پوسٹ تلاش کریں

جنوبی وزیرستان میں پیپلزپارٹی کے رہنما سردار نجیب محسودکی شہادت اوروزیرستان محسود ایریامیں امن کی ضرورت

جنوبی وزیرستان میں پیپلزپارٹی کے رہنما سردار نجیب محسودکی شہادت اوروزیرستان محسود ایریامیں امن کی ضرورت

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

جب مسلسل پروپیگنڈہ ہوتا ہے تو سچ کی خبرپہنچنے سے پہلے جھوٹ گاؤں کے گاؤں بہالے جاچکا ہوتا ہے اسلئے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا کہ ” جب کوئی فاسق خبر لیکر آئے تو پہلے اس کی وضاحت طلب کرو اور اس کو اپنے میں سے اولی الامر کی طرف لے جاؤ تاکہ نقصان نہ اُٹھاؤ”۔ آج کل الیکٹرانک، پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا کا خطرناک ہتھیار فاسقوں کے ہاتھ میں آیاہے لیکن اس سے یہ فائدہ بھی ہے کہ باطل کے مقابلے میں حق کی وضاحت بھی ہوسکتی ہے۔
جس کے پاس طاقت اور اختیار ہوتا ہے وہ اپنے خلاف کوئی بات کرنے کی اجازت نہیں دیتا ہے لیکن سوشل میڈیا نے طاقتور لوگوں کا اختیار ختم کردیا ہے۔ سقوطِ ڈھاکہ کے حوالے سے پاک فوج کے خلاف بڑاپروپیگنڈہ کیا گیا۔ ایک بنگالی حسینہ کی پاکستانی فوجی عاشق کیلئے اپنے خاندان کی قربانی کا عنوان دیکر بھارت میں قید رہنے والے پاکستانی فوجی بریگڈئیر کاا نٹرویو لیا گیا ہے جس نے اپنی داستان پر کتاب لکھی ہے۔ ایک عیاش جرنیل جنرل یحییٰ خان کی کہانیاں دیکھ کر یہ بعید ازقیاس نہیں کہ کسی بنگالی حسینہ سے ایک فوجی جوان کو عشق ہوگیا ہو۔ جبکہ اس نے بھارت میں تشدد کے حوالے سے یہ بات کہی کہ” میرے چاروں ناخن ٹوٹے ہوئے ہیںاور متعصب ہندو سے جتنا بھی ہوسکا ،انہوں نے ہماری تذلیل میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔باقی اس حوالے سے میں نے اپنی کتاب میں بھی کوئی بات نہیں لکھی اور میڈیا پر بھی کوئی بات نہیں کرتا ہوں لیکن یہ تأثر غلط ہے کہ پاک فوج کی بزدلی تھی اورسب اسی کی غلطی تھی۔لاوا پہلے سے تیار تھا”۔
جب ایک طرف یہ پروپیگنڈہ ہو کہ بھارت نے پاک فوجی قیدیوں کے چوتڑ پر ”جئے ہند” کی مہریں لگائی تھیں اور دوسری طرف اس پر بات کرنے کیلئے بھی ہمارا فوجی دانشور اور سپاہی تیار نہ ہو تو لوگوں میں اس غلط فہمی نے جنم لیا تھا کہ چوتڑ پر مہر لگانے کی داستان میں حقیقت تھی۔ حالانکہ ایسی پینٹ پہنائی گئی تھی جس کی پشت پر جئے ہند کی چھاپ تھی۔ یہ تذلیل کا انداز تھا اور اس پر بھی تبصرے کرنا بھی توہین آمیز بات تھی۔ جب ایک سیدھے سادے فوجی کو کہا گیا کہ سفید پینٹ کے چوتڑ پر سیاہ رنگ سے جئے ہند لکھاہواتھا تو اس نے غصہ ہوکرکہا کہ نہیں پینٹ سیاہ تھی اور اس پر لکھائی سفید رنگ کی تھی۔
اب یہاں تک بات پہنچی ہے کہ عام لوگ کہتے پھرتے ہیں کہ93ہزار فوجی تو بہت بڑی بات ہے ۔اتنی برائلر مرغیوں کو پکڑنا بھی مشکل کام ہے۔ ہم نے بھی کبھی ذہنوں میں نہ صرف پروپیگنڈے پالے بلکہ برملا اس کا اظہار بھی کیا تھا لیکن اس مرتبہBBCکی وہ رپورٹ اردو ترجمہ کیساتھ دیکھ لی کہ جو اسی وقت بنائی گئی تھی۔ جنرل نیازی اور دوسرے فوجی افسران کے علاوہ انڈیا کے افسران کے بھی اس میں تأثرات ہیں اور صحافیوں کے بھی اسی وقت کے تأثرات ہیں۔ مشرقی پاکستان میں علیحدگی کے جذبات کا تناور درخت تیار ہوچکا تھا۔ جب ان کو جیتنے کے باوجود بھی اقتدار منتقل نہیں کیا گیا، جنرل نیازی کی بدتمیزی وبہادری میں بہت توازن تھا، اس وقت موقع پر اپنے اعصاب پر اس طرح قابو رکھنا بہت کمال، بہادری اور حوصلے کی بات تھی۔ اگر ہتھیار نہ ڈالے جاتے تو اپنے شہری علاقوں کو مزید بہت بڑی تباہی اور نقصان کا سامنا ہوسکتا تھا اور اس وقت ایک صحافی نے موقع پراس بات کا اظہار کیا تھا۔ ایک طرف باغی اور متعصب باغیوں کا سامنا تھا اوردوسری طرف بمباردشمنوں کاسامنا تھا ، اس کی ذمہ داری صرف اس وقت پر نہیں ڈالی جاسکتی بلکہ حکومت و ریاست کی طویل پالیسی کا یہ نتیجہ تھا۔
مغربی پاکستان کے گلگت و بلتستان کے کئی گاؤں پر بھی1971ء میں قبضہ کیا گیا تھا جس کے خاندان کے کچھ افراد ادھر اور کچھ ادھر رہ گئے تھے۔ جرمنی کا چینل50سال بعد اس قبضے کا انکشاف پہلی مرتبہ عوام کے سامنے لارہاہے۔ یہ پشتو کے مشہور مقولے کے مطابق اہمیت کے قابل اسلئے نہیں تھا کہ جب پاکستان کا بڑا حصہ ہم سے جدا ہوگیا تو گائے کیساتھ اس کے بچھڑے کے جانے کی بھی خیر ہے لیکن سچائی سے ایک اعتماد پیدا ہوتا ہے اور جھوٹ ایک لعنت ہے۔
بنگلہ دیش میں سقوطِ ڈھاکہ کا بچہ آخر کار ایک دن پیدا ہونا ہی تھا اور قوم کے وسیع تر مفاد میں حقائق چھپانے کا بچہ بھی اپنی ولادت کے قریب ہے۔ جب ہم بچے تھے تو اندراگاندھی سے نفرت اور یحییٰ خان سے محبت ایک فطری بات تھی مگر جب شعور بڑھ گیا تو میڈیا کے ترانے ایک فراڈ لگے اور اب یہ فکر لگی ہے کہ ہماری دانست سے قوم میں ایک توازن پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔ وزیرستان میں پیپلزپارٹی کے رہنمانجیب محسود اور ڈیرہ اسماعیل خان میں عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما ژوب کے شیرانی کا قتل ہوا۔ محسود قوم ماشاء اللہ سمجھدار اور بہادر ہے ۔ جب نقیب محسود کے قتل پر اسلام آباد میں دھرنا ہوا تھا تو یہ ایک حقیقت تھی کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے ملاقات کے بعد قبائلی لوگ عمائدین سے زیادہ شیرپاؤ محسود ایڈوکیٹ کے کہنے پر واپس چلے گئے تھے۔ جبکہ بہت کم تعداد میں منظور پشتین کی قیادت میں چندا فراد نے فیصلہ کیا تھا کہ دھرنا جاری رہے گااور اس میں بڑی تعداد منتشر ہونے سے بے خبر رہنے والے سلمان خیل قبیلے کی تھی جو الیکشن لڑنے کی خواہش پر دھرنے میں لائے گئے تھے۔
منظور پشتین اور اسکے ساتھیوں کا اسلئے دھرنے کو ختم کرنے پر اعتراض تھا کہ جو لوگ تائید کیلئے آئے ہیں ان کو بھی اعتماد میں لیا جائے۔ مجھے اس میں مختصرتقریر کا موقع ملا تو میں نے کہا تھا کہ” اصل دھرنا اب شروع ہوا ہے۔یہ جو دہشتگردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے ” لیکن ساتھ ساتھ یہ روڈ میپ دینے کی بھی کوشش کی تھی کہ ریاست اور حکومت کو تعصبات اور گلے شکوے کے ذریعے نہیں بلکہ اپنا سمجھ کر اس منصب کو خود سنبھال لو۔ پیپلزپارٹی، ن لیگ اور تحریک انصاف لاڈلی دُختر ہیں جنہوں نے کورٹ میرج کے ذریعے بغاوت کی ہے اور تم نرینہ بچے ہو اور تمہیں اس ریاست کا ولی وارث بنناہے جسکے آگے تم نے کبھی اُف نہیں کیا۔
آج شیرپاؤ محسود نے وزیرستان میںوہی بات کی، جو منظور پشتین کا بیانیہ تھا لیکن اس میں پھر وہی غلطی دہرائی ہے کہ قصور صرف اور صرف فوج کا ہے۔ جب وانا میں کانیگرم کے شریف النفس انسان تحصیلدار مطیع اللہ برکی اور اسکے ایک ساتھی ملازئی کے باشندے تحصیلدار کو انتہائی سفاکانہ انداز میں شہید کرکے ان کی لاشوں کو مسخ کیا گیا تو جیو ٹی وی کے نمائندے نے ڈاکٹر عبدالوہاب برکی سے پوچھا کہ آپ کے خیال میں کس نے یہ کاروائی کی ہے؟۔اس نے جواب دیا کہ ہندوستان نے اتنے فوجی قید کئے تھے لیکن کسی کیساتھ یہ سلوک نہیں ہوا۔ امریکہ نے گوانتا موبے کے قیدی آزاد کئے تو کسی کیساتھ ایسا نہیں ہوا۔ ہندوستان اور امریکہ ایسا نہیں کرسکتے ہیں ، کسی مسلمان کا بھی یہ کام نہیں ہوسکتا ہے تو میں کیا کہہ سکتا ہوں کہ کس نے کیا ہے؟لیکن جیو نے اس کو نشر نہیں کیاتھا۔
پھر علی وزیر کے پورے خاندان اور کوٹ کئی محسود ایریا سے خاندان ملک اور اس کی پوری فیملی کو شہید کیا گیا۔ تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے گلشاہ عالم برکی کو غائب کیا گیا جس کا بھائی آئی ایس آئی میں بریگیڈئیر کے عہدے پر تھا۔ فوج کی کانوائیوں پر حملے ہوتے تھے اور بڑی تعداد میں فوجی مار کر ایک شعبان نامی فوجی کو قید کیا گیا تھا جو اپنے ماموں کو بتارہاتھا کہ میری ماں کو پتہ نہ چلے ۔اگر اس وقت قبائل نے درست ایکشن لیا ہوتا تو بعد میں اتنے مسائل کا سامنا نہ ہوتا۔ شیرپاؤ محسود نے اپنا مقدمہ پیش کیا ہے کہ افغانستان میں طالبان جیت گئے، ہماراGHQجیت گیا ، تحریک طالبان پاکستان جیت گئی لیکن ہم قبائل کی عورتوں کو پھلا دیا۔ اگرGHQچاہے تومفتی نورولی محسوداور طالبان رہنما ہیلی کاپٹر میں لاسکتے ہیں۔ ہم بندوق نہیں اٹھائیں گے۔ ہم باغی نہیں، آئی ایس آئی کے مخالف بھی نہیں ہیں۔ نور سعید نے کہا کہ ہم طالبان اور فوجیوں سے پوچھیں گے کہ کس جرم کی پاداش میں نجیب محسود کو قتل کیا گیا ہے؟۔ لیکن ہم نے بالکل بھی نہیں پوچھنا ہے۔ بندوق بھی ہم نہیں اٹھائیںگے۔ اگر ہم یونہی رہے تو ایک ایک کا جنازہ اٹھائیں گے۔ نجیب محسود کے قتل پر میرا خون جل رہاہے ۔ فوج کے پاس بیٹھے ہوئے طالبان ہمارے بچے، بھانجے اور بھتیجے ہیں۔ ہم نے علماء کے کہنے پر ہی ان کو بھیجا تھااور اس وقت ایک بڑے بالوں والا پنجابی اس کی تربیت کرتا تھا۔ ہماری قوم کا کوئی قصور نہیں ہے۔ اس مسئلے کا حل فوج نکال سکتی ہے اور ہم نہیں نکالیں گے۔شیرپاؤ کے بیان میں تذبذب کا ہونا ایک مجبوری لگتی ہے۔
جب پشتون کلچر فنکشن کے موقع پر قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں منظور پشتین پہنچا تو اس کو تقریر کا موقع بھی نہیں دیا گیا اور اسٹیج پر جانے سے روکا گیا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ مروت اور دوسری قوموں سے تعلق رکھنے والوں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ پہلے طالبان کے نام پر اپنی قوم کی عزت تار تار کردی اور اب قوم پرستی کے نام پر پھر اپنے محسود قبیلے اور پشتون قوم کا بیڑہ غرق کرنے سے شرم نہیں آتی ہے۔
رسول اللہ ۖ نے وحی کی رہنمائی سے تیرہ سال تک اپنی قوم کو مکی دور میں اپنا کردار ادا کیا اور دس سال مدنی دور میں لیکن پھر ایک انقلاب برپاکردیا ۔ جس کے بعد مسلمان عرب قوم نے مشرق ومغرب کی دونوں سپر طاقتوں ایران و روم کو شکست سے دوچار کردیا تھا۔ آج دنیا کو پھر سے مسلمانوں اور اسلام نے خوفزدہ کردیا ہے۔ فرانس کے واقعات سے پاکستان کے تحریک لبیک سے مذاکرات تک کا اختتام سری لنکن شہری کے بہیمانہ طریقے سے قتل پر ہوگیا۔ایک ضعیف حدیث ہے کہ من سبّ نبےًا من الانبیاء فقتلوہ ”جس نے انبیاء میں کسی نبی کی توہین کردی تو اس کو قتل کردو”۔ حالانکہ یہود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بہت بڑی گالی دیتے تھے اور قرآن نے ان کی خواتین کیساتھ نکاح کو جائز قرار دیا ہے۔
حنفی مسلک قرآن کے مقابلے میں ضعیف حدیث نہیں صحیح حدیث کو بھی کوئی اہمیت نہیں دیتا ہے۔ حضرت عائشہ پر بہتان لگانے کا معاملہ گالی سے بھی زیادہ سنگین تھا لیکن بہتان لگانے والوں کو وہی سزا دی گئی جو کسی عام عورت پر بہتان لگانے کی80کوڑے ہے۔ جبکہ زنا کی سزا100کوڑے ہے۔ اگر سورہ نور کی آیات کی تشہیر کی جائے تو پوری دنیا اس سے روشن ہوسکتی ہے۔ سیالکوٹ کا واقعہ ایک غیرملکی شہری کی وجہ سے زیادہ اہمیت اختیار کر گیا اور اس سے پہلے مشعال خان کا واقعہ بھی بہت سنگین تھا لیکن اس وقت جماعت اسلامی کے سراج الحق اور دوسرے لوگوں کو نبی رحمت ۖ کا دین اوراسلامی تعلیمات کا آئینہ دکھائی نہیں دیا تھا۔ وزیرستان میں جو فضاء بنائی گئی تھی وہ وہی تھی جو سیالکوٹ میں بنی تھی لیکن اپنے قصور کو صرف دوسرے کے سر رکھنا بھی کوئی سمجھداری کی بات نہیں ہے۔
خان زمان کاکڑ ایک تعلیم یافتہ اورباصلاحیت جوان ہے جو پہلےPTMاورANPکی کشمکش میں لٹک رہاتھا اور پھر ایک عہدہ ملنے پر اپنا وزن مستقل عوامی نیشنل پارٹی کے کھاتے میں ڈال دیا۔ عوامی نیشنل پارٹی کی ایسی متعصبانہ پالیسی نہیںلیکن خان زمان کاکڑ منفرد مقام رکھتا ہے۔ قوم کو باشعور شخصیات کی سخت ضرورت ہے اور خان زمان کاکڑ جیسے لوگ ایک بہت بڑا اثاثہ ہیں۔
قرآن وسنت نے آزادی کی آخری حد تک گنجائش دی ہے۔ خیبر امن کمیٹی کا سربراہ انتخابات میں قوم کو دھمکی دے رہاتھا کہ ” جس نے ووٹ ڈالا ،تو اس کی کھال ایسی اتاردیں گے جیسے مرغ کی اتاری جاتی ہے”۔ جبMQMنے ایک مرتبہ بلدیاتی الیکشن کا بائیکاٹ کیا تھا تو بھی لوگوں کو دھمکی دی تھی کہ ووٹ کا حق استعمال کیا تو انگلیاں کاٹ دیں گے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے لاڑکانہ سے ایک مخالف امیدوار کو کمشنر کے ذریعے اٹھالیا تھا۔ سیاسی پارٹیوں نے بدمعاش رکھے ہوتے ہیں۔ تحریک طالبان کے عروج کا دور سب نے دیکھ لیا تھا کہ جب سرکار کے لوگ بھی ڈرتے تھے اور مسلم لیگ ن نے الزام لگایا کہ مولانا فضل الرحمن بھی امریکہ کا ایجنٹ بن گیا ہے ،اسلئے کہ ریاست وحکومت کو خبردار کررہاہے کہ مارگلہ تک طالبان پہنچ گئے ہیں۔پاک فوج میں سپاہی تو دور کی بات ، اصحاب ثروت کیپٹن بھرتی ہونے کیلئے بھی تیارنہیں ہوتے ہیں ۔ کیپٹن صفدر کا بیٹا جنید صفدر بھی اب کیپٹن بننے کوتیار نہیں ہے۔ سنگلاخ جنگلات اور دہشتگردی سے متاثرہ علاقہ میں جان پر کھیل کر ڈیوٹی دینا خالہ جی کا گھر نہیں۔ غریب فوجیوں کے بیٹوں کا کوئی کاروبار نہیں ہوتا اسلئے وہ کم تنخواہ اور مراعات کے چکر میں جاتے ہیں۔
ایک ایسی فضاء بنائی جارہی ہے کہ نوازشریف کو اقتدار منتقل کرنے کیلئے ہرقسم کا حربہ استعمال کیا جائے۔ حالانکہ واپڈا کے بلوں کو فوج کے حوالے کرنے سے لیکر دہشتگردی کے ہر محاذ پر نوازشریف نے فوجی پالیسی کا ساتھ دیااسلئے کہ اس کا جنم بھی مارشل لاء میں ہوا تھا۔ جب اے این پی اور پیپلزپارٹی طالبان کی کھل کر مخالفت کرتے ہیں تو وہ نشانہ بنیں گے اور اس کو کسی اور کے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ جب تک فوج مجبور ہوگی تو وہ اس وقت تک اپنی حفاظت کیلئے دہشت گردوں کے روپ میں اپنے لوگوں کو پالنے کی پالیسی پر بھی گامزن رہے گی لیکن جب قوم اپنے میں سے دہشت گردوں کا خاتمہ کرے گی تو فوج بھی اپنی جان کی امان پائے گی اور کسی سرنڈر کو تحفظ نہیں دے گی۔
عالمی ایجنڈے کے تحت پہلے پشتون قوم کو طالبان کے نام پر تباہ کیا گیا اور پھر قوم پرستی کے نام پر اس کی تباہی کے منصوبے بن رہے ہیں۔ بات کا جواب اورگولی کا جواب گولی سے دئیے بغیر پوری قوم کی اصلاح کرنا ممکن نہیں ہے لیکن جب ایک جامع حکمت عملی تیار کی جائے تو لوگوں کے ذہن بدل سکتے ہیں اور اس میں ریاست کا اہم کردار ہوسکتا ہے۔ البتہ ہماری ریاست میں سب سے زیادہ کردار پاک فوج کا ہے اور سیاستدان بھی اس کے بنائے ہوئے گملوں میں پلے ہیں۔ ولی خان سے مولانا فضل الرحمن تک اسٹیلشمنٹ کی مخالفت کرتے ہوئے بھی اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار مسلم لیگ ن کا ساتھ دیتے ہیں۔ قبائلی علاقہ جات کو اگر امریکہ کے کہنے پر ضم کیا گیا تو ن لیگ کا دور تھا اور مولانا فضل الرحمن حکومت کا حصہ بقدر جثہ تھے۔سی پیک کا مغربی روٹ مسلم لیگ ن کے دور میں تبدیل ہوا۔ کرک کے گیس کو اٹک منتقل کرنے کی کوشش مسلم لیگ کے دور میں ہوئی اور اس کا نام کرک کی جگہ اٹک رکھا گیا۔پارٹیاں نظریات اور قومی مفادات کی نہیں اپنے ذاتی معاملات کا تحفظ کرتی ہیں۔اللہ سب کو اب ہدایت بھی دیدے۔
وزیرستان میں امن کی بحالی کو قبائلی عمائدین، سرنڈر مجاہدین اور سول و ملٹری حکام، سیاستدان اور نوجوان قیادت مل کرممکن بنائیں تاکہ پھر سے ٹارگٹ کلنگ اور قیمتی شخصیات کے قتل کا سلسلہ جاری نہ ہو۔سردارنجیب محسود کہتا تھا کہ” یہاں امن کی بات کرنا منع ہے تاکہ ترقیاتی کام کے نام پر پیسہ ہڑپ کیا جائے”۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

جمہوریت ایک بہترین نظام ہے قرآن و سنت میں شوریٰ کا تصور جمہوریت کی بنیاد ہے لیکن ہمارے ہاں کی جمہوریت ڈکٹیٹر شپ سے بھی زیادہ اخلاقیات کی تباہی کا ذریعہ ہے پاکستان میں جمہوریت سے فائدہ نہیں اٹھایا جارہا ہے۔

جمہوریت ایک بہترین نظام ہے قرآن و سنت میں شوریٰ کا تصور جمہوریت کی بنیاد ہے لیکن ہمارے ہاں کی جمہوریت ڈکٹیٹر شپ سے بھی زیادہ اخلاقیات کی تباہی کا ذریعہ ہے پاکستان میں جمہوریت سے فائدہ نہیں اٹھایا جارہا ہے۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

خیبر پختونخواہ کے بلدیاتی الیکشن میں حصہ لینے والوں نے پتھروں سے استقبال، مرغے کی طرح کھال اتارنے کی دھمکی اور قتل کرنے تک بات پہنچائی ہے۔ وفاقی وزیر علی امین گنڈہ پور نے جلسہ عام میں کہا کہ اگر دوسرے الیکشن جیت بھی جائیں تو حکومت ہماری ہے، ہم بلدیات کے دفتروں میں ان کو گھسنے بھی نہیں دیںگے،صوبائی وزیر بلدیات بھی میرا بھائی ہے۔ اس کے علاوہ علی امین گنڈہ پور نے یہ بھی کہا ہے کہ مریم نواز کو مولانا نے اپنوں کیلئے حلال کیا ہے تو ہمارے لئے بھی اس کو حلال کرلے۔ جمعیت علماء اسلام کے ایک سخت مخالف نے علی امین کی زبان پر بہت سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے۔ دوسری طرف علماء کے ایک حامی نے کہا کہ ایک مولوی تقریر کررہاتھا کہ ہم نے علی امین گنڈہ پور سے پوچھا کہ آپ مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی مانتے ہو؟۔ اس نے کہا کہ ہاں میں اس کو نبی مانتا ہوں۔ پھر ہم نے کہا کہ اس پر وحی نازل ہوتی ہے تواس نے کہا کہ ہاں اس پر وحی نازل ہوتی ہے۔ گاؤں دیہاتوں کے لوگ ان گمراہیوں سے بچ گئے ہیں لیکن شہروں میں یہ بہت فتنے ہیں۔
ہماری حکومت،ریاست، سیاسی ومذہبی رہنماؤں اورکارکنوں کا یہ حال رہا تو لوگ کبھی اچھے دن نہیں دیکھ سکیں گے۔ جمہوریت میں ایکدوسرے کیخلاف غلیظ پروپیگنڈے کے بجائے شائستگی سے اپنی خوبیاں اور دوسروں کی خامیاں بھی بتائی جاتیں تو بھی مناسب نہیں تھا بلکہ جمہوریت کا اصلی تقاضہ یہ ہے کہ اپنی خامی اور دوسروں کی خوبیا ں بتائی جاتیں تو انتخابات کے ثمرات سے استفادہ ملتا۔ جب حضرت عمرنے حضرت ابوبکر کے ہاتھ پر بیعت کیلئے پہل کی تھی تو حضرت ابوبکر کیلئے یہ ناگوار تھا اور جب حضرت ابوبکر نے حضرت عمر کی نامزدگی کا اعلان کیا تھا تو حضرت عمر کیلئے یہ بات ناگوار تھی۔ لوگوں کا ایک مزاج ہے کہ کوئی چڑھتے سورج کا پجاری ہوتا ہے اور کوئی قرابتداری کی محبت میں پاگل بنتا ہے اور کوئی خاندانی بنیاد پر ترجیحات میں پہلوان ہوتا ہے۔ کوئی اپنے استحقاق کیلئے زنجیریں توڑتا ہے۔
پیغمبر انقلاب خاتم الانبیاء والمرسلینۖ نے صحابہ کرام کا ہرقسم کی آلائشوں سے تزکیہ فرمایا تھا۔ تاہم انسان پھر بھی اپنی اپنی خصلت کی طرف رحجانات رکھنے سے باز نہیں آتا ہے۔ نبیۖ نے فرمایا کہ ”اگر پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائے تو مان لینا لیکن انسان اپنی فطرت سے ہٹ جائے تو نہیں ماننا”۔انسان ایک طرف ” احسن تقویم ” تو دوسری طرف ”خلق الانسان ضعیفا ”ہے۔ ایک طرف انسان مٹی سے پیدا کیا گیا اوردوسری طرف اس میں اللہ نے خود روح پھونک دی ہے۔ اعلیٰ علیین اور اسفل السافلین دونوں مقام انسان مکلف ہونے سے حاصل کرسکتا ہے ۔ لایکلف اللہ نفسا الا وسعھا ”اللہ مکلف نہیں بناتا ہے کسی نفس کو مگر اس کی وسعت کے مطابق”۔ مکلف ہونے کا مطلب انسان کی استعداد ہے ، اگر انسان میں بہت اچھا کرنے کی صلاحیت ہو اور وہ اس کیلئے جدوجہد نہیں کرتا ہے تو یہ اپنے مکلف ہونے کا حق ادا نہیں کرتا ہے ۔ ایک آدمی میں چوکیدار بننے کی اور دوسرے میں دنیا کو بدلنے کی صلاحیت ہے تو دونوں سے اسکی پوچھ گچھ ہوگی۔
سورۂ بقرہ کی آخری آیت میں ترجمہ کرنے والوں نے اردو کی تکلیف مراد لیا ہے کہ ” اللہ انسان پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا ہے”۔ حالانکہ اس کا کوئی تُک نہیں بنتا ہے اسلئے کہ اللہ نے اس آیت میں ولاتحملنا مالا طاقة لنا کی دعا بھی سکھائی ہے کہ ” ہم پر ایسا بوجھ نہ لاد یں جس کی ہمیں طاقت نہیں”۔ اگر اللہ طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالتا نہیں تو پھر ایسی دعا کیوں سکھاتا ہے؟۔ بوجھ تلے کوئی مرتا ہے، کوئی ذلیل اور خوار ہوتا ہے اور کوئی انتہائی مشقت اٹھاتا ہے۔ پہلی قومیں بھی عذاب کے بوجھ تلے تباہ ہوئیں اور اہل حق پربھی باطل نے بوجھ ڈالاتھا اور میری اماں محترمہ نے میرے بارے میں کہا تھا کہ ” اس کی مثال ایسی ہے جیسے گدھے نے اُونٹ کا بوجھ اٹھایا ہو”۔ وزیرستان اور گومل میں اونٹ اور گدھا بوجھ اُٹھانے کیلئے استعمال کیا جاتا تھا۔ انگریز نے پانی کی موٹروں کو ہارس پاور کانام دیا ہے اور قرآن میں گدھے اور گھوڑے کو سواری اور زینت کیلئے تخلیق کی بات ہے۔ حدیث میں شہروں کے اندر اتنی کھلی گلی چھوڑنے کا حکم دیا گیا تھا کہ جن میں دومال بردار اونٹ آسانی کیساتھ گزر سکیں۔ ہم آج کی دنیا میں بھی بہت پیچھے ہیں۔
جب نبی کریم ۖ پر قرآن نازل ہوا تو آپ ۖ کا کیا حال ہوا ہوگا اسلئے کہ اللہ نے فرمایا کہ ” اگر ہم اس قرآن کو پہاڑ پر نازل کرتے تو اس کوآپ دیکھتے کہ ریزہ ریزہ ہوکر اس میں ہل چل مچ جاتی،اللہ کے خوف سے”۔ بعض لوگ اپنی کم عقلی کے باعث غلام احمد پرویز کے پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر احادیث صحیحہ کا انکار کررہے ہیں۔ جن میں معروف اور بہت اچھے اہل حدیث عالم دین مولانا اسحاق فیصل آباد والے بھی شامل تھے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ الم نشرح لک صدر ووضعنا عنک وزرک الذی انقض ظہرک ”کیا ہم نے آپ کا سینہ نہیں کھولا اور آپ سے وہ بوجھ نہیں اٹھایا؟ جس نے آپ کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی”۔ رحمت للعالمینی کا جتنا بڑا منصب تھا، اتنا زیادہ بوجھ تھا اور اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک طرف جاہل مشرکینِ مکہ کاتعصب تھا تو دوسری طرف یہوداور منافقین کی ریشہ دوانیاں تھیںاور تیسری طرف اعراب کا دیہاتی ، جاہل پن اور مفاد پرستی تھی اور چوتھی طرف اپنے مہاجرین وانصار کے درمیان توازن برقرار رکھنا اور تعلیم وتربیت ، تزکیہ اور حکمت سکھانے کا مسئلہ تھا۔
جب صلح حدیبیہ کا معاہدہ ہوا تو اللہ نے فرمایا کہ انا فتحنا لک فتحًامبینًا لیغفرلک اللہ ماتقدم من ذنبک وماتأخر ” ہم نے آپ کو کھلی فتح عطاء کردی ہے تاکہ آپ سے وہ بوجھ ہٹ جائے جو آپ کو پہلے اور بعد کے حوالے سے دامن گیر تھا”۔ اردو میں ”معاف کرنا” اور انگلش میں ایکسکیوز کے الفاظ بہت معانی میں استعمال ہوتے ہیں۔ جب کوئی اردو اور انگریزی نہیں سمجھتا ہوتو محاوروں کے ترجمے میں بہت غلطی کرے گا۔ ایک آدمی بھکاری سے کہتا ہے کہ ”مجھے معاف کرنا”۔ اب کوئی کم عقل اس کی توجیہ یہ پیش کرے کہ اس نے کوئی جرم کیا تھا اسلئے بھکاری سے میرے سامنے کھلے الفاظ میں معافی مانگ لی تو یہ اس کی زبان کو نہ سمجھنے کی غلطی ہوگی۔ مغفرت اور ذنب کے الفاظ عربی میں مختلف معانی کیلئے استعمال ہوتے ہیں۔ سیاق وسباق کو دیکھ کر معانی کا تعین ہوتا ہے۔
اللہ نے قرآن میں واضح کیا ہے کہ انا عرضنا الامانة …….. ” بیشک ہم نے امانت کو پیش کیا آسمانوں پراور زمین پر اور پہاڑوں پر تو انہوں نے انکار کیا کہ اس کا بوجھ اٹھائیں تو انسان نے اس کابوجھ اٹھالیا، بیشک وہ بہت اندھیرے اوربہت جہالت میں تھا”۔انسان کو اللہ نے مکلف ہونے کا بوجھ اٹھانے پر نادان قرار دیا ہے۔ مکلف ہونے کو ہی امانت قرار دیا ہے۔ انسان مکلف ہے۔ انسان اپنی فطرت سے ہٹنے والا نہیں ہے، اس کی چاہت ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ اس کو اختیارات مل جائیں۔ کسی بھی انسان سے یہ توقع ہوسکتی ہے کہ اس کی خواہش یہ ہو کہ پوری دنیا کے اختیارات اس کو مل جائیں لیکن وہ یہ پرواہ نہیں کرتا ہے کہ ایک معمولی ذمہ داری کا حق ادا نہ کرنے پر بھی اس کی نااہلی ثابت ہوتی ہے تو زیادہ سے زیادہ اختیارات کے ملنے کے بعد وہ اپنی نااہلیت سے جان چھڑاسکے گا؟۔
نبیۖ نے فرمایا کہ ” جو اپنی چاہت سے کوئی عہدہ ومنصب مانگ لیتا ہے تواللہ اس کی مدد نہیں کرتا ہے لیکن اگر اس کو عہدہ ومنصب دیدیا جائے تو پھر اللہ بھی اس کی مدد کرتا ہے”۔ نبیۖ نے انسانی جبلت کو دیکھ کر اسکی اصلاح کیلئے فرمان جاری کیا تاکہ انسان زیادہ اختیارات اور منصب مانگنے کے چکر میں نہ پڑے لیکن جب اس پر کوئی ذمہ داری ڈالی جائے تو اس کو قبول کرنے سے انکار بھی نہ کرے۔ اس نظام زندگی کو اسی طرح سے بہت ہی اچھے انداز میں چلا یاجا سکتا ہے۔
نبیۖ کے وصال کے بعد اختیارات اور منصبِ خلافت کیلئے انصار نے اپنا اجلاس طلب کرلیااور اس طبقاتی تقسیم اور اختیارات کے حوالے سے خطرناک رحجان کو بھانپ کر مہاجرین کے کچھ سرکردہ لوگ بھی وہاں پہنچ گئے۔ ہنگامی اجلاس جس مقصد کیلئے منعقد ہوا تھا تو اس رحجان کا خاتمہ کردیا گیا اور حضرت ابوبکر سے بیعت کیلئے حضرت عمر نے ہاتھ بڑھائے اور پھر انصارومہاجرین نے آپ پر ہی اتفاق کرلیا۔ اہل بیت کے کچھ لوگوں کو اس ہنگامی فیصلے پر تشویش تھی اور اس کی وجہ یہی تھی کہ اگر حضرت ابوبکر نے انصار سے بازی اسلئے جیتی کہ نبیۖ نے فرمایا تھا کہ ”ائمہ قریش میں سے ہوں گے” تو نبیۖ نے غدیر خم کے موقع پر حضرت علی کیلئے فرمایاتھا کہ” جس کامیں مولا ہوں تو یہ علی اس کا مولا ہے”۔اور فرمایا تھا کہ ”میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ایک قرآن اور دوسرے میرے اہل بیت”۔ صحیح مسلم میں یہ واضح ہے کہ اہل بیت سے مراد ازواج مطہرات نہیں ہیں بلکہ نبیۖ کے دادا کے خاندان والے مراد ہیں۔
صحابہ کرام کی تعلیم وتربیت اور تزکیہ کرنے اور حکمت سکھانے کی وضاحت قرآن میں ہے وہ ایکدوسرے کی تکریم کرنا جانتے تھے اور حسن ظن رکھتے تھے مگر وقت کیساتھ ساتھ مختلف طرح کے رحجانات رکھنے والوں نے ان کے اختلافات کو اپنے اپنے مزاج کے مطابق مختلف رنگ میں پیش کرنے کی جسارت بھی کی ہے۔ نبی ۖ نے ان نفوس قدسیہ کا یہ نقشہ پیش فرمایا ہے کہ ” ایک زیادہ وجاہت رکھنے والے صحابی کے بیٹے کا دانت کم حیثیت رکھنے والے صحابی کے بیٹے نے توڑ دیاتو اس نے قسم کھائی کہ اس کے بدلے میں اپنے بیٹے کے دانت توڑنے نہیں دوں گا اور پھر دوسرے صحابی نے اس کو معاف بھی کردیا”۔ جس پر نبیۖ نے فرمایا کہ ”بعض لوگ اللہ کو اتنے پیارے ہوتے ہیں کہ اگر وہ قسم کھالیں تو اللہ ان کی قسم بھی پوری کردیتا ہے”۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ جب تک زبردستی سے اس کو بدلہ لینے کی حد تک مجبور نہیں کیا جاتا ہے وہ قانون کے ذریعے اپنے اوپر حد جاری کرنے کا بھی روادار نہیں ہوتا ہے اور حیثیتوں کے فرق کو بھی ملحوظِ خاطر رکھتا ہے اور اس سے صحت مند رحجان بھی پیدا ہوتا ہے کہ قصاص اور حدود کے نفاذ سے دوسرے کا قتل یا اس کے اعضاء کو کاٹنے اور توڑنے سے زیادہ اچھی بات معافی ہے۔ غزوہ اُحدپر نبیۖ اور صحابہ نے زیادہ انتقام لینے کا کہا تو اللہ نے معافی کرنے کا حکم دیا۔
نبیۖ نے دانت توڑنے کی سزا سے بھی پرہیز نہیں کرنا تھا بلکہ دوسرے کو زبردستی سے بھی مجبور کرنا تھا لیکن جب معاف کردیا گیا تو انتہائی حسن ظن کا سبق بھی دیا گیا۔ حضرت سعد بن عبادہ نے بھی کہا تھا کہ میں قرآن کے حکم لعان پر عمل نہیں کروں گا بلکہ ایسی فحاشی کی حالت میں دیکھ کر قتل کروں گا۔ اس جذبے کی وجہ سے ان کو کافر ومرتد نہیں قرار دیا گیابلکہ اس کو اپنی رائے رکھنے کی آزادی دی گئی مگر اگر وہ قتل کرتا تو قانون کے مطابق اس کو سزا بھی دی جاتی۔ نبیۖ کی ریاست کا نظام بالکل سرتاپا رحمت تھا۔ کسی نے زکوٰة دینے سے انکار کردیا تو اس کے خلاف بھی جہادوقتال نہیں کیا گیا۔ حضرت ابوبکر صدیق نے ریاست کی طاقت کو منوانا تھا اسلئے مانعین زکوٰة کے خلاف قتال کیا گیا۔ حضرت عمر پہلے بھی متفق نہ تھے جبکہ حضرت عمرنے آخر میں بھی اس بات کا اظہار کیا کہ ” کاش ! نبی ۖ سے ہم تین باتوں کاپوچھتے ۔ ایک یہ کہ زکوٰة نہ دینے والوں کے خلاف قتال ہے، دوسرا کہ آپ کے بعد کس کس کو خلیفہ بنایا جائے اور تیسرا کلالہ کی میراث کی مزیدتفصیل ”۔
حضرت عثمان کے خلاف بغاوت ہوئی۔ حضرت علی نے دارالخلافہ کوفہ منتقل کیا مگر وہاں بھی آپ کا پیچھا نہ چھوڑا گیا۔ حضرت حسن امہ کے مفاد میں خلافت سے دستبردارہوئے جس کیلئے نبیۖ نے خوشخبری دی تھی۔ تیس سالہ خلافت کے بعد امارت قائم ہوئی اور آج پاکستان میں74سال بعد بھی اپنی اپنی پارسائی کے دعویدار سب ہیں لیکن ہمیں حقائق اور اپنی کمزوری کا اعتراف کئے بغیر چارہ نہیں۔
جمہوریت کے نام پر مفادپرستی، گری ہوئی اخلاقیات ، نظریہ ضرورت اور قسم قسم کے ہتھکنڈے معاشرے ، حکومت اور ریاست کی مشکلات میں دن بہ دن اضافے کا موجب ہیں۔انسان ہونے کے ناطے ، ایک ملک سے تعلق رکھنے کے ناطے ، مسلمان ہونے کے ناطے، پڑوسی اور ایک خطے سے تعلق رکھنے کے ناطے ہمارا کردار ایسا ہونا چاہیے کہ قرون اولیٰ کی تاریخ کو پھر سے دُہرادیں۔ قرآن اور سنت کی تعلیمات آج کے دور میں سمجھنے کی زیادہ آسانی ہے اسلئے کہ دنیا نے اب انسانیت کا سبق سیکھ لیا ہے اور ہمارے اپنے لوگ وحشیانہ پن کے شکار ہوگئے ہیں اور اس کے نتائج دنیا سے زیادہ ہم خود بھگت رہے ہیں۔ فرقہ پرستی، لسانی تعصبات اور گروہی مفادات نے انسانیت ، مسلمانوںاور اسلام کا دنیا میں تماشا بنادیا ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

آدم نے بلایا اور مجھ سے پوچھا کہ میں کیا چاہتا ہوں۔ جس کے جواب میں مولانا فضل الرحمان نے کہا تھا کہ ’’میں امن چاہتا ہوں‘‘۔

وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیْنَہُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَہُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِہِمْ اَمْنًا یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْئًا وَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُولٰئِکَ ہُمُ الْفَاسِقُوْنَ (النور:55)

اللہ نے وعدہ کیا ہے تم میں ان لوگوں سے جو ایمان والے ہیں اور عمل صالح کرنے والے ہیں کہ وہ ان کو ضرور زمین میں ایسی خلافت دے دے گاکہ جیسے ان سے پہلے لوگوں کو خلافت دی گئی تھی اور ان کیلئے ضرورانکے دین کو ٹھکانا بخشے گا جو دین ان کیلئے اللہ نے پسند کیا ہے اور ضرور بدل دے گاان کیلئے خوف کے بعد امن۔جو میری عبادت کرتے ہیں اورکسی چیزکو میرے ساتھ شریک نہیں کرتے اور جس نے اس سے کفر کیا تووہی لوگ فاسق ہیں۔( سورۂ النور:آیت55)

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

جب اللہ نے زمین میں اپنا خلیفہ بنانے کا فیصلہ کیا تو فرشتوں نے اعتراض اٹھادیا کہ ایسی مخلوق کو کیوں پیدا کررہے ہو جو زمین میں فساد پھیلائے اور خون بہائے لیکن اللہ نے فرمایا کہ میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ پھر آدم علیہ السلام کی فضیلت کو علم کے ذریعے سے منوایا تھااور فرشتوں سے سجدہ بھی کروایا مگر ابلیس کو سجدے کی توفیق نہیں ہوئی۔ اس نے کہا کہ مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو مٹی سے بنایا ہے تو میں اس خاک سے بنے ہوئے انسان کو کیوں سجدہ کروں؟۔
مولانا فضل الرحمن نے کچھ عرصہ پہلے ایک خواب بیان کیا تھا کہ حضرت آدم نے فون کیا ہے اور مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ آپ کیا چاہتے ہو۔ جس کا جواب دیتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا تھا کہ ” مجھے امن چاہیے”۔ حدیث میں خوابوں کو نبوت کا وہ حصہ قرار دیا گیا ہے جس کا کچھ حصہ مبشرات کی صورت میں رہ گیا ہے اور مبشرات سے مراد صحیح سلامت خواب ہیں جو الائش سے پاک ہوں اور نبوت سے مراد اصطلاحی نبوت نہیں ہے کیونکہ نبیۖ اس نبوت کی آخری اینٹ ہیں اور آپ ۖ کے بعد نبوت کے کچھ حصے کے باقی رہنے کا عقیدہ ختم نبوت کے خلاف ہے۔ نبوت سے مراد غیب کی خبریں ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کا خواب بھی غیبانی خبر ہے لیکن بشرط یہ کہ اس میں کوئی حقیقت ہو اور حقیقت اس وقت ہوگی کہ جب اس کا کوئی نتیجہ بھی نکل کے سامنے آجائے۔
خوابوں کی دنیا میں عرب وعجم کے اندر خلافت علی منہاج النبوت دوبارہ قائم ہورہی ہے اور اس کے نتیجے میں انشاء اللہ عنقریب خلافت بھی ضرور قائم ہوگی۔ مولانا فضل الرحمن نے امن مانگنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا تو اس کا بھی پتہ چلے گا کہ واقعی ان کو امن چاہیے یا پھر اس کی منزل اقتدار میں حصہ بقدر جثہ ہے؟۔PDMکے پلیٹ فارم سے سیاسی جماعتوں کیساتھ چل سکتا ہے تو اسلامی احکام کیلئے کوئی ایک پلیٹ فارم پر تیار کیوں نہیں ہوسکتا ہے جس سے جمہوری انداز کی بنیاد پر خلافت اسلامیہ کی بنیاد رکھ دی جائے۔ ہمارا اللہ، ہمارے رسولۖ اور ہمارادین کسی ایک ملک اور خطے کیلئے نہیں بلکہ بین الاقوامی اور تمام جہانوں کیلئے ہے اسلئے مقامی سطح پر نمائندگی کیلئے کوئی مخلص اور ایکسپرٹ سامنے آجائے تو اس کو آگے لانے میں ہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ دیوبندی ، بریلوی، شیعہ ،اہلحدیث اور پختون، پنجابی، سندھی ، بلوچ ، مہاجر اور کشمیری ہمارے حامی ہیں۔ الیکشن اور سلیکشن میں بہت فرق ہوتا ہے۔ جب حضرت عمر کے سامنے یہ تجویز رکھی گئی کہ اپنے بیٹے کو اپنے بعد خلیفہ نامزد کردیں تو حضرت عمر نے اپنے بیٹے کو اسلئے نااہل قرار دیا کہ وہ طلاق کے مسئلے کو بھی نہیں سمجھ رہاتھا۔ قرآن وسنت میں طلاق اور اس سے رجوع کے مسائل بہت واضح ہیں لیکن علماء ومفتیان نے اتنا الجھاؤ پیدا کردیا تھا کہ سبھی اس مسئلے میں خلافت کی مسند کیلئے نااہل تھے۔ جب علماء کی بڑی تعداد منتخب ہوئی تھی تو مولانا فضل الرحمن نے اکرم خان درانی کو وزیراعلیٰ بنوایا تھا اور باقی سارے علماء اس منصب کیلئے بالکل ہی نااہل تھے۔ پشاور کے حاجی غلام علی اور حاجی غلام احمد بلور میں کیا فرق ہے؟۔ اگر نواب اسلم رئیسانی نے جمعیت علماء اسلام میں شمولیت اختیار کرلی تو کسی عالم دین کے مقابلے میں وہ بھی اکرم خان درانی کی طرح بلوچستان کے وزیراعلیٰ بن سکتے ہیں۔ اگر پارٹیوں میں یہی فرق ہو تو پھر قوم کا بٹوارہ کرنے کیلئے مختلف طرح کی سنسنی خیزی پھیلا کر امن اور امان کے مسائل پیدا کرنے کی کیا ضرورت ہے؟۔ جس سے دہشتگردوں کو پھرمزید خوف وہراس پھیلانے کے مواقع مل جائیں؟۔
صدر اور وزیر میں فرق ہے۔ صدر اور ناظم اعلیٰ میں بھی فرق ہے۔ جمعیت علماء اسلام کے ناظم اعلیٰ پر مولانا فضل الرحمن اور مولانا عبیداللہ انور میں اختلاف ہوا تھا۔ پھر مولانا سمیع الحق اور مولانا فضل الرحمن میں اسی عہدے پر اختلاف تھا اور آخر میں مولانا فضل الرحمن نے امیر کے عہدے کو اپنے لئے پسند کیا تھا اسلئے کہ جماعت میں جنرل سیکرٹری کی جگہ احادیث میں امارت کی اہمیت ہم نے ہی اس کے سامنے اجاگر کی تھی لیکن جنرل سیکرٹری کے عہدے پر حافظ حسین احمد اور مولانا عبدالغفور حیدری کے درمیان مولانا فضل الرحمن نے اپنا وزن حیدری کے حق میں ڈال دیا تھا جس کی وجہ سے حافظ صاحب ہارگئے تھے۔ جنرل سیکرٹری کا متبادل ملک میں وزیراعظم ہوتا ہے۔ پہلے جمعیت میں امیر کی حیثیت کٹھ پتلی کی ہوتی تھی جس طرح اب ملک میں صدر کی حیثیت ہے لیکن پھر جمعیت علماء اسلام میں امیر کی حیثیت اصل کی اور جنرل سیکرٹری کی حیثیت کٹھ پتلی کی بن گئی ہے۔
اسلامی جمہوری آئین کا تقاضہ یہی ہے کہ حکومت و ریاست میں صدر وامیر کی حیثیت کٹھ پتلی کی نہ ہو۔ وزیراعظم دوسرے وزیروں کی نسبت بڑا ہوتا ہے مگر پھر بھی بہرحال وہ ایک وزیر ہی ہوتا ہے۔ جب سقیفہ بنی ساعدہ میں انصار نے اپنا اجلاس رکھا تھا تو مہاجرین کے بعض افراد بھی وہاں پہنچ گئے تھے۔ انصار نے انہیں کہا کہ ایک امیر ہم سے ہو اور ایک تم میں سے لیکن مہاجرین نے کہا کہ ہم امیر بنیں گے اور آپ لوگ وزیرومشیر بن جائیں۔ جب حضرت عمر نے خلافت کیلئے ایک شوریٰ تشکیل دی تھی تو اس میں کوئی بھی انصار ی صحابی نہ تھا۔ اگرانصار بھی مشاورت میں شریک ہوتے تو مدینہ میں شاید حضرت عثمان کی شہادت میں بیرونی باغی اتنے جریح نہ ہوتے اور نہ حضرت علی کو کوفہ اپنا مرکز بنانا پڑتا۔
پاکستان کے ابتدائی سالوں میںگورنر قائداعظم ،وزیراعظم لیاقت علی خان، پہلے دو انگریزآرمی چیف اور بعد میں آنے والے محمد علی بوگرہ سے لیکر شوکت عزیز تک اور ذوالفقار علی بھٹو سے عمران خان تک جتنے حکمران آئے ہیں وہ سب کے سب بیرون ممالک سے بلائے گئے نام نہاد پاکستانی تھے یا پھر کٹھ پتلی کی طرح بنائے گئے ۔ پاکستان پہلے بھی دولخت ہوا تھا اور اس میں سب کا مشترکہ کردار تھا اور اب بھی بیرونی اور اندرونی خطرات میں گھراہواہے جس میں سب نے اپنا اپنا حصہ ڈالا ہے۔ قرآن کی تعلیمات سے ہم اپنی معاشرتی اور معاشی تقدیر بدل سکتے ہیں لیکن مفادات کی سیاست سے ہمارے کرتے دھرتوں کو وقت نہیں ملتا ہے۔ امریکہ میں صدارتی جمہوریت ہے ، برطانیہ میں پارلیمانی جمہوریت ہے اور پاکستان میں کبھی صدر طاقت کا محور بنا اور کبھی وزیراعظم طاقت کا منبع بنا ہے۔ اگر صدر کے وسیع اختیارات ہوں اور لوٹوں کی سیاست ختم ہوجائے تو یہ تجربہ بھی برا نہیں ہوگا۔ عوام بھی براہِ راست صدر کو ووٹ دیں گے تو لوٹوں کی سیاست ختم ہوجائے گی۔ خلافت راشدہ میں خاندانی سیاست نہیں تھی لیکن جب بنوامیہ اور بنوعباس کی طرح خلافت عثمانیہ اور مغل بادشاہت قائم ہوتی رہی اور عرب میں بادشاہت کا تصور قائم ہوگیا تو اسلام اجنبی بنتاگیا ،مسلمانوں پر زوال آگیا اور اغیار نے ترقی وعروج کی منزل طے کی۔
جب عمران خان دھڑلے سے کہتا تھا کہ ” ہمارے بے غیرت حکمران بھیک مانگتے ہیں۔ میں ڈوب کرمرجاؤں گا لیکن بھیک نہیں مانگوں گا ”توہمارے فوجی بھائی تو ہوتے ہی فوجی سری والے ہیں۔ پنجاب میں بغیر مغز کی سری کو فوجی سری کہا جاتا ہے لیکن بڑے بڑے سیاستدانوں اور دانشوروں نے بھی حماقت کا ثبوت دیدیا اسلئے کہ عمران خان کے پلے میں شوکت خانم ہسپتال کو بھیک سے بنانے کے سوا کیا تھا؟۔ سمجھ دار لوگوں نے سوچا تھا کہ یہودکا دامادعالمی مالیاتی اداروں سے فنڈز لاکر شوکت خانم ہسپتال کی طرح پاکستان کو بھی چلائے گا لیکن جب یہ ساری چیزیں ٹھس ہوگئیں تو اب یہ رونا رویا جاتا ہے کہ عمران خان کی گالیاں اپنی جگہ تھیں لیکن ہرچیز میں الٹی گنتی شروع ہوگئی ہے۔
نوازشریف اور مریم نوازکو عدالت نے عمران خان کو اقتدار میں آنے سے پہلے قید کرلیا تھا ،ایک کو بیماری کے بہانے چھوڑ دیا اور دوسری کو تیمار داری کا بہانہ بناکر چھوڑ دیا۔ اب بیماری ہے اور نہ تیمارداری مگرپھر بھی ” میں نہیں چھوڑوں گا” کی رٹ جاری ہے۔ یہ مدینہ کی ریاست ہے یا یہود کی خباثت ہے؟۔ اگر مریم نواز کیلئے قانون الگ ہے اور دوسری سزا یافتہ عوام کیلئے الگ ہے تو پہلی قوموں کی تباہی کا باعث امیر غریب اور باحیثیت اور بے حیثیت کیلئے یہی فرق تھا جس کا عمران خان اپنی رٹی رٹائی تقریروں میں تذکرے کرتا رہتا ہے۔
ایوب خان کی ڈکٹیٹر شپ نے مشرقی پاکستان میں مولانا بھاشانی کو خرید ا تھا جس کا خمیازہ سقوطِ ڈھاکہ میں بھگتنا پڑا تھا۔ جنرل ضیاء الحق کی ڈکٹیٹر شپ میں امریکہ اور روس کی جنگ میں ہم نے اپنا وزن امریکہ کے کھاتے میں ڈال دیا تھا جس کی وجہ سے امریکہ سپر طاقت بن گیا۔ پرویزمشرف کی ڈکٹیٹر شپ میں ہمارا کردار امریکہ کیلئے تھا جس کی وجہ سے پاکستان ، افغانستان، عراق، لیبیا اور شام عدمِ استحکام اور فتنہ وفساد اور قتل وغارت گری کے شکار ہوگئے ۔ اب طالبان نے ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ چھیڑا تو پھر بڑے پیمانے پر قتل وغارتگری کے مسائل کھڑے ہوسکتے ہیں۔ ہندوستان بھی کسی موقع کی تلاش میں ہے۔ سیاسی قیادت سے بھی عوام کا اعتماد اُٹھ گیا۔BBC،وائس آف امریکہ ،DWجرمنی، سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر تسلسل کیساتھ پاک فوج کے خلاف پروپیگنڈہ چل رہاہے ۔
پاکستان کا فی الحال یہ واحد ادارہ ہے جو ملک کو استحکام بخشنے میں بنیادی کردار ادا کررہاہے مگر ہر محاذ پر اس کے قبضے کی خواہش نے اس کو کمزور سے کمزور تربھی بنادیاہے۔ نقیب اللہ محسود کیلئے اسلام آباد میں دھرنا تھا تو وزیراعظم شاہد خاقان نے قبائلی عمائدین اورمنظور پشتین سے کہا تھا کہ ” اس ملک میں فوج کے سوا کسی کی طاقت نہیں ہے۔ ہماری حکومت کو ختم کرکے نوازشریف اور شہبازشریف کو پکڑ کر بکریوں کی طرح باندھ دیا گیا اور پھر سعودی عرب جلاوطن کردیا گیا”۔ کیا نوازشریف نے ماڈل ٹاؤن میں پولیس کے ذریعے فوج کے کہنے پر قتل وغارت کی تھی؟۔ کیا پارلیمنٹ میں تحریری بیان بھی فوج کے کہنے پر پڑھ کر سنایا تھا اور کیا قطری خط بھی کسی کرنل یا میجر نے لکھ کر دیا اور پھر لاتعلقی کا اعلان بھی فوج کے حکم سے کیا تھا؟۔ ہم فریق نہیں لیکن انصاف چاہتے ہیں۔ جب شاہدخاقان عباسی کے کہنے پر قبائل کی اکثریت نے دھرنا ختم کیا تھا تو دھرنے ختم کرنے میں بنیادی کردار شیرپاؤ محسود ایڈوکیٹ کا تھا۔ منظور پشتین اور شیرپاؤ محسود متضاد تھے لیکن آج شیرپاؤ محسود نے بھی اپنی پٹڑی تبدیل کرکے اپنا لہجہ بدل دیا ہے۔
امریکہ کے خلاف طالبان کی حمایت میں جب وزیرستان میں فضاء بن گئی تو اس میں تحصیلدار مطیع اللہ برکی، گلشاہ عالم برکی ، خاندان ملک کوٹکئی کی پوری فیملی اور علی وزیر کی پوری فیملی کے علاوہ مولانا حسن جان پشاور، مولانا معراج الدین، مولانا نور محمد اور سردار امان الدین کے علاوہ سینکڑوں بے گناہ لوگ شہید ہوئے اور ایک لیڈی ڈاکٹر کو اغواء کرکے اس سے تاوان وصول کیا گیا جو مرد ہوکر چوتڑ تک بال رکھ سکتے تھے ان سے ہر قسم کی واردات اور بدکرداری کی توقع ہوسکتی تھی لیکن محسود قوم نے ان کو اس وقت اپنے گھروں میں تحفظ فراہم کیا ۔ یہ شوق سے تھا یا خوف سے تھا لیکن اس جرم کی سزا ان کو یہی ملی جو شیرپاؤ ایڈوکیٹ محسود کہتا ہے کہ افغان طالبان جیت گئے،GHQجیت گیا ، تحریک طالبان پاکستان جیت گئی لیکن ہماری عورتیں پھلادی گئی ہیں۔ کیا پنجابی مجاہدین ایسا کرنے کی بھی ہدایت اور ٹریننگ دیتے تھے جو اپنے لوگوں کیساتھ کیا گیا؟۔ اگر محسود اتنے زیادہ بیوقوف تھے تو بھی اپنے انجام تک ان کو پہنچانا بہت ضروری تھا۔
سوشل میڈیا پرہے کہ فوج نے اپنا ایک ریٹائرڈ افسر پکڑلیا ہے جس کے ساتھ ایک خٹک کو بھی گرفتار کیا جو امریکہ کو اطلاع دیکر دہشتگردوں کی جگہ عوام ، بچوں اور خواتین کو مرواتا تھا۔ امریکہ خود بھی دہشت گردوں کی جگہ عوام کو مارتاتھا اور دہشت گرد بھی امریکہ کے بجائے عوام کو مارتے تھے۔جبکہ ایک فوجی افسر نے اپنا مقدمہ سپریم کورٹ میں لڑا ہے جس میں اس نے انکشاف کیا ہے کہ اس کے خلاف سارے الزام غلط ہیں۔ سب اپنی اپنی غلطیوں کا اعتراف اور توبہ کرکے ایک نئی منزل کی طرف چلیں، جس میں امن وامان اور سکون ہو اور ملک وقوم اپنی ترقی کی منزل پر گامزن ہوجائے ورنہ خیر کسی کی بھی نہیں ہوگی۔ ہم سب اپنی اپنی جگہ اور اپنی اپنی حیثیت سے بہت گناہگار اور ناشکرے ضرور بن گئے ہیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

