پوسٹ تلاش کریں

جھوٹ نے قوم کو اندھا کردیا؟

جھوٹ نے قوم کو اندھا کردیا؟

پشتو کی مشہور کہاوت ہے کہ ”جب سچ آتا ہے تو جھوٹ گاؤں کو پہلے سے بہا چکا ہوتا ہے”۔ رات کے آخری پہرکبیرپبلک اکیڈمی میں مولوی شبیر صاحب نے گھر کے دروازہ پر بہت شدت سے دستک دی اور کہا کہ بہت بڑا زلزلہ آنے والا ہے۔ کوہاٹ بالکل غرق ہوجائے گا۔ میں نے اپنے بچوں سے کہا کہ آرام سے نکلو۔ اپنے ساتھ بستر بھی لے جاؤ ۔ سخت سردی تھی ۔ چھوٹے بچے محمد نے زور زور سے اللہ کا ذکر شروع کردیا۔ میں نے کہا کہ گھبراؤ مت زمین جھولا بن جائے گا۔ اس نے کہا کہ زمین کو تو خدا ایسا جھولا بنادے کہ ہمارے لحاف گھر سے باہر جا پڑیں۔ دوسرے بچے عمر نے کہا کہ پانی بھی آئیگا۔ جاپان میں سونامی گزر چکا تھا تو میں نے کہا کہ پانی نہیں آئے گا۔ باہر غازی عبدالقدوس بلوچ کا بیٹا فضیل بھی سردی میں کھڑا تھا۔ میں اس کے ساتھ گیا کہ سردی سے بچنے کیلئے کوئی چیز لے لو اور پھر جٹہ قلعہ اڈے کی طرف گیا۔ وہاں میں نے پوچھا کہ کوئی افواہ تو نہیں ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ پشاور، ڈیرہ اسماعیل خان ، بنوں، کوہاٹ ، ہزارہ ، سوات اور اسلام آباد تک سب لوگوں نے رات باہر گزاری ہے۔ میں نے بچوں سے مکالمہ بتایا تو بڑے بھائی ممتاز شاہ نے کہا کہ تم مسلمان ہو، خدا کا خوف نہیں؟، زمین پر اتنا بڑا عذاب آئے گا اور تم کہتے ہو کہ زمین جھولا بنے گا؟۔ میں نے عرض کیا کہ اگر واقعی کوئی مصیبت آنے والی ہے تو بچوں کا دل نکالنے کے بجائے آزمائش کی گھڑی حوصلے کیساتھ گزاریں۔ اگر جھوٹ ہے تو بھی خوامخواہ کا خوف غلط ہے۔ مجھے کراچی میں صبح دفتر آتے ہوئے رنچھوڑ لائن میں ساتھی نے بتایا کہ ایک افواہ چلی کہ مولانا فضل الرحمن کو قتل کردیا گیا لیکن تصدیق ہوگئی ہے کہ جھوٹ ہے۔ پھر رات کو 11بجے کسی نے خبر سنائی کہ لالو کھیت سے آیا ہوں اور مولانا فضل الرحمن کو قتل کیا گیا ہے۔ میں نے سوچا کہ جب کراچی کا یہ حال ہے جہاں دکانوں میں بھی TVرکھے ہیں تو گاؤں دیہاتوں اور دیگرشہروں کا کیا حال ہوگا؟۔ پھر کسی سے پوچھ لیا کہ زلزلے کی خبر TVمیں آئی ہے؟۔ تو اس نے کہا کہ TVپر یہ خبر نہیں ہے۔ پھر میں نے کہا کہ بس پھر تو صاف جھوٹ ہے اور گھر میں بھی بتادیا ۔
کوئی بھی افواہ اور جھوٹا بہتان کسی کے خلاف پھیلانا ہو تو پہلے زبان کی دیر تھی اور اب سوشل میڈیا نے طوفان برپا کیا ہوا ہے۔ اگر سزا وجزاء کا قانون دنیا میں نہیں ہو تو پھر بہت مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ حکومتوں کو بدلا جاتا ہے۔ ریاست کو بدنام کیا جاتا ہے اور سیاسی جماعتوں کا بیڑہ غرق کردیا جاتا ہے۔ فرقہ واریت کا طوفان اٹھایا جاتا ہے۔ توہین مذہب کے نام پر اشخاص، گھر اور گاؤں تباہ کردئیے لیکن یہ قوم کوئی سبق سیکھنے کو تیار نہیں ہے۔ پنجاب کے اندر جو بل پاس ہواہے تو قانون سازی کی افادیت سے انکار نہیں لیکن مزید خرابیوں کا خدشہ بھی ہے۔
میڈیا کے عنوان میں جھوٹ ہوتا ہے، جس پر جرمانہ لگایا جائے تاکہ یوٹیوب کی کمائی کیلئے یہ شیطان لعین کی طرح جھوٹ سے کام نہ لیں۔اگر قرآن وسنت کا قانون ہتک عزت کے حوالے سے کمزور وطاقتور کیلئے نافذ کردیا جائے تو بڑے انقلاب کی توقع ہے۔ اس قوم کا ضمیر بالکل مرچکا ہے اور لوگ مایوسی کا شکار ہیں۔ قرآن وسنت کے ذریعے مردہ ضمیروں میں روح ڈال کر زندہ کیا جاسکتا ہے اور اس کیلئے بنیاد کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہے۔ حضرت یوسف کے بھائی حضرت یعقوب کے بیٹے، حضرت اسحاق کے پوتے اور حضرت ابراہیم کے پڑپوتے تھے لیکن اپنے نبی بھائی حضرت یوسف کیساتھ انہوں نے حسد کی وجہ سے کیا سلوک کیاتھا؟۔ پاکستان میں سیاسی، طبقاتی، لسانی، فرقہ وارانہ اور مفادپرستانہ کشمکش کا سلسلہ بہت تیزی سے جاری ہے۔ہمارے مہمانوں، قرابتداروں اور گھر کے افراد سمیت 13لوگوں کو شہید کرنے والے طالبان کو ہمارے کچھ عزیز وں نے کیوں غلط راستے پر استعمال کرلیا؟۔نامعلوم سے زیادہ معلوم لوگوں کا اس میں کردار تھا۔

عمران خان کا عدت نکاح کیس اور حسن نثار کی بیہودہ بکواس اور ملک بھر میں جرائم کی داستانیں

قرآن میں عدت کی یہ اقسام ہیں ۔1: ایلاء کی عدت ، 4ماہ۔ البقرہ 226۔ 2: طلاق کی عدت ۔ 3ادوار طہرو حیض یا3 ماہ اور حمل کی عدت وضع حمل۔ 3: بیوہ کی عدت 4ماہ 10دن۔ اور حدیث میں خلع کی عدت ایک حیض یا ایک ماہ ہے۔
ہم عمران خان اور بشریٰ بی بی کی نہ وکالت کرتے ہیں اور نہ مخالفت اسلئے کہ جب اچھے دن تھے تو سب ٹھیک تھا اور برے دن آئے تو سب غلط ہوگیا۔ عدل و انصاف ، غیرت و حمیت اور اخلاقیات کا یہ تقاضہ نہیں کہ اس طرح تلپٹ ہو۔ تاہم حسن نثار اور جاوید غامدی وغیرہ مذہب کے نام پر انتہائی بیہودہ بکواس نہ کریں۔ جب شوہر قرآن و سنت کے مطابق حیض کے بعد پاکی کے دنوں میں ہاتھ لگائے بغیر طلاق دیتا ہے تو اس کو پتہ ہوتا ہے کہ پیٹ میں بچہ نہیں۔ مگر اسکے باوجود عدت کا تصور قرآن و سنت میں بالکل واضح ہے۔ حسن نثار بہت بھونڈے انداز میں کہتا ہے کہ آج کے دور میں الٹراساؤنڈ سے بچے اور بچی کا پتہ چل جاتا ہے تو عدت کی اس دور میں ضرورت دقیانوسی ہے۔ حسن نثار کی صحافت گٹھیا ہے۔ علماء احتجاج وہاں کرتے ہیں جہاں ان کا کوئی فائدہ ہوتا ہے یا کوئی ان کی دُم ہلا دیتا ہے۔
قرآن میں ہاتھ لگانے سے پہلے کی طلاق میں عورت پر عدت نہیں اور مرد پر آدھا حق مہر ہے۔ قرآن میں حق مہر امیر و غریب پر اپنی اپنی وسعت کے مطابق رکھا گیا ہے۔ چند دن پہلے ایک مغربی گوری خاتون کا پاکستانی کے ساتھ نکاح ہوا تو اس میں حق مہر 5ہزار رکھا گیا۔ یہ علماء نے قرآنی احکام کو مسخ کرکے رکھ دیا ہے اور جب تک قرآن کی طرف رجوع نہیں کریں گے تو ہماری اصلاح نہیں ہوگی۔
ہاتھ لگانے سے پہلے کی طلاق میں حرج نہیں۔ عورت کو ہاتھ لگایا جائے تو پھر عدت اسلئے ہے تاکہ حتی الامکان نباہ کی صورت نکلے اور بچوں کیلئے بھی والدین کا ساتھ رہنا عظمت کی بات ہے۔ جب میاں بیوی جدا ہوتے ہیں تو بچوں پر اسکے بہت برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔قرآن میں ہر چیزکا تعلق فطرت سے ہے اور یہ بہت گٹھیا بات ہے کہ بچوں کو عدت اور نکاح ثانی کا پتہ تک بھی نہیں ہو ۔
سعودی عرب سے قاضی صدیق نے اپنے آڈیو پیغام میں کہا ہے کہ اس کی شادی شدہ بھتیجی کا کسی آشنا سے تعلق تھا۔ پھر وہ نکاح میں اس کے ساتھ بھاگی اور لاہور کی عدالت سے اس کو اپنے آشنا کیساتھ جانے کا پروانہ مل گیا۔ یہ کیسا اسلام ہے ؟۔ یہ کیسی عدالت ہے؟۔ یہ کیسی غیرت ہے؟۔ میں آؤں گا تو اپنے بڑے قاضی احسان اور سب ذمہ داروں سے پوچھوں گا۔ میرا یہ پیغام عام کیا جائے۔
پاکستان اپنے پڑوسی اسلامی برادر ممالک میں سب سے زیادہ آزاد ملک ہے اور اس میں سب سے زیادہ آزادی کا تصور ہے۔ لیکن افسوس کہ ہم اپنی آزاد ی کو اچھے مقاصد کیلئے استعمال کرنے کے بجائے اپنے مفادات اور گالی گلوچ کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ سندھیوں کو کچے کے ڈاکوؤں سے مسئلہ ہے ، بلوچستان کے بلوچوں کو سرکاری باوردی فورسز سے مسئلہ ہے۔ صحافی بایزید خروٹی نے ایک ویڈیو بناکر کمال کردیا جہاں پولیس والے اپنے دوستوں کیساتھ لوٹ مار میں مصروف تھے اور یہ پتہ نہیں چل ر ہا تھا کہ انکا تعلق کس محکمے سے ہے؟۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ” خیبر پختونخواہ میں ریاست کی رٹ ختم ہوچکی ہے اگر کچھ مسلح افراد پہنچ جائیں تو جنرل بھی چائے روٹی دیں گے”۔ پنجاب کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پارٹیوں کے ایم این ایز اور ایم پی ایز غنڈوں کو کورٹ کچہری اور پولیس کی مدد فراہم کرتے ہیں جس کی وجہ سے شریفوں کے پنجاب میں شریف لوگوں کا جینا دوبھر ہوگیا ہے۔ تنویر احمد مغل نے مریم نواز کو درخواست لکھی ہے۔ پنجاب میں بدمعاشی ختم کرنے سے مسئلہ حل ہوگا ورنہ توپھر غریب طالبان بن جائیں گے۔ جمہوریت کو جمہوریت کے علمبرداروں نے خراب کیا ہے وہ درست کرسکتے ہیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جون2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

ہم تمہاری عزتیں ، تمہاری جانیں اور تمہارے مالوں کوبچانے نکلے ہیں آؤ ہمارے ساتھ چلو!

ہم تمہاری عزتیں ، تمہاری جانیں اور تمہارے مالوں کوبچانے نکلے ہیں آؤ ہمارے ساتھ چلو!

وانذرعشریتک الاقربین
اور (اے نبی ۖ!) اپنی قریبی رشتہ داروں کو خوف دلاؤ۔ قرآن

اللہ تعالیٰ نے دورِجاہلیت کے عربوں میں جب آخری نبی حضرت محمد رسول اللہ ۖ کو مبعوث فرمایا تو سب سے پہلے اپنے عزیز واقارب کو ڈرانے کی تلقین کا حکم فرمایا۔ اسلام دنیا میں سب انسانوںکی عزتوں ، جانوں اور مالوں کوتحفظ فراہم کرتا ہے۔
اسلام کو خانہ کعبہ میں 360بتوں سے بڑامسئلہ عزیٰ ، لات اور منات کے نام پرعوام کی جان، مال اور عزتوں کی پامالی تھی۔ عورتیں اور مرد ننگے طواف کرتے، معمولی معمولی باتوں پر قتل وغارتگری کا بازار گرم ہوتاتھا اورلوگوں کے اموال کو سود، مزارعت ، ڈکیتی اور مجرمانہ اندازسے کھانے کا سلسلہ رہتا تھا۔ حلالہ سے لیکر کیا برائی اب باقی رہ گئی ہے؟۔
جب نبی ۖ نے حجاز میں انقلاب برپا کردیا تو سب سے پہلے اپنے چچا کے قتل اور اپنے چچا کے سود کو معاف کردیا۔ حالت جنگ میں بھی عورت اور پرامن لوگوں پر ہاتھ اُٹھانے سے منع کردیا تھا۔
آج پاکستان میں طبقاتی کشمکش نے حالات کو بہت نازک موڑ پر پہنچادیا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک دوسرے سے دشمنی کی انتہاء کی ہے۔ عوام کی مقبول قیادت عمران خان اور فوج کے درمیان محاذ آرائی نے حالات کوبہت نازک موڑ پر پہنچا یا۔ 2008ء سے2013ء تک پیپلزپارٹی ، آصف علی زرداری نے کچھ کیا تھا یا نہیں ؟۔ فوج، طالبان اورن لیگ نے پیپلزپارٹی کیخلاف محاذ آرائی کی۔ خواجہ شریف چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے قتل کا منصوبہ بنایا گیا ۔ صدر مملکت آصف زرداری اور سلمان تاثیر گورنر پنجاب کوملوث قرار دینا تھا۔ شہباز شریف وزیراعلی پنجاب تھا ۔ رؤف کلاسرا نے اپنی تحقیق بھی پیش کی تھی جس میں صحافی انصار عباسی بھی تھا۔
پارلیمنٹ اور سینٹ میں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کھل کر حقائق پر بحث کریں۔ اپنی اپنی غلطیوں کی بھی قوم سے معافی مانگیں۔ صحافیوں کو بھی کٹہرے میں لائیں اور ان سے غلطیوں کی معافی منگوائیں۔ پھر عمران خان، طالبان اور ریٹائرڈ فوجی افسران کی طرف سے بھی کھل کر غلطیوں کا اعتراف آجائیگا۔ اپنی غلطیوں کا اعتراف مسائل کا اصل حل ہے۔

مسلم لیگ وپیپلزپارٹی کا فائدہ کس چیز میں ہے؟

مسلم لیگ کے قائدین کہتے ہیں کہ PDM کی حکومت سے ہمیں فائدہ یہ پہنچا۔ کیس ختم ہوگئے اور عمران خان نے مرضی سے آرمی چیف نہیں بنایا۔ وہ سزائیں دلواتا اور ہماری مشکلات ختم نہ ہوتیں۔ مگر نقصان یہ بھی پہنچ گیا کہ ن لیگ کی مقبولیت کا گراف گرگیا اور عمران خان کو مقبولیت مل گئی ہے۔
2004ء میں ن لیگ اور پیپلزپارٹی کا گراف بہت گرچکا تھا اسلئے کہ دونوں نے ایک دوسرے کے خلاف کیس بنائے اور پروپیگنڈ ہ کیا تھا لیکن جب 2008ء کے بعد ایک مشترکہ حکومت بنائی اور پرویزمشرف کو بھی ہٹادیا تو یہ پھر ایک دوسرے کے پیچھے لگ گئے۔ کس کی غلطی تھی ؟ اور کس کی غلطی نہیں تھی؟۔ دونوں اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں تو عمران خان بھی اپنی غلطیوں کا اسی وقت اعتراف کرلے گااور میں نہ مانوں کا معاملہ ختم ہوگا تو یہ ملک ترقی کی منزل کا سفر طے کرسکے گا۔
زرداری اور سلمان تاثیر کو جسٹس شریف کے قتل کی سازش میں نہیں پھنسایا جاسکا لیکن سلمان تاثیر کا قتل، یوسف رضا گیلانی اور سلمان تاثیر کے بیٹوں کا افغانستان اغواء اس سلسلے کی کڑیاں تو نہ تھیں؟۔ سلمان تاثیر قتل سے علامہ خادم حسین رضوی برآمد ہوا۔پھر صحافی ابصارعالم نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو اسلئے نوازشریف کے ذریعے آرمی چیف بنوایا کہ اس کا سسر قادیانی تھا جس کی وجہ سے فوج میں زیر عتاب تھا۔ نوازشریف جنرل باجوہ کو خوش کرنے کیلئے قادیانیت کے حق میں بل لایا، جس میں اتحادی مولانا فضل الرحمن اور اپوزیشن عمران خان بھی شریک تھے۔ شیخ رشید نے آواز اٹھائی جس کا جماعت اسلامی نے ساتھ دیا تھا۔ پھر فیض آباد دھرنے کا مسئلہ اٹھ گیا اور عمران خان بھی اس میں کود گیا جس میں احسن اقبال کو گولی ماری گئی تھی۔ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی جرائم کا اعتراف کریں تو عمران خان اور فوج جرنیل بھی غلطیوں کا اعتراف کریں گے۔ بلیم گیم کا سلسلہ جاری رہا تو ریاست و حکومت کا سمجھ سے باہر ناقابلِ تلافی نقصان ہوگا۔ اپنی غلطیوں پر اکڑنے سے ہوائیں اکھڑ جاتی ہیں اور اعتراف جرم سے معافی تلافی بھی ہوجاتی ہے۔

پاک فوج و عمران خان کا فائدہ کس چیز میں ہے؟

فوج و عمران خان ایک پیج پر تھے تو رانا ثناء اللہ پر20کلو ہیروئن کا کیس کردیا تھا لیکن یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ کس نے کیس کیا؟۔ رانا ثناء اللہ نے میڈیا کو بتایا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کیس کیا تھا اور جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ میرا اس میں کوئی کردار نہیں تھا؟۔ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ ”اگر ہائی کمان کا کردار نہ ہوتا تو جس فوجی افسر نے مجھ پر کیس کیا تھا تو اس کا کورٹ مارشل ہوجانا تھا”۔
آج تحریک انصاف کے قائدین اور کارکنوں پر جتنے پہاڑمشکلات کے ڈھائے گئے ہیں اس کا سارا ملبہ پاک فوج کے کھاتے میں جارہاہے۔ کچے کے ڈاکو، طالبان اور سیاست گردی کے تمام واقعات پر سوشل میڈیا میں تبصرہ ہوتا ہے تو فوج نشانہ بنتی ہے۔ 2008ء سے2013ء تک پیپلزپارٹی کی قیادت کیساتھ برا ہوا تو سندھ میں فوج کاگراف گر گیا۔ پختون ،بلوچ بہت پہلے سے بدظن تھے۔ 2013 سے 2018ء تک مسلم لیگ ن ، جیو ٹی وی اور دیگر کے خلاف عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کو اٹھایا گیا تو آدھاپنجاب فوج مخالف ،آدھا عمران خان کا حامی بن گیا پھر عمران خان کے خلاف اقدامات ہوئے تو باقی پنجاب بھی فوج کے خلاف کھڑا ہوگیا۔ فوج کا بہت بڑا نقصان ہوگیا اسلئے کہ پنجاب کو بھی ہاتھ سے کھو دیا ہے۔ KP، GB،کشمیر،بلوچستان و سندھ میں پہلے سے معاملہ خراب تھا۔ محمود اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن نے فوجی اہلکاروں پر الیکشن میں اربوں روپے میں قومی وصوبائی اسمبلیاں بیچنے کا الزام لگادیا اور نوازشریف کے قریبی سیاستدان میاں جاوید لطیف نے بھی کہا ہے کہ شیخوپورہ کی5 صوبائی سیٹوں پر 90کروڑ روپے لئے گئے تھے۔
مولانا فضل الرحمن کا گراف بہت گرچکا تھا اسی لئے پشین بلوچستان سے الیکشن لڑکر جمعیت علماء کی ناک کاٹ دی۔ پہلے بھی فیل ہوتا رہاہے اور جب پاس ہوا ہے تو فوج کی مداخلت سے بھی ہوا ہے۔ اب مولانا فضل الرحمن نے غیرت وعزت کا مقابلہ طاقت وجبر کا عنوان دے کر اچھی سیاست کا آغاز کردیا ہے۔ لیکن اس کے عقیدت مند حلالہ کی لعنت سے ایمان اور عزت دونوں کو اب کھورہے ہیں۔

افغانستان اورTTPکا فائدہ کس چیز میں ہے؟

افغان حکومت نے اپنی مدد کیلئے روس کو بلایا تھا تو مجاہدین نے جہاد شروع کیا اور امریکہ ، عرب اور چین سمیت پڑوسی ممالک پاکستان اور ایران نے بھی اس کی مدد کی تھی۔ چین وروس دونوں کمیونسٹ تھے لیکن روس کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈہ کیا گیا کہ وہ ماں بہن کو نہیں پہچانتا۔ حالانکہ یہ بات بالکل ہی غلط تھی۔ روس کے قانون میں نکاح کا بندھن بڑا مضبوط نظام تھا۔ ہمارے دوست ناصر علی نے ایک طلاق شدہ لڑکی سے نکاح کیا تو پتہ چلا کہ ایک سال تک طلاق کے پراسیس کے بغیر کسی اور شخص سے وہ نکاح نہیں کرسکتی تھی۔ اسلام میں طلاق کی عدت 3 ماہ ہے اور سویت یونین میں ایک سال ہے۔ اسی طرح کمیونزم میں محدود پیمانے پر ذاتی ملکیت کی قانونی اجازت تھی مگر لوگوں کو غلط فہمی کا شکار کیا گیا۔ 1970ء میں جمعیت علماء اسلام کے اکابرین نے سودی سرمایہ دارانہ نظام کیپٹل ازم کے مقابلے میں کمیونزم کو اسلام کے قریب قرار دیا تو مفتی اعظم اور شیخ الاسلام لوگوں نے ان پر کفر کے فتوے لگائے۔
افغان طالبان اور تحریک طالبان پاکستان نے امریکہ ، نیٹو اور اس کے اتحادیوں کیساتھ جہاد کیا تو کمالات کی تاریخ رقم کردی۔ امریکہ اور نیٹو نے یہ محسوس کرلیا کہ اس خطے میں سکون کی زندگی کسی بھی قیمت پر نہیں گزار سکتے ہیں۔ نیٹو کے نکلنے کے بعد افغانستان پر طالبان نے قبضہ کرلیا اور پھر TTP کی بڑی تعداد پاکستان آگئی۔ صحافی ہارون الرشید نے کہاتھا کہ” TTPسیاست کرے گی، ظاہر ہے کہ کوئی بنٹے تو نہیں کھیلے گی۔ اگر فوج کے خلاف جنگ کی توپہاڑوں کو ان کے خلاف گرم کیا جائیگا”۔
امریکی اہل کتاب اور پاک فوج مسلمان ہے۔ نبی ۖ نے اسلام کے بڑے دشمن قریش مکہ سے بھی صلح حدیبیہ کا معاہدہ کیا تھا۔ افغان طالبان اور TTPاب 10سال تک ہرقسم کی جنگ بند کریں۔ اور اپنی غلطیوں کا محاسبہ کریں۔ خطے کی مشکلا ت کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کریں۔ امن وسلامتی کا راستہ ترقی وعروج کی منزل اور فتح پر پہنچاسکتا ہے۔ جنگ وجدل میں تباہی وبربادی کے سوا کچھ نہیں رکھا ہے۔ اچھا ماحول کامیابی کی ضمانت بن سکتا ہے۔

گڈ طالبان بیڈ طالبان کا فائدہ کس چیز میں ہے؟

پا کستان میں گڈ اور بیڈ طالبان کی شکلیں بدلتی رہتی ہیں۔ عبداللہ محسود گوانتانا موبے سے جب رہا ہوکر آیا تو اپنا گروپ تشکیل دیا پھر بیت اللہ محسود کا گروپ بھی بن گیا۔ بیت اللہ محسود گڈ اور عبداللہ بیڈ بنادیا گیا۔ پھر ایک وقت آیا کہ بیت اللہ محسود بیڈ اور عبداللہ محسود کی باقیات گڈ طالبان بن گئے جس نے کمیٹی کے نام سے کام شروع کیا۔ کمیٹی کی سرپرستی حکومت کرتی تھی۔ کمیٹی کو فری ہینڈ دیا گیا تو اس میں ہرطرح کے لوگ شامل ہوگئے۔ بدمعاش لوگوں کی طرف سے جہاں طالبان کے ساتھ ظلم وزیادتی کی گئی وہاں شریف و بے گناہ لوگ بھی مارے گئے۔ پھر کمیٹی کے نام سے کام کرنے والے مارے گئے۔
اب تحریک طالبان پاکستان کے بڑے یہاں موجود نہیں ہیں لیکن ایک طرف بے لگام گروپ ان کے نام پر خود ساختہ کاروائیاں کرتے ہیں تو دوسری طرف ریاست نے ان کے خلاف گڈ طالبان بھی پال رکھے ہیں۔ اگر دونوں طرف کے لوگ پہلا کام یہ کریں کہ بندوق رکھیں۔ دوسرا اپنے جائز روزگار کی تلاش اور امن وسکون کی زندگی اپنائیں۔ تیسرا یہ کریں کہ اپنے اپنے چھوٹے بڑے جرائم کا بہت کھل کر اعتراف کریں۔ حضرت وحشی نے نبیۖ کے چچا سیدالشہداء امیر حمزہ کے کلیجے کو نکال دیا اور حضرت ہندہ نے چبا ڈالا تھا جس سے رسول ۖ نے فرمایا تھا کہ ”میرے سامنے مت آؤ ، میرا چچا یاد آتا ہے”۔ لیکن ان کو معاف کیا گیا تھا تو طالبان کی بھی معافی بالکل ہوسکتی ہے۔ دنیا میں توبہ کا دروازہ بالکل کھلا ہے۔ جب افغانستان سے نیٹو نکل گیا اور افغان طالبان نے قبضہ کرلیا تو ہم نے اپنے اخبار میں لکھ دیا تھا کہ طالبان میں بہت اچھے لوگ ہیں۔ بہت سے لوگ اس وقت طالبان بن گئے جب ان کی ساری دنیا اور اچھے لوگ تائید کرتے تھے۔ اب وہ وہاں پھنس گئے ہیں۔ امریکہ نکل چکاہے تو ایسے طالبان کی باعزت واپسی کا راستہ ہموار کیا جائے۔
پھر جب انکے ساتھ معاہدہ ہوا تو پاکستان میں تبدیلی آگئی۔ لوگوں نے بھی جلوس نکالے تھے۔ اب گڈ اور بیڈ دونوں ایک دوسرے کو سمجھتے ہیں لیکن امن وسکون کسی کوبھی میسر نہیں اسلئے ہتھیار رکھیں۔

اقبال جرم یامکرنے میں؟ فائدہ کس چیز میں ہے؟

حضرت آدم و حواء نے بھی اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کی تھی اور ابلیس لعین مردودنے بھی۔ حضرت آدم وحواء نے اقبال جرم کرلیا اور بلند مرتبہ پالیا اور ابلیس نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا اور مردود لعین بن گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ابلیس کو توبہ کی توفیق کیوںنہیں مل سکی ہے جبکہ حضرت آدم وحواء کو توبہ کی توفیق مل گئی۔ دونوں میں بنیادی فرق کیا تھا؟۔
شیطان لعین نے جان بوجھ کر اللہ کی نافرمانی کا ارتکاب کیا تھا اور اس میں تکبر تھا جبکہ حضرت آدم و حواء نے جان بوجھ کر حکم عدولی کا ارتکاب نہیں کیا۔ اسلئے شیطان اپنی غلطی پر ہٹ دھرمی سے قائم رہا تھا اور حضرت آدم وحواء نے جلدازجلد توبہ کرلی تھی۔
جب TTPنے ہم پر حملہ کرکے 13افراد کو شہید کردیا تو اقبال جرم کرلیا، معافی بھی مانگی اور یہ بھی واضح کردیا کہ تمہارے قرابتدار پیروں نے غلط پروپیگنڈہ کیا قاری حسین کا مرکزی کردار تھا لیکن قاری حسین وغیرہ کو کیوں مغالطہ دیا گیا تھا؟۔
طالبان نے اقبالِ جرم کرلیا، معافی مانگ چکے اور انہوں نے یہ پیشکش بھی کی کہ اصل مجرموں کو بھی ہم ٹھکانے لگاتے ہیں ۔ شہداء کے بدلے میں قاتلوں کو بھی قتل کردیں گے۔ لیکن پھر لائن کٹ گئی اب اگر حقائق سامنے آجائیں تو مجرم کے چہروں سے نقاب ہٹ جائینگے اور یہ سزا بھی کم نہیں ہے۔
افغان طالبان، داعش، تحریک طالبان پاکستان اور سارے جنگجو گروپوں کے قائدین ایک جگہ بیٹھ کر اپنی اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں۔ دوسرے کسی اور کی غلطیوں کو نہیں سمجھ سکتے۔ اگر افہام وتفہیم سے کام نہیں لیا گیا تو امریکہ اور دوسری قوتیں لڑائیں گی ۔
محمود خان اچکزئی نے بھی کہا ہے کہ” اس خطے میں بجلی، گیس اور پیٹرول مفت ہے لیکن افغانستان اور پاکستان کو آپس میں ایک ہونا ہوگا۔ میں طالبان اور پاکستان کی صلح کراتا ہوں”۔ اگر صلح نہیں ہوئی تو جنگ ہوگی ۔ ڈرون وجہازوں سے بمباری ہوگی۔ طالبان قیادت رہے گی اور نہ پاک فوج۔ عراق اور لیبیا کی طرح تباہ اور تیل وگیس پر قبضہ کرلیںگے۔ عمران خان اپنی ماں فوج کی گود میں بیٹھا تھا، کالے تیتر وں کی لڑائی صرف آواز تک محدود رہتی ہے۔

حنفی علماء ومفتیان کاعلم!

کانیگرم میں مولانا شاداجانکی مسجد میں پہلے مولانا گل بہادرتھا۔جو علماء سے غصہ میںکہتا تھا کہ ”قرآنی نسخے پرتمہیں پیٹ پیٹ پر اتنا ماروں گا کہ تمہاری بدعات کے سارے کیڑے گر جائیں”۔
وہ مسجد کی امامت اور دینی خدمت پر معاوضہ لینا حرام سمجھتا تھا۔ محنت مزدوری کرتا تھا۔ شاید مزدوری کرنے دوبئی گیا۔بڑا نیک تھا لیکن لوگ اس کو تھوڑا پاگل سمجھتے تھے۔ اگر قرآنی نسخے پر مارنے کی بات پنجاب میں کرتاتو لوگ اس کو گستاخی پر قتل کردیتے مگر ان کو یہ پتہ نہیں کہ ”فتاویٰ شامیہ میں صاحب الھدایہ کی کتاب تجنیس کے حوالے سے لکھا ہے کہ علاج کیلئے نکسیر سے سورہ فاتحہ کو لکھنا جائز ہے اور پیشاب سے بھی سورہ فاتحہ کو پیشانی پر لکھنا جائز ہے۔ اگر یقین ہو کہ اس سے علاج ہوجائے گا”۔
صدر تنظیم المدارس مفتی منیب الرحمن کے استاذ علامہ غلام رسول سعیدی نے لکھا کہ ” علامہ شامی کو قرآن سے عقیدت تھی۔ بال کی کھال اتارنے کے چکر میں یہ غلطی سرزد ہوگئی، اگر سورج کی طرح یقین ہوجائے کہ علاج ہوگا تب بھی سورۂ فاتحہ کوپیشاب سے لکھنے سے مرجانا بہتر ہے”۔علامہ سعیدی نے مجھے بتادیا کہ ” علماء نے میرا گریبان پکڑلیا تھا کہ تم نے علامہ شامی کے خلاف لکھنے کی جرأت کیسے کی؟ اور میں قتل ہوتے ہوتے اور پٹتے پٹتے رہ گیا تھا”۔
کوئٹہ کے سیدفرمان شاہ کو ہم نے جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی بھیج کر سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کے خلاف فتویٰ لیا۔پھر مفتی تقی عثمانی کی کتاب فقہی مقالات جلد چہارم سے بھی حوالہ نقل کرکے اخبار ضرب حق میں شہ سرخیوں کیساتھ شائع کردیا تھا۔
بریلوی مکتب خاص کر دعوت اسلامی والوں نے ہمارے اخبار کے بڑے پیمانے پر فوٹوسٹیٹ کرکے مفتی تقی عثمانی کے خلاف زمین کو بہت گرم کردیا تھا لیکن ان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ان کے اپنے کیا کہتے ہیں؟۔ مفتی تقی عثمانی نے روزنامہ اسلام کراچی میں لکھ دیا کہ ” میں یہ تصور بھی نہیں کرسکتا ۔اپنی کتابوں ”فقہی مقالات” اور” تکملہ فتح الملہم” سے نکالنے کا اعلان کرتا ہوں اور تنبیہ پر شکریہ ادا کرتاہوں”۔
مفتی تقی عثمانی نے خوف کی وجہ سے ”رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ ” کی رکنیت سے استعفیٰ دیا۔ ہم نے بریلویوں کو یاد دلادیا کہ تمہاری کتابوں میں بھی یہ چیز ہے تو پھر انہوں نے مفتی تقی عثمانی کی جان چھوڑ دی تھی۔پھر مفتی سعید خان نکاح خواں عمران خان نے اپنی کتاب ”ریزہ الماس” میں فاتحہ کوپیشاب سے لکھنا جائز قرار دیا ۔ اسلام کا بیڑہ غرق علماء نے کیا اسلئے انکے نام کیساتھ” رح” لکھنا چاہیے۔

ہمارے علماء ومفتیان!

کانیگرم میں مولانا شاداجان نے کہا کہ نماز کی سنتوں کے بعد اجتماعی دعا و حیلہ اسقاط بدعت ہے۔ جس پر مولانا محمد زمان نے قادیانیت کا فتویٰ لگایا۔ ہماری مسجد میں باہر سے علماء بلائے گئے۔ دونوں کی بات سن کر انہوں نے اپنا فیصلہ فارسی میں سنایا لیکن عوام کو فارسی نہیں آتی تھی۔ مولانا محمد زمان کے ہاں ڈھول کی تاپ پر رقص ہوا کہ ہم جیت گئے۔ مولانا شاداجان کے حامیوں نے بھی ڈھول بجاکر اعلان کردیا کہ ہم جیت گئے ۔ہماری مسجد کے امام مولانا اشرف خان نیک اور شریف انسان تھے جو دارالعلوم دیوبند کے فاضل تھے۔ اگر عوام کو اتنا بتادیتے کہ دارالعلوم دیوبند میں سنت نماز کے بعد اجتماعی دعا نہیں ہوتی۔ مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ کی بڑی کتاب ہے کہ سنتوں کے بعد اجتماعی دعا بدعت ہے۔ تو معاملہ حل ہوتا۔ حق بولنے سے خاموش تھا۔ اسلئے کہ خود بھی سنتوں کے بعد اجتماعی دعا کرتا تھا۔
سہراب گوٹھ میں جنت گل کی مسجد میرے کلاس فیلو مولانا عبدالرزاق ژوبی نے پکڑلی تھی اسلئے کہ وہ آبادی حکومت نے مسمار کردی تھی۔ امام بھی چھوڑ کر گیاتھا۔ افغانی نماز پڑھنے آتے تھے ۔ مجھے چنددن ژوبی صاحب نے امامت کی خدمت سپرد کردی ۔ مقتدیوں نے پوچھا کہ” سنتوں کے بعد اجتماعی دعا کیوں نہیں مانگتے؟”۔ جب میں نے دیوبند کا بتایا اور کراچی کے مدارس کا بتایا تو بہت حیران ہوگئے کہ پھر ہمارے افغانستان میں کیوں مانگی جاتی ہے؟۔ میں نے کہا کہ مولوی اپنے بچوں کو بھوکا نہیں مارسکتا ہے ۔ افغانی ان کو بھگا دیں گے کہ نیا دین بنادیا۔ وہ بہت خوش ہوگئے۔ کچھ لوگ اسکے گواہ ہوںگے۔
پنج پیری خود کو دیوبندی سمجھتے ہیں اور دیوبندیوں سے بہت اختلاف رکھتے ہیں۔ ہم دیوبندی اور پنج پیریوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کریں گے۔ مولانا قاسم نانوتوی و مولانا رشیداحمد گنگوہی میں اختلاف تھا۔ ہم دیوبندی بریلوی، حنفی اہل حدیث اور شیعہ سنی کو ایک پلیٹ فارم پر متحدو متفق کرنا چاہتے ہیں۔
لوگوں میں شدت جہالت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ مخلص علماء ومفتیان ایک جگہ بیٹھ کر الزام تراشی کے بجائے اپنی اپنی کتابوں میں غلطیوں کا اعتراف کریں تو پاکستان سے بڑا انقلاب آجائے گا۔ اور پاکستانی آئین کے مطابق قرآن وسنت سے قانون سازی کا آغاز ہوجائے گا۔ لوگوں میں جمود ٹوٹے گا اور فرقہ واریت کی جگہ متفقہ قانون سازی ہوگی۔ سب سے زیادہ وضاحتیں قرآن وسنت میں طلاق و رجوع کے مسئلے پر ہیں۔ اگر مذہبی طبقے نے قرآن کی طرف دیکھا تو فرقہ واریت کی گمراہی ختم ہوگی۔

ریاست مدینہ کا قانون

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی کابینہ نے ایک بل پاس کیا ہے جس پر صحافیوں نے مزاحمت کا اعلان کیا۔ دھاندلی کی پیدوار حکومت قانون سازی اپنے مقاصد کیلئے کرے توکیا مثبت تبدیلی آئے گی؟۔
جب عمران خان، شہبازگل اور اعظم سواتی نے DGCISI فیصل نصیرپرالزام لگائے تو عوام میں بڑی مقبولیت مل گئی۔ صحافی احمد نورانی نے شہباز گل اور اعظم سواتی کے الزامات کو غلط قرار دیا، حالانکہ وہ تحریک انصاف کا بڑا حامی اور فوج کا سخت مخالف نظر آتا ہے۔ بہتان پر سزا ہو تو یہ قرآن کے قانون کے عین مطابق ہے۔ عمران خان کی FIRاس کی مرضی کے مطابق درج نہیںہورہی تھی تو کہتا تھا کہ مجھ سے یہ روش ہے تو عام آدمی کا کیا حال ہوگا؟۔
جب عمران خان ریاست مدینہ کی بات کرتا تھا تو کہتا تھا کہ نبی ۖ نے فرمایا کہ پہلے قومیں اسلئے ہلاک ہوگئیں کہ امیر وغریب اور طاقتور وکمزور کے درمیان فرق کرتے تھے۔ اگر عمران خان اپنے دور میں اس تفریق کو ختم کرکے تھانوں میں عام لوگوں کو بھی اہمیت دے دیتا تو اس پر برے دن نہ آتے۔
حضرت عائشہ پر بہتان لگا تو بہتان کی سزا 80 کوڑے واضح کی گئی۔ یہی سزا کسی غریب خاتون پر بہتان لگانے کی ہے ۔ حضرت عائشہ ہماری ماں، نبیۖ کی زوجہ محترمہ اور خلیفہ اول ابوبکر صدیق کی صاحبزادی پر بہتان کی وہی سزا ہو،جو عام غریب خاتون کیلئے ہو تو پھر کیا پاکستان میں حکمرانوں کے تحفظ کیلئے کوئی ایسی قانون سازی کی ضرورت ہے جس میں عوام کو لوٹنے کا خدشہ موجود ہو؟۔ پنجاب پاکستان کیلئے زیادہ اہمیت رکھتا ہے مگر پنجابی کیساتھ بھی شروع سے زیادتی جاری ہے۔ جہاں مسلم لیگ کے سخت مخالف خضر حیات ٹوانہ کی حکومت 1942 سے1947ء تک قائم تھی، مسلم لیگ اپوزیشن تھی ۔
آج کی طرح انگریز دور میں مقتدرہ کی چلتی تھی اوراگر مریم نواز متنازعہ قانون کی جگہ پر قرآن کے مطابق برابری کی بنیاد پر ہتک عزت کا قانون بناتی تو مریم نواز مقبول بن جاتی۔ جمعیت علماء اسلام، جمعیت علماء پاکستان، جماعت اسلامی قرآن کے مطابق ہتک عزت پر 80 کوڑے کی آواز اٹھائیں توپھر کوئی بہتان نہیں باندھے گا۔ پیسوں کی سزا بھی امیروغریب کیلئے یکساں نہیں ہوسکتی ہے۔ جب کوئی سوشل میڈیا کا صحافی ایک مرتبہ 80کوڑوں کی سزا کھائے تو اس کا چینل بھی پھر کوئی نہیں دیکھے گا۔
ہماری جمہوریت فیصل واوڈا، محسن نقوی ہے اور 6ججوں نے بھی عدالت کا ترازو بگاڑ دیا ہے اسلئے پاک فوج براہ راست قرآن کیلئے آواز اٹھائے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جون2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

سیدمحمدامیر شاہ اورسیداحمد شاہ نمایاںکرادر۔ سید سبحان شاہ اورسیداکبرشاہ نمایاں کردار

سیدمحمدامیر شاہ اورسیداحمد شاہ نمایاںکرادر۔ سید سبحان شاہ اورسیداکبرشاہ نمایاں کردار

سیدمحمدامیر شاہ اورسیداحمد شاہ نمایاںکرادر:

تاہم، دوسرے لوگ راضی نہیں ہوئے اور مارچ 1877ء میں انہوں نے امیر شاہ (کانیگرم کے سید) اور دو علی زئیوں کو کابل میں امیر شیر علی خان کے پاس بھیجا تاکہ وہ ان کو حمایت پیش کریں، اس امید پر کہ وہ ان کے بدلے میں کچھ کر سکیں۔ (انگریز کیخلاف باہمی تعاون :انٹیلی جنس رپورٹ )
اگست میں جنڈولہ کے چار بیٹنی کانیگرم کے سید احمد شاہ کیساتھ گئے اور ستمبر میں ایک اور محسودوں کا گروہ بھی گیا۔( انگریز انٹیلی جنسیہ نے نظر رکھی تھی)
امیر نے ان کا انتہائی مہمان نوازانہ استقبال کیا۔قبائلی لوگ ان کو پسند کرتے تھے کیونکہ وہ انہیں ذاتی توجہ دیتا تھا اور انہیں اعزازی پوشاک اور نقد تحائف دیتا تھا۔(انگریز کے دل کی یہ دھڑکنیں)

Others, however, remained
unreconciled, and in March 1877 they sent Amir Shah (one of the Kaniguram Sayyids) and
two Alizais to offer their support to Amir Sher Ali Khan in Kabul, hoping that he might be
able to do something for them in return.118
In August four Bhittanis from Jandola followed with the Kaniguram Sayyid, Ahmed Shah, as
did another party of Mahsuds in September.120
The Amir treated them extremely
hospitably; the tribesmen were reported to like him because he paid them personal attention
and gave them dresses of honour and cash gifts.

سید سبحان شاہ اورسیداکبرشاہ نمایاں کردار:

میکالے نے سوچا کہ کانیگرم کے سیدخاص کر سبحان شاہ ، اسکا بیٹااکبر شاہ جو محاصرے کے دوران کم از کم دو مواقع پر محسودوں کے جاسوس نمائندے کے طور پر کام کر چکے تھے۔ میکالے کے 1870ء وسط دہائی کے سبحان شاہ کیساتھ اچھے تعلقات تھے۔ 1874ء میں جیسا کہ ہم نے پچھلے باب میں دیکھا اس نے بہلو ل زئی کیساتھ معاہدہ کرنے میں انکا کردار تسلیم کیا اور انہیں ایک یا دو سال بعد قبائلی پولیس میں 2 نوکری دی۔ تاہم، بعد میں،میکالے نے فیصلہ کیا کہ سبحان شاہ اور اکبر شاہ کابل حکومت سے سازش میںسر گرم تھے، جن سے رابطہ قریب کے لوگر وادی کے اُرمرڑوں کے ذریعے تھا۔ مجموعی طور میکالے نے کہا: یہ سید ”بڑے سازشی و دغاباز” تھے۔( جس نے رپوٹ کیااسی کی خانی چھن گئی؟)

Macaulay thought, the Sayyids ofKaniguram, in particular Subhan Shah and his son Akbar Shah, who had acted as theMahsuds’ representative on at least two occasions during the blockade. Macaulay had beenon good terms with Subhan Shah in the mid-1870s; in 1874, as we saw in the previouschapter, he acknowledged his role in helping him to reach agreement with the Bahlolzais,and gave him two sowars in the tribal police set up a year or two later. Subsequently,however, he decided that Subhan Shah and Akbar Shah were actively intriguing with theKabul government, with which they were in communication through the Urmars settled inthe nearby Logar Valley.103 In general, he said, these Sayyids were “great intriguers and schemers”.

بادشاہ خان درانی انٹیلی جینس قومی جرنیل کی بہت عزت تھی مگر انگریز کی انٹیلی جنسیہ حقیر تھی

فریب وقت نے گہرا حجاب ڈالا ہے وہاں بھی شمعیں جلا دو جہاں اُجالا ہے
سید حسن شاہ عرف بابو میرا پردادا، سلطان اکبر ”خان” میرا نانا تھا۔بابو اور سبحان کے نام دو قبیلے۔
میرانانا میرے دادا کا بھانجا جسے حکمت سکھا ئی، تاکہ انگریزسے دور ہو۔ چچا انور شاہ کلینک کرتاتوبڑا دولتمند ہوتا،چچازاد کہتا تھا: ”ہم پر حرام نہیں لگتا” ۔ اگر سخاوت نہ کریں تو پھر ہمیں حلال بھی نہیں لگتا۔
پاکستان کاپہلا صدر سکندر مرزا افسر تھا تومیرے نانا سلطان اکبر شاہ سے جٹہ قلعہ افغانی پیر ”شیر آغا” کیلئے کرائے پر مانگا ۔ مگر نانا نے کہا کہ ”میں افغان بھائیوں کے قتل کیلئے نہیں دیتا” ۔ انگریز پولیٹیکل ایجنٹ سے نانا نے کہا کہ جو تمہیں قتل کرتے ہیں ان کو زمینیں دیتے ہو اورجوقتل نہیں کرتے تو ان کو کچھ نہیں دیتے؟۔ پھر دائر ہ دین پناہ کی زمین دی۔
گومل مٹی کا مکان سستاتھا۔ میرے والد کانیگرم مسجد کیلئے ملکہ کوہسار مری سے کاریگر لائے تھے۔
پہلی بار شامی پیر کانیگرم آیا توداڑھی نہ نکلی تھی علماء نے سمجھا کہ میم ہے۔ ڈھول بجاکر لشکر لایاتھا۔ دادا نے شامی پیر کیساتھ بٹھادیا توشرمندہ ہوگئے۔ شامی پیر انکے منہ پر سگریٹ کا دھواں چھوڑرہاتھا۔ مَرزا( بھائی کوکہتے ہیں) علی خان فقیراے پی کے خطوط سیدایوب شاہ لکھتا تھاجوBAتھا،افغانستان سے پہلا اخبار نکالا۔امیرامان اللہ خان کا بھائی پکڑا گیا جو نادر خان کو قتل کرنا چاہتا تھا۔ سید ایوب شاہ پر حاسد نے غلط الزام لگایا۔ توپ سے اُڑانے کی سزا سنائی گئی پھر افغانستان سے جلاوطن کردیاگیاتھا۔
شامی پیردوسری بارآیاتو لشکر لیکر افغانستان میں رشتہ دارامیر امان اللہ خان کو اقتداردلانا چاہتا تھا۔ سیدایوب اسکا میزبان تھا پھر انگریز نے بمباری کی اور کانیگرم میں ہمارے گھرپر جہاز سے گولہ پھینکا ۔ ظفر علی خان نے 1937ء میں بمباری پر احتجاج کیا اور کانگریس کی خاموشی پر مذمتی اشعارلکھے۔ شامی پیر نے اپنا جانشین بنانا چاہا تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ استفادہ کریں ۔دادا نے جواب دیا کہ ”میں اپنے گناہ اللہ سے معاف کرواؤں تو بہت ہیں ،تیری خلافت کے گناہ کا بوجھ نہیں اٹھاسکتا”۔
فاضل دیوبند پیر مبارک شاہ نے سکول بنالیا۔ دادا نے کہا کہ ” انگریز کیلئے تعلیم یافتہ غلام مت بناؤ ، اب توکچھ لوگ بندوق اٹھالیتے ہیں ”۔ نانا نے کہا: ”عوام کو ہمارے گدھے چلانے سے مت نکالو”۔

” خان” کون او رکیسے؟؟:

کانیگرم کا”خان” لاولد میانجی خیل تھا۔ ایک بیٹی سیداکبرشاہ اورایک دل بند میانجی خیل کی بیوی تھی۔ دل بند اپنی بیوی کے حق کیلئے لڑا تھا لیکن 8 ایجنسیوں کے MNA شمن خیل محسود نے سید اکبر کی بیوی کے حق میں فیصلہ کرایا ۔ سید اکبر لاولد تھا۔ ایک بیٹی سے سوتیلا ماموں”محمود” اورایک بیٹی سے خالوپیرعالم شاہ ”خان بابا” تھا۔جو شامی پیرکے خلیفہ پیر اللہ دادا شاہ میانجی خیل کے فرزند تھے۔
اپر کانیگرم کا چوروں کیخلاف لشکر بن گیا۔ سید اکبر شاہ کے دوبھائی مظفرشاہ ، منور شاہ قتل ہوگئے۔ تیسرے صنوبر شاہ کو الزام لگاکر قتل کیا گیا پھر محمودکو چورنے قتل کیا ،یہ اتفاق تھایا پیچھے کوئی سازش تھی؟۔
سبحان کے پوتوں نے تنگی بادینزئی کو خیر بادکہا۔ بابو نے رہائشی مکان،زمینیں دیں۔ نانا نے مکان بیچا۔ خریدار نے کہا: ” مبارکباد دو”۔ دادا نے رقم دی اورکہا کہ صبح سامان نظر آیاتو اچھا نہیں ہوگا پھر مسجد کی قریبی زمین دلجوئی کیلئے دی۔ پیر کرم شاہ نے اٹلی سے خط لکھا کہ ”یہ گولی کی زبان سمجھتے ہیں، خان بننا ہمارا حق تھا ”۔ جٹہ قلعہ بنگلے میں فاروق شاہ سبحان شاہ کا جانشین تھا۔ یوسف شاہ کو فکرہے۔ اگر حقائق کاپتہ چلے توعناد کی جگہ الفت وموودت پیدا ہوگی۔
77ء میں رفیق شاہ شہیدخان بابا اورپیر فاروق شاہ کو بٹھاکرمیرے والد نے پیپلزپارٹی کے منو خان کنڈی کو جتوایا ۔ماموں 70ء میں قیوم ”شیر” 77ء مفتی محمودسے پرامیدتھے۔ فاروق لغاری صدر بنا تو اسے کہاکہ ”یہ کرسی نہ چھوڑنا”۔جنرل نصیر اللہ بابر دوست کو جیل میں نہیں ملاکہ سرکارناراض ہوگی۔
8قبائلی ایجنسیوں کی تمام انگریز انٹیلی جنسیہ کو یکجا کیا جائے تو عزت و غیرت میں کانیگرم کی عوامی انٹیلی جنسیہ کے بادشاہ خان اور اسکے خاندان کو نہیں پہنچ سکتے ۔ یہ شخصیت اور خاندان قابل رشک ہے۔ جنگ میں لاش اٹھانے کی ہمت شادی خان نے کی تھی مشکل ترین لمحات میں بادشاہ خان نے ساتھ دیا تھا۔لوگ عوامی انٹیلی جنسیہ کوعزت سے جرنیل کہتے مگر سرکاری انٹیلی جنسیہ کو حقیر سمجھتے ۔ 00 13 ملکان ووٹ بیچ کر MNA بناتے ۔ حمزہ نے ابوجہل سے کہا :اے چوتڑ کو خوشبو لگانے والامیرے بھتیجے کو گالی دی ہے؟۔ (الرحیق المختوم)سیدبلال کی عزت، ابولہب اور اسکی بیوی کی ذلت کردار کا انقلاب تھا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جون2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

لیلة القدر کی رات برصغیر پاک و ہند انگریز کے تسلط سے آزاد ہوگئے اور یہ بہت بڑا راز تھا

لیلة القدر کی رات برصغیر پاک و ہند انگریز کے تسلط سے آزاد ہوگئے اور یہ بہت بڑا راز تھا

جاپان پر ایٹم بم 15اگست 1945کوگرایا ۔ برصغیر کی آزادی 15اگست رات 12بجکر ایک منٹ پر رکھی تاکہ جاپان جس دن یوم سیاہ منائے، اس دن برصغیر پاک و ہند میں آزادی کا جشن منایا جائے۔
ہندوستان میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے آزاد ہند کے سربراہ کا حلف اٹھایا۔ گدھا، پالان اور سوار وہی تھے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے گورنر جنرل کا حلف اٹھایا تھا۔ پھر بھی جہاں بھارت آج آزاد ملک ہے تو وہاں کینیڈا میں برطانیہ کا حلف اٹھایا جارہا ہے۔
آزادی کا شعور لیلة القدر کافیض ہے۔ اللہ نے فرمایا :” ہم نے اس کو لیلة القدر میں نازل کیا اور تمہیں کیا پتہ کہ لیلة القدر کیا ہے؟ ۔ لیلة القدر ہزار مہینے سے بہتر ہے”۔ اگر آزادی طلوع فجر کے بعد ملتی تو القدر کا فیض نہ ملتا۔ مولانا عبید اللہ سندھی نے اپنی تفسیر میں لکھا کہ ”سندھ ، بلوچستان، پنجاب، کشمیر،سرحد اور افغانستان میں سبھی قومیں امامت کی حقدار ہیں۔ ان کی وجہ سے اسلام کی نشاة ثانیہ کا پوری دنیا میں آغاز ہوگا۔ امام ابو حنیفہ کے اساتذہ اہل بیت تھے اسلئے ایران یہ انقلاب قبول کریگا۔ قرآن کی طرف رجوع حنفی مسلک کی بنیاد ہے۔ احادیث کی کتابیں 100سال بعد لکھی گئیں۔جس کا یہ فائدہ تھا کہ سنت محفوظ ہوگئی مگر دوسری طرف اُمت مسلمہ کا عمومی رجحان قرآن سے ہٹ گیا اور امام ابو حنیفہ نے اسلئے قرآن پر بہت زور دیاتھا۔
(تفصیل سے دیکھئے تفسیر سورہ قدر المقام محمود)
میری والدہ نے اصرار کیا تومیرے دادا سید امیر شاہ نے بتایاکہ رمضان کی 27ویں لیلة القدر کو ہاتف غیب سے میں نے 3دفعہ یہ آیت سنی تھی۔
وامتازو االیوم ایھا المجرمون
”اور الگ ہوجاؤ آج کے دن اے مجرمو!”۔
حاجی محمد عثمان کو مولانا فقیر محمد نے مسجد نبوی ۖ میں الہام پر 27رمضان لیلة القدر کوخلافت دی۔ اور لکھ دیا کہ” بہت شکریہ کہ خلافت قبول فرمالی”۔
اگر پاکستان میں ہزار مہینے کے بعد بھی خلافت کے خواب کی تکمیل ہوجائے اور قرآن کی طرف قوم کارجوع ہوجائے تو بہت سستا سودا ہے۔ اب تواپنا کچھ بھی نہیں بگڑا ہے۔ ایک ایک مسئلے اور بات پر ہم ایک دوسرے کو چیلنج اور سازش کرنے کے بجائے وہ حقائق کھول کھول کر بیان کریں جن سے ہماری اور پوری قوم کی اصلاح ہوگی۔ فوج خود کو پاک سمجھ رہی تھی مگرپھرآنکھیں کھل گئیں تو سب کی کھل جائیں۔

آیت 230البقرہ میں تیسری طلاق نہیں ہے۔

اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا جھوٹ باندھا گیا ہے کہ آیت230میں تیسری طلاق مرادہے۔یہ لوگ قرآن اور نبی کریم ۖ کی حدیث کے علاوہ اپنے اپنے اکابرین اور درسِ نظامی کی تعلیمات کے بھی منکر ہیں۔ ریاضی، سائنس اور معاشرتی علوم سمجھنے والوں کو تو چھوڑئیے ،بالکل ان پڑھ لوگوں کی سمجھ میں بھی یہ بات آسکتی ہے کہ آیت 230سے مراد تیسری طلاق قطعی طور پربالکل بھی نہیں ہے۔
درسِ نظامی میں حنفی مسلک کا مؤقف یہ ہے کہ اس طلا ق کا تعلق آیت229کے شروع میں موجود الطلاق مرتان (طلاق دومرتبہ ہے) سے نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق آیت 229کے آخر میں 230سے بالکل متصل فدیہ کی صورت سے ہے۔ درس نظامی کی تعلیم حاصل کرنے والے اگر بالکل گدھے نہیں ہوں تو وہ حنفی مسلک کے اس مؤقف کو سمجھتے ہیں۔
اس حنفی مؤقف کی تائید ذخیرہ احادیث سے بھی ہوتی ہے۔ رسول اللہ ۖ سے صحابی نے پوچھا کہ قرآن میں تیسری طلاق کہاں ہے؟۔ نبیۖ نے فرمایا کہ ” آیت 229میں الطلاق مرتٰن فامساک بمعروف او تسریح باحسان میں تسریح باحسان ہی تیسری طلاق ہے۔
یہ حدیث دیوبندی مکتب کے وفاق المدارس کے صدر مفتی تقی عثمانی کے استاذ مولانا سلیم اللہ خان نے اپنی کتاب ”کشف الباری شرح صحیح البخاری ” اور بریلوی مکتب کے تنظیم المدارس کے صدر مفتی منیب الرحمن کے استاذ علامہ غلام رسول سعیدی نے اپنی کتاب ”نعم الباری شرح صحیح البخاری ” میں نقل کی ہے۔ علاوہ ازیں صحیح بخاری میں نبی ۖ نے یہ واضح فرمایا کہ تین مرتبہ طلاق کا تعلق عدت کے تین مراحل سے ہے۔ پاکی کی حالت میں پہلی بار طلاق یہاں تک کہ حیض آجائے۔ پھر پاکی میں دوسری بار طلاق یہاں تک کہ حیض آجائے۔ پھر پاکی کی حالت میں تیسری بارطلاق یا رجوع۔ اور نبی ۖ نے یہ واضح فرمایا کہ یہی وہ عدت ہے جس میں اللہ نے اس طرح طلاق کا حکم دیا ہے۔ عدت کے مراحل اور طلاق کے مراتب ایک دوسرے کیساتھ لازم وملزوم ہیں۔ان پڑھ بھی یہ بات سمجھ سکتا ہے۔

البقرہ آیة 230 کا تعلق صرف فدیہ سے ہی ہے

مشہور حنفی عالم علامہ تمنا عمادی کی کتاب ”الطلاق مرتان” میں حنفی مسلک کے مطابق آیت 230البقرہ کی طلاق کو بالکل متصل آیت 229 کے فدیہ کی صورت سے جوڑا گیا ہے۔ عام طور سبھی علماء ودانشور حضرات فدیہ کو خلع قرار دیتے ہیں۔ اگریہ بات درست مانی جائے تو پھر صرف خلع کی صورت میں حلالہ کا حکم ہوگا اور آیت 230 میں ذکر کردہ طلاق سے مراد خلع کے بعد کی طلاق ہے۔ جب علماء ومفتیان کا تعلق مسلک حنفی سے ہے تو پھر حلالہ صرف اور صرف خلع کی صورت میں ہوگا۔ پھر اگر حقیقی حنفی مسلک اور درسِ نظامی کی تعلیم کے مطابق حلالہ کو خلع تک محدود کردیا جائے تو عورت کو اپنے کئے کی سزا مل جائے گی مگر مرد کے گناہ کی سزا تو عورت کو نہیں ملے گی؟۔ علامہ تمنا عمادی نے لکھا ہے کہ حلالہ سزا ہے لیکن عورت کے فعل کی سزا ہے۔
اگر کوئی اپنی معمولی عقل وفہم سے کچھ دیر تدبر کرے تو آیت229البقرہ سے واضح ہوجائے گا کہ فدیہ سے مراد خلع ہرگز نہیں ہے اور اس کی وجہ سے مسلکوں ، فرقوں اور دانشوروں کی وہ ساری چالیں ناکام ہوجائیں گی جن کی بنیاد پر وہ مٹک مٹک کر اپنی علمیت کا جادو جماتے رہتے ہیں۔
آیت229میں اللہ کے حکم ، نبیۖ کی سنت کے مطابق پہلے طہر میں پہلی مرتبہ طلاق، دوسرے طہر میں دوسری مرتبہ طلاق اور تیسرے طہر میں پھر معروف رجوع یا تیسری مرتبہ طلاق دی گئی تو تین طلاقیں مکمل ہوگئیں۔ اور کوئی طلاق باقی نہیں۔ تین طہر میں تین مرتبہ طلاق کے بعد اللہ تعالیٰ نے فدیہ کا حکم سمجھایا ہے کہ پھر شوہر کیلئے کوئی بھی اپنی طرف سے دی ہوئی چیزواپس لینا جائز نہیں ہے۔ مثلاً 100چیزیں دی ہیں تو ایک بھی نہیں لے سکتا ۔ مگر جب دونوں اور فیصلہ والوں کو یہ خوف ہو کہ اگر وہ چیز واپس نہ کی گئی تو پھر دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے۔ مثلاً موبائل کی سم شوہر نے دی اور اس سے دونوں میں رابطہ اور اللہ کی حدود توڑنے کا اندیشہ ہے تو سم کو واپس کرنے میں دونوں پر کوئی حرج نہیں ہے۔ اگرسم کے علاوہ اس کے شوہر نے موبائل بھی دیا ہے تو موبائل لینا جائز نہیں ہوگا ۔

عمران خان و بشری بی بی عدت کیس خلع یا طلاق؟

عدالت کے جج خاور مانیکا اور بشریٰ بی بی کے درمیان فیصلہ کس بنیاد پر کریںگے؟۔عائلی قوانین میں طلاق کی عدت 3ماہ ہے، تحریری طلاق کے بعد عدت میں نکاح ہوا، جسکے گواہ اور نکاح خواں ہیں۔ پھر عدت کے بعد نکاح کے گواہ ونکاح خواں ہیں۔
عورت طلاق کے ایک دن بعد نکاح کرے اور شوہر کیس کرے تو عورت کی بات کا اعتبار ہوگا؟۔ یہ بات عورت مارچ کی ہدیٰ بھرگڑی بھی نہ مانے گی اور اگر یہ قانون بنانا ہے تو پارلیمنٹ سے منظور کرو۔
ہیرا منڈی اور دیگر برائی کے مراکز کی بات بھی نہیں بلکہ مدارس میں حلالہ کے نام پر شریف خواتین کی عزتوں کو جس طرح تار تار کیا جاتا ہے اس کا حل نکالو۔مفتی تقی عثمانی کا ”فتاویٰ عثمانی ” بیہودگی کے جن حدود کو پار کرچکاہے اس کا تدارک کرو۔ اورمدارس میں قرآن وسنت کے خلاف جو تعلیمات ہیں ان کی اصلاح کیلئے میدان میں نکلو۔ عمران اور بشریٰ کا مسئلہ بھی بالکل باعزت اور قرآن وسنت ہی کے مطابق حل ہوجائے گا۔ تحریک انصاف ریاست مدینہ کی بات کرتی ہے لیکن اس کیلئے نظام سے پہلے اسلامی تعلیمات کو پیش کرنا ہوگا۔ رسول اللہ ۖ کی طرف سے ووٹ اور تلوار کا استعمال نہیں کیا گیا لیکن دنیا نے اسلامی نظام کو قبول کرلیا۔
عیسائی آج بھی مسلمانوں سے تعداد، حکومت، طاقت، تعلیم ، ترقی اور شعور میں بہت زیادہ ہیں لیکن اسلام جیت گیا اور عیسائیت ہار گئی ۔اسلئے کہ عیسائی مذہب میں طلاق کا تصور نہیں تھا لیکن قرآن سب سے زیادہ اسی معاشرتی مسئلے کو بار بار دہر اتا ہے۔ آج صرف عیسائی نہیں پوری دنیا کے ان مذاہب کو شکست ہوگئی جو شرعی طلاق کو نہیں مانتے تھے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ طلاق کی طرح کیا حلالہ بھی فطرت کا راستہ ہے؟۔ اگر نہیں تو یہ دیکھا جائے کہ قرآن نے حلالہ سے چھٹکارا دلایا ہے یا لعنت پر لگایا ہے؟۔
بشریٰ بی بی 3طلاق کے بعد گھر سے نکلنا چاہتی تھی مگر خاور مانیکا نے کہا کہ عدت گھر میں گزارلو۔ بشریٰ بی بی کا ذہن نکاح کیلئے بنا تو تحریری طلاق مانگ لی۔یہی خلع تھا اور خلع کی عدت ایک حیض یا ایک ماہ ہے۔ جو تحریری طلاق کے بعد پوری تھی۔

البقرہ آیة 229کا تعلق خلع سے قطعاً نہیںہے

میری بہت سارے علماء ومفتیان سے بالمشافہہ ملاقات ہوتی ہے تو سب اس بات پر دنگ رہ جاتے ہیں کہ آیت 230البقرہ میں جس طلاق کا ذکر ہے اس کا تعلق واقعی فدیہ ہی کی صورت سے ہے اور پھر فدیہ سے خلع مراد ہوہی نہیں سکتا ہے تو کیسے علماء و مفتیان کی طرف سے قرآن سے انحراف جاری ہے اور خواتین کو حلالہ کی لعنت پر مجبور کیا جارہا ہے؟۔
مجھے عمران خان کی قیادت اور عوامی مقبولیت پر اعتراض نہیں ہے کیونکہ ایک مسجد اور مدرسہ کے علماء ومفتیان کو حق سمجھ میں آتا ہے لیکن وہ قرآن کی خاطر قربانی نہیں دیتے اور عمران خان ریاست کیخلاف ڈٹ کر کھڑا ہے۔ البتہ کل بھی اسی ریاست کی ٹانگ میں اس نے اپنا سر دیا تھا اور کل بھی بھروسہ نہیں ہے کہ وہ پھر نظام کے آگے مجبور ہوکر گھٹنے ٹیکے گا۔
پھر کیوں نہ وہ کام کیا جائے کہ جس کا فائدہ بھی فوری طور پر لوگوں کو پہنچے۔ کسی کی تذلیل بھی نہ ہو۔ لوگوں کی عزتیں بھی بچ جائیں اور اختیارات کے پیچھے دوڑنے والے بھی اپنی ہوس کچھ کم کرلیں؟۔
جس طرح طلاق کی حقیقت سے دنیا آگاہ ہوئی اور ہزار ،گیارہ سوسال بعد عیسائیوں کو حقیقت سمجھ میں آگئی تو اس طرح اگر مسلمانوں کو ہزار ،گیارہ سو سال بعد حلالہ کی لعنت سمجھ میں آجائے تو اچھا ہوگا۔ ویسے یہ حقیقت ہے کہ دنیا کو حلالہ کی لعنت کا خاتمہ اسلام نے ساڑھے 14سو سال پہلے سمجھا یا تھا اور اسی وقت سمجھ میں بھی آیا تھا جس کی وجہ سے حلالے کی لعنت کا تصور دنیا سے ختم ہوگیا۔ لیکن شاید اب بھی اسرائیل کا کٹر مذہبی طبقہ اس میں مبتلاء ہو۔اور اس میں سب سے بڑا قصور مسلمانوں کا تھا اسلئے کہ انہوں نے خود بھی حلالہ کی لعنت کا سفر جلد شروع کیا اور پھر اسلام کو اجنبیت کی طرف دھکیل دیا۔ مولانا مودوی ،علامہ وحیدالزمان ،جاوید احمد غامدی اور تمنا عمادی نے بھی آیت 229البقرہ سے خلع مراد لیکر عورت، معاشرہ ، فطرت اور اسلام کا بیڑہ غرق کیا۔
سورہ النساء آیت19میں خلع اور آیت 20 ، 21 میں طلاق واضح ہے۔ سنی ، شیعہ، بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث، جماعت اسلامی ، غامدی، پرویزی اور انجینئر علی مرزا سبھی ٹھیک ہوسکتے ہیں۔

البقرہ 228 ، 229، 231 ،232 کا خلاصہ

سورہ بقرہ کی آیات 230سے پہلے کی آیات اور بعد کی آیات میں بالکل کوئی بھی تضاد نہیں ہے ۔ طلاق سے رجوع کیلئے ”علت” باہمی اصلاح اور معروف طریقے سے رضامندی ہے۔ ایک عورت رجوع کیلئے راضی نہ ہو تو ایک اور دومرتبہ کی طلاق میں بھی رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔ آیت228البقرہ میں اللہ نے فرمایاکہ ” اور ان کے شوہر اس انتظار کی عدت میں ان کو لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں اگروہ اصلاح چاہتے ہوں”۔ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ عدت کی پوری مدت میں شوہر کیلئے رجوع کی اجازت ہے۔ اس میں ایک ساتھ 3طلاق یا پھر پاکی کے مختلف ادوار میں 3مرتبہ طلاق کے بعد بھی رجوع کی گنجائش ہے۔ لیکن اگر عورت راضی نہ ہو تو پھر ایک طلاق کے بعد بھی رجوع کی گنجائش نہیں ۔ یعنی طلاق سے رجوع کی” علت”باہمی رضامندی ہے۔ اگر رضامندی نہ ہو تو پھر رجوع کرنا حرام ہے اور یہی حکم آیت 229البقرہ میں بھی موجود ہے کہ دومرتبہ طلاق کے بعد عدت کے آخری مرحلہ میں معروف کی شرط پر رجوع کی اجازت ہے۔ معروف سے مراد باہمی اصلاح اور رضامندی ہے۔ باہمی اصلاح و رضامندی کے بغیر رجوع کرنا حرام ہے۔
آیت 230میں جس طلاق کے بعد رجوع کی گنجائش نہیں ہے اس سے پہلے یہ واضح کیا گیا ہے کہ دونوں اور فیصلہ کرنے والوں کی طرف سے رجوع کی گنجائش باقی نہ رہے اسلئے حکم واضح ہے ۔
آیت 231البقرہ میں یہ واضح ہے کہ عدت کی تکمیل کے بعد بھی معروف طریقے سے رجوع کرنا درست ہے۔ یعنی باہمی رضامندی سے رجوع کی گنجائش ہے لیکن اگر رضامندی نہ ہو تو نہیں ہے۔
آیت 232البقرہ میں بھی واضح ہے کہ عدت کی تکمیل کے بعد باہمی رضامندی و معروف رجوع کی گنجائش ہے لیکن باہمی رضامندی کے بغیر نہیں۔
سورہ طلاق کی پہلی دو آیات میں بھی یہی خلاصہ بیان کیا گیا ہے کہ باہمی رضامندی سے عدت اور عدت کی تکمیل کے بعد رجوع کی گنجائش ہے۔ خالی بخاری میں ایک حدیث سے مغالطہ دیا گیا ہے جو کہ بخاری کی اپنی روایات اور فقہ حنفی کے منافی ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جون2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

جابر بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہنا، سواد اعظم کا اتباع اور امت کا گمراہی پر اکھٹے نہ ہونے کی خوشخبری

جابر بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہنا، سواد اعظم کا اتباع اور امت کا گمراہی پر اکھٹے نہ ہونے کی خوشخبری

فرمایاۖافضل جہاد جابر بادشاہ کے سامنے کلمۂ حق کہنا ہے

قال رسول اللہ ۖ افضل الجہاد کلمة الحق عندالسطان الجائر۔
ترجمہ: ”رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ افضل جہاد جابر بادشاہ کے سامنے کلمۂ حق کہنا ہے”۔ اور یہ ہے کہ نبیۖ نے دریافت کرنے پرفرمایاکہ ”افضل جہاد جابر بادشاہ کے سامنے کلمۂ عدل ہے”۔
پاکستان میں گزشتہ سال 9مئی کاواقعہ ہوا۔ اگر پاکستان کی فوج عوام کے سامنے سرنڈر ہوجاتی تو عمران خان کو امام انقلاب اور امام خمینی قرار دیا جاتا لیکن اب حالت یہ ہے کہ تحریک انصاف کے اہم رہنماؤں کا پارٹی چھوڑنے اور کارکنوں کا اذیتیں اٹھانے کے بعد ایک طرف کہا جارہاہے کہ فوج نے یہ خود کیا ہے اور دوسری طرف عوامی مقبولیت کا فائدہ اٹھاکر سوشل میڈیا پر نفرت کو فروغ دیا جارہا ہے اور پاکستان اس سے اپنے بھیانک انجام کی طرف جارہاہے۔ پاکستان وہ گدھا بن چکا ہے جس نے اونٹ نہیں ریل مال گاڑی کا بار اپنے کندھے پر اٹھایا ہوا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ملک کو مشکلات سے نکالنے کیلئے سب مل بیٹھ کر ایک ایسا لائحہ ٔ عمل تشکیل دیتے اور نفرتوں کی جگہ سنجیدگی کو فروغ ملتا۔
اگر حکومت وریاست اور مقتدر طبقات کے سامنے کلمہ ٔ عدل اور حق کی بات پیش کی جائے تو ہم موجودہ مشکلات سے نکل سکتے ہیں۔ نوازشریف کے دور میں بھی سپریم کورٹ پر حملہ ہوا تھا اور عمران خان و ڈاکٹر طاہرالقادری کے کارکنوں نے بھی پارلیمنٹ پر حملہ اورPTVپر قبضہ کرلیا تھا۔ فوج نے جن کو ناز ونخروں سے پالا تو انہوں نے اس کا جواب اس وقت طاقت سے دیا کہ جب ان میں ہمت پیدا ہوگئی ۔ البتہ جب تک عدالت اور پارلیمنٹ نشانہ تھے تو ان کو برداشت کیا گیا۔ پہلی مرتبہ جب عمران خان اور اس کے کارکنوں کی جانب سے مقتدرہ فوج کو نشانہ بنایا جارہاہے تو وہ برداشت نہیں۔
عمران خان اور نوازشریف نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو ایکسٹینشن بھی دی اور برا بھلا بھی کہہ دیا۔ مولانا فضل الرحمن معتدل اور متوازن شخصیت ہیں۔ 44سالوں سے آئین پر عمل کا کہہ رہے ہیں۔

فرمایا ۖ ”سواد اعظم (بڑی جماعت، پارٹی) کا اتباع کرو”

قال رسول اللہۖ اتبعواالسواد الاعظم فانہ من شذ شذ فی النار
ترجمہ:” رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ بڑی جماعت کے پیچھے چلو ،جو پھسلا وہ آگ میں پھسلا”۔
جمہور کی اصطلاح اسلامی کتب میں اسلام کے شروع دور سے موجود ہے۔ جمہور صحابہ نے ابوبکر ، عمر، عثمان اور علی کی خلافت قبول کرلی۔ لیکن سعد بن عبادہ نے ابوبکر وعمر کے پیچھے نماز بھی نہیں پڑھی۔
حضرت علی نے حضرت عثمان کے خلاف شکایات کا نوٹس لیا اور کلمۂ عدل بلند کیا کہ ابوبکر وعمر سے آپ کا نسب ، آپ کی اسلام کیلئے قربانی اور نبی ۖ سے قرابتداری کم نہیں ہے ۔ اگر لوگوں کو شکایت رہی اور اس کا ازالہ نہیں کیا گیا اور خلیفة المسلمین اپنی مسند پر قتل ہوا تو یہ خونریزی قیامت تک بھی نہیں رک سکے گی۔ اسلئے عوامی شکایات کا ازالہ کریں ورنہ جب لوگ بے قابو ہوں گے تو مشکل پڑے گی۔
پھر حضرت عثمان کی شہادت تک بات پہنچ گئی۔ پھر حضرت علی کے خلاف محاذ آرائی شروع ہوگئی۔ امام حسن نے مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں میں صلح کیلئے کردار ادا کیا اور خلافت سے امیر معاویہ کے حق میں خود دستبردار ہوگئے۔ مولانا یوسف لدھیانوی کی کتاب ”عصر حاضر حدیث نبوی ۖ کے آئینہ میں” میں ہے کہ امیر معاویہ نے3 جمعہ کی تقریر میں کہا کہ” سارا مال میراذاتی ہے جیسے چاہوں خرچ کروں”۔ تیسرے جمعہ کو ایک شخص نے کہا کہ”تم غلط کہہ رہے ہو یہ مسلمانوں کا مال ہے”۔ خدشہ تھا کہ جلاد قتل کرے گا ۔امیر معاویہ نے کہا کہ نبی ۖ نے فرمایا کہ حکمران ہرقسم کی الٹی سیدھی بات کریں گے مگر کوئی روکنے والا نہیں ہوگا،جن کو جہنم میں بندر اور خنزیر بناکر پھینکا جائیگا۔ اللہ اس شخص کوخوش رکھے ،جب کوئی جواب نہیں دے رہا تھا تو مجھے یقین ہوا کہ میں ان میں ہوں۔ اس شخص نے میری جان میں جان ڈال دی ”۔ آرمی چیف عاصم منیر کی چاہت ہے کہ کوئی کلمۂ عدل کہے۔ اگر مولانا فضل الرحمن عمران خان کو وزیراعظم بنادے توپھر ملک کی تقدیر بدلنے میں دیر نہیں لگے گی۔

فرمایاۖ” بیشک میری امت کبھی گمراہی پر اکٹھی نہ ہوگی”

قال ۖ لن امتی تجتمع علی الضلالة ابدًا ، فعلیکم باالجماعة، فان یداللہ علی الجماعة ”میری امت گمراہی پر اکٹھی نہیں ہوگی ہمیشہ ، تم جماعت کی پیروی کرو، بیشک جماعت پر اللہ کاہاتھ ہے”۔
اصول فقہ کے چار اصول ہیں۔ قرآن، سنت، اجماع اور قیاس۔ لیکن ”نورالانوار: ملاجیون” میں لکھا ہے کہ اجماع سے مراد اہل سنت ، اہل مدینہ، ائمہ فقہ اور ائمہ اہل بیت سبھی کا اپنی اپنی جگہ الگ الگ اجماع ہے۔
مدارس کے نصاب ”درس نظامی ”کی یہ تعلیم ہے مگر جب اجماع سے الگ الگ اجماع مراد لیا جائے پھر ان الگ الگ اجماع میں تضادات ہوں تو یہ اجماع کے بنیادی مقصد کے خلاف ہے۔علماء غور فرمائیں!۔
حد یث کا بنیادی مقصد یہی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ”امت میں اختلاف کا سلسلہ اس وقت تک قائم رہے گا کہ جب امت کا کسی اہم مسئلے پر اجماع ہوجائے”۔ امت کا اجماع تھا کہ ”خلافت قریش میں رہے گی”۔ پھر ترک کی سلطنت عثمانیہ قائم ہوگئی تو اجماع بدل گیا اور غیر قریش اور عجم خاندان کی خلافت پر اجماع ہوگیا۔ متقدمین کے ہاں قرآن پر معاوضہ جائز نہ تھا پھر متأخرین کے ہاں جائز ہوا۔ جمہوریت کو کفر مت کہو!، دین کی تحریف تو علماء نے خود کی۔حدیث سے یہ مراد ہے کہ جمہور کے مقابلے میں اقلیت حق پر ہوسکتی ہے لیکن جمہور کے اقتدار سے الگ راستہ اختیار نہ کیا جائے۔ اسلئے کہ جمہور کے اقتدار پرہی اللہ کا ہاتھ ہوتا ہے۔
ابوبکر سے سعد بن عبادہ نے اختلاف کیا تو خلیفہ کیلئے قریش کی شرط پر اجماع نہیں ہوا بلکہ جمہور اوراقلیت میں اختلاف تھا۔علی وحسناور یزید و مروان سے آج تک جمہور اور اقلیت کا اختلاف ہے۔جمہور کو اجماع کا نام دینا غلط ہے۔ قریش ، بارہ خلفاء قریش واہلبیت کا تعلق سنی وشیعہ احادیث میں مستقبل کیساتھ بھی ہے جن پر امت مسلمہ کا اجماع ہوگا۔ امام حسین نے یزید سے اختلاف کیا مگر تلوار نہیں اٹھائی بلکہ حق اور عدل کی بات کرنے کیلئے یزید کے پاس جانے دینے کا مطالبہ کیا۔ امام حسن معاویہ کے حق میں دستبردار ہوگئے توبعض شیعہ ، بعض بریلوی اور مرزاجہلمی اپنی دکان چمکانے کیلئے امت کو فرقہ واریت کی آگ میں مت جھونکیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جون2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

جاوید احمدغامدی کا باطل نظریہ اور حقائق کاآئینہ

جاوید احمدغامدی کا باطل نظریہ اور حقائق کاآئینہ

قلابازی کے بھی آداب ہیں،انصار کے مدمقابل مہاجرین کوترجیح ملی کہ قریش تھے! یزید کا بیٹا نہ مانا تو مروان !۔ مروان و یزید کی قرابتداری ، بنوعباس و خلافت عثمانیہ کا خاندانی اقتدار قبول تھا، مگرعلی، حسن و حسین کی قرابتداری قبول نہیں ؟ یہ اجماع نہیں جمہور ہے۔ ذراسوچئے توسہی !۔جاوید احمدغامدی کا باطل نظریہ اور حقائق کاآئینہ

جاویداحمد غامدی نے کہاکہ:” حضرت نوح کے 3بیٹے تھے اور2بیٹوں کی نسل سے خلافت کا وعدہ پورا ہوچکا ہے۔ مسلمان ان میں شامل ہیں۔ اب قیامت تک یہودو نصاریٰ ہی اقتدار میں رہیں گے۔ مسلمانوں کو اقتدار کبھی نہیں مل سکتاہے”۔
انصار ومہاجرین میں خلافت پر اختلاف کا فیصلہ قریش کی بنیاد پر ہوا۔ نورالحسن بخارینے کتاب ” عثمان ذی النورین” میں لکھا کہ حضرت عثمان نے مروان بن حکم کی سزا نبی ۖ سے معاف کروائی۔ یزید کے بیٹے معاویہ نے اقتدار نہ لیا تو مروان کو خلافت کی مسندپر بٹھایاگیا۔ صرف اسلئے کہ مروان حضرت عثمان کے چچازاد،داماداوراس کا تعلق قبیلہ بنوامیہ سے تھا؟۔
بنوامیہ پھر بنوعباس پر اجماع ہوا۔ چچا عباس نے اسلام قبول کیاتھا۔ کیا صرف نبی ۖو علیکے باپ کفر پرمر گئے؟۔ خلافت عثمانیہ میں عجم کی خلافت پر اجماع ہوا۔ باقی ساری دنیا کے عرب وعجم جدی پشتی مسلمان تھے مگر سادات نااہل تھے؟۔
برصغیرمیں سید، صدیقی،فاروقی، عثمانی کے بعد جاوید احمد غامدی نے ”غامدی” لکھا۔ ہم نے یاد دلادیا کہ غامدیہ کے ایک بچے کا ذکر احادیث میں ہے جس کو کھانے کی صلاحیت ملی تو اس کی ماں کو سنگسار ہوئی۔یہی نسل تو نہیں؟۔ پھر جاوید غامدی نے کہا کہ اس نے اپنے شوق سے اپنے نام کیساتھ غامدی لگادیا۔
حالانکہ شوق سے کوئی تخلص،عرف، لقب، کنیت اختیار کرنا تو سمجھ میں آسکتا ہے لیکن نسبت تو بے بنیاد نہیں ہوسکتی مگر یہاں تو آوے کا آوا بگڑچکا ہے سبھی صدیقی، فاروقی ، عثمانی بن گئے۔
روم وایران سپر طاقت تھے۔ بنی اسرائیل و قریش حضرت ابراہیم کی اولاد تو نوح کے بیٹوں کی تقسیم کی کتنی بھونڈی ہے ؟۔ جاوید غامدی نے کہا کہ علی داماد تھا جو گھرکافرد نہیں ہوتا۔ یہ ٹھیک ہے۔ نبی ۖ کا ابوسفیان ، ابوبکر، عمر ، یہودی کی بیٹی سے نکاح ہوا مگرگھر کے فرد نہیں تھے۔ ابوسفیان نے بعد میں اسلام قبول کیا اور علی خالی داماد نہیں بلکہ چچازاد تھا۔ مروان اقتدار کا حقدار یزید کی وجہ سے تھا۔اگر جاوید غامدی کے چچازاد غامدی ہوتے تو قبیلے اورخاندانی اقدار کا پتہ چلتا۔ابھی جاوید غامدی کا داماد جانشین بن رہاہے۔ دارالعلوم کراچی پر مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع کابیٹا مفتی تقی عثمانی اور داماد مفتی عبدالرؤف سکھروی ولی وارث بن بیٹھے۔ دارالعلوم دیوبند، تبلیغی جماعت ، خانقاہ، مسجد، مدرسہ ،اقتدار، تحریک اور پارٹی کونسی چیز موروثی نہیں ہے؟۔
اگر خلفاء راشدین کو مانتے ہو تو چندوں سے بنائے ہوئے گھروندوں میں موروثی نظام کا خاتمہ کرنا ہوگا اور اگر اپنا موروثی نظام نہیں چھوڑ سکتے تو پھر احادیث صحیحہ میں اہل بیت کا کردار عالمی خلافت کیلئے ماننا ہوگا۔ شیعہ فاطمہ، علی، حسن اور حسین کو احادیث کی بنیاد پرمانتا ہے اور یہ لوگ صرف اپنی خواہشات کی وجہ سے بدترین شیعہ بن چکے ہیں۔
ان الذین فرقوا دینھم وکانوا شیعًا لست منھم فی شی ئٍ انما امرھم الی اللہ ثم ینبئھم بما کانوا یفعلون ”بیشک جنہوں نے اپنے دین میں تفریق ڈال دی اور بن گئے مختلف گروہ ۔ آپ (اے حبیبۖ) کاان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بیشک ان کا معاملہ صرف اللہ کے حوالے ہے ۔ پھر انہیں متنبہ کرے گا کہ جو وہ کاروائی ڈالتے تھے”۔
دارالعلوم دیوبند دو ٹکڑوں میں تقسیم اور تبلیغی جماعت بھی ۔ علی نے تین خلفائ سے بھرپور تعان جاری رکھا۔ عثمان کے آخری دور میں وہ تعاون نہیں رہا تھا جو بیعت رضوان کے وقت عثمان کی شہادت کی جھوٹی خبر پر نبی ۖ نے بیعت لی تھی تو حضرت علی مشکلات کے شکار ہوگئے۔ علی کی سازش کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے لیکن اہل تشیع بہت غلو اختیار کرتے ہیں تو حسن الہ یاری کی تنقید سے خود شیعہ بھی نہیں بچ پارہے ہیں۔
حسن الہ یاری امریکہ میں بیٹھ کر شیعہ سنی اور شیعوں میں نفرت پھیلارہاہے۔ اگر وہ کہتا ہے کہ” محمد بن ابوبکر حضرت علی کا بیٹا تھا۔اگر چہ بظاہر ابوبکر کے صلب سے پیدا ہوا تھا مگر کافر و خبیث کے صلب سے علی کے اس طیب بیٹے کی پیدائش ہوئی”۔ وہ ابوبکر کااسلام ثابت کرنے کا کہہ رہا تھا توایک عربی شیخ نے اس کی بد تہذیبی اور بدتمیزی کا حوصلہ افزاء طریقے سے مقابلہ کرتے ہوئے پوچھ لیا کہ” اسماء بنت عمیس سے جب ابوبکر کا نکاح ہوا تھا تو وہ مسلمان تھا یا کافر؟”۔ جس پر حسن الہ یاری نے کہا کہ بظاہر ان پر اسلام کا اطلاق اور اسلامی احکام جاری ہوتے تھے۔ جس پر عربی شیخ نے کہا کہ بس بات ختم ۔ ہماری بحث ابوبکر کے اسلام پر تھی ایمان پر نہیں ۔ حسن الہ یاری اور شہریار عابدی نے سنی کتب سے جو معاملات اٹھائے اس طرح کی باتیں شیعہ کتب سے 45 سال پہلے دیکھے جو اتنے بھیانک ہیں کہ ان کا ذکرمناسب نہیں ۔ مولانا الیاس گھمن کی ایک ویڈیو شیعہ کتب سے شیعہ کے خلاف ہے اور اس کو ایڈٹ کرکے اہل سنت اور دیوبند کی طرف منسوب کردیا ۔ دونوں کی کتابوں میں گند بھرا ہواہے جس کا واحد علاج قرآن وسنت کی طرف رجوع ہے۔ شیعہ عالم نے انکشاف کیا کہ حسن الہ یاری دراصل ”امریکہ الہ کاری” ہے جس کو شیعوں نے بھگایا۔
قرآن پر شیعہ سنی متفق ہوسکتے ہیں۔ سید جواد حسین نقوی، علامہ شنہشاہ حسین نقوی ، ریاض جوہری، عابد حسین شاکری اورعلامہ حسن ظفر نقوی اور اہلسنت کے علماء کرام مفتی منیر شاکر اور سبھی حضرات قرآن پرجلد متفق ہوجائیں گے۔ انشاء اللہ
ان خلقنا الانسان من نطفة امشاج ” بیشک ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے رلے نطفہ سے”۔قرآن سے یہ ثابت ہے کہ انسان ماں باپ دونوں کی اولاد ہے۔ اگرچہ شجرہ کی نسبت باپ کی طرف ہوتی ہے لیکن جب نرینہ اولاد نہ ہوتو پھر بیٹی وارث بنتی ہے اور بیٹی کے ذریعے نواسہ بھی وارث بنتا ہے۔
ان اللہ اصطفٰی اٰدم و نوحًا وال ابرہیم وال عمران علی العٰلمین O ”بیشک اللہ نے انتخاب کیا ہے آدم اور نوح کا اور آل ابراہیم وآل عمران کو جہان والوں پر”۔
اذ قالت امرأت عمران رب انی نذرت لک ما فی بطنی محررًا ”جب عمران کی عورت نے کہا کہ اے میرے رب! میں نے نذر مانی ہے تیرے لئے جو بھی میرے پیٹ میں ہے آزاد چھوڑا ہوگا ”۔ پھر اللہ نے بیٹی مریم دیدی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت عمران علیہ السلام کو نواسہ عیسیٰ دیا تھا۔ ھنالک دعا زکریا ربہ قال رب ھب لی من لدنک ذریة طیبة انک سمیع الدعائ”زکریا نے وہیں پر اپنے رب سے دعا کی ۔کہا اے میرے رب ! مجھے پاکیزہ اولاد عطا فرما۔بیشک تو دعا کو سننے والا ہے”۔(سورہ آل عمران)
اگر رسول اللہ ۖ کے بیٹے نہیں تھے تو اللہ نے نواسے حسن اور حسین دیدئیے۔ حضرت ابراہیم کی اولادبنی اسرائیل میں آل عمران کے آخری جانشین حضرت مریم کے بیٹے حضرت عیسٰی تھے اور بنی اسماعیل میں حضرت محمد ۖ پر نبوت ختم ہوگئی لیکن جانشینی کا سلسلہ جاری رہاہے۔ قدرت نے حضرت فاطمہ کے سلسلہ سے حسن و حسین دئیے۔ دشمن نے نبی ۖ کو ابتر کہا تھا لیکن اللہ نے دشمن کو ابتر قرار دے کر آپ کو انا اعطینا ک الکوثر ” بیشک ہم نے آپ کو( کثرت اولاد) عطاء کردی”۔
علی ،فاطمہ ، حسن، حسین کابلند مقام تھا۔ ابوبکر ،عمر ، عثمان کی خلافت علی کی تائید تھی ۔ حسن نے معاویہسے صلح کی۔ حسین نے یزیدیوں کیلئے مشکل کھڑی کی ۔ ائمہ اہل بیت نے بنوامیہ و بنو عباس کی خلافتوں کو کمزور نہیں کیا۔ البتہ کچھ نے ٹکر لینے کی راہ بھی دکھادی۔بادشاہ نہیں علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ امام ابوحنیفہ ودیگر ائمہ اہل سنت ائمہ اہل بیت کے شاگرد تھے۔ نبیۖ کی تائید سے اہل مکہ اسلئے گھبرایا کرتے تھے کہ کہیں ان کو اُچک نہیں لیا جائے۔ علماء حق کیساتھ یہی سنت زندہ رہی۔
حضرت یوسف نے کافر حکمران سے اچھاتعاون کیاپھر علی خلفاء راشدین و صحابہ سے تعاون نہ کرتے؟۔ نبی ۖ کو نبوت 40 سال میں ملی ۔ ابوبکر و عمر خلیفہ بنے تو علیکی عمر 33 اور 35 برس تھی۔ اقتدار کی طلب پر اللہ مدد نہیں کرتا۔بارِ امانت اٹھانے پر اللہ نے ظلوم جہول قرار دیا۔علی میں اقتدار کی بھوک نہیں تھی۔ قرآن میں لیذھب عنکم رجس سے ازواج مطہرات مرادہیں۔ ان کی تطہیر جنسی خواہشات کے گند سے کردی گئی ۔
جبکہ حدیث میں اہل بیت کیلئے یہی دعا ہے اور اس سے بارامانت اقتدار کی ہوس کے گند کو دور کرنا مراد ہے۔حسن الہ یاری جیسے ملعون شیعہ ہوتے اور قرآن میں ازواج مطہرات مراد لیتے تو اس کے منطقی نتائج 100فیصد منفی اور غلط نکالتے۔
ایک صحابی نے اپنے بیٹے کا رنگ مختلف پایا تو نبیۖکی خدمت میںعرض کیا۔ آپۖ نے پوچھا :سرخ اونٹوں کا گلہ ہوتا ہے تو اس میں کالا یا سفید بچہ کس پر جاتا ہے؟۔ صحابی نے کہا کہ اپنے گذشتہ نسلوں پر۔ نبیۖ کی بات سے وہ مطمئن ہوگئے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جون2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

ریاست ہو ماں کی جیسی اور ماں ہوپھر کھدڑی جیسی؟،پاکستان کی حد ہوگئی !

ریاست ہو ماں کی جیسی اور ماں ہوپھر کھدڑی جیسی؟،پاکستان کی حد ہوگئی !

قرآن وسنت کو دیکھا جائے تو صحابہ کیلئے رسول اللہ ۖ سے اختلاف کی گنجائش تھی جس میں مذہبی فتوے اور اقتدار سے متعلق معاملات ہے۔ سورہ ٔ مجادلہ اوربدری قیدیوںپرفدیہ لیکر معاف کرنے پر حضرت عمر و سعد کے اختلاف کی توثیق ہے اور حضرت عمر نے حدیث قرطاس اور حضرت علی نے محمد رسول اللہ سے صلح حدیبیہ رسول اللہ کے لفظ کو کا ٹنے سے اختلاف کیا تھا۔
یہ علامہ طالب جوہری کاخطیبانہ غلو تھا کہ” رسول اللہ ۖ نے خود رسول اللہ کا لفظ کاٹ دیا اوراگر علی یہ کاٹ دیتا تو زمین و آسمان میں اسلام تلپٹ ہوجاتا”۔ قرآن وسنت جہالت کی دنیا کا نام نہیں ہے بلکہ علم وعمل کا وہ خزانہ ہے جس پر کافروں کا عمل ہوجائے تووہ بھی دنیاپر امامت وخلافت کا حق ادا کرسکتے ہیں۔
اسلام کیلئے اقتدار لازم۔ اسلام اسکے بغیر نافذ نہیں ہوسکتا۔ ہندوستان میں اسلامی اقتدار کا تصور نہیں تھا۔ پاکستان اسلامی اقتدار کیلئے بنا۔ جس کی بنیاد نظام عدل ہے۔ اقتدار کفر کیساتھ چل سکتا ہے ظلم کیساتھ نہیں۔ انگریز گیا نظام نہیں۔ تاجکستان، افغانستان، پاکستان ، انڈیا گیس پائپ لائنTAPIپر امریکی اجارہ داری کا کوئی جواز نہیں ۔ چین،روس، ایران، افغانستان، ہندوستان،پاکستان اپنا کردار ادا کریں۔ پاکستان، افغانستان ، انڈیااور ایران اتنے خطرناک نہیں ہیں جتنا روس و چین سے مل کر امریکہ کو نکالنا ہے۔مذہب، دہشتگردی، قوم پرستی ،سیاسی پارٹی کے نام سے امریکہ اپنا کھیل کھیلتا ہے۔ جمہوریت کی جگہ اسلامی امارت اور عام بینکاری کی جگہ اسلامی سودی بینکاری اس کھیل کا حصہ ہیں۔ افغان طالبان اگر قرآن کا حقیقی نظام پیش کریں گے تو مغرب جمہوری طالبان بنے گا۔
جمہوریت کی وجہ سے جو میڈیا آزاد ہے ، اگر خلافت کے نام پر اس کا گلہ دبایا گیا تو جس طرح مارشل لاء بدنام ہے اسی طرح خلافت بدنام ہوگی۔اسلام کی راہ میں سب سے زیادہ رکاوٹ مولوی خود ہے۔ جمعیت علماء اسلام کے منشور میں جب کسان اور مزدور کے حق کی بات رکھی گئی تو علماء نے بڑی تعداد میں سن1970میں یہ فتویٰ دیا کہ” جمعیت کے اکابراسلام سے خارج ہیں”۔ حاجی عثمان نے جنرل ضیاء کا ریفرینڈم غلط قرار دیا تو مرید خلفائ، علماء اور جرنیلوں نے بغاوت کردی۔ مفتی تقی عثمانی نے زکوٰة کی بنیاد کو جڑ سے ختم کردیا اور سود کو اسلامی قرار دیا تو شیخ الاسلام بن گیا۔ جمہوریت میں اس سے بڑا کفر کیا ہوگا کہ سود اور اللہ ورسول ۖ سے جنگ کو جائز قرار دیا جائے؟۔
مولانا فضل الرحمن کہتا ہے کہ” اللہ نے دین کی تکمیل کردی اور نعمت کا اتمام کردیا۔ جس کی تفسیر یہ ہے کہ اب نیا دین نافذ نہیں ہوسکتا ہے اور حکومت بھی ملے گی”۔حالانکہ مدارس وعلماء نے دین کو مسخ کردیا اور اقتدار کی جب زکوٰة ملتی ہے توپھر خوش رہتے ہیں۔ یزید ومروان کو اقتدار مل گیا تو سعید بن المسیب و دیگر فقہاء کو بکریوں کی طرح ذبح کردیا گیا۔ امام ابوحنیفہ قید میں اور اسلام کو مسخ کرنے والا ابویوسف چیف جسٹس بن گیا تھا۔
جمہوریت اور مارشل لاء بہت بدنام ہوچکے ہیں۔ سب سے پہلے علماء ومفتیان کو قرآن وسنت کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ میثاق مدینہ اور صلح حدیبیہ کا معاہدہ اسلامی قانون سازی کی روح ہیں۔ اس طرح دورِ جاہلیت کا حلف الفضول بھی۔
البتہ مشرکینِ مکہ نے مسلمانوں سے قطع تعلق کیلئے جو بھی جمہوری معاہدہ کیا تھا جس کی وجہ سے شعب ابی طالب میں3سال مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ وہ بھی غلط مگر قابل قبول تھا اور جمہوریت کی یہی خوبصورتی ہے کہ اچھائی سے رکاوٹ کے تصورات نہیں بن سکتے ہیں۔ اگر طالبان سرکاری سطح پر نہ سہی مگر لڑکیوں کے سکول، کالج اور یونیورسٹیوں کی پرائیوٹ بھی اجازت دے دیں تو افغانستان کی خواتین کو بیرون ملک در در کی ٹھوکریں نہیں کھانی پڑیں گی۔ اگر خواتین کیلئے بہترین طرح کی یونیورسٹیوں کا بندوبست کیا گیا تو کرغستان کے بجائے کئی لوگ اپنی بچیوں کو افغانستان میں پڑھانا پسند کریں گے۔
پاکستان چین اور ہندوستان کو بحری اور بری راستے سے راہداری دے ۔ امریکہ ان پر پابندیاں نہیں لگاسکتا ہے۔ جب ایران کے گیس وتیل سے چین وہندوستان کو استفادہ ملے گا تو پاکستان بھی اس کے فیوض وبرکات سے محروم نہیں رہے گا۔
نبی کریم ۖ کے مختلف معاملات پر اختلاف اور اس کی توثیق سے جمہوری نظام کو تقویت ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب اولی الامر سے اختلاف کی گنجائش رکھی ہے تو حضرت ابوبکر وعمر سے بھی سعد بن عبادہ نے اختلاف کیا تھا جس کو جنات نے ماردیا تھا؟ یا پھر ریاستی جنات کا مسئلہ اس وقت شروع ہوا تھا؟۔
نبی ۖ نے ابن صائد دجال کو مارنے کی اجازت بھی نہ دی جس نے نبی ۖ سے کہا کہ آپ امیوں کے رسول ہیں اور میں تمام جہاں والوں کیلئے رسول ہوں۔ریاست پہلے ماں تھی جس کو سینے سے لگاتی تھی ،وہ خوش ہوتا تھا، جس کو دور کرتی تھی تو وہ چیخناچلانا شروع کردیتا تھا۔ اب کھڈری ماں بن چکی ہے جو سینے سے لگانے والے کو بھی خوش نہیں رکھ سکتی۔اقتداراور اپوزیشن والے سبھی اس سے نالاں ہیں جو مکافات عمل ہے۔

فرنٹ لائن ڈیفینڈرسمی بلوچ کو مبارکباد بلوچوں کے حقوق کیلئے ان کی مسلسل جدوجہد مظلوم بلوچ قوم کیلئے حوصلے کی علامت ہے۔ڈاکٹرماہ رنگ بلوچ

بلوچ قوم خاص طورپر بلوچ خواتین نے بلوچوں کے حقوق کیلئے جس حوصلے کیساتھ جدوجہد کی، اس کی دنیا کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ سمی دین بلوچ مسنگ پرسن ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بہادر بیٹی ہیں۔ فرنٹ لائن ڈیفنڈر ایوارڈ جیتنے پر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے مبارکباد پیش کی ۔جو ظالم ریاست اور مظلوم عوام کی عکاسی کرتا ہے لیکن پاکستان کو دیگر برادر اسلامی ممالک سے بھی جدا کرتا ہے۔جہاں یہ آزادی اور اس کیلئے جدوجہد کا تصورنہیں!

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جون2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

عمرایوب مولانا فضل الرحمن کو ایوان کا متفقہ اپوزیشن لیڈربنادے تو بہترہوگا

عمرایوب مولانا فضل الرحمن کو ایوان کا متفقہ اپوزیشن لیڈربنادے تو بہترہوگا

قرآن میں بار بار اللہ اور اسکے رسولۖ کی اطاعت کا حکم ہے۔ اللہ نے فرمایا: لا اکرہ فی الدین ” دین میں زبردستی (جبر) نہیں ہے”۔من شاء فلیؤمن ومن شاء فلیکفر ”جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے تووہ کفر کرے”۔
رسول اللہ ۖ نے قرآنی آیات پر عمل کیا تھا۔ یہود کیساتھ میثاق مدینہ اور مشرکین مکہ کیساتھ صلح حدیبیہ بھی عملی تفاسیر ہیں۔ جس کو پاکستان، افغانستان، ایران ، سعودی عرب عام کریں۔ جمہوری و آمرانہ ممالک قرآن وسنت کے پیمانے پر خود کو تولیں توافغان طالبان کا سخت گیر رویہ ملاعمر کے دور میں اسلامی نہ تھا۔ آج طالبان ملاعمر کی روش کو چھوڑ چکے ۔ اور بہت اچھا کیا ہے مگر اب بھی پاکستان کا جمہوری رویہ طالبان کے سخت گیرآمرانہ روش کے مقابلے میں زیادہ اسلامی ، اخلاقی اور انسانی ہے۔
اس اقتدار کا جواز نہیں، جب حکمران عوام اور عوام حکمران پر اعتمادنہ رکھے، پھر رویہ آمرانہ ہوتا ہے۔ افغانستان میں حنفیوں کی اکثریت اور جمہور کا مذہب رائج کردیا۔ ملا کی دوڑ مسجدتک اور طالبان کی دوڑ حنفی مسلک تک؟۔مولانا فضل الرحمن جمہوری بنیاد پر جتنی جرأت سے بولتا ہے افغانستان، سعودیہ اور ایران میں اس کا تصور نہیں ۔ بینظیر بھٹو سے اختلاف اپنی جگہ مگرکراچی میں حملہ ہوا،150افراد شہید ہوگئے ۔پھر میدان میں نکل کر شہید ہوگئی۔ ملاعمرسے عقیدت مگر گھر میںمرا ۔اسامہ مارا یا اٹھایا گیا؟۔یہ خبرمغربی میڈیا پرہی منحصر ہے جمہوری ملک میں تبدیلی کیلئے خونریزی کی ضرورت نہیں۔ عراق اور لیبیا میں آمریت تھی ۔ دوسری عرب بادشاہتوں میں بھی آمریت ہے۔ اسلام میں نہ تو آمریت ہے اور نہ ہی اس طرح کی جمہوریت۔جس میں عوام کی رائے خریدنے وتبدیل کرنے کیلئے پیسوں کا استعمال ہو ۔ سیاست منافع بخش کاروبار بن جائے۔البتہ آمریت کے مقابلے میں جمہوری نظام کو اسلام کے قریب اسلئے قرار دیا جاسکتا ہے کہ اس میں آزادی کا بہترین تصور ہے۔ جبکہ آمریت میں عوام کی بدترین غلامی کے تصورات ہیں۔صحیح مسلم کتاب الامارة میں ہے۔
باب قولہ ۖ ” طائفة من اامتی لا تزال من امتی ظاہرین علی الحق لایضرھم من خالفھم ”۔ ”میری امت میں ایک گروہ کے لوگ ہمیشہ حق کی بنیاد پر غالب رہیں گے،ان کو نقصان نہ پہنچاسکیں گے جو انکی مخالفت کریںگے”۔
علماء جب تک حلالہ کی لعنت کا دھندہ نہیں چھوڑ تے تو بد سے بدتر حالت میں رہیں گے۔ کھانا پینا اور نفسانی خواہشات تو جانوروں کی بھی پوری ہوتی ہیں۔ مغربی جمہوری نظام سے بھی اسلامی احکام کو قبول کرنے کی توقع ہے مگر علماء ہٹ دھرم ہیں۔
حاجی امداد اللہ مہاجر مکی سے پہلے اور آپ کے بعد حاجی محمد عثمان تک ایک گروہ کی تاریخ ہے۔ مولانا اشرف علی تھانوی کے خلیفہ مولانا فقیر محمدجو مجذوب اور معذور شخص تھے۔ کھانے، پینے اور نماز وغیرہ میں مسلسل روتے تھے مگر باربار الہام ہوا کہ حاجی عثمان کی خدمت میں حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کی خلافت پیش کی جائے۔ حاجی عثماننے منع کردیا کہ مجھے شرح صدر نہ ہو تو قبول نہیں کرسکتا۔ مسجد نبوی ۖ27رمضان المبارک کو مولانا فقیر محمد کے ورود نے شدت کی انتہاء کردی تو حاجی عثمان نے خلافت قبول کرلی۔جس میں حاجی عثمان کو مولانا فقیر محمد نے مولانا تھانوی کے نہیں بلکہ دادا پیر حاجی امداد اللہ مہاجر کے بہت مشابہ قرار دیا۔ حالانکہ حاجی عثمان کے مقابلے میں حاجی امداداللہ مہاجر مکی کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔پھرمولانا فقیر محمد نے بہک کر خلافت واپس لی تو اسکا اتنا اثر نہ پڑا ، جتنا فقیر کشکول رکھے اور واپس لے۔ کمال یہ تھا کہ مفتی احمد الرحمن مہتمم جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی، مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکی اور مفتی محمد جمیل خان جنگ گروپ نے مولانا فقیر محمد سے پوچھا کہ خلافت ورود سے دی یا مشورہ سے؟ مولانا فقیر محمد نے کہا کہ ورود سے۔ پوچھا کہ ورود سے واپس لی یا مشورہ سے؟۔ مولانا فقیر محمد نے کہاکہ مشورہ سے۔ علماء نے بتایا کہ” شریعت میں آپ کو مشاورت سے خلافت واپس لینے کا حق نہیںہے”۔ مولانا فقیر محمد نے جامعہ بنوری ٹاؤن کے لیٹر پیڈ پر لکھ دیا کہ ”میں نے حاجی محمد عثمان کو ورود کی نسبت سے جو خلافت دی تھی وہ تاحال دائم اور قائم ہے”۔ اس پر ان علماء ومفتیان کے دستخط ہیں۔ پھر انہی علماء کی طرف سے مولانا فقیر محمد کو خط لکھ دیا کہ ”حاجی عثمان سے خلافت واپس لینے کا ہم مشورہ دیتے ہیں”۔ کفر وگمراہی کا فتویٰ لگے تو مشورہ نہیں فتویٰ ہوتا ہے کہ ”ورود باطل ہے، تم پیری کے لائق نہیں ہو، پہلے اپنی اصلاح کرلو”۔ ان علماء کی شریعت بھی کاروباراور طریقت بھی کاروبارہی تھا۔
مولانا فضل الرحمن نے مجھے کہا تھا کہ ” کراچی کے معروف علماء ومفتیان کو آپ نے بکرے کی طرح لٹادیا ہے ،چھرا ہاتھ میں ہے،اگر ذبح کرلیا تو ہم بھی ان کی ٹانگیں پکڑ لیں گے”۔
میری تحریک انصاف کے عمرایوب سے گزارش ہے کہ وہ مولانا فضل الرحمن کو ”حزب اختلاف کا متفقہ اپوزیشن لیڈر”ہی بنادے۔ محمود خان اچکزئی کو صدارتی الیکشن لڑانے میں قربانی کا کوئی مسئلہ نہیں تھا ،جب پارٹی کو کامیابی کا یقین نہیں ہوتا ہے تو اپنے قائد کو بھی وزیراعظم کا الیکشن نہیں لڑاتے۔ مولانا فضل الرحمن پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ہی نہیں خطے اور بین الاقوامی سیاست میں بھی اہم رول ادا کرسکتے ہیں۔ پہلے بھی عمران خان اور نوازشریف نے وزیراعظم کا ووٹ دیا تھا اور اپوزشن لیڈر بن گئے تھے تو پرویزمشرف کے خلاف اہم کردار ادا کیا تھا۔
قال رسول اللہ ۖ : لایزال اہل غرب ظاہرین علی الحق حتی تقوم الساعة ” صحیح مسلم کتاب الامارة”
رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ ”اہل غرب ہمیشہ غالب رہیں گے حق کی بنیاد پریہاں تک کہ قیامت کھڑی ہوجائے”۔ آج مغرب میں فسلطین کیلئے مظاہرہ میڈیا دکھاتا ہے اور اسلام آباد میں فلسطین کے حق میں مظاہرے کو میڈیا کوریج نہیں دیتا بلکہ سابق سینیٹر مشتاق احمد خان کے ساتھیوں کو گاڑی سے کچلا گیا۔ وہ علماء ومفتیان، جماعت اسلامی، سیاسی جماعتیں جوجنرل ضیاء الحق کیBٹیم تھے آج جمہوریت کے علمبردار بن گئے۔ عمران خان کا صدارتی پروجیکٹ ناکام ہونے کے بعد سعد نذیر کے ذریعے جمہوریت کو کفر قرار دینے کا نیا پروجیکٹ شروع ہوگیا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جون2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

شہید غیرت پیکر حمیت پیر اورنگزیب شاہ کی شہادت کو17سال ہوگئے ۔ تحقیقاتی صحافت کا ایک نیا آئینہ

شہید غیرت پیکر حمیت پیر اورنگزیب شاہ کی شہادت کو17سال ہوگئے ۔ تحقیقاتی صحافت کا ایک نیا آئینہ

علی تمہاری شجاعت پہ جھومتے ہوں گے
گزر تو خیر گئی ہے تیری حیات قدیر ستم یہ کہ مگر کوفیوں میں گزری (ڈاکٹر عبد القدیر خان)

اخبارضرب حق کراچی سن1997سے مئی سن2007تک سیاسی، مذہبی، بین الاقوامی موضوع اور تائیدات۔ سن1991سے تصانیف ، ملک بھر میں فروخت ،خطبہ حجة الوداع کے الفاظ کی لاؤڈ اسپیکر پر سبھی زبانوں اُردو، سندھی، پنجابی، بلوچی ، پشتو میں تبلیغ اور امر بالمعروف ونہی عن المنکرکا فرض پورا کردیا تھا۔
اے لوگو! وہ باتیں سن لو جس سے تم ٹھیک زندگی گزار سکو گے۔ خبردار ! ظلم نہ کرنا ،خبردار ! ظلم نہ کرنا ، خبردار ! ظلم نہ کرنا ۔
مسلمانو! تمہارا خون، تمہارا مال اور تمہاری عزتیں حرمت والی ہیں …میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایکدوسرے کی گردنیں مارنے لگو…مسلمانو! شیطان اس بات سے مایوس ہوچکا ہے کہ نماز پڑھنے والے اس کی پرستش کریں لیکن وہ تمہارے درمیان رخنہ اندازی کرے گا۔ …مسلمانو! اللہ کی کتاب قرآن مجید کو مضبوط تھام لو تاکہ تم سیدھی راہ سے ہٹ کر گمراہ نہ ہو۔ …کسی مسلمان شخص کے مال میں سے کچھ لینا جائز نہیں ہاں اگر وہ راضی ہو۔ …جاندار کی تصویر جائز نہیں جاندار کی تصویر کو مٹادو۔…پردے کا اہتمام کرنا فرض ہے ، پردے کا اہتمام کرو۔ …داڑھی منڈوانا جائز نہیں شریعت کے مطابق داڑھی رکھو۔…گانا بجانا حرام ہے گانا مت بجاؤ۔
نماز، روزہ، زکوٰة اور حج بیت اللہ کی علمی اور عملی ذمہ داری پوری کرو۔ …اپنے نفس، معاشرے اور پوری عالم کی اصلاح کیلئے جدوجہد کرو۔ …اللہ کی راہ میں جہاد کرو اورپوری دنیا پر چھاجاؤ۔ …اللہ اور اسکے رسولۖ کی اطاعت میں وہ طاقت ہے جسکے ذریعے کمزور سے کمزور تر جماعت فاتح عالم بن سکتی ہے۔
نقش انقلاب مہدی آخرزمان سے قبل11خلفاء قریش، ہر ایک پر اُمت کا اجماع۔ مہدی امیر اول پھر5افراد کا حسن ،5افراد کا حسین کی اولاد سے، آخر پھر حسن کی اولاد سے ہوگا۔ (مظاہر حق شرح مشکوٰة ) علامہ جلال الدین سیوطی نے لکھا کہ12خلفاء میں ہر ایک پر اُمت کا اجماع ہوگا۔مولانا پیر مہر علی شاہ گولڑہ نے اپنی کتاب ”تصفیہ مابین شیعہ و سنی” میں لکھاکہ ”وہ 12خلفاء قریش آئیں گے جن پر اُمت کا اجماع ہوگا”۔ شاہ اسماعیل شہید نے ”منصب امامت” میں مہدی خراسان کا ذکرکیا اورکتاب ”الاربعین فی احوال المہدیین” لکھی ہے ۔
نبی ۖ نے فرمایا: وہ اُمت کیسے ہلاک ہوسکتی ہے جس کا اول مَیں ہوں، اسکا درمیان مہدی اور آخر عیسیٰ ۔ شیعہ مصنف نے اپنی کتاب ”الصراط السوی فی احوال المہدی” میں لکھا کہ ”اس سے مہدی عباسی مراد ہوسکتا ہے ، حدیث میں مہدی کے بعد11مہدی جن کو حکومت بھی ملے گی لیکن پھر مہدی آخری امیر کیسے ہوں گے؟”۔جواب یہ ہے کہ آخری مہدی سے قبل11مہدی اور کئی قیام قائم ہوں گے۔ حسنی، سیدگیلانی ، حسینی امام مجہول کا ذکر طالب جوہری نے اپنی کتاب میں کیاہے۔
رسول اللہ ۖ نے فرمایا: قحطانی مہدی کے بعد ہوگا اور وہ اس جیسا ہوگا۔ ارطاة نے کہا: مجھے خبر پہنچی کہ مہدی40سال زندہ رہے گا۔ پھر اپنے بستر پر مر جائے گا۔ پھر قحطان سے ایک شخص سوراخ دار کانوں والانکلے گا،جومہدی سے الگ نہ ہوگا۔ 20سال رہے گا پھر اسلحہ سے قتل ہوگاپھر اہلبیت نبیۖ سے نیک سیرت مہدی نکلے گا، شہرقیصر پر جہاد کرے گا اور وہ اُمت محمد ۖ کا آخری امیر ہوگا۔ اسی دور میں دجال نکلے گا اور عیسیٰ کا نزول ہوگا۔ یہ سارے آثار میں نے نعیم بن حماد کی کتاب الفتن سے اخذ کئے ہیں وہ ائمہ حفاظ اور بخاری کے شیوخ میں ایک ہیں۔( الحاوی للفتاویٰ ، جلد دوم ، صفحہ80:علامہ سیوطی )
بونیرعلاقہ چملہ اگارے میں شاہ وزیر کو محمد سعید نے کہا کہ تم گمراہی پھیلاتے ہو۔ شاہ وزیر نے کہا کہ کتاب میں شریعت کیخلاف بات ہو تو چوک پر گولی ماردو۔ مولانا عبد الرحمن کے پاس گئے۔ مولانا نے کہا کہ ”کتاب میں گمراہی کی بات نہیں ۔ خوشی کی بات ہے کہ موجودہ دورمیں یہ ایسے عزم والے ہیں”۔ مولانا کے بیٹے مولانا اسحاق اورمولانا زبیر جامعہ بنوری ٹاؤن کے فاضل ہیں اور انکے بھتیجے دار العلوم کراچی کے فاضل ہیں ۔
جماعت اسلامی کے پروفیسر غفور نے ہماری تائید کی اور لکھا کہ ”فرقہ کی جڑیں ختم کردیں۔ اب گدھ فرقہ واریت کی چوٹی پر بیٹھ کر مردار کی ہڈیاںنوچتے رہیں”۔ ڈاکٹرعبدالرزاق سکندر نے قرون اولیٰ کی طرح اصلاح کیلئے ہماری رہنمائی فرمائی ۔
ڈاکٹر اسرار احمدکی عالمی خلافت کانفرنس2001میں تقریر کی۔ لاالہ الااللہ، افرأیت من اتخذ الہ ھواہ ”کیا تو نے اس کو دیکھا جس نے اپنی نفسانی خواہشات کو اپنا معبود بنایا”۔ کیا اس کو دیکھا جس نے امریکہ کو اپنا معبود بنایا؟۔آج غلامی کی زنجیریں توڑنے کی باتیں ہورہی ہیں۔ مجھے سن1991میں جیل جانا پڑا تھا۔ جب طالبان کی مقبولیت آسمان کو چھورہی تھی تو میں لکھتا تھا کہ دوسروں پر خودکش کی جگہ خود پر حدشرعی جاری کرو تو پوری دنیا میں اسلام کے نفاذ کا مشن کامیاب ہوگا۔
طوفان کررہا تھا میرے عزم کا طواف دنیا سمجھ رہی تھی کہ کشتی بھنور میں ہے
واقعہ کے بعد خیبر ہاؤس پشاور پہنچا تو ماموں زاد شہر یار نے بتایا کہ ” باقاعدہ میٹنگ میں طالبان کی ذہن سازی کی گئی کہ یہ گھر بڑا ظالم ہے، لوگوں سے بیویاں اور بچے چھین لئے ہیں، بدمعاش ہیں ، طالبان کوبڑا اُکسایا گیا”۔

بھونڈے مظالم کی وضاحتیں :

اورنگزیب نے حملہ آور طالبان پر وار کردیا تو بھی کہا گیا کہ اس کی غلطی تھی۔ طاقتور کے سامنے سرنڈر ہونا بے عزتی تھی۔ امام حسین کی دنیا میں عزت سرنڈر نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔
ہمارا کلچر مختلف ہے۔ لوگ رشتہ نہ دینے پر اور ہمارے والا طبقہ رشتہ نہ لینے پر ناراض ہوتا ہے کہ دیا ہے تولیا کیوں نہیں؟۔
ضیاء الدین نے رشتہ لیا، شہریار نے انکار کیا اور اورنگزیب کی داماد ی مزید بگاڑتھا۔ اسفندیار ازالہ کرتا مگر تپش بڑھادی۔ احمد یار آخری تھاجو آگ بجھا تا اسلئے میںواقعہ کی رات طالبان گڑھ ماموں کے گھر گیا۔تاکہ ماموں احمد یار کے رشتے سے شہریار کے رشتے کا ازالہ کردے۔ جس سے ماموں کے گھر میں لگی آگ بجھ سکتی تھی۔ یہ اتنا گھمبیر مسئلہ تھا کہ ضیاء الدین کی شادی تھی اور دلہا دلہن کی ماں بہنوں کی بات چیت نہ تھی۔ میں نے مامی سے پردہ توڑ کر صلح کرائی تھی۔ ضیاء الدین نے یہ زندگی کیسے گزاری ہوگی؟۔ اس کی مغفرت کیلئے یہی کافی ہے۔
حاجی اورنگزیب نے بتایا کہ ”طالبان اسکے پیچھے ایک بار گھر پر آئے تھے اور دوسری مرتبہ گلاب کے بیٹے سے پوچھا تھا کہ کہاں ہے تو اس نے بتایا کہ ضیاء الدین کیساتھ ہے”۔ واقعہ سے پہلے مشکوک گاڑی کھڑی تھی۔ ضیاء الدین نے کہا طالبان نے کہا کہ ”اسلحہ جمع کررہے تھے۔ مطمئن رہو”۔ اورنگزیب کو ضیاء الدین پر اعتماد تھا۔ اسلحہ رکھااور بے خوف سوگئے ؟۔
منہاج نے کہا تھا کہ معافی کیلئے آنا منع کردواور ضد کی کہ میرا بھائی بھی مرا ہے تو نثار نے کہا : ” آپ کا بھائی ایسا مرا جیسے مہمان مارے گئے ”۔ منہاج نے مہم جوئی کی کہ” نثار نے کہا کہ آپ کا بھائی پڑوسیوں کی طرح مرا ہے اسلئے ہم الگ ہیں”۔ ریاض نے کہا کہ” نثار نے درست کہا، معاملہ تو ان کا ہے”۔
منہاج نے بتایا کہ قاری حسین اکیلا تمہارے سکول کے پاس کھڑا تھا۔ ہماری کوڑ میں ملاقاتیں تھیں ۔ چائے روٹی کا پوچھا مگر وہ انجان بن گیا۔ کوڑ کا پیر کریم ماجراء بتا سکتا ہے۔ عثمان نے بعد میں دوسروں پر گواہی دی توپہلے کیوں نہ بتایا؟۔
بیت اللہ محسود نے قاری حسین ، حکیم اللہ محسود پر قصاص کا حکم کیا۔ طالبان نے معافی مانگتے ہوئے واضح کیا کہ” ایسا ظلم اسرائیلی یہود فلسطین میں بھی نہیں کرتے ”۔پھر قاری حسین و حکیم اللہ نے بیت اللہ محسود سے کہا کہ ” تیرے حکم پر خاندان ملک اور اسکی فیملی ماردی پھرتو تم بھی قصاص کیلئے تیار ہوجاؤ”۔ جس کی وجہ سے بیت اللہ محسودانکے قصاص سے پیچھے ہٹ گیا۔

ممکنہ ڈھونگ مظالم کی بنیادیں :

ہمارابہنوئی سعودی عرب میں تھا۔ اسکے بھائی نے اپنی سالی سے اس کی شادی کرائی اور میری بہن کو نکلنے پر مجبور کردیا تھا۔
ہمارا الگ کلچر ہے۔ یوسف شاہ سے کہا کہ تمہارے بھانجے بھانجیاں تمہارے گھر اور تمہارے بھتیجے اور بھتیجیاں انکے ماموں کے گھرکے افراد تھے۔ یہی حال ہماری بھابھی کا بھی تھا۔ہمارا کوئی محسود ، وزیر اور بیٹنی کلچر نہیں تھا ۔ جس پر وہ خوش ہوگئے۔
پیرکریم سے پوچھا تھا کہ ایک طرف آپ کا بھانجا پیر شفیق اور دوسری طرف میرا بھانجا عبدالرحیم ہے۔کیا کہتے ہو؟۔ تو اس نے کہا کہ میرا بھانجا غلطی پرہے۔ میں نے بیٹے کیلئے بھائی جلیل کی بیٹی مانگی ، اس نے انکار کردیا توکیا میں اس پر پابندی لگاتا؟۔ میں نے کہا کہ تیری نسلوں میں بھی رشتہ نہیں لوں گا۔ بعد میں طالبان نے ایسی غلط بندشوں کو توڑ کر بہت اچھا کیا ۔
عبدالرحیم نے شادی کی ٹھانی تو میں نے کہا کہ کھل کر نہیں چھپ کر لائیں ۔ وہاں پہنچے تو خالدنے نور علی، ضیاء الدین اور فیاض کوبھی پہنچادیا تھا۔وہاں چاروں گھروں کی نمائندگی تھی۔
ماموں نے رشتے کے مسئلہ پر کہا کہ مجھ میں محسود کا رگ ہے۔ اپنا خون بہاتا ہوں اور دوسروں کا بھی۔ میں نے کہا کہ ”محسود کامفاد ہوتاہے۔ لاکھوں پر بیٹی بیچے تو کیسے بٹھادے؟۔ محسودکی غیرت بڑے ماموں میںتھی ،اگروہ ہوتے تو ہم پر فائرنگ کے بعد کم ازکم کوئی بھی طالبان کو یہاں نہ بساتا ”۔
کانیگرم میں میرے والد کے چچازاد عرف ملنگ دادا کے گھر سے قریب ایک محسودکی بیوہ نے قبضہ کیا۔جو برکی کی بہن ہے۔ منہاج کے والد نے ملنگ دادا کولپائی سے منع کیا تھا مگر اپنوں نے ساتھ نہیں دیا تو ماموں نے لپائی پر پشتو غیرت کی ہمت نہ کی اور کہا کہ میں سمجھ رہا تھا کہ بیٹھک بنارہاہے۔ ملنگ داداکو لایاپڑوسی کو دبانے کیلئے اور پھر اپنی عزت وغیرت ختم کرادی۔

فوجی لیز کی30کنال کا ماجراء :

نانا کے بھتیجے گل امین نے نوکری میں پیسے کمائے اور اپنے باپ اور چاچوں پر خوب پیسہ لٹایا۔انہوں نے اس کو جائیداد کا چوتھا حصہ دیکر بھائی بنادیا۔ آخر میں گل امین بیمار تھا ۔ بہن محمود کی بیوہ تھی۔محمود کے بعد اسکے باپ سلطان اکبر شاہ نے خانی کا نمبر پورا کیا۔ ماموں خان بن گیا تو گل امین نے مسئلہ اٹھادیا۔ جس پر ماموں نے کہا کہ میں چوتھا بھائی بھی نہیں مانتاہوں ۔
محمود کی اکلوتی بہن کی اکلوتی بیٹی کا بیٹا ایوب شاہ گریڈ21میں ریٹائرڈ ہوا۔ محمود کی بیوہ گل امین کی بہن تھی۔ گل امین بیمار تھا اور چاہتا تھا کہ خان کی نوکری کا بھاڑہ اسکے بیٹے ریاض کو مل جائے۔ریاض نےCSSمیں قبائل کے اندر پہلی پوزیشن لی اور اگر انٹرویو میں جنرل ضیاء الحق کے خلاف بات نہ کرتا تو پھر کمشنر انکم ٹیکس کی جگہ انتظامیہ کے کمشنر سے بھی زیادہ ترقی کرتا۔ انٹرویو میں پوچھا گیا کہ جنرل ضیاء الحق میں کتنی خامیاں ہیں؟، توریاض نے کہا کہ اسلام کے نام پر جمہوریت کو معطل کرکے مارشل لاء لگانے سے لیکر بے شمار خامیاں ہیں۔ خوبیاں پوچھو۔ اس نے کہا کہ خوبیاں کونسی ہیں۔ ریاض نے کہا کہ کوئی نہیں۔ اگر پاکستان میں حق گوئی کی سزا نہیں دی جاتی تو ملک ترقی کرتا اورحالات یہ نہ ہوتے ۔ میرے بھائی امیرالدین ایکس کمشنر بنوں نےCSSکیا تھا اور7میں سے پانچواں نمبر تھا مگر اس کو پھر بھی چھوڑدیا گیا۔ عدالت میں جج نے کہا کہ فوج سے ہمارا مقابلہ نہیں ہوسکتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کا بھائیPTCLسےDMGگروپ میں پہنچ کر کمشنر بن گیا۔
گل امین باپ کی زندگی میں فوت ہوتا تو یتیم بچوں کا دادا کی میراث میں حصہ نہیں تھا۔ علماء نے خود ساختہ شریعت بنائی۔
أفرأیت الذی یکذب بالدین فذالک الذی یدع الیتیم ” کیاآپ نے اس کو دیکھا جو دین کو جھٹلاتا ہے پس یہ وہی ہے جو یتیم کو چھوڑ دیتا ہے”۔(مولوی کی نشاندہی)
گل امین نے جو خرچہ کیا تھا وہ قانون اور شریعت میں اپنا کیس ہارتا اور جائیداد سے مکمل محرومی کا سامنا تھا۔ اسکے بچے میرے والد کے بھانجے ہیں۔ گل امین نے دعویٰ کیا کہ لیز کے پچاس کنال کی قیمت میں نے دی ۔ حالانکہ مشترکہ زمین تھی اور اس کی کوئی متعین قیمت ہوتی تو بھی دونوں مالکان کی مرضی سے طے ہوتی اور دونوں کو برابرکے پیسے بھی ملنے تھے۔
30کنال سے گل امین کی چوتھائی کا مسئلہ حل ہوتا تو والد کیلئے یہ بڑی چیز نہیں تھی۔ اس نے کہا تھا کہ غیاث الدین کو قسم نہیں اٹھواتا ،بس صرف اتنا کہہ دے کہ پیسہ دیا ہے تو مجھے پہنچ گئے ہیں۔وہ تو خاموش بھی گل امین کے فائدہ میں ہوا تھا۔
جب گل امین کا مسئلہ30کنال لیز پر حل نہیں ہوا بلکہ قوم نے نانا کی قبر پر جانور ذبح کئے ۔ زمین ہماری اکیلی بھی نہیں تھی تو پھر اس کے بعد معاملے میں الجھاؤ کا کوئی مسئلہ نہیں رہا تھا۔
میرے باپ کو نیلام میں سستی بندوقیں ملیں ،مارکیٹ قیمت چار گنا تھی۔ گل امین سے کہا کہ ایک تمہارے لئے لی ہے۔ اس نے کہا کہ1500میں آپ نے لی اور میں2500لوں گا۔ دونوں مجھے دینا۔ ماموں کیساتھ جھگڑا چل رہاتھا۔میرے والد چاہتے تھے کہ بندوق گل امین کوملے اور گل امین نے چاہا کہ ماموں کو نہ ملے۔ دوسری بندوق6000ہزار میں بیچ دی۔
جلال کو گل امین نے گھر کے سودا کیلئے رقم دی اور کہا کہ سریرالدین، علاء الدین اور سعدالدین کو نقدی کی ضرورت ہو تو دینا۔ جب دوسرے دن کاپی کا لکھاہواحساب گل امین کو دکھایا تھا توجب سعد الدین کا نام آتا تھا تو ایک گالی بھی دیتا تھا۔
زمین پر پیر جمیل اور شوکت کو قید کیا گیاتھا۔ مینک کے بیٹے کو زد وکوب و قید کرنا کس کی غلطی تھی؟۔ اکبر علی اور نواز حاجی آئے کہ مینک کے مسئلے پر بلایا ہے۔ حاجی بدیع الزمان نے کہا کہ مینک نے دھونس دیا کہ فوج سے بلڈوز کروں گا۔ نثار نے کہا کہ مینک سے کہو کہ پارٹنر سے بات کرو۔ اس نے قسمت خان سے50کنال کا تبادلہ کیاتھا ۔ یہ50ہمارے حساب میںآگئی۔
پھر منہاج نے کہا کہ ہماری مینک سے بات ہوگئی ۔ ہم ایک کنال کے بدلے اس کو سوادو کنال دیں گے۔ پھر اس کے ساتھ جھگڑا کیا تو یہ کس کا قصور تھا؟۔ یہ سب طے ہونا چاہیے۔
مجھے یہ دکھ تھا کہ سب نے بھائی ممتاز کے گھر پر دھاوا بولا تھا اسلئے نثار سے کہا تھا کہ اب تصفیہ بہرحال ہونا چاہیے اور اگر تم نہیں کرتے تو میں آخری حد تک جانے کو تیار ہوجاؤں گا۔
پھر نثار بھائی نے کہا کہ مینک کو بے عزت کیا اور اس نے یہ شرط رکھی ہے کہ علی باچہ کی زمین پر صلح کروں گا۔ اسکے بدلے جٹہ میں ہندو والی زمین دیںگے۔ فیصلہ ہوگیااور بعد میں نثار بھائی نے کہا کہ ہمیں دوسری زمین دی ۔ میں نے کہا کہ حقائق سے تو آگاہ کرتے ۔ نثار نے کہا کہ ان کو واپس کردینی ہے۔10کنال واحد10داؤد اور10گلبہار کی والدہ کو۔
پہلے اشرف علی سے ریاض لالانے کہا تھا کہ ہمیں پیسے نہیں ملے اور میرا باغ لے لیں۔ میں نے کہا تھا کہ جتنی زمین ریاض کے پاس ہے تو یہ وراثت میں پھوپھی کا حق ہے۔ داؤد اور واحد کی والدہ کا اتنا حق ہے جتنی زمین پر بیٹھے ہیں۔ ماموں سے حساب نہیں۔ بہر حال یہ زمین دیں بھی تو ہم نہیں لیں گے ۔
اگر زمین کا پیسہ دینے کے بعد میرا باپ مکر گیا تو دوسری مرتبہ پارٹنر کو دیتا جسکے نام کاغذ تھے؟ ۔ واحد اور داؤد سے کہا کہ پرائی زمین دینے کا کیافائدہ ؟۔ جہانزیب نے بتایا کہ بہن مجھ سے ناراض تھی۔ بہنوں کو زمین دیں تو اچھی دیں ۔2کنال شبیر کو راستہ ملے۔7کنال داؤد،7واحد اور7نوبہار کی والدہ کو مل جائے۔ ساڑھے تین کنال ریاض کی والدہ اور ساڑھے تین ملازئی کی پھوپھی کودیںتوپھر دل کو بھی تسلی مل جائے گی۔
ریاض نے بتایا کہ عالمگیر نے کہا کہ ”ہماری زمین تھی لیکن نور علی نے کہا کہ ماموں ہیں”۔ ہر چیز کی وضاحت ضروری ہے۔ عالمگیر کے بچوں کا حق ہم کیوں کھائیں گے؟۔اگرسب باتیں ریکارڈ پر نہیں ہوں گی تو ظالم اور مظلوم کا کوئی پتہ بھی نہیں چلے گا اور غلط فہمیاں بارودی سرنگیں بن جاتی ہیں۔
میرے والد کا ہاتھ تنگ تھا تو زمین قائم میاں خیل کو بیچی۔ دوست نعمت زرگر نے رقم دی کہ آپ دیں نہیں تو بیٹے دیں، نہیں تو یہ میری ہوگی۔ پھر گلزار احمد خان نے سرکاری ریٹ پرزمینوں کا مالک بنادیا۔ حاجی تامین کی منافع بخش زمین نعمت کو دینے کا فیصلہ کیا مگر دماغ خراب تھا اسلئے انکار کردیا۔
ماموں اور علاء الدین نے کہا کہ ہمیں دیدو۔ والد نے کہا کہ مجھے بھی پیسوں کی ضرورت ہے اگر تم بیچتے ہو تو نہیں دیتا۔ انہوں نے کہا کہ ہم رکھیں گے ، پھر ممتاز نے ان سے کہا کہ یہ زمین میں لیتا ہوں لیکن انہوں نے کہا کہ فائدے کی چیز ہم بھی جانتے ہیں۔ پھر انہوں نے اچھی خاصی قیمت پر بیچ دی۔ اور کمال یہ کیا کہ والد نے علی خان کی زمین پر شفہ کا دعویٰ کیا تھا کہ میں خریدوں گا اور علاء الدین نے کم قیمت میں وہ خرید لی۔ اکبر علی نے کہا تھا کہ” علی خان کی زمین کیلئے تمہارے پاس پیسے نہ تھے تو اس کی ملحقہ زمین آپ کیلئے خریدی”۔ پروپیگنڈہ مہم پریکطرفہ ٹریفک چلے تو پھر نتائج بھی بھیانک نکلتے ہیں۔
میرے والد نے کوٹ اعظم روڈ پر کتنے لوگوں کو سرکاری ریٹ پر آباد کیا ؟۔ چاچاانور شاہ کو بٹیاری میں زمین دلائی تھی لیکن وہ وسواسی تھے اور آخر میں اسکے پیسے پھینک دئیے تھے۔
مینک نے کہا تھا کہ تم قسم اٹھاؤ اور آدھی زمین لے لو یا پھر میں قسم اٹھاتا ہوں کہ ایک تہائی تمہاری ہے۔ میرے بھائیوں نے والد کو بتائے بغیر اس کو قسم کیلئے کہہ دیا اور35کنال کم زمین لی۔ جب مینک کیلئے35کنال چھوڑ سکتے تھے تو30کنال اپنوں کیلئے چھوڑنے میں کونسا مسئلہ تھا؟۔حاجی تامین کی زمین اسکے10گنے سے زیادہ کا معاملہ تھا۔2سوکنال تھی ۔
ریاض نے کہا کہ” لیز کی زمین کیلئے فیروز راضی نہیں تھا اور آپ کی والدہ نے دوپٹہ پھیلاکر استدعا کی تو اس نے قبول کی۔ مینک کیساتھ بھی آپ نے زیادتی کی ، قسم اٹھوائی۔ آپ کا باپ پیچھے آیا تھا ،ہم نہیں گئے تھے۔ مینک سے بھی ہمیں لڑا دیا”۔
منہاج نے کہا کہ ریاض کو چھوڑ دو، خان کی بیٹی دوپٹہ نہیں پھیلاسکتی تھی؟۔ خان کا بیٹا حاجی تامین کی زمین مانگ سکتا تھا بیوی کیلئے بہن سے ناراض تھا، جب ماموں کو پتہ چلا کہ پیسہ آیا ہے تو راضی ہوگئے۔35ہزار اور نگزیب لائے تھے۔23ہزار میں بس خرید لی جو مشترکہ بن گئی اور پھر گم کھاتے میں چلی گئی۔
منہاج کے دل کا آپرشن تھا تو ڈاکٹر ظفر علی ، منہاج اور میں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ زندگی اور موت کا بھروسہ نہیں ہے سارے متنازعہ معاملات نمٹالیں گے۔ یوسف شاہ نے بتایا کہ ہماری زمین پر قبضہ کرلیا تھا۔ اب بھی10کنال ہمارے نام کی زمین قبضہ میں ہے۔18شبیر کو دی ہے وہ بھی ملکیت کی ہے۔

اخلاقیات کا کوئی معیار ہے؟:

سید حسن شاہ بابو نے نواسوں کو گھر اور زمینیں دیںاور قوم کی مختلف شاخوں میں پیروں کاایک ایک گھر ایڈجسٹ کیا۔ پھر میرے والد نے آٹھواں یکجا کردیا۔ اعظم گل سے لڑائی تھی تو زمین کی سیدھ میں پہاڑ کا حق تھا۔ جو معطل کیا گیا۔ ایسا اصول کھڑا کیا کہ جسکے بعد کوئی ذرا اونچا مکان نہیں بناسکتا ہے؟۔ حالانکہ پورے شہر کی آبادی اوپر نیچے ہے۔ مجھے اعظم گل کے بیٹے نے کہا کہ ہماری یہاں بہت بے عزتی ہوئی ہے۔ میں نے کہا کہ آپ کہیں تو میں بھائیوں کو منع کردوں گا۔ اسلئے کہ اگرآپ راضی نہ ہو توہم بھی نہیں آتے؟۔ اس نے کہا کہ آپ سے بڑھ کر پڑوسی تو ہمیں چاہیے نہیں!۔ دل خوش ہوا کہ انکے دل سے پتھر ہٹادیا جو بوجھ سمجھ کر آخری امید لیکر آیاتھا ۔

شریعت کے پر خچے اڑادئیے؟:

جب غلام نبی سے معمولی بات پر لڑائی شروع کردی تو وہ نہیں لڑنا چاہ رہاتھا مولانا عین اللہ محسود کو شریعت کے مطابق فیصلہ کرنے کیلئے بلایا۔ ماموں راستہ بند کرنا چاہتاتھا اور وہ توسیع چاہتا تھا۔ مولانا عین اللہ نے فیصلہ دیا کہ” شریعت میں راستہ وسیع کرنے کیلئے مسجد اور قبرستان کو بھی مسمار کرسکتے ہیں لیکن راستے کو تنگ اور بند کرنے کی گنجائش نہیں ہے”۔
پھر مولانا عین اللہ کو بلایا۔ مولانا غلام محمد نے کہا تھاکہ میں مناظرہ نہیں کرتا۔ پیر جذباتی ہیں، فتنے کا خطرہ ہے۔ تو مولانا عین اللہ نے کہا ”پھر اجرت دوبارہ دیناہو گی”۔ مولانا غلام محمد نے کہا کہ ”اجرت ڈبل لے لو”۔ پھر اس نے نیا فیصلہ لکھ دیا کہ ”شریعت میں گدھے اور اونٹ کا راستہ ہے لیکن گاڑی کاراستہ نہیں”۔ مشہورہوا کہ ”پیروں نے مولوی کو رشوت کھلادی ”۔
قوم نے کہا کہ” یہ راستہ قومی بنالیتے ہیں”۔ ماموں نے کہا کہ ”پہلے میں قوم سے لڑوں گا”۔ میرے والد نے کہا کہ قوم کی بات مانو۔ بدلے میں پیچھے بانڑاں کا راستہ ذاتی بن جاتا تواس میں عزت اور فائدہ تھا مگرانسان کو ضداندھا بنادیتی ہے۔
ماں کا دوپٹہ پھیلانا ، باپ کا مکر ناثابت ہو تو طالبان ایسوں کا قتل جہاد سمجھیں گے مگر باتیںحقائق کے منافی ہوں تو اصلاح ضروری ہے۔ لوگ اپنے قاتل بھائی، باپ کو جیل یا پھانسی سے بچانے کیلئے نہ مظلوم مقتولین کا خیال رکھیں اور نہ خاتون خانہ کی عزت کا پاس توکچھ بھی کرسکتے ہیں۔ عبادت اورذاتی کردار اپنی جگہ لیکن حقوق العباد اسی دنیا میں ضروری ہے اور انقلاب اسی سے آسکتا ہے۔ ابوطالب نے نمازنہیں پڑھی ۔ کافر قرار دیا گیا لیکن ان کی عزت اسلئے تھی کہ ظالم اور غاصب نہیں تھے۔

مشہورٹھیکیدارحاجی پالم خان محسود:

پیر اورنگزیب شہیدC&WکےSDOتھے۔ میں نے کہا کہ مغرب نے ترقی اسلئے کی کہ قوم وملک کاپیسہ اپنی ذات سے زیادہ قومی اشیاء پر لگاتے ہیں، بھائی اورنگزیب نے کہا کہ وانہ روڈ میں پہاڑ کی کٹائی اور کارپٹ سرکارکی ڈیمانڈ سے میں نے زیادہ کام کروادیا تو چیف نے کہا پھر ہم کیا کھائیں گے؟۔ حاجی پالم خان ٹھیکدار تھا مگر بھائی نے کہا کہ میں بلڈنگ وروڈ بنانے کا پورا پورا خیال رکھتا ہوں تاکہ اس میں کوئی نقص نہ ہو۔ اس نے کہا کہ جوپیسہ چین وغیرہ کو دیا جاتا ہے اگر اسکے آدھے پیسے بھی ہمیں ملتے توہم ان سے زیادہ بہتر سڑکیںبنالیتے۔

پشتو اشعار کا ترجمہ:
جب تمہارے اوپر پیچھے سے وار ہوگا
یہ تمہارا اپنا ہی کوئی رشتہ دار ہوگا
یا تو تمہارا دوست ہوگا یا پھر تمہارا یار ہوگا
جس پر تمہارا بہت ہی زیادہ بھروسہ ہوگا
جب حق کی بات کو حق کہو گے
تو تمہیں گالی بھی اذیت دینے کیلئے دی جاتی ہے
جب تم اے عابد ! سفید کپڑے پہنو گے
تو اس کام پر بھی ان کو تمہارے اوپر غصہ آتا ہے

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جون2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv