پوسٹ تلاش کریں

مولانا سمیع الحق اور ایس پی طاہر خان داوڑ کی شہادت

فرعون کی قبطی قوم نے حضرت موسیٰؑ کی قوم کو غلام بنایا۔ حضرت موسیٰؑ کا قوم کیلئے ہمدردی اور محبت کا جذبہ فطری تھا مگر اپنی قوم کے جھگڑالو کا ناجائز ساتھ اور مخالف کو قتل کردیا تواس سانحہ سے نبوت اور معجزات ملنے کے بعدبھی وہ خوف کو دل سے نہ نکال سکے ۔ اللہ نے فرمایا کہ ’’ میرے رسولوں میں سے کوئی نہیں ڈرتا مگر جوظلم کا مرتکب ہوا ہو‘‘۔ حضرت موسیٰؑ علم لدنی کی تلاش میں حضرت خضر کے پاس اللہ کی رہنمائی سے پہنچے ۔ حضرت خضر نے اپنی صحبت کیلئے شرط رکھ دی کہ وہ کسی معاملے پر سوال نہیں اٹھائیں گے جو حضرت موسیٰ نے قبول کرلی۔ پھر یکے بعد دیگرے واقعات ہوئے اور جب ایک معصوم کی جان لے لی تو اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خاموشی اختیار کرنے کے بجائے جدائی کے یقین کے باوجود سوال اٹھادیا۔ جسکے بعد ظاہری وباطنی خلافت کی راہیں جدا جدا ہوگئیں اور قرآن کے یہ واقعات ہمارے لئے بڑے سبق آموز ہیں۔اقبال نے کہا کہ
اے کہ نشناسی خفی را از جلی ہشیار باش اے گرفتارِ ابوبکرؓ و علیؓ ہشیارباش
ابوبکرؓ و علیؓ میں مسئلہ خلافت پر اختلاف تھا۔علامہ اقبالؒ نے اُمت کو خبردار کیا کہ تم ظاہری وباطنی خلافت کا راز نہیں سمجھتے، اکابرصحابہؓ کے نام پر فرقہ واریت کا شکار ہونے کے بجائے حقائق سمجھو، ابوبکرؓ اور علیؓ دونوں ظاہری وباطنی خلیفہ تھے۔
عثمانؓ ظاہری وباطنی خلافت، ذی النورین 2نوروں والے تھے جو فتنہ وفساد میں شہیدہوگئے ۔ انصارؓ کے سردارسعدبن عبادہؓ کا خلافت کے مسئلے پر مہاجر صحابہؓ سے شدید اختلاف تھا،یہانتک کہ ابوبکرؓ و عمرؓ کے پیچھے نماز بھی نہ پڑھتے۔ جنات کے ہاتھوں قتل ہوئے، عدم اعتماد نے فساد کی آگ پکڑلی، جنگ صفین و جمل میں ہزاروں موت کے گھاٹ اُترگئے۔ عشرہ مبشرہ میں شامل طلحہؓ و زبیرؓ نے بھی ان جنگوں میں حصہ لیا ۔نبیﷺ کے تربیت یافتہ صحابہؓ سے نبیﷺ نے حجۃ الوداع میں فرمایا کہ ’ ’ مجھ سے پہلے تمام انبیاءؓ نے دجال کے فتنے سے اپنی قوموں کو ڈرایا، اسکی ایک آنکھ کانی اور دوسری انگور کے دانے کی طرح ہوگی، اگر تم اسے نہ پہچان سکو تو اللہ تعالیٰ اس دجال کو جانتا ہے۔ خبردار!، مسلمانوں کا خون ، مسلمانوں کی عزتیں اور مسلمانوں کا مال ایک دوسرے کیلئے ایسی حرمت والے ہیں ،جیسے حج کے اس مہینے میں اس شہر مکہ کے اندر اس دن ’’یومِ عرفہ‘‘ کی حرمت ہے۔ خبردار میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایکدوسرے کی گردنیں مارنے لگو‘‘۔ (بخاری)
ایک قتل ناحق کا ارتکاب اس وقت کے خفیہ والوں یا جنات نے کیا ، بہرحال پھر تختِ خلافت پر حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ شہید کردئیے گئے۔ تربیت یافتہ صحابہؓ نے آخری خطبے کا پاس نہ رکھا اور ایکدوسرے سے فتنہ وفساد میں مبتلا ہوگئے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’ خراسان سے دجال نکلے گا، اسکا اتباع وہ اقوام کرینگی جنکے چہرے ڈھال کی طرح گول اور ہتھوڑے کی طرح لمبوترے ہونگے‘‘۔ طالبان کی شکل میں پٹھان و ازبک نے دجالی لشکر کا کردار ادا کیا۔ جس طرح ہتھوڑے جیسے لمبوترے اور ڈھال جیسے گول چہرے بطور مذمت بیان ہوئے ہیں اسی طرح سے انگور جیسے ابھری ہوئی آنکھ بھی بطور مذمت ہی بیان ہوئی ہے۔ حدیث میں سب سے بڑی اور بنیادی بات یہ ہے کہ لوگ دجال کے اس واضح کردار کے باوجود کہ مسلمانوں کی جان ومال اور عزتوں کی حرمتوں کو ختم کردیا گیا لیکن مسلمان قوم دجال سے بالکل بے خبر اور لاعلم رہے گی۔ حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ افغانستان کا جہاد امریکی سی آئی اے کا کرشمہ تھا۔ طالبان بھی ملاعمرمجاہدؒ کی قیادت میں امریکہ نے بنائے، طالبان کی قیادت جنگ کے بعد سے آج تک امریکہ کیساتھ رابطے میں ہے۔امریکہ نے اسامہ اور ملاعمر کے نام پر مسلم دنیا کو تباہ کیا، ہرملک وقوم اور فرقے کے نام پر مسلمانوں نے مسلمانوں کی جانوں کی حرمت ختم کردی لیکن اللہ تعالیٰ ہی دجال کو جانتاہے ، ہم بے خبر رہے۔
ظاہری وباطنی خلافت کے سزاوار ہم ہیں؟۔ روز روز قتلِ ناحق پر قوم کی سٹی گم ہوجاتی ہے۔ پاکستان نے عرصہ تک قتل وغارتگری کا تماشا دیکھا اور اب بھی ضروری نہیں کہ حالات پر قابو پاسکے۔ لسانیت کے بھڑکتے شعلوں نے کراچی کو تباہ کیا، طالبان کی دہشتگردی نے ناکامی کا ٹھپہ لگایا، ڈرون حملوں نے ریاست کی ناک کاٹی۔ تباہی وبربادی اورقتل و غارتگری کے گرم بازار میں ریاستی عناصر کو بری الذمہ کہنا غلط ہے لیکن اللہ کے فضل اور جنرل راحیل کی جرأت سے ممکن ہوسکا کہ عوام بالعموم اور قبائلی بالخصوص چین وسکون سے زندگی گزارنے کے قابل بنے۔ مولانا سمیع الحق اور ایس پی داوڑ کے اسلام آباد سے اغواء کے بعد شہادت نے ایک نیا واویلہ کھڑا کیا ،جس پر مختلف رنگ وروغن چڑھائے جارہے ہیں۔
ایس پی طاہر خان داوڑ پر پہلے بھی خود کش حملے ہوچکے ۔دارالخلافہ اسلام آباد سے اغواء کے بعد حکومت اور ریاست کی بے حسی،غفلت اور نااہلی کو سازش کانام دینا غلط ہے تو اسکی ذمہ داری افغانستان و PTMپر ڈالنے کی کوشش بھی بھونڈی حرکت ہے۔ افغانستان نے لاش سپرد کرنے میں دیر اسلئے لگادی کہ پوسٹ مارٹم اور شناخت اس کی ذمہ داری تھی مگر حکومت کے بجائے اس کی لاش کو پی ٹی ایم کے محسن داوڑ کے حوالے کرنے کے پیچھے امریکی مشاورت کا شاخسانہ ہوسکتا ہے لیکن چلو شمالی وزیرستان سے محسن داوڑ نہ صرف عوام کا نمائندہ تھا بلکہ قومی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے پارلیمنٹ کا بھی نمائندہ تھا۔سازش ناکام بنائی جائے۔
عمران خان نے طاہر داوڑکے اغواء کے بعد ذمہ داری کا مظاہرہ نہ کیا اسلئے اگر وزیرداخلہ کے عہدے سے استعفیٰ دیتا تو اچھا تھا۔ وزیراعظم کے ترجمان افتخار درانی نے انتہائی بے حسی اور غیر ذمہ داری کی مثال قائم کی۔ اغواء کے بعد وائس آف امریکہ سے کہا کہ میں ایک ذمہ دار فرد کی حیثیت سے کہتا ہوں کہ اغواء کی خبر میں کوئی صداقت نہیں ، محسن داوڑ پشاور میں بحفاظت موجود ہیں۔ جس کی شاہ زیب خانزادہ نے اپنے پروگرام میں خوب خبر لی۔ لیکن اس بے حس مخلوق کی بے حسی کا یہ نتیجہ نکالنا بھی درست نہیں کہ اسکے پیچھے آئی ایس آئی کا ہاتھ ہے۔ تاہم جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب نے کہا کہ یہ ظاہر ہے کہ اس قتل کے پاکستان اور افغانستان میں سہولت کار موجود ہیں۔ امجد شعیب نے اسکا تعلق امریکہ اور پی ٹی ایم کیساتھ جوڑ دیا۔ جبکہ زید حامد نے جذباتی انداز میں کہا کہ’’ اسفندیار ولی، مولانا فضل الرحمن، محمود خان اچکزئی اور پی ٹی ایم کے منظور پشتین، محسن داوڑ، علی وزیر اور افغانستان کو سبق سکھایا جائے لیکن چین سے ہم نے بھیک مانگنا ہے اسلئے چین کو اسکے مظالم کا بدلہ نہ دیاجائے‘‘۔ گویا میڈیاکے خلوص یا کم عقلی نے پختون قوم اور پاکستانی ریاست کے درمیان طبلِ جنگ کا پورا اہتمام کرنے کی کوشش کی اور افغانستان کی طرح پاکستان کا حال خراب کرنا چاہا، جو امریکی خواہش ہے۔
اگر PTMکی قیادت ہماری بات مان لیتی اور اس کو مظلوم تحفظ موومنٹ کا نام دیتی تو جعلی مینڈیٹ کے ذریعے تحریک انصاف نہیں اصلی مینڈیٹ سے منظور پشتین اقتدار میں آتا۔ بلوچ، سندھی، پنجابی، سرائیکی اور ہزارے وال سب ہی قومی دھارے میں ایک نئی روح پھونکنے کیلئے اس تحریک کا حصہ بنتے مگر……۔

امریکہ ایک باقاعدہ مہم کے تحت پختونوں کو پاکستان سے لڑا رہاہے۔ طاہر داوڑ ایک مشترکہ اثاثہ تھا۔

ڈائریکٹرفنانس نوشتہ دیوار فیروز چھیپا نے کہا کہ ایک طرف منظور پشتین کیساتھ ایس پی طاہر داوڑ شہید کے بیٹے نے سنگین الزام لگایا ہے تو دوسری طرف سوشل میڈیا نے منظور پشتین اور اسکے ساتھیوں پر اغواء کا الزام لگایا ۔ امریکہ ایک باقاعدہ مہم کے تحت پختونوں کو پاکستان سے لڑا رہاہے۔ طاہر داوڑ ایک مشترکہ اثاثہ تھا۔ امریکی سی آئی اے اور دہشتگردوں کے علاوہ کسی کے مفاد میں ان کی شہادت نہیں تھی۔ میڈیا پرحکومت و ریاست کی غفلت و لاپرواہی کو اجاگر کرنا وقت کا تقاضہ تھا لیکن سازش کا نام دینا غلط ہے۔ بہت بڑی کوتاہی تھی لیکن اس کو سازش کا نام دینا پاکستان کے مفاد میں ہے اور نہ پختون قوم کے مفاد میں ہے۔ الزام لگانا اپنے کو نقصان اور دشمن کو فائدہ دینا ہے۔ امریکہ افغانستان کی حکومت اور طالبان کو اپنے ہاتھ میں رکھ کر لڑاتاہے، اب پاکستانی ریاست کو پختون قوم کیساتھ لڑانے کی تیاری ہے، امریکہ سے بھلے کی امید تب ہوتی جب وہ افغانستان میں امن قائم کرتا۔ ملک اور پختون کو پھرفتنہ میں ڈالا جارہاہے۔

کسی سیاسی جماعت سے تعلق ہو تو اخبار رجسٹرڈ نہیں ہوتامگر چینل مافیابن گئے

ایڈیٹر نوشتۂ دیوار اجمل نے کہا کہ صحافیوں کی مہم جوئی پرگرفت قانون اور اخلاق کا تقاضہ ہے۔ شاہزیب خانزادہ نے نوازشریف کی پارلیمنٹ میں تقریر کو نظر انداز اور قطری خط میں جان ڈالنے کی مہم جوئی کی لیکن اب نوازشریف نے اپنی تقریر سے استثنیٰ مانگ لیا، قطری خط سے لاتعلقی کا اعلان کردیا،کیا شاہزیب خانزادہ مہم جوئی پر قوم سے معافی مانگیں گے؟، یا پھر یہ بتانا پسند کرینگے کہ جیو کے مالکان نے نوازشریف کیلئے مہم جوئی پر کتنا معاوضہ لیا؟۔کیا قانون اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ کرپٹ عناصر کی مہم جوئی کیلئے میڈیا استعمال ہوجائے؟ سیاسی لیڈر وں کی کرپشن چھپانے کیلئے میڈیا اشتہارات کے نام پر رشوت لیکر مہم جوئی کرے تو اس سے قوم وملک کی اخلاقی اور قانونی حیثیت تباہ نہ ہوگی؟۔ حق نہیں باطل کیلئے مہم جوئی والوں پر بھی سوال بنتا ہو تو کیا سوال کا جواب دینگے؟ اور اپنے کئے پر ناظرین سے کھلے دل و دماغ سے معافی مانگنا پسند کریں گے؟۔ کسی سیاسی جماعت سے تعلق ہو تو اخبار رجسٹرڈ نہیں ہوتامگر چینل مافیابن گئے۔

شاہ ولی اللہ ٌاور مولانا عبید اللہ سندھیٌ تک کے افکار کی ناکامی کی وجوہات

حضرت امام شاہ ولی اللہؒ ایک خوش قسمت اور بہت بڑے انسان تھے۔ بسا اوقات بڑے لوگ ہوتے ہیں مگر ان کی اتنی قسمت نہیں ہوتی ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ قیامت کے دن رسول اللہﷺ اپنی مسلم امت کی شکایت کرینگے ۔ وقال الرسول یاربّ ان قومی اتخذوا ہذا القرآن مھجورا’’ رسول کہیں گے کہ اے میرے رب بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا‘‘۔مذہبی طبقوں نے قرآن کی اس شکایت کو کبھی سنجیدہ نہیں لیا ہے۔ کوئی اس غفلت، بے دینی ، گمراہی اور سخت کوتاہی کا نوٹس لینے کے بجائے اس کی کان پر جوں تک نہ رینگے تواس کو ہدایت ملنے کا سوال کہاں سے پیدا ہوگا؟ اور یہ قوم پھر ہدایت پانے کے بجائے کسی مہدی کا انتظار کرے گی۔ یہی تو عرصہ سے ہورہاہے۔
حضرت شاہ ولی اللہؒ نے سب سے بڑا کام یہ کیا ہے کہ قرآن کا پہلی مرتبہ ہمارے لئے ترجمہ کردیا تھا۔ اس کی پاداش میں دو سال تک مسلسل واجب القتل کے فتوے لگنے سے روپوش رہنا پڑا تھا۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ نے قرآن کا ترجمہ اسلئے کیا کہ ایک اسلام دشمن مستشرق پادری آیا تھا اور اسکے پاس قرآن کی بھرپور معلومات تھیں۔ وہ کہتا کہ قرآن میں یہ لکھا ہے، علماء اس کی بات کا انکار کردیتے لیکن جب قرآن کو دیکھا جاتا تو اس کی بات درست نکلتی۔ شاہ ولی اللہؒ نے معلوم کیا کہ وہ اپنی زبان میں قرآن کا ترجمہ پڑھ چکے تھے۔ پھر شاہ ولی اللہؒ نے ہندوستان کے علماء کو باصلاحیت بنانے کیلئے فارسی میں ترجمہ کردیا،تاکہ وہ اسلام دشمن عناصر کے مناظروں کا جواب دے سکیں۔
حضرت شاہ ولی اللہؒ کو یہ محنت مہنگی پڑگئی ، علماء نے واجب القتل کے فتوے لگادئیے۔ دو سال تو وہ روپوش رہے، پھر لوگوں کو بات سمجھ میں آئی کہ اپنے محسن کو دہشتگردی کا نشانہ بناناٹھیک نہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ نے اپنی قوم سے مایوسی کے بعد تصوف کا مشاہدہ دیکھا کہ ’’ مہدی نکلنے والے ہیں‘‘۔ ایسی قوم سے انقلاب کی توقع رکھنا عبث تھی۔ حضرت شاہ ولی ؒ کے بیٹے شاہ رفیع الدینؒ و شاہ عبدالقادرؒ نے قرآن کے اردو میں بامحاورہ و لفظی تراجم کیے۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ کے پوتے شاہ اسماعیل شہیدؒ نے اپنے مرشد سید احمد بریلویؒ کو خراسان سے نکلنے والے امام مہدی سمجھ کر بڑا اقدام اٹھایا کہ دنیا میں پھر سے خلافت قائم کریں گے ۔ اسی کیلئے اپنی کتاب ’’ منصبِ امامت ‘‘ بھی لکھ ڈالی ۔ انگریز نے خوشی کیساتھ یہ کھیل کرنے دیا، تاکہ پنجاب وسرحد میں رنجیت سنگھ کی حکومت کو کمزور کیا جائے۔ پیرومریدوں کا یہ قافلہ سندھ وپنجاب کو عبور کرکے احیائے خلافت کی غرض ہی سے سرحد پہنچ گیا۔ پشاور سے ہزارہ بالاکوٹ پہنچ کر دفاعی جنگ لڑتے ہوئے سکھ راجہ کے لشکر کے ہاتھوں شہید ہوگئے۔ کچھ لوگوں کا خیال یہ تھا کہ سید احمد بریلویؒ زندہ غائب ہیں ،امام مہدی دوبارہ منظر عام پر آکر خلافت قائم کرینگے۔ شاہ اسماعیل شہیدؒ نے تقلید کیخلاف بھی ایک کتاب لکھ دی۔ اکابرِ دیوبندؒ پہلے ان کی حمایت کررہے تھے لیکن جب مولانا احمد رضا خان بریلویؒ نے انکے خلاف ’’ حسام الحرمین‘‘ کا فتویٰ لکھا کہ یہ تقلید کو بدعت کہتے ہیں تواس وقت حرمین پر شریف مکہ کی حکومت تھی، علماء دیوبندؒ نے شاہ اسماعیل شہیدؒ کی فکر سے دستبرداری کا اعلان کیا۔ وہابیت کے فتوے سے بچنے کیلئے مولانا حسین احمد مدنیؒ نے محمد بن عبدالوہاب کیخلاف بہت کچھ لکھا بھی۔
عرب کے مشہور عالم علامہ ابن تیمہؒ نے لکھا ہے کہ ’’ چاروں فقہی مسالک پر دین کی تفریق کا فتویٰ لگتا ہے۔ یہ فقہی مسالک نہیں مستقل فرقے ہیں‘‘۔ سعودیہ کی موجودہ حکومت علامہ ابن تیمہؒ کے افکار کو مانتی ہے۔ تقلید پر پہلے سعودی عرب کا اہلحدیث سے اتفاق تھا لیکن پھر احادیث صحیحہ کی کتابوں میں اہلبیت کے فضائل اور اہل تشیع کے عقائد کا خوف کھاتے ہوئے علامہ ابن تیمہؒ کے مسلک سے روگردانی اختیار کرلی۔ چاروں امامؒ کی تقلید کے علاوہ ایک ساتھ تین طلاق کے بعد رجوع نہ کرنے کا حکومتی سطح پر ازسرِ نو اعلان کردیا اور آج یہ سب دفاعی پوزیشن پر آگئے ہیں۔
مولانا حسین احمد مدنیؒ نے حرمین پروہابیوں کی حکومت قائم ہونے کے بعد محمد بن عبدالوہاب کے بارے میں اپنا پرانا مؤقف بدل کر اسکی بڑی تائیدبھی کردی۔’’تقلید کی شرعی حیثیت‘‘ کتاب میں شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی نے قرآنی آیت کی تحریف کرتے ہوئے فان تنازعتم فی شئی فردہ الی اللہ والی الرسول کے معنی ومفہوم بھی بدل ڈالے۔ چڑھتے سورج کاپجاری ایک گالی لگتی ہے مگر سورج مکھی کے پھول جیسے لوگ ابن الوقت ہوتے ہیں۔ ابن الوقتی کے تقاضے نے ہمیں قرآن کو چھوڑنے پر مجبور کیا ہوا ہے۔
شاہ ولی اللہؒ کو بریلوی دیوبندی اور اہلحدیث سب مانتے ہیں مگر اگر مدارس کے اس نظام تعلیم سے جان نہیں چھڑاسکتے جوکسی بھی دینی، فطری، مہذب معاشرے کیلئے قابلِ قبول نہیں تو قرآن کی طرف رجوع کا کیا سوال پیدا ہوسکتاہے؟۔ آج اگر میں حکومت وریاست کی صفوں میں کھڑا ہوگیا اور اپنی جان کاتحفظ لیکر ٹی وی ٹاک شوزاور قومی سطح پر علماء ومفتیان کے نظامِ تعلیم کے خلاف عوام میں شعور وآگہی کی تحریک بیدار کردی تو علماء کو منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی۔ میں یورپ میں پناہ لیکر بھی کام کرسکتا تھا لیکن بے سروسامانی کی حالت میں مدارس ومساجد کو مٹانے کیلئے نہیں ان کے تحفظ کیلئے کام کررہا ہوں۔ جس دن علماء و مفتیان نے مدارس کے نصابِ تعلیم کی گمراہیوں کو دور کرنا شروع کیا تو یہ مرکز رشد وہدایت ہوں گے اور عوام کا سیلاب ان کو آباد کرنے اُٹھے گا۔
وزیراعظم عمران خان نے علماء ومفتیان سے تعلیم حاصل کی ہوتی تو کلمہ درست پڑھنا آتا، وہ تو آذان والے الفاظ سے کلمہ بھی غلط پڑھتا ہے، کلمہ میں محمدرسول اللہ اور آذان میں محمد رسول اللہ کے الفاظ میں فرق ہے۔ محمدﷺ کے نام کا آخر دال ہے۔ دال پر پیش اور زبر سے معانی بدلتے ہیں۔ عربی میں اعراب کی درستگی بہت ضروری ہوتی ہے اور یہ کام علماء کرام اور مفتیانِ عظام ہی کرتے ہیں۔ لگتا ہے کہ عمران خان بچپن میں نہ تو مسجد ومدرسہ گیا ہے اور نہ کسی مولوی نے گھر پرہی پڑھایا ہے ورنہ کم ازکم مدینہ کی ریاست کا دعویدار کو کلمہ پڑھنا درست آتا۔ مولانا فضل الرحمن نے میری علمی خدمات کو جانتے بوجھتے نظر انداز نہ کیا ہوتا تو آج زرداری، نوازشریف اور عمران خان سے زیادہ متحدہ مجلس عمل مقبول ہوتی مگر بہت اچھا ہوا کہ مذہب دنیاداری کیلئے استعمال نہ ہوا۔
عمران خان نے کسی عالم یا صوفی سے تربیت اور علم حاصل کیا ہوتا تو دہشت گرد طالبان کی اس طرح سے حمایت نہ کرتے جس طرح ماضی میں کی تھی اور پھر پاکپتن کے مزار پر بینڈ ہوکر زمین کا ایسا بوسہ کبھی نہ لیتے۔ پھر بشریٰ بی بی کی ہدایات پر عمل کرکے مزار کے اندر عجیب وغریب کیفیت کا مظاہرہ بھی نہ کرتے۔علماء ومفتیان اور مشائخ کی صحبت وتربیت اور علم وتدریس نہ ہونے کایہ نتیجہ تھا کہ جس خاتون کو کسی کے نکاح میں ہونے کے باجود اس سے شادی کا پروگرام بنایا اور عقیدت کا بھی اسی کو مرکز بنالیا۔ ایسا ناقص کردار رکھنے والا بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان کا وزیراعظم بن گیا جس نے اپنی ایک ایک بات پر یوٹرن لیکر قوم ہی کی اخلاقیات کا بھی بیڑہ غرق کردیا اور ہمارے کم عقل ریاستی اہلکاروں نے بھی اندھوں میں اسکو راجہ سمجھ لیا ۔یہ تاریخ کا بہت بڑا المیہ ہے۔
امام شاہ ولی اللہؒ سے امام عبیداللہ سندھیؒ تک کی ناکامی کے کچھ بنیادی وجوہات ہیں۔ مدرسہ وفرقہ وارانہ ذہنیت کے علاوہ قرآن کی تعلیمات سے تقلید کے لبادے میں دوری بنیادی عوامل تھے اور ایک ادنیٰ مثال یہ ہے کہ بیت اللہ کے مطاف میں خواتین وحضرات شانہ بشانہ طواف کا فرض ادا کرتے ہیں ۔ حجراسود چومنے کامنظر بڑا ہی عجیب ہوتا ہے۔ یورپ وچین کے خواتین وحضرات کی بھری ہوئی مخلوط ٹرینوں اور بسوں میں وہ رگڑے ممکن نہیں جو حجراسود چومتے وقت نامحرم مؤمنین و مؤمنات ایکدوسرے سے کھاتے ہیں۔کہاں شرعی پردے کاتصور ؟ اور کہاں حجراسود چومنے کی رگڑیں؟۔ مخلوط تعلیمی اداروں اور ملازمتوں کے مخالف مذہبی طبقات بیت اللہ کی دیواروں کے سایہ میں مخلوط طواف کو تونظر انداز کرتے ہی ہیں لیکن حجراسود کو چومتے وقت مخلوط رگڑے کھانے پر بھی دانت کھول کر زباں کو جنبش نہیں دیتے ہیں اور اس اندھیر نگری میں اندھوں کے راجے تو کوئی اور ہی بنیں گے، جس پر تعجب کی بات نہیں۔
قرآن میں مسائل کا حل موجود ہے لیکن اس کی طرف بدکردار طبقہ نہیں بلکہ نیک و باکردار علماء وصلحاء بھی توجہ نہیں کرتے ۔ چڑھتے سورج کے پجاریوں اور ابن الوقتوں کی توبات چھوڑدیں۔ قرآن میں پردہ کے احکام ہیں ، بوڑھی خواتین جن میں نکاح کی رغبت نہ ہو۔زینت کے جگہوں کی نمائش کے بغیر وہ کپڑے بھی اُتاریں تو حرج نہیں ۔ پھر اللہ نے اگلی آیت میں فرمایا ’’ اندھے پر حرج نہیں،نہ پاؤں سے معذور پرحرج ہے اور نہ مریض پر حرج اور نہ تمہاری جانوں پر کہ تم کھاؤ اپنے گھروں میں، اپنے باپ کے گھروں میں یا اپنی ماؤں کے گھروں میں یا اپنے بھائیوں کے گھروں میں یا اپنی بہنوں کے گھروں یا اپنے چچا اور ماموں، خالہ ، پھوپھی، دوست ، جنکے گھروں کی چابیاں تمہارے لئے کھلی ہیں۔۔۔ تم سب ہی اکٹھے کھانا کھاؤ یا الگ الگ تمہاری مرضی ہے‘‘۔
اس آیت میں دنیا کی رسم وروایت کے عین مطابق شرعی پردے کا آسان تصور اُجاگر ہوتاہے لیکن مذہبی طبقات کی مت ماری گئی ہے۔ چنانچہ شاہ ولی اللہؒ کے فرزند شاہ عبدالقادرؒ نے قرآن کا اردو ترجمہ کرتے ہوئے آیت قرآنی کا مفہوم ہی مسخ کرڈالا۔ لکھاہے کہ ’’ آیت میں حرج سے یہ مراد ہے کہ نابینا، پاؤں سے معذور و مریض کیلئے جمعہ کی نماز اور جہاد وغیرہ معاف ہیں‘‘۔ ہمارے پہلے شیخ الاسلام علامہ شبیراحمد عثمانی نے بھی یہ تفسیر نقل کردی۔ جب قرآن کا مفہوم بدل دیا جائے تولوگ قرآن کی طرف رجوع کیسے کرینگے؟۔یہ آیت شرعی پردے کا وہ تصور ختم کرتی ہے جو لوگ اپنے ذہنوں میں سمجھتے ہیں۔
علماء نے سترعورت اور شرعی پردے کا جو خود ساختہ تصور قائم کیا وہ قرآن کیخلاف ہے اور اس پر علماء ومفتیان خود بھی عمل نہیں کررہے ہیں۔ شیخ الہند مولانا محمود الحسن ؒ کے استاذ مولانا رشید احمد گنگوہیؒ نے فتاویٰ رشیدیہ میں لکھاکہ جو مسجد کا امام شرعی پردہ نہیں کرتا ہے وہ فاسق ہے، اسکے پیچھے نماز پڑھی جائے تو واجب الاعادہ ہے یعنی وہ نماز دوبارہ لوٹائی جائے ،یہ ضروری ہے۔
شرعی پردے کا تصور ہے کہ بھابھی، چاچی، مامی، خالہ زاد، چچازاد، ماموں زاد سب ہی سے پردہ کیا جائے ورنہ تو وہ شخص فاسق ہوگا۔ علماء شرعی پردے کا تصور رکھنے کے باوجود اس پر عمل نہیں کرتے ۔ صوفی ، تبلیغی جماعت و دعوت اسلامی کے عمل و کردار والوں میں بھی شاذ ونادر ہی اس شرعی حکم پر عمل پیرا ہوتے ہیں مگر یہ شریعت کا حکم قطعی طور پرنہیں، قرآنی آیت میں گھروں میں کھانے کی انفردای و اجتماعی طور پر کھل کر اجازت ہے مگر اس مفہوم کو علماء و مفتیان نے مسخ کردیا ہے اسلئے کہ اردو تراجم کی حد تک شاہ ولی اللہؒ کے فرزند شاہ عبدالقادرؒ سب کے امام ہیں۔ اصل ترجمہ وہی ہے باقی سب ہی نے نقل کرکے اسے اپنے لفظوں میں ڈھالا ۔
جن خواتین میں نکاح کی رغبت نہ ہو ، پردے میں زینت کے مقامات کے بغیر ان کیلئے اپنے کپڑے اُتارنے سے واضح ہے کہ ستر عورت کا بھی علماء ومفتیان نے بالکل غلط تصور لیا۔ عورت کے ہاتھ پیر اور چہرے کے علاوہ سب کچھ ستر ہو تو نکاح کی رغبت نہ رکھنے والی خواتین کیلئے خالی زنیت کی جگہیں چھپانے کا کوئی تُک نہیں بنتا۔ چونکہ ستر عورت فرض اور فرض کو مستثنیٰ نہیں قرار دیا جاسکتا ۔آیت میں زینت کے علاوہ کپڑے اتارنے سے واضح ہے کہ ستر عورت کا غلط مذہبی تصور مسلط کیا گیاہے۔ مولانا مودودیؒ نے آواز کو بھی ستر میں شامل کیا لیکن اسلامی جمعیت طلبہ کے طلباء و طالبات ایک صف میں ہوتے تھے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی نظر میں شرعی پردے کا تصور وہ ہو جو علماء ومفتیان کے ہاں فقہی اور جاہل صلحاء کے ہاں عملی زندگی کا حصہ ہے؟۔ توچیئرمین صاحب کا خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ تصاویر سوشل میڈیا پر دینے سے علم وعمل کا بڑا تضاد ہوگا اور بے عملی حقائق میں رکاوٹ بنتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنی چاچی علیؓ کی والدہ کی میت کو اپنے ہاتھوں سے قبر میں اتارا تھا اور فرمایا تھا کہ ’’یہ میری ماں ہے جس نے میری پرورش کی ہے‘‘۔ مفتی طارق مسعود جیسے جاہلوں نے سوشل میڈیا پر فقہی جہالتوں کا بازار گرم کردیا ہے لیکن وہ قرآن واحادیث اور صحابہ کرامؓ کے واقعات سے نابلد ہیں۔ بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ و صحابہ کرامؓ نے ایک صحابیؓ کی دعوت ولیمہ میں شرکت کی تو دولہادلہن خود ہی ضیافت کی خدمت انجام دے رہے تھے۔اس سے زیادہ نام نہاد شرعی پردے کا تصور کیا ہوگا؟ کہ رسول اللہ ﷺ اور صحابہؓ کے طرز عمل کو بھی ہم نہیں مانتے اور قرآن کو بھی نہیں مانا جاتا ہے۔ قبلہ ایاز سے عرض ہے کہ
اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن
مولانا عبیداللہ سندھی ؒ نے لکھاکہ ’’ عوام میں شرعی پردے کا کوئی تصور نہیں اور شرفاء میں شرعی نہیں روایتی پردہ ہے۔ شرعی پردہ تو کوئی ویسے بھی نہیں کرتا ہے اور نہ یہ ممکن ہے لیکن جہاں روایتی پردہ ہوتا ہے وہاں پر لوگ قوم لوط ؑ کے مرض کا شکار ہوجاتے ہیں جو بالکل غیرفطری ہے، اگر پردہ ترک کیا جائے تو قوم لوطؑ کے مرض سے بچت ہوگی‘‘۔ مولانا سندھیؒ نے قرآن کی تعلیم کا درس دینے کے بجائے اپنی فکر مسلط کی تھی تو لوگ کیسے قبول کرتے؟۔ دوسروں کے بچوں کو بچانے کیلئے کوئی اپنی بچیاں کیوں پیش کریگا؟۔ یورپ کی آزادی میں بھی ہم جنسی کا مرض برقرار ہے۔ جب قرآن کی تعلیم سے روگردانی کا درس دیکر قرآن ہی کے نام پر انقلاب کا درس دیا جائیگا تو اسے کون قبول کریگا؟۔ ذرا سوچئے تو سہی!۔
حضرت شاہ ولی اللہؒ نے شیعہ کی گمراہی کا سبب عقیدۂ امامت کو قرار دیا ، جس سے ختم نبوت کا انکار لازم آتا ہے، لیکن انکے پوتے شاہ اسماعیل شہیدؒ نے من وعن وہی عقیدہ منصب امامت میں درست قرار دیا تھا۔ وہ خود شہید ہوئے لیکن انکے پیروکار سمجھ رہے تھے کہ سیداحمد بریلویؒ غائب ہیں ، دوبارہ امام مہدی کی حیثیت سے وہ آئیں گے اور خلافت قائم کردیں گے۔
مرزا غلام احمد قادیانی نے شاہ اسماعیل شہیدؒ کے افکار سے نبوت وامامت کو ایک درجہ دیدیا تھا۔ اہل تشیع کے غالی لوگ بھی گمراہانہ فلسفے میں مبتلا ہیں۔ یہ کتنا بڑا فساد ہے کہ جو کالعدم سپاہ صحابہؓ کے لوگ شیعہ کو عقیدۂ امامت کی وجہ سے کافر کہتے ہیں وہ شاہ اسماعیل شہیدؒ کی کتاب منصب امامت کی تعریف کرنیوالے مولانا یوسف بنوریؒ اور بریلوی مکتبہ فکر کو مانتے ہیں۔ اگر ایک طرف ہم نبیﷺ کے واضح حکم کی خلاف ورزی کرنیوالے عشرہ مبشرہ کے صحابہؓ سے عقیدت رکھتے ہیں۔ اس وقت بھی غالی قسم کے لوگوں نے مقدس افراد کو آپس کی لڑائی پر مجبور کیا لیکن بعد میں بھی شیعہ پر کفر کے فتوے لگانے والے اکابرہی پیچھے ہٹ گئے۔ علماء ومفتیان کے جتھے مؤقف کی تبدیلی میں مفادات حاصل کرینگے تویہ اپنے کرتوت کی بدولت مقبول نہ ہونگے۔
عمران خان کو محمد رسول اللہ اور ﷺ بھی درست تلفظ کیساتھ نہیں آتا لیکن لوگ ان فقہاء وعلماء کو علامہ اقبالؒ کی زباں سے بھی مسترد کرکے عمران کی تعریف کرینگے۔
قلندر بجز دو حرف لا الہ کچھ نہیں جانتا
فقیہِ شہر ہے قارون لغت ہائے حجازی کا
اس بات سے ڈرنے کی ضرورت ہے کہ قادیانی علماء کو خراب کرنے کیلئے کل عمران خان کے بچوں سے قرآن کی سورۃ آل عمران ہی مراد لیں۔پھر یہ حدیث بھی پیش کردیں کہ ’’ کسی قوم کا بھانجا اسی قوم کا فرد ہوتا ہے‘‘۔ پھر بتائیں کہ حسنؓ و حسینؓ کی اولاد بھی نانا کی وجہ سے سید اور بلاول زرداری بھی نانا کی وجہ سے بھٹو ہے۔ پھر قرآن میں بنی اسرائیل کی تمام عالمین پر فضیلت کا حوالہ بھی دیں۔ پھر فقہ کی کتب سے حرمتِ مصاہرت کے مسائل اٹھائیں اور میڈیا پر علماء ومفتیان کو شرمندہ کریں۔
شاہ ولی اللہؒ نے علماء کی مدافعت کرتے ہوئے قرآن کا فارسی میں ترجمہ کیا تھا مگر ان پر واجب القتل کے فتوے لگے ۔ جبکہ حضرت علیؓ نے اعلیٰ معیار کے تقویٰ، عدل اور توحید کا درس دیکر جن لوگوں کو تعلیم دی تھی وہ خوارج بن کر ایک مصیبت بن گئے تھے۔ حضرت علیؓ کا قول مشہور ہوا کہ’’ جس پر احسان کرو تو اسکے شر سے بھی بچو‘‘۔ آج امریکہ اور افغانیوں کی امداد پاکستان کے گلے میں آئی ہے۔ حضرت عثمانؓ کو خوارج نے ہی شہید کیا اور انہوں نے ہی حضرت علیؓ کو بھی شہید کیا۔ جزاء الاحسان الا حسان ’’ احسان کا بدلہ احسان ہی ہے‘‘۔ نبی ﷺ سے اللہ نے فرمایا فلا تمنن فتکثر ’’ اسلئے احسان نہ کرو کہ زیادہ بدلہ مل جائیگا‘‘۔ ایک انقلابی اپنی قوم پر اپنے افکار ، تعلیمات، نظریات اور طرزِ عمل اور تربیت کا احسان کرتا ہے تو امید ہوتی ہے کہ بہت اچھا بدلہ ملے گا اور اچھے نتائج نہ نکلیں تو مایوسی ہوتی ہے۔ قرآن میں ہے کہ حتی اذا استیئس الرسل وقالوا قد کذبوا ’’ اور یہانتک کہ جب رسول مایوس ہوگئے اور پکار اٹھے کہ ہمیں جھٹلادیا گیا ہے‘‘۔ مشن کی کامیابی کا یقین کرنے والے جب ڈھیٹ مخلوق اور زندہ لاشوں کو دیکھتے ہیں تو مایوس ہوجاتے ہیں۔ نبی اور انکے ساتھی چیخ اٹھے کہ متی نصراللہ ’’اللہ کی مدد کب آئے گی؟‘‘اس کی وجہ انسان کی تخلیق کی کمزوری ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو بندے کو اللہ کے سامنے چوتڑ اٹھاکر سجدہ ریز ہونے کے بجائے اپنی پوجا کرنا پڑتی،جو سیاسی ومذہبی لیڈر شپ اپنی بڑائی بیان کرتے ہیں وہ اپنی پونچھ پکڑنے کی دعوت دیتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے مردہ قوم میں زندگی کی روح پھونکی تو یہ بڑا معجزہ تھا۔ جن کی آنکھیں تھیں مگر دیکھنے کی صلاحیت سے محروم تھے ان کو بینائی کی دولت دیدی۔ہمارے رسول اللہﷺکی بدولت آنکھوں کے اندھوں، کانوں کے بہروں اور دلوں کے اندھوں کو شفاء مل گئی اور قرآن کا یہ معجزہ آج بھی برقرار ہے لیکن اسکا فائدہ نہیں اٹھایا جارہاہے۔ مولاناعبید اللہ سندھیؒ کی دعوت قبول کرکے قرآن کی طرف رجوع کیا جاتا اور مولوی کی فکر سے قرآن کو آزادی دلائی جاتی تو آج ہماری حالت بہتر ہوتی لیکن مولانا سندھیؒ خود بھی قرآن نہیں تقلید اور اجتہاد میں معلق تھے۔
قرآن میں مسافر کیلئے غسل کے بغیرہی حالت جنابت میں نماز پڑھنے کی اجازت واضح ہے مگراجازت اور حکم میں فرق ہے، نبیﷺ نے یہ فرق سمجھ کر حضرت عمرؓ و عمارؓ دونوں کی سفر کی حالت میں نماز چھوڑنے اور پڑھنے کی تائید کی ۔ حضرت اشعریؓ و حضرت ابن مسعودؓ کے درمیان مناظرہ ہوا جس کو صحیح بخاری میں نقل کیا گیا۔ حضرت شاہ ولی اللہ ؒ نے لکھا کہ’’ عجیب بات ہے کہ حضرت عمرؓ نے حضرت عمارؓ کی بات سن کر اپنے مؤقف سے رجوع کیوں نہ کیا؟ اور اس سے زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ پھر نبیﷺ نے حضرت عمرؓ سے خود کیوں نہیں کہاکہ تمہارا مؤقف غلط ہے‘‘۔ مشہور عالم مولانا مناظر احسن گیلانی نے اس کو نقل کیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ نبیﷺ نے تو قرآن کے مطابق دونوں صحابہؓ کی تائید کی تھی البتہ حضرت شاہ ولی اللہ ؒ فقہ وحدیث کی کتابوں میں بھول بھلیوں کا شکار ہوئے اور یہی نہیں بلکہ لکھا ہے کہ قرآن میں وعدہ ہے کہ مؤمنین کو اللہ نے خلافت دینی تھی۔ عربی میں جمع کا اطلاق کم ازکم تین افراد پر ہوتا ہے، قرآن میں جمع کا صیغہ ہے۔ یہ وعدہ تین افراد حضرت ابوبکر، عمرؓ اور عثمانؓ کیساتھ پورا ہوا۔ علیؓ کی خلافت منتظمہ نہیں تھی اسلئے یہ وعدہ انکے ساتھ پورا نہ ہوا۔ یہ تحریر ’’ ازالۃ الخفا عن الخلفاء ‘‘ میں ہے۔ کیا یہ فرقہ وارانہ ذہنیت کیلئے تشفی تھی؟ اور کیا یہ قرآن کی درست تفسیر ہے؟۔
مولانا سندھیؒ نے شاہ ولی اللہؒ کی فکر میں ایک ترمیم کی اور وہ یہ کہ شاہ ولی اللہؒ نے کہا کہ خیرالقرون میں پہلا دور نبی ﷺ کا تھا اور پھر حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ ،پھر حضرت عثمانؓ کا۔ جبکہ مولانا سندھیؒ نے حضرت ابوبکرؓ کے دور کو بھی نبیﷺ کے دور میں شامل کیا جس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی پھر عمرؓ اور پھر عثمانؓ کا دور شمار کیا ہے اور لکھاہے کہ حضرت عمرؓ کے دور میں سرمایہ دارانہ نظام نے حفظ مراتب کے وظیفے مقرر کرکے جڑ پکڑ لی تھی لیکن مضبوط نہیں ہوا تھا۔ حضرت عثمانؓ کے دور میں شاہی اور سرمایہ دارانہ نظام مضبوط ہوا ، جس نے امیرمعاویہؓ کے دور میں مضبوط درخت کی صورت اختیار کی تھی۔ شاہ ولی اللہؒ اور مولانا سندھیؒ میں بیچ کا واسطہ حضرت شاہ اسماعیل شہیدؒ تھے جن کی کتاب ’’ بدعت کی حقیقت‘‘ میں صحابہؓ و تابعینؒ و تبع تابعینؒ کے ادوار خیرالقرون تھے ، چوتھی صدی ہجری میں تقلید کی بدعت ایجاد ہوئی اور اس کا شریعت میں جواز نہیں تھا جبکہ مولانا سندھیؒ امام ابوحنیفہؒ کی تقلید کو ہی انقلاب کا ذریعہ قرار دیتے تھے۔
امامت افراد کو نہیں قوموں کو ملتی ہے۔ مسلمانوں کو امامت مل گئی تو فاتح ترک بھی مسلمان بن گئے۔ آج امریکہ اور مغرب کی امامت ہے اوراُمت سرگردان ہے۔
قرآنی آیت سے نہ صرف شرعی پردے کی حقیقت واضح ہے بلکہ ماں ، باپ اور بھائی ، بہن کے الگ الگ گھروں کا تصور بھی ہے۔ اگر باپ کا الگ گھر ہو اور ماں کا الگ گھر ہو تو جب انکا انتقال ہوجائے پھر حقیقی وراثت کا معاملہ بھی اجاگر ہوگا۔
بچے جب چھوٹے ہوتے ہیں تو ان کی پرورش والدین کی ذمہ داری ہوتی ہے اور والدین بوڑھے ہوجاتے ہیں تو بچے انکی دیکھ بھال اور پرورش کا ذمہ لیتے ہیں۔یہ ایک المیہ ہے کہ بیٹا بڑا ہوکر گھر بنائے۔ بوڑھے والدین کی خدمت کرے ، باپ کا انتقال ہوتا ہے تو بہنوئی کھڑا ہوکہ گھر والد کے نام پر ہے، گھر بار بیچ ڈالو! اور وراثت میں حصہ دو، نہیں تو عدالت کا سامنا کرو۔ جس گھر میں والدین نے اپنے بچوں کو زندگی میں رکھا ہو، وہ انہی کا ہوتا ہے۔ جن کارخانوں زمینوں سے بیٹے اور پوتے تک والدین کی زندگی میں پلتے ہوں وہ انہی کا ہے جن کو زندگی میں مالک بنایا گیا ہے ،فوت ہونے کے بعد بھی پوزیشن بدلتی نہیں ۔ ورثاء اس وقت جائیداد اور گھر وں پر لڑسکتے ہیں کہ جب والدین کے اپنے الگ الگ مکانات اور جائیدادیں ہوں۔
باغِ فدک کی وراثت حضرت فاطمہؓہی کو مل جاتی تو رسول اللہ ﷺ کے معمولات کو حضرت ابوبکرؓ برقرار نہیں رکھ سکتے تھے۔ جب خلافت کی مسند پر بنوامیہ کا حق تسلیم کیا گیا تو حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے وہ باغِ فدک سادات کو دیدیا تھا لیکن اسوقت سادات کی تعداد زیادہ اور باغ فدک سے کمائی ان کی کثرت کے مقابلہ میں کم تھی۔ نبیﷺ نے مزارعت کو ناجائز قرار دیا تو اولاد کو مزارعت کی کمائی کیسے کھلاتے؟۔
بچوں کی پرورش، رہائش، تعلیم کی ذمہ داری والد اور یتیم پوتوں کی ذمہ داری دادا پر ہوتی ہے۔ باپ اور دادا کی فوتگی پر پہلا حق زیر پرورش بچوں کا ہوتا ہے ۔ بدقسمتی سے فقہی بھول بھلیوں میں یتیم پوتوں کو بھی دادا کی میراث سے محروم کردیا گیا۔ جبکہ زندگی کی طرح فوت ہونے کے بعد بھی پہلا حق انہی یتیم پوتوں کا تھا۔ شادی شدہ بیٹی کی پرورش کی ذمہ داری اسکے شوہر پر عائد ہوتی ہے ۔ میراث کے حوالے سے جس طرح معاملہ گھمبیر بنادیا گیا یہی حال سُود کے معاملے پر بھی اختیار کیا گیا ہے

آج اگر امریکہ کہے کہ اسامہ کو زندہ برمودائے مثلث میں رکھاہےتو سب کو یقین آجائیگا

سیکرٹری جنرل ادارہ اعلاء کلمۃ الحق فاروق شیخ نے کہا کہ ’’قانون رسالہ میں لیاقت بنوری نے اسامہ بن لادن کی تصویر لیڈیز لباس میں شائع کی،امریکی ہوٹل میں اسامہ بن لادن کا انٹرویو تھا، خواب اخبار ضرب حق کی زینت بنا تھا۔ حفیظ اللہ نیازی نے رپورٹ کارڈ میں علیمہ خان کی دبئی جائیداد کا جواب نہ دیا مگر واضح کیا کہ’’ ایبٹ آباد کمیشن و نیب کے چیئرمین نے کہا تھاکہ اگر بتادیا کہ اسامہ زندہ ہے یا نہیں تو کوئی راز بھی راز نہ رہیگا۔حقیقی کہانی پر پردہ ڈالا گیا۔ ایبٹ آباد میں اسپیشل رہائشگاہ کی تعمیر کوئی عام مسئلہ نہیں۔ کوئی بھی سچ نہیں بول رہا ہے، سب لوگ جھوٹ بولتے ہیں‘‘۔
آج اگر امریکہ کہہ دے کہ اسامہ کو زندہ برمودائے مثلث میں رکھاگیا ہے جو سی آئی اے اور دجالی قوت کا مرکز ہے تو سب کو یقین آجائیگا۔ اُمت مسلمہ اس سے محبت کرتی ہے جسکو میڈیا ہیرو بنا کر پیش کرتاہے اور اس سے نفرت کرتی ہے جس کو میڈیا ویلن بناکے پیش کرتاہے۔ کوئی کسی کا چاچا ماما نہیں بلکہ طوفانوں کا مقابلہ تخیلاتی کہانیوں سے کیا جاتاہے۔

دجالی کردار کو احادیث صحیحہ کی روشنی میں واضح کیا جاتا تو مسئلے کا حل نکلتا

نوشتۂ دیوار کے مدیر مسؤل نادرشاہ نے کہا کہ قرآن وسنت میں طلاق سے رجوع کا مسئلہ بالکل واضح تھامگرظالمانہ معاشرتی نظام کو ختم کرنیوالا اسلام اجنبی بن گیا۔ صحیح بخاری کی حدیث میں ہے کہ ضروری نہیں کہ دجال کو لوگ پہچانیں مگر اللہ جانتاہے۔ملا عمرؒ کے فرشتوں کو بھی پتہ نہ ہوگا کہ وہ استعمال ہوا۔ دنیا میں امریکہ نے مسلمان کا خون مسلمان کے ہاتھ سے بہایا۔ آج بھی مسلمانوں پرہی خود کش حملے کا موقع ڈھونڈتے ہیں اورجب افغانستان میں حملہ ہو تو الزام مسلم ریاست پاکستان پر ڈالا جاتا ہے اور پاکستان پر حملہ ہو تو الزام افغانستان پر ڈالا جاتا ہے۔ دجالی کردار کو احادیث صحیحہ کی روشنی میں واضح کیا جاتا تو مسئلے کا حل نکلتا۔ طلحہؓ، علیؓ اور زبیرؓ 10افراد میں تھے جن کو دنیا میں جنت کی بشارت ملی لیکن وہ آپس کی جنگوں سے نہ بچ سکے تھے۔حالانکہ نبیﷺ نے واضح فرمایا تھا کہ میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنے مارنے لگو۔ اسوقت را،سی آئی اے اور موساد بھی نہ تھی، آج مسلمان اپنی دنیا وآخرت کو بنائیں۔

ہر شاخ پر اُلو بیٹھا ہے، انجام گلستان کیا ہوگا؟؟؟۔

ایک طرف حکومت نے انتہائی غفلت اور نااہلی کا مظاہرہ کیاکہ طاہر داوڑ کو اغواء ہوئے 16روز گزرے لیکن کوئی قدم نہ اُٹھایا تو دوسری طرف سوشل میڈیا پر ریاست دشمن عناصر نے شوشہ چھوڑ ا کہ سرحد کے قریب فوجی چوکی نے طاہر داوڑ کی لاش افغانستان کی حدود میں پھینکی۔ پھر میڈیا نے پاکستان و افغانستان کی فضا میں اپنافرض بھی ادا کردیا اور جلتی پر تیل ڈالنے کی بھی کوشش کی۔ جیو نیوز کے شاہ زیب خانزادہ اور7ٹی وی نیوز کا ایک ایک پروگرام ہی اس سلسلے میں کافی ہے۔
آل فرعون بنی اسرائیل کے دشمن تھے۔ مردوں کو قتل اور عورتوں کو زندہ رکھنے کا سلسلہ جاری تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے کی کوشش، ان کی بہن کو زندہ رہنے دیا ۔ یہ بنی اسرائیل کیلئے اللہ کی طرف سے سخت آزمائش تھی، نجات دہندہ آنے سے پہلے انکے بچوں کا قتل چھوٹی بات نہ تھی ۔ آج عالمی قوتوں نے پاکستان و افغانستان کا جو حال کیا ہے وہ یہاں سے اسلام کی نشاۃ ثانیہ اورنجات دہندہ کی آمد کے خوف سے ایسا کررہے ہیں۔ افغانستان میں حکمران وطالبان دونوں امریکہ کے ہاتھوں میں پالتو بٹیر کی طرح لڑرہے ہیں۔ دونوں کو پتہ ہے کہ امریکہ نے ان کو یرغمال بنایا ہے، جس دن انہوں نے کہہ دیا کہ ہم نے نہیں لڑنا تو امریکہ کیلئے خطے میں رکنے کا جواز نہ رہیگا۔ امن میں ہی امریکی فوج نہتے افغانوں سے خوف کھاتی ہے جبکہ مسلح طالبان اور افغانوں کی بدحالی کا فائدہ اُٹھایا جارہاہے۔ بدامنی امریکہ کی خواہش اور اس کی پالیسوں کا نتیجہ ہے۔
اگرPTM والے یہ سمجھتے ہیں کہ لسانی منافرت پاکستان یا پختون قوم کی خدمت ہے تو اس بات کو یاد رکھے کہ جب مہاجرصحابہؓ کیخلاف السابقون الاولون انصار کے سردار حضرت سعد بن عبادہؓ نے منافرت کی اجتماعی نہیں انفرادی کوشش کی تب بھی جنات یا خفیہ والوں نے قتل کیا۔ یہ صحابہؓ کے دور کا واقعہ تھا جب سی آئی اے، آئی ایس آئی اور دنیا کے کسی بھی خفیہ ادارے کا نام ونشان بھی نہ تھا۔ قرآن نے دو گروہوں میں ایک کے دشمن اور دوسرے کے اپنے کا ذکرہے۔ اگر PTM کا کردار یہ ہو کہ پختون کو ریاستِ پاکستان کے دشمنوں میں کھڑا کردے تو یہ ملک کے علاوہ اپنی قوم کیساتھ بھی بڑی زیادتی ہے۔ دشمنی دوستی کے لبادے یا کھدڑے سے مشابہ کی جائے تو زیادہ نقصان کا خدشہ ہے۔ امریکہ کا منافقانہ کردار اتنا نقصان نہیں پہنچا سکتا جتنا اپنوں کی منافقت سے خطرات لاحق ہیں۔
زیدحامد بیچارہ ایک تو پیر کذاب کا چیلہ، دوسرا اسکے مزاج میں عسکریت اور تیسرا اسکا تعلق ہمارے پنجابی بھائیوں سے ہے بقول اقبال تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا، ہوکھیل مریدی کا توہرتا ہے بہت جلد۔ آج پاکستان کا نقشہ نیٹ پر ادھورا ہے،اگر مقبوضہ کشمیر کو شامل نہ کیا جائے تو لگتا ہے کہ بھارت نے پاکستان کے چوتڑ پر قبضہ کیاہے۔ بھارت مسلسل بندے مار مار کر ہماری ریاست کو انگل دیتا رہتا ہے لیکن زید حامد نہیں کہتا کہ مقبوضہ کشمیر پر قبضہ کیلئے ہماری فوج ایک جست لگائے، کیونکہ بھارت طاقتور ہے اور زید حامد سمجھتا ہے کہ ہم بھلے پدو ہی مار کر ڈرانے دھمکانے اور شرافت کو کمزوری نہ سمجھنے کی رٹ لگائیں مگر افغانستان پر چڑھ دوڑیں اسلئے کہ بھارت ہندو جبکہ افغانستان ایک مسلم ملک ہے جس نے روس اور امریکہ کی سینہ زوری کاایک عرصہ سے تجربہ کررکھا ہے۔ PTMکی غلط سوچ کا خاتمہ زید حامد کی ترکیبوں سے نہیں سنجیدہ کوششوں سے ہوسکتا ہے۔
وزیرستان کابادشاہ ملاپاوندہ انگریز کیخلاف لڑامگر100روپیہ ماہانہ وظیفہ لیا، کیابعید کہ منظور پشتین جسکے خلاف لڑرہاہو ، انہی کا اپنا ہو،داعش کیخلاف پختونوں کو اب مذہب نہیں قوم کی بنیاد پر لڑایا جاسکتا ہے۔بڑی مشکلوں سے محسود قوم نے طالبان سے جان چھڑائی ، تصویرکا رُخ واضح نہ ہو تو وہ کھیل کا حصہ نہ بنیں گے۔ زید حامد کا کردار PTMکیلئے مضبوطی کا ذریعہ ہے مگر فوج کو اپنی حکمت عملی کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ایم کیوایم اور تحریک طالبان کی وجہ سے اس قوم نے جو نقصان اٹھایا ہے،اب مزید عسکری ذہنیت سے پاکستان کے لوگ پستیوں کے متحمل نہیں ہوسکتے ۔ اگر یرغمال شدہ اسلام کو بازیاب کیا تو مسائل حل ہونگے ۔
آئی ایس آئی کے بریگیڈئر کا بھائی گلشاہ عالم برکی طالبان نے غائب کردیا، جسکا سراغ آج تک نہ ملا، برکی قوم نے بیت اللہ محسود سے اجتماعی پوچھا ،اس نے انکار کیا کہ کچھ پتہ نہیں۔ہم پر حملے کے بعد طالبان معافی کیلئے آئے تومحسود عمائدین ساتھ تھے مگر کانیگرم کے جرگہ میں غائب تھے، طالبان کے خوف سے وہ اپنے بے گناہوں کیلئے کھڑے نہ ہوئے تو ہمارے لئے کھڑے کیوں ہوتے؟۔ امریکی ایماء پر یاپھر نااہلی سے ریاست نے قوم پر طالبان کو مسلط کیا۔ کھڑا ہونے کی جرأت ریاست میں نہ تھی کیونکہ پوری قوم ساتھ تھی۔ پھر جب قوم نے پہچانا تو بعض ریاست کی ضرورت اسلئے تھے کہ انکے بغیر اچھے برے کی تمیز ناممکن تھی۔
اقتدار صحیح قیادت کے ہاتھ میں ہو توسول وعسکری سمیت پاکستان کے تمام سرکاری اداروں کا کردار درست کیا جاسکتا ہے۔ اب تو ایسا لگتا ہے کہ جس طرح عوام انکے غلام ہوں اور حکومت وریاست کے لوگ تاج برطانیہ کے وائسرائے ہند کے اہلکار ونمائندے نہیں بلکہ گماشتے ہوں۔ نمائندہ قانون کی حکمرانی قائم کرتا ہے اور گماشتہ بدمعاشی سے اپنی دہشت بٹھاتا ہے۔ لوٹ مار کرتا ہے اور ذاتیات کی جنگ لڑتا ہے۔ غلط فہمیاں بد اعتمادی کو جنم دیتی ہیں تو حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو سر اور داڑھی سے پکڑ لیتے ہیں اور صحابہ کرامؓ میں بھی جنگوں کیلئے صف بندی ہوتی ہے۔ پاکستان نازک موڑ پر کھڑاہے، جس طرح کرپٹ سول وملٹری اور سیاسی قیادت ملک وقوم کو سنبھالنے کی صلاحیت سے محروم ہے اس سے بڑھ کر کھلاڑی کے ہاتھوں میں ملکی باگ ڈور سے حالات بہتر کی بجائے بد سے بدترین کی طرف جائیں گے۔ بے روزگاری کو ختم کرنے کیلئے ایک کروڑ لوگوں کو نوکریاں دینے اور پچاس لاکھ کو گھر دینے کا وعدہ کرنیوالا وزیراعظم یوٹرن کو قابلِ فخر قرار دیتا ہے۔ قدوس بلوچ نے کیا خوب کہا کہ لوگ یوٹرن روڈ کے مخالف سمت پر لیتے ہیں جبکہ عمران خان رانگ سمت پر دوڑنا شروع کردیتا ہے۔ بے روزگار و بے گھر کرنے کیلئے حکومت عوام پر چڑھ دوڑی ہے۔ سندھ حکومت نے لیاری ایکسپریس وے کے متاثرین کو معاوضہ دیا نہ متبادل جگہ دی تو سعید غنی وزیر بلدیات موجودہ متاثرین کو خاک متبادل جگہ دے سکے گا؟۔
عوام کو مہنگائی، بے روزگاری اور متاثرین بناکر ایسے احتجاج کیلئے تیار کیا جارہاہے کہ مذہبی وسیاسی جماعتوں کی طرف سے احتجاجی مظاہروں کو سب بھول جائیں گے۔ کھلاڑی کہے گا کہ میدان میں ہار جیت تو ہوتی ہے اور پھر اپنا بوجھ ریاست کے سر ہی تھوپ دیگا کہ میں آیا نہیں تھا بلکہ لایا گیا تھا تو میں کیا کرتا؟ ۔ جب آرمی پبلک سکول پشاور کا واقعہ ہوا تھا، تب بھی پختونخواہ کے حکمران نے اپنی ناہلی کو فوجیوں کے سرتھوپ دیا تھا۔ جس کی وجہ سے آج تک بعض لوگوں کے دل و دماغ سے شکوک وشبہات ختم نہیں ہوسکے ہیں بدقسمتی سے بنگال میں جرنل نیازیؒ نے ہتھیار ڈالے اور ختم نبوت کی تحریک میں مولانا نیازیؒ نے داڑھی مونڈڈالی۔

اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئر مین قبلہ ایاز کے خط کا جواب، از عتیق گیلانی

بسم اللہ الرحمن الرحیم
اسلامی نظریاتی کونسل کے چےئرمین محترم المقام جناب قبلہ ایاز صاحب!
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ! جناب کا مراسلہ پڑھ کربہت خوشی ہوئی۔ کچھ بنیادی گزارشات خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں،اس اُمید کیساتھ کہ طبیعت پر ناگوار نہیں گزریں گی، میرے لئے آپ ذاتی طور پر بڑے احترام کے لائق ہیں۔
میرے خاندان کے بزرگوں کاسلسلہ علماء اور اولیاء اللہ کا رہا لیکن والد صاحب مرحوم نے مدرسہ کی تعلیم سے فرار کی راہ اسلئے اختیار کی تھی کہ اس زمانہ میں گھر گھر جاکر طلبہ کو روٹی سالن مانگنے کیلئے ندا بلند کرنی پڑتی تھی اور کم عمر طالبوں کو یہ کرناپڑتا تھا۔ والد صاحب کی جب باری آتی تو بھیک کی آواز بلند کرنے سے شرماتے اسلئے بھاگ جاتے ۔ پھر ہمارے خاندان سے یہ سلسلہ ٹوٹا۔علماء کی قدر ومنزلت تھی لیکن علماء بننے کو معیوب تصور کرنے لگے ، اسلئے کہ یہ پیشہ زیردست طبقے کا رہ گیا، پہلے علماء مذہبی خدمات کیساتھ طب وحکمت حاصل کرکے زیرِ دست نہیں رہا کرتے تھے بلکہ دنیاوی حیثیت میں بھی دوسروں سے ممتاز مقام رکھتے۔ میرے لئے والدین اور بھائیوں سے مدارس کی تعلیم کیلئے اجازت نہ ملنے میں بغاوت کے علاوہ کوئی چارہ کار نہ تھا۔تبلیغی جماعت کے بزرگ حاجی عبدالوہاب سے رائیونڈ میں مشورہ لینے کی استدعا کی لیکن انہوں نے کہا کہ ’’ بھائی مجھ سے مشورہ نہ لینا‘‘۔ مولانا محمد یوسف لدھیانوی ؒ سے فتویٰ پوچھا کہ ’’ والدین میری خدمت کے محتاج نہیں مگر وہ مدرسے میں تعلیم کی اجازت نہیں دیتے، تو کیا اجازت کے بغیر دینی تعلیم حاصل کرسکتا ہوں‘‘۔ مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ نے فرمایا کہ ’’ میرا مشورہ ہے کہ ان کی بات مان لو،اسلئے کہ مدرسہ کی تعلیم فرض کفایہ ہے، آپ کے علاقے میں بھی اتنے علماء ومفتیان ہیں کہ لوگوں کی شرعی مسائل میں رہنمائی کرسکتے ہیں، آپ پر یہ کوئی فرض نہیں‘‘۔ میں نے عرض کیا کہ میں نے مشورہ نہیں فتویٰ مانگا۔ جس پر انہوں نے قدرے ناگواری میں فرمایا کہ والدین کو آپ کی خدمت کی ضرورت نہ ہو تو آپ مدرسے میں دینی تعلیم حاصل کرسکتے ہیں۔ مجھے اس وقت بڑا تعجب ہوا کہ جب مولانا یوسف لدھیانوی سے یہ سنا کہ قرآن کے مصحف پر ہاتھ رکھنے سے حلف نہیں ہوتا اسلئے کہ مصحف کی صورت میں کتاب قرآن اور اللہ کا کلام نہیں اور پھر اس سے بڑا تعجب اس بات پر ہوا کہ اگلے مہینے جب بنوری ٹاؤن میں داخلہ لیا تو پتہ چلا کہ مولانا عبدالسمیع صاحب کو بھی اس حقیقت کا قطعی طور پر کوئی ادراک نہیں تھا۔
میری خوش قسمتی تھی کہ درسِ نظامی کی تعلیم کا موقع ملا ۔ مولانا ابوالکلام آزادؒ نے لکھا کہ ’’ اگر اصولِ فقہ کی تعلیم پر کسی عقل والے کی نظر پڑگئی تو یہ سب بکھر کر رہ جائیگا اسلئے کہ اس میں تضادات اور واضح غلطیاں ہیں‘‘۔ ایک موقع پر فرمایا کہ ’’ علماء کو شکایت ہے کہ علماء میں استعداد اور صلاحیت نہ رہی ۔ حالانکہ مدارس کا نصابِ تعلیم ہی علماء کو کوڑھ دماغ بنانے کیلئے کافی ہے۔ پہلے اسلام کے عروج کا دور تھا پھر چھٹی ہجری میں انتہائی علمی انحطاط کا دور آیا تو ساتویں صدی ہجری میں زوال کی انتہاء تک پہنچنے والوں نے عجیب وغریب کتابیں لکھیں۔ مغلق عبارات، مختصر سے مختصر الفاظ میں ایسے جملے لکھنے کو کمال سمجھا گیا کہ صاحبِ کتاب نے خود بھی اپنی کتابوں کی ایک سے زائد شرحیں لکھ ڈالیں جب اس دور کی کتابوں کو نصاب تعلیم بنایا گیا تو اس سے علمی قابلیت پیدا نہیں ہوسکتی ‘‘۔مولانا آزادؒ جب بھارت کے وزیرِ تعلیم تھے تو بھی مدارس کے اربابِ اختیار سے کھلی کھلی باتیں کی تھیں جو ریکارڈ پر ہیں لیکن مدارس کے اربابِ اختیار کے پلے کچھ بھی نہیں پڑا تھا۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی کی تقریر بھی ہفت روزہ ضربِ مؤمن کراچی کی زینت بنی تھی۔ جس میں انہوں نے اپنے والد مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع صاحبؒ کی پرانی تقریر کا حوالہ دیدیا کہ ’’30 سال سے ہمارے مدارس بانجھ ہیں۔ علامہ پیدا ہورہے ہیں، مولانا پیدا ہورہے ہیں لیکن مولوی پیدا نہیں ہورہا ہے۔ شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ کو لوگ مولانا نہیں مولوی کہتے تھے لیکن ان کے پاس علم تھا، القاب نہیں تھے، آج القاب ہیں مگر علم نہیں ہے‘‘۔
شیخ الہند کے مولانا عبیداللہ سندھیؒ ، مولانا اشرف علی تھانویؒ ، مولانا الیاسؒ ، مفتی کفایت اللہؒ ، مولانا حسین احمد مدنیؒ ، علامہ شبیراحمد عثمانیؒ اور مولانا انور شاہ کشمیریؒ جیسے شاگرد تھے۔ مولانا ابوالکلام آزادؒ براہِ اراست انکے شاگرد نہ تھے لیکن امام الہندؒ کے لقب سے انہوں نے ہی نوازا تھا۔ علامہ انور شاہ کشمیریؒ کا تعلق سیاست نہیں خالص مذہبی ماحول و مدرسہ سے تھا۔ مفتی محمد شفیعؒ نے لکھا کہ ’’ مولانا انورشاہ کشمیریؒ نے آخری عمر میں کہا کہ ساری زندگی قرآن وحدیث کی خدمت کرنے کے بجائے مسلکوں کی وکالت میں ہی ضائع کردی ‘‘۔ شیخ الہندؒ نے کئی عشروں تک درسِ نظامی کی تدریس وتعلیم کی لیکن جب مالٹا میں قید ہوگئے تو قرآن کی طرف توجہ گئی اور پھر ان کی فکروسوچ میں واضح تبدیلی آئی۔ اُمت کے زوال کے دو اسباب بتائے ، قرآن سے دوری اور فرقہ واریت۔ مفتی محمد شفیعؒ نے لکھا کہ ’’شیخ الہندؒ نے دو اسباب کا ذکر کیا لیکن یہ درحقیقت ایک ہی سبب ہے اور وہ قرآن سے دوری ہے، فرقہ واریت بھی اسی وجہ سے پیدا ہوئی‘‘۔ شیخ الہندؒ کے خیالات میں جو تبدیلی آئی وہ درسِ نظامی کو ترک کرکے قرآن کی طرف رجوع تھا۔جس پر مولانا عبیداللہ سندھیؒ نے بڑا کام بھی کیا لیکن وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ درسِ نظامی کے مذہبی طبقے پر گمراہی کی مہریں لگ چکی ہیں اور وہ ہدایت کی طرف رجوع کرنیوالے نہیں ۔ مولانا انور شاہ کشمیریؒ نے آخری عمر میں انکی بات سمجھ تو لی مگرعملی طورپر کچھ نہ ہو سکا۔
شیخ الہند کی مالٹا کی قید سے پہلے رائے یہ تھی کہ ’’ اب اصلاح کی کوئی اُمید نہیں، بگاڑ بڑھتا جائیگا، یہانتک کہ خراسان سے مہدی نکلے گا تو انکے ذریعے اصلاح ہوگی، وہ اپنی روحانی قوت سے پوری دنیا کو بدلے گا، اب چھوٹی بڑی اصلاح کی کوئی تحریک کارگرنہیں‘‘۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ نے شیخ الہندؒ کایہ قول نقل کیا اور اسی پر ڈٹے رہے‘‘۔مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی کی یہ تقریر بھی میڈیا میں شائع ہوئی کہ ’’ ہم اچھے برے، صحیح وغلط اور حلال وحرام کی تمیزسے عاری ہیں، یہ فیصلہ نہیں کرسکتے کہ کس کی رائے حق اور کس کی باطل ہے لیکن امام مہدی آئیں گے تو ان کا ہر قول صحیح اور حق ہوگا اور ان کے مخالفین کی ہر بات غلط اور باطل ہوگی۔یہ مدارس کے علماء اور طلبہ امام مہدی کیلئے لشکر تیارہورہے ہیں‘‘۔ صوابی میں پنچ پیر کے مقابلے میں شاہ منصور کے مولانا عبدالہادی نے طلبہ سے پوچھا تھا کہ امام مہدی کا مقابلہ کس سے ہوگا؟، طلبہ نے کہا کہ روس سے! مولانا نے کہا کہ جواب درست نہیں۔ طلبہ نے کہا کہ امریکہ سے۔ مولانا نے کہا نہیں بلکہ مدارس کے علماء نے اسلام کو مسخ کررکھاہے، انکے خلاف وہ جہاد کریں گے۔ مولانا سید بوالاعلیٰ مودودی نے اپنی کتاب ’’ احیائے دین‘‘ میں لکھاہے کہ ’’ میرے نزدیک امام مہدی کی ساخت پرداخت وہ نہیں ہوگی جس مذہبی لبادے کو دیکھنے اور تاڑنے کی امید کی جارہی ہے بلکہ وہ تمام جدیدوں سے بڑھ کر جدید ہوگا بلکہ ان کی جدتوں سے گھبرا کر مولوی اور صوفی صاحبان ہی سب سے پہلے ان کے خلاف شورش برپا کرینگے‘‘۔ مولانا سندھیؒ نے شیخ الہندؒ کے مالٹا کی قید سے رہائی کے بعد کا مؤقف اپنایا تھا اور ان کا کہنا تھا کہ ’’ جو اپنے استاذ کی بات نہیں مانتے تو وہ امام مہدی نہیں بلکہ مخالفین کیساتھ ہونگے‘‘۔ بہرحال یہ یقینی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ شیخ الہندؒ کا پہلا مؤقف درسِ نظامی کی تعلیم کو سامنے رکھتے ہوئے درست تھا اسلئے کہ اس سے نااہل لوگوں نے ہی پیدا ہونا تھا۔ لیکن یہ انتہائی گمراہ کن بھی تھا اسلئے کہ ایسی روحانی شخصیت تو حضرت آدم علیہ السلام سے نبی آخر زمان خاتم الانبیاء والمرسلین حضرت محمدﷺ تک بھی کوئی نہیں جواپنی روحانی قوت کے بل بوتے پر دنیاوی اور روحانی انقلاب برپا کرسکیں۔شیعہ بھی اسی وجہ سے گمراہ ہوگئے تھے۔
مرزا غلام احمد قادیانی کے پیروکاروں کو اس وجہ سے پذیرائی مل رہی ہے اور دنیا میں بڑھتے جارہے ہیں اور ان کی گمراہی بھی شیخ الہندؒ کے اس قول کے مقابلے میں زیادہ نہیں اسلئے کہ امام مہدی کے بارے میں ایسا عقیدہ تمام انبیاء کرامؑ سے زیادہ حیثیت دینے کے مترادف ہے۔ مرزا غلام ا حمدقادیانی نے تو ظلی نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔ یہ اصلی نبوت سے بھی بڑھ کر ہے۔مرزا غلام احمد کے پیروکار اسلئے بڑھ رہے ہیں کہ مفتیان اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع اور مفتی رفیع عثمانی نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور مرزا غلام احمد قادیانی کے درمیان شجرۂ نسب کا موازنہ لکھ دیا کہ دونوں شخصیات الگ الگ ہیں جبکہ قادیانی کہتے ہیں کہ قرآن کی رو سے حضرت عیسیٰ ؑ فوت ہوچکے ہیں اور احادیث میں حضرت عیسیٰ اور مہدی سے مراد ایک ہی شخصیت کے دونام ہیں جس کی حیثیت مثیل کی ہے جیسے مشہور مقولہ ہے کہ’’ ہرفرعون کیلئے موسیٰ ہوتا ہے‘‘۔حالانکہ مرزا غلام احمد قادیانی ایک مولوی اور صوفی تھا اور اگر انگریز اس کی حمایت کرنے کے بجائے اس کومالٹا کی جیل میں ڈال دیتے تووہ بھی شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ کی طرح درسِ نظامی کی باطل تعلیمات سے قرآن کی طرف رجوع کرتا ۔ انگریز اسکو قیدکیوں کرتا؟ اقبال نے اسکو مجذوب فرنگی کہا :
قوموں کی حیات ان کے تخیل پہ ہے موقوف
یہ ذوق سکھاتا ہے ادب مرغِ چمن کو
مجذوب فرنگی نے بہ اندازِ فرنگی
مہدی کے تخیل سے کیا زندہ وطن کو
اے وہ کہ تو مہدی کے تخیل سے ہے بیزار
نومید نہ کر آہوئے مشکیں سے ختن کو


مولانا عبیداللہ سندھیؒ نے شیخ الہند کی طرف سے اپنائے جانے والے آخری مؤقف کو اپنا مشن بنالیا تھا مگر علماء نے ان کی فکر کو قبول نہیں کیا۔قرآن کی سورۂ فاتحہ میں صراط مستقیم کی ہدایت طلب کرنے کی دعا ہے اور سورۂ بقرہ میں قرآن کو بلاشبہ کہہ کر متقین کیلئے ہدایت کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔ اہل تشیع کا عقیدہ ہے کہ امام مھدی گوشۂ غیب سے نکل کر امت مسلمہ میں قرآن کی اصلی تعلیمات عام کرینگے اور سنی مکتبۂ فکر کا یہ عقیدہ ہے کہ قرآن ہی کے ذریعے سے نہ صرف امام مہدی پیدا ہونگے بلکہ مسلم اُمہ کیلئے بھی قرآن رشدو ہدایت کا ذریعہ ہے۔تبلیغی جماعت کے بانی مولانا الیاسؒ نے مدارس کے فقہی مسائل کو چھوڑ کر عوامی سطح پر ایک زبردست تحریک برپا کردی لیکن تبلیغی جماعت سے متاثر ہونے والے طبقے نے خانقاہوں اور مدارس کو ہی اپنا منبع بنالیا ہے۔ مدارس کے نصاب میں غلطیوں اور فکری اختلاف کے سبب کوئی درست فکر وجود میں نہیں آسکتی۔
سورۂ البقرہ کی ابتداء الم O ذٰلک الکتٰب لاریب فیہ O ہدی للمتقین الذین یؤمنون بالغیب Oویقیمون الصلوۃ وممارزقنٰھم ینففقون Oوالذین ےؤمنون بماانزل الیک وماانزل من قبلکO وبالاخرۃ ھم ےؤقنونOاولئک علی ھدی من ربھم واولئک ھم المفلحونOان الذین کفروا سواء علیھم أأ نذرتھم أم لم تنذرھم لایؤمنونOختم اللہ علی قلوبھم وعلی سمعھم وعلی ابصارھم غشٰوۃ ولھم عذاب الیمO سے کوئی بات درست فکر و عمل کی بنیاد علماء نے نہیں بنائی ۔
المOبیضاوی شریف درسِ نظامی کی آخری تفسیر ہے۔ لکھاہے کہ الف لام میم سے مراد اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ اور یہ بھی کہا گیا کہ الف سے اللہ، لام سے جبریل اور میم سے مراد حضرت محمد ﷺ ہیں اور مطلب یہ ہے کہ اللہ نے جبریل کے ذریعے محمدﷺ پر یہ کتاب نازل کی ۔ میں انوار القرآن آدم ٹاؤن کراچی مولانا درخواستی ؒ کے مدرسے میں موقوف علیہ میں پڑھ رہا تھا ، مولانا شبیراحمد ہمارے استاذ تھے ۔ میں نے سبق کے دوران اعتراض کیا کہ یہ تضادات اور غلطیوں کا مجموعہ ہے۔ اسلئے کہ جب اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا کہ الم سے مراد کیا ہے تو یہ کہنا غلط ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ نے جبریل کے ذریعہ یہ کلام حضرت محمد ﷺ پر نازل کیا۔ پھر الف جیم میم ہونا چاہیے تھا اسلئے کہ اللہ کا پہلا حرف الف، جبریل کا جیم ہے نہ کہ لام ۔ استاذ نے کہا کہ عتیق کی بات درست ہے، تفسیر بیضاوی نے غلط لکھا ۔ اساتذہ نے میری بڑی حوصلہ افزائی کی۔
ذلک الکتٰب ’’یہ وہ کتاب ہے ‘‘۔ اصول فقہ میں ہے کہ کتاب سے مراد لکھی ہوئی کتاب نہیں ۔ کیونکہ لکھے ہوئے محض نقش ہیں جونہ لفظ ہیں اور نہ معنی۔ فقہ کا مسئلہ ہے کہ ’’ قرآن کے مصحف پر ہاتھ رکھنے سے حلف نہیں، البتہ الفاظ میں کلام اللہ کہنے پر حلف ہے‘‘۔ اسکے نتیجے میں صاحب ہدایہ، علامہ شامی، فتاویٰ قاضی خان ، مفتی تقی عثمانی اور مفتی سعید خان نے سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کے جواز کی بات لکھ ڈالی۔ ک سے کتاب اور B سے BOOKپڑھنے والے بچے کو یہ پتہ چلتا ہے کہ کتاب کیا ہے لیکن کوڑھ دماغ علماء نہیں جانتے کہ کس طرح وہ یہ پڑھتے اور پڑھاتے ہیں کہ ’’ کتاب کی تعریف یہ ہے کہ مصاحف میں جو لکھا ہوا ہے مگر لکھے ہوئے سے مراد لکھا ہوا نہیں اسلئے کہ لکھائی محض نقش ہے الفاظ ومعانی نہیں‘‘۔ حالانکہ قرآن میں کتابت سے ہی کتاب بنتی ہے اور اس کی ڈھیر ساری آیات کے علاوہ فطرت وعقل میں بھی وضاحت ہے ۔ یہ کم عقلی صرف علماء تک محدود نہیں بلکہ زمانہ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے مرکزی جنرل سیکریٹری اوروائس چانسلر اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد نے بھی یہ سمجھاتھا لیکن ضعیف العمری میں بھی ان کو حقیقت سمجھ میں آگئی کہ کتاب اورل نہیں کتابت اور پڑھی جانے والی چیزہے ۔
لاریب فیہ’’ اس میں کوئی شک نہیں‘‘کتاب کی تعریف کا دوسرا جملہ ہے کہ جو متواتر طور پر نقل کیا گیا نبیﷺ سے اور اس قید سے غیرمتواتر آیات خبر مشہور و احاد نکل گئیں۔ حالانکہ قرآن میں متواتر اور غیر متواتر کے عقیدے سے بڑا گمراہانہ عقیدہ اور کیاہے؟۔ اصول فقہ میں یہ وضاحت بھی ہے کہ امام شافعیؒ کے نزدیک خبر واحد کی احادیث قابل استدلال ہیں جبکہ قرآن کے باہر قرآن کی آیات کا اعتقاد کافرانہ ہے لیکن احناف کے نزدیک قرآن سے باہر کی آیات بھی قرآن کا حصہ ہیں جس سے قرآن کی صحت پر اعتماد نہیں رہتا ہے۔ قرآن کی تعریف میں اصولِ فقہ کا تیسرا جملہ بلاشبہ کا ہے اور لکھا ہے کہ اس بلاشبہ کی قید سے بسم اللہ نکل گئی اسلئے کہ صحیح بات یہ ہے کہ بسم اللہ قرآن کا حصہ ہے لیکن بسم اللہ میں شک ہے اور یہ شک اتنا قوی ہے کہ اس کی وجہ سے اسکے انکار سے کوئی کافر نہیں بنتا ہے۔(اٖصول فقہ کی کتابیں : نور الانوار ، توضیح تلویح)
ہدیً للمتقین ہدایت ہے متقیوں کیلئے مگر علماء کے نزدیک یہ محض بات کی حد تک ہے ورنہ قرآن صرف امام مہدی کیلئے ہدایت ہے۔
الذین یؤمنون بالغیب علماء کا غیب پر ایمان برائے نام ہے اسلئے علامہ اقبالؒ نے لکھ دیا کہ ’’جو تجھے حاضر وموجود سے بیزار کرے‘‘
ویقیمون الصلوٰۃ علماء تنخواہ کے بغیر نمازکی امامت نہیں کرتے مگراقتدار ملتا ہے تو بے نمازیوں کو سزا دیتے ہیں۔ امام مالکؒ وامام شافعیؒ کے مسلکوں میں بے نمازی کو قتل کرنے پر اتفاق ہے مگر ایک کے نزدیک نماز قضاء کرنے پر آدمی مرتد بنتا ہے اور دوسرے کے نزدیک نماز کا نہ پڑھنے کی سزا قتل ہے۔ امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک اس کی سزا زدوکوب اور قید کرنے کی ہے۔ مولانا محمد خان شیرانی اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین تھے تو میری ان سے بھی ملاقاتیں رہی ہیں، انکا کہنا تھا کہ طلاق کے مسئلے پر آپ کا مطالعہ ہے اسلئے میں بات نہیں کرونگا ، نماز پر بات کرتے ہیں۔ میں نے کہا کہ آپ کا تعلق جمعیت علماء اسلام سے ہے کل کو آپ اقتدار میں آئیں تو بے نمازی کو کیا سزا دینگے؟۔ فقہ میں جو اختلافات ہیں اگر قرآن وسنت میں کوئی سزا ہوتی تو کوئی اختلاف ہوتا؟، کیا سزا کے خوف سے نماز پڑھنے والے کی نماز ہوگی؟۔کہنے لگے کہ میرا مقصد نماز کے فضائل پر بات تھی۔ میں نے کہا کہ نماز کے فضائل پر بات کرنے کے بجائے تبلیغی جماعت میں چلہ لگایا جائے ،غزوہ خندق میں نبیﷺ اور صحابہؓ سے نمازیں قضاء ہوگئیں ،تبلیغی جماعت میں صحابہؓ چلہ لگاتے تو نبیﷺ کو وہ خندق کھودنے کیلئے تنہا چھوڑ دیتے لیکن نماز باجماعت نہ چھوڑتے۔ مولانا شیرانی نے کہا کہ یہ درست ہے کسی اور موضوع پر بات کرلیتے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ افغانستان کے طالبان نے جو شریعت نافذ کی تھی ،مولانا فضل الرحمن نے بھی زبردستی داڑھی رکھوانے کو جائز قرار دیا تھا جبکہ جمعیت علماء اسلام کا ترجمان جان اچکزئی کو مقرر کیا، جو مونچھ داڑھی اور سرکے بالوں کو روزانہ کی بنیاد پر صاف کرتا ہے۔ مولانا شیرانی نے کہا کہ اس بات سے میں اتفاق کرتا ہوں ، مولانا کی غلطی تھی۔مولانا عطاء الرحمن نے کہا کہ اب مولانا پر تنقید کردی۔ مولانا شیرانی، مولانا عطاء الرحمن اور قاری عثمان ریاست کے نمک خوار ہوکر پاکستان کو سخت تنقید کا نشانہ بنارہے تھے، مجھ سے پوچھ لیا تو میں نے درسِ نظامی میں قرآن کی عجیب وغریب تعریف کا حوالہ دیکر کہا کہ اسکے بارے میں کیا خیال ہے؟۔ جس پر مولانا عطاء الرحمن نے کہا کہ ’’بھوکے کو روٹی نہیں مل رہی تھی اور کسی نے کہا کہ پھر وہ پراٹھے کیوں نہیں کھاتا؟۔ ہم پاکستان کی بات کررہے تھے اور یہ اپنے مطلب کی بات لے آیا‘‘۔ مولوی اتنے کوڑھ دماغ ہیں کہ مولانا ابوالکلام آزادؒ کوآئیڈیل قرار دینے کے باوجودمولانا فضل الرحمن کے بھائی مولانا عطاء الرحمن میری داڑھی پر سوال اٹھارہے تھے اور جان اچکزئی کا حوالہ دینے پر مولانا فضل الرحمن کو بے جا تنقید کا نشانہ سمجھ لیا۔
مولانا عطاء الرحمن نے راہِ فرار اختیار کرنے میں عافیت جانی ،مولانا شیرانی سے گفتگو کا سلسلہ جاری رہا۔ مولانا شیرانی نے پھر نماز کو چھوڑ کر معاشی نظام پر بات کرنے کی دعوت دے ڈالی۔ میں نے عرض کیا کہ یہ بھی اچھی بات ہے لیکن کس طرح سے عقلی بنیادوں پر سود کے مسائل سمجھائے جاسکتے ہیں کہ اخروٹ وغیرہ وزن کے بدلے وزن میں سود مگر گنتی میں سود نہ ہوں اور وہ بھی نقد میں؟۔ مولانا شیرانی نے آخر کار ایک لمبے چوڑے فلسفے کی کہانی شروع کردی جس میں سوال جواب کا کوئی موقع نہ تھا، جاہل علماء کو اسی سے وہ مرعوب کرتے ہونگے لیکن ہم نے زیبِ داستان کیلئے قصہ گوئی کی جان سے روح نکال دی تھی۔ یہ معروضات اسلئے پیش کررہا ہوں کہ محترم قبلہ ایاز صاحب! اسلامی نظریاتی کونسل کے ریسرچ ڈائریکٹرمولانا مفتی ڈاکٹر انعام اللہ کو پہلے بھی میں اپنی کتاب ’’ ابرِ رحمت‘‘ دے چکا ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ آپ اور مولانا شیرانی کی فکر ذرا ہٹ کے ہے۔ یہ مولوی اور اسلامی نظریاتی کونسل کے معزز ارکان حقائق سے نابلد ہیں۔ شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ نے زندگی کا بڑا قیمتی وقت درسِ نظامی کی تعلیم میں گزار دیا ،حالانکہ انکے والد ذوالفقار علی صاحب ایک بڑے سرکاری افسر تھے لیکن ان کی آنکھیں مالٹا کی قید میں ہی کھل سکی تھیں۔ محترم جناب قبلہ صاحب ! آپ اس جرم میں شریک نہیں رہے ہیں اسلئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو کونسل کی چیئرمینی کا اعزاز ایک ایسے وقت میں بخشا کہ جب مولوی ریاست کی ضرورت نہ رہا بلکہ ریاست اب اس کی جہالت اور جذباتیت سے ہوا نکالنے کے سوفیصدموڈ میں نظر آرہی ہے۔
ومما رزقنٰھم ینفقون’’ اور جو ہم نے ان کو رزق دیا ہے ،اس میں سے خرچ کرتے ہیں‘‘۔ مولوی سمجھتا ہے کہ یہ میرامسئلہ نہیں۔ہوسکتا ہے کہ غریب مولوی پھر بھی خرچ کی غیرت رکھتا ہو ،مگر امیر مولوی تو دنیا کے امیرترین افراد میں شامل ہوں تب زکوٰۃ کا خود کو مستحق سمجھتاہے ۔
والذین یؤمنون بماانزل الیک ومانزل من قبلک وباالاخرۃ ھم یؤقنون ’’اور جو ایمان رکھتے ہیں اس پرجو آپکی طرف نازل کیا گیا اور جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا اور جو آخرت پر یقین رکھتے ہیں‘‘۔ اللہ کے نازل کردہ واضح احکام پر فقہی مسائل مرتب نہیں اسلئے نبی ﷺ کی طرف نازل کردہ آیات اور سابقہ آیات پر انکے ایمان کا سوال پیدا نہیں ہوتاہے۔ آخرت کے مقابلے میں دنیا کو ترجیح دیتے ہیں۔ سورۂ احزاب میں نبی ﷺ سے فرمایا: کہ کافروں اور منافقوں کی اتباع نہ کریں ، جو آپ کی طرف نازل کیا گیا اس کی اتباع کریں۔ سابقہ قوموں کے نقشِ قدم پر چل کر یہ امت بھی عملی طور پر قرآنی احکام کے اتباع سے بالکل محروم ہوکر رہ گئی ہے۔ نام کے مسلمان ہیں اور کام کے جن کو دیکھ کر شرمائے یہود ۔ سورۂمائدہ میں توراۃ کے حوالے سے علماء و مشائخ کیلئے دین کی حفاظت کی ذمہ داری کا ذکر ہے اور تھوڑے بھاؤ کے بدلے اللہ کی آیات کو بیچنے اور اللہ کے مقابلے میں لوگوں سے ڈرنے پر یہ حکم لگایا گیا کہ ’’ جو اللہ کے نازل کردہ پر فیصلہ نہیں کرتے تو وہ لوگ کافر ہیں‘‘۔ اس کفر کے فتوے کا اطلاق علماء ومشائخ پر اسلئے ہوتا ہے کہ انکے فتویٰ سے دین بدل جاتا ہے۔ پھر حکمرانوں کو ظالم قرار دیا گیا ہے اسلئے کہ جان کے بدلے جان، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان، دانت کے بدلے دانت اور زخموں کابدلہ قصاص ہے اور اسکا تعلق حکمرانوں سے ہے اور اللہ کے نازل کردہ پر فیصلہ نہ کرنے والوں کو ظالم قرار دیا گیا اور پھر اہل انجیل سے عوام الناس کا ذکر ہے جو نہ علماء ومشائخ تھے اور نہ حکمران۔ عوام کیلئے دونوں طبقے سے نرم فتویٰ ہے ان کو اللہ کے حکم پر فیصلہ نہ کرنے پر فاسق قرار دیا گیا ہے۔ میں نے غالباً 1993ء میں کتابچہ ’’ پاکستان کی سرزمین سے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا آغاز‘‘ لکھا۔ جس کی تمام مکاتبِ فکر کے اکابر علماء نے تائید کی تھی اور اس میں سورۂ مائدہ کی ان آیات کی یہ وضاحت ہے۔ مولانا فضل الرحمن اورقاضٰی فضل اللہ پہلی مرتبہ ہمارے گھر آئے تو مولانافضل نے قاضی فضل سے کہا کہ یہ ہم سے بڑے انقلابی ہیں مگرتھوڑے جذباتی ہیں۔ قاضی فضل نے ایک رسالہ پڑھنے کے بعد مولانا صالح شاہ قریشی سے کہا تھا کہ ’’ یہ جمعیت میں شامل ہوں توہماری جماعت بھی انقلابی بن جائے گی ‘‘لیکن میں نے معذرت کی تھی کہ مجھ جیسے بہت اس جماعت میں تنکے کی طرح بہہ چکے ہیں،معاف کیجئے گا۔
اولئک علی ھدیً من ربھم واولئک ھم المفلحون ’’ یہی لوگ انکے ربّ کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں‘‘۔ کیا یہ لوگ خودکواللہ کی طرف سے ہدایت پر سمجھ سکتے ہیں ؟اور کیا یہ فلاح پانیوالے ہیں؟۔ انہوں نے مذہب کے نام پر اپنی دنیا آباد اور آخرت برباد کرکے رکھ دی ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو غور کرنے کی ضرورت ہے کہ انہوں نے کفر کا راستہ تو اختیار نہیں کیا؟ ۔اور کہیں ان کے دلوں اور کانوں پر مہریں تو نہیں لگ چکی ہیں اور کہیں ان کی آنکھوں پر پردے پڑے ہوئے تو نہیں؟۔ذرا سوچنے کی سخت ضرورت ہے۔
ان الذین کفروا سواء علیھم أأ نذرتھم ام لم تنذھم لایؤمنونOختم اللہ علی قلوبھم وعلی سمعھم و علی ابصارھم غشٰوۃ ولھم عذاب الیم ’’ بیشک جن لوگوں نے کفر کیا ، برابر ہے کہ ان کو آپ ڈرائیں یا نہ ڈرائیں یہ ایمان نہیں لائیں گے۔ ان کے دلوں اور کانوں پر اللہ نے مہریں لگادی ہیں اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے اور ان کیلئے درد ناک عذاب ہے‘‘۔ قرآن میں رسولوں کے ذریعے اتمامِ حجت اور عذاب کا فیصلہ کرنے کی وضاحت ہے۔ وماکنا معذبین حتی نبعث رسولاً ’’ اور ہم کسی قوم کو عذاب نہیں دیتے یہاں تک کہ کسی رسول کو مبعوث نہ کرلیں‘‘۔ شاہ اسماعیل شہیدؒ نے اپنی کتاب ’’ منصبِ امامت‘‘ میں لکھ دیا ہے کہ قوموں پر اتمامِ حجت جسطرح رسولوں کے ذریعے سے ہوتی ہے، اسی طرح ان کے نائبین اماموں کے ذریعے بھی ہوتی ہے۔علماء کرام مولانا عبیداللہ سندھیؒ کی بات مان لیتے تو بھی مولانا انورشاہ کشمیریؒ کو آخری دور میں یہ کہنا نہ پڑتا کہ زندگی ضائع کردی ۔ وہ توپھر بھی بھلے انسان تھے کہ آخر میں سہی مگر آنکھیں کھل گئیں ، بڑا افسوس تو ان لوگوں پر ہے جن کو تسلسل کیساتھ کھلے ڈھلے انداز میں درسِ نظامی کی خرابیاں بتائی جارہی ہیں لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہورہے ہیں۔
غسل اور وضو کے فرائض کی ایجادات سے لیکر معاشیات تک ایک ایک چیز کا درسِ نظامی کے نصابِ تعلیم نے بیڑہ غرق کر رکھاہے۔ محترم قبلہ ایاز صاحب! پہلی فرصت میں نہ صرف مسئلہ طلاق بلکہ تمام نظریاتی مسائل کی اصلاح کیلئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو زبردست موقع عنایت فرمایا ہے ۔ مجھے امید ہے کہ آپ کے ذریعے سے اسلامی نظریاتی کونسل نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام کے گھمبیر مسائل کے حل کیلئے بھی بہت بڑی بنیاد بنے گی۔ مدارس کے قابل اساتذہ کرام بھی معاشی کمزوری کے سبب اس طرف توجہ نہیں دے پارہے ہیں، حالانکہ وہ ہل چکے ہیں۔
حنفی مسلک میں احادیث صحیحہ کی اسلئے تردید ہے کہ ان کی نظر میں احادیث آیات سے متصادم ہیں،تو فقہی جزیات میں تقلید کی گنجائش کیا ہوگی؟۔ احادیث صحیحہ کی تقلید نہیں تردید کی تعلیم ہوتو تقلید کہاں جائز ہوسکتی ہے؟۔ شاہ ولی اللہؒ نے فک النظام(نظام کو تلپٹ کردو) کی تعلیم کا درس مذہبی طبقے کی تقلیدی روش کیخلاف ہی دیا مگر علماء میں یہ صلاحیت ہی نہ تھی اسلئے مولانا احمد رضاخان بریلوی نے ایک فتوے سے اکابرین دیوبند کو الٹے پاؤں ہنکانے پر مجبور کردیا تھا۔ یہ اچھا بھی ہوا ، ورنہ الٹے سیدھے اجتہادات سے کم عقل طبقات اُمت مسلمہ کا مزید بیڑہ غرق کردیتے۔
تین طلاق کا مسئلہ بڑے پیمانے پر علماء ومفتیان کو سمجھ آیا لیکن اسکے باوجود ہٹ دھرمی کو انہوں نے اپنا شعار بنایا۔ اسلام دین ہے ، مذہبی طبقات نے اس کومسالک و مذاہب اور فرقوں میں تقسیم کررکھا ہے۔ رسول اللہ ﷺ قیامت کے دن امت کی اللہ کی بارگاہ میں شکایت فرمائیں گے وقال الرسول یاربّ ان قومی اتخذوا ہذا القرآن مھجورا ’’ اے میرے رب میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا‘‘۔
محترم قبلہ ایاز صاحب! اللہ نے آپ کو اچھے وقت پر اسلام، قوم اور سلطنت کی خدمت کا موقع دیا ۔اسکا فائدہ اٹھاتے ہوئے درسِ نظامی سے قابل علماء اور اہل مفتیوں کی جان چھڑانے کا وقت آگیا، یہ صرف معاش کا مسئلہ ہے ۔ نوجوان لاکھوں کی تعداد میں درسِ نظامی کی نذر ہورہے ہیں۔ کچھ تو وہ ہیں جن کا یہ ذریعہ معاش ہے۔ مفتی عدنان کاکا خیل کیلئے ماسٹرسے اتنی عزت ، شہرت اور دولت کا وسیلہ نہ تھا ،جتنا اس نظام سے ہی وابستگی میں ان کیلئے وسیع مواقع ہیں۔ ڈاکٹر خالد محمود سومرو MBBSسے زیادہ مولانا خالد محمود کے اندر فائدہ دیکھ رہا تھا۔ ڈاکٹر اسرار مرحوم، مولانا سیدابولاعلیٰ مودودیؒ اور جاوید احمدغامدی کو جو مقام دین کی وجہ سے ملا ، وہ کبھی دنیاوی تعلیم کی وجہ سے نہیں پاسکتے تھے مگر دین کی تعلیم اور مذہبی لوگوں کا حقائق کی طرف رحجان موڑنے میں کسی کی محنت کارگر ثابت نہیں ہوئی۔ ان لوگوں نے درسِ نظامی کی فکر کو سلیس انداز میں قوم کے سامنے پیش کرکے مذہبی رحجان رکھنے والوں کا مزید بیڑہ غرق کردیا۔ اور اپنی طرف سے گمراہانہ سوچ کو غلام احمد پرویز وغیرہ نے پروان چڑھاکر درسِ نظامی کے فارغ التحصیل لوگوں سے بھی گمراہی میں سبقت حاصل کرلی ہے۔ایسے میں اسلامی نظریاتی کونسل سے آپ کی سرپرستی میں ایک مثبت فکر کو کھلے ڈھلے انداز میں پروان چڑھایا جائے تو یہ آپ اور ہم سب کیلئے دنیا وآخرت کی سرخروئی کا باعث بنے گی۔
محترم قبلہ صاحب! اصولِ فقہ میں لکھا ہے کہ ’’ پہلا اصول اللہ کی کتاب ہے،یہاں قرآن سے مراد صرف پانچ سو آیات ہیں، باقی قرآنی آیات قصے اور مواعظ ہیں اسلئے اصول فقہ میں زیربحث نہیں ہیں‘‘۔اگر نکاح، طلاق، غسل ، وضو اور دیگر عنوان سے قرآنی آیات لکھ دئیے جاتے تو بات سے بتنگڑ نہیں بنائے جاتے۔ اصولِ فقہ میں نکاح وطلاق کے حوالے سے جو عجیب وغریب مسائل اپنے من گھڑت اصولوں سے گھڑے گئے ہیں اگر ان کی تفصیل سامنے رکھ دی جائے تو آپ کو عجیب وغریب لگے گا کہ کس طرح کی استعداد ، صلاحیت اور علم رکھنے والے افراد کی آپ قیادت کرکے چیئرمین ہونے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ جس طرح قرآن کی 500آیات کو موضوع بحث بنانے کے بجائے قرآن کی اپنی شناخت بھی مسخ کی گئی ہے اورتعریف کی بجائے تحریف کا ارتکاب کیا گیا ہے،اسی طرح طلاق کا بھی بلکہ اس سے زیادہ حال بگاڑ دیا گیا ہے۔
جناب کونسل کے پلیٹ فارم پر ریاست اور حکومت کے اہم اداروں کے اہم افراد سے مشاورت کرکے مقتدر اکابر علماء ومفتیان سے ایک کھلی میٹنگ رکھ لیں اور مجھے بھی حاضر ہونے کا حکم فرمائیں تو نہ صرف دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا بلکہ یہ اقدام قرآن وسنت کی طرف رجوع کیلئے ایک اہم سنگِ میل ثابت ہوگا۔ انشاء اللہ العزیز۔ آئین پاکستان قرآن وسنت کا پابند ہے مگر مولوی طبقہ میں بذاتِ خود قرآن وسنت کی کوئی صلاحیت نہیں ہے۔ اسلامی سکالروں کا بھی علماء ومفتیان سے بھی برا حال ہے۔ قرآن جس دور میں نازل ہوا تھا اور سنت جس نبیﷺ کے قول وعمل کا نام ہے ، اس وقت کوئی مدرسہ، جامعہ، سکول ، کالج اور یونیورسٹی نہیں تھی۔مدارس کے جامعات نام رکھنے والوں کو یہ پتہ بھی نہیں کہ جامعات میں پی ایچ ڈی :ڈاکٹرکی ڈگری ہوتی ہے۔ جس میں پی ایچ ڈی نہیں ہوسکتا ہو ،اس کو جامعہ کا نام دینا بھی ایک فراڈ یا جہالت کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اگر قرآنی آیات کا سلیس ودرست ترجمہ کرکے مسائل کے حل کیلئے اس کوپہلی بنیاد قرار دیا جاتا تو مسلکانہ تعصبات، فرقہ وارانہ بے راہ روی اور معاشرتی عدمِ توازن کی ساری بنیادیں ڈھ سکتی تھیں۔ غلط نصابِ تعلیم نے قوم کو اس نہج تک پہنچادیا ہے کہ ایک ہی درسِ نظامی پڑھنے والے بریلوی دیوبندی علماء ومفتیان اپنے اندر زمین وآسمان کا فرق محسوس کرتے ہیں۔ سخت ترین منافرت کے ساخت وپرداخت سے اکثریت نہیں نکل پارہی ہے۔پاکستان میں دیوبندی طالبان کو قتل ودہشت گردی کا موقع مل گیا تو بریلوی مکتبۂ فکر والوں کو مشرک سمجھ کر قتل کیا گیا، مینگورہ سوات میں ایک مذہبی شخصیت کو قتل کیا گیا اور اس کی لاش قبر سے نکال کر 3 دنوں تک چوک پر لٹکائی گئی۔ حالانکہ اس وقت پختونخواہ میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت تھی جس میں بریلوی مکتبۂ فکر کی نمائندہ جماعت مولانا شاہ احمد نورانی کی جمعیت علماء پاکستان بھی شامل تھی۔ حالیہ احتجاج میں بھی تبلیغی جماعت کے کارکنوں کو قتل کیا گیا۔ اگر بریلوی شدت پسندوں کے ہاتھ میں طاقت آئی تو گستاخانِ رسول کے نام پر دیوبندیوں کو قتل کردیا جائیگا۔ دیوبندی بریلوی کے علاوہ شیعہ سنی اور حنفی اہلحدیث کی ایکدوسرے سے بدترین منافرت بھی کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل میں تمام مکاتبِ فکر کے علماء کرام اور دانشور شامل ہیں۔ مولانا محمد خان شیرانی نے اپنا موقع کھودیا۔ اب ایک موقع اللہ تعالیٰ نے قبلہ صاحب آپ کودیدیا ہے۔مدارس کے علماء ومفتیان کا آج خود بھی درسِ نظامی پر کوئی اعتماد نہیں رہاہے اسلئے کہ10سال تک تسلسل کیساتھ ماہنامہ ضرب حق کراچی کی موجیں اس کی بنیادوں سے ٹکرارہی تھیں اور پھر کئی تصانیف خصوصاً ’’جوہری دھماکہ‘‘ اور ’’ آتش فشان‘‘ نے سب کو ہلاڈالا تھا۔ جس کی پاداش میں ایک مرتبہ مجھ پر اندھا دھند فائرنگ اور دوسری مرتبہ میرے گھر پر لشکر کشی بھی کی گئی لیکن اللہ تعالیٰ نے میری جان محفوظ رکھی۔ پھر8سال تک گوشہ نشینی کی زندگی میں تحقیق کا سلسلہ جاری رکھا پھر ’’ابررحمت‘‘ ودیگر تصانیف کے علاوہ ماہنامہ نوشتہ دیوار کراچی کے منظر عام پر لانے کے بعد بڑے پیمانے پر تبدیلی نظر آرہی ہے۔ اگر جناب نے حق کی آواز کو اٹھانے میں ہماری مدد فرمائی تو پاکستان میں واقعی تبدیلی دیکھنے کو ملے گی۔
از طرف :سید عتیق الرحمن گیلانی چیف ایڈیٹر ماہنامہ نوشتۂ دیوار کراچی وبانی ادارہ اعلاء کلمۃ الحق پاکستان

کروڑ نوکریاں اور 50لاکھ گھر کا کہا مگر رانگ وے پر یوٹرن سے لوگوں کچلا. قدوس بلوچ

امیرادارہ اعلاء کلمۃ الحق عبدالقدوس بلوچ نے کہا کہ لوگ قانون کی پاسداری کرکے یوٹرن لیکر اپنی سمت پر چلتے ہیں مگر وزیراعظم عمران خان یوٹرن رانگ وے پر لیتاہے۔ کروڑ نوکریاں اور50 لاکھ گھر کا کہا مگر رانگ وے پر یوٹرن سے لوگوں کو بیروز گار و بے گھر کرکے کچلا گیا ہے۔ برطانیہ کی خواہش پر ایمپریس مارکیٹ کی لیز شدہ مارکیٹوں کو گرایا ؟۔ پاکستان بھرکی غیرقانونی بلڈنگوں کو مسمار کرو اور آغاز بنی گالہ عمران خان کی رہائشگاہ ہو۔ عوام کو پہلے روز گارو متبادل جگہ دی جائے۔کسی کے بچے یہودی پالتے ہیں اور نہ خرچہ بیگم اٹھاتی ہے ،کرپٹ دوست وسیاستدان اور نہ چندہ سے خاندان پالتا ہے۔ملا کہتا کہ کعبہ کی طرف پیشاب پر بیوی طلاق ہے، ملا نے خود کیا تو کہاکہ میں نے رُخ موڑا۔ علیمہ خان کی دوبئی رقم پر جرمانہ کافی نہیں، حکومتی رقم سے زیادہ چندہ کھانے پر سزادی جائے۔ حسن نثار کے حسن فروش خاندان پر کتاب لکھی گئی، ذوالفقارعلی بھٹو کی داشتہ اسکی پھوپھی تھی۔ پرویز خٹک کی کہانی ہے مگر دوسروں کو گالی دینے والا اپنا گریبان نہیں دیکھتا۔ ان سیاستدانوں صحافیوں اور جرنیلوں کو سزا دو، جولاقانونیت کے حامی تھے، صرف مہروں کا قصور نہیں ۔ بدامنی، قتل وغارتگری، فتنہ و فساد،تفریق وانتشار میں ملوث مجرم عناصر کو بے نقاب کرو لیکن مسلمانوں کی غلطی پر اسلام ، جرنیل کی غلطی پر پاک فوج ، سرکاری اداروں کی غلطی پر پاکستان کو گالی مت دو۔ پاکستان کو اسلام کا حقیقی قلعہ بنانے سے ہی انقلاب آئیگا۔

ڈونلڈ ٹرمپ حقیقی امریکی لیکن دجالی کردار بالکل واضح

امریکہ نے ہر دور میں منافقت، چالبازی، ڈکٹیٹر شپ ، دوغلہ پن اور دجال کا کردار ادا کیا۔ اسرائیل کو اپنا ازلی دشمن سمجھنے والے عرب اور پاکستان نے بھی اسرائیل کے سرپرست بلکہ گماشتہ امریکہ کو سرپرست بنایا۔ جہادِ افغان کے وقت سوشلسٹ شعراء ، ادیب ، دانشور، اور سیاستدان اسرائیل کیخلاف جہاد کا روتے روتے ذکر کرکے مرگئے لیکن کسی نے ان کی نہیں سنی۔ امریکی صدر اور جرنیلوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بہادری کا مظاہرہ کرنیوالا گلبدین حکمتیار نے حکمتِ عملی کو تبدیل کرکے شاید پھر افغانستان میں بہادری کے جوہر دکھائے مگر وہ کل بھی امریکہ کیساتھ تھا اور آج بھی ہے۔ اب سوشلسٹ لیڈر حبیب جالب، فیض وغیرہ بھی آج کے ہیرو بن گئے ، جوکل کے زیرو تھے اورآج گلبدین زیرو ہے۔
امریکہ نے بار بار ایران وسعودیہ کو ڈبونے اور بچانے کا ڈرامہ رچاکر مقاصد حاصل کئے، پاکستان کیساتھ یہی کرتا ہے، منافقت کا ہار گلے میں ڈالنے کی دہائی دیتا ہے پھر ہمارے خلوص، وفاداری، بہادری کا جواب سن کرچپکے سے مسکراکر اطمینان کی سانس لیتا ہے کہ ابھی تک وفا برقرار ہے۔ کوئی یہ جسارت نہیں کرتا کہ ہم پر الزام لگاتے ہو، افغانستان میں حامد کرزئی امریکہ کو دہشتگردی کامنبع کہتا ہے اوراسامہ بن لادن کا پتہ نہیں کہ دوشیزہ کا لباس پہن کرٹیرن سیتا وائٹ کیساتھ امریکی ہوٹلوں میں گھوم رہا ہواور اسرائیلی طیارے میں یہاں ملکر بھی گیا ہو۔
یہ نہیں کہ فوج میں کوئی دانشور نہیں، سب زید حامد ہیں۔ فیض بھی فوجی تھامگر عسکری طبع دانشمندی کے تقاضے سے عاری ہے اسلئے سیاسی قیادت انکے ہاتھوں میں نہیں دی جاتی اوریہی حال صوفیوں کا ہے اسلئے خضر کو ویرانے کی عادت تھی۔ صحابہؓ کے صوفی ابوذر غفاریؓ تھے۔ ابوذرؓ نے نبیﷺ سے عرض کیا کہ مجھے حاکم بنادیجئے۔ نبیﷺ نے فرمایا: ’’ جو اقتدار مانگے اسے ہم نہیں دیتے‘‘۔ حالانکہ حضرت یوسف ؑ جیسی اہلیت والے کو آپﷺ اقتدار دیتے۔ ابوذر غفاریؓ نے ویرانے میں ہی آخری زندگی گزار دی۔ خالد بن ولیدؓ بہترین سپاہ سالار تھے لیکن حضرت عمرؓ نے ان کو عہدے سے اس انداز میں برطرف کیا کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ خالد بن ولیدؓ جمعہ کے دن خطبہ کیلئے منبر پر چڑھ گئے تو حضرت عمرؓ کے نمائندے نے طے شدہ پروگرام کے تحت اٹھ کر پوچھا کہ شاعر کو آپ نے انعام جیب یا حکومت کے فنڈز سے دیا؟، دونوں صورتوں میں آپ برطرف ہیں۔ اگر حکومت کا فنڈز استعمال کیا تو تم کون ہودینے والے؟ اگر جیب سے دیا تو فضول خرچی کی بنیاد پر اس قابل نہیں ہو کہ مزید اقتدار کی کرسی پر بیٹھ سکو۔ خالد بن ولیدؓ نے بلا چوں چرا حکم کی تعمیل کی، منبر سے اترکر عام سپاہی بنکے لڑنے کوترجیح دی۔ ہماری فوج کا یہ شعار تھا کہ جونئیر کو آرمی چیف بنایا جاتا تو سینئر استعفیٰ دیتا۔ پہلی مرتبہ ایک جنرل نے سینئر ہونے کے باوجودجوائنٹ چیف کا عہدہ اسلئے قبول نہ کیا کہ خالد بن ولیدؓ کی روایت کو دھراناتھا بلکہ انکے دو بھائی بڑے فوجی افسر تھے ہمارا نظام منافقانہ ہے۔ بری، بحری اور فضائیہ کے مشترکہ چیف کو ہی طاقت کامنبع ہونا چاہیے تھامگر ہمارے ہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا نظام ہے۔ وزیراعظم کی بجائے صدرکی طاقت زیادہ ہونی چاہیے تھی مگر اس قوم کااپنا کوئی دماغ نہیں، انقلابی اقدام کیلئے آرمی چیف کی جگہ جوائنٹ چیف اور وزیراعظم کی جگہ صدر کے اختیارات میں اضافہ کرنا ہوگا۔ وزیراعظم ایک وزیر اور صدراصل امیر ہوتاہے۔
سوشل میڈیا پر خبر ہے کہ سینیٹر علامہ ساجد میرنے کہا کہ جنرل جاوید قمر باجوہ قادیانی ہے تو علامہ زاہدالراشدی نے کہا کہ آرمی چیف ہمارا پڑوسی ہے ۔ پورا خاندان قادیانی نہیں، یہ جھوٹا پروپیگنڈہ ہے ۔ پھر تحریک لبیک کے رہنما پیر افضل قادری نے علامہ خادم حسین رضوی کی موجودگی میں جنرل قمر جاوید باجوہ کو کافر کہا تو اوریا مقبول جان نے کہا کہ میرے پڑوسی پیر افضل قادری نے غلط بہتان لگایا، میں قیامت کے دن گواہی نہ دینے کے جرم سے بچنے کیلئے حقیقت بتارہا ہوں۔ جب جنرل باجوہ کیلئے آرمی چیف کا کوئی چانس نہ تھا تب کراچی کے پروفیسر نے خواب دیکھا کہ حضور ﷺ نے جنرل باجوہ کو ایک تحفہ دیا،یہ تحفہ جنرل باجوہ بائیں ہاتھ سے لینا چاہ رہا تھا مگرمیں نے کہا کہ بائیں نہیں دائیں ہاتھ سے لو۔ پھر وہ شخص جنرل باجوہ کے پاس آیا توشکل سے پہچان لیا۔ جنرل باجوہ کو اس کی تعبیر یہ بتادی کہ آرمی چیف بنوگے۔ انکا جواب تھا کہ یہ ممکن نہیں، مجھ سے کافی سینئر ہیں، جنکا اثر رسوخ اور صلاحیت بھی زیادہ ہے لیکن پھر اس خواب کی تعبیر پوری ہوگئی۔
یہ خواب سچا ہوتو اللہ کرے کہ جنرل باجوہ بائیں ہاتھ سے جو تحفہ لے رہا تھا وہ اب دائیں ہاتھ سے لے۔ طالبان کے مقابلے میں صوفی ازم کے حامیوں علامہ خادم حسین رضوی اوربشریٰ مانیکا کے چیلے عمران خان کو پاکپتن کے مزار پر یوٹرن کی عظیم تقریب کے بعد وزیراعظم کی کرسی پر براجمان کرنے کی حرکت تحفہ بائیں ہاتھ سے لینے کے مترادف تھا۔ساجد میر کے قائد نوازشریف نے جنرل باجوہ کو اسی لئے آرمی چیف بنایا ہوگا کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ نوید مختار اسکے رشتہ دار تھے اور آئی ایس آئی ذرائع نے بتایا ہوگا کہ جنرل باجوہ پرقادیانی کا داغ تھا ۔ پہلے فوج پر قادیانیوں کا اثر ورسوخ تھا اور جو قادیانی نہ تھے تو بھی خود کو احمدی بنا کر نااہل ہونے کے باجود بھرتی ہوتے ۔ اللہ کرے کہ جنرل باجوہ سیدھے ہاتھ سے فرقہ واریت ، ملک دشمنوں اور نااہل سیاستدانوں کو سہارا دینے کے بجائے خاتمہ کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ ساجد میر کو بتاناچاہیے کہ نوازشریف نے جنرل باجوہ کو خوش کرنے کیلئے ہی ختم نبوت کیخلاف حرکت کی تھی جوبہت مہنگی پڑ گئی۔
داؤد علیہ السلام کے دور میں اوریا مجاہد تھا جسکی بیگم بادشاہ داؤد ؑ لیتے توبھی وہ حق کی آواز نہ اٹھاتا مگر اللہ نے ’’میرے پاس ایک دنبی ہے اور اسکے پاس 99 دنبیاں ہیں‘‘ کی بات سے وہ بچالی، ورنہ مجاہد وفاداری کا ثبوت دیتا تو اوریا جیسے بیوروکریٹ تائید کرتے۔ حق کی گواہی پرجن مشکلات کاسامنا ہوتاہے انکا اوریا مقبول جان نے کبھی خواب تک بھی نہ دیکھا۔ایسے خواب تو بریلوی دیوبندی اور قادیانی بھی دیکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں؟۔ گیارہویں خلیفہ کا دعویدار خواب سے پھر کیوں پکڑا؟۔ یوسف رضاگیلانی اور سلمان تاثیر کے بیٹوں کے علاوہ کتنے اغوا ہوکر افغانستان پہنچے مگر اس کو لسانی تعصبات کا نام دینا درست نہیں۔ منظور پشتین کا دادا بھی کشمیر کا مجاہد تھا اور کشمیرکے ایک مجاہد سے قیادت کرنیوالے پیر آف وانا نے اپنی مقبوضہ بیوی چھین لی تھی۔ نہیں پتہ کہ وہ منظور پشتین کے دادا تھے یا اس کا کوئی اور ہم قبیلہ۔ فوج، پیر وں اور مجاہدین کو تثلیث سے نکل کر حقائق کی طرف آنا ہوگا۔ جس دن علماء نے اپنا کردار درست کیا تو سب کچھ درست ہوجائیگا ورنہ کھلاڑی اور شکاری بھیس بدل بدل کرآئیں گے ۔عوام کو بے روزگار، بے گھر کیاجارہاہے ۔پانی کیلئے ترسایا جارہاہے جسکا حل ضروری ہے۔اسلام تمام قسم کے معاشی ، معاشرتی اور سیاسی مسائل کا حل ہے۔ اسلام کے خول میں رہ کر اپنے بنیادی مسائل حل کرنے ہونگے اور پاکستان کے خول میں رہ کر ملکی و بین الاقوامی مسائل کے حل کیلئے سرکاری اور سماجی سطح پر عمدگی سے چلنا ہوگا۔ سیدعتیق گیلانی