اسلام نے 1400 سال پہلے ایک عورت کو بے دردی سے قتل ہونے سے بچایا اور زنا کے الزام میں چار گواہوں کو بلایا۔

اسلام کے خلاف سازشوں کے تانے بانے تلاش کرکے قرآن وسنت کی صاف ستھری تعلیم سے دنیا بھرکے مسلمانوں اور انسانوں کو آگاہ کرناہوگا اور اگر ہم نے ایسا نہیں کیا تو پاکستان پر بڑی مصیبت نازل ہونے کا وقت زیادہ دور نہیں لگتا اور مصیبت کا سامنا سب طبقات ہی کو کرنا پڑتا ہے!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

سورۂ نور کی ابتدائی آیات میں اس سورة کی اہمیت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔ اللہ نے فرمایا کہ یہ سورة ہے جس کو ہم نے نازل کیا ، اسکو فرض کیا ہے اور اس میں بہت کھلی کھلی آیات ہیں۔ صحیح بخاری میں ایک باخبر صحابی سے دوسرے نئے مسلمان نے پوچھا کہ سورۂ نور میں زنا کی حد نازل ہونے کے بعد کسی کو سنگسار کیا گیا؟۔اس باخبر صحابی نے جواب دیا کہ میرے علم میں نہیں ہے۔ جس طرح پہلے بیت المقدس کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھی جاتی تھی ،اسی طرح جب تک اللہ کی طرف سے وحی نازل نہیں ہوتی تھی تو مختلف معاملات میںفیصلہ اہل کتاب کے مطابق کیا جاتا تھا۔بوڑھے اور بوڑھی کے زنا پر سنگساری کا حکم بھی توراة میں تھا۔ لیکن الفاظ ومعانی کی تحریفات نے توراة کو بالکل بے حال کردیا تھا جبکہ قرآن کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے خود لیا ہے اسلئے کہ قیامت تک وحی اور نبوت کاکوئی دوسرا سلسلہ باقی نہیں ہے۔
البتہ زنا بالجبر اور عورت کو جنسی ہراساں کرنے کی سزا قرآن نے قتل بتائی ہے اور نبیۖ نے اس پر عمل بھی کروایا ہے۔ سورۂ نور سے چند احکام ملتے ہیں۔
(1):زنا کی سزا مرد اور عورت کیلئے100،100کوڑے ہیں۔ اگر قرآن کی اس واضح سزا کو جاری رکھا جاتا تو فحاشی پھیلنے اور پھیلانے کی شیطانی سازش ناکام رہتی۔ اگر سزا معقول ہو تو اس پر عمل درآمد بھی آسان رہتا ہے۔ افغانستان میں اس وقت طالبان برسراقتدار ہیں اور ان کو سورۂ نور کی آیات سے زبردست رہنمائی کی سخت ضرورت ہے۔ قرآن میں سخت یا نرم کوڑے مارنے کی وضاحت نہیں ہے اور حالات وواقعات کی مناسبت سے کوئی ایسی سزا دی جاسکتی ہے کہ جس سے جرائم کی روک تھام بھی ہوجائے اور100کوڑوں کی سزا بھی پوری دی جائے۔ افغانستان کے معاشرے میں مرد اور عورت دونوں کو اس جرم پر یکساں سزا سے مساوات کے تأثرات قائم ہوں گے۔ معاشرے میں مرد شادی شدہ ہو یا کنوارا لیکن اس کو زنا پر کوئی سزا نہیں ملتی ہے لیکن عورت شادی شدہ ہو یا کنواری قتل کردی جاتی ہے۔
مولانا مناظر احسن گیلانی نے ”تدوین قرآن” کتاب لکھی ہے جس کو جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی نے شائع کیا ہے۔ جس میں واضح کیا گیا ہے کہ الفاظ اور معانی کے لحاظ سے الشیخ والشیخة والشیخوخة اذا زنیا فرجموھما کی بات کسی طرح بھی اللہ کا کلام نہیں ہے۔ الفاظ بھی بے ڈھنگے ہیں اورمعانی بھی بے مقصد ہیں۔ جوان شادی شدہ بھی اس کی زد میں نہیں آتے ہیں اور بوڑھے کنوارے بھی اس کی زد میں آتے ہیں۔ ابن ماجہ کی روایت ہے کہ جب نبیۖ کا وصال ہوا تو رجم اور بڑے کی رضاعت کی دس آیات بکری کے کھا جانے سے ضائع ہوگئیں۔
جب ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ پر نبیۖ کی حیات میں بہتان کے واقعہ کی زد میں مخلص مسلمان بھی ملوث ہوسکتے ہیں تو بعد میں روایات گھڑنے سے حفاظت کیسے ممکن ہوسکتی ہے؟ حنفی مسلک کے اہل حق نے من گھڑت حدیث کا سلسلہ روکنے میں بہت بنیادی کردار ادا کیا ہے لیکن بعد والے تقلید کی بیماری میں بدحال ہوکر فقد ضل ضلالًا بعیدًاکے راستے پر چل نکلے ہیں۔حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے امت مسلمہ کو فقہی اقوال اور روایات کو جبڑوں میں پکڑنے کی عادت سے باز رکھنے میں اپنا کردار ادا کیا تھا لیکن بعد میں دیوبندی بریلوی اُلجھاؤ کے سبب معاملات سلجھانے کی طرف علماء کرام اور مفتیانِ عظام نہیں جاسکے تھے۔
(2):اگر کسی مرد پر بہتان لگایا جائے تو اس کو اتنا فرق نہیں پڑتا لیکن اگرکسی کی عورت پر بہتان لگایا جائے تو اس سے شوہر اور اس کی بیوی کے علاوہ سارے اقرباء متأثر ہوتے ہیںاسلئے کسی عورت پر بہتان کی سزا بھی80کوڑے مقرر کئے گئے جو زنا کے جرم پر سزا100کوڑے کے قریب قریب ہیں۔ اگر دنیا کے سامنے قرآن کے ان احکام کو اجاگر کیا جائے تو پوری دنیا اس سے بہت متأثر ہوجائے گی۔
(3):اگر شوہر اپنی عورت کے خلاف کھلم کھلا فحاشی کی گواہی دے اور عورت اس کا انکار کرے تو عورت پر جرم کی سزا نافذ نہیں کی جائے گی۔ اسلام نے چودہ سوسال پہلے عورت کو کس طرح بے دردی کیساتھ قتل ہونے سے بچایا تھا اور اس کی گواہی بھی جرم کے ثبوت میں اس کے شوہر سے زیادہ مؤثر قرار دی تھی لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ لعان کے اس حکم پرعمل کے حوالے سے صحابہ کرام کے ایک دوہی واقعات ہیں اور پھر ان پر تاریخ میں کوئی عمل نہیں ہوسکا ہے۔ کیا صحابہ کرام سے زیادہ ہمارے دور کے لوگ غیرتمند ہوسکتے ہیں؟۔ نہیں نہیں، ہرگز نہیں۔ حلالہ کی لعنت کیلئے مدارس کی دارالافتاؤں میں لائن لگانے والے لوگ کیسے غیرتمند ہوسکتے ہیں؟۔
جب طلاق کے حوالے سے بار بار رجوع کی وضاحتوں کے باوجود بھی عوام کو حلالہ کی لعنت کا شکار بنایا گیا اور طلاق کے حوالے سے واہیات قسم کے مسائل گھڑ لئے گئے تھے تو باقی معاملات کو کیسے سمجھا جاسکتا تھا؟۔ قرآن میں اصل معاملہ حقوق کا ہے۔ جب عورت خلع لیتی ہے تو بھی اس میں فحاشی اور پاکدامنی کے حوالے سے حقوق کا نمایاں فرق ہے ۔ جب شوہر طلاق دے تو بھی اس میں فحاشی اور پاکدامنی کے لحاظ سے حقوق کا نمایاں فرق ہے۔ سورۂ النساء آیات19،20اور21میں خلع اور طلاق میں حقوق کا بنیادی فرق بھی ہے اور فحاشی کے حوالے سے بھی فرق ہے۔
جب مسلمانوں کو قرآن میں خلع اور طلاق کے بنیادی حقوق میں فرق کا بھی پتہ نہیں ہوگا تو باقی باریکیاں کون اور کیسے کوئی سمجھائے گا؟۔ ہم نے اپنی ناقص عقل اور ہکلاتی ہوئی زبان سے مسائل سمجھانے کی بہت کوشش کی ہے اور اس میں ہمارا کوئی کمال نہیں بلکہ اللہ کے کلام میں فصاحت اور بلاغت کا ہی بہت بڑا معجزہ ہے مگر بڑے علماء ، دانشور اور حکومت وریاست کے کارندے بات سمجھ کر بھی ہمارا ساتھ دینا نہیں چاہتے ہیں اور ہماری طرف سے بھی کوئی طاقت اور زبردستی نہیں ہے۔
جب خلع وطلاق کے حوالے سے مسلمانوں میں کوئی عمل درآمد تو بہت دورکی بات اس کو سمجھنے کی کوشش بھی نہ کی جائے اور بھوکے گدھے اور خچر کے سامنے تیار خوراک رکھی جائے تو بھی اس میں دلچسپی نہ لیتے ہوں تو کیا کیا جاسکتا ہے؟۔ جب امریکہ و مغرب میں مجرموں اوربے گناہوں کے درمیان مساوی حقوق کے قوانین بنائے گئے تو انکے سارے معاشرتی اقداربھی بہت تیزی سے زوال کیطرف گئے۔ اب یہ قانون بھی بن گیا کہ شوہر اپنی گرل فرینڈ اور بیوی اپنے بوائے فرینڈ کو گھر میں اپنے ساتھ بھی رکھ سکتے ہیں۔ اسکی بنیادی وجہ مجرم وبے گناہ کے یکساں حقوق ہیں۔
قرآن میں عورت کو خلع کی صورت میں تمام منقولہ اشیاء ساتھ لے جانے کا حق ہے لیکن غیرمنقولہ جائیداد سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ فحاشی کی صورت میں بعض لے جانے والی اشیاء سے بھی عورت کو اس کا شوہر محروم کرسکتا ہے۔ طلاق کی صورت میں تمام منقولہ وغیرمنقولہ دی ہوئی اشیاء میں کوئی چیز بھی مرد نہیں لے سکتا۔ کیا سورۂ النساء کی ان تین آیات پر مسلمانوں نے کبھی عمل کیا ہے؟۔ اگر کوئی نام نہاد فتوے کے ذریعے سے حلالہ کی لعنت اور بے غیرتی تک جاسکتا ہے تو عورت کو اس کا حق خلع اور طلاق کی صورت میں کیوں نہیں دے سکتا ہے؟۔ لیکن دینے کا رواج بھی نہیں ہے اور آگاہی بھی نہیں ہے اور قانون بھی نہیں بنایا گیا ہے۔ جبکہ مغرب کی طرف سے خلع اور طلاق کا فرق مٹاکر یکساں قوانین بنائے گئے اور فحاشی وغیر فحاشی میں بھی کوئی فرق نہیں رکھا گیا ہے اور قرآن کے یہ قوانین دنیا سے پوشیدہ ہیں۔
لعان کی صورت میں ایک طرف عورت کو سزا سے بچت ہوگی، دوسری طرف وہ بعض مالی حقوق سے محروم ہوگی۔مالی فوائد کیلئے اپنی بیگم پر بہتان کی جسارت سے شوہر کا بھی سارا کردار تباہ ہوگا۔ قرآن میں اتنا فطری توازن ہے کہ اگر ساری دنیا کو بھی قوانین بنانے کیلئے بٹھادیا جائے تو اس سے بہتر قوانین نہیں بنائے جاسکتے ہیں اور جمعیت علماء اسلام اور تحریک لبیک پاکستان کے قائدین اور رہنماؤں سمیت ہر ایک سے ہماری یہ استدعا ہے کہ آئندہ کا الیکشن قرآن میں دئیے گئے قوانین و حقوق کو اپنے اپنے منشور کا حصہ بناکر عوام کے سامنے پیش کیا جائے تو عوام زیادہ ووٹ دیں گے۔ طاقت کے حصول کیلئے مداری کی طرح کردار نہیںاداکرنا چاہیے۔
(4):بہتان لگانے کے حوالے سے چار گواہ کی بات الگ ہے اور زنا کے ثبوت کیلئے چار گواہ کی بات الگ ہے ۔ حضرت اماں عائشہ صدیقہ پر بہتان کے جوکردار تھے ،وہ بالکل الگ تھے اور حضرت مغیرہ ابن شعبہ کے خلاف تین اور چار گواہوں کی بات بالکل دوسری تھی۔ افسوس کہ کم عقل مفسرین اور علماء ومفتیان نے ان دونوں واقعات کو ایک ہی جگہ نقل کرکے بہت سخت غلطی کی ہے۔صحیح بخاری وغیرہ میں بھی حضرت مغیرہ ابن شعبہ کے واقعے کا ذکر ہے لیکن اس کا پسِ منظر بالکل مختلف تھا۔
اللہ تعالیٰ نے سورۂ نور کی آیات میں یہ واضح کردیا کہ کوئی غیور شخص اپنے نکاح میں کسی بدکار عورت کو رکھنے کا کوئی تصور نہیں کرسکتا ہے۔ ایمان اور اسلام کا دائرہ اس معاملہ میں بہت واضح ہے کہ خبیث عورتیں خبیث مردوں کیلئے ہیں اور خبیث مرد خبیث عورتوں کیلئے ہیں۔طیب مرد طیب عورتوں کیلئے ہیں اور طیب عورتیں طیب مردوں کیلئے ہیں۔ زانی مردنکاح نہیں کرے گا مگرزانیہ عورت یا مشرکہ سے اور زانیہ کا نکاح نہیں کرایا جاتا مگر زانی مرد یا مشرک سے اور یہ مؤمنوں پر حرام کیا گیا ہے۔
ایام جاہلیت میں بھی کوئی عورت کسی دوسرے مرد کیساتھ پکڑی جاتی توان کا آپس میں نکاح کرادیا جاتا تھا۔100کوڑوں کی سزا کے بعد انکا آپس میں نکاح کرایا جائے تو اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔ عورت ذات میں اللہ تعالیٰ نے شوہر کی غیرموجودگی میں بھی اپنی عزت کی حفاظت کا زبردست مادہ رکھا ہوتا ہے۔ لیکن اگر کوئی ایک عورت بھی بگڑ جائے تو معاشرے کو بگاڑنے میںاپنا کردار ادا کرتی ہے اسلئے اللہ نے یہ حکم بھی جاری کیا ہے کہ اگر چار افراد اس کی کھلی ہوئی فحاشی میں مبتلاء ہونے کی خبر دیں تو اس کو اس وقت تک گھر میں رکھا جائے جب تک اللہ اس کیلئے کوئی راستہ نہ نکال دے۔ راستہ یہی ہوسکتا ہے کہ جس سے غلط تعلقات رکھے تھے وہ اس سے نکاح کرنے پر آمادہ ہوجائے۔ یا100کوڑوں سے اس کو جرم سے باز رکھنے میں مدد دی جائے ۔ علماء کرام اوردانشوروں کی ایک ٹیم کو آیت کی تشریح کیلئے غور وتدبر اور مشاورت سے کام لینا ہوگا۔ میرا کام صرف توجہ دلانے تک ہے۔
(5):مستقل ڈھٹائی کے ساتھ بدکاری کے دھندے اور کبھی وقتی طور پر بدکاری کے ارتکاب میں بھی فرق ہے۔ الذین یجتنبون کبائر من الاثم و الفواحش الا المم ” اور جو لوگ اجتناب کرتے ہیں ، بڑے گناہوں اور فواحش سے مگر کچھ دیر کیلئے (ان سے بڑے گناہ اور فواحش کا ارتکاب بھی سرزد ہوجاتا ہے)”۔ حضرت مغیرہ ابن شعبہ کے حوالے سے تین افراد نے جس طرح کی گواہی دی تھی اور چوتھے نے جن الفاظ میں ذکر کیا تھا، اس سے بڑے گناہ اور فحاشی کا تصور نہیں ہوسکتا تھا مگر یہ ایک مستقل دھندہ نہیں تھا بلکہ کچھ ہی دیر کا معاملہ تھا البتہ اس پرقانون سازی میں مختلف فقہی مذاہب نے بہت بڑی غلطی کی ہے اور احناف پھر بھی دوسروں سے حق کے کچھ قریب ہیں لیکن صرف اس حد تک کہ حضرت عمرپر قرآن کو ترجیح دی ہے۔
جب حضرت عمر کے سامنے چار افراد حضرت مغیرہ ابن شعبہ کے خلاف گواہی دینے پہنچے تو حضرت عمر نے پہلے کی گواہی سن کر منہ بنایا۔ دوسرے کی گواہی سن کر مزید پریشان ہوگئے اور تیسرے کی گواہی سن کر پریشانی کی انتہاء نہیں رہی۔ چوتھے گواہ کے آتے ہوئے کہا کہ امید ہے کہ اللہ اس صحابی کو اس کے ذریعے سے ذلت سے بچائے گا اور جونہی وہ چوتھا گواہ اپنی گواہی دینے لگا تو حضرت عمر نے بہت زور سے چیخ اور دھاڑ مارکر کہا کہ بتاؤ ! تیرے پاس کیا ہے؟۔راوی نے کہا کہ وہ اس قدر زور کی دھاڑ تھی کہ قریب تھا کہ میں بیہوش ہوجاتا۔ پھر چوتھے گواہ زیاد نے کہا کہ میں نے اور کچھ نہیں دیکھا، اس کی سرین (چوتڑ) دیکھی اور یہ دیکھا کہ عورت کے پاؤں اسکے کندھے پر گدھے کے کانوں کی طرح پڑے ہوئے تھے۔ وہ ٹھنڈی ٹھنڈی سانسیںلے رہا تھا اور عورت کو لپٹایا ہوا تھا۔ یہ سن کر حضرت عمر نے فرمایا کہ بس گواہی ادھوری ہوگئی اور باقی تین گواہوں کو جھوٹی گواہی پر80،80کوڑے لگا دئیے۔ پھر حضرت عمر نے پیشکش کردی کہ اگر تینوں نے کہہ دیا کہ ہم نے جھوٹی گواہی دی تھی تو آئندہ ان کی گواہی قبول کی جائے گی ۔ ان میں ایک صحابی حضرت ابوبکرہ تھے جس نے یہ پیشکش مسترد کردی اور دوسرے دو گواہ صحابی نہیں تھے دونوں نے اس پیشکش کو قبول کرلیا۔ امام ابوحنیفہ کے مسلک والوں نے اپنے زریں اصول کے تحت حضرت عمر کی پیشکش کو غلط قرار دیا اسلئے کہ قرآن میں جھوٹی گواہی دینے والوں کی وضاحت ان الفاظ میں کی گئی ہے کہ ان کی گواہی کبھی قبول نہیں کی جائے گی۔ جبکہ توبہ کو قبول کرنے کا تعلق آخرت کیساتھ ہے۔ اور باقی تین مسالک کے پیروکاروں نے حضرت عمر کی پیشکش کو درست قرار دیا اور ان کے نزدیک دائمی گواہی قبول نہیں کرنے کا تعلق توبہ نہ کرنے کی صورت سے ہے۔
یہ واقعہ اسلئے پیش آیا تھا کہ انسان بہت کمزور ہے اور بصرہ کے گورنر سے ایک غلطی ہوگئی۔ اگر حضرت عمر اشدھم فی امر اللہ عمر کے مصداق رہتے یا غلو سے بچنے کیلئے وحی کا سلسلہ ہوتا تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔ حضرت عمر نے اپنے کنوارے بیٹے کو بھی زنا کی سزا میں آدمی بدل بدل کر ایسے کوڑے مروائے تھے کہ وہ فوت ہوگئے اور پھر لاش پر بقیہ کوڑے پورے کئے گئے۔ سورۂ نور کی آیات نازل ہونے سے پہلے سنگساری کے حکم پر عمل کرتے ہوئے نبیۖ کو دیکھا تھا اسلئے یہی اصرار تھا کہ شادی شدہ کو زنا پر سنگسار کیا جائے گا لیکن جب مغیرہ ابن شعبہ کا معاملہ آیا تو پیروں سے زمین نکل گئی۔ اس واقعہ سے ایک نقصان یہ ہوا کہ زنا کی حد پر عمل کا تصور ختم ہوگیا لیکن فائدہ یہ ہوا کہ سنگساری پر عمل کرنے کی بات بھی ختم ہوگئی۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر نبیۖ سے فرمایا ہے کہ توراة میں یہود نے تحریف کی ہے اور جو آپ کے پاس قرآن ہے یہ تحریف سے محفوظ ہے۔ اور یہ کہ ” اگر وہ اپنا فیصلہ قرآن سے کروانا چاہیں تو ٹھیک ورنہ ان کی کتاب سے بھی ان کا فیصلہ نہیں کرنا ہے اسلئے کہ اس کے ذریعے سے جو آپ کے پاس ہے اس سے بھی فتنہ میں ڈال دیں گے”۔ حضرت علی کی طرف یہ منسوب ہے کہ وہ کہتے تھے کہ اگر مجھے مستحکم حکومت مل گئی تو اہل کتاب کے فیصلے ان کی کتابوں کے مطابق کروں گا” ۔ اگر حضرت علی ایک مستحکم اقتدار کے مالک بن جاتے تو پھر سنگساری کا وحشیانہ حکم بھی کم ازکم اہل کتاب پر تو نافذ رہتا لیکن اللہ تعالیٰ کو یہ بھی منظور نہیں تھا۔ آج یہود اور نصاریٰ کیلئے قرآن کی آیات کے احکام قابلِ قبول ہیں لیکن توراة کے نہیں ہیں۔
آج سورۂ نور کے مطابق شرعی حدود، مساوات، شرعی پردے اور عورت کے حقوق و آزادی کے درست تصورات سے ہماری دنیا بدل سکتی ہے لیکن کاش بدلیں!

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

اُم المؤمنین حضرت عائشہ کے خلاف رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی اور اس کی چال میں آنے والے مخلص مسلمانوں کی قرآن کریم نے خوب سرزنش کی ہے

اُم المؤمنین حضرت عائشہ کے خلاف رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی اور اس کی چال میں آنے والے مخلص مسلمانوں کی قرآن کریم نے خوب سرزنش کی ہے

اِنَّ الّذِیْنَ جَآئُوْا بِالْاِفْکِ عُصْبَة مِّنْکُمْ لَا تَحْسَبُوْہُ شَرًّا لَّکُمْ بَلْ ہُوَ خَیْر لَّکُمْ لِکُلِّ امْرِئٍ مِّنْہُمْ مَّا اکْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ وَالَّذِیْ تَوَلّٰی کِبْرَہ مِنْہُمْ لَہ عَذَاب عَظِیْم (النور)

بیشک جو لوگ بہتان کے ساتھ آئے وہ تمہارے اندر سے ایک گروہ ہے، آپ لوگ اس کو اپنے لئے شر نہ سمجھو بلکہ وہ تمہارے لئے خیر ہے۔ان میں سے ہر ایک نے اپنے حصے کا گناہ کمایا ہے۔اور ان میں سے جس ایک بڑے نے ان کی سرپرستی کی ہے،اس کیلئے بہت بڑا عذاب ہے۔(سورۂ النور:آیت11)

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

سورة نور کی اس آیت میں اس گروہ کی نشاندہی ہے جس نے حضرت اماں عائشہ پر بہتان لگایا تھا۔ اس گروہ میں جس جس فرد کا جس جس قدر حصہ تھا،اتنا اتنا اس نے گناہ کمایا تھا۔ رئیس المنافقین نے اس بہتان کی سرپرستی کی تھی۔جس کا نام عبداللہ ابن ابی تھا۔اس کے بیٹے مخلص صحابہ کرام تھے۔ نبیۖ نے ان کی دلجوئی اور رحمت للعالمینۖ کے تقاضے سے اس کو اپنا کرتہ کفن کیلئے عطاء فرمایا تھا اور اس کی نمازِ جنازہ بھی پڑھائی تھی اور اسکی قبر پر کھڑے ہوکراس کیلئے مغفرت کی دعا بھی فرمائی تھی۔ حضرت عمرفاروق اعظم نے عرض کیا تھا کہ اس کی نماز جنازہ نہ پڑھائی جائے ،اگر اس کی دوسری شرارتوں اور فتنہ انگیزی کونظر انداز بھی کردیا جائے تو حضرت عائشہ پر بہتان عظیم کی شرارت کو کیسے نظرانداز کیا جاسکتا ہے؟۔ لیکن نبیۖ نے پھر بھی رحمت للعالمین ہونے کا ثبوت دیا تھا اور یاد رہے کہ اللہ نے فرمایا :ان المنافقین فی در ک اسفل من النار ”بیشک منا فقین جہنم کے نچلے ترین حصے میں رہیں گے”۔ عبداللہ ابن ابی ان کا سردار تھا۔اللہ تعالیٰ نے نبیۖ کو ایسے کردار کیلئے یہاں تک فرمایا کہ ” اگر70مرتبہ بھی آپ اس کیلئے استغفار کریں گے تو اللہ اس کو معاف نہیں کرے گا”۔ یہ کثرت کیلئے تھا۔ اگر نبیۖ کو یقین ہوتا کہ100مرتبہ استغفار کرنے پر اللہ معاف کردے گا تو ایک تسبیح ضرور عبداللہ ابن ابی رئیس المنافقین کیلئے پھر بھی پڑھ لیتے۔لیکن اللہ نے کسی صورت اس کو معاف نہ کرنے کی وضاحت کی تھی۔
جب کوئی شرارت کا سرغنہ ایک راستہ دیکھ لیتا ہے تو ایسی منصوبہ بندی کرتا ہے کہ سیدھے سادے لوگ اس کے جال کا بری طرح شکار ہوجاتے ہیں۔ جب ابن ابی کو پتہ چل گیا کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ سفر کے موقع پر کاروان سے پیچھے رہ گئیں تھیں اور ایک گھر کے خادم نے دیکھ لیا تو وہ ساتھ لے کر آگئے۔ اس واقعہ کا سن کر رئیس المنافقین نے منصوبہ بندی کرلی اورایک گروہ تیار کرلیا جس کا ذکر قرآن کی اس آیت میں ہے۔ اس گروہ میں ہر فرد کا اپنا اپنا کردار تھا۔
یہاں سمجھانے کیلئے ایک واقعہ پیش کرتا ہوں کہ شیطانی منصوبہ ساز گروہ کاسرغنہ کیسے اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ حضرت حاجی محمد عثمان کے خلاف اپنے مرید و خلفاء نے پہلے ایک سازش تیار کی اور اس میں اندر اور باہر کے لوگوں کو ساتھ ملا کرالاستفتاء تیار کیا اور حاجی محمد عثمان پرفتویٰ بھی منصوبہ بندی سے لگادیا۔ اس کی تفصیلات دیکھ کر عوام کی عقل دنگ رہ جائے گی کہ معززین کہلانے والوں کا اتنا گھناؤنا کردار بھی ہوسکتا ہے ؟۔ اور سادہ لوح مفتی اعظم مفتی ولی حسن ٹونکی کس طرح سے اس سازش کا شکار ہوگئے؟۔ پھر ایک دوسرا دور آیا کہ حضرت حاجی محمد عثمان کے انتقال کے بعد کس طرح سے ان کو زہر کھلانے کی جھوٹی داستان گھڑی گئی اور بہت مخلص لوگ بھی اس کا زبردست طریقے سے شکار ہوگئے تھے۔
چشم دید معاملات کو دیکھنے کے بعد اچھی طرح سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ رئیس المنافقین نے کس طرح سے منصوبہ بندی کی سرپرستی کی ہوگی؟۔قرآن کی آیات میں سازشوں اور فتنہ انگیزیوں کی جتنی تفصیلات ہیں وہ قیامت تک کی رہنمائی کیلئے کافی ہیں۔ سورة محمد میں اللہ تعالیٰ نے بعض لوگوں کے بارے میں فرمایا ہے کہ ” وہ کھاتے ہیں اور جنسی خواہشات پوری کرتے ہیں جیسے جانور کھاتے ہیں اور جنسی خواہشات پوری کرتے ہیں”۔ انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت اور خلافت کیلئے پیدا کیا ہے۔ جب انسان اپنے مقصد کیلئے کام کرتا ہے تو پھر وہ قرآن سے بھرپور طریقے سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
واقعہ افک بہتان عظیم میں کس کا کیا کردار تھا؟۔ حضرت ابوبکر کے رشتہ دار حضرت مسطح ،معروف نعت خوان حضرت حسان ، نبیۖ کی سالی حمنا بنت جحش نے بہتان لگایا تھا اور ان کو80،80کوڑوں کی سزا بھی ملی تھی۔ سورۂ نور کی تمام آیات میں بہت بڑا انقلاب موجود ہے لیکن یہ مختصر اخبار اسکا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس آیت میں اللہ نے فرمایا کہ ” اس واقعہ میں اپنے لئے شر نہ سمجھو بلکہ تمہارے لئے اس میں خیر ہے”۔ آج جو مسلمانوں کے اندر ایک بہت بڑا حساس معاملہ بنا ہے کہ توہین رسالت اور اذیت رسول کے نام پر لوگوں کومحض تہمت لگاکر بھی قتل کیا جاتا ہے تو اس میں خیر کا یہ پہلو ہے کہ اس سے بڑھ کر اذیت رسول کی مثال کوئی نہیں ہوسکتی ہے مگر بہتان لگانے والوں کو قتل نہیں کیا بلکہ کوڑے مارے گئے تو کیا قرآن نے ان جذباتی لوگوں کی درست ترجمانی نہیں کی ہے یا اس سے کسی کی حوصلہ افزائی ہوسکتی ہے؟۔ علماء اس کی نشاندہی عوام کے سامنے کریں۔
خیر کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ آئینِ پاکستان میں لکھا ہے کہ قرآن اورسنت کے مطابق قانون سازی ہوگی لیکن ہماری عدالتوں میں حرام خوری کا مال کمانے کی مقدار پر ہتک عزت کے دعوے ہوتے ہیں۔ جو اپنے لئے جتنے پیسے خرچ کرکے بڑا کیس لڑسکتا ہے وہ اپنی ہتک عزت میں اتنے پیسوں کا دعویٰ دائر کرسکتا ہے۔ مریم نواز کی ہتک عزت کروڑوں ،اربوں اور کھربوں میں ہوسکتی ہے لیکن ایک غریب خاتون کی عدالت میں عزت اتنی بھی نہیں جتنی رقم سے وہ اپنا کیس لڑسکے اور اگر معروضی حقائق کو دیکھا جائے تو اس غریب عورت کو اپنی عزت اتنی پیاری ہوگی کہ اس کا باپ پچاس مرتبہ بھی وزیراعظم کی کرسی تک پہنچے لیکن وہ اجنبی افراد کے ہجوم میں اس طرح سرِ عام اسٹیج پر ایک مرتبہ بھی گھل مل نہیں سکتی ہے۔
نبیۖ کی سیرت طیبہ اعلیٰ ترین نمونہ اسلئے نہیں ہے کہ لوگوں کیلئے قطعی طور پر قابلِ قبول نہ ہو بلکہ اعلیٰ ترین نمونہ کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کے بدترین دشمن بھی اسکو قبول کرنے سے نہیں ہچکچاسکتے ہیں آج پاکستان میں قرآن وسنت کا یہی قانون نافذ کیا جائے کہ غریب وامیر کی عزت برابر ہے۔ جس پر بھی بہتان لگے تو اس کی پاداش میں روپے کا کھیل نہیں کھیلا جائے گا بلکہ اسی اسی کوڑے مارے جائیں گے۔80کوڑوں کی سزا سب امیر وغریب کیلئے برابر ہے لیکن امیر کیلئے زیادہ رقم کا جرمانہ بھی بڑی سزا نہیں ہے اور غریب کیلئے کم رقم کا جرمانہ بھی بڑی سزا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ عزت انمول چیز ہے ۔ انسان کی غیرت بھی گوارا نہیں کرتی ہے کہ اس کی عزت کی کوئی قیمت لگائی جائے اور جس عزت کی قیمت لگے تو وہ عزت نہیں بلکہ قابلِ فروخت دھندہ ہے۔ اسلام کوئی نایاب چیزوں پر عمل کا نام نہیں بلکہ انسانی خمیر کی اس فطرت کے مطابق رہنمائی کرنے والا ایسا دین ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی اشرف المخلوقات کیلئے نازل فرمایا ہے۔
اُم المؤمنین حضرت عائشہ کے خلاف رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی اور اس کی چال میں آنے والے مخلص مسلمانوں کی قرآن کریم نے خوب سرزنش کی ہے اوریہ سلسلہ روایات اور اپنوں پرایوں کے درمیان انتہائی تشویش کا باعث ہے۔ اہل تشیع کے ائمہ ومجتہدین نے ان کی توہین واہانت کو ناجائز قرار دیا ہے لیکن کچھ لوگ قرآن سے بھی مطمئن نہیں تو حضرت عائشہ کے خلاف توہین آمیز روش کے مظاہرے سے باز نہیں آتے ہیں۔مسلمانوں کو قرآن سے رہنمائی لینی چاہیے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

اصل قرآن کے دو نسخے ملے جو ائمہ اہل بیت نے لکھے تھے۔ برطانیہ سے تصدیق ہوئی تو منظرعام پر لائیں گے، علامہ شبیر میثمی

شیعہ معروف عالم دین کے بیان سے نیا فتنہ کھڑا ہوگا ، اہل بیت کے مخالفین کو اہل بیت پر طعن وتشنیع کا موقع ملے گا کہ وہ قرآن کی تحریف کے قائل تھے۔

اَللّہُ نُوْرُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ مَثَلُ نُوْرِہ کَمِشْکَاةٍ فِیْہَا مِصْبَاح اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَةٍ اَلزُّجَاجَةُ کَاَنّہَا کَوْکَب دُرِّیّ یُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبَارَکَةٍ زَیْتُوْنَةٍ لَّا شَرْقِیَّةٍ وَّّلَا غَرْبِیَّةٍ یَکَادُ زَیْتُہَا یُضِیئُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْہُ نَار نُّوْر عَلٰی نُوْرٍ یَہْدِی اللّٰہُ لِنُوْرِہ مَنْ یَّشَآئُ وَیَضْرِبُ اللّٰہُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْم (النور:35)

اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے،اسکے نور کی مثال طاق کی طرح ہے جس میں چراغ ہو، چراغ شیشے میں ہو ، وہ شیشہ چکمدار ستارے کی طرح ہو،جو جل رہاہو زیتون کے مبارک درخت سے،جونہ مشرقی ہو اورنہ مغربی۔قریب ہے کہ اس کا تیل روشن ہوجائے ،اگرچہ اس کوآگ نہ چھوئے۔یہ روشنی پر روشنی ہے۔اللہ اپنے نور کی ہدایت دیتا ہے جس کو چاہتا ہے اور اللہ لوگوں کو مثالیں دیتا ہے اور اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

سورۂ نور کی اس آیت میں اللہ نے اپنے نور کو جس انداز سے بتایا اور جو مثال دی، وہ بالکل واضح ہے۔ اللہ کے نور پر مشرقی اور مغربی ہواؤں اور تہذیب کے کچھ اثرات مرتب نہیں ہوتے اور قریب ہے کہ اس کی روشنی آگ چھوئے بغیر بھی دنیا میں بھڑک اٹھے۔ اسلام کے فطری دین کو مولوی اور پیروں کو پھونکیں مارنے کی بھی ضرورت نہیں بلکہ اس کی انقلابی روشنی مذہبی طبقات کی تحریکات کے بغیر بھی جل اُٹھ سکتی ہے جو پوری دنیا میں اسلامی انقلاب کا باعث بن جائے۔ علامہ اقبال اورقائداعظم محمد علی جناح کی علماء ومفتیان نے مخالفت کی یا پھر ان کی قیادت کے پیچھے آخری صفوں میں کھڑے ہوگئے ۔ افغانستان میں طالبان نے الیکشن کمیشن کا محکمہ ختم کردیاہے اسلئے کہ ان کو خوف ہے کہ اگر انتخابات کروائے تو کوئی اوراقتدار میں آسکتا ہے۔ ڈکٹیٹر شپ اور آپس کے کچھ یا زیادہ اختلافات کے باوجود افغانستان میں ایکدوسرے کے خلاف بدتمیزی کا وہ طوفان برپا نہیں ہے جو پاکستانی جمہوری انتخابات میں ہے۔ نبیۖ نے فرمایا کہ ” اہل غرب قیامت تک ہمیشہ حق پر رہیں گے” اور اس سے جمہوری نظام مراد ہے اسلئے کہ حضرت ابوبکر کی ہنگامی ، حضرت عمرکی نامزد گی، حضرت عثمان کی مختصر شوریٰ اور حضرت علی و حضرت حسن کی خلافت اچانک منعقد کرنے کے بجائے جمہوری طرزکے انتخابات رائے عامہ سے ہوتی تو امت میں اختلاف کی بنیاد نہ پڑتی۔ حضرت عمر، حضرت عثمان ، حضرت علی کی شہادت اوربنوامیہ وبنو عباس کاخاندانی قبضہ بھی نہ ہوتا۔ شیعہ سنی کے اپنے اپنے دلائل ہیں لیکن بحث کا ابھی فائدہ نہیں۔ حضرت حسن کے بیٹوں کے نام ابوبکرو عمر تھے ، حضرت حسین کے بیٹوں کے نام بھی ابوبکر و عمر تھے اورمیرے بیٹوں کے نام بھی ابوبکر وعمر ہیں۔
ہندوستان میں ایک شیعہ وسیم نے سپریم کورٹ میں قرآن کے خلاف مقدمہ کیا کہ اس میں دہشتگردی کی جہادی آیات ہیں، ہمارا مسلمانوں سے تعلق نہیں ۔ جس کے خلاف شیعہ سنی دونوںنے زبردست احتجاج کیا۔ پھر پاکستان میں شیعہ عالم دین نے انکشاف کیا کہ” اوریجنل قرآن کے دو نسخے مل گئے جو اہل بیت کے ائمہ نے لکھے تھے۔ برطانیہ سے اس کی تصدیق ہوتو منظر پر لائیں گے، شیعہ سنی میںاختلافات کا معاملہ بڑھ سکتا ہے اسلئے اس پر بات نہیں کروں گا”۔ علامہ سید جواد حسین نقوی نے سخت الفاظ میں تردید اور بھرپور وضاحت کی کہ شیعہ میں روایت پر ست اہلحدیث کی طرح کچھ عناصر گزرے ہیں جنہوں نے ضعیف روایات کا سہارا لیکر قرآن میں بھی تحریف کی بات لکھی، جس میں ایک معروف عالم کی کتاب ”فصل الخطاب” ہے لیکن اس نے پھر دوسری کتاب اس کی تردید میں لکھی ہے جو معروف نہیں ہوئی۔ شیعہ معروف عالم دین کے بیان سے نیا فتنہ کھڑا ہوگا ، اہل بیت کے مخالفین کو اہل بیت پر طعن وتشنیع کا موقع ملے گا کہ وہ قرآن کی تحریف کے قائل تھے۔ یزیدکے کارناموں کو پیش کیا جائیگا اور جن میں حضرت علی کا بغض ہے وہ اپنے بغض کا شیعانِ علی کے خلاف نیامحاذ کھڑا کرینگے۔
کالعدم سپاہ صحابہ کے مولانا رب نواز حنفی اور علامہ اورنگزیب فاروقی نے اپنی تقاریر میں کہا کہ وقت نے ثابت کردیا کہ مولانا حق نواز جھنگوی کا مؤقف بالکل درست تھا ۔ شیعہ کو جب بھی موقع ملے گا وہ اپنے قرآن کی تصدیق برطانیہ سے کروائیں گے کیونکہ موجودہ قرآن پر ان کا ایمان نہیں۔ علامہ شبیر میسمی نے اپنے بیان کی واضح تردید کردی کہ میرا مقصد یہ تھا کہ اہل بیت کے قرآنی نسخوں سے موجودہ قرآن کی تصدیق ہورہی ہے۔ حالانکہ پھر اختلاف بڑھنے کا اندیشہ کیونکر ہوسکتا تھا؟۔ علامہ شہر یارعابدی نے اپنے یوٹیوب چینل پر علامہ میسمی سے تردید کروادی ،جو متعصبانہ رویہ ہمیشہ نمایاں کرتا ہے ۔ ہماری چاہت ہے کہ دین میں کسی پر زبردستی نہ ہو اور ہرکوئی اپنے دفاع کا بھرپور حق اور دوسرے کی مخالفت کا حق رکھتا ہے۔ اسلام کے دامن میں ستر سے زیادہ متضاد فرقوں نے پناہ لی اور کچھ اب تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ خلافت پر شروع سے اختلاف رہاہے۔
قرآن کے حوالے سے شیعہ سنی تنازع کی نشاندہی ہوتی رہتی ہے اور امت مسلمہ کو اتفاق رائے سے قرآن کے مسئلہ پر واضح ہونا چاہیے کیونکہ دونوں طرف سے خراب معاملات موجود ہیںجن کی ہم نے اپنی کتابوں اور اخبار کے مختلف شماروں میں وضاحت کردی ہے۔اگر جمعیت علماء اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمن میدان میں آگئے ، قرآن کے تحفظ اور آیات کی درست تشریح میں بھرپور کردار ادا کیا تو پھر بعید نہیں کہ اسلامی انقلاب آئے ۔ مولانا فضل الرحمن کو اپنے پرائے امام انقلاب مان لیں گے۔ سپاہ صحابہ بھی پھر ان کی ہم آغوش ہو گی۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے استاذ مولانا مفتی عبدالمنان ناصراور نمائندہ نوشتہ دیوار امین اللہ بھائی

جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے استاذ مولانا مفتی عبدالمنان ناصراور نمائندہ نوشتہ دیوار امین اللہ بھائی

لورالائی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے جامعہ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن نیوٹاؤن کراچی کے سابق استاذ حضرت مولانا مفتی عبد المنان ناصر مدظلہ العالی جو بانگی مسجد رنچھوڑلائن کراچی کے امام و خطیب بھی رہے اور پھر بلوچستان حکومت میں قاضی کے عہدے پر فائز ہوئے۔ تربت اور دیگر شہروں میں فرائض انجام دئیے، اللہ تعالی انکی عمر میں برکت عطا فرمائے۔ نوشتۂ دیوار کے نمائند گان عبدالعزیز اور امین اللہ ان کی خدمت میں حاضری دیتے ہیں۔ اس مرتبہ آپ نے رات کومہمان ٹھہرایا۔اللہ تعالی علماء حق کی شوکت میں اضافہ فرمائے۔ جب سید عتیق الرحمان گیلانی نے تحریک شروع کی تھی تو استاد مفتی عبدالمنان ناصر سے کسی نے کہا کہ اس نے مہدی کا دعویٰ کیا ہے۔ استاذ نے کہا کہ اگر یہ وہی عتیق ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں اور ثابت بھی کردیگا۔البتہ کوئی اور ہے تو میںکچھ نہیں کہہ سکتا ۔ عتیق گیلانی کی کتاب تحریر1991ء کانیگرم”خلافت علی منہاج النبوت کے وجود مسعود کا اعلان عام”میں اس کا ذکربھی ہے۔ جب عتیق گیلانی نے جامعہ بنوری ٹاؤن میں داخلہ لیا تو علم الصرف کے استاذمفتی عبدالمنان ناصر اور مولانا عبدالقیوم چترالی تھے جبکہ درجہ اولیٰ کے دیگر فریقوں کو مفتی عبد السمیع شہید پڑھاتے تھے ۔مولانا عبدالمنان ناصر نے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ میں نے طالب علمی کے اٹھارہ سالوں اور تدریس کے دوران اتنا قابل انسان طلبہ اور اساتذہ میں نہیں دیکھا ۔ ایک مرتبہ سرِراہ مولانا عبدالسمیع نے عتیق گیلانی سے صیغہ پوچھا اور اسکا پس منظر یہ تھا کہ ہر جمعرات کو مفتی عبدالسمیع سارے سیکشنوں کے طلبہ کو بلا کر مناظرہ کرواتے لیکن عتیق گیلانی اس میں شرکت سے انکار کرتے تھے۔عتیق گیلانی کے سیکشن کو یہ شکایت پیدا ہوگئی تھی کہ ہمیں استاذ اچھا نہیں پڑھاتے لیکن عتیق کہتے تھے کہ ہمیں بہت اچھا پڑھایا جارہاہے۔ عتیق گیلانی کے سیکشن میں مفتی اعظم امریکہ مفتی منیر احمد اخون بھی تھے ۔عتیق گیلانی نے بلاسوچے سمجھے مولانا عبدالسمیع کو جواب دیاکہ مجھے اس صیغے کا پتہ نہیں اور ایک چھوٹا سوال بھی کر دیا کہ ماضی کے صیغوں میں ضربتما دو مرتبہ کیوں لکھا ہے جبکہ صیغہ ایک ہے۔ مفتی عبد السمیع سے اسکا جواب نہیں بن رہا تھا اور آخر کار تقریباً گھنٹوںبحث میں بات یہاں تک پہنچی کہ مفتی عبد السمیع نے قرآن کا مصحف منگوا کر کہا کہ یہ اللہ کی کتاب ہے؟۔ عتیق گیلانی نے کہا کہ نہیں یہ نقش کلام ہے۔ مفتی عبدالسمیع نے کہا کہ آپ کافر ہو گئے اسلئے کہ اللہ کی کتاب کا انکار کر دیا۔ عتیق گیلانی نے کہا کہ مولانا یوسف لدھیانوی کے پاس چلتے ہیں وہ بھی کافر ہو گئے اسلئے کہ یہ مسئلہ انہوں نے بتایا ۔اسوقت طلبہ کا بڑا ہجوم اکھٹا ہو گیا تھا، مولانا عبدالسمیع نے عتیق گیلانی سے غصے میں کہا کہ” تم افغانی ساری کتابیں پڑھ کر آتے ہو، تمہارا مقصد پڑھنا نہیں ہمیں ذلیل کرنا ہے”۔ ایک طالب علم نے عتیق گیلانی کا بازو پکڑا اور مسجد کے سائیڈ میں لے جاکر کہا کہ صوفی صاحب بیٹھ کر اپنا ذکر کرو۔ دوسرے دن پورے مدرسے میں یہ چرچاتھا کہ صوفی صاحب تو علامہ تفتا زانی ہیں۔ مفتی عبدالسمیع کے بھی چھکے چھڑادئیے۔ عتیق گیلانی کو پتہ چلا تو انہوں نے کہا کہ میں قابل نہیں، مفتی عبد السمیع نالائق ہیں۔ استاذ مفتی عبدالمنان سے یہی سوال پوچھتا ہوں۔ مفتی عبدالمنان نے جواب دیا کہ مبتدی طالب علم کو سمجھانے کیلئے یہ صیغہ الگ الگ لکھ دیا تا کہ مذکر اور مونث کیلئے الگ الگ پہچان ہو۔ آگے کی کتاب ”فصول اکبری” میں یہ صیغہ ایک دفعہ لکھا ہے۔ جب عتیق گیلانی نے مولانا بدیع الزمان سے اصول فقہ کی کتابوں میں یہ تعلیم حاصل کی کہ کتابت کی شکل میں قرآن کے مصاحف اللہ کا کلام نہیں تو تعجب نہیں ہوا لیکن جب مفتی محمد تقی عثمانی کی کتاب ”فقہی مقالات” میں یہ دیکھا کہ سورہ فاتحہ کو علاج کیلئے پیشاب سے لکھنا جائز ہے تو پھر اصول فقہ کی کتابوں میں قرآن کی غلط تعریف کا معاملہ بھی کھل گیا اور اپنے استاذ مفتی محمد نعیم بانی جامعہ بنوریہ سائٹ ایریا سے بھی اس پر بات کی اور انہوں نے بھی اس حقیقت کو تسلیم کر لیا اسی طرح مولانا محمد خان شیرانی مولانا عطاء الرحمان اور قاری عثمان سے بھی اس پر بات کی تھی۔ علاوہ ازیں انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر منظور احمد سے بھی قرآن کی اس تعریف کی غلطی منوائی تھی جو امریکہ اور کراچی یونیورسٹی میں فلسفے کے پروفیسر رہے ہیں اور اصول فقہ میں یہ غلط تعریف علم کلام کی وجہ سے آئی تھی جس سے امام ابوحنیفہ نے توبہ کی تھی۔
مولانا سید محمد یوسف بنوری کے ایک شاگرد نے سقوطِ طالبان حکومت کے بعد ظہورمہدی پر ایک کتاب میں پاکستان سے ڈنڈے والی سرکار کا بھی ذکر کیا اور ملاعمر کے حوالے سے لکھا کہ وہ بھی ایک مہدی تھے لیکن اس میں حماقت یہ کی ہے کہ ملاعمر سے پہلے بھی ایک مہدی کا ذکر کیا ہے۔ جب ملاعمر سے پہلے مہدی آیا نہ ہو تو پھر دوسرے نمبر کے مہدی کا تصور کیسے ہوسکتا تھا؟۔ عربی یوٹیوب چینل اسلامHDمیں یہ انکشاف ہے کہ فتنہ الدُھیما کا حدیث میں ذکر ہے جس میں99فیصد لوگ قتل ہوں گے۔ یہ فتنہ مہدی کے40سالہ، منصور کے20سالہ اور سلام اور امیرالعصب کے ادوار کے بعد ہوگا۔ پھر آخر میں دجال اور آخری مہدی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ظہور ہوگا۔ اس میں نبیۖ کے بعد مختلف فتنوں اور صدیوں کے سرے پر مجددوں کے ادوار لکھے ہیں اور2022ء کو بھی ایک مجدد کا دور قرار دیا ہے اور اس میں پہلے مہدی کی خلافت کے آغاز کی بھی بات کی ہے۔ اس چینل میں ایک شخص نے مہدی امیر اول کا نام بھی جابر بتایا ہے۔جب مولانا شیرانی اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین تھے اور گیلانی نے طلاق کے حوالے سے سمجھایا تو شیرانی نے کہا کہ ”آپ ہم پر زبردستی سے اپنی بات مسلط مت کرو”۔
یوٹیوب پر عربی میں گھنٹوں کے حساب سے مہدی کے ظہور کے حوالے سے کئی کئی خواب ایک ایک چینل میں اپ لوڈ ہورہے ہیں۔ علامہ اقبال نے کہاکہ
ہوئی جس کی خودی پہلے نمودار وہی مہدی وہی آخرزمانی
قرآن کی واضح آیات اور سنت کی طرف توجہ کئے بغیر اصلاح نہیں ہوسکتی اور یہی بات ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر نے ہماری تحریک کیلئے لکھ دی تھی۔محمد فاروق شیخ

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

اللہ اور اسکے رسول ۖ اُمت سے سخت ناراض ہیں ،چار راتوں سے سو نہ سکا ۔ طالبان وزیراعظم ملامحمد حسن

اللہ اور اسکے رسول ۖ اُمت سے سخت ناراض ہیں ،چار راتوں سے سو نہ سکا ۔ طالبان وزیراعظم ملامحمد حسن

افغانستان کے طالبان نے نہ صرف ڈیورنڈ لائن کی باڑ اکھاڑ پھینکی ہے بلکہ اٹک تک پیچھا کرنے کی بات بھی ویڈیو میں موجود ہے۔ افغان طالبان کے وزیراعظم ملامحمدحسن اخون نے روتے ہوئے ایک خواب بتایا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ۖ اس امت سے سخت ناراض ہیں جس کی وجہ سے چار راتوں سے سو نہیں سکا ہوں۔ ظاہر شاہ کے وقت سے مختلف آزمائشوں کے ہم شکار ہیں اور امتحانات سے گزر رہے ہیں۔ پہلے بھی آزمائش سے نکلے تھے اور اب بھی نکل گئے ہیں لیکن ہمیں اپنی اصلاح کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ میں تمام ولایتوں (صوبوں) کے حکمرانوں کو اپنی شخصی اصلاح اور تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین کر تا ہوں۔ ملاعبدالغنی برادر اور کسی سے میں کوئی عناد نہیں رکھتا ہوں۔
قرآن وسنت کا نفاذ ہمارے لئے ضروری ہے۔ دشمن ہمیں قرآن وسنت سے دور رکھنا چاہتا ہے۔

تبصرہ نوشتہ دیوار
پچھلے مہینے افغان طالبان کی حکومت نے خواتین کی آزادی اور حقوق کی بھی بحالی کا اعلان کیا تھا جو خوش آئند ہے۔ ایک بات پوری امت مسلمہ کے تمام افراد، شخصیات، قائدین، جماعتوں، ملکوں اور اداروں کو یاد رکھنی چاہیے کہ سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ نہ صرف اپنی اصلاح بلکہ اپنی ذمہ داری کا احساس بھی کرنا چاہیے۔ یہ اتنا اہم نہیں ہے کہ دوسرے کی اصلاح کی جائے اور گلہ کیا جائے کہ ہمارے ساتھ یہ ہورہاہے اور وہ ہورہاہے بلکہ اہم بات یہ ہے کہ ہم اپنی ذمہ داری کیسے پوری کررہے ہیں اور ہمارے اندر کتنی تخریب ہے جس کی ہم پر اصلاح کرنا ضروری ہے؟۔ جب وزیرستان میں دہشت گرد ظلم کررہے تھے تو ہمارے خاندان نے ان کو سپورٹ کیا تھا۔ جب ہم پر حملہ ہوا تو میں نے اپنی غلطی کو اجاگر کیا تھا۔ جب اسلام آباد میں طالبان کے حامیوں نے اپنا نعرہ تبدیل کیا تھا تو ہم نے طعنہ نہیں دیا کہ اب تمہاری سمجھ کھل گئی ہے؟۔ بلکہ ان کی آواز سے اپنی آواز ملائی کہ واقعی تم مظلوم ہو! یہ نہیں کہا کہ جب طالبان کیساتھ حملے کے بعد محسود قوم کے تمام مشیران آگئے اور پھر کانیگرم میں تاریخ رکھ دی تو اپنے لونڈے باز طالبان نے تمہیں بزدل بناکر آنے نہیں دیا ۔
کانیگرم کے ایک برکی دوست نے کہا کہ ”ایک محسوددوست نے مجھ سے کہا کہ تم لوگ شیعہ کی طرح قوم پرست ہو۔جب سے کانیگرم کے پیروں کیساتھ واقعہ پیش آیا تو کانیگرم کے لوگ طالبان سے کنارہ کش ہوگئے ۔ جسکے جواب میں میں نے کہا کہ ہم تو ہیں شیعہ۔ ہم طالبان کیساتھ کیسے ہمدردی رکھ سکتے ہیں”۔
حالانکہ کانیگرم کے بہت سے برکی بھی طالبان کیساتھ اپنے جذبے اور خوف کی وجہ سے طالبان کیساتھ اُچھل کود رہے تھے اور ہمارے خاندان کے بعض لوگ طالبان سے اپنے بہتر تعلقات کے خواہاں تھے۔ محسود اور وزیر خاندانوں نے اپنے بڑوں کی مارا ماری دیکھ لی تو بھی زبان سے کوئی جنبش نکالنے کی ہمت نہیں دکھائی اور آج جب کوئی محسود مارا جاتا ہے تو اسکے خاندان والے کہتے ہیں کہ اس نے اپنے بچوں کو پاک فوج میں اپنی خدمات اور فرائض انجام دینے کیلئے بھیجنے کی خواہش پال رکھی تھی۔ ہمیں کسی کو کم تر اور نفرت کی نگاہ سے دیکھنے کی بھی ضرورت نہیں ہے اور خود کو بھی برتر اور کم تر سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ چھت پر بیٹھا ہوا فرد فرش پر بیٹھے ہوئے فرد کو ایسے انداز سے دیکھے کہ وہ اونچا ہے یا فرش والا سمجھے کہ وہ نیچا ہے تو اس سے برتری اور کم تری کا احساس پیدا ہونا آنکھوں کا ہی نہیں بلکہ دل کا بھی نابینا پن ہے۔ ہم یہ سوچتے اور دل سے سمجھتے ہیں کہ اگر ہماری جگہ طالبان ہوتے اور ہم طالبان کی جگہ پر ہوتے تو ہوسکتا ہے کہ زیادہ مظالم کرتے لیکن بس اطمینان کی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبیۖ کو فتح نصیب کردی تو ابوسفیان اور اس کی بیوی ہند کیساتھ حسنِ سلوک رکھا اور جب کربلا میں یزید کے لشکر کو موقع ملا تو حضرت حسین ، آپ کے خاندان اور ساتھیوں کو شہید کردیا گیا۔
ہمارے لئے اطمینان اور اعزاز کی بات صرف یہی ہے کہ اللہ نے ہمیں ظلم کا موقع فراہم نہیں کیا تھا۔ جب ہمیں اللہ تعالیٰ موقع دے تو ظلم کرنے سے بھی پناہ دے ۔یہ اس کا احسان ہوگا لیکن اس کو احساس برتری نہیں بلکہ ایک خود اعتمادی کے درجے میں سمجھنا چاہیے۔ ساری چیزیں اللہ تعالیٰ نے دنیا کیلئے نہیں بلکہ اپنی اس آخرت کیلئے بھی رکھی ہیں جس کے جزا وسزا کا بار بار اللہ نے قرآن میں ذکر کیا ہے اور جب تک آخرت کے میدان میں سرخروئی نہ ملے تو بنوامیہ ، بنو عباس اور خلافت عثمانیہ کی طرح خاندانی خلافتوں کے ملنے سے بھی کچھ حاصل نہ ہوگا۔
لوگوں کو بہت بڑا اعتراض ہے کہ چند مسائل کا بار بار ذکر ہوتا ہے لیکن جب تک یہ حل نہ ہوجائیں تو اگر پوری دنیا میں انقلاب آنا ہے تو ان مسائل کے حل سے ہی آئے گا۔ کیا مدارس اور مساجد میں تین طلاق اور حلالے کے مسائل اب حل ہوگئے ہیں؟۔ اگر نہیں ہوئے ہیں تو پھر جن لوگوں کی عورتوں کو حلالے کے پراسیس سے گزارا جائے تو وہ اس لعنت اور بے غیرتی کے عمل سے گزرنے کے بعد ہمارے انقلاب پر لعنت نہیں بھیجیں گے؟۔ تبلیغی جماعت ہمارے سروں کی تاج اور ہماری محسن ہے اسلئے کہ دین کی طرف دعوت دینے کا اہم فریضہ یہ لوگ ادا کررہے ہیںلیکن جن چھ باتوں کو دہرایا جارہاہے ،اس سے کسی کو ذاتی فائدہ یا نقصان ملتا ہے۔ کیا تین طلاق کے بعد رجوع نہیں ہوسکتا تو پھر رجوع نہ کرنے میں یا پھر حلالہ کروانے میں کامیابی ہے؟۔ظاہر ہے کسی میں بھی کامیابی نہیں۔
اگر لاالہ الااللہ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے حکموں میں کامیابی کا یقین دلوں میں آجائے اور غیروں کے حکموں میں ناکامی کا یقین ہمارے دل میں آجائے تو پھر تبلیغی جماعت کے مخلص کارکن جب غصے میں بیوی کو تین طلاق دیتے ہیں اور کسی مفتی اور عالم سے حلالہ کروالیتے ہیں تو غیرت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
کیا کسی صحابی کا ایسا واقعہ ہے کہ اس نے ایک ساتھ تین طلاق دیدئیے ہوں اور نبیۖ نے کسی سے حلالہ کروانے کا حکم دیا ہو؟۔ تبلیغی جماعت والے کہتے ہیں کہ محمد رسول اللہ ۖ کا مطلب اللہ کے رسول کے طریقوں میں کامیابی اور غیروں کے طریقوں میں ناکامی کا یقین ہمارے دلوں میں آجائے۔
اللہ کے احکام قرآن میں ہیں اور اللہ کے احکام پر عمل کا طریقہ سنت ہے۔غسل ، وضو اور نمازکا حکم قرآن میں ہے اور عملی طور پر غسل کرنا، وضو کرنا اور نماز پڑھنا سنت ہے۔ حضرت مولانا محمد الیاس نے اسی مقصد کیلئے جماعت بنائی تھی۔ نماز،غسل اور وضو کے فرائض قرآن وسنت میں نہیں ہیں۔ مولانا احمد رضا خان بریلوی نے دیوبندی اکابر سے قرآن وسنت کی طرف رجوع کرنے کا راستہ روک لیا تھا۔ فقہی مسائل میں فرائض اور واجبات کا تعلق قرآن وسنت سے نہیں تقلیدی مسائل سے ہے۔ مولانا الیاس کی چاہت تھی کہ مسائل علماء کیلئے چھوڑ دئیے جائیں اور فضائل سے قرآن کے احکام اور نبیۖ کی سنتوں کو زندہ کردیا جائے۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ، حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسن، مولانا انور شاہ کشمیری، مولانا عبیداللہ سندھی سب اکابر کا اصلی مؤقف یہی تھا۔ بریلوی مکتبۂ فکر کے لوگ بھی غیرمتنازع تبلیغی جماعت کیساتھ عقیدت ومحبت رکھتے تھے۔ تبلیغی نصاب میں شامل ”فضائل درود” کی وجہ سے ان کی یہ غلط فہمی دور ہوجاتی تھی کہ یہ وہابی لوگ نبیۖ کے دشمن ہیں۔ بعد میں تبلیغی جماعت نے سعودی عرب کی وجہ سے تبلیغی نصاب کا نام” فضائل اعمال” رکھ دیا۔ اور یہ صرف دیوبندی فرقے کی طرف منسوب ہوگئی ۔ حالانکہ اس میں زیادہ تر لوگ بریلوی مکتب سے تبلیغی جماعت کا حصہ بن گئے تھے۔
مولانا اشرف علی تھانوی کی کتاب” بہشتی زیور” کے مقابلے میں بریلوی مکتبہ فکر نے ” بہار شریعت ” کتاب لکھی ہے۔ اس کی ابتداء میں عقیدے کے حوالے سے یہ وضاحت ہے کہ ” نبیۖ اور سارے انبیاء بشر ہیں”۔ اگر اس کتاب پر اتفاق کرلیا جاتا تو دیوبندی بریلوی اختلافات کو اتنی زیادہ ہوا نہیں مل سکتی تھی۔ بہارِ شریعت میں ایک دوسری اہم بات یہ ہے کہ فرائض کی دوقسمیں ہیں ۔ ایک فرائض عینی ہیں۔جیسے نماز، روزہ ، زکوٰة اور حج ۔اس کامنکر کافر ہے ۔ دوسرے فرائض ظنی ہیں جیسے غسل ، وضو اور نماز کے فرائض۔ دلیل کی بنیاد پر ان فرائض سے اختلاف کرنا اور ان کو فرائض نہ ماننا جائز ہے لیکن دلیل کے بغیر ان کا انکار کرنا گمراہی ہے۔ بہارشریعت بریلوی مکتب نے فقہ حنفی کی بنیاد پر لکھی ہے۔
بریلوی مکتب نے دیوبندی اکابر پر اسلئے گمراہی کے فتوے لگائے تھے کہ کسی دلیل کے بغیر فقہی تقلید اور فرائض ظنی کو بدعت قرار دے رہے تھے۔ شاہ اسماعیل شہید نے اپنی کتاب ” بدعت کی حقیقت ” میں تقلیدکو چوتھی صدی کی بدعت قرار دیاتھا۔ اس کتاب پر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری نے تقریظ بھی لکھ دی ہے۔ جبکہ علامہ سید محمد یوسف بنوری کے والد محترم حضرت مولانا محمدزکریا بنورینے فرمایا تھا کہ ” ہندوستان میں فقہ حنفی کی حفاظت مولانا احمد رضا خان بریلوی کی وجہ سے ہوئی ہے”۔ اور مولانا سید محمد یوسف بنوری کے استاذ مولانا انور شاہ کشمیری نے فرمایا تھا کہ ”میں نے قرآن وسنت کی کوئی خدمت نہیں کی ، فقہ کی وکالت میں اپنی ساری زندگی ضائع کردی”۔ اب وقت آگیا ہے کہ مولانا عبدالحق اکوڑہ خٹک، مولانا سید محمدیوسف بنوری ، مفتی محمد شفیع کراچی، مولانا ادریس کاندھلوی، مولانا سید محمد میاں لاہوری اور دیگر پاکستان کے دیوبندی اکابر کے استاذ مولانا محمدانور شاہ کشمیری کی آخری خواہش کو عملی جامہ پہنادیں۔جس کو بہارشریعت کا مکتب بھی دل وجان سے ضرورتسلیم کرلے گا۔ شیخ الہند مولانا محمود الحسن ، مولانا الیاساور مولانا عبیداللہ سندھی نے اسی انقلاب کیلئے جدو جہد فرمائی تھی۔
نبیۖ اور خلافت راشدہ کے دور میں غسل کے فرائض اور اس پر اختلاف کا تصور نہیں تھا۔ حضرت شاہ اسماعیل شہید نے لکھا ہے کہ پہلی تین صدیوں میں جو فقہی مسائل پیدا ہوئے ہیں وہ خیرالقرون میں شامل ہیں۔جس کا حدیث میں ذکر ہے کہ نبیۖ نے فرمایا کہ خیرالقرون قرنی ثم الذین یلونہم ثم الذین یلونہم ”بہترین دور میرا ہے اور پھر جو اس کے ساتھ ملے ہوئے لوگ ہیں اور پھر جو اس کے ساتھ ملے ہوئے لوگ ہیں”۔ عام طور پر اس حدیث سے صحابہ کرام ، تابعین اور تبع تابعین مراد لئے جاتے ہیں۔
شاہ ولی اللہ نے لکھا کہ ” اس حدیث میں پہلا دور نبیۖ کا دور تھا۔ دوسرا دور حضرت ابوبکر و حضرت عمر کا تھا اور تیسرا دور حضرت عثمان کا تھا۔ جبکہ حضرت علی کے دور میں خلافت منتظمہ نہیں تھی اسلئے خیرالقرون کے تین ادوار میں آپ کی خلافت کادور شامل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کیساتھ خلافت کا وعدہ کیا تھا اور عربی میں جمع کا اطلاق کم ازکم تین افراد پر ہوتا ہے، پہلے تین خلفاء کیساتھ یہ خلافت کا وعدہ پورا ہوگیا تھا۔ اس سے خوارج خوش ہونگے کہ حضرت علی کے دور کو خلافت سے نکال دیا تو آپ کا دور خلافت راشدہ میں شامل تھا اور قیامت تک کیلئے حضرت علی ایک امام انقلاب کی حیثیت سے قابل اتباع ہیں”۔
مولانا عبیداللہ سندھی نے لکھا ہے کہ” حضرت شاہ ولی اللہ سے مجھے تھوڑا سا اختلاف ہے۔ میرے نزدیک حضرت ابوبکر کا دور نبیۖ کے دور میں شامل تھا اسلئے کہ نظام میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ دوسرا دور حضرت عمر کا تھا جہاں کچھ تبدیلیاں ہوئی تھیں۔ حفظ مراتب کے اعتبار سے مختلف لوگوں میں مال کی تقسیم کی گئی تھی اور اگرچہ سرمایہ دارانہ نظام نے پورا تسلط قائم نہیں کیا تھا لیکن اس کا پھر بھی آغاز ہوچکا تھا جبکہ حضرت ابوبکر کے دور میں بقدر ضرورت وظائف ملتے تھے۔ سوشلسٹ اور کمیونسٹ نظام میں بھی ایک یہ ہے کہ محنت اور صلاحیت کے مطابق تنخواہ دی جائے اور دوسرا یہ کہ افراد اپنی محنت اپنی صلاحیت کے مطابق ہی کریں لیکن تنخواہ ضرورت کے مطابق لیں۔ گویا حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے نظام حکومت کو مولانا عبیداللہ سندھی نے روس کے دورے کے بعد اپنی بدلی ہوئی نگاہ سے تھوڑا مختلف محسوس کیا تھا اور دیانتداری سے بیان بھی کردیا تھا۔
حدیث میں نبی ورحمت کے دور کا ذکر ہے۔ پھر خلافت راشدہ کا ذکر ہے اور پھر امارت کا ذکر ہے اور پھر بادشاہت کا ذکر ہے اور پھر جبری حکومتوں کا ذکر ہے اور اس اعتبار سے نبوت ورحمت کا دور سب سے اچھا ہے۔ پھر خلافت راشدہ کا دوسرا نمبر ہے اور پھر امارت کاتیسرا نمبر ہے جس میں اگرچہ یزید جیسے لوگ تھے تو پھر امیرمعاویہ، معاویہ بن یزید اورہند زوجہ یزید اور حضرت عمر بن عبدالعزیز جیسے لوگ بھی تھے ،اسی طرح عباسی دور میں بھی اچھے برے لوگ تھے۔ خلافت عثمانی میں بھی اچھے اور برے دونوں قسم کے لوگ تھے اسلئے لوگ خلافت عثمانیہ کھونے پر روتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے عرب وعجم مسلمانوں کیساتھ خلافت کا وعدہ پورا کیا تھا اوراب جمہوری اور جبری دور کے بعد پھر خلافت علی منہاج النبوہ کا دور ہے۔
جب حضرت ابوبکر نے زبردستی زکوٰة کی وصولی کا فیصلہ کیا تو بعض واقعات کی وجہ سے نبوت ورحمت کے دور اور خلافت راشدہ کے دور میں فرق واضح ہوا۔ حضرت عمر کے دور اور حضرت عثمان کے دور میں معاملات مزید آگے بڑھ گئے۔ حضرت علی اور حضرت حسن کے دور میں خلافت راشدہ کا نظام بہت زیادہ فتنوں کا شکار تھا۔ حضرت علی کے حق میںاسلئے بہت ساری احادیث ہیں ،حضرت حسن کی صلح کی توثیق ہے۔ اگر بنو اُمیہ ، بنو عباس، خلافت عثمانیہ و مغل سلطنت اور خاندان غلاماں نے خاندانی بنیاد پر حکومتیں کی ہیں تو بنی فاطمہ نے بھی اقتدار کی منزل حاصل کی ہے۔ حضرت علی، حضرت حسن اور حضرت حسین کے بعد امامیہ کے باقی ائمہ نے بنو اُمیہ اور بنو عباس کے ادوار میں بہت امن و سکون کے ساتھ زندگی گزاری ہے۔ جبکہ امام حسن کی اولاد پر عباسیوں نے مظالم ڈھائے تھے۔
بار امانت میں خود اعتمادی کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ جدوجہد کرنے کے بعد منزل ملے یا نہ ملے لیکن انسان احساس محرومی کا شکار نہ ہو۔ ائمہ اہل بیت کے برعکس ان کے نام لیوا سب سے زیادہ احساس محرومی کا شکار نظر آتے ہیں۔
خلفاء راشدین کے دور میں زبردستی سے زکوٰة کی وصولی کے مسئلے سے بڑا معاملہ نماز کیلئے زبردستی اور سزاؤں کا تصور تھا۔ جس نے اسلام کو اجنبیت میں لوٹادیا۔ جن ظنی فرائض کے تصورات قرآن و سنت اور خلفاء راشدین کے ہاں نہیں تھے ان کا وجود اور ان کی تقلید اسلام کو اجنبیت کی طرف دھکیلنے کی زبردست انتہاء تھی۔ بہار شریعت میں دلیل کے ساتھ غسل ، وضو اور نماز وغیرہ کے فرائض کی مخالفت کا جواز دیا گیا ہے۔ احناف کے نزدیک غسل کے تین فرائض ہیں۔ (1)منہ بھر کر کلی کرنا۔ (2)ناک کی نرم ہڈی تک پانی پہنچانا۔ (3)پورے جسم پر ایک مرتبہ پانی بہانا۔ شوافع کے نزدیک غسل میں پہلے دو فرائض نہیں بلکہ سنت ہیں۔ مالکیہ کے نزدیک جب تک پورے جسم کو مل مل کر نہ دھویا جائے تو فرض پورا نہ ہوگا۔ غرض کسی ایک فرض پر بھی اتفاق نہیں ہے۔ اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ وضو کی آیت کے بعد اللہ نے فرمایا وان کنتم جنبًا فاطھروا ”اگر تم جنبی ہو تو خوب پاکی حاصل کرو” ۔ شوافع کے نزدیک پہلے دو فرائض وضو میں سنت تو غسل میں بھی سنت ہیں۔ احناف کے نزدیک غسل طہارت میں مبالغہ ہے اس وجہ سے پہلے دو فرائض ہیں۔ مالکیہ کے نزدیک جب تک مل مل کر پورا جسم نہیں دھویا جائے تو طہارت میں مبالغے پر عمل نہیں ہوگا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ولا جنبًا الا عابری السبیل حتیٰ تغتسلوا ”اور نہ نماز کے نزدیک جنبی حالت میں جاؤ مگر یہ کہ کوئی مسافر ہو یہاں تک کہ نہالو”۔ اس آیت سے نہانے کو فرض قرار دیا گیا ہے اور وضو کے مقابلے میں نہانا طہارت میں مبالغہ ہے ۔
رسول اللہ ۖ ، خلفاء راشدین ، صحابہ کرام اور مدینہ کے سات فقہاء تابعین نے اس طرح کے ظنی فرائض بنانے اور اس میں اختلافات ڈالنے کی حماقت نہیں کی ہے۔ اگر بریلوی مکتبہ فکر کو دلیل کی بنیاد پر سمجھایا جائے تو وہ ماننے کو بھی تیار ہوجائیں گے۔ افغانستان میں دیوبندی مکتبہ فکر کے طالبان کی حکومت قائم ہوگئی ہے اور اب وہ دلیل کے ساتھ نہ صرف قرآن و سنت کی طرف متوجہ ہوسکتے ہیں بلکہ پوری دنیا میں ایک زبردست انقلاب لاسکتے ہیں اسلئے کہ مولوی بیچارہ ایک کمزور حیثیت رکھنے والا شخص ہوتا ہے جس کو نماز پڑھانے کیلئے محلے والے تنخواہ پر رکھتے ہیں۔ اور جب اس سے کوئی اختلاف ہوجاتا ہے تو اس کو مسجد سے بھگادیتے ہیں۔ طالبان کے پاس اقتدار ہے اور اس اقتدار کا درست استعمال بہت ضروری ہے۔ تین طلاق سے رجوع اور حلالہ کے بغیر باہمی اصلاح کیلئے ہم نے بفضل تعالیٰ بہت تفصیل سے دلائل دئیے ہیں۔ اگر طالبان اس کو سمجھ کر حلالہ کے خاتمے کا اعلان کریں گے تو ہندوستان اور پاکستان کی حکومتیں اور عوام ان کے اس اقدام کو بہت زبردست خراج تحسین پیش کریں گی۔
جب لوگوں کو معلوم نہیں تھا تو عورتوں کو حلالہ کے ذریعے سے زندہ دفن کرنا اور میاں بیوی کے درمیان جدائی پیدا کرنا ایک جاہلانہ مجبوری تھی۔ اب جب یہ ثابت ہوگیا ہے کہ قرآن و سنت میںمروجہ حلالے کا کوئی تصور نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے عدت کے اندر ، عدت کی تکمیل پر اور عدت کی تکمیل کے کافی عرصہ بعد بھی بار بار معروف طریقے سے باہمی رضامندی کی بنیاد پر رجوع کی اجازت دی ہے تو اللہ اور اس کے رسول ۖ کی ناراضگی کا طالبان وزیر اعظم کا خواب میں دیکھنا ایک تنبیہ ہے جس کو سُود کو جواز فراہم کرنے والے نہیں سمجھ سکتے ہیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

سلطنتِ عثمانیہ نے اپنا بینک ماتحت کیا توعالمی بینک نے پیسہ روک کر اسکا خاتمہ کردیا ۔مولانا فضل الرحمن ۔

سلطنتِ عثمانیہ نے اپنا بینک ماتحت کیا توعالمی بینک نے پیسہ روک کر اسکا خاتمہ کردیا ۔مولانا فضل الرحمن ۔

جمعیت علماء اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمن کا سوشل میڈیا پر مختصربیان ہے کہ جب عالمی ایمپائر سلطنت عثمانیہ نے اپنے بینک کو عالمی بینک کے تابع کردیا جب سلطنت عثمانیہ کو پیسوں کی ضرورت پڑی تو عالمی قوتوں نے اپنے بینکوں سے بھی پیسہ نہیں لینے دیا جس کی وجہ سے ایک عالمی ایمپائر سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ ہوگیا۔ جس کی حکومت عرب سے افریقہ تک پھیلی تھی۔ اتنی بڑی سلطنت بینکوں کے نظام کی وجہ سے گرگئی تو پاکستان کی کیا حیثیت ہے؟۔ پچھلے عرصے میں جب میں نے کہا تھا کہ پاکستان جب عالمی اداروں کا مقروض ہوگا تو پھر عالمی قوتوں کی کالونی کے علاوہ پاکستان اور کچھ نہیں ہوگا۔ جس پر ایک صحافی اینکر نے ٹوئٹ کیا تھا کہ مولانا فضل الرحمن اتنا بے خبر ہے؟۔ پاکستان تو عالمی قوتوں کی کالونی بن چکا ہے اور اس کی خبر مولانا فضل الرحمن کو کیا نہیں ہے؟۔

تبصرہ: نوشتۂ دیوار …عبدالقدوس بلوچ
وزیر اعظم عمران خان نے بلدیاتی انتخابات کیلئے پٹرول سستا کیا تھامگر مولانا فضل الرحمن کو بلدیاتی انتخابات کی واضح جیت مبارک ہو۔ جنرل ضیاء کا مارشل لاء تھا تو مولانا کہتے تھے کہ فوج آنکھوں کی پلکیں ہیں جو ملک کی زینت اور حفاظت کا ذریعہ ہیں۔ پلکوں کا بال آنکھ میں گھسے تو برداشت نہیں ہوتا۔ اب تو تمام پلکیں گھس گئیں۔ یہ دلیل نہیں کہ ملک کی حفاظت فوج کرتی ہے تو حکمرانی کا حق بھی اسی کو ہے۔ چوکیدار کو تنخواہ اور اسلحہ دیا جائے اور وہ قابض ہوجائے تو یہ بدمعاشی ہے۔ مفتی محمود کی وفات کے بعدMRDمیں شمولیت کو علماء ومفتیان نے کفر قرار دیا، اسلئے کہ اس میں پیپلزپارٹی شامل تھی۔1985ء نشتر پارک کراچی میںMRDکے جلسے کاBBCنے کہا تھا کہ ”یہ جمعیت علماء اسلام کا جلسہ لگ رہا تھا”۔88ء کے الیکشن میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نے غلام اسحاق خان کو صدارت کیلئے ووٹ دیا اور جمعیت علماء نے نوابزادہ نصراللہ خان کو۔ پھر جب نوازشریف کو تحریک عدم اعتماد کیلئے اسامہ بن لادن کی طرف سے رقم مل گئی تو چھانگا مانگا میں منڈی لگائی، پیپلزپارٹی نے ارکان کو سوات کے ہوٹل میں رکھاتھا ۔ جے یو آئی ف کے ارکان اسمبلی کھلے عام اسلام آباد میں گھوم رہے تھے ،ان کو خریدنے کا تصور نہیں ہوسکتا تھا۔ بشریٰ بیگم کا سسر غلام محمد مانیکا وغیرہ نے مسلم لیگ کو چھوڑ کر پیپلزپارٹی کا ساتھ دیا۔ مولانا فضل الرحمن کو لیبیا کے صدر قذافی نے اسلامی یونیورسٹی جامعہ معارف الشرعیہ کیلئے رقم دینی تھی اور دھمکی دی کہ اگر تحریک عدم اعتماد میں حصہ لیا تو رقم نہیں ملے گی۔ مولانا کو اپنوں نے مشورہ دیا کہ یونیورسٹی بنانا زیادہ بہتر ہے لیکن مولانا نے اپنا ضمیر نہیں بیچا اور تحریک عدم اعتماد میں بھرپور حصہ لیا جس کی وجہ سے آج تک یونیورسٹی کی بلڈنگ ادھوری ہے جس میں ایک چھوٹا مدرسہ چل رہاہے۔ پھر اسلامی جمہوری اتحاد بنا تو نوازشریف کو لایا گیا اور اصغر خان کیس کا 16سال بعد فیصلہ ہونا تھا مگر اس کی فائل بند کردی گئی۔ پرویزمشرف وردی کو اپنی کھال قرار دیتاتھا مگر متحدہ مجلس عمل سے معاہدے کے تحت وردی اترگئی۔ اگر پیپلزپارٹی نہ ٹوٹتی تو مولانا فضل الرحمن کئی ووٹوں سے وزیراعظم بنتے۔ ق لیگ نے ایک ووٹ سے ظفراللہ جمالی ، چوہدری شجاعت اور شوکت عزیزکو وزیراعظم بنادیا تھا۔ پیپلزپارٹی میں جمہوری غیرت ہوتی توق لیگ کے مقابلے میں مولانا کو ووٹ دیتی۔ ایک سیٹ جیتنے والا کم عقل انسان عمران خان وزیراعظم بن گیا تو مولانا فضل الرحمن کیوں نہیں؟۔
مولانا فضل الرحمن کو شیخ الہند مولانا محمود الحسن کی طرح آخری وقت میں مسلم اُمہ کو قرآن سے استفادہ اور فرقہ پرستی سے کنارہ کشی کا واضح پروگرام دینا چاہیے شاہ ولی اللہ سے مولانا عبیداللہ سندھی تک کی روح قرآن و سنت سے زندہ کرسکتے ہیں۔ تمام مکاتبِ فکر کے علماء ومفتیان کو حق کیلئے ایک پلیٹ فارم پر لانا اور بڑے پیمانے پر ووٹ لیکر نظام بدلنااور وزیراعظم بنناکوئی مشکل نہیں ہے ۔
خیبر پختونخواہ تبدیلی اور انقلاب کی علامت ہے لیکن اس سیاست میں عوام حصہ دار نہیں ،یہ پارٹیوں کا مسئلہ ہے۔ نوازشریف نے زرداری کے مقابلے میںIMFسے ڈبل قرضہ لیکر دفاعی بجٹ سے سودڈیڑھ گنا زیادہ کیا ،جس کی ہم نے نشاندہی کی تھی۔ عمران خان نے سودی رقم نوازشریف سے بھی دگنی کرکے دفاعی بجٹ کے مقابلے میں تین گنا کردی ۔ جب ٹیکسوں کے تمام محصولات کے قریب سود ہو تو ملک کا نظام کیسے چلے گا؟۔ جن جرنیلوں ، سیاسی قائدین ورہنماؤں ، ججوں، سول بیوروکریسی کے افسران اور صحافیوں نے یہاں سے بے تحاشا پیسہ کماکر بیرون ملک انویسٹ کردیا، وہ اپنی آدھی رقم سودی قرضہ چکانے میں دیں اور آدھی پاکستان کی تعلیم وترقی میں لگائیں جس کی بنیاد پر یہاں امن امان کی فضاء قائم ہوگی اور ہماری ترقی بھی مثالی ہوگی۔ اگرIMFکے سودی قرضے کو اسلامی بینکاری کے اصولوں سے حیلہ کرکے نام نہاد اسلامی بنایا جائے تو کیا قوم و ملک کو ریلیف ملے گا؟۔ ہرگز نہیں! تو پھر اسلام کو کیوں بدنام کیا جا رہاہے؟۔ سودی نظام سے زکوٰة کی کٹوتی کو مفتی محمود سود اور مولانافضل الرحمن اس کو شراب کی بوتل پر آب زم زم کا لیبل قرار دیتے تھے۔ نام نہاد اسلامی بینکاری کے شیخ الاسلام اور مفتی اعظم مفتی منیب الرحمن کم ازکم وفاق المدارس اور تنظیم المدارس کے سربراہ کے اہل نہ تھے۔ مدارس کو ڈکٹیٹرنہیںجمہوری اندازمیں چلانا تھا۔ مفتی تقی عثمانی کے سودی حیلے کی اسکے استاذ مولانا سلیم اللہ خان سابق صدر وفاق المدارس اورعتیق گیلانی کے استاذ ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر سابق صدر وفاق المدارس پاکستان سمیت شیخ الحدیث مفتی زر ولی خان اور تقریباً سب دیوبندی مکتب کے علماء نے مخالفت کی تھی۔ مولانا محمد امیر بجلی گھر کہتے تھے کہ ایک عورت نے دوسری سے کہا کہ ” خورے قیامت شو”۔ بہن قیامت ہوگئی۔ دوسری نے کہا کہ کیوں ؟ تو اس نے کہا کہ ” ابا میں ملک شو” کہ میرا باپ ملک بن گیا۔ یعنی قحط الرجال آگیا کہ گاؤں والوں کو دوسرا چوہدری نہیں ملا تو میرا باپ چوہدری بنادیا گیا اور یہ قیامت کی نشانی ہے۔ مفتی محمود کے دور میں مفتی محمد تقی عثمانی اور مفتی محمد رفیع عثمانی نے سود سے زکوٰة کی کٹوتی کو جائز قرار دیا تو دونوں کی حیثیت نہ تھی۔ پھر سودکو جواز بخشا تو سب مخالف تھے۔ اگر مذہبی حیلہ سازوں کو آگے لایا جائے اور سیاسی اعتبار سے دوسری سیاسی جماعتوں جیسی روش اپنائی جائے تو پھر اسلام کے نام پر علماء ومفتیان سے لوگ نفرت کریں گے۔
موجودہ مذہبی،ریاستی اور سیاسی نظام ناکام ہے اور پاکستان سے انقلاب کیلئے ایسا پلیٹ فارم ضروری ہے کہ اگر حکومت نہ بھی ملے تو معاشرے میں مذہبی و معاشی بنیادپر انقلاب برپا ہوجائے لیکن جب سود اسلامی ہوجائے تو پھرکیا چیز غیر اسلامی ہوگی؟۔ جمعیت علماء ہند کے مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ نے ضخیم کتاب لکھ کر سنت نماز کے بعد اجتماعی دعا کو بدعت قرار دیا۔ اندرون سندھ جمعیت علماء اسلام کے مراکز ہالیجی شریف، امروٹ شریف اور بیرشریف میں اسی بدعت پر عمل ہے۔ راشد محمود سومرو کے باپ دادا تذبذب کا شکار تھے کہ کیا سنت اور کیا بدعت ہے؟۔ خیبرپختونخواہ ، بلوچستان میں بھی دیوبندی اس بنیاد پر ایکدوسرے پر بدعتی اور قادیانی کے فتوے لگاتے تھے اور افغانستان میں بھی اس بدعت کا فتویٰ قبول نہیں کیا گیا تھا۔ تبلیغی جماعت والے رائیونڈ اور بستی نظام الدین میں ایسے تقسیم ہیں کہ ایکدوسرے کو اپنے مراکزمیں نہیںچھوڑتے اور دیگر ملکوں کی مساجد میں بھی ایکدوسرے کو نہیں چھوڑ تے ۔ فرقہ وارانہ جماعت بندی اور گروہ سازی کا راستہ قرآن وسنت کی طرف رجوع کرنے سے رُک سکتا ہے۔
سود کی آیات نازل ہوئیں تو نبیۖ نے مزارعت کو سود قرار دیا۔ جاگیر دار اپنی زمینوں کو خود کاشت کریں تو حرام خوروں کی صحت ٹھیک ہو گی اور کاشتکاروں کو مفت زمین ملے تو غربت وبیروزگاری بھی ختم ہو گی۔ قرآنی آیات سے ہماری دنیا روشن ہوسکتی ہے۔ سودی نظام کے خلاف آگ چھوئے بغیر بھی قرآنی آیات کا چراغ بھڑک کر جل اٹھ سکتا ہے۔ ندیم احمدقاسمی کا شعر ہے کہ
رات جل اٹھتی ہے شدت ظلمت سے ندیم لوگ اس وقفہ ماتم کو سحر کہتے ہیں
تاریخ کا تاریک ترین اندھیرا ہے۔ مذہبی روایات ، تعلیمات،معاشیات، ریاستی معاملات، سیاسیات اور اخلاقیات سب کچھ انتہائی درجہ تباہ ہیں۔مفتی تقی عثمانی کے اکابر مولانا درخواستی اورجمعیت علماء اسلام کے رہنما کہتے تھے کہ انگریز نے تنخواہ دیکر اپنے جاسوس مولانا احتشام الحق تھانوی کو پڑھایاکہ معلوم کریں کہ دارالعلوم دیوبند میں بغاوت کی تعلیم دی جاتی ہے؟اس جاسوس نے لکھا کہ مجھے نااہل سمجھو یہاں بغاوت کی تعلیم نہیں دی جاتی۔ پھریہ مشن ملا کہ دارالعلوم دیوبند کی ہر تحریک کی مخالفت کریں۔
حضرت مولانا مفتی محمود فرماتے تھے کہ دنیا کی امامت کیلئے دنیاوی اور دینی تعلیم دونوں ضروری ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا دینی تعلیم یافتہ طبقہ دین اور دنیاوی تعلیم یافتہ طبقہ اپنی فنی تعلیم سے بھی جاہل ہے اور اب جہالت کا غلبہ بڑھتا جارہاہے اسلئے کہ پہلے قابلیت پر ڈگری ملتی تھی اور اب پیسوں سے ڈگریاں لی جاتی ہیں۔ قومی اسمبلی کے کئی مرتبہ ممبر رہنے والے ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کے پاس ڈاکٹر کی ڈگری نہیں لیکن ڈاکٹر اسکے نام کیساتھ اس کی شناخت ہے۔
تین طلاق اور حلالہ کے حوالے سے عتیق گیلانی نے دھیان نہیں دیاتھا تو کئی واقعات پیش آئے مگر حلالہ کی لعنت کا فتویٰ نہ دیا، ایک ساتھی عیسائی سے مسلمان ہوا تھا اور اسکے چھوٹے بچے تھے۔ ایک نے اہلحدیث سے رجوع کا فتویٰ لیا تھا تو تنقید نہ کی لیکن کراہت تھی کہ اس نے اچھا نہیں کیا۔ ایک نے حلالے پر اصرار کیا تو اس کو منع کردیا لیکن اس نے پھر جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی سے فتویٰ لے لیا اس فتوے میں لکھا تھاکہ ” طلاق کا حق عورت اپنے پاس رکھے تاکہ جب طلاق لینا چاہے تو اس شوہر کو چھوڑ سکے”۔ جامعہ دارالعلوم کراچی کے فتوے میں طلاق کا اختیار حلالہ کرنے والے لعنتی مولوی کے پاس رہتا ہے جس سے عورت کوجتنا مرضی وہ بلیک میل کرسکتا ہے اور خواتین اور حلالے کروانے والے اسکے شوہر اس کی بدمعاشی کا شکار ہونے کے بعد کسی سے اس کا تذکرہ بھی نہیں کرسکتے ہیں۔
دارالعلوم دیوبند کے اکابر کی مخالفت اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضاخان بریلوی قندھاری نے کی تھی۔ دارالعلوم دیوبند سے نمازکی سنتوں کے بعد دعا بھی بدعت قرار دی گئی تو مولانا احمدرضاخان نے اس تحریک کو اکابر کیخلاف زہرقرار دیا تھا۔ شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید نے ”بدعت کی حقیقت”میں فقہی تقلید کو بدعت قرار دیا۔ اس وقت حجاز پر وہابیوں کی حکومت نہیں تھی اسلئے مولانا احمدرضا خان بھی حرمین کے علماء سے فتویٰ لینے میں کامیاب ہوگئے۔ دیوبند کے اکابر نے اس فتوے کے خوف سے اپنی دُم ایسی گھسیڑدی کہ آج تک نہ نکال سکے۔ بریلوی سے مفتی تقی عثمانی کا باپ اور استاذ دیوبند کیلئے زیادہ خطرناک تھے ۔70ء میں جمعیت علماء اسلام پر بھی کفر کا فتویٰ لگادیا تھا۔ جامعہ دارالعلوم کراچی اور جامعة الرشید دراصل دارالعلوم دیوبند کا مدِمقابل اور ضد ہیں۔اسلامی شعار کی حفاظت کیلئے دارالعلوم دیوبند کا وجود ناگزیز تھا لیکن اب سودتک بھی حلال کردیا گیاہے۔
جب نوازشریف کے دور میں دفاع کے بجٹ سے ڈیڑھ گنا صرف سودی رقم بڑھ گئی تھی تو فوج نے اپنے دفاعی بجٹ میں اضافہ لینا بھی چھوڑ دیا۔ پھر فوج نے ٹول ٹیکس وغیرہ کے ٹھیکے لینا شروع کردئیے۔ اگر نوازشریف سی پیک کے مغربی روٹ کو نہ بدلتا جو مولانا فضل الرحمن نے زرداری کیساتھ مل کر چین کیلئے طے کیا تھا تو آج اس پر گوادر سے چین کیلئے ٹریفک ہوتی۔ جس سے بڑی تعداد میں ٹول ٹیکس کی مدمیں بھی پیسہ آنا شروع ہوجاتا۔ اور ایران کیساتھ جو گیس پائپ لائن کا معاہدہ زرداری نے کیا تھا، اگر اس پر نوازشریف کے دور میں عمل درآمد ہوجاتا تو پاکستان کو بھی قطر سے مہنگی اور وقتی گیس لینے کی ضرورت نہ پڑتی اورہندوستان کوبھی گیس پاکستان کے راستے سے جاتی ۔ ایرانی گیس و تیل سے ہندوستان کو بھی امریکہ کے مقابلے میں اپنے قریب کیا جاسکتا تھا۔ آج روس سے بھارت نے دفاعی سسٹم خرید لیا ہے جس سے ہمارے میزائل کا خطرہ بھی نہیں رہے گا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

 

دو دل والا بچہ سہون شریف سندھ میں قرآن میں کسی شخص کے سینے میں دو دل نہ ہونے کی درست تفسیر

دو دل والا بچہ سہون شریف سندھ میں
قرآن میں کسی شخص کے سینے میں دو دل نہ ہونے کی درست تفسیر

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
چیف ایڈیٹر: اخبار نوشتہ دیوار کراچی

مَّا جَعَلَ اللَّہُ لِرَجُلٍ مِّن قَلْبَیْنِ فِی جَوْفِہِ وَمَا جَعَلَ أَزْوَاجَکُمُ اللَّائِی تُظَاہِرُونَ مِنْہُنَّ أُمَّہَاتِکُمْ وَمَا جَعَلَ أَدْعِیَائَکُمْ أَبْنَائَکُمْ ذَٰلِکُمْ قَوْلُکُم بِأَفْوَاہِکُمْ وَاللَّہُ یَقُولُ الْحَقَّ وَہُوَ یَہْدِی السَّبِیلَ (الاحزاب:4)

اللہ نے کسی شخص کے سینے میں دو دل نہیں بنائے اور نہ تمہاری ان بیویوں کو تمہاری مائیں بنایا ہے جن سے تم نے ظہار کیا ہے۔ اور نہ تمہارے لے پالکوں کو تمہارے بیٹے بنایا ہے۔ یہ تمہارے منہ کی باتیں ہیں اور اللہ حق کہتا ہے اوروہ راستہ دکھاتا ہے۔الاحزاب

ٹی وی24چینل میں11نومبر2021کی رپورٹ۔
10نومبر2021کو ڈسٹرکٹ ہسپتال عبداللہ شاہ میڈیکل انسٹیٹیوٹ سہون شریف سندھ میں6سالہ بچہ کامران رند گاؤں قاضی احمدسے تکلیف کے باعث لایا گیا۔ چیک اپ کے بعد قدرت کے اس کرشمے کا انکشاف ہوا کہ بچے کے دو دل ہیں اوردونوں دل بالکل نارمل طریقے سے کام کررہے ہیں۔ اتفاق سے ہم نے پچھلے شمارے میں یہی لکھا تھا کہ قرآن میں” اللہ نے کسی آدمی کے سینے میں دو دل نہیں بنائے ہیں”کا مطلب یہ نہیں کہ ”میڈیکل کے لحاظ سے دو دل نہیں ہوسکتے۔ یہ ممکن ہے کہ کچھ لوگوں کے دو دل ہوں”۔ ہوسکتا ہے کہ کئی لوگ پہلے بھی دودل والے گزرے ہوں۔ اگر بچے کا اتفاقیہ دل کا چیک اپ نہ ہوتا تو پھر پتہ بھی نہ چلتا۔
الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے چینل ہر چیز کا بہت مثبت اور منفی انداز میں زبردست پروپیگنڈہ کرنے کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔ کوئی انتہائی بے شرمی اور ڈھٹائی سے نوازشریف کو بے گناہ ثابت کرتا ہے اور کوئی گناہگار لیکن حقائق کی طرف دھیان نہیں دیتے۔ قائداعظم محمد علی جناح کا نمازِ جنازہ پڑھانے والے شیخ الاسلام علامہ شبیراحمد عثمانی نے تفسیر عثمانی میں لکھ دیاہے کہ” کسی کے دو دل نہیں ہوسکتے ،ورنہ تو کسی کا سینہ چیر کر دیکھ لیا جائے تو ایک ہی دل نکلے گا”۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv