پوسٹ تلاش کریں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں

یا ایھا الذین امنوا لاتقربوا الصلوٰة وانتم سکریٰ حتی تعلموا ماتقولوں ولاجنباً الا عابری السبیل حتی تغتسلوا ”اے ایمان والو! نماز کے قریب مت جاؤ، جب تم نشے میں ہو، یہاں تک کہ تم سمجھو جو تم کہہ رہے ہو۔اور نہ حالت جنابت میں مگر کوئی مسافر یہاں تک کہ تم نہالو”(سورہ النساء آیت43)فرض پڑھنے اور نہ پڑھنے کی اس میں گنجائش ہے

النساء کی آیت43میں دو حالت میں نماز کے قریب نہیں جانے کا حکم دیا گیا ہے۔
نمبر1:جب بندہ نشے کی حالت میں ہو۔ نشے کی حالت ختم ہوجائے اور جب جو بول رہاہے وہ سمجھ میں بھی آرہا ہو۔
نمبر2:جب بندہ جنابت کی حالت میں ہومگر مسافر کیلئے اجازت ہویہاں تک کہ بندہ نہالے تو پھر نماز پڑھ سکتا ہے۔
مولانا ادریس نے کہا کہ جس طرح کی تروایح تم پڑھتے ہوجس میں تیز رفتاری سے اُوٹ پٹانگ کرتے ہو،اس کی وجہ سے تمہیں ثواب نہیں مل رہاہے بلکہ گناہگار بنتے ہو۔ انسان اللہ کے سامنے اس طرح نماز پڑھے جیسے بہت لوگوں کی عادت ہے تو مولانا ادریس کی بات کو کسی نے بھی برا نہیں سمجھا ہے۔
مفتی منیر شاکر کی باتوں کو ادھورا نقل کرکے کلپ بنایا ہے اور ان سے بعض لوگوں کو شدید اختلاف اور نفرت ہے اسلئے وہ ایسا کررہے ہیں لیکن بات پوری سنی اور سمجھی جائے تو اچھا ہوگا۔
مفتی منیر شاکر سے اختلاف کا حق ہے اس نے کہا کہ تراویح فرض واجب نہیں نفل ہیں تو اس پر طوفان کھڑا کیا گیا ۔
جہاں تک مفتی منیر شاکر کے مخالفین کا تعلق ہے تو ان کی حیثیت ایسی ہے جو شاہ ولی اللہ کے مخالفین کی تھی ایک طرف وہ ملاجیون کی کتاب” نورالانوار” میں پڑھتے اور پڑھاتے تھے کہ ”امام ابوحنیفہ کے نزدیک فارسی میں نماز پڑھنا عربی سے بہتر ہے اسلئے کہ عربی میں الفاظ کی سجاوٹ انسان اور خدا میں حجاب بنتا ہے ” اور دوسری طرف جب شاہ ولی اللہ نے قرآن کا فارسی میں ترجمہ کیا تو انہوں نے واجب القتل قرار دے دیا۔
مولانا مناظر احسن گیلانی اور بہت سے لوگ احادیث کی مخالفت کے بعد راہِ حق پر آئے ہیں ۔ مفتی منیر شاکر دلیر ہے جو بات سمجھ میں آتی ہے اس میں کسی کی ملامت کی پرواہ نہیں کرتا ۔ یہی بڑی خوبی ہے۔ مخالفین بات کو سمجھنے سے معذورلگتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب نشے کی حالت میں نماز کے قریب جانے سے منع کیا گیا یہاں تک کہ سمجھو جو کہہ رہے ہو۔ تو کیا لوگ نماز جو پڑھتے ہیں تو وہ نشے کے بغیر بھی سمجھ رہے ہیں یا نہیں؟۔ نماز تروایح تو بہت دور کی بات ہے فرض نماز پر مولانا ادریس کہتے کہ گناہگار ہوتے ہو تو بھی قابل فہم بات تھی۔
حضرت عمر نے سفر سے واپسی پر اللہ کے رسول ۖ سے عرض کیا کہ مجھے پانی نہیں مل رہاتھا اور تیمم سے میرا دل نہیں مانتا تھا اسلئے میں نے نماز پڑھنا چھوڑ دی تھی۔ نبی ۖ نے فرمایا: آپ نے بہت اچھا کیا کہ نماز نہیں پڑھی۔ حضرت عمر نے فرض نماز پڑھنا اسلئے چھوڑ دی کہ جنابت کی حالت سے اگرچہ نکلتے لیکن اللہ کے دربار میں حاضری کے بھی اپنے آداب ہیں۔ جو سمجھ لئے جائیں تو حضرت عمر پر کوئی اعتراض نہیں کرسکتا ہے۔
حضرت عمار نے سفر سے واپسی پر عرض کیا کہ یارسول اللہ میں نے جنابت کی وجہ سے تیمم کیلئے مٹی میں لوٹ پوٹ ہوکر نماز پڑھ لی تو نبیۖ نے فرمایا کہ بہت اچھا کیا لیکن پورے جسم کے لوٹ پوٹ ہونے کی ضرورت نہیں ہاتھ منہ کافی ہے۔
شیعہ حسن الہ یاری نے ان احادیث کی وجہ سے حضرت عمر پر کفر کا فتویٰ لگایا ہے کہ قرآن میں واضح تیمم کا حکم ہے اوروہ تیمم سے نماز نہیں پڑھتے تھے۔ حالانکہ قرآن میں تیمم سے نماز پڑھنے کا حکم نہیں بلکہ اجازت ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ” نماز کے قریب مت جاؤ”۔ پھر مسافر کو اجازت دی ہے ۔ عبداللہ بن مسعود اور ابوموسیٰ اشعری کے درمیان تیمم سے نماز پڑھنے اور چھوڑنے پر مناظرہ ہے۔ حالانکہ وہ فرض نماز کا مسئلہ تھا اور اب تراویح پر اتنا اودھم مچاکر جہالت کا ثبوت دیا جارہاہے۔
فقہ کی کتابوں میں مالابدمنہ، قدوری، کنز، شرح الوقایہ اور ہدایہ درس نظامی میں رائج ہیں۔ فقہاء کے7طبقات پہلا طبقہ مجتہد مطلق، دوسرا مجتہد فی المذہب، تیسرا مجتہد فی المسائل،چوتھا اصحاب التخریج ، پانچواں اصحاب الترجیح، چھٹا اصحاب التمیز اور ساتواں مقلد محض ”امام ابوحنیفہ اور باقی تین امام پہلے طبقے میں ہیں۔ دوسرے طبقے میں امام ابوحنیفہ کے تمام شاگرد امام ابویوسف، امام محمد، عبداللہ بن مبارک وغیرہ۔ تیسرے طبقے میں احمد خصاف،امام طحاوی،کرخی،شمس الائمہ حلوانی،سرخسی، بزدوی،قاضی خان۔
چوتھے طبقے میں کرخی،ابوبکرجصاص رازی، ۔ پانچویں طبقے میںامام قدوری ، صاحب ہدایہ ۔ چھٹے طبقے میںصاحب کنز الدقائق، صاحب وقایہ۔صاحب در مختار۔ساتواں طبقہ اندھوں میں کوئی ایک بھی کانا راجہ نہیں ہے۔ پہلے تین طبقات کو مجتہدین اور اسکے بعد کی تین طبقات کو مقلدین کہا جاتا ہے۔
امام ابوحنیفہکے شاگردوں میں امام ابویوسف اور عبداللہ بن مبارک میں جتنے اختلافات کی شدت تھی اس کے مقابلے میں مفتی منیر شاکر اور دوسرے علماء میں کچھ بھی نہیں ہے۔
قدوری میں نمازکی سنتیں ”نوافل” ہیں۔ تو تراویح نماز کا درجہ بھی نوافل کا ہے ۔ نوافل پر ثواب اور نہ پڑھنے پر پکڑ نہیں ۔ حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نوافل کے ذریعے بندہ میرے اتنے قریب بن جاتا ہے کہ میں اس کی آنکھیں بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتاہے، اس کی زبان بن جاتا ہوں جس سے وہ بولتا ہے ،اس کے کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے۔ اس کے پیر بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے”۔ اللہ نے فرمایا : اقم الصلوٰة لدلوق الشمس الی غسق اللیل وقرآن الفجر ان قران الفجر کان مشہوداو من اللیل فتھجد بہ نافلة لک عسٰی ان یبعثک مقاماً محموداً” اے نبی ! نماز قائم کر، سورج ڈھلنے سے رات کی تاریکی تک اور فجر کا قرآن ، بیشک فجر کے قرآن کی گواہی دی جاچکی ہے اور رات میں تمہارے لئے تہجد نفل ہے ہوسکتا ہے کہ آپ کو مقام محمود سے نوازا جائے ”۔
غزوہ بدر میں نبی ۖ نے پتھر کے کنکر ہاتھ سے پھینک دئیے ،اللہ نے فرمایا ”یہ آپ نے نہیں پھینکے بلکہ اللہ نے پھینکے ہیں”۔جب نبی ۖ نے صلح حدیبیہ سے پہلے حضرت عثمان کی شہادت پر بیعت لی تو اللہ نے فرمایا”اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر تھا”۔ شہادت عثمان کے بعد حضرت عائشہ نے جب قصاص کیلئے حضرت علی سے جنگ کی تو حضرت ابوبکرہ نے کہا کہ میرا دل تھا کہ حضرت عائشہ کے لشکر میں شامل ہوجاؤں مگر پھر مجھے حدیث یاد آگئی کہ جب ایران کے بادشاہ کے فوت ہونے پر اس کی بیٹی بادشاہ بن گئی کہ ”وہ قوم فلاح نہیں پاسکتی ہے جس کی قیادت عورت کررہی ہو” اسلئے ان کا ساتھ دینے سے رک گیا۔
جب حضرت عمر کے دور میں مغیرہ ابن شعبہ کے خلاف 4افراد گواہی کیلئے آئے تو ابوبکرہواحد صحابی تھے باقی3صحابہ نہ تھے۔ پہلے نے گواہی دی تو عمر پریشان ہوگئے، دوسرے نے گواہی دی تو عمر کی پریشانی حد سے بڑھ گئی ، تیسرے نے گواہی دی تو عمر کی پریشانی کی انتہاء نہ رہی۔ چوتھا زیاد گواہی کیلئے آیا تو عمر نے کہا کہ اللہ اس کے ذریعے نبی کے صحابی کو اس ذلت سے بچائے گا اور پھر زور کی دھاڑ ماری کہ تیرے پاس کیا ہے؟۔ یہ اتنی زور کی دھاڑ تھی کہ راوی نے کہا کہ قریب تھا کہ میں بیہوش ہوجاتا۔ پھر زیاد نے کہا کہ میں نے اور کچھ نہیں دیکھا، یہ دیکھا کہ عورت ام جمیل کے پاؤں مغیرہ کے کاندھوں پر گدھے کے کانوں کی طرح پڑے تھے ،ایک سرین نظر آرہی تھی،یہ ٹھندی ٹھندی سانس لے رہے تھے۔ جس پر حضرت عمر نے کہا کہ اب گواہی مکمل نہیں ہوئی۔3گواہ کو حد قذف80،80کوڑے لگادئیے۔ پھر پیشکش کی کہ جو گواہ یہ کہے گا کہ اس نے جھوٹی گواہی دی تو آئندہ اسکی گواہی قبول کی جائیگی۔ حضرت ابوبکرہ نے اس پیشکش کو ٹھکرادیا اور باقی دو نے کہا کہ ہم نے جھوٹ بولا تھا۔
اہل سنت کے جمہور فقہاء مالکی ، شافعی ، حنبلی کے نزدیک یہ حضرت عمر کی پیشکش تھی اسلئے درست تھی ۔ اگر کوئی جھوٹی گواہی کے بعد توبہ کرے گا تو اس کی آئندہ گواہی قبول کی جائے گی۔ حنفیوں کے نزدیک قرآن میں واضح ہے کہ جس نے جھوٹ کی گواہی دی تو اس کی گواہی کبھی قبول نہیں ہوگی اسلئے حضرت عمر کی یہ پیشکش قرآن کی واضح آیت کے خلاف تھی۔
قارئین ! سمجھ سکتے ہیں کہ واقعہ کیا ہے؟۔اور اس پر فقہاء کے اختلافات کیا ہیں؟۔ اصل بات تو یہی تھی کہ حضرت عمر کی پیشکش بالکل بے بنیاد تھی اور مغیرہ کو بچانے میں عجیب کردار ادا کیا۔ گواہوں پر حد قذف لگانا بھی بالکل درست نہیں تھا۔لیکن اس کی بنیاد پر فقہی مسائل کی تشکیل اس سے زیادہ بھونڈہ تھا۔
اصل مسئلہ یہ تھا کہ جب عمر کے دور میں خوشحالی کی ہوائیں چل گئیں تو لوگوں میں عیاشیوں کی کیفیت پیدا ہوگئی۔ ایک طرف حضرت عمر نے متعہ پر پابندی لگادی اور دوسری طرف یہ کہنا شروع کردیا کہ ”جس کے بارے میں پتہ چلے گا کہ اس نے بدکاری کی ہے تو اس کو سنگسار کردوں گا۔ اگر مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ لوگ کہیں گے کہ عمر نے قرآن میں اضافہ کیا تو میں یہ حکم قرآن میں درج کردیتا”۔ قرآن میں سنگساری کا حکم نہ تھا اور قرآن میں زانی مرد اور عورت کیلئے100،100کوڑے کی سزا تھی۔ احادیث گھڑی گئی ہیں کہ” سنگسار کرنے و بڑے آدمی کا دودھ پینے سے رضاعت ثابت ہوتی ہے اور ان آیات کو نبی ۖ کی وفات کے وقت بکری نے کھاکر ضائع کیا”۔
جب حضرت عمر پر امتحان پڑگیا تو اپنے بیٹے کو کوڑوں سے بھی مروا ڈالا۔ لیکن مغیرہ کیلئے زمین وآسمان کی قلابیں ملاکر اس کو بچایا۔ اچھا ہوا کہ جو حضرت عمر ایک غلط مشن کے علمبردار تھے کہ اس کے اپنے ہاتھوں سے اس کی تابوت میں آخری کیل بھی خود ٹھوک دی تھی۔ حضرت علی نے فرمایا تھا کہ ”اگر مجھے اقتدار مل گیا تو مسلمانوں کیلئے قرآن اور باقی مذاہب کیلئے ان کی اپنی کتابوں کے مطابق فیصلہ کروںگا”۔ اچھا ہوا کہ حضرت علی اس اقتدار تک نہیں پہنچ سکے اسلئے کہ قرآن میں اللہ نے نبیۖ کو حکم دیا ہے کہ ”اگر اہل کتاب قرآن کے مطابق فیصلہ کرانے پر راضی ہوں تو فیصلہ کردیں اوروہ اپنی کتاب کے مطابق فیصلہ کرانا چاہتے ہوں تو نہ کریں وہ آپ کو فتنہ میں ڈالیں گے”۔
ایک ریاست دو دستور نامنظور نامنظور کی بات غلط ہے ۔ پاکستان میں سپریم کورٹ بھی ہے اور شریعت کورٹ بھی ہے۔ اسلامی خلافت قائم ہوگی تو مسلمان کو بدکاری پر100کوڑے لگائیں جائیںگے اور یہود کو سنگسار نہیں کیا جائے گا بلکہ انکے حال پر چھوڑا جائے گا۔ البتہ ہماری کتاب ”قرآن” سے فیصلہ کرائیں گے تو100کوڑے لگائے جائیںگے۔ نبیۖ پر جب سورہ نور نازل نہیں ہوئی تھی تو یہود اور مسلمان دونوں پر وہ حکم جاری کیا جو تورات میں تھا ،جس طرح پہلے قبلہ القدس ہی کو بنایا تھا لیکن پھر قبلہ بھی تبدیل ہوا اور سورہ نور میں کوڑے کا حکم نازل ہوا تو کسی کو سنگسار یا جلاوطن کرنے کی سزا نہیں دی۔
قرآن میں بیوی کو قابل اعتراض حالت میں دیکھ کر قتل کا حکم نہیں بلکہ لعان کا حکم ہے۔ مسلمان غیرت سے اپنا فیصلہ اہل کتاب سے کرواسکتے تھے ۔اللہ نے فرمایا :”اے ایمان والو! اہل کتاب کو اپنے اولیاء مت بناؤ”۔ ولی سے مراد دوست نہیں بلکہ فیصلہ کرانے کیلئے اختیار سونپ دینا ہے۔ اہل کتاب سے نکاح ہوسکتا ہے تو اس سے بڑھ کر دوستی کیاہے؟۔
جب بنوامیہ، بنوعباس اور سلطنت عثمانیہ کی بادشاہت نے ڈیرے ڈال دئیے تھے تو مسلمانوں سے دین کی سمجھ چھن گئی۔ پھر فقہاء نے قرآن وسنت سے دوری کیلئے وہ کھلواڑ کیا جو مکڑی کے جالوں سے کمزور ہے لیکن کوئی ہمت نہیں رکھتا ہے۔
قرآن وسنت کا معاشرتی، معاشی اور سیاسی نظام بالکل ہی تباہ وبرباد کرکے رکھ دیاہے۔ لاکھوں کروڑوں حضرت خضر کی طرح اولیاء بن جائیں مگر انقلاب حضرت موسٰی نے لانا ہے۔ ریاست مدینہ معاشرتی اور معاشی نظام کی بنیاد پر ہی کامیاب ہوگئی تھی۔میثاق مدینہ میں مسلمانوں کیساتھ یہودونصاریٰ کے برابری کے حق تھے اور صلح حدیبیہ میں مشرکینِ مکہ کو بہت اضافی رعایت بھی دی گئی تھی۔ نبوت کے دعویدار ابن صائد کے خلاف کوئی اشتعال انگیزی نہیں کی گئی۔ منافقین کو جینے کا حق دیا گیا۔
ہمارا مذہبی طبقہ اسلام کے معاشرتی، معاشی، سیاسی نظام کو بالکل بھی نہیں سمجھتا ہے۔ تمام لوگ مفتی منیر شاکر کے ہمنوا ہوکر قرآن کے تراجم اور تفاسیر سے استفادہ کریں کوئی معمولی فرق بھی نہیں آئے گا۔ جب افغانستان پر امریکہ نے حملہ کیا تھا تو ہم نے کونسا تیر مارا؟۔ ڈھائی ہزار امریکی فوجی مرگئے ،زیادہ تر وہ بھی بیماری اور ناموافق آب وہوا سے اور4لاکھ افغانی شہید اور80ہزار پاکستانی موت کے گھاٹ اترگئے۔ پاکستان نے امریکہ کا ساتھ دیا اور عراق پر امریکہ نے حملہ کیا تو ایران نے امریکہ کا ساتھ دیا، حماس نے عسقلان پر حملہ کیا تو آج تک بھی غزہ کی پٹی اس کا خمیازہ بھگت رہی ہے۔ مصر، پاکستان، ایران، سعودی عرب اور اسلامی ممالک مل کر بھی حملہ کریںگے تو اس کا خمیازہ بھگت لیں گے۔ آج ہم فسلطین کیلئے روئیں گے تو کل دنیا عالم اسلام کیلئے احتجاج کرے گی لیکن جس طرح فلسطین کی مدد کوکوئی نہیں پہنچتا وہی حال ہمارا ہوگا ۔ جذبات سمجھ کیساتھ جوڑ نہیں کھاتے ہوں تو جہالت ہے۔جس دن ہمارا اپنا حال ٹھیک ہوگا اس دن دنیا میں خلافت کے قیام میں دیر نہیں لگے گی۔

(نوٹ: اس پوسٹ کے ساتھ عنوان ”پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟ ” کے تحت پوسٹ ضرور پڑھیں۔)

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ مارچ2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

 

پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟

پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟

یہ علم زوالِ علم وعرفاں کا شاخسانہ تھا کہ مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ نے ”نماز کی سنتوں کے بعد اجتماعی دعا کوبدعت قرار دیا”۔ جس پر دیوبندی ایکدوسرے پر فتوے لگانے شروع ہوگئے

غسل ، وضو اور نماز میں فرائض پر فقہی مسائل کے اختلافات قابل احترام تھے تو اسکے مقابلے میں سنت کے بعد اجتماعی دعا پر لڑنے سے زیادہ حماقت کا بازار گرم کرنا احمقوں کیلئے ممکن نہیں تھا

دیوبندی و بریلوی سے پہلے برصغیر پاک وہند میں شیخ احمد سرہندی المعروف مجددالف ثانی اورشیخ عبدالحق محدث دہلوی کے درمیان بھی اختلافات تھے۔ شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید نے جب شروع میں جوشِ علم کی کتابیں لکھ ڈالیں تو تقویة الایمان، بدعت کی حقیقت وغیرہ سے فضاء کو بہت گرم کردیا۔ شرک وبدعات کے خلاف قلم اٹھایا تو ایک نئی دنیا پیدا کرلی ۔ کچھ لوگوں نے ساتھ دیا اور کچھ ان کے مخالف بن گئے اور اس میں معتبر علماء کرام اور مشائخ عظام کے نام شامل تھے۔
سن1857کی جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھ دی گئی۔ مولانا قاسم نانوتویو مولانا رشیداحمد گنگوہی حاجی امداد اللہ مہاجر مکی سے بیعت تھے ۔شاہ اسماعیل شہید سے علماء دیوبند بڑی عقیدت رکھتے تھے۔ شاہ اسماعیل کی کتاب ”بدعت کی حقیقت ”کا اردو ترجمہ ہوا تو علامہ یوسف بنوری نے اس پر تائیدی تقریظ بھی لکھی ہے۔ شاہ اسماعیل شہید نے اپنی اس کتاب میں لکھ دیا ہے کہ ” تقلید چوتھی صدی ہجری کی بدعت ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ بہترین دور میراہے پھر جو لوگ اس سے ملے ہوئے ہیں اور پھر جو لوگ ان سے ملے ہوئے ہیں۔ پہلی صدی ہجری صحابہ ، دوسری تابعین اور تیسری تبع تابعین کی تھی۔ان تین ادوار میں جو مسائل بنائے گئے ان کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے اور اس کے بعد چوتھی صدی ہجری کے بعد بدعات ہیں۔تقلید کوبھی چوتھی صدی ہجری میں ہی ضروری قرار دیا گیا ہے”۔مولانا احمد رضا خان بریلوی نے اس بنیاد پر علماء دیوبند کے حرمین کے علماء سے فتویٰ حاصل کرلیا تھا اور اس کا نام ” حسام الحرمین ” یعنی حرمین کی تلوار رکھ دیا تھا۔
اس دور میں حجاز پر موجودہ وہابی حکومت نہیں تھی اور علامہ ابن تیمیہ اور عبدالوہاب نجدی سے حرمین اور حجاز کا مقتدر طبقہ بڑی نفرت کرتا تھا۔علامہ ابن تیمیہ نے اپنی کتاب ” تقلیدکے مسالک کو مستقل فرقے قرار دیا تھا ” اور شاہ اسماعیل شہید نے بھی ان سے استفادہ کیا تھا۔ مولانا خلیل احمد سہارنپوری عربی میں لکھ سکتے تھے اسلئے انہوں نے علماء دیوبند کی طرف سے اس کا جواب کتاب المہند علی المفند ”ہند کی تلوار جھوٹے پر” لکھی اور اس پرعلماء دیوبند کے اکابر نے دستخط بھی کردئیے۔
اس کتاب میں محمد بن عبدالوہاب نجدی کے عقائد سے بری ہونے کا کھل کر اعلان کیا گیا لیکن اس کے بعد موجودہ سعودی عرب کے وہابی حکمرانوں کا اقتدارسامنے آگیا، انہوں نے کئی لوگوں کو مشرک قرار دے کر قتل کیا ۔ مزارات بھی ہموار کردئیے اور ترکی حکومت خلافت عثمانیہ سے معاہدہ کیا کہ ان کی تعمیرات کو نہیں چھیڑا جائے گا۔ گنبد خضراء رسول اللہ ۖ کا روضہ بڑی مشکل سے بچ گیا جس کو محمد بن عبدالوہاب صنم اکبر کہتا تھا۔
عمران خان کو پاک پتن میںبابا فریدکے مزار کی راہداری سے زیادہ گنبد خضریٰ کے مکین ۖ سے عقیدت ومحبت ہے مگر اس کو معلوم تھا کہ اگر بابا فرید کی راہداری پر جبین نیاز جھکانے کا گنبد خضریٰ کے مکین ۖ کی راہدای کی طرح کی عقیدت کا مظاہرہ کیا تو چوتڑ پر بڑے سخت ڈنڈے پڑیں گے۔اسلئے وہاں اس طرح کی حرکت کرنے سے گریز کیا۔ نبی ۖ نے دعا بھی مانگی تھی کہ ” اے اللہ ! میری قبر کو سجدہ گاہ نہیں بنا”۔ مولانا شاہ احمد نورانی سے یونیورسٹی کی ایک لڑکی نے پوچھ لیا کہ قبر کو چومنا، اس پر جھکنا اور سجدہ کرنا جائز ہے؟۔ مولانا نورانی نے یہ جواب دیاکہ میں سمجھ رہا تھا کہ مجھ سے کوئی سیاسی سوال ہوگا لیکن چلو یہ بتا دیتا ہوں کہ ”قبر کو چومنا، اس پر جھکنا اور سجدہ کرنا سب حرام و ناجائز ہے ۔ قبر پر فاتحہ پڑھنے کے علاوہ کچھ بھی جائز نہیں ہے۔
شاہ ولی اللہ نے لکھا کہ ” اللہ نے صحابہ کرام سے وعدہ کیا تھا اور عربی میں جمع کا اطلاق کم ازکم تین افراد پر ہوتا ہے۔ حضرت ابوبکر ، عمر اور عثمان سے خلافت کا وعدہ پورا ہوا۔ حضرت علی کے دور میں خلافت منتظمہ نہیں بن سکی اسلئے کہ فتنے کا دورتھا، بدامنی عروج پر تھی اور خلافت میں امن کا وعدہ ہے۔ خیرالقرون کے تین ادوار میں پہلا دورنبی ۖ کا تھا۔دوسرا ابوبکرو عمر کا تھا اور تیسرادور حضرت عثمان کا تھا”۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے لکھ دیا کہ شاہ ولی اللہ سے مجھے اختلاف ہے۔نبی ۖ و ابوبکر کا پہلا دور تھا اسلئے حضرت ابوبکر نے کوئی تبدیلی نہیں لائی۔ دوسرا دور حضرت عمر کا تھا جس میں بہت سی تبدیلیاں اور طبقاتی تقسیم کی بنیاد پڑ گئی۔ تیسرا دور حضرت عثمان کا دور تھا جس میں خاندانی حکومت کی جڑیں پڑگئیں۔ جس کی وجہ سے خلافت راشدہ پھر بنوامیہ کی امارت میں تبدیل ہوگئی۔ تفصیل کا موقع نہیں ہے۔
مولانا رشیداحمد گنگوہی شیعہ پر کفر کا فتویٰ لگاتے تھے ، مولانا قاسم نانوتوی نے شیعہ پر کفر کا فتویٰ نہیں لگایا۔ بنوری ٹاؤن اور دیوبند کے کافی مدارس نے شیعہ پر کفر کا فتویٰ لگایا اور مفتی محمد تقی عثمانی کے جامعہ دارالعلوم کراچی نے اس فتوے کو مسترد کردیا۔
جن علماء ومفتیان نے بڑے پیمانے پر شیعہ کو قادیانیوں سے تین وجوہات کی بنیاد پربدترکافر قرار دیا ۔1:قرآن کی تحریف کا عقیدہ ۔2:صحابہ کرام خاص طور پر حضرت ابوبکر کی صحابیت کا انکار۔3:عقیدہ امامت کی وجہ سے ختم نبوت کے منکر ہیں۔
جب متحدہ مجلس عمل بن گئی تو بنوری ٹاؤن کراچی سے ہمارا ایک پڑوسی مفتی شاہ فیصل برکی تعلیم حاصل کررہاتھا اور اس نے استفتاء کا جواب دیا تھا کہ ” شیعہ سے سنی کا اتحاد جائز ہے”، جس پر میں لکھ دیا تھا کہ ” شیعہ نے اپنے عقائد سے توبہ کرلی یا پھر ان پر الزامات غلط تھے یا انکے باوجود کفر کا فتویٰ نہیں لگتا ہے؟”۔
مفتی شاہ فیصل برکی نے میرے گھر پر تشریف لاکر کہا تھا کہ ”پیر صاحب ! جب ہم شیعہ پر کفر کا فتویٰ لگاتے ہیں تو آپ ہمیں نہیں چھوڑتے اور اب اتحاد کا فتویٰ دیا ہے تو بھی مخالفت کررہے ہیں؟”۔ میں نے کہا کہ اسلام کو بازیچہ اطفال بنادیا ہے کہ جب چاہو کسی کو کافر قرار دو اور جب چاہو اس کو مسلمان مان لواور وہ بھی اپنے مفادات کیلئے ؟”۔ یہی بات ایک مرتبہ مولانا محمد خان شیرانی کی موجودگی میں مولانا عبدالواسع سے کہی تھی۔ مسائل کا حل افہام وتفہیم سے نکلے گا فتوؤں سے نہیں۔
مفتی محمد ولی درویش کہتے تھے کہ ”پنج پیریت گمراہی کی پہلی سیڑھی ہے۔ دوسری سیڑھی مودودیت ہے۔ تیسری سیڑھی غیر مقلدیت ہے اور چوتھی سیڑھی لادینیت ہے”۔ جو لوگ دیوبند سے پنج پیری ، مودودی،غیرمقلد اور پھر احادیث کے منکر بنتے ہیں تو بظاہر لگتا یہی ہے کہ مفتی منیر شاکر نے غلام احمدپرویز کا مطالعہ کیاہے۔ علامہ تمنا عمادی بہت ماہر عالم دین تھے۔ مشرقی پاکستان کے ریڈیو سے ”درس قرآن” دیتے تھے۔ انہوں نے مشہور کتاب ” الطلاق مرتان ” لکھی ہے۔ دیوبند ی مشہور مکتب ”المیزان” نے بھی اس کو حال ہی میں شائع کردیا ہے۔
علامہ تمناعمادی نے بھی حنفی اصولوں کے مطابق احادیث کا انکار کرتے ہوئے ان کو عجمی سازش قرار دیا تھا لیکن پرویز نے پڑھے لکھے طبقے میں بہت پذیرائی حاصل کرلی ہے۔ مفتی منیر شاکر نے مجھ سے پوچھا کہ ”الطلاق مرتان ”پڑھی ہے تو میں نے کہا کہ ہاں پڑھی ہے لیکن ان کا مؤقف درست نہیں ہے۔ احادیث کے انکار کی ضرورت نہیں تھی اور آیت229البقرہ میں ”خلع” مراد بھی نہیں ہوسکتا ہے۔ علامہ تمنا عمادی کا موقف غلطی پر مبنی ہے۔ انشاء اللہ آئندہ تفصیلی بات چیت کروں گا۔
ہمارے بچپن میں جب ایک پنج پیری عالم مولانا شادا جان نے نماز کی سنت کے بعد اجتماعی دعا کو بدعت قرار دیا تو مولوی محمد زمان نے اس پر کفر اور قادیانیت کے فتوے لگادئیے۔ جبکہ ہماری مسجد کا امام مولانا اشرف خان دارالعلوم دیوبند کا فاضل تھا اور مولانا محمد الیاس بانی تبلیغی جماعت سے بھی ان کی ملاقات ہوئی تھی۔ اس نے خاموشی اختیار کرلی تھی لیکن خود سنت کے بعد اجتماعی دعا کا اہتمام کرتے تھے۔ میرے والد نے علماء کو بلواکر فیصلہ کرایا تو انہوں نے دعوت کھاکر فیصلہ ” فارسی ” میں سنادیا۔ مولوی محمد زمان کے ہاں سے ڈھول کی تھاپ پر جیتنے کا اعلان ہوا تو مولانا شاداجان کے حامیوں نے جیت کا ڈھول بجایا۔
سہراب گوٹھ جنت گل کی مسجد میںمولانا عبدالرزاق ژوبی نے امامت شروع کی تو چند دن کیلئے مجھے فریضہ سونپ دیااسلئے کہ بلوچستان جانا تھا اور خدشہ تھا کہ کوئی مسجد پر قبضہ نہ کرلے۔ میں نے سنت کے بعد اجتماعی دعا کا بتایا کہ دیوبند سے کتاب لکھی گئی ہے کہ یہ بدعت ہے اور افغانی علماء دیوبندی ہیں لیکن ان میں حق کہنے کی جرأت نہیں ہے تو وہ بڑے حیران ہوگئے۔
پنج پیری اور مفتی منیر شاکر اصل دیوبندیت کے دعویدار ہیں لیکن جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں پہلے ان کا داخلہ ممنوع تھا۔ مفتی نظام الدین شامزئی شہید پنج پیری تھے اور مفتی محمددرویش کو مولانا نورالہدیٰ نے جامعہ میں داخل کرایا تھا اور وہ بھی اصل میں بڑے پنج پیری ہی تھے۔ غلام احمد پرویز اور منکرین حدیث نے جو اعتراضات احادیث پر کئے ہیں تو اس سے زیادہ قرآن پر بھی ہوسکتے ہیں۔ حضرت خضر کا بچے کو قتل کر نا، حضرت عیسیٰ کا مردوں کو زندہ کرنا، بیماروں کو دم شفاء دینا اورمٹی سے پرندہ بنانا اسمیں پھونک مارنے سے روح آجانا وغیرہ، شاہ ولی اللہنے لکھا کہ صوفیا مشاہدہ حق تک پہنچے مگر علم درست نہیں ۔ علماء کا علم صحیح ہے لیکن مشاہدہ حق تک نہیں پہنچے ہیں۔ دن میں ستارے ہیں لیکن نظر نہیں آتے ہیں۔علم اور مشاہدہ حق میں یہ فرق ہے۔

(نوٹ: اس پوسٹ کے بعد عنوان ”نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں ” کے تحت پوسٹ ضرور پڑھیں۔)

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ مارچ2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

عورت مارچ کیلئے ایک تجویز

عورت مارچ کیلئے ایک تجویز

اسلام آباد عورت مارچ میں پریس کلب سے تھانہ کوہسار ہمیں پہنچادیا گیا۔رات گئے ہمیں رہا کردیا گیا۔ ہم لوگوں کی چاہت تھی کہ عورت کے حقوق اور مشکلات سے متعلق وہ ٹھوس شواہداوراس ان کا حل ان کے سامنے رکھیں تاکہ دنیا میں وطن اور اسلام کیساتھ ان خواتین کا نام بھی روشن ہو جو بہادری سے اپنی بہترین اسٹر گل جاری رکھی ہوئی ہیں۔ مذہب ٹھکرانے ہی سے دنیا نے عورت کو حقوق دئیے مگر اسلام انکا بہترمحافظ ہے۔
اللہ نے جو حقوق دئیے ہیں وہ مذہبی طبقات نے چھینے۔
حق مہر: قد علمنا ما فرضنافی ازواجھم ”تحقیق ہم جانتے ہیں جو ہم نے ان مردوں پرعورتوں کامہر فرض کیاہے”
مولوی پڑھاتا ہے کہ اللہ نے حق مہر فرض کیا ہے لیکن کتنا؟ یہ وہی جانتا ہے۔ مخلوق کو اس کا احساس تک نہیں دیا گیا ہے۔ کم ازکم حق مہر کا یہ ہے کہ جس امام کے ہاں چور کا ہاتھ جتنی رقم میںکٹتا ہے اتنی رقم حق مہر میں فرض کردی گئی ہے۔ مسلک حنفی میں10روپے پر ہاتھ کٹنا ہے۔ کسی امام کے ہاں چار آنے اور کسی کے ہاں ایک پیسہ پر ہاتھ کٹتا ہے تو اسکے نزدیک اتنی رقم کم ازکم عورت کے حق مہر میں فرض ہے۔ کیونکہ چور ایک عضوء ہاتھ سے جتنی رقم میں محروم ہوتا ہے اتنی رقم میں آدمی اپنی عورت کے ایک عضوء شرمگاہ کا مالک بن جاتا ہے۔
وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے صدر مولانا سلیم اللہ خان نے اپنی کتاب ”کشف الباری شرح صحیح بخاری” میں یہ تفصیلات درج کردی ہیں۔ عورت اپنی بڑی توہین محسوس کرتی ہے کہ مذہبی بہروپ میں اس کی عزت و تقد س کو کس طرح چور کے ہاتھ سے تشبیہ دے کر پامال کیا گیا ہے؟۔
جب حضرت عمر نے عورت کا حق مہر کم مقرر کردیا تو اس پر ایک عورت نے کہا کہ تم کون ہوتے ہو،ہمارا حق مہر مقرر کرنے والے جب اللہ نے کم مقرر نہیں کیا ہے؟۔ جس پر عمر نے غلطی کا اعتراف کرلیا اور عورت کو ٹھیک قرار دے دیا تھا۔
سوال یہ ہے کہ اللہ نے اپنے علم میں پوشیدہ رکھا ہے کہ کتنا حق مہر فرض ہے؟ جس کیلئے اندھے کو شبِ دیجور کی سوجھی؟۔
لا جناح علیکم ان طلقتم النساء مالم تمسوھن او تفرضوا لھن فریضة و متعوھن علی الموسع قدرہ و علی المقتر قدرہ متاعًا بالمعروف حقًا علی المحسنین ”کوئی حرج نہیں ہے کہ جب تم عورتوں کو ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دواور حق مہر مقرر نہ کیا ہو تومالدار پر اس کی وسعت کے مطابق اور فقیر پر اس کی وسعت کے مطابق معروف طریقے سے مال ومتاع ہے اچھے لوگوں پر حق ہے”۔
اس آیت میں بات بالکل واضح ہے کہ حق مہر کا تعلق مرد کی وسعت سے ہے۔ ایک کروڑ پتی پر کتنا ہونا چاہیے اور ایک فقیر بے نوا پر کتنا ہونا چاہیے ؟اس کا حکم معاشرے میں معلوم ہے۔
عرب اور پشتون تو حق مہر نہیں رکھتے بلکہ بیچ دیتے ہیں اور پنجاب وہندوستان میں مرد جہیز کا بھی خود کو حقدار سمجھتا ہے اور اسکے نتیجے میں اللہ کا ایک اہم حکم لایعنی بن کر رہ گیا ہے۔لندن میں رہنے والے مفتی عتیق الرحمن سنبھلی نے مفتی تقی عثمانی کو خط لکھ دیا تھا کہ ”عورت کے حق مہر کا مقصد کیاہے؟۔ یہ معاوضہ ہے یا پھر کچھ اور؟۔ بعض آیات میں اس کو اجر سے تعبیر کیا گیا۔ جس کے جواب میں مفتی تقی عثمانی نے لکھا کہ ”بندہ ناچیز کے نزدیک یہ ایک اعزازیہ ہے”۔ حالانکہ ایک عورت کے تحفظ کی یہ ضمانت ہے۔ مفتی تقی عثمانی کے ایک بھتیجے کی بیوی فوت ہوگئی تو ان کے ایک مرید اور عقیدت مند نے اپنی بیٹی دے دی اور پھر اس نے چھوٹے بچے بہت مشکل سے پالے اور بچوں کی اپنی ماں نے دوسرے شوہر سے شادی کی تھی۔ جب اسکے شوہر کا انتقال ہوگیاتو اس کو دوبارہ گھر میں لایا گیا اور اس بے چاری کو باپ کے گھر جانے کے بعد پیغام دیا گیا کہ واپس آنے کی ضرورت نہیں ہے تمہیں طلاق دی جاچکی ہے۔ وہ عورت ابھی کسم پرسی کی زندگی گزاررہی ہے اور کسی سہارے کی تلاش میں ہے۔ اگر حق مہر شوہر کی حیثیت کے مطابق ہو تو پھر کسی خوشخال گھرانہ سے طلاق شدہ عورت کو اس گھرانے کے مطابق بڑی مقدار میں اتنی رقم مل جاتی کہ رشتہ ٹوٹنے پر زیادہ غم نہ ہوتا۔
جب ہاتھ لگانے سے پہلے نصف حق مہر فرض ہے تو استعمال کے بعد کتنا حق مہر ہونا چاہیے؟۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں سب کچھ واضح کردیا ہے۔ اس مرتبہ کا عورت مارچ اسلام آباد ”ماہ رنگ بلوچ” کے نام پر رکھا گیا تھا۔ ایک وقت تھا کہ جب ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور سمی دین بلوچ نے ”عورت مارچ” کے خلاف سخت مؤقف کا اظہار کیا تھا لیکن جب ”عورت مارچ” والوں نے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا ساتھ دیا تو پھر غلط فہمیاں بھی دور ہوگئی ہیں۔ قوم پرست، عورت مارچ اور کامریڈ لوگ سمجھتے ہیں کہ مذہبی طبقہ ریاست ، روایتی اقدار اور سامراجیت کیلئے ہی استعمال ہوتا ہے اسلئے ان سے قدرے فاصلہ اور نفرت رکھتے ہیں لیکن اسلام ایسا ہرگز نہیں ہے البتہ مولوی استعمال ہوتاہے۔
ماما قدیر بلوچ نے ایک بلوچ سے کہا کہ نوشتۂ دیوار اخبار پڑھ لیا کرو،تو بلوچ نے بتایا کہ ہم ژوب میں ہینڈ پمپ لگاتے تھے تو ایک پشتون نے کہا کہ ” ہمیں اس کی ضرورت نہیں اسلئے کہ جب20،25لاکھ میں عورت خریدیں گے تو گھر میں اس کو بٹھا کر نہیں کھلاسکتے۔ پانی بھی لائے گی اور کام کاج بھی وہ کرے گی۔ اتنی زیادہ رقم پھر ہم کس لئے خرچ کرتے ہیں؟”۔
علماء ومفتیان نے ”درسِ نظامی ” اور ”نصاب تعلیم” میں ان تمام حقوق کو پامال کردیا ہے جو اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر ان کو دئیے ہیں۔ ہم افراد اور مخصوص قوموں کی بات نہیں کرتے۔ مجھے اطلاع ملی کہ حاجی ہمش گل محسود ( تبلیغی جماعت والے) نے مفت میں اپنی بیٹی دینے کی پیشکش کی ہے۔ انہوں نے اپنی کوئی ایک بیٹی بھی نہیں بیچی بلکہ علماء اور دیندار طبقے کو مفت میں ہدیہ کے طور پر دی ہیں۔ حالانکہ نبیۖ سے اللہ نے فرمایا ہے کہ کوئی بھی عورت اپنے آپ کو آپ کے علاوہ ہبہ نہیں کرسکتی۔ تبلیغی جماعت والے علماء نہیں ہوتے لیکن اچھے لوگ دین پر کچھ نہ کچھ عمل کی کوشش کرتے ہیں۔ عورت کو مفت میں دینا بھی مسئلے کا حل نہیں ہے۔PTMکے منظور پشتین نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ مفت میں اپنی بیٹیاں اور بہنیں دے گا۔ خلوص اپنی جگہ لیکن مسائل کا حل خلوص کیساتھ علمی اور معاشرتی حل ہے۔
میری ایک گھر والی سندھی اور دوسری بلوچ ہے۔ جب میں سندھی گھر والی کو کراچی سے اپنے گھر پختونخواہ لے گیا تو اس کو مذاق میں کہا گیا کہ تمہارے گھر والوں نے مفت میں تمہیں دیا ہے جس کے جواب میں اس نے کہا تھا کہ ”میں انمول ہوں۔ عورت کی کوئی قیمت ہوتی ہے اور عورت بکنے کی چیز ہے؟”۔
شادی مرد کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور عورت کی بھی لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ جب شادی ناکام ہوتو پھر عورت کو نقصان ہوتا ہے۔ اس کا ازالہ کرنے کیلئے اللہ نے عورت کا حق مہر اپنی وسعت کے مطابق معروف طریقے سے رکھا ہے۔ کل جب شوہر طلاق دے یا عورت خلع لے تو پھر اس میں عورت کو مکمل تحفظ بھی حاصل ہو۔ مولوی نے ہر چیز کو الٹا ہی لیا ہے۔ جب حق مہر مرد پر فرض کردیا ہے اور ہاتھ لگانے سے پہلے بھی وسعت کے مطابق حق مہر رکھا ہے اور مقرر کردہ حق مہر کا نصف فرض قرار دینے کے بعد اتنی وضاحت کردی ہے کہ اگر عورت نصف میں سے کچھ معاف کردے یا مرد نصف سے زیادہ دے تو اس کی گنجائش ہے لیکن جس کے ہاتھ میں نکاح کا گرہ ہے مناسب یہی ہے کہ وہ حق سے زیادہ دیدے ۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ معاملہ یہاں خلع کا نہیں بلکہ طلاق کا ہے اور طلاق کا اقدام مرد کررہاہے تو مرد سے اچھے کی توقع رکھنے کی ضرورت ہے ۔ لیکن ان الفاظ کو پکڑ کر مولوی طبقے نے قرار دیا ہے کہ طلاق صرف اور صرف مرد کا حق ہے۔ عورت کو خلع کا حق اللہ نے نہیں دیا ہے۔ پھر تعبیرات کیلئے جہاں اللہ نے خلع واضح کردیا ہے اس کو بھی ماننے کیلئے تیار نہیں ہے۔ آیت19النساء اور جہاں خلع مراد ہونہیں سکتا آیت229البقرہ ۔ وہاں آیت میں خلع مراد لیا ہے۔ عورت مارچ کی خواتین نے اگر قرآن کی واضح تعلیمات کو سمجھ لیا اور اس کو اٹھایا تو پھر ساری دنیا میں لوگ قرآن وسنت کی تعلیمات کو آئیڈیل قرار دیکر عورت کے حقوق کا ڈنکا بجادیں گے۔ ہم مسلسل لکھ رہے ہیں لیکن جس دن بھی اس طرف عورت مارچ، علماء ومفتیان اور عوام کی توجہ ہوئی تو یہ ایک بڑا انقلاب ہوگا۔ ایک عورت کا شوہر ایک ہی ہوتا ہے لیکن اس کا ایک باپ، کئی بھائی ، بیٹے،چچا،ماموں اور قبیلے کے حضرات ہوتے ہیں جو اس کو تحفظ دینے کیلئے اٹھ سکتے ہیں۔
پٹھان نے عورت کی قیمت رکھ کر اس کو خلع کے حق سے بھی محروم کردیا ہے لیکن پنجابی نے جہیز دے کر بھی عورت کو خلع کے حق سے محروم کیا ہے۔ حق مہر عورت کا حق ہے تاکہ اس کا کوئی استحصال معاشرے میں نہ ہو۔ جب میاں بیوی خوشی سے اپنی زندگی گزار رہے ہوں تو پھر عورت کی طرف سے حق مہر میں کچھ معاف کیا جائے تو اس کو خوشی خوشی کھانے کی اجازت ہے۔
ہمارے ہاں معاشرے میں حق مہر کے اندر اعتدال نہیں ۔ پشتون حق مہر کے نام پر عورت بیچ دیتے ہیں اور پنجابی جہیز کے ساتھ ہبہ کردیتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں عورت کا استحصال اسلئے ہوتا ہے کہ مولوی نے حق مہر کی افادیت ختم کردی ہے۔
حکومت ،ریاست ، عدالت اور اپوزیشن عمران خان کی بیگم بشریٰ بی بی کے درمیان عدالتی فیصلہ افہام وتفہیم کیلئے بہت بڑی بنیاد بن سکتا ہے۔ جس سے شیعہ سنی اور حنفی واہلحدیث میں بھی قربت آسکتی ہے اور1973کے آئین میں یہ پہلی رحمت کی بارش بن سکتی ہے۔ عدالت کے جج نے جو سزا دی ہے اصل وجہ کچھ بھی ہو لیکن شیعہ سنی،حنفی اہلحدیث اور تمام مذہبی طبقات کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ”عورت عدت میں کسی اور سے نکاح نہیں کرسکتی ہے اور قرآن وسنت میں عدت کے اندر نکاح سے روکا گیا ہے اور شوہر کو عدت میں رجوع کا حق حاصل ہے”۔
جب خاور مانیکا نے عدالت میں بیان دیا کہ اس نے طلاق دی اور عدت میں اس کا حق رجوع مجروح ہوا ہے تو جج نے اس پر بشریٰ بی بی اور عمران خان دونوں کو7،7سال قید اور5،5لاکھ روپے جرمانہ کی سزا دی ہے۔ اصل مسئلے کے کچھ حقائق کھل کر سامنے آئے ہیں۔ مفتی عبدالقوی تحریک انصاف علماء ونگ کے صدرتھے۔ اس نے بتایا کہ خاورمانیکا نے کہا تھا کہ اس نے تین طلاقیں دی ہیں اور اب حلالہ کے بغیر رجوع ہوسکتا ہے؟۔ ظاہر ہے کہ بشریٰ بیگم حلالہ کی لعنت کیلئے کبھی آمادہ نہیں ہوگی۔ خاورمانیکا نے کہا ہوگا کہ عدت قرآن کے مطابق گھر میں گزارلو اور بشریٰ بی بی نے عدت پوری کی ہوگی اور پھر گھر سے نکل کر اپنے گھر میں منتقل ہوئی ہوگئی۔ خاور مانیکا نے بتایا کہ5ماہ سے ناراضگی چل رہی تھی اور اس کو اس بات پر بڑی حیرانگی ہوئی کہ جب بشریٰ بی بی نے تحریری طلاق کا مطالبہ کیا۔ لیکن اس کے کہنے پر اس نے طلاق لکھ کر دے دی۔ اس تحریری طلاق سے پہلے ظاہر ہے کہ شرعی عدت پوری ہوچکی تھی لیکن قانونی تقاضا پورا کرنے کیلئے طلاق مانگی گئی اور اس کے ڈیڑھ ماہ بعد عمران خان سے اس کا نکاح مفتی سعید خان نے پڑھادیا۔ عدت اس سے پہلے پوری ہوچکی تھی لیکن تحریری اور قانونی نکاح کی عدت پوری نہیں ہوئی تھی۔ جب تحریری طلاق کی عدت پوری ہوگئی تو دوبارہ بھی قانونی نکاح ایک مرتبہ پھر مفتی سعید خان نے پڑھایا تھا۔ اس کی خبر اسی وقت عمر چیمہ نے جیونیوز پر دے دی تھی۔
جب عمران خان اور بشریٰ بی بی کی تقدیر بدلنے کی مصنوعی کوششوں کا آغاز ہوگیا تو خاور مانیکا منظر عام سے غائب کئے گئے اور پھر اس نے شدید دباؤ کے تحت اپنی کرپشن اور کیسوں کا مسئلہ بچانے کیلئے عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف سلطانی گواہ بننے کا فیصلہ کرلیا اور یہ کوئی ڈھکا چھپا معاملہ بھی نہیں ہے۔
خاور مانیکا نے عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف گواہی دی کہ انہوں نے عدت میں نکاح کرکے میرا حق رجوع مجروح کیا ہے اور نکاح خواں اور گواہ بھی سامنے گئے تو جج نے ٹھوس ثبوت مہیا ہونے پر بے دھڑک اپنی صوابدید پر سزا دیدی اسلئے کہ عدالت میں تحریری طلاق اور نکاح خواں اور گواہ معتبر ہیں۔
اگر قرآن وسنت کی طرف رجوع کیا جائے تو علماء ومفتیان کے اندر اختلافات کے پہاڑ بھی گر سکتے ہیں اسلئے کہ طلاق کی عدت اور خلع کی عدت میں بھی فرق ہے۔ جب خاورمانیکا سے بشریٰ بی بی نے تحریری طلاق کا مطالبہ کیا تو یہی خلع ہے اور خلع کی عدت ایک حیض یا ایک مہینہ ہے۔ تحریری طلاق کے ایک ماہ بعد نکاح ہوا تھا اسلئے عدالت خلع کے مطابق نکاح کے درست ہونے کا فیصلہ دیدے اور ان سزاؤں کو معطل کیا جائے۔ ہمارا آئین قرآن وسنت کا پابند ہے۔ سعودی عرب کی عدالتوں میں بھی خلع کیلئے حدیث کے مطابق ایک ماہ کی عدت ہے۔ بشریٰ بی بی کے حق کیلئے اس فیصلے سے بہت ساری خواتین کا مسئلہ حل ہوگا اور پاکستان میں ریاست مدینہ زندہ ہوجائے گی۔
قرآن میں سب سے پہلی عدت کا بیان ناراضگی کی صورت میں4مہینے ہے۔ آیت226البقرہ۔ خاور مانیکا کے بقول بھی ناراضگی کی عدت پوری ہوگئی تھی۔ میں اپنی کتابوں اور اخبار ی کالموں میں اس پر تفصیل سے دلائل بھی دے چکا ہوں اور اسکی وجہ سے عوام الناس کا قرآن وسنت کی طرف رجوع بھی ہوگا۔ علماء ومفتیان بھی اپنے باطل اختلافات، مسالک اور فرقہ پرستی کی آگ سے اسکی وجہ سے بہت جلد نکلنے میں کامیاب ہوگی۔
اسلام کا معاشی اور معاشرتی نظام واحد ذریعہ ہے جو بحران سے پاکستان ، عالم اسلام اور پوری دنیا کو نکال سکتا ہے۔ ایک معروف شخصیت شاہ ولی اللہ سے برصغیر پاک وہندکے علماء اور مشائخ بڑی عقیدت ومحبت رکھتے ہیں۔ جب انہوں نے پہلی مرتبہ قرآن کا فارسی میں ترجمہ کیا تو واجب القتل کے فتوے لگ گئے اور ان کو کچھ عرصہ تک عوام سے بھی روپوش ہونا پڑا تھا۔ آج قرآن کے تراجم بالکل عام ہیں۔ علماء سے زیادہ جدید مفکرین مولانا سیدابولاعلیٰ مودودی، ڈاکٹر اسرار احمد اور جاوید غامدی پر پڑھے لکھے لوگ اعتماد کرتے ہیں۔ اسلئے کہ علماء ومفتیان کی فکر کو انہوں نے سلیس اور عام فہم زبان میں عام کردیا ہے۔
میں نے مدارس کی خاک چھانی ہے اور مولانا بدیع الزمان اور بڑے اچھے اچھے اساتذہ کرام کی خدمت میں زانوتلمذ طے کیا ہے اور ان سے نصابی تعلیم میں بڑی بڑی غلطیوں کی داد بھی پائی ہے اور ان سے مزاحمت اور امید کے آداب پائے ہیں۔
خلع کے بارے میں قرآنی آیات229البقرہ نہیں ہے۔ یہ بہت بڑا مغالطہ ہے اور اس کی وجہ سے مذہبی طبقات جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ خلع کے بارے میں سورہ النساء آیت19ہے اور اس میں نہ صرف عورت کو خلع کا حق دیا گیا ہے بلکہ مالی تحفظ بھی دیا گیا ہے جبکہ آیات20،21میں پھر مردوں کو طلاق کا حق اور عورت کو مالی تحفظ دیا گیا ہے۔ اگر عورت کے حقوق کی علمبردار ہدی بھرگڑی وغیرہ نے تھوڑی سی توجہ دیدی تو پورے سندھ، پاکستان ، عالم اسلام اور پوری دنیا میں ایک زبردست انقلاب برپا ہوجائے گا۔ مغرب سے بھی زیادہ اسلام نے عورت کو حق دیا مگر مولوی نے چھین لیا ہے۔
حسن الہ یاری نے کہاہے کہ حضرت عمر نے ایک ساتھ تین طلاق پر فیصلہ دے کر حلالہ کیلئے راستہ کھول دیا ہے حالانکہ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کسی بھی طلاق کے بعد شوہر کے یکطرفہ رجوع کا اختیار اللہ نے قرآن میں ختم کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر نے تنازعہ کا فیصلہ قرآن کے مطابق کیا اور حضرت علی نے بھی یہی کیا تھا کہ جب شوہر نے عورت کو حرام قرار دیا اور عورت رجوع کیلئے راضی نہیں تھی تویہ فیصلہ دیدیا کہ شوہر رجوع نہیں کرسکتا۔ صحابہ کرام کے مسالک میں کوئی فرق نہیں تھا اور قرآن سے احادیث صحیحہ بھی متصادم نہیں ہیں لیکن علماء وفقہاء اور فرقہ واریت کے ناسور نے قرآن وسنت کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ جس دن ہمارے معاشرتی نظام کو قرآن وسنت کے مطابق بنادیا تو غیرمسلم بھی اپنے لئے اسی فطری نظام کو پسند کریںگے اور دینا میں ایسی خلافت علی منہاج النبوة قائم ہوگی کہ آسمان وزمین والے دونوں کے دونوں اس سے خوش ہوں گے۔ عورت آزادی8مارچ تک محدود نہیں رہے گا بلکہ یہ مزاحمتی تحریک خوشیوں کے شادیانے بجانے میں مگن ہوگی۔
عورت میں اللہ نے اپنی عزت کے تحفظ کی فطرت کا مادہ رکھا ہے۔ حٰفظٰت للغیب بما حفظ اللہ ” وہ غیب میں اپنا تحفظ کرتی ہیں جو اللہ نے ان میں یہ فطری مادہ رکھا ہے”۔
پوری دنیا میں عورت آزادی مارچ کا دن منایا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں اسکے خلاف بہت غلیظ پروپیگنڈہ ہے کہ انکا مقصد جنسی بے راہ روی ہے۔ حالانکہ یہاں کب اس پر پابندی ہے؟ پھر دنیا بھر میں کیوں منایا جاتا ہے جن کو جنسی آزادی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے؟۔ جب اللہ نے آدم وحواء کو ایک شجرے سے منع کیا اور دونوں نے نافرمانی کردی ۔ جس کی وجہ سے ان کی شرمگاہیں کھل گئیں اوروہ جنت کے پتے ان پر چپکانے لگے تو اللہ نے اس کا ذمہ دار حضرت حواء کو نہیں حضرت آدم کو ٹھہرایا اور فرمایا:عصٰی آدم ربہ فغویٰ ” آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی تو حد پار کردی”۔ اسلئے عورتوں کی اس تحریک کو غلط رنگ دینا انتہائی قابل مذمت ہے۔ عورت کو باعزت مقام دینا مرد کی اپنی عزت ہے۔ پورے قرآن میں عورت پر کوئی ایسا جبر نہیں ہے جو مذہبی طبقات اپنی طرف سے فرض کئے ہوئے ہیں اور عورت اس جبر کی مخالفت میں اپنی سرتوڑ کوشش کررہی ہے تو یہ اس کا حق ہے۔ موٹی موٹی باتیں بھی مولوی کی سمجھ نہیں آرہی ہیں تو عورت کا اپنے حق کیلئے نکلنا بالکل قابل فہم بات ہے۔

(نوٹ: اس پوسٹ کے ساتھ عنوان ” ہدیٰ بھرگڑی کا تفصیلی ویلاگ” کے تحت پوسٹ پڑھیں۔)

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ مارچ2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

عورت آزادی مارچ کو اسلام آباد پریس کلب سے ڈی چوک تک جانے کی اجازت نہیں دی گئی ۔ ہدیٰ بھرگڑی کا تفصیلی ویلاگ

عورت آزادی مارچ کو اسلام آباد پریس کلب سے ڈی چوک تک جانے کی اجازت نہیں دی گئی ۔ ہدیٰ بھرگڑی کا تفصیلی ویلاگ

کیا ڈی چوک کی سڑک پر جوسیاست ہوتی ہے اس پرصرف مین پولیٹیکل پارٹیز، مولوی اور مردوں کا حق ہے؟۔

یہ جانیںکہ عورت ماچز کو جواس قدر ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑرہاہے تو اس کامطلب ہے کہ کچھ اچھاکررہی ہیں!

سلام ساتھیو ! ایک اور سال2024گزرا ہے اس سال کا عورت مارچ بھی اسلام آباد میں ہو چکا۔ تو اسکے اوپر خاص طور پر ریاستی اداروں نے جس طریقے سے عورت مارچ کے ساتھ سلوک کیا اس پہ روشنی ڈالنے کیلئے یہ ویلاگ بنا رہی ہوں۔ ہم نے8مارچ کو اسلام آباد میں ریاستی جبر کا ایک اور چہرہ دیکھا8مارچ کے دن2024جبکہ کوئی کیئر ٹیکر گورنمنٹ نہیں ہے اب ایک آپ کی سو کالڈ الیکٹڈ گورنمنٹ پاور میں ہے یہ وہ گورنمنٹ ہے جو دعوی کرتی ہے کہ بہت پرو وومن گورنمنٹ ہے جسکا پرائم منسٹر شہباز شریف ہے ،جس نے پنجاب کے اندر پہلی بار ایک خاتون وزیراعلی مریم نواز کو منتخب کیا۔ صدر آصف علی زرداری ہیں ۔اس گورنمنٹ میںخواتین کو پریس کلب سے ڈی چوک جانے تک کی اجازت نہیں دی گئی اور وہ اجازت کیوں نہیں دی گئی اسکے پیچھے کی جو وجوہات ہیں وہ آپ کے سامنے رکھنے چلی ہوں تاکہ یہ ویڈیو لاک ہو جائے اور ڈاکیومنٹ ہو جائے کہ خواتین کی تحریک نے عمران خان گورنمنٹ میں جس طرح کے مسائل کا سامنا کیا وہی کے وہی مسائل ہمارے آج بھی ہیںPMLNکی گورنمنٹ کے اندر ۔عورت مارچ ایک فیمینسٹ تحریک ہے اس نے ینگ خواتین فیمینسٹ اور پرانی فیمینسٹ کے ا سٹرگل کو آگے بڑھاتے ہوئے پچھلے5سال میں ملکی سطح پربڑے بڑے احتجاج اور مارچز کیے۔ ان میں ہر طرح کا مسئلہ ڈسکس ہوا، جو ڈیمانڈز پیش کی گئی ان ڈیمانڈز نے اکنامک جسٹس سے پیریڈ پاورٹی تک جبری گمشدگی اور ٹارگٹ کلنگ سے خواتین کا سیاست میں شرکت کا حق،تعلیم صحت اور جو جنسی تشدد ہے ان کو ہائی لائٹ کرنے کی کوشش کی۔ ہم اس موومنٹ کو اسلئے سپورٹ کرتے ہیں کہ یہ وہ واحد موومنٹ ہے جس نے تمام مسائل جو پاکستان کی عوام، خواتین، محنت کش طبقہ، مزدور کسان کے تمام مسائل کو حل کر کے ایک بہتر معاشرے کی تشکیل کر سکتے ہیں، ایک ایسا معاشرہ جوبرابری پر مبنی ہو، جسمیں استحصال اور کسی بھی قسم کا جبر نہ ہو۔ عورت مارچ کی موومنٹ نے ان تمام ایشوز کو مین سٹریم پبلک ڈسکورس کا حصہ بنایا۔ تمام پرابلمز کو ہائی لائٹ کیا، نیشنل لیول پہ جن کو پہلے عوامی سطح پر ڈسکس نہیں کیا جاتا تھا۔یہ موومنٹ پچھلے5سال سے کئی قسم کے مسائل کا شکار ہوئی۔ ایک سال توہین رسالت کے کیسز کیے گئے۔ ایک سال پتھر برسائے مولویوں نے۔ ایک سال لاٹھی چارج کا سامنا کرنا پڑا اور اس سال بھی ریاست اپنی پوری مشینری کو موبلائز کر کے لا ئی تاکہ اسلام آباد پریس کلب میں مارچ کرنے نہ دیا جائے۔ خواتین پولیس کی بھاری نفری کھڑی کر دی گئی اور انکے پیچھے کھڑے کر دیے گئے مرد جو پولیس افسر تھے ۔5سالوں میں اور اس سال بھی بالکل اسی وقت اسی شہر میں ڈی چوک پر مولویوں نے بہت کامیاب جلسے کیے۔ اسلام آباد پولیس اور ایڈمنسٹریشن کی سرپرستی میں اینٹی عورت مارچ ، اینٹی ویمن پروپیگنڈہ کو فروغ دیا۔5سالوں میں خواتین جو مارچز میں حصہ لیتی تھی انکے پر وائلنٹ ڈیتھ تھریٹس دیے گئے سٹیج سے۔ مولوی اور انکی سپورٹر خواتین وہاں پہ آئی تھیں حیاء مارچز میں ہم نے ان کو مائیک پہ یہ کہتے ہوئے بھی سنا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ان عورتوں کیساتھ وہ سلوک ہوجو نور مقدم جیسی کئی اور خواتین کیساتھ ہوا ہے۔ مولویوں نے حیا ء مارچ کا جو سین کرییٹ کیا اسکو ریاست کی بھرپور سپورٹ ملی تھی تو ہمیں یہ سوال پوچھنے کی ضرورت ہے کہ اتنے زیادہ رگڈ الیکشنزمیں بھی مولویوں کی مذہبی بنیاد پرست سیاسی جماعتیں عوام کی سپورٹ لینے سے تو بہت بری طرح ناکام ہوئی ہیں انہیں ایک سیٹ تک بڑی مشکل سے ملتی ہے جب عوام مولوی اور مذہبی فنڈامینٹلسٹ گروپس کو رد کرتی جا رہی ہے تو کیا وجہ ہے کہ ریاست مولوی کی سرپرستی نہیں چھوڑ رہی؟۔ کیا وجہ ہے کہ ریاست مولوی کے ان تمام عورت دشمن پروپیگنڈہ یا عورت دشمن نیریٹو کی سرپرستی کیوں نہیں چھوڑ رہی ہے؟۔ اسلام آباد اور دوسرے صوبوں میں بھی ہم نے نوٹس کیا کہ ہر سال8مارچ کو مولوی موبیلائز ہوتا ہے مولوی اپنی خواتین بھی لیکر آتے ہیں وہ برقعہ میں آتی ہیں وہ ڈنڈے لیکر آتی ہیں وہ یہ کہہ کے آتی ہیں کہ ہم آج ان عورتوں کو سیدھا کریں گی انکو ڈنڈے ماریں گی ۔ اسلام آباد پولیس ،انتظامیہ اور جو پورے سسٹم کا حصہ ہیں وہ تمام لوگ جو انہی ورکنگ کلاس عورتوں کی سیلریوں کے کٹے ہوئے ٹیکسز سے سیلری اٹھاتے ہیں وہی انہی عورتوں پہ8مارچ کے دن تشدد کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ریاست آخر ان مولویوں کی سرپرستی کیوں نہیں چھوڑ رہی؟ ہمیں جواب سمجھ میں آجاتا ہے کہ ایسی ریاست جس میں ایک عورت کو معافی منگوائی جائے کہ اس نے اپنی قمیض پہ حلوہ لکھا ہوا پہنا تھا جس پہ4،5یا چلیں5یا50جاہل مولوی ایک مسلمان عورت کو اس طرح ہراساں کر سکتے ہیں اس کو قتل کی دھمکیاں دے سکتے ہیں اسے مارنے پہ تل سکتے ہیں اس معاشرے میں اور پھر اسی معاشرے میں جہاں خیبر پختونخواہ کی اسمبلی جہاں پختون رہتے ہیں وہ پختون جو عورتوں کی عزت کرتے ہیں اور عورتوں کو اپنی عزت سمجھتے ہیں اسیKPKکی اسمبلی کی خاتون منتخب نمائندے کی ایک رات کی قیمت پوچھی جا رہی ہے اور اس کی بولی لگائی جا رہی تھی۔ کوئی ایکشن اس آدمی یا ان مردوں کے خلاف نہیں لیا گیا۔ ایسی ریاست جسکے اندر سورٹ اور سسی لوہار کے باپ کو دن دیہاڑے قتل کر دیا جاتا ہے وہ خواتین دونوں بہنیں سڑک پہ کتنے دن احتجاج کرتی ہیں کہ ہمیں جواب دیا جائے کہ کیوں ہمارے والد کو قتل کیا گیا کیونکہ وہ پروگریسو سیاست اور حقوق کی بات کرتے تھے وہ مزدور، محنت کش طبقے کی بات کرتے تھے اسے دن دیہاڑے قتل کر دیا گیا اور اسے کوئی انصاف نہیں ملا۔ وہ ریاست جسکے اندر بلوچ کئی کئی نسلیں ان کے کئی مرد کب سے گمشدہ ہیں ان کی عورتیں یہ تک نہیں جانتیںکہ ان کا شادی شدہ اسٹیٹس کیا ہے ؟،کیا وہ بیوائیں ہیں ؟،کیا وہ اپنے شوہروں کا اب بھی انتظار کریں؟ وہ کئی لڑکیاں جن کی منگنیاں ہوئی تھیں وہ آج تک ان آدمیوں کے انتظار میں بیٹھی ہیں کہ وہ کب آئیں گے؟۔ تاکہ وہ اپنی زندگی کو آگے بڑھا سکیں۔ وہ ریاست جس میں عورتوں کی زندگی رک چکی ہے جس میں ہر دن ہر طرح کا تشدد عورت پر ہوتا ہے کبھی قتل کبھی اغواء ہوتی، کبھی چہرے پہ تیزاب پھینکا جاتا ہے کبھی تشدد کیا جاتا ہے۔ ایسی ریاست میں ہم نے کبھی مولوی کو کوئی مارچ نکالتے ہوئے نہیں دیکھا ہم نے کبھی کسی مولوی کو اتنے برے طریقے سے جو خواتین کو ٹریٹ کیا جاتا ہے پورا سال ہم نے ان کو کبھی سڑکوں پر نہیں دیکھا کہ وہ باہر نکلیں وہ آکے اپنی آواز اٹھائیں وہ اسلام کی وہی تعلیمات آ کر لوگوں کو بتائیں کہ جن میں کہا گیا ہے کہ آپ خواتین پہ ہاتھ نہ اٹھائیں ،خواتین اور بچوں کیساتھ اچھا سلوک رکھیں۔ وہ ریاست جسکے مدرسوں میں معصوم بچوں سے زیادتیاں ہوں۔ گھروں میں کام کرنے والی غریب خواتین کیساتھ زیادتی ہو ان کا استحصال ہو۔ ہم نے کبھی کسی مولوی کو کسی ریاستی ادارے کو اس طرح کے گھناؤنے جرائم کی مخالفت کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ ہم نے کوئی ایسے اقدامات نہیں دیکھے کہ جو اٹھائے گئے ہوں ان عورتوں کی بقائ، انکے وقار اوران عورتوں کی زندگی کے حق کیلئے۔ ہم نے دیکھا ہے کچھ بھی ایسا نہیں۔ اس سال ریاست نے بڑا اور گھناؤنا کھیل کھیلا۔8مارچ کو اگر آپ کسی کو فون کریں گے تو آپ کو ایک ریکارڈڈ میسج سنائی دے گااور وہ یہ ہے کہ ”یہ خواتین کا عالمی دن ہے اس خواتین کے عالمی دن پہ آئیں خواتین کو ڈیجیٹل تعلیم دیں۔ یہ تعلیم دیں کہ ان کواس معیشت کا اچھا حصہ بنائیں”۔جس سے ہمیں یہ لگتا ہے کہ ریاست تبھی عورت کے بارے میں سوچتی ہے کہ جب انہیں عورت کی محنت جو گھر میں کر رہی ہے اس کا تو کوئی اجر نہیں ملتا مگر وہی محنت جب پبلک میں آکر کریں اکانومی کو آ کر بوسٹ کرے یہ تمام ،تو مطلب عورت کا استعمال جو معاشرے میں رہ چکا ہے اور پاکستانی ریاست میں رہ چکا ہے وہ صرف یہ ہے کہ آپ بچے پیدا کریں آپ گھر کا چولہا چلائیں آپ کھانے پکائیں آپ انکے کپڑے دھوئیں، کھانے پکا کے دیں۔ یہ بیمار ہوں ان کی تیمارداری کریں ۔آپ بس یہی کر سکتی ہیں آپ سیاست میں آئیں گی، بولی لگائی جائے گی اسمبلی فلور پہ۔ آپ اپنے من پسند کپڑے پہن کے سڑکوں پہ نکلیں گی تو آپ کا سر تن سے جدا کیا جائیگا۔ آپ اپنے رائٹ ٹو پروٹیسٹ کو استعمال کرنے کیلئے8مارچ کو سڑک پر نکلیں گی آپ کا راستہ روکا جائے گا ۔ہاں اگر یہی خواتین پی ٹی ائی یاPMLNیا اگر پیپلز پارٹی کے جلسے کیلئے نکلتیں تو ان کو کسی قسم کی دشواری فیس نہیں کرنی پڑتی۔ اگر عبائے پہن کر سڑکوں پر لاٹھیاں لے کے نکلیں تو بھی ان کو کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ لیکن یہی خواتین اگر پیس فل پروٹیسٹ کریں اپنے پلے کارڈز اٹھا کر سڑک پہ نکلیں ایک سیاسی پلیٹ فارم جسے پریس کلب ٹو ڈی چوک ہم ایک سیاسی پلیٹ فارم سمجھتے ہیں اس کو ایکسس کرنے نکلیں گی تو ریاست کی پوری مشینری وہاں پہنچ جائے گی ان عورتوں کو ٹارچر کرے گی ان کو ایموشنلی اب یوز کرے گی ان کو ٹراما دے گی راستے روکے جائیں گے ،خاردار تاریں بچھائی جائیں گی ۔ عورت مارچ اسلام آباد کیساتھ یہ پچھلے5سال سے ہو رہا ہے اور اس سال بھی ریاست نے اپنا گھناؤنا پدر شاہانہ عورت دشمن چہرہ تھا جو اس کی پالیسی تھی وہ سامنے رکھی ۔ اس سال لگتا ہے کہ ہمیں ڈی چوک اسلئے نہیں جانے دیا گیا کیونکہ عورت مارچ کے پوسٹر پر ایک بلوچ عورت تھی جس نے اپنے گلے میں فلسطین کا کفایہ پہنا ہوا تھا یہ اس سال اسلئے کیا گیا کہ ویسے تو میڈیا بلوچوں کی مزاحمت کو بلیک آؤٹ کر سکتی ہے پشتونوں، سندھیوں کی جو تحریک کا مین سٹریم میڈیا نے بلیک آؤٹ کیا ہوا ہے گلگت بلتستان میں جو تحریکیں چل رہی ہیں اسکا میڈیا نے بلیک آؤٹ کیا ہے لیکن عورت مارچ کیونکہ متنازعہ ہے اس پہ ریٹنگ ملتی ہے کیونکہ اس کو کور کرنا بہت ضروری ہے تو کیوں نہ ان کا راستہ، ان کی آواز اور انکا جو سیاسی حق ہے اس سے روکا جائے کیونکہ کنٹروورشل ہے اس کو کور کرنا بہت ضروری ہے تو کیوں نہ ان کا راستہ ان کی آواز اور ان کا جو سیاسی حق ہے اسے روکا جائے کیونکہ یہ اب ان عورتوں کیساتھ جڑ رہی ہیں یا ان عورتوں کی آواز اٹھا رہی ہیں جس کا اس قوم کی ریاست نے بہت برے طریقے سے کئی عرصے سے استحصال کیا ہوا ہے۔ اس سال ریاست نے صرف عورت مارچ یا عورتوں سے دشمنی نہیں نکالی اس بار ریاست نے بلوچ دشمن اپروچز کو بلوچ دشمن پالیسی کا پورا کا پورا بھرپور نفاذ کیا اور انہوں نے عورت مارچ اسلام آباد کو احتجاج کرنے نہیں دیا، ڈی چوک جانے نہیں دیا۔NOCہر سال ان سے مانگی گئی ہر سال انکار کیا گیا۔ ہر سال یہ کہا گیا کہ آپ پارک میں چلے جائیں، اسلام آباد سپورٹس کلب چلے جائیں۔ تو ہم ان سے یہ سوال تو ضرور کریں گے کہF9پارک، سپورٹس کلب میں آپTLPکے دھرنے کیوں نہیں کرنے دیتے؟۔PTI،PMLN، پیپلز پارٹی کے جلسے کیوں نہیں کرواتےF9پارک میں؟، یہ ڈی چوک، جو پولیٹیکل سپیسز ہیں جو سڑک پہ سیاست ہوتی ہے کیا اس پر صرف مین سٹریم پولیٹیکل پارٹیز ؟، یا صرف مولوی کا حق ہے ؟۔کیا یہ سڑکوں میں صرف مردوں کا ٹیکس ہے؟۔ یہ سپیس صرف مردوں کے ہیں؟ کیا یہ ریاست صرف مردوں کی ہے؟۔ یا یہ ریاست صرف اسی عورت اور اسی گروپ اور اسی سیاسی پارٹی کو اسپیس دے گی اپنی سیاست کرنے اپنی مزاحمت کرنے کا جو کہ پاکستانیت کا جو ایک کانسپٹ ہے جو ایلینٹ کرتا ہے انسان کو اپنی مادری زبان، اپنے کلچرل اور نسلی شناخت سے کیا وہ اسپیس صرف پاکستانیت کو ماننے والوں کو دیا جائیگا کیا وہی فیمینسٹ جدوجہد ریکگنائز ہوگی یا وہیں پہ ہی فیمینزم کیش کیا جائیگا جہاں پر بلوچوں کا پشتونوں کا سندھیوں کا گلگت بلتستان کا خیبر پختون خواہ کا وسیب کا جو مسائل ہیں جہاں ڈسکس نہیں ہوں گے؟۔ کیا وہ فیمن ازم یا وہ فیمینسٹ سٹرگل جو کہ نسلی شناخت کو نہیں مانتا یا صرف اسی کو ایکسس دیا جائیگا یا اس طرح کا بیانیہ ہم پہ تھوپا جائیگا کہ جس پہ ہم سے یہ ڈیمانڈ کی جائے کہ اگر تم لوگوں نے سیاست کرنی ہے سڑک پہ آنا ہے تو عورتوں کے مسئلے اٹھاؤ تو کیا بلوچ مردوں کا غائب ہونا عورتوں کا مسئلہ نہیں؟۔ کیا سندھی بچیوں کے باپ کا دن دیہاڑے قتل عورتوں کا مسئلہ نہیں؟۔ کیا عورتوں کا مسئلہ صرف جنسی جبر ہے؟۔ کیا انکا ایتھنک کلینزنگ یا جو ایتھنک انکے مسائل ہیں کیا ایک عورت صرف عورت ہے کیا وہ سندھی عورت نہیں؟ کیا وہ بلوچ عورت نہیں؟ کیا وہ قوم و نسلی شناخت کو بھول کر سیاست کرے تبھی مانی جائے گی؟۔ تبھی سپیس ملے گا ؟۔یا وہ فیمینسٹ تنظیمیں یا خواتین تحریک جو دفاعی بجٹ کیخلاف بولیں جو جنگی اور امپیریلسٹ وارز میں پاکستان جہاں حصہ بنتا ہے اسکے بارے میں بات کریں یا وہ تحریکیں جو ریکگنائز کرتی ہیں کہ کس طرح اس ملک میں جمہوریت کے نام پر فوج اپنی بربریت کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ کبھی ایک پارٹی کے پیچھے چھپتی ہے کبھی وہ دوسری پارٹی کے پیچھے چھپتی ہے اور ہماری سیاسی جماعتیں جن کو ووٹ دینے ہماری عوام سڑکوں پہ نکلتی ہے کیا وہ ووٹ ان کو دے رہی ہیں یا وہ ووٹ مولویوں کی سرپرستی کرنے والی اس فوج کو دے رہی ہے ؟۔ تو یہ تمام سوال ہیں کہ جنکے بارے میں سوچنا پڑے گا۔ جو سب سے بڑی بات ہے وہ یہ کہ کئی عرصے سے جتنے بھی میڈیااور سوشل میڈیا پر جس طرح کے پروپیگنڈے کیے گئے ان خواتین نے بہت سہا ہے ، کریکٹر اسیسینیشن سہی ہیں، ڈیتھ اور ریپ تھریٹس رہے ہیں ان کی ایک ایک پکچر کو جس طرح سے ڈاکٹر کر کے انکے پلے کارڈز کو چلایا گیا، کوئی کاروائی ریاست نے انکے خلاف نہیں کی تو ہمارے لیے یہ بہت جاننا ضروری ہے کہ جن جن کو ہم ووٹ کرتے ہیں جن کو ہم ریاست میں لیکر آتے ہیں وہ ریاست وہ سیاستدان آخر خواتین کے بارے میںکیا سوچتے ہیں اور ہمارے لیے کون سا پولیٹیکل سپیس چھوڑا ہے؟۔ عورت مارچز پریشر گروپ کے طور پہ کام کرتی ہیں ہم8مارچ کو اسی لیے نکلتے ہیں اور ہم نکلیں گے یہ جو انکے حربے یا جو پلاننگ یا جو عورت دشمن نظریہ ہے ان کا حل صرف مزاحمت ہے یہ غریب کی بات کرے گی، جبری ریاست کا گھناؤنا خونی چہرہ دکھائے گی۔ اگر خاردار تاریں لگانی، پتھر برسانے ہیں، توہین رسالت کے جھوٹے مقدمات کرنے ہیں۔ عورت مارچ اسلام آباد کا راستہ روکنے کیلئے5،6بڑی بڑی قیدیوں کی وین لائی گئی تاکہ خواتین کو گرفتار کیا جائے صرف اسلئے کہ وہ اپنا حق رائے رائٹ ٹو پروٹیسٹ ،رائٹ ٹو پیس فل اسمبلی استعمال کریں گی جو پاکستان کی آئین کا حصہ ہے۔ دستور میں جو حقوق آپ نے ہر کسی کو دیے۔ مولوی اسکا استعمال کر سکتا ہے، ریاستی ادارے، آپ کے مرداس کو استعمال کر سکتے ہیں تو پاکستان کی خواتین استعمال کیوں نہیں کر سکتی؟۔ آپ عورت مارچ کو سپورٹ کریں یا نہ کریں لیکن یاد رکھیے گا کہ جو مشینری ایک پیس فل پروٹیسٹ کو روکتی ہے وہی کل آپ کی سیاست کو روکنے کیلئے استعمال ہو گی۔ ہم پرپہلے بھی ریاستی جبر تھے اور ایسے فیمینسٹ نظریے کو آگے نہیں لیکر چلیں گے جو ہماری شناختیں چھینتا ہو۔ ہماری شناخت پر مبنی جو ہم پہ جبر ہو۔ یہی پاکستانی فیمینسٹ تحریکوں کا سب سے بڑا نکتہ ہے۔ ہم سامراجیت، ریاستی جبر، ہر طرح کی پالیسی کو اس نظرئے کو ، اس اپروچ کو جو عورت سے عورت ہونے کا حق چھینے، سیاست کا حق چھینے اور یہ توقع کرے کہ وہ عورت اپنی سیاست ریاست کی ڈکٹیشن پہ کرے گی ہم ایسی سیاست کو ایسی تحریک کو رد کریں گے۔ ایسی تحریک کا نہ حصہ بنیں گے نہ اپنی تحریک کو اس سانچے میں ڈھلنے دیں گے کہ جس میں ریاست ڈکٹیٹ کرے کہ کونسی بات کرنی ہے کونسی نہیں کرنی؟۔ آپ کی اپنی پولیٹیکل، فلاسفی اور آئیڈیولوجی ہے اس ریاست کی ڈکٹیشن میں کوئی فیمنسٹ تحریک نہیں چلی اور نہ وہ چلے گی۔ یہ ہماری نو آبادیاتی آگاہی ہے یہ ہماری نو آبادیاتی میراث جو انہوں نے بنائی ہوئی ہیں یہ ان سب کا توڑ فیمینس تحریک ہے۔ آپ سے گزارش ہے کہ حقائق کو سامنے رکھیں ان کو پروموٹ کریں اور صرف اور صرف یہ جانیں کہ اگر عورت مارچز کو اس قدر ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ عورت مارچز کچھ نہ کچھ بہتر اور کچھ نہ کچھ اچھا کہہ اور کر رہے ہیں۔ یہ کم عورتیں ہی سہی لیکن یہ نظریاتی طور پر بہت با اختیار ہیں یہ نظریاتی طور پر بہت سٹرانگ عورتیں ہیں اور جیسے ہم نے دیگر ممالک میں دیکھا کہ عورتوں نے کس طرح سے ریاستی جبر کا سامنا کیا ہے پاکستانی عورتوں کو فخر ہونا چاہیے کہ آپ کے ملک کے اندر بھی ایسی عورتیں ہیں جنہوں نے ریاست کو نہ صرف ٹکر کی ہے بلکہ ریاستی ادارے کی سرپرستی میں موجود مولوی جس کی سیاسی شروع ہوتی ہے عورت کو ایک بچہ بنانے کی مشین سمجھ کر ایک ایسی ان کو گونگی بہری عورت جو ان کو چاہیے یا جو ان کو پسند ہے یا ایسی عورت جو کہ صرف اور صرف ان کی بتائی ہوئی بات کو مان کر آنکھیں بند کر کے آگے بڑھے ہم عورت کی اس طرح کی شکل کو یا جو جینڈر کا ایک ڈائنمک بنایا گیا ہے کہ جب تک عورت غیر فعال نہیں ہوگی جب تک عورت روئے گی نہیں جب تک عورت مرد کی ڈکٹیشن میں نہیں آئے گی تب تک وہ عورت عورت نہیں ہے ہم ان تمام ڈیفینیشنز کو نہ صرف رد کریں گے بلکہ ان کو ری کنسٹرکٹ کریں گے۔ تو اس وقت اگر آپ بحیثیت پاکستانی شہری ریاستی جبر کو ریکگنائز کرتے ہیں ایتھنک اورنیشنلسٹ کوئسچن جو ہے اگر آپ اس کو ریکگنائز کرتے ہیں تو مجھے لگتا ہے کہ آپ سب کو یہ چاہیے کہ اپنی اپنی سیاسی صفوں سے نکل کر عورت مارچز کا حصہ بنیں انکے اندر رضا کار بنیں۔ ان کے اندر پورا سال اس تحریک کو مضبوط کرنے میں مدد کریں ہمیں بہت زیادہ ضرورت ہے ایک الٹرنیٹو ڈسکورس کو بلڈ کرنے کی وہ ڈسکورس جو کہ مولوی اور ریاست کی ڈکٹیشن میں نہیں بلکہ ہماری اپنی جو گراس روٹ پولیٹیکل آرگنائزنگ ہے اس کی فائنڈنگز پہ مبنی ہو ۔بہت بہت شکریہ

(نوٹ: اس پوسٹ کے بعد عنوان” عورت مارچ کیلئے ایک تجویز” کے تحت پوسٹ پڑھیں۔)

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ مارچ2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

عورت کو خلع کا حق نہ ملنے کے وہ بہت خطرناک نتائج جن کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا (پارٹ 5)

عورت کو خلع کا حق نہ ملنے کے وہ بہت خطرناک نتائج جن کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا (پارٹ 5)

خود ساختہ طلاق حسن، طلاق احسن اور طلاق بدعت

حنفی مسلک میں طلاق کی3اقسام ہیں۔ طلاق حسن:عدت کے تین ادوار کے مطابق طلاق دی جائے۔ طلاق احسن:ایک طلاق دیکر عورت کو عدت کے آخر تک چھوڑ دیا جائے۔ طلاق بدعت:اکھٹی3طلاق دینا یا حیض کی حالت میں طلاق دینا۔ جبکہ امام شافعی کے نزدیک اکھٹی3طلاق دینا بدعت نہیں مباح اور سنت ہے۔ قارئین سمجھ سکتے ہیں کہ جب طلاق بدعت و طلاق سنت پر اتفاق نہ ہو تو باقی کیا کیا گل انہوں نے کھلائے ہوں گے۔ طلاق احسن میں یہ طرفہ تماشہ ہے کہ ایک طلاق کے بعد عورت کسی اور سے شادی کرنے کے بعد دوبارہ پہلے شوہر کے پاس آئے تو اختلاف یہ ہے کہ پہلا شوہر نئے سرے سے3طلاق کا مالک ہوگا ؟ یا پھر پہلے سے موجود2طلاق کا مالک ہوگا؟۔ فقہ کے ائمہ کا بھی اس پر اختلاف ہے اور فقہاء حنفیہ کا بھی آپس میں اس پر اتفاق نہیں ہے۔ اگر10افراد ایک ایک طلاق دیکر عورت کو فارغ کرتے جائیں تو عورت پر2،2طلاق کی دس منزلہ بلڈنگ کھڑی ہوگی۔ تمام افراد اس صورت میں2،2طلاق کے مالک بھی رہیں گے ان فضول بکواسیات پروقت نہیں ضائع کرنا چاہیے۔
امام شافعی کے نزدیک ایک ساتھ3طلاق دینے کی دلیل ایک حدیث ہے کہ جب عویمر عجلانی نے اپنی بیوی سے لعان کیا تو کہا کہ تجھے3طلاق۔ حالانکہ اصل معاملہ قرآن میں واضح ہے کہ رجوع کا تعلق باہمی اصلاح اور معروف طریقے سے صلح کرنے میں ہے۔ سورہ طلاق میں فحاشی کے ارتکاب پر عدت کے اندر بھی گھر سے نکالنے اور نکلنے کی اجازت ہے اسلئے عویمر عجلانی کی روایت اس قابل نہیں ہے کہ یہ بحث کی جائے کہ رجوع ہوسکتا ہے کہ نہیں؟۔ امام ابو حنیفہ و امام مالک کے ہاں ایک ساتھ3طلاق کو گناہ قرار دینے کیلئے ایک روایت ہے کہ محمود بن لبید نے کہا کہ ایک شخص کے بارے میں نبی ۖ کو خبر دی گئی کہ اس نے اپنی بیوی کو3طلاقیں دی ہیں۔ تو رسول اللہ ۖ غضبناک ہوکر اٹھے اور فرمایا کہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں اور تم اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیل رہے ہو؟۔ جس پر ایک شخص نے کہا کہ کیا میں اس کو قتل کردوں؟۔ حالانکہ یہ بھی واضح ہے کہ جس شخص کے بارے میں خبر دی گئی کہ اس نے3طلاقیں دی ہیں وہ عبد اللہ ابن عمر تھے اور جس نے قتل کی پیشکش کی تھی وہ حضرت عمر تھے۔ بخاری و مسلم کی اس سے زیادہ مضبوط روایات میں یہ واقعہ موجود ہے اور حضرت عبد اللہ ابن عمر کو نہ صرف نبی ۖ نے رجوع کا حکم دیا تھا بلکہ یہ بھی سمجھایا تھا کہ طلاق کا تعلق عدت کے مطابق مرحلہ وار3مرتبہ عمل ہے۔ جب حنفی مسلک کے چوٹی کے محقق حضرت علامہ ابوبکر جصاص رازی حنفی احکام القرآن میں سنت کے مطابق طلاق پر دلائل دیتے ہیں تو فرماتے ہیں کہ2مرتبہ طلاق سے مراد الگ الگ فعل ہے جس طرح2درہم کو2مرتبہ درہم نہیں کہہ سکتے اسی طرح2مرتبہ کی طلاق2طلاق نہیں ہوسکتی۔ لیکن جب طلاق کو واقع کرنے کا ٹھیکہ اٹھاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ ایک باریک بات ہے جو سمجھ میں نہیں آسکتی ہے مگر پھر بھی ایک ساتھ3طلاق واقع ہوجاتی ہیں۔ اسی طرح جب طلاق سنت کے دلائل پر دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث حضرت علامہ انور شاہ کشمیری بحث کرتے ہیں تو لکھتے ہیں کہ ”ہوسکتا ہے کہ لعان کے بعد عویمر عجلانی نے بھی الگ الگ ہی مراحل میں 3مرتبہ طلاقیں دی ہوں”۔ (فیض الباری شرح بخاری)
اہلسنت کے ہاں متفقہ طور پر کہا جاتا ہے کہ اصح الکتب بعد کتاب اللہ صحیح البخاری ”اللہ کی کتاب کے بعد صحیح ترین کتاب صحیح بخاری شریف ہے”۔ امام اسماعیل بخاری کی امام ابوحنیفہ سے نہیں بنتی تھی اسلئے اس نے شافعی مسلک کو سپورٹ دینے کیلئے ”ایک ساتھ3طلاق کے جواز ”کے عنوان کے تحت لکھا کہ ”رفاعہ القرظی نے اپنی بیوی کو 3طلاق دی، پھر اس کی بیوی نے ایک اور شخص سے نکاح کیا اور رسول اللہ ۖ کے پاس آئی اوراپنے دوپٹے کا پلو دکھا کر عرض کیا کہ میرے شوہر کے پاس ایسا ہے۔ رسول اللہ ۖ نے پوچھا کہ کیا آپ رفاعہ کے پاس واپس جانا چاہتی ہو؟۔ آپ نہیں جاسکتی یہاں تک کہ دوسرا شوہر تیرا ذائقہ ایسا چکھے جیسے پہلے والے نے چکھا ہے۔ اور تو دوسرے شوہر کا ذائقہ ایسا چکھے جیسے پہلے والے کا چکھا ہے”۔ اس واہیات حدیث کو پڑھ کر مولوی حضرات بھی چکر کھاجاتے ہیں اور عورت اور اس کا شوہر بھی دھوکہ کھاجاتے ہیں۔ حالانکہ کسی نامرد سے حلالہ کروانے کا تو کوئی کم عقل مفتی بھی قائل نہیں ہے۔ بخاری میں واضح ہے کہ رفاعہ القرظی نے مرحلہ وار طلاقیں دی تھیں اور دوسرے شوہر نے اس کی اس بات کی تردید کی تھی کہ وہ نامرد ہے۔ بخاری نے امام ابو حنیفہ کو شکست دینے کیلئے امام شافعی کی حمایت میں یہ روایت بیان کی ہے جس کے امام شافعی خود بھی قائل نہیں تھے۔ مدعی سست گواہ چست۔ لیکن ہمارے علماء خواہ مخواہ کے شیخ الحدیث بنے ہوئے ہیں۔

نکاح کے وقت حضرت عائشہ کی اصل عمر کا مسئلہ

حضرت عائشہ سے ان کی بڑی بہن حضرت اسمائ بنت ابی بکر10سال بڑی تھیں۔ اور حضرت اسمائ کی وفات73ہجری میں100سال کی عمر میں ہوئی تھی۔ صحیح بخاری سے بڑی غلط فہمی پھیلی ہے کہ حضرت عائشہ کی عمر نکاح کے وقت6سال اور رخصتی کے وقت9سال تھی۔ حالانکہ اس پر کئی کتابیں اور تحقیقات لکھی جاچکی ہیں جن میں بڑے بڑے لوگ ہیں کہ یہ حقائق اور قرائن کے بالکل منافی ہے۔ عربی میں بچی کو طفلة اور لڑکی کو بنت کہتے ہیں اور مدارس و اسکول بھی اطفال اور بنات کے الگ الگ ہوتے ہیں۔6سے9سال تک کی عمر پر طفلة کا اطلاق ہوتا ہے اور صحیح بخاری میں بنت کا ذکر ہے۔ قرآن میں یتیم لڑکوں کیلئے بھی حتیٰ اذا بلغوا النکاح ”یہاں تک کہ وہ نکاح کی عمر تک پہنچ جائیں” کا ذکر ہے اور جب لڑکوں کیلئے نکاح کی عمر ہے تو کیا لڑکیوں کی نکاح کی عمر عرف عام میں نہیں ہوتی ہے؟۔ جب لڑکیوں کے نکاح کی عمر بالکل روز روشن کی طرح واضح ہے تو پھر حضرت عائشہ کے نکاح کی عمر میں کوئی ابہام ہوسکتا ہے؟۔ حضرت اسمائ بڑی بہن کے لحاظ سے آپ کی عمر نکاح کے وقت16سال اور رخصتی کے وقت19سال بنتی ہے۔ پاکستان میں کم عمری کے نکاح پر قانوناً بھی پابندی ہے۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ سنت پر پابندی لگادی گئی ہے؟۔ اور کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ فلاں مولوی اور پیر صاحب اپنی بچی یا پوتی وغیرہ کا نکاح6سال کی عمر میں اور رخصتی9سال کی عمر میں کرنا چاہتا ہے لیکن حکومت پاکستان اس میں رکاوٹ ہے؟۔
بخاری میں ڈھیر ساری رفع یدین کی احادیث ہیں لیکن وہ نہیں مانی جاتی ہیں اور تصاویر کی حرمت کے بارے میں بھی احادیث ہیں لیکن جب جدید دور میں تصاویر کا ایک طوفان کھڑا ہوا ہے تو مولوی چاروں شانوں اوندھا اس کے آگے لیٹ گیا ہے۔ جب اس کو حرام قرار دیتا تھا تب بھی وہ تصاویر کی حرمت سے ناواقف تھا اور آج بھی وہی حالت ہے۔

ابنت الجون کے نکاح کا بخاری میں اصل قصہ

بخاری میں اتنا ہے کہ ابنت الجون کو نبی ۖ کے پاس ایک باغ کے کمرے میں لے جایا گیا اور نبی ۖ نے خلوت میں کہا کہ مجھے خود کو ہبہ کردو تو اس نے کہا کہ کیا ملکہ بھی ایک بازارو کے حوالے خود کو کرسکتی ہے؟۔ نبی ۖ نے ہاتھ بڑھایا تو اس نے کہا کہ میں آپ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں۔ جس پر نبی کریم ۖ نے فرمایا کہ آپ نے اس کی پناہ مانگی جس کی پناہ مانگی جاتی ہے۔ اور دو چادر دے کر کسی سے کہا کہ اس کو اپنے گھر پہنچادو۔ (صحیح بخاری)۔ اس پر بخاری کے شارح نے لکھا کہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ نبی ۖ نے بغیر نکاح کے اس سے خلوت کیسے کی؟۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ نبی ۖ کا صرف آپ کو طلب کرنا نکاح کیلئے کافی تھا چاہے وہ راضی تھی یا نہیں اور اس کا ولی راضی تھا یا نہیں۔ اس جواب کو دیوبندی مکتبہ فکر کے مولانا سلیم اللہ خان اور بریلوی مکتبہ فکر کے علامہ غلام رسول سعیدی نے بھی اپنی اپنی بخاری کی شرح میں نقل کرکے تھوڑی عقل سے کام نہیں لیا اور پوری دنیا میں سنت کا مذاق بنادیا۔ حالانکہ نبی ۖ نے اس کا حق مہر ادا کیا تھا۔ اس کے باپ نے خود پیشکش کی تھی اور ازواج مطہرات نے بناؤ سنگھار کرکے نبی ۖ کے پاس بھیجا تھا۔ انہوں نے سوکناہٹ کی وجہ سے ابنت الجون کو سمجھایا تھا کہ یہ یہ کہنا ہے تاکہ نبی ۖ اس کو فارغ کریں۔ پھر جب نبی ۖ نے فارغ کیا تو اس کے گھر والوں نے کہا تھا تو بڑی کمبخت ہے کہ اس شرف سے محروم رہی۔ یہ واقعہ حضرت یوسف علیہ السلام کے قصے سے بھی زیادہ احسن اسلئے تھا کہ نبی ۖ نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ اگر لڑکی راضی نہ ہو تو اس کو واپس گھر بھیجا جائے اور ہاتھ لگانے سے پہلے اس کی رضامندی کیلئے بھرپور جانچ پڑتال بھی کی جائے اور یہ ازواج مطہرات کو پتہ تھا۔
چونکہ یہ خلع کا معاملہ بنتا تھا اسلئے جو حق مہر دیا تھا وہ بھی اپنی جگہ پر تھا اور اس کے علاوہ چادریں دیں تو وہ نبی ۖ کی طرف سے مزید اضافہ تھا۔ اگر قرآن اور سنت کی ایک ایک بات کو ملایا جائے تو رسول اللہ ۖ کی سیرت طیبہ قرآن کا مرقع نظر آتی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ علماء و مفتیان نے تو قرآن کی واضح تعلیمات کا بھی اپنی فقہ کی کتابوں میں معاملہ بگاڑ دیا ہے۔ اللہ کرے کہ مذہبی طبقہ قرآن کی طرف رجوع کرکے اپنے کردار اور اپنے علم کے ذریعے عوام کی بہترین رہنمائی کرے۔

(نوٹ: عورت کے حقوق پر مارچ2024کاشمارہ ضرب حق کی ویب سائٹ پر مکمل پڑھیں۔)
اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ مارچ۔ عورت مارچ2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

 

عورت کو خلع کا حق نہ ملنے کے وہ بہت خطرناک نتائج جن کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا (پارٹ 4)

عورت کو خلع کا حق نہ ملنے کے وہ بہت خطرناک نتائج جن کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا (پارٹ 4)

البقرہ232اور اس کی تحریف میں عورت کی اذیتیں؟

اللہ نے فرمایا:اور جب تم نے طلاق دی عورتوں کو ، پس وہ پورا کرچکیں اپنی عدت تو اب ان کو مت روکو کہ وہ اپنے شوہروں سے نکاح کریں جب وہ آپس میں معروف طریقے سے راضی ہوں۔ یہ نصیحت اس کو کی جاتی ہے تم میں سے جو اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور آخرت کے دن پر اور اس میں تمہارے واسطے زیادہ تزکیہ اور زیادہ طہارت ہے۔ اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ (البقرہ :آیت232)
اس آیت میں یہ بھی واضح کردیا کہ اگر طلاق کے بعد ایک اچھی خاصی مدت گزر چکی ہو اور عورت کو اپنے شوہر کے پاس جانا ہو تو اللہ کی طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں ہے اور دوسرے لوگ بھی اس میں کوئی رکاوٹ کا کردار ادا نہ کریں۔ آج اگر یہ مہم چل جائے تو بہت سارے جوڑوں ، ان کے بچوں ، خاندانوں اور معاشروں کی زندگی میں زبردست انقلاب برپا ہوجائے گا۔ اور اسی میں معاشرے کیلئے تزکیہ بھی ہے اور پاکیزگی بھی۔ لیکن یہ ان کیلئے ہے جو اللہ اور آخرت پر ایمان بھی رکھتے ہوں۔ عورتوں کو جس کی وجہ سے اذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ تمام معاملات ایک ایک کرکے اللہ نے حل کردئیے ہیں۔
سورہ بقرہ کی آیت233میں میاں بیوی کی جدائی کے احکام ہیں۔ جس میں بچوں کے خرچے کی ذمہ داری باپ پر ڈالی گئی ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ ”ماں کو اس کے بچے کی وجہ سے ضرر نہ پہنچائی جائے اور نہ باپ کو بچے کی وجہ سے ضرر پہنچائی جائے”۔ اور جو ذمہ داری بچے کے خرچے کی باپ پر ہے اسکے وارث پر بھی اس کے مثل ہے۔ افسوس کہ قرآن میں ذمہ داریوں کا ذکر ہے اور مذہبی طبقے کی وجہ سے عدالتوں میں لڑائی ہوتی ہے اور باپ کو بچے کا مالک قرار دے کر ماں کو محروم کردیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ سراسر غلط ہے۔ بچہ کسی کی ملکیت نہیں ہوتا۔ تعلیم و تربیت ، رضاعت اور خرچے کے لحاظ سے ماں باپ پر جو ذمہ داریاں ہوتی ہیں وہ بھی عیاں ہیں اور جب بچہ بڑا بنتا ہے تو اس کی ذمہ داری والدین کو سنبھالنا ہوتی ہے۔ ایک طرف عورت کو طلاق دیکر اس کے تمام مالی حقوق سے اس کو محروم کردیا جاتا ہے دوسری طرف اس کا لخت جگر بھی اس سے چھین لیا جاتا ہے۔60،60سال کے بعد بھی بیٹا اپنی ماں سے جدائی کے بعد ملتا نظر آتا ہے۔ریاستی جبر و تشدد کا رونا رونے والامعاشرہ حق بجانب ہے لیکن معاشرتی نظام پر کوئی توجہ دینے والا نہیں ہے۔ جب باپ اپنے بچوں کو ان کی ماں سے دور کرنے کی سزا دے سکتے ہیں تو پھر ریاستی نظام سے شکوہ کرنا بنتا ہے ؟۔لیکن اس کے اوپر کوئی توجہ بھی دے گا؟۔ یہ مشکل ہے۔
سورہ بقرہ کی ان تمام آیات میں جتنا بڑا سبق معاشرے کو دیا گیا ہے وہ سب کچھ تلپٹ کردیا گیا ہے اور اس میں احادیث صحیحہ کو بالکل غلط انداز میں پیش کرکے مسائل بگاڑے گئے ہیں۔ اگر ان کو صحیح پیش کیا جائے تو خواتین پرہی نہیں مسلمان معاشرے پر بھی اس کے بہت دور رس اثرات پڑیں گے۔
ان آیات کا خلاصہ سورہ طلاق کی پہلی دو آیات میں بھی طلاق کے حوالے سے موجود ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے نبی ! جب تم لوگ عورتوں کو چھوڑو تو ان کو عدت تک کیلئے چھوڑ دو۔ اور عدت کا احاطہ کرکے شمار کرو۔ اور اللہ سے ڈرو جو تمہارا رب ہے۔ ان کو مت نکالو ان کے گھروں سے اور نہ وہ خود نکلیں مگر جب کھلی فحاشی کا ارتکاب کریں۔ اور یہ اللہ کی حدود ہیں اور جو اللہ کی حدود سے تجاوز کرے تو اس نے اپنے نفس کے ساتھ ظلم کیا۔ تمہیں خبر نہیں شاید اللہ اس اختلاف کے بعد موافقت کی کوئی صورت پیدا کرلے۔ اور جب وہ پہنچے اپنی عدت کو تو ان کو معروف طریقے سے رکھ لو یا معروف طریقے سے الگ کردو۔ اور گواہ بنادو اپنے میں سے دو عادل افراد کو۔ اور گواہی دو اللہ کیلئے۔ یہی ہے جس کے ذریعے سے نصیحت کی جاتی ہے اس کو جو ایمان رکھتا ہے اللہ اور آخرت کے دن پر اور جو اللہ سے ڈرا تو وہ اس کیلئے نکلنے کا راستہ بنادے گا۔ (سورہ طلاق:آیت1،2)۔
حضرت رکانہ کے والد نے رکانہ کی ماں کو طلاق دی اور پھر دوسری عورت سے شادی کی۔ اس عورت نے نبی ۖ سے شکایت کی کہ اس کے پاس بال کی طرح چیز ہے۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ رکانہ کے بچے اس سے کس قدر مشابہ ہیں۔ اس عورت کو طلاق دینے کا فرمایا اور پھر رکانہ کی ماں سے رجوع کرنے کا پوچھا۔ انہوں نے کہا کہ وہ تو 3طلاق دے چکا ہے۔ نبی ۖ نے فرمایا: مجھے معلوم ہے اور پھر سورہ طلاق کی ابتدائی آیات تلاوت فرمائیں۔ (ابوداؤد شریف)۔ طلاق کے حوالے سے فقہاء نے اپنی کتابوں میں اتنا گند بھرا ہے کہ اگر ایک طرف قرآن و احادیث کا واضح نقشہ ہو اور دوسری طرف اس گند کو عوام کے سامنے پیش کیا جائے تو خطرہ ہے کہ وہ مشتعل ہوکر مساجد اور مدارس میں علماء و مفتیان پر پل پڑیں گے۔ ہماری علماء و مفتیان سے گزارش ہے کہ قرآن و سنت کی طرف جلد از جلد لوٹ آئیں۔

بشریٰ بی بی کو عدت میں نکاح پر عدالتی سزا کا مسئلہ

قرآن و سنت میں عدت کے حوالے سے جو بھرپور وضاحتیں ہیں افسوس کہ مدارس کا نصاب اس میں ہدایت سے زیادہ گمراہی پھیلارہا ہے۔ قرآن میں سب سے پہلی عدت ایلاء یا ناراضگی کی صورت میں ہے۔ جس میں طلاق کی وضاحت نہ ہو۔ آیت226البقرہ میں بالکل واضح ہے اور یہی وہ عدت ہے جس کی وجہ سے دورِ جاہلیت میں بھی خواتین کو بڑی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور آج بھی خواتین اس سے دوچار ہیں۔ اگر طلاق کا اظہار شوہر نہیں کرتا تو ساری زندگی عورت اس کے انتظار میں بیٹھی نہیں رہے گی بلکہ4ماہ اس کی عدت قرآن میں واضح ہے۔ پھر طلاق واضح الفاظ میں دینے کی وضاحت آیت228میں واضح ہے۔ جس میں طہرو حیض کے3ادوار ہیں ۔ اور حیض نہ آتا ہو یا اس میں ارتیاب یعنی شک کمی و زیادتی کا مسئلہ ہو تو پھر عدت3ماہ ہے۔ عورت کو ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دی جائے تو اس کی کوئی عدت نہیں ہے۔ بیوہ کی عدت4ماہ10دن ہے۔ سورہ بقرہ آیت234۔ عورت کو حمل ہو تو طلاق کی صورت میں عدت بچے کی پیدائش ہے۔
احادیث صحیح میں خلع کی عدت ایک حیض یا ایک ماہ ہے۔ بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور مانیکا نے آخری بیان میں بھی کہا کہ مجھ سے طلاق مانگی اور یہی خلع ہے۔ اس تحریری طلاق کے بعد بشریٰ بی بی کی عدت ایک ماہ یا ایک حیض بنتی تھی۔ ڈیڑھ مہینے کے بعد عمران خان سے نکاح کیا تھا اور اس کا نکاح بالکل درست تھا۔ حنفی مسلک والے خلع کی حدیث کو بالکل غلط طریقے سے رد کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بیوہ کی عدت ٹھوس4ماہ10دن رکھی ہے جس کا تقاضہ یہ تھا کہ بیوہ کو حمل ہو یا نہ ہو مگر اس کی عدت4مہینے10دن ہی ہو۔ احادیث کے اندر بیوہ کو اختیار دیا گیا ہے کہ اگر اس کے بچے کی پیدائش4ماہ10دن سے پہلے ہو تو بھی اس کی عدت پوری ہے۔ چونکہ عدت یاانتظار عورت ہی نے کرنا ہوتا ہے اسلئے ان کی ترجیحات کو حنفی مسلک نے حدیث کے مطابق ترجیح دی ہے۔ لیکن دوسری طرف خلع کی حدیث کو حنفی مسلک والے نہیں مانتے تو یہ ان کی بہت بڑی غلطی ہے۔ جس کی وجہ سے نہ صرف حدیث پر بلکہ حنفی مسلک پر بھی زد پڑتی ہے۔ اسلئے کہ لونڈی و غلام کے مسئلے پر عدت اور طلاق میں قرآن کے مقابلے میں حنفی مسلک کو احادیث پر ہی بھروسہ کرنا پڑتا ہے۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ عدت کی اصل بنیاد بچے کی پیدائش ہے تو یہ بالکل لغو بکواس ہے۔ پھر بیوہ کیلئے4ماہ10دن اور طلاق شدہ کیلئے3ماہ یا3حیض کا تصور بھی نہیں رہتا ہے۔ البتہ قرآن میں یہ واضح ہے کہ طلاق میں عورت پر عدت کا حق شوہر کا بنتا ہے۔ اس کی وجہ اصل میں وہی ہے کہ طلاق کی صورت میں شوہر کو مالی خمیازہ بھی بھگتنا پڑتا ہے اور عورت کی بھی جدائی چاہت نہیں ہوتی اور دونوں کا مفاد بھی اسی میں ہے کہ زیادہ مدت تک انتظار کیا جائے۔ جب گھر بار اور شوہر کی طرف سے بھی تمام منقولہ و غیر منقولہ جائیداد کی عورت مالک بنتی ہے تو عدت طلاق و عدت وفات کا دورانیہ بھی زیادہ ہے۔ دوسری طرف خلع میں جب عورت کچھ مالی معاملات سے دستبردار ہوتی ہے تو اس کی عدت ایک حیض یا ایک ماہ بھی کافی ہے اسلئے بشریٰ بی بی کی سزا کا کوئی حق نہیں بنتاہے۔
اگر اسلامی تعلیم کے مطابق عورت کو خلع اور طلاق میں شوہر کی طرف سے دی ہوئی مالی چیزوں کا مالک بنادیا جاتا تو مغربی اور ترقی یافتہ دنیا بھی اس کی پیروی کرتی۔ عورت صنف نازک ہے اور اس کو مرد کے مقابلے میں برابر کے نہیں زیادہ حقوق دئیے گئے ہیں۔ لیکن یہ حقوق ان کو ملتے نہیں ہیں۔ مشترکہ گھر کی مالک بیوی ہوتی ہے۔ جو سورہ طلاق میں بھی واضح ہے کہ ان کو ان کے گھروں سے مت نکالو۔ اور نبی ۖ کے وصال کے بعد ازواج مطہرات کے حجرے بھی ان کے ذاتی تھے اور ان کی اجازت سے حضرت ابوبکر و حضرت عمر وہاں مدفون ہوئے ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ نے حضرت حسن کو بھی تدفین کی اجازت دی تھی لیکن مروان نے آپ کو دفن نہیں ہونے دیا تھا۔ باغ فدک پر حضرت فاطمہ کے حوالے سے معاملے کا ذکر ہے لیکن حجروں میں اولاد کی وراثت کے حق کی کوئی بات نہیں تھی۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ عمران خان کو جمائمہ کی جائیداد میں حصہ مل رہا تھا مگرعمران خان کی جائیداد میں جمائمہ کا کوئی حصہ نہیں تھا اور نہ ریحام خان کا تھا۔ ریاست مدینہ کی رٹ لگانے سے مدینے کی ریاست قائم نہیں ہوگی بلکہ قرآن و سنت پر عمل کرنے سے مدینے کی ریاست قائم ہوگی۔ یہ صرف بشریٰ بی بی کا مسئلہ نہیں بلکہ پونے2ارب مسلمانوں کا مسئلہ ہے اور صرف ریاست کو ٹھیک کرنے کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ گمراہی کے اڈے مدارس کو بھی ٹھیک کرنا ہے۔

عورت کے حق مہر کی مقدار اور حق طلاق کا مسئلہ

اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ آیت234میں بیوہ کی عدت کو واضح کیا اور اس میں عدت کے بعد بیوہ کو اپنی مرضی کا مالک قرار دیا۔ اگر وہ چاہے تو قیامت اور جنت تک اسی وفات شدہ شوہر کے ساتھ اس کا نکاح باقی رہے گا۔ اور اگر وہ چاہے تو دوسرے شخص کی طرف سے بھی نکاح کی دعوت قبول کرسکتی ہے۔ آیت235میں اللہ تعالیٰ نے عدت کے دوران اشارہ کنایہ سے نکاح کا پیغام بیوہ کو دینے کی اجازت دی ہے لیکن پکا وعدہ کرنے سے منع کیا ہے۔ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر مذہبی طبقات نے جہالت کی بھرمار سے پتہ نہیں کیا کیا بکواسات کئے ہیں۔ اس کی وجہ قرآن و سنت کے موٹر وے کو چھوڑ کر فقہی علماء کا بھول بھلیوں میں خود بھی گمراہ ہونا ہے اور دوسروں کو بھی گمراہی میں ڈالنا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اور تم پر کوئی حرج نہیں ہے کہ اگر تم عورتوں کو چھونے سے پہلے طلاق دے دو۔ اور ان کا حق مہر مقرر کرو تو ان کو رقم دو مالدار اپنی قدرت اور غریب اپنی قدرت کے مطابق۔ معروف متاع ۔ اچھوں پر حق ہے اور اگر تم نے چھونے سے قبل طلاق دی اور ان کا حق مہر مقرر کیا تو مقرر آدھا حق مہر تم پر فرض ہے۔ مگر یہ کہ عورتیں درگزر کریں یا جن کے ہاتھ میں نکاح کا گرہ ہے وہ درگزر کریں۔ اگر مرد درگزر کریں تو یہ تقویٰ کے قریب ہے اور آپس میں ایک دوسرے پر فضل نہ بھولو۔ بیشک اللہ تمہارا عمل دیکھتا ہے۔ (البقرہ: آیت236،237)۔اس آیت میں یہ واضح ہے کہ حق مہر شوہر پر وسعت کے مطابق فرض ہے اور ہاتھ لگانے سے پہلے بھی طلاق دے تو آدھا حق مہر دینا فرض ہے۔ لیکن اگر عورت آدھے میں سے کچھ چھوڑنا چاہتی ہو یا جس کے ہاتھ میں نکاح کا گرہ ہے وہ چھوڑنا چاہتا ہو تو اس کی گنجائش ہے لیکن تقویٰ کے قریب یہ ہے کہ مرد اپنی طرف سے رعایت کرے۔ چونکہ عورت خلع نہیں لے رہی ہے اورمرد طلاق دے رہا ہے اسلئے نکاح کا گرہ بھی اس کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ اور بنیادی بات یہ ہے کہ دونوں میں سے کون مالی قربانی دے تو مرد کی طرف سے مالی قربانی کو تقویٰ کے زیادہ قریب قرار دیا گیا ہے۔ اس آیت سے عجیب و غریب نتیجہ یہ اخذ کیا گیا ہے کہ طلاق دینا صرف مرد کا حق ہے اور عورت کا خلع لینے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ حالانکہ یہ بہت فضول اور لغو دلیل ہے۔ جبکہ سورہ نساء آیت21میں نکاح کی نسبت عورت کی طرف کی گئی ہے۔ جہاں مرد سے کہا گیا ہے کہ اس پر بہتان لگاکر محروم کرنے کا سوچنا بھی غلط ہے۔ یہاں بھی یہی ترغیب دی گئی ہے کہ غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے رعایت لینے کے بجائے عورت کو رعایت دو جبکہ طلاق بھی تم ہی تو دے رہے ہوناں!۔
ایک عورت نکاح کرنا چاہتی تھی تو اس نے خود کو نبی ۖ کے سامنے پیش کردیا۔ نبی ۖ نے اس سے نکاح کرنے میں اپنے لئے کوئی دلچسپی نہیں لی تو ایک صحابی نے کہا کہ یا رسول اللہ ۖ! مجھے اس کی ضرورت ہے۔ نبی ۖ نے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس مال ہے؟۔ اس نے کہا کہ نہیں۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ جاؤ اگرچہ گھر میں کوئی لوہے کی انگوٹھی کیوں نہ ہو۔ اس کے پاس وہ بھی نہیں نکلی تو نبی ۖ نے قرآنی سورتوں کو یاد کرانے کی ذمہ داری اس کو سونپ دی۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس کچھ نہیں تھا تو آپ کے سسر نبی نے بکریاں چرانے کے عوض اپنی ایک بیٹی سے نکاح کا مہر مقرر کردیا۔ اس دور میں بکریاں چرانے سے جتنا معاوضہ8سال میں بنتا تھا اور عورت کی جگہ نوکری کرنا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف سے حق مہر تھا۔ چونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی رہائش اور کھانے پینے کا خرچہ بھی اسی گھر میں تھا اس لئے حق مہر بھی ٹھیک ٹھاک رکھ دیا۔ جبکہ اس صحابی نے اپنی گھر والی کی رہائش و خرچہ اٹھانا تھا اسلئے تعلیم کی ذمہ داری سونپ دی۔ اس سے فقہاء نے غلط نتیجہ اخذ کیا ہے کہ لوہے کی انگوٹھی کے برابر حق مہر بھی کافی ہے۔ حالانکہ اس کے پاس لوہے کی انگوٹھی بھی نہیں تھی اور ہوتی تو یہ اس کی وسعت کے مطابق کل سرمایہ تھا۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا کہ اے نبی ! یہ تیرا ہی خاصہ ہے کہ اگر کوئی عورت خود کو ھبہ کرنا چاہے کسی اور کی یہ خاصیت نہیں ہے۔ تاکہ قیامت تک مذہبی طبقات کو سنت نبوی سے دلیل پکڑ کر عورتیں ھبہ کرنے کا حیلہ نظر نہ آئے۔ اگر فقہاء اور محدثین کی کتابوں کو کھنگالا جائے تو انسانیت حیران ہوگی کہ جس فقیہ کے نزدیک جتنی کم از کم مقدار میں چور کا ہاتھ کٹ سکتا ہے اتنی کم از کم مقدار ایک عورت کے حق مہر کی ہے۔ کسی کے نزدیک10درہم، کسی کے نزدیک1چونی، کسی کے نزدیک 1پیسہ۔ حالانکہ چور کے ہاتھ سے تشبیہ دینا افسوسناک ہے۔ ایک شخص کی دیت100اونٹ ہے اور ایک ہاتھ کی دیت50اونٹ ہے۔ ”چور جتنی مقدار میں ایک عضو سے محروم ہوتا ہے اتنے حق مہر میں عورت کے عضو کا شوہر مالک بن جاتا ہے”۔( کشف الباری :مولانا سلیم اللہ خان)۔

(نوٹ: عورت کے حقوق پر مارچ2024کاشمارہ ضرب حق کی ویب سائٹ پر مکمل پڑھیں۔)
اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ مارچ۔ عورت مارچ2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

 

عورت کو خلع کا حق نہ ملنے کے وہ بہت خطرناک نتائج جن کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا (پارٹ 3)

عورت کو خلع کا حق نہ ملنے کے وہ بہت خطرناک نتائج جن کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا (پارٹ 3)

البقرہ229اور اس کی تحریف میں عورت کی اذیتیں؟

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:” طلاق دومرتبہ ہے۔پھر معروف طریقے سے روکنا یا احسان کیساتھ چھوڑ نا۔ اور تمہارے لئے حلال نہیں کہ جو کچھ بھی ان کو دیا ہے کہ اس میں سے کچھ بھی واپس لے لو مگر یہ کہ دونوں کوخوف ہو کہ وہ دونوںاللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے اور اگر تمہیں خوف ہو کہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو پھر دونوں پر کوئی حرج نہیں عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں ۔ یہ اللہ کی حدود ہیں ،ان سے تجاوز مت کرو، جو اللہ کی حدود سے تجاوز کرے تو وہی لوگ ظالم ہیں” ۔(البقرہ229)
آیت228میں اللہ تعالیٰ نے طلاق شدہ خواتین کیلئے عدت کے تین ادوار کی وضاحت کردی اور اس میں عدت کے3ادوار میں3مرتبہ طلاق کی بھی وضاحت کردی۔ نبیۖ نے فرمایا کہ قرآن میں آیت229میں دومرتبہ طلاق کے بعد تیسری مرتبہ احسان کیساتھ رخصت کرنا تیسری طلاق ہے۔ جس کا مولانا سلیم اللہ خان نے کشف الباری اور علامہ غلام رسول سعیدی نے نعم الباری میں ذکر کیا ہے۔
صحیح بخاری کتاب الاحکام ، کتاب الطلاق ، کتاب العدت اور کتاب التفسیر میں عبداللہ بن عمر کے واقعہ کی وضاحت ہے کہ نبی ۖ نے فرمایا کہ ” بیوی کو اپنے پاس طہر کی حالت میں رکھو، یہاں تک کہ حیض آجائے۔ پھر طہر کی حالت میں پاس رہے یہاں تک کہ حیض آجائے اور پھر طہر کی حالت آجائے تو اگر چھوڑ نا چاہتے ہو تو ہاتھ لگائے بغیر چھوڑدو اور رجوع کرنا چاہتے ہو تو رجوع کرلو۔ یہ وہ عدت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اس طرح سے طلاق کا حکم فرمایا ہے”۔ قرآن وحدیث میں معاملہ واضح ہے۔
مذہبی طبقے نے قرآن میں تضادات اور تحریفات کا نقشہ اپنے زنگ آلودہ گمراہ دلوں میں جمادیا ہے کہ اگر کسی نے ایک ساتھ3طلاق کہہ دیا تو عدت میں بھی قرآن کے واضح احکام کے برعکس رجوع کا دروازہ بند ہوجائے گا۔ اور دومرتبہ طلاق کے بعد بھی غیر معروف طریقے سے رجوع کی اجازت ہے۔ حنفی مسلک کے نزدیک رجوع کیلئے نیت شرط نہیں ہے۔ شہوت کی نظر پڑگئی تو رجوع ہوجائے گا ۔ شافعی مسلک کے نزدیک رجوع کیلئے نیت ضروری ہے ۔اگر نیت کے بغیر جماع کرلیا تو بھی رجوع نہ ہوگا۔
اللہ تعالیٰ نے اس آیت229میں یہ واضح کردیا ہے کہ عدت کے تیسرے مرحلے میں چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا تو پھر جو کچھ عورت کو دیا ہے اس میں سے کچھ واپس لینا جائز نہیں ہے۔ البتہ اگر کوئی ایسی چیز ہے جو واپس نہیں کی گئی اور دونوں کو خدشہ ہو اور فیصلہ کرنے والوں کو بھی خدشہ ہو کہ پھر وہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے تو وہ پھر اس دی ہوئی چیز کو واپس کرنے میں دونوں پر حرج نہیں ہے۔ اس میں خلع کا کوئی تصور نہیں ہے لیکن مذہبی طبقات نے واضح آیت کے برعکس اس سے خلع مراد لیا ہے۔ مگر دومرتبہ طلاق اور تیسری مرتبہ طلاق کے بعد خلع کا تصور کہاں سے آسکتا ہے؟۔ آیت229کے الفاظ سے بالکل واضح ہے کہ جو شوہر نے دیا ہے اس میں سے کچھ بھی واپس لینا جائز نہیںہے ۔جو سورہ النساء آیت20اور21میں بھی بالکل واضح ہے لیکن یہاں اس چیز کا استثنیٰ ہے کہ اگران دونوں کو اور فیصلہ کرنے والوں کو یہ خوف ہو کہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے۔ تو پھر دی ہوئی چیز فدیہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ اسی صورت کی بات ہے کہ جب عورت کی کسی اور شخص سے شادی ہوجائے۔ جب دوسرے شخص سے شادی ہوجائے گی اور کوئی چیز ایسی ہوگی کہ پہلے سے رابطے کا ذریعہ بنے گی جس سے دونوں جنسی خواہشات میں پڑکر اللہ کی حدود توڑنے میں ملوث ہوسکتے ہوں تو پھر اس کو واپس کرنا بنتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک ایک چیز بہت وضاحت کیساتھ بیان کرکے واضح کردی ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی اللہ کے بیان کردہ حدود سے نکل کر مذہبی فتوے دینا بہت بڑا ظلم ہے۔ اللہ نے طلاق میں مالی تحفظ دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ شوہر نے جو چیز یں دی ہیں وہ واپس لینا جائز نہیں اور علماء ومذہبی طبقے نے اس سے خلع مراد لے کر اللہ کی حدود سے بہت بڑا تجاوز کیا ہے۔ جس میں عورت کو بلیک میل کرنے کی اجازت کا سامان فراہم کیا گیاہے۔اسلئے ان سب کو ظالم قرار دیا گیا ہے۔
حنفی مسلک کے نزدیک دو مرتبہ طلاق کے بعد یہ خلع آنے والی تیسری طلاق کیساتھ ضم ہے۔ شافعی مسلک کے نزدیک یہ جملہ معترضہ ہے۔ اسلئے کہ خلع مستقل طلاق ہے اور پھر تیسری طلاق کی گنجائش نہ رہے گی۔ حنفی مسلک کے نزدیک عربی قواعد کا یہ تقاضہ ہے کہ فان طلقہا کا حرف ”ف” تعقیب بلامہلت کیلئے آتا ہے اور اس کو خلع سے منسلک کیا جائے۔ علامہ ابن قیم نے زاد المعاد میں ابن عباس کے قول کو نقل کیا ہے کہ دو مرتبہ طلاق کے بعد تیسری مرتبہ کے فدیہ سے اس تیسری طلاق کو منسلک کیا جائے لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہاں خلع نہیں بلکہ وہ صورت مراد ہے کہ جس میں صلح کا دروازہ مکمل بند کیا جائے۔

البقرہ230میں تحریف اور عورت کی اذیت کا سفر

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:” پس اگر اس نے طلاق دے دی تو اس کے بعد اس کیلئے حلال نہیں ہے یہاں تک کہ وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح کرلے۔ پھر اگر اس نے طلاق دے دی تودونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ رجوع کرلیں اگر دونوں کو گمان ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود کو قائم رکھ سکیں گے اور یہ وہ اللہ کی حدود ہیں جو اس قوم کیلئے بیان کرتا ہے جو علم رکھتے ہیں۔ (البقرہ آیت230)
سب سے بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ یہ تیسری طلاق ہے۔جب رسول اللہ ۖ نے پوچھنے پر واضح کردیا کہ قرآن میں تیسری طلاق آیت229میں دو مرتبہ طلاق کے بعد احسان کیساتھ رخصت کرنا تیسری طلاق ہے تو پھر مترجمین اور مفسرین کا اس کو تیسری طلاق قرار دینا ہی بہت غلط ہے۔
جب اللہ نے اس سے پہلے کی آیات میں باہمی صلح واصلاح اور معروف کی شرط پر رجوع کی عدت کے اندر اجازت دی ہے اور اس کی بعد کی آیات231اور232میں عدت کی تکمیل کے بعد بھی باہمی رضامندی اور معروف طریقے سے رجوع کی اجازت دی ہے ۔تو کیا اللہ کے قرآن میں اتنا بڑا تضاد ہوسکتا ہے کہ آگے پیچھے کی آیات میں عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد تو واضح رجوع کی اجازت ہو اور درمیان میں اتنا سخت حکم ہو کہ رجوع کی کوئی گنجائش نہیں ہے؟۔
اللہ تعالیٰ نے ایک ایک باطل رسم کا خاتمہ کیا ہے ،اگر قرآن پر تھوڑا سا تدبر کیا جائے تو پھر اس کے سارے راز کھل جاتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ آیت230البقرہ میں یہ نیا حکم نہیں ہے بلکہ آیت228البقرہ میں بھی یہی حکم ہے کہ باہمی اصلاح کے بغیر شوہر کا رجوع حرام ہے۔ اس سے پہلے آیت226البقرہ میں بھی یہی ہے کہ ایلاء میں عورت کی رضامندی کے بغیر رجوع حرام ہے اور آیت229البقرہ میں بھی یہی حکم ہے کہ معروف کے بغیر رجوع حرام ہے ۔ جب ان آیات کی وضاحتوں کے باوجود بھی عورت کی رضامندی کی کہانی سمجھ میں نہیں آئی اور شوہر کے رجوع کیلئے باہمی اصلاح اور معروف کی شرط نظر انداز کردی گئی تو اللہ نے یہ زبردست چال چلی کہ آیت230میں حلالہ کی حرام لذت کا دانہ ڈال دیا۔ جب قرآن نے کوئی مداوا نہیں کیا تھا تب بھی نبی ۖ نے حلالہ کی رسم کو خدا کی لعنت اور بے غیرتی کی انتہاء قرار دیا تھا۔لیکن آیت228میں اس لعنت کے خاتمے کا علاج آیا تو بھی یہ اندیشہ تھا کہ نااہل لوگ پھر شیطان کے جال میں آجائینگے۔ پھر اس کا مزید علاج آیت229البقرہ میں بھی ہوا۔ لیکن دوسری طرف عورت کے حق واختیار کا مسئلہ تھا جو ان آیات228اور229میں نظر انداز کئے جانے کا خدشہ تھا اسلئے آیت230البقرہ میں عورت کے اختیار کو اس انداز میں واضح کرنے کی ضرورت پڑگئی کہ کسی طرح کی رکاوٹ نہ ڈالی جائے۔
اگر تاریخ میں دیکھا جائے تو حلالہ سے اتنی عزتیں نہیں لٹی ہیں جتنی عورتیں ظالم مردوں کے ظلم سے آزاد ہوگئی ہیں۔ آج بھی عورت کو جس طرح کا قانونی اختیار چاہیے وہ اس کو دوسری آیات کی روشنی میں علماء ومفتیان دینے کو تیار نہیں ہیں۔ حالانکہ ایک مرتبہ کی طلاق ہو،یا دومرتبہ کی طلاق یا پھر ناراضگی و ایلاء کا مسئلہ ہو ،عورت کو علیحدگی کا اختیار نہیں ملتا ہے جبکہ قرآن وسنت میں واضح ہے۔
محرمات کی فہرست میں اللہ نے واضح کیا ہے لاتنکحوا مانکح آبائکم من النساء الا ما قد سلف ” نکاح مت کرو، جن عورتوں سے تمہارے آباء نے نکاح کیا ہے مگر جو پہلے گزر چکا ہے”۔ اگر اس وضاحت کو چھوڑ کر سورہ مجادلہ سے ان الفاظ کو لیا جائے کہ ”مائیں نہیں مگر صرف وہی جنہوں نے جن لیا ہے ” اور اس کی بنیاد پر سوتیلی ماں کو حلال قرار دیا جائے تو کتنی بڑی کم بختی ہوگی؟ اور یہی صورتحال آیت230کی بھی ہے کہ جب عورت کو طلاق کے بعد بھی شوہر اپنی غیرت سمجھ کر کسی اور سے نکاح نہیں کرنے دیتا تھا تو اللہ نے بہت واضح الفاظ میں یہ رسم جاہلیت ختم کردی مگر سیاق وسباق سے نکال کر حلالے کی لعنت پھر دورِ جاہلیت سے بھی زیادہ خطرناک جاری کی گئی ۔
سوال :اللہ نے کیوں فرمایا کہ ”دوسرے شوہر سے طلاق کے بعد دونوں کو رجوع کی اجازت ہے کہ جب دونوں کو اللہ کی حدود کو قائم کرنے کا گمان ہو؟”۔ جواب: پہلے شوہرمیں مردانہ کمزوری ہو اور دوسرے میں مالی ۔ دوسرا شوہر طلاق دے اور پہلا دوبارہ نکاح کرے تو دونوں کو گمان ہو کہ جب عورت پہلے مردانہ کمزوری والے شوہر کے پاس جائیگی تو عورت کی جنسی خواہش اور شوہر کی کمزوری حدود پر قائم رہ نہ سکنے کا سبب بن سکتی ہے یہ رابطہ آیت229میں واضح ہے۔ صحابہ وہ قوم تھی جن کی زبان میں قرآن نازل ہوا لیکن پھر اسلام اجنبیت کا شکار ہوتے ہوتے یہاں پہنچ گیا۔

البقرہ:231میںمعنوی تحریف اور عورت کی اذیت

”اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اور پھر وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو پس ان کو معروف طریقے سے روک لو یا معروف طریقے سے چھوڑ دو۔ اور تم ان کو اسلئے نہ روکو کہ ان کو ضرر پہنچاؤ تاکہ تم زیادتی کرو۔ اور جو ایسا کرے تو اس نے اپنی جان پر ظلم کیا۔اور اللہ کی آیات کو مذاق مت بناؤ۔ اور اس نعمت کو یاد کرو جو اللہ نے تمہارے اوپر کی ہے۔ اور جو اللہ نے تمہارے اوپر کتاب میں سے نازل کئے اور حکمت جس سے تمہیں نصیحت کی جاتی ہے۔ اور اللہ سے ڈرو ، اور جان لو کہ اللہ ہر چیز کو جانتا ہے” ۔ (البقرہ231)
قارئین ! اس بات کو اچھی طرح سے ذہن نشین بلکہ دل نشین کرلیں کہ اللہ کی کتاب بے ربط نہیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے یہ واضح کردیا کہ عدت کی تکمیل پر عورت دوسری جگہ نکاح کرنے کا حق رکھتی ہے تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ عدت کی تکمیل کے بعد بھی شوہر کو رجوع کرنے کا اختیار دیا جائے؟۔ اس بات کو اچھی طرح سے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ طلاق میں عورت جدائی نہیں چاہتی ہے اسلئے اگر عدت کی تکمیل کے بعد بھی شوہر معروف طریقے سے یعنی صلح واصلاح کی شرط پر رجوع کرنا چاہے تو اس کو اللہ نے واضح کیا ہے۔ مولوی کم بخت نے عورت کے اختیار کو نظر انداز کرتے ہوئے یہاں بھی یہ فلسفہ جھاڑ دیا ہے کہ اللہ نے شوہر کو رجوع کی اجازت دی ہے اور عورت کا اختیار طلاق رجعی میں ختم کردیا ہے۔
فقہاء نے فقہ وفتاویٰ کی کتابوں میں عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد رجوع کیلئے بدترین حد بندی کرتے ہوئے فتاویٰ رائج کیا ہے کہ ” جب عورت کی عدت حمل والی ہو توآدھے سے کم بچے کی پیدائش کے وقت رجوع ہوسکتا ہے لیکن آدھے سے زیادہ بچے کی پیدائش کے بعد رجوع نہیں ہوسکتا”۔ حالانکہ اگر یہ کہا جائے کہ مفتی رفیع عثمانی یا مولانا فضل الرحمن کی ماؤں کو ان کی پیدائش سے پہلے طلاق دی گئی تھی اور جب ان کی نصف نصف پیدائش ہوئی تو مفتی محمد شفیع اور مفتی محمود نے رجوع کرلیا تو کیا یہ رجوع درست تھا؟۔ اور اس کے بعد کی اولادیں مفتی تقی عثمانی اور مولانا عطاء الرحمن وغیرہ کی پیدائش کو کیا جائزقرار دیا جائے گا؟۔اگر ان علماء نے قرآن اور خواتین کی عزتوں کا پاس نہیں رکھا تو پھر ان کے معزز رہنے کا کوئی حق نہیں بنتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے مفتی تقی عثمانی اور قاری حنیف جالندھری کو بغل میں بٹھا کر کہا کہ اللہ حکومت یزید کو دیتا ہے اور عزت حسین کو دیتا ہے لیکن حسین بنے تو سہی!۔
ایک طرف رونا رویا جاتا ہے کہ ”ریاست ماں ہوتی ہے اور ماں نے اختیار چھین لیا ہے ”۔ دوسری طرف عورت ”جو حقیقی ماں ہوتی ہے اور اس کو قرآن نے اختیار دیا ہے لیکن مولوی نے اس کا اختیار اپنی جہالت کے باعث چھین لیا ہے”۔ عورت مارچ والے اس اختیار کا مطالبہ کریں جو قرآن نے دیا ہے اور علماء ومفتیان نے اپنے جاہلانہ نصاب تعلیم میں چھین لیا ہے تو ایک بہت بڑا انقلاب برپا ہوگا۔
طلاق کی صورت میں جب عورت معروف طریقے سے رجوع کیلئے عدت کی تکمیل کے بعد راضی ہو تو پھر شوہر کو یہ تلقین کی گئی ہے کہ اسلئے مت روکو کہ ان کو ضرر پہنچاؤ ، تاکہ زیادتی کرو۔ جو ایسا ظلم کرے گا تو اس نے درحقیقت اپنی جان پر ظلم کیا۔ اسلئے کہ اللہ دنیا اور آخرت میں اس کے بدلے پر قادر ہے۔ یہ جو حکمرانوں ، عدالتوں اور دنیا کی عالمی طاقتوں کا رونا روتے ہیں تو اس کی وجہ قرآنی تعلیمات سے ان کی دوری اور عورت پر مظالم کے نہ ختم ہونے والے سلسلے ہیں جس کا احساس تک بھی کسی کو نہیں ہے۔ اللہ نے یہاں سورہ احزاب میں زید کی بیوی کو نعمت قرار دینے کی طرح سبھی کیلئے اپنی اپنی بیوی کی نعمت کا ذکر کیا ہے اور اس کے ساتھ اللہ کی کتاب میں اتارے ہوئے ان احکام اور حکمت کا بھی جس کے ذریعے وہ نصیحت کرتا ہے۔ پھر اللہ سے ڈرنے کی تلقین کی ہے جو کسی کے کرتوت سے بے خبر نہیں ہے۔
قرآن میں فاذابلغن اجلھن ” جب وہ عورتیں اپنی عدت کو پہنچ جائیں”البقرہ231،232اور234میں آیا ہے اور سورہ طلاق کی دوسری آیت میں بھی۔ ترجمہ کرنے والے تحریف کے مرتکب ہوئے ہیں لیکن مفتی محمد تقی عثمانی نے اپنے ”آسان ترجمہ قرآن ” میں حد کردی ہے اور ان الفاظ کا بالکل متضاد ترجمے کا ارتکاب کیا ہے۔ حالانکہ جس طرح بیوہ کو عدت کے ان الفاظ سے رجوع کا حق حاصل ہے اور آیت232البقرہ میں بھی عدت کی تکمیل کے بعد مزید زبردست وضاحت ان الفاظ سے ہے کہ باہمی رضامندی اور معروف طریقے سے نکاح کرنے سے مت روکو،اسی طرح آیت231البقرہ اور سورہ طلاق کی آیت2میں بھی معروف طریقے سے رجوع کی گنجائش عدت کے بعد بھی ہے۔ فقہاء نے جس طرح کے خود ساختہ مسائل نکالے ہیں اگر ان پر عوام کی نظر پڑگئی تو مدارس ومساجد کے علماء ومفتیان کا تماشہ دیکھنے کیلئے لوگ جائینگے کہ یہ کتنی عجیب مخلوق ہے جو اس طرح کے خرافات پڑھتے پڑھاتے ہیں۔

(نوٹ: عورت کے حقوق پر مارچ2024کاشمارہ ضرب حق کی ویب سائٹ پر مکمل پڑھیں۔)
اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ مارچ۔ عورت مارچ2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

 

عورت کو خلع کا حق نہ ملنے کے وہ بہت خطرناک نتائج جن کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا (پارٹ 2)

عورت کو خلع کا حق نہ ملنے کے وہ بہت خطرناک نتائج جن کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا (پارٹ 2)

البقرہ:223میںمعنوی تحریف اور عورت کی اذیتیں

اللہ تعالیٰ نے آیت222البقرہ میں حیض ، اذیت ،گند اورتوبہ کرنے والوں اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں کی جن الفاظ میں وضاحت کردی ہے وہ بالکل واضح ہے ۔ قرآن میں اس عالم کو کتے کی طرح کہا گیا ہے جس نے علم کے ذریعے دنیا کو طلب کرنے کا پیشہ اختیار کررکھا ہو۔ مثلہ کمثل الکلب ان تحملہ یلھث او یترکہ یلھث ” اس کی مثال کتے کی طرح ہے۔اگر اس پر بوجھ لا دو تو بھی ہانپتا ہے اور چھوڑ دو تو بھی ہانپتا ہے”۔مدارس کے مسند ارشاد پر بیٹھے ہوں یا جنہوں نے مذہب کے نام پر پیری مریدی کی مسند ارشاد سجار کھی ہے یا نام نہاد دانشور وں نے مذہبی لبادہ اوڑھ رکھا ہو سبھی زد میں اس وقت آتے ہیں۔جب ایک طرف حق بات ہو اور دوسری طرف قرآن کی تحریف کا مسئلہ ہو۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ” تمہاری عورتیں تمہارا اثاثہ ہیں۔ ان کے پاس آؤ جس طرح تم چاہو۔اور آگے بھیجو،اپنی جانوں کیلئے اور اللہ سے ڈرو، بیشک تم نے اس سے ملنا ہے اور مؤمنوں کو بشارت دو”۔
اس آیت223سے پہلے آیت222میں حیض اور اذیت کی وضاحت ہے۔ حیض کی حالت میں اذیت کا بھی ذکر ہے اور مقاربت سے بھی منع کیا گیا ہے۔ فقہ وتفسیر کی کتابوں میں جو فضولیات پڑھائی جاتی ہیں ان میں اذیت کی بات کو مدنظر رکھا جاتا تو پھر اس بات پر کوئی جھگڑا نہ ہوتا کہ مرد کو کہاں سے کیا کرنے کی اجازت ہے اور کہاں سے کیا کرنے کی اجازت نہیں ہے؟۔ شیعہ سنی کے ہاں یہ معاملہ بہت افسوسناک حد تک بیان کیا جاتا ہے۔ جسے کتے کی دم کی طرح مسلکی بنیاد پر سیدھا نہیں کیا جاسکتا۔
ایرانی نژاد ایک امریکن عورت نے اسلام میں عورت کے مقام پرکتاب لکھی ہے جس میں عورت کی انتہائی تذلیل کے حقائق بیان کئے گئے ہیں۔ یہ بھی لکھا ہے کہ عورت کی قیمت ادا کی جائے تو لونڈی کی صورت میں اس سے نکاح کی ضرورت نہیں پڑتی ہے ۔وہ اس سے بدفعلی کرسکتا ہے۔ حالانکہ یہ غلط ہے اور اس کی تفصیل سے وضاحت کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ یہ بھی لکھا ہے کہ ” ایک شخص نے نکاح کیا اور وہ عورت سے پیچھے کی طرف سے جماع کرتا تھا۔ عورت کی خواہش پوری نہیں ہوتی تھی تو عورت نے خلع کا مطالبہ کیا۔ وہ خلع دینے پر راضی نہیں تھا۔ آخرکار حق مہر کی رقم سے خلع کی زیادہ رقم ادا کردی تو اس نے عورت کی جان چھوڑ دی”۔ حالانکہ شوہر پر عورت کو اذیت دینے کی حرمت واضح ہوتی اور اس سے توبہ کی تلقین ہوتی تو عورتیں گناہگار نہ بنتیں بلکہ مردوں کو گناہگار قرار دیا جاتا۔ غلط تفسیر اور قرآن کے واضح الفاظ سے منحرف ہونے کے جو خطرناک نتائج نکلے ہیں اس سے مذہبی طبقے نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ مدارس میں بڑے پیمانے پر عورتیں تعلیم حاصل کررہی ہیں ان کو اپنے حقوق کیلئے اُٹھنا پڑے گا۔
اگر آیت222البقرہ اور آیت223البقرہ میں قرآن کی معنوی تحریف کا راستہ روکا جاتا تو پھر آنے والی آیات میں بھی عورت کو مشکلات سے نکالا جاسکتا تھا۔ سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ عربی لغت میں کہیں بھی اذی کے معنی گند کے نہیں ہیں لیکن قرآن کے اردو تراجم میں اس کے معانی گند کے لکھے گئے ہیں۔ اذی کے معانی اذیت اور تکلیف کے ہیں۔ اذیت اور تکلیف سے توبہ کی جاتی ہے اور اللہ سے ڈرنے کی تلقین اسلئے کی گئی ہے کہ عورت کو اذیت نہ پہنچائی جائے۔ شیخ الحدیث مفتی عزیزالرحمن سواتی ثم لاہوری اور جامع امدادالعلوم فیصل آباد کے شیخ الحدیث مولانا نذیر احمدفیصل آبادی قوم لوط کے عمل میں مبتلاء تھے۔ اگر اس جیسے لوگ اپنی بیگمات کو اذیت نہیں دیتے تو یہی ان کا تقویٰ تھا۔ صابر شاہ کے بارے میں اس مدرسہ کے طلبہ نے میڈیا کو بتایا کہ ” صابر شاہ میں یہ علت تھی”۔ ویڈیو نے دنیا کے لوگوں کو چونکادیا تھا لیکن مدارس اور سکولوں میں ماحولیاتی آلودگی پھیل چکی ہے جس کے علاج کا قرآن نے ذکر کیا ہے ۔ واللذان یأتیانھا فآذوھما فان تابا و اصلحا فأعرضوا عنھما ان اللہ کان توابًا رحیمًا”اور اگر دو مرد بدکاری کے مرتکب ہوں تو ان دونوںکو اذیت دیدو۔ اگر دونوں توبہ کرلیں اور اپنی اصلاح کرلیں تو پھر ان دونوں سے اعراض کرو۔اللہ توبہ قبول کرنے والا رحم والا ہے”۔
سورہ النساء آیت16میں قوم لوط کے عمل پر سزا کی اتنی زبردست وضاحت کے باوجود بھی مسالک میں اس کی سزا پر فقہی اختلافات مضحکہ خیز ہیں۔مفتی عزیز الرحمن کو مینار پاکستان سے گرا یا جارہاتھا؟۔

البقرہ224،225،226،227میں اذیتیں؟

یہ آیات طلاق کے احکام کا مقدمہ ہیں۔ آیت224البقرہ میں یہ واضح ہے کہ اللہ اور مذہب کے نام کو ڈھال بناکر نیکی، تقویٰ اور لوگوں کے درمیان صلح میں رکاوٹ ڈالنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ جب میاں بیوی صلح کیلئے راضی ہوں تو اللہ کے نام پر ان کو صلح سے روکنا بہت بڑی اذیت ہے اور اللہ نے اس آیت کے ذریعے اس جاہلیت کو ختم کرنے کا واضح اعلان کردیا ہے۔ صحیح بخاری کی ایک روایت کو بالکل غلط پیش کیا جاتا ہے کہ ایک عورت کا شوہر نامرد تھا اور وہ اپنے سابقہ شوہر کی طرف لوٹنا چاہتی تھی لیکن نبیۖ نے اس کو حلالہ کے بغیر اجازت نہیں دی۔ وفاق المدارس کے صدر مولانا سلیم اللہ خان نے اپنی کتاب ”کشف الباری شرح صحیح البخاری” میں لکھ دیا ہے کہ ”اس حدیث کی حنفی مسلک میں اتنی حیثیت نہیں کہ اس کو قرآن کے مقابلے میں لایا جائے”۔ اس روایت میں عورت اپنے شوہر سے خلاصی چاہتی تھی اور دوسری روایت میں ہے کہ شوہر نے اس کو جھٹلادیا تھا کہ وہ نامرد ہے اور اصل مسئلہ مار پیٹ اور لڑائی کا تھا۔ ایک کم عقل مفتی بھی ایسی حرکت نہیں کرسکتا کہ کسی عورت کو مجبور کرے کہ نامرد سے حلالہ کراؤ ،تو نبیۖ پر تہمت کیسے لگائی جاسکتی ہے؟۔ بخاری نے جس عنوان سے درج کیا ہے اس کا غلط ہونا بخاری سے ہی ثابت بھی ہے۔
احادیث کے ذخائر میں کوئی بھی ایسا واقعہ نہیں کہ میاں بیوی طلاق کے بعد ملنا چاہتے ہوں اور نبی ۖ نے ان کو منع کیا ہو۔ اور ہوتا بھی تو قرآن سے متصادم قرار دیکر اس کی تردید کرنا ایمان کا تقاضا ہوتا اسلئے کہ قرآن کے خلاف کوئی حدیث کیسے ہوسکتی ہے؟۔ یہ عورت کیلئے اذیت ہے۔
آیت225میں ان تمام الفاظ کو لغو قرار دیا گیا ہے جو طلاق صریح وکنایہ سے متعلق عوام کسی طرح کے وسوسوں کا شکار ہوتے ہیں کہ یہ کہنے ، سوچنے اور لکھنے سے طلاق تو نہیں ہوئی؟۔ لیکن دل کے گناہ سے پکڑنے کی وضاحت ہے۔ دل کا گناہ یہ ہے کہ طلاق کا پروگرام ہو لیکن اس کا اظہار نہ کیا جائے بلکہ یونہی عورت سے ناراضگی اختیار کرکے چھوڑ دیا جائے اسلئے کہ پھر عورت کی عدت میں ایک ماہ کا اضافہ ہوگا۔ آیت226البقرہ میں طلاق کا اظہار کئے بغیر ناراضگی کی عدت چار ماہ ہے اور آیت227البقرہ میں واضح ہے کہ اگر طلاق کا عزم تھا تو اللہ سننے جاننے والا ہے۔ یہ عزم دل کا گناہ ہے کیونکہ اس کا اظہار نہ کرنے سے عورت کی عدت میں ایک ماہ کا اضافہ ہے اور اگر اس نے طلاق دینی تھی تو اس کا اظہار بھی کردیتا اور پھر اس کی عدت تین ماہ بن جاتی۔ ایک مہینے زیادہ انتظار کی اذیت عورت کو دینے پر اللہ کی طرف سے پکڑ ہوگی اور اسی کی وضاحت ہے۔
فقہاء اور مفسرین نے ان آیات میں عورت کی اذیت کو نظر انداز کیا ہے اور ان آیات کا اصل مفہوم کتوں کی طرح تقسیم کرکے نوچ ڈالا ہے۔ ایک مسلک کہتا ہے کہ عورت کو چار ماہ بعد طلاق ہوجائے گی اسلئے کہ شوہر نے اپنا حق استعمال کرلیا اور وہ یہ ہے کہ4مہینے عورت کے پاس نہیں گیا اور دوسرا مسلک کہتا ہے کہ4مہینے نہیں زندگی بھر بھی اس کو طلاق نہیں ہوگی اسلئے کہ شوہر نے اپنے حق کو استعمال نہیں کیا ہے۔ حالانکہ یہ4مہینے ناراضگی میں عورت کی عدت ہے۔ رسول اللہ ۖ کی مثال قرآن میں واضح ہے۔ آپ ۖ اپنی ازواج مطہرات سے ناراض ہوگئے۔ ایک مہینے بعد جب آپۖ نے رجوع کیا تو اللہ نے فرمایا کہ ” آپ رجوع نہیں کرسکتے۔ ان کو طلاق کا اختیار دے دیں۔ اگر وہ رہنا چاہیں تو ان کی مرضی ہے اور نہیں رہنا چاہیں تو بھی ان کا اختیار ہے”۔
یہ ایک جاہلیت کی رسم تھی کہ جب شوہر ساری زندگی عورت کو یرغمال بناکر رکھنا چاہتاتھا تو پھر وہ کھلے لفظوں میں طلاق نہیں دیتا تھا۔ عورت بیچاری زندگی بھر رُل جاتی تھی۔ اللہ نے عورت کے حق کو واضح کرنے کیلئے قرآنی آیات اتاری ہیں۔ اگر فقہاء ومفسرین نے عورت کی اذیت کا خیال رکھا ہوتا تو پھر کھلی اور واضح آیات میں ایسے تضادات کا شکار نہ بنتے۔ قرآن کی یہ پہلی آیت ہے جس میں4مہینے کی عدت واضح ہے۔ ناراضگی میں4مہینے اور طلاق میں تین ادوار کی عدت ہے۔ مدارس اور مساجد کے علماء ومفتیان نے اگر عزت کمانی ہے تو اللہ کی آیات کو مان کر واضح کریں۔

البقرہ228اور علماء کی معنوی تحریفات کی اذیتیں؟

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:” طلاق شدہ عورتیں3ادوار تک اپنی جانوں کو انتظار میں رکھیں۔ اور ان کیلئے حلال نہیں ہے کہ وہ چھپائیں جو اللہ نے ان کے رحموں میں پیدا کیا ہے۔اگر وہ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہیں۔ اور ان کے شوہر اس مدت میں ان کو لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں اگر ان کا پروگرام اصلاح کا ہو۔اور ان عورتوں کیلئے اسی کی طرح کے حقوق ہیں جیسے عورتوں پر شوہروں کے ہیں معروف طریقے سے۔اور مردوں کا ان پر ایک درجہ ہے اور اللہ زبردست حکمت والا ہے”۔ (البقرہ:228 )
دورِ جاہلیت میں دوانتہائی غیراخلاقی اور غیر قانونی مذہبی مسائل تھے۔ پہلا مسئلہ یہ تھا کہ جب کوئی شخص نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاق دیتا تو حلالہ کی لعنت کے بغیر اس کیلئے وہ حرام بن جاتی تھی۔ اس آیت میں اس غیرفطری مذہبی مسئلے کو اڑاکر رکھ دیا کہ رجوع کا تعلق ایک ساتھ تین طلاق اور حلالہ کی لعنت سے نہیں بلکہ عدت میں باہمی اصلاح سے ہے۔ دوسرامسئلہ یہ تھا کہ جب شوہر بیوی کو طلاق دیتا تھا تو جتنی مرتبہ چاہتا تھاوہ عدت کے دوران رجوع کرسکتا تھا۔اللہ تعالیٰ نے عورت کی رضامندی ، صلح اور اصلاح کی شرط پر معروف طریقے سے رجوع کی وضاحت کرکے اس باطل مسئلے کو ختم کردیا۔ جب تک عورت راضی نہ ہو تو شوہر ایک مرتبہ میںبھی رجوع نہیں کرسکتا ۔ اور عورت راضی ہو تو پھر جتنی مرتبہ چاہیں باہمی اصلاح سے اللہ تعالیٰ نے رجوع کا دروازہ کھلا رکھا ہے۔ اسلئے اسلام دین فطرت ہے۔
عورت صنف نازک ہے ، اس کو حیض آتا ہے، اس کو بچے جننے ہوتے ہیں۔ بچے کو دودھ پلانا ہوتا ہے اور جب اس کی ایک مرتبہ شادی ہوتی ہے تو طلاق سے اس پر اثر پڑتا ہے اسلئے اللہ نے اس کو عدت کا بھی پابند بنایا ہے۔ عورتوں اور مردوں کے حقوق برابر ہیں لیکن عدت کے اعتبار سے ایک درجہ مردوں کا ان پر اضافی ہے۔ اس میں بھی عورت کیلئے ہی مصلحت ہے اور مردوں کو اس کا ناجائز فائدہ اٹھانے سے منع کیا گیا ہے۔بلکہ حق مہر کی صورت میں عورت کیلئے بڑی انشورنس اور شوہر پر جرمانہ عائدہے۔
علماء ومفتیان اور مذہبی طبقات نے اس آیت میں پہلی تحریف یہ کی ہے کہ ایک ساتھ تین طلاق پر رجوع کا دروازہ بند کیا ہے۔ دوسری تحریف یہ کی ہے کہ اللہ نے صلح واصلاح اور معروف کی شرط پر شوہر کو رجوع کی اجازت دی ہے اورگمراہ مذہبی طبقات نے غیر مشروط رجوع کی اجازت دی ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اگر شوہر ایک مرتبہ طلاق کے بعد عدت کے آخر میں رجوع کرلے اور پھر طلاق دے ۔ اس طرح پھر عدت کے آخر میں رجوع کرلے اور پھر طلاق دے تو عورت کو ایک کی جگہ تین عدتیں گزارنی پڑیں گی۔ جب اللہ تعالیٰ نے عورت کو ایک ہی عدت کا پابند بنایا ہے اور مولوی شوہر کو تین عدتوں کا حق دیتا ہے۔پھر تو جس حدیث میں آتا ہے کہ طلاق مذاق میں بھی ہوجاتی ہے تو اس کا مفہوم ہی غیر مؤثر ہوجاتا ہے اسلئے کہ شوہر کہے گا کہ میں نے طلاق رجعی دی ہے۔ مسائل کے نام پر بکواسات ہیں۔
بہشتی زیور میں ہے ۔ مسئلہ : شوہر نے بیوی سے کہا کہ طلاق طلاق طلاق۔ یہ تین طلاقیں ہوگئیں۔ اگر شوہر کی نیت ایک طلاق کی ہو تو پھر ایک طلاق ہوئی ۔ا س طلاق رجعی سے شوہر یکطرفہ رجوع کرسکتا ہے اور عورت اس کی بدستور بیوی رہے گی لیکن بیوی پھر بھی سمجھے کہ اس کو تین طلاقیں ہوگئی ہیں۔
جب عورت کو اصلًا طلاق نہیں ہوئی ہے اور شوہر نے ایک طلاق رجعی سے رجوع کرلیا ہے اور بیوی اس کے نکاح میں ہے تو پھر بھی عورت کو فتویٰ دیا جارہاہے کہ وہ سمجھے کہ اس کو تین طلاقیں پڑ چکی ہیں۔ اب وہ حلالے کیلئے دوڑے گی اور شوہر کہے گا کہ میری بیوی ہے اس کو جانے نہیں دوں گا۔ مولوی اس کا علاج کیا کرے گا؟۔ اگر خود کسی بڑے عالم اور مفتی کے گھر میں یہ واقعہ ہو تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟۔
حضرت عمر حکمران تھے ۔ جب ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں اور پھر عورت رجوع کیلئے راضی نہیں تھی تو فیصلہ دے دیا کہ رجوع نہیں ہوسکتا۔ اور ٹھیک فیصلہ دیا اسلئے کہ رجوع کیلئے باہمی رضامندی شرط ہے۔ حضرت عمر کے پاس ایک اور مسئلہ آیا کہ شوہر نے بیوی کو حرام قرار دیا تھا۔ حضرت عمر نے پوچھا عورت رجوع کیلئے راضی تھی تو رجوع کی اجازت دیدی۔ حضرت علی کے پاس ایک مسئلہ آیا ۔ شوہر نے بیوی کو حرام قرار دیا تھا۔ عورت راضی نہیں تھی تو حضرت علی نے رجوع کو حرام قرار دیا تھا۔

(نوٹ: عورت کے حقوق پر مارچ2024کاشمارہ ضرب حق کی ویب سائٹ پر مکمل پڑھیں۔)
اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ مارچ۔ عورت مارچ2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

 

پانچویں پارے کے شروع میں شادی شدہ عورت کو لونڈی بنانے کا تصور قرآن نے دیا ہے؟

پانچویں پارے کے شروع میں شادی شدہ عورت کو لونڈی بنانے کا تصور قرآن نے دیا ہے؟

ایران یا شیعہ کے ہاں متعہ اور سعودی یا عربوں کے ہاں مسیار کا تصور ہندوستان کی داشتاؤں اور مغرب کی گرل فرینڈز سے بھی بہت بدتر ہے اسلئے کہ اسلام کا حقیقی تصور اجنبیت کا شکار ہے

اسلام میں نکاح انتہائی قابل احترام تصور ہے ہمارے ہاں اگرچہ وقتی معاہدے یا ایگریمنٹ کا تصور بہت مجروح ہے اور ہونا بھی چاہیے لیکن نکاح جن حقوق کا نام ہے وہ یہاں مفقود ہیں

اسلام دین فطرت ہے۔ پردے سے متعلق مختلف آیات نازل ہوئی ہیں۔
اللہ نے فرمایا : نہیں ہے اندھے پر کوئی حرج اور نہ لنگڑے پر اور نہ بیمار پر اور نہ تمہاری جانوں پر کہ تم لوگ کھاؤ اپنے گھروں سے یا اپنے باپ کے گھر سے یا اپنی ماں کے گھر سے یا اپنے بھائی کے گھر سے یا اپنی بہن کے گھر سے یا اپنے چچا کے گھر سے یا اپنی پھوپھی کے گھر سے یا اپنے ماموں کے گھر سے یا اپنی خالہ کے گھر سے یا جس کے گھر کی کنجیوں کے تم مالک ہو یا اپنے دوست کے گھر سے ۔ نہیں کوئی گناہ تم پر کہ کھاؤ آپس میں مل کر یا الگ الگ ہوکر۔ پس جب تم گھروں میں داخل ہونے لگو تو سلام کہو اپنی جانوں پر دعائیہ کلمات کے ساتھ اللہ کے ہاں برکت اور اچھائی کے ساتھ۔ اسی طریقے سے اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی آیات بیان کرتا ہے تاکہ تم سمجھ لو۔ (سورہ النور:آیت61)۔
اس آیت میں روایتی پردے کا ذکر ہے۔ جو عرب کے زمانہ جاہلیت سے موجودہ دور تک ہر قوم اور ہر علاقے میں موجود ہے۔ جب کوئی اپنے خاص منصب یا عہدے کی وجہ سے مرجع خلائق بنتا ہے تو پھر اس کے پاس ایسے اجنبی لوگ بھی آتے ہیں جن میں منافق اور دشمن بھی ہوسکتے ہیں۔ جب نبی کریم ۖ لوگوں کیلئے مرجع خلائق بنے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی ازواج مطہرات کیلئے پردے کا خاص حکم بھی نازل فرمایا۔ ایک طرف حضرت عائشہ صدیقہ نے جنگ جمل میں خلیفہ راشد حضرت علی کے خلاف اپوزیشن کی قیادت کی اور دوسری طرف پردے کی وہ آیات جن میں گھروں کے اندر محصور ہوکر بیٹھنے کا حکم ہے۔ چونکہ بعد کے لوگ بال کی کھال اتارنے کے چکر میں اللہ کے احکام کو صحیح سمجھنے میں ناکام رہے اسلئے پردے کے احکام بھی ان کی نظروں میں متضاد اور اوجھل ہی رہے۔
رسول اللہ ۖ کو اللہ تعالیٰ نے بڑا امتیازی منصب عطا فرمایا تھا۔ ایک طرف عقیدتمندوں کے احترام کا مسئلہ تھا تو دوسری طرف بدو اعراب سے واسطہ تھا جو حجرات کے پیچھے سے پکارتے تھے اور ان کے بارے میں اللہ نے واضح کیا تھا کہ وہ یہ نہ کہیں کہ انہوں نے ایمان لایا بلکہ وہ یہ کہیں کہ ہم نے اسلام لایا۔ کیونکہ ایمان ابھی تک ان کے دلوں تک نہیں پہنچا تھا۔ عقیدتمندوں سے تو اُمہات المؤمنین کے احترام کی توقع ہوسکتی تھی لیکن بد عقیدہ اور بدبخت لوگوں کے علاوہ سادہ لوح لوگوں کی بھی کوئی کمی نہیں تھی۔ اسلئے اللہ تعالیٰ نے ایک طرف نبی ۖ کی ازواج کیلئے پردے کا خاص حکم نازل فرمایا اور دوسری طرف یہ تلقین کردی کہ ازواج مطہرات تمہاری مائیں ہیں۔ ان سے نکاح نہ کریں کیونکہ اس سے نبی کو اذیت ہوتی ہے۔ قرآن میں یہ آیات بہت واضح ہیں۔ آج کی دنیا میں بھی جن خواتین کے شوہر کوئی امتیازی مقام رکھتے ہیں تو ان کو نکاح کی دعوت دینا ان کی توہین سمجھی جاتی ہے۔ اسی طرح سے جب بعض لوگوں پر اجنبیت کا ازدہام ہو تو وہ پردے کا اہتمام کرتے ہیں۔
اس تمہید کے بعد یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ محصنات عربی میں بیگمات کو بھی کہتے ہیں جن میں وہ بیگمات بھی شامل ہیں جنکے شوہر زندہ ہیں اور وہ بیگمات بھی ہیں جن کے شوہر فوت ہوگئے۔ ایک عورت کیلئے اپنے شوہر کی اہمیت کیا ہوتی ہے اس کا اندازہ قرآن کی اس آیت سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ نے فرمایا: مردوں کو عورتوں کا محافظ بنایا گیا ہے بسبب اللہ کے فضل کے جو بعض پر بعض کو عطا کیا۔ اور جو مرد خرچہ کرتے ہیں ۔ پس عورتیں نیک ہیں ، عاجزی کرنے والی ہیں ، حفاظت کرنے والی ہیں غیب میںجو اللہ نے ان میں حفاظت کا جوہر رکھا ہے۔ اور جن کی بدخوئی کا خوف ہو تو ان کو سمجھاؤ اور ان کو الگ کرو ٹھکانوں میں اور ان کو مارو اگر وہ تمہاری مانیں تو ان کیلئے لڑنے کی راہیں تلاش نہ کرو۔ بیشک اللہ بلند بڑا ہے۔ (النسائ: آیت34)۔
صنف نازک عورت کو تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے اور زیادہ تر مرد اپنی کمائی خواتین پر لگاتے ہیں تو یہ بھی ایک فضیلت ہے۔ اور دوسری طرف کی فضیلت عورتوں کی ایسی صفات ہیں جو مردوں میں نہیں پائی جاتی ہیں۔ وہ فطرتاً نیک ہوتی ہیں، عاجزی کرنے والی ہوتی ہیں اور غیب میں اپنی عزت کی حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں۔ ایک طرف مرد طاقتور ہوتا ہے اور دوسری طرف عورت زبان کی تیز ہوتی ہے۔ پاکستان کے محافظ افواج پاکستان ہیں اور ان کے ہاتھ میں طاقت اور ڈنڈا ہے۔ اسی طرح سوشل میڈیا کے صحافیوں کی زبان بہت چلتی ہے۔ اگر ان میں یہ صفات پیدا ہوجائیں کہ وہ صالح بھی بن جائیں ، عاجز بھی بن جائیں اور غیب کی حالت میں حفاظت کرنے والے بھی بن جائیں اور پھر جب ایک دوسرے کے ساتھ ٹاکرہ ہو تو ایک دم سخت ڈنڈے چلانے کے بجائے پہلے مہینے میں ان کو سمجھانے سے کام لیا جائے دوسرے مہینے میں ان کے ٹھکانوں کو الگ کیا جائے اور پھر تیسرے مہینے میں ہلکی پھلکی مار پڑے تو پاکستان کے لوگ خود کو بہت خوش قسمت سمجھیں گے۔
اللہ نے مردوں کو مارنے کا حکم نہیں دیا ہے بلکہ ان کی مارنے کی طاقت کو کنٹرول کرنے کیلئے یہ حکم دیا ہے۔ جب ہلکی پھلکی مار کی ضرورت پڑے تو اس کا مطلب شوہر کا پیمانہ بھی لبریز اور عورت بھی اس پر نہ مانے تو دونوں میں پھر نباہ نہیں ہوسکتا۔ لیکن جدائی کیلئے پھر بھی ایک دم 3طلاق کا وہ شرعی مسئلہ نہیں ہے جس کے بعد دونوں مدارس اور مساجد کے طواف حلالہ کے چکر میں لگاتے ہیں بلکہ اللہ نے فرمایا : اور اگر تمہیں خوف ہو ان دونوں میں جدائی کا تو تشکیل دو ایک فیصلہ کرنے والا شوہر کے خاندان سے اور ایک فیصلہ کرنے والا بیوی کے خاندان سے۔ اگر ان کا ارادہ اصلاح کا ہو تو اللہ ان میں موافقت پیدا کردے گا۔ بیشک اللہ بہت علم رکھنے والا خبر رکھنے والا ہے۔ (النسائ: آیت35)
پانچویں پارے کے شروع میں ان محترم بیگمات خواتین کا ذکر ہے کہ جن کو کسی اور سے نکاح پر اس کے نام و نمود اور مفادات کا نقصان پہنچتا ہے۔ جس طرح آج کل کی ایسی خواتین جن کے شوہر وفات پاچکے ہیں اور ان کو بڑی بڑی پینشن ملتی ہے جیسے نشان حیدر والیاں وغیرہ۔ حکومت کی طرف سے ان کی مراعات اسی وقت ختم کردی جاتی ہیں جب وہ کسی اور سے نکاح کرتی ہیں۔ حرمت کے حوالے سے پوری فہرست بیان کرنے کے بعد آخر میں پہلے دو بہنوں کو اکھٹا کرنا منع کردیا جس میں ایک کے بعد دوسری سے نکاح ہوسکتا ہے لیکن دونوں کو اکھٹا نہیں کیا جاسکتا۔ پھر بالکل آخر میں سب سے کم درجے کی حرمت کا ذکر ہے۔ اس سے لونڈیاں مراد نہیں ہیں۔ رسول اللہ ۖ نے اپنے چچا کی بیٹی حضرت اُم ہانی کو نکاح کی پیشکش کی اور وہ اولین مسلمانوں میں سے تھیں۔ ان کے گھر میں ہی معراج کا واقعہ ہوا تھا۔ اس کو اپنے مشرک شوہر سے بڑی محبت تھی۔ جس کی وجہ سے اس نے اللہ کے حکم کے باوجود بھی ہجرت نہیں کی۔ فتح مکہ کے موقع پر حضرت علی نے اس کے شوہر کو قتل کرنا چاہا تو اس نے اپنے شوہر کیلئے نبی ۖ سے پناہ مانگی۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ اپنے شوہر کو اور جس کو بھی چاہو پناہ دے سکتی ہو۔ پھر اس کا شوہر عیسائی بن کر نجران چلاگیا تو نبی ۖ نے اس کو اپنے نکاح میں آنے کی دعوت دی۔ اس نے پیشکش کو قبول کرنے سے معذرت کرلی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں حکم نازل کیا کہ تمہارے لئے وہ چچا کی بیٹیاں حلال ہیں جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہے۔ پھر اللہ نے کسی بھی عورت سے نبی ۖ کو نکاح کرنے سے منع فرمایا اگرچہ اس کا حسن بہت بھلا لگے۔ پھر الا ما ملکت یمینک کی اجازت دے دی۔ جس عورت سے آپ کا معاہدہ ہوجائے۔ علامہ غلام رسول سعیدی نے علامہ بدر الدین عینی کے حوالے سے نقل کیا کہ نبی ۖ کی 28ازواج تھیں جن میں اُم ہانی بھی شامل تھیں۔ حالانکہ قرآن کی رو سے نبی ۖ کو نکاح سے منع کیا گیا تھا مگر معاہدہ کی اجازت تھی۔ تو یہ معاہدے والی ہی ہوں گی۔ اسلئے اُمہات المؤمنین میں شامل نہیں تھیں۔ جب اُم ہانی کو اپنے مشرک شوہر کیلئے اتنی بڑی مان تھی کہ اسکے بعد نبی ۖ سے عقیدت رکھنے کے باوجود بھی نکاح کے شرف کو قبول نہیں کیا تو اس سے خواتین کی فطرت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ پروین شاکر کو شوہر نے بیوفائی کرکے طلاق دی تھی لیکن پھر بھی اس کی وفاداری نے اُردو کی شاعری کو بہت بڑا شرف بخشا ہے۔ عورت کی فطرت سے ناواقف شوہر ہمیشہ بیوفائی بھی کرتے ہیں لیکن ان کو اس کا احساس تک بھی نہیں ہوتا۔ عورت کی اسی فضیلت کو اللہ تعالیٰ نے زبردست انداز میں بیان کیا ہے۔
سورہ النور میں گھروں میں کھانے کے حوالے سے : او ماملکتم مفاتیحہ او صدیقکم ”جن کی چابیوں کے تم مالک ہو یا تمہارے دوستوں کے”۔ ظاہر ہے کہ اس سے غلام و لونڈیاں اور آزاد دوست مراد لینا غلط ہوگا۔ ایک طرف قرآن نے لونڈی اور غلام کی ملکیت کو باطل قرار دیتے ہوئے اس کو ایک معاہدہ قرار دیا ہے چنانچہ لونڈی و غلام دونوں پر اس کا اطلاق بھی ہوتا ہے۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے جس طرح آزاد مردوں اور عورتوں کے درمیان نکاح کے علاوہ آزادی سے ایک معاہدے کی اجازت دی ہے تو اسی معاہدے کی اجازت لونڈی و غلام سے بھی دی ہے۔ جاگیردارانہ نظام تربیت یافتہ لونڈی و غلام فراہم کرتا تھا جب اللہ نے سُود کو حرام قرار دیا تو مزارعت کو بھی نبی ۖ نے سُود قرار دے دیا۔ اگر اس وقت سے اسلام جاگیردارانہ نظام کو ختم کردیتا تو پھر بادشاہوں کے دربار میں لونڈیوں کے سلسلے بھی نہ ہوتے۔ ہم نے اس پر کافی مرتبہ بہت کچھ دلائل لکھ دئیے ہیں۔
پانچویں پارے کے ابتدائی صفحے میں جو احکام بیان ہوئے ہیں ان میں محصنات اور ماملکت ایمانکم کی زبردست وضاحت ہے۔ صحیح بخاری میں عبد اللہ ابن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ سے صحابہ نے عرض کیا کہ کیا ہم خود کو خصی نہ بنالیں؟۔ نبی ۖ نے فرمایا : ایک دو چادر کے بدلے متعہ کرلو۔ لا تحرموا ما احل اللہ لکم من الطیبات حرام مت کرو جو اللہ نے تمہارے لئے حلال کیا ہے۔ بخاری کی اس روایت میں نبی ۖ نے متعہ کی علت بھی قرآن کی اس آیت سے واضح کی ہے۔ صحیح مسلم میں بھی عبد اللہ ابن مسعود نے اس علت کو اپنی طرف سے بھی واضح فرمایا ہے۔ مفسرین کہتے ہیں کہ عبد اللہ ابن مسعود نے اپنے مصحف میں متعہ کے حوالے سے الیٰ اجل مسمیٰ کی اضافی آیت لکھی تھی۔ حالانکہ جلالین کی طرح وہ تفسیر تھی جو حدیث کے مطابق تھی۔ سورہ النساء کی آیت3میں بھی ماملکت ایمانکم سے مراد لونڈیاں نہیں ہیں بلکہ جن لاچار لوگوں کے بس میں ایک بیوی تک بھی پہنچ نہ ہو تو ا سے مجبوری کی حالت میں خصی ہونے کے بجائے وقتی طور پر معاہدے کی اجازت کا معاملہ ہے۔ اگر دنیا کو قرآن کی صحیح سمجھ آئے تو وہ بھی اپنے لئے اس کو راہ ہدایت کا واحد ذریعہ سمجھے۔ اگر کوئی ایسی لڑکیاں ہوں جنہوں نے دوستیوں کے اندر معاہدے کا کردار ادا کیا ہو تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگرتمہیں بیوہ و طلاق شدہ تک بھی نکاح کیلئے میسر نہ ہوں تو پھر ایسی لڑکیوں کو بھی ان کے سرپرستوں کی اجازت سے نکاح میں لاسکتے ہیں لیکن اس وقت پھر اپنے سے ان کو کم تر مت سمجھو اور اللہ تمہارا ایمان جانتا ہے۔ اگر ان سے کوئی غلطی ہو تو پھر عام عورت کے مقابلے میں ان کو آدھی سزا ہے۔ اور اس میں بھی اگر مشکل میں پڑنے کا خوف نہ ہو تو درگزر کرو۔ (سورہ النسائ:آیات24،25)۔اسلام دنیا میں عیاشیوں کیلئے نہیں سرفروشی اور جانسوزی کیلئے آیا ہے۔ لیکن قرآنی آیات کی غلط تفاسیر سے نہ صرف عورت ذات کو اسلام سے متنفر کردیا گیا ہے بلکہ دنیا کے کفار بھی اس سے خطرات کھارہے ہیں۔میں اعلانیہ یہ بات کرتا ہوں کہ ہمارے ہاں جو بھی نکاح کے نام سے رشتے ہیں ان کی حیثیت نکاح کی نہیں ایگریمنٹ کی ہے جب خلافت قائم ہوگی تو پھر عورتوں کو قرآن کے مطابق نکاح کے شرعی اور قانونی حقوق ملیں گے اور وہ ایگریمنٹ نہیں ہوگا۔

(نوٹ: عورت کے حقوق پر مارچ2024کاشمارہ ضرب حق کی ویب سائٹ پر مکمل پڑھیں۔)
اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ مارچ۔ عورت مارچ2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

 

کیا سورہ النساء میں دو دو، تین تین ، چار چار عورتوں سے نکاح اور لا تعداد لونڈیاں جائز ہیں ؟

کیا سورہ النساء میں دو دو، تین تین ، چار چار عورتوں سے نکاح اور لا تعداد لونڈیاں جائز ہیں ؟

ایک طویل عرصے تک خلافت راشدہ کے بعد بنو اُمیہ ، بنو عباس کے بعد دنیا پر خلافت عثمانیہ کی حکمرانی قائم رہی ہے جس کا خاتمہ1924کو ہوا اور اب غیر مسلم اس کی احیاء سے خوفزدہ ہیں

جب ہم نے1991میں خلافت علیٰ منہاج النبوة کے قیام کیلئے آواز اٹھائی تھی تو اس وقت دنیا میں مذہبی طبقات کے اندر خلافت کا کوئی تصور نہیں تھاایران اور سعودی مذہبی حکومتیں تھیں۔

خلافت عثمانیہ کا عیاش اور باریش حکمران سلطان عبد الحمید اول جس کی ساڑھے4ہزار لونڈیا ں تھیںاور اس میں ہر رنگ اور ہر نسل کی لڑکیاں شامل تھیں کیا یہ قرآن میں جائز ہوسکتا تھا؟۔

اللہ نے مردوں اور عورتوں کو اپنی نگاہیں نیچے رکھنے کا حکم دیا ہے تو کیا زبردستی سے مردوں کو نگاہ نیچے رکھنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے؟۔ عورت کو پردے کا حکم ہے مگر اس کو مجبور کرنے کا حکم نہیں ہے

سعد اللہ جان برق نے اپنی کتاب ”دختر کائنات” میں بہت سے حقائق لکھے ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی ”پارلیمنٹ سے بازار حسن تک” کی کتابیں مارکیٹ میں آچکی ہیں۔ سعد اللہ جان برق نے محمد شاہ رنگیلا کی عیاشیوں پر بہت کچھ لکھا ہے اور سلطان عبد الحمید کی بھی ساڑھے 4ہزار لونڈیوں کا ذکر کیا ہے۔ حکمران جو کچھ کرتے رہے ہیں اس کے ذمہ دار وہ خود اور اس دور کے حالات ہیں۔ جب سلطان عبد الحمید اول اتنا عیاش تھا تو اس کی سرپرستی میں محمد شاہ رنگیلا نے بھی عیاشی کے علاوہ کیا کرنا تھا؟۔ آج دنیا میں مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے منصوبے ہیں۔ سعودی عرب کا جس دن فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کیلئے قدم اٹھا تو شاید مغربی دنیا حرمین شریفین مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کو بھی ایٹم بموں اور ہائیڈروجن بموں کی مدد سے صفحہ ہستی سے مٹادے۔ جس کیلئے مسلمانوں کو بہت اکسایا جارہا ہے۔ مسلمانوں نے افغانستان، عراق، لیبیا اور شام میں بھی کوئی موثر کردار ادا نہیں کیا تو فلسطین کے دکھ درد پر بھی محض اپنا دل دکھانے کے سوا اور کچھ نہیں کرسکتے ہیں۔ فلسطینیوں کی بربادی کو دیکھ کر مسلمان اور کچھ نہیں تو اپنا غم بھی بھول جائیں پھر بھی بہت قابل رشک ہوسکتے تھے۔ لیکن یہ المیہ ہے کہ فلسطینیوں کو بھول کر ہم سیاست اور قوم پرستی و فرقہ پرستی میں الجھے ہوئے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کار پورا مغرب اور ترقی یافتہ دنیا مسلمانوں کی ایسی دشمن کیوں بنی ہوئی ہے؟۔ اس کا جواب یہی ہے کہ سب سے زیادہ فحش پروگرام دیکھنے کا ریکارڈ مسلمانوں کے حصے میں آرہا ہے اور اگر ان کو بڑی مقدار میں لونڈیوں کی عیاشیاں میسر آئیں تو انہوں نے دہشتگردوںکی مدد سے پوری دنیا کے کفار کی ماؤں ، بہنوں، بیٹیوں اور بیگمات کو لونڈیاں بنانا ہے۔ اس خوف سے کہ ان جنگلیوں کے ہاتھوں میں اگر ان کی خواتین آگئیں تو اس سے بہتر ہے کہ مسلمانوں کا مرکز کعبہ اور مدینہ نہیں رہیں۔ عیسائی اس بات پر حیران ہیں کہ یہود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں بہت برا اعتقاد رکھتے ہیں لیکن عیسائی طاقتور ہونے کے باوجود تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیت المقدس پر اتنا جوش نہیں کھاتے ہیں جتنا وہ مسلمان کھارہے ہیں جنہوں نے اس سے اپنا رُخ پھیر لیا تھا۔ جب ان کا قبلہ بیت المقدس تھا تو ان کا بیت المقدس پر قبضہ نہیں تھا۔ اور جب بیت المقدس سے اپنا رُخ پھیر لیا تو پھر بیت المقدس پر قبضہ کرنا ایسا تھا جیسے یہود و نصاریٰ مسلمانوں کے قبلے پر اور مراکز پر اپنا قبضہ زبردستی سے جمائیں۔ ان کے نزدیک مسلمان ایک جنونی مخلوق ہیں اور ان کو اخلاق و اقدار کا کوئی پتہ نہیں ہے۔ دوسروں کیلئے اخلاقیات کے الگ پیمانے ہیں اور اپنے لئے الگ ہیں۔ جب وہ لونڈیوں کے لباس کا شرعی حکم بیان کرتے ہیں تو وہ اتنا مختصر اور گندہ لباس ہوتا ہے کہ مغرب کی عورتیں بھی بہت مشکل سے اپنے ماحول میں اس طرح کا لباس پہن کر شرمندگی سے دوچار ہوتی ہیں۔
ان کے ذہن میں یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ جب بھی تمہاری خلافت قائم ہو تو ان کو ذلیل کرکے غلام اور لونڈیاں بناؤ جو غیر مسلم ہیں۔ مسلمانوں کی شدید خواہش بھی یہی ہے کہ جس طرح جنت میں ہزاروں حوریں ان کے مقدر میں ہوں گی اسی طرح سے کافر کی عورتوں کو بھی ہزارں کی تعداد میں لونڈیاں بناکر رکھنا ان کا اہم فریضہ ہے، بس چلنے کی بات ہے۔
عورت مارچ والی خواتین سوچتی ہیں کہ اگر مسلمانوں کی خلافت قائم ہوگئی اور ہمیں گھروں میں بند کرکے بازاروں کو اغیار کی لونڈیوں سے سجایا گیا تو دنیا ہمارے لئے جہنم بن جائے گی۔ جب تک قرآن کے ٹھوس دلائل سے مسلمان عوام الناس ، شدت پسندوں، حکمرانوں، سیاستدانوں اور مذہبی طبقات کو مطمئن نہ کیا جائے تو سب ایک ایسی مایوسی کا شکار رہیں گے جس کا کوئی علاج نہیں ہے۔
اللہ نے فرمایا : اور اگر تمہیں ڈر ہو کہ یتیم لڑکیوں میں انصاف نہ کرسکو گے تو پھر تم نکاح کرو جن عورتوں کو تم چاہو دودو، تین تین، چار چار ۔ پھر اگر ڈرو کہ تم انصاف نہ کرسکو گے تو ایک ہی سے نکاح کرو۔ یا پھر جن سے تمہارا معاہدہ ہو۔ یہ اسلئے ہے تاکہ تم کسی ایک طرف نہ جھکو۔ (سورہ النسائ:3)
اس آیت اور اس قسم کی دوسری آیات سے یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ آزاد عورتیں زیادہ سے زیادہ چار ہوسکتی ہیں جن سے نکاح کیا جائے۔ اور لونڈیوں کی کوئی تعداد نہیں ہے چاہے ہزاروں میں ہوں یا لاکھوں میں۔ لونڈیوں کو اپنی خواہشات کیلئے استعمال میں رکھ سکتے ہیں۔ سلطان عبد الحمید اور دیگر کی طرف سے عیاشی کے بازار اسلئے سجائے گئے تھے کہ ان کو قرآن نے اجازت دی تھی اور علماء و مفتیان نے اس میں کوئی حرج نہیں سمجھا تھا۔ جب قرآن کا فتویٰ سامنے آجائے تو پھر کون غلط کہہ سکتا ہے؟۔
آیت شروع ہوئی ہے یتیم لڑکیوں کے ساتھ انصاف نہ کرنے کی وجہ سے اور پھر دو دو، تین تین، چار چار کی اجازت کے بعد انصاف نہ کرسکنے کی صورت میں ایک کی اجازت دی ہے یا پھر جن سے معاہدہ ہو۔ اب اس کی تشریح و تفسیر کا جاننا ضروری ہے کہ جن سے معاہدہ ہو ان سے کیا مراد ہے؟۔ ما ملکت ایمانکم ”جن کے مالک تمہارے معاہدے ہوں”۔ ما موصولہ ملکت فعل ایمان مضاف کم مضاف الیہ ۔ مضاف مضاف الیہ سے مل کر فاعل ۔ فعل اور فاعل مل کر صلہ۔ یہ عربی کی ترکیب ہے۔ جس سے ترجمہ بالکل درست سمجھ میں آئے گا۔ یعنی وہ عورتیں جن کے مالک تمہارے معاہدے ہیں۔ عام طور پر ملکت کا لفظ دیکھ کر یہ مغالطہ ہوتا ہے کہ اس سے مراد لونڈی ہے۔ حالانکہ جس طرح اس سے لونڈی مراد ہوسکتی ہے اسی طرح سے اس سے غلام بھی مراد ہوتا ہے۔ یہاں پر نہ تو لونڈی مراد ہے اور نہ غلام۔ بلکہ جس عورت کے ساتھ بھی معاہدہ ہوجائے وہی مراد ہے۔
سنی شیعہ احادیث ، تفسیر اور فقہ کی کتابوں میں متعہ کے حلال و حرام ہونے میں بڑی بحثیں ہیں۔ عام لوگوں کو جب تک تفصیلات کا علم نہ ہو تو وہ حقائق سمجھنے میں بہت مغالطہ کھاتے ہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ قرآن میں جس طرح آزاد مرد اور آزاد عورت کے ساتھ نکاح کی کھلے الفاظ میں اجازت ہے اسی طرح سے لونڈی اور غلام کے ساتھ بھی نکاح کی اجازت ہے۔ بلکہ اللہ نے فرمایا ہے: اور نکاح کراؤ جو تم میں سے ایامیٰ (طلاق شدہ و بیوہ) عورتیں ہیں اور اپنے صالح غلاموں کا اور لونڈیوں کا۔ اگر وہ فقراء ہیں تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کو غنی کردے گا۔ اللہ وسعت والا جاننے والا ہے۔ اور وہ لوگ عفت میں رہیں جو نکاح تک نہ پہنچ پائیں یہاں تک کہ اللہ اپنے فضل سے ان کو مستغنی (نکاح کی دولت سے )کردے۔ اور جو تمہارے غلاموں میں سے معاہدہ کرنا چاہتے ہوں تو ان کے ساتھ لکھنے کا معاملہ کرو۔ اگر تم ان میں خیر سمجھتے ہو۔ اور ان کو اس مال میں سے دو جو اللہ نے تمہیں دیا ہے اور اپنی ان لڑکیوں کو بغاوت (یابدکاری) پر مجبور مت کرو جو نکاح کے ذریعے اپنا تحفظ چاہتی ہوں تاکہ اس کی وجہ سے تم دنیاوی وجاہت حاصل کرو اور ان میں سے جن کو مجبور کیا تو اللہ انکے جبر کے بعد غفور رحیم ہے۔ (النور:32،33)
ان آیات میں ایک طرف بیوہ طلاق شدہ ، غلاموں اور لونڈیوں کے نکاح کا ذکر ہے اور دوسری طرف یہ وضاحت بھی ہے کہ اگر یہ فقیر ہیں تو اللہ ان کو امیر بنادے گا۔ پھر یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ اگر کوئی نکاح نہیں کرسکتا تو وہ پاکدامنی اختیار کرے یہاں تک کہ اللہ اس کو مستغنی بنادے۔ طلاق شدہ ، بیوہ اور لونڈی سے نکاح کرنا تو سب کو سمجھ میں آتا ہے لیکن غلام کے ساتھ نکاح کا کیا مطلب ہے؟۔ اس کو سمجھنا تھوڑا درکار ہے۔ جب ایک غلام کسی آزاد عورت سے کوئی نکاح کرے گا تو اس کی صورتحال کیا ہوگی؟۔ اس کی ایک ہی صورت ہوسکتی ہے کہ آزاد عورت اس غلام کے ساتھ کوئی لکھت پڑھت کرے۔ اللہ نے فرمایا ہے کہ اگر تمہیں ان میں خیر نظر آئے تو یہ لکھت ضرور کرو۔ اور ان پر اپنا مال بھی خرچ کرو۔ یہ ہے غلام سے نکاح کی حقیقت۔ جبکہ کچھ لوگوں نے بلکہ اکثر ترجمہ و تفسیر کرنے والوں نے اس سے مراد مکاتبت لیا ہے۔ مکاتب سے مراد کسی غلام کو آزاد کرنے کیلئے کوئی معاہدہ کرنا ہے۔ حالانکہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ اپنے کلام میں غلام کی آزادی کیلئے بھی لوگوں سے کہے کہ اگر تمہیں خیر نظر آئے تو پھر ان سے مکاتبت کرو۔ یہ رب جلیل سے کیسے ممکن ہے؟۔ حالانکہ غلام کا آزاد کرنا بھی بہت بڑی نیکی ہے۔ اور مکاتبت کے ذریعے سے اس کو آزاد کرنا اور مشقت میں ڈالنا اللہ کی رحمت سے جوڑ نہیں کھاتا۔ اور پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اس میں بھی اللہ کہے کہ اگر خیر نظر آئے تو پھر مکاتبت کرو؟۔ یہ دراصل نکاح کا موضوع ہے اور نکاح کیلئے کوئی آزاد عورت غلام سے تیار ہوجائے تو بڑا مشکل تھا۔ لیکن اس کی وجہ سے قرآن کے ترجمے اور تفسیر کو بدلنا بھی درست نہیں ہے۔ یہ ثابت ہوگیا کہ لونڈی و غلام سے اللہ نے نکاح کا حکم دیا ہے تو پھر نکاح کے بغیر لونڈی رکھنے کا کوئی جواز نہیں بنتا ہے۔ آیات کے آخری حصے میں لونڈیوں کا ذکر نہیں بلکہ جوان لڑکیوں کا ذکر ہے کیونکہ لونڈیوں کا ذکر تو پہلے ہوچکا ہے۔ اس میں افسوسناک بات یہ ہے کہ اللہ نے جوان لڑکیوں کی ضد پر نکاح کی اجازت دی ہے کہ تم اپنے خاندانی وجاہت کی وجہ سے ان کو مجبور مت کرو کہ وہ کھل کر یا چھپ کر بغاوت کریں۔ بلکہ ان کو جہاں چاہیں نکاح کرنے دیں۔ اور اگر تم نے ان کو مجبور کیا تو پھر ان پر کوئی گناہ نہیں لیکن اس کا یہ مقصد لینا انتہائی غلط ہے کہ لونڈیوں کو اگر زبردستی سے بدکاری پر مجبور کیا گیا تو پھر لونڈیاں گناہگار نہیں ہوں گی۔ اصل بات یہ ہے کہ ایک نکاح ہے اور دوسرا ایگریمنٹ نکاح میں قانونی ذمہ داریاں ہوتی ہیں اور ایگریمنٹ میں باہمی رضامندی کا معاملہ ہوتا ہے۔

(نوٹ: عورت کے حقوق پر مارچ2024کاشمارہ ضرب حق کی ویب سائٹ پر مکمل پڑھیں۔)
اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ مارچ۔ عورت مارچ2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv