف طریقے سے بے شرمی کا مظاہرہ نہ کرتی تو صحافت کا ماحول ردِ عمل میں اتنا گھٹیا اور گھناؤنا نہ ہوتا۔ ن لیگ کی حکومت تھی۔ صحافت نے حکمرانوں کی غلطیوں کو اجاگر کرنا ہے ، حکمرانوں کے حق میں مہم جوئی کرنا بہت ہی غلط ہے۔جیو اور جنگ نے پیپلزپارٹی کیخلاف غلط مہم جوئی کی اور جمہوریت کو سخت نقصان پہنچایا، ن لیگ کے حق میں جب غلط مہم جوئی کی تو جمہوریت کو اور زیادہ نقصان پہنچا یاہے۔ اسکے شاگرد اس روش پر چل کر مزید کیا گل کھلائیں گے؟۔اسٹیبلشمنٹ جبر ہے مگر عوام کی مجبوری بھی ہے۔ عوام طالبان،ایم اکیوایم اوردیگر سیاسی پارٹیوں ن لیگ ، پیپلز پارٹی، جے یو آئی ف ، جماعت اسلامی اور جس کسی کو تھوڑا اختیار دیتے ہیں توانکے آمرانہ شکنجوں میں پھنستے ہیں، پھر اسٹیبلشمنٹ ہی عوام کی جان کو عذاب سے چھڑا سکتی ہے۔ الیکشن کمیشن کے ترجمان الطاف احمد معقول انسان لگتے ہیں، ہر سوال کا جواب خوش اسلوبی سے دیا، ہمارا بھی ایک سوال ہے جو شاید کسی نے نہ کیا کہ ٹھیک ہے سسٹم نے کام نہیں کیا جس کی وجہ سے نتائج کا اعلان بعد میں کرنا پڑا۔ یہ بتادیں کہ گنتی تسلسل سے جاری تھی؟۔ گنتی تو ہوچکی تھی اور پولِنگ ایجنٹوں کو نتیجہ دیا گیا تھا، جس سے کامیاب اور ناکام افراد کو اپنا پتہ چلتا۔ کامیاب امیدواروں نے خرچہ کیا، اہتمام کیا مگران کو اپنی کامیابی کی خبر کچھ انداز سے ملی کہ مسلسل گنتی جاری رہی اور ڈیلیوری کا آپریشن دیر تک چلتا رہا، اتنی دیر میں مرغی شطرمرغ کا انڈہ دے سکتی تھی، اگر الیکشن کمیشن کا قصور نہیں تو سوال کا جواب دے۔ مارشل لاء دور میں ریفرینڈ م پر بھی سوالات اٹھتے تھے۔

shah-mehmood-qureshi-dawn-news-noon-league-pti-zardari-sohail-warraich-mazhar-abbas-the-party-is-over-imran-khan-wusatullah-khan-mubashir-zaidi-hamid-saeed-kazmi-amir-liaquat-bol-news-altaf-ahmed-2