معاشرت Archives - Page 2 of 39 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

عورت کو خلع کا حق نہ ملنے کے وہ بہت خطرناک نتائج جن کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا (پارٹ 1)

عورت کو خلع کا حق نہ ملنے کے وہ بہت خطرناک نتائج جن کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا (پارٹ 1)

بیوی شوہر کی ملکیت ہے، اگر عورت خلع لینا چاہے تو پھر شوہر اس سے اس کی منہ مانگی قیمت وصول کرسکتا ہے۔ علماء ومفتیان کایہ گھناؤنا تصور عورت کو جانور سے بھی بدترحالت پر پہنچادیتا ہے

شوہر نے3طلاقیں دیں اور مکر گیااورعورت دوگواہ پیش نہ کرے توپھر عورت ہرقیمت پر خلع لے اور اگرخلع نہ ملے تو حرامکاری پرمجبور ہے پھر جماع سے لذت نہیں اُٹھائے ورنہ گناہگار ہوگی

تھانوی کی کتاب ”حیلہ ناجزہ” سے اور فقہی مسائل

انگریزدور میں مسلمان عورت کا شوہر گم ہوا۔ یہ شرعی حکم تھا کہ وہ حنفی مسلک کے مطابق80سال تک اپنے گم شدہ شوہر کا انتظار کرے۔آخر کار عورت عیسائی بن گئی۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے اس پر حیلہ ناجزہ لکھ دی۔ جس میں عورتوں کو کنجریاں لکھ دیا کہ انتظار نہیں کرسکتی ہیں اسلئے ہم مجبوری میں امام مالک کے مسلک پر فتویٰ دے سکتے ہیں۔ چنانچہ فقہاء نے تصریح کردی ہے کہ اگر مجبوری ہوتو پھر کسی اور مسلک پر بھی فتویٰ دیا جاسکتا ہے۔ امام مالک کے مسلک میں اگر شوہر گم ہوجائے تو عورت4سال کے انتظار اور پھر عدت وفات4ماہ10دن گزرنے کے بعد شادی کرسکتی ہے۔ حیلہ ناجزہ میں یہ بھی لکھ دیا کہ ”اگرشوہر نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں اور پھر مکر گیا تو عورت کو دو گواہ پیش کرنے ہوں گے ۔ اگر عورت کے پاس دو گواہ نہیں ہوئے اور شوہر نے جھوٹی قسم کھالی کہ اس نے3طلاقیں نہیں دی ہیں تو پھر وہ عورت اس شوہر کی بیوی رہے گی لیکن اس کے ساتھ جماع حرام کاری ہوگی۔ عورت کو چاہیے کہ اس سے ہر قیمت پر خلع لے اور اگر شوہر خلع نہیں دیتا ہے اور عورت سے جماع کرتا ہے تو شریعت میں وہ اس کی بیوی ہے لیکن اس سے جماع حرامکاری ہے۔ عورت اس سے لذت نہ اٹھائے ورنہ گناہ گار ہوگی”۔
بریلوی مکتب کے ہاں بھی یہ فتویٰ جاری ہورہا ہے۔ مفتی محمد تقی عثمانی کے” فتاویٰ عثمانی”میں ہے کہ ” ایک شخص نے اپنی9،10سالہ بچی کا نکاح ایک شخص سے کردیا لیکن کافی عرصہ گزرنے کے بعد بھی اس نے شادی نہیں کی ۔ اس نے لڑکے والے سے کہا کہ لڑکی کی عمر زیادہ ہوگئی ہے اسلئے رخصتی کردو لیکن لڑکے والوں نے نہیں مانا۔ پھر لڑکا5سال تک مفقود الخبر ہوگیا، جس کا پتہ نہیں تھا کہ کہاں ہے؟۔ لڑکی کے باپ نے لڑکی کی طرف سے عدالت میں کیس کردیا۔ جب وہ جج کے بلانے پر بھی نہیں آیا تو آخر کار7مہینے کے بعد جج نے خلع کی ڈگری جاری کردی۔ پھر لڑکی نے ایک اور شخص سے نکاح کرلیا۔ اس کے کئی مہینے گزرنے کے بعد پہلا شوہر پہنچ گیا اور دارالعلوم کراچی سے اس کو یہ فتویٰ مل گیا کہ چونکہ لڑکی کا نکاح اس کے باپ نے کیا تھا تو وہ کسی صورت بھی فسخ نہیں ہوسکتا۔ اسلئے لڑکی بدستور پہلے شوہر کی بیوی ہے اور دوسرے سے اس کا نکاح نہیں ہوا ہے”۔ فتاویٰ عثمانی میں یہ بھی ہے کہ ” ایک آرائیں لڑکی سے ایک شیخ ذات کے شخص نے زبردستی سے ڈرادھمکا کر نکاح کرلیا اور اب اس سے خلع چاہتے ہیں۔ ہمارے ہاں شیخ ذات کو آرائیں کے مقابلے میں کم درجہ سمجھا جاتا ہے”۔ جواب میں فتویٰ دیا گیا کہ ” عجم میں کوئی اونچی ذات نہیں،اب اگر خلع لینا ہے تو لڑکی کے شوہر کی رضاکے بغیر کوئی راستہ نہیں ہے”۔ فتاوی عثمانی میں متضاد فتوے ہیں۔ کہیں ہے کہ عرف کا اعتبار ہے اور کہیں پر عرف کا اعتبار نہیں ۔ کہیں شیعہ کیساتھ نکاح جائز اور کہیں ہے کہ شیعہ کیساتھ نکاح جائز نہیں ہے۔ مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ نے فتویٰ دیا کہ ”اگر حلالہ سے بچنے کیلئے غیرت کا مسئلہ ہے تو دوسرے مسلک پر فتویٰ دے سکتے ہیں”۔
مذہب کی تبدیلی پر مرتداور واجب القتل کا فتویٰ لگتا ہے لیکن انگریز دور میں بزدل مولوی یہ رسک نہیں لے سکتے تھے اسلئے مسلک تبدیل کرنے اور گالیاں دینے پر اکتفاء کرلیا۔ جمعیت علماء ہند کے صدر مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ میں غیرت تھی اسلئے غیرت کی بنیاد پر مسلک کی تبدیلی کی اجازت دی ۔
عورت کے حقوق کے علمبرداروں کو چاہیے کہ قرآن وسنت کے ٹھوس مسائل کی روشنی میں عدالتوں سے رجوع کریں اور جاہلیت پر مبنی فتوؤں کی کتابوں کو پیش کرکے جواب طلب کریں۔ عوام کی عدالت سب سے مضبوط عدالت ہے اور پارلیمنٹ میں بھی ان مسائل کو اٹھائیں۔ ہمیں یقین ہے کہ حکومت کی طرف سے افہام وتفہیم کیساتھ قرآن وسنت کے مطابق آئین سازی سے جاہلوں کو شکست فاش ہوگی۔

البقرہ:222کی معنوی تحریف سے عورت کو اذیت

” اور تجھ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ کہہ دیجئے کہ وہ ایک اذیت ہے۔ پس حیض کی حالت میں انکے قریب نہ جاؤ یہاں تک کہ وہ پاک ہوجائیں ،پس جب وہ پاک ہوجائیں تو ان کے پاس آؤ جیسے اللہ نے حکم دیا ہے ۔اللہ پسند کرتا ہے توبہ کرنے والوں اور پاکیزہ لوگوں کو”۔
سورہ بقرہ کی اس آیت222میں حیض کا حکم پوچھا گیا ہے۔اس میں دو چیزوں کی وضاحت ہے ایک اذیت جس سے توبہ کی جاتی ہے اور دوسری گندگی جس سے پاکیزہ رہا جاتا ہے۔ عورت کو حیض میں تکلیف ہوتی ہے۔جس میں مقاربت سے منع کیا گیا ہے اور اس میں ناپاکی ہوتی ہے جو بالکل واضح ہے۔ پروفیسر احمد رفیق اختر نے اختراع پردازی کرتے ہوئے کہا کہ صحابہ نے پوچھا کہ یار سول اللہ !ہم توبہ کرنا تو جانتے ہیں۔پاکیزگی کیا ہے۔ فرمایا کہ ڈھیلے سے استنجاء کرنے کے بعد پانی کا استعمال پاکیزگی ہے۔ حالانکہ یہ آیت کے مفہوم کیساتھ بہت بڑی واضح زیادتی ہے۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے قادیانیوں سے متعلق فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے جب آیت کا حوالہ دیا کہ لااکرہ فی الدین” دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے”۔تو پورے ملک میں بڑا کہرام مچ گیا اور صحافی ہارون الرشید نے بھی اس کو سیاق وسباق پیش کرنے کی بات کردی۔جب پروفیسر احمد رفیق اختر نے مندرجہ بالا آیت کا لیکچر دیا تو ہارون الرشید ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ ہمارا یہ المیہ ہے کہ قرآنی آیات کو بھی سیاسی مفادات اور مذہبی استحصال کیلئے استعمال کرتے ہیں۔
پروفیسر احمد رفیق اختر نے بتایا کہ5سالوں میں مکہ اور مدینہ میں یہود ونصاریٰ آزادی سے گھوم رہے ہوں گے اور عام مسلمانوں پر وہاں پابندی ہوگی۔ پھر ہم بھی حج وعمرہ نہیں کرسکیںگے۔ لاہور میں سعودی برینڈ پہننے والی عورت کو اگرASPپولیس شہر بانو نقوی نے نہ بچایا ہوتا تو جاہل ہجوم اس کا حشر نشر کردیتا۔ کپڑوں پر عربی میںحلوہ لکھا تھا۔فتاویٰ شامیہ اور فتاویٰ قاضی خان میں ہے کہ ”سورہ فاتحہ کو علاج کیلئے پیشاب سے لکھنا جائز ہے” ۔لیکن اس کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا ہے۔2004میں مفتی تقی عثمانی کا حوالہ شائع کردیا تو اس نے اپنی کتابوں سے نکالنے کا اعلان کیا مگر مفتی سعید خان نکاح خواں عمران خان نے2008میں اپنی کتاب ” ریزہ الماس” میں فتاوی قاضی خان میں سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کا پھر دفاع کرتے ہوئے شائع کردیا۔ اللہ نے ایک ایک رسم جاہلیت ختم کرتے ہوئے حلالہ کی لعنت کو بھی بیخ وبنیاد سے ختم کیا ہے مگر پھر بھی علماء ومفتیان اپنے مدارس میں حلالہ کی لعنت کے فتوے دیکر عورت کی عزت لوٹتے ہیں۔

قرآن کی وضاحتیں اوراس میں تحریف کی موشگافیاں!

سورہ بقرہ کے جس رکوع کی ابتداء آیت222سے شروع ہے اور اس میں حیض اور اذیت ، توبہ کرنے والوں اور پاکیزہ رہنے والوں کی وضاحت ہے۔ اس کی آیات میں تسلسل کیساتھ عورت کو اذیت دینے کے مسائل کی وضاحتیں ہیںلیکن اس میں معنوی تحریف کی گئی ہے۔ علامہ سید محمد یوسف بنوری اورمفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع وغیرہ کے استاذ مولانا انورشاہ کشمیری نے اپنی ”بخاری کی شرح فیض الباری” میں لکھا ہے کہ ”قرآن کی معنوی تحریف تو بہت ہوئی ہے لفظی تحریف بھی انہوں نے کی ہے یا تو مغالطہ سے یا جان بوجھ کر”۔ جس پر فقیہ العصرقاضی عبدالکریم کلاچی نے مفتی فرید مفتی اعظم پاکستان کو خط لکھا کہ ” اس عبارت کو پڑھ کر پیروں سے زمین نکل گئی کہ دوسروں پر قرآن کی تحریف کے فتوے لگانے والوں کے اپنے اکابرین کی کتابوں میں یہ موجود ہے؟۔ عبارت سے کافر بھی مراد نہیں ہوسکتے اسلئے کہ وہ عمداً ایسا کرسکتے ہیں لیکن مغالطہ سے ایسا نہیں کرسکتے”۔ اس کا ایک بہت ہی بے کار جواب مفتی فرید نے دیا ہے جو فتاوی دیوبند پاکستان میں شائع بھی ہواہے۔ اس عبارت کا حوالہ دئیے بغیر مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن کے استاذ علامہ غلام رسول سعیدی نے جامعہ دارالعلوم کراچی سے ایک فتویٰ لیاہے جس پر کفر کا فتویٰ بھی لگایا گیا ہے۔ مفتی فرید اور علامہ غلام رسول سعیدی درس نظامی میں جو نصاب تعلیم پڑھاتے ہیں اس میں ”اصول فقہ”کے اندر تحریف ہی پڑھائی جارہی ہے۔
وزیرستان کے مشہور بلند ترین پہاڑ کا نام ”پیر غر” ہے۔ غر پشتو میں پہاڑ کو کہتے ہیں۔ پیر سید کو کہتے ہیں۔ وزیرستان کے پہاڑوں کا یہ سردار ہے۔ لیکن اس کا نام بگاڑ کر ”پرے غل” مشہور ہے۔ ماں بچے کو لوریاں دیتے کہتی تھی کہ ”غل شہ خدائے دے مل شہ” ۔(چور بن جاؤ ، خدا تمہارا مدد گار بن جائے)۔ پہاڑ کا نام پیر کی جگہ چور رکھنے سے پہاڑ کو بھی تکلیف ہوگی۔ اسلئے کہ جب اللہ نے امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا تو انہوں نے اٹھانے سے انکار کردیااور انسان نے اٹھالیا جو بڑا ظالم جاہل تھا۔ آج نااہل لوگ اقتدار کی امانت اٹھانے کے پیچھے مررہے ہیں۔ انسان کا نام بگاڑ نے پر تکلیف ہوتی ہے۔ جیسے مولانا فضل الرحمن کا نام ”ڈیزل” رکھ دیا۔ اس اذیت سے توبہ کی ضرورت ہوتی ہے۔
اللہ نے فرمایا:” تمہاری عورتیں تمہارا اثاثہ ہیں ”۔ آیت223البقرہ۔ حرث اثاثہ کو بھی کہتے ہیں اور کھیتی کو بھی۔ کسی کو اپنا اثاثہ قرار دینا فخر کی بات ہوتی ہے لیکن کسی کو کھیتی قرار دینے سے اذیت ہوتی ہے اور جب اللہ نے حیض کو بھی اذیت قرار دیا اسلئے کہ حیض کو اذیت قرار دینے سے عورت کو تکلیف نہیں اور گند قرار دینے سے اس کو تکلیف پہنچتی۔ حیض کو قذر، نجس اور وسخ بھی کہا جاسکتا تھا جس کا معنی گند ہے مگر اذی(اذیت) کہہ کرادب کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا گیا ۔ عربی کے کسی لغت میں اس کا معنی گند نہیں ہے ۔
اگر عورت کو خلع کا حق ملتا تو80اور4سال انتظار کی ضرورت نہ پڑتی۔اور نہ وہ علماء ومفتیان کے غلط فتوؤں کے مطابق حرام کاری پر مجبور ہوتی۔ عورت کا اختیار سلب کرکے اس کو اذیتوں سے دوچار کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے عورت کو خلع کا اختیار دیا ہے اور پھر مرد کو طلاق کا حق دیا ہے۔ جب عورت سے خلع کا اختیار چھین لیا گیا ہے تو اس میں طاقتور مردوں کیساتھ علماء ومفتیان بھی مکمل طور پر شریک مجرم بن گئے ہیں۔ عورت کا اختیار چھین لینے سے عورت کو جتنی اذیتوں کا سامنا ہے اس کی تمام تفصیلات سورہ بقرہ کی آیت222کے بعد والی آیات میں موجود ہیں۔ پڑھتا جا شرماتا جا۔8عورت مارچ کی عورتوں نے اگر اس طرف توجہ دیدی تونہ صرف عالم اسلام بلکہ دنیابھر میں عظیم انقلاب آجائے گا۔ انشاء اللہ
سورہ بقرہ آیت222کے بعد223سے231تک2رکوع ہیں ۔صفحہ نمبر2پر ملاحظہ فرمائیں۔

(نوٹ: عورت کے حقوق پر مارچ 2024کاشمارہ ضرب حق کی ویب سائٹ پر مکمل پڑھیں۔)
اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ مارچ۔ عورت مارچ2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

 

خطبہ حجة الوداع میں نبی رحمت ۖ نے عورت کے حقوق کا خاص خیال رکھنے کاواضح حکم فرمایا تھا قرآنی آیات میں عورت کے ٹھوس اختیارات پر مذہبی طبقے نے بالکل سیدھی واردات ڈالی ہے؟

خطبہ حجة الوداع میں نبی رحمت ۖ نے عورت کے حقوق کا خاص خیال رکھنے کاواضح حکم فرمایا تھا قرآنی آیات میں عورت کے ٹھوس اختیارات پر مذہبی طبقے نے بالکل سیدھی واردات ڈالی ہے؟

عورت کو خلع کا حق اللہ نے دیا، مولوی اسکے منکر ہیں؟

اللہ جل شانہ نے فرمایا: اے ایمان والو!تمہارے لئے حلال نہیں کہ عورتوں کے زبردستی سے مالک بن بیٹھواور ان کو اسلئے مت روکو کہ جو کچھ تم نے ان کو دیا ہے کہ ان میں سے بعض ان سے واپس لے لومگر جب وہ کھلی فحاشی کی مرتکب ہوجائیں اور ان سے اچھا برتاؤ کرواور اگر تمہیں وہ ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ کوئی چیز تمہیں ناپسند ہو اور اللہ اس میں تمہارے لئے بہت سارا خیر بنادے ۔(النساء : 19)
اس آیت میں زبردست وضاحتیں ہیں جن پر تدبر کرکے اچھی طرح سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔
1: مسلمانوں کو مخاطب کرکے واضح کردیا ہے کہ ” عورتوں کے زبردستی سے مالک مت بن بیٹھو!”۔
سوال یہ ہے کہ ”ان عورتوں سے کون سی عورتیں مراد ہیں؟”۔ جواب واضح ہے کہ ” عورتوں سے بیویاں مراد ہیں ”۔ اسلئے کہ آیت کے اگلے جملہ میں واضح ہے کہ ” اور ان کو اسلئے جانے سے مت روکو کہ جو تم نے ان کو دیا ہے اس میں بعض واپس لے لو مگر جب وہ فحاشی کا ارتکاب کریں”۔ ظاہر ہے کہ اپنی بیویوں کو ہی چیزیں دینے کی بات ہے ، دوسروں کی بیویوں کو تو کوئی چیزیں نہیں دی جاتی ہیں۔ اور فحاشی کے ارتکاب کی صورت میں اپنی بیویوں کو ہی بعض دی ہوئی چیزوں سے محروم کیا جاسکتا ہے۔
اگرچہ زمانہ جاہلیت میں سوتیلی ماؤں اور بھابیوں پر باپ اور بھائی کے فوت ہونے کے بعد قبضہ کیا جاتا تھا اور ان کو نکاح پر مجبور کیا جاتا تھالیکن یہاں وہ مراد نہیں ہوسکتی ہیں بلکہ اپنی بیویاں ہی مراد ہیں۔
2: جس طرح مرد کو طلاق کا حق حاصل ہے ،اسی طرح بیوی کو بھی خلع کا حق حاصل ہے ۔ جب بھی عورت شوہر کو چھوڑنا چاہتی ہو توشوہر زبردستی سے اس کا مالک نہیں بن سکتا۔ جو چیزیں شوہر نے اس کو دی ہیں تو ان میں سے بعض وہ چیزیں بھی واپس نہیں لے سکتا جو لے جانے والی ہیں۔ مثلاً کپڑے، گاڑی ، زیورات، نقدی وغیرہ جن کو منقولہ جائیداد کہا جاتا ہے ۔ البتہ غیرمنقولہ جائیداد مثلاً گھر، باغ، زمین ، پلاٹ ، دکان اور فیکٹری وغیرہ سے خلع کی صورت میں عورت کو دستبردار ہونا پڑے گا۔
3: خلع پرشوہر کو اللہ نے اچھے برتاؤ کا حکم دیا کہ اگر وہ بری لگتی ہوں تو ہوسکتا ہے کہ کوئی چیز تمہیں بری لگتی ہو اور اللہ اس میں تمہارے لئے بہت سارا خیربنادے۔ عورت کو زبردستی سے رہنے پر مجبور کیا جائے تو وہ خود بھی زہر کھاسکتی ہے بچوں اور گھروالوں کو بھی کھلاسکتی ہے۔ گھر کا ماحول سکون کی جگہ جہنم رہے گا اور بندے کی عزت بھی خراب ہوسکتی ہے اسلئے بہت سارا خیررکھنے میں شک نہیں ہونا چاہیے۔

بدقسمت عرب اور پشتون بیوی کو قیمتاً خریدتے ہیں

آج پٹھانوں میں جاہلانہ دستور ہے۔ بیوہ وارث کی ملکیت ہے۔ قلعہ سیف اللہ بلوچستان کی جمعیت مولانا فضل الرحمن کے عالم دین نے شرعی مسئلہ مجھ سے پوچھا کہ ایک شخص نے اپنی بیٹی کے بدلے میں بیوی خریدلی اور اس کی رخصتی بھی ہوگئی لیکن وہ بیمار تھا اور عورت کیساتھ جماع کرنے کے قابل نہیں تھا اور اس کا انتقال ہوگیا۔ اب باپ کی بیوہ سے اس کا بیٹا شادی کرسکتا ہے؟۔
عرب جاہلیت میں بیوہ خاوند کے وارثوں کی ملکیت تھی۔ بیٹا باپ کی بیوی سے نکاح بھی کرلیتا تھا جس پر قرآن نے منع کیا کہ لاتنکحوا ما نکح آبائکم من النساء الا ما قد سلف ”نکاح مت کرو،جن عورتوں سے تمہارے آباء نے نکاح کیا مگر جو پہلے گزر چکاہے”۔ جمعیت علماء اسلام کی بلوچستان میں قومی وصوبائی اسمبلیوں میں نمائندگی ہوتی ہے لیکن وہ جاہلیت کے خلاف قرآن وسنت کے مطابق آئین سازی کی بات اس وقت کرسکتے ہیں جب معاشرتی بنیاد پر علماء ومفتیان نے منبر ومحراب سے علم بلند کررکھا ہو۔ جب وہ اس جاہلیت میں ملوث ہوں تو پھر قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینٹ میں شریعت کے مطابق قانون سازی کی بات کیسے کرسکتے ہیں؟۔
عرب اور پشتون قوم کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ بیگمات کو بہت بھاری قیمت سے خرید تے ہیں اور پھر بکاؤ مال کی طرح اپنی بیگمات کے مالک بھی بن جاتے ہیں۔ عرب امیر ہیں اور بیوہ عورتوں کو یرغمال رکھنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے ہیں لیکن پشتون قوم غریب ہے اور بیوہ عورتوں کو بھی ملکیت بنالیتے ہیں۔ جب20،20لاکھ سے غریب لوگ بیویاں خرید لیتے ہوں تو ان کو خلع کا حق کیسے دیا جاسکتا ہے؟۔ گزشتہ مہینوں میں افغان طالبان حکومت نے بہت سارے غریب افراد کی مدد کرکے عورتوں کی قیمت ادا کرنے میں اپنا زبردست کردار ادا کیا تھا۔ پنجاب اور ہندوستان کی عورتیں جہیز بھی دیتی ہیں لیکن پھر بھی عورت کو خلع کا حق نہیں ملتا ہے۔اس کی وجہ یہی ہے کہ مذہبی طبقے نے اس کا حق شرعی بنیاد پر غصب کیا ہے۔ آئین پاکستان نے عائلی قوانین میں عورت کو خلع کا حق دیا ہے لیکن مذہبی طبقہ اس کو نہیں مانتا ہے۔ محترمہ مریم نواز مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی سے بات کرکے1973کے آئین کے مطابق پنجاب اسمبلی سے خلع پر قانون سازی کا آغاز کریں۔ جس پر منبر ومحراب اور مدارس کے فتوؤں سے بھی عوام کے اندر زبردست ذہن سازی کی جائے۔

مدارس کے نصاب تعلیم میں خلع کے حوالہ سے غلطیاں

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:اگرتم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی کرنا چاہتے ہو اور ایک کوان میں سے بہت سارا مال دے چکے ہو تو پس اس میں سے کچھ بھی واپس مت لو۔کیا تم بہتان لگاکر اور صریح گناہ کرکے کچھ واپس لوگے؟۔اور تم کیسے اس سے لے سکتے ہو؟۔جبکہ تم نے ایک دوسرے سے خاص معاملہ کیا ہے۔اور وہ عورتیں تم سے پختہ عہد لے چکی ہیں۔ (سورہ النساء آیت20،21)
خلع میں صرف ان دی ہوئی چیزوں کو واپس نہیں لیا جاسکتا، جو لے جانے والی ہیں، منقولہ اشیائ۔ اس کی وضاحت سورہ النساء آیت19میں بھی ہے اور ایک صحابیہ نے نبی ۖ سے عرض کیا کہ مجھے اپنے شوہر کے دین اور اخلاقیات سے کوئی شکوہ شکایت نہیں ہے لیکن خلع چاہتی ہوں۔ نبی ۖ نے پوچھا : وہ دیا ہوا باغ واپس کرسکتی ہو؟۔ صحابیہ نے کہا : اور بھی بہت کچھ! نبی ۖ نے فرمایا : اور کچھ نہیں۔
طلاق کی صورت میں تمام دی ہوئی چیزیں واپس نہیں لے سکتے۔ منقولہ وغیرمنقولہ اشیائ۔ گھربار، باغ، زمین، پلاٹ ، فیکٹری اور اگرچہ بہت بڑے خزانے بھی دئیے ہوں کچھ بھی واپس نہیں لیا جاسکتا ۔
عیسائیوں کے ہاں مذہبی بنیاد پر طلاق کا کوئی تصور نہیں تھا لیکن اسلام نے خلع اور طلاق کی شرعی اور قانونی حیثیت بالکل واضح کردی تھی۔ عورت صنف نازک کو صرف نمائش کی تتلیاں اسلئے سمجھاجاتا ہے کہ اس کے تمام حقوق غصب کرلئے گئے ہیں۔ قرآن نے حق مہر کی صورت میں عورت کو انشورنس دی ہے۔ اگر ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دی جائے تو بھی آدھا حق مہر عورت کا حق قرار دیا ہے اور حق مہر بھی شوہر پر اس کی وسعت کے مطابق رکھا ہے۔ عورت کی رخصتی کے بعد اگر عورت خوش نہ ہو تو خلع ہے اور خلع میں پورے حق مہر کے علاوہ شوہر کی طرف سے دی ہوئی ان چیزوں کو بھی واپس نہیں لیا جاسکتا ہے جو لے جانے والی ہیں۔طلاق میں منقولہ وغیر منقولہ کوئی چیز بھی واپس لیناغیر شرعی اور غیر قانونی ہے۔
قرآن کی یہ وضاحتیں آنکھ کے اندھے کو سمجھ آسکتی ہیں لیکن دل کے اندھے کو سمجھ نہیں آسکتی ہیں ۔ اللہ نے فرمایا:”اور بستیوں میں سے ہم نے کتنی برباد کردیں اور وہ ظالم تھیں، پس وہ اپنی چھتوں کے بل گری ہوئی تھیں اور کتنے کنویں ویران تھے اور محل اجڑ ے تھے ۔کیا انہوں نے زمین میں سیر نہیں کی ؟ تو ان کیلئے دل بن جاتے جس سے وہ سمجھتے ہیں اور کانوں سے سنتے ہیں۔پس بیشک آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں لیکن دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں میں ہوتے ہیں”۔ (سورہ الحج آیت :45،46)

(نوٹ: عورت کے حقوق پر مارچ 2024کاشمارہ ضرب حق کی ویب سائٹ پر مکمل پڑھیں۔)
اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ مارچ۔ عورت مارچ2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

 

حضرت اُم ہانی کو اپنے مشرک شوہر سے سچی محبت تھی۔

حضرت اُم ہانی کو اپنے مشرک شوہر سے سچی محبت تھی۔

مسلم دھرم کو چھوڑ کر ہم نے ہندو دھرم کو اپنایا ہے۔پوجا پاٹ بھی کرنے لگے۔ (ہندو تو ایسا نہیں کرتا ہے کہ مسلمان ہے تو دھرم چینج کرے پھر آپ نے ایسا کیوں کیا؟۔ اینکر پرسن)۔ وہ میرا دھرم چینج کروایا (انہوں نے کیسے کروایا؟۔ اینکر پرسن)۔ ان لوگوں کا کہنا تھا کہ گنگا نہاکر آئے گا اس کے بعد ہمیں سوگر پھر کبھی نہیں پلایا ہے۔ ہم نے کہا جو بھی آپ بولو گے وہ کریں گے کیونکہ ہم آپ سے سچا پیار کرتے ہیں۔ اس نے بہت کچھ کروایا پوجا پاٹ بہت سی جگہوں پر لے کر گیا۔ گنگا اشنان کروایا گنگا جی میں بھی درشن کروایا پھر بابا دھام بھی لے کر گیا ۔ میرے ہاتھ سے کوئی بھی گھر میں کھانا نہیں کھاتا تھا۔ ہم کو کھانا رکھ کر الگ دیا جاتا تھاایک پلیٹ میں۔

تبصرہ نوشتہ دیوار

سچی محبت اور عشق انسان کی مجبوری ہوتی ہے۔ حضرت علی کی ہمشیرہ حضرت اُم ہانی اولین مسلمانوں میں سے تھیں لیکن انہوں نے ہجرت نہیں کی تھی۔ اور اپنے مشرک شوہر سے سچی محبت تھی۔ اگر قرآنی آیت اور سنت سے اس واقعہ کو منبر و محراب ، اخبارات اور کتابوں میں لکھ دیا جاتا تو شیعہ سنی مسالک اعتدال پر آجاتے۔ مسلمانوں نے اگر ہندو خواتین سے کبھی شادی کی ہے اور خواتین نے اپنا مذہب تبدیل کیا تو اس کی عزت و توقیر میں اضافہ ہوا ہے کمی نہیں آئی ۔ لیکن ہندوؤں کے اس روئیے کے سبب بھی لوگوں نے ہندو مذہب قبول نہیں کیا اس پہلو پر بھی غور کریں

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،الیکشن شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

قرآن پاک کی عظمت

قرآن پاک کی عظمت
قرآن پاک کی عظمت اور طاقت ویڈیو میں دیکھیں۔ شاہ عبد العزیز فرزند شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے حوالے سے مولانا قاری اکرام الحق پشتو اور اردو زبان کے ملے جلے الفاظ میں یہ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک پادری نے شاہ عبد العزیز سے کہا کہ تمہاری مسجد خستہ حال ہے ، ہمارا گرجا عالیشان ہے مندر اور دیگر مذاہب کی عبادت گاہیں بھی عالیشان ہیں جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ تمہارا خدا اور مذہب جھوٹا ہے ۔ شاہ عبد العزیز نے کہا کہ اس کا جواب میں لوگوں کے مجمع میں دوں گا۔ ہزاروں لاکھوں لوگ مختلف مذاہب کے جمع ہوگئے تو شاہ عبد العزیز نے آیت پڑھی کہ اگر اس قرآن کو ہم پہاڑوں پر نازل کرتے تو وہ خوف سے ریزہ ریزہ ہوجاتے ، آیت کا پڑھنا تھا کہ پادری کا گرجا ٹکڑے ٹکڑے ہوکر زمین پر گرا۔ باقی لوگوں نے ہاتھ جوڑے کہ خدا کیلئے بس کرو۔ شاہ عبد العزیز نے کہا کہ اتنے عرصے سے ہماری مسجد قرآن کی طاقت کو برداشت کررہی ہے جبکہ تمہارا گرجا برداشت نہ کرسکا۔ قاری صاحب نے ہندوستان اور لندن وغیرہ کے چکر بھی لگائے ہیں اور کہا کہ یہ واقعہ تاریخ میں موجود ہے آدھا مجمع مسلمان ہوگیا جس میں لاکھوں لوگ تھے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،الیکشن شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

امریکہ کی نصاب کتاب میں شیخ الاسلام کی خدمات کا بیان

امریکہ کی نصاب کتاب میں شیخ الاسلام کی خدمات کا بیان

ڈاکٹر طاہر القادری نے ویڈیو کلپ میں کہا کہ یہ کتاب امریکہ میں چھپی ہے جسکا نامTHINK WORLD RELEGION۔ رابسن مصنف ہے۔2011میں چھپی ہے۔ فلا ڈلفیا یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں جنہوں نے لکھی ہے۔ اور امریکہ کی بہت سی یونیورسٹیز، کالجز اور اسکولز میں شامل نصاب ہے۔ اس میں کرسچین ٹی ، جودھا ازم، ہندو ازم ، بدھا ازم اور اسلام پر ایک ایک چیپٹر ہے۔ ان کو ہائی لائٹ کیا ہے۔ جب اسلام پر آئے ہیں حضور علیہ الصلوة و السلام کی بعثت سے لے کر موجودہ صدی تک جس طرح ہر مذہب کو پڑھایا انہوں نے تو ہر مذہب کی ڈسکرپشن دی۔ اینڈ کرکے وہ لکھتے ہیں ایک ورژن اسلام کا امت کے سامنے وہ ہے جس کے بانی اسامہ بن لادن ہیں۔ ایک ورژن اسلام کا امت کے سامنے اس موجودہ صدی کا وہ ہے جو طاہر القادری نے دیاہے۔ (ڈاکٹر طاہر القادری نے5سو صفحات کی کتاب خوارج پر لکھی ہے جس میں وہابیت اور دہشت گردی کو جوڑا گیا ہے۔)

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،الیکشن شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

دیوبند کا کپوت ذو الخویصرہ کا بچہ مفتی رشید

دیوبند کا کپوت ذو الخویصرہ کا بچہ مفتی رشید

جامعة الرشید کے مفتی رشید نے کہا :ہمارے ہاں الیکشن کے بعد جس طرح کی سیاسی گہما گہمی چل رہی ہے اور جس طرح کی چیزیں دیکھنے اور سننے کو مل رہی ہیں ساری پاکستانی قوم حیرت میں کہ ہو کیا رہا ہے؟ مولانا فضل الرحمن ایک عرصے تک طویل عرصے تک جے یو آئی کے حضرات عمران خان کو یہودی ایجنٹ ہے پتہ نہیں کیا کیا کہتے رہے ؟ہم سنتے سنتے رہے، ساری دنیا جانتی ہے ۔مولانا طارق جمیل تھوڑا قریب ہوئے تو ان کو ایک طرح سے نشان عبرت بنا دیاکہ یہ یہودی ایجنٹ کے کیسے قریب ہو گیا؟۔ اب جب گزشتہ دنوں مولانا فضل الرحمن نے پریس کانفرنس کی تو جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ بھئی ہمارا ان سے جسموں کا اختلاف نہیں، دماغوں کا اختلاف ہے۔ تو اسلئے وہ بھی ٹھیک ہو جائیگا۔ پھر پی ٹی آئی کا وفد بھی گیا وہاں ان سے ملاقات بھی کی۔ وہ جو ایک دوسرے کے خلاف اتنی نفرت انگیز تقریریں تھیں کہ وہ ان کو یہودی ایجنٹ اور یہ ان کو ڈیزل اور جو بیہودہ القابات عمران خان کی طرف سے مولانا فضل الرحمن کو جو دیئے جا رہے ہوتے تھے پھرPTIکے کارکنJUIکے خلافJUIکے کارکنPTIکے خلاف جس طریقے کے الزامات ایک دوسرے پہ لگاتے تھے بیٹا باپ سے لڑا ،باپ بیٹے سے لڑا بھائی بھائی سے لڑا دوست دوست سے لڑا گھر ٹوٹے پتہ نہیں کتنی لڑائیاں کتنے پھڈے اسی ڈیزل اور جناب یہودی ایجنٹ کے چکر میں لوگ لڑتے رہے آج انکے لیڈر آپس میں مل رہے ہیں تو یہ جو کارکن ہیں یا جو لوگ ایک لیڈر کی تعریف میں زمین و آسمان کی قلابیں ملا کے دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کر رہے تھے یا اس طرف والے زمین و آسمان کی قلابیں ملا کے اس کو نیچا دکھانے کی کوشش کر رہے تھے انکی اس وقت کیا پوزیشن ہے یہ کہاں کھڑے ہیں؟ جو بیٹا اپنے باپ سے لڑتا رہا5 سال تک کہ بھئی آپJUIکو کیوں سپورٹ کرتے ہیں یا جنابJUIکا جو ورکر تھا وہ اپنے باپ سے لڑتا رہا کہ آپPTIکے جلسوں میں کیوں جاتے ہیں یاPTIوالوں سے کیوں ملتے ہیں؟ اب جب یہPTIاورJUIوالے مل رہے ہیں تو آپ کہاں پہ کھڑے ہیں؟۔ روایت میں حضرت علی کا قول ہے کہ جس سے محبت کرنی ہے تو اعتدال میں رہ کے محبت کرو ہو سکتا ہے کل دشمنی ہو جائے، جس سے دشمنی کرنی ہے تو دشمنی بھی اعتدال میں رہ کے کرو ہو سکتا ہے کل دوستی ہو جائے۔ کہتے ہیں نا سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا سیاستد ان کسی بھی وقت یوٹرن لے لے گا آپ اس کی شکل تکتے رہ جائیں گے یہ کیا کر دیا اسنے ہمیں کیا پٹی پڑھائی تھی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا تھا خود کیاکیا؟۔ تو پاکستانی سیاست میں کسی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے اسلئے بار بار ہم یہ گزارش کرتے ہیں اب ہو سکتا ہے یہ کلپ میں ریکارڈ کروا رہا ہوں تو یہ بھی کسی کو برا لگے کسی کو برا لگتا ہے تو ہماری بلا سے جس چیز کو ہم سمجھتے ہیں جو ٹھیک ہے وہ آپ کے سامنے رکھ رہے ہیں بھائی آپPTIمیں ہیں نا آپPTIکے رہیں آپ عمران خان کو ووٹ دیتے ہیں دیتے رہیں قیامت تک، آپJUIکے ہیں مولانا فضل الرحمن کی پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں دیتے رہیں لیکن ایکدوسرے کے خلاف اتنے گھناؤنے اتنے گھٹیا الزامات ایکدوسرے پر لگانا۔ پتہ نہیں چوری اور کرپشن کے اور ڈیزل چوری کے کوئی چیز کبھی کسی پہ ایک دوسرے پہ کوئی ثابت نہیں کر سکا نہ یہ اس پر نہیں اس پارٹی والے اس پارٹی والے پر تو یہ جو ہم تہمت لگاتے ہیں الزام لگاتے ہیں گالیاں دیتے ہیں برا بھلا کہتے ہیں غیبت کرتے ہیں کیا یہ سب قیامت کے دن معاف ہو جائے گا اللہ ہم سے پوچھے گا نہیں؟۔ یہ بھی مسلمان وہ بھی مسلمان یہ اس پہ الزام لگا رہا ہے وہ اس پہ الزام لگا رہا ہے کیا دین ہمیں یہ سکھاتا ہے مذہب ہمیں یہ سکھاتا ہے تو اس طریقے سے سیاست کی وجہ سے اپنے تعلقات خراب کرنا ایک دوسرے سے لڑنا یہ بہت بیوقوفی کی بات ہے پھر لوگ اس سے بھی آگے بڑھتے ہیں سیاست دانوں کیلئے جان دینے کیلئے تیار ہو جاتا ہے مظاہرے میں نکلیں گے احتجاج میں نکلیں گے تو سیاست دان کے نام پہ وہ کہتے ہیں میری جان جاتی ہے تو جائے اسلئے کہ سیاستدان نے اس کو یہ پٹی پڑھائی ہوئی ہے کہ یہ آپ شہید ہو جائیں گے اور آپ نظریے کیلئے لڑ رہے ہیں آپ ملک کیلئے لڑ رہے ہیں آپ فلاں کیلئے لڑ رہے ہیں بھائی جب نظرئیے کیلئے آپ لڑ رہے ہیں جس نظرئیے کیلئے آپ لڑ رہے ہیں کل آپ اس سے یوٹرن لے لیتے ہیں وہ جو بندہ مر گیا اس احتجاج کے چکر میں وہ اس کا کیا بنے گا اس کے گھر والوں کا بچوں کا کیا بنے گا؟۔ سیاسی لیڈر تو ایک دفعہ آئے گا دعا کرے گا تصویر کھنچوائے گا چلا جائے گا رُلیں گے تو اس کے بچے رلے گی تو اس کی بیوہ اس کے ماں باپ ساری زندگی خون کے آنسو روتے رہیں گے سیاستدان کو بعد میں کیا پتہ چلے گا کہ کون میرے لیے مرا تھا کون جیا تھا ؟۔تو یہ جو ہمارے ہاں سیاست دانوں کے چکر میں ہم ایک دوسرے کے دشمن بنتے ہیں خدا کیلئے یہ دشمنیاں نہ کریں کل آپ ٹینشن میں ہوں گے۔ سیاستدان یو ٹرن لے کے کسی اور پوزیشن پہ کھڑا ہوگا آپ کو سمجھ میں نہیں آرہی ہوگی تو یہ ایک بہت اہم میسج ہے جو ہمیں سارے پس منظر سے سیکھنے کو ملتا ہے سمجھنے کو ملتا ہے۔ اگر آسان جملوں میں میں کہوں تو سیاستدانوں کو اتنی ویلیو دیں جتنی ویلیو وہ آپ کو دیتے ہیںاتنی ویلیو آپ ان کو دیں۔ اس سے زیادہ کی ویلیو اگر ان کو دیں گے تو پچھتائیں گے ٹینشن میں آئیں گے آپ کے گھر والے پریشان ہوں گے۔ اور اعتدال اور بیلنس کے ساتھ چلیں گے تو انشاء اللہ امید ہے کہ کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔
تبصرہ نوشتۂ دیوار:عتیق گیلانی
مفتی رشیدکا تعلق جامعة الرشید کراچی سے ہے ۔ مفتی عبدالرحیم کا شاگرد ہو گا جو مفتی رشیداحمد لدھیانوی کا ایک سلسلہ خبیثہ ہے۔پچھلے شمارے میں دارالعلوم دیوبند کے سپوتوں اور کپوتوں کا ذکر کیا تھا۔ مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید نے مجھ سے خود فرمایا کہ ” حاجی محمد عثمان کے فتوؤں کے پیچھے مفتی رشید خبیث ہے”۔ مولانا یوسف لدھیانوی اپنے داماد اور اپنی بیٹیوں کے ساتھ حاجی عثمان کی قبر پر بھی حاضری دینے گئے تھے۔مفتی منیر احمد اخون جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں میرا کلاس فیلو تھا۔ جو ابھی مفتی اعظم امریکہ کے نام سے یوٹیوب چینل پر ہوتے ہیں اور مولانا یوسف لدھیانوی کے داماد بھی ہیں۔ جب مولانا فضل الرحمن اور عمران خان میں بہت سخت محاذ آرائی کا بازار گرم تھا تو مفتی منیر احمد اخون نے یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ کاش مولانا فضل الرحمن اور عمران خان آپس میں مل جاتے تو بہت بڑا انقلاب پاکستان میں آسکتا ہے۔ یوٹیوب پر مفتی اعظم امریکہ کا بیان دیکھ سکتے ہیں۔ شیخ الحدیث مفتی زر ولی خان نے بھی اپنی زندگی میں اس بات کا کھل کر اظہار کیا تھا کہ ”میں عمران خان کو مولانا فضل الرحمن کے پاس لاؤں گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ دونوں بہت اچھے ہیں ۔ان کی دوستی کرانی چاہیے”۔ ہم نے بھی لکھا تھا کہ عمران خان اور مولانا فضل الرحمن کو ایک ساتھ ہونا چاہیے ۔
لوگ سمجھتے ہوں گے کہ مفتی رشید نے بہت زبردست بات کی ہے ،اس پر اعتراض کرنے کی کیا ضرورت ہے؟۔حضرت علی نے خوارج کے بارے میں فرمایا تھا کہ ” وہ بات صحیح کررہے ہیں لیکن صحیح بات سے باطل مراد لیتے ہیں”۔ یہ مفتی رشید کی بات درست ہے لیکن وہ اس سے باطل مراد لیتا ہے۔ذوالخویصرہ کی روحانی اولاد اور دارالعلوم دیوبند کے کپوت کو صحیح وقت پر سمجھانا پڑے گا کہ تم بکواس کررہے ہو۔ حضرت علی اور حضرت امیر معاویہ کے درمیان اختلاف کی نوعیت مذہبی نہیں سیاسی تھی۔ ایک دوسرے کے افراد کو قتل کرنے سے لیکر پتہ نہیں کیا کیا نہیں بولا ہوگا؟۔ مگر جب حضرت حسن نے صلح کی تو رسول اللہ ۖ نے یہ بشارت دی تھی کہ” میرا یہ بیٹا سید ہے اس کے ذریعے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں اللہ صلح کرائے گا”۔شیعہ سنی سب مسلمانوں کے نزدیک حضرت حسن کے اس کردار کو سراہا گیا ہے ۔لیکن خوارج جو ذوالخویصرہ کا گروہ تھا۔ اس نے اس سیاسی اتحاد کو غلط رنگ میں پیش کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام ہوگیا۔ جب حضرت عثمان کی شہادت ہوئی تھی تو شدت پسند مسلمانوں کے طرزِ عمل کی تفریق تاریخ کی نذر ہوگئی ہے۔ حضرت حسن و حضرت حسین نے حضرت عثمان کے بچانے میں اپنا کردار ادا کیا جبکہ دوسرے بھائی محمد بن ابی بکرنے سب سے پہلے حضرت عثمان کی سفید داڑھی میں ہاتھ ڈالا تھا۔وہ بیٹا تو حضرت ابوبکر کا ہی تھا مگر اس کی ماں پہلے حضرت علی کے بھائی کے نکاح میں تھی۔پھر حضرت ابوبکر کی بیوہ بن گئی تو حضرت علی نے نکاح کیا۔ اور محمد بن ابی بکرکی تربیت بھی حضرت علی نے ہی کی تھی۔ ایک گھر کے افراد اور بھائیوں میں کتنا اختلاف تھا؟۔ ایک نے حضرت عثمان کی داڑھی میں ہاتھ ڈا الا اور دوسرے آپ کو بچارہے تھے؟۔ اس سے زیادہ سیاسی اختلاف تو عمران خان اور مولانا فضل الرحمن پر بھی باپ بیٹے کا نہیں ہوا ہوگا؟۔ میرے دوست ناصر علی محسودPTIکو سپورٹ کرتے تھے اور اس کا بیٹاJUIکو سپورٹ کرتا تھا۔ میرا ایک بھتیجاPTIکو سپورٹ کرتا تھا اور دوسراJUIکو۔ میں نے خود شناختی کارڈ کو تصویر کی وجہ سے ضائع کیا تھا مگر پھرJUIکو سپورٹ دینے کیلئے شناختی کارڈ بنایا تھا تاکہ ووٹ دے سکوں۔ جب میجر جنرل ظہیر الاسلام عباسی میرے ہاں تشریف لائے تھے توPTIکے صوبائی امیدوار ایوب بیٹنی سے کہاتھا کہ”تم یہود ی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑرہے ہو؟”۔ مگر میں نے جنرل صاحب سے کہا کہ ٹانک میں مولانا فضل الرحمن اور جمعیت علماء اسلام کی مرکزی جامع مسجد سپین جماعت مولانا فتح خان کیPTIکا دفتر تھا جس میںMPAکا امیدوارPTIاورMNAکے امیدوار مولانا فضل الرحمن تھے۔ جس پر جنرل ظہیرالاسلام کو خوشگوار حیرت ہوئی۔ لاڑکانہ میںPTIکیساتھ ہی مولانا راشد محمود سومرو کا اتحاد پیپلزپارٹی کے مقابلے میں تھا۔ سیاسی اختلافات اور اس میں احترام کا رشتہ تو صحابہ کرام سے چلا آرہاہے جس میں شدت بھی کبھی کبھی آجاتی ہے۔PTIکے معروف صحافی عمران ریاض خان نے لکھا تھا کہ ”اسرائیل کے یہود سے قادیانیوں کے بڑے مراسم ہیں”۔پھر الزام لگایا تھا کہ ”مولانا فضل الرحمن اسرائیل کو تسلیم کرنا چاہتے ہیں”۔ حالانکہ میاں افتخار حسین کیساتھ جب مولانا فضل الرحمن نے پریس کانفرنس کی تھی تو مولانا نے اسرائیل کے خلاف ہی نہیں دوبئی کو بھی آڑے ہاتھوں لیا تھا۔ عمران ریاض نے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سے معافی مانگ لی تو مولانا فضل الرحمن سے بھی مانگ لے گا۔ حامد میر نے کہا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا پروگرام جنرل باجوہ کا تھا۔ جبکہPTIہی کی رکن اسمبلی خاتون نے یہودیوں کے حق میں تقریر کی تھی۔ مولانا فضل الرحمن کو بھی جنرل باجوہ کے وقت بریفنگ دی گئی تھی کہ مساجد میں پیسہ آئے گا اور یہ بھی بتایا ہوگا کہ عمران خان اسرائیل کا ایجنٹ ہے ۔ اگر دونوں کے درمیان غلط فہمی دور ہوجاتی ہے۔ تو اس کا بھی پتہ چلے گا کہ جو ان کو لڑارہے تھے۔
مفتی رشید کی دم پھر کسی نے ہلائی ہوگی یا اپنے شجرہ خبیثہ سے تعلق رکھنے کی وجہ سے اپنی فطرت سے مجبور ہوگا؟۔ یہودی ایجنٹ اور مولانا ڈیزل کے الزام کا معاملہ نیا نہیں ہے ۔ بینظیر بھٹو اور نوازشریف بھی ایک دوسرے پر اسرائیل اور امریکہ کے ایجنٹ کا الزام لگاتے تھے۔ کفر کے فتوے اور سودی نظام کو اسلامی کہنا زیادہ سنگین مسئلہ ہے۔ مفتی طارق مسعود و مفتی عبدالرحیم پہلے مجاہدین کو سپورٹ کرتے تھے پھر ان پر وعید کی احادیث فٹ کرنے لگے کہ یہ دہشت گرد ہیں؟۔ اس کا کیا بنے گا مفتی رشید لدھیانوی کالیا کے شاگردواور مریدو!،؟۔شیعہ پر کفر کے فتوے اور واپس لینے کا کیا بنا؟۔ حاجی عثمان کے عقیدتمندوںکی بڑی دنیا ہے جس میں دارالعلوم کراچی کے مولانا اشفاق قاسمی فاضل دارالعلوم دیوبندبھی شامل تھے۔ جن کے نکاح کے بارے میں لکھ دیا کہ اس کا انجام کیا ہوگا عمر بھر کی حرامکاری اور اولاد الزنا۔ جس دن ان ذوالخویصرہ کی اولاد کا ادراک ہوگیا تو پھر امت مسلمہ میں کفر کے فتوے ،نفرت ، شدت پسندی اور دہشتگردی کا خاتمہ ہوگا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،الیکشن شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اہل مغرب ہمیشہ حق کے ساتھ غالب رہیں گے یہاں تک کہ قیامت کھڑی ہوجائے۔ صحیح مسلم

اہل مغرب ہمیشہ حق کے ساتھ غالب رہیں گے یہاں تک کہ قیامت کھڑی ہوجائے۔ صحیح مسلم

قال رسول اللہ ۖ لا یزال اہل الغرب ظاہرین علی الحق حتیٰ تقوم الساعة
سعد بن ابی وقاص نے کہا کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ اہل مغرب ہمیشہ حق کے ساتھ غالب رہیں گے یہاں تک کہ قیامت کھڑی ہوجائے۔ (صحیح مسلم حدیث4843کتاب الامارة)

محترم قارئین ، علماء کرام ، مفتیان عظام، سیاسی قائدین، مجاہدین، صحافی ، دانشور اور عوام الناس!السلام علیکم ورحمة اللہ
رسول اللہ ۖ کی اس حدیث کے بارے میں کم از کم کوئی یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ یہ من گھڑت ہے۔ کوئی ایسے قرائن نہیں کہ یہ کہا جاسکے کہ ان مقاصد کیلئے کسی راوی نے یہ حدیث گھڑی ۔ اہل غرب میں روس، یورپ، امریکہ اور مغربی ممالک ہیں ۔ یہ تو تاریخ نے دیکھ لیا کہ کبھی فرانس اور برطانیہ کی کالونیاں دنیا بھر میں ہوا کرتی تھیں۔ پھر روس اور امریکہ نے دو سپر طاقتوں کی شکل اختیار کی۔ سقوط بغداد سے بنو عباس کی خلافت کا خاتمہ ہوا اور پھر چنگیز خان اور ہلاکو خان کی بربریت کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کی اولاد کو ایمان سے سرفراز فرمایا اور شاعر نے یہ گایا
تو نہ مٹ جائے گا ایران کے مٹ جانے سے
نشہ مے کو تعلق نہیں پیمانے سے
ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
حماس نے ایک حملہ اسرائیل پر کردیا اور آج بچوں خواتین اور انسانوں کی لاشیں روز سوشل میڈیا پر دل جلانے کیلئے موجود ہیں۔ بیت المقدس پر تو یہود کا قبضہ ہوگیا ہے اور غزہ کی پٹی دور کی مسافت پر ہے۔ جب امریکہ نے افغانستان اور عراق میں بڑی تباہی مچائی تو لیبیا کے لوگوں نے خود ہی کرنل قذافی کو بہت بے دردی کے ساتھ شہید کردیا۔ آج غیر ملکی طاقتیں بلکہ مغرب جب افغانستان ، ایران، پاکستان اور سعودی عرب کسی بھی ملک پر بمباری کرکے حکمرانوں کو تباہ کردیں تو اغیار سے زیادہ ہماری اپنی مسلم عوام سے اپنے اپنے حکمرانوں کو یلغار کا زیادہ خطرہ ہوگا اور پھر بھی ہم ایک لمحے کیلئے یہ نہیں سوچتے کہ ہماری اجتماعی بقاء کیلئے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟۔ جبکہ اہل غرب ہماری طرح بے چینی اور بے سکونی کے ساتھ نہیں رہ رہے ہیں۔ ہماری کیفیت تو قرآن ، حدیث، علماء و مشائخ اور مذہبی طبقات کی وجہ سے ایسی بن گئی ہے کہ اگر کہیں بھول کر بھی شوہر کے منہ سے 3طلاق کے الفاظ نکل گئے تو حلالہ کی لعنت کا خمار دماغ پر چڑھ جاتا ہے۔ اگر اس لعنت کیلئے کوئی تیار نہیں ہوتا تو عورت کی زندگی تباہ ہوجاتی ہے۔ وہ اپنے شوہر اور اپنے بچوں سے ہمیشہ کیلئے محروم ہوجاتی ہے۔ بھلا کرے اللہ تعالیٰ امام اعظم امام ابو حنیفہ کی شخصیت کا جس نے اکیلے یہ صدا بلند کردی کہ حلالہ سے عورت اپنے شوہر کیلئے حلال ہوجاتی ہے ورنہ تو باقی ائمہ امام مالک، امام جعفر صادق، امام شافعی ، امام احمد بن حنبل اور امام ابو حنیفہ کے اپنے شاگرد عبد اللہ ابن مبارک ، امام ابو یوسف، امام زفر اور امام محمد وغیرہ کا اس بات پر اتفاق تھا کہ حلالہ سے عورت اپنے شوہر کیلئے حلال نہیں ہوتی ہے۔
اگر امام ابو حنیفہ حلالہ کی لعنت سے حلال ہونے کا فتویٰ نہ دیتے تو پھر عورت کو اپنے شوہر اور اپنے بچوں سے ہمیشہ کیلئے محروم ہونا پڑتا۔ پھر پانچ چھ سو سال قبل حنفی مذہب میں مزید دو عظیم سپوت پیدا ہوئے ایک علامہ بدر الدین عینی اور دوسرے محقق ابن ھمام جنہوں نے مزید سہولت کاری فراہم کردی کہ ”ہمارے کچھ نامعلوم بزرگوں سے نقل ہے کہ اگر زبان سے حلالہ کے الفاظ ادا نہیں کئے اور دل میں حلالے کی نیت سے نکاح کیا تو حدیث میں آئی ہوئی لعنت سے بندہ بچ جائے گا”۔ اور پھر اس سے بھی زیادہ بشارت عظمیٰ یہ بھی سنادی کہ ”اگر نیت یہ ہو کہ دو خاندان آپس میں ملیں تو ہمارے نامعلوم بزرگوں نے کہا ہے کہ حلالہ سے ثواب بھی ملے گا”۔ نیت کے حوالے سے اتنا عظیم اجتہاد اہل مغرب نے تو نہیں دیکھا ہوگا لیکن یہود و نصاریٰ کی تاریخ میں بھی اس کی مثال نہیں ملے گی۔
سن2007میں جب قرآن و سنت کے حوالے سے یہ انکشاف کردیا تھا کہ قرآن و سنت میں حلالے کا غلط تصور پیش کیا گیا ہے تو بجائے خوشیوں کے کوئی شادیانے بجاتا ہمارے اخبار کو ہی بند کردیا گیا۔ پھر مذہبی طبقات کی طرف سے مشکلات کا شکار رہنے کے بعد کچھ آسانی پیدا ہوگئی تو اخبار کی دوبارہ اشاعت بھی شروع کردی اور چند کتابیں بھی لکھ ڈالیں۔ جس میں بہت مدلل انداز کے اندر قرآن و احادیث کے مؤقف سے آگاہ کیا گیا کہ دورِ جاہلیت میں حلالے کا جو تصور تھا اس کو قرآن نے ختم کیا۔ لیکن ہمارے علماء و مفتیان اپنے عقیدتمندوں کو بھی اس لعنت سے بچانے کیلئے کھل کر سامنے نہیں آئے۔ آج جماعت اسلامی کو اس بات پر شاید شرمندگی کا سامنا ہے کہ جو تحریک دنیا میں اسلام کے غلبے کیلئے مولانا مودودی نے اٹھائی تھی اور اس میں مولانا مسعود عالم ، مولانا ابوا لحسن علی ندوی اور مولانا محمد منظور نعمانی کے علاوہ بہت سارے علماء اور دانشور بھی شریک تھے ۔ لیکن پورے پاکستان سے سب سے زیادہ امید وار کھڑے کرنے کے باوجود کوئی ایک سیٹ بھی نہیں جیت سکی ہے۔ میں نے 2 دفعہ منصورہ لاہور میں اس غرض سے حاضری دی کہ جماعت اسلامی حلالے کے خلاف نکل کھڑی ہوگی تو لوگوں کو بہت بڑا ریلیف مل جائے گا۔ لیکن ان لوگوں کو صرف اس وقت جوش آتا ہے جب کوئی عوامی لہر کسی کی مقبولیت کے حوالے سے دیکھتے ہیں۔
مدارس اور مذہبی جماعتوں کے قائدین اورنمائندوں تک مسلسل ہمارا اخبار اور کتابیں پہنچ رہی ہیں۔ لیکن ان کو اس بات کی فکر نہیں کہ کتابوں میں سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا جائز قرار دیا گیا ہے یا حلالے کے نام پر خواتین کی ناجائز طور سے عزتیں لٹ رہی ہیں یا پھر مدارس کے نصاب میں قرآن کی حفاظت کیخلاف تعلیمات دی جارہی ہیں۔ عمران خان کی ایک سیٹ تھی جو اس نے مولانا فضل الرحمن کو وزیر اعظم بننے کیلئے دی تھی۔ دوسری طرف مولانا اعظم طارق کی ایک سیٹ تھی جو اس نے مولانا فضل الرحمن کے خلاف ظفر اللہ جمالی کو وزیر اعظم کیلئے دی اور اس ایک سیٹ سے ظفر اللہ جمالی وزیر اعظم منتخب ہوگئے۔ یہ نہیں بھولنا کہ جب غلام اسحاق خان کے خلاف نوابزادہ نصر اللہ خان نے صدارتی الیکشن لڑا تھا تو شہید بینظیر بھٹو نےMRDکی تحریک میں جنرل ضیاء الحق کے خلاف قربانی کی تاریخ رقم کرنے والے نوابزادہ نصر اللہ خان کی بجائے غلام اسحاق خان کو ہی صدارتی ووٹ دیا تھا۔ جس نے پھر باری باری بینظیر بھٹو اور نواز شریف کو چلتا کیا تھا۔ پرویز مشرف اور ق لیگ کے خلاف بھی پیپلز پارٹی کے چند ووٹ اگر مولانا فضل الرحمن کے حق میں ڈال دئیے جاتے تو ق لیگ اور پرویز مشرف اس وقت اقتدار سے محروم ہوجاتے جس نے پیپلز پارٹی میں پیٹریاٹ بنا کر پارٹی کو توڑا تھا اور ن لیگ کو توڑ کر ق لیگ بنائی تھی۔ پھر جب اس خدمات کے بدلے بینظیر بھٹو کو شہادت کی منزل پر پہنچادیا گیا اور پیپلز پارٹی کو اقتدار مل گیا تو مولانا فضل الرحمن نے پیپلز پارٹی کی حکومت میں شرکت اقتدار کا شرف حاصل کیا۔ محسن جگنو کے انٹرویو میں مولانا فضل الرحمن سے پوچھا گیا کہ اس وقت زرداری کو کیا مسئلہ تھا ؟۔ لیکن مولانا نے بات گول کی تو محسن جگنو نے بتایا کہ زرداری کی زندگی کو طاقتور حلقے سے جان کا خطرہ تھا اور وہ چند دن تک سو نہیں سکے تھے۔
اس وقت نواز شریف بھی یوسف رضاگیلانی اور زرداری کے خلاف بہت ہی آب و تاب کے ساتھ طاقتور حلقوں کے ساتھ شانہ بشانہ لڑرہے تھے۔ پھر جب نواز شریف کو آب و تاب کے ساتھ لایا گیا تو عمر چیمہ نے پانامہ لیکس کی خبر نشر کردی۔ نواز شریف نے پارلیمنٹ میں بڑی صفائی کے ساتھ جھوٹ کی یہ تاریخ رقم کردی کہ لندن فلیٹ اللہ کے فضل و کرم سے2005میں سعودیہ کی اراضی بیچ کر2006میں خریدے۔ جس کے تمام دستاویزی ثبوت عند الطلب میڈیا اور عدالت کو دکھا سکتا ہوں۔ عدالت نے طلب کیا تو قطری خط سامنے لایا۔ پھر قطری خط میں بلا کی غلطیاں تھیں اسلئے کہ بلا کا یہ جاہل اپنے جاہل مریدوں کے غلط ڈھکوسلوں کو سمجھنے سے قاصر تھا۔ پھر مجھے کیوں نکالا کا واویلا کیا اور ووٹ کو بھی عزت دو کا نعرہ لگایا۔ پھر2018میں محکمہ زراعت کے نام سے خلائی مخلوق کا یہ کارنامہ سامنے آیا کہ اڑن طشتری میں عمران خان کا نزول ہوا۔ دنیا جہاں کے لوگوں کو حیرت ہوگی کہ جس جنرل قمر جاوید باجوہ کو سب متفق علیہ گالی گلوچ سے نوازتے ہیں اس کو سب نے ملکر نہ صرف3سال کی ایکسٹینشن دی بلکہ قانون میں بھی ترمیم کر ڈالی اور مزید ایکسٹینشن کی بھی گنجائش موجود تھی۔
پہلے آرمی چیف کی ایکسٹینشن قانون میں بھی چور دروازے سے ہوتی تھی۔ کرائم کے دفعات میں یہ لکھا تھا کہ اگر کسی فوجی کو سزا دینی ہو تو اس کو بحال کرکے کورٹ مارشل کیا جائے گا اور اسی کے تحت جنرل ایوب ، جنرل ضیاء الحق ، جنرل پرویز مشرف ، جنرل اشفاق پرویز کیانی نے تاریخی ایکسٹینشن لی تھی اور یہ اتفاق تھا کہ جب پرویز مشرف کی پیٹھ میں نواز شریف نے چھرا گھونپا تو عدالت نے پرویز مشرف کو 3سال تک قانون سازی کی اجازت بھی دی تھی۔ لیکن کسی ایک نا معلوم شخص نے جب قمر جاوید باجوہ کی ایکسٹینشن کو عدالت میں چلینج کیا تو پھر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ پر قانون کی کتاب کھل گئی کہ آج تک جتنے بھی فوجیوں کو ایکسٹینشن دی گئی ہے وہ تو بنتی ہی نہیں ہے۔ صحافت اور سیاست کے ایک نمایاں کردار ایاز امیر صاحب جو کبھی ن لیگ کے ایم این اے بھی رہے ہیں اور ابPTIکی طرف سے آزاد حیثیت میں بھی الیکشن لڑا تو وہ بڑی ڈھٹائی سے کہہ رہے تھے کہ عمران خان نے ایکسٹینشن کیلئے عدالت سے رجوع کرکے بڑی سنگین غلطی کا ارتکاب کیا ہے۔ ہر چیز قانون کے تابع نہیں ہوتی ہے۔ اس موصوف کو پھر بھی نہیں بخشا گیا حالانکہ اس کی ساری باتیں ن لیگ کے خلاف تھیں۔ وہ بھی اس وقت جب ن لیگ عقاب کے زیر عتاب تھی۔
ہمارے مذہبی ، سیاسی اور مقتدر طبقات کے کردار اور رفتار کو دیکھ کر لگتا تو یہی ہے کہ نبی ۖ نے سچ فرمایا کہ اہل غرب ہمیشہ حق کے ساتھ غالب رہیں گے۔ اگر ہم ماضی کے دریچوں میں تھوڑا جھانک کر دیکھیں تو خلافت عثمانیہ کے بادشاہ کی ساڑھے 4ہزار لونڈیوں سے پتہ چلے گا کہ سقوط بغداد کیوں ہوا؟۔ بنو عباس اور بنو اُمیہ کے اکثر حکمرانوں کا کردار اور ظلم و ستم بھی اگرچہ قابل رشک نہیں ہے لیکن اگر ہم نبی رحمت ۖ کے بعد خلفاء راشدین کے دور کو دیکھیں تو اس میں بھی عشرہ مبشرہ کے مقدس صحابہ کرام حضرت طلحہ و زبیر اور علی ایکدوسرے کیخلاف جنگوں کی قیادت کرتے نظر آتے ہیں۔ حضرت عثمان کو تخت خلافت پر شہید کیا گیا۔ اہل مشرق کے دانش نے مشاجرات صحابہ پر بات کرنے کی بھی پابندی لگائی ہے کہ اس سے عوام میں بدظنی کی روح بیدار ہوگی اور پھر مسئلہ خراب ہوگا۔
مولانا محمد مکی کا ایک ویڈیو کلپ ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ حضرت خالد بن ولید نے ایک شخص (مالک بن نویرہ )کی بیوی سے عشق کیا تو اس کو قتل کرکے اس کی بیوی سے عدت میں شادی کرلی۔ ایک طرف عمران خان کو عدت میں شادی کے الزام سے بچانے کیلئے یہ مہم جوئی ہورہی ہے تو دوسری طرف ہماری فوج کو بھی اس سے بڑا ریلیف مل رہا ہے کہ جب حضرت ابوبکر کے دور میں یہ المناک واقعہ ہوا تھا تو ہم15ویں صدی ہجری کے انسان ہیں۔ مولانا مکی فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے حضرت خالد بن ولید کو منصب سے سبکدوش کردیا لیکن جس کو قتل کیا تھا اس کا کیا بنا؟۔ کیا قتل کے بدلے قتل کرنا نہیں تھا؟۔ شاید مولانا مکی بھی سعودی عرب میں شاہی خاندان کے اقدامات کو جواز بخشنے کیلئے یہ حقائق اجاگر کرنے کی کوشش کررہا ہو۔ فتاویٰ عالمگیریہ میں مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کی سہولت کاری کیلئے یہ مسئلہ لکھ دیا گیا کہ بادشاہ قتل، زنا، چوری، ڈکیتی اور جو کچھ بھی کرے اس پر کوئی حد جاری نہیں ہوگی۔ جب بادشاہوں اور علماء میں محبت کا یہ عالم تھا تو انگریز نے ایسٹ انڈین کمپنی لگاکر برصغیر پاک و ہند پر قبضہ کرلیا۔
اہل سنت کے چاروں اماموں نے متفقہ طور پر یہ مسئلہ اُمت مسلمہ کو بتادیا کہ حضرت ابوبکر صدیق کی طرف سے جبری زکوٰة کا مسئلہ درست نہیں تھا لیکن پھر انہوں نے بے نمازی کو نہ صرف سزا دینے پر اتفاق کیا بلکہ بعضوں نے قتل تک بھی بات پہنچادی۔ ایک طرف بادشاہوں کی طرف سے عوام کو قتل کیا جاتا تھا جس پر کوئی آواز نہیں اٹھاتا تھا اور دوسری طرف بے نمازی کو قتل کرنے کا فتویٰ دینا ”ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات” کے مترادف تھا۔
اگر سنی علماء جمعہ کے خطبات میں حکمرانوں کیلئے یہ حدیث پڑھتے تھے کہ السلطان ظل اللہ فی الارض من اھان سلطان اللہ فقد اھانہ اللہ ”حکمران زمین پر خدا کا سایہ ہے جس نے اللہ کے بادشاہ کی توہین کی تو بیشک اس نے اللہ کی توہین کی”۔ دوسری طرف شیعہ امامت کیلئے معصومیت کا عقیدہ رکھتے تھے اور قرآن نے جس مشاورت کا حکم دیا تھا وہ بالکل مفقود ہوچکا تھا۔ اور جس قرآن میں ایک خاتون کو بھی نبی ۖ سے اختلاف کی نہ صرف گنجائش تھی بلکہ اس کے حق میں اللہ تعالیٰ نے وحی بھی نازل کی لیکن جب صحابہ و ائمہ اہل بیت کیلئے قرآن و احادیث سے بالاتر عقیدت رکھی گئی اور بادشاہوں پر تنقید کو اللہ کی توہین قرار دیا گیا تو مسلم ممالک سے ہما نے اُٹھ کر مغرب کے سر پر بیٹھنا تھا۔
مولانا عبید اللہ سندھی نے لکھاہے کہ نبی ۖ اور ابوبکر کا دور ایک تھا اور پھر حضرت عمر کا دور تھا جس میں سرمایہ دارانہ نظام کیلئے بنیاد فراہم کی گئی۔ جس میں وظائف کی تقسیم طبقاتی بنیادوں پر بدری اور غیر بدری صحابہ کے اندر کردی گئی۔ پھر حضرت عثمان کے دور میں خاندانی نظام کیلئے بنیادیں فراہم ہوئیں اور آخر کار اسلام ملوکیت کا شکار ہوگیا۔ ہمارے ہاں سب سے بڑی زیادتی یہ ہے کہ اسلام کی بنیاد پر آزادیٔ صحافت کو بھی فروغ نہیں دے سکتے۔ ایران ، سعودی عرب اور افغانستان میں اسلام کے نام پر اقتدار ہے لیکن اس آزادی کا تصور نہیں جو دنیا میں مغرب نے صحافیوں کو دی ہے۔ پاکستان میں آزادی صحافت باقی اسلامی دنیا کے مقابلے میں بہت مثالی ہے۔ اگر کوئی الیکٹرانک میڈیا کا صحافی یہ جھوٹ بولتا ہے کہ مجھے بولنے نہیں دیا جاتا تو سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم بھی سب کو میسر ہے۔ صحافی بھی بعض سپوت ، بعض کپوت اور بعض مکس سپوت کپوت ہیں۔
جن سیاستدانوں اور صحافیوں کو مداری کے بندر کی طرح ڈنڈے پر چڑھنے کا شرف حاصل ہوتا ہے تو ان کی تعلیم و تربیت کیلئے ڈنڈے کا استعمال بھی بنتا ہے۔ اکثر صحافیوں کو بہت کچھ بولنے کے باوجود بھی کچھ نہیں کہا جاتا ہے۔ ہماری فوج کا کردار بھی کوئی مثالی نہیں ہے۔ جب سقوط ڈھاکہ ہوا تو بھی ہندوستان کی قید سے آزاد ہونے کے بعد ڈھول باجے کی تھاپ پر ان کا استقبال کیا گیا۔ حالانکہ کرکٹ ہارنے والوں کو بھی ٹماٹر اور انڈوں سے نشانہ بننے کا خطرہ ہوتا ہے۔ اور جب میڈیا پر صرف اور صرف کرکٹ کی خبروں کے ذریعے سے بچے، بچیوں اور جوانوں اور خواتین و حضرات کو شیدائی بنایا جائے گا اور پوری قوم تاریخ، مذہب، تہذیب، تمدن، معاشیات، سیاست، سائنس اور تمام علوم و فنون سے عاری ہو تو اس کیلئے ایک کرکٹر ہی حقیقی لیڈر ہوسکتا ہے۔ جب ضرورت پڑی تھی تو پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ اور آج بھی آرمی چیف اسی کا سہارا لیتے ہیں۔
سوشل میڈیا آزادی سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے بجائے جھوٹ کا بازار گرم کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے جس کے اثرات الیکٹرانک میڈیا پر بھی پڑے ہیں اور جب تک کوئی سنسنی خیز عنوان سے جھوٹی خبر نہ لگائی جائے تو اس کی ریٹنگ کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ جب جھوٹ اور سچ کا اختلاط ہوتا ہے تو سچ پر بھی کسی کو یقین نہیں آتا۔ جب پنڈی کے کمشنر نے پریس کانفرنس کی تو کافی دیر تک مجھے یہ خبر بھی فیک لگی اور ہوسکتا ہے کہ کچھ فیک خبروں پر سچائی کا یقین بھی آگیا ہو۔ اسلئے کہ انسان بہت کمزور ہے اور اس کمزوری کی نشاندہی سورہ نور میں بھی ہوئی ہے۔ جب ایک اُم المؤمنین کیخلاف بہتان عظیم کا جھوٹا پروپیگنڈہ کیا گیا تھا ۔ کمال کی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک طرف غلط پروپیگنڈے کو پھیلانے سے روکا تو دوسری طرف اللہ نے فرمایا کہ اس کو اپنے لئے شر مت سمجھو بلکہ اس میں تمہارے لئے خیر ہے۔ اگر آج مغرب کو یہ پتہ چل جائے کہ قرآن و سنت میں برابری کا اتنا زبردست قانون ہے کہ جب اُم المؤمنین پر بہتان لگا تو اس کی سزا بھی80کوڑے تھی اور غریب خاتون پر بہتان لگے تو اس کی بھی سزا80کوڑے ہے۔ تو دنیا میں اسلام کا بول بالا ہوگا۔ لیکن ہمارا دانشور اور متعصب مذہبی طبقہ یہ سوچ پھیلارہا ہے کہ حدیث میں اُم المؤمنین کے خلاف سازش کرنے کیلئے یہ بات گھڑی گئی ہے۔ اگر اُم المؤمنین کے خلاف اتنی بڑی بات کوئی کرتا تو اس کی سزا قتل ہوتی۔ عمران خان مغرب کی طرح ایک قانون کی بات کرتا تھا لیکن جب وہ حملے کا شکار ہوا تو اس نے کہا کہ میں ایک سابق وزیر اعظم ہوں اور پنجاب میں میری حکومت ہے اور اپنی مرضی کیFIRدرج نہیں کرسکتا۔ اگر وہ اپنے اقتدار میں تھانوں اور چھوٹی عدالتوں کی سطح پر انصاف کو عام کرتا تو پھر یہ شکایت کرنے کا موقع نہ ملتا۔ آج صحافی درست آئینہ دکھانے کے بجائے دیہاڑی دار ہیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،الیکشن شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

پروفیسر احمد رفیق اختر نے آیت کی غلط تفسیرکی جس کا نوٹس لینا بڑا ضروری

پروفیسر احمد رفیق اختر نے آیت کی غلط تفسیرکی جس کا نوٹس لینا بڑا ضروری

صحابہ نے پوچھا کہ توبہ ہم جانتے ہیں طہارت سے کیا مراد ہے؟۔ نبی ۖ نے فرمایا : ڈھیلوں کے بعد پانی کا استعمال کرنا زیادہ طہارت ہے(مفہوم)

آیت میں حیض کا ذکر ہے اور طہارت کا مفہوم بھی بالکل واضح ہے۔ پروفیسر احمد رفیق اختر نے تعلیم یافتہ لوگوں کا بار اٹھایا ہے غلطی کا ازالہ ہونا چاہیے۔

پروفیسر احمد رفیق اختر نے ایک ویڈیو میں کہا ہے کہ خواجہ مہر علی کی ایک بات مجھے وہ اخری لٹریٹ مسٹک سے ان کی رائے میں بڑا حسن ہے دل نے چاہا کہ اس کے اختتام سے پہلے میں ان کو کوڈ نہ کروں فرمایا کہ ان امور کے بیان میں جن کا جاننا ضروری ہے واضح ہو کہ تفسیر کے تمام طریقوں میں سے اول درجہ بڑی انقلابی بات ہے، اول درجہ تفسیر القران بالقرآن ہے۔ یعنی سب سے پہلے قران کی وضاحت قران سے طلب کیجیے اگر قرآن ایک بات ایک جگہ کہی ہے جیسے معتزلہ نے کیا یا ماتریدیہ نے کہا یا جہیمیہ نے کیاایسے نہ کیجئے۔ ایک آیت سے استنباط نہ کیجیے پہلے پورا قران تو پڑھ لیں۔ مختصر یہ کہنا ہے امام کا خواجہ مہر علی کا کہنا یہ ہے کہ یار پہلے پورا قران تو پڑھ لو نا اگر ایک آیت سپلیمنٹ آیت آئی ہوئی ہے سپلیمنٹ آیتیں آئی ہوں گی اگرآگے آیات ہوں گی تو پورا ادراک ایک موضوع پہ آیات قرانی سے کر لو پھر ان کے بارے میں رائے دینا۔ تو فرسٹ ڈگری قرآن کو سمجھنے کیلئے یہ ہے کہ قرآن کی تفسیر بالقرآن۔ اس کے بعد کیونکہ ان القرآن یفسر بعضہ بعضا قرآن ایسی کتاب ہے کہ اس کی ایک آیت دوسری آیت کی تفسیر کرتی ہے ایک حصہ دوسرے حصے پہ دلالت ہے اس کی محکمات متشابہات پہ دال ہے اور متشابہات زمانوں پہ آکے دلیل دیتی ہے قرآن کے بارے میں۔ دوسرا درجہ تفسیربالسنہ باوجود اس کے کہ وہ ایک بڑے سپیشلائز مسٹک علوم میں استاد معظم ہیں اسکے باوجود جو رائے دے رہے ہیں قرآن پڑھنے کے بارے میں کہ دوسرا طریقہ قرآن کی تفسیر بالسنہ ہے کہ اصحاب کے رویوں سے تصدیق کرو اگرآپ کو پتہ لگے یہ ہے تو آپ کوشش کرو کسی سے پوچھو کہ جب یہ حکم آیا تھا اصحاب نے کیسے لی ؟۔ چھوٹی سی آپ کو ایک بات بتا دوں کہ جب یہ آیت اتری کہ پروردگار نے صفائی پہ اتاری یحب التوابین ویحب المتطاہرین کہ خدا توبہ کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے اور پاک رہنے والوں سے محبت رکھتا ہے۔ تو اصحاب نے پوچھا یا رسول اللہ توبہ کی تو سمجھ آگئی مگر یہ پاک رہنے والے کون ہیں؟۔ تو اگر آپ کے سامنے بھی یہ لفظ پاک میں رکھ دو تو بڑی مشکل سے پتہ ہے کہ کیا پاکیزگی کا بیان ہے مگر رسول اکرم ۖ نے اصحاب کو جو بتایا کہ پاکیزگی کا مطلب ہے جوآپ ڈھیلے کے بعد آب دست لیتے ہیں کہ جب آپ گئے کیونکہ اس وقت جو رواج تھا رویہ تھا باہر گئے آپ نے ابولوشن کی تو پاک وہ لوگ ہیں جو اس ابولیوشن سے پوری طرح مطمئن نہیں ہوئے اور گھر آکے انہوں نے پانی سے وضو کیا۔ اے لٹل ایکسٹرا کلین (تھوڑی سی مزید صفائی )۔تو آپ کیلئے قابل قبول ہو گیا۔ اصحاب کی ان وضاحتوں سے دین ہماری گرفت میں آجاتا ہے آپ کو پتہ ہے اگر ہم ان کی بات نہ سنیں تو دین ہماری گرفت سے نکل جاتا ہے۔ اگر میں طاہرین کا یا متطاہرین کا ترجمہ لنگوسٹیکلی کروں زبان کے لحاظ سے کروں تو مجھے پاکیزگی کے ہولناک خواب آنے شروع ہو جائیں مگر یہ جو ایک نیچرل بتایا ہے کہ اینی بوڈی ہووش ٹو بی مور کلین وہ طاہر ہے۔ وہ غیر معمولی کنڈیشن نہیں ہے معمولی سی بات ہے کہ اگر آپ اپنے آپ کو زیادہ صاف رکھنا چاہو۔ اسلئے اصحاب کے رویے جو ہیں وہ قرآن کی اور سنت رسول کی بہترین تائید میں ہیں اور بہترین تفسیر ہیں۔ اور تیسرا درجہ شاہ خواجہ مہر علی کہتے ہیں کہ اصحاب کرام کی تفسیر کا ہے اور یہ کون ہے خلفاء اربعہ عبداللہ بن مسعود عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما۔ پھر چوتھادرجہ تابعین اور تبع تابعین کا ہے۔ ان میں چند ایک کے انہوں نے نام بتائے ہیں کہ عمدہ ترین مفسرین جو ہیں حضرت مجاہد بن جبل ابن عباس کے شاگردوں میں سے ، امام بخاری اور امام شافعی نے ان کی تفسیر پر اظہار اعتماد کیا ہے۔

تبصرہ نوشتۂ دیوار : عتیق گیلانی
پروفیسر احمد رفیق اختر کے اس بیان پر پیر مہر علی شاہ گولڑہ شریف کی تصویر بھی یوٹیوب پر لگی ہے مگر اس میں ایسی جہالت کا مظاہر ہ کیا گیا ہے جو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ پاکی کا ایک تصور وہی ہے جس کی پہچان دنیا میں ”مسلم شاور” سے ہوتی ہے۔ یورپ وغیرہ میں ٹشو پیپر کا استعمال ہوتا ہے اور مسلمان استنجاء پانی سے بھی کرتے ہیں جس کی وجہ سے استنجاء میں استعمال ہونے والا شاور ”مسلم شاور”کہلاتا ہے۔ پروفیسر صاحب نے قرآن کی آیت222البقرہ کے حوالہ سے بات کی ہے جسمیں توبہ کرنے والوں اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں کا ذکر ہے۔ اس آیت میں ناپاکی اور پاکی کے تصورات عام فہم ہیں۔ اللہ نے فرمایا: ویسئلونک عن المحیض قل ھو اذی فاعتزلوا النساء فی المحیض ولاتقربوھن حتی یطھرن فاذا تطھرن فاتوھن من حیث امرکم اللہ ان اللہ یحب التوابین و یحب المتطھرین ۔ ترجمہ :”اور آپ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ کہہ دیجئے کہ وہ ایک تکلیف ہے۔ پس حیض کی حالت میں عورتوں سے دور رہو۔ اور ان کے قریب مت جاؤ یہاں تک کہ وہ پاک ہوجائیں۔ پس جب وہ پاک ہوجائیں تو ان کے پاس آؤ جیسا کہ اللہ نے حکم دیا ہے۔ بیشک اللہ توبہ کرنے والوں اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے ”۔ (البقرہ آیت222)۔ اسمیں پاکی اختیار کرنے والوں کی تفسیر بالکل واضح ہے۔ حیض کی حالت میں بیگمات سے قربت یعنی جماع سے روکا گیا ہے اور یہی پاکیزگی اختیار کرنے والے مراد ہیں۔پروفیسر احمد رفیق اختر اتنی دور کی کوڑی لانے سے بہتر تھاکہ پہلے آیت کے ترجمہ کو دیکھ لیتے اور پھر اس سلسلے میں احادیث کو دیکھ لیتے جن کا تعلق حیض سے ہے۔جہاں تک پانی سے استنجاء کرنے کی بات ہے ۔تو وہ حدیث سورہ توبہ آیت108سے متعلق ہے۔ جس میں مسجد ضرار کے مقابلے میں مسجد قباء کی وضاحت ہے۔ فیہ رجال یحبون ان یطھروا واللہ یحب المطھرین ” اس میں لوگ ہیں جو پسند کرتے ہیں کہ وہ پاک رہیں۔ اور اللہ پاک رہنے والوں کو پسند کرتا ہے”۔ اس میں ان صحابہ کرام کی خبر ہے جو مسجد قباء کے پاس رہتے تھے۔ زیادہ پاکی سے مراد یہ ہے کہ وہ ڈھیلوں کے علاوہ پانی سے بھی طہارت حاصل کیا کرتے تھے۔ اس میں توبہ کرنے کی کوئی بات نہیں ہے۔
شاید اسرائیلیات میں کہیں درج ہے کہ مسلمانوںکا یہ امتیاز ہوگا کہ وہ ڈھیلوں کے استعمال کے بعد استنجوں کیلئے پانی سے بھی صفائی کریں گے۔ اس کی پہلی مثال مسجد نبوی سے بھی پہلے کی مسجد قباء تھی اور موجودہ دور میں بھی جہاں مشرق سے مغرب تک دنیا صرف ٹشو پیپر کا استعمال کرتی ہے تو وہاں مسلم شاور کی حیثیت سے استنجے میں استعمال ہونے والے شاور کو یاد کیا جاتا ہے۔ نمازی لوگ لوٹوں کا استعمال شروع سے کرتے ہیں۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ کسی عالم سے غلطی کی وجہ سے بدظن مت ہو اسلئے کہ کبھی کبھی شیطان بھی کسی اچھے آدمی کے منہ سے غلط بات نکال دیتا ہے۔ ایک صحابینے دوسرے سے پوچھا کہ کیسے پتہ چلے گا کہ شیطان نے بات نکلوائی ہے؟۔ اس کا جواب اس صحابی نے یہ دیا کہ جب کوئی ایسی بات کرے کہ لوگوں کو تعجب ہو کہ یہ کیا بات کہہ دی لیکن اچھے عالم کی نشانی یہ ہے کہ وہ غلط بات سے رجوع کرلیتا ہے۔ اگر وہ رجوع نہیں کرتا تو پھر وہ ایک عالم نہیں بلکہ شیطان ہے۔ یہ روایت مولانا یوسف لدھیانوی شہید نے اپنی کتاب ”عصر حاضر حدیث نبوی ۖ کے آئینہ میں” لکھی ہے۔ جب مولانا یوسف لدھیانوی کی طرف سے حاجی عثمان صاحب کے خلاف خط کا جواب دیا گیا تو مجھے حاجی صاحب نے آخر میں وصیت کی تھی کہ مولانا لدھیانوی سے ضرور پوچھ لینا۔ مولانا لدھیانوی نے کہا تھا کہ یہ مفتی جمیل خان نے لکھ کر میری طرف منسوب کردیا ہے۔ اور حاجی عثمان کی بہت تعریف بھی کی۔ جب میں نے کہا کہ میں اس کی وضاحت کروں گا تو انہوں نے کہا کہ اگر مجھے گالیاں بھی دو تو میں جواب نہیں دوں گا۔ میں نے عرض کیا کہ ”غلطی کا ازالہ آپ کا اپنا فرض بنتا ہے”۔ مولانا محمود حسن گنگوہی پر فتویٰ لگایا گیا تو ایک عالم نے چھپ کر معافی مانگی۔ مولانا نے فرمایا کہ ”فتویٰ کھل کر لگایا تھا تو اس کی معافی چھپ کر نہیں بنتی بلکہ یہ شریعت کا تقاضہ ہے کہ کھل کر اس کی تشہیر بھی کرنی ہوگی”۔
پروفیسر احمد رفیق اختر صاحب نے یہاں پر بہت بڑی غلطی کا ارتکاب کیا ہے اور اس کا ازالہ بھی کھل کر کرنا ہوگا وگرنہ چھپ کر اس کی توبہ نہیں بنتی ہے۔ جہاں تک آیت222میں توبہ کا تعلق ہے تو یہ مردوں کیلئے عورت کو اذیت کی حالت میں تنگ کرنے کے حوالے سے وضاحت ہے۔ جب عورت اذیت کی حالت میں ہو تو اسکے شوہر کو اس کا خیال رکھنے کی تلقین ہے۔
اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ کو دیکھیں کہ جب مفسرین اور فقہاء نے عورت کی اذیت کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا تو آیت222البقرہ کے بعد آیت223سے232تک مسلسل اللہ نے عورت کو اذیت سے بچانے کیلئے احکام بیان کئے ہیں۔ لیکن عورت کی اذیت کو نظر انداز کرکے جب تفسیر کی گئی اور مسائل گھڑے گئے تو اسلام اس کی وجہ سے اجنبیت کا شکار ہوگیا۔ عورت صنف نازک ہے اور کمزور ہے اور اللہ نے اس کے حقوق کا تحفظ کیا ہے لیکن مردوں نے ان کے تمام حقوق کو غصب کرلیا ہے۔
جس دن مسلمان اپنی کمزور صنف نازک کے حقوق کو بحال کردیں گے تو ان پر مقتدر اور طاقتور حلقوں کی طرف سے ظلم بھی بند ہوجائے گا۔ ایک افغانی عورت امریکہ میں بظاہر بڑی بے شرمی کا ارتکاب کرتی ہے اور پشتون تحفظ موومنٹ کے شاعر گلامن وزیر کی تعریف بھی کرتی ہے اور کہتی ہے کہ میں اپنے شوہر کی دسترس میں رہتی ہوں اور عورتوں پر طعنہ زنی کا کوئی حق نہیں بنتا اسلئے کہ جب امریکہ نے افغانستان پر قبضہ کیا تو اس کے فوجیوں نے خواتین کو نہیں چھوڑا۔ تاریخ میں جتنے لوگ بھی دوسری اقوام پر قابض ہوئے ہیں تو خواتین کی عزتیں تار تار کردیتے ہیں۔ مغرب مسلمانوں کے بارے میں یہ تاثر رکھتا ہے کہ اگر اس کے قبضے میں ہم آگئے تو ہماری ماؤں، بہنوں، بیٹیوں اور بیگمات کو یہ لوگ اپنی لونڈیاں بنادیں گے۔ عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والے مغربی حکمرانوں نے اپنے دشمن یہودیوں کو بیت المقدس سونپ دیا ہے تو کیا وہ مسلمانوں کے مقدس مقامات کو اپنے قبلے سے زیادہ مقدس سمجھیں گے؟۔ پروفیسر احمد رفیق اختر نے انکشاف کیا کہ کوئی5برسوں میں ہی مغرب کے حکمران دنیا کے مسلمانوں سے مکہ کی مرکزیت چھین لیں گے۔ کیونکہ ان کے نزدیک جب تک یہ مرکز ختم نہیں ہوگا تو مسلمانوں سے چھٹکارا نہیں مل سکتا ہے۔ یہودیوں نے مصر سے مدینہ کیلئے ایک سڑک کا پروگرام بنایا ہے جس کے بعد وہ مدینہ کے بنو قریظہ ، بنو نظیر کے قبائل اور خیبر کے مقامات کو تلاش کرکے اپنا قبضہ جمالیں گے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بنیاد پر یہود و نصاریٰ اور عرب میں ایک نیا بھائی چارہ قائم ہوگا جس کو بنی اسحاق اور بنی اسماعیل کے درمیان رکھا جائے گا۔ باقی مسلمانوں کو حجاز مقدس میں قدم نہیں رکھنے دیا جائے گا۔
ایک طرف مسلمانوں کو وحشیوں کی طرح دہشت گرد بنادیا گیا اور دوسری طرف سیاستدانوں کے ساتھ جب تک بھلائی ہو تو ان کو آزادی کی فکر نہیں رہتی۔ جب اقتدار سے محروم ہوتے ہیں تو وہ آزادی کا طبلہ بجانے لگتے ہیں۔ اگر2018میں عمران خان کا ضمیر جاگتا اور محکمہ زراعت کو مسترد کردیتا تو آج یہ دن نہ دیکھنے پڑتے مگر اس وقت پروفیسر صاحب نے اس کا گٹار بجاکر سنا ہے کہ استقبال کیا تھا۔ اللہ ہم سب پر رحم کرے

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،الیکشن شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

سنی شیعہ دونوں فرقے قرآن و سنت، آئین پاکستان اور عورت کے حق ِخلع کی سنگین خلاف ورزی کے مرتکب ہیں عورت مارچ والے یہ آواز اٹھائیں

سنی شیعہ دونوں فرقے قرآن و سنت، آئین پاکستان اور عورت کے حق ِخلع کی سنگین خلاف ورزی کے مرتکب ہیں عورت مارچ والے یہ آواز اٹھائیں

مفتی طارق مسعود کا بیان آیا کہ ”جج کو کیا حق ہے کہ وہ ہماری بیوی کو طلاق دے یہ گدھاپن ہے” فقہ جعفریہ میں شروع ہی سے یہ ہے کہ عدالت کا عورت کوخلع دینا قبول نہیں ہے ۔علامہ شبیہ رضازیدی

اللہ نے قرآن میں خواتین کے حقوق بیان کردئیے ہیں۔ آیت19النساء میں خواتین کو خلع کا حق دیا۔ خلع میں شوہر کی دی ہوئی ان چیزوں کا عورت کو حقدار قرار دیا جن کو عورت اپنے ساتھ لے جاسکتی ہے مگر غیرمنقولہ چیزیں گھر، باغ ، دکان ، پلاٹ ،زمین وغیرہ سے عورت کو دستبردار ہونا پڑے گا۔ البتہ طلاق میں منقولہ اور غیرمنقولہ تمام دی ہوئی چیزوں کی مالک بھی عورت ہی رہے گی،اگرچہ عورت کو بہت سارے خزانے دئیے ہوں تو بھی۔جس کی زبردست وضاحت سورہ النساء آیت20اور21میں بھرپور طریقے سے اللہ تعالیٰ نے کردی ہے۔
جس دن قرآن کے مطابق عورت کو خلع کا حق مل جائے اور اس کے ساتھ اس کے مالی حقوق بھی مل جائیں تو پاکستان، ایران اور افغانستان میں جبری حکومتوں کا خاتمہ ہوجائے گا مگر جب تک قرآن کے ظاہروباطن پر اس کی روح کے مطابق عمل نہیں ہوتا ہے تو قائداعظم محمد علی جناح، امام خمینی اور ملامحمد عمربھی زندہ ہوجائیں تو جبری نظام حکومت سے عوام کو چھٹکارہ کبھی نہیں مل سکتا ہے۔ لندن کے اندرجمائما کے مال میں عمران خان کا حصہ تھا لیکن پاکستان میں عمران خان کے گھر اور جائیداد میں جمائما اور ریحام خان کا حصہ نہیں تھا؟۔یہ غیرفطری بات ہے۔
قرآن نے عورت کے مال میں شوہر کا حصہ نہیں رکھا ہے لیکن شوہر پر حق مہر کو فرض کیا ہے ۔ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے تو آدھا حق مہر اور ہاتھ لگانے کے بعدطلاق دے تو پورا حق مہر، گھراور تمام دی ہوئی منقولہ وغیرمنقولہ اشیاء بھی۔ اور خلع کی صورت میں پورا حق مہر اوردی ہوئی منقولہ اشیاء بھی۔
عرب اور پشتون قوم حق مہر کے نام پر لڑکیوں کو فروخت کردیتے ہیں اور درباری علماء ومفتیان نے نابالغ بچیوں کے نکاح کی بھی بہت خطرناک اجازت دی ہے جو انسان کی بچی کیا گدھی کیساتھ بھی یہ جائز نہیں لیکن اسلام کا ستیاناس کردیا گیا۔
ہندوستان اور پنجاب میں جہیز کے نام پر عورت کا مال بھی ہتھیا لیا جاتا ہے۔برصغیرپاک وہند ، افغانستان، ایران ، عجم و عرب میں عورت کو وہ حقوق حاصل نہیں ہیں جو قرآن نے عطاء کردئیے ہیںاسلئے عورت گھرمیں ہویا بازارمیںوہ ایک ایسی جنس ہے جس کی کہیں کوئی اوقات نہیں ۔مغربی نظام بھی عورت کو اس کے وہ حقوق نہیں دے سکا ہے جو اسلام نے ساڑھے14سو سال پہلے عورت کو دئیے تھے۔ عورت کو سب سے زیادہ مذہبی طبقات نے حقوق سے محروم کیا ہے اسلئے کہ مذہبی طبقے کی طرف سے قرآن میں دئیے ہوئے حقوق کو بوٹی بوٹی کردیا ہے اور اس کی سب سے بڑی مثال عورت سے خلع کا حق چھین لینا ہے۔ بیوی کا زبردستی سے مالک بن جانا ہے۔عورت کو لونڈی بنانا ہے۔ عورت کو اس کی مرضی کے بغیر جنسی تشدد کا قانونی حق مرد کو دینا ہے۔ عورت کو سب سے زیادہ حقوق اسلام نے دئیے تھے لیکن پدر شاہی نظام نے نہ صرف عورت کے حقوق غصب کر ڈالے ہیں بلکہ نکاح اور اسلام کے نام پر جاہلیت سے بدتر عورت کے حقوق چھین لئے ہیں۔ پدر شاہی اور درباری علماء کا اس میں برابر کا کردار ہے۔ اسلام اجنبیت کا شکار ہونے سے معاملات جاہلیت کی طرف پلٹ گئے ہیں۔
جب جنرل ایوب خان کے دور میں عائلی قوانین بن گئے تھے تو پاکستان میں عورت کو عائلی قوانین میں خلع کا حق دیا گیا ہے۔ مفتی محمود پر الزام تھا کہ اس نے اس وقت جنرل ایوب خان سے ایک لاکھ روپیہ لیکر اسمبلی کے اندر اور اسمبلی کے باہر عورت کو حق خلع دینے کے خلاف کوئی مزاحمت نہیں کی تھی۔ میرے والد علماء کے قدر دان تھے۔ مفتی محمود کو بھی ووٹ دیتے تھے۔ میرے ماموں خان قیوم خان مسلم لیگ شیر کیساتھ تھے۔ ہماری سیاست پسند اور ناپسند کی حد تک تھی۔ کوئی بھی سیاسی کارکن اور رہنما کی طرح سیاست سے دلچسپی نہیں رکھتا تھا۔سن 1970کے الیکشن میں مفتی محمود پر مفتی تقی عثمانی اس کے باپ، بھائیوں اور اساتذہ مفتی رشیداحمد لدھیانوی اور مولانا سلیم اللہ خان نے بھی کفر کا فتویٰ لگایا تھا اور بڑی یلغار کی زد میں تھے۔ جب جمعیت علماء اسلام ضلع ٹانک کے مولانا نور محمد المعروف سرکائی ملا نے میرے ماموں سے کہا تھا کہ مفتی محمود نے الیکشن کیلئے بس مانگا ہے تو میرے ماموں نے کہا تھا کہ ”آپ کو دیتا ہوں لیکن مفتی محمود کو بس نہیں دینا تھا اسلئے کہ اس نے ووٹ اسلام کے خلاف ایک لاکھ میں بیچ دیا تھا”۔ آج محسن جگنو سے مولانا فضل الرحمن کہتے ہیں کہ ”میرے پاس وہی اثاثے ہیں جو میرے باپ نے چھوڑے ہیں۔ گزارا غیبی امداد سے ہورہاہے”۔
مفتی محمود کی وفات کے بعد مولانا فضل الرحمن امیر زادے نہیں لگتے تھے مگر اب حالات بہت تبدیل ہوگئے ہیں۔ ہماری گزارش یہ ہے کہ مفتی محمود بہت اچھے انسان تھے اور مولانا فضل الرحمن بھی بہت اچھے ہیں۔ تحریک انصاف کے کارکن اس کی مخالفت اسلئے کرتے ہیں کہ2018کے الیکشن سے پہلے اور بعد میں عمران خان عسکری قیادت کے ہاتھ میں کھلاڑی سے وہ کھلونے اورکھلواڑ بن گئے تھے۔اب جب دونوں کو گلہ ہے کہ ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اور گالی گلوچ اور فتوؤں کی زدوں سے نکلنے کی ضرورت ہے تو ایک پیج پر آنے میں مسئلہ نہیں ہے۔
عائلی قوانین میں عورت کو خلع کا حق دیا گیا ہے لیکن مولوی شیعہ ہو یا سنی ، حنفی ہو یا اہلحدیث اس حق کو غیر اسلامی سمجھتا ہے لیکن تمام مذہبی طبقات کو یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ جاویداحمد غامدی ،مولانا وحیدالزمان اور مولانا ابوالاعلیٰ مودودی تک اس گمراہی کی زد میں آگئے ہیں۔ غلام احمد پرویز و دیگر جدت پسند مذہبی طبقات بھی اس گمراہی کی زد سے محفوظ نہیں ہیں۔ علامہ تمنا عمادی بہت بڑے حنفی عالم تھے جو پاکستان بننے کے بعد مشرقی پاکستان سے ریڈیو پر قرآن کا درس دیتے تھے۔ ان کی کتاب ”الطلاق مرتان” نہ صرف بہت مشہور ہے بلکہ سب کی ذہنی صلاحیتوں پر بھی بہت اثر انداز ہوئی ہے۔ ادریس اعوان نے اپنے نشر واشاعت کے معروف ادارے ”میزان” سے یہ ابھی شائع بھی کردی ہے۔ اس کتاب میں حنفی مسلک کے عین مطابق قواعد عربی اور اصول فقہ کی کتابوں سے یہ اخذ کیا ہے کہ ” حلالہ کی طلاق کا تعلق خلع سے ہے۔کیونکہ چھوڑنے کا فیصلہ بھی عورت کرتی ہے اور پھر پشیمانی میں سزا بھی اس کو بھگت لینے میں حرج نہیں ہے”۔ ہمارے استاذمولانا سراج الدین شیرانی نے دارالعلوم الاسلامیہ واٹر پمپ فیڈرل بی ایریا میں غالباً اس کتاب کی تعریف کی تھی یا کسی اور عالم نے تعریف کی تھی؟۔ یہ مجھے یاد نہیں رہاہے ۔ لیکن اس کتاب کو بہت بعد میں دیکھ سکاتھا اور جب دیکھا تھا تو اس سے پہلے قرآن وسنت سے استفادہ کیا تھا اسلئے اس کا اثر بھی ویسے قبول نہیں کیا ہے جیسے معلومات کے بغیر اس سے متاثر ہوسکتا تھا۔ حنفی اصول فقہ میں دو چیزیں بڑی اہم ہیں ۔ ایک قرآن کی بنیاد پر احادیث صحیحہ کا انکار۔ دوسری قرآن کے معانی کو لغت اور عقل کیساتھ جوڑنا۔ یہی ہدایت کی صراط مستقیم ہے لیکن علماء ومفتیان اس پر عمل سے محروم ہیں۔
حضرت مولانا بدیع الزمان جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں ایک سینئر استاذ ہی نہیں تھے بلکہ ولی کامل کا درجہ بھی رکھتے تھے۔ علم النحو، اصول فقہ اور قرآن کے متن وتفسیر کو سمجھنے کا رحجان انہی کے فیوضات اور برکات ہیں۔ ایک استاذ کا اپنے شاگرد کو بھی نصاب کے مقابلے میں حوصلہ افزائی کے قابل سمجھنا بہت بڑی بات ہے۔ مولانا بدیع الزمان، ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر، مفتی عبدالمنان ناصر، قاری مفتاح اللہ جامعہ بنوری ٹاؤن کے اساتذہ کرام اور جامعہ انوارالقرآن آدم ٹاؤن نیوکراچی کے اساتذہ کرام مولانا انیس الرحمن درخواستی شہید مولانا شبیراحمد، جامعہ یوسفیہ شاہو وام ہنگو کے مولانا محمد امین شہید،توحیدآباد صادق آباد کے مولانا نصر اللہ خان ، مدرسہ عربیہ فیوچر کالونی کراچی کے مفتی کفایت اللہ ومولانا خطیب عبدالرحمان ایک ایک استاذ کی حوصلہ افزائی میرے لئے باعث افتخار ہے۔
علماء دیوبند میں دو طبقے ہیں۔ ایک سپوت اور ایک کپوت۔ اس طرح بریلوی مکتب، اہلحدیث اور اہل تشیع میں بھی دونوں طبقات سپوت اور کپوت موجود ہیں۔ نصاب میں غلطیوں کے حوالہ سے مولانا فضل الرحمن کے استاذ مولانا سمیع الحق شہید کا بیان بھی ہمارے اخبار ماہنامہ ضرب حق کراچی میں شہہ سرخی کیساتھ چھپ چکا ہے۔ علماء دیوبند کے سپوتوں کے امام مولانا سرفراز خان صفدرنے پیشکش کی تھی کہ ”ہمارے مدرسہ نصرت العلوم گوجرانوالہ کو اپنا مرکز بناؤ” اورامیر مرکزیہ مجلس تحفظ ختم نبوت مولانا خان محمد نے فرمایا تھا کہ ” اگر مولانا فضل الرحمن کو اپنے مشن میں شامل کرلو تو بہت جلد کامیابی مل سکتی ہے”۔ میں نے جواب میں عرض کیا تھا کہ ”وہ معروف ہیں اور میں مجہول ۔ اسلئے وہ میری تائید کریں تو ہمارا مشن ان کی طرف منسوب ہوگا اور اس کا میرے مشن کو نقصان پہنچے گا” ۔جو ان کو بہت اچھا لگا اور میری عزیمت کو انہوں نے بہت داد بھی دی اور دعا بھی دی تھی۔ مولانا سرفراز صفدر نے فرمایا تھا کہ ”تیری پیشانی سے لگتا ہے کہ اپنے مشن میں کامیاب ہوگے”۔ پروفیسر شاہ فریدالحق جنرل سیکرٹری جمعیت علماء پاکستان اورپروفیسر غفور احمد جنرل سیکرٹری جماعت اسلامی اور مولانا عبدالرحمن سلفی امیر غرباء اہل حدیث پاکستان اور علامہ طالب جوہری اہل تشیع کے علاوہ سبھی فرقوں اور جماعتوں نے ہماری تائیدات کردی تھیں۔ جمعیت علماء اسلام (ف) کے مرکزی امیر مولانا عبدالکریم بیر شریف، مولانا محمدمراد سکھر ، مولانا عبداللہ درخواستی اور پاکستان بھر کے تمام مکاتب فکر کے اکابرین کی تائیدات ہمیںملی ہیں۔
جب عمران خان وزیراعظم تھے تو بھی ہماری کوشش تھی اور اس سے پہلے نوازشریف کی حکومت تھی تو بھی ہماری کوشش تھی اور مسلم لیگ ن کے مشاہداللہ خان کا حلالہ کی لعنت پرزبردست بیان بھی ہمیں ملا تھا جو ہم نے چھاپ بھی دیا تھا۔
جنگ گروپ کے ہفت روزہ اخبار جہاں کراچی میں قرآن وسنت کی روشنی میں حضرت مفتی حسام اللہ شریفی شیخ الہند کے شاگرد مولانا رسول خان ہزاروی کے شاگرد ہیں۔مفتی تقی عثمانی کے باپ مفتی محمد شفیع اور مفتی محمود و غیرہ بھی مولانا غلام رسول خان ہزاروی کے شاگرد تھے۔ مولانا مودودی کے استاذ مولانا شریف اللہ بھی مفتی حسام اللہ شریفی کے استاذ تھے اور دونوں اکٹھے مولانا شریف اللہ سے ملنے بھی ایک دفعہ گئے تھے۔ میں نے اپنی کتاب ” تین طلاق کی درست تعبیر” میں بھی عورت کے حق خلع کو واضح کیا ہے جس کی تائید مفتی حسام اللہ شریفی اور شیعہ مفسر قرآن مولانا محمد حسن رضوی نے بھی کی ہے۔
جب8عورت مارچ کو اسلام باد، کراچی، لاہور وغیرہ میں طاہر ہ عبداللہ، فرزانہ باری، ہدی بھرگڑی اور دیگر منتظمین نکلیں تو ”بشری بی بی ” کے کیس کو قرآن وسنت کی روشنی میں اٹھائیں۔ جس سے نہ صرف بشری بی بی بلکہ عدالتوں میں خلع کے نام پر رلنے کے بعد بھی مولوی کی طرف سے طلاق کا فتویٰ نہ ملنے کی وجہ سے خواتین کو زبردست چھٹکارا مل جائے گا۔ عورت کا مسئلہ ایک دن کا نہیں بلکہ زندگی بھر کے مسائل ہیں۔ قرآن و سنت کو مذہبی طبقات نے روند ڈالا ہے اسلئے ان کو قیامت تک پذیرائی نہیں مل سکتی ہے۔اب مذہبی طبقہ بھی عورت کیساتھ کھڑا ہوگا۔
اسلام نے مرد کو طلاق اور عورت کو خلع کا حق دیا ہے ۔ جب مولوی عورت کے اس حق کو نہیں مانتا ہے تو اس کی گمراہی انسانی فطرت سے نکل کر جانور سے بھی بدتر حالت پر پہنچ جاتی ہے۔
مثلاً ایک شوہر اپنی بیوی سے کہتا ہے کہ تجھے تین طلاق!۔ پھر اس کی بیوی کو فتویٰ دیا جاتا ہے کہ اب شوہر کیلئے تم حرام ہو۔ لیکن اگر شوہر انکار کرتا ہے کہ اس نے طلاق نہیں دی ہے تو پھر عورت کو اپنی جان چھڑانے کیلئے دو گواہ لانے پڑیں گے۔ اگر اس کے پاس دو گواہ نہیں تھے اور شوہر نے جھوٹی قسم کھالی توپھر عورت خلع لے ، خواہ اس کی کتنی قیمت ادا کرنا پڑے۔ اگر شوہر خلع نہیں دیتا ہے تو پھر عورت حرام کاری پر مجبور ہے۔ عورت کو چاہیے کہ شوہر جب اس سے اپنی خواہش پوری کرے تو لذت نہیں اٹھائے بلکہ حرام سمجھ کر اس کے سامنے لیٹی رہے۔
یہ مسائل فقہ کی کتابوں میں رائج ہیں اور اس پر فتوے بھی دئیے جاتے ہیں۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے ”حیلہ ناجزہ” میں بھی اس کو لکھ دیا ہے۔ بریلوی بھی اس پر فتویٰ دیتے ہیں۔
جب عورت کو خلع کا حق حاصل نہ ہو تو پھر اس کے نتائج بھی بڑے سنگین نکلتے ہیں۔ میری کتاب ” عورت کے حقوق” کے مسودے کی مفتی زرولی خان نے تائید کی تھی تو میں ملاقات بھی کرلی تھی اور ان سے ملاقات کے بعد کتاب میں تھوڑا اضافہ بھی کیا تھا۔ جس میں اسلام کی اجنبیت کو مزید واضح کیا تھا اور کتاب کی اشاعت کے بعد کتاب بھی ان کو بھیج دی تھی لیکن ان سے دوبارہ طے ہونے کے باوجود ملاقات نہیں ہوسکی اسلئے کہ وہ اچانک دار فانی سے کوچ کرگئے۔ جامعہ بنوریہ عالمیہ سائٹ کراچی کے مہتمم مفتی محمد نعیم سے بھی ملاقاتیں ہوئی تھیں اوران کی تائیدبھی اخبارمیں شائع کی تھی۔ جب مفتی تقی عثمانی نے ان پر دباؤڈال دیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ طلاق سے رجوع کیلئے اپنے پاس آنے والے افراد کواہلحدیث کے پاس بھیج دیتے ہیں۔ خلع و طلاق کے مسائل بہت بنیادی نوعیت کے ہیں۔
علامہ شبیراحمد عثمانی کے بڑے بھائی مفتی عزیز الرحمن دیوبند کے رئیس دارالافتاء تھے اور ان کے فرزند مفتی عتیق الرحمن عثمانی نے ”ندوہ دارالمصفین ” کی بنیاد1938میں رکھی تھی۔ پھر انہوں نے1964میں جمعیت علماء ہند سے استعفیٰ دے دیا تھا اور آل انڈیامسلم مجلس مشاورت کی بنیاد رکھی۔ جس میں سبھی مسلمان فرقوں کے اہم نمائندے شامل تھے۔ ”تین طلاق ” کے مسئلے پر1973میں احمد آباد میں سیمینار منقعد کیا تھا جس کی صدارت مفتی عتیق الرحمن عثمانی نے کی تھی۔ اس سیمینار میں دیوبندی ،جماعت اسلامی اور بریلوی علماء کے نمائندوں نے اپنے مقالے پیش کئے تھے۔ جو پاکستان سے بھی کتاب میں شائع کیا گیا ہے اور اس میں مولانا پیر کرم شاہ الازہری کی بھی کتاب ” دعوت فکر” ساتھ شائع کی گئی ہے۔
شیخ الہند کے اصل جانشین ہندوستان میں مفتی عتیق الرحمن عثمانی تھے اور پاکستان میں مفتی حسام اللہ شریفی ہیں۔ مفتی تقی عثمانی نے بینکوں کے سود کو اسلامی قرار دیا جس کی مفتی محمود نے مخالفت کی تھی۔ پھر مفتی تقی عثمانی نے سود ی بینکاری کو جواز بخش دیا جس کی مخالفت مفتی زرولی خان ، شیخ الحدیث مفتی حبیب اللہ شیخ ، مولانا سلیم اللہ خان ، ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر اور تحفظ ختم نبوت نمائش چورنگی کراچی کے دارالافتاء کے علاوہ پاکستان بھر سے سارے دیوبندی مدارس نے کی تھی۔ جو علماء اپنے علماء حق اکابر ین کے مشن سے روگردانی کرچکے ہیں وہ سپوت نہیں بلکہ کپوت بن چکے ہیں۔ اگر مولانا فضل الرحمن اور مفتی تقی عثمانی کے کاندھوں سے دیوبند کی گدھا گاڑی جوت دی جائے تو اس کو شیخ الہند مولانا محمود الحسن کی طرف منسوب کرنا علماء دیوبند کی بہت بڑی توہین ہے۔ پہلے یہ توبہ کریں پھر علماء حق ہوسکتے ہیں لیکن جب تک گدھا کنویں سے نہیں نکالا جائے تو کنواں پاک نہیں ہوسکتا ہے۔ پہلے سودی نظام کو اسلامی قرار دینے سے ان کو تائب ہونا پڑے گا ۔ پھر عوام میں ان کی توبہ قبول ہوسکتی ہے اور انہوں اب وفاق المدارس کو بھی اپنے پیچھے لگادیا ہے۔
جب مولانا فضل الرحمن مفتی محمود کاسپوت تھاتو سودی زکوٰة کو شراب کی بوتل پرآ ب زم زم کا لیبل قرار دیتا تھا۔مجھ سے کہا تھا کہ ” کراچی کے اکابر علماء ومفتیان نے جو فتوے دئیے ہیں ان کو شائع کردیں۔ چھرا تمہارے ہاتھ میں ہے اگریہ جانور کو ذبح کردیا توان کی ٹانگیں ہم پکڑ لیں گے”۔چونکہ دارالعلوم کراچی کے علماء ومفتیان نے اس پر دستخط اسلئے نہیں کئے کہ اس میں شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی کتاب ”اخبارالاخیار” کا حوالہ بھی تھا جس کا ترجمہ مولانا سبحان محمود نے کیا تھا، جس میں لکھا ہے کہ ”جب شیخ عبدالقادر جیلانی تقریر کرتے تھے تو تمام انبیاء کرام اور اولیاء عظام موجود ہوتے تھے اور نبی ۖ بھی جلوہ افروز ہوتے تھے”۔ پھر اس کتاب کے مترجم سے اپنی جان چھڑانے کیلئے مولانا سبحان محمود نے اپنا نام بدل کرسحبان محمود کردیا تھا۔ مفتی رفیع عثمانی نے اپنی کتاب ” علامات قیامت اور نزول مسیح ” میں حدیث نقل کی ہے کہ دجال سے بدتر حکمران اور لیڈر ہوں گے۔ انہوں نے سیاسی لیڈر مراد لیا ہے لیکن اس سے مذہبی لیڈر مراد ہیں۔ جو ایک دوسرے کفر کے فتوے بھی مفادپرستی کی بنیاد پر لگاتے ہیں اور حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرنے کے بھی بدترین مرتکب ہوتے ہیں۔
عورت کے حقوق کیلئے پنجاب حکومت مریم نواز کی قیادت یہ بنیادی نکات اٹھائے تو پاکستان میں انقلاب آسکتا ہے۔
نمبر1:عورت کو نہ صرف خلع کا حق حاصل ہے بلکہ عدالت میں جانے کی ضرورت بھی نہیںہے۔ شوہر اسکا خود ساختہ مالک نہیں ہے۔عورت جب چاہے شوہر کو چھوڑنے کا حق رکھتی ہے اور خلع کی صورت میں پورا حق مہر اور شوہر کی طرف سے دی گئی تمام وہ چیزیں بھی واپس نہیں کرے گی جو لے جائی جاتی ہیں ۔ البتہ غیرمنقولہ چیزیں گھر، باغ، دکان اور فیکٹری وغیرہ واپس کرنا ہوں گی اسلئے کہ خلع میں شوہر کا کوئی قصور نہیں ہوتا ہے۔
سورہ النساء کی آیت19میں خلع کا حکم واضح ہے اور سورہ النساء کی آیت20،21میں طلاق کے احکام ہیں۔ طلاق کی صورت میں دی ہوئی تمام چیزوں منقولہ وغیرمنقولہ گھر، باغ، جائیداد اور دئیے ہوئے خزانوں کی مالک بھی عورت ہوگی۔ سورہ بقرہ کی آیت 229میں خلع نہیں طلاق کا ذکر ہے اور اس سے خلع مراد نہیں ہوسکتا۔ یہ وہ صورت ہے کہ جس میں عدت کے اندر تین مرتبہ الگ الگ طلاق ہوچکی ہو۔ دونوں کو خوف ہو اگر وہ دی ہوئی چیز واپس نہ کی گئی تو دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے اور فیصلہ کرنیوالوں کو بھی خوف ہو کہ اگر دی ہوئی کوئی خاص چیز واپس نہیں کی گئی تو دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو پھر اس دی ہوئی چیز کو عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں دونوں پر کوئی حرج نہیں ہے۔ جب یہ طے ہوگیا تو یہ وہی صورت ہے جس میں میاں بیوی دونوں صلح نہیں چاہتے تو ایسی صورت میں شوہر کیلئے وہ حلال نہیں رہتی جب تک کہ وہ کسی اور شوہر سے نکاح نہ کرلے۔ اس کا مقصد صرف عورت کو اپنے سابقہ شوہر کی دسترس سے باہر نکالنا ہے اور بس۔
نمبر2: خلع کی صورت میں عدت ایک حیض یا ایک ماہ ہے اور اس میں شوہر کو رجوع کا اختیار نہیں ہے۔طلاق کی صورت میں بھی عورت کی رضامندی کے بغیر شوہر کو عدت میں رجوع کا اختیار نہیں ہے۔ بشریٰ بی بی نے خاور مانیکا سے خلع لیا تھا اسلئے ایک مہینے میں عدت پوری ہوگئی تھی۔ اس کے بعد اس کو رجوع کا حق نہیں تھا اسلئے عدالت کا خاور مانیکا کے کہنے پر اس کے حق کو مجروح کرنے کی بات پر سزا دینا غلط ہے۔ طلاق میں بھی شوہر کو عورت کی رضامندی کے بغیر رجوع کا حق نہیں ہوتا ہے اور اس غلط مسئلے کی وجہ سے قرآنی آیات کے ترجمہ وتفسیر میں بڑی سنگین غلطیوں کے علاوہ فقہ میں ناقابل حل مسائل بنائے گئے ہیں۔ بہشتی زیور سے لیکر درس نظامی میں پڑھائی جانیوالی کتابوں مسائل کو دیکھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے کہ اس گھمبیر مسئلے نے مذہبی طبقات کی فطرت کیسے بگاڑ دی ہے؟ ۔نبی ۖ نے فرمایا کہ ” انسان اسلام کی فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے والدین اس کو یہود ونصاریٰ بنادیتے ہیں”۔ آج یہ حدیث مسلمانوں پر فٹ ہوتی ہے کہ جو لوگ مذہبی طبقات سے دور ہوتے ہیں تو ان کی فطرت سلامت ہوتی ہے اور جن کو اس مذہبی طبقے نے اپنے ماحول میں جھونک دیا ہوتا ہے جس نے یہود ونصاریٰ کی طرح اپنی انسانی فطرت کو بگاڑ دیا ہوتا ہے تو وہ حق کو قبول کرنے سے بگڑی فطرت کی وجہ سے انکار کرتا ہے۔
آئندہ شمارہ انشاء اللہ8عورت مارچ پرہوگا اسلئے کہ نعرہ بازی سے کچھ حاصل نہیں ہوتا ٹھوس حقائق کی ضرورت ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،الیکشن شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

رسول اللہ ۖ ، صحابہ ، امام ابوحنیفہ ، شاہ ولی اللہ اور دار العلوم دیوبند کے سپوت کپوت تک کا سلسلہ

رسول اللہ ۖ ، صحابہ ، امام ابوحنیفہ ، شاہ ولی اللہ اور دار العلوم دیوبند کے سپوت کپوت تک کا سلسلہ

خلفاء راشدین سپوت اور ذوالخویصرہ کپوت ، عبد اللہ ابن مبارک سپوت، ابویوسف کپوت، جامعہ بنوری ٹاؤن سپوت اور دار العلوم کراچی و جامعة الرشیدکپوت

رسول اللہ ۖ پر قرآن نازل ہوا ، خلفاء راشدین حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان ، حضرت علی ، حضرت حسن، حضرت امیر معاویہ جیسے عظیم سپوتوں کے بعد سلسلہ یزید و مروان بدترین کپوتوں تک پہنچ گیا۔ ابو سفیان کے دو بیٹے تھے۔ ایک یزید بن ابی سفیان اور دوسرا امیر معاویہ بن ابی سفیان۔ یزید بن ابی سفیان تو امیر معاویہ کے مقابلے میں بھی زیادہ اچھے صحابی تھے۔ بہرحال حضرت حسن نے امیر معاویہ کے حق میں اپنی خلافت سے دستبرداری کا فیصلہ کیا تو امیر معاویہ نے20سال تک بہت کامیابی کے ساتھ امارت کا نظام چلایا تھا۔ یزید سے نااہلی کا سلسلہ شروع ہوا تو یزید کے بیٹے معاویہ بن یزید بھی عظیم سپوت تھے۔ جس نے تخت پر بیٹھنے سے انکار کردیا۔ پھر مروان بن حکم سے کپوتوں کا سلسلہ بنو اُمیہ کے آخری خلیفہ تک جاری رہا لیکن ان میں بھی حضرت عمر بن عبد العزیز جیسے عظیم سپوت نے جنم لیا تھا۔ پھر بنو عباس میں سپوتوں اور کپوتوں نے تخت پرقبضہ کیا اور آخر چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان نے بنو عباس کی امارت ختم کردی۔ پھر سلطنت عثمانیہ سے نئی بادشاہت کا سلسلہ شروع ہوا جو1924تک جاری رہا۔ برصغیر پاک و ہند سے مولانا محمد علی جوہر وغیرہ اور ہندو سکھ رہنماؤں نے خلافت کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہوسکے۔ پھر تقسیم ہند کے بعد بر صغیر پاک و ہند میں پاکستان اور ہندوستان کے حکمرانوں اور سیاستدانوں میں بھی سپوت اورکپوت کا یہ سلسلہ جاری رہا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح و قائد ملت لیاقت علی خان اورپہلے دو انگریز آرمی چیف سے اب تک عمران خان و شہباز شریف اور جنرل قمر جاوید باجوہ وحافظ سید عاصم منیر تک سپوتوں اور کپوتوں کا سلسلہ قائم ہے۔ حکمرانوں کے علاوہ مشائخ و علماء حق اور علماء سوء کا بھی سلسلہ حضرت علی و قاضی شریح سے لیکر حضرت امام ابو حنیفہ ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل سے موجودہ دور تک کے سپوتوں اور کپوتوںتک جاری ہے۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی اکابر دیوبند کے شیخ المشائخ تھے۔ مولانا قاسم نانوتوی ، شیخ الہند محمود الحسن اور مولانا محمد الیاس بانی تبلیغی جماعت ، مولانا یوسف ، مولانا شیخ زکریااور حاجی محمد عثمان تک بھی سلسلہ حق تھا۔ مولانا انور شاہ کشمیری ، مولانا یوسف بنوریاور مولانا بدیع الزمان جامعہ بنوری ٹاؤن و دار العلوم کراچی تک کا سلسلہ ۔ مولانا عبید اللہ سندھی، مولانا احمد علی لاہوری، سید عطاء اللہ شاہ بخاری ، مفتی محمود ، مولانا غلام غوث ہزاروی ،مولانا سراج احمد دین پوری، مولانا عبد اللہ درخواستی ، مولانا عبد الکریم بیر شریف، مولانا فضل الرحمن اور مولانا محمد خان شیرانی تک سپوت و کپوت کا سلسلہ ہر میدان میں جاری ہے۔1970میں جب مشرقی و مغربی پاکستان اکھٹے تھے تو علماء حق جمعیت علماء اسلام پر ایک کفر کا فتویٰ لگاتھا جس میں سرغنے کا کردار مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع ، مولانا رشید احمد لدھیانوی، مولانا احتشام الحق تھانوی وغیرہ نے ادا کیا تھا۔ لیکن دوسری طرف حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی وغیرہ نے علماء حق کے خلاف اس سازشی فتوے کا کردار ادا نہیں کیا تھا۔
پھر1977میں جمعیت علماء اسلام کے مولانا مفتی محمود نے ذو الفقار علی بھٹو کے خلاف جماعت اسلامی و قوم پرستوں کا ساتھ دیا تھا جبکہ مولانا غلام غوث ہزاروی نے سازش کو بھانپ کر ذوالفقار علی بھٹو کا ساتھ دیا تھا۔ پیپلز پارٹی کے معروف رہنما مولا بخش چانڈیو لکھتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف بلوچ رہنماؤں نے جنرل ضیاء الحق کا ساتھ نہیں دیا لیکن ولی خان و دیگر پشتون رہنماؤں نے بھٹو کے خلاف جنرل ضیاء کا ساتھ دیا تھا۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب مفتی محمود نے نصرت بھٹو کے ساتھMRDکے اتحاد پر جنرل ضیاء الحق کے خلاف جمہوریت کی بحالی کیلئے تحریک پر اتحاد کیا لیکن دوسری طرف جماعت اسلامی اور دار العلوم کراچی کے مفتی تقی عثمانی وغیرہ نے جنرل ضیاء الحق کا ساتھ دینا شروع کیا۔ رسول اللہ ۖ کے بعد حضرت ابوبکر نے جب زبردستی سے زکوٰة لینے کا فیصلہ کیا تو حضرت عمر اس پر متفق نہیں تھے۔ مگر مجبوری میں ایک خلیفہ وقت کا ساتھ دیا تھا۔ پھر حضرت عمر نے وفات سے پہلے اس بات کی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ کاش ہم رسول اللہ ۖ سے تین چیزوں کے بارے میں پوچھ لیتے۔ (1):زکوٰة نہ دینے والوں کیخلاف قتال کا ۔(2):نبی ۖ کے بعد جانشین خلفاء کے نام۔ (3):کلالہ کی میراث کے بارے میں۔
اہل سنت کے چاروں امام امام مالک، امام ابو حنیفہ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل نے شریعت کا یہ حکم واضح کیا تھا کہ ”مانعین زکوٰة کیخلاف قتال کرنا جائز نہیں ہے”۔ حضرت عمر و حضرت عثمان کے دور میں فتوحات کے دروازے کھل چکے تھے اسلئے مانعین زکوٰة کیخلاف قتال کرنے اور نہ کرنے پر بحث کی کوئی ضرورت نہیں پڑی تھی۔ اہل سنت کے چاروں اماموں نے حضرت ابوبکر صدیق کی خلافت پر مکمل اعتماد کے باوجود بھی اپنے اختلاف رائے سے اسلام کی حفاظت کا سامان کیا تھا۔
رسول اللہ ۖ نے فرمایا تھا کہ بہترین دور میرا ہے، پھر ان لوگوں کا ہے جو میرے دور سے ملے ہوئے ہیں۔ پھر ان لوگوں کا ہے جو میرے بعد والوں سے ملے ہوئے ہیں۔ اس سے یہ عقیدہ بن گیا کہ صحابہ کرام اُمت مسلمہ کے افضل ترین لوگ ہیں۔ پھر تابعین اور پھر تبع تابعین تک یہ سلسلہ پہنچتا ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید نے اپنی کتاب ”بدعت کی حقیقت” میں لکھا ہے کہ پہلی صدی ہجری تو صحابہ کرام کی ہے، دوسری صدی ہجری تابعین کی ہے اور تیسری صدی ہجری تبع تابعین کی ہے۔ ان پہلے تینوں صد ہجری میں ”تقلید کی بدعت” ایجاد نہیں ہوئی تھی۔ تقلید چوتھی صدی ہجری کی بدعت ہے۔ لہٰذا چاروں مسالک کی تقلید بدعت ہے۔
علامہ ابن تیمیہ و علامہ ابن قیم نے بھی بہت پہلے تقلید سے انتہائی نفرت کا اظہار کرتے ہوئے چاروں فقہی مسالک کو چار الگ الگ فرقے قرار دیا تھا۔ شاہ اسماعیل شہید نے بھی علامہ ابن تیمیہ سے متاثر ہوکر مسالک کی تقلید کو بدعت قرار دیا تھا۔ حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری نے شاہ اسماعیل شہید کی کتاب ”بدعت کی حقیقت” کے اردو ترجمہ پر اپنی تقریظ میں زبردست حمایت بھی کی ہے اور ساتھ ساتھ شاہ اسماعیل شہید کی دوسری کتاب ”منصب امامت” کی بھی تائید فرمائی ہے۔
سعودی عرب کے موجودہ حکمرانوں کا تعلق علامہ ابن تیمیہ کے مسلک سے ہے۔ ان کے اقتدار میں آنے سے پہلے خانہ کعبہ میں چاروں مسالک کے الگ الگ مصلے تھے جو تقلید ہی کی وجہ سے اپنی الگ الگ جماعت کراتے تھے۔ علماء دیوبند کے اکابر نے شاہ اسماعیل شہید کی حمایت کی تو اس وقت حرمین شریفین میں شریف مکہ کی حکومت تھی۔ اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان فاضل بریلوی نے علماء دیوبند پر فتویٰ لگایا کہ یہ لوگ تقلید کو بدعت سمجھتے ہیں اور علامہ ابن تیمیہ کے ماننے والے ہیں تو اس وقت کے حرمین شریفین والوں نے مولانا احمد رضا خان بریلوی کے فتوے پر دستخط کردئیے۔ دیوبندی اکابر نے اپنی صفائی کیلئے ”المہند علی المفند” کتاب لکھی اور اس میں واضح کیا کہ ہم چاروں مسالک کو برحق مانتے ہیں اور خود حنفی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔ تصوف کے چاروں سلسلوں کو برحق مانتے ہیں اور خود مشرب چشتی سے تعلق رکھتے ہیں اور علامہ ابن تیمیہ کو بھی بہت برا بھلا کہہ کر برأت کا اعلان کیا۔
جب رسول اللہ ۖ نے مکہ سے مدینہ ہجرت فرمائی تھی تو قرآن نے فتح مکہ سے پہلے اور فتح مکہ کے بعد والے صحابہ کے اندر واضح فرق رکھا ہے۔ بدری اور غیربدری صحابہ کے اندر بھی واضح فرق تھا۔ جب حضرت عمر کے دور میں فتوحات کے دروازے کھل گئے تو حضرت عمرنے بدری صحابہ کے لئے الگ وظائف مقرر کئے اور غیر بدریوں کیلئے الگ۔ حضرت حسن اور حضرت حسین بدری صحابہ نہیں تھے لیکن اہل بیت ہونے کی وجہ سے حضرت عمر نے ان دونوں کیلئے بھی بدری صحابہ کے درجے پر وظائف رکھے تھے۔ حضرت عبد اللہ ابن عمر نے جب عرض کیا کہ مجھے بھی حسنین کی طرح بدری صحابہ کے برابر وظیفہ دیا جائے تو حضرت عمر نے فرمایا کہ ”وہ نبی ۖ کے نواسے ہیں آپ نہیں ہو، ان کی برابری کاسوچو بھی مت”۔
مولانا عبید اللہ سندھی نے لکھا ہے کہ حضرت شاہ ولی اللہ نے پہلا دور نبی ۖ کا ، دوسرا حضرت ابوبکر و عمر کا اور تیسرا دور حضرت عثمان کا بہترین قرار دیا ہے۔ حضرت علی کے دور کو فتنے میں شمار کیا ہے جو خیر القرون میں داخل نہیں ہے۔ لیکن حضرت علی کے دور کو قیامت تک کیلئے فتنوں میں مثالی دور قرار دیا ہے اور میرے نزدیک نبی ۖ اور ابوبکر کا دور ایک تھا اس لئے کہ حضرت ابوبکر کے دور میں معمولی سی تبدیلی بھی نہیں آئی تھی۔ پھر حضرت عمر کا دور ہے جس میں مال و وظائف کے اعتبار سے طبقاتی تقسیم کا آغاز ہوگیا تھا۔ تیسرا دور حضرت عثمان کا دور ہے جس میں خاندانی اور طبقاتی کشمکش کی بنیادیں مضبوط ہوگئیں۔
جب حضرت عثمان کو شہید کیا گیا تو ذوالخویصرہ نے اپنے قبیلے کے10ہزار افراد کے ساتھ دعویٰ کردیا کہ حضرت عثمان کے قاتل ہم ہیں۔ حضرت عثمان کے قاتلین دو حصوں میں بٹ گئے تھے۔ ایک طرف وہ حضرت علی کے ساتھ تھے اور دوسری طرف وہ حضرت علی کے مخالفین کے ساتھ تھے۔ حضرت علی کی بیعت کرنے اور نہ کرنے والے بھی دو حصوں میں تقسیم ہوگئے تھے۔ حضرت امیر معاویہ نے قاتلین عثمان سے بدلہ لینے کا جو مطالبہ حضرت علی سے کیا تھا اس پر عمل کرنا بہت مشکل تھا۔جس کی وجہ سے اہل حق کے دو گروہوں میں قتل و غارت ہوئی۔ ان میں حق پر کون تھا؟۔ یہ حضرت عمار کی شہادت سے نبی ۖ نے بتادیا تھا کہ عمار کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا جس کو عمارجنت کی طرف بلائے گا اور وہ عمار کو جہنم کی طرف بلائیں گے۔
حضرت عثمان کی شہادت سے پہلے حضرت حسن و حسین کی طرف سے حفاظت ہورہی تھی اور محمد بن ابی بکر نے حضرت عثمان کی داڑھی میں سب سے پہلے ہاتھ ڈالا تھا۔ محمد بن ابی بکر بھی حضرت علی کے پالے ہوئے تربیت یافتہ بیٹے تھے۔ جس کی وجہ سے بعض لوگوں کو شک تھا کہ حضرت عثمان کی شہادت میں حضرت علی کا بھی ہاتھ ہے۔ یہاں سے اُمت کی جو تفریق شروع ہوئی تھی اس کا سلسلہ آج تک جوں کا توں موجود ہے۔
حضرت علی کے بعد امام حسن کی خلافت قائم ہوگئی تو حسن نے امیر معاویہ کے حق میں دستبردار ہوکر مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں میں صلح کرائی۔ لیکن یہ پھر یزید کی نامزدگی کے بعد واقعہ کربلا سے معاملہ شروع ہوا تو یزید کی سرکردگی میں عبد اللہ بن زبیر کے خلاف مکہ میں کاروائی ناکام ہوئی۔ یزید نے اہل مدینہ کو کچل کر اہل مکہ کو بھی کچلنا چاہا تھا۔ یزید کے مرنے کے بعد یزید کے بیٹے معاویہ نے تخت نشین ہونے سے دستبرداری اختیار کی تو مروان بن حکم جو بنو اُمیہ کا دوسرا سلسلہ تھا وہ اقتدار میں آگیا۔ مروان نے پھر حضرت عبد اللہ بن زبیر کی خلافت کو بھی مکہ مکرمہ میں کچل دیا تھا۔ مروان کا سلسلہ بنو اُمیہ کے آخری حکمران تک جاری رہا جن میں حضرت عمر بن عبد العزیز جیسے عظیم سپوت بھی شامل تھے۔ بنو اُمیہ کے شروع دور میں مدینہ کے7مشہور فقہاء نے مسند سنبھالی جن میں حضرت ابوبکر کے پوتے قاسم بن محمد بن ابی بکر اور نواسے عروہ بن زبیر، سعید بن المسیب اور سعید بن جبیر وغیرہ شامل تھے۔ حجاج بن یوسف نے سعید بن جبیر کو بھی بہت بے دردی کے ساتھ شہید کیا تھا۔
امام ابو حنیفہ نے بنو اُمیہ کے آخری اور بنو عباس کے شروع دور میں اپنی خدمات انجام دیں۔ حضرت عمر بن عبد العزیز نے100سال بعد احادیث کی کتابیں مرتب کرنے کی اجازت دی تھی۔ جب ضعیف و من گھڑت اور صحیح احادیث کا ایک سلسلہ مرتب ہونا شروع ہوا تو امام ابو حنیفہ نے قرآن کے مقابلے میں ان احادیث کو بھی مسترد کرنے کی بنیاد رکھ دی جن کی سند بظاہر صحیح لیکن خبر واحد یعنی کسی ایک شخص کے توسل سے نقل تھیں۔
امام ابو حنیفہ ، امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کا تعلق دوسری صدی ہجری سے تھا۔ امام مالک اہل مدینہ تھے۔ امام ابو حنیفہ کا تعلق فارس سے تھا۔ امام شافعی نے امام مالک اور امام ابو حنیفہ کے شاگرد امام محمد سے فقہ کی تعلیم حاصل کی تھی اور امام احمد بن حنبل امام شافعی کے شاگرد رشید تھے۔ ان ائمہ نے اپنے اپنے دور کے حکمرانوں سے سخت سے سخت سزائیں کھائی ہیں۔ جن کو تاریخ میں سنہری حروف سے یاد کیا جاتا ہے۔
امام ابو حنیفہ کے ایک شاگرد عبد اللہ ابن مبارک تھے جس کو محدثین اور صوفیاء میں بھی بہت بلند مقام حاصل تھا۔ عبد اللہ ابن مبارک اپنے اُستاذ امام ابو حنیفہ کے عظیم سپوت تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ امام ابو حنیفہ کے شاگرد امام ابو یوسف کو قاضی القضاة (چیف جسٹس) کا منصب اسلئے مل گیا کہ وہ درباری تھا اور اس نے یہ گھناؤنا کام کیا تھا کہ بادشاہ کا دل جب اپنے باپ کی لونڈی پر آیا تو بادشاہ نے اپنے باپ کی اس لونڈی کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے کیلئے حیلہ تلاش کیا۔ امام ابو حنیفہ نے درباری بن کر بادشاہ کی خواہش کو پورا نہیں کیا تو جیل میں زہر دے کر شہید کیا گیا۔ امام ابو حنیفہ نے واضح کیا تھا کہ اگر باپ نے لونڈی کے ساتھ جنسی تعلقات قائم رکھے ہیں تو بادشاہ کیلئے اس کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنا قطعی طور پر حرام ہیں۔ جبکہ امام ابو یوسف نے بادشاہ کیلئے یہ حیلہ نکال دیا کہ لونڈی عورت ہے اور جب وہ بولے کہ تیرے باپ نے میرے ساتھ جنسی تعلق قائم کیا ہے تو اس کی گواہی قابل قبول نہیں ہے۔ اس کیلئے باقاعدہ ایک اچھا خاصہ معاوضہ بھی طے کیا گیا۔ جب امام ابو یوسف نے حیلہ بتایا تو بادشاہ نے کہا کہ صبح خزانے کا دروازہ کھل جائے گا تو معاوضہ لے لینا۔ امام ابو یوسف نے کہا کہ مجھے ابھی راتوں رات وعدے کے مطابق معاوضہ دے دینا۔ میں نے بھی تمہارے لئے رات ہی کو بند دروازہ کھولا ہے۔
یہ واقعات علامہ جلال الدین سیوطی نے تاریخ الخلفاء اور امام غزالی نے اپنی کتابوں میں لکھ دئیے تو امام غزالی کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ مصر کے بازار میں ان کی کتابیں جلائی گئی تھیں۔ جس کے بعد امام غزالی نے فقہ کی راہ چھوڑ کر تصوف کی راہ کو اپنالیا تھا۔ تصوف کے مشائخ اور فقہ کے علماء کے درمیان اختلافات کا بھی ایک سلسلہ ہے اور علماء نے اہل تصوف سے بیعت و سلوک کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہے۔ امداد اللہ مہاجر مکی کے مرید و خلیفہ مولانا قاسم نانوتوی نے کہا تھا کہ میں حاجی امداد اللہ مہاجر سے ان کے علم کی وجہ سے بیعت ہوں۔ مولانا رشید احمد گنگوہی نے کہا تھا کہ میں حاجی امداد اللہ مہاجر مکی سے علم کی بنیاد پر اختلاف رکھتا ہوں مگر عمل کی وجہ سے بیعت ہوں اور یہ بھی یاد رہے کہ مولانا منظور مینگل نے کہا ہے کہ مولانا رشید احمد گنگوہی واحد شخص ہیں جو علامہ ابن تیمیہ سے عقیدت رکھتے ہیں جبکہ دوسرے تمام اکابر نے ابن تیمیہ کی سخت مخالفت کی ہے۔ مولانا رشید احمد گنگوہی کے شاگرد مولانا حسین علی کے شاگرد شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان اور شیخ القرآن مولانا محمد طاہر پنج پیری تھے۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں پنج پیری طلبہ کو پڑھنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ یہی حال جامعہ فاروقیہ و دیگر مدارس کا بھی تھا۔ حالانکہ دونوں کا تعلق دیوبند سے تھا۔
جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے فاضل ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی نے ”توحید خالص” وغیرہ کتابیں لکھ کر اکابرین پر شرک و کفر کے فتوے لگائے تھے۔ جس طرح عام دیوبندی پنج پیری طبقے کو اپنے سے الگ اور گمراہ سمجھتے تھے اس سے بڑھ کر ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی کی کتابوں سے پنج پیری الرجک تھے۔ آج خود کو بہت بڑا شیخ الحدیث ، شیخ القرآن ، جامع العلوم سمجھنے والا ڈاکٹر منظور مینگل کہتا ہے کہ میں نے ابن تیمیہ اور پنج پیری کو بڑا کافر گمراہ کہہ کر گالیاں دی ہیں مگر ابھی توبہ کرتا ہوں۔
حنفی مسلک پر دیوبندی اور بریلوی مکاتب فکر کا اتحاد ہے اور درس نظامی میں فقہ ، اصول فقہ ، حدیث اور تفسیر کی کتابیں بھی ایک ہیں۔ ایک نصاب کے باوجود دونوں میں اختلافات بھی ہیں۔ ابوبکر صدیق اکبر نے جبری زکوٰة کی وصولی شروع کردی تو اہل سنت کے چاروں اماموں نے اختلاف کیا تھا۔
مالکی و شافعی مسالک نے بے نمازی کو واجب القتل قرار دیا تو حنفی مسلک نے ان سے اختلاف کیا۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ جب حضرت ابوبکر نے زکوٰة نہ دینے والوں کے خلاف قتال کیا تو بے نمازی کے خلاف قتال بدرجہ اولیٰ بنتا ہے۔ حنفی مسلک والوں نے جواب دیا کہ جب حضرت ابوبکر کے فیصلے سے تمہارا اتفاق نہیں ہے تو اس پر نماز کو کیسے قیاس کرسکتے ہو؟۔ مفتی محمد شفیع مفتی اعظم پاکستان نے اپنی تفسیر ”معارف القرآن” میں لکھ دیا کہ بے نمازی کے خلاف قتال کرنے کا حکم سورہ توبہ اور حضرت ابوبکر صدیق کے فعل سے ثابت ہوتا ہے۔ تو علامہ غلام رسول سعیدی نے اپنی تفسیر ”تبیان القرآن” میں اس کو مسلک حنفی کے خلاف قرار دیتے ہوئے لکھا کہ مفتی شفیع نے حنفی فقہاء کے مسلک سے انحراف کیا ہے۔
امام ابو یوسف نے جب بادشاہ کیلئے لونڈی کی گواہی کو غلط قرار دینے کی بدعت جاری کردی تو ایک طرف حدیث صحیح کے خلاف زنا بالجبر میں بھی عورت کی گواہی کو ناقابل قبول قرار دیا گیا اور دوسری طرف امام ابو حنیفہ کے نام پر حرمت مصاہرت کا غلط پروپیگنڈہ کرکے انتہائی غلیظ مسائل کو فقہ کا حصہ بنایا گیا۔ چنانچہ اورنگزیب عالمگیر مغل بادشاہ کے دور میں لکھی گئی کتاب ”نور الانوار:ملاجیون” درس نظامی میں داخل نصاب ہے۔ جہاں یہ مسئلہ پڑھایا جاتا ہے کہ ”اگر ساس کی شرمگاہ کو باہر سے شہوت کے ساتھ دیکھ لیا تو عذر کی وجہ سے معاف ہے لیکن اگر اندر کی طرف سے دیکھا تو اس سے بیوی حرام ہوجائے گی”۔
اسی طرح مفتی تقی عثمانی سے امیر جماعت اسلامی سید منور حسن تک نے پرویز مشرف کے دور میں یہ نام نہاد غلط شرعی مسئلہ اُجاگر کیا کہ ” کسی عورت کو زبردستی سے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تو اگر اس کے پاس چار سے کم گواہ ہوں تو وہ زیادتی پر بھی خاموش رہے اسلئے کہ اگر تین افراد نے بھی اس کے حق میں گواہی دی تو ان سب پر بہتان کی حد جاری کی جائے گی”۔
جب جنرل ضیاء الحق نے بینکوں کے سُودی نظام سے زکوٰة کی کٹوتی کا فیصلہ کیا تو مفتی تقی عثمانی و مفتی رفیع عثمانی نے اس کے جواز کا فتویٰ دے دیا۔ جس پر مفتی محمود نے دونوں بھائیوں کو جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں طلب کیا۔ دونوں نے چائے پینے سے انکار کیا کہ ہم دن میں ایک بار چائے پیتے ہیں۔ مفتی محمود نے کہا کہ میں خود زیادہ چائے پیتا ہوں لیکن اگر کوئی کم پیتا ہے تو اس کو پسند کرتا ہوں۔ مفتی تقی عثمانی نے پان کا بٹوہ دکھایا کہ ہمارے ساتھ یہ علت لگی ہوئی ہے۔ مفتی محمود نے کہا کہ یہ تو چائے سے بھی بدتر ہے۔ مفتی تقی عثمانی نے اپنی تحریر میں یہ نہیں لکھا تھا کہ اسکے باوجود میں نے پان کھلایا جسکے بعد مفتی محمود پر دورہ پڑگیا۔ اور مفتی رفیع عثمانی نے دورہ قلب کی خصوصی گولی حلق میں ڈال دی۔ مگر مولانا یوسف لدھیانوی نے یہ لکھ دیا۔ پھر مفتی تقی عثمانی نے اپنا بیانیہ بعد میں بدل دیا کہ مفتی محمود بے تکلفی میں وہ مجھ سے پان مانگ کر کھایا کرتے تھے۔

دارلعلوم دیوبند کے سپوتوں کی چند یہ مثالیں

علماء حق کی یاد گار جامعہ بنوری ٹاؤن عظیم یہ شخصیات
علامہ سیدمحمدیوسف بنوریکی ایک یاد گار تقریر ماہنامہ البینات میں شائع ہوئی جو ماہنامہ نوشہ ٔ دیوارنے قارئین کیلئے شائع کی ،جو سودی نظام کے خلاف تھی ،جس میں اسلام کے معاشی نظام پر زور تھا۔علامہ بنوری کے دامادمولانا طاسین نے مزارعت پر تحقیق کا حق ادا کرکے قرآن وسنت سے اس سود کو واضح کیا۔جب سود کی حرمت پرآیات نازل ہوئیں تو نبی ۖ نے مزارعت کو بھی سود قرار دیا تھا۔ جس کی وجہ سے جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ دونوں نظام کا خاتمہ ممکن تھا اور محنت کشوں کیلئے بڑا متوازن روزگار تھا۔ اس سے محنت و دیہاڑی کا ایک مناسب معاوضہ بھی خود بخود معاشرے میں رائج ہوجاتا ہے۔ پاکستان میں پانی کا بہاؤ ایک نعمت ہے جس سے سستی بجلی پیدا کرنے اور سستی خوراک ملنے میں مثالی مدد مل سکتی ہے۔ رسول اللہ ۖ نے مدینہ میں یہ نظام قائم فرمایا تو پوری دنیا میں اسکا ڈنکا بج گیا۔ روم و فارس کے بادشاہوں ، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو پیغام مل گیا کہ اب دنیا میں انسان اپنی طاقت ، جاگیر اور سرمایہ کے ذریعے سے دوسرے انسانوں کو غلام نہیں بناسکتا ہے۔ آج پاکستان سے پھر پوری دنیا کو یہ میسج جائے گا تو سُودی نظام کا خاتمہ ہونے میں دیر نہ لگے گی۔

دارالعلوم دیوبند کے کپوتوں کی یہ چند مثالیں

دارالعلوم کراچی وجامعة الرشید علماء سوء کی یہ یادگاریں
ہمارے مرشد حضرت حاجی محمد عثمان سے تمام مکاتب فکر کے علماء و مشائخ بڑی عقیدت و محبت رکھتے تھے اور بڑے بڑے مدارس کے علماء و مفتیان حلقہ ارادت میں شامل تھے۔ سعودی عرب کے سرکاری افسران اور شام کے عرب بھی بیعت تھے۔ مفتی رشید احمد لدھیانوی، مفتی عبد الرحیم اور مفتی تقی عثمانی نے ان کے خلاف الائنس موٹرز سے کچھ مالی مفادات اٹھاکر جو گھناؤنا کردار ادا کیا تھا اس پر اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ وہ اب بھی مفتی تقی عثمانی کے ”فتاویٰ عثمانی جلد دوم” میں موجود ہے۔ ہفت روزہ تکبیر کراچی میں بھی ان فتوؤں کی سرسری روداد موجود ہے۔ ہمیں ذاتیات سے غرض نہیں ہے لیکن جن لوگوں نے کتابیں چھاپ کر شادی بیاہ کی رسم میں لفافے کے لین دین کو سُود قرار دیا تھا اور نبی کریم ۖ پر بھی آیت کی من گھڑت تفسیر لکھ کر سُود کا بہتان لگایا تھا اور سُود کو 73گناہوں میں سے کم از کم اپنی سگی ماں کے ساتھ بدکاری کے برابر گناہ قرار دیا تھا لیکن پھر اللہ کی طرف سے ایسی پھٹکار ہوئی کہ پوری دنیا کے سُودی نظام کو حیلے بہانے سے جائز قرار دیا۔ حالانکہ سبھی علماء اور مفتیان نے ان کے خلاف متفقہ فتویٰ بھی جاری کیا تھا۔ اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں ہے۔ انتظار کریں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv