جولائی 2018 - Page 2 of 3 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

آرمی چیف نے نقیب اللہ محسود کے جرم میں راؤ انوار کو سزا کی دہائی دی مگر راؤ انوار کی ضمانت ہوگئی

naqeebullah-mehsud-rao-anwar-daish-qamar-javed-bajwa-siraj-raisani-imran-khan-bilawal-bhutto-shahbaz-sharif

مدیر مسؤل نوشتۂ دیوار نادرشاہ نے کہا کہ ہماری دعا ہے کہ پاکستان کی ریاست ہر لحاظ سے مستحکم ہو، جمہوریت مضبوط ہو، انسانیت کا راج ہو، عدل وانصاف قائم ہو اور دنیا میں پاکستان عالمی اسلامی خلافت کی بنیاد بن جائے۔ دنیا بھر کا ریاستی اور عدالتی نظام اپنا اعتماد کھورہاہے۔ داعش کا ایجنڈہ خلافت کا قیام ہے جو اسلامی فریضہ ہے۔ اگر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نقیب محسود شہید کے والد سے تعزیت میں راؤ انوار کو کیفر کردار تک پہنچانے کا وعدہ کریں اور پھروہ ڈرامائی انداز میں نمودار ہوکر پیش ہوں۔ عدالت سے ضمانت مل جائے ۔ سزا کے امکانات ختم ہوجائیں تو کیا نقیب محسود کا بچہ بھی داعش سے تربیت حاصل کرکے پولیس سے انتقام لے گا؟۔ پولیس ماڈل ٹاؤن لاہور میں کھلے عام قتل کرے لیکن وزیراعلیٰ پر دہشت گردی کا مقدمہ نہ بنے اور ایک شخص نوازشریف کو جوتا مارے اس پر ساتھیوں سمیت دہشت گردی کے مقدمات قائم کئے جائیں؟۔ عالمی قوتیں ملکوں کو تباہ کرکے دہشتگردی کی راہیں ہموار کررہی ہیں اور ہماری ریاست بھی نا انصافی میں بے بسی کی مثال بن کر شدت پسندوں کیلئے راہ ہموار کرتی ہے۔ سندھ پنجاب،بلوچستان،خیبرپختونخواہ کا مسئلہ نہیں بلکہ غریب کی غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی بسر کرنے کا مسئلہ ہے۔ سیاسی عدم مساوات کا مسئلہ ہے، ظلم وجبر اور بے توقیری کا مسئلہ ہے، ریاست کا غلط ہاتھوں میں جانے کا مسئلہ ہے۔ جمہوری شخصیات بے اوقات ہیں۔ مذہب کوبلیک میلنگ کیلئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ قابل لوگوں کی بے قدری ہے۔چرب زبانی ہی سیاست ہے۔ایمان،تنظیم،اتحادکا فقدان ہے۔کتنے وہ بے بس ہیں جو اندھیرنگری کی موت مرتے ہیں، کتنے دھماکوں میں لقمہ اجل بنتے ہیں؟۔ اہل اقتدار کو ہوش ہے کہ نہیں؟ یایہ بھی خاندانی منصوبہ بندی کامنظم پروگرام ہے ؟۔
شہید نوابزادہ سراج رئیسانی کی تقاریر سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ اس ملک کیلئے اتنی ہی قربانی ہم دے رہے ہیں جتنی کوئی اور دے رہاہے۔ جب پاکستان کا جھنڈا کوئی نہیں لگاسکتا تھا تو ہم نے گھروں پر لگایا سینے پر گولی کھانے کی قیمت پر ہم نے 14اگست کے جلوس مستونگ اور نوشکی وغیرہ میں نکالے جہاں کبھی یہ جلوس نہ نکلے تھے۔ مگر پھر بھی میرے بڑے بھائی کے سینے پر لگے ہوئے پاکستانی بیج کو چھین کر نکالا گیا، ہمیں سمجھ نہیں آرہی ہے کہ آپ ہمیں کہاں دھکیلنا چاہتے ہو؟۔ سراج رئیسانی کی یہ تقریر حیران کن ہے۔ اس پر کوئی تحقیق ہوگی اور مجرم اپنے انجام کو پہنچ سکے گا؟۔ اگر سراج رئیسانی نے منافقت کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا تو بھی تحقیق لازمی ہے اور اگر ان کو ناجائز تنگ کیا گیا ہے، تب بھی اس کا ازالہ ہونا چاہیے۔
150سے 220افراد کی شہادت کا واقعہ بہت دلخراش ہے۔ اس سے زیادہ خراب اور گھناؤنی بات یہ ہے کہ ہمارا آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سراج رئیسانی کے جنازہ پر پہنچ گئے تو عمران خان اور شہبازشریف کو بھی تعزیت یاد آگئی ۔ وہ بھی پہنچ گئے حالانکہ اس بڑے سانحہ کے بعد بھی عمران خان نے اسلام آباد میں سیاسی تقریر کی اور واقعہ پر افسوس کا اظہار تک بھی نہیں کیا۔ آرمی چیف کو پتہ ہوتاکہ ہمارے بے غیرت سیاستدان ہارون بلور کے جنازے پر بھی نہیں پہنچیں گے تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ وہاں پر بھی جنازے میں پہنچ جاتے۔ آرمی چیف کی تعزیت کے بعد ہی بلاول بھٹو زرداری کو بھی ہارون بلور کی تعزیت یاد آگئی تھی۔ عوام الناس نے گھاس نہیں کھائی ہے۔ معاملے کو سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہے۔ شہبازشریف نے اپنی ساکھ بحال رکھنے کی مجبوری سے ائرپورٹ جانے کا ڈرامہ رچایا ، جیب کے پیسوں سے پھول نچاور کرنے کا اہتمام کیا تھاورنہ کینٹ کے راستے ویسے بھی ائیرپورٹ جانا ممکن نہیں تھا۔ وہ مریم نواز کا استقبال کرکے اپنی خاندانی اقدار ملیامیٹ کرنے کے حق میں بھی نہ ہوگا مگر دوسروں کی عزتیں اچھالنے اور جھوٹے پروپیگنڈوں کا انجام اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی دکھاتا ہے۔یہ وقت کی بڑی سزا ہے۔
نقیب شہید کے علاوہ دیگر بندے بھی ہیں جن کوپنجاب سے لایا گیا تھا۔راؤانوار غائب نہ تھا بلکہ کوئی اس کو لیکر گیا ہوگا کہ باقی راز مت کھولو، نقیب شہید کے کیس میں رہائی دلانے کی ذمہ داری ہماری ہے۔ راؤ انوار پہلے بھی کہہ رہا تھا کہ میں اکیلا نہیں ہوں ، دوسروں پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔زنا بالجبر میں عمران علی، ریاستی اہلکاروں میں راؤ انوار کے علاوہ تمام ذمہ داروں کو قرارِ واقعی سزا دی گئی تو ملک سے بدامنی، عذاب اور پریشانی کی کیفیت میں وہ کمی آئے گی کہ دنیا حیران ہوگی کہ یہ کیسا پاکستان تھا؟ اور کیسا بن گیا ہے۔جب تک حقیقی اسلامی ریاست بنانے کی درست کوشش نہ ہوگی تو سب کو مصائب ،آزمائش اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑیگا۔ اللہ تعالیٰ ہماری حالت پر رحم فرمائے۔ ہمارا مقصد شعور کی بیداری کا رحجان بڑھانا ہے

اصل جرم مریم نواز؟ یا نواز شریف کو بار بار وزیر اعظم بنانے والوں کا ؟

establishment-of-pakistan-asghar-khan-case-smile-of-maryam-nawaz-tv-channels-saudi-arabia-humayun-akhtar-jihad-war-tarbooz-bair-ka-tree

سیکرٹری جنرل اعلاء کلمۃ الحق فاروق شیخ نے کہا ہے کہ آج مریم نواز کو نیب عدالت نے نوازشریف کے جرم میں معاونت پر7 سال قید بامشقت کی سزا سنائی ہے۔ جیل کی سزا پانے والی مریم نواز مطمئن ہے اور مسکرارہی ہے کہ مجھے سزا دینے والوں کا یہ حق بنتا ہے کہ اصل مجرموں کو بھی کوئی سزا دیں۔ اصل مجرم کون ہے؟ اصغر خان کیس میں یہ ثابت ہوچکا ہے کہ اسلامی جمہوری اتحاد کو بنانے والے کون تھے؟، وہ خود بھی اپنے جرم کا اقرار کرتے ہیں۔ 1990ء میں بینظیر بھٹو کی حکومت ختم کی گئی اور نواز شریف کو لایا گیا۔ اس حکومت نے کرپشن سے 1993ء میں لندن فلیٹ خریدے۔ اسوقت مریم نواز کی عمر کرپشن کی نہیں ایک دوسری قسم کا جذبہ تھا، کیپٹن صفدر سے نکاح کیا تھا۔ والدین کی رضا بقول چینلے اس میں شامل نہ تھی۔ غلام اسحاق خان نے نوازشریف کو کرپشن کی بنیاد پر برطرف کیا اور پیپلزپارٹی کی حکومت آئی تو رحمن ملک نے ایف آئی اے سے تمام بینک اکاونٹ کی تفصیلات پکڑ لی۔ پھر وہ کونسی قوت تھی کہ پیپلزپارٹی کی حکومت کو ختم کرکے نواز شریف کو دوتہائی اکثریت دلائی۔ مرتضی بھٹوکو شہید کرکے زرداری کو11سال تک جیل میں قید رکھا۔ پھر پرویزمشرف سے پھڈہ ہوا تونوازشریف کاتختہ الٹ دیا تھا۔ مریم نواز کو عربوں کی منت کرکے اپنی گھریلو زندگی تباہ کرنے پر مجبور ہونا پڑا اور منی لانڈرنگ کے ریکارڈ نکالنے کے بعد دوبارہ دفن کردئیے۔واپسی پر نواز شریف کوبالکل بری قرار دیا۔
پیپلزپارٹی کے5سالہ دور اقتدار میں نوازشریف کے شانہ بشانہ کھڑی رہنے والی قوت خلائی مخلوق نہ تھی تو کون ہے؟۔جس نے پختونخواہ میں تحریک انصاف، بلوچستان میں قوم پرستوں، سندھ میں پیپلزپارٹی،پنجاب اور مرکز میں مسلم ن لیگ کو حکومت دلائی۔ کیا مریم نوازشریف ہی مجرم ہے اور اتنی لمبی داستان رقم کرنے والوں کا کوئی قصور نہیں تھا؟۔جب افتخار چوہدری کو پرویزمشرف نے کہا تھا کہ تمہارے اوپر الزامات ہیں اور اس جرم پر استفعیٰ دیدو تو اس وقت بھی ہم نے ماہنامہ ضرب حق میں یہ لطیفہ فرنٹ صفحہ پر جلی حروف سے لکھا تھا کہ پرویزمشرف نے چیف جسٹس کو درست کہا ہوگا مگر وہ اپنا حال بھی دیکھ لے۔ جسکا اندازہ اس لطیفے سے لگایا جائے کہ ایک بادشاہ کو اکلوتی بیٹی کیلئے داماد چاہیے تھا۔ اس نے یہ شرط رکھی تھی کوئی ایسی چیز وہ کھلادے جو بادشاہ نے نہیں کھائی ہو لیکن اگر وہ کھائی ہو تو پھر لانے والے کے پشت میں وہ چیز ڈالی جائے گی۔
چنانچہ ایک شخص اپنی قسمت آزمائی لیکر جارہاتھا تو اسکے آنکھوں میں آنسو بھی تھے اور خوب ہنس بھی رہاتھا۔اس کی وجہ لوگوں نے پوچھی تو کہنے لگا کہ رویا تو اسلئے کہ مجھے بہت تکلیف ہوئی کیونکہ ایک بڑے سائز کی بیر لیکر گیا تھا۔ وہ پیچھے سے ڈال دی گئی تو شرمندگی و ذلت کا احساس بھی ہوا اور تکلیف بھی ہوئی۔ ہنس اسلئے رہا تھا کہ میرے بعد والے کے پاس بڑے سائز کا تربوز تھا، میں نے سوچا کہ اس غریب کا کیا بنے گا؟۔ مریم نواز کو معاونت کرنے پر جو7سال کی سزا دی گئی ہے ، تو جن لوگوں نے 1993ء سے پہلے ، 1993ء کے بعد ریاست وعدالت کے زور پر جس طرح کی معانت نوازشریف سے کی ہے اس کی سزا تو ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے بھی زیادہ 100سال کی بنتی ہے اورجب عدلیہ، صحافت، ریاست اور عوام آزاد ہونگے تو پھر راج کرے گی خلقِ خدا اور تخت اچھالے جائیں گے۔
جنرل اشفاق کیانی کے بھائی کا مطالبہ تو فواد چوہدری بھی کررہاہے کہ اس کو آسٹریلیا سے واپس لایا جائے۔ نواز شریف تو ایک تربیت یافتہ پروردہ ہے اسلئے اپنے ساتھ کرپشن میں ملوث فوجیوں کی بات نہیں کرتا ہے۔ ہاتھوں کی کمائی سے انقلاب آنیوالا ہے۔ ریاست ایم کیوایم کو کھلی چھوٹ نہ دیتی تو مہاجر قوم کی شرافت داؤ پر نہیں لگتی۔ گینگ وار کو سپورٹ نہ کیا جاتا تو بلوچ بدنام نہ ہوتے اور پنجاب میں کم نسل و بے غیرت لوگوں کو سیاست میں نہیں دکھیلا جاتا تو سیاست بدنام نہ ہوتی اور نہ غیرتمند پنجابی قوم پر مفادپرستی کے دھبے لگتے۔ جب ایاز صادق کو پتہ چلاتھا کہ ن لیگ کو حکومت ملے گی تو اپنے دیرینہ دوست عمران خان کی تحریک انصاف کو چھوڑ کر ن لیگ میں چھلانگ لگا دی۔ ہمایون اختر کے باپ اخترعبدالرحمن نے جہاد وار میں جو کمایا تھا نوازشریف اور اس سے پہلے پرویزمشرف کے بغل میں چھپ رہا تھا اور اب عمران خان کی گود میں گیا ۔ بلاتفریق احتساب اسلامی جمہوری عوامی انقلاب کا فرض ہوگا۔صحافی اپنا وقت اور ضمیر ضائع کررہے ہیں۔

دوسروں کو بے غیرت کہنے والے عمران خان میں بے غیرتی کی وہ کونسی قسم ہے جو اس میں نہ ہو؟

irshad-naqvi-irshad-bhatti-hassan-nisar-beghairat-imran-khan-mufti-saeed-khan-bushra-pinki

مدیر خصوصی نوشتۂ دیوار سید ارشاد نقوی نے کہا ہ کہ عمران خان دوسروں کو بے غیرت کہتا ہے مگر وہ کس قسم کی بے غیرتی ہے جو اس میں موجود نہ ہو؟۔نسل، رشتہ، سیاست، مذہب اور ہرقسم کی بے غیرتی کا عمران خان مرتکب رہاہے، پہلے دیوبندی مکتبۂ فکر کے مفتی سعید خان کا مرید ہوا کرتا تھا اسلئے کہ طالبان کا غلغلہ تھا، نعرہ حیدری و نعرۂ رسالت کے مقابلہ میں ایاک نعبد وایاک نستعینکو شعار اسلئے بنایا تھا۔ پھر درگاہوں کے جانشینوں سے ووٹ حاصل کرنے کیلئے بابا فریدؒ کی قدم بوسی نہیں کی بلکہ بابا فریدؒ کے مزار پر جاننے والی بشریٰ پنکی کی امامت میں راہگزرمیں مرغا بن گئے۔ یہ طالبان سے توبہ کرنے کا اعلان تھا۔ جب لندن میں پاکستانی نژاد مسلمان میئر کا مقابلہ اسکے یہودی سالے سے تھا تو یہودی کا ساتھ دیا، اس میں ملکی اور مذہبی غیرت بھی نہیں۔وہ مغرب سے انسانیت سیکھنے کا درس دیتاہے لیکن مغرب میں ہوتا تو ریحام کو آدھا بنی گالہ، آدھی رقم اور آدھی جائیداد دینی پڑتی۔ اسلام میں یہ ہے کہ ایک بیوی کو چھوڑ کر دوسری لانی ہو تو پوراسیٹ اپ دینا پڑتاہے۔
سورۂ النساء میں آیت20 اور21میں عورت کو طلاق دینے کے احکام کا ذکر ہے۔ جب مرد کی طرف سے طلاق دی جائے تو پھر عورت کو اسکے گھر سے نہیں نکالا جاسکتاہے اور عمران خان جو درود شریف اور نبیﷺ کے کلمہ کا صحیح تلفظ بھی ادا نہیں کرسکتا ہے مگر نام آپﷺ کا لیتا ہے اور عمل کچھ اور کرتا ہے۔ اسکی مثال شطر مرغ کی کہاوت ہے جو اونٹ اور پرندہ دونوں کے ہونے کا دعویٰ کرتاہے لیکن جب کہا جائے کہ وزن اٹھاؤ تو کہتا ہے کہ میں پرندہ ہوں اورجب کہا جائے کہ پرواز کرو تو کہتا ہے کہ اونٹ ہوں۔
عمران خان اسلامی اور مغربی دونوں اقدار سے فارغ ہے ۔ اسلام بے گناہ لوگوں کا خون بہانے والے دہشت گردوں کی تائید نہیں کرتا لیکن جب طالبان کا زور تھا تووہ فوجیوں اور عوام کو شہید کررہے تھے اور عمران خان طالبان کا حمایتی تھا، جب طالبان کا زور عوام میں ختم ہوگیا تو اس بے غیرت نے یوٹرن لے لیا۔ کسی چوکھٹ پر مغرب کے پروردہ کو جبینِ نیاز جھکانے کا فن نہیں آتا مگر عمران خان کو قدرت نے ایسا تخلیق کیا ہے کہ بے شرمی و بے غیرتی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ریحام خان سے کہاتھا کہ سالگرہ کا تحفہ مانگ لیا تو طلاق دیدوں گا اور بشریٰ پنکی کے کہنے پر سجدہ زن مریدی بھی ادا کردیا۔ شیخ رشید کا کہاتھا کہ اس کو چپڑاسی بھی نہیں رکھوں اور وزیراعظم کیلئے نامزد کردیا تھا۔
ڈاکٹر عامر لیاقت نے کہا کہ اس نے قرآن کے خلاف عدت میں شادی کی ہے لیکن پھر اس کو پارٹی میں لے لیا۔ پھر ٹکٹ نہیں دے رہاتھا تو ڈاکٹر عامر لیاقت نے دھمکی دی کہ راز کھول دوں گا، وہ راز کیا تھا کہ ختم نبوت کے معاملہ میں ن لیگ کیساتھ تحریک انصاف بھی شریک تھی، ٹکٹ دیا تو معاملہ ختم ہوا،عمران خان میں غیرت ہوتی تو ابن الوقتی کا یہ کردار ادا نہ کرتا۔ سیاسی جماعتوں کو زندگی بھر گالیاں دیتا رہاہے کہ بے غیرتوں کو ٹکٹ دیکر قومی اسمبلی میں اپنے نمبر بڑھاتے ہیں، پھر وہ بے غیرتی والا کام خود کیا۔ جب تک موروثی سیاست ہاتھ نہیں آئی تھی تو اس کو گالیاں دیں اور جہانگیر ترین کے بیٹے کا مسئلہ آیا تو بے غیرت بدل گیا اور جب جمائما خان کو طلاق بھی نہیں دی تھی تو اسکا معاشقہ کسی اور سے چل رہاتھا، یہ بھی بے غیرتی تھی، پھر ریحام کو طلاق دی اور پاکستان آنے پر بھی دھمکایا، یہ بھی غیرت نہیں بے غیرتی تھی۔ پھر دوست کی بیوی سے راہ ورسم بڑھاکر بشریٰ پنکی چھین لی۔ یہ سب بے غیرتی کے اقسام ہیں ۔ باپ کے بجائے ماں کا نام لیتا ہے۔ جالندھر کے برکیوں کو قبائل سے ملاکر خود کو نان پشتو سپیکنگ پٹھان کہتا تھا۔ یہ بھی بے غیرتی ہے، نیازی کہلانا ہی غیرت تھی۔
پاکستان کی قومی غیرت رکھنے والے لوگ نہیں ہیں ورنہ عمران خان کے وزیراعظم بننے پر لوگ خود کشیاں کرتے۔ عدلیہ کو غیرتمندی کا مظاہرہ کرکے نااہل کردینا چاہیے تھا۔ بنی گالہ کے جعلی کاغذات بنانے پر بھی صادق وامین نہ تھا اور بیٹی چھپانے پر بھی صادق وامین نہیں بے غیرت ہے اسکے بیوی بچے بھی اس کو اپنا مانتے ہیں مگر یہ نہیں مانتا۔

عمران خان غدار نہیں مگر اس احمق کا غداروں سے زیادہ خطرناک کردار ہے. زید حامد

zaid-hamid-kangaroo-kids-idiot-imran-khan-nawaz-sharif-khud-sakta-fouji-kangroo-bacha-gang-war-pakistan

بینظیر ، نواز شریف ، اسفندیار، محمود اچکزئی ،مولانا فضل الرحمن امریکی ایجنٹ اور غدار ہیں، عمران خان غدار نہیں مگر اس احمق کا غداروں سے زیادہ خطرناک کردار ہے ، پہلے طالبان کو دفتر کھولنے کی اجازت، اب PTMکے علی وزیر کو سپورٹ کیا ۔ خود ساختہ فوجی کینگرو بچہ زید حامد اور اس گینگ وار کے دیگر ساتھی دوسری طرف پشاور بم دھماکے میں ’’یہ جو دہشتگردی ہے اسکے پیچھے وردی ہے ‘‘ کی آواز سوشل میڈیا میں عام ہورہی ہے ۔ ریاست اور سیاست ناکام ہیں اب ایک معتدل اور توانا آواز سے پاکستان کو مستحکم اور اسلام کا قلعہ بنانا ہوگا۔

بلور خاندان نے مسلسل قربانی دی. سراج رئیسانی محب وطن سیاستدان تھا. آرمی چیف

bilour-family-terrorism-in-balochistan-khalai-makhlooq-zaid-hamid-manzoor-pashtoon-asif-ghafoor-Imran-khan-falls-off-stage

ایڈیٹرنوشتۂ دیوار اجمل ملک نے کہاکہ بشیر بلورایک بہادر شخصیت تھی، بہادری کی جتیے جاگتی تصویر بن کر ہر حادثے میں پہنچ جاتے تھے۔ بشیر بلور کے فرزند ہارون بلور نے بھی شہید ابن شہید بن کر جمہوریت کا حق ادا کردیا ۔ 2013ء کے الیکشن میں عمران خان نے نوازشریف کو غلیظ گالیوں سے ہر محفل، ہر جلسے اور ہر پریس کانفرنس میں یاد کیا۔ ساری انتخابی مہم گالی گلوچ تھی لیکن جب اسٹیج سے گرکر زخمی ہوگئے تو نواز شریف نے انتخابی مہم کو روکنے کا اعلان کیا تھا۔ میاں نوازشریف کے اس اقدام سے عوام خوش ہوگئی کہ سیاسی قیادت میں ابھی اخلاقیات کی رمق باقی ہے، ہارون بلور کی شہادت کا سانحہ پیش آیا تو اخلاقیات بھول گئے تھے اسلئے شہبازشریف نے جنازہ ہی کے دوران میڈیا کے سامنے اپنا منحوس چہرہ دکھانا لازم سمجھا۔ شاید یہ بتانا چاہ رہا تھاکہ دہشت گرودں کے اس واقعہ سے ہم پر اثر نہیں پڑا ۔ جب یونیورسٹی پر دہشگرد حملہ ہوا تھا تب بھی شہباز شریف نے ایک تقریب سے اپنا خطاب کیا تھا۔ جس کی ہم نے اس وقت بھی نشاندہی کی تھی۔ لوہار اور کھلاڑی سیاست کے بجائے اپنے کام میں مشغول ہوتے تو قوم کا بیڑہ غرق نہ ہوتا۔سیاسی جماعتوں کے قائدین میں اگرانسانیت، غیرت اور معاشرتی قدریں ہوتیں تو ہارون بلور کے جنازہ میں سب کے سب شریک ہوتے۔ تعزیت کیلئے بھی آرمی چیف کو پہل کرنی پڑی۔ بلوچستان دھماکہ میں میڈیا کے رویے پرعوام کو بہت غصہ آیا تھا۔ ہزاروں لعنت بھیجنے کی بات کو آوازِ خلق اور نقارۂ خدا سمجھو۔ عمران خان شہباز ونوازشریف سمیت سبھی نے بے حسی کا مظاہرہ کیا۔ دہشتگردی ختم کرنے کا سیاسی قائدین کریڈٹ لے رہے تھے مگر اب ان کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ دہشتگرد کسی فرد کو بھی چھوڑنے والے نہیں، اپنی اپنی باری کا انتظار کرنا ہے، بہادری سے جان دے یا پھربزدلی ہی دکھائے۔
پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور اپنی طرف سے پوری صلاحیت کو بھرپور طریقے سے استعمال کرتے ہوئے اپنی ترجمانی کا بھرپور حق ادا کرتے ہیں۔ جب ملک میں دو مقبول جماعتیں ایکدوسرے پر آرمی کی پشت پناہی سے اقتدار حاصل کرنے کا دعویٰ کرتی ہوں تو باقی لوگوں کیلئے فوج کی صفائی بھی سمجھ سے بالاتر نظر آتی ہے۔ آصف غفور نے کہاکہ خلائی مخلوق کا ہمیں نہیں پتہ لیکن ہم اللہ کی مخلوق ہیں۔ ایک طرف پاک فوج کیخلاف کھل کر سوشل میڈیا استعمال کرنے والے لوگ ہیں جن کے بارے میں سوال اٹھایا گیا کہ ان کو روکا کیوں نہیں جاتا؟۔ تو فوج کے ترجمان آصف غفور نے کہا: ’’کسی کے ذہن کو ڈنڈے کے زور سے نہیں بدلا جاسکتا ہے، یہ لوگ تھک جائیں گے اور ہمیں کوئی ملک کی سطح پر سیکیورٹی کا خدشہ ہوگا تو ایکشن لیں گے، اس کے علاوہ میڈیا کی آزادی سے لوگوں میں شعور وآگہی آتی ہے‘‘۔
جب پاک فوج اپنے مخالفین کی روک تھام کو نہیں روکتے تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ان سے محبت کا دم بھرنے والوں کی راہوں کو روک لے؟۔ نبیﷺ نے کسی بات پرفرمایا کہ ’’ شیطان جھوٹا ہے مگر یہ بات اس کی سچ ہے‘‘۔ زید حامد نے عمران خان کا کہا کہ میں اس کو غدار نہیں کہتا مگر ملک دشمنوں سے زیادہ یہ ملک کو نقصان پہنچائیگا‘‘۔ چلو ! اچھا ہے کہ سیاستدانوں میں کسی ایک کو تو غدار نہیں کہا اور اس بات میں بھی شک نہیں کہ نادان دوست ہوشیار دشمن سے زیادہ نقصان دہ ہوتے ہیں۔ جو صحافی ہوشیار ہیں اور وہ ہر بات میں فوج کے پیچھے پڑنے سے باز نہیں رہتے ان سے زیادہ زید حامدجیسے لوگ ہی پاک فوج کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہے ہیں مگر دونوں طبقے سے شعور میں اضافہ ہورہاہے۔ دونوں پر پابندی کی ضرورت نہیں ۔
پاک فوج پاکستان کے استحکام کا بنیادی ادارہ ہے۔ اگر فوج نہ ہو تو ریاستِ پاکستان کا وجود نہ رہیگا، یہ نہیں کہ فوج غلطی سے پاک ہے، ذوالفقار علی بھٹو کو پہلا کٹھ پتلی بنایا گیا۔ پھر نوازشریف کو بھی بنایا گیا اور اب حد ہوگئی ہے کہ عمران خان جیسے کو بنایا جارہاہے۔ غلطیوں کا تسلسل باشعور لوگوں میں ہی نہیں زید حامد جیسے احمقوں میں بھی بڑا شعور اجاگر کررہاہے۔ عمران خان سے زیادہ شریفوں کی منافقت خطرناک ہے۔ شہبازشریف جنازہ کے موقع پر دکھا رہاتھا کہ بلور کی شہادت سے لاتعلق ہیں ، مریم نواز الزام لگارہی تھی کہ فوج ہماری وجہ سے ملک کو تباہ کررہی ہے۔ باطل دوئی پسند ہے حق لاشریک ہے۔ سراسر موم ہو یا سنگ ہوجا۔ جو چپ رہے گی زبان خنجر تو لہوبول اٹھے گا آستین کا۔ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ نواز و شہباز شریف کا منافقانہ رویہ ہے تو عمران خان بھی حق لاشریک نہیں البتہ PTMکے جوانوں کو اگر زبردستی سے خاموش کرانے کی کوشش کی گئی تو بھی ان کی مظلومیت پکار اُٹھے گی۔ سیاسی قائدین میں ڈکٹیٹرشپ ہے ، منظورپشتین اپنی ڈکٹیٹر شپ کا ماحول قائم نہ ہونے دیں تو کامیابی ملے گی۔

میرا وطن لہو لہو ہے ن لیگ دہشتگردوں کی ساس اور پی ٹی آئی ان کی بہو ہے

noon-league-and-pti-action-plan-imran-khan-nawaz-shareef-siraj-raesani-zainab-ptm-aman-foundation-mastung-incident

امیرادارہ کلمۃ الحق قدوس بلوچ نے کہا بلوچستان و پختونخواہ میں خون کا کھیل کھیلا گیا۔ مستونگ واقعہ پر عمران خان نے پروگرام میں بلوچوں کے خون پر افسوس کا اظہار تک نہ کیا۔ نواز شریف، مریم نواز، شہباز شریف نے بلوچوں کا خون قابلِ افسوس نہ سمجھا۔ عمران خان میں انسانیت نہیں۔ یہ بندر کی طرح ڈنڈے پر چڑھتا ہے، قلا بازیاں کھاتاہے ، تماشے دکھاتا ہے۔ ن لیگ کا بھی یہی حال ہے۔عالمی قوتیں اقتدار میں لاکرانہیں استعمال کرتی ہیں ۔قوم کو جاگنا ہوگا۔
پاکستانی میڈیامخصوص ایجنڈے کے تناظر میں مختلف سیاسی قائدین، رہنماؤں، دانشوروں اور شخصیات کو کوریج دیتا ہے۔بلوچستان میں خود کش دھماکے سے70افراد کی شہادت اور سینکڑوں زخمی ہونے کی خبر آئی۔ شہیدوں کی تعداد 85بتائی گئی ، میڈیا کا فوکس مریم نواز، نواز شریف کا جہاز تھا اور مخالفت وموافقت کی خبریں چل رہی تھیں۔ کچھ میڈیا چینل عوام کو توجہ دلاتے، ہسپتالوں میں ایمرجنسی اور خون کی ضرورت کی اطلاع دیتے، مگر بلوچوں کے خون کو اہمیت کے قابل نہ سمجھا ۔ صرف آرمی چیف کی طرف سے آئی ایس پی آر نے ایک تعزیتی بیان جاری کیا اور افسوس کا اظہار کیا کہ یہ ملک ایک وفادارو محبِ وطن سیاسی قائد نوابزادہ سراج رئیسانی سے محروم ہوا۔ باقی میڈیا کو یہ فرصت ہی نہیں ملی کہ رہنماؤں کو تعزیت کرنے کی تکلیف دیتے۔ میڈیا کے مختلف چینلوں پربھی تجزےۂ نگاروں کو مریم نواز اور نوازشریف کا طیارہ اترنے ہی کی فکر تھی ۔ کوئی ان کے جیل جانے کا غم منارہاتھا، حوصلہ بڑھارہا تھا، سیاسی اعتبار سے ن لیگ کو تقویت پہنچنے کی بات کررہاتھا اور کوئی ان پر لعن طعن اور جیل جانے کی خوشیاں منارہاتھا۔
وہ صحافی بھی تھے جو احساس دلارہے تھے کہ اس واقعہ کے بعد سیاسی سرگرمیاں معطل کرنے کی ضرورت تھی۔ پھولوں سے شہبازشریف کو منع کرنا چاہیے تھا، عمران خان کو پروگرام میں احساس کی ضرورت تھی کہ مستونگ میں قیامت صغریٰ برپا ہوئی ، ہم اس غم میں برابر کے شریک ہیں۔ میڈیا کو ریج میں واقعے کو بھرپور اہمیت دینی چاہیے تھی لیکن یہ احساس بہت کم تعداد میں اجاگر ہوا۔ ن لیگ یا تحریک انصاف کے قائدین اس کو اہمیت دیتے تو ان کے پُجاری میڈیا چینل بھی لگ جاتے اور لہو لہو مستونگ کے لوگوں کی داد رسی ہوجاتی، ان کو حوصلہ ملتا، ان کے زخموں کو مرہم ملتا کہ ہمارا دکھ درد بانٹنے والے بہت ہیں اور اس حادثہ میں اصحابِ اقتدار نے ہمیں یاد رکھا ہے۔
اگر ہمارے اصحابِ سیاست سے یہ غلطی ہوئی ہے کہ صادق سنجرانی کو چیئرمین سینٹ بنایا، ن لیگ کی حکومت گرا کر اقتدار کا مزہ چکھ لیا تو پنجاب کے سیاستدانوں نے کبھی یہ غلطی نہیں کی؟۔ کیا اسلام ، انسانیت اور پاکستانیت ہمیں اجازت دیتی ہے کہ ہم بھی بے حس ہوجائیں؟۔ اگر فرقہ واریت، لسانیت کے نام پر ہمارے ہاں قتل وغارتگری ہوئی ہے تو کھل کر اس کا اظہار کرو تاکہ ٓائندہ ہماری آنکھیں کھل جائیں۔ مجھے معلوم ہے کہ میڈیا کے پاس نوازشریف اور مریم نواز کا ایشو نہ ہوتا تو بہت ہمدردی دکھائی جاتی، یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک آزمائش تھی کہ کوریج کی بھوکی میڈیا نے بلوچوں کے اس بڑے واقعہ میں ساتھ نہ دیا۔ بلوچستان میں فرقہ واریت اور لسانیت کے نام پر کھیل کھیلا جارہا تھا تو میری قوم خاموش تھی۔ ہزارہ برادری کوآنسو پونچنے کیلئے ٹرک میں ٹشو پیپر بھیجنے کی بات کی جاتی تھی۔ مسافر مارے جاتے تھے، اس بربریت کا دکھ درد اللہ تعالیٰ نے دِکھانا تھا۔ اس میں معصوم لوگ لپیٹ میں آگئے ہیں۔ دل سے دکھ درد محسوس کر رہا ہوں۔ شکر ہے کہ میڈیا کو فراغت بھی نہ ملی ورنہ ماؤں اور بہنوں کی چیخ و پکار بھی چینلوں پر دکھائے جاتے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مہربانیوں سے بلوچوں کی عزت رکھ دی۔ ان کی چیخ وپکار کو دنیا کے سامنے اجاگر کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔
پختونوں نے دھماکہ کے بعد نعرہ لگایا ’’ یہ جو دہشت گردی ہے اسکے پیچھے وردی ہے‘‘ اسلئے میڈیا نے دھماکہ کے بعد کے مناظر دکھانے سے گریز کیا۔ ان کی چیخ وپکار بھی اسلئے میڈیا پرنہیں دکھائی جاسکی ، ورنہ تو میڈیا نے اپنی ریٹنگ کیلئے بہت کچھ کرنا ہوتاہے۔ پنجاب میں عوام کی عزتیں تک بھی محفوظ نہیں تو چیخ وپکار دکھانے سے فرق نہیں پڑتا۔ سعودیہ میں لڑکی سے زیادتی کرنیوالوں کے سر قلم کرنے کی ویڈیو نیٹ پر موجود ہے۔ اگر قصور کی زینب کے گرفتار مجرم کو قرآن کے مطابق قتل اور حدیث کیمطابق سنگسار کیا جاتا تو بہت خواتین کی عزتیں محفوظ ہوجاتیں۔ مستونگ کی عوام شکر کریں کہ انکے ساتھ یہ واقعات نہیں ہوئے جو پنجاب میں بڑے پیمانہ پرہورہے ہیں۔
پہلے عزتوں جانوں کا، اسکے بعد کرپشن کامعاملہ ہے۔ عزتوں و جانوں کا تحفظ سیاسی جماعتوں کا ایجنڈا نہیں۔ کرپشن ایجنڈا نہیں ہے۔عمران خان نے کہا کہ’’ نتھیا گلی میں وزیراعلیٰ کے محل میں اپنے خرچے پر رہا ہوں‘‘۔ (تعلیمی ادارہ نہ بنایاتوکرایہ اداکرتے) سلیم صافی نے جیونیوز پر کروڑوں کا حساب بتایا تھا کہ ڈیڑھ ڈیڑھ، ڈھائی ڈھائی اور ساڑے تین تین لاکھ چائے پر سرکاری خزانے سے خرچ کیا۔ پی ٹی آئی کی جماعتی سرگرمی پر پختونخواہ کی عوام کے ٹیکس کا پیسہ خرچ کرنے سے بڑی کرپشن کیا ہوسکتی ہے؟۔ یہ اچھا وطیرہ ہے کہ دوستوں پر سرکاری خرچہ کرو اور دوستوں سے اپنے اوپر خرچ کراؤ؟۔
کراچی سے ایک ’’امن ‘‘ کے ملازم فاروق نے اپنی انتظامیہ سے کہا کہ مستونگ میں ایمبولینس بھیجو،مگر اسکے نالائق ذمہ داروں نے کہا کہ جب تک ہم سے درخواست نہیں کرینگے ہم نہیں بھیجیں گے۔ایک گھر کے 15افراد شہید ہوگئے ہیں، ایک گھر میں خواتین اور بچیاں رہ گئیں، کوئی مرد ہی نہیں بچا ہے۔ ملالہ یوسف زئی کو سوات سے پشاور اور پھر بیرون ملک پہنچاکر موت کے منہ سے نکالا۔ نوابزدہ سراج رئیسانی پاکستان سے محبت اور بھارت سے نفرت کی سیاست کرتا تھا لیکن پھر بھی اس کی جان بچانے کی کوشش نہیں ہوئی۔دشمن تو دشمن ہوتا ہے مگر گلہ دوستوں سے ہوتا ہے۔ عمران خان اور نوازشریف وہ دلے اور بے غیرت ہیں جو بلوچوں کے زخم پر مرہم کے بجائے نمک ہی چھڑکتے ہیں۔ افواجِ پاکستان اس بات کا خیال رکھے کہ PTMوالے ناراض ضرور ہیں لیکن بے غیرت نہیں ہیں اگر کبھی ملک وقوم کو ضرورت پڑی تو منظور پشتین سب کی قیادت کریگا۔ناراض بلوچ بھی غیرتمند ہیں اور جب ان کا گلہ شکوہ ختم کرنے کیلئے درست پالیسی تشکیل دی جائے گی تو پاکستانی ریاست کیساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہونگے یہ بے غیرت سیاسی جماعتوں اور میڈیا کا کام نہیں ہے۔

طلاق اور حلالہ کے نام پر قرآن اورسنت سے انحراف

justice-saqib-nisar-halwa-khana-teen-talaq-kya-hai-halala-kya-haitalaq-se-bachne-ka-tarika

قرآن وسنت میں سورۂ بقرہ اور سورۂ طلاق کے علاوہ سورۂ نساء، احزاب اور مجادلہ وغیرہ میں طلاق کے احکام کی زبردست وضاحت ہے۔ بڑے مفتیان نے عرصہ سے چپ کی سادھ لی ہے، چیف جسٹس ثاقب نثار انسانی حقوق کیلئے ان مسائل کا بھی نوٹس لیں ۔ تاکہ امت مسلمہ عذاب سے بچ جائے اور لوگوں کے گھر خراب نہ ہوں۔ مسلک حنفی میں مزارعت کی طرح حلالہ کی لعنت کا کوئی جواز نہ تھا مگر بہت بعد کے فقہاء نے اس کو کارِثواب قرار دیا اور علماء اس پر عمل پیراہیں۔
پہلی بات یہ ہے کہ ایک قول ہے، جیسا ہزار روپیہ۔ دوسرا فعل ہے جیسا ایک ہزار مرتبہ حلوہ کھایا۔ یہ نہیں کہا جاتا کہ ہزار مرتبہ روپیہ اورنہ یہ کہا جاتا ہے کہ ہزار حلوہ کھایا ہے۔ مرتبہ کا لفظ فعل کیلئے ہی آتاہے۔ عربی، اردو کے علاوہ دنیا کی ہر زبان میں مرتبہ کا لفظ فعل کیلئے آتا ہے۔ فعل کو دہرایا جاتا ہے۔ حلوہ کیلئے ہزار مرتبہ کھانا کہا جائے تو مطلب ہوگا کہ حلوہ کھانے کا عمل ہزار مرتبہ دہرایا ۔ اسکے برعکس ہزار روپے کو ہزار مرتبہ دہرانے کا مسئلہ نہیں ۔ ایک نوٹ ہزار روپیہ ہے۔ جب کہا جائے کہ طلاق دومرتبہ ہے تو اسکاواضح مطلب ہے کہ طلاق اس صورت میں فعل ہے اور عدت کے تین مراحل میں پہلے دو مراحل پر اسکا اطلاق ہوتاہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ طلاق ایک مضبوط معاہدہ ہے۔ عورت سے مباشرت کے بعد اس کو اللہ تعالیٰ نے میثاقِ غلیظ قرار دیا ہے۔ جسکا مطلب پختہ معاہدہ ہے اور اسکے پختہ ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا کا کوئی معاہدہ بھی ایسا نہیں کہ جس کو توڑنے لازمی عدت یا مدت ہو۔ حیض والی عورت ہو تو پاکی کے ایام اور حیض کے3 مراحل عدت ہے ۔ حیض نہ آتا ہو تو تین ماہ کی عدت ہے اور حمل کی صورت میں بچے کی پیدائش عدت ہے۔ عدت میں حنفی مسلک کے مطابق نکاح قائم رہتاہے اور قرآن میں یہ واضح ہے کہ’’ اصلاح کی شرط پر شوہر کوبیوی کے لوٹانے کا حق ہے‘‘۔( البقرہ آیت228)۔ اس سے قبل اللہ نے طلاق کا اظہار نہ کرنے پر رجوع کی مدت4ماہ رکھی ہے لیکن اگر اسکا عزم طلاق کا تھا تووہ اللہ کی پکڑ ہوگی اسلئے کہ طلاق کے اظہار کی صورت میں عدت 3ماہ تھی اور ایک ماہ کی اضافی پر مدت پر مواخذہ ہوگا۔ (البقرہ آیات225,26,27)
شوہر طلاق دے یا عورت خلع لے تو حقوق کی نوعیت جُداہے۔ سورۂ النساء کی آیات19،20اور21میں واضح ہے۔ شوہر طلاق دے اور عورت رجوع کیلئے راضی نہ ہو تو شوہر عدت میں بھی رجوع کا حق نہیں رکھتا۔ نہیں تو پھرمرد کو کئی عدتوں کا حق ہوگا اسلئے کہ شوہر ایک طلاق دیگا، عدت کے آخر میں رجوع کریگا، پھر عدت کے آخر میں طلاق دیگا تو عورت کئی عدتیں گزاریگی۔ یہ واضح ہے کہ طلاق فعل ہے ،چار ماہ تک شوہر طلاق کااظہار نہ کرے توعورت فارغ ہو گی ، اسی طرح یہ واضح ہے کہ طلاق کا اظہار کرنے کے بعد عدت کے تین مراحل میں تین مرتبہ طلاق کا فعل واقع ہوجائیگا۔ طلاق دو مرتبہ ہے پھر معروف طریقے سے روکناہے یا احسان کیساتھ رخصت کرنا۔ البقرہ آیت229۔ نبی ﷺ نے فرمایا تیسری مرتبہ چھوڑنا تیسری طلاق ہے۔تیسری طلاق کا تعلق مرحلہ وار عدت کے تیسرے مرحلے سے ہے۔ کتاب التفسیرالطلاق، کتاب الاحکام، کتاب العدت اور کتاب الطلاق میں بھی حضرت ابن عمرؓ کے واقعہ پر بخاری میں بھی عدت وطلاق کی یہی وضاحت ہے۔ قرآن اور سنت میں بالکل بھی کوئی ابہام نہیں تھا۔
شوہر طلاق دیتا ہے تو عدت میں صلح کی شرط پر لازمی انتظار کی مدت کاانتظار قرآن و سنت کے نصاب کا حصہ ہے۔ اگر میاں بیوی نے صلح واصلاح کرلی تو یہ قرآن وسنت اور صحابہ کرامؓ کے متفقہ مؤقف کے مطابق درست ہے۔ اگر تنازع برقرار رہنے اور جدائی کا خدشہ ہو تو ایک ایک رشتہ دار دونوں طرف سے مقرر کرنا قرآن کا حکم ہے اگروہ صلح چاہتے ہوں تو اللہ موافقت پیدا کردیگا۔ قرآن کے ان واضح احکام کو چھوڑ کر کوئی کسی جنسی خواہش سے بھرپور مولوی کے پاس جائیگا تو وہ حلالہ کیلئے ہر قسم کے پاپڑ بیلے گا اسلئے کہ حضرت آدم و حواء کو اللہ نے منع کیا کہ شجر کے پاس مت جاؤ، مگر وہ نہ چاہتے ہوئے بھی مجبور ہوگئے تھے۔انسان کے پاس 99دنبیاں ہوں تو بھی حرص میں اپنے بھائی کی ایک دنبی بھی ہتھیانا چاہتا ہے۔
ایک دفعہ طلاق کے بعد عورت صلح کیلئے آمادہ نہ ہو تو شوہر کو زبردستی رجوع کا کوئی حق نہیں ۔ ایک شخص نے ایک ساتھ تین طلاق کا اظہار کیا، پھر اس کی بیوی اور رشتہ صلح پر آمادہ نہ تھے تو شوہرنے حضرت عمرؓکے دربار میں اپنا مقدمہ اٹھایا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ’’ اللہ کی رعایت کا تم غلط فائدہ اٹھاتے ہو، آئندہ کوئی بھی ایک ساتھ تین طلاق دیگا تو اس پر تینوں طلاق نافذ کر دونگا‘‘۔ اگر مقدمہ حضرت عمرؓ کے دربار میں ایک طلاق پر بھی پیش ہوتا تو اسکا قرآن کے مطابق یہی جواب ہوتا کہ اصلاح کی شرط کے بغیر شوہرکو رجوع کا حق نہیں۔حضرت عمرؓ کا فیصلہ قرآن اور فطرت کے عین مطابق تھا۔البتہ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ میاں بیوی آپس میں صلح کرسکتے ہیں یا نہیں ؟۔ تو اسکا قرآن نے بار بار جواب دیا کہ عدت میں بھی کرسکتے ہیں، عدت کی تکمیل پر بھی کرسکتے ہیں اور عدت کی تکمیل کے بعد کافی عرصہ گزرنے کے بعد بھی رجوع کا قرآن وسنت نے راستہ نہیں روکا ہے۔ قول سے طلاق دی جائے مگر میاں بیوی عدت میں یا عدت کے بعد صلح کا فیصلہ کرلیں تو صلح نہ کرنے میں اللہ کے نام کو ڈھال بناکر رکاوٹ ڈالنا قرآن کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ البقرہ کی آیات میں طلاق کے احکام اور حدود وقیود کی ابتداء آیت224سے کی اورآیت232 تک پوری تفصیل ہے۔
طلاق کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں۔ 1: دونوں جدائی چاہتے ہوں۔جب یہ وضاحت ہو کہ دونوں آئندہ رابطہ کی کوئی چیز باقی نہیں رکھنا چاہتے تو رجوع کا نہیں بلکہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شوہر عورت کو اپنی مرضی سے نکاح کی اجازت نہیں دیتااسلئے اللہ نے واضح کیا کہ طلاق کے بعد عورت پہلے کیلئے حلال نہیں یہانتک کہ دوسرے شوہر سے نکاح کرلے۔ اس صورت کا ذکر بقرہ آیت229 کے بعد230میں متصل ہے۔ فقہ حنفی کے اصول کیمطابق یہ طلاق اسی صورت کیساتھ خاص ہے۔ (نورالانوار:ملاجیونؒ ) علامہ ابن قیمؒ نے زادالمعاد میں حضرت ابن عباسؓ کے حوالہ سے یہی لکھا ہے۔قرآن کا سیاق وسباق دیکھ لیں۔
2: شوہر نے طلاق دی اور بیوی علیحدگی نہ چاہتی ہو، اس صورت میں عدت کی تکمیل پر بھی رجوع ہوسکتا ہے جسکا ذکر البقرہ آیت231میں ہے۔کوئی مفتی و عالم اور عام آدمی وتعلیم یافتہ ان آیات کو دیکھ لے ان پڑھ کو بھی بات سمجھ میں آئے گی۔ صحابہ کرامؓ کے دور میں مدارس اورسکول ، کالج اور یونیورسٹیاں نہیں تھے۔
3:بیوی نے خلع لیا ہو اور واپس آنا چاہتی ہوتو بھی رجوع ہوسکتاہے جس کیلئے اللہ نے واضح طور سے فرمایا ہے کہ کوئی طبقہ بھی رکاوٹ پیدا نہ کرے۔ وہ علماء ومفتیان ہوں، رشتہ دار ہوں یا حاکم ہوں۔ آیت232۔ بخاری میں رفاعہؓ کی بیوی کے واقعہ کو مولانا سلیم اللہ خانؒ نے خبر واحد قرار دیا ۔ طلاق مرحلہ وار دی تھی اور کسی اور سے نکاح بھی کرچکی تھی، قرآنی آیات سے متصادم حدیث نہیں۔

ریاستی معاملات ٹھیک ہونگے یاپھرایک انقلاب آئیگا؟

maulana-yousuf-ludhyanvi-amir-liaquat-fake-phd-certificate-gadha-imran-khan-shaukat-khanum-hospital

پاکستان ہی نہیں دنیا کی تمام ریاستوں کا بھی آوے کا آوا بگڑ چکا ہے۔ دنیا کو جانے انجانے ایک انقلاب کی راہ پر اللہ تعالیٰ نے ڈال دیا۔ امریکہ نے اسلامی دنیا کو تباہ کردیا، لیکن اسلام اور مسلمانوں کا خوف اسکے دل سے نہیں جارہاہے۔ یورپ ، مغرب اور دنیا بھر میں ایک انجانے انقلاب کا خوف لوگوں کے ذہنوں پر سوار ہے۔ روس کا نظام انسانی فطرت سے ہم آہنگ نہیں تھا تو چاروں شانوں وہ چِت ہوا۔ چین نے انقلابی روح بدلی اور بدترین سرمایہ دارانہ نظام پر اپنا انحصار شروع کردیا۔ پاکستان کا ریاستی ڈھانچہ بوسیدہ ہوچکا ہے اور سیاست کا طرزِ عمل اخلاقیات کی تباہی کا ساماں لیکر سب کچھ سبوتاژ کررہاہے۔ وکالت میں کلائنڈ بدلنے سے وکیل کا ضمیر بدل جاتا ہے، سیاستدان اور صحافی بھی بے ضمیر ی کی تاریخ رقم کرنے لگے ہیں۔ حقائق کو میڈیا پر نہیں لایا جارہاہے مگر پھر بھی ایک حقیقت یہ ہے کہ ہر ادارے میں اچھے لوگوں کی قطعی طور سے کوئی کمی نہیں ۔
علماء ومفتیان اور مذہبی طبقات کو یہ بہت بڑا کریڈٹ جاتا ہے کہ اپنے اپنے عقیدے، فرقے اور مسلکوں سے ان کی وابستگی بہت لازوال ہے۔ زمین جنبد یا نہ جنبد گل محمد نہ جنبد۔ (زمیں ہلے یا نہ ہلے مگر گل محمد نہیں ہلتا) کے مانند قدامت پسند علماء کرام ومشائخ عظام اپنی روش پر دنیا کی پروا کئے بغیر چل رہے ہیں۔ اس حقیقت کیساتھ ایک دوسری بڑی خوشخبری بھی دنیا کو مل رہی ہے کہ ہرمکتبۂ فکر کے اکابرین و مذہبی طبقات کی طرف سے ماہنامہ نوشتۂ دیوار کے مضامین ، ادارئیے، کالم، خبروں اور تبصروں کو زبردست پذیرائی مل رہی ہے۔ کوئی اظہارِ خیال کرنے کی جرأت کرلیتا ہے اور کوئی خاموشی سے حمایت کرنے پر اکتفاء کرتا ہے۔
مولانا محمد یوسف لدھیانوی ؒ نے اپنی کتاب ’’ عصر حاضر حدیث نبویﷺ کے آئینہ میں میں‘‘ ایک حدیث لکھ دی کہ ’’ ایک وقت آئیگا کہ جب اہل اقتدار کی جانب سے سب کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا مگر وہ جس نے اللہ کے دین کو پہچان لیا، پھر اس کی خاطر زبان، ہاتھ اور دل سے جدوجہد کی۔ یہی ہے وہ جس کیلئے پہلے سے پیش گوئیاں ہوچکی ہیں(جو سبقت والوں میں شامل ہوا)۔ دوسرا وہ ہے جس نے اللہ کے دین کو پہچانا اور پھر اس کی برملا تصدیق بھی کردی۔ تیسرا وہ ہے جس نے اللہ کے دین کو پہچانا مگر حق کا اظہار کرنے سے ہچکچایا۔ جس کو اچھا کام کرتے دیکھا تو اس سے محبت رکھی اور کسی کو باطل عمل کرتے دیکھاتو اس سے نفرت کی لیکن ان تمام چیزوں کو چھپانے کے باوجود بھی وہ نجات پاگیا‘‘۔
موجودہ دور میں ایک سر بکف مجاہدین کی وہ جماعت ہے جنہوں نے اللہ کے دین کو پہچاننے کی سعادت حاصل کی اور پھر زبان ، ہاتھ اور دل سے اس کی خاطر جدوجہد کی ، یہ سب میں سبقت لے گئے ہیں۔ دوسرے تمام مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والوں کاوہ جمع غفیر ہے جو کھل کر ان کی حمایت کررہے ہیں۔ تیسرے درجہ میں وہ لوگ ہیں جو اللہ کے دین کی معرفت رکھتے ہیں اوراہل حق سے محبت رکھتے ہیں اور اہل باطل سے بغض رکھتے ہیں لیکن وہ اپنی ان تمام باتوں کو چھپاتے ہیں ان کیلئے بھی اس حدیث میں نجات کی خوشخبری موجود ہے۔ جب انقلاب آئیگا تو یہ سب لوگ کھل کر سامنے آئیں گے۔ ہمیں ان کی عزت وتوقیر کرنی ہے۔
طلاق و حلالہ ، خواتین کے حقوق اوردرسِ نظامی کے نقائص کا معاملہ سب ہی کو سمجھ آگیا ہے، بڑے مدارس کے ارباب فتویٰ وتدریس بھی فرقہ واریت کو بھول کر ہم سے کھل کرو چھپ کر اتفاقِ رائے کا اظہار فرمارہے ہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ نے زمین میں خلیفہ بنایا تو اپنی بیوی اور اپنے بچوں کے علاوہ اقتدار کیلئے کوئی دوسرا قبیلہ، قوم، رشتہ داراور دوسرے طبقے کے انسان موجود نہیں تھے۔ طبقاتی تقسیم اور اقتدار کا معاملہ بعد میںآتا ہے۔ پہلے گھر سے ہی اقتدار کا معاملہ ٹھیک کرنا ہوگا۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا، پاکستان کا آئین خاطر خواہ اسلامی تعلیمات سے واقفیت کو لازم قرار دیتاہے جبکہ عوام ، سیاستدان، سیاسی علماء اور نام نہاد مذہبی اسکالر تو بہت دور کی بات ہے، اسلامی تعلیمات کی تدریس کیلئے زندگی وقف کرنے والے بھی بنیادی اسلامی تعلیمات سے بھی بے بہرہ اسلئے ہیں کہ علم، دین اور ایمان احادیث صحیحہ کی پیش گوئیوں کے مطابق اٹھ چکے ہیں۔
وہ علماء کرام اور مفتیان عظام جنہوں نے کسی موضوع پر کتاب لکھ ڈالی ہے تو اس کو بھی علم نہیں جہالت سے بھر دیا ہے۔فقہ کی کتاب الطہارت میں لکھے گئے جو غسل اور وضو کے مسائل ہیں وہ بھی قرآن وسنت اور صحابہ کرامؓ سے انحراف کے مترادف ہیں۔ دین کی تکمیل ہوچکی تھی تو غسل اور وضو میں فرائض گھڑنے اور ان پر اختلافات کی کہاں گنجائش تھی۔ نہانے اور وضو میں فرق ہر انسان جانتاہے بس حالت جنابت سے نہانے کو غسل اور وضو ٹوٹنے کی صورت میں وضو کرنا عملی کام تھا جس میں فرائض و اختلاف گھڑنا امت کاوقت ضائع کرنے کے مترادف ہے۔
قرآن وسنت میں نکاح وطلاق، خواتین کے حقوق اتنے واضح ہیں کہ صرف ان کی بنیاد پر گھر، محلہ اور معاشرے کی درست رہنمائی کی جائے تو ایک انقلاب کا آغاز ہوجائیگا۔ سیاستدانوں سے الیکشن میں صرف یہ مطالبہ کیا جائے کہ زمینوں کو خود کاشت کرو،یا مزارعت کے بجائے کاشتکاروں کو مفت دو، تو پورے ملک کا طبقاتی نظام درست کرنے کیلئے ایک بڑی بنیاد فراہم ہوجائے گی۔ مزارع غلام نہ رہے گا اور اپنے ان بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرسکے گا جو قابل انجنیئر، ڈاکٹر، سائنسدان اور تمام شعبائے تعلیم میں قابلیت حاصل کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں تو ملک، قوم اور سلطنت ترقی کی راہ پر گامزن ہونگے۔ بلاول بھٹو زرداری، بختاورزرداری، آصفہ زرداری، حسن نواز، حسین نواز، مریم نواز اور دیگر بااثر طبقے کے بچے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھ کر بھی اپنی تعلیمی فیس کا ضیاع کرتے ہیں اور اس کیلئے بول ٹی وی چینل کے ’’ایگزیکٹ‘‘ نے جعلی تعلیمی اسناد کا کامیاب راستہ نکالا تھا جس پر مغرب کے اداروں نے عرب ممالک پر بھی تجربات کئے تھے۔
عربی لطیفے کی کتاب میں لکھا ہے کہ ’’ کسی تعلیمی ادارے نے جاہل بدو سے کہا کہ تعلیمی سند برائے فروخت ہے،اگر لوگے تو تمہاری شخصیت بدلے گی، پی ایچ ڈی ڈاکٹر کہلاؤگے، تو بدو نے کہا کہ 2 سند دے دینا کیونکہ ایک میں اپنے لئے خریدوں گا اور دوسرا اپنے گدھے کیلئے‘‘۔ ڈاکٹر عامر لیاقت کے پاس ڈاکٹر کی ایسی کوئی سند ہوگی اور ان اسناد سے سیاستدانوں کے گدھے جیسے بچوں کو بھی تعلیم یافتہ قرار دیا جائے تو ان کی شخصیتوں میں فرق نہ آئیگا۔ البتہ غریب غرباء کے باصلاحیت بچوں کو تعلیم کے مواقع مل جائیں تو ملت کی تقدید بدل کر رکھ دینگے۔
جب مزارعت کا سودی اور ناجائزسسٹم ختم ہوجائیگا تو مزدور کی مزدوری بڑھ جائے گی، نوکر پیشہ کی تنخواہوں میں اضافہ کرنا مجبوری بن جائے گی۔ محنت کشوں کو اپنی محنت کا درست صلہ مل جائے تو غربت، چوری، ڈکیتی، عزتوں کی پامالی اور بہت سی برائیوں میں فرق آئیگا۔ عمران خان شوکت خانم کے نام پر دنیا بھر سے جو غرباء کا فنڈز کوٰۃ کے نام پر ہتھیاتا ہے، اگر شوکت خانم کے اشتہارات کا پیسہ بھی غریبوں پر خرچ کیا جائے تو لوگ کینسر سے زیادہ سختی کے حالات سے نکل آئیں۔

سیاست ناکام، ریاست نامراد ، علماء کرام شادآبادنہیں

maulana-maududi-communism-akbar-badshah-sajda-e-tazeemi-mufti-taqi-article-62-and-63-garib-kisan-zina-haiz-and-iddat

مولانا محمد علی جوہر، شوکت علی، مولانا حسرت موہانی، مولانا ظفرعلی خان لیگی کامریڈتھے اور علامہ اقبال نے بھی ’’فرشتوں کے گیت‘‘ کے عنوان سے لکھا تھا :
جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
کانگریس کے منشور میںیہ تھا کہ’’ انگریز نے خانوں، نوابوں ،سرداروں اور دلّالوں کو جو جاگیریں دی ہیں ان کو آزادی کے بعد بحقِ سرکار ضبط کردیا جائیگا‘‘۔ قائد اعظم محمد علی جناح کانگریس کے اس منشور سے متفق تھے۔ پاکستان کیلئے محرک ہندوؤں کا تعصب تھا۔ مسلمان قادیانیوں کو اس وقت بھی ہندو سے زیادہ اسلام کا دشمن سمجھتے تھے ،قائداعظم میں مذہبی تعصب نہ تھا۔ انگریز کی باقیات سول وملٹری بیوروکریسی اور پاکستان کی آڑ میں نوابوں اور جاگیرداروں نے اپنی دلالی سے حاصل کرنے والی جاگیروں کو تحفظ دینا شروع کیااور مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے اسلام کی آڑ میں کمیونزم کی مخالفت کے نام پر اس ناجائز ملکیت کو اسلام کے نام پر جواز بخشا تھا تو یہ پاکستان کے اندر طبقاتی نظام کی بقا کے سب سے بڑے محرکات ہیں۔ اب تو سودی بینکاری کا بھی نام اسلامی بینکاری میں بدلا گیاتو مندروں کو مساجد اور سومنات کو کعبہ کہنے میں ان مولوی نما لوگوں کیلئے کیا مشکل ہے؟۔
اکبر بادشاہ نے اپنے لئے سجدۂ تعظیمی کا جواز اسلئے پیش کیا کہ بنی اسرائیل کے حضرت یوسف علیہ السلام سے مغل اعظم کی حیثیت کو کم نہیں قرار دیا، علماء کرام نے درباری بن کر اکبر بادشاہ کا ساتھ دیا۔ حضرت شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی نے جرأت کرکے کہا کہ ’’ سجدہ تعظیمی اسلام میں حرام ہے‘‘۔ جنہوں نے آوازِحق بلند نہیں کی ،وہ ریاست کے وفادار ٹھہرے۔ کیونکہ وہ بادشاہ کو ظلِ الٰہی قرار دیتے تھے اور بادشاہ کو سجدہ درحقیقت خدا کو سجدہ قرار دیا جاتا۔ جمعہ کے خطبے میں اس حدیث کی تحقیق ضروری ہے السلطان ظل اللہ فی الارض من اہان سلطان اللہ فقد اہان اللہ ’’ بادشاہ زمین پر اللہ کا سایہ ہوتا ہے، جس نے اللہ کے بادشاہ کی توہین کی تو اس نے اللہ کی توہین کی‘‘۔ جب اللہ زمین و آسمان کا نور ہے تو نور کا سایہ نہیں ہوتا ہے۔ جب نبیﷺ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپؑ کا سایہ نہیں تھا تو اللہ تعالیٰ کا سایہ کہاں سے آئے گا؟۔ اور وہ بھی مغل بادشاہوں اور انگریز حکمرانوں کی صورت میں؟۔ تحقیق اور شعور کی بہت ضرورت ہے۔
تنکے والے سرکار ننگے تڑنگے بابا سے نوازشریف اور بینظیر بھٹو ڈنڈیاں کھاکر اقتدار کا عقیدہ رکھتے تھے اور اب اقتدار کی دہلیز پر پہنچنے سے قبل تحریک انصاف کی تیسری اماں جی بابافریدؒ کے مزار کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہوگئی، خود کو خوب رگڑا کہ اقتدارملے اور عمران خان نے بھی اس کی اقتداء میں سجدہ کرلیا۔ آرے چومنا تھاتوقبرکو چومتے،کعبہ کی چوکھٹ نہیں حجراسود کو چوما جاتا ہے۔سرکاردوعالمﷺ کی گنبد پر حاضری میں یہ عقیدت کیوں بھول گئے؟۔ طالبان عمران خان کواسلئے بہتر سمجھتے تھے کہ ایاک نعبد وایاک نستعین کے وردسے مغالطہ کھایا تھا اور ریحام خان سے محرم کے عاشورے میں نکاح کیا تھا،ریحام خان سے نکاح کے چھپانے کے بعدبشریٰ بے بی سے نکاح چھپانے کی کوئی گنجائش نہیں تھی مگر چونکہ عدت میں نکاح کا مسئلہ آگیا اسلئے پھر چھپانے کا المیہ پیش آیا۔ حدیث میں ہے کہ خلع کی عدت ایک حیض ہے اسلئے اس نکاح کو حرامکاری قرار دینا عامر لیاقت کی جہالت تھی البتہ حنفی اس حدیث کو قرآن کیخلاف سمجھتے ہیں، تحقیق وشعور کی بہت ضرورت ہے ۔ آئین پاکستان میں پارلیمانی ممبر کیلئے دفعات واضح ہیں۔
احادیث صحیحہ میں مزارعت کو ناجائز اور سود قرار دیا گیا ہے۔امام بوحنیفہؒ اور باقی تمام ائمہ کرامؒ اس پر متفق تھے کہ ’’مزارعت جائز نہیں ‘‘۔ بعد میں آنے والے علماء وفقہاء نے یہ حیلہ نکالا تھا کہ ’’ مزارعت کی وجہ سے غلامی جیسا ماحول پیدا ہوتا تھا اسلئے اس کو ناجائز اور سودقرار دیا گیا‘‘۔ حالانکہ آج بھی مزارعت سے غلامی کا ماحول پیدا ہورہاہے۔ پشتو میں بیع وال کا لفظ مزارع اپنے جاگیردار اور جاگیردار اپنے مزارع کیلئے استعمال کرتا ہے، جیسے عربی میں مولیٰ کا لفظ غلام اور آقا دونوں کیلئے آتا ہے۔ اُردو ، سندھی اور پنجابی میں مزارع کا لفظ مزارع سے خاص ہے۔ کسی بھی پلیٹ فارم سے مزارع کو غلامی کے قائم مقام قرار دیا جاتاہے۔ سیاسی جماعت کا باغی کہتا ہے کہ’’ میں اپنے قائد کا مزارع نہیں ہوں‘‘۔ سیشن کورٹ جج کی توہین پر چیف جسٹس ثاقب نثار سے کراچی بار نے کہا کہ ’’ ماتحت عدلیہ سے مزارع والا سلوک نہ کیا جائے‘‘۔ کیا مزارع انسانیت سے بالکل خارج ہیں؟۔
سندھ، پنجاب اور پورے پاکستان میں مزارعین کے حالات بد سے بدتر اور غلامی سے کم نہیں ہیں۔ جب علاقہ گومل میں یہ افواہ پھیل گئی کہ روس چڑھ دوڑرہا ہے تو ہمارے ایک مزارع کے چھوٹے بیٹے گل زرین نے اپنے باپ کا نام لیاکہ ’’اس کے کونسے(زمین کے) مربعے ہیں، روس آئے تو بھی ہم نے پرائی زمین میں مزارعت کرنی ہے اور نہ آئے تو بھی ہم نے یہی مزارعت ہی کرنی ہے‘‘۔ بھٹو نے روٹی، کپڑا، مکان اور اسلامی سوشلزم کا نعرہ لگایا مگر خاطرخواہ اسلامی تعلیمات سے اچھے خاصے دارالافتاء کے مفتی اور بڑے مدارس کے مدرسین بھی بہرہ مند نہ تھے۔ مولانا مودودی صاحب کو اگر جماعتِ اسلامی کے علماء زبردستی داڑھی نہیں رکھواتے تو نہ انکے ساتھ مولانا لکھا جاتا اور نہ وہ عالمِ دین ہونے کا دعویٰ کرتے۔
جاگیردار سیاستدانوں پر اسمبلی کا دروازہ بند کیا جائے تو وہ مزارعین کی مجبوری سے پھر بھی فائدہ اٹھائیں گے۔ آئین کے مطابق اسمبلی ممبر کیلئے خاطر خواہ اسلام کی تعلیمات ضروری ہیں، وہ فرائض کا پابندہو اور گناہ کبیرہ کا مرتکب نہ ہو۔ سودی نظام سے بڑھ کر گناہِ کبیرہ کیا ہے؟۔ حدیث میں اسکے 70سے زیادہ گناہ، وبال اورنحوستوں کا ذکر ہے جس میں سے کم ازکم گناہ اپنی ماں سے زنا کے برابر ہے۔ دارالعلوم کراچی کے شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی اور مفتی عبدالرؤف سکھروی نے لکھا ہے کہ ’’ شادی بیاہ میں نیوتہ کی رسم بھی سود ہے اور اسکے70سے زیادہ گناہ میں کم ازکم گناہ اپنی ماں کیساتھ زنا کے برابر ہے‘‘۔ مفتی تقی سراپا تقویٰ ہے اسلئے اس نے سودی بینکاری کو معاوضہ لیکراسلامی بینکاری قرار دیا ہے یا جہالت ولالچ کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ مولانا فضل الرحمن پہلے ایم آر ڈی کیساتھ تھے تووہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی حنفی کا مؤقف اپنا مشن قرار دیتے تھے کہ اقتدار مل جائے گا تو مزارعت کو ناجائز قرار دیکر ختم کردینگے مگر اب تو لگتا ہے کہ موصوف خود بھی نواز شریف کے مزارع بن گئے ہیں۔ سیاستدانوں اور سول وملٹری بیوروکریسی سے عوام کا اعتماد اُٹھ چکاہے۔ علماء ومفتیان اجنبی اسلام کا ازسرِ نو جائزہ لیں اور عوام کو اعتماد میں لیکر اسلام کے معاشرتی نظام کا آغازکریں۔بغاوتوں کا سلسلہ جاری ہے اور عدالتوں کیلئے ممکن نہیں کہ مزارعین کو جاگیرداروں اور عوام کو ریاستی غنڈہ گردوں سے انصاف دلاسکیں۔ یہ عدالتیں نوازشریف نے پہلے بھی تاراج کیں، جنرل پرویزمشرف نے ججوں کو قید کردیا اور اب بھی سابقہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے دانیال عزیز سے زیادہ سخت لہجے میں عدالت کے جج کی توہین کا بیڑہ اُٹھایا۔ آئین کی دفعہ62اور63پر کوئی بھی نہیں اتر رہاہے، منافقت چھوڑ دو۔

پاکستان کی نظریاتی ریاست ( حقائق کے تناظرمیں)

quaid-e-azam-congress-party-habib-jalib-abdul-sattar-khan-niazi-mqm-taliban-bhutto-sharab-par-pabandi

پاکستان کے دامن میں خلوص کے سوا کچھ نہیں۔ قائداعظم محمد علی جناح نے کانگریس کے پلیٹ فارم سے سیاست کا آغاز کیا۔ ہندوؤں کا متعصبانہ رویہ دیکھ کر مسلم لیگ کی کیمپ میں شامل ہوگئے۔ مسلم لیگ کیا تھی؟۔ نفرت پھیلانے میں انگریز سرکار کی ایک وفادار کٹھ پتلی جماعت!۔ البتہ اس میں نظرےۂ خلافت کے علم بردار محمد علی جوہر اور علامہ اقبال جیسے جدوجہد کرنے والے مخلص لوگ بھی تھے۔ قائداعظم نے بھی کانگریس چھوڑ کر مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے مسلمانوں کے حقوق کیلئے جدوجہد شروع کردی۔ فرقہ وارانہ اور سیاسی مذہبی جماعتوں نے کھل کر پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ کے نعرے کی زبردست مخالفت شروع کی۔
اگرچہ بت ہیں جماعت کے آستینوں میں مجھے ہے حکمِ اذاں لاالہ الااللہ
مشرقی اور مغربی پاکستان وجود میں آگیا، کیونکہ ایک طرف ایک قومی نظریہ تھا جو متحدہ ہندوستان کا تقاضہ کررہاتھا اور دوسری طرف دوقومی نظریہ تھا، ہندومسلم دو الگ الگ ملتیں ہیں جو ہندوستان کی تقسیم اور نظریۂ پاکستان کا تقاضہ کررہاتھا۔ 2013ء کے الیکشن پر تحریک انصاف کا الزام تھا کہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور چوہدری افتخار کی قیادت میں فوج اور عدلیہ نے مل کر ن لیگ کو دھاندلی سے جتوایا اور اب ن لیگ الزام لگارہی ہے کہ فوج اور عدلیہ مل کر ن لیگ کو آؤٹ اور تحریکِ انصاف کو اقتدار میں اِن کررہی ہے۔ 2013ء میں دونوں میں کانٹے کا مقابلہ ہورہاتھا اسلئے پتہ نہیں چل رہاتھا کہ اقتدار ن لیگ کو ملے گا یاتحریک انصاف کو مگر دونوں اسٹیبلشمنٹ کی منظورِنظر جماعتیں تھیں۔ طالبان کے جگری یار وں میں پتہ نہیں چل رہاتھا کہ اسٹیبلشمنٹ کا گودی بچہ کون بنے گا؟۔ ایم کیوایم، پیپلزپارٹی، اے این پی اور طالبان کی سرپرست سمجھی جانے والی مذہبی جماعتوں جمعیت علماء اسلام اور جماعتِ اسلامی کی قیادت بھی دہشت گردوں کے نشانے پر تھیں۔
پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ مخالف اور اسٹیبلشمنٹ کٹھ پتلی بیانیہ ہمیشہ رہاہے مگر اس کو حقائق کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ جب پاکستان بن گیا تو سیاسی قیادت محمد علی جناح، فاطمہ جناح، نوابزادہ لیاقت علی خان اور بیگم راعنا لیاقت علی خان پر مشتمل تھی۔ قائد اعظم فوت ہوگئے۔ لیاقت علی خان کو شہید کردیا گیا۔ پاکستان پر سول بیوروکریسی کی حکومت تھی۔پہلے دو آرمی چیف انگریز تھے۔ مہاجر بڑی تعداد میں بھارت سے آئے تھے، بعض نے محسوس کیا کہ اسلام محض دھوکہ تھا اور جنکے پاس باہر جانے کی گنجائش تھی وہ پاکستان چھوڑ کر چلے گئے۔ ہندؤں کی جگہ زمین و مکان کے غلط کلیموں و قبضہ نے پاکستان میں بے ایمانی ، بے انصافی اور دھوکہ بازی کی بنیاد رکھ دی۔انگریز کی بدترین غلام سول وملٹری بیوروکریسی کو اقتدار مل گیا، نااہل لوگ بڑی پوسٹوں پرآئے جسکے نتیجے میں سیاسی ، نظریاتی اور اسلامی لوگوں کو ان حالات کا سامنا کرنا پڑا کہ انگریز نے بھی وہ مظالم نہ کئے ۔ ختم نبوت کی تحریک میں شامل لوگوں کو غیرمسلم و غدار قرار دیا گیا ۔ مولانا عبدالستار خان نیازی کو خوف کے مارے داڑھی منڈوانی پڑگئی۔ لیگی علماء ومفتیان نے ختم نبوت والوں کو کانگریس کا ایجنٹ، ملک اور اسلام کا غدار کہنا شروع کیا تھا۔
حبیب جالب اور مولانا عبدالستار خان نیازی کی دوستی تھی، حبیب جالب کی آپ بیتی میں لکھا ہے کہ ’’ مولانا عبدالستار خان نیازی میرے پاس آتے تھے اور کہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے خواب میں فرمایا کہ’’ جالب کو میرا سلام دینا‘‘۔ حبیب جالب نے یہ بھی لکھا ہے کہ ’’ بھٹو نے سب سے بڑی غلطی یہ کی تھی کہ شراب پر پابندی لگائی تھی اور اس کی سزا اس کو مل گئی، کیونکہ شراب واحد وسیلہ تھا کہ جو پی کر آمروں اور ظالموں کے سامنے حق کی آواز بلند کی جاسکتی تھی‘‘۔ جبکہ قرآن میں شراب کے اندر منافع کا ذکر ہے اور ابتدائے اسلام میں اس پر پابندی نہیں تھی اور ظلم کے خلاف آواز اُٹھانے سے بڑا فائدہ شراب کا نہیں ہوسکتا ۔
جب پاکستان میں سول بیوروکریسی نے انصاف اور اسلام کا کباڑہ کیا تھا تو جنرل ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ فوج کا کام سرحدوں کی حفاظت ہے لیکن اگر وہ اقتدار پر قابض ہوں تو اچھی ریاست ، سیاست اور صحافت کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ فاطمہ جناح پر بھی ایجنٹ کے الزامات لگے۔ سول بیوروکریسی میں مہاجرین اکثریت تھی اور سیاست ولی خان، غوث بخش بزنجو، عبدالصمد خان اچکزئی شہید، عطاء اللہ مینگل ، حاکم علی زرداری ، جالب اور نوابزادہ نصر اللہ خان ومفتی محمود جیسے قائدین کے ہاتھوں میں تھی۔جنرل ایوب کی طرف سے ذوالفقار علی بھٹو کو میدان میں لایا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پنجاب کی فوجی اسٹیبلشمنٹ اور مہاجرین کی سول اسٹیبلشمنٹ کا ناطہ توڑ کر سندھ اور پنجاب کا گٹھ جوڑ کرادیا۔ مہاجروں کی سول بیوروکریسی کو بڑے پیمانے پر اقتدار سے باہر کیا۔ بھٹونے غلام سول بیوروکریسی کے قبضے سے اقتدار چھڑانے کیلئے میرٹ کا بھی خاتمہ کردیا۔ کوٹہ سسٹم سے نالائق طبقوں کو اقتدار میں آنے کا موقع دیا۔ پھر بنگلہ دیش نے آزادی حاصل کرلی اور بھٹو نے سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ سنبھالا، بڑی تعداد میں قید ہونے والی پاک فوج کو بھارت کی قید سے آزادی دلائی گئی۔
قائداعظم کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کو قائدِعوام کا خطاب ملا۔ بھٹونے قادیانی کو غیرمسلم اقلیت قرار دیا، اسلامی کانفرنس سے اُمہ کو اکٹھا کرنے کا آغاز کیا، اتوار کی جگہ جمعہ کی سرکاری چھٹی کی، افغانستان میں روس کیخلاف مجاہدین کی تربیت شروع کی، ایٹم بنانے کا اقدام اورسیاست کو ڈرائنگ روم سے نکال کر عوام کی دہلیزتک پہنچاکر دم لیا مگر ایک آمر کا تربیت یافتہ جمہوری کیسے بن سکتاتھا؟، الیکشن میں لاڑکانہ سے اپنے خلاف کاغذاتِ نامزدگی داخل کرانے پر جماعت اسلامی کے جان محمد عباسی کو ڈپٹی کمشنر لاڑکانہ خالد کھرل کے ذریعے اٹھاکر بند کرادیا ۔
جب جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کا تختہ اُلٹ دیا تو تمام سیاسی جماعتوں کے قائد بغاوت کے مقدمے میں قیدو بند کی زندگی گزار رہے تھے۔ جنرل ضیاء نے رہائی دلائی تو جنرل ضیاء الحق نے قائد جمہوریت کے نام پر محمد خان جونیجو کو وزیراعظم بنا دیا اور پھر خود ہی اس کی حکومت کو تحلیل بھی کردیا۔ سیاسی جماعتوں نے ایم آر ڈی بحالی جمہوریت کی تحریک چلائی۔ جنرل ضیاء حادثی موت کا شکار ہوگئے تو بینظیر بھٹو کو اقتدار مل گیا لیکن اس نے صدارتی امیدوار کیلئے نوابزادہ نصراللہ خان کے مقابلے میں غلام اسحاق خان کو نوازشریف کیساتھ مل کر سپورٹ کیا۔ غلام اسحاق نے پہلے بینظیر بھٹو اورپھر اسلامی جمہوری اتحاد کے نواز شریف کی حکومت کو چلتا کردیا، پھر پیپلزپارٹی کی حکومت آئی تو اپنے صدر فاروق لغاری نے بینظیر کو چلتا کردیا اور پھر دو تہائی اکثریت سے ن لیگ کی حکومت آئی تو جنرل مشرف کو ہٹایا گیا لیکن جنرل ضیاء الدین بٹ کو گرفتار کرکے ن لیگ کی حکومت ختم کردی گئی۔
پھر جنرل پرویز مشرف کے ریفرینڈم نے عمران خان کا تحفہ پاکستان کو دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے میرٹ کی تباہی اور کوٹہ سسٹم سے مہاجر تحریک کی بنیاد رکھ دی، جنرل پرویزمشرف نے امریکہ کی حمایت کرکے طالبان دہشت گردوں کی بنیاد رکھ دی۔ ضیاء الحق نے افغان مجاہدین اور نصیراللہ بابر نے طالبان بنائے تھے۔