پوسٹ تلاش کریں

چیئرمین سینٹ ،پاک فوج کورکمانڈرز کانفرنس سے!

dars-e-nizami-mufti-hussam-ullah-sharifi-chairman-senate-core-commander-conference-pakistan-pak-fauj-pak-fc-pak-levies-tablighi-jamaat-dawat-e-islami

پاکستان میں معاشرتی تبدیلی کے آغاز کیلئے تمام مکاتبِ فکر کے علماء کرام و مفتیانِ عظام کا ایک نمائندہ اجلاس بلایا جائے۔ درسِ نظامی کا تعلیمی نصاب ایک مرتبہ دیکھ لیا جائے اور اگر یہ معلوم ہوجائے کہ قرآن سے دوری کا یہ سب سے بڑا ذریعہ ہے تو اسکے نصاب کو فوری طور پر تبدیلی کے اقدامات کئے جائیں۔ نصابِ تعلیم ایک بنیاد ہے ۔ علماء ومفتیان اعتراف بھی کررہے ہیں کہ اب اس کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ بڑے علماء کرام میں علماء ومفتیان کے سرخیل حضرت مولانا مفتی محمد حسام اللہ شریفی مدظلہ العالی اور دیگر حضرات کھل کر اظہار کررہے ہیں اور کچھ بڑے بڑے اظہار کی جرأت نہیں رکھتے لیکن وہ درونِ خانہ کہتے ہیں کہ اس کافرانہ، گمراہانہ ، بے ایمانہ اور غیرفطری نصابِ تعلیم کو تبدیل کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ جو بلاسوچے سمجھے عرصۂ دراز سے پڑھایا جارہا ہے۔
کچھ ایسے بھی ہیں جو مدارس کے اس نصاب تعلیم کو منافع بخش کاروبار سمجھتے ہیں اور نسل در نسل امت مسلمہ کو قرآن کریم سے دور رکھنے کو اپنی مجبوری سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب امام مہدی علیہ السلام تشریف لائیں گے تو وہ درست کرنے کا کام کرینگے۔ ایسے میں اگر چیئرمین سینٹ قانون سازی کیلئے چند واضح آیات کو اپنے ایجنڈے پر رکھیں، پاک فوج کے کورکمانڈرز کانفرنس میں بھی اس کوواضح انداز میں اعتماد میں لیا جائے تاکہ پاکستان کو اسلامی مملکت بنانے کا آغاز ہوسکے اور پھر قرآن وسنت کے مطابق جلد سے جلدعدل و انصاف کو یقینی بنانے کیلئے بھی قانون سازی کی جائے۔ جس سے ملک وقوم کی تقدیر بدل جائے گی۔ پارلیمنٹ کی سیاست روایتی انداز میں ایک سیاسی جنگ سے آگے کچھ نہیں کرتی ہے ،جب قرآن وسنت کے واضح قوانین عوام کے سامنے آجائیں گے تو پارلیمنٹ سے بھی ان کی تائید وتوثیق کی جائے گی۔ جب اسلام کے واضح قوانین اور دینِ فطرت کو ملحد اور سیکولر طبقہ بھی قبول کرلے گا تو دنیا میں اس کی گونج سنائی دے گی۔ داعش و طالبان اور دیگر شدت پسند تنظیمیں بھی مدہوشی سے ہوش میںآجائیں گی۔
پاک پولیس،پاک فوج، پاک ایف سی، پاک لیویز، پاک ملیشیا، سب ہی ایجنسیاں اور ادارے شدت پسندی کے خوف سے نکل جائیں گے اور ہماری اپنی ریاست عالمی قوتوں کیلئے کھلونہ نہیں بہترین ماڈل بن جائے گی۔ سیاسی ، مذہبی، سماجی، فلاحی اور مختلف نوعیت کی تنظیمیں اور جماعتیں مثبت سرگرمیوں اور خدمات میں ایکدوسرے سے سبقت لے جانے کے چکر میں پڑجائیں گی۔ منفی سیاست اور مذہبی بنیادوں پر منفی پروپیگنڈوں کا قلع قمع ہوجائیگا۔ ریاستی اخراجات کے بچت میں ایک پرامن وپر سکون ماحول زبردست کردار ادا کریگا۔ جدید اور دینی تعلیمات اور تربیت کیلئے بہترین مواقع پیدا ہوسکتے ہیں۔ تبلیغی جماعت اور دعوتِ اسلامی میں سالوں سال ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں نکلنے والی جماعتیں فضول کے فرائض، واجبات، سنتیں اور آداب سیکھنے اور سکھانے کے بجائے اپنے وقت ، اپنی تعلیم، اپنے تجربے ، اپنی صلاحیت اور اپنی استعداد کو قوم کی ترقی پر خرچ کرینگے تو پاکستان سے جہالت کے اندھیرے بالکل ختم ہوجائیں گے۔
قرآن وسنت میں صرف قول اور فعل کا فرق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نماز قائم اور زکوٰۃ دینے کا حکم دیا ہے۔ یہ قول ہے اور نبیﷺ نے اس پر عمل کرکے دکھایا ہے اور یہ فعل وعمل ہے۔ قرآن میں بار بار اللہ اور اسکے رسول ﷺ کی اطاعت کا حکم ہے۔ اور اللہ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔ یعنی دونوں میں کوئی فرق نہیں ۔ علماء ومفتیان نے قرآن وسنت کو جدا جدا کرکے دین کو اجنبیت کی طرف دھکیلا، خود ساختہ فرائض ایجاد کرکے اپنی حدود وقیود سے تجاوز کیا۔ غسل اور وضو کے فرائض کے بنانے اور ان پر انواع واقسام کے اختلافات کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ وضو اور غسل میں فرق سب ہی جانتے ہیں اور اس سے زیادہ صحابہؓ فرائض ، واجبات اور سنن نہیں جانتے تھے۔
نماز میں فرائض کے علاوہ سنتوں کی تعلیم دی جاتی ہے ، فقہ حنفی میں سب سے بڑے درجہ کے فقیہ قدوری کے مصنف تھے۔ قدوری کے مصنف نے ان فرائض کے علاوہ نمازوں کو سنن کے بجائے نوافل ہی لکھ دیا ہے۔ نماز اصل باجماعت تھی اور اللہ نے وارکعوا مع الراکعین ’’ رکوع کرنے والوں کیساتھ رکوع کرو‘‘ کا حکم دیا ہے۔ باجماعت نماز سے پہلے کوئی مسجد میں پہنچے تو بیٹھے رہنے سے زیادہ اچھا یہی ہے کہ نوافل ادا کرے، اسی طرح فرائض کے بعد بھی نفل پڑھے۔ اس کو ثواب بھی ملے گا اور اطمینان وسکون بھی حاصل ہوگا۔ لیکن جب ایک ساتھ زیادہ سے زیادہ رکعتوں کو مسلط کیا جائیگا تو نماز بھی نماز کی طرح نہیں پڑھے گا اور بوجھ بھی محسوس کریگا۔ اللہ تعالیٰ نے آسانیاں پیدا کرنے کا حکم دیا ہے اور علماء نے ہم کو مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ کسی فقہی مسلک میں بے نمازی کی سزا قتل ہے اور کسی کے نزدیک بے نمازی مرتد ہونے کی وجہ سے قتل کا مستحق بنتا ہے، کسی کے نزدیک کوڑے مارنا اور کسی کے نزدیک زدو کوب کرکے قید رکھنابے نمازی کی سزا ہے۔ حالانکہ قرآن وسنت میں ایسی کسی سزا کا دور دور تک ذکر نہیں ۔ اگر ہوتی تو اتنے سارے اختلافات کیسے بنتے؟۔ زبردستی سے نماز پر مجبور کیا جائے تو بے وضو اور غسل جنابت میں بھی لوگ نماز پڑھنے پر مجبور ہونگے۔ دین میں زبردستی کا کوئی تصور نہیں ہے ۔ جب لوگوں کے خوف سے نماز پڑھی جائے تو یہ عمران خان کے سجدۂ زن مریدی یا فرشِ راہ بوسی سے بھی بہت زیادہ بدتر ہوگا۔
داعش میں بہت سے شدت پسند نظامِ خلافت کے نام پر مسلمانوں کو قتل کرنا جرم نہیں فرض سمجھتے ہیں، دوسری طرف سے طبقاتی تقسیم کی وجہ سے عوام کو انصاف نہیں ملتا ہے تو وہ معاشرے سے انتقام لینے کیلئے داعش کے نظرئیے سے ایمان و دل وجان سے متفق ہوجاتے ہیں اور خود کش کے ذریعے حور کی آغوش میں چلے جانے کو ایک غنیمت سمجھتے ہیں۔ ریاست نے دین اسلام کو مفادپرستوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے بلکہ اپنے مفادات کیلئے بھی ان کو استعمال کیا جاتا ہے جس کا پہلے بھی خطرناک نتیجہ ہماری ریاست خود بھی بھگت چکی ہے۔پاکستان کے پاس اب بہت زیادہ وقت نہیں ہے۔ لسانی،فرقہ وارانہ ، سیاسی جماعتوں کے نام نہاد نظریاتی ، محب وطن وغدار اور اسلام دوست ومذہب دشمن قوتوں کے درمیان کبھی لڑائی چھڑ گئی تو اس آگ پر قابو پانا بہت مشکل ہوگا۔ خون خرابے کی کیفیت کے خدشات بڑھتے جارہے ہیں اور انارکی میں سب کا دماغ خراب ہوجائیگا۔
مجھے امید ہے کہ اسلام دوست، محب وطن، پاسدارانِ ریاست اور اہل دانش سب کے سب نظام کی تبدیلی کی طرف آئیں گے۔ 9/11کا واقعہ امریکہ میں ہوا اور اسلامی دنیا کو تخت وتاراج کیا گیا۔ ایک طرف امریکہ سے مجبوری کی سہی مگر ہمدردی ہے اور دوسری طرف شدت پسندوں کے انتقام کا خوف ہے ،اس دو رنگی نے پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈال دیا ہے اور جب بھی بلیک لسٹ تک پہنچے تو ہماری تقدیر کی الٹی گنتی خدانخواستہ شروع ہوسکتی ہے۔ مارا ماری، خون خرابے سے پہلے پہلے ہمارے اصحابِ حل وعقد کو معروضی حقائق کی طرف آجانا چاہیے، بس۔

ایمان، عمل صالح،حق و صبر کی تلقین خسارے سے بچاؤ

kitab-o-sunnat-ijma-qiyas-dars-e-nizami-talaq-halala-maslak-e-hanafi-khula-nikah-iddat-ka-tareeqa

اللہ نے فرمایا: ’’عصر کی قسم! کہ انسان خسارے میں ہے مگر وہ لوگ جو ایمان لائے، اور نیک عمل کئے اور حق کی تلقین کی اور صبر کی تلقین کی‘‘۔ (سورۃ العصر)
ایمان کیا ہے؟۔ ہرفرقہ ومسلک کے علماء ومفتیان نے اپنے پیروکاروں کو یہ سمجھایا ہے کہ تمہارا عقیدہ درست ہے اور دوسروں کا عقیدہ درست نہیں۔کسی کے عمل کی طرف دیکھنے کی نوبت اسلئے نہیں آتی کہ جب پہلی شرط ایمان موجود نہ ہو توعمل صالح، حق بات کی تلقین اور صبر کی تلقین سب بے بنیاد اور بیکار ہیں۔ مولانا لوگوں کی یہ تنگ نظری ایک مخصوص ماحول کا نتیجہ ہے۔ بریلوی دیوبندی، شیعہ اور اہلحدیث کے علاوہ جماعت المسلمین ، حزب اللہ اور توحیدی وغیرہ فرقوں نے جنم لیا ہے۔ یہاں اکثریت دیوبندی بریلوی مکاتبِ فکر کی ہے جو ایک نصاب تعلیم درسِ نظامی پڑھارہے ہیں۔ درسِ نظامی میں قرآن واحادیث کے علاوہ فقہ اور اصولِ فقہ کی تعلیم بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ اصولِ فقہ میں شریعت کے بنیادی چار اصولوں کا ذکر ہے۔1: کتاب،2: سنت، 3:اجماع اور4: قیاس۔
کتاب سے مراد پورا قرآن نہیں بلکہ 5سوآیات جو احکام سے متعلق ہیں۔ باقی آیتیں وعظ، نصیحت ، قصے ہیں جو اصولِ فقہ کی بحث سے خارج ہیں۔ اگر علماء کرام ومفتیان عظام احکام سے متعلق ان500آیات کو باقاعدہ عنوانات کے تحت درج کرکے پڑھانا شروع کردیتے تو اسلام اجنبیت سے محفوظ ہوجاتا۔یہ حقیقت ہے کہ علماء ومفتیان اس بات سے قطعاً بے خبر ہیں کہ کسی عنوان کے تحت کتنی اور کون کونسی آیات درج کرکے ان 5سو آیات کی گنتی پوری ہوسکتی ہے۔ اگر کسی ایک موضوع پر تسلسل کیساتھ چند آیات پیش کی جاتیں تو بھی استاذ وطالب علم دونوں کو سیاق وسباق سے حقائق کا ادراک ہوتا اور اختلافات کا معاملہ بالکل کالعدم ہوجاتا۔ کسی بھی موضوع پر آیات دیکھنے کے بعد شرح صدر ہوجاتاہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا کہ ’’ طلاق دومرتبہ ہے، پھر معروف طریقے سے روک لینا ہے یا احسان کیساتھ رخصت کرنا۔ اور تمہارے لئے حلال نہیں کہ جو کچھ بھی ان کو دیا ہے ،اس میں سے کچھ بھی واپس لو مگر یہ کہ دونوں کو خوف ہو کہ اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے، اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ دونوں اللہ کے حدودپر قائم نہ رہ سکیں گے تو دونوں پر کوئی حرج نہیں کہ عورت اس میں جو فدیہ دے اور یہ اللہ کے حدود ہیں،ان سے تجاوز مت کرو اور جو اللہ کی حدود سے تجاوزکرتا ہے تو بیشک وہی لوگ ظالم ہیں‘‘۔( البقرہ آیت:229)۔ حدیث میں آتاہے کہ صحابیؓ نے عرض کیا کہ قرآن میں تیسری طلاق کا ذکر کہاں ہے؟۔ رسول ﷺ نے فرمایا: تسریح باحسان احسان کیساتھ تیسرے مرحلے میں چھوڑنا تیسری طلاق ہے‘‘
اس آیت میں دو مرتبہ طلاق کے بعد کیا خلع کا کوئی تصور ہوسکتا ہے؟۔ جبکہ خلع کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ عورت کے مطالبے پر شوہر اس کو چھوڑ دے۔ ایک صحیح حدیث میں ہے کہ خلع کی صورت میں عورت کی عدت ایک حیض ہے۔ جبکہ مرد ایک مرتبہ خلع کی طلاق دے تو دوسری مرتبہ طلاق کی نوبت نہیں آتی ۔یہ معمہ کھڑا ہی نہ ہوتا جو اصولِ فقہ کی کتابوں میں موجود ہے کہ دومرتبہ طلاق اورپھر تیسری مرتبہ طلاق سے پہلے خلع کی بات تسلسل سے ہے یا جملہ معترضہ ہے؟ جبکہ اصولِ فقہ میں یہ احمقانہ بحث ومباحثے اور پاگل پنے کے دلائل دئیے گئے ہیں۔ مسلک حنفی کی دلیل یہ ہے کہ اگلی آیت میں فان طلقھا کا ذکرہے جس میں ف کا تعقیبِ بلامہلت کاتقاضہ یہ ہے کہ فدیہ کیساتھ اس کاتعلق متصل طور پر ہو۔جہاں تک اس بات کا تقاضہ ہے کہ دومرتبہ طلاق کے بعد خلع تیسری طلاق ہے تو چوتھی طلاق کا تصور لازم آئیگا تو اسکا جواب یہ ہے کہ خلع مستقل طلاق نہیں بلکہ ضمنی چیز ہے اسلئے دومرتبہ طلاق کے بعد خلع ہو تو تیسری طلاق واقع کرنا جائز ہے۔ شافعیؒ اور جمہور کے نزدیک خلع مستقل ہے اسلئے آیت میں یہ جملہ معترضہ ہے تاکہ دو مرتبہ طلاق کے بعد تیسری مرتبہ طلاق کی گنجائش رہے۔(نورالانوار ملا جیونؒ )
حالانکہ آیت کا مطلب بالکل واضح ہے، دو مرتبہ طلاق کے بعد تیسری طلاق کیلئے تیسرے مرحلے میں احسان کیساتھ چھوڑنے کی وضاحت ہے۔ جسکے بعد یہ بھی واضح ہے کہ تمہارے لئے حلال نہیں کہ جو کچھ بھی ان کو دیاہے اس میں سے کچھ بھی واپس لو الایہ کہ دونوں کو خوف ہو کہ اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکیں۔۔۔
یہ باہوش واحواس ایک ایسی جدائی کا فیصلہ ہے کہ آئندہ رابطے کا کوئی ذریعہ بھی نہ رہے اور فیصلہ کرنے والے بھی یہی قرار دیں۔ اس کے بعد سوال یہ پیدا نہیں ہوتا کہ رجوع ہوسکتا ہے یا نہیں بلکہ یہ شوہر کی غیرت کا تقاضہ ہوتا ہے کہ وہ عورت طلاق کے بعد کسی دوسرے سے شادی نہ کرے اور اگر کسی اور سے شادی کرے تو اس میں شوہر کی مرضی کا بھی لحاظ رکھے۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کو مرد کی اس خصلت سے تحفظ دیا کہ عورت مرضی سے دوسرے شوہر سے نکاح کرلے۔
اس صورت کی طلاق کے بعد اللہ نے فرمایا کہ ’’ اگر اس نے طلاق دی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ کسی دوسرے سے نکاح کرلے‘‘۔ ایک عورت میں خود یہ غیرت ہوتی ہے کہ باہوش وحواس طلاق کے بعد بھی دوسری جگہ شادی کرنا اپنی غیرت کے خلاف سمجھ رہی ہوتی ہے اور شوہر بھی اس کو مرضی سے نکاح نہیں کرنے دیتا ہے۔ قرآن کے سیاق وسباق کو دیکھ کر عالمِ انسانیت کیلئے یہ آےۃ ہدایت کا ذریعہ بن سکتی ہے کیونکہ اس آیت نے انسانوں کو انسانیت سکھادی ہے اور حیوانوں اور جذبہ حیوانیت سے انسانیت کو قرآن نے بالکل ممتاز کردیاہے۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اگر دونوں رجوع کرنا چاہتے ہوں تو اللہ نے اگلی دونوں آیات میں وضاحت کردی کہ عدت کی تکمیل کے فوراً بعد بھی اس نے رجوع کا دروازہ کھلا رکھا ہے اور کافی عرصہ گزرنے کے بعد بھی بغیر کسی تأمل کے نہ صرف رجوع کا دروازہ کھلا رکھا ہے بلکہ رکاوٹ نہ ڈالنے کی ہدایت بھی اللہ نے بہت واضح الفاظ میں جاری کی ہے۔ اگر قرآنی آیات و احادیث صحیحہ کی تعلیم کا درس نصاب میں پڑھایا جاتا تو ہرطالب علم اور عالم دین راشدو مہدی بنتا۔ جو ایکدوسرے پر گمراہی کا فتویٰ لگاتے ہیں وہ ایکدوسرے کو نجومِ ہدایت قرار دیتے قرآن نے بہت سلیس انداز میں بتایا ہے کہ عدت کے تین ادوار ہیں ۔ ان میں اصلاح کی شرط پر رجوع ہوسکتا ہے۔ پھر ان تین مراحل میں تین مرتبہ طلاق کی وضاحت کی ہے۔ پھر طلاق کی تین اقسام کی تین آیات میں وضاحت کردی ہے۔ نبی ﷺ نے بھی قرآنی آیات کو پاکی کے ایام و حیض کے حوالے سے واضح کیا ہے لیکن درسِ نظامی میں قرآن کو احادیث سے ٹکرانے کی تعلیم دی جاتی ہے۔
قرآن میں بار بار بتایا گیا ہے کہ طلاق سے رجوع کا تعلق عدت سے ہے۔ عدت کی تکمیل پر بار بار معروف طریقے سے رجوع یا چھوڑنا واضح ہے۔عدت کی تکمیل پر چھوڑنے کا معروف طریقے سے فیصلہ کرنے کے بعد دو عادل گواہ مقرر کرنے کا حکم بھی ہے۔ ساری دنیا نکاح و طلاق کے قوانین کوقرآن وسنت کے مطابق بنانے کیلئے تیار ہے لیکن ہمارے ہاں جہالت ہی جہالت کا دور دورہ ہے اور اس سے نکلنے کیلئے بڑے اور معروف علماء ومفتیان کو حقائق پر مجبور کرنا ہوگا۔

دنیا بھر میں ظلم وجبر کا نظام اور دین، علم اور ایمان مفقود

hazrat-khola-ghadir-khumm-ali-mola-ghazwa-e-badar-hadith-e-qirtas-haji-usman-alliance-motors

پا کستان میں جس ظلم وجبر کا نظام ہے یہ مغرب و مشرق، شمال و جنوب دنیا پر مسلط ہے۔ اسلام نے جمہوریت کی بنیاد رکھ دی ۔ خلافت کا نظام جمہوریت کا مرہونِ منت تھا۔ اس سے زیادہ جمہوریت کیا ہوگی کہ حضرت خولہ بنت ثعلبہؓ نے سرکارِدوعالم ﷺ کی بارگاہ میں مجادلہ کیا اور وحی عورت کے حق میں نازل ہوئی؟۔ رسول اللہ ﷺ نے حدیث قرطاس میں اپنے بعد کیلئے ایک ایسی وصیت کا فرمایا کہ ’’ آپﷺ کے بعد اُمت ہلاک نہ ہو‘‘۔حضرت عمرؓ نے عرض کیا کہ ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے۔ جسکے بعد صحابہؓ کے دوگروہ نے ایکدوسرے کیخلاف شور مچایا اور نبیﷺ نے اپنے ہاں سے سب کو نکل جانے کا حکم دے دیا تھا۔
یہ وصیت خلیفہ کے حوالہ سے تھی اسلئے کہ رسول اللہ ﷺ نے حج کے عظیم اجتماع میں فرمایا کہ’’ میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑے جارہاہوں ایک قرآن اور دوسری میری عترت، خبردار جب تک ان کو مضبوطی سے تھاموگے تو میرے بعد گمراہ نہ ہوگے‘‘۔اور یہ بھی فرمایا تھا کہ ’’ میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایکدوسرے کی گردنیں مارنے لگو‘‘۔ خلافت کے مسئلہ پر حضرت عثمانؓکو شہید کیا گیا اور پھر یہ سلسلہ حضرت علیؓ کے دور میں حضرت علیؓ کی شہادت تک کافی بڑھ گیا، پھر حضرت امام حسنؓ نے مسلمانوں کی دوبڑی جماعتوں میں صلح کرادی اور پھر بنی امیہ کے دور میں خلافت کا سلسلہ امارت میں بدل گیا اور یزید کے دور میں حضرت امام حسینؓ کی شہادت کا سانحہ پیش آیا۔ شاعرنے خوب کہا تھا کہ
قتل حسین ہے اصل میں مرگِ یزید اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
مگر حقیقت یہ ہے کہ اسلام تسلسل کیساتھ ہردور میں پھر بھی اجنبیت کا شکار ہوتا رہاہے، درباری شیخ الاسلاموں نے ہردور میں بتدریج اسلام کا بیڑہ غرق کیا ہے
غدیرخم میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’جس کا میں مولیٰ ہوں یہ علی اس کا مولیٰ ہے‘‘۔ رسول اللہﷺ کو وصیت نہ لکھنے دی تو آپﷺ کے وصال فرمانے کے بعدقریب تھا کہ خلافت کے مسئلہ پر انصارؓ ومہاجرینؓ اور قریشؓ واہلبیتؓ کے درمیان زبردست تنازعہ کھڑا ہوجاتا مگر صحابہ کرامؓ کی جمہوری ذہنیت نے اس پر قابو پالیا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا کہ اتبعوا سواد الاعظم’’زیادہ عظمت والے گروہ کا ساتھ دو‘‘۔ اعظم کا معنی اکثر نہیں بلکہ زیادہ عظمت والی جماعت ہے اور یہ جمہوریت کیلئے سب سے بڑی بنیاد ہے۔حزب اقتدار اور حزب اختلاف میں برسراقتدار تو وہی جماعت آئے گی جس کی اکثریت ہو لیکن جب عظمت والی کو ترجیح دی جائے گی تو ایک دن اکثریت بھی حق کی طرف مائل ہوگی۔
رسول اللہﷺ نے غزوہ بدر کے موقع پر فدیہ لینے کا فیصلہ اکثریت کی بنیاد پر کیا لیکن حضرت عمر فاروق اعظمؓ اور حضرت سعدؓ نے اقلیت سے مشورہ دیاتھا اور اللہ تعالیٰ نے اقلیت کے مشورے کو قرآن میں اعظم کا درجہ دیا تھا اسلئے وصیت بھی نبی کریمﷺ نے حضرت فاروق اعظمؓ کی رائے سے لکھنا چھوڑدی۔ اہل تشیع کی آذانوں میں حضرت علیؓ کیلئے ولی اللہ، وصی رسول اللہ و خلیفتہ بلافصل کی صدائیں اسلئے بلند کی جاتی ہیں۔ ہماری اہل تشیع سے استدعا ہے کہ حضرت علیؓ کے بعد اگر آپ کا حضرت حسنؓ، حضرت حسینؓ کے بعد بتدریج مہدئ غائب تک بارہ خلفاء پر ایمان ہے تو کلمہ وآذان میں ہر دور کے ہر امام کیساتھ تبدیلی کی ضرورت تھی۔
ولی کے عربی میں کئی معانی ہیں ۔ آقا ،غلام، حکمران، سرپرست اور دوست کو بھی کہتے ہیں۔ ہم قرآن کی آیت میں اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ انت مولانا آپ ہمارے مولا ہیں تو اس کا معنی غلام نہیں لیتے، یہ نہیں کہتے کہ آپ ہمارے غلام ہیں ورنہ تو اس سے بڑھ کر کافری کیا ہوگی؟، قرآن میں عبد کا لفظ بندے اور غلام دونوں کیلئے آیا ہے لیکن غلام کو اپنا بندہ عبودیت کے اعتبار سے کہنا کفر ہے اسلئے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ جب علماء کہتے ہیں کہ حضرت علیؓ کے بارے میں نبیﷺ نے فرمایا کہ وہ تمہارا مولی ہے اور مولانا سے دوست مراد ہے تو کیا بڑے بڑے مولانا صاحبان اپنے لئے مولا کے معنی دوست کے ہی لیتے ہیں؟۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا کہ ’’یہودونصاریٰ کو اپنا ولی مت بناؤ ‘‘ تو اس سے مراد دوست بنانا نہیں بلکہ فیصلے کیلئے اختیار دینا اور سرپرستی مراد ہے۔ جب ان کی خواتین سے نکاح جائز ہے تو بیوی سے بڑھ کر دوستی کیا ہوسکتی ہے۔ لڑکی کا ولی اسکا سرپرست ہوتا ہے دوست نہیں ہوتا ہے۔مولانا طارق جمیل بھی بدل گئے۔
عربی میں ذنب دُم، گناہ اور بوجھ کو بھی کہتے ہیں۔نبیﷺ گناہوں سے معصوم اور محفوظ تھے۔ نبیﷺ کی پیٹھ نبوت کے بوجھ نے توڑ کر رکھ دی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ الم نشرح لک صدرک و وضعناعنک وزک الذی انقض ظہرک ’’ کیا ہم نے تیرا سینہ نہیں کھولاہے؟ اور تجھ سے وہ بوجھ اٹھادیا جس نے آپ کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی‘‘۔ اللہ تعالیٰ فرمائے کہ ذنب کے بدلے جہنم رسید کردونگا، یا ذنب کے بدلے مشکل میں ڈال دونگا تو ذنب کا معنیٰ گناہ کے ہونگے لیکن جب اللہ تعالیٰ یہ فرمائے کہ انا فتحنا لک فتحًا مبینًا لیغفراللہ ماتقدم من ذنبک و ما تأخر ’’اور ہم نے تجھے کھلی ہوئی فتح دیدی تاکہ تجھ سے تیرا اگلا اور پچھلا بوجھ ہٹادے‘‘ تو اس میں ذنب کا معنیٰ گناہ نہیں ہوسکتا ہے بلکہ بوجھ ہی ہوسکتا ہے۔ صحیح بخاری کی روایت کا بھی یہی ترجمہ بنتا ہے کہ جب نبیﷺ دیر تک عبادت میں مشغول رہتے توحضرت عائشہؓ نے عرض کیا کہ جب آپ کا اگلا پچھلا بوجھ ہلکا کردیا ہے، پھر آپ خود کو کیوں مشقت میں ڈالتے ہیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟‘‘۔ حضرت حاجی محمد عثمان ؒ کے ایک مرید کا کہنا تھاکہ نبیﷺ کو مشاہدے میں دیکھتا ہے۔ حاجی عثمانؒ کے علم میں بات آئی کہ بخاری میں نبیﷺ کے اگلے پچھلے گناہوں کو معاف کرنے کی بات ہے تو گناہ والی بات دل نے نہیں مانی اور مرید سے کہا کہ پوچھ لو۔ مرید نے بتایا کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ حدیث درست ہے مگر اسکے الفاظ میں ردوبدل ہے ۔ یعنی گناہوں والا ترجمہ درست نہیں ہے۔ حاجی عثمانؒ کے حلقہ ارادت میں بڑے مدارس کے بڑے علماء ومفتیان ، فوجی افسران ، بڑی تعداد میں تبلیغی جماعت میں وقت لگانے والے اور عام تعلیم یافتہ لوگ ہزاروں کی تعداد میں شامل تھے۔ا لائنس موٹرز کی آزمائش آئی تو حاجی محمد عثمان ؒ کو گمراہ قرار دینے کا سب سے بڑا ہتھیار یہ مشاہدہ تھا۔ خانقاہ کی دیوار پر لکھا ہوا تھا کہ نبی کریمﷺ تشریف لائے اور فرمایا کہ ’’ حاجی عثمان کا کوئی مرید ضائع نہ ہوگا مگر جو اخلاص کیساتھ نہیں جڑا‘‘۔ مشاہدات والے ہزاروں میں تھے لیکن الائنس موٹرز کے جال میں پھنسنے کی وجہ سے اکثر وبیشتر بھاگ گئے۔
نبیﷺ نے جبری دورحکومتوں کے بعد دوبارہ طرزِ نبوت کی خلافت کی خبر دی ہے۔ اسلام کو مدارس کے علماء ومفتیان نے بگاڑ دیا لیکن وہ غلطی پر ہونے کے باوجود معذور تھے اسلئے کہ حق کا ادراک نہ ہو تو اللہ تعالیٰ بھی نہیں پکڑتا البتہ اتمامِ حجت کے بعد ہٹ دھرمی سے وہ اپنے آپ کو ذلت کی انتہاء تک پہنچاسکتے ہیں۔ ہم پر یہ فرض اور قرض ہے کہ حقائق کو پیش کرکے اپنے ضمیر کے بوجھ کو ہلکا کریں۔

پاکستان اور اسلام لازم وملزوم مگر ایک مظلوم ایک محروم

mirza-ghulam-ahmad-qadiani-allama-iqbal-imam-mehdi-tablighi-jamaat-isi-cia-afghan-jihad-gulbadin-hikmatyar-shakil-afridi-molana-masood-azhar-manzoor-pashtoon-molana-tariq-jameel-jannat-ki-hoor

پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا، اسلام اس کی بقاہے اور اسلام کے بغیر یہ فنا ہے لیکن جس اسلام کے نام پر یہ بنا ہے جو ایمان اس کی روح ہے جو دین اسلام اس کا ڈھانچہ ہے ،وہ بھی معدوم ہے اسلئے پاکستان مظلوم اور اسلام محروم ہے۔
انتخابات ہورہے ہیں لیکن اسکا نتیجہ کیا نکلے گا؟۔ کوئی جماعت کامیاب ہوگی اور کسی شخصیت کو وزیراعظم بنایا جائیگا۔ کسی تفریح گاہ میں مسافروں کا گھوڑے پر سواری کی طرح باری باری اسٹیبلشمنٹ کے گودی بچے تھوڑی دیر کیلئے بادشاہت کا مزہ چکھ لیتے ہیں اور پھر دھاندلی دھاندلی کا شور اٹھتا ہے۔ 70سالوں سے نہ ختم ہونے والا یہ سلسلہ چل رہاہے۔ پاکستان مظلومیت کی آخری حدوں کو چھور ہاہے اور اسلام اجنبیت سے محرومیت کی آخری حدوں کو چھورہاہے۔ انگریز نے نبوت کے دعویدار مرزا غلام احمد قادیانی کو اسلئے سپورٹ کیا تھا کہ اس نے جہادکی منسوخی کا اعلان کررکھا تھا۔ علامہ اقبالؒ نے اشعار میں کہا کہ’’ مجذوبِ فرنگی نے بہ اندازِ فرنگی مہدی کے تصور کو اس ملک میں بدنام کردیا ہے‘‘۔ کسی طبقے نے کہا کہ’’ تبلیغی جماعت نے جہاد کیخلاف عملی اور ذہنی طور پر مرزا غلام احمد قادیانی کے ناکام مشن کو کامیابی سے ہم کنار کردیا‘‘۔ دہشتگردوں کا سلسلہ شروع ہوا تو تبلیغی جماعت اس کی سب سے بڑی پناہ گاہ تھی۔ شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی اور مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن نے سودی نظام کو اسلامی بینکاری کے نام سے جواز بخشا ہے۔
آئی ایس آئی اور امریکی سی آئی اے نے مجاہدین پالے تھے اور جہاد کی دنیا میں گلبدین حکمتیار کا بہت بڑا نام تھا۔ آج افغانستان میں گلبدین حکمتیار امریکی افواج کی گود میں بیٹھ گیا۔ مولانا مسعود اظہر اور حافظ سعید کے بارے میں پرویز مشرف الگ الگ رائے رکھتا ہے۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکہ نے مانگا تو ایک عورت زاد بھی پرویز مشرف نے حوالہ کردی ، حالانکہ شکیل آفریدی کی طرح ایک پاکستانی کو امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار بھی کیا جاسکتا تھا۔ وہ بھی بچوں کی ماں ایک خاتون۔ امریکہ نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بجائے مولانا مسعود اظہر و حافظ سعید کو مانگا ہوتا تو بھی پرویزمشرف نے خوشی خوشی ان کو حوالہ کردینا تھا لیکن شاید امریکہ نے پاکستان کو بلیک لسٹ قرار دینے کی منصوبہ بندی کررکھی تھی۔
سودی نظام بھی مشرف بہ اسلام ہوگیا اور سود کی مد میں ادا کی جانے والی رقم دفاع کے بجٹ سے بھی زیادہ ہے ہر شاخ پر اُلّو بیٹھا ہے انجام گلستان کیا ہوگا؟۔ پاکستان قرضوں میں دب گیا اور اسلام کو سودی نظام نے رگڑ کر رکھ دیا ہے۔ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور اور کھانے کے اور۔پاکستان کو کرپٹ فوجی جرنیلوں، بیوروکریٹوں، ججوں اور سیاستدانوں نے کھالیا ہے۔ اس کے ڈھانچے پر اب بھی گدھ منڈلارہے ہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں نے عوام کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا ہے۔ اسلام اپنے بیٹے شیخ الاسلام کے باپ کا نام تھا جوکب کا مرچکا ہے۔ اسلام، ملک اور جمہوریت کے نام پر دھوکہ ہی دھوکہ ہے ، ایک تماشا لگا ہوا ہے جس میں جو اپنا منہ میٹھا کرلیتا ہے اس کو تماشا گاہ اچھا لگتا ہے اور جسکے ہاتھ کچھ نہیں آتا وہ چیختا چلّاتا ہے کہ لُٹ گئے، پِٹ گئے، مرگئے، غرق ہوگئے اور ظلم ہی ظلم ہے۔
منظور پشتین PTMکا قائد ہے، اللہ نہ کرے کہ وہ مشکلات کا شکار ہوں۔ اچھا خطیب ہے، اپنی قوم کا درد رکھتا ہے، بہادر ہے، اس کا نظریہ اسلام،پاکستان اور پختونوں کا بہترین اثاثہ ہے۔ اس کی للکار میں جان اور ایمان ہے۔ عوام کی عدالت میں سب سے آسان کام ان کی منہ پر ان کی تعریف کرکے دوسروں کے خلاف جذبات کو ابھارنا ہے۔ جب طالبان اور علماء ومفتیان امریکہ پر لعن طعن کرکے اسلامی غیرت کو ابھارتے تھے تو’’ ہرگھر سے طالب نکلے گا تم کتنے طالب ماروگے‘‘ ۔ پھر’’ افراد کے ہاتھوں میں اقوام کی تقدیر ہر خودکش ہے چمکتا ہوا تارا‘‘ سے امریکہ کا نقصان کیا یا نہیں کیا مگر اپنی قوم کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا ۔ داعش کی طرف سے ایک نئی جنگ کا محاذ کھلنے والا ہے ۔ مولانا طارق جمیل حوروں کا جو نقشہ پیش کرتا ہے کہ 70لباس ہونگے، اس میں دھڑکتا ہوا محبت سے بھرپور دل مچلتا نظر آتا ہے، ایک سے دوسرا لباس اتارتے اتارتے اس کی خوبصورتی میں بے انتہاء اضافہ ہوجاتا ہے۔جنسی جذبات کوبھرپور طریقے سے بھڑکایاجاتا ہے جوانسان اپنے ضمیر،ایمان، انسانیت اور اقدار کو پامال کرتے ہوئے جبری جنسی تشدد اور بچیوں کو مارنے تک سے باز نہیں آتا،اگر اسکے سامنے حوروں کایہ نقشہ پیش کیا جائے تو وہ اس تک پہنچنے کیلئے خود کش کرنے سے کبھی گریز نہ کریگا۔
جب تین بار اسٹیبلشمنٹ کی کٹھ پتلی رہنے والا نوازشریف کہتاہو کہ انگریز نکل گیا مگر مٹھی بھر فوجیوں نے ہمیں دبوچ کررکھا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری بھی کھلے عام اسٹیبلشمنٹ کیخلاف شکایت کررہا ہو، مشہورمیڈیا کے چینل میں بیٹھے معروف صحافی بھی اپنی جان پر کھیل کر فوج کے خلاف اپنا بیانیہ پیش کررہے ہوں تو فوج کیلئے اسکے بغیر کوئی چارہ نہیں رہتا ہے کہ اپنے تحفظ کیلئے صحافیوں میں زید حامد، ڈاکٹر عامر لیاقت حسین اور ڈاکٹر شاہد مسعود جیسے لوگوں کا سہارا لیں۔داعش نے وار کیا تو اس کی روک تھام کیلئے سب سے مضبوط اور آہنی دیوار PTMہی کی ہوسکتی ہے۔ علاقہ گومل کا ایک نامی گرامی بدمعاش عطاء اللہ نے طالبان کا حملہ کئی بار اپنے گھر پر ناکام بنایا مگر ملازئی میں سیکورٹی فورس کے 40جوان ایک طالب کو نہیں مارسکے۔ 39کو موقع پر ذبح کردیا گیا اور ایک نے بھاگ کر جان بچائی تھی۔ فارس وروم کی سپر طاقتوں نے اسلامی جہاد کے جذبے کا سامنا نہ کیا تو ایک ایسی فوج جسکے سپاہی غربت کے مارے جان پر کھیل کر نوکری کررہے ہوں کہاں سے خود کش حملہ آوروں کے سامنے جان کی بازی لگانے کی صلاحیت رکھتی ہے؟۔ جو لوگ نیٹوافواج کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے ہیں ان کا رخ جب ہماری طرف ہوگا تو اسلامی جذبے سے ان کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں ۔ ہمارے پاس اسلام کے نام کے سوا کچھ نہیں ، معیشت، معاشرت، سیاست،سول و ملٹری بیوروکریسی، بہت غلیظ قسم کا عدالتی نظام اور طبقاتی ولسانی تفریق اور بس۔
منظور پشتین اپنی قوم سے مخاطب ہوتا کہ طالبان کی تحریک آئی تو تم نے والہانہ انداز میں قربانیاں نہیں دیں بلکہ اپنی قوم کو تباہ وبرباد کیا، پاکستانی ریاست نے تمہارے جذبات کا خیال رکھا مگر تم نے امریکہ کے بجائے پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ اگر اس وقت اپنے چوروں اور ڈکیتوں کو ، لوفروں اور لونڈوں کو جذباتیوں اور خیراتیوں کو کنٹرول کرتے تو ہماری ریاست بھی مشکلات کا شکار نہ ہوتی اور تم بھی دربدر نہ ہوتے تو قوم اسکی تلخ بات بھی سن لیتی اور ان میں شعور بھی اجاگر ہوتا۔ اسلام آباد دھرنے میں قوم بھاگ کھڑی ہوئی اور منظور پشتین کو حوصلہ دینے والا بھی کوئی نہ تھا۔ ہم نے شامِ غریباں کی کیفیت سے دوچار پست حوصلے میں جو روح پھونکی اسکی گونج آج انکے جلسوں میں سنائی دے رہی ہے۔ ہم ظاہری وباطنی اور اندورنی وبیرونی ایجنٹوں پر لاکھوں لعنت بھیج کر ببانگِ دہل کہتے ہیں کہ اسلام کو زندہ کئے بغیر پاکستان کو ماں کاکوئی لعل نہیں بچاسکتا۔ اسلام کو کسی نے نہیں علماء ومفتیان نے تباہ کیا ہے اور وہی اسلام کو بچا بھی سکتے ہیں۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نظام عدل و انصاف

democracy-and-western-countries-hadees-atomic-power-of-pakistan-hind-sindh-khorasan-fars-quota-system-and-merit-

جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
نہیں ، نہیں اور ہرگز نہیں بلکہ
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
سروں کو گنا کرتے ہیں کاٹا نہیں کرتے
صحیح مسلم کتاب الامارت
باب 673 قولہ ﷺ لا تزال طائفۃ من اُمتی ظاہرین علی الحق لا یضرھم من خالفھم
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میری اُمت کا ایک گروہ حق پر قائم رہے گامخالفت کرنے والا نقصان نہیں پہنچائیگا۔
حدیث نمبر 4843۔۔۔۔۔۔عن سعد بن ابی وقاصؓقال رسول اللہ ﷺ لا یزال اہل الغرب ظاھرین علی الحق حتیٰ تقوم الساعۃ
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اہل غرب ہمیشہ حق پر قائم رہیں گے یہاں تک کہ قیامت قائم ہوجائے۔

صحیح مسلم کی مندرجہ بالا حدیث کا عنوان اہل حق کی وہ جماعت ہے جو حق پر قائم رہے گی اور کوئی مخالفت کرنے والا اس کو نقصان نہیں پہنچاسکے گا۔ اس باب کے عنوان کے تحت آخری حدیث یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مغرب والے ہمیشہ قیامت تک حق پر قائم رہیں گے۔ عالم اسلام میں مملکت خداداد کو سب سے بنیادی اعزاز یہ حاصل ہے کہ یہ واحد ملک ہے کہ جو اسلام کی نشاۃ ثانیہ اور نظرئیے کی بنیاد پر وجود میں آیا ہے۔ دوسرا یہ کہ یہ واحد ایٹمی قوت ہے۔ تیسرا یہ کہ اس پر فرقہ واریت اور مسلکوں کی چھاپ نہیں۔ چوتھا یہ کہ اس میں سب سے زیادہ جمہوریت اور جمہوری نظام ہے۔ پانچواں یہ کہ اس میں مختلف قومیتیں اور لسانی اکائیاں ہیں۔ چھٹا یہ کہ جغرافیائی لحاظ سے بہت زیادہ اہمیت اسی کو حاصل ہے۔ ساتواں یہ کہ احادیث صحیحہ میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے حوالے سے ہندو فارس اور سندھ و خراسان کا ذکر ہے ۔ اس مملکت خداداد پر ان سب کا اطلاق ہوتا ہے۔ آٹھواں یہ کہ دنیا بھر سے اسلامی تعلیمات کیلئے طالب علم بڑے پیمانے پر یہاں علم کے حصول کیلئے آتے ہیں۔ نواں یہ کہ افواج پاکستان ، علماء و مفتیان پاکستان اور پاکستانی سیاستدانوں کو دنیا بھر میں ایک ممتاز حیثیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ دسواں یہ کہ عالم اسلام کے مسلمان پاکستان کو اپنا مذہبی ، دنیاوی اور روحانی امام سمجھتے ہیں۔
امام انقلاب مولانا عبید اللہ سندھی ؒ نے قرآنی انقلاب کیلئے حضرت امام ابو حنیفہؒ کے مسلک کو بنیاد بناتے ہوئے قرآن کے آخری پارہ کی تفسیر ’’المقام المحمود‘‘میں سورۃ القدر کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا کہ ’’سندھ، بلوچستان، پنجاب، کشمیر، فرنٹیئر(خیبر پختونخواہ) اور افغانستان میں جس قدر قومیں بستی ہیں یہ سب امامت کے حقدار ہیں۔ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کیلئے مرکزی حصہ یہی ہے۔ اگر ہندو پوری دنیا کو ہمارے مقابلے میں لے آئیں تب بھی ہم ان علاقوں سے دستبردار نہ ہوں گے ۔ ایران کے اہل تشیع بھی اس انقلاب کو قبول کرلیں گے اسلئے کہ حضرت امام ابو حنیفہؒ کئی ائمہ اہل بیت کے شاگرد تھے ۔ قرآنی تعلیمات کو امام ابو حنیفہؒ کے مسلک کے تقاضوں کے مطابق ہی زندہ کیا جاسکتا ہے۔ پہلے مجدد حضرت عمر بن عبد العزیزؒ تھے جنہوں نے خلافت راشدہ کے طرز پر حکومت کرنے کا انداز زندہ کردیا۔ عرب کی جگہ پر عجم سے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی قرآن و سنت میں خبر ہے اور یہ پیشگوئی اس خطے سے پوری ہوگی ‘‘۔ مولانا عبید اللہ سندھیؒ کا تعلق کانگریس سے تھااور پاکستان بننے سے بہت پہلے فوت ہوگئے تھے۔ پاکستان 27ویں شب رمضان المبارک میں لیلۃ القدر کی رات کو معرض وجود میں آیا۔ اس میں جمہوری نظام کی تائید صحیح مسلم کی مندرجہ بالا روایت سے ہوتی ہے۔ جس کا تعلق حکومت کے حوالے سے کتاب الامارت سے ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا اذا حکمتم بین الناس فاحکموا بالعدل ’’جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو‘‘۔ اور فرمایا اعدلوا ھواقرب للتقویٰ ’’انصاف کرو اور یہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے‘‘۔ جب کوئی دو فریق کے درمیان فیصلہ کرنے سے اسلئے کترائے اور فیصلہ نہ کرے کہ یہ تقویٰ کا تقاضہ ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس کی نفی کردی اور فرمایا ہے کہ پہلو تہی کے بجائے انصاف کے تقاضوں پر عمل کرنا تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ ’’حدود کو شبہات سے ساقط کرو‘‘۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شرعی حدود میں انسانوں کے علاوہ اللہ تعالیٰ کا حق ہوتا ہے۔ چوری کردہ مال انسان کا حق ہوتا ہے لیکن اس پر ہاتھ کاٹنے کی سزا اللہ کا حق ہے۔ زنا کار کو کوڑے مارنا شرعی حد ہے لیکن یہ شرعی حد اللہ کا حق ہے۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ ’’اگر 100گناہگاروں پر شرعی حد جاری نہ ہو تو یہ اتنی بڑی زیادتی نہیں جتنی زیادتی ایک بے گناہ پر حد جاری کرنے سے ہے اس لئے شبہات سے حدود کو ساقط کرنے کا حکم ہے‘‘۔
جہاں تک انسانی حقوق کا تعلق ہے تو رسول اللہ ﷺ سے ایک خاتون نے شکایت کی کہ فلاں شخص نے مجھ سے جبری زیادتی کی ہے جس پر رسول اللہ ﷺ نے یقین کرنے کے بعد گواہوں کا کوئی مطالبہ نہیں کیا اور اس شخص کو سنگسار کرنے کا حکم فرمایا۔ ابوداؤد میں وائل ابن حجرؓ سے یہ روایت نقل کی گئی ہے اور مشہور کتاب ’’موت کا منظر‘‘ میں بھی زنا بالجبر کی سزا کے حوالے سے یہ واقعہ نقل کیا گیا ہے۔ انسانی حقوق میں ظالم ، خائن ، ڈاکو اور لٹیرے کو شبہات سے فائدہ پہنچانے کا کوئی حکم نہیں دیا گیاہے۔ فقہاء عظام نے شریعت کے نام پر بہت غلط قسم کے مسائل گھڑ لئے ہیں۔ ایک ضعیف العمر صحابیؓ نے اپنے بیٹے کی شکایت کردی کہ وہ خرچہ نہیں دیتا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ انت و مالک لابیک ’’تو اور تیرا مال تیرے والد کیلئے ہے‘‘۔بعض فقہاء نے لکھا کہ باپ بیٹے کو قتل کرے تو بدلے میں باپ کو قتل نہیں کیا جائے گا اسلئے کہ اس حدیث سے شبہ پیدا ہوتا ہے کہ بیٹا باپ کی ملکیت ہے۔ حالانکہ حدیث کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے ، بلکہ حدیث سے مراد یہ ہے کہ کسی پر دوسرے کو قتل کرنے کا الزام ہو لیکن دلائل اور قرائن سے یہ شبہ پیدا ہوتا ہو کہ وہ قاتل نہیں بے گناہ ہو۔ اس شبہ کی وجہ سے اس کو قتل نہ کیا جائے۔ فقہاء نے یہ بکواس بھی کی ہے کہ ماں بہن سے نکاح کیا جائے تو اس میں بھی جواز نہیں لیکن جواز کا شبہ ہے اسلئے اس پر حد جاری نہیں ہوگی۔ حالانکہ نبی علیہ السلام نے ایسے شخص کو قتل کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ ہمارے عدالتی قوانین میں صرف جھول نہیں بلکہ 180ڈگری کے زاوئیے سے عدل کے تقاضے بدل جاتے ہیں۔ اکرم راجہ اصغر خان کیس میں نواز شریف کو 100%مجرم ثابت کرتا ہے اور میڈیا میں خاندان کے افرادنے جو واضح بیانات دئیے اور پارلیمنٹ میں نواز شریف نے جس طرح کہا کہ میں بلاخوف تردید کہتا ہوں کہ میرے پاس سعودی و دوبئی کی اراضی 2005ء میں بیچنے اور لندن کے فلیٹ 2006ء میں خریدنے کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں جس کو میں عدالت اور ہر فورم پرثابت کرنے کیلئے تیار ہوں۔ اور پھر قطری خط میں بہت بھونڈے طریقے سے اس پارلیمنٹ کے بیان سے مکر گیا جس کو پاکستان کے اندر سب سے زیادہ مقدس ، بالادست اور سپریم قرار دیتا ہے۔ اسی طرح جو بابر اعوان آصف علی زرداری کے تقدس کی قسمیں کھاتا تھا وہ آج عمران خان کی تحریک انصاف میں شامل ہوکر عمران خان کی صفائیاں پیش کررہا ہے۔ چوہدری اعتزاز ایک مشہور وکیل ہیں لیکن جب نواز شریف کی وکالت کررہے تھے تو پھر وکالت کا پیمانہ بالکل حقائق کے برعکس استعمال ہورہا تھا۔
قرآن میں حضرت داؤد ؑ اور حضرت سلیمانؑ کا واقعہ ہے ۔ دونوں باپ بیٹے آصف زرداری اور بلاوہ بھٹو کی طرح تھے اور نا مریم نواز اور نواز شریف کی طرح۔ معاشرے قانون سے زیادہ اخلاقیات پر چلتے ہیں۔ ہمارے سیاسی قائدین میں اخلاقیات نام کی کوئی چیز نہیں۔ حضرت داؤد ؑ کے پاس دو فریق آئے ، ایک فریق کے جانوروں نے دوسرے فریق کی فصل کو نقصان پہنچایا تھا۔ حضرت داؤد ؑ نے دونوں کی قیمت نکال کر فیصلہ کیا۔ فصل کے بدلے میں دوسرے فریق کو جانور حوالے کردئیے۔ حضرت سلیمانؑ نے فرمایا کہ اس طرح سے ایک فریق بالکل محروم ہوگا ، جب روزگار نہیں رہے گا تو چوری اور ڈکیتیوں پر مجبور ہوگا جس سے معاشرے میں بد امنی اور بد انتظامی پھیلے گی۔ یہ فیصلہ میں کرتا ہوں ۔ چنانچہ فصل والے کو جانور حوالے کردئیے کہ جب تک فصل اپنی جگہ پر نہ آئے تو اس کا فائدہ اٹھاؤ۔ دودھ ، اون ، گوبر کارآمد تھے۔ جانور والوں کو فصل حوالے کی کہ اپنی غلطی کی سزا بھگتو اور جب تک فصل اپنی جگہ پر نہ آئے اس کی خدمت پر مأمور رہو۔ اس دانشمندانہ فیصلے کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان ؑ کی تعریف کی ہے۔ جب ذو الفقار علی بھٹو نے کراچی والوں سے میرٹ کا روزگار چھین لیا تو کراچی میں بد امنی ، ڈکیتی ، چھینا جھپٹی، بھتہ خوری اور چوری سینہ زوری کی مصیبت آئی۔ پاکستان کی اشرافیہ نے دولت کو بڑے پیمانے پر لوٹا تو غریب عوام نے بیروزگاری میں حدود و قیود پھلانگنے کو اپنا وطیرہ بنالیا۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین اور رہنماؤں کے اخلاقیات تباہ و برباد ہوگئے۔ قرآن میں عدل و انصاف کے تقاضوں کو جس طرح پورا کرنے کی تلقین کی گئی ہے اسی طرح قوموں کی معیشت اور روزگار پر قبضہ کرنے کی بھی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ دو عورتیں لکڑیاں کاٹنے گئی تھیں ، ایک عورت کا بچہ بھیڑیا لے گیا تو اس نے دوسری کا بچہ اٹھالیا ۔ حضرت داؤد ؑ نے اپنی صوابدید کے مطابق فیصلہ کیا اور بچہ اسی کو دیا۔ حضرت سلیمان ؑ نے کہا کہ یہ فیصلہ میں کروں گا ، دونوں کی بات سن لی اور پھر اعلان کیا کہ میں کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکا اسلئے بچے کو دو ٹکڑے کرکے بانٹتا ہوں۔ ایک نے کہا کہ مجھے یہ بھی منظور ہے ، دوسری نے کہا کہ میں اپنے دعوے سے دستبردار ہوتی ہوں میں نے جھوٹ بولا تھا یہ میرا بچہ نہیں اسی کا ہے مگر اس کو دو ٹکڑے مت کرنا ۔ اپنی حکمت عملی سے حضرت سلیمان ؑ نے حقیقی ماں کو دریافت کرلیا اور بچہ سے دستبردار ہونے کے باوجود اسی کے حوالے کیا۔ بد قسمتی سے ہمارا عدالتی نظام اس قدر خراب ہے کہ اگر چیف جسٹس کو کیمروں کی آنکھ کے سامنے تھپڑ مارا جائے تو بھی وکیل اس شہادت کو غیر قانونی قرار دیتا ہے۔ اگر مقصد عدل کا قیام ہو تو انصاف ملنے میں چند لمحات لگتے ہیں لیکن اگر مقصد قانونی پیچیدگیوں کے ذریعے سے وکالت کا کاروبار چلانا ہو تو انصاف سے ایک عمر تک الجھنے کے مواقع ملتے ہیں لوئر کورٹ سے سپریم کورٹ تک بہت سارا وقت اور پیسہ ضائع ہوجاتا ہے۔ نواز شریف پارلیمنٹ میں وزیر اعظم کی حیثیت سے ایک معینہ تاریخ کے اندر لندن فلیٹ کے ذرائع بتاتا ہے لیکن عدلیہ کے ججوں کو اتنی توفیق نہیں ملتی کہ کورٹ کے کٹہرے میں سچ اور جھوٹ کا پتہ لگا سکیں۔ پانامہ کا فیصلہ اقامہ پر دیا جاتا ہے اور عدلیہ کے جج صاحبان اس کے عوض اپنی پیٹھوں پر گالیوں کی چپت برداشت کرتے کرتے بیزار ہوجاتے ہیں۔ یہ عدالتی نظام نہیں ایک گھناؤنا کھیل ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا اور اسلام میں حکومت کے حوالے سے سب سے زیادہ اہمیت عدل و انصاف کی ہے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ حکومت کفر کے ساتھ چل سکتی ہے مگر ظلم کے ساتھ نہیں۔ اگر یہی عدالتیں قائم رکھنی تھیں تو اس کیلئے انگریزوں کے کالے غلام ججوں سے گورے حکمران انگریز خود بہتر تھے۔
جمہوری نظام کا طریقہ کار یہ ہونا چاہیے کہ ایک جلسے سے قائدین باری باری خطاب کریں ۔ جمہوریت کو حرام کی کمائی نے یرغمال بنا یا ہے جو جمہوریت کی نفی ہے اور اسلام کو شدت پسندی نے یرغمال بنایا ہے جو اسلام کی نفی ہے

اگر حکومت پاکستان ایمانداری کا مظاہرہ کرے تو عوام سے چندے مندے کی بھی کوئی ضرورت نہ ہوگی

sewerage-system-in-pakistan-shahra-e-faisal-defence-of-pakistan-economic-hub

ادارہ اعلاء کلۃ الحق رنچھوڑ لائن کراچی کے امیرابوبکر جاوید نے کہا کہ پاک فوج کے سپاہیوں کی طرف سے ایک دن، افسر طبقہ کی دو دن ، آرمی چیف کی طرف سے ایک ماہ کی تنخواہ کا پانی کے ذخائر کیلئے چندہ دینا خوش آئند ہے۔ ریاستی اداروں اور پرائیوٹ لوگ اپنی آمدن کی کچھ مخصوص رقم پانی کے ذخائز اور سیورج کے مسائل کیلئے وقف کردیں تو انسانی جسم کی مانند پاکستان کو زندہ ،توانا، تندرست اور خوشحال رکھ سکتے ہیں۔ دوبئی میں کھربوں روپے گئے ہیں اگر سندھ میں پانی بجلی اور سیورج کے نظام کو درست کیا جائے تو یہاں سے باہر گیا ہوا جائز وناجائز پیسہ واپس آسکتا ہے لیکن سب سے پہلے حکمران طبقے کو جاگنے کی ضرورت ہے۔ شارع فیصل کراچی کو وسیع کیا جائے تو عوام کی سہولت کے علاوہ نیوی وفضایہ کے علاقے معاشی حب بنیں گے۔ دفاع کیلئے خود انحصاری کا بہترین ذریعہ ہوگا۔ چندے مسائل کا حل نہیں۔

ملک ریاض نے 50 لاکھ چندہ دیا چیف جسٹس کو چندوں پر لگادیا بتی کے پیچھے لگانے کا یہ داؤ ہے

malik-riaz-50-lakhs-donation-chief-justice-saqib-nisar-chanda-lena-bahria-town-justice-asif-khosa-abdul-sattar-edhi-ramzan-chhipa

ادارہ اعلاء کلمۃ الحق سوشل میڈیا کے ایکٹیوسٹ یوسف صدیقی نے کہا ہے کہ بحریہ ٹاؤن کے ملک ریاض ایک دیومالائی شخصیت ہے۔ حکومت سندھ کے اداروں سے زمین کے مالکان کو نوٹس جاری کرواتا ہے کہ تمہارے کاغذات درست نہیں، پھر مالکان مجبوری میں بحریہ ٹاؤن کو بیچ دیتے ہیں اور کاغذات درست ہوجاتے ہیں۔ چیف جسٹس ثاقب کے بارے میں خبریں آرہی تھیں کہ ملک ریاض کو بھی دائرہ کار میں لے لیاپھر 5 لاکھ کا چندہ مانگنے پر ملک ریاض نے50لاکھ روپے دئیے تو اس کی تعریف بھی چیف جسٹس ثاقب نثار نے کردی۔ بلکہ ڈیموں کے چندے کرنے کے دھندے پر لگادیا۔ چیف جسٹس کو اپنا کام چھوڑ کر چندہ کرنا ہے تو آصف کھوسہ کیلئے سیٹ خالی کرکے عبدالستار ایدھی یا رمضان چھیپا کی طرح نام کمائیں۔ اس کی تنخواہ کا بوجھ بھی خزانہ پر نہیں پڑیگا بلکہ چندے کی رقم سے اپنا گھر بھی چلالے گا۔

نیب اور عدلیہ کے قانون میں تضاد کی وجہ سے نوازوں کو نوازا جاسکتا ہے

nab-hazrat-umar-judiciary-of-pakistan-imam-abu-hanifa-model-town-incident-rao-anwar-qatari-khat-mashal-khan

نوشتۂ دیوارپرنٹنگ کے مہتمم عبدالکریم نے کہا ہے کہ نیب اور عدلیہ کے قوانین کا فرق سب کو معلوم ہے۔ نیب میں ذرائع آمدن سے زاید اثاثے کا مطلب چوری ہے۔ عدلیہ میں چوری کے ٹھوس ثبوت ہی کے ذریعے سزا ہوسکتی ہے۔ حضرت عمرؓ کا قانون یہ تھا کہ عورت کوشوہر کے بغیر حمل ہوجائے تو یہ زنا ہے اور اس پر حد ہوگی ۔ باقی اماموں جمہور کے برعکس امام ابوحنیفہ ؒ کے نزدیک حمل سے حد جاری نہیں ہوگی۔ حضرت عمرؓ ودیگر جمہور کا قانون نیب والا تھا اور امام ابوحنیفہ کا مسلک عدلیہ والاتھا۔ مخالف کہتے ہیں کہ اسامہ بن لادن نے بھی نوازشریف کو بہت رقم دی تھی تو اس سے بھی لندن کے فلیٹ اسوقت خریدسکتے تھے۔ ماڈل ٹاؤن پر کسی کو سزا نہیں ہوئی ۔ راؤ انوار ضمانت پر رہا ہوگیا، مشال خان کو قتل کرنے والے رہا ہوگئے تو نوازشریف اور مریم نواز کو بھی اگر الیکشن کے بعدرہائی دینی ہے تو الیکشن سے پہلے دیدینی چاہیے تاکہ یہ تأثر زائل ہوجائے کہ عمران خان کیلئے میدان صاف کرنے کے نام پر ایک ڈراما رچایا گیا ہے۔ نوازشریف کو چاہیے کہ کھلے عام کہہ دے کہ اسامہ کا نام لے نہیں سکتا تھا اسلئے قطری خط کا سہارا لیاتھا اور آصف علی زرداری کو 11سال جیل کی سزا کھلائی ، اب میں یہی سزا خود بھی بھگت رہا ہوں اور معافی کی اپیل بھی نہیں کرونگا تاکہ اخلاقیات کا سبق قوم کو میرے ذریعہ ملے۔ مریم نواز کو رہا کرو تاکہ وزیراعظم بن جائے پھر اسٹیبلشمنٹ کی غلامی کرونگا اور ہم نے اس ملک میں ہی رہنا ہے۔

گومل ڈیم بن گیا مگر ٹانک کو بجلی اور پانی میسر نہیں. اس پر جے آئی ٹی بنانے کی ضرورت ہے

khawaja-asif-defence-minister-gomal-dam-district-tank-joint-investigation-team-jit-pervez-musharraf-american-aid-wapda-electricity-shortfall

نمائندہ خصوصی نوشتہ دیوار پختونخواہ شاہ وزیر سرحدی نے کہا کہ ٹانک شہر میں لوگ پانی کی بوند بوند کوترس رہے تھے۔ علاقہ گومل کے لوگ کہہ رہے تھے کہ جب گومل ڈیم نہ بناتھا تو علاقے میں وپڈا کی بجلی تھی، گومل ڈیم بن گیا تو بجلی کی تاریں ہیں لیکن ان میں کرنٹ نہیں ہے۔ وہ لوگ جو پی ٹی ایم سے کوئی تعلق نہیں رکھتے بلکہ جب پشتون تحفظ موومنٹ کا دور دور تک وجود نہیں تھا اور نہ اسکے کوئی آثار تھے توبھی کہا جاتا تھا کہ جنرل پرویزمشرف کراچی کا مہاجر تھا اسلئے یو ایس ایڈ امریکی امداد کی رقم سے گومل ڈیم بنایا۔ اگر پنجابی حکمران ہوتا تو یہ رقم پنجاب میں ہی خرچ کردیتا۔
گومل ڈیم بننے کے بعد بڑے پیمانے پر بجلی کی پیداوار ہوسکتی تھی لیکن چینی،فوجی اور واپڈا حکام نے مل جل کر رقم کھائی ہے یا رقم کھانے میں کسی ایک کا کردار ہے؟۔ اس پر بھی تیزرفتار جے آئی ٹی جسٹس کو بنانی چاہیے۔ بنے بنائے گومل ڈیم بہت وافر مقدار میں بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ وزیر پانی وبجلی خواجہ آصف اس وقت وزیردفاع بھی تھا۔ عمران خان نے بونیر میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے مقامی سطح پر سستی بجلی پیدا کرکے علاقہ کے لوگوں کو خوشحال بناناہے۔ وہ جو جھوٹ کی بنیاد پر اشتہارات چلارہاہے کہ پختونخواہ میں تبدیلی آگئی، اس کو چاہیے تھا کہ لالی لپے دینے کے بجائے بونیر میں بجلی پیداوار کے چالو منصوبے پر تقریر کرتا کہ ہم نے یہ روشنی دی ہے۔ یہ سستی بجلی ہے۔ پاکستان میں پہلے پنجاب اور دیگر صوبوں میں ایک حکومت اور اپوزیشن کا توازن رہتا تھا اب تو حکومت اور اپوزیشن دونوں پنجاب ہی سے ہیں۔ فوج میں بھرتی ہونے کیلئے کوئی اچھی ذہنی صلاحیت رکھنے والا جاتا نہیں اور نوازشریف نے درست کہاہے کہ مٹھی بھر لوگوں نے پورے پاکستانی عوام کا اختیار چھین رکھا ہے۔ منظور پشتین نے حق نواز پارک ڈیرہ اسماعیل خان کے جلسے میں کہا کہ یہ بندوق کے زور پرلڑسکتے ہیں مگر ہم عدم تشدد کے نظریہ سے خالی ہاتھ بھی جنگ کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایک لمحہ بندوق کے بغیر لڑنے کی صلاحیت نہ رکھنے والے ہار جاتے ہیں۔ پاکستان کی ریاست نے اگر عوام کی فلاح وبہبود کیلئے کام کرنا ہے تو ٹانک شہر کیلئے گومل ڈیم سے بندوبست کر دیں، یہ ایم این اے اورایم پی اے کے بس کی بات نہیں۔ ٹانک شہر تمام سرکاری دفاتر اور عوام کا مرکزہے۔ گومل کو کہیں اور سے نہیں گومل ڈیم سے بجلی مہیا کی جائے۔ زیادتی کے نتائج سے بغاوت کے جذبات پھیلتے ہیں اور فوج کا یہ کام نہیں کہ لڑکوں سے ان کی مرضی کی لال ٹوپی چھین لیں۔ عوام کو سہولت میسر ہوگی اور احساس ہوگا کہ ہمارا حکمران طبقہ ہم پر مہربان ہے تو پاک فوج اور سیاستدانوں سے دل کھول کر محبت کی جائے گی۔ بھٹو، نوازشریف کے بعد ایک دور میں عمران خان بھی فوج سے باغی بن جائیگا۔ حقیقی لیڈر شپ کو آنے دیا جائے۔