معاشرت Archives - Page 3 of 40 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

قرآن پاک کی عظمت

قرآن پاک کی عظمت
قرآن پاک کی عظمت اور طاقت ویڈیو میں دیکھیں۔ شاہ عبد العزیز فرزند شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے حوالے سے مولانا قاری اکرام الحق پشتو اور اردو زبان کے ملے جلے الفاظ میں یہ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک پادری نے شاہ عبد العزیز سے کہا کہ تمہاری مسجد خستہ حال ہے ، ہمارا گرجا عالیشان ہے مندر اور دیگر مذاہب کی عبادت گاہیں بھی عالیشان ہیں جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ تمہارا خدا اور مذہب جھوٹا ہے ۔ شاہ عبد العزیز نے کہا کہ اس کا جواب میں لوگوں کے مجمع میں دوں گا۔ ہزاروں لاکھوں لوگ مختلف مذاہب کے جمع ہوگئے تو شاہ عبد العزیز نے آیت پڑھی کہ اگر اس قرآن کو ہم پہاڑوں پر نازل کرتے تو وہ خوف سے ریزہ ریزہ ہوجاتے ، آیت کا پڑھنا تھا کہ پادری کا گرجا ٹکڑے ٹکڑے ہوکر زمین پر گرا۔ باقی لوگوں نے ہاتھ جوڑے کہ خدا کیلئے بس کرو۔ شاہ عبد العزیز نے کہا کہ اتنے عرصے سے ہماری مسجد قرآن کی طاقت کو برداشت کررہی ہے جبکہ تمہارا گرجا برداشت نہ کرسکا۔ قاری صاحب نے ہندوستان اور لندن وغیرہ کے چکر بھی لگائے ہیں اور کہا کہ یہ واقعہ تاریخ میں موجود ہے آدھا مجمع مسلمان ہوگیا جس میں لاکھوں لوگ تھے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،الیکشن شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

امریکہ کی نصاب کتاب میں شیخ الاسلام کی خدمات کا بیان

امریکہ کی نصاب کتاب میں شیخ الاسلام کی خدمات کا بیان

ڈاکٹر طاہر القادری نے ویڈیو کلپ میں کہا کہ یہ کتاب امریکہ میں چھپی ہے جسکا نامTHINK WORLD RELEGION۔ رابسن مصنف ہے۔2011میں چھپی ہے۔ فلا ڈلفیا یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں جنہوں نے لکھی ہے۔ اور امریکہ کی بہت سی یونیورسٹیز، کالجز اور اسکولز میں شامل نصاب ہے۔ اس میں کرسچین ٹی ، جودھا ازم، ہندو ازم ، بدھا ازم اور اسلام پر ایک ایک چیپٹر ہے۔ ان کو ہائی لائٹ کیا ہے۔ جب اسلام پر آئے ہیں حضور علیہ الصلوة و السلام کی بعثت سے لے کر موجودہ صدی تک جس طرح ہر مذہب کو پڑھایا انہوں نے تو ہر مذہب کی ڈسکرپشن دی۔ اینڈ کرکے وہ لکھتے ہیں ایک ورژن اسلام کا امت کے سامنے وہ ہے جس کے بانی اسامہ بن لادن ہیں۔ ایک ورژن اسلام کا امت کے سامنے اس موجودہ صدی کا وہ ہے جو طاہر القادری نے دیاہے۔ (ڈاکٹر طاہر القادری نے5سو صفحات کی کتاب خوارج پر لکھی ہے جس میں وہابیت اور دہشت گردی کو جوڑا گیا ہے۔)

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،الیکشن شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

دیوبند کا کپوت ذو الخویصرہ کا بچہ مفتی رشید

دیوبند کا کپوت ذو الخویصرہ کا بچہ مفتی رشید

جامعة الرشید کے مفتی رشید نے کہا :ہمارے ہاں الیکشن کے بعد جس طرح کی سیاسی گہما گہمی چل رہی ہے اور جس طرح کی چیزیں دیکھنے اور سننے کو مل رہی ہیں ساری پاکستانی قوم حیرت میں کہ ہو کیا رہا ہے؟ مولانا فضل الرحمن ایک عرصے تک طویل عرصے تک جے یو آئی کے حضرات عمران خان کو یہودی ایجنٹ ہے پتہ نہیں کیا کیا کہتے رہے ؟ہم سنتے سنتے رہے، ساری دنیا جانتی ہے ۔مولانا طارق جمیل تھوڑا قریب ہوئے تو ان کو ایک طرح سے نشان عبرت بنا دیاکہ یہ یہودی ایجنٹ کے کیسے قریب ہو گیا؟۔ اب جب گزشتہ دنوں مولانا فضل الرحمن نے پریس کانفرنس کی تو جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ بھئی ہمارا ان سے جسموں کا اختلاف نہیں، دماغوں کا اختلاف ہے۔ تو اسلئے وہ بھی ٹھیک ہو جائیگا۔ پھر پی ٹی آئی کا وفد بھی گیا وہاں ان سے ملاقات بھی کی۔ وہ جو ایک دوسرے کے خلاف اتنی نفرت انگیز تقریریں تھیں کہ وہ ان کو یہودی ایجنٹ اور یہ ان کو ڈیزل اور جو بیہودہ القابات عمران خان کی طرف سے مولانا فضل الرحمن کو جو دیئے جا رہے ہوتے تھے پھرPTIکے کارکنJUIکے خلافJUIکے کارکنPTIکے خلاف جس طریقے کے الزامات ایک دوسرے پہ لگاتے تھے بیٹا باپ سے لڑا ،باپ بیٹے سے لڑا بھائی بھائی سے لڑا دوست دوست سے لڑا گھر ٹوٹے پتہ نہیں کتنی لڑائیاں کتنے پھڈے اسی ڈیزل اور جناب یہودی ایجنٹ کے چکر میں لوگ لڑتے رہے آج انکے لیڈر آپس میں مل رہے ہیں تو یہ جو کارکن ہیں یا جو لوگ ایک لیڈر کی تعریف میں زمین و آسمان کی قلابیں ملا کے دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کر رہے تھے یا اس طرف والے زمین و آسمان کی قلابیں ملا کے اس کو نیچا دکھانے کی کوشش کر رہے تھے انکی اس وقت کیا پوزیشن ہے یہ کہاں کھڑے ہیں؟ جو بیٹا اپنے باپ سے لڑتا رہا5 سال تک کہ بھئی آپJUIکو کیوں سپورٹ کرتے ہیں یا جنابJUIکا جو ورکر تھا وہ اپنے باپ سے لڑتا رہا کہ آپPTIکے جلسوں میں کیوں جاتے ہیں یاPTIوالوں سے کیوں ملتے ہیں؟ اب جب یہPTIاورJUIوالے مل رہے ہیں تو آپ کہاں پہ کھڑے ہیں؟۔ روایت میں حضرت علی کا قول ہے کہ جس سے محبت کرنی ہے تو اعتدال میں رہ کے محبت کرو ہو سکتا ہے کل دشمنی ہو جائے، جس سے دشمنی کرنی ہے تو دشمنی بھی اعتدال میں رہ کے کرو ہو سکتا ہے کل دوستی ہو جائے۔ کہتے ہیں نا سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا سیاستد ان کسی بھی وقت یوٹرن لے لے گا آپ اس کی شکل تکتے رہ جائیں گے یہ کیا کر دیا اسنے ہمیں کیا پٹی پڑھائی تھی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا تھا خود کیاکیا؟۔ تو پاکستانی سیاست میں کسی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے اسلئے بار بار ہم یہ گزارش کرتے ہیں اب ہو سکتا ہے یہ کلپ میں ریکارڈ کروا رہا ہوں تو یہ بھی کسی کو برا لگے کسی کو برا لگتا ہے تو ہماری بلا سے جس چیز کو ہم سمجھتے ہیں جو ٹھیک ہے وہ آپ کے سامنے رکھ رہے ہیں بھائی آپPTIمیں ہیں نا آپPTIکے رہیں آپ عمران خان کو ووٹ دیتے ہیں دیتے رہیں قیامت تک، آپJUIکے ہیں مولانا فضل الرحمن کی پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں دیتے رہیں لیکن ایکدوسرے کے خلاف اتنے گھناؤنے اتنے گھٹیا الزامات ایکدوسرے پر لگانا۔ پتہ نہیں چوری اور کرپشن کے اور ڈیزل چوری کے کوئی چیز کبھی کسی پہ ایک دوسرے پہ کوئی ثابت نہیں کر سکا نہ یہ اس پر نہیں اس پارٹی والے اس پارٹی والے پر تو یہ جو ہم تہمت لگاتے ہیں الزام لگاتے ہیں گالیاں دیتے ہیں برا بھلا کہتے ہیں غیبت کرتے ہیں کیا یہ سب قیامت کے دن معاف ہو جائے گا اللہ ہم سے پوچھے گا نہیں؟۔ یہ بھی مسلمان وہ بھی مسلمان یہ اس پہ الزام لگا رہا ہے وہ اس پہ الزام لگا رہا ہے کیا دین ہمیں یہ سکھاتا ہے مذہب ہمیں یہ سکھاتا ہے تو اس طریقے سے سیاست کی وجہ سے اپنے تعلقات خراب کرنا ایک دوسرے سے لڑنا یہ بہت بیوقوفی کی بات ہے پھر لوگ اس سے بھی آگے بڑھتے ہیں سیاست دانوں کیلئے جان دینے کیلئے تیار ہو جاتا ہے مظاہرے میں نکلیں گے احتجاج میں نکلیں گے تو سیاست دان کے نام پہ وہ کہتے ہیں میری جان جاتی ہے تو جائے اسلئے کہ سیاستدان نے اس کو یہ پٹی پڑھائی ہوئی ہے کہ یہ آپ شہید ہو جائیں گے اور آپ نظریے کیلئے لڑ رہے ہیں آپ ملک کیلئے لڑ رہے ہیں آپ فلاں کیلئے لڑ رہے ہیں بھائی جب نظرئیے کیلئے آپ لڑ رہے ہیں جس نظرئیے کیلئے آپ لڑ رہے ہیں کل آپ اس سے یوٹرن لے لیتے ہیں وہ جو بندہ مر گیا اس احتجاج کے چکر میں وہ اس کا کیا بنے گا اس کے گھر والوں کا بچوں کا کیا بنے گا؟۔ سیاسی لیڈر تو ایک دفعہ آئے گا دعا کرے گا تصویر کھنچوائے گا چلا جائے گا رُلیں گے تو اس کے بچے رلے گی تو اس کی بیوہ اس کے ماں باپ ساری زندگی خون کے آنسو روتے رہیں گے سیاستدان کو بعد میں کیا پتہ چلے گا کہ کون میرے لیے مرا تھا کون جیا تھا ؟۔تو یہ جو ہمارے ہاں سیاست دانوں کے چکر میں ہم ایک دوسرے کے دشمن بنتے ہیں خدا کیلئے یہ دشمنیاں نہ کریں کل آپ ٹینشن میں ہوں گے۔ سیاستدان یو ٹرن لے کے کسی اور پوزیشن پہ کھڑا ہوگا آپ کو سمجھ میں نہیں آرہی ہوگی تو یہ ایک بہت اہم میسج ہے جو ہمیں سارے پس منظر سے سیکھنے کو ملتا ہے سمجھنے کو ملتا ہے۔ اگر آسان جملوں میں میں کہوں تو سیاستدانوں کو اتنی ویلیو دیں جتنی ویلیو وہ آپ کو دیتے ہیںاتنی ویلیو آپ ان کو دیں۔ اس سے زیادہ کی ویلیو اگر ان کو دیں گے تو پچھتائیں گے ٹینشن میں آئیں گے آپ کے گھر والے پریشان ہوں گے۔ اور اعتدال اور بیلنس کے ساتھ چلیں گے تو انشاء اللہ امید ہے کہ کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔
تبصرہ نوشتۂ دیوار:عتیق گیلانی
مفتی رشیدکا تعلق جامعة الرشید کراچی سے ہے ۔ مفتی عبدالرحیم کا شاگرد ہو گا جو مفتی رشیداحمد لدھیانوی کا ایک سلسلہ خبیثہ ہے۔پچھلے شمارے میں دارالعلوم دیوبند کے سپوتوں اور کپوتوں کا ذکر کیا تھا۔ مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید نے مجھ سے خود فرمایا کہ ” حاجی محمد عثمان کے فتوؤں کے پیچھے مفتی رشید خبیث ہے”۔ مولانا یوسف لدھیانوی اپنے داماد اور اپنی بیٹیوں کے ساتھ حاجی عثمان کی قبر پر بھی حاضری دینے گئے تھے۔مفتی منیر احمد اخون جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں میرا کلاس فیلو تھا۔ جو ابھی مفتی اعظم امریکہ کے نام سے یوٹیوب چینل پر ہوتے ہیں اور مولانا یوسف لدھیانوی کے داماد بھی ہیں۔ جب مولانا فضل الرحمن اور عمران خان میں بہت سخت محاذ آرائی کا بازار گرم تھا تو مفتی منیر احمد اخون نے یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ کاش مولانا فضل الرحمن اور عمران خان آپس میں مل جاتے تو بہت بڑا انقلاب پاکستان میں آسکتا ہے۔ یوٹیوب پر مفتی اعظم امریکہ کا بیان دیکھ سکتے ہیں۔ شیخ الحدیث مفتی زر ولی خان نے بھی اپنی زندگی میں اس بات کا کھل کر اظہار کیا تھا کہ ”میں عمران خان کو مولانا فضل الرحمن کے پاس لاؤں گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ دونوں بہت اچھے ہیں ۔ان کی دوستی کرانی چاہیے”۔ ہم نے بھی لکھا تھا کہ عمران خان اور مولانا فضل الرحمن کو ایک ساتھ ہونا چاہیے ۔
لوگ سمجھتے ہوں گے کہ مفتی رشید نے بہت زبردست بات کی ہے ،اس پر اعتراض کرنے کی کیا ضرورت ہے؟۔حضرت علی نے خوارج کے بارے میں فرمایا تھا کہ ” وہ بات صحیح کررہے ہیں لیکن صحیح بات سے باطل مراد لیتے ہیں”۔ یہ مفتی رشید کی بات درست ہے لیکن وہ اس سے باطل مراد لیتا ہے۔ذوالخویصرہ کی روحانی اولاد اور دارالعلوم دیوبند کے کپوت کو صحیح وقت پر سمجھانا پڑے گا کہ تم بکواس کررہے ہو۔ حضرت علی اور حضرت امیر معاویہ کے درمیان اختلاف کی نوعیت مذہبی نہیں سیاسی تھی۔ ایک دوسرے کے افراد کو قتل کرنے سے لیکر پتہ نہیں کیا کیا نہیں بولا ہوگا؟۔ مگر جب حضرت حسن نے صلح کی تو رسول اللہ ۖ نے یہ بشارت دی تھی کہ” میرا یہ بیٹا سید ہے اس کے ذریعے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں اللہ صلح کرائے گا”۔شیعہ سنی سب مسلمانوں کے نزدیک حضرت حسن کے اس کردار کو سراہا گیا ہے ۔لیکن خوارج جو ذوالخویصرہ کا گروہ تھا۔ اس نے اس سیاسی اتحاد کو غلط رنگ میں پیش کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام ہوگیا۔ جب حضرت عثمان کی شہادت ہوئی تھی تو شدت پسند مسلمانوں کے طرزِ عمل کی تفریق تاریخ کی نذر ہوگئی ہے۔ حضرت حسن و حضرت حسین نے حضرت عثمان کے بچانے میں اپنا کردار ادا کیا جبکہ دوسرے بھائی محمد بن ابی بکرنے سب سے پہلے حضرت عثمان کی سفید داڑھی میں ہاتھ ڈالا تھا۔وہ بیٹا تو حضرت ابوبکر کا ہی تھا مگر اس کی ماں پہلے حضرت علی کے بھائی کے نکاح میں تھی۔پھر حضرت ابوبکر کی بیوہ بن گئی تو حضرت علی نے نکاح کیا۔ اور محمد بن ابی بکرکی تربیت بھی حضرت علی نے ہی کی تھی۔ ایک گھر کے افراد اور بھائیوں میں کتنا اختلاف تھا؟۔ ایک نے حضرت عثمان کی داڑھی میں ہاتھ ڈا الا اور دوسرے آپ کو بچارہے تھے؟۔ اس سے زیادہ سیاسی اختلاف تو عمران خان اور مولانا فضل الرحمن پر بھی باپ بیٹے کا نہیں ہوا ہوگا؟۔ میرے دوست ناصر علی محسودPTIکو سپورٹ کرتے تھے اور اس کا بیٹاJUIکو سپورٹ کرتا تھا۔ میرا ایک بھتیجاPTIکو سپورٹ کرتا تھا اور دوسراJUIکو۔ میں نے خود شناختی کارڈ کو تصویر کی وجہ سے ضائع کیا تھا مگر پھرJUIکو سپورٹ دینے کیلئے شناختی کارڈ بنایا تھا تاکہ ووٹ دے سکوں۔ جب میجر جنرل ظہیر الاسلام عباسی میرے ہاں تشریف لائے تھے توPTIکے صوبائی امیدوار ایوب بیٹنی سے کہاتھا کہ”تم یہود ی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑرہے ہو؟”۔ مگر میں نے جنرل صاحب سے کہا کہ ٹانک میں مولانا فضل الرحمن اور جمعیت علماء اسلام کی مرکزی جامع مسجد سپین جماعت مولانا فتح خان کیPTIکا دفتر تھا جس میںMPAکا امیدوارPTIاورMNAکے امیدوار مولانا فضل الرحمن تھے۔ جس پر جنرل ظہیرالاسلام کو خوشگوار حیرت ہوئی۔ لاڑکانہ میںPTIکیساتھ ہی مولانا راشد محمود سومرو کا اتحاد پیپلزپارٹی کے مقابلے میں تھا۔ سیاسی اختلافات اور اس میں احترام کا رشتہ تو صحابہ کرام سے چلا آرہاہے جس میں شدت بھی کبھی کبھی آجاتی ہے۔PTIکے معروف صحافی عمران ریاض خان نے لکھا تھا کہ ”اسرائیل کے یہود سے قادیانیوں کے بڑے مراسم ہیں”۔پھر الزام لگایا تھا کہ ”مولانا فضل الرحمن اسرائیل کو تسلیم کرنا چاہتے ہیں”۔ حالانکہ میاں افتخار حسین کیساتھ جب مولانا فضل الرحمن نے پریس کانفرنس کی تھی تو مولانا نے اسرائیل کے خلاف ہی نہیں دوبئی کو بھی آڑے ہاتھوں لیا تھا۔ عمران ریاض نے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سے معافی مانگ لی تو مولانا فضل الرحمن سے بھی مانگ لے گا۔ حامد میر نے کہا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا پروگرام جنرل باجوہ کا تھا۔ جبکہPTIہی کی رکن اسمبلی خاتون نے یہودیوں کے حق میں تقریر کی تھی۔ مولانا فضل الرحمن کو بھی جنرل باجوہ کے وقت بریفنگ دی گئی تھی کہ مساجد میں پیسہ آئے گا اور یہ بھی بتایا ہوگا کہ عمران خان اسرائیل کا ایجنٹ ہے ۔ اگر دونوں کے درمیان غلط فہمی دور ہوجاتی ہے۔ تو اس کا بھی پتہ چلے گا کہ جو ان کو لڑارہے تھے۔
مفتی رشید کی دم پھر کسی نے ہلائی ہوگی یا اپنے شجرہ خبیثہ سے تعلق رکھنے کی وجہ سے اپنی فطرت سے مجبور ہوگا؟۔ یہودی ایجنٹ اور مولانا ڈیزل کے الزام کا معاملہ نیا نہیں ہے ۔ بینظیر بھٹو اور نوازشریف بھی ایک دوسرے پر اسرائیل اور امریکہ کے ایجنٹ کا الزام لگاتے تھے۔ کفر کے فتوے اور سودی نظام کو اسلامی کہنا زیادہ سنگین مسئلہ ہے۔ مفتی طارق مسعود و مفتی عبدالرحیم پہلے مجاہدین کو سپورٹ کرتے تھے پھر ان پر وعید کی احادیث فٹ کرنے لگے کہ یہ دہشت گرد ہیں؟۔ اس کا کیا بنے گا مفتی رشید لدھیانوی کالیا کے شاگردواور مریدو!،؟۔شیعہ پر کفر کے فتوے اور واپس لینے کا کیا بنا؟۔ حاجی عثمان کے عقیدتمندوںکی بڑی دنیا ہے جس میں دارالعلوم کراچی کے مولانا اشفاق قاسمی فاضل دارالعلوم دیوبندبھی شامل تھے۔ جن کے نکاح کے بارے میں لکھ دیا کہ اس کا انجام کیا ہوگا عمر بھر کی حرامکاری اور اولاد الزنا۔ جس دن ان ذوالخویصرہ کی اولاد کا ادراک ہوگیا تو پھر امت مسلمہ میں کفر کے فتوے ،نفرت ، شدت پسندی اور دہشتگردی کا خاتمہ ہوگا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،الیکشن شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اہل مغرب ہمیشہ حق کے ساتھ غالب رہیں گے یہاں تک کہ قیامت کھڑی ہوجائے۔ صحیح مسلم

اہل مغرب ہمیشہ حق کے ساتھ غالب رہیں گے یہاں تک کہ قیامت کھڑی ہوجائے۔ صحیح مسلم

قال رسول اللہ ۖ لا یزال اہل الغرب ظاہرین علی الحق حتیٰ تقوم الساعة
سعد بن ابی وقاص نے کہا کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ اہل مغرب ہمیشہ حق کے ساتھ غالب رہیں گے یہاں تک کہ قیامت کھڑی ہوجائے۔ (صحیح مسلم حدیث4843کتاب الامارة)

محترم قارئین ، علماء کرام ، مفتیان عظام، سیاسی قائدین، مجاہدین، صحافی ، دانشور اور عوام الناس!السلام علیکم ورحمة اللہ
رسول اللہ ۖ کی اس حدیث کے بارے میں کم از کم کوئی یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ یہ من گھڑت ہے۔ کوئی ایسے قرائن نہیں کہ یہ کہا جاسکے کہ ان مقاصد کیلئے کسی راوی نے یہ حدیث گھڑی ۔ اہل غرب میں روس، یورپ، امریکہ اور مغربی ممالک ہیں ۔ یہ تو تاریخ نے دیکھ لیا کہ کبھی فرانس اور برطانیہ کی کالونیاں دنیا بھر میں ہوا کرتی تھیں۔ پھر روس اور امریکہ نے دو سپر طاقتوں کی شکل اختیار کی۔ سقوط بغداد سے بنو عباس کی خلافت کا خاتمہ ہوا اور پھر چنگیز خان اور ہلاکو خان کی بربریت کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کی اولاد کو ایمان سے سرفراز فرمایا اور شاعر نے یہ گایا
تو نہ مٹ جائے گا ایران کے مٹ جانے سے
نشہ مے کو تعلق نہیں پیمانے سے
ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
حماس نے ایک حملہ اسرائیل پر کردیا اور آج بچوں خواتین اور انسانوں کی لاشیں روز سوشل میڈیا پر دل جلانے کیلئے موجود ہیں۔ بیت المقدس پر تو یہود کا قبضہ ہوگیا ہے اور غزہ کی پٹی دور کی مسافت پر ہے۔ جب امریکہ نے افغانستان اور عراق میں بڑی تباہی مچائی تو لیبیا کے لوگوں نے خود ہی کرنل قذافی کو بہت بے دردی کے ساتھ شہید کردیا۔ آج غیر ملکی طاقتیں بلکہ مغرب جب افغانستان ، ایران، پاکستان اور سعودی عرب کسی بھی ملک پر بمباری کرکے حکمرانوں کو تباہ کردیں تو اغیار سے زیادہ ہماری اپنی مسلم عوام سے اپنے اپنے حکمرانوں کو یلغار کا زیادہ خطرہ ہوگا اور پھر بھی ہم ایک لمحے کیلئے یہ نہیں سوچتے کہ ہماری اجتماعی بقاء کیلئے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟۔ جبکہ اہل غرب ہماری طرح بے چینی اور بے سکونی کے ساتھ نہیں رہ رہے ہیں۔ ہماری کیفیت تو قرآن ، حدیث، علماء و مشائخ اور مذہبی طبقات کی وجہ سے ایسی بن گئی ہے کہ اگر کہیں بھول کر بھی شوہر کے منہ سے 3طلاق کے الفاظ نکل گئے تو حلالہ کی لعنت کا خمار دماغ پر چڑھ جاتا ہے۔ اگر اس لعنت کیلئے کوئی تیار نہیں ہوتا تو عورت کی زندگی تباہ ہوجاتی ہے۔ وہ اپنے شوہر اور اپنے بچوں سے ہمیشہ کیلئے محروم ہوجاتی ہے۔ بھلا کرے اللہ تعالیٰ امام اعظم امام ابو حنیفہ کی شخصیت کا جس نے اکیلے یہ صدا بلند کردی کہ حلالہ سے عورت اپنے شوہر کیلئے حلال ہوجاتی ہے ورنہ تو باقی ائمہ امام مالک، امام جعفر صادق، امام شافعی ، امام احمد بن حنبل اور امام ابو حنیفہ کے اپنے شاگرد عبد اللہ ابن مبارک ، امام ابو یوسف، امام زفر اور امام محمد وغیرہ کا اس بات پر اتفاق تھا کہ حلالہ سے عورت اپنے شوہر کیلئے حلال نہیں ہوتی ہے۔
اگر امام ابو حنیفہ حلالہ کی لعنت سے حلال ہونے کا فتویٰ نہ دیتے تو پھر عورت کو اپنے شوہر اور اپنے بچوں سے ہمیشہ کیلئے محروم ہونا پڑتا۔ پھر پانچ چھ سو سال قبل حنفی مذہب میں مزید دو عظیم سپوت پیدا ہوئے ایک علامہ بدر الدین عینی اور دوسرے محقق ابن ھمام جنہوں نے مزید سہولت کاری فراہم کردی کہ ”ہمارے کچھ نامعلوم بزرگوں سے نقل ہے کہ اگر زبان سے حلالہ کے الفاظ ادا نہیں کئے اور دل میں حلالے کی نیت سے نکاح کیا تو حدیث میں آئی ہوئی لعنت سے بندہ بچ جائے گا”۔ اور پھر اس سے بھی زیادہ بشارت عظمیٰ یہ بھی سنادی کہ ”اگر نیت یہ ہو کہ دو خاندان آپس میں ملیں تو ہمارے نامعلوم بزرگوں نے کہا ہے کہ حلالہ سے ثواب بھی ملے گا”۔ نیت کے حوالے سے اتنا عظیم اجتہاد اہل مغرب نے تو نہیں دیکھا ہوگا لیکن یہود و نصاریٰ کی تاریخ میں بھی اس کی مثال نہیں ملے گی۔
سن2007میں جب قرآن و سنت کے حوالے سے یہ انکشاف کردیا تھا کہ قرآن و سنت میں حلالے کا غلط تصور پیش کیا گیا ہے تو بجائے خوشیوں کے کوئی شادیانے بجاتا ہمارے اخبار کو ہی بند کردیا گیا۔ پھر مذہبی طبقات کی طرف سے مشکلات کا شکار رہنے کے بعد کچھ آسانی پیدا ہوگئی تو اخبار کی دوبارہ اشاعت بھی شروع کردی اور چند کتابیں بھی لکھ ڈالیں۔ جس میں بہت مدلل انداز کے اندر قرآن و احادیث کے مؤقف سے آگاہ کیا گیا کہ دورِ جاہلیت میں حلالے کا جو تصور تھا اس کو قرآن نے ختم کیا۔ لیکن ہمارے علماء و مفتیان اپنے عقیدتمندوں کو بھی اس لعنت سے بچانے کیلئے کھل کر سامنے نہیں آئے۔ آج جماعت اسلامی کو اس بات پر شاید شرمندگی کا سامنا ہے کہ جو تحریک دنیا میں اسلام کے غلبے کیلئے مولانا مودودی نے اٹھائی تھی اور اس میں مولانا مسعود عالم ، مولانا ابوا لحسن علی ندوی اور مولانا محمد منظور نعمانی کے علاوہ بہت سارے علماء اور دانشور بھی شریک تھے ۔ لیکن پورے پاکستان سے سب سے زیادہ امید وار کھڑے کرنے کے باوجود کوئی ایک سیٹ بھی نہیں جیت سکی ہے۔ میں نے 2 دفعہ منصورہ لاہور میں اس غرض سے حاضری دی کہ جماعت اسلامی حلالے کے خلاف نکل کھڑی ہوگی تو لوگوں کو بہت بڑا ریلیف مل جائے گا۔ لیکن ان لوگوں کو صرف اس وقت جوش آتا ہے جب کوئی عوامی لہر کسی کی مقبولیت کے حوالے سے دیکھتے ہیں۔
مدارس اور مذہبی جماعتوں کے قائدین اورنمائندوں تک مسلسل ہمارا اخبار اور کتابیں پہنچ رہی ہیں۔ لیکن ان کو اس بات کی فکر نہیں کہ کتابوں میں سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا جائز قرار دیا گیا ہے یا حلالے کے نام پر خواتین کی ناجائز طور سے عزتیں لٹ رہی ہیں یا پھر مدارس کے نصاب میں قرآن کی حفاظت کیخلاف تعلیمات دی جارہی ہیں۔ عمران خان کی ایک سیٹ تھی جو اس نے مولانا فضل الرحمن کو وزیر اعظم بننے کیلئے دی تھی۔ دوسری طرف مولانا اعظم طارق کی ایک سیٹ تھی جو اس نے مولانا فضل الرحمن کے خلاف ظفر اللہ جمالی کو وزیر اعظم کیلئے دی اور اس ایک سیٹ سے ظفر اللہ جمالی وزیر اعظم منتخب ہوگئے۔ یہ نہیں بھولنا کہ جب غلام اسحاق خان کے خلاف نوابزادہ نصر اللہ خان نے صدارتی الیکشن لڑا تھا تو شہید بینظیر بھٹو نےMRDکی تحریک میں جنرل ضیاء الحق کے خلاف قربانی کی تاریخ رقم کرنے والے نوابزادہ نصر اللہ خان کی بجائے غلام اسحاق خان کو ہی صدارتی ووٹ دیا تھا۔ جس نے پھر باری باری بینظیر بھٹو اور نواز شریف کو چلتا کیا تھا۔ پرویز مشرف اور ق لیگ کے خلاف بھی پیپلز پارٹی کے چند ووٹ اگر مولانا فضل الرحمن کے حق میں ڈال دئیے جاتے تو ق لیگ اور پرویز مشرف اس وقت اقتدار سے محروم ہوجاتے جس نے پیپلز پارٹی میں پیٹریاٹ بنا کر پارٹی کو توڑا تھا اور ن لیگ کو توڑ کر ق لیگ بنائی تھی۔ پھر جب اس خدمات کے بدلے بینظیر بھٹو کو شہادت کی منزل پر پہنچادیا گیا اور پیپلز پارٹی کو اقتدار مل گیا تو مولانا فضل الرحمن نے پیپلز پارٹی کی حکومت میں شرکت اقتدار کا شرف حاصل کیا۔ محسن جگنو کے انٹرویو میں مولانا فضل الرحمن سے پوچھا گیا کہ اس وقت زرداری کو کیا مسئلہ تھا ؟۔ لیکن مولانا نے بات گول کی تو محسن جگنو نے بتایا کہ زرداری کی زندگی کو طاقتور حلقے سے جان کا خطرہ تھا اور وہ چند دن تک سو نہیں سکے تھے۔
اس وقت نواز شریف بھی یوسف رضاگیلانی اور زرداری کے خلاف بہت ہی آب و تاب کے ساتھ طاقتور حلقوں کے ساتھ شانہ بشانہ لڑرہے تھے۔ پھر جب نواز شریف کو آب و تاب کے ساتھ لایا گیا تو عمر چیمہ نے پانامہ لیکس کی خبر نشر کردی۔ نواز شریف نے پارلیمنٹ میں بڑی صفائی کے ساتھ جھوٹ کی یہ تاریخ رقم کردی کہ لندن فلیٹ اللہ کے فضل و کرم سے2005میں سعودیہ کی اراضی بیچ کر2006میں خریدے۔ جس کے تمام دستاویزی ثبوت عند الطلب میڈیا اور عدالت کو دکھا سکتا ہوں۔ عدالت نے طلب کیا تو قطری خط سامنے لایا۔ پھر قطری خط میں بلا کی غلطیاں تھیں اسلئے کہ بلا کا یہ جاہل اپنے جاہل مریدوں کے غلط ڈھکوسلوں کو سمجھنے سے قاصر تھا۔ پھر مجھے کیوں نکالا کا واویلا کیا اور ووٹ کو بھی عزت دو کا نعرہ لگایا۔ پھر2018میں محکمہ زراعت کے نام سے خلائی مخلوق کا یہ کارنامہ سامنے آیا کہ اڑن طشتری میں عمران خان کا نزول ہوا۔ دنیا جہاں کے لوگوں کو حیرت ہوگی کہ جس جنرل قمر جاوید باجوہ کو سب متفق علیہ گالی گلوچ سے نوازتے ہیں اس کو سب نے ملکر نہ صرف3سال کی ایکسٹینشن دی بلکہ قانون میں بھی ترمیم کر ڈالی اور مزید ایکسٹینشن کی بھی گنجائش موجود تھی۔
پہلے آرمی چیف کی ایکسٹینشن قانون میں بھی چور دروازے سے ہوتی تھی۔ کرائم کے دفعات میں یہ لکھا تھا کہ اگر کسی فوجی کو سزا دینی ہو تو اس کو بحال کرکے کورٹ مارشل کیا جائے گا اور اسی کے تحت جنرل ایوب ، جنرل ضیاء الحق ، جنرل پرویز مشرف ، جنرل اشفاق پرویز کیانی نے تاریخی ایکسٹینشن لی تھی اور یہ اتفاق تھا کہ جب پرویز مشرف کی پیٹھ میں نواز شریف نے چھرا گھونپا تو عدالت نے پرویز مشرف کو 3سال تک قانون سازی کی اجازت بھی دی تھی۔ لیکن کسی ایک نا معلوم شخص نے جب قمر جاوید باجوہ کی ایکسٹینشن کو عدالت میں چلینج کیا تو پھر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ پر قانون کی کتاب کھل گئی کہ آج تک جتنے بھی فوجیوں کو ایکسٹینشن دی گئی ہے وہ تو بنتی ہی نہیں ہے۔ صحافت اور سیاست کے ایک نمایاں کردار ایاز امیر صاحب جو کبھی ن لیگ کے ایم این اے بھی رہے ہیں اور ابPTIکی طرف سے آزاد حیثیت میں بھی الیکشن لڑا تو وہ بڑی ڈھٹائی سے کہہ رہے تھے کہ عمران خان نے ایکسٹینشن کیلئے عدالت سے رجوع کرکے بڑی سنگین غلطی کا ارتکاب کیا ہے۔ ہر چیز قانون کے تابع نہیں ہوتی ہے۔ اس موصوف کو پھر بھی نہیں بخشا گیا حالانکہ اس کی ساری باتیں ن لیگ کے خلاف تھیں۔ وہ بھی اس وقت جب ن لیگ عقاب کے زیر عتاب تھی۔
ہمارے مذہبی ، سیاسی اور مقتدر طبقات کے کردار اور رفتار کو دیکھ کر لگتا تو یہی ہے کہ نبی ۖ نے سچ فرمایا کہ اہل غرب ہمیشہ حق کے ساتھ غالب رہیں گے۔ اگر ہم ماضی کے دریچوں میں تھوڑا جھانک کر دیکھیں تو خلافت عثمانیہ کے بادشاہ کی ساڑھے 4ہزار لونڈیوں سے پتہ چلے گا کہ سقوط بغداد کیوں ہوا؟۔ بنو عباس اور بنو اُمیہ کے اکثر حکمرانوں کا کردار اور ظلم و ستم بھی اگرچہ قابل رشک نہیں ہے لیکن اگر ہم نبی رحمت ۖ کے بعد خلفاء راشدین کے دور کو دیکھیں تو اس میں بھی عشرہ مبشرہ کے مقدس صحابہ کرام حضرت طلحہ و زبیر اور علی ایکدوسرے کیخلاف جنگوں کی قیادت کرتے نظر آتے ہیں۔ حضرت عثمان کو تخت خلافت پر شہید کیا گیا۔ اہل مشرق کے دانش نے مشاجرات صحابہ پر بات کرنے کی بھی پابندی لگائی ہے کہ اس سے عوام میں بدظنی کی روح بیدار ہوگی اور پھر مسئلہ خراب ہوگا۔
مولانا محمد مکی کا ایک ویڈیو کلپ ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ حضرت خالد بن ولید نے ایک شخص (مالک بن نویرہ )کی بیوی سے عشق کیا تو اس کو قتل کرکے اس کی بیوی سے عدت میں شادی کرلی۔ ایک طرف عمران خان کو عدت میں شادی کے الزام سے بچانے کیلئے یہ مہم جوئی ہورہی ہے تو دوسری طرف ہماری فوج کو بھی اس سے بڑا ریلیف مل رہا ہے کہ جب حضرت ابوبکر کے دور میں یہ المناک واقعہ ہوا تھا تو ہم15ویں صدی ہجری کے انسان ہیں۔ مولانا مکی فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے حضرت خالد بن ولید کو منصب سے سبکدوش کردیا لیکن جس کو قتل کیا تھا اس کا کیا بنا؟۔ کیا قتل کے بدلے قتل کرنا نہیں تھا؟۔ شاید مولانا مکی بھی سعودی عرب میں شاہی خاندان کے اقدامات کو جواز بخشنے کیلئے یہ حقائق اجاگر کرنے کی کوشش کررہا ہو۔ فتاویٰ عالمگیریہ میں مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کی سہولت کاری کیلئے یہ مسئلہ لکھ دیا گیا کہ بادشاہ قتل، زنا، چوری، ڈکیتی اور جو کچھ بھی کرے اس پر کوئی حد جاری نہیں ہوگی۔ جب بادشاہوں اور علماء میں محبت کا یہ عالم تھا تو انگریز نے ایسٹ انڈین کمپنی لگاکر برصغیر پاک و ہند پر قبضہ کرلیا۔
اہل سنت کے چاروں اماموں نے متفقہ طور پر یہ مسئلہ اُمت مسلمہ کو بتادیا کہ حضرت ابوبکر صدیق کی طرف سے جبری زکوٰة کا مسئلہ درست نہیں تھا لیکن پھر انہوں نے بے نمازی کو نہ صرف سزا دینے پر اتفاق کیا بلکہ بعضوں نے قتل تک بھی بات پہنچادی۔ ایک طرف بادشاہوں کی طرف سے عوام کو قتل کیا جاتا تھا جس پر کوئی آواز نہیں اٹھاتا تھا اور دوسری طرف بے نمازی کو قتل کرنے کا فتویٰ دینا ”ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات” کے مترادف تھا۔
اگر سنی علماء جمعہ کے خطبات میں حکمرانوں کیلئے یہ حدیث پڑھتے تھے کہ السلطان ظل اللہ فی الارض من اھان سلطان اللہ فقد اھانہ اللہ ”حکمران زمین پر خدا کا سایہ ہے جس نے اللہ کے بادشاہ کی توہین کی تو بیشک اس نے اللہ کی توہین کی”۔ دوسری طرف شیعہ امامت کیلئے معصومیت کا عقیدہ رکھتے تھے اور قرآن نے جس مشاورت کا حکم دیا تھا وہ بالکل مفقود ہوچکا تھا۔ اور جس قرآن میں ایک خاتون کو بھی نبی ۖ سے اختلاف کی نہ صرف گنجائش تھی بلکہ اس کے حق میں اللہ تعالیٰ نے وحی بھی نازل کی لیکن جب صحابہ و ائمہ اہل بیت کیلئے قرآن و احادیث سے بالاتر عقیدت رکھی گئی اور بادشاہوں پر تنقید کو اللہ کی توہین قرار دیا گیا تو مسلم ممالک سے ہما نے اُٹھ کر مغرب کے سر پر بیٹھنا تھا۔
مولانا عبید اللہ سندھی نے لکھاہے کہ نبی ۖ اور ابوبکر کا دور ایک تھا اور پھر حضرت عمر کا دور تھا جس میں سرمایہ دارانہ نظام کیلئے بنیاد فراہم کی گئی۔ جس میں وظائف کی تقسیم طبقاتی بنیادوں پر بدری اور غیر بدری صحابہ کے اندر کردی گئی۔ پھر حضرت عثمان کے دور میں خاندانی نظام کیلئے بنیادیں فراہم ہوئیں اور آخر کار اسلام ملوکیت کا شکار ہوگیا۔ ہمارے ہاں سب سے بڑی زیادتی یہ ہے کہ اسلام کی بنیاد پر آزادیٔ صحافت کو بھی فروغ نہیں دے سکتے۔ ایران ، سعودی عرب اور افغانستان میں اسلام کے نام پر اقتدار ہے لیکن اس آزادی کا تصور نہیں جو دنیا میں مغرب نے صحافیوں کو دی ہے۔ پاکستان میں آزادی صحافت باقی اسلامی دنیا کے مقابلے میں بہت مثالی ہے۔ اگر کوئی الیکٹرانک میڈیا کا صحافی یہ جھوٹ بولتا ہے کہ مجھے بولنے نہیں دیا جاتا تو سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم بھی سب کو میسر ہے۔ صحافی بھی بعض سپوت ، بعض کپوت اور بعض مکس سپوت کپوت ہیں۔
جن سیاستدانوں اور صحافیوں کو مداری کے بندر کی طرح ڈنڈے پر چڑھنے کا شرف حاصل ہوتا ہے تو ان کی تعلیم و تربیت کیلئے ڈنڈے کا استعمال بھی بنتا ہے۔ اکثر صحافیوں کو بہت کچھ بولنے کے باوجود بھی کچھ نہیں کہا جاتا ہے۔ ہماری فوج کا کردار بھی کوئی مثالی نہیں ہے۔ جب سقوط ڈھاکہ ہوا تو بھی ہندوستان کی قید سے آزاد ہونے کے بعد ڈھول باجے کی تھاپ پر ان کا استقبال کیا گیا۔ حالانکہ کرکٹ ہارنے والوں کو بھی ٹماٹر اور انڈوں سے نشانہ بننے کا خطرہ ہوتا ہے۔ اور جب میڈیا پر صرف اور صرف کرکٹ کی خبروں کے ذریعے سے بچے، بچیوں اور جوانوں اور خواتین و حضرات کو شیدائی بنایا جائے گا اور پوری قوم تاریخ، مذہب، تہذیب، تمدن، معاشیات، سیاست، سائنس اور تمام علوم و فنون سے عاری ہو تو اس کیلئے ایک کرکٹر ہی حقیقی لیڈر ہوسکتا ہے۔ جب ضرورت پڑی تھی تو پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ اور آج بھی آرمی چیف اسی کا سہارا لیتے ہیں۔
سوشل میڈیا آزادی سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے بجائے جھوٹ کا بازار گرم کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے جس کے اثرات الیکٹرانک میڈیا پر بھی پڑے ہیں اور جب تک کوئی سنسنی خیز عنوان سے جھوٹی خبر نہ لگائی جائے تو اس کی ریٹنگ کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ جب جھوٹ اور سچ کا اختلاط ہوتا ہے تو سچ پر بھی کسی کو یقین نہیں آتا۔ جب پنڈی کے کمشنر نے پریس کانفرنس کی تو کافی دیر تک مجھے یہ خبر بھی فیک لگی اور ہوسکتا ہے کہ کچھ فیک خبروں پر سچائی کا یقین بھی آگیا ہو۔ اسلئے کہ انسان بہت کمزور ہے اور اس کمزوری کی نشاندہی سورہ نور میں بھی ہوئی ہے۔ جب ایک اُم المؤمنین کیخلاف بہتان عظیم کا جھوٹا پروپیگنڈہ کیا گیا تھا ۔ کمال کی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک طرف غلط پروپیگنڈے کو پھیلانے سے روکا تو دوسری طرف اللہ نے فرمایا کہ اس کو اپنے لئے شر مت سمجھو بلکہ اس میں تمہارے لئے خیر ہے۔ اگر آج مغرب کو یہ پتہ چل جائے کہ قرآن و سنت میں برابری کا اتنا زبردست قانون ہے کہ جب اُم المؤمنین پر بہتان لگا تو اس کی سزا بھی80کوڑے تھی اور غریب خاتون پر بہتان لگے تو اس کی بھی سزا80کوڑے ہے۔ تو دنیا میں اسلام کا بول بالا ہوگا۔ لیکن ہمارا دانشور اور متعصب مذہبی طبقہ یہ سوچ پھیلارہا ہے کہ حدیث میں اُم المؤمنین کے خلاف سازش کرنے کیلئے یہ بات گھڑی گئی ہے۔ اگر اُم المؤمنین کے خلاف اتنی بڑی بات کوئی کرتا تو اس کی سزا قتل ہوتی۔ عمران خان مغرب کی طرح ایک قانون کی بات کرتا تھا لیکن جب وہ حملے کا شکار ہوا تو اس نے کہا کہ میں ایک سابق وزیر اعظم ہوں اور پنجاب میں میری حکومت ہے اور اپنی مرضی کیFIRدرج نہیں کرسکتا۔ اگر وہ اپنے اقتدار میں تھانوں اور چھوٹی عدالتوں کی سطح پر انصاف کو عام کرتا تو پھر یہ شکایت کرنے کا موقع نہ ملتا۔ آج صحافی درست آئینہ دکھانے کے بجائے دیہاڑی دار ہیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،الیکشن شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

پروفیسر احمد رفیق اختر نے آیت کی غلط تفسیرکی جس کا نوٹس لینا بڑا ضروری

پروفیسر احمد رفیق اختر نے آیت کی غلط تفسیرکی جس کا نوٹس لینا بڑا ضروری

صحابہ نے پوچھا کہ توبہ ہم جانتے ہیں طہارت سے کیا مراد ہے؟۔ نبی ۖ نے فرمایا : ڈھیلوں کے بعد پانی کا استعمال کرنا زیادہ طہارت ہے(مفہوم)

آیت میں حیض کا ذکر ہے اور طہارت کا مفہوم بھی بالکل واضح ہے۔ پروفیسر احمد رفیق اختر نے تعلیم یافتہ لوگوں کا بار اٹھایا ہے غلطی کا ازالہ ہونا چاہیے۔

پروفیسر احمد رفیق اختر نے ایک ویڈیو میں کہا ہے کہ خواجہ مہر علی کی ایک بات مجھے وہ اخری لٹریٹ مسٹک سے ان کی رائے میں بڑا حسن ہے دل نے چاہا کہ اس کے اختتام سے پہلے میں ان کو کوڈ نہ کروں فرمایا کہ ان امور کے بیان میں جن کا جاننا ضروری ہے واضح ہو کہ تفسیر کے تمام طریقوں میں سے اول درجہ بڑی انقلابی بات ہے، اول درجہ تفسیر القران بالقرآن ہے۔ یعنی سب سے پہلے قران کی وضاحت قران سے طلب کیجیے اگر قرآن ایک بات ایک جگہ کہی ہے جیسے معتزلہ نے کیا یا ماتریدیہ نے کہا یا جہیمیہ نے کیاایسے نہ کیجئے۔ ایک آیت سے استنباط نہ کیجیے پہلے پورا قران تو پڑھ لیں۔ مختصر یہ کہنا ہے امام کا خواجہ مہر علی کا کہنا یہ ہے کہ یار پہلے پورا قران تو پڑھ لو نا اگر ایک آیت سپلیمنٹ آیت آئی ہوئی ہے سپلیمنٹ آیتیں آئی ہوں گی اگرآگے آیات ہوں گی تو پورا ادراک ایک موضوع پہ آیات قرانی سے کر لو پھر ان کے بارے میں رائے دینا۔ تو فرسٹ ڈگری قرآن کو سمجھنے کیلئے یہ ہے کہ قرآن کی تفسیر بالقرآن۔ اس کے بعد کیونکہ ان القرآن یفسر بعضہ بعضا قرآن ایسی کتاب ہے کہ اس کی ایک آیت دوسری آیت کی تفسیر کرتی ہے ایک حصہ دوسرے حصے پہ دلالت ہے اس کی محکمات متشابہات پہ دال ہے اور متشابہات زمانوں پہ آکے دلیل دیتی ہے قرآن کے بارے میں۔ دوسرا درجہ تفسیربالسنہ باوجود اس کے کہ وہ ایک بڑے سپیشلائز مسٹک علوم میں استاد معظم ہیں اسکے باوجود جو رائے دے رہے ہیں قرآن پڑھنے کے بارے میں کہ دوسرا طریقہ قرآن کی تفسیر بالسنہ ہے کہ اصحاب کے رویوں سے تصدیق کرو اگرآپ کو پتہ لگے یہ ہے تو آپ کوشش کرو کسی سے پوچھو کہ جب یہ حکم آیا تھا اصحاب نے کیسے لی ؟۔ چھوٹی سی آپ کو ایک بات بتا دوں کہ جب یہ آیت اتری کہ پروردگار نے صفائی پہ اتاری یحب التوابین ویحب المتطاہرین کہ خدا توبہ کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے اور پاک رہنے والوں سے محبت رکھتا ہے۔ تو اصحاب نے پوچھا یا رسول اللہ توبہ کی تو سمجھ آگئی مگر یہ پاک رہنے والے کون ہیں؟۔ تو اگر آپ کے سامنے بھی یہ لفظ پاک میں رکھ دو تو بڑی مشکل سے پتہ ہے کہ کیا پاکیزگی کا بیان ہے مگر رسول اکرم ۖ نے اصحاب کو جو بتایا کہ پاکیزگی کا مطلب ہے جوآپ ڈھیلے کے بعد آب دست لیتے ہیں کہ جب آپ گئے کیونکہ اس وقت جو رواج تھا رویہ تھا باہر گئے آپ نے ابولوشن کی تو پاک وہ لوگ ہیں جو اس ابولیوشن سے پوری طرح مطمئن نہیں ہوئے اور گھر آکے انہوں نے پانی سے وضو کیا۔ اے لٹل ایکسٹرا کلین (تھوڑی سی مزید صفائی )۔تو آپ کیلئے قابل قبول ہو گیا۔ اصحاب کی ان وضاحتوں سے دین ہماری گرفت میں آجاتا ہے آپ کو پتہ ہے اگر ہم ان کی بات نہ سنیں تو دین ہماری گرفت سے نکل جاتا ہے۔ اگر میں طاہرین کا یا متطاہرین کا ترجمہ لنگوسٹیکلی کروں زبان کے لحاظ سے کروں تو مجھے پاکیزگی کے ہولناک خواب آنے شروع ہو جائیں مگر یہ جو ایک نیچرل بتایا ہے کہ اینی بوڈی ہووش ٹو بی مور کلین وہ طاہر ہے۔ وہ غیر معمولی کنڈیشن نہیں ہے معمولی سی بات ہے کہ اگر آپ اپنے آپ کو زیادہ صاف رکھنا چاہو۔ اسلئے اصحاب کے رویے جو ہیں وہ قرآن کی اور سنت رسول کی بہترین تائید میں ہیں اور بہترین تفسیر ہیں۔ اور تیسرا درجہ شاہ خواجہ مہر علی کہتے ہیں کہ اصحاب کرام کی تفسیر کا ہے اور یہ کون ہے خلفاء اربعہ عبداللہ بن مسعود عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما۔ پھر چوتھادرجہ تابعین اور تبع تابعین کا ہے۔ ان میں چند ایک کے انہوں نے نام بتائے ہیں کہ عمدہ ترین مفسرین جو ہیں حضرت مجاہد بن جبل ابن عباس کے شاگردوں میں سے ، امام بخاری اور امام شافعی نے ان کی تفسیر پر اظہار اعتماد کیا ہے۔

تبصرہ نوشتۂ دیوار : عتیق گیلانی
پروفیسر احمد رفیق اختر کے اس بیان پر پیر مہر علی شاہ گولڑہ شریف کی تصویر بھی یوٹیوب پر لگی ہے مگر اس میں ایسی جہالت کا مظاہر ہ کیا گیا ہے جو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ پاکی کا ایک تصور وہی ہے جس کی پہچان دنیا میں ”مسلم شاور” سے ہوتی ہے۔ یورپ وغیرہ میں ٹشو پیپر کا استعمال ہوتا ہے اور مسلمان استنجاء پانی سے بھی کرتے ہیں جس کی وجہ سے استنجاء میں استعمال ہونے والا شاور ”مسلم شاور”کہلاتا ہے۔ پروفیسر صاحب نے قرآن کی آیت222البقرہ کے حوالہ سے بات کی ہے جسمیں توبہ کرنے والوں اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں کا ذکر ہے۔ اس آیت میں ناپاکی اور پاکی کے تصورات عام فہم ہیں۔ اللہ نے فرمایا: ویسئلونک عن المحیض قل ھو اذی فاعتزلوا النساء فی المحیض ولاتقربوھن حتی یطھرن فاذا تطھرن فاتوھن من حیث امرکم اللہ ان اللہ یحب التوابین و یحب المتطھرین ۔ ترجمہ :”اور آپ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ کہہ دیجئے کہ وہ ایک تکلیف ہے۔ پس حیض کی حالت میں عورتوں سے دور رہو۔ اور ان کے قریب مت جاؤ یہاں تک کہ وہ پاک ہوجائیں۔ پس جب وہ پاک ہوجائیں تو ان کے پاس آؤ جیسا کہ اللہ نے حکم دیا ہے۔ بیشک اللہ توبہ کرنے والوں اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے ”۔ (البقرہ آیت222)۔ اسمیں پاکی اختیار کرنے والوں کی تفسیر بالکل واضح ہے۔ حیض کی حالت میں بیگمات سے قربت یعنی جماع سے روکا گیا ہے اور یہی پاکیزگی اختیار کرنے والے مراد ہیں۔پروفیسر احمد رفیق اختر اتنی دور کی کوڑی لانے سے بہتر تھاکہ پہلے آیت کے ترجمہ کو دیکھ لیتے اور پھر اس سلسلے میں احادیث کو دیکھ لیتے جن کا تعلق حیض سے ہے۔جہاں تک پانی سے استنجاء کرنے کی بات ہے ۔تو وہ حدیث سورہ توبہ آیت108سے متعلق ہے۔ جس میں مسجد ضرار کے مقابلے میں مسجد قباء کی وضاحت ہے۔ فیہ رجال یحبون ان یطھروا واللہ یحب المطھرین ” اس میں لوگ ہیں جو پسند کرتے ہیں کہ وہ پاک رہیں۔ اور اللہ پاک رہنے والوں کو پسند کرتا ہے”۔ اس میں ان صحابہ کرام کی خبر ہے جو مسجد قباء کے پاس رہتے تھے۔ زیادہ پاکی سے مراد یہ ہے کہ وہ ڈھیلوں کے علاوہ پانی سے بھی طہارت حاصل کیا کرتے تھے۔ اس میں توبہ کرنے کی کوئی بات نہیں ہے۔
شاید اسرائیلیات میں کہیں درج ہے کہ مسلمانوںکا یہ امتیاز ہوگا کہ وہ ڈھیلوں کے استعمال کے بعد استنجوں کیلئے پانی سے بھی صفائی کریں گے۔ اس کی پہلی مثال مسجد نبوی سے بھی پہلے کی مسجد قباء تھی اور موجودہ دور میں بھی جہاں مشرق سے مغرب تک دنیا صرف ٹشو پیپر کا استعمال کرتی ہے تو وہاں مسلم شاور کی حیثیت سے استنجے میں استعمال ہونے والے شاور کو یاد کیا جاتا ہے۔ نمازی لوگ لوٹوں کا استعمال شروع سے کرتے ہیں۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ کسی عالم سے غلطی کی وجہ سے بدظن مت ہو اسلئے کہ کبھی کبھی شیطان بھی کسی اچھے آدمی کے منہ سے غلط بات نکال دیتا ہے۔ ایک صحابینے دوسرے سے پوچھا کہ کیسے پتہ چلے گا کہ شیطان نے بات نکلوائی ہے؟۔ اس کا جواب اس صحابی نے یہ دیا کہ جب کوئی ایسی بات کرے کہ لوگوں کو تعجب ہو کہ یہ کیا بات کہہ دی لیکن اچھے عالم کی نشانی یہ ہے کہ وہ غلط بات سے رجوع کرلیتا ہے۔ اگر وہ رجوع نہیں کرتا تو پھر وہ ایک عالم نہیں بلکہ شیطان ہے۔ یہ روایت مولانا یوسف لدھیانوی شہید نے اپنی کتاب ”عصر حاضر حدیث نبوی ۖ کے آئینہ میں” لکھی ہے۔ جب مولانا یوسف لدھیانوی کی طرف سے حاجی عثمان صاحب کے خلاف خط کا جواب دیا گیا تو مجھے حاجی صاحب نے آخر میں وصیت کی تھی کہ مولانا لدھیانوی سے ضرور پوچھ لینا۔ مولانا لدھیانوی نے کہا تھا کہ یہ مفتی جمیل خان نے لکھ کر میری طرف منسوب کردیا ہے۔ اور حاجی عثمان کی بہت تعریف بھی کی۔ جب میں نے کہا کہ میں اس کی وضاحت کروں گا تو انہوں نے کہا کہ اگر مجھے گالیاں بھی دو تو میں جواب نہیں دوں گا۔ میں نے عرض کیا کہ ”غلطی کا ازالہ آپ کا اپنا فرض بنتا ہے”۔ مولانا محمود حسن گنگوہی پر فتویٰ لگایا گیا تو ایک عالم نے چھپ کر معافی مانگی۔ مولانا نے فرمایا کہ ”فتویٰ کھل کر لگایا تھا تو اس کی معافی چھپ کر نہیں بنتی بلکہ یہ شریعت کا تقاضہ ہے کہ کھل کر اس کی تشہیر بھی کرنی ہوگی”۔
پروفیسر احمد رفیق اختر صاحب نے یہاں پر بہت بڑی غلطی کا ارتکاب کیا ہے اور اس کا ازالہ بھی کھل کر کرنا ہوگا وگرنہ چھپ کر اس کی توبہ نہیں بنتی ہے۔ جہاں تک آیت222میں توبہ کا تعلق ہے تو یہ مردوں کیلئے عورت کو اذیت کی حالت میں تنگ کرنے کے حوالے سے وضاحت ہے۔ جب عورت اذیت کی حالت میں ہو تو اسکے شوہر کو اس کا خیال رکھنے کی تلقین ہے۔
اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ کو دیکھیں کہ جب مفسرین اور فقہاء نے عورت کی اذیت کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا تو آیت222البقرہ کے بعد آیت223سے232تک مسلسل اللہ نے عورت کو اذیت سے بچانے کیلئے احکام بیان کئے ہیں۔ لیکن عورت کی اذیت کو نظر انداز کرکے جب تفسیر کی گئی اور مسائل گھڑے گئے تو اسلام اس کی وجہ سے اجنبیت کا شکار ہوگیا۔ عورت صنف نازک ہے اور کمزور ہے اور اللہ نے اس کے حقوق کا تحفظ کیا ہے لیکن مردوں نے ان کے تمام حقوق کو غصب کرلیا ہے۔
جس دن مسلمان اپنی کمزور صنف نازک کے حقوق کو بحال کردیں گے تو ان پر مقتدر اور طاقتور حلقوں کی طرف سے ظلم بھی بند ہوجائے گا۔ ایک افغانی عورت امریکہ میں بظاہر بڑی بے شرمی کا ارتکاب کرتی ہے اور پشتون تحفظ موومنٹ کے شاعر گلامن وزیر کی تعریف بھی کرتی ہے اور کہتی ہے کہ میں اپنے شوہر کی دسترس میں رہتی ہوں اور عورتوں پر طعنہ زنی کا کوئی حق نہیں بنتا اسلئے کہ جب امریکہ نے افغانستان پر قبضہ کیا تو اس کے فوجیوں نے خواتین کو نہیں چھوڑا۔ تاریخ میں جتنے لوگ بھی دوسری اقوام پر قابض ہوئے ہیں تو خواتین کی عزتیں تار تار کردیتے ہیں۔ مغرب مسلمانوں کے بارے میں یہ تاثر رکھتا ہے کہ اگر اس کے قبضے میں ہم آگئے تو ہماری ماؤں، بہنوں، بیٹیوں اور بیگمات کو یہ لوگ اپنی لونڈیاں بنادیں گے۔ عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والے مغربی حکمرانوں نے اپنے دشمن یہودیوں کو بیت المقدس سونپ دیا ہے تو کیا وہ مسلمانوں کے مقدس مقامات کو اپنے قبلے سے زیادہ مقدس سمجھیں گے؟۔ پروفیسر احمد رفیق اختر نے انکشاف کیا کہ کوئی5برسوں میں ہی مغرب کے حکمران دنیا کے مسلمانوں سے مکہ کی مرکزیت چھین لیں گے۔ کیونکہ ان کے نزدیک جب تک یہ مرکز ختم نہیں ہوگا تو مسلمانوں سے چھٹکارا نہیں مل سکتا ہے۔ یہودیوں نے مصر سے مدینہ کیلئے ایک سڑک کا پروگرام بنایا ہے جس کے بعد وہ مدینہ کے بنو قریظہ ، بنو نظیر کے قبائل اور خیبر کے مقامات کو تلاش کرکے اپنا قبضہ جمالیں گے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بنیاد پر یہود و نصاریٰ اور عرب میں ایک نیا بھائی چارہ قائم ہوگا جس کو بنی اسحاق اور بنی اسماعیل کے درمیان رکھا جائے گا۔ باقی مسلمانوں کو حجاز مقدس میں قدم نہیں رکھنے دیا جائے گا۔
ایک طرف مسلمانوں کو وحشیوں کی طرح دہشت گرد بنادیا گیا اور دوسری طرف سیاستدانوں کے ساتھ جب تک بھلائی ہو تو ان کو آزادی کی فکر نہیں رہتی۔ جب اقتدار سے محروم ہوتے ہیں تو وہ آزادی کا طبلہ بجانے لگتے ہیں۔ اگر2018میں عمران خان کا ضمیر جاگتا اور محکمہ زراعت کو مسترد کردیتا تو آج یہ دن نہ دیکھنے پڑتے مگر اس وقت پروفیسر صاحب نے اس کا گٹار بجاکر سنا ہے کہ استقبال کیا تھا۔ اللہ ہم سب پر رحم کرے

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،الیکشن شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

سنی شیعہ دونوں فرقے قرآن و سنت، آئین پاکستان اور عورت کے حق ِخلع کی سنگین خلاف ورزی کے مرتکب ہیں عورت مارچ والے یہ آواز اٹھائیں

سنی شیعہ دونوں فرقے قرآن و سنت، آئین پاکستان اور عورت کے حق ِخلع کی سنگین خلاف ورزی کے مرتکب ہیں عورت مارچ والے یہ آواز اٹھائیں

مفتی طارق مسعود کا بیان آیا کہ ”جج کو کیا حق ہے کہ وہ ہماری بیوی کو طلاق دے یہ گدھاپن ہے” فقہ جعفریہ میں شروع ہی سے یہ ہے کہ عدالت کا عورت کوخلع دینا قبول نہیں ہے ۔علامہ شبیہ رضازیدی

اللہ نے قرآن میں خواتین کے حقوق بیان کردئیے ہیں۔ آیت19النساء میں خواتین کو خلع کا حق دیا۔ خلع میں شوہر کی دی ہوئی ان چیزوں کا عورت کو حقدار قرار دیا جن کو عورت اپنے ساتھ لے جاسکتی ہے مگر غیرمنقولہ چیزیں گھر، باغ ، دکان ، پلاٹ ،زمین وغیرہ سے عورت کو دستبردار ہونا پڑے گا۔ البتہ طلاق میں منقولہ اور غیرمنقولہ تمام دی ہوئی چیزوں کی مالک بھی عورت ہی رہے گی،اگرچہ عورت کو بہت سارے خزانے دئیے ہوں تو بھی۔جس کی زبردست وضاحت سورہ النساء آیت20اور21میں بھرپور طریقے سے اللہ تعالیٰ نے کردی ہے۔
جس دن قرآن کے مطابق عورت کو خلع کا حق مل جائے اور اس کے ساتھ اس کے مالی حقوق بھی مل جائیں تو پاکستان، ایران اور افغانستان میں جبری حکومتوں کا خاتمہ ہوجائے گا مگر جب تک قرآن کے ظاہروباطن پر اس کی روح کے مطابق عمل نہیں ہوتا ہے تو قائداعظم محمد علی جناح، امام خمینی اور ملامحمد عمربھی زندہ ہوجائیں تو جبری نظام حکومت سے عوام کو چھٹکارہ کبھی نہیں مل سکتا ہے۔ لندن کے اندرجمائما کے مال میں عمران خان کا حصہ تھا لیکن پاکستان میں عمران خان کے گھر اور جائیداد میں جمائما اور ریحام خان کا حصہ نہیں تھا؟۔یہ غیرفطری بات ہے۔
قرآن نے عورت کے مال میں شوہر کا حصہ نہیں رکھا ہے لیکن شوہر پر حق مہر کو فرض کیا ہے ۔ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے تو آدھا حق مہر اور ہاتھ لگانے کے بعدطلاق دے تو پورا حق مہر، گھراور تمام دی ہوئی منقولہ وغیرمنقولہ اشیاء بھی۔ اور خلع کی صورت میں پورا حق مہر اوردی ہوئی منقولہ اشیاء بھی۔
عرب اور پشتون قوم حق مہر کے نام پر لڑکیوں کو فروخت کردیتے ہیں اور درباری علماء ومفتیان نے نابالغ بچیوں کے نکاح کی بھی بہت خطرناک اجازت دی ہے جو انسان کی بچی کیا گدھی کیساتھ بھی یہ جائز نہیں لیکن اسلام کا ستیاناس کردیا گیا۔
ہندوستان اور پنجاب میں جہیز کے نام پر عورت کا مال بھی ہتھیا لیا جاتا ہے۔برصغیرپاک وہند ، افغانستان، ایران ، عجم و عرب میں عورت کو وہ حقوق حاصل نہیں ہیں جو قرآن نے عطاء کردئیے ہیںاسلئے عورت گھرمیں ہویا بازارمیںوہ ایک ایسی جنس ہے جس کی کہیں کوئی اوقات نہیں ۔مغربی نظام بھی عورت کو اس کے وہ حقوق نہیں دے سکا ہے جو اسلام نے ساڑھے14سو سال پہلے عورت کو دئیے تھے۔ عورت کو سب سے زیادہ مذہبی طبقات نے حقوق سے محروم کیا ہے اسلئے کہ مذہبی طبقے کی طرف سے قرآن میں دئیے ہوئے حقوق کو بوٹی بوٹی کردیا ہے اور اس کی سب سے بڑی مثال عورت سے خلع کا حق چھین لینا ہے۔ بیوی کا زبردستی سے مالک بن جانا ہے۔عورت کو لونڈی بنانا ہے۔ عورت کو اس کی مرضی کے بغیر جنسی تشدد کا قانونی حق مرد کو دینا ہے۔ عورت کو سب سے زیادہ حقوق اسلام نے دئیے تھے لیکن پدر شاہی نظام نے نہ صرف عورت کے حقوق غصب کر ڈالے ہیں بلکہ نکاح اور اسلام کے نام پر جاہلیت سے بدتر عورت کے حقوق چھین لئے ہیں۔ پدر شاہی اور درباری علماء کا اس میں برابر کا کردار ہے۔ اسلام اجنبیت کا شکار ہونے سے معاملات جاہلیت کی طرف پلٹ گئے ہیں۔
جب جنرل ایوب خان کے دور میں عائلی قوانین بن گئے تھے تو پاکستان میں عورت کو عائلی قوانین میں خلع کا حق دیا گیا ہے۔ مفتی محمود پر الزام تھا کہ اس نے اس وقت جنرل ایوب خان سے ایک لاکھ روپیہ لیکر اسمبلی کے اندر اور اسمبلی کے باہر عورت کو حق خلع دینے کے خلاف کوئی مزاحمت نہیں کی تھی۔ میرے والد علماء کے قدر دان تھے۔ مفتی محمود کو بھی ووٹ دیتے تھے۔ میرے ماموں خان قیوم خان مسلم لیگ شیر کیساتھ تھے۔ ہماری سیاست پسند اور ناپسند کی حد تک تھی۔ کوئی بھی سیاسی کارکن اور رہنما کی طرح سیاست سے دلچسپی نہیں رکھتا تھا۔سن 1970کے الیکشن میں مفتی محمود پر مفتی تقی عثمانی اس کے باپ، بھائیوں اور اساتذہ مفتی رشیداحمد لدھیانوی اور مولانا سلیم اللہ خان نے بھی کفر کا فتویٰ لگایا تھا اور بڑی یلغار کی زد میں تھے۔ جب جمعیت علماء اسلام ضلع ٹانک کے مولانا نور محمد المعروف سرکائی ملا نے میرے ماموں سے کہا تھا کہ مفتی محمود نے الیکشن کیلئے بس مانگا ہے تو میرے ماموں نے کہا تھا کہ ”آپ کو دیتا ہوں لیکن مفتی محمود کو بس نہیں دینا تھا اسلئے کہ اس نے ووٹ اسلام کے خلاف ایک لاکھ میں بیچ دیا تھا”۔ آج محسن جگنو سے مولانا فضل الرحمن کہتے ہیں کہ ”میرے پاس وہی اثاثے ہیں جو میرے باپ نے چھوڑے ہیں۔ گزارا غیبی امداد سے ہورہاہے”۔
مفتی محمود کی وفات کے بعد مولانا فضل الرحمن امیر زادے نہیں لگتے تھے مگر اب حالات بہت تبدیل ہوگئے ہیں۔ ہماری گزارش یہ ہے کہ مفتی محمود بہت اچھے انسان تھے اور مولانا فضل الرحمن بھی بہت اچھے ہیں۔ تحریک انصاف کے کارکن اس کی مخالفت اسلئے کرتے ہیں کہ2018کے الیکشن سے پہلے اور بعد میں عمران خان عسکری قیادت کے ہاتھ میں کھلاڑی سے وہ کھلونے اورکھلواڑ بن گئے تھے۔اب جب دونوں کو گلہ ہے کہ ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اور گالی گلوچ اور فتوؤں کی زدوں سے نکلنے کی ضرورت ہے تو ایک پیج پر آنے میں مسئلہ نہیں ہے۔
عائلی قوانین میں عورت کو خلع کا حق دیا گیا ہے لیکن مولوی شیعہ ہو یا سنی ، حنفی ہو یا اہلحدیث اس حق کو غیر اسلامی سمجھتا ہے لیکن تمام مذہبی طبقات کو یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ جاویداحمد غامدی ،مولانا وحیدالزمان اور مولانا ابوالاعلیٰ مودودی تک اس گمراہی کی زد میں آگئے ہیں۔ غلام احمد پرویز و دیگر جدت پسند مذہبی طبقات بھی اس گمراہی کی زد سے محفوظ نہیں ہیں۔ علامہ تمنا عمادی بہت بڑے حنفی عالم تھے جو پاکستان بننے کے بعد مشرقی پاکستان سے ریڈیو پر قرآن کا درس دیتے تھے۔ ان کی کتاب ”الطلاق مرتان” نہ صرف بہت مشہور ہے بلکہ سب کی ذہنی صلاحیتوں پر بھی بہت اثر انداز ہوئی ہے۔ ادریس اعوان نے اپنے نشر واشاعت کے معروف ادارے ”میزان” سے یہ ابھی شائع بھی کردی ہے۔ اس کتاب میں حنفی مسلک کے عین مطابق قواعد عربی اور اصول فقہ کی کتابوں سے یہ اخذ کیا ہے کہ ” حلالہ کی طلاق کا تعلق خلع سے ہے۔کیونکہ چھوڑنے کا فیصلہ بھی عورت کرتی ہے اور پھر پشیمانی میں سزا بھی اس کو بھگت لینے میں حرج نہیں ہے”۔ ہمارے استاذمولانا سراج الدین شیرانی نے دارالعلوم الاسلامیہ واٹر پمپ فیڈرل بی ایریا میں غالباً اس کتاب کی تعریف کی تھی یا کسی اور عالم نے تعریف کی تھی؟۔ یہ مجھے یاد نہیں رہاہے ۔ لیکن اس کتاب کو بہت بعد میں دیکھ سکاتھا اور جب دیکھا تھا تو اس سے پہلے قرآن وسنت سے استفادہ کیا تھا اسلئے اس کا اثر بھی ویسے قبول نہیں کیا ہے جیسے معلومات کے بغیر اس سے متاثر ہوسکتا تھا۔ حنفی اصول فقہ میں دو چیزیں بڑی اہم ہیں ۔ ایک قرآن کی بنیاد پر احادیث صحیحہ کا انکار۔ دوسری قرآن کے معانی کو لغت اور عقل کیساتھ جوڑنا۔ یہی ہدایت کی صراط مستقیم ہے لیکن علماء ومفتیان اس پر عمل سے محروم ہیں۔
حضرت مولانا بدیع الزمان جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں ایک سینئر استاذ ہی نہیں تھے بلکہ ولی کامل کا درجہ بھی رکھتے تھے۔ علم النحو، اصول فقہ اور قرآن کے متن وتفسیر کو سمجھنے کا رحجان انہی کے فیوضات اور برکات ہیں۔ ایک استاذ کا اپنے شاگرد کو بھی نصاب کے مقابلے میں حوصلہ افزائی کے قابل سمجھنا بہت بڑی بات ہے۔ مولانا بدیع الزمان، ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر، مفتی عبدالمنان ناصر، قاری مفتاح اللہ جامعہ بنوری ٹاؤن کے اساتذہ کرام اور جامعہ انوارالقرآن آدم ٹاؤن نیوکراچی کے اساتذہ کرام مولانا انیس الرحمن درخواستی شہید مولانا شبیراحمد، جامعہ یوسفیہ شاہو وام ہنگو کے مولانا محمد امین شہید،توحیدآباد صادق آباد کے مولانا نصر اللہ خان ، مدرسہ عربیہ فیوچر کالونی کراچی کے مفتی کفایت اللہ ومولانا خطیب عبدالرحمان ایک ایک استاذ کی حوصلہ افزائی میرے لئے باعث افتخار ہے۔
علماء دیوبند میں دو طبقے ہیں۔ ایک سپوت اور ایک کپوت۔ اس طرح بریلوی مکتب، اہلحدیث اور اہل تشیع میں بھی دونوں طبقات سپوت اور کپوت موجود ہیں۔ نصاب میں غلطیوں کے حوالہ سے مولانا فضل الرحمن کے استاذ مولانا سمیع الحق شہید کا بیان بھی ہمارے اخبار ماہنامہ ضرب حق کراچی میں شہہ سرخی کیساتھ چھپ چکا ہے۔ علماء دیوبند کے سپوتوں کے امام مولانا سرفراز خان صفدرنے پیشکش کی تھی کہ ”ہمارے مدرسہ نصرت العلوم گوجرانوالہ کو اپنا مرکز بناؤ” اورامیر مرکزیہ مجلس تحفظ ختم نبوت مولانا خان محمد نے فرمایا تھا کہ ” اگر مولانا فضل الرحمن کو اپنے مشن میں شامل کرلو تو بہت جلد کامیابی مل سکتی ہے”۔ میں نے جواب میں عرض کیا تھا کہ ”وہ معروف ہیں اور میں مجہول ۔ اسلئے وہ میری تائید کریں تو ہمارا مشن ان کی طرف منسوب ہوگا اور اس کا میرے مشن کو نقصان پہنچے گا” ۔جو ان کو بہت اچھا لگا اور میری عزیمت کو انہوں نے بہت داد بھی دی اور دعا بھی دی تھی۔ مولانا سرفراز صفدر نے فرمایا تھا کہ ”تیری پیشانی سے لگتا ہے کہ اپنے مشن میں کامیاب ہوگے”۔ پروفیسر شاہ فریدالحق جنرل سیکرٹری جمعیت علماء پاکستان اورپروفیسر غفور احمد جنرل سیکرٹری جماعت اسلامی اور مولانا عبدالرحمن سلفی امیر غرباء اہل حدیث پاکستان اور علامہ طالب جوہری اہل تشیع کے علاوہ سبھی فرقوں اور جماعتوں نے ہماری تائیدات کردی تھیں۔ جمعیت علماء اسلام (ف) کے مرکزی امیر مولانا عبدالکریم بیر شریف، مولانا محمدمراد سکھر ، مولانا عبداللہ درخواستی اور پاکستان بھر کے تمام مکاتب فکر کے اکابرین کی تائیدات ہمیںملی ہیں۔
جب عمران خان وزیراعظم تھے تو بھی ہماری کوشش تھی اور اس سے پہلے نوازشریف کی حکومت تھی تو بھی ہماری کوشش تھی اور مسلم لیگ ن کے مشاہداللہ خان کا حلالہ کی لعنت پرزبردست بیان بھی ہمیں ملا تھا جو ہم نے چھاپ بھی دیا تھا۔
جنگ گروپ کے ہفت روزہ اخبار جہاں کراچی میں قرآن وسنت کی روشنی میں حضرت مفتی حسام اللہ شریفی شیخ الہند کے شاگرد مولانا رسول خان ہزاروی کے شاگرد ہیں۔مفتی تقی عثمانی کے باپ مفتی محمد شفیع اور مفتی محمود و غیرہ بھی مولانا غلام رسول خان ہزاروی کے شاگرد تھے۔ مولانا مودودی کے استاذ مولانا شریف اللہ بھی مفتی حسام اللہ شریفی کے استاذ تھے اور دونوں اکٹھے مولانا شریف اللہ سے ملنے بھی ایک دفعہ گئے تھے۔ میں نے اپنی کتاب ” تین طلاق کی درست تعبیر” میں بھی عورت کے حق خلع کو واضح کیا ہے جس کی تائید مفتی حسام اللہ شریفی اور شیعہ مفسر قرآن مولانا محمد حسن رضوی نے بھی کی ہے۔
جب8عورت مارچ کو اسلام باد، کراچی، لاہور وغیرہ میں طاہر ہ عبداللہ، فرزانہ باری، ہدی بھرگڑی اور دیگر منتظمین نکلیں تو ”بشری بی بی ” کے کیس کو قرآن وسنت کی روشنی میں اٹھائیں۔ جس سے نہ صرف بشری بی بی بلکہ عدالتوں میں خلع کے نام پر رلنے کے بعد بھی مولوی کی طرف سے طلاق کا فتویٰ نہ ملنے کی وجہ سے خواتین کو زبردست چھٹکارا مل جائے گا۔ عورت کا مسئلہ ایک دن کا نہیں بلکہ زندگی بھر کے مسائل ہیں۔ قرآن و سنت کو مذہبی طبقات نے روند ڈالا ہے اسلئے ان کو قیامت تک پذیرائی نہیں مل سکتی ہے۔اب مذہبی طبقہ بھی عورت کیساتھ کھڑا ہوگا۔
اسلام نے مرد کو طلاق اور عورت کو خلع کا حق دیا ہے ۔ جب مولوی عورت کے اس حق کو نہیں مانتا ہے تو اس کی گمراہی انسانی فطرت سے نکل کر جانور سے بھی بدتر حالت پر پہنچ جاتی ہے۔
مثلاً ایک شوہر اپنی بیوی سے کہتا ہے کہ تجھے تین طلاق!۔ پھر اس کی بیوی کو فتویٰ دیا جاتا ہے کہ اب شوہر کیلئے تم حرام ہو۔ لیکن اگر شوہر انکار کرتا ہے کہ اس نے طلاق نہیں دی ہے تو پھر عورت کو اپنی جان چھڑانے کیلئے دو گواہ لانے پڑیں گے۔ اگر اس کے پاس دو گواہ نہیں تھے اور شوہر نے جھوٹی قسم کھالی توپھر عورت خلع لے ، خواہ اس کی کتنی قیمت ادا کرنا پڑے۔ اگر شوہر خلع نہیں دیتا ہے تو پھر عورت حرام کاری پر مجبور ہے۔ عورت کو چاہیے کہ شوہر جب اس سے اپنی خواہش پوری کرے تو لذت نہیں اٹھائے بلکہ حرام سمجھ کر اس کے سامنے لیٹی رہے۔
یہ مسائل فقہ کی کتابوں میں رائج ہیں اور اس پر فتوے بھی دئیے جاتے ہیں۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے ”حیلہ ناجزہ” میں بھی اس کو لکھ دیا ہے۔ بریلوی بھی اس پر فتویٰ دیتے ہیں۔
جب عورت کو خلع کا حق حاصل نہ ہو تو پھر اس کے نتائج بھی بڑے سنگین نکلتے ہیں۔ میری کتاب ” عورت کے حقوق” کے مسودے کی مفتی زرولی خان نے تائید کی تھی تو میں ملاقات بھی کرلی تھی اور ان سے ملاقات کے بعد کتاب میں تھوڑا اضافہ بھی کیا تھا۔ جس میں اسلام کی اجنبیت کو مزید واضح کیا تھا اور کتاب کی اشاعت کے بعد کتاب بھی ان کو بھیج دی تھی لیکن ان سے دوبارہ طے ہونے کے باوجود ملاقات نہیں ہوسکی اسلئے کہ وہ اچانک دار فانی سے کوچ کرگئے۔ جامعہ بنوریہ عالمیہ سائٹ کراچی کے مہتمم مفتی محمد نعیم سے بھی ملاقاتیں ہوئی تھیں اوران کی تائیدبھی اخبارمیں شائع کی تھی۔ جب مفتی تقی عثمانی نے ان پر دباؤڈال دیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ طلاق سے رجوع کیلئے اپنے پاس آنے والے افراد کواہلحدیث کے پاس بھیج دیتے ہیں۔ خلع و طلاق کے مسائل بہت بنیادی نوعیت کے ہیں۔
علامہ شبیراحمد عثمانی کے بڑے بھائی مفتی عزیز الرحمن دیوبند کے رئیس دارالافتاء تھے اور ان کے فرزند مفتی عتیق الرحمن عثمانی نے ”ندوہ دارالمصفین ” کی بنیاد1938میں رکھی تھی۔ پھر انہوں نے1964میں جمعیت علماء ہند سے استعفیٰ دے دیا تھا اور آل انڈیامسلم مجلس مشاورت کی بنیاد رکھی۔ جس میں سبھی مسلمان فرقوں کے اہم نمائندے شامل تھے۔ ”تین طلاق ” کے مسئلے پر1973میں احمد آباد میں سیمینار منقعد کیا تھا جس کی صدارت مفتی عتیق الرحمن عثمانی نے کی تھی۔ اس سیمینار میں دیوبندی ،جماعت اسلامی اور بریلوی علماء کے نمائندوں نے اپنے مقالے پیش کئے تھے۔ جو پاکستان سے بھی کتاب میں شائع کیا گیا ہے اور اس میں مولانا پیر کرم شاہ الازہری کی بھی کتاب ” دعوت فکر” ساتھ شائع کی گئی ہے۔
شیخ الہند کے اصل جانشین ہندوستان میں مفتی عتیق الرحمن عثمانی تھے اور پاکستان میں مفتی حسام اللہ شریفی ہیں۔ مفتی تقی عثمانی نے بینکوں کے سود کو اسلامی قرار دیا جس کی مفتی محمود نے مخالفت کی تھی۔ پھر مفتی تقی عثمانی نے سود ی بینکاری کو جواز بخش دیا جس کی مخالفت مفتی زرولی خان ، شیخ الحدیث مفتی حبیب اللہ شیخ ، مولانا سلیم اللہ خان ، ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر اور تحفظ ختم نبوت نمائش چورنگی کراچی کے دارالافتاء کے علاوہ پاکستان بھر سے سارے دیوبندی مدارس نے کی تھی۔ جو علماء اپنے علماء حق اکابر ین کے مشن سے روگردانی کرچکے ہیں وہ سپوت نہیں بلکہ کپوت بن چکے ہیں۔ اگر مولانا فضل الرحمن اور مفتی تقی عثمانی کے کاندھوں سے دیوبند کی گدھا گاڑی جوت دی جائے تو اس کو شیخ الہند مولانا محمود الحسن کی طرف منسوب کرنا علماء دیوبند کی بہت بڑی توہین ہے۔ پہلے یہ توبہ کریں پھر علماء حق ہوسکتے ہیں لیکن جب تک گدھا کنویں سے نہیں نکالا جائے تو کنواں پاک نہیں ہوسکتا ہے۔ پہلے سودی نظام کو اسلامی قرار دینے سے ان کو تائب ہونا پڑے گا ۔ پھر عوام میں ان کی توبہ قبول ہوسکتی ہے اور انہوں اب وفاق المدارس کو بھی اپنے پیچھے لگادیا ہے۔
جب مولانا فضل الرحمن مفتی محمود کاسپوت تھاتو سودی زکوٰة کو شراب کی بوتل پرآ ب زم زم کا لیبل قرار دیتا تھا۔مجھ سے کہا تھا کہ ” کراچی کے اکابر علماء ومفتیان نے جو فتوے دئیے ہیں ان کو شائع کردیں۔ چھرا تمہارے ہاتھ میں ہے اگریہ جانور کو ذبح کردیا توان کی ٹانگیں ہم پکڑ لیں گے”۔چونکہ دارالعلوم کراچی کے علماء ومفتیان نے اس پر دستخط اسلئے نہیں کئے کہ اس میں شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی کتاب ”اخبارالاخیار” کا حوالہ بھی تھا جس کا ترجمہ مولانا سبحان محمود نے کیا تھا، جس میں لکھا ہے کہ ”جب شیخ عبدالقادر جیلانی تقریر کرتے تھے تو تمام انبیاء کرام اور اولیاء عظام موجود ہوتے تھے اور نبی ۖ بھی جلوہ افروز ہوتے تھے”۔ پھر اس کتاب کے مترجم سے اپنی جان چھڑانے کیلئے مولانا سبحان محمود نے اپنا نام بدل کرسحبان محمود کردیا تھا۔ مفتی رفیع عثمانی نے اپنی کتاب ” علامات قیامت اور نزول مسیح ” میں حدیث نقل کی ہے کہ دجال سے بدتر حکمران اور لیڈر ہوں گے۔ انہوں نے سیاسی لیڈر مراد لیا ہے لیکن اس سے مذہبی لیڈر مراد ہیں۔ جو ایک دوسرے کفر کے فتوے بھی مفادپرستی کی بنیاد پر لگاتے ہیں اور حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرنے کے بھی بدترین مرتکب ہوتے ہیں۔
عورت کے حقوق کیلئے پنجاب حکومت مریم نواز کی قیادت یہ بنیادی نکات اٹھائے تو پاکستان میں انقلاب آسکتا ہے۔
نمبر1:عورت کو نہ صرف خلع کا حق حاصل ہے بلکہ عدالت میں جانے کی ضرورت بھی نہیںہے۔ شوہر اسکا خود ساختہ مالک نہیں ہے۔عورت جب چاہے شوہر کو چھوڑنے کا حق رکھتی ہے اور خلع کی صورت میں پورا حق مہر اور شوہر کی طرف سے دی گئی تمام وہ چیزیں بھی واپس نہیں کرے گی جو لے جائی جاتی ہیں ۔ البتہ غیرمنقولہ چیزیں گھر، باغ، دکان اور فیکٹری وغیرہ واپس کرنا ہوں گی اسلئے کہ خلع میں شوہر کا کوئی قصور نہیں ہوتا ہے۔
سورہ النساء کی آیت19میں خلع کا حکم واضح ہے اور سورہ النساء کی آیت20،21میں طلاق کے احکام ہیں۔ طلاق کی صورت میں دی ہوئی تمام چیزوں منقولہ وغیرمنقولہ گھر، باغ، جائیداد اور دئیے ہوئے خزانوں کی مالک بھی عورت ہوگی۔ سورہ بقرہ کی آیت 229میں خلع نہیں طلاق کا ذکر ہے اور اس سے خلع مراد نہیں ہوسکتا۔ یہ وہ صورت ہے کہ جس میں عدت کے اندر تین مرتبہ الگ الگ طلاق ہوچکی ہو۔ دونوں کو خوف ہو اگر وہ دی ہوئی چیز واپس نہ کی گئی تو دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے اور فیصلہ کرنیوالوں کو بھی خوف ہو کہ اگر دی ہوئی کوئی خاص چیز واپس نہیں کی گئی تو دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو پھر اس دی ہوئی چیز کو عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں دونوں پر کوئی حرج نہیں ہے۔ جب یہ طے ہوگیا تو یہ وہی صورت ہے جس میں میاں بیوی دونوں صلح نہیں چاہتے تو ایسی صورت میں شوہر کیلئے وہ حلال نہیں رہتی جب تک کہ وہ کسی اور شوہر سے نکاح نہ کرلے۔ اس کا مقصد صرف عورت کو اپنے سابقہ شوہر کی دسترس سے باہر نکالنا ہے اور بس۔
نمبر2: خلع کی صورت میں عدت ایک حیض یا ایک ماہ ہے اور اس میں شوہر کو رجوع کا اختیار نہیں ہے۔طلاق کی صورت میں بھی عورت کی رضامندی کے بغیر شوہر کو عدت میں رجوع کا اختیار نہیں ہے۔ بشریٰ بی بی نے خاور مانیکا سے خلع لیا تھا اسلئے ایک مہینے میں عدت پوری ہوگئی تھی۔ اس کے بعد اس کو رجوع کا حق نہیں تھا اسلئے عدالت کا خاور مانیکا کے کہنے پر اس کے حق کو مجروح کرنے کی بات پر سزا دینا غلط ہے۔ طلاق میں بھی شوہر کو عورت کی رضامندی کے بغیر رجوع کا حق نہیں ہوتا ہے اور اس غلط مسئلے کی وجہ سے قرآنی آیات کے ترجمہ وتفسیر میں بڑی سنگین غلطیوں کے علاوہ فقہ میں ناقابل حل مسائل بنائے گئے ہیں۔ بہشتی زیور سے لیکر درس نظامی میں پڑھائی جانیوالی کتابوں مسائل کو دیکھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے کہ اس گھمبیر مسئلے نے مذہبی طبقات کی فطرت کیسے بگاڑ دی ہے؟ ۔نبی ۖ نے فرمایا کہ ” انسان اسلام کی فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے والدین اس کو یہود ونصاریٰ بنادیتے ہیں”۔ آج یہ حدیث مسلمانوں پر فٹ ہوتی ہے کہ جو لوگ مذہبی طبقات سے دور ہوتے ہیں تو ان کی فطرت سلامت ہوتی ہے اور جن کو اس مذہبی طبقے نے اپنے ماحول میں جھونک دیا ہوتا ہے جس نے یہود ونصاریٰ کی طرح اپنی انسانی فطرت کو بگاڑ دیا ہوتا ہے تو وہ حق کو قبول کرنے سے بگڑی فطرت کی وجہ سے انکار کرتا ہے۔
آئندہ شمارہ انشاء اللہ8عورت مارچ پرہوگا اسلئے کہ نعرہ بازی سے کچھ حاصل نہیں ہوتا ٹھوس حقائق کی ضرورت ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،الیکشن شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

رسول اللہ ۖ ، صحابہ ، امام ابوحنیفہ ، شاہ ولی اللہ اور دار العلوم دیوبند کے سپوت کپوت تک کا سلسلہ

رسول اللہ ۖ ، صحابہ ، امام ابوحنیفہ ، شاہ ولی اللہ اور دار العلوم دیوبند کے سپوت کپوت تک کا سلسلہ

خلفاء راشدین سپوت اور ذوالخویصرہ کپوت ، عبد اللہ ابن مبارک سپوت، ابویوسف کپوت، جامعہ بنوری ٹاؤن سپوت اور دار العلوم کراچی و جامعة الرشیدکپوت

رسول اللہ ۖ پر قرآن نازل ہوا ، خلفاء راشدین حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان ، حضرت علی ، حضرت حسن، حضرت امیر معاویہ جیسے عظیم سپوتوں کے بعد سلسلہ یزید و مروان بدترین کپوتوں تک پہنچ گیا۔ ابو سفیان کے دو بیٹے تھے۔ ایک یزید بن ابی سفیان اور دوسرا امیر معاویہ بن ابی سفیان۔ یزید بن ابی سفیان تو امیر معاویہ کے مقابلے میں بھی زیادہ اچھے صحابی تھے۔ بہرحال حضرت حسن نے امیر معاویہ کے حق میں اپنی خلافت سے دستبرداری کا فیصلہ کیا تو امیر معاویہ نے20سال تک بہت کامیابی کے ساتھ امارت کا نظام چلایا تھا۔ یزید سے نااہلی کا سلسلہ شروع ہوا تو یزید کے بیٹے معاویہ بن یزید بھی عظیم سپوت تھے۔ جس نے تخت پر بیٹھنے سے انکار کردیا۔ پھر مروان بن حکم سے کپوتوں کا سلسلہ بنو اُمیہ کے آخری خلیفہ تک جاری رہا لیکن ان میں بھی حضرت عمر بن عبد العزیز جیسے عظیم سپوت نے جنم لیا تھا۔ پھر بنو عباس میں سپوتوں اور کپوتوں نے تخت پرقبضہ کیا اور آخر چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان نے بنو عباس کی امارت ختم کردی۔ پھر سلطنت عثمانیہ سے نئی بادشاہت کا سلسلہ شروع ہوا جو1924تک جاری رہا۔ برصغیر پاک و ہند سے مولانا محمد علی جوہر وغیرہ اور ہندو سکھ رہنماؤں نے خلافت کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہوسکے۔ پھر تقسیم ہند کے بعد بر صغیر پاک و ہند میں پاکستان اور ہندوستان کے حکمرانوں اور سیاستدانوں میں بھی سپوت اورکپوت کا یہ سلسلہ جاری رہا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح و قائد ملت لیاقت علی خان اورپہلے دو انگریز آرمی چیف سے اب تک عمران خان و شہباز شریف اور جنرل قمر جاوید باجوہ وحافظ سید عاصم منیر تک سپوتوں اور کپوتوں کا سلسلہ قائم ہے۔ حکمرانوں کے علاوہ مشائخ و علماء حق اور علماء سوء کا بھی سلسلہ حضرت علی و قاضی شریح سے لیکر حضرت امام ابو حنیفہ ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل سے موجودہ دور تک کے سپوتوں اور کپوتوںتک جاری ہے۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی اکابر دیوبند کے شیخ المشائخ تھے۔ مولانا قاسم نانوتوی ، شیخ الہند محمود الحسن اور مولانا محمد الیاس بانی تبلیغی جماعت ، مولانا یوسف ، مولانا شیخ زکریااور حاجی محمد عثمان تک بھی سلسلہ حق تھا۔ مولانا انور شاہ کشمیری ، مولانا یوسف بنوریاور مولانا بدیع الزمان جامعہ بنوری ٹاؤن و دار العلوم کراچی تک کا سلسلہ ۔ مولانا عبید اللہ سندھی، مولانا احمد علی لاہوری، سید عطاء اللہ شاہ بخاری ، مفتی محمود ، مولانا غلام غوث ہزاروی ،مولانا سراج احمد دین پوری، مولانا عبد اللہ درخواستی ، مولانا عبد الکریم بیر شریف، مولانا فضل الرحمن اور مولانا محمد خان شیرانی تک سپوت و کپوت کا سلسلہ ہر میدان میں جاری ہے۔1970میں جب مشرقی و مغربی پاکستان اکھٹے تھے تو علماء حق جمعیت علماء اسلام پر ایک کفر کا فتویٰ لگاتھا جس میں سرغنے کا کردار مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع ، مولانا رشید احمد لدھیانوی، مولانا احتشام الحق تھانوی وغیرہ نے ادا کیا تھا۔ لیکن دوسری طرف حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی وغیرہ نے علماء حق کے خلاف اس سازشی فتوے کا کردار ادا نہیں کیا تھا۔
پھر1977میں جمعیت علماء اسلام کے مولانا مفتی محمود نے ذو الفقار علی بھٹو کے خلاف جماعت اسلامی و قوم پرستوں کا ساتھ دیا تھا جبکہ مولانا غلام غوث ہزاروی نے سازش کو بھانپ کر ذوالفقار علی بھٹو کا ساتھ دیا تھا۔ پیپلز پارٹی کے معروف رہنما مولا بخش چانڈیو لکھتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف بلوچ رہنماؤں نے جنرل ضیاء الحق کا ساتھ نہیں دیا لیکن ولی خان و دیگر پشتون رہنماؤں نے بھٹو کے خلاف جنرل ضیاء کا ساتھ دیا تھا۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب مفتی محمود نے نصرت بھٹو کے ساتھMRDکے اتحاد پر جنرل ضیاء الحق کے خلاف جمہوریت کی بحالی کیلئے تحریک پر اتحاد کیا لیکن دوسری طرف جماعت اسلامی اور دار العلوم کراچی کے مفتی تقی عثمانی وغیرہ نے جنرل ضیاء الحق کا ساتھ دینا شروع کیا۔ رسول اللہ ۖ کے بعد حضرت ابوبکر نے جب زبردستی سے زکوٰة لینے کا فیصلہ کیا تو حضرت عمر اس پر متفق نہیں تھے۔ مگر مجبوری میں ایک خلیفہ وقت کا ساتھ دیا تھا۔ پھر حضرت عمر نے وفات سے پہلے اس بات کی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ کاش ہم رسول اللہ ۖ سے تین چیزوں کے بارے میں پوچھ لیتے۔ (1):زکوٰة نہ دینے والوں کیخلاف قتال کا ۔(2):نبی ۖ کے بعد جانشین خلفاء کے نام۔ (3):کلالہ کی میراث کے بارے میں۔
اہل سنت کے چاروں امام امام مالک، امام ابو حنیفہ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل نے شریعت کا یہ حکم واضح کیا تھا کہ ”مانعین زکوٰة کیخلاف قتال کرنا جائز نہیں ہے”۔ حضرت عمر و حضرت عثمان کے دور میں فتوحات کے دروازے کھل چکے تھے اسلئے مانعین زکوٰة کیخلاف قتال کرنے اور نہ کرنے پر بحث کی کوئی ضرورت نہیں پڑی تھی۔ اہل سنت کے چاروں اماموں نے حضرت ابوبکر صدیق کی خلافت پر مکمل اعتماد کے باوجود بھی اپنے اختلاف رائے سے اسلام کی حفاظت کا سامان کیا تھا۔
رسول اللہ ۖ نے فرمایا تھا کہ بہترین دور میرا ہے، پھر ان لوگوں کا ہے جو میرے دور سے ملے ہوئے ہیں۔ پھر ان لوگوں کا ہے جو میرے بعد والوں سے ملے ہوئے ہیں۔ اس سے یہ عقیدہ بن گیا کہ صحابہ کرام اُمت مسلمہ کے افضل ترین لوگ ہیں۔ پھر تابعین اور پھر تبع تابعین تک یہ سلسلہ پہنچتا ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید نے اپنی کتاب ”بدعت کی حقیقت” میں لکھا ہے کہ پہلی صدی ہجری تو صحابہ کرام کی ہے، دوسری صدی ہجری تابعین کی ہے اور تیسری صدی ہجری تبع تابعین کی ہے۔ ان پہلے تینوں صد ہجری میں ”تقلید کی بدعت” ایجاد نہیں ہوئی تھی۔ تقلید چوتھی صدی ہجری کی بدعت ہے۔ لہٰذا چاروں مسالک کی تقلید بدعت ہے۔
علامہ ابن تیمیہ و علامہ ابن قیم نے بھی بہت پہلے تقلید سے انتہائی نفرت کا اظہار کرتے ہوئے چاروں فقہی مسالک کو چار الگ الگ فرقے قرار دیا تھا۔ شاہ اسماعیل شہید نے بھی علامہ ابن تیمیہ سے متاثر ہوکر مسالک کی تقلید کو بدعت قرار دیا تھا۔ حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری نے شاہ اسماعیل شہید کی کتاب ”بدعت کی حقیقت” کے اردو ترجمہ پر اپنی تقریظ میں زبردست حمایت بھی کی ہے اور ساتھ ساتھ شاہ اسماعیل شہید کی دوسری کتاب ”منصب امامت” کی بھی تائید فرمائی ہے۔
سعودی عرب کے موجودہ حکمرانوں کا تعلق علامہ ابن تیمیہ کے مسلک سے ہے۔ ان کے اقتدار میں آنے سے پہلے خانہ کعبہ میں چاروں مسالک کے الگ الگ مصلے تھے جو تقلید ہی کی وجہ سے اپنی الگ الگ جماعت کراتے تھے۔ علماء دیوبند کے اکابر نے شاہ اسماعیل شہید کی حمایت کی تو اس وقت حرمین شریفین میں شریف مکہ کی حکومت تھی۔ اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان فاضل بریلوی نے علماء دیوبند پر فتویٰ لگایا کہ یہ لوگ تقلید کو بدعت سمجھتے ہیں اور علامہ ابن تیمیہ کے ماننے والے ہیں تو اس وقت کے حرمین شریفین والوں نے مولانا احمد رضا خان بریلوی کے فتوے پر دستخط کردئیے۔ دیوبندی اکابر نے اپنی صفائی کیلئے ”المہند علی المفند” کتاب لکھی اور اس میں واضح کیا کہ ہم چاروں مسالک کو برحق مانتے ہیں اور خود حنفی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔ تصوف کے چاروں سلسلوں کو برحق مانتے ہیں اور خود مشرب چشتی سے تعلق رکھتے ہیں اور علامہ ابن تیمیہ کو بھی بہت برا بھلا کہہ کر برأت کا اعلان کیا۔
جب رسول اللہ ۖ نے مکہ سے مدینہ ہجرت فرمائی تھی تو قرآن نے فتح مکہ سے پہلے اور فتح مکہ کے بعد والے صحابہ کے اندر واضح فرق رکھا ہے۔ بدری اور غیربدری صحابہ کے اندر بھی واضح فرق تھا۔ جب حضرت عمر کے دور میں فتوحات کے دروازے کھل گئے تو حضرت عمرنے بدری صحابہ کے لئے الگ وظائف مقرر کئے اور غیر بدریوں کیلئے الگ۔ حضرت حسن اور حضرت حسین بدری صحابہ نہیں تھے لیکن اہل بیت ہونے کی وجہ سے حضرت عمر نے ان دونوں کیلئے بھی بدری صحابہ کے درجے پر وظائف رکھے تھے۔ حضرت عبد اللہ ابن عمر نے جب عرض کیا کہ مجھے بھی حسنین کی طرح بدری صحابہ کے برابر وظیفہ دیا جائے تو حضرت عمر نے فرمایا کہ ”وہ نبی ۖ کے نواسے ہیں آپ نہیں ہو، ان کی برابری کاسوچو بھی مت”۔
مولانا عبید اللہ سندھی نے لکھا ہے کہ حضرت شاہ ولی اللہ نے پہلا دور نبی ۖ کا ، دوسرا حضرت ابوبکر و عمر کا اور تیسرا دور حضرت عثمان کا بہترین قرار دیا ہے۔ حضرت علی کے دور کو فتنے میں شمار کیا ہے جو خیر القرون میں داخل نہیں ہے۔ لیکن حضرت علی کے دور کو قیامت تک کیلئے فتنوں میں مثالی دور قرار دیا ہے اور میرے نزدیک نبی ۖ اور ابوبکر کا دور ایک تھا اس لئے کہ حضرت ابوبکر کے دور میں معمولی سی تبدیلی بھی نہیں آئی تھی۔ پھر حضرت عمر کا دور ہے جس میں مال و وظائف کے اعتبار سے طبقاتی تقسیم کا آغاز ہوگیا تھا۔ تیسرا دور حضرت عثمان کا دور ہے جس میں خاندانی اور طبقاتی کشمکش کی بنیادیں مضبوط ہوگئیں۔
جب حضرت عثمان کو شہید کیا گیا تو ذوالخویصرہ نے اپنے قبیلے کے10ہزار افراد کے ساتھ دعویٰ کردیا کہ حضرت عثمان کے قاتل ہم ہیں۔ حضرت عثمان کے قاتلین دو حصوں میں بٹ گئے تھے۔ ایک طرف وہ حضرت علی کے ساتھ تھے اور دوسری طرف وہ حضرت علی کے مخالفین کے ساتھ تھے۔ حضرت علی کی بیعت کرنے اور نہ کرنے والے بھی دو حصوں میں تقسیم ہوگئے تھے۔ حضرت امیر معاویہ نے قاتلین عثمان سے بدلہ لینے کا جو مطالبہ حضرت علی سے کیا تھا اس پر عمل کرنا بہت مشکل تھا۔جس کی وجہ سے اہل حق کے دو گروہوں میں قتل و غارت ہوئی۔ ان میں حق پر کون تھا؟۔ یہ حضرت عمار کی شہادت سے نبی ۖ نے بتادیا تھا کہ عمار کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا جس کو عمارجنت کی طرف بلائے گا اور وہ عمار کو جہنم کی طرف بلائیں گے۔
حضرت عثمان کی شہادت سے پہلے حضرت حسن و حسین کی طرف سے حفاظت ہورہی تھی اور محمد بن ابی بکر نے حضرت عثمان کی داڑھی میں سب سے پہلے ہاتھ ڈالا تھا۔ محمد بن ابی بکر بھی حضرت علی کے پالے ہوئے تربیت یافتہ بیٹے تھے۔ جس کی وجہ سے بعض لوگوں کو شک تھا کہ حضرت عثمان کی شہادت میں حضرت علی کا بھی ہاتھ ہے۔ یہاں سے اُمت کی جو تفریق شروع ہوئی تھی اس کا سلسلہ آج تک جوں کا توں موجود ہے۔
حضرت علی کے بعد امام حسن کی خلافت قائم ہوگئی تو حسن نے امیر معاویہ کے حق میں دستبردار ہوکر مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں میں صلح کرائی۔ لیکن یہ پھر یزید کی نامزدگی کے بعد واقعہ کربلا سے معاملہ شروع ہوا تو یزید کی سرکردگی میں عبد اللہ بن زبیر کے خلاف مکہ میں کاروائی ناکام ہوئی۔ یزید نے اہل مدینہ کو کچل کر اہل مکہ کو بھی کچلنا چاہا تھا۔ یزید کے مرنے کے بعد یزید کے بیٹے معاویہ نے تخت نشین ہونے سے دستبرداری اختیار کی تو مروان بن حکم جو بنو اُمیہ کا دوسرا سلسلہ تھا وہ اقتدار میں آگیا۔ مروان نے پھر حضرت عبد اللہ بن زبیر کی خلافت کو بھی مکہ مکرمہ میں کچل دیا تھا۔ مروان کا سلسلہ بنو اُمیہ کے آخری حکمران تک جاری رہا جن میں حضرت عمر بن عبد العزیز جیسے عظیم سپوت بھی شامل تھے۔ بنو اُمیہ کے شروع دور میں مدینہ کے7مشہور فقہاء نے مسند سنبھالی جن میں حضرت ابوبکر کے پوتے قاسم بن محمد بن ابی بکر اور نواسے عروہ بن زبیر، سعید بن المسیب اور سعید بن جبیر وغیرہ شامل تھے۔ حجاج بن یوسف نے سعید بن جبیر کو بھی بہت بے دردی کے ساتھ شہید کیا تھا۔
امام ابو حنیفہ نے بنو اُمیہ کے آخری اور بنو عباس کے شروع دور میں اپنی خدمات انجام دیں۔ حضرت عمر بن عبد العزیز نے100سال بعد احادیث کی کتابیں مرتب کرنے کی اجازت دی تھی۔ جب ضعیف و من گھڑت اور صحیح احادیث کا ایک سلسلہ مرتب ہونا شروع ہوا تو امام ابو حنیفہ نے قرآن کے مقابلے میں ان احادیث کو بھی مسترد کرنے کی بنیاد رکھ دی جن کی سند بظاہر صحیح لیکن خبر واحد یعنی کسی ایک شخص کے توسل سے نقل تھیں۔
امام ابو حنیفہ ، امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کا تعلق دوسری صدی ہجری سے تھا۔ امام مالک اہل مدینہ تھے۔ امام ابو حنیفہ کا تعلق فارس سے تھا۔ امام شافعی نے امام مالک اور امام ابو حنیفہ کے شاگرد امام محمد سے فقہ کی تعلیم حاصل کی تھی اور امام احمد بن حنبل امام شافعی کے شاگرد رشید تھے۔ ان ائمہ نے اپنے اپنے دور کے حکمرانوں سے سخت سے سخت سزائیں کھائی ہیں۔ جن کو تاریخ میں سنہری حروف سے یاد کیا جاتا ہے۔
امام ابو حنیفہ کے ایک شاگرد عبد اللہ ابن مبارک تھے جس کو محدثین اور صوفیاء میں بھی بہت بلند مقام حاصل تھا۔ عبد اللہ ابن مبارک اپنے اُستاذ امام ابو حنیفہ کے عظیم سپوت تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ امام ابو حنیفہ کے شاگرد امام ابو یوسف کو قاضی القضاة (چیف جسٹس) کا منصب اسلئے مل گیا کہ وہ درباری تھا اور اس نے یہ گھناؤنا کام کیا تھا کہ بادشاہ کا دل جب اپنے باپ کی لونڈی پر آیا تو بادشاہ نے اپنے باپ کی اس لونڈی کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے کیلئے حیلہ تلاش کیا۔ امام ابو حنیفہ نے درباری بن کر بادشاہ کی خواہش کو پورا نہیں کیا تو جیل میں زہر دے کر شہید کیا گیا۔ امام ابو حنیفہ نے واضح کیا تھا کہ اگر باپ نے لونڈی کے ساتھ جنسی تعلقات قائم رکھے ہیں تو بادشاہ کیلئے اس کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنا قطعی طور پر حرام ہیں۔ جبکہ امام ابو یوسف نے بادشاہ کیلئے یہ حیلہ نکال دیا کہ لونڈی عورت ہے اور جب وہ بولے کہ تیرے باپ نے میرے ساتھ جنسی تعلق قائم کیا ہے تو اس کی گواہی قابل قبول نہیں ہے۔ اس کیلئے باقاعدہ ایک اچھا خاصہ معاوضہ بھی طے کیا گیا۔ جب امام ابو یوسف نے حیلہ بتایا تو بادشاہ نے کہا کہ صبح خزانے کا دروازہ کھل جائے گا تو معاوضہ لے لینا۔ امام ابو یوسف نے کہا کہ مجھے ابھی راتوں رات وعدے کے مطابق معاوضہ دے دینا۔ میں نے بھی تمہارے لئے رات ہی کو بند دروازہ کھولا ہے۔
یہ واقعات علامہ جلال الدین سیوطی نے تاریخ الخلفاء اور امام غزالی نے اپنی کتابوں میں لکھ دئیے تو امام غزالی کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ مصر کے بازار میں ان کی کتابیں جلائی گئی تھیں۔ جس کے بعد امام غزالی نے فقہ کی راہ چھوڑ کر تصوف کی راہ کو اپنالیا تھا۔ تصوف کے مشائخ اور فقہ کے علماء کے درمیان اختلافات کا بھی ایک سلسلہ ہے اور علماء نے اہل تصوف سے بیعت و سلوک کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہے۔ امداد اللہ مہاجر مکی کے مرید و خلیفہ مولانا قاسم نانوتوی نے کہا تھا کہ میں حاجی امداد اللہ مہاجر سے ان کے علم کی وجہ سے بیعت ہوں۔ مولانا رشید احمد گنگوہی نے کہا تھا کہ میں حاجی امداد اللہ مہاجر مکی سے علم کی بنیاد پر اختلاف رکھتا ہوں مگر عمل کی وجہ سے بیعت ہوں اور یہ بھی یاد رہے کہ مولانا منظور مینگل نے کہا ہے کہ مولانا رشید احمد گنگوہی واحد شخص ہیں جو علامہ ابن تیمیہ سے عقیدت رکھتے ہیں جبکہ دوسرے تمام اکابر نے ابن تیمیہ کی سخت مخالفت کی ہے۔ مولانا رشید احمد گنگوہی کے شاگرد مولانا حسین علی کے شاگرد شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان اور شیخ القرآن مولانا محمد طاہر پنج پیری تھے۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں پنج پیری طلبہ کو پڑھنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ یہی حال جامعہ فاروقیہ و دیگر مدارس کا بھی تھا۔ حالانکہ دونوں کا تعلق دیوبند سے تھا۔
جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے فاضل ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی نے ”توحید خالص” وغیرہ کتابیں لکھ کر اکابرین پر شرک و کفر کے فتوے لگائے تھے۔ جس طرح عام دیوبندی پنج پیری طبقے کو اپنے سے الگ اور گمراہ سمجھتے تھے اس سے بڑھ کر ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی کی کتابوں سے پنج پیری الرجک تھے۔ آج خود کو بہت بڑا شیخ الحدیث ، شیخ القرآن ، جامع العلوم سمجھنے والا ڈاکٹر منظور مینگل کہتا ہے کہ میں نے ابن تیمیہ اور پنج پیری کو بڑا کافر گمراہ کہہ کر گالیاں دی ہیں مگر ابھی توبہ کرتا ہوں۔
حنفی مسلک پر دیوبندی اور بریلوی مکاتب فکر کا اتحاد ہے اور درس نظامی میں فقہ ، اصول فقہ ، حدیث اور تفسیر کی کتابیں بھی ایک ہیں۔ ایک نصاب کے باوجود دونوں میں اختلافات بھی ہیں۔ ابوبکر صدیق اکبر نے جبری زکوٰة کی وصولی شروع کردی تو اہل سنت کے چاروں اماموں نے اختلاف کیا تھا۔
مالکی و شافعی مسالک نے بے نمازی کو واجب القتل قرار دیا تو حنفی مسلک نے ان سے اختلاف کیا۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ جب حضرت ابوبکر نے زکوٰة نہ دینے والوں کے خلاف قتال کیا تو بے نمازی کے خلاف قتال بدرجہ اولیٰ بنتا ہے۔ حنفی مسلک والوں نے جواب دیا کہ جب حضرت ابوبکر کے فیصلے سے تمہارا اتفاق نہیں ہے تو اس پر نماز کو کیسے قیاس کرسکتے ہو؟۔ مفتی محمد شفیع مفتی اعظم پاکستان نے اپنی تفسیر ”معارف القرآن” میں لکھ دیا کہ بے نمازی کے خلاف قتال کرنے کا حکم سورہ توبہ اور حضرت ابوبکر صدیق کے فعل سے ثابت ہوتا ہے۔ تو علامہ غلام رسول سعیدی نے اپنی تفسیر ”تبیان القرآن” میں اس کو مسلک حنفی کے خلاف قرار دیتے ہوئے لکھا کہ مفتی شفیع نے حنفی فقہاء کے مسلک سے انحراف کیا ہے۔
امام ابو یوسف نے جب بادشاہ کیلئے لونڈی کی گواہی کو غلط قرار دینے کی بدعت جاری کردی تو ایک طرف حدیث صحیح کے خلاف زنا بالجبر میں بھی عورت کی گواہی کو ناقابل قبول قرار دیا گیا اور دوسری طرف امام ابو حنیفہ کے نام پر حرمت مصاہرت کا غلط پروپیگنڈہ کرکے انتہائی غلیظ مسائل کو فقہ کا حصہ بنایا گیا۔ چنانچہ اورنگزیب عالمگیر مغل بادشاہ کے دور میں لکھی گئی کتاب ”نور الانوار:ملاجیون” درس نظامی میں داخل نصاب ہے۔ جہاں یہ مسئلہ پڑھایا جاتا ہے کہ ”اگر ساس کی شرمگاہ کو باہر سے شہوت کے ساتھ دیکھ لیا تو عذر کی وجہ سے معاف ہے لیکن اگر اندر کی طرف سے دیکھا تو اس سے بیوی حرام ہوجائے گی”۔
اسی طرح مفتی تقی عثمانی سے امیر جماعت اسلامی سید منور حسن تک نے پرویز مشرف کے دور میں یہ نام نہاد غلط شرعی مسئلہ اُجاگر کیا کہ ” کسی عورت کو زبردستی سے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تو اگر اس کے پاس چار سے کم گواہ ہوں تو وہ زیادتی پر بھی خاموش رہے اسلئے کہ اگر تین افراد نے بھی اس کے حق میں گواہی دی تو ان سب پر بہتان کی حد جاری کی جائے گی”۔
جب جنرل ضیاء الحق نے بینکوں کے سُودی نظام سے زکوٰة کی کٹوتی کا فیصلہ کیا تو مفتی تقی عثمانی و مفتی رفیع عثمانی نے اس کے جواز کا فتویٰ دے دیا۔ جس پر مفتی محمود نے دونوں بھائیوں کو جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں طلب کیا۔ دونوں نے چائے پینے سے انکار کیا کہ ہم دن میں ایک بار چائے پیتے ہیں۔ مفتی محمود نے کہا کہ میں خود زیادہ چائے پیتا ہوں لیکن اگر کوئی کم پیتا ہے تو اس کو پسند کرتا ہوں۔ مفتی تقی عثمانی نے پان کا بٹوہ دکھایا کہ ہمارے ساتھ یہ علت لگی ہوئی ہے۔ مفتی محمود نے کہا کہ یہ تو چائے سے بھی بدتر ہے۔ مفتی تقی عثمانی نے اپنی تحریر میں یہ نہیں لکھا تھا کہ اسکے باوجود میں نے پان کھلایا جسکے بعد مفتی محمود پر دورہ پڑگیا۔ اور مفتی رفیع عثمانی نے دورہ قلب کی خصوصی گولی حلق میں ڈال دی۔ مگر مولانا یوسف لدھیانوی نے یہ لکھ دیا۔ پھر مفتی تقی عثمانی نے اپنا بیانیہ بعد میں بدل دیا کہ مفتی محمود بے تکلفی میں وہ مجھ سے پان مانگ کر کھایا کرتے تھے۔

دارلعلوم دیوبند کے سپوتوں کی چند یہ مثالیں

علماء حق کی یاد گار جامعہ بنوری ٹاؤن عظیم یہ شخصیات
علامہ سیدمحمدیوسف بنوریکی ایک یاد گار تقریر ماہنامہ البینات میں شائع ہوئی جو ماہنامہ نوشہ ٔ دیوارنے قارئین کیلئے شائع کی ،جو سودی نظام کے خلاف تھی ،جس میں اسلام کے معاشی نظام پر زور تھا۔علامہ بنوری کے دامادمولانا طاسین نے مزارعت پر تحقیق کا حق ادا کرکے قرآن وسنت سے اس سود کو واضح کیا۔جب سود کی حرمت پرآیات نازل ہوئیں تو نبی ۖ نے مزارعت کو بھی سود قرار دیا تھا۔ جس کی وجہ سے جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ دونوں نظام کا خاتمہ ممکن تھا اور محنت کشوں کیلئے بڑا متوازن روزگار تھا۔ اس سے محنت و دیہاڑی کا ایک مناسب معاوضہ بھی خود بخود معاشرے میں رائج ہوجاتا ہے۔ پاکستان میں پانی کا بہاؤ ایک نعمت ہے جس سے سستی بجلی پیدا کرنے اور سستی خوراک ملنے میں مثالی مدد مل سکتی ہے۔ رسول اللہ ۖ نے مدینہ میں یہ نظام قائم فرمایا تو پوری دنیا میں اسکا ڈنکا بج گیا۔ روم و فارس کے بادشاہوں ، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو پیغام مل گیا کہ اب دنیا میں انسان اپنی طاقت ، جاگیر اور سرمایہ کے ذریعے سے دوسرے انسانوں کو غلام نہیں بناسکتا ہے۔ آج پاکستان سے پھر پوری دنیا کو یہ میسج جائے گا تو سُودی نظام کا خاتمہ ہونے میں دیر نہ لگے گی۔

دارالعلوم دیوبند کے کپوتوں کی یہ چند مثالیں

دارالعلوم کراچی وجامعة الرشید علماء سوء کی یہ یادگاریں
ہمارے مرشد حضرت حاجی محمد عثمان سے تمام مکاتب فکر کے علماء و مشائخ بڑی عقیدت و محبت رکھتے تھے اور بڑے بڑے مدارس کے علماء و مفتیان حلقہ ارادت میں شامل تھے۔ سعودی عرب کے سرکاری افسران اور شام کے عرب بھی بیعت تھے۔ مفتی رشید احمد لدھیانوی، مفتی عبد الرحیم اور مفتی تقی عثمانی نے ان کے خلاف الائنس موٹرز سے کچھ مالی مفادات اٹھاکر جو گھناؤنا کردار ادا کیا تھا اس پر اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ وہ اب بھی مفتی تقی عثمانی کے ”فتاویٰ عثمانی جلد دوم” میں موجود ہے۔ ہفت روزہ تکبیر کراچی میں بھی ان فتوؤں کی سرسری روداد موجود ہے۔ ہمیں ذاتیات سے غرض نہیں ہے لیکن جن لوگوں نے کتابیں چھاپ کر شادی بیاہ کی رسم میں لفافے کے لین دین کو سُود قرار دیا تھا اور نبی کریم ۖ پر بھی آیت کی من گھڑت تفسیر لکھ کر سُود کا بہتان لگایا تھا اور سُود کو 73گناہوں میں سے کم از کم اپنی سگی ماں کے ساتھ بدکاری کے برابر گناہ قرار دیا تھا لیکن پھر اللہ کی طرف سے ایسی پھٹکار ہوئی کہ پوری دنیا کے سُودی نظام کو حیلے بہانے سے جائز قرار دیا۔ حالانکہ سبھی علماء اور مفتیان نے ان کے خلاف متفقہ فتویٰ بھی جاری کیا تھا۔ اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں ہے۔ انتظار کریں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

مذہبی جماعتوں نے کبھی پاکستان میں ایک مرتبہ بھی قرآن وسنت کے مطابق قانون سازی نہیں کی!

مذہبی جماعتوںنے کبھی پاکستان میں ایک مرتبہ بھی قرآن وسنت کے مطابق قانون سازی نہیں کی!

اس الیکشن میں جو کوئی بھی برسراقتدار آئے تو پہلے سے یہ طے کرلے کہ قرآن کے مطابق پارلیمنٹ میں قانون سازی کرنی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کو مفت کی روٹیاں توڑنے کیلئے چھوڑو

حضرت عمر نے بدری وغیر بدری، فتح مکہ سے پہلے و بعد والے صحابہ کے علاوہ حضرت حسن و حسین اور عبداللہ بن عمر کے وظائف یا تنخواہوں میں فرق رکھا تھا تو پھر ہم کیسے انگریز دور کی پیداوار طبقاتی نظام میں مراعات یافتہ طبقات کی مراعات کو ختم کرسکتے ہیں؟۔ ایک غریب کی بچی کا دوپٹہ ہوا نے سرکایا تو اسکو کوڑا ماردیا اور پھر حضرت عمر نے معافی بھی مانگ لی لیکن جب بصرہ کے گورنر حضرت مغیرہ ابن شعبہ کے خلاف چار افراد نے گواہی دی تو ایک کی گواہی کو ناقص قرار دیکر گورنر کی جان بخشی ہوئی اور تین گواہوں کو80،80کوڑے بھی لگائے اور پھر یہ پیشکش بھی ہوئی کہ اگر اتنا بول دو کہ ہم نے جھوٹ بولا تھا تو پھر تمہاری گواہی بھی قبول ہوگی۔ جمہور فقہاء اہل سنت کے ہاں حضرت عمر کی پیشکش درست تھی اسلئے اگر کوئی جھوٹی گواہی دیکر توبہ کرے تو پھر اس کی گواہی قبول ہوگی۔ لیکن مسلک حنفی نے حضرت عمر کی پیشکش کو قرآنی آیات کے خلاف قرار دیا کہ اس کے بعد جھوٹے کی گواہی کبھی قبول نہیں ہوگی۔
چار گواہ میں واحد گواہ صحابی حضرت ابوبکرہ تھے جس نے آئندہ گواہی قبول کرنے کی پیشکش ٹھکرادی ۔ صحیح بخاری میں بھی یہ واقعات ہیں اور ان سارے گواہوں کے نام بھی ہیں۔ کیا پارلیمنٹ میں اس واقعہ اور اسکے وسیع تناظر میں حنفی اور دوسرے مسالک کے درمیان قانون سازی پر بحث ہوسکتی ہے۔ اس پر اسلامی نظریاتی کونسل کچھ لیپا پوتی کرے تو کرے ۔ مولانا مودودی نے لکھ دیا ہے کہ جس خاتون کو پکڑا گیا تھا وہ حضرت مغیرہ ابن شعبہ کی اپنی بیوی تھی۔
جب یہود نے تورات کے احکام میںتحریف کی تو اللہ نے کہا کہ تورات کی سیدھی سیدھی باتوں پر بھی عمل نہیں کرتے۔ تورات میں جان کے بدلے جان اور اعضاء کان، ہاتھ ، دانت وغیرہ کے بدلے میں کان ہاتھ اور دانت وغیرہ ہیں اور زخموں کا بدلہ ہے۔ لیکن یہود اس پر عمل نہیں کرتے تھے۔ طاقتور لوگ کمزور لوگوں کے اعضاء کاٹ دیتے تھے تو اس کے بدلے میں ان کے اعضاء کو نہیں کاٹا جاتا تھا۔ انصاف کا سیدھا سادہ نظام ظلم میں بدل گیا تھا۔ قرآن میں بھی تورات کے ان احکام کا ذکر ہے اور آج ہم ان پر عمل نہیں کرتے۔ اگر کسی غریب کے کان ، ناک ، دانت ، آنکھ کے بدلے طاقتور ظالم کے کان ، ناک ، دانت اور کان کو ضائع کیا جائے گا تو کبھی بھی کسی کے اوپر کوئی ظلم نہیں کرے گا۔ علماء اور حکمران طبقے نے قرآنی احکام کو الجھا کر رکھ دیا ہے۔
خاور مانیکا کے ملازم نے عمران خان اور بشریٰ بی بی پر زنا کا الزام عدالت میں لگادیا۔ تمام مکاتبِ فکر کے علماء ومفتیان سیاسی مفادات سے بالاتر ہوکر فیصلہ کریں کہ ” اس جھوٹی گواہی کی وجہ سے اس پر80کوڑے لگتے ہیں یا نہیں؟”۔ اگر لگتے ہیں تو1973کے آئین اور قرآن کے حکم پر عمل کا آغاز بھی کیا جائے۔ اور اگر زنا ثابت ہو تو قرآن کے مطابق پھر عمران خان اور بشریٰ بی بی کو100،100کوڑے لگائے جائیں۔
سورہ نور میں زنا کی سزا مرد اور عورت دونوں کیلئے100،100کوڑے ہیں۔ صحابی نے کہا کہ” سورہ نور کی آیات نازل ہونے کے بعد کسی کو سنگسار کی سزادی گئی یا نہیں ؟ اسکا نہیں معلوم ” ۔( صحیح بخاری) حضرت عمر نے کہا کہ ”اگر مجھے خوف نہ ہوتا کہ لوگ کہیں گے کہ عمر نے اللہ کی کتاب میں اضافہ کیا ہے تو سنگسار کرنے کا حکم قرآن میں لکھ دیتا”۔ (صحیح مسلم) حضرت عائشہ سے منقول ہے کہ بڑے آدمی کو دودھ پلانے اور سنگسار کرنے کی آیات نبی ۖ کی وفات کے وقت بکری نے کھاکر ضائع کردیں”۔(ابن ماجہ) ۔ قرآن کے واضح احکام کو بہت غلط رنگ دیا گیا ہے ۔پارلیمنٹ کے فیصلے ضروری ہیں۔
قرآن کی سورۂ نور میں لعان کا مسئلہ بھی ہے۔ اگر خاور مانیکا نے قابلِ اعتراض حالت میں دیکھا ہے تو عدالت میں لعان کیا جائے اور اگر بشریٰ بی بی اس کو جھٹلا دیتی ہے تو پھر بشریٰ بی بی کو قرآن کے مطابق کوئی سزا نہیں ہوگی۔ قرآن نے واضح کیا ہے کہ زنا کاروں کا آپس میں نکاح کرایا جائے۔ اگر گواہی آگئی تو پھر سزا کے بعد شادی بحال رہے گی۔ کیونکہ یہ قرآن کے حکم پر عمل ہوگا۔ اس سے وہ تصور بھی ٹھکانے آجائے گا کہ اسلام میں سنگساری کا حکم ہے یا نہیں ؟۔ علامہ مناظر احسن گیلانی نے اپنی ایک کتاب ”تدوین القرآن” میں اس پر اچھا خاصا تذکرہ کیا ہے۔ جو جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی نے بھی شائع کردی ہے۔
طالبان حکومت کے ایک عالم دین نے مردکا مرد سے جنسی تعلق پر سزا کے اندر بڑے اختلاف کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے ثابت ہے کہ قرآن وحدیث میں کسی سزا کا ذکر نہیں۔ حالانکہ قرآن میں دونوں کو اذیت دینے کا حکم ہے اور پھر وہ توبہ کرلیں تو ان کو طعنہ دینے اور پیچھے پڑنے سے روکا گیا ہے۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ قتل کا حکم نہیں۔ طالبان جو چاہتے ہیں وہ قرآن میں موجود ہے لیکن مدارس کا نصاب رکاوٹ ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ فروری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

آواز آئی کہ تمہاری طلاق نہیں ہوئی ،قرآن کھول کردیکھ لو!

آواز آئی کہ تمہاری طلاق نہیں ہوئی ،قرآن کھول کردیکھ لو!

مفتی اکمل ، مفتی کامران شہزاد ، جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی اور دار العلوم کراچی وغیرہ سے فون کرکے فتویٰ پوچھ لیا
جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی اور مفتی کامران شہزاد نے کہا کہ رجوع کرلو اور دارالعلوم کراچی نے کہا کہ نہیں ہوسکتا۔

محمد خرم رحیم یار خان نے بیگم کو طلاق دی۔ اس نے خواب دیکھاکہ ”آواز آئی ،تمہاری طلاق نہیں ہوئی۔ قرآن سورہ بقرہ آیت228کھول کر دیکھ لو۔ آنکھوں کے سامنے قرآن کھلا دکھائی دیا اور آیت228البقرہ کو دیکھا ” تسلی ہوگئی مگر مختلف مدارس و علماء سے رابطہ کیا۔ خرم صاحب کو جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی اور مفتی کامران شہزاد سے فون پر رجوع کا فتویٰ مل گیا۔ دارالعلوم کراچی سے رجوع کا فتویٰ نہ ملا ۔ مفتی تقی عثمانی اور مفتی رشیداحمد لدھیانوی نے کراچی اور حیدر آباد کے کوؤں کو کھانا جائز قرار دیا تھا۔ اگر انکے مدارس میں کو ؤں کا گوشت کھلایا جائے اور رقم فلسطین کو بھیج دی جائے تو بڑاشعوری انقلاب آجائے گا۔ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر نے لکھا کہ میزان بینک کا سود حرام ہے۔ مزدور بھی گدھے کا گوشت نہ کھائے گا۔
دورجاہلیت میں بیوی سے کوئی کہتا تھا کہ”3طلاق” توپھر اس کو حلالہ کرنا پڑتا تھا۔یہ غصے اور غضب کی حالت میں انتہائی ملعون عمل تھا۔ نبی ۖ نے اس پر اللہ کی لعنت فرمائی تھی اور اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت228میں اس کا خاتمہ کردیا تھا۔
المطلقٰت یتربصن بانفسھن ثلاثة قروء …… وبعولتھن احق بردھن فی ذٰلک ان ارادوا اصلاحًا ”طلاق والی عورتیں3ادوار (طہرو حیض) تک انتظار کریں… اورانکے شوہر اس میں اصلاح کی شرط پر رجوع کے زیادہ حقدار ہیں”۔ (سورہ البقرہ آیت228)حنفی مسلک کا بنیادی تقاضا یہ تھا کہ شوہرکو عدت میں صلح کی شرط پر رجوع کا فتویٰ دے دیتے۔اسلئے کہ جب اللہ تعالیٰ نے بہت واضح الفاظ میں رجوع کو صلح و اصلاح کی شرط پر عدت کے تینوں ادوار میں جائز قرار دے دیا تو پھر اس کے بعد قرآن کی کوئی ایسی آیت بھی نہیں ہوسکتی تھی کہ صلح و اصلاح کی شرط کے باوجود بھی عدت میں رجوع کا راستہ روکے ،اسلئے کہ قرآن میں تضاد نہیں ہے۔
بڑی زبردست بات یہ تھی کہ قرآن کی اس آیت228البقرہ نے صرف حلالہ کی لعنت کو ختم نہیں کیا ہے بلکہ عدت کے اندر بھی صلح و اصلاح کی شرط کے بغیر رجوع کا راستہ بھی روکا ہے۔ کیونکہ دورِ جاہلیت میں ایک طرف حلالہ کی بھی لعنت تھی تو دوسری طرف شوہر کو بھی عدت میں رجوع کی اجازت تھی۔اللہ تعالیٰ نے جاہلیت کی دونوں رسموں کو اس آیت میں بالکل ختم کرکے رکھ دیا تھا۔
پروفیسر احمد رفیق اختر نے کہا کہ امام باقر نے فرمایا کہ قرآن کی ہر آیت کا ایک ظاہر ہے اور پھر ایک ظاہر ہے۔ ایک باطن ہے اور پھر ایک باطن ہے۔
آیت228البقرہ کاایک ظاہرتو یہ ہے کہ ” طلاق کے بعد عورتوں کی عدت کے3ادوار ہیں یا پھر اگر حمل ہو تو حمل اس کی عدت ہے اور اس میں شوہروں کو انکے لوٹانے کا زیادہ حق ہے بشرط یہ کہ اصلاح چاہتے ہوں”۔
دوسرا ظاہر یہ ہے کہ ” دورِ جاہلیت کا مسئلہ تھا کہ ایک ساتھ3طلاق کے بعد رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔اس آیت سے اس جہالت کا خاتمہ کردیا اور یہ بھی مسئلہ تھا کہ عدت میں شوہر جتنی بار چاہتا تھا تو رجوع کرکے عورت کو ستا سکتا تھا اس جاہلیت کو بھی ختم کردیا اور بیوی کی رضامندی کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا”۔
اس آیت کا ایک باطن یہ ہے کہ ” جب حضرت عمر نے ایک ساتھ3طلاق پر رجوع نہ کرنے کا فیصلہ کیا تو وہ بالکل ٹھیک تھا اسلئے کہ بیوی رجوع کیلئے راضی نہیں تھی ۔ لیکن حضرت عمر کے اس فیصلے کے دفاع میں قرآن سے دوری کی وجہ سے حضرت عمر کے عقیدتمندوں نے یہ مراد لیا کہ باہمی رضامندی سے بھی پھر رجوع نہیں ہوسکتا۔ جس کی وجہ سے حلالے کی لعنت کا دروازہ کھل گیا ہے”۔
اس آیت کا دوسرا باطن یہ ہے کہ ” اگر بیوی راضی نہ ہو تو پھر شوہر رجوع کا حق نہیں رکھتا ہے ۔ شیعہ حضرت عمر کے بغض کی وجہ سے گمراہی کا شکار ہوں گے اور وہ عورت کی رضامندی کے بغیر بھی شوہر کو رجوع کا حق دیں گے”۔
اگر قرآن کے ظاہر اور باطن کا ادراک کرتے ہوئے شیعہ سنی قرآن وسنت کی طرف رجوع کریں گے تو دونوں گمراہی سے نکل جائیں گے۔ قرآن میں شبہ نہیں ہے لیکن احادیث کی روایات100سال بعد لکھی گئی ہیں۔ دونوں طبقات نے قرآن کو چھوڑ کر اپنی اپنی مسلکانہ روایات کو بھی بالکل گمراہی کی بنیاد پر لیا ہے اور اس سے چھٹکارہ پانے کیلئے فرقہ واریت کو چھوڑ کر انسانیت کو اپنانا ہوگا۔
جو آیت جس مقصد کیلئے نازل ہو۔ اگر اس کو اپنے محور سے ہٹادیا جائے تو پھر معاملات بگڑ جاتے ہیں۔ حلالہ کے خاتمے کیلئے آیت228البقرہ ہے اور اس میں طلاق کے بعد باہمی اصلاح کے بغیر رجوع کا دروازہ بند ہونا بھی شامل ہے۔ دیگر آیات اور احادیث بھی اس کو سپورٹ کرتی ہیں۔ اکٹھی تین طلاقوں کا تصور حلالہ کیلئے خطرناک تھا اسلئے عدت میں باہمی اصلاح سے رجوع کا دروازہ کھول دیا تو اب حلالہ کیلئے راستہ نہیں بن سکتا تھا۔ حضرت عمر نے حلالہ کی لعنت کا دروازہ کھولنے کیلئے اکٹھی تین طلاق پر رجوع کا فیصلہ نہیں کیا بلکہ عورت رجوع کیلئے راضی نہ تھی تب یہ فیصلہ کیا تھا۔ حضرت عمر نے فتویٰ نہیں دینا تھا بلکہ فیصلہ کرنا تھا ۔ فیصلہ فریقین کی رائے سن کر کیا جاتا ہے اور حضرت عمر نے عورت کے حق میں قرآن کے مطابق فیصلہ کیا تو یہ فاروق اعظم کے اعزاز کو باقی رکھنے کیلئے تھا۔ کچھ عرصہ قبل بنوں پختونخواہ میں ایک شخص نے دوبئی سے بیوی کو فون پر3طلاقیں دیں اور پھر پشیمان ہوا۔ مولوی سے فتویٰ لیکر شوہر کے بھائی نے عورت کو زبردستی سے حلالے پر مجبور کیا تو عورت نے کیس کردیا جس کی وجہ سے مولانا صاحب کو بھی جیل میں بھیج دیا گیا تھا۔ حضرت عمر نے اسلئے واضح کیا تھا کہ اگر حلالے کی خبر مل گئی تو اس پر حد جاری کروں گا کہ مرد زبردستی بھی کرسکتے تھے۔
جب شیعہ عورت کو مرحلہ وار شیعہ مسلک کے مطابق طلاق مل جائے اور پھر کچھ عرصہ بعد دونوں کا پروگرام بن جائے کہ آپس میں رجوع کرلیں تو قرآن نے حلالہ کے بغیر رجوع کی اجازت دی ہے ۔ شیعہ کو بھی میں نے حلالہ کی لعنت سے بچایا ہے۔ شیعہ بھی اعلان کردیں کہ جب آیت231اور232البقرہ اور آیت2سورہ طلاق میں عدت کی تکمیل کے کافی عرصہ بعد بھی باہمی رضامندی سے رجوع کی اجازت ہے تو بالکل کرسکتے ہیں۔ فقہ جعفریہ والوں نے دوسروں کی دیکھا دیکھی مسائل گھڑ لئے ہیں۔ اگر ان کے ائمہ نے بھی ماحول میں اجتہاد کیا ہے تو سورہ مجادلہ سے رہنمائی لیکر اس کو غلط قرار دے سکتے ہیں۔
قرآن کے مقابلے میں حنفی اور جعفری کسی مسلک کی کوئی حدیث یا روایت ہے تو وہ من گھڑت اور باطل ہے۔ ایران اور سعودی عرب کے علاوہ دنیا بھر کے مسلمان ایک دوسرے کیساتھ حق اور قرآن کیلئے اکٹھے ہوسکتے ہیں۔ اسرائیل و امریکہ نے فرقہ واریت کی آگ بھڑکاکر شیطان ہونے کا ثبوت دینا ہے۔ اتنا تو سورہ طلاق میں بھی واضح ہے کہ ” اگر عدت کے مطابق مرحلہ وار تین مرتبہ طلاق دے دی تو بھی عدت کی تکمیل کے بعد معروف طریقے سے رجوع یا معروف طریقے سے الگ کرنا ہوگا اور اس پر دوعادل گواہ بھی مقرر کرنے ہوں گے”۔ جس سے شیعہ اور سنی دونوں کا طریقہ طلاق باطل ہوجاتا ہے اسلئے کہ شیعہ مرحلہ وار گواہوں کو مقرر کرکے عدت کی تکمیل کے بعد رجوع کی گنجائش نہیں چھوڑتے اور سنی طلاق میں بدعت کے نام سے عدت میں بھی رجوع کی گنجائش نہیں بنتی۔
یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ طلاق اور خلع میں حقوق کا فرق ہے ۔ طلاق شوہر دیتا ہے تو اگر ایک طلاق غلطی سے یا مذاق میں بھی دیدی تو اگر عورت راضی نہیں ہے تو پھر شوہر کو رجوع کا حق نہیں ہے ۔ پھر یہ طلاق ہے اور طلاق کی عدت تک عورت کو انتظار کرنا پڑے گا۔ اگر شوہر نے راضی کرلیا تو ٹھیک نہیں تو وہ پھر جہاں چاہے شادی کرسکتی ہے۔ پھر اس کو طلاق کے مالی حقوق بھی ملیں گے لیکن اگر شوہر نے طلاق دی اور عورت نہیں چاہتی تو پھر عدت میں رجوع ہوسکتا ہے اور عدت کی تکمیل کے بعد بھی۔ قرآنی آیات کو پڑھ لیں سب سمجھ میں آئے گا۔ اگر عورت خلع لینا چاہتی ہے تو اس کو بالکل اجازت ہے لیکن اس کے مالی حقوق پھر کم ہوں گے۔ خلع کی عدت بھی ایک ماہ ہے۔ سورہ النساء آیت19دیکھ لیں اور اس میں عورت کو شوہر کی ان چیزوں کا بھی حقدار قرار دیا گیا جسے ساتھ لے جاسکتی ہے۔ اس آیت کا ترجمہ اس بات کیلئے بہت کافی ہے کہ علماء نے تفسیر کے ذریعے اس پر کس طرح سے ٹوکا چلایا ہے۔ خلع میں گھر اور غیر منقولہ جائیداد سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ اس بات کا امکان ہے کہ عورت جھوٹا دعویٰ کرے کہ مجھے طلاق دے دی گئی ہے تو چونکہ اس میں مالی معاملے کا عمل دخل ہے۔ عورت کی نیت میں فرق آسکتا ہے کہ خلع لینا چاہتی ہو اور طلاق کا دعویٰ کرے۔ اسلئے اس میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ عورت گواہوں کو پیش کرے ۔ اگر اس کے پاس گواہ نہیں ہوئے تو شوہر حلف اٹھائے گا کہ اس نے طلاق نہیں دی ہے۔ پھر طلاق کی ڈگری جاری نہیں ہوگی ۔ عورت کو خلع کے مالی حقوق ملیں گے۔
اگر شوہر کہے کہ مذاق میں طلاق دی تھی اور عورت رجوع پر راضی نہیں ہو تو پھر بھی عورت کو طلاق کے مالی حقوق ملیں گے ۔اسلئے کہ طلاق میں مذاق معتبر ہے۔البتہ اگر عورت صلح کیلئے راضی ہو تو پھر طلاق مذاق میں ہو سنجیدگی میں اس سے رجوع ہوسکتا ہے۔ قرآن ، احادیث اور صحابہ کرام میں کوئی اختلاف نہیں ۔ نبی کریم ۖ نے کسی کو بھی رجوع سے منع نہیں کیا ہے۔ صحیح بخاری کی روایت کا کمال ہے کہ غلط فہمیوں کے پہاڑ کھڑے کردئیے گئے ہیں۔
صحیح بخاری نے ایک ساتھ تین طلاق کے جواز پر باب باند ھ کر لکھ دیا ہے کہ ”من اجاز طلاق ثلاث ”جس نے تین طلاق کو ایک ساتھ جائز قرار دیا اور پھررفاعة القرظی کی بیوی کا واقعہ نقل کیا ہے کہ اس کو شوہر نے تین طلاقیں دیں اور پھر اس نے زبیرالقرظی سے نکاح کیا اور نبی ۖ کو اپنے دوپٹے کا پلو دکھا کر کہا کہ میر ے شوہر کے پاس ایسی چیز ہے۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ کیا آپ رفاعہ کے پاس جانا چاہتی ہو۔ آپ نہیں جاسکتی یہاں تک کہ وہ تیرا ذائقہ چکھ لے اور آپ اس کا ذائقہ چکھ لیں”۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ طلاق ایک ساتھ تین دی تھیں اور یہ بھی کہ حلالہ کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا ؟۔
جب زبیرالقرظی نامرد تھا تو نامرد میں حلالے کی جب صلاحیت نہیں ہوتی ہے تو مفتی تقی عثمانی دے تو دے کوئی اور یہ فتویٰ نہیں دیتا۔ پھر نبی ۖ کیسے اس طرح کا فتویٰ دے سکتے تھے؟۔ لوگوں کے ذہن میںیہ بات بیٹھ گئی ہے کہ نبی ۖ کے وقت میں حلالے کا دھندہ موجود تھا؟۔ توبالکل غلط ہے۔
جب اللہ نے حلالہ کی لعنت کو ختم کرنے کیلئے آیات بھی نہیں اتاری تھیں تو نبی ۖ نے حلالہ کرنے اور کرانے والے پر لعنت فرمائی تھی۔ قرآن کی آیات اترنے کے بعد تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ حلالہ کی لعنت میں ملوث ہونے کا حکم دیا جاتا۔اسلئے حقائق کو سمجھ کر قبول فرمائیے ورنہ خیر نہیں ہوگی۔
بخاری میں یہ واضح ہے کہ زبیرالقرظی نے الگ الگ تین طلاقیں دی تھیں اور یہ بھی ہے کہ زبیر القرظی نے نبی ۖ کے سامنے کہا تھا کہ یہ میرے بچے ہیں اور مجھ میں اتنی مردانگی ہے کہ اس کی چمڑی ادھیڑ کر رکھ دیتا ہوں ۔ یہ جھوٹ بولتی ہے کہ میں نامرد ہوں۔ اگر بخاری کی ان تینوں روایات کو دیکھا جائے تو حلالہ کا ادھار کھائے بیٹھے رہنے والوں کے خواب خاک میں مل جاتے ہیں۔ بخاری کی امام ابوحنیفہ سے نہیں بنتی تھی اسلئے امام شافعی کی حمایت میں اس حلالے والی غلط روایت کو غلط جگہ پر پیش کردیا۔ امام شافعی نے خود اس روایت کو ایک ساتھ تین طلاق کیلئے دلیل نہیں قرار دیا۔ بخاری نے مدعی سست گواہ چست کا کام کیا ہے۔ تینوں احادیث عوام کے سامنے لائی جائیں تو علماء ومفتیان کیلئے ٹھیک ہوگا۔
جہاں تک لعان کے بعد عویمر عجلانی کی طرف سے اکٹھی تین طلاق والی روایت ہے جس کا بخاری میں ذکر اور امام شافعی کی بھی یہی دلیل ہے تو قرآن میں فحاشی کی صورت میں عدت کے اندر بھی گھر سے نکالنے کی اجازت ہے۔ اس روایت سے یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ نبی ۖ نے رجوع سے روک دیا تھا۔ اور اکھٹی تین طلاق کے حوالے سے آخری روایت یہ ہے جو امام ابوحنیفہ و امام مالک کے نزدیک ایک ساتھ تین طلاق دینے کیلئے گناہ اور عدم جواز کی دلیل ہے۔ محمود بن لبید سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ۖ کو خبر دی کہ فلاں نے اپنی بیوی کو3طلاقیں دیں۔ جس پر رسول اللہ ۖ غضبناک ہوکر کھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں اور تم اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیل رہے ہو؟۔ ایک شخص نے کہا کہ کیا میں اس کو قتل نہیں کردوں؟۔ اس روایت سے یہ استدلال پیش کیا جاتا ہے کہ اگر ایک ساتھ 3طلاق سے رجوع ہوسکتا تھا تو پھر نبی ۖ نے غضبناک ہونے کے بجائے رجوع کا حکم کیوں نہیں فرمایا؟۔
یہ استدلال بوجوہ غلط ہے۔ نبی ۖ نے اس حدیث سے اور زیادہ مضبوط حدیث میں غضبناک ہونے کے باوجود رجوع کا حکم فرمایا۔ بخاری کتاب التفسیر سورہ طلاق میں ہے کہ حضرت عمر نے نبی ۖ کو خبر دی کہ عبد اللہ ابن عمر نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دی ہے۔ نبی ۖ اس پر بہت غضبناک ہوگئے اور پھر عبد اللہ ابن عمر سے فرمایا کہ پاکی کی حالت میں اپنے پاس رکھو یہاں تک کہ اس کو حیض آجائے۔ پھر پاکی کی حالت کے بعد حیض آجائے اور پھر پاکی کی حالت میں چاہو تو رجوع کرلو اور چاہو تو ہاتھ لگانے سے پہلے اس کو چھوڑ دو۔ یہی وہ عدت ہے جس میں اللہ نے اس طرح طلاق دینے کا حکم دیا ہے۔ بخاری کی یہ حدیث کتاب الاحکام ، کتاب الطلاق اور کتاب العدت میں بھی ہے۔
غضبناک ہونے کے باوجود رجوع کا حکم فرمایا۔ اس لئے یہ استدلال غلط ہے کہ محمود بن لبید کی روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ رجوع نہیں ہوسکتا۔ محمود بن لبید کی روایت بہت کمزور ہے اسلئے امام شافعی نے اس کو ایک ساتھ3طلاق کا جواز پیش کرنے کیلئے اپنا مسلک نہیں بنایا۔ دوسری روایات سے یہ ثابت ہے کہ محمود بن لبید کی روایت میں طلاق دینے والے عبد اللہ ابن عمر اور طلاق کی خبر دینے اور قتل کی پیشکش کرنے والے حضرت عمر تھے۔ صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ حسن بصری نے کہا کہ مجھے ایک مستند شخص نے کہا کہ عبد اللہ ابن عمر نے بیوی کو3طلاقیں دی تھیں۔ پھر20سال تک کوئی دوسرا مستند شخص نہیں ملا جس نے اس کی تردید کی ہو۔20سال بعد ایک اور زیادہ مستند شخص ملا جس نے کہا کہ ایک طلاق دی تھی۔ صحیح مسلم کی اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ بخاری نے دوسرے مستند شخص کی روایت نقل کی ہے لیکن حسن بصری کے زمانے میں20سال تک جو معاملہ رائے عامہ میں بالکل مختلف تھا اور پھر اس میں تبدیلی کیسے آئی ؟۔ آئیے حقائق سمجھ لیجئے۔ حسن بصری سے صحیح بخاری میں روایت ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو حرام کہے تو جو وہ نیت کرے ۔ بعض علماء کا اجتہاد ہے کہ یہ تیسری طلاق ہے ۔ یہ کھانے پینے کی طرح نہیں کہ کفارہ ادا کرنے سے حلال ہوجائے۔
حضرت علی سے کسی نے پوچھا کہ بیوی کو حرام کہہ دیا ہے تو رجوع ہوسکتا ہے؟۔ علی نے فرمایا کہ نہیں۔ اسلئے خلفاء راشدین کے اجتہاد میں یہ لکھا ہے کہ علی حرام کے لفظ سے تیسری یا3طلاق مراد لیتے تھے۔ اور حضرت عمر ایک طلاق۔ حالانکہ ان میں حلال و حرام کا یہ اختلاف نہیں تھا۔ حضرت علی سے جس نے پوچھا تھا تو اس کی بیوی رجوع کیلئے راضی نہیں تھی اور جب رجوع کیلئے عورت راضی نہ ہو تو حرام کا لفظ یا3طلاق تو بڑی بات ہے ایلاء میں بھی رجوع نہیں ہوسکتاہے۔ جیسے نبی کریم ۖ کے حوالے سے قرآن میں وضاحت ہے۔ اسلئے حضرت عمر و حضرت علی کے مسلک، فرقے اور اجتہاد میں کوئی تفریق نہیں تھی۔ بیوی راضی ہو تو حرام کے لفظ کے باوجود رجوع ہوسکتا ہے۔ سورہ تحریم میں اس کی وضاحت ہے۔ ابن تیمیہ کے شاگرد علامہ ابن قیم نے حرام کے لفظ پر20اجتہادات لکھے ہیں۔ حالانکہ بخاری میں ابن عباس سے یہ روایت بھی ہے کہ نبی ۖ کی سیرت کا تقاضہ یہ ہے کہ حرام کے لفظ سے طلاق ، حلف، کفارہ کچھ بھی نہیں ہوتا ہے۔
سورہ تحریم اور نبی ۖ کی سیرت کو دیکھنے کے بجائے آیات کے اجتہادات کے نام پر کتنے ٹکڑے کئے گئے ہیں۔ ابن تیمیہ نے4فقہی مسالک کو4فرقے قرار دیا ہے لیکن ان کے شاگرد نے زاد المعاد میں سورہ تحریم کی آیت کو بجائے4کے مزید20ٹکڑوں میں تقسیم کردیا ہے۔ حرام کے لفظ پر خلفاء راشدین کے4مسالک اوراماموں کے4مسالک کے علاوہ دیگر فقہاء و محدثین کے مسالک اور اجتہادات سے قرآنی آیت کو بوٹی بوٹی بنانے کا جواز ہے ؟۔ ہرگز نہیں۔
خلفاء راشدین میں حضرت عمر و حضرت علی کے اندر اتفاق تھا اور قرآن ہی کے مطابق دونوں کا فتویٰ اور فیصلہ تھا مگر بعد میں آنے والے لوگوں نے ان کی باتوںکے اصل مفہوم کو درست نہیں سمجھا اور غلطیوں پر غلطیاں کرڈالیں ہیں۔ ہماری تحریک سے اکابر صحابہ پر اعتماد بھی بڑھے گا اور قرآن کی طرف بھی لوگ آئیں گے۔ حضرت عمر نے عمرہ و حج کے احرام کو اکھٹے باندھنے پر پابندی اسلئے لگائی کہ اگر دونوں احرام کو سنت سمجھ کر بڑے اجتماع میںگرمیوں کے موسم میں باندھا جاتا تو فضاء بہت متعفن ہوجاتی۔ یہ کوئی مذہبی اختلاف نہیں تھا۔
جس اسلام کو دیکھ کر سپر طاقتیں فارس اور روم کے بادشاہوں کے پیروں سے زمین نکل گئی تو اس کی وجہ قرآن و سنت کے عام فہم قوانین تھے۔ جبکہ دوسری طرف ہمارے مسلم ممالک اور مسلمان معاشرے اسلام کی سواری پر چڑھنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ جب قرآن نے بار بار رجوع کی بات کی ہے اور ہمارے ہاں 3 طلاق کو حلالہ کیلئے لعنت کی شکل دی گئی ہے تو کون گدھے پر سواری کرسکتا ہے؟۔ وہ بھی جب پانچوں ٹانگیں اوپر کی طرف اٹھائے چت گلاٹیاں کھارہا ہو۔ مذہبی طبقات نے اگر قرآن کے اصل احکام لوگوں کو بتانے شروع کردئیے تو مسلمان حکمران ہی نہیں مغرب و مشرق اور شمال و جنوب میں تمام مذاہب اور ممالک کے لوگ اس کو اپنے اقتدار اور معاشرے میں نافذ کرنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ فروری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اگر گاڑی کوالٹا کرکے اسکے پہیے چلائیں تو پھر کیاگاڑی چلے گی؟ یہی حال قرآن کا کیا!

اگر گاڑی کوالٹا کرکے اسکے پہیے چلائیں تو پھر کیاگاڑی چلے گی؟ یہی حال قرآن کا کیا!

وقل انی انا النذیرالمبینOاور کہہ دیں کہ بیشک میں کھلا ڈرانے والا ہوں
کما انزلنا علی المقتسمینOجیسے ہم نے تقسیم کرنے والوں پر نازل کیا
الذین جعلوا القراٰن عضینOجن لوگوں نے قرآن کو بوٹی بوٹی بنادیاہے
الحجر آیت89،90،91۔ کیاقرآن کو بوٹی بوٹی کرنے والے یہ علماء ہیں ؟
وقال الرسول یاربّ ان قومی اتخذوا ھذا القراٰن مھجوراًO”اور رسول کہیں گے کہ اے میرے رب بیشک میری قوم نے اس قران کو چھوڑتے ہوئے پکڑ رکھاتھا”۔الفرقان آیت30۔ قرآن کو تھامنا ہوگا۔

جمعیت علماء اسلام بلوچستان( درخواستی گروپ) کے امیر مولانا امیر حمزہ بادینی نے ہمیں بیان دیا تواتنی سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑگیاکہ مدینہ منورہ استخارے کرنے پہنچ گئے۔ جب وہاں سے ڈٹ جانے کا حکم مل گیا تو پھر دوبارہ حمایت میں بیان دیا جس کو ماہنامہ ضرب حق میں شہہ سرخی سے لگادیا۔ بلوچستان جماعت اسلامی کے صوبائی امیر مولانا عبدالحق بلوچ نے جب ہماری حمایت میں بیان دیا تو بلوچستان کی امارت سے ہٹادئیے گئے۔ حالانکہ پروفیسر غفور ، اتحاد العلماء کے مولانا عبدالرؤف نے بھی دیا تھا۔ تمام مکاتب فکر کے بڑوں نے حمایت کی ہے۔ لیکن جماعت المسلمین پختونخواہ کے صوبائی امیر حفیظ الرحمن نے ہمیں بیان دیا کہ کھڑی گاڑی کو مسلمان ہر طرف سے دھکا لگارہے ہیں جس کی وجہ سے چل نہیں رہی ہے ۔ اگر ایک طرف سے دھکا لگادیںگے تو گاڑی چلے گی۔ قرآن و سنت اور اسلام کیلئے فرقہ پرست مسلمانوں کا یہی حال ہے۔ جس پرجماعت المسلمین نے صوبائی امارت سے بیچارے کو فارغ کیاتھا۔
اصل میںگاڑی کو الٹا کردیا گیا ہے۔ مسلمان ٹائروں کو چلاکر مست ہیں۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ گاڑی کوسب مل کر چلائیں یا انفرادی مگر جب تک یہ کلٹی پڑی ہے تو چلے گی نہیں۔ قرآن میں ان یہودی علماء کی مثال گدھوں کی دی گئی جنہوں نے تورات کومسخ کردیاتھا۔ قرآنی آیات حلالہ کی لعنت کو ختم کرنے کی تھیں ۔ احادیث اور صحابہ کے فتوؤں اور فیصلوں میں بڑی وضاحت تھی۔مگر انہوں نے پھر حلالہ کو قرآن اور حدیث سے بر آمد کیا؟ لیکن بہت بڑی غلط فہمی اور علماء کو علی الاعلان اس سے امت کی جان چھوڑناہو گی نہیں تو ہرمیدان میں چیلنج ہوں گے۔ حلالہ سے لیکرہرچیز کو الٹا کرکے رکھ دیا ۔قرآن کی تعریف، احکام سب کو بوٹی بوٹی کردیا۔حنفی کے ہاں تحریری کتاب قرآن نہیں۔ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا جائز ہے ۔ مصحف پر حلف نہیں ہوتا۔ غیرمتواتر آیات قرآن ہیں۔شافعی کے ہاں غیر متواتر آیات قرآن نہیں۔ جنابت سے نہانے کا حکم ہے جو ہرانسان سمجھتا ہے ائمہ نے فرائض گھڑ کرقرآن بوٹی بوٹی کردیا۔
قرآن میں عبادات کے احکام ہوں مثلاً غسل، وضو، نماز، حج یا معاشرت کے احکام ہوں مثلاً نکاح، ما ملکت ایمانکم کے حوالے سے مسیار و متعہ ، طلاق، خلع ، عورت کے حقوق ، یا پھر شرعی حدود کا مسئلہ ہو لعان ، حد زنا، جبری بدکاری، دو مردوں کی آپس میں بدکاری کی سزا، پاکدامن عورت پر تہمت کی سزا اور قتل کے بدلے قتل ، اعضاء کے بدلے اعضاء یا پھر معیشت کے مسائل ہوں جیسے سُود اور مزارعت وغیرہ سب کو ملیامیٹ کردیا گیا ہے۔ اگر ایک طرف قرآنی آیات و احادیث کو دیکھیں اور دوسری طرف فقہی مسالک کے نام پر ان احکام پر تقسیم اور فرقہ واریت کو دیکھیں تو نظر آئے گا کہ قرآن کیساتھ قصائیوں والا سلوک مذہبی طبقات نے کیا ہے۔ موجودہ سعودی حکومت سے پہلے خانہ کعبہ میں چاروں سنی مسالک کے مصلے بھی الگ الگ تھے۔ مسجد نبوی ۖ میں6محرابیں تھیں۔ جن میں ایک حنفی مسلک کے امام کا الگ سے محراب بھی تھا۔ یہ فرقہ بندی نہیں تو کیا ہے؟ قرآن کو بوٹی بوٹی بنادیا۔
قرآن میں اللہ نے ایک ایک چیز کی وضاحت کی فرمایا: وانزلنا الکتٰب تبیانًا لکل شئی ” اور ہم نے کتاب کو نازل کیا ہر چیز کو واضح کرنے کیلئے ”۔
نمبر1:حنفی وشافعی کا حلف کے کفارے پرلغو اختلاف۔ لایؤاخذکم بالغو فی ایمانکم ولکن یؤاخذکم اللہ بما کسبت قلوبکم واللہ غفور حلیمO”اللہ تمہیں نہیں پکڑتا تمہارے لغو عہد سے مگر جو تمہارے دلوں نے کمایا ہے۔ اللہ مغفرت والا اور برداشت والا ہے ”۔( آیت225البقرہ )
یمین عربی میں عہدوپیمان کو کہتے ہیں اور معاہدہ توڑنے کو بھی ۔البتہ یہ بھی ہوتا ہے کہ کبھی یمین سے حلف یا قسم مراد ہوتا ہے۔کفارہ حلف پر ہی ہوتا ہے۔
لایؤاخذکم بالغو فی ایمانکم ولکن یؤاخذکم اللہ بما عقدتم الایمان فکارتہ اطعام عشرة مساکین من اوسط ما تطعمون اہلیکم أو کسوتھم أو تحریر رقبة فمن لم یجد فصیام ثلاثة ایام ”ذٰلک کفارة أیمانکم اذا حلفتم” واحفظوا ایمانکم کذٰلک یبین اللہ لکم آیاتہ لعکم تشکرونO( المائدہ آیت89)
آیت میں اللہ نے واضح کیا کہ ” یہ تمہارے یمین کا کفارہ اس صورت میں ہی ہے جب تم نے حلف اٹھایا ہو”۔ اندھا بھی سمجھتا ہے کہ یمین حلف ہو تو تب کفارہ ہے ۔ یمین سے حلف مراد نہ ہوتو پھر کفارہ نہیں ہے۔ جیسے اللہ نے فرمایا: فانکحوا ماطاب لکم من النساء مثنی وثلاث ورباع وان خفتم ان لاتعدلوا فواحدہ او ماملکت ایمانکم ” پس تم نکاح کرو،جن کو تم عورتوں میں سے چاہو۔ دودو، تین تین اور چار چار اور اگر تمہیں خوف ہو کہ عدل نہیں کرسکوگے تو پھر ایک یا جن سے تمہارا عہدوپیمان ہوجائے ”۔ یہاں یمین سے معاہدہ مراد ہے حلف نہیں۔ کفارے کا بھی کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا ہے۔
اللہ نے یمین کو عہدوپیمان اور حلف کی صورتوں کو واضح کردیا تو حنفی شافعی جھگڑوں میں آیت کے حکم میں بٹوارہ اور بوٹی بوٹی کرنا بہت بڑی بدنصیبی ہے۔
سورہ مجادلہ میں60دن کے روزوں کا کفارہ متتابعات (تسلسل کیساتھ) ہے ۔ اگر حنفی مسلک اس کا حوالہ دیتے تو شافعی بھی مان جاتے مگر خبرواحد آیت کا عقیدہ قرآن میں تحریف ہے۔ عبداللہ بن مسعود نے بھی متعہ یا معاہدے کی تفسیر حدیث سے لکھ دی تھی جس کو حنفی الگ آیت مانتے ہیں لیکن متعہ کو پھر کیوں جائز نہیں سمجھتے؟۔ درسِ نظامی کی تعلیم صرف یہ نہیں کہ جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں بلکہ فقہی مسالک کے نام پرقرآن کو بوٹی بوٹی بنایا جارہاہے۔ قرآن میں استنجوں کے ڈھیلے نہیں بلکہ کائنات کو مسخر کرنے کیلئے سائنس کی دعوت ہے۔ اللہ نے قرآن کے سائنسی حکم پر عمل سے مغرب کو بلند اور مسلمان کو پست کردیا۔
مغرب نے اپنے پادریوں کے مسخ شدہ مذہب کو گرجوں تک محدود کرکے پارلیمنٹ کے ذریعے انسانی حقوق نکاح وحق مہر اور خلع وطلاق پر قانون سازی کی تو وہاں انسانی حقوق نظر آتے ہیں۔ مغرب نے ڈکٹیٹر شپ اور بادشاہت کی جگہ جمہوری نظام کے ذریعے سیاست کو فروغ دیا تو اقتدار پر زبردستی قبضہ کرنے اور انتقال اقتدار کیلئے خون خرابہ اور قتل وغارت گری کا ماحول ختم ہوگیا۔ صحیح مسلم میں حدیث ہے کہ ” اہل غرب ہمیشہ حق پر رہیںگے” ۔آج ہمارے مسلمانوں کی حکومتوں میں انسانی حقوق کی زبردست پامالی ہے اور مغربی ممالک پر رشک ہے تو اس کردار کی بدولت ہے۔ قرآن کے الفاظ محفوظ ہیں لیکن اس کے معانی اور احکام کی بوٹی بوٹی کرکے معنوی تحریف کی آخری حدیں پار کی گئی ہیں۔ مولانا انور شاہ کشمیری نے اپنی فیض الباری میں اس معنوی تحریف کا اعتراف کیا ہے۔
سورہ بقرہ آیت224میں یمین سے مراد حلف نہیں بلکہ طلاق وایلاء کیلئے مقدمہ ہے کہ اللہ کو اپنے یمین کیلئے ڈھال مت بناؤ، کہ تم نیکی کرو، تقویٰ اختیار کرو اور لوگوں کے درمیان صلح کراؤ”۔ شیطان سب سے زیادہ اس کارکردگی پر خوش ہوتا ہے کہ جب میاں بیوی کے درمیاں صلح میں کوئی رکاوٹ ڈال دے اور آج کل سب سے زیادہ مذہبی طبقہ علماء ومفتیان شیطان کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں اور میاں بیوی کے درمیاں صلح میں رکاوٹ ہیں۔
آیت225البقرہ سے حلف مراد نہیں بلکہ شوہر کا ناراضگی کیلئے کوئی بھی لفظ مراد ہے جوواضح الفاظ میں طلاق کا نہ ہو۔ اللہ نے واضح کیا کہ” لغو بات پر تمہاری پکڑ نہیں ہوگی مگر تمہارے دلوں نے جو کمایا ہے اس پر اللہ پکڑتاہے”۔دل کی اس کمائی پر پکڑنے کی وضاحت اگلی آیات226،227میں بالکل واضح ہے۔
آیت226البقرہ میں واضح کیا ہے کہ ” ان لوگوں کیلئے چار ماہ ہیں جنہوں نے اپنی عورتوں سے لاتعلقی اختیار کررکھی ہے۔ پھر اگر وہ آپس میں مل گئے تو اللہ غفور رحیم ہے”۔ پھر آیت227میں واضح کیا ہے کہ ” اگر طلاق کا عزم کیاہے تو اللہ سننے جاننے والا ہے”۔ یعنی طلاق کے عزم کے باوجود بھی طلاق کا اظہار نہ کرنا دل کا گناہ ہے جو اللہ سنتااور جانتا ہے اور اس پر پکڑتا ہے۔ اسلئے کہ طلاق کا اظہار کردیا تو عورت کو 4مہینے کی جگہ3مہینے انتظار کی عدت گزارنی پڑے گی۔ جو آیت228البقرہ میںواضح ہے۔ایک مہینے اضافی عدت گزارنے پرعورت کو مجبور کرنا دل کا وہ گناہ ہے جو طلاق کا اظہار نہ کرنے کی وجہ سے ملتا ہے۔
آیت226البقرہ میں اللہ نے ایلاء اور ناراضگی کی ”عدت” کو واضح کیا۔ طلاق کا واضح الفاظ میں اظہار نہ ہو تو پھر کتنی مدت تک شوہر کیلئے عورت کا انتظار ہے؟۔ قرآن میں4ماہ واضح ہیں۔ قرآن کا بٹوارہ کرنے والوں نے آیت226البقرہ میں4ماہ کی عدت کو عدت سے نکال دیا۔ پھر ایک طبقہ کہتا ہے کہ چار ماہ کے بعد بھی زندگی بھر عورت کو انتظار ہی کرنا پڑے گا۔ اس طبقے میں جمہور فقہاء اور علامہ ابن تیمیہ اوراس کے شاگرد ابن قیم شامل ہیں۔ جبکہ حنفی کہتے ہیں کہ چار ماہ بعد طلاق پڑگئی۔ اس آیت کی بوٹیاں ان لوگوں نے ہوا میں اچھال دیں ہیں۔ ایک عورت چار ماہ بعد بدستور خود کو ایک شخص کے نکاح میں مقید سمجھے گی اور دوسری طرف وہ سمجھے گی کہ نکاح سے نکل چکی ؟۔ یہ عورت اور اللہ کے کلام قرآن کیساتھ بہت بڑا گھناؤنا کھلواڑ ہے جو فقہاء ومحدثین نے کردیاہے ۔ جب دنیا کو قرآن کا صحیح پیغام پہنچے گا کہ ناراضگی میں عورت کی عدت چار ماہ ہے تو بڑامعاشرتی انقلاب برپا ہوگا۔ شوہر اپنی بیویوں کی حق تلفی نہیں کریںگے۔
قرآن کو بوٹی بوٹی کرنے کی بہت مثالیں ہیں۔ اللہ نے وضو میں سر کے مسح کا حکم دیا۔ ومسحوابرء و سکم ”اورسروں کا مسح کرو” ۔ حنفی کے نزدیک سر کے ایک چوتھائی کا مسح فرض ہے اسلئے کہ ب الصاق یعنی ہاتھ لگانے کیلئے ہے۔ شافعی کے نزدیک ایک سر کے بال کا مسح کرنے پر فرض پورا ہوگا ۔ب بعض کیلئے ہے۔ مالکی کے نزدیک پورے سر کا مسح فرض ہوگا ایک بال رہ جائے توبھی فرض پورا نہیں ہوگا۔ اسلئے ب زائدہ ہے۔ حالانکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ جب چہرہ بھی دھویا جائے ، ہاتھ کہنیوں اور پیر ٹخنوں تک دھوئے جائیں تو سر پر ہاتھ پھیرنا بھی فطری بات ہے۔ جہاں تک اس کے ڈھکوسلہ فرائض اور بدعات کا تعلق ہے تو اللہ نے تیمم کی آیت میں ان کے چہروں پر کالک مل دی ہے اسلئے کہ اس ب کا استعمال کرتے ہوئے فرمایا : ومسحوا بوجوھکم ”اور چہروں کو مسح کرو”۔ اس میں تو بال برابر اور ایک چوتھائی کی تقسیم نہیں ہوسکتی ہے۔ مفتی محمد شفیع نے لکھا کہ مولانا انورشاہ کشمیری نے فرمایا کہ ”میں نے قرآن وسنت کی کوئی خدمت نہیں کی بلکہ اپنی ساری عمر ضائع کردی کیونکہ فقہ کی وکالت کی ہے”۔ مفتی محمدشفیع دارالعلوم کراچی سے قرآن وسنت کی خدمت چاہتے تھے تو پھر درس نظامی کی یہ تعلیم کیوں رائج کردی جس کی مولانا انورشاہ کشمیری نے آخرمیں مخالفت کی؟۔
مولانا یوسف بنوری نے مدرسہ ایک انقلاب کیلئے بنایا تھا اور اللہ نے مجھے وہاں تعلیم کیلئے ایک طالب علم کی حیثیت سے ڈال دیا تو ان کی خواہش بھی پوری ہوگئی۔ ہمارے مرشد حاجی محمد عثمان ان کے دوست تھے۔ کچھ لوگوں نے پیسوں کی خاطر اپنا دین ایمان بیچ کر حاجی عثمان پر فتوے لگائے اور کچھ نے مولانا محمد بنوری کو شہید کرکے ظلم کی انتہاء کردی۔ دین فروش اور ظالموں سے اللہ دین کی خدمت کا کام نہیں لیتاہے۔ قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کرنیکی عمدہ مثالیں یہ ہیں کہ
سورہ بقرہ کی آیت228میں اللہ نے واضح کیا ہے کہ ” طلاق والی عورتیں تین ادوار تک انتظار کریں……. اور ان کے شوہر اس میں ان کو اصلاح کی شرط پر لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں”۔ ٹوکے والی سرکار حضرت نے پہلا وار یہ کیا ہے کہ شوہروں سے زیادہ مولوی کے فتوے کا حق ہے۔ دوسراوار یہ کردیا کہ طلاق رجعی ہو تو شوہر کو دومرتبہ رجوع کا غیرمشروط حق حاصل ہے۔ یعنی اللہ نے ایک دفعہ بھی صلح کے بغیر رجوع کا حق نہیں دیا اور ٹوکے والی سرکار2دفعہ رجوع کا حق دیتی ہے۔ اگلی آیت229البقرہ میں دو مرتبہ طلاق کیساتھ رجوع کیلئے معروف کی شرط ہے۔اللہ تو اپنی کتاب میں تضادات کا شکار نہیں ہے کہ ایک آیت میں عدت کے اندر اصلاح کی شرط پر رجوع کا حق دے دیا اور دوسری آیت میں پھر اس سے چھین لیا کہ ایک نہیں دومرتبہ غیرمشروط کرسکتے ہو؟۔ قرآن پر تیسراوار یہ کردیاکہ ایک ساتھ تین طلاق دئیے تو عدت میں رجوع کا حق باہمی اصلاح سے بھی ختم ہوگیا، اب حلالہ کرنا پڑیگا۔ چوتھا وار یہ کہ اللہ نے3ادوار تک انتظار کا حکم دیا تھا جس سے ایک عدت بنتی تھی مگر مولوی نے دو دفعہ طلاق رجعی کا حق دیا اور شوہر کو تین عدتوں کا حق دے دیا۔ ایک بار طلاق دی اور عدت کے آخری لمحے میں رجوع کرلیا، پھر دوسری بار طلاق دی ،پھر عدت کے آخرمیں رجوع کیا اور پھر طلاق دی تو عورت کی تین عدتیں گزارنی پڑیں گی۔ علاوہ ازیں اگر عورت کو ایک یا دو طلاق دیکر فارغ کردیا اور پھر اس نے کسی اور شوہر سے نکاح کیا اور وہاں سے طلاق ہوگئی تو سوال یہ پیدا ہوگا کہ نئے سرے سے پہلاشوہر3طلاق کا مالک ہوگا یا پھر جو پہلے سے ایک یا دو طلاق موجود ہیں اسی کا مالک ہوگا؟۔ اس پر امام ابوحنیفہ وجمہور کا بھی اختلاف ہے اور احناف کا آپس میں بھی؟۔ اگر ایک عورت کو10اشخاص ایک ایک طلاق دیکر فارغ کریں تو ان سب کی جیب میں اس عورت کی2،2طلاق کی ملکیت کا بھی پروانہ ہوگا۔ قرآن کو بوٹی بوٹی کیا تو یہ لوگ شیخ چلی سے بھی بدتر ہوگئے ہیں۔ ہمیں جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی سے عقیدت ومحبت اسلئے ہے کہ زمانہ طالب علمی میں علماء حق نے نصاب کے خلاف نہ صرف سپورٹ کیا تھا بلکہ کتاب لکھنے والے ملاجیون کے لطیفے بھی سنائے تھے۔
آیت229البقرہ کو بھی ایسی بوٹی بوٹی بنادیا ہے کہ جب سنتے جائیں گے تو شرماتے جائیں گے۔ اللہ نے واضح کیا کہ ” طلاق دو مرتبہ ہے۔ پھر معروف طریقے سے روکنا ہے یا احسان کیساتھ چھوڑنا ہے”۔ یہ آیت228کی تفسیر ہے کہ عدت کے تین مراحل میں سے پہلے دو مراحل میں دو مرتبہ طلاق ہے اور پھر رجوع کرنا ہو تو معروف کی شرط پر کرسکتے ہو اور چھوڑنا ہو تو تیسرا مرحلہ آخری ہی ہے۔ پھر اس کی عدت پوری ہوگی اور کسی اور شوہر سے نکاح کرسکے گی۔ جب نبی ۖ سے پوچھا گیا کہ قرآن میں تیسری طلاق کونسی ہے تو فرمایا ہے کہ یہی کہ احسان کیساتھ چھوڑنا ہی تیسری طلاق ہے آیت229البقرہ میں۔ حنفی مسلک نے ٹوکا اٹھایا کہ اگر عدت میں نیت کے بغیر بھی شہوت کی نظر پڑگئی ،چاہے مرد یا عورت رجوع نہ بھی کرنا چاہتے ہوں تو یہ رجوع ہے۔ شافعی مسلک میں ہے کہ اگر رجوع کی نیت نہ ہو تو تب جماع بھی کیا جائے تو رجوع نہیں ہوگا۔ باہمی رضا مندی اور معروف رجوع کے تصورکو ٹوکے مار مار کر بوٹی بوٹی بنادیا۔ حالانکہ اس کی احادیث صحیحہ میں زبردست وضاحتیں ہیں کہ پہلے طہر میں اپنے پاس رکھو ،حتیٰ کہ حیض آجائے۔ پھر دوسرے طہر میں پاس رکھو ، حتی کہ حیض آجائے۔ تیسرے طہر میں اگر رجوع چاہتے ہو تو رجوع کرلو اور چھوڑ نا چاہتے ہو تو ہاتھ لگائے بغیر چھوڑ دو اور یہی وہ عدت ہے جس میں اس طرح طلاق کا اللہ نے حکم دیا ہے۔
قرآن و احادیث کی وضاحتوں کے باوجود کم عقلی کے ٹوکے سے قرآن کا حکم بوٹی بوٹی بنادیا۔ پھر اگر تینوں مراحل میں چھوڑنے کے عزم پر قائم رہے تو اللہ نے کہا کہ ”جو کچھ بھی ان کو دیا ہے ، اس میں سے کچھ بھی واپس لینا جائز نہیں ہے مگر جب دونوں کو خوف ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے اور اگر تمہیں خوف ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو عورت کی طرف سے وہ چیز فدیہ کرنے میں دونوں پرحرج نہیں ”۔(البقرہ آیت229)
اللہ نے تین طلاق کے بعد یہاں عورت کے حق کی حفاظت کی کہ دی ہوئی کوئی چیز واپس نہیں لے سکتے مگر اگر خدشہ ہو کہ کوئی چیز ملاپ اور رابطے کا ذریعہ بنے گی تو پھر وہی دی ہوئی چیز فدیہ کرسکتے ہیں۔ یہ خلع نہیں ہے کہ ٹوکے والی سرکار نے اس کو خلع بنایا۔ یہاں حق مہر مراد نہیں اسلئے کہ حق مہر تو ہاتھ لگانے سے پہلے صرف نکاح کرنے سے آدھا گیا اور جب شب زفاف گزاری تو عورت کو تکلیف کے بدلے پورا حق مہر مل گیا۔ دوسری دی ہوئی چیزوں کو بھی طلاق میں نہیں لے سکتے۔ جس کی آیت20،21النساء میں بڑی وضاحت ہے۔ٹوکے والی سرکار حق مہر اور منہ مانگے خلع کی رقم مراد لیکر قرآن کو بوٹی بوٹی کررہی ہے اور عورت کی بدترین حق تلفی کررہی ہے شوہر جب بھی چاہے گا ،مارپیٹ کر اس کے باپ سے بھی پیسے نکلوائے گا اور خلع لینے پر مجبور کرے گا۔ حالانکہ خلع عورت کی اپنی چاہت سے جدائی کا نام ہے۔ آیت19النساء میں اس کی بھرپور وضاحت کی ہے لیکن ٹوکے والی سرکار نے اس آیت کو بھی ٹکڑے ٹکڑے کرکے شرمناک کردار ادا کیا ہے۔ اللہ نے بار بار یہ واضح کیا ہے کہ عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد باہمی رضامندی سے رجوع ہوسکتا ہے۔ جس میں سورہ بقرہ کی آیات228،229اور231،232بھی شامل ہیں اور سورہ طلاق کی آیت1اور2بھی شامل ہیں۔ ان میں یہ بھی واضح ہے کہ باہمی رضامندی کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔ لیکن ٹوکے والی سرکار باہمی رضامندی، معروف کی شرط اور باہمی اصلاح کی وضاحتیں نظر نہیں آتی ہیں۔ اسلئے آیت230البقرہ میں یہ واضح کردیا کہ جب دونوں طرف سے جدائی کا حتمی فیصلہ ہو تو فیصلہ کرنے والے بھی فیصلہ کن جدائی پر پہنچ جائیں ، جہاں رابطے کے خوف سے بھی کوئی چیز نہیں چھوڑی جائے کہ پھر جائز نہیں ناجائز تعلقات میں مبتلاء ہوں گے۔ تواللہ نے واضح کیا کہ اس طلاق کے بعد پھر عورت پہلے کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہر سے نکاح کرلے۔ یہ آیت229البقرہ سے مربوط ہے لیکن قرآن کی بوٹیاں بناکر سارے حدود توڑ دئیے گئے ہیں۔ حالانکہ اللہ نے ان تمام حدود کو زبردست وضاحتوں کیساتھ بیان کیا تھا لیکن قرآن کی بوٹی بوٹی بنانے والوں نے ظالموں کا ثبوت دیا۔ اس میں طلبہ کو لگادیا کہ ادوار سے مراد حیض ہے یا طہر؟ اور خلع جملہ معترضہ ہے یا تیسری طلاق کیلئے مقدمہ ؟۔ جس جاہلیت سے قرآن نے امت کو نکال دیا ،اس میں لوگوں کو دوبارہ ڈال دیا گیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ فروری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